ائمهِ لغت نے برکت اور تبرک کے متعدد معانی بیان کئے ہیں۔ علامہ ابنِ منظور نے مختلف علماء کے حوالے سے لفظِ برکت اور تبرک کے اقوال اپنی کتاب میں یکجا کئے ہیں، ہم ان کو خلاصۃً درج کر رہے ہیں:
1۔ برکت کے لغوی معانی ’’اضافہ، زیادتی و کثرت اور سعادت و خوش بختی کے ہیں۔‘‘ یہ بَرَکَ سے مشتق ہے، کہا جاتا ہے: بَرَکَ الْبَعِیْرُ یعنی ’’اُونٹ کسی جگہ جم کر اور ایک خاص ہیئت کے ساتھ بیٹھا۔‘‘ اس طرح وہ سکون و راحت اور آسودگی پاتا ہے۔
2۔ برکت کا ہی ایک معنی ’’دائمی سعادت اور برکت کا حصول بھی ہے۔‘‘ جیسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر برکت بھیجتے ہوئے کہا جاتا ہے:
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ (اے اللہ! تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر بزرگی اور شرافت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ثابت اور قائم فرما)۔
3۔ تبرک کا لغوی معنی ہے: ’’کسی سے برکت حاصل کرنا۔‘‘
درج بالا تعریفات سے معلوم ہوا کہ تبرکات کے اندر چونکہ عزت، خیر و برکت اور نیک بختی کے حصول اور اِن میں اضافہ کی خواہش ہوتی ہے، اس لئے ان کو تبرک کہتے ہیں۔ جیسے دعائے نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
وَ بَارِکْ لِيْ فِیْمَا أَعْطَیْتَ.
’’اور جو نعمت تو نے مجھے دی ہے اس میں برکت عطا فرما۔‘‘
4۔ امام راغب اصفہانی نے ’’برکت‘‘ کا ایک معنی خیرِ الٰہی لکھا ہے:
وَالْبَرَکَۃُ ثُبُوتُ الْخَیْرِ الإلٰهیِ فی الشَّیْئِ.
راغب الأصبهانی، المفردات: 44
’’برکت کا معنی ہے کسی شے کے اندر خیرِ الٰہی کا پایا جانا۔‘‘
قرآن و حدیث کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض ذوات، اشیاء اور مقامات کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی خیر و برکت سے نوازا ہے اور اِن کو دیگر مخلوق پر ترجیح دی ہے۔ ان بابرکت ذوات اور اشیاء سے برکت و رحمت اور سعادت چاہنا اور ان کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنا تبرک کے مفہوم میں شامل ہے۔
تبرک و تیمّن کا واسطہ درحقیقت برکت اور فیض حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ جب ہم اپنے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے درمیان برکت حاصل کرنے کے لئے کوئی واسطہ قائم کر رہے ہوتے ہیں توچونکہ یہ واسطۂ عبادت نہیں ہوتا اس لئے اس میں شرک کا کوئی احتمال نہیں۔ جیسے مناسکِ حج اداکرتے ہوئے حجرِ اسود، رکنِ یمانی اور مقامِ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تیمن و تبرک کا واسطہ اختیار کیا جاتا ہے۔ جب حجرِ اسود سے برکت کا حصول شرک نہیں تو کسی پیغمبر یا ولی اللہ سے واسطۂ تیمن یا واسطۂ تبرک شرک کیسے ہوگا؟ اگر ایک پتھر کو واسطہ بنا لینا جائز ہو اور انبیاء و اولیاء کو واسطہ بنانا ناجائز اور شرک تصور کیا جائے تو یہ حقیقی تصورِ دین کے خلاف ہے۔
قرآن و حدیث سے ثابت ہر متبرک چیز خواہ وہ کوئی نشانی ہو یا جگہ یا کوئی ذات، شرعاً ان کو وسیلہ بنانا جائز ہے۔ تاہم اس امر کے لئے درج ذیل شرائط ضروری ہیں:
1۔ تبرک اختیار کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ مؤثرِ حقیقی اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ جس طرح تمام نعمتیں مثلاً رزق، صحت تندرستی، مدد و نصرت، رہائش اور لباس وغیرہ اس کی عطا سے ملتی ہیں اسی طرح متبرک اشیاء یا اشخاص میں خیر و برکت بھی اللہ تعالیٰ نے ہی ودیعت فرمائی ہے۔ مخلوق میں کوئی بھی ازخود خیر و برکت دینے یا شر و فساد دور کرنے سے عاجز ہے مگر اللہ تعالیٰ کے اذن اور عطا سے ان میں یہ تاثیر و برکت پائی جاتی ہے۔
2۔ جن اشخاص یا آثار و اماکن اور اشیاء کو متبرک سمجھ کر ان سے برکت حاصل کی جاتی ہے، ضروری ہے کہ قرآن و سنت سے ان کا عند اللہ متبرک و افضل ہونا بھی ثابت ہوتا ہو۔ انبیاء و صالحین کے جن آثار کے ذریعے تبرک یعنی خیر و برکت و سعادت حاصل کی جاتی ہے اس کے متعلق صحیح عقیدہ یہ ہے کہ یہ آثار اور نشانیاں اس ذات اور شخص کی شرافت و برزگی، نیکی و پارسائی اور عبادت و ریاضت کی وجہ سے مشرف و مکرم اور قابلِ تعظیم و تکریم اور عند اللہ محبوب و مقرب ہیں۔
شرعاً تبرک کی درج ذیل اَنواع و اَقسام ثابت اور جائز ہیں:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں اور بعد از وصال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے برکت حاصل کرنا شرعاً ثابت ہے۔
انبیاء کرام اور صالحینِ عظام کی حیات اور بعد از وصال اُن کی ذوات اور آثار سے بھی برکت حاصل کرنا شرعاً ثابت ہے۔
(1) نوٹ: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، انبیاء کرام اور صالحینِ عظام علی نبینا وعلیھم الصلاۃ والسلام سے برکت حاصل کرنے کے دوران اِن کے درمیان حفظِ مراتب کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے۔ لہٰذا انتہائی احتیاط اور ادب کا مظاہرہ کیا جائے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی آخری کتاب قرآن مجید بذاتِ خود بہت سی برکتوں اور سعادتوں کا باعث ہے۔ اس کی سُوَر اور آیات کی متعدد برکات احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہیں۔ اسی طرح حدیثِ مبارکہ سے برکت حاصل کرنا بھی ائمۂ صالحین کا معمول رہا ہے۔
امتِ مسلمہ کو ہر طرح کی رحمت اور فیض سے مالا مال کرنے کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے محبوب رسول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اِس امت کو احکام اور ترغیب کے ذریعہ ایسے اقوال اور افعال بجا لانے کو کہا گیا ہے جن پر صرف عمل پیرا ہونے سے ہی اسے خیر و برکت سے نواز دیا جاتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا، تلاوتِ قرآن کرنا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا، نعت پڑھنا، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا، صدقہ و خیرات کرنا، غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا، روزہ افطار کرانا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا، کسی شخص کی حاجت پوری کرنا، خندہ پیشانی سے پیش آنا، تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹانا، سچ بولنا، ایفائے عہد کرنا الغرض بے شمار ایسے امور ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے انسان کو خالقِ کائنات کی طرف سے رحمتیں اور برکتیں نصیب ہوتی ہیں۔
مقدس مقامات سے برکت حاصل کرنا بھی شریعت سے ثابت ہے۔ ان بابرکت مقامات میں روئے زمین کی تمام مساجد، خصوصاً مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی، مسجدِ اقصیٰ، مسجدِ قباء اور بعض مقدس شہر جیسے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، شام اور یمن شامل ہیں۔ علاوہ ازیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، دیگر انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیائِ عظام کے مقاماتِ ولادت اور وصال سے بھی برکت حاصل کرنا اَز روئے شرع جائز ہے۔
شریعت کی طرف سے امتِ مسلمہ کو بعض متبرک اوقات اور لمحات بھی نصیب ہوئے ہیں۔ ان میں ماهِ رمضان المبارک، آخری عشرہ کی پانچ طاق راتیں، شبِ قدر، شبِ برأت، شبِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، شبِ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ہر رات کا آخری تہائی حصہ، یومِ جمعۃ المبارک، پیر کا دن، جمعرات کا دن، ذوالحجہ کے دس دن، عیدالفطر، عیدالاضحی کا دن، یومِ عاشورہ اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بابرکت ایام اور مقدّس راتیں شامل ہیں۔
بعض کھانے پینے کی اشیاء بھی ایسی ہیں جن کو اسلام میں دیگر اشیاء سے متبرک مقام حاصل ہے۔ مثلاً زیتون کا تیل، دودھ، شہد، کھجور، کلونجی، آبِ زَم زَم، روزہ کے لئے سحری اور افطاری کی اشیاء اسی نوع میں شامل ہیں۔
بعض افعال کا تعلق انسان کے قلب و روح سے ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث کی رو سے اُن پر عمل پیرا ہونے سے بھی مومن کو برکاتِ الہٰیہ سے نوازا جاتا ہے۔ ان باطنی اعمال میں محبتِ الٰہی، رضائے الٰہی، خشیتِ الٰہی، اطاعتِ الٰہی، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، نصرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، توکل علی اللہ، صبر، شکر، رضا، ریاضت، عبادت، مجاہدہ اور زہد و ورع جیسے امور شامل ہیں۔
درج بالا تبرک کی تمام انواع و اقسام قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ و تابعین ث سے ثابت ہیں۔ ہر قسم اور نوع پر کافی دلائل موجود ہیں جن سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اللہ رب العزت کی برکت اور رحمت حاصل کرنے کے لئے اِن تمام امور کی طرف رجوع کرنا، انہیں اپنانا اور بجا لانا شریعتِ اسلامیہ کے تحت مسنون، مستحسن اور جائز ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار وہی شخص کرے گا جو قرآن و حدیث، صحابہ کرام، تابعینِ عظام اور ائمہ ث کے احوال و اقوال سے ناواقف ہوگا۔ حقیقت یہی ہے کہ درج بالا تمام اقسامِ تبرک من حیث المجموع امتِ مسلمہ کے عقائد کی عکاس ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کو اعتدال پسندی سے نوازا ہے جس کی بدولت اس کے ہر امر میں افراط و تفریط کو نظرانداز کیا جائے گا اور ان کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ عقیدئہ تبرک میں بھی شریعت کے اِس اصول کو مدّنظر رکھا گیا ہے، لہٰذا اس میں درج ذیل پہلوؤں کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے:
1۔ تبرک کے ہر اس عمل کو ناپسندیدہ، مکروہ اور بدعتِ ضلالۃ قرار دیا جائے گا جو اصلاً قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔
2۔ جن اعمال پر شریعت میں ممانعت وارد ہوئی ہے یا کراہت کا اظہار کیا گیا ہے ان کو ہرگز بھی متبرک نہ سمجھا جائے مثلاً اولیاء و صالحین کے مزارات کا عبادت کی نیت سے طواف وغیرہ ۔
3۔ آج کل معاشرے میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ شریعت سے نابلد بے عمل جاہل اور جعلی پیروں کو برکت کا ذریعہ بنایا جاتا ہے ان سے بھی حتی الامکان دامن بچانا چاہیے۔
4۔ عقیدئہ تبرک میں جہاں بعض لوگ جہالت کے باعث افراط کا شکار ہیں، وہیں بعض لوگ تعصب اور عناد کے باعث اولیاء و صالحین سے حصولِ برکت کو شرک اور بدعت قرار دیتے ہیں۔ اس انتہا پسندانہ رویے کی بھی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں۔
تبرک کے لغوی و شرعی مفہوم اور اس کی انواع پر سیر حاصل بحث سے تبرک کا حقیقی مفہوم نکھر کر سامنے آگیا۔ اب ہم قرآن کی روشنی میں تبرک کی شرعی حیثیت بیان کریں گے جس سے اس کی اہمیت و فضیلت اُجاگر ہوگی۔
برکت اور تبرک متعدد آیاتِ قرآنی سے ثابت شدہ امرِ شرعی ہے۔ قرآن میں لفظِ برکت اپنے مشتقات سمیت معین شخصیات، زمان اور مکان کے لئے استعمال ہوا ہے۔ برکت کے متعلق قرآنی تعلیمات کو ہم درج ذیل عنوانات میں تقسیم کر سکتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض انبیاء کرام علیہم السلام اُن کے متبعین اور اہل و عیال کا مبارک اور بابرکت ہونا بیان کیا ہے:
1۔ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے متبعین کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قِیْلَ یٰـنُوْحُ اھْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَـرَکٰتٍ عَلَیْکَ وَعَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ.
هود، 11: 48
’’فرمایا گیا: اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (کشتی سے) اتر جاؤ جو تم پر ہیں اور ان طبقات پر ہیں جو تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘
2۔ حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسحاق علیہما السلام کے بارے میں فرمایا:
وَبٰـرَکْنَا عَلَیْهِ وَعَلٰٓی اِسْحٰقَ.
الصافات، 37: 113
’’اور ہم نے اُن پر اور اسحاق (علیہ السلام) پر برکتیں نازل فرمائیں۔‘‘
3۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اہلِ بیت کے لئے فرمایا:
رَحْمَتُ اللهِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَهْلَ الْبَیْتِ.
هود، 11: 73
’’اے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔‘‘
4۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بابرکت فرمایا ہے:
وَجَعَلَنِیْ مُبٰـرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ.
مریم، 19: 31
’’اور میں جہاں کہیں بھی رہوں اس نے مجھے سراپا برکت بنایا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بے شمار صفات اور خوبیاں بیان فرمائی ہیں۔ قرآن کی ایک صفت اس کا بابرکت ہونا بھی ہے۔
1۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الأنعام میں دو جگہ اِرشاد فرمایا:
وَھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰـہٗ مُبٰـرَکٌ.
الأنعام، 6: 92، 155
’’اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے۔‘‘
2۔ قرآن حکیم کو خوبیوں والی اور بابرکت کتاب کہا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا اٰیَاتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِo
ص، 38: 29
’’یہ کتاب برکت والی ہے۔ جسے ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ دانش مند لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں بعض خصوصی اَماکن اور زمین کے قطعات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا ہے:
1۔ اللہ رب العزت نے خانہ کعبہ کو برکت والا گھر قرار دیا، فرمایا:
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰـرَکًا وَّهُدًی لِّلْعٰـلَمِیْنَo
آل عمران، 3: 96
’’بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے (مرکزِ) ہدایت ہے۔‘‘
امام ابوبکر جصاص نے ’’احکام القرآن (2: 303)‘‘ میں اس آیت کی تشریح میں برکت اور تبرک کے تصور کو یوں واضح کیا ہے:
وقوله مبارکًا یعنی أنه ثابت الخیر والبرکة، لأن البرکة ھی ثبوت الخیر ونموه وتزیده، والبرک ھو الثبوت یقال برک برکًا وبروکا إذا ثبت علی حاله.
’’اللہ تعالیٰ کا مبارکاً فرمانا اس معنی میں ہے کہ وہ گھر خیر و برکت والا ہے کیونکہ کسی چیز میں خیر و بھلائی کا پایا جانا اور اس کی نشوو نما اور اس میں اضافہ ہونے کا نام برکت ہے۔ برکت سے مراد جم کر بیٹھنا ہے۔ بَرَکَ برکاً و بروکًا اس وقت کہتے ہیں جب کوئی اپنی جگہ جم کر بیٹھے۔‘‘
2۔ مسجدِ اَقصیٰ کے گرد و نواح کو انبیاء کرام کا مسکن ہونے کی وجہ سے بابرکت بنا دیا۔ ارشاد فرمایا گیا:
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰـرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا.
بنی اسرائیل، 17: 1
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے سفرِ معراج کے ضمن میں مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصیٰ کا ذکر فرمایا تو مسجدِ اقصیٰ کے ساتھ اس کی وجہ فضیلت بھی بتائی کہ اس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھ دی ہیں۔ ائمهِ تفسیر نے بابرکت ماحول کی وجہ بیت المقدس کے اردگرد پھل دار درخت اور جاری نہروں کے علاوہ زمانہ موسوی سے اس مسجد کو مہبطِ وحی اور مسکنِ انبیاء علیہم السلام کے طورپر بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں ایک بڑی و جہ انبیاء علیہم السلام کے مزارات ہیں جو فلسطین اور بالخصوص القدس شریف کی سرزمین میں موجود ہیں۔
امام قرطبی لکھتے ہیں:
قیل بالثّمار وبمجاری الأنھار وقیل بمن دُفن حولہ من الأنبیاء والصالحین.
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 10: 212
’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے ارد گرد کو پھلوں اور نہروں کی وجہ سے بابرکت بنایا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے اردگرد انبیاء کرام علیہم السلاماور صالحین دفن ہیں اس وجہ سے یہ بابرکت ہے۔‘‘
علامہ شوکانی لکھتے ہیں:
بالثّمار والأنھار والأنبیاء و الصالحین فقد بارک الله سبحانہ حول المسجد الأقصی ببرکات الدّنیا والآخرة.
شوکانی، فتح القدیر، 3: 206
’’یعنی پھلوں، نہروں انبیاء علیہم السلام اور صالحین کی وجہ سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے مسجدِ اقصیٰ کے اردگرد کے ماحول کو دنیا و آخرت کی برکتوں سے مالا مال فرمایا۔‘‘
آیتِ کریمہ کی مذکورہ تفسیر سے ثابت ہوا کہ ائمۂ تفسیر نے مسجدِ اقصیٰ کے اردگرد کے ماحول کو درج ذیل وجوہات کی بنا پر بابرکت قرار دیا ہے:
مسجدِ اقصیٰ کے اردگرد کا بابرکت ہونے کی بڑی وجہ مزاراتِ انبیاء علیہم السلام ہیںکیونکہ خوش ذائقہ پھلوں اور نہروں کا ہونا بھی انبیاء علیہم السلام کے وجودِ مسعود کے باعث ہے۔
نصِ قرآنی سے جب ثابت ہوا کہ انبیاء و صالحین کی وجہ سے کسی جگہ کا بابرکت ہونا اور لوگوں کا تبرکاً اس مقدس مقام کی زیارت کے لئے جانا امرِ مستحسن ہے توجس خطۂ زمین کو حضور تاجدارِ کائنات سیدنا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدفن ہونے کا اعزاز نصیب ہوا وہ پوری کائنات سے بڑھ کر بابرکت و باسعادت کیوں نہ ہو؟ یقینا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک جمہور اُمت روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کو دنیا و ما فیہا سے بڑھ کر عزیز سمجھتی ہے۔
انبیاء علیہم السلام کے وجودِ مسعود کی وجہ سے مسجدِ اقصیٰ کا اردگرد بابرکت ہونے کی تائید امام بغوی، ابنِ جوزی اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی کی درج ذیل تفسیر سے بھی ہوتی ہے:
سماہ مبارکًا لأنہ مقر الأنبیاء و مهبط الملائکة والوحی.
’’مسجدِ اقصیٰ کے اردگرد کو بابرکت اس لئے کہا گیا کہ یہ انبیاء علیہم السلام کی سکونت اور نزولِ ملائکہ و وحی کا مقام ہے۔‘‘
اس امر میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ نصِ قرآنی کے مطابق بیت المقدس کا گردونواح بابرکت ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ بابرکت کیوں ہے؟ اس بارے میں ائمۂ تفسیر نے جو بھی وجہ بیان کی اس میں نمایاں چیز نسبتِ انبیاء علیہم السلام ہے۔ اگر وہاں نزولِ ملائکہ ہے تو وہ بھی نبیوں کی وجہ سے ہے اور اگر مزاراتِ انبیاء و صالحین ہیں تو ان کی نسبت بھی ان سے ہے حتی کہ اگرمبارک عبادت گاہ ہے تو وہ بھی نبیوں کی نسبت کی وجہ سے۔
امام نسفی، علامہ آلوسی اور زمخشری لکھتے ہیں:
یرید برکات الدین والدنیا لأنہ متعبد الأنبیاء علیہم السلام ومهبط الوحی.
’’اس سے مراد دین و دنیا کی برکتیں ہیں اس لئے کہ مسجدِ اقصیٰ انبیاء علیہم السلام کی عبادت گاہ اور مقام ِنزول ِوحی الٰہی ہے۔‘‘
3۔ خطۂ شام کے بابرکت ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰـرَکْنَا فِیْهَا.
الأعراف، 7: 137
’’اور ہم نے اس قوم (بنی اسرائیل) کو جو کمزور اور استحصال زدہ تھی اس سر زمین کے مشرق و مغرب (مصر اور شام) کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی تھی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر خطۂ شام کو برکت سے نوازے جانے کے بارے فرمایا:
وَنَجَّیْنٰهُ وَلُوْطًا اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰـرَکْنَا فِیْھَا لِلْعٰـلَمِیْنَo
الأنبیاء، 21: 71
’’اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اور لوط (علیہ السلام) کو (جو آپ کے بھتیجے یعنی آپ کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے) بچا کر (عراق سے) اس سر زمین (شام) کی طرف لے گئے جس میں ہم نے جہان والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیں۔‘‘
خطۂ شام کو سرزمینِ انبیاء و صالحین کہا جاتا ہے۔ ائمهِٔ تفسیر نے لکھا ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں جس خطهِٔ زمین کو برکت سے نوازے جانے کا بیان ہے وہ شام ہے۔
1۔ اِمام فخر الدین رازی نے لکھا ہے:
وحقّت أن تکون کذلک فھی مبعث الأنبیاء صلاة الله علیهم ومهبط الوحی.
رازی، التفسیر الکبیر، 24: 157
’’اور درست بات یہ ہے کہ ایسا ہی ہے کیونکہ یہ سرزمین انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور نزولِ وحی کا خطہ ہے۔‘‘
2۔ علامہ زمخشری نے لکھا ہے:
وبرکاتہ الواصلة إلی العالمین أنّ أکثر الأنبیاء علیہم السلام بعثوا فیہ فانتشرت فی العالمین شرائعھم وآثارھم الدینیة، وھي البرکات الحقیقیّة.
زمخشری، الکشاف، 3: 127
’’اس سرزمینِ شام کی برکتیں تمام جہاں کو پہنچی۔ اس طرح کہ اکثر انبیاء علیہم السلام یہیں مبعوث ہوئے اور پوری دنیا میں ان کی شریعت اور دینی آثار پھیل گئے، اور یہی حقیقی برکات ہیں۔‘‘
3۔ اِمام نسفی نے لکھا ہے:
أی أرض الشام برکتھا أن أکثر الأنبیاء منھا فانتشرت فی العالمین آثارھم الدینیة.
نسفی، مدارک التنزیل وحقائق التأویل، 3: 86
’’یعنی سرزمینِ شام کی طرف اور اس سرزمین کی برکتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اکثر انبیاء علیہم السلام کی بعثت یہاں ہوئی اور پھر ان کے دینی آثار دنیا میں پھیلے۔‘‘
خطۂ شام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مرکز رہا ہے لہٰذا ان کے مبارک قدموں کی وجہ سے یہ خطہ برکت والا ہوگیا۔ احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ سرزمینِ شام اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں انبیاء و صالحین کی سرزمین ہے، اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی شام کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔
حضرت ابنِ حوالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
سَیَصِیْرُ الْأَمْرُ إِلَی أَنْ تَکُوْنُوْا جُنُوْدًا مُجَنَّدَۃً. جُنْدٌ بِالشَّامِ وَجُنْدٌ بِالْیَمَنِ وَجُنْدٌ بِالْعِرَاقِ. قَالَ ابْنُ حَوَالَۃَ: خِرْ لِي یَارَسُوْلَ اللهِ ! إِنْ أَدْرَکْتُ ذٰلِکَ، فَقَالَ: عَلَیْکَ بِالشَّامِ فإِنَّھَا خیْرَۃُ اللهِ مِنْ أَرْضِهِ یَجْتَبِي إلَیْھَا خِیْرَتَهُ مِنْ عِبَادِهِ فَأَمَّا إِذْ أَبَیْتُمْ فَعَلَیْکُمْ بِیَمَنِکُمْ وَاسْقُوْا مِنْ غُدُرِکُمْ فَإِنَّ اللہَ تَوَکَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَھْلِهِ.
أبوداؤد، السنن، کتاب الجھاد، باب في سکنی الشام، 3: 4، رقم: 2483
’’عنقریب ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب تمہارے لشکر الگ الگ ہوجائیں گے۔ ایک لشکر شام میں ہوگا تو ایک یمن میں اور ایک عراق میں۔ ابنِ حوالہ نے عرض کیا: یارسول اللہ اگر میں اُس وقت کو پاؤں تو فرمائیے میں کس لشکر میں جائوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم سرزمین شام کو (سکونت کے لئے) اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام اللہ تعالیٰ کی بہترین زمین ہے۔ اللہ تعالیٰ اس قطعۂ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا، اگر تجھے یہ منظور نہ ہو تو پھر یمن کو اختیار کرنا اور اپنے حوضوں سے پانی پلاتے رہنا۔ اللہ تعالیٰ نے میری خاطر ملکِ شام کی اور اہلِ شام کی کفالت فرمائی ہے۔‘‘
فضیلتِ شام کے حوالے سے متذکرہ بالا نصِ قرآنی، حدیثِ مبارکہ اور ائمهِٔ تفسیر کی آراء سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ رب العزت نے خود ابوالانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مقامِ ہجرت ملکِ شام کو بابرکت بنایا اور پھر امت کو فتنوں کے دور میں اس مبارک سرزمین میں حسبِ استطاعت سکونت اختیار کرنے کی ترغیب بھی فرمائی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی ہے، وہی پوری دنیا کا خالق و مالکِ حقیقی ہے پھر اس قادر و قیوم ذاتِ وحدہٗ لا شریک نے زمین کے ایک ٹکڑے کو مبارک قرار دیا۔ اس سے یہی بات مستنبط ہوتی ہے کہ خالقِ کائنات کی طرف سے عطا کردہ کسی بابرکت مقام یا ہستی سے اگر ایک بندہ مؤمن تبرک اختیار کرے تو یہ صحیح اور درست امر ہے اسے خلافِ شرع اور منافئ توحید قرار نہیں دیا جاسکتا۔
4۔ یمن کے بارے میں اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَجَعَلْنَا بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ الْقُرَی الَّتِیْ بٰـرَکْنَا فِیْھَا قُرًی ظَاهِرَۃً.
سبا، 34: 18
’’اور ہم نے ان باشندوں کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دے رکھی تھی، (یمن سے شام تک) نمایاں (اور) متصل بستیاں آباد کر دی تھیں۔‘‘
5۔ عام زمین کو خیر کے اِعتبار سے کئی صورتوں میں متبرک بنایا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَجَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَبٰـرَکَ فِیْھَا وَقَدَّرَ فِیْھَآ اَقْوَاتَھَا فِیْٓ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ.
حم السجدة، 41: 10
’’اور اُس کے اندر (سے) بھاری پہاڑ (نکال کر) اس کے اوپر رکھ دیئے اور اس کے اندر (معدنیات، آبی ذخائر، قدرتی وسائل اور دیگر قوتوں کی) برکت رکھی، اور اس میں (جملہ مخلوق کے لئے) غذائیں ( اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کیا۔‘‘
قرآن مجید میں بعض زمانوں کے بابرکت ہونے کو بھی بیان کیا گیا ہے، نزولِ قرآن کی رات(شبِ قدر)کے بارے میں فرمایا:
اِنَّـآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَo
الدخان، 44: 3
’’بے شک ہم نے اسے ایک با برکت رات میں اتارا ہے، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔‘‘
اس آیت کے تحت شیخ ابنِ عربی لکھتے ہیں:
البرکة: ھی النماء والزیادة وسماھا مبارکة لما یعطی الله فیھا من المنازل ویغفر من الخطایا ویقسم من الحظوظ ویبث من الرحمة و ینیل من الخیر و ھی حقیقة ذلک وتفسیرہ.
ابن عربی، أحکام القرآن، 4: 117
’’برکت کا معنی کسی چیز میں بڑھوتری اور اِضافہ ہے۔ نزولِ قرآن کی رات کو اس لئے مبارک قرار دیا کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بلند درجات عطا فرماتا ہے، گناہوں کی بخشش فرماتا ہے، سعادت و خوش قسمتی اور خیر و فضل تقسیم فرماتا ہے، اپنی رحمت کو پھیلاتا ہے اور خیر و بھلائی عطا فرماتا ہے۔ یہی اس رات کے بابرکت ہونے کا حقیقی معنی اور اس کی تفسیر ہے۔‘‘
قرآن مجید میں بعض اشیاء کے بابرکت ہونے کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
1۔ اللہ تعالیٰ نے زیتون کے درخت کو بابرکت قرار دیا ہے، ارشادِ ربانی ہے:
اَللهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ط مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ ط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ ط اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّهَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرْبِیَّۃٍ.
النور، 24: 35
’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہے) اس طاق (نما سینۂ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن) ہے، (وہ) چراغ، فانوس (قلبِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) میں رکھا ہے۔ (یہ) فانوس (نورِ الٰہی کے پَرتَو سے اس قدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے (یہ چراغِ نبوت) جو زیتون کے مبارک درخت سے (یعنی عالمِ قدس کے بابرکت رابطہ وحی سے یا انبیاء و رسل ہی کے مبارک شجرۂ نبوت سے) روشن ہوا ہے نہ (فقط) شرقی ہے اور نہ غربی (بلکہ اپنے فیضِ نور کی وسعت میں عالم گیر ہے)۔‘‘
2۔ بارش کے پانی کو بھی مبارک قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰـرَکًا.
ق، 50: 9
’’اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا۔‘‘
قرآن مجید میں ایک مقام پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ سیدہ مریم علیہا السلام کا ذکر ہارون کی بہن کہہ کر ہوا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاُخْتَ ھَارُوْنَ.
مریم، 19: 28
’’اے ہارون کی بہن!‘‘
ائمۂِ تفسیر نے لکھا ہے کہ یہ خاتون حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں اور ان کے ایک بھائی کا نام حضرت ہارون علیہ السلام کی نسبت سے ’’ہارون‘‘ تھا اس لئے ان کو ہارون کی بہن کہا گیا۔
کان لها أخ من أبیھا اسمه هارون لأن ھذا الاسم کان کثیرًا في بني إسرائیل تبرکاً باسم هارون أخي موسی.
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 11: 100
’’حضرت مریم علیہا السلام کے علاتی بھائی کا نام ہارون تھا کیونکہ بنی اسرائیل میں یہ نام رکھنے کا بہت رواج تھا۔ لوگ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے نام کی نسبت سے تبرکاً اسے رکھتے تھے۔‘‘
قرآن مجید میں بیان کردہ مبارک یا متبرک انبیاء علیہم السلام، خود قرآن حکیم، اماکنِ مقدّسہ، اشیاء اور زمان کی اِن اقسام سے معلوم ہوا کہ مخلوق میں سے بعض کو خالقِ کائنات کی طرف سے بابرکت ہونے کا رتبہ ملا ہے جس کے باعث اُن کا مقام باقی تمام مخلوق سے جدا اور ممتاز ہو جاتا ہے۔
اس تفصیل سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ خود آثارِ انبیاء و رسل اور صالحین کے مزارات اور مقدّس مقامات کو بابرکت قراردیتا ہے اور اس برکت سے تبرک کی تعلیم دیتا ہے۔
نصوصِ قرآن سے ثابت ہے کہ اللہ رب العزت کے جلیل القدر انبیاء علیہم السلام نے تبرک و تیمّن کا واسطہ اختیار کیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ عمل شرک اور خلافِ توحید نہیں۔ قرآنِ حکیم میں درج ذیل ارشادات اس کا بیّن ثبوت ہیں:
سورۂ یوسف میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور اُن کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کا طویل واقعہ بیان ہوا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے دھوکہ سے انہیں کنوئیں میں ڈال دیا تو مصر کے چند تاجر انہیں اپنے ساتھ مصر لے گئے، جس کی وجہ سے باپ بیٹے کی جدائی میں کئی سال گزرے۔ لیکن حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے کی جدائی نہ بھولے تھے اور آنسو بہا بہا کر نابینا ہوگئے۔ کئی سال بعد جب حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے بھائیوں کے توسط سے باپ کی بینائی جانے کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے اپنا قمیص تبرک کے لئے اپنے والدِ محترم حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس بھیجا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی یہ بات سورہ ٔیوسف میں یوں درج ہے:
اِذْھَبُوْا بِقَمِیْصِیْ ھٰذَا فَأَلْقُوْهُ عَلٰی وَجْهِ أَبِیْ یَأْتِ بَصِیْرًاo
یوسف، 12: 93
’’ـ(یوسف ںنے کہا: ) میری یہ قمیض لے جاؤ، سو اِسے میرے باپ (یعقوب ں) کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہوجائیں گے۔‘‘
اس کے بعد کے واقعہ کو قرآنِ کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
فَلَمَّآ أَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ أَلْقٰهُ عَلٰی وَجْھِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًا.
یوسف، 12: 96
’’پھر جب خوش خبری سنانے والا آپہنچا اس نے وہ قمیص یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی۔‘‘
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے اور اپنے والدِ گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام کے درمیان قمیص کا واسطہ قائم کیا جس کی برکت سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی کھوئی ہوئی بینائی لوٹ آئی لہٰذا ان کا یہ عمل شرک نہ ہوا۔ ان آیاتِ مبارکہ سے درج ذیل امور ثابت ہوئے:
1۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹانے والی ذاتِ حقیقی خالقِ کائنات کی تھی۔ پس اُن کی بینائی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے لوٹی لیکن اس کا سبب حضرت یوسف علیہ السلام کا قمیص بنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ د بغیر کسی واسطہ کے اُن کو بینا کر سکتا تھا لیکن اس واقعہ سے اللہ رب العزت نے اپنے انبیاء سے مس شدہ چیز کی برکت کا اظہار فرمایا ہے۔
2۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے قمیص سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی کے لوٹ آنے سے اللہ تعالیٰ نے تاقیامت آنے والے انسانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس دنیا میں بعض ذوات، اشیاء اور اماکن وغیرہ اللہ تعالیٰ کے ہاں غیر معمولی قدر ومنزلت رکھتے ہیں جن کو برکت سے نوازا گیا ہے۔ ان کی وجہ سے بیمار شفایاب ہوتے ہیں، دعائیں قبول ہوتی ہیں اور گناہوں کی بخشش ومغفرت ملتی ہے۔
3۔ جس چیز کو انبیاء کرام اور صلحاءِ عظام سے نسبت ہوجائے اس سے تبرک کرنا توحید کے منافی نہیں کیونکہ قمیض بھیجنے والے بھی اللہ کے برگزیدہ نبیں اور اس وسیلہ سے فائدہ اٹھانے والے بھی اللہ کے برگزیدہ نبی علیہ السلام ہیں اور بیان کرنے والا ماحیٔ شرک یعنی قرآن ہے ۔
4۔ جَآءَ الْبَشِیْرُ کے اعتبار سے یہ تبرک اگرچہ ظاہراً بغیر النبی ہے لیکن فی الحقیقت یہ تبرک بآثار النبی ہے۔
5۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر قمیض ڈالتے وقت بشارت دینے والے نے زبان سے کچھ نہ کہا بلکہ صرف قمیض کی برکت سے بینائی لوٹ آئی جو تبرکِ نفسی کی طرف اشارہ ہے۔
6۔ غیرِ نبی سے بھی برکت حاصل کرنا سنتِ انبیاء علیہم السلام سے ثابت ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں یہ َامر بطورِ خاص توجہ طلب ہے کہ ایک پیغمبر حضرت یوسفں تبرک کا حکم دے رہے ہیں اور دوسرے پیغمبر حضرت یعقوبں اس قمیض سے برکت حاصل کر رہے ہیں یعنی قمیض متبرَّک بهِ ہے۔ لہٰذا جب پیغمبر کی قمیض سے تبرک امرِ جائز ہے تو اس سے تبرک بآثار الانبیاء اور تبرک بالصالحین کا عقیدہ بھی از خود ثابت ہوجاتا ہے۔
حضرت زکریا علیہ السلام نے جب حضرت مریم علیہا السلام کے حجرے میں بے موسم پھلوں کو دیکھا تو اسی جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ج قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِo
آل عمران، 3: 38
’’اسی جگہ زکریا ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا: میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔‘‘
اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کا واسطۂ تبرک و تیمّن اور واسطۂ توسل اختیار کرنا شرک نہ تھا اگر ایسا ہوتا تو اللہ رب العزت خصوصیت کے ساتھ قرآن میں اس کا ذکر نہ فرماتا کیونکہ الفاظِ ربانی یوںہیں: {هُنَا لِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ} یعنی اُسی جگہ زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی۔
ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے مبارک قدم تعمیرِ کعبہ کے دوران جس پتھر پر لگے وہ بھی باعثِ خیر و برکت اور تکریم و تعظیم ہوا، لوگ اس سے برکت حاصل کرتے ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ط وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِیْمَ مُصَلًّی.
البقرۃ، 2: 125
’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کیلئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو۔‘‘
حدیثِ مبارکہ کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نشانِ قدوم سے گہری مماثلت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے علماء اس متبرک و مقدس پتھر پر یہ نشان دیکھ کر قریشِ مکہ سے پوچھا کرتے کہ کیا یہ قدموں کے نشان محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ہیں؟ اس بات کی تصدیق ہونے پر وہ اس سے برکت حاصل کیا کرتے تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابھی اعلانِ نبوت نہیں فرمایا تھا لیکن یہودیوںکے بعض علماء نے مقامِ ابراہیم (علیہ السلام) پر کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں کہ وہ لوگ ان سے برکت حاصل کرنے کے لئے آنے لگے۔ ان کو کتب سماویہ سے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ وہ خاتم الانبیاء ہوں گے۔
محولہ بالا ارشاداتِ قرآنی میں انبیاء اور صالحین کے آثار و تبرکات سے بذاتِ خود انبیاء علیہم السلام کا اور عوام الناس کے تبرک کا واضح ثبوت ہے۔ ذیل میں ہم قرآن وحدیث سے چند وہ حوالے درج کریں گے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آثارِ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء سے برکت حاصل کرنا سابقہ امم کا طریقہ تھا جس کو آقا علیہ السلام نے برقرار رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبعین اسی منہاج پر گامزن رہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات کا ذکر قرآنِ حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے باقاعدہ اہتمام کے ساتھ ایک خاص تاریخی پسِ منظر میں فرمایا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ إِنَّ اٰیَۃَ مُلْکِہٖٓ أَنْ یَّأْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَکِیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِکُمْ وَ بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ هٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰئِکَۃُ ط إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo
البقرۃ، 2: 248
’’اور ان کے نبی نے ان سے فرمایا : اس کی سلطنت (کے مِنْ جانبِ اللہ ہونے) کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق آئے گا اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکونِ قلب کا سامان ہوگا اور کچھ آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہوں گے اسے فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہو گا، اگر تم ایمان والے ہو تو بے شک اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے۔‘‘
یہ امر واضح رہے کہ ہم نے مندرجہ بالا آیت کے ترجمہ میں ’تبرکات‘ کا لفظ حضرت شاہ ولی اللہ محدثؒ دہلوی سے لیا ہے۔ ائمۂِ تفسیر نے {وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ} سے مراد تبرکات لیے ہیں جس کی تفصیل کم و بیش تفسیر کی ہر کتاب میں ہے۔ ذیل میں چند تفاسیر کے حوالہ جات دیئے جا رہے ہیں:
1۔ امام فخر الدین رازیؒ لکھتے ہیں:
قال أصحاب الأخبار: إن اللہ تعالٰی أنزل علی آدم علیہ السلام تابوت فیہ صور الأنبیاء من أولادہ فتوارثہ أولاد آدم إلی أن وصل إلی یعقوب ثم بقي فی أیدي بني إسرائیل، فکانوا إذا اختلفوا فی شیء تکلم وحکم بینھم، وإذا حضروا القتال قدموہ بین أیدیھم یستفتحون بہ علی عدوھم.
رازی، التفسیر الکبیر، 6: 149
’’مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر ایک تابوت نازل فرمایا جس میں سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے انبیاء علیہم السلام کی تصاویر تھیں۔ وہ تابوت اولادِ آدم میں وراثتاً منتقل ہوتے ہوئے حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا، پھر یہ بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا۔ جب کبھی ان کے درمیان کسی مسئلے پر اختلاف ہوتا تو یہ تابوت کلام کرتا اور فیصلہ سناتا اور جب وہ کسی جنگ کے لئے جاتے تو اپنے آگے اس تابوت کو رکھتے جس کے ذریعے وہ اپنے دشمنوں پر فتح پاتے۔‘‘
2۔ امام بغویؒ معالم التنزیل میں آیت {وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ} سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے تبرکات لیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
{وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ ھٰرُوْنَ} یعني موسیٰ وھارون نفسھما. کان فیه لوحان من التوراۃ ورضاض الألواح التي تکسرت وکان فیه عصا موسیٰ ونعلاه وعمامۃ هارون وعصاه وقفیز من المن الذي کان ینزل علی بني اسرائیل.
{اور کچھ آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہوں گے} آل سے مراد خود حضرت موسیٰ و ہارون علیہا السلام کے تبرکات ہیں اس میں تورات کی دو مکمل تختیاں اور کچھ ان تختیوں کے کوٹے ہوئے ٹکڑے تھے۔ اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کا عصا اور نعلین اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ اورعصا اور (جنت کا کھانا) مَن جو بنی اسرائیل پر نازل ہوتا تھا اس کا ٹکڑا بھی اس میں شامل تھا۔‘‘
علاوہ ازیں ’’تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس (1: 5)‘‘ میں، امام طبری نے ’’جامع البیان فی تفسیر القرآن (2: 3614)‘‘ میں، علامہ زمخشری نے ’’الکشاف (1: 321)‘‘ میں، علامہ ابنِ کثیرنے ’’تفسیر القرآن العظیم (1: 302 )‘‘ میں، امام سیوطی نے ’’الدر المنثور (1: 2758)‘‘ میں، امام آلوسی نے ’’روح المعانی (2: 169)‘‘ میں، علامہ شوکانی نے ’’فتح القدیر (1: 267)‘‘ میں، علامہ ابو سعود محمد عمادی نے إرشاد العقل السلیم إلی مزایا القرآن الکریم (1: 241)‘‘ میں اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے ’’تفسیر المظہری (1: 249)‘‘ میں زیرِبحث آیت کی تفسیر کرتے ہوئے {وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ ھٰرُوْنَ} سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے تبرکات لئے ہیں۔ ان تبرکات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور نعلین مبارک، حضرت ہارون علیہ السلام کا عصا اور عمامہ، ان کا لباس، تورات کے بعض اجزاء اور مَن کے ٹکڑے جو بنی اسرائیل پر (آسمان سے) نازل ہوتا تھا، شامل تھے۔
3۔ مکتبِ دیوبند فکر سے تعلق رکھنے والے مولانا عبدالماجد دریا آبادی سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 248 کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اَلتَّابُوْتُ۔ اس خاص صندوق کا اصطلاحی نام تابوتِ سکینہ ہے۔ یہ بنی اسرائیل کا اہم ترین ملی اور قومی ورثہ تھا۔ اس میں تورات کا اصل نسخہ مع تبرکاتِ انبیاء محفوظ تھا۔ بنی اسرائیلی اس کو انتہائی برکت و مقدس سمجھتے تھے۔ سفر و حضر، جنگ و امن ہر حال میں اسے بڑی حفاظت سے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ یہ کچھ ایسا بڑا نہ تھا۔ موجودہ علمائِ یہود کی تحقیق کے مطابق اس کی پیمائش حسبِ ذیل تھی:
طول … دو فٹ چھ انچ
عرض … ایک فٹ چھ انچ
بلندی … ایک فٹ چھ انچ
بنی اسرائیل اپنی ساری خوش بختی اسی سے وابستہ سمجھتے تھے، مدت ہوئی فلسطینی اسے ان سے چھین کر لے گئے تھے، اسرائیلی اسے اپنے حق میں انتہائی نحوست و بد طالعی سمجھ کر اس کی واپسی کے لیے نہایت درجہ بیتاب و مُضطرب تھے۔
طالوت کے وقت میں یہ تابوت واپس آجانے کے بعد تاریخ کا بیان ہے کہ بنی اسرائیل کے قبضہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام (م 933 ق م) تک رہا، اور آپ نے بیت المقدس میں ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کے بعد اسی میں اُسے بھی رکھ دیا تھا، اس کے بعد سے اس کا پتہ نہیں چلتا، یہود کاعام خیال یہ ہے کہ یہ تابوت اب بھی ہیکلِ سلیمانی کی بنیادوں کے اندر دفن ہے۔‘‘
عبدالماجد دریا آبادی، تفسیر ماجدی، 1: 459
4۔ مولانا اشرف علی تھانوی اپنی تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’(اور جب اُن لوگوں نے پیغمبر سے یہ درخواست کی کہ اگر کوئی ظاہری حجت بھی ان کی من جانب اللہ بادشاہ ہونے کی ہم مشاہدہ کرلیں تو اور زیادہ اطمینان ہو جاوے اُس وقت) اُن سے اُن کے پیغمبر نے فرمایا کہ اُن کے (من جانب اللہ ) بادشاہ ہونے کی یہ علامت ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق (بدوں تمہارے لائے ہوئے) آجاوے گا جس میں تسکین (اور برکت) کی چیز ہے۔ تمہارے رب کی طرف سے (یعنی تورات اور تورات کا من جانب اللہ ہونا ظاہر ہے) اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں جن کو حضرت موسیٰ و حضرت ہارون علیہما السلام چھوڑ گئے ہیں (یعنی ان حضرات کے کچھ ملبوسات وغیرہ غرض) اُس صندوق کو فرشتے لے آویں گے۔ اس (طرح سے صندوق کے آ جانے) میں تم لوگوں کے واسطے پوری نشانی ہے۔ اگر تم یقین لانے والے ہو۔ اس صندوق میں تبرکات تھے۔‘‘
مزید حاشیے میں لکھتے ہیں:
قوله تعالیٰ {یَأْتِیْکُمُ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَکِیْنَۃٌ}
’’اِس میں اَصل ہے آثارِ صالحین سے برکت حاصل کرنے کی۔‘‘
اشرف علی تھانوی، بیان القرآن، 1: 145
اس تفصیل سے مقصود یہ امر واضح کرنا ہے کہ جب بنی اسرائیل کو انپے انبیاء علیہم السلام کے تبرکات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کے دنیوی و اخروی اور ظاہری و باطنی فوائد عطا فرمائے تھے جس پر قرآن مجید خود شاہدہے تو کیا امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی نسبت و تعلق اور سچی محبت و ادب کے ذریعے ظاہری و باطنی تبرکات و فیوضات نصیب نہیں ہوں گے؟ کیوں نہیں! یقینا پہلی امتوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر نصیب ہوں گے۔ ہم نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فقط ذہنی اور فکری تعلق استوار کیا ہے مگر قلبی اور باطنی تعلق کمزور کر لیا ہے۔ جو لوگ آج بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسا قلبی و روحانی رشتہ قائم کر لیتے ہیں وہ اپنی زندگی میں اب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الطافِ کریمانہ اور فیوضاتِ رحیمانہ کے نظارے کرتے ہیں۔
اللہ رب العزت صرف انبیاء کرام علیہم السلام اور اپنے مقرب بندوں کو ہی بابرکت نہیں بناتے بلکہ انہیں عطا کردہ چیزوں میں اتنی برکت اور تاثیر رکھ دیتے ہیں کہ اُن سے نسبت شدہ چیزوں کو بھی متبرک بنا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ تاریخ کے اوراق میں احادیثِ صحیحہ سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے منسوب کنوئیں کے بارے میں بھی ملتا ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام مبارک نبی تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں معجزہ کے طور پر اونٹنی عطا فرمائی تھی لہٰذا اس کے بابرکت ہونے میں بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن بات صرف یہاں ختم نہ ہوئی بلکہ وہ اونٹنی جس کنوئیں سے پانی پیتی تھی اس کو بھی نبی کی نسبت سے متبرک بنا دیا گیا۔
تاریخی پسِ منظر یوں ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی ایک کنویں سے پانی پیتی تھی۔ ایک پورا دن اس کے لئے خاص تھا، قومِ صالح کو یہ ناگوار گزرا اور انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کی طرف سے عذابِ الٰہی کی وعید کے باوجود اس اونٹنی کو ذبح کر ڈالا نتیجتاً اللہ رب العزت کا عذاب نازل ہوا اور پوری قوم ہلاک ہو گئی۔
غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے جانثار صحابہ کے ہمراہ جب اس مقام پر سے گزر ہوا تو اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقام سے آگاہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر صحابہ کرام ث کو اس وادی سے تیزی کے ساتھ گزرنے کا حکم دیا اور تباہ شدہ قوم کے کنویں سے پانی پینے سے منع فرمایا نیز اس سے آٹا گوندھنے اور برتن دھونے سے بھی منع فرمایا بلکہ گوندھا ہوا آٹا اور جمع کیا ہوا پانی پھینکنے کا حکم دیا۔ اس کی بجائے انہیں اس مبارک کنویں کا پانی استعمال کرنے کی ترغیب دی جس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی پیا کرتی تھی۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ النَّاسَ نَزَلُوْا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم أَرْضَ ثَمُوْدَ الْحِجْرَ فَاسْتَقَوْا مِنْ بِئْرِهَا وَاعْتَجْنُوْا بِهِ، فَأَمَرَھُمْ رَسُولُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم أنْ یُهَرِیقُوا مَا اسْتَقَوْا مِنْ بِئرِهَا وَأَنْ یَعْلِفُوْا الإِبِلَ الْعَجِیْنَ وَأمَرَهُمْ أن یَسْتَقُوْا مِنَ البِئْرِ الَّتِي کَانَتْ تَرِدُهَا النَّاقَۃُ.
’’لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ثمود کی سر زمین حجر میں اُترے۔ اس کے کنوؤں سے پانی نکالا اور اس سے آٹا گوندھا ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اس وادی کے کنویں سے جو پانی نکالا ہے اسے پھینک دو اور گوندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلا دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دیا وہ اس (مبارک) کنویں سے پانی لیں جس پر حضرت صالح علیہ السلام کی اُونٹنی آتی تھی۔‘‘
امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ میں سورۃ الحجر کی مذکورہ آیت کی تفسیر میں حضور نبی اکرم علیہ السلام کے مندرجہ بالا اِرشاد سے تبرک بالآثار کا استنباط کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
أمرہ صلی الله علیه وآله وسلم أن یستقوا من بئر الناقۃ دلیل علی التبرک بآثار الأنبیاء والصالحین وإن تقادمت أعصارھم وخیفت آثارھم.
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 10: 47
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے کنویں سے پانی لو،انبیاء و صالحین کے آثار سے تبرک پر دلیل ہے اگرچہ زمانے گذر چکے ہوں اور ان کے مبارک آثار آنکھوں سے اوجھل ہو چکے ہوں۔‘‘
اسی حدیث کی تشریح میں شارح صحیح مسلم امام نوویؒ نے لکھا ہے کہ اس حدیث مبارکہ سے متعدد فوائد کاثبوت ہے:
ومنها مجانبۃ آبار الظالمین والتبرک بآبار الصالحین.
نووی، شرح صحیح مسلم، 18: 112
’’ان میں ظالموں کے منحوس کنوؤں سے اجتناب اور صالحین کے مبارک کنوؤں سے برکت حاصل کرنا مراد ہے۔‘‘
امام نووی کی یہ تشریح دراصل سلف صالحین کے عقیدہ کی ترجمان ہے کہ کس طرح وہ صالحین اور ان کے آثار سے برکت حاصل کرتے تھے، لہٰذا قرآن وسنت پر مبنی صحیح سلفی عقیدہ یہی ہے کہ بعض مقامات بھی بابرکت ہوتے ہیں اور ان کا مبارک ہونا کسی نیک بندے یا کسی شعائر اللہ کی نسبت کے باعث ہوتا ہے۔ اب متذکرہ بالا آیتِ کریمہ سے یہ ثابت ہوا کہ جس طرح نیک بندگانِ خدا کی نسبت سے کوئی جگہ مبارک ہوسکتی ہے تو اس کے برعکس ظالم، نافرمان اور گستاخانِ رسول قوم کی وجہ سے کوئی خطہ منحوس بھی ہوسکتا ہے۔ جس طرح صالحین سے منسوب مبارک مقامات سے تبرک درست ہے اسی طرح ظالمین سے منسوب مقامات سے پناہ مانگنا بھی سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔
کثیر احادیثِ مبارکہ سے تبرکاتِ صالحین کی اصل ثابت ہے۔ اس پر تفصیلی بحث اگلے ابواب میں ملاحظہ کریں۔
انبیاء و صالحین کا واسطۂ تبرک اختیار کرنا نصوصِ قرآن اور کثیر احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔ جب واسطہ تبرک قرآن و حدیث سے ثابت ہے تو اسے ہر گز واسطہ شرکیہ نہیں گردانا جا سکتا۔
جمہور اُمت کا یہ عقیدہ ہے کہ آثار اور نشانیوں میں از خود کوئی فضیلت نہیں ہے۔ ان مقدّس اماکن و مقامات کی تعظیم و تکریم کرنا اور اس سے خیر و برکت حاصل کرنا اِس وجہ سے ہے کہ یہ بہت سی خیر اور نیکیوں کا باعث، ذریعہ اور وسیلہ ہوتے ہیں۔ مقربینِ بارگاهِ الٰہی ان اماکن و مقامات میںمراقب ہو کر عبادت و ریاضت اور ذکر و اذکار کرتے رہے۔ ان عبادات کی وجہ سے ان میں ربِ رحمن کی رحمتوں اور عنایتوں کا نزول ہوتا رہا اور ملائکہ مقربین کی آمد ہوئی، پس اس لیے ربِ کا ئنات کی خصوصی رحمت نے ان اماکن اور آثار کو گھیرا ہوا ہے۔ اسی نسبت سے یہ برکت مقصود ہوتی ہے جس کو ان مقامات میں اللہ تعالیٰ سے ہی طلب کیا جاتا ہے۔
مقدّس مقامات ہوں یا مقرب اشخاص، ان سے برکت انہیں بالذات مؤثر مان کر حاصل نہیں کی جاتی بلکہ ان مقامات پر حاضر ہو کر اللہ رب العزت کی طرف متوجہ ہو کر دعا و استغفار کے ذریعہ مانگا جاتا ہے۔ ان مقامات میں جو عظیم واقعات پیش آتے ہیں ان کا ذکر کیا جاتا ہے، مقرب ہستیوں کی ہمت و معرفت کا بیان ہوتا ہے جس سے قلب و باطن میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور حوصلوں کو جلا ملتی ہے۔ محبوبانِ بارگاهِ الٰہی کے ساتھ ظاہری و باطنی قربت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، یہی تبرک ہے اور اسی کو جمہور امت نے اختیار کیا ہے۔ اس میں کوئی شرکیہ عنصر نہیں ہاں اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ان اماکن و اشخاص سے بالذات تاثیر کا عقیدہ رکھے تو یہ شرک کے زمرے میں آتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved