گزشتہ صفحات میں ہم نے اِس اَمر کو قرآن و حدیث سے خوب واضح کر دیا ہے کہ جو لوگ اِذنِ اِلٰہی سے منصبِ شفاعت پر فائز ہیں وہ روزِ قیامت شفاعت کریں گے، اِن میں انبیاء، اولیاء اور صالحین ہیں۔ اس کے برعکس قرآن حکیم میں جن مقامات پر بھی نفیٔ شفاعت وارد ہوئی ہے اس کے مصداق کفار و مشرکین اور ان کے معبودانِ باطلہ ہیں۔ وہ نہ تو خود اس منصب کے اہل ہیں اور نہ کسی کی شفاعت کی بدولت جہنم سے خلاصی پا سکتے ہیں یعنی شفاعت کفار و مجرمین کے حق میں ہر گز بھی فائدہ مند نہیں ہوگی۔
1۔ سورۃ البقرۃ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاتَّقُوْا یَوْماً لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا هُمْ یُنْصَرُوْنَo
البقرۃ، 2: 48
’’اور اُس دن سے ڈرو جس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے کچھ بدلہ نہ دے سکے گی اور نہ اس کی طرف سے (کسی ایسے شخص کی) کوئی سفارش قبول کی جائے گی (جسے اذنِ الٰہی حاصل نہ ہو گا) اور نہ اس کی طرف سے (جان چھڑانے کے لئے) کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ (امرِ الٰہی کے خلاف) ان کی امداد کی جا سکے گی۔‘‘
2۔ اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّلَا یُقْبَلُ مِنْھَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُھَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا هُمْ یُنْصَرُوْنَo
البقرۃ، 2: 123
’’اور اس دن سے ڈرو جب کوئی جان کسی دوسری جان کی جگہ کوئی بدلہ نہ دے سکے گی اور نہ اس کی طرف سے (اپنے آپ کو چھڑانے کے لئے) کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ اس کو (اذنِ الٰہی کے بغیر)کوئی سفارش ہی فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ (امرِ الٰہی کے خلاف) انہیں کوئی مدد دی جا سکے گی۔‘‘
سورۂ بقرہ کی درج بالا آیت نمبر 48 کے تحت ائمۂ تفسیر کی درج ذیل تصریحات اس اَمر پر دلالت کرتی ہیں کہ یہاں کافروں سے شفاعت کی نفی مرادہے۔
1۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک {لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ} سے مراد ہر نفس نہیں بلکہ صرف نفسِ کافر ہے۔ اس کے بعد {وَلَا یُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌ} میں بھی ’’ھا‘‘ ضمیر کا مرجع نفس ہونے کی وجہ سے ’’نفسِ کافر‘‘ ہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
لا تغنی نفس کافرة عن نفس کافرة من عذاب الله شیئًا.
فیروز آبادی، تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس: 8
’’کوئی کافر نفس کسی دوسرے کافر نفس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکے گا۔‘‘
2۔ امام قرطبیؒ کے نزدیک بھی اس سے مراد نفس کافر ہی ہے، فرماتے ہیں:
النفس الکافرۃ لا کل نفس.
قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1:379
’’(آیتِ مبارکہ میں نفس سے مراد) نفسِ کافر ہے نہ کہ ہر نفس۔‘‘
3۔ امام نسفیؒ (م 710ھ) فرماتے ہیں:
أی لا یقبل منھا شفاعۃ للکافرۃ.
نسفی، مدارک التنزیل و حقائق التأویل، 1:47
’’یعنی اُس سے کافر کے بارے میں شفاعت قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
4۔ امام خازنؒ (م 741ھ) فرماتے ہیں:
والمعنی لا تقبل الشفاعۃ إذا کانت النفس کافرۃ.
خازن، لباب التأویل في معاني التنزیل، 1: 48
’’اس کا معنی یہ ہے کہ نفسِ کافر سے شفاعت قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
5۔ امام ابنِ کثیرؒ (م 774ھ) فرماتے ہیں:
{وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَۃٌ} یعنی من الکافرین.
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1: 89
’’اور ان سے شفاعت قبول نہیں کی جائے گی‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ کافروں سے شفاعت قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
ان اجل ائمۂ تفسیر کی تشریح و تعبیر سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ مذکورہ آیاتِ قرآنیہ میں کفار سے شفاعت کی نفی مراد ہے نہ کہ مومنین سے۔
اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامینِ عالیہ سے یہ ثابت ہے کہ اللہ کے نیک اور صالح بندوں کی سنگت اور صحبت آخرت میں فائدہ مند ہو گی جبکہ کفار و مشرکین اور مجرمین کی دوستی کسی کام نہ آئے گی اور نہ ایسے لوگوں کے لئے حقِ شفاعت ثابت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰـٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّأْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ ط وَالْکٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَo
البقرۃ، 2: 254
’’ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور (کافروں کیلئے) نہ کوئی دوستی (کارآمد) ہوگی اور نہ (کوئی) سفارش، اور یہ کفار ہی ظالم ہیں۔‘‘
مذکورہ آیتِ کریمہ میں روزِ محشر درج ذیل تین چیزوں کی نفی کی گئی ہے:
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ.
البقرۃ، 2: 254
’’وہ دن جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی۔‘‘
قرآن حکیم نے کسی دوسرے مقام پر روزِ قیامت بیع کا اثبات نہیں فرمایا۔ لہٰذا اس آیتِ کریمہ میں مطلق بیع کی نفی مذکور ہے۔یعنی کفار اور مؤمنین میں سے کوئی شخص بھی روزِ قیامت بیع نہیں کرسکے گا۔
مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں دوسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ قیامت کے روز کوئی دوستی کام نہ آئے گی لیکن قرآن حکیم میں دوسرے مقا م پر خود اللہ تعالیٰ نے اس حکم سے مومنین و متقین کو مستثنیٰ فرما دیا۔ ارشادِ ربانی ہے:
الْاَخِـلَّـآءُ یَوْمَئِذٍ م بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَo
الزخرف، 43: 67
’’سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (اُنہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی)۔‘‘
نصِ قرآنی سے ثابت ہوا کہ وہ دوستی جس کی بنیاد تقویٰ پر ہو روزِ قیامت کام آئے گی۔ جس دوستی کی نفی ہے وہ کفار و مشرکین کی دوستی ہے۔
تیسری نفی اس مقام پر شفاعت کی ہے۔ لیکن قرآن حکیم نے دیگر بہت سے مقامات پر اس کا اثبات فرمایا ہے، ارشاد فرمایا گیا:
وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ.
سبا، 34: 23
’’اور اس کی بارگاہ میں شفاعت نفع نہ دے گی سوائے جس کے حق میں اس نے اذن دیا ہوگا۔‘‘
معلوم ہوا کہ شفاعت کی نفی کافروں سے ہے اور اثباتِ شفاعت مومنین کے لئے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِذن مل چکا ہے۔
سورۃ البقرۃ کی درج بالا آیت نمبر 254 میں ’’وَلَا شَفَاعَۃٌ‘‘ پر چند مفسرین کرام کی تصریحات ملاحظہ کریں:
1۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لا شفاعۃ للکافرین.
فیروز آبادی، تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس: 36
’’لا شفاعۃ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کافروں کے لئے کوئی شفاعت نہیں۔‘‘
2۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:
ولا شفاعۃ إلا بإذن اللہ.
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 3:266
’’اور شفاعت نہیں مگر اللہ کے اذن سے۔‘‘
3۔ علامہ اسماعیل حقی (م 1137ھ) رقمطراز ہیں:
فإن الدلائل قائمۃ علی ثبوت الشفاعۃ للمؤمنین بعد أن یؤذن لهم فیھا.
إسماعیل حقی، روح البیان، 1: 396
’’اذنِ شفاعت کے بعد مومنین کے شفاعت کرنے کے ثبوت میں بہت ساری دلیلیں موجود ہیں۔‘‘
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَیْسَ لَهُمَ مِّنْ دُوْنِہٖ وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَo
الأنعام، 6: 51
’’ان کے لئے اس کے سوا نہ کوئی مددگار ہو اور نہ (کوئی) سفارشی تاکہ وہ پرہیزگار بن جائیں۔‘‘
امام بغوی (م 516ھ) اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
و إنما نفی الشفاعۃ لغیرہ مع أن الأنبیاء والأولیاء یشفعون لأنھم لا یشفعون إلا بإذنہ.
بغوی، معالم التنزیل، 2: 98
’’بے شک شفاعت کی نفی (صالحین کے)غیر کے لئے ہے جبکہ انبیاء و اولیاء شفاعت کریں گے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہی شفاعت کریں گے۔‘‘
قرآن حکیم میں ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اللہ وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیْعٌ ج وَ اِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لَّا یُؤْخَذْ مِنْھا ط اُولٰئِٓکَ الَّذِیْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا کَسَبُوْا ط لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَo
الأنعام، 6: 70
’’اس کے لئے اللہ کے سوا نہ کوئی مدد گار ہوگا اور نہ کوئی سفارشی اور اگر وہ (جان اپنے گناہوں کا) پورا پورا بدلہ (یعنی معاوضہ) بھی دے تو (بھی) اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے کئے کے بدلے ہلاکت میں ڈال دیئے گئے ان کے لئے کھولتے ہوئے پانی کا پینا ہے اور دردناک عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ کفر کیا کرتے تھے۔‘‘
آیتِ مذکورہ میں دو ٹوک انداز میں بیان فرمادیا گیا ہے کہ کافروں کیلئے کوئی شفیع اور مددگار نہ ہوگا۔ خود ائمۂ تفسیر کی تصریحات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے روز جو لوگ بے یار و مددگار ہوں گے وہ اللہ تعالیٰ کے نافرمان سرکش اور کافر ہیں۔
1۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
یعنی الیهود والنصاریٰ ومشرکی العرب.
فیروز آبادی، تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس: 112
’’اس سے مراد یہود، نصاریٰ اور مشرکینِ عرب ہیں۔‘‘
2۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:
أی لا تعلق قلبک بهم فإنهم أهل تعنت.
قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 7: 15
’’آپ کا ان سے کوئی قلبی تعلق نہیں کیونکہ وہ نافرمانی کرنے والے لوگ ہیں۔‘‘
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا نَرٰی مَعَکُمْ شُفَعَآئَکُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِیْکُمْ شُرَکٰٓـؤُا ط لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَکُمْ وَ ضَلَّ عَنْکُمْ مَّا کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَo
الأنعام، 6: 94
’’اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھیںگے جن کی نسبت تم (یہ) گمان کرتے تھے کہ وہ تمہارے (معاملات) میں ہمارے شریک ہیں۔ بیشک (آج) تمہارا باہمی تعلق (و اعتماد) منقطع ہوگیا اور وہ (سب) دعوے جو تم کیا کرتے تھے تم سے جاتے رہے۔‘‘
مذکورہ آیتِ کریمہ میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ مشرکین جن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں، ان کو شفاعت کر نے والا بھی خیال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا تمہارے ساتھ تمہارے شریک نظر نہیں آ رہے۔ تمہارے اور ان کے درمیان رابطہ ختم ہوچکا ہے اور جو تم گمان کرتے تھے وہ جاتا رہا۔ لہٰذا یہ نفی شفاعت مشرکین سے ہے نہ کہ مومنین سے۔
1۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
شفعائکم آلهتکم.
فیروز آبادی، تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس: 115
’’(آیت میں) شفعاء کم سے مرادہے: تمہارے معبودان باطلہ۔‘‘
2۔ اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں علامہ قرطبیؒ (م 671ھ) فرماتے ہیں:
أی الذین عبدتموهم وجعلتموهم شرکاء یرید الأصنام وکان المشرکون یقولون الأصنام شرکاء الله وشفعاؤنا عنده.
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 7: 42
’’(شفعاء کم) یعنی جن کی تم عبادت کرتے تھے اور انہیں شریک بناتے تھے۔ اس سے مراد بت ہیں اور مشرکین کہتے تھے (یہ) بت اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں اور اسی کی بارگاہ میں ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘
3۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ (م 911ھ) فرماتے ہیں:
شفعاء کم الأصنام فی استحقاق عبادتکم شرکاء ﷲ.
سیوطی، جلالین: 140
’’(آیت میں) شفعاء کم سے مراد بت ہیں جن کے بارے میں تم یہ خیال کرتے تھے کہ وہ استحقاقِ عبادت میں اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں۔‘‘
شفاعت دراصل اَجر دینے اور بخشش عطا کرنے کے اُلوہی نظام کا ایک حصہ ہے۔ صاف ظاہر ہے اَجر اور بخشش اسی کو دیاجائے گا جو اس کا مستحق ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس استحقاق کو حاصل کرنے کی پہلی شرط ایمان ہے اور پھر حتی المقدور عملِ صالح۔ یہ سب حقائق کھول کھول کر بتانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس مشکل گھڑی اور فیصلے کے دن سے پہلے ایمان لا کر اس کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ کفار جب ایمان کی ابتدائی شرط پر ہی پورا نہیں اترتے تو شفاعت کا استحقاق بھی نہیں رکھتے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَہٗ ط یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُہٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَآئَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ج فَھَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَآءَ فَیَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ ط قَدْ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَo
الأعراف، 7: 53
’’وہ صرف اس (کہی ہوئی بات) کے انجام کے منتظر ہیں، جس دن اس (بات) کا انجام سامنے آ جائے گا وہ لوگ جو اس سے قبل اسے بھلا چکے تھے کہیں گے: بیشک ہمارے رب کے رسول حق (بات) لے کر آئے تھے، سو کیا (آج) ہمارے کوئی سفارشی ہیں جو ہمارے لئے سفارش کر دیں یا ہم (پھر دنیا میں) لوٹا دیئے جائیں تاکہ ہم (اس مرتبہ) ان (اعمال) سے مختلف عمل کریں جو (پہلے) کرتے رہے تھے۔ بیشک انہوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا اور وہ (بہتان و افترائ) ان سے جاتا رہا جو وہ گھڑا کرتے تھے۔‘‘
اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز اللہ کو بھلانے والوں کے حق میں شفاعت کچھ کام نہ دے گی۔ اس لئے وہ دوبارہ دنیا میں جاکر نیک اعمال کرنے کی خواہش کا اظہار کریں گے۔ ظاہر ہے یہ لوگ کافر ہوں گے ورنہ گزشتہ احادیث میں ہم تفصیل کے ساتھ ذکر کر آئے ہیں کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی شفاعت فرمائیں گے۔ اس آیتِ کریمہ کے تحت ائمہ و مفسرین کی تصریحات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ جو لوگ شفاعت سے محروم ہوں گے وہ کفار و مشرکین ہی ہیں۔
1۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
فَنَعْمَل فنؤمن و نعمل غیر الذی کنا نعمل فی الشرک.
فیروز آبادی، تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس: 129
’’(تاکہ ہم عمل کریں کا مطلب یہ ہے کہ) ہم ایمان لائیں اور عمل کریں اس(عمل) کے علاوہ جو حالتِ شرک میں ہم کرتے رہے تھے۔‘‘
2۔ علامہ قرطبیؒ کے مطابق یہ قول کہنے والے دراصل مشرکین ہیں، وہ فرماتے ہیں:
أی بطل ما کانوا یقولون من أن مع الله الٰها آخر.
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 7:218
’’یعنی باطل ہوا جو وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرا خدا (بھی) ہے۔‘‘
3۔ علامہ جلال الدین محلیؒ(م 864ھ) فرماتے ہیں:
أی ترکوا الإیمان لہ.
محلی، جلالین: 158
’’یعنی (یہ ان لوگوں کا قول ہے) جو اس پر ایمان نہ لائے تھے۔‘‘
مندرجہ بالا اَقوال اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ قول مشرکین و کفار کا ہے جسے مسلمانوں کے حق میں ثابت کرنا منشائِ قرآن کے خلاف ہے۔
قرآنِ کریم میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے کہ روزِ قیامت کفار حسرت بھرے لہجے میں کہیں گے:
فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَo وَلَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍo فَلَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَکُوْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَo
الشعراء، 26: 100۔102
’’سو (آج) نہ کوئی ہماری سفارش کرنے ولا ہے۔ اور نہ کوئی گرم جوش دوست ہے۔ سو کاش! ہمیں ایک بار (دنیا میں) پلٹنا (نصیب) ہو جاتا تو ہم مومن ہوجاتے۔‘‘
مذکورہ آیتِ مبارکہ میں کفار کے حسرت بھرے جذبات کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ قیامت کے روز عذاب دیکھ کر کہیں گے: کاش! ہمیں دنیا میں واپس جانے کا موقع مل جاتا تو ہم بھی مؤمن بن کر زندگی گزارتے اور آج کے دن پریشان نہ ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یومِ قیامت کفار و مشرکین اپنے کفر کی وجہ سے شفاعت سے محرومی کا اعتراف کر رہے ہوں گے۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ جلال الدین محلی ؒلکھتے ہیں:
{فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ} کما للمؤمنین من الملٰـئکۃ والنبیین والمؤمنین.
محلی، جلالین: 372
’’(کفار کہیں گے) آج ہمارا کوئی سفارشی نہیں جس طرح مومنین کے لئے ملائکہ، انبیاء اور مومنین (سفارشی) ہیں۔‘‘
تفسیر جلالین وہ مستند تفسیر ہے جس کی تدریس آج بھی دینی مدارس میں بطورِ نصاب شامل ہے۔ معترضین تو شفاعتِ انبیاء پر کج فہمی اور کور چشمی کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں جبکہ مفسرین کرام ملائکہ، انبیاء اور مومنین کی شفاعت کو آیتِ کریمہ سے ثابت کر رہے ہیں۔
قرآن حکیم میں ارشادِ ربانی ہے:
وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَo وَلَمْ یَکُنْ لَّهُمْ مِّنْ شُرَکَآئِهِمْ شُفَعٰٓؤُا وَکَانُوْا بِشُرَکَآئِهِمْ کٰفِرِیْنَo وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یَوْمَئِذٍ یَّتَفَرَّقُوْنَo فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَهُمْ فِیْ رَوْضَۃٍ یُّحْبَرُوْنَo
الروم، 30: 12۔15
’’اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو مُجرِم لوگ مایوس ہو جائیں گے اور ان کے (خود ساختہ) شریکوںمیں سے ان کے لئے سفارشی نہیں ہوں گے اور وہ (بالآخر) اپنے شریکوں کے (ہی) مُنکِر ہو جائیں گے۔ اور جس دن قیامت برپا ہو گی اس دن لوگ (نفسا نفسی میں) الگ الگ ہو جائیں گے۔ پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو وہ باغاتِ جنت میں خوش حال و مسرور کر دیئے جائیں گے۔‘‘
ان آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ مجرمین قیامت کے روز سخت ناامید ہوں گے۔ المجرمین سے مراد کفار و مشرکین ہیں۔ اس مؤقف پر درج ذیل اُمور دلالت کرتے ہیں:
1۔ آیت کا سیاق کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں مشرکین و کفار مراد ہیں کیونکہ احوالِ آخرت بتا کر ساتھ ہی {فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا} میں ایمان والوں کے احوال بیان فرمائے ہیں یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ اس سے پہلے اہلِ ایمان کے برعکس لوگوں کے احوال بیان کئے گئے ہیں جو کفار و مشرکین ہیں۔
2۔ ’’یُبْلِسُ‘‘ سخت نا امیدی پر دلالت کرتا ہے اور یہ چیز بذات ِخود اس امر کا تعین کرنے کے لئے کافی ہے کہ وہ کفار و مشرکین ہوں گے کیونکہ مومنین پر سخت ناامیدی کی حالت روزِ قیامت طاری نہیں ہوگی۔
3۔ مفسرین نے بھی یہاں یہی معنی مراد لیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
یبلس المشرکون من کل خیر {وَلَمْ یَکُنْ لَّهُمْ} لعبدۃ الأوثان {مِّنْ شُرَکَآئِهِمْ} من ألهتهم شفعاء.
فیروز آبادی، تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس: 339
’’’مشرکین ہر خیر سے مایوس ہوں گے اور بتوں کی عبادت کرنے والوں کے لئے ان کے خداؤں میں سے سفارشی نہ ہوں گے۔‘‘
امام جلال الدین محلیؒ فرماتے ہیں:
{یُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ} یسکت المشرکون لانقطاع حجتهم.
محلی، جلالین : 406
’’یبلس المجرمون سے مراد یہ ہے کہ مشرکین اپنی حجت کے ختم ہونے کے باعث خاموش ہوجائیں گے۔‘‘
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰهُ ج بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اَتٰهُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَo اللہ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ط مَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلاَ شَفِیْعٍ ط اَفَـلَا تَتَذَکَّرُوْنَo
السجدۃ، 32: 3، 4
’’کیا کفار و مشرکین یہ کہتے ہیں کہ اسے اس (رسول) نے گھڑ لیا ہے۔ بلکہ وہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ اس قوم کو ڈر سنائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈر سنانے والا نہیں آیا تاکہ وہ ہدایت پائیں۔ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے (اسے) چھ دنوں (یعنی چھ مدتوں) میں پیدا فرمایا پھر (نظامِ کائنات کے) عرشِ (اقتدار) پر قائم ہوا، تمہارے لئے اسے چھوڑ کر نہ کوئی کارساز ہے اور نہ کوئی سفارشی، سو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے۔‘‘
آیت نمبر 3 میں ان لوگوں کا ذکر ہوا جنہوں نے قرآن کی صداقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور افتراپردازی کرتے ہوئے کہا کہ (معاذ اللہ) یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی طرف سے گھڑا ہے اور یوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہتان عظیم باندھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر صداقتِ قرآن کے ان منکرین کو خطاب کر کے فرمایا تمہارا کوئی ولی ہے نہ شفیع۔
1۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
{اَفَـلَا تَتَذَکَّرُوْنَ} تتعظون بالقرآن فتؤمنوا.
(1) فیروز آبادی، تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس : 348
’’(افلا تتذکرون سے مراد یہ ہے) کیا تم قرآن سے نصیحت نہیں پکڑتے کہ ایمان لے آؤ۔‘‘
2۔ امام جلال الدین محلیؒ فرماتے ہیں:
{اَفَـلَا تَتَذَکَّرُوْنَ} هذا فتؤمنوا.
محلی، جلالین : 416
’’کیا تم اس سے نصیحت نہیں پکڑتے کہ ایمان لے آؤ۔‘‘
یہ امر واضح ہے کہ صداقتِ قرآن کے منکر کفار و مشرکین ہیں انہی سے شفاعت کی نفی ہے۔
3۔ امام قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
{مِنْ وَّلِیٍّ وَّلاَ شَفِیْعٍ} أی ما للکافرین من ولی یمنع من عذابھم ولا شفیع.
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 4: 86
’’یعنی کفار کے لئے کوئی دوست و مددگار نہیں جو ان سے عذاب کو ٹال دے اور نہ ان کے لئے کوئی شفاعت کرنے والا۔‘‘
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ءَ اَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِهَۃً اِنْ یُّرِدْنِ الرَّحْمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَنِّیْ شَفَاعَتُهُمْ شَیْئًا وَّلَا یُنْقِذُوْنِo
یٰسین، 36: 23
’’کیا میں اس (اللہ) کو چھوڑ کر ایسے معبود بنا لوں کہ اگر خدائے رحمان مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو نہ مجھے اُن کی سفارش کچھ نفع پہنچاسکے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکیں۔‘‘
مذکورہ آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ معبودانِ باطلہ کی پوجا کرنے والوں کو ان معبودوں کی شفاعت کچھ فائدہ نہ دے گی۔ یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ معبودانِ باطلہ کی پوجا کفر و شرک ہے لہٰذا یہ امر ثابت ہوگیا کہ یہاں شفاعت کے نفع بخش ہونے کی نفی کفار کے لئے ہے۔ اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کرام کی آراء مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
{ءَ اَتَّخِذُ} أأعبد {مِنْ دُوْنِہٖٓ} من دون اللہ بأمرکم {اٰلِهَۃً} أصناماً.
فیروز آبادی، تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس: 370
’’{ءَ اَتَّخِذُ} کیا میں عبادت کروں۔ {مِنْ دُوْنِہٖٓ} اللہ کے سوا، تمہارے حکم سے {اٰلِهَۃً} بتوں کی۔‘‘
مراد یہ ہے کہ کیا میں تمہارے حکم سے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو معبود بنا لوں؟
2۔ علامہ قرطبی ؒ فرماتے ہیں:
{اٰلِهَۃً} یعنی أصناماً.
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 15:18
’’{اٰلِهَۃً} یعنی بت۔‘‘
3۔ علامہ جلال الدین محلیؒ کے مطابق بھی الھۃ سے مراد معبودانِ باطلہ ہیں جو شفاعت کا حق نہیں رکھتے۔
محلی، جلالین : 443
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُo
المومن، 40:18
’’ظالموں کے لئے نہ کوئی مہربان دوست ہو گا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائے۔‘‘
1۔ یہاں ظالمین سے مراد کفار ہیں جیسا کہ امام نسفیؒ فرماتے ہیں:
{مَا لِلظّٰلِمِیْنَ}: الکافرین من حمیم ولا شفیع.
نسفی، مدارک التنزیل و حقائق التأویل، 4: 70
’’ظالموں کے لئے یعنی کافروں کے لئے کوئی دوست اور نہ کوئی شفاعت کرنے والا ہوگا۔‘‘
2۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
{مَا لِلظّٰلِمِیْنَ}: المشرکین.
فیروز آبادی، تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس : 394
’’ظالمین سے مراد مشرکین ہیں۔‘‘
3۔ قرآن حکیم کے دوسرے مقامات پر چونکہ شفاعت کا اثبات بھی ہے اس لئے یہاں نفی شفاعت کفار کے لئے متحقق ہے اور ظالمین سے مراد گناہگار مؤمن نہیں ہیں اس لئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ اس معنی کے خلاف صراحتاً دلالت کرتی ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
شَفَاعَتِی لِأَهْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ اُمَّتِی.
ترمذی، السنن، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع عن رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم، باب ما جاء فی الشفاعۃ، 4: 625، رقم: 2436
’’میری شفاعت میری اُمت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ اصلاً شفاعت تو ہے ہی گناہگاروں کے لئے اور صلحاء کے لئے شفاعت کا مطلب محض بلندئ درجات ہے کیونکہ انہیں جنت میں داخل کرنے کا خود رب العالمین وعدہ فرما چکا ہے۔
یومِ آخرت پر ایمان لانا چونکہ بنیادی ایمانی تقاضوں میں شامل ہے اس لیے اس کا منکر بھی کافر ہے، لہٰذا ایسے کفار کے لیے بھی شفاعت کی نفی کی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فِيْ جَنّٰتٍط یَتَسَآئَلُوْنَo عَنِ الْمُجْرِمِیْنَo مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَo قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَo وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَo وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِیْنَo وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِo حَتّٰیٓ اَتٰنَا الْیَقِیْنُo فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَo
المدثر، 74: 40۔48
’’(دائیں جانب والے) باغات میں ہوں گے اور آپس میں پوچھتے ہوں گے۔ مجرموں کے بارے میں۔ (اور کہیں گے:) تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی۔ وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھے۔ اور ہم محتاجوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ اور بیہودہ مشاغل والوں کے ساتھ (مل کر) ہم بھی بیہودہ مشغلوں میں پڑے رہتے تھے۔ اور ہم روزِ جزا کو جھٹلایا کرتے تھے۔ یہاںتک کہ ہم پر جس کا آنا یقینی تھا (وہ موت) آپہنچی۔ سو (اب) شفاعت کرنے والوں کی شفاعت انہیں کوئی نفع نہیں پہنچائے گی۔ ‘‘
ان آیات میں ایک تو کفار و مشرکین سے نفیٔ شفاعت کا بیان ہورہا ہے اور دوسرا مومنین کے لئے شفاعت کا اثبات ہے۔
1۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
{فَمَا تَنْفَعُهُمْ} یقول اللہ لا تنالھم {شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ} یعنی شفاعۃ الملائکۃ والأنبیاء والصالحین.
فیروز آبادی، تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس : 493
’’(انہیں کوئی نفع نہیں پہنچائے گی یعنی) اللہ تعالی یہ فرما رہا ہے کہ انہیں فائدہ نہیں دے گی(شفاعت کرنے والوں کی شفاعت) یعنی ان مجرمین کو ملائکہ، انبیاء اور صالحین کی شفاعت کوئی فائدہ نہیں دے گی۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میںایک تو مجرمین کے لئے شفاعت کی نفی ثابت ہو رہی ہے جب کہ دوسری طرف اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ملائکہ، انبیاء اور صالحین شفیع ہوں گے مگر ان کی شفاعت مجرمین یعنی کفار کے لئے نہیں بلکہ مومنین کے لئے ہوگی۔
2۔ علامہ قرطبیؒ (م 671ھ) نے اس آیت کی تفسیر یوں کی ہے:
{یَتَسَآئَلُوْنَ} أی یسألون {عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ} أی المشرکین.
’’(جنتی آپس میں پوچھتے ہوں گے) یعنی وہ سوال کریں گے (مجرموں کے بارے میں) یعنی مشرکوں کے بارے میں۔‘‘
پھر اسی سورۃ کی اگلی آیات کی تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
هذا دلیل علی صحۃ الشفاعۃ للمذنبین وذالک إن قوماً من أهل التوحید عذبوا بذنوبهم ثم شفع فیهم فرحمهم الله بتوحیدهم والشفاعۃ فأخرجوا من النار ولیس للکفار شفیع یشفع فیهم.
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 19: 57
’’یہ (آیت) مسلمان گناہگاروں کے لئے ثبوت شفاعت کی دلیل ہے۔ اس طرح کہ اہلِ توحید میں سے گناہگار موحدین کو ان کے گناہوں کے بدلے عذاب ہوگا پھر ان کی شفاعت کی جائے گی۔ پس اللہ تعالیٰ ان کی توحید اور شفاعت کی وجہ سے ان پر رحم فرمائے گا اور انہیں جہنم سے نکال دے گا جبکہ کفار کے لئے کوئی بھی شفیع شفاعت کرنے والا نہیں ہوگا۔‘‘
مذکورہ آیتِ کریمہ میں {فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ} سے پہلے کے الفاظ خود ان لوگوں کا تعین کر رہے ہیں جن کے لئے شفاعت نفع بخش نہ ہوگی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روزِ قیامت کو جھٹلاتے ہیں۔ ظاہر ہے روزِ قیامت کو مسلمان نہیں جھٹلا سکتے۔ اس پر قرآن حکیم نے مزید فرمایا کہ روزِ قیامت کا اِنکار ان کی زندگی کے آخری مرحلے تک جاری رہا اور ان کو اسی حالت میں موت آ گئی لہٰذا اس آیت سے مسلمانوں کے حق میں نفیٔ شفاعت گمان کرنا درست نہیں ہے۔
قرآنِ حکیم میں کفار و مشرکین کے لئے (نفی شفاعت) کی جس قدر آیات وارد ہوئی ہیں انہیں مومنین پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔ ان آیات سے شفاعت کا شرک ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس سے عقیدۂ شفاعت کا حقیقی تصور واضح کرنا مقصود ہے۔ وہ یہ کہ:
قرآن و احادیث اور ائمہ تفسیر کی تصریحات پر مشتمل مدلل بحث سے ثابت ہوا کہ عقیدۂ شفاعت ہرگز منافیٔ توحید نہیں اور نہ یہ شرک ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved