مشہور حدیثِ قدسی کے مطابق بندہ فرائض کی ادائیگی اور نوافل پر مداومت کے ذریعے ایسے مقامِ قرب پر متمکن ہو جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قوتوں اور قدرتوں کا مظہر بن جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی رضا و ناراضی اس سے وابستہ ہو جاتی ہے۔ اس مقام قرب میں بندئہ مومن کے مشاہدات اور تصرفات میں جو غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے اس کا فیض بعد از وصال بھی جاری و ساری رہتا ہے۔ اولیاء اللہ جو اس مقامِ رفیع پر فائز ہوں ان سے دعائیں کروانا، ان سے استعانت و استغاثہ گویا اللہ رب العزت سے استعانت ہوتی ہے۔ ذیل میں سب سے پہلے حدیثِ قدسی اور بعد ازاں محدّثین و مفسرین اور ائمۂ دین کی شروحات ملاحظہ کریں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ ﷲ تَعَالٰی قَالَ: مَنْ عَادٰی لِی وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالْحَرْب،ِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِی بِشَیْئٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ، وَمَا یَزَالُ عَبْدِی یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّی أُحِبَّہٗ، فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ: کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِی یَسْمَعُ بِہِ، وَ بَصَرَہُ الَّذِی یُبْصِرُ بِہِ، وَ یَدَہُ الَّتِی یَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَہُ الَّتِی یَمْشِیْ بِهَا، وَإنْ سَأَلَنِی لَأُعْطِیَنَّہُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِی لَأُعِیْذَنَّہُ.
بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب التواضع، 5: 2384، رقم: 6137
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: جو میرے کسی ولی کے ساتھ عداوت و دشمنی رکھے گا میں اُس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میرا بندہ میری کسی ایسی محبوب چیز کے ذریعے میرا قرب حاصل نہیں کر سکتا جو میں نے اس پر فرض کی ہیں، اور بندہ ہمیشہ نوافل (کی کثرت اور فراوانی) کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو محبوب بنا لیتا ہوں۔ پس جب اس کو محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے۔ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے۔ اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے پکڑتا ہے۔ اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن کے ساتھ چلتا ہے اور اگر وہ محبوب بندہ مجھ سے سوال کرے گا تو میں اسے ضرور بالضرور مطلوبہ چیز دوں گا اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرے گا تو ضرور بالضرور اس کو پناہ اور تحفظ مہیا کروں گا۔‘‘
امام ابنِ حجر عسقلانی اور دیگر ائمہِ حدیث سے مروی حدیثِ مبارکہ میں یہ کلمات بھی منقول ہوئے ہیں۔
وَلِسَانَہُ الَّذِي یَتَکَلَّمُ بِہِ.
’’اور اس کی زبان بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ کلام کرتا ہے۔‘‘
ابو یعلی اور دیگر ائمۂ حدیث سے مروی حدیثِ مبارکہ میں یہ الفاظ بھی ہیں:
وَفُؤَادَہُ الَّذِي یَعْقِلُ بِہِ.
’’اور اس کا دل بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ فہم و شعور حاصل کرتا ہے۔‘‘
اور بعض روایات میں یہ کلمات بھی منقول ہیں:
فَبِیَ یَسْمَعُ وَ بِیَ یُبْصِرُ وَ یَبْطِشُ وَ بِیَ یَمْشِی.
’’پس وہ میرے نور سے سنتا ہے، میرے نور سے دیکھتا اور پکڑتا ہے اور میرے نور سے ہی چلتا ہے۔‘‘
اس حدیثِ قدسی سے یہ امر عیاں ہوا کہ نوافل و مستحبات کی کثرت سے بندہ مقامِ محبوبیت پر فائز ہوجاتا ہے۔ وہ اللہگ کے انوار و تجلیات اور فیوض و برکات سے منور ہوجاتا ہے اور وہی انوار اس بندہ محبوب کے حواس اور اعضاء بن جاتے ہیں۔ اس لئے اس بندۂ محبوب کا دیکھنا، سننا، چلنا، پکڑنا، بولنا اور سوچنا عام لوگوں سے مختلف ہوجاتا ہے۔ چونکہ یہ انوار و برکات مقامِ محبوبیت کا ثمر اور نتیجہ ہوتے ہیں۔ بندہ محبوب بعد از موت و وفات بھی محبوب و مقرب ہوتا ہے اس لئے اپنے وصال کے بعد اس کے علوم و معارف، شعور واِدراکات ، احساسات اور تدبیر و تصرف کی طاقتیں اور قوتیں عام اہلِ ایمان سے قوی تر اور مؤثر ترین ہوتی ہیں۔ جب ان کی ارواحِ مقدسہ سے توسل اور استمداد و استعانت کی جاتی ہے تو وہ بندۂ محبوب اپنے چاہنے والوں کی مدد و اعانت کرتا ہے۔
ائمۂ مفسرین و محدّثین نے اپنے ذوق اور علم کے پیشِ نظر اس امر پر روشنی ڈالی ہے۔
1۔ امام فخر الدین رازیؒ لکھتے ہیں:
وکذلک العبد إذا واظب علی الطاعاتِ بلغ إلی المقام الذی یقول اللہ کنت لہُ سمعاً وبصرًا فإذا صار نور جلال ﷲٗ سمعاً لہ سمع القریب والبعید، وإذا صار ذالک النّور بصرًا لہ رأی القریب والبعید واذا صار ذلک النّور یدًا لہُ قدر علی التصرّفِ فی الصعب والسہل والقریب والبعید.
رازی، التفسیر الکبیر، 21: 77
’’ایسے ہی کوئی بندۂ محبوب جب طاعات پر مداومت اختیار کرے تو اس مقامِ محبوبیت پر فائز ہوجائے گا جس کے بارے میں اللہ گ کا ارشاد ہے کہ میں اس کے کان اور آنکھ بن جاتا ہوں۔ پس جب اللہ تعالیٰ کا نور بندۂ محبوب و مقرب کے کان ہوجاتا ہے تو وہ قریب اور بعید سے سنتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کا نور اس کی آنکھ بن جاتا ہے تو وہ بعید و قریب کو دیکھتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کا نور بندے کا ہاتھ بن جاتا ہے تو وہ مشکل اور آسان کاموں پر قریب و بعید میں تصرف پر قادر ہوجاتا ہے۔‘‘
2۔ علامہ محمود آلوسی حنفی لکھتے ہیں:
فقد یمنح العبد قرب النوافل فیکون الحق تعالیٰ بصرہُ الّذی یبصر بہِ و سمعہُ الذی یسمع بہِ و قد یرقی من ذالک إلی قرب الفرائض فیکون نورًا فهناک یکون الغیب لہُ شهودًا والمفقود لدینا عندہُ موجودًا.
آلوسی، روح المعانی، 1: 107
’’کبھی بندے کو نوافل کا قرب (یعنی ان پر مرتب نور) عطا کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے سنتا ہے اور کبھی اُس سے ترقی کرکے قربِ فرائض (یعنی ان کی بدولت پہلے سب بھی اونچے درجات تک پہنچتا ہے) تو سراسر نور بن جاتا ہے۔ اِس مقام پر اُس بندۂ محبوب و مقرب کے لئے غیب، مانندِ شہود یعنی صاف ہو جاتا ہے اور جو ہمارے لحاظ سے ناپید اور معدوم ہوتا ہے وہ اُس کے سامنے آئینۂ حال میں موجود و مشہود ہوتا ہے۔‘‘
3۔ ملا علی قاری حنفیؒ لکھتے ہیں:
والمواظبۃ علی العلم والعمل وفیضان الأنوار الإلھیۃ حتی یقوی النور وینبسط فی فضاء القلب، فتنعکس فیہ النقوش المرتسمۃ فی اللوح المحفوظ ویطلع علی المغیبات ویتصرف فی أجسام العالم السفلی، بل یتجلی حیئندٍ الفیاض الأقدس بمعرفۃ التی ھی أشرف العطایا فکیف بغیرہ.
ملا علی قاری، مرقاۃ الفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، 1: 62
’’علم و عمل پر اور انوارِ الہٰیہ کے فیضان پر مداومت سے وہ نور قوی ہو جاتا ہے اور قلب کی فضاء میں پھیل جاتا ہے۔ تب اُس پر لوحِ محفوظ میں مرقوم نقوش کا عکس پڑنے لگتا ہے اور وہ اُمورِ غیبیہ پر مطلع ہو جاتا ہے اور نچلے جہان میں تصرف کرتا ہے۔ بلکہ خود فیاضِ مطلق یعنی رب تعالیٰ اپنی معرفتِ کاملہ کے ساتھ اِس پر جلوہ گر ہوتا ہے جو کہ تمام انعامات سے بلند مرتبہ عطا و بخشش ہے۔‘‘
4۔ شیخ عبد الحق محدّث دہلویؒ اکابر اسلاف میں سے ہیں۔ ان کے اقوال کو تمام مکاتبِ فکر معتبر سمجھتے ہیں۔ آپ انبیاء و اولیاء کے قصد و ارادہ اور اس کے ثمرات و نتائج کے حوالے سے لکھتے ہیں:
گفتہ اند بسم اللہ الرحمن الرحی. از عارف ہمچوں کلمہ کن است از پروردگار تعالیٰ و تقدس.
عبدالحق محدث دہلوی، اشعۃ اللمعات، 2: 240
’’اجل علماء نے کہا ہے کہ عارف ربانی کی زبان سے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا صادر ہونا اس طرح مؤثر اور مفیض و مفید مطلب ہوتا ہے جیسے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے کلمہ کُن کہ اس کے بعد فوری طور پر وہ شے موجود ہو جاتی ہے۔‘‘
اسی طرح عارف ربانی کسی کام کے ارادہ پر بسم اللہ شریف پڑھے تو وہ کام فوراً ہو جاتا ہے۔
آپ ’’أشعۃ اللمعات‘‘ میں أنبیاء کرام ں اور أولیاء عظام رحمہم اللہ تعالی سے توسل و استمداد کے جواز پرلکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
ولیت شعری چہ مے خواہند ایشان باستمداد وامداد کہ ایں فرقہ منکراند آنرا آنچہ ما مے فہمیم از آں اینست کہ داعی محتاج فقیر الی اللہ، دعا مے کند و طلب مے کند حاجت خود را از جناب عزت وغناوے وتوسل مے کند بروحانیت ایں بندہ مقرب ومکرم در درگاہِ عزت وے، وے گوید خداوندا بہ برکت ایں بندہ تو کہ رحمت کردۂ بروے واکرام کردۂ او را وبلطف وکرمے کہ بوے داری برآوردہ گرداں حاجت مرا، کہ تو معطی کریمی۔ یا ندا مے کند ایں بندہ مکرم ومقرب را کہ اے بندہ خدا اے ولی وے شفاعت کن مراد بخواہ از خدا کہ بد ہد مسئول ومطلوب مرا وقضا کند حاجت مرا۔ پس معطی ومسئول ومامول پروردگار است تعالیٰ وتقدس ونیست ایں بندہ درمیان مگر وسیلہ۔ ونیست قادر وفاعل ومتصرف در وجود مگر حق سبحانہ و اولیاء خدا فانی وہالک اند در فعل الٰہی وقدرت وسطوت وے ونیست ایشاں را فعل وقدرت و تصرف نہ اکنوں کہ درقبور اند ونددر آں ہنگام کہ زندہ بودند در دنیا۔
عبدالحق محدث دهلوی، اشعۃ اللمعات، 3: 401
’’کاش میری عقل ان لوگوں کے پاس ہوتی! جو لوگ اولیاء اللہ سے استمداد اور ان کی امداد کا انکار کرتے ہیں، یہ اس کا کیا مطلب سمجھتے ہیں؟ جو کچھ ہم سمجھتے ہیں، وہ یہ کہ دعا کرنے والا، اللہ کا محتاج ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا، اس سے اپنی حاجت کو طلب کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ولی و مقرب کا وسیلہ پیش کرتا ہے۔ وہ عرض کرتا ہے کہ اے اللہ! تو نے اپنے اس بندۂ مکرم پر جو رحمت فرمائی ہے اور اس پر جو لطف و کرم کیا ہے اس کے وسیلہ سے میری اس حاجت کو پورا فرما کہ تو دینے والا کریم ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اس اللہ کے ولی کو ندا کرتا ہے اور اس کو مخاطب کر کے یہ کہتا ہے کہ اے بندہ خدا اور اے اللہ کے ولی! میری شفاعت کریں اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ وہ میرا سوال اور مطلوب مجھے عطا کرے اور میری حاجت برلائے، سو عطا کرنے والا اور حاجت کو پورا کرنے والا(ہر دو صورتوں میں) صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ بندہ درمیان میں صرف وسیلہ ہے جبکہ قادر، فاعل اور اشیاء میں تصرف کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اولیاء اللہ، اللہ تعالیٰ کے فعل، سطوت، قدرت اور غلبہ میں فانی اور ہالک ہیں اور اِن کو اب قبر میں افعال پر(اُس جیسی) قدرت اور تصرف حاصل ہے اور نہ اس وقت قدرت اور تصرف حاصل تھا جب وہ زندہ تھے۔‘‘
5۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ لکھتے ہیں:
اما قرب نوافل آنست کہ صفاتِ بشریہ سالک از وے زائل شود و صفاتِ حق بروئے ظاہر آئیند. چنانچہ زندہ گرداند مردہ را و بیمراند زندہ را باذن اللہ و بشنود و بیند از جمیع بدن خود و بشود مسموعات را وبہ بیند مبصرات را از بعید۔ وعلی ھذا القیاس باقی صفات و ے سوائے ایں وہمیں فنائے صفات بندہ است بصفاتِ حق تعالی و ایں ثمرہ نوافل است.
امداد اللہ مہاجر مکی، ضیاء القلوب: 30
’’قربِ نوافل یہ ہے کہ سالک کی بشری صفات اِس سے زائل ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات اُس پر ظاہر اور غالب آ جائیں۔ چنانچہ وہ بندہ اللہگ کے اذن سے مردوں کو زندہ کرنے لگے اور زندہ لوگوں کو مارنے لگے اور تمام بدن کے ساتھ سنے و دیکھے۔ تمام مسموعات کو سنے اور مبصرات کو دیکھے۔ اِسی پر قیاس کرتے ہوئے اُس کی دیگر صفات بھی فنا ہو جائیں اور یہی ہے بندے کی صفات کا فنا ہونا اللہ تعالیٰ جل شانہ کی صفات کے ساتھ۔‘‘
6۔ علامہ ابنِ قیمؒ لکھتے ہیں:
ھذہ الفراسۃ نشأت لہ من قربہ من اللہ فإن القلب إذا قرب من اللہ انقطعت عنہ معارضات السوء المانعۃ من معرفۃ الحق وإدراکہ کان تلقیہ من مشکاۃ قریبۃٍ من اللہ تعالٰی بحسب قربہ منہ وأضاء لہ النور بقدر قربہ فرأی فی ذلک النور ما لم یرہ البعید والمحجوب کما ثبت فی الصحیح من حدیث أبی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیما یروی عن ربہ ل أنہ قال: ما تقرّب إلیَّ عبدی بمثل ما افترضت علیہ ولا یزال عبدی یتقرّب إليَّ بالنوافل…
ابن قیم،کتاب الروح: 138، 139
’’یہ فراست و بصیرت بندۂ مؤمن کے لیے اللہ جل شانہ کے قرب سے پیدا ہوتی ہے، کیونکہ قلب جب اللہ ل کے قریب ہو جاتا ہے تو اس سے وہ تمام فواحش اور برائی والے موانع دور ہو جاتے ہیں جو بندے کو اس معرفتِ ربانی اور اس کے ادراک سے باز رکھتے ہیں جس کی معرفت و علم کا حصول بندے کے قرب کے مطابق اللہ تعالیٰ کے قریب والی مشکاۃ (نور) سے ہوتا ہے،پھر بندے کے قرب کے مطابق اس کیلئے نور حق روشن ہو جاتا ہے۔پس وہ اس نور کی روشنی میں وہ کچھ دیکھتا ہے جس کو دور والا اور محجوب شخص نہیں دیکھ سکتا، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ثابت ہوتا ہے جسے انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ ان احادیث میں سے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب سے روایت فرماتے ہیں (یعنی حدیثِ قدسی) جس میں اللہ جل شانہ نے فرمایا: میرا بندہ ان فعال کی وجہ سے میرے قریب نہیں ہوتا جو میں نے اس پر فرض کئے ہیں بلکہ میری قربت اسے ان افعال کے سبب نصیب ہوتی ہے جو نوافل کے درجے میں ہیں۔‘‘
زیرِبحث حدیثِ قدسی کی تعبیر و تشریح کرتے ہوئے بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بندہ محبوب کے کان آنکھ وغیرہ بننے کا یہ معنی و مفہوم نہیںکہ وہ سراسر نور بن جاتے ہیں اور قریب و بعید سے سنتے دیکھتے اور تصرف کر سکتے ہیں بلکہ اِس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہو جاتے ہیں۔ہمارے نزدیک یہ محض مغالطہ ہے جو حدیثِ مبارکہ کا صحیح معنی ومفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ اسکے درج ذیل جوابات ہیں:
1۔ پہلا جواب تو یہ ہے کہ مندرجہ بالا مفہوم الفاظِ حدیث کے صریح خلاف ہے، حدیث کے الفاظ اس تشریح و تعبیر کی تائید نہیں کرتے۔ حدیث کے الفاظ واضح ہیں: کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِی یَسْمَعُ بِہِ، وَ بَصَرَہُ الَّذِی یُبْصِرُ بِہِ، وَ یَدَہُ الَّتِی یَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَہُ الَّتِی یَمْشِیْ بِهَا (میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے۔ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے۔ اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے پکڑتا ہے۔ اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن کے ساتھ وہ چلتا ہے۔) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ اقدس سے اللہ ل کی طرف سے مطلقاً فرمان صادر ہوا ہے، جسے اپنے عقیدہ کو بچانے کے لئے محض عقلی بناء پرمقید نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا صرف یہ کہنا کہ اس سے مراد اعضاء وجوارح کا اللہ رب العزت کے تابع ہونا ہے، صراحۃً غلط اور باطل ہے۔
2۔ اگر معترض کو اس سے بھی تسلی نہیں ہوئی تو حدیث کے اگلے الفاظ کی کیا تشریح ہوگی، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَإنْ سَأَلَنِی لَأُعْطِیَنَّہُ وَلَئِن اسْتَعَاذَنِی لَأُعِیْذَنَّہُ (اگر وہ محبوب بندہ مجھ سے سوال کرے گا تو میں اسے ضرور بالضرور مطلوبہ چیز عطا کروں گا اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرے گا تو ضرور بالضرور اس کو پناہ مہیا کروں گا۔) اگر مقرب و محبوب بندہ کے صرف اعضائ، اللہ تعالیٰ کے تابع ہوئے ہیں، اور اس کو بارگاہِ الٰہی سے نور اور روحانیت نصیب نہیں ہوئی تو اس کے سوال کو پورا کرنے اور پناہ عطا کیے جانے کو اتنی تاکید سے کیوں بیان فرمایا ہے۔ تاکید در تاکید سے بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مقربانِ الٰہی کو خاص الخاص مقام عطا ہوتا ہے جو کسی دوسرے کو نہیں ملتا۔
3۔ جس بندے نے ساری زندگی اطاعتِ الٰہی میں بسر کر دی ہو اور فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل پر بھی مداومت اختیار کی ہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس کے اعضاء وجوارح پہلے ہی سے اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرمان بردار تھے جس بناء پر وہ محبوبِ حقیقی کی اطاعت و عبادت میں مشغول رہا اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ بن گیا۔ اگر معترضین کی تعبیر و تشریح کو مان لیا جائے تو یہ بڑی حیرت والی بات ہوگی کیونکہ وہ بندہ جس نے ساری زندگی مداومتِ نوافل پر بسر کر دی ہے کیا محبوبیت کے بلند درجہ پر فائز ہونے کے بعد اب وہ اس قابل ہوا ہے کہ اس کے ’اعضاء و جوارح‘ اللہ کے ’مطیع‘ ہوں؟ وہ جو ساری زندگی قیام، قعود اور حالتِ جنوب میں رب العزت کو پکارتا رہا ہے کیا نافرمانی کے ساتھ پکارتا رہا ہے؟ افسوس صد افسوس ! ایسے حضرات نے قرآن و حدیث کو سمجھنے میں نہایت غلطی کی ہے۔ کاش! وہ قرآن و حدیث کے ان نصوص پر غور کر تے جن کے ذریعہ دورانِ عبادت ہی ہمیں اپنے اعضاء و جوارح کو اطاعتِ الٰہی میں رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور قبولیتِ عبادت کا انحصار ہی اس بات پر ہے کہ دورانِ عبادت ہمارے اعضاء بھی اللہ رب العزت کے تابع ہوں۔
(1) اللہ رب العزت نے ’نمازیوں‘ کے بارے میں فرمایا:
فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَo الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَo
الماعون، 107: 4۔5
’’پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لئے۔ جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں۔‘‘
(2) اللہ رب العزت نے ’صدقات‘ کے بارے میں فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی.
البقرۃ، 2: 264
’’ایمان والو! اپنے صدقات احسان جتا کر اور دُکھ دے کر برباد نہ کر لیا کرو۔‘‘
(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہُ مِنْ صَیَامِہِ إلَّا الْجُوْعُ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب الصیام، باب ما جاء فی الغیبۃ والرفث للصائم، 1: 539، رقم: 1690
’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزوں سے سوائے بھوک کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
درج بالا قرآنی آیات اور حدیثِ مبارکہ کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی عمل خواہ ’نماز، روزہ اور صدقہ‘ ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ کے حضور اس وقت تک ’قبولیت‘ کے درجہ پر فائز نہیں ہوتا جب تک کہ انسان کے اعضاء اور خیال بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں نہ ہوں۔ یاد رکھیں کہ ان نصوص میں ’عَبد‘ (صرف بندہ)کی بات ہو رہی ہے ’عَبْدِی‘ (میرا بندہ) کی نہیں۔ جب بندہ ہر لحاظ سے اطاعت میں کامل ہوتا ہے اور اس کے تصور و خیال اور ذہن و فکر میں اُس ’اللہ‘ کے سوا کسی غیرکی محبت اور تصور باقی نہیںرہتا تو وہ ’عَبد‘ سے ’عَبْدِی‘ کے مقام پر پہنچتا ہے اور ’ عَبْدُہُ ‘ (اللہ کا بندہ) بن کر ’محبوبیت‘ کے درجہ پر فائز ہوتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں محبوبیت کے مقام پر فائز ہونے والے ’مقرب بندے‘ کے اعضاء و جوارح ظاہراً تو اس کے نظر آ رہے ہوتے ہیں لیکن اُن میں قوت، نور اور روح باری تعالیٰ کی طرف سے کار فرما ہوتی ہے۔
مزید تسلی کے لئے دیوبند کے معروف محدّث علامہ انور شاہ کاشمیری کی شرحِ حدیث ملاحظہ فرمائیں:
أما علماء الشریعۃ فقالوا: معناه أن جوارح العبد تصیر تابعۃ للمرضاۃ الإلھیۃ حتی لا تتحرک إلا بما یرضی به ربه فإذا کانت غایۃ سمعه و بصره و جوارحه کلھا ھوالله سبحانه فھی حینئذ صحّ ان یقال إنه لا یسمع إلا له و لا یتکلم إلا له وکان الله سبحانه صار سمعه و بصره.
قلت: وهذا عدول عن حق الألفاظ لأن قوله کنت سمعه بصیغۃ المتکلم یدل علی أنه لم یبق من التقرب بالنوافل إلا جسده وشبحه وصار المتصرف فیه الحضرۃ الإلهیۃ فحسب.
انور شاه کاشمیری، فیض الباری، 4: 428
’’تاہم بعض علمائے شریعت نے کہا ہے: اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ بندہ کے جوارح اور اعضاء اللہ رب العزت کی رضا مندیوں کے تابع ہو جاتے ہیں حتی کہ وہ اللہ کی رضا اور امر کے علاوہ ازخود حرکت نہیں کرتے۔ پس جب اِس کے کان آنکھ اور تمام اعضاء وجوارح کی غایت اللہ تعالیٰ کی ذات ہو تو اُس وقت اِن کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہو گا کہ وہ نہیں سنتا مگر اللہ تعالیٰ کے لئے اور نہیں کلام کرتا مگر اللہ جل شانہ کے لئے۔ گویا اللہ تعالیٰ اُس کے کان، آنکھ ہو گیا ہے۔
میں کہتا ہوں: اِس معنی میں حقیقی مفہوم و مراد سے دوری پیدا ہو رہی ہے اس تعبیر سے حدیثِ مبارکہ کے کلماتِ مقدسہ کے تقاضوں کا حق پورا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ’’کُنتُ سَمْعَہُ‘‘ صیغہ متکلم کے ساتھ اِس امر پر دال ہے کہ نوافل کے ذریعہ قرب حاصل کرنے والے کا صرف جسم اور ظاہری ڈھانچہ باقی رہ گیا اور اُس میں مدبر و متصرف اور کارساز صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مقدسہ ہے۔‘‘
دیگر شارحینِ حدیث کی طرح علامہ انور شاہ کاشمیری نے بجا طور پر حدیث کے مذکورہ بالا مفہوم کی تصحیح فرمائی ہے اور مرادی معنی کو اجاگر کیا ہے۔ اگر بہ دقتِ نظر دیکھا جائے تو دونوں معانی میں درحقیقت کوئی تضاد نہیں۔ کیونکہ مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کے اعضاء و جوارح کے نورانی بن جانے کے بعد اللہ تعالی کی صفاتِ کاملہ کا مظہر بن جانے اور رضائے ربانی کی رضامندیوں کے تابع ہو جانے میں کوئی تعارض یا تناقض ہے ہی نہیں۔ بہ الفاظ دیگر ایک معنی کا اثبات دوسرے معنی کی نفی کو مستلزم نہیں ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب نفس کی تاریکی و ظلمت اور گناہوں کی آلائش غالب رہے گی تو برائیوں کی طرف میلان و رجحان بھی رہے گا اور جوں جوں فرض عبادت و ریاضت اور مجاہدہ و تقویٰ میں ترقی ہوتی جائے گی ویسے ویسے نفسانی خواہشات دم توڑتی جائیں گی۔ اِس طرح نفس کو نیکی اور بھلائی والے اُمور میں اطمینان و تسلی اور سکون و راحت محسوس ہوگی اور فواحش و منکرات کی طرف اس کا میلان ختم ہوتا چلا جائے گا۔ جب حواس، اعضاء و جوارح اورقلب و روح اطاعتِ الٰہی میں مکمل طور پر نورانی ہو جائیں گے اور تقویٰ اور احکامِ شریعت کی پابندی طبیعتِ ثانیہ اور طبعی تقاضا بن جائے گی تو طبیعت پر جبر و اکراہ کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ پھر اس مطیع، محب اور متقی بندے کے افعال، ارادے اور اوصاف اس کے اپنے نہیں بلکہ اس میں متصرف ذاتِ باری تعالیٰ کی رضا کے تابع ہوں گے۔ جب کسی بندۂ خاص کو اس قدر مماثلت اور فنائیت حاصل ہو جائے تو لامحالہ وہ بندہ صفاتِ الہٰیہ کا مظہر ہو گا جب مظہر صفات ہو گیا تو اس میں تدبر و تصرف تو متصرف حقیقی کا ہی ہو گا۔ بندے کی اپنی ذات اور مرضی اب اس کے اختیار و قدرت میں نہیں رہے گی۔ وہ انوارِ الہٰیہ کا مظہر بھی ہو گا اور تصرفِ الہٰیہ کا محل بھی۔
اِس طرح دونوں مفاہیم میں منافات اور تضادات کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور دونوں اپنے اپنے محل اور مرتبہ میں پورا ہو جاتے ہیں۔ اگر معنی یہ مراد لیا جائے کہ ’’وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہو جاتے ہیں‘‘ تو یہ بھی غلط نہیں کیونکہ رب تعالیٰ کا مظہر ہونے کے لئے ابتدائی مرحلہ (stage) یہی ہوتی ہے، اور دوسرا معنی جب یہ کریں کہ وہ سراسر نور بن جاتے ہیں اور اُن کا تصرف کرنا ذاتی نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا مظہر کہلاتا ہے تو اِس معنی کی تغلیط و تردید کرنا بھی قطعاً درست نہیں ہے، کیونکہ ترقی کے اعتبار سے یہ آخری مرحلہ (stage) ہوتی ہے جب بندہ باری تعالیٰ میں فنا ہو چکا ہوتا ہے۔
جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ جب تک بندہ مومن اپنے آپ کو شریعتِ مطہرہ کا پابند نہ بنائے اور فرائض و واجبات بلکہ مستحبات کا التزام و اہتمام نہ کرے، محرمات و مکروہاتِ تحریمہ بلکہ تنزیہہ سے اجتناب پر ثابت قدم نہ ہو تو وہ محبوبیت کے درجہ پرفائز ہو ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا جو امر محبوبیت کے درجہ پر فائز ہونے کا سبب ہے اِس کو مقامِ محبوبیت کا نتیجہ و ثمر قرار دینا کس طرح مناسب ہو سکتا ہے؟ بصورتِ دیگر تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ فسق و فجور اور معصیت و سرکشی میں مبتلا لوگوں کو بھی دوست و محبوب بناتا ہے۔ الغرض پہلا معنی مراد لینا اور دوسرے معنی کی تردید کرناچنداں درست نہیں ہے۔
بعض لوگ قربِ نوافل و فرائض والی اس حدیثِ قدسی کے ثمرات و فوائد یعنی فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے عقیدہ کو ہندوؤں کے عقیدے ’’حلول و اتحاد‘‘ پر قیاس کر کے شرک کا فتویٰ صادر کر دیتے ہیں۔ فی الواقع یہ سخت عدوان و طغیان ہے کیونکہ جمہور مسلمین اِس حدیثِ قدسی سے حلول و اتحاد و الا فاسد و باطل عقیدہ ہرگز مراد نہیں لیتے۔
جمہور اُمت کا عقیدہ یہ ہے کہ مقبولانِ بارگاہِ الٰہی انبیاء و اولیاء کا ذاتِ حق کے جو تعلق قرب ہوتا ہے اس سے اِن کی ذوات و صفات نورانی بن جاتی ہیں۔ جس سے وہ عام اِنسانوں بلکہ عام اہلِ ایمان کی ذوات و صفات سے منفرد و ممتاز ہو جاتی ہیں مثلاً جس طرح سورج کا تعلق زمین سے ہوتا ہے اور یہ تعلق حلول و اتحاد والا نہیں بلکہ صرف تقابل والا ہے لیکن زمین کی ساری آبادی، اس کی بہاریں اور زندگی و پائندگی اِسی کے مرہونِ منت ہے۔ بعض عرفا نے لوہے اور آگ کی تمثیل سے بھی یہ تعلق قربت و ربط سمجھایا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ لوہے اور آگ میں حلول و اتحاد والا تعلق نہیں بلکہ اتصال و قرب والا تعلق و ربط ہے۔ یعنی لوہا جب ایک مخصوص وقت کے لئے دھکتی ہوئی آگ کے قریب پڑا رہے تو اس کے اندر رنگ اور اثر جیسی خصوصیات تو آگ والی ہی پیدا ہو جاتی ہیں لیکن یہ لوہے کے اندر آگ کا حلول و اتحاد نہیں بلکہ اس کی قربت اور اثر کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح حدیثِ قدسی قربِ فرائض و نوافل سے بندے اور اللہ تعالیٰ کے مابین حلول و اتحاد والا تعلق قائم ہونا لازم نہیں بلکہ محبوبانِ الٰہی کو قربِ خاص اور پرکیف و صل حاصل ہوتا ہے جس کی بدولت وہ اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کے مظہر بن جاتے ہیں:
اتصال بے تکیف و بے قیاس
ہست ربُ الناس را باجانِ ناس
اگر کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ کے نور کا ظہور ہوسکتا ہے اور وہ اُس سے منور و مستنیر ہو سکتا ہے۔ تو انبیاء و اولیاء کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی قربت کے ذریعے اس کی صفاتی افعال و انوار کا محل قرار دینا کیوں صحیح نہیں۔ اگر چودھویں کے چاند میں سورج کا حلول و اتحاد مانے بغیر اِس کو مظہر اور آئینہ انوارِ شمسیہ کہا جاسکتا ہے تو مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کو یقینا انوارِ الہٰیہ اور آئینہ تجلیات ربّانیہ کہا جاسکتا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدّث دہلویؒ اِس ضمن میں لکھتے ہیں:
وفي ھذا المقام یتحقق السیر فی الله فإن العبد بعد الفناء المطلق الذی هو فناء الذات و فناء الصفات یخلع علیه الوجود الحقانی حتی یتشرف بذلک الوجود بالأوصاف الإلھیۃ ویتخلق بالأخلاق الربانیۃ و في ھذا المقام یتحقق مرتبۃ بی یسمع و بی یبصر و بی یبطش و بی یمشی و بی یعقل، فإن الذات والصفات الفانیۃ فی ھذا المقام تتبدل بکسوۃ الوجود الباقی خارجۃ من قبر الخفاء الی محشر الظهور.
شاه ولی الله ، الانتباه فی سلاسل أولیاء الله ، فصل فی الفناء والبقاء: 53
’’اِس مقامِ فناء میں سیر فی اللہ متحقق ہوتی ہے کیونکہ فنائِ مطلق یعنی فنائِ ذات اور فنائِ صفات کے بعد بندہ کو وجودِ حقانی کی خلعت پنہائی جاتی ہے حتی کہ اِس وجودِ حقانی کی بدولت وہ اوصاف ربّانیہ کے ساتھ متصف ہو جاتا ہے اور وہ اخلاقِ الہٰیہ کے ساتھ انوار و تجلیات میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ تب وہ صفاتِ ربانیہ کے انوار و برکات اور فیضان سمیٹنے کے قابل ہو جاتا ہے وہ بندہ ذکر کو جس قدر لازم پکڑے گا اُسی کے مطابق ثمرہ و نتیجہ کا ظہور ہو گا۔‘‘
لہٰذا یہ امر عیاں ہوگیا کہ حُلول و اتحاد کے باطل ہندوانہ عقیدہ سے اہلِ ایمان کا کوئی تعلق نہیںہے۔ یہ دونوں جُدا جُدا چیزیں ہیں۔ حلول و اتحاد علیحدہ امر ہے اور قرب و وصلِ خداوندی میں فنا فی اللہ اور بقا باللہ علیحدہ امر ہے۔ اِن دونوں کو گڈمڈ کرنا اور ایک دوسرے پر قیاس کرنا کم علمی اوربے بضاعتی کی علامت ہے۔
حدیثِ قدسی کا ائمۂ محدثین کے نزدیک معنی و مفہوم یہ ہے کہ عبادت و ریاضت، فرائض کی پابندی اور نوافل کی کثرت و فراوانی سے بندہ مؤمن اپنی جسمانی کثافت اور نفسانی ظلمات سے خلاصی حاصل کر لیتا ہے۔ جب اسے علم و عمل اور تقویٰ کا نور حاصل ہو جاتا ہے اور اُس کی روحانیت پوری طرح نکھر جاتی ہے تو وہ پیکرِ نور بن جاتا ہے پھر وہ زندگی میں بھی اور بعد از وصال بھی بعطائے الٰہی اپنے متوسلین کی مدد و اعانت کرنے پر قادر ہوتا ہے۔
انبیاء و اولیاء اور اصنام و اوثان کو ایک سطح پر رکھتے ہوئے دونوں سے استعانت و استمداد کرنے والوں کو مشرک قرار دینا خوارج اور برہمنوں سے مستعار لیا گیا وطیرہ ہے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے ایک برہمن کے سوال کا جواب دیتے ہوئے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے۔ ذیل میں ہم پہلے برہمن کا سوال درج کر رہے ہیں اور بعد میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کا جواب۔ سوال سے مسئلے کی اصل نوعیت سمجھ آجاتی ہے اور جواب سے عقیدہ صحیحہ معلوم ہو جاتا ہے۔
شما از اہلِ قبور مدد و شفاعت می طلبید با ید کہ برشما ہم شرک عائد شود۔ القصّہ ہرچہ مقصد شما و مراد شما از اہلِ قبور است ہماں قسم مقصود من از صورت کنہیا و کالکاہست بحسب ظاہر نہ قوت اہلِ قبور دارند و نہ بت۔ واگر کوئی بقُوّتِ باطن اہلِ قبور کشائش حالات می نمایند بسا جا از بتاں ہم روائی حاجات می شود۔ واگر میگوئید کہ بایشاں میگویم کہ از خدا برائے ما شفاعت بخواہید من از بتاں ہمیں استدعا دارم.
شاہ عبدالعزیز، فتاویٰ عزیزی، 2: 108
’’تم اہلِ قبور سے مدد اور شفاعت طلب کرتے ہو۔ پس چاہیئے کہ تم پر بھی ہماری طرح شرک عائد کر دیا جائے کیونکہ جو مقصد و مطلب تمہارا اہلِ قبور سے مدد و استعانت میں ہے وہی ’’کنہیا‘‘ اور ’’کالکا‘‘ کی صورتوں سے ہمارا مقصود و مدعا بھی ہے۔ ظاہری اعتبار سے نہ اہلِ قبور میں طاقت و قدرت ہے اور نہ ہی بتوں میں قدرت و طاقت ہے اور اگر باطنی قوت سے اہلِ قبور مشکل کشائی اور حاجت روائی کرسکتے ہیں تو بسا اوقات ان بتوں سے بھی حاجت روائی ہو جاتی ہے اور اگر تم اہلِ قبور کے پاس اس لئے آتے ہو تاکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہاری شفاعت کریں تو ہم بھی اپنے بتوں سے یہی استدعا کرتے ہیں۔‘‘
اس عبارت سے یہ امر واضح ہو رہا ہے کہ انبیاء و اولیاء کو اصنام و اوثان کی طرح سمجھنے والے لوگ ہندوانہ سوچ کے حامل ہیں۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ فتاویٰ عزیزیہ میں اس برہمنی سوچ کا تدارک کرتے ہوئے جواب دیتے ہیں۔ ترجمہ ملاحظہ کریں:
’’مدد و استعانت کا چاہنا دو قسموں پر مشتمل ہے۔ پہلی قسم یہ ہے کہ مخلوق سے مدد مانگنا جیسے امیر اور بادشاہ سے نوکر اور گدا اپنے مشکل اور اہم معاملات میں مدد طلب کرتے ہیں اور عوام الناس اولیاء اللہ سے استدعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ہمارا فلاں مطلوب و مقصود طلب کریں۔ مدد و استعانت کی یہ قسم شریعتِ مطہرہ میں زندہ اور فوت شدہ ہر دو سے جائز ہے۔
’’دوسری قسم مدد و اعانت کی یہ ہے کہ مستقل طور پر وہ چیز جو بارگاہِ الٰہی سے براہِ راست تعلق رکھتی ہے مثلاً بیٹا عطا فرمانا، بارش برسانا امراض دور کرنا اور درازئ عمر وغیرہ عطا کرنا جو اللہ تعالیٰ سے طلب کی جاتی ہیں وہی مخلوق سے اسی نیت، ارادے اور طریقے سے طلب کی جائیں تو مدد و استعانت کی یہ قسم حرامِ مطلق بلکہ کفر ہے اور اگر اہلِ ایمان میں سے کوئی آدمی اپنے مذہب کے اولیاء (زندہ ہوں یا فوت شدہ) سے اس طرح کی استمداد و استعانت کرتا ہے تو وہ دائرہ اسلام اور زمرۂ اہلِ ایمان سے خارج ہو جائے گا۔ اس کے برعکس بت پرست اسی طرح کی مدد و اعانت اپنے معبودانِ باطلہ سے طلب کرتے ہیں اور اس کو جائز سمجھتے ہیں … اور یہ جو کہا گیا ہے کہ اہلِ قبور سے جو تمہارا مقصود ہے وہی ہمارا کنہیا اور کالکا وغیرہ سے ہے۔ یہ قول صریحاً غلط ہے کیونکہ ارواح کا اپنے بدن کے ساتھ جو قبر میں مدفو ن ہیں یقینا تعلق قائم ہوتا ہے کیونکہ عرصہ دراز تک اس میں قیام پذیر رہے ہیں اس کے برعکس ہندو برہمن لوگ تو اپنے معبودوں کی قبروں کی تعظیم ہی نہیں کرتے ( کیونکہ ہندو ؤں کے بتوں کی تو قبریں ہی نہیںہوتیں)بلکہ اپنی طرف سے صورتوں اور تراشیدہ پتھروں کو اور درختوں اور دریاؤں کو کہہ دیتے ہیں کہ یہ فلاں کی صورت ہے قطع نظر اس کے کہ اس چیز کا اس آدمی کی روح کے ساتھ کوئی تعلق ہو۔‘‘
شاہ عبد العزیزؒاس حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ علامہ سعد الدین تفتازانی نے شرح مقاصد میں بیان کیا ہے:
’’قبور کی زیارت سے وفات یافتوں کے پاکیزہ نفوس سے نفع حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ جسم سے جدا ہونے والے نفس اور روح کو اپنے جسم سے اور قبر سے تعلق ہوتا ہے جس میں دفن کیا جاتا ہے لہٰذا جب زندہ شخص اس قبر کی زیارت کرتا ہے اور میت کے روح کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو دونوں نفوس و ارواح کے درمیان ملاقات پائی جاتی ہے اور فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں۔‘‘
شاہ عبدالعزیز، فتاویٰ عزیزی، 2: 158
پس شاہ عبد العزیز ؒکے اس جواب سے واضح ہو گیا کہ انبیاء و اولیاء کو اصنام و اوثان کی طرح سمجھنا بالکل غلط ہے کیونکہ جب اصنام و اوثان کی قبریں ہی نہیں ہوتیں تو وہ کس طرح انبیاء و اولیاء کے مقدس ذوات اور ارواح کی مثل ہو سکتے ہیں ؟ اَہل ایمان تو انبیاء و اولیاء کی مبارک قبروں پر حصولِ فیض کیلئے اس لئے جاتے ہیں کہ قبروں کے اندر ان کی مقدّس اَرواح کا ان کے پاکیزہ نفوس کے ساتھ تعلق قائم رہتا ہے۔
درج بالا عبارت سے یہ امر بھی عیاں ہوگیا کہ انبیاء و اولیاء اور اصنام و اوثان کو ایک سطح پر رکھتے ہوئے انبیاء کرام علیہم السلام اور و اولیاء عظام سے استعانت و استمداد کرنے والوں کو مشرک قرار دینے والے لوگ ہندوانہ سوچ کے حامل ہیں جبکہ قرآن و حدیث کے قوی دلائل سے ثابت ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام سے استعانت و استمداد کرنا جائز ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved