قرآن و حدیث سے یہ امر ثابت ہے کہ روزِ قیامت اِذنِ الٰہی پانے والوں کو شفاعت کا حق دیا جائے گا اور جو لوگ اذنِ الٰہی سے منصب شفاعت پر فائز نہیں، انہیں شفاعت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ بھی ثابت ہے کہ انبیاء و اولیاء اور صالحین ان لوگوں کی شفاعت کریں گے جو اس کے حق دار ہوں گے تاہم قیامت کے روز شفاعتِ عظمیٰ کے بلند مقام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متمکن کیا جائے گا۔ ذیل میں چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کریں:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَھُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي، نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیْرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِيَ الأَرْضُ مَسْجِدًا وَّطَھُوْرًا فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَکَتْهُ الصَّلٰوۃُ فَلْیُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْمَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَ أُعْطِیْتُ الشَّفَاعَةَ، وَکَانَ النَّبِيُّ یُبْعَثُ إِلَی قَوْمِہِ خَآصَّۃً وَبُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ عَآمَّۃً.
’’مجھے ایسی پانچ چیزیں عطا کی گئیں ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں: ایک ماہ کی مسافت تک رعب سے میری مدد فرمائی گئی، میرے لئے تمام روئے زمین مسجد اور پاک کرنے والی (جائے تیمم) بنا دی گئی۔ لہٰذا میری امت میں سے جو شخص بھی (جہاں) نماز کا وقت پائے تو وہ وہیں پڑھ لے، میرے لئے اموالِ غنیمت حلال کر دیئے گئے جو مجھ سے پہلے کسی نبی کے لئے حلال نہ تھے، مجھے شفاعت عطا کی گئی، اورپہلے نبی ایک خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا جبکہ مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا۔‘‘
اس مضمون سے متعلق متعدد احادیث مستند کتب احادیث میں موجود ہیں جیسے ’’مسند احمد بن حنبل (5: 161، رقم: 21472)،‘‘ ’’مسند بزار (9: 461، رقم: 4077)‘‘ اور ’’مسند طیالسی (1: 64، رقم: 472)‘‘ میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے جب کہ ’’المعجم الکبیر (7: 154، رقم: 6674)‘‘ میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
بطور مسلمان ہر شخص کی تمنا اور آرزو ہوتی ہے کہ اسے میدانِ حشر کی تلخیوں سے محفوظ رکھا جائے اور اُس نفسا نفسی کے عالم میں حضور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت اس کا مقدر بنے۔ کوئی بڑے سے بڑا عابد، زاہد، متقی، ولی اور غوث بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کی بخشش و مغفرت اس کے اپنے اعمال پر ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر آج تک ہر مسلمان مرد و عورت اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ضرور مانگتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتیازِ شفاعت دراصل پوری انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے۔
ذیل میں کتبِ احادیث میں مذکور طویل ترین حدیث شفاعت پیش کی جارہی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ اقدس سے اہلِ ایمان کو یہ عظیم خوشخبری مرحمت فرمائی۔ پہلے راوی کا اشتیاق ملاحظہ کریں:
’’ہم اہلِ بصرہ اکٹھے ہو کر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ملنے گئے اور ہم (ان کے شاگرد) ثابت بُنانی کو اپنے ساتھ لے گئے کہ وہ ان سے ہمارے لیے حدیثِ شفاعت کے متعلق سوال کریں؟ وہ اپنے گھر میں تھے۔ ہم نے انہیں نمازِ چاشت پڑھتے ہوئے دیکھ کر داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے اجازت دے دی۔ وہ اپنے بچھونے پر بیٹھے تھے۔ ہم نے ثابت سے کہا: حدیثِ شفاعت سے متعلق سوال سے قبل آپ ان سے کوئی اور سوال نہ کریں۔ انہوں نے عرض کیا: ابو حمزہ! یہ آپ کے بھائی بصرہ سے آئے ہیں اور آپ سے حدیثِ شفاعت کے بارے پوچھنا چاہتے ہیں؟‘‘ انہوں نے فرمایا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُھُمْ فِیْ بَعْضٍ. فَیَأْتُوْنَ آدَمَ، فَیَقُوْلُوْنَ: إِشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ، فَیَقُوْلُ: لَسْتُ لَھَا، وَلَکِنْ عَلَیْکُمْ بِإِبْرَاھِیْمَ فَإِنَّهُ خَلِیْلُ الرَّحْمٰنِ. فَیَأْتُوْنَ إِبْرَاھِیْمَ، فَیَقُوْلُ: لَسْتُ لَھَا، وَلَکِنْ عَلَیْکُمْ بِمُوْسَی فَإِنَّهُ کَلِیْمُ اللهِ. فَیَأْتُوْنَ مُوْسَی، فَیَقُوْلُ: لَسْتُ لَھَا، وَلَکِنْ عَلَیْکُمْ بِعِیْسَی فَإِنَّهُ رُوْحُ اللهِ وَکَلِمَتُهُ. فَیَأْتُوْنَ عِیْسَی، فَیَقُوْلُ: لَسْتُ لَھَا، وَلَکِنْ عَلَیْکُمْ بِمُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم.
فَیَأْتُوْنَنِی فَأَقُوْلُ: أَنَا لَھَا، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَی رَبِّي، فَیُؤْذَنُ لِي، وَیُلْھِمُنِي مَحَامِدَ أَحْمَدُهُ بِھَا لَا تَحْضُرُنِي الْآنَ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، وَ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا۔ فَیُقَالُ: یَا مُحَمَّدُ! إِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَ قُلْ یُسْمَعْ لَکَ، وَ سَلْ تُعْطَ، وَ اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَیُقَالُ: اِنْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ شَعِیْرَۃٍ مِنْ إِیْمَانٍ، فَأَنْطَلِقُ فأَفْعَلُ۔ ثُمَّ أَعُوْدُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَیُقَالُ: یَا مُحَمَّدُ! اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَ قُلْ یُسْمَعْ لَکَ، وَ سَلْ تُعْطَ، وَ اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ! أُمَّتِي أُمَّتِي، فَیُقَالُ: اِنْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ أَوْ خَرْدَلَۃٍ مِنْ إِیْمَانٍ، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ. ثُمَّ أَعُوْدُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَیُقَالُ: یَا مُحَمَّدُ! اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَ قُلْ یُسْمَعْ لَکَ، وَ سَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ! أُمَّتِی أُمَّتِی، فَیَقُوْلُ: اِنْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِہٖ أَدْنَی أَدْنَی أَدْنَی مِثْقَالِ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ إِیْمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ.
فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ أَنَسٍ قُلْتُ لِبَعْضِ أَصْحَابِنَا: لَوْ مَرَرْنَا بِالْحَسَنِ، وَ ھُوَ مُتَوَارٍ فِی مَنْزِلِ أَبِي خَلِیْفَةَ، فَحَدَّثْنَاهُ بِمَا حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، فَأَتَیْنَاهُ فَسَلَّمْنَا عَلَیْہِ، فَأَذِنَ لَنَا۔ فَقُلْنَا لَهُ: یَا أَبَاسَعِیْدٍ! جِئْنَاکَ مِنْ عِنْدِ أَخِیْکَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، فَلَمْ نَرَ مِثْلَ مَا حَدَّثَنَا فِی الشَّفَاعَۃِ۔ فَقَالَ: ھِیْہِ، فَحَدَّثْنَاهُ بِالْحَدِیْثِ، فَانْتَھَی إِلَی ھَذَا الْمَوْضِعِ. فَقَالَ: ھِیْہِ، فَقُلْنَا لَهُ: لَمْ یَزِدْ لَنَا عَلَی ھَذَا، فَقَالَ: لَقَدْ حَدَّثَنِی وَ ھُوَ جَمِیْعٌ مُنْذُ عِشْرِیْنَ سَنَۃً، فَـلَا أَدْرِی: أَنَسِیَ ، أَمْ کَرِهَ أَنْ تَتَّکِلُوْا۔ فَقُلْنَا: یَا أَبَا سَعِیْدٍ! فَحَدِّثْنَا، فَضَحِکَ، وَ قَالَ: خُلِقَ الْإِنْسَانُ عَجُوْلًا، مَا ذَکَرْتُهُ إِلَّا وَأَنَا أُرِیْدُ أَنْ أُحَدِّثَکُمْ، حَدَّثَنِی کَمَا حَدَّثَکُمْ بِہِ.
قَالَ: ثُمَّ أَعُوْدُ الرَّابِعَةَ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَیُقَالُ: یَا مُحَمَّدُ! اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَ قُلْ یُسْمَعْ، وَ سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ! اِئْذَنْ لِي فِیْمَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، فَیَقُوْلُ: وَ عِزَّتِي وَجَلَالِي، وَ کِبْرِیَائِي وَعَظَمَتِي: لَأُخْرِجَنَّ مِنْھَا مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ.
’’ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز لوگ دریا کی موجوں کی مانند بے قرار ہوں گے۔ وہ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے: آپ اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے، وہ فرمائیں گے: یہ میرا مقام نہیں، تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ پس لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوجائیں گے جس پر وہ فرمائیں گے: میرا منصب یہ نہیں ہے تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں۔ پس وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں جائیں گے وہ فرمائیں گے: میرا منصب یہ نہیں ہے تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ روح اللہ اور اس کا کلمہ ہیں۔ پس وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو وہ بھی فرمائیں گے: میرا یہ مقام نہیں ہے تم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔
’’پس لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا: ہاں! آج شفاعت کا منصب تو میرے پاس ہی ہے۔ پھر میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت مل جائے گی اور مجھے ایسے حمدیہ کلمات الہام کئے جائیں گے جن کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کروں گا جو اب مجھے مستحضر نہیں ہیں۔ پس میں ان محامد سے اﷲ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ سو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے اور کہو! تمہیں سنا جائے گا، مانگو تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت، پس فرمایا جائے گا: جاؤ اور جہنم سے اسے نکال لو جس کے دل میں جو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔ میں جاکر یہی کروں گا۔ پھر واپس آکر ان محامد کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ پس کہا جائے گا: محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری سنی جائے گی، مانگو تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت! پس فرمایا جائے گا: جاؤ اور جہنم سے اسے بھی نکال لو جس کے دل میں ذرے کے برابر یا رائی کے برابر بھی ایمان ہو۔ پس میں جاکر ایسے ہی کروں گا۔ پھر واپس آکر انہی محامد کے ساتھ اس کی حمد و ثنا بیان کروں گا اور پھر اس کے حضور سجدے میں چلاجاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا: محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری سنی جائے گی، مانگو تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے رب! میری امت، میری امت، پس وہ فرمائے گا: جاؤ اور اسے بھی جہنم سے نکال لو جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی بہت ہی کم، بہت ہی کم، بہت ہی کم ایمان ہو۔ پس میں خود جاؤں گا اور جا کر ایسا ہی کروں گا۔
’’راوی کہتے ہیں: جب ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلے تو میں نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا: ہمیں حسن بصری کے پاس چلنا چاہئے جو کہ ابوخلیفہ کے مکان میں روپوش ہیں اور انہیں وہ حدیث بیان کرنی چاہئے جو انس بن مالک نے ہم سے بیان کی ہے۔ چنانچہ ہم ان کے پاس آئے اور انہیں سلام کیا پھر انہوں نے ہمیں اجازت دی تو ہم نے ان سے کہا: ابو سعید! ہم آپ کے پاس آپ کے بھائی انس بن مالک کے ہاں سے ہوکر آئے ہیں اور انہوں نے ہم سے جو شفاعت کے متعلق حدیث بیان کی اس جیسی حدیث ہم نے آج تک نہیں سنی۔ انہوں نے فرمایا مجھے بھی سناؤ: ہم نے ان سے حدیث بیان کی جب اس مقام تک پہنچے تو انہوں نے کہا: آگے بیان کرو، ہم نے کہا: اس سے زیادہ انہوں نے بیان نہیں کیا۔ انہوں نے کہا: حضرت انس رضی اللہ عنہ آج سے بیس سال قبل جب صحت مند تھے تو انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی تھی، مجھے معلوم نہیں کہ وہ باقی بھول گئے یا اس لئے بیان کرنا ناپسند کیا کہ کہیں لوگ صرف اسی پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔ ہم نے کہا: ابو سعید! پھر آپ ہم سے وہ حدیث مکمل بیان کیجئے اس پر آپ ہنسے اور فرمایا: انسان عجلت پسند پیدا کیا گیا ہے۔ میں نے اس کا ذکر ہی اس لئے کیا ہے کہ تم سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ انس نے مجھ سے اس طرح حدیث بیان کی جس طرح تم سے بیان کیا۔
’’(اس میں یہ اضافہ کیا کہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں چوتھی دفعہ واپس لوٹوں گا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کروں گا پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا: محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو تمہیں سنا جائے گا، مانگو تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: یا رب ! مجھے ان کی (شفاعت کی) اجازت بھی دیجئے جنہوں نے صرف لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کہا ہے، پس وہ فرمائے گا: مجھے اپنی عزت و جلال اور اپنی کبریائی وعظمت کی قسم! میں انہیں ضرور دوزخ سے نکال دوں گا جنہوں نے لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کہا ہے۔‘‘
اسی مفہوم کی دیگر احادیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ’’صحیح بخاری (4: 1745، رقم: 4435)،‘‘ ’’صحیح مسلم، (1: 184، رقم: 194)‘‘ ’’جامع ترمذی (4: 229، رقم: 2434)،‘‘ اور ’’مسند احمد بن حنبل (2: 435، رقم: 9223)‘‘ میں مروی ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ’’مسند احمد بن حنبل (1: 4، رقم: 15)،‘‘ ’’صحیح ابن حبان (14: 393، رقم: 6476)،‘‘ ’’مسند ابی یعلی (1: 44، رقم: 152)‘‘ اور ’’مسند بزار (1: 149، رقم: 76)‘‘ میں مروی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ’’مسند احمد بن حنبل (1: 281،295 رقم: 2546، 2692)،‘‘ ’’مسند ابی یعلی (4: 215، رقم: 2328)‘‘ میں مروی ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے ’’سنن دارمی (2: 421، رقم: 2804)،‘‘ ’’المعجم الکبیر للطبرانی (17: 320)،‘‘ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے ’’ابن ابی شیبہ (6: 308، رقم: 31675)،‘‘ ’’السنۃ لابن ابی عاصم (2: 384، رقم: 813)‘‘ میں مروی ہے۔
روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی شانِ جلالت کے اِمتیاز و اختصاص کا خصوصی اظہار ہو رہا ہوگا لیکن اس دِن اﷲ تعالیٰ اپنی شانِ کریمی سے حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرسی کو اپنے عرشِ جلالت کے ساتھ رکھے گا اور جملہ اوّلین و آخرین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کریں گے۔ بجا ہے کہ مغفرت و بخشش اور جنت عطا کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے مگر توحید کی نسبت کے تحت براہِ راست اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش قیامت کے دن بھی حاصل نہ ہو سکے گی بلکہ اس دن بھی درِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نہ صرف عامۃ المسلمین بلکہ جملہ انبیاء و رسل عظام علیہم السلام بھی سوالی بن کر حاضر ہوں گے اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل اﷲ تعالیٰ گناہگاروں کو اپنے فیضانِ کرم سے مغفرت و جنت عطا فرمائے گا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رغبت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پر سوالی بن کر حاضر ہونا شرک نہیں تو آج دنیا میں بھی یہ عقیدہ شرک نہیں ہو سکتا، لہٰذا بقول اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ محدّث بریلوی:
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
کل نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
پس یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ استمداد و اِستعانت اور توسل کا جو عقیدہ قیامت کے دن درست ہو گا اور جس پر اوّلین و آخرین بشمول انبیاء کا اجماع ہوگا، ایسا عظیم اجماعی عقیدہ یقینا آج بھی برحق ہے۔ اِس کو شرک قرار دینا اور اہلِ ایمان کو مشرک کہنا خود گمراہی ہے۔
امت کے حق میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت اور راحت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ گناہگاروں کو جہنم سے لا لا کر جنت میں داخل فرمائیں گے لیکن اس سے بھی زیادہ دریائے رحمت یہاں معجزن دکھائی دیتا ہے۔ ملاحظہ ہوں درج ذیل احادیث:
1۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خُیِّرْتُ بَیْنَ الشَّفَاعَۃِ وَ بَیْنَ أَنْ یَدْخُلَ نِصْفُ اُمَّتِی الْجَنَّةَ؟ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ لِأَنَّھَا أَعَمُّ وَ أَکْفَی. أَتَرَوْنَھَا لِلْمُتَّقِیْنَ؟ لَا، وَلَکِنَّھَا لِلْمُذْنِبِیْنَ الْخَطَّائِیْنَ الْمُتَلَوِّثِیْنَ.
’’مجھے اختیار دیا گیا کہ چاہے میں (قیامت کے روز) شفاعت کا حق اختیار کروں یا میری آدھی امت بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جائے؟ پس میں نے شفاعت کو اختیار کرلیا کیونکہ وہ عام تر اور زیادہ کفایت کرنے والی ہے۔ تمہارے خیال میں وہ پرہیزگاروں کے لئے ہوگی؟ نہیں، بلکہ وہ گناہ گاروں، خطاکاروں اور گناہوں سے آلودہ لوگوں کے لیے ہے۔ ‘‘
2۔ حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْد رَبِّي فَخَیَّرَنِي بَیْنَ أَنْ یُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَ بَیْنَ الشَّفَاعَۃِ؟ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ، وَ ھِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللهِ شَیْئًا.
’’میرے پاس اللہ کی طرف سے پیغام لے کر آنے والا آیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے میری آدھی امت کو جنت میں داخل کرنے یا شفاعت کرنے کا اختیار دیا۔ پس میں نے شفاعت کو اختیار کر لیا اور یہ ہر اس شخص کے لئے ہے جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہوا نہیں مرے گا۔‘‘
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَۃٌ، فَأُرِیْدُ إِنْ شَاءَ اللهُ أَنْ أَخْتَبِیئَ دَعْوَتِي شَفَاعَۃً لِأُمَّتِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
’’ہر نبی کو ایک مقبول دعا کا حق ہے، پس میں چاہتا ہوں اگر اللہ چاہے کہ اپنی اس دعا کو قیامت کے دن امت کی شفاعت کے لیے مؤخر کرکے رکھوں۔‘‘
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَۃٌ دَعَاھَا لِأُمَّتِہِ. وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَۃً لِأُمَّتِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
’’ہر نبی کے لیے کوئی ایک مقبول دعا تھی جسے اس نے اپنی امت کے لئے کیا، اور بے شک میں نے اپنی اس دعا کو قیامت کے دن امت کی شفاعت کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔‘‘
اسی مفہوم کی مزید احادیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ’’صحیح بخاری (5: 2323، رقم: 5945، 5946)،‘‘ ’’صحیح مسلم (1: 189، 190، رقم: 198، 199، 201)،‘‘ ’’جامع ترمذی (5: 580، رقم: 3602)،‘‘ ’’سنن ابن ماجہ (2: 1440، رقم: 4307)،‘‘ ’’موطا امام مالک (1: 212، رقم: 494)،‘‘ ’’مسند احمد بن حنبل (2: 313، 426، 486، رقم: 8132، 9500، 316 اور 3: 384، رقم: 15156)،‘‘ ’’صحیح ابن حبان (14: 374، رقم: 4661)‘‘ میں، ’’مسند ابن رہویہ (1: 233، رقم: 191)،‘‘ سنن بیہقی (10: 190)،‘‘ ’’شعب الایمان (1: 288، رقم: 313)،‘‘ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ’’مسند ابی یعلی (2: 393، رقم: 1004)،‘‘ ’’مصنف (6: 310، رقم: 31683)،‘‘ ’’مسند عبد بن حمید (1: 283، رقم: 903)‘‘ اور دیگر کئی کتبِ احادیث میں مروی ہیں۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَأَوَّلُ مَنْ یَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ.
’’میں قیامت کے دن ساری اولادِ آدم کا سردار ہوں گا، سب سے پہلے میری قبر شق ہوگی، میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘
2۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم یَنْتَظِرُوْنَهُ، قَالَ: فَخَرَجَ حَتَّی إِذَا دَنَا مِنْھُمْ سَمِعَھُمْ یَتَذَاکَرُوْنَ، فَسَمِعَ حَدِیْثَھُمْ، فَقَالَ بَعْضُھُمْ: عَجَباً إِنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِہِ خَلِیْلًا، اِتَّخَذَ إِبْرَاھِیْمَ خَلِیْلًا. وَ قَالَ آخَرُ: مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ کَلَامِ مُوْسٰی کَلَّمَهُ تَکْلِیْماً، وَ قَالَ آخَرُ: فَعِیْسٰی کَلِمَۃُ اللهِ وَ رُوْحُهُ، و قَالَ آخَرُ: آدَمُ اصْطَفَاهُ اللهُ، فَخَرَجَ عَلَیْھِمْ فَسَلَّمَ و قَالَ: قَد سَمِعْتُ کَلَامَکُمْ و عَجَبَکُمْ إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلُ اللهِ وھُوَ کَذٰلِکَ، وَمُوْسٰی نَجِيُّ اللهِ وَ ھُوَ کَذٰلِکَ، وَعِیْسٰی رُوْحُ اللهِ وَکَلِمَتُهُ وَھُوَ کَذٰلِکَ، وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللهُ وَ ھُوَ کَذٰلِکَ، أَ لَا! وَ أَناَ حَبِیْبُ اللهِ وَلَا فَخْرَ، و أَناَ حَامِلُ لِوَائِ الْحَمْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَ أَوَّلُ مُشَفَّعٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ، وَ أَنَا أَوَّلُ مَنْ یُحَرِّکُ حِلَقَ الْجَنَّۃِ فَیَفْتَحُ اللهُ لِي فَیُدْخِلُنِیْھَا وَ مَعِيَ فُقَرَائُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا فَخْرَ، وَ أَنَا أَکْرَمُ الأَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ وَلَا فَخْرَ.
’’چند صحابہ کرامث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے قریب پہنچے تو انہیں گفتگو کرتے ہوئے سنا، (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنا) ان میں سے بعض نے کہا: تعجب کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے اپنا خلیل بنایا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا: یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ سے ہمکلام (کلیم اللہ) ہونے سے زیادہ تعجب خیز تو نہیں۔ ایک نے کہا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں، کسی نے کہا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو چن لیا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، سلام کیا اور فرمایا: میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہارِ تعجب سن لیا ہے۔ بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں، اور واقعی وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نجی اللہ ہیں، بے شک وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں، واقعی وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا، وہ بھی یقیناً اسی طرح ہیں۔ مگر سنو! اچھی طرح آگاہ ہو جائو کہ (میری شان یہ ہے) میں اللہ کا حبیب ہوں اور (اس پر) کوئی فخر نہیں، میں قیامت کے دن (اللہ تعالیٰ کی) حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور مجھے کوئی فخر نہیں، قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کرنے والا میں ہوں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور مجھے کوئی فخر نہیں، سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹانے والا بھی میں ہوں تو اللہ تعالیٰ اسے میری لئے کھول دے گا پس مجھے اس میں داخل کر دے گا اور میرے ساتھ فقیرو غریب مؤمن ہوں گے اور مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں، میں اولین و آخرین میں سب سے زیادہ مکرم و معزز ہوں لیکن میں کوئی فخر نہیں کرتا۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرض کیا گیا:
یَا رَسُوْلَ اللهِ! مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: لَقَدْ ظَنَنْتُ یَا أَبَا ھُرَیْرَةَ! أَنْ لَا یَسْأَلَنِيْ عَنْ ھَذَا الْحَدِیْثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْکَ، لِمَا رَأَیْتُ مِنْ حِرْصِکَ عَلَی الْحَدِیْثِ، أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ خَالِصاً مِنْ قَلْبِہِ أَوْ نَفْسِہِ.
’’یارسول اﷲ صلی اللہ علیک وسلم! قیامت کے روز آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ! میرا گمان یہی تھا کہ اس بارے میں سب سے پہلے تم مجھ سے پوچھو گے کیونکہ میں نے حدیث کے ساتھ تمہاری بے پناہ رغبت دیکھی ہے۔ قیامت کے روز میری شفاعت حاصل کرنے میں سب سے زیادہ خوش نصیب وہ شخص ہوگا جس نے خلوص دل و جان سے(کلمہ) لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ پڑھا۔‘‘
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
شَفَاعَتِي لِأَھْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي.
’’میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے ہے۔‘‘
2۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي۔ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، فَقَالَ لِي جَابِرٌ: یَا مُحَمَّدُ! مَنْ لَمْ یَکُنْ مِنْ أَھْلِ الْکَبَائِرِ فَمَا لَهُ وَلِلشَّفَاعَۃِ.
’’میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے ہے۔ امام محمد بن علی (الباقر) کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت جابرص نے فرمایا: اے محمد! جو کبیرہ گناہوں والے نہیں ہوں گے ان کی شفاعت کا کیا حال ہو گا؟‘‘
1۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ کُنْتُ إِمَامَ النَّبِیِّیْنَ وَخَطِیْبَھُمْ وَصَاحِبَ شَفَاعَتِھِمْ غَیْرُ فَخْرٍ.
’’میں قیامت کے دن تمام انبیاء علیہم السلام کا امام ہوں گا اور ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ گفتگو کرنے والا اور ان کو اللہ تعالیٰ سے شفاعت کا حق دلانے والا ہوں گا اور میں یہ بات بطورِ فخر نہیں کہہ رہا۔‘‘
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنْ یَشْفَعَ لِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؟ فَقَالَ: أَنَا فَاعِلٌ! قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللهِ! فَأَیْنَ أَطْلُبُکَ؟ قَالَ: اُطْلُبْنِي أَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِي عَلَی الصِّرَاطِ، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَلْقَکَ عَلَی الصِّرَاطِ؟ قَالَ: فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْمِیْزَانِ، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَلْقَکَ عِنْدَ الْمِیْزَانِ؟ قَالَ: فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْحَوْضِ، فَإِنِّي لَا أُخْطِیئُ ھَذِہِ الثَّـلَاثَ الْمَوَاطِنَ.
’’میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ قیامت کے دن میری شفاعت فرمائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں ہی ایسا کرنے والا ہوں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں (میدانِ حشر میں) آپ کو کہاں تلاش کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا، میں نے عرض کیا: اگر آپ وہاں نہ ملیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میزان کے پاس ڈھونڈنا، میں نے عرض کیا: اگر وہاں بھی نہ ملیں تو کہاں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم مجھ کو حوض کوثر پر تلاش کرنا کیونکہ ان تین جگہوں میں سے ہی کسی جگہ پر میں ہوں گا۔‘‘
3۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
إِنّي لَأَرْجُوْ أَنْ أَشْفَعَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَدَدَ مَا عَلَی الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ وَمَدَرَۃٍ.
’’مجھے امید ہے کہ میں قیامت کے دن روئے زمین کے جملہ درختوں اور مٹی کے ڈھیلوں کی مقدار کے برابر اپنی امت کے افراد کی شفاعت کروں گا۔‘‘
9۔ روزِ قیامت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کے درجہ بہ درجہ حقدار
1۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لِلْأَنْبِیَائِ مَنَابِرُ مِنْ ذَھَبٍ، قَالَ: فَیَجْلِسُوْنَ عَلَیْھَا وَیَبْقٰی مِنْبَرِي لَا أَجْلِسُ عَلَیْہِ أَوْ لَا أَقْعُدُ عَلَیْہِ، قَائِمًا بَیْنَ یَدَيَّ رَبِّي مَخَافَۃً أَنْ یَبْعَثَ بِيْ إِلَی الْجَنَّۃِ وَ یَبْقٰی أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ! أُمَّتِي أُمَّتِي، فَیَقُوْلُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ: یَا مُحَمَّدُ! مَا تُرِیْدُ أَنْ أَصْنَعَ بِأُمَّتِکَ؟ فَأَقُوْلُ یَا رَبِّ عَجِّلْ حِسَابَھُمْ، فَیُدْعٰی بِھِمْ فَیُحَاسَبُوْنَ، فَمِنْھُمْ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَۃِ اللهِ، وَمِنْھُمْ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِي فَمَا أَزَالُ أَشْفَعُ حَتَّی أُعْطٰی صِکَاکًا بِرِجَالٍ قَدْ بُعِثَ بِھِمْ إِلَی النَّارِ، وَآتِي مَالِکًا خَازِنَ النَّارِ فَیَقُوْلُ: یَا مُحَّمَدُ! مَا تَرَکْتَ لِلنَّارِ لِغَضَبِ رَبِّکَ فِی أُمَّتِکَ مِنْ بَقِیَّۃٍ.
’’(قیامت کے دن) تمام انبیاء علیہم السلام کے لئے سونے کے منبر بچھائے جائیں گے وہ ان پر بیٹھیں گے، اور میرا منبر خالی رہے گا میں اس پر نہ بیٹھوں گا بلکہ اپنے رب کریم کے حضور کھڑا رہوں گا اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے جنت میں بھیج دے اور میری امت میرے بعد (کہیں بے یار و مددگار) رہ جائے۔ پس میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! آپ کی کیا مرضی ہے، آپ کی امت کے ساتھ کیا سلوک کروں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: میں عرض کروں گا: اے میرے رب! ان کا حساب جلدی فرما دے۔ پس ان کو بلایا جائے گا اور ان کا حساب ہو گا، کچھ ان میں سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے، اور کچھ میری شفاعت سے۔ میں شفاعت کرتا رہوں گا یہاں تک کہ مجھے ان کی رہائی کا پروانہ بھی عطا کر دیا جائے گا جنہیں دوزخ میں بھیجا جا چکا ہو گا، جب میں داروغۂ جہنم کے پاس آؤں گا تو وہ عرض کرے گا: اے محمد! آپ نے اپنی امت میں سے کوئی بھی دوزخ میں باقی نہیں چھوڑا جس پر اللہ رب العزت ناراض ہو۔‘‘
2۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَوَّلُ مَنْ أَشْفَعُ لَهُ مِنْ أُمَّتِي أَھْلُ بَیْتِي، ثُمَّ الْأَقْرَبُ فَالْأَقْرَبُ مِنْ قُرَیْشٍ، ثُمَّ الْأَنْصَارُ، ثُمَّ مَنْ آمَنَ بِي وَاتَّبَعَنِي مِنَ الْیَمَنِ، ثُمَّ مِنْ سَائِرِ الْعَرَبِ، ثُمَّ الْأَعَاجِمُ، وَأَوّلُ مَنْ أَشْفَعُ لَهُ أُوْلُو الْفَضْلِ.
’’میں قیامت کے روز سب سے پہلے اپنی امت میں سے اپنے اہلِ بیت کی شفاعت کروں گا، پھر مرتبہ بہ مرتبہ قریب ترین قریشی کی، پھر انصار کی، پھر اس کی جو یمن میں سے مجھ پر ایمان لایا اور میری اتباع کی، پھر باقی عرب کی، پھر تمام عجم کے مؤمنین کی اور میں جس کی سب سے پہلے شفاعت کروں گا وہ اہلِ فضل ہوں گے۔‘‘
1۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأُمَمُ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ وَالنَّبِیَّانِ یَمُرُّوْنَ مَعَهُمُ الرَّهْطُ، وَالنَّبِيُّ لَیْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، حَتَّی رُفِعَ لِي سَوَادٌ عَظِیْمٌ، قُلْتُ: مَا هَذَا؟ أُمَّتِي هَذِہِ؟ قِیْلَ: بَلْ هَذَا مُوْسَی وَقَوْمُهُ، قِیْلَ: أنْظُرْ إِلَی الْأُفُقِ، فَإِذَا سَوَادٌ یَمْلَأُ الْأُفُقَ، ثُمَّ قِیْلَ لِي: أُنْظُرْ هَاهُنَا! وَ هَاهُنَا فِی آفَاقِ السَّمَائِ، فَإِذَا سَوَادٌ قَدْ مَلَأَ الْأُفُقَ، قِیْلَ: هَذِہِ أُمَّتُکَ! وَیَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ ھٰؤُلَائِ سَبْعُوْنَ أَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ، ثُمَّ دَخَلَ وَلَمْ یُبَیِّنْ لَهُمْ، فَأَفَاضَ الْقَوْمُ وَقَالُوْا: نَحْنُ الَّذِیْنَ آمَنَّا بِاللهِ وَاتَّبَعْنَا رَسُوْلَهُ، فَنَحْنُ هُمْ أَوْ أَوْلَادُنَا الَّذِیْنَ وُلِدُوْا فِی الإِسْلَامِ فَإِنَّا وُلِدْنَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَخَرَجَ فَقَالَ: هُمُ الَّذِیْنَ لَا یَسْتَرْقُونَ وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَلَا یَکْتَوُوْنَ وَعَلَی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُونَ، فَقَالَ عُکَّاشَۃُ بْنُ مِحْصَنٍ: أَ مِنْهُمْ أَنَا یَارَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: نَعَمْ! فَقَامَ آخَرُ فَقَالَ: أَ مِنْهُمْ أَنَا؟ قَالَ: سَبَقَکَ بِھَا عُکَّاشَۃُ.
’’مجھ پر سابقہ امتیں پیش کیں گئیں تو ایک اور دو نبی گزرنے لگے جن کے ساتھ ایک جماعت تھی، اور کسی نبی کے ساتھ کوئی نہ تھا یہاں تک کہ ایک جمِ غفیر میرے سامنے پیش کیا گیا۔ میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ یہ میری امت ہے؟ کہا گیا: نہیں بلکہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے۔ کہا گیا: آپ آسمان کے کنارے کی طرف دیکھیں تو میں نے اچانک دیکھا کہ ایک جمِ غفیر نے افق کو گھیرا ہوا ہے۔ پھر مجھ سے کہا گیا: ادھر دیکھئے اور ادھر آسمان کے (دیگر) کناروں کی طرف بھی دیکھئے تو دیکھا کہ اس جمِ غفیر نے ہر طرف سے آسمان کو گھیرا ہوا ہے۔ مجھے کہا گیا: یہ آپ کی امت ہے! اور ان میں سے ستر ہزار افراد بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرہ مبارک میں تشریف لے گئے اور مزید وضاحت نہ فرمائی تو لوگ باہم بات چیت کرتے ہوئے کہنے لگے: ہم وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کی، پس وہ ہم ہی ہیں یا ہماری اولاد ہیں جو اسلام پر پیدا ہوئے کیونکہ ہم تو دورِ جاہلیت میں پیدا ہوئے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر فرمایا: وہ ایسے لوگ ہیں جو نہ غیر شرعی جھاڑ پھونک کرائیں گے، نہ بدفالی لیں گے، نہ نشان لگوا کر علاج کرائیں گے بلکہ سارے معاملات میں صرف اپنے رب پر توکل کریں گے۔ پس عکاشہ بن محصن نے کھڑے ہوکر عرض کیا: یارسول اللہ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں! ایک دوسرے شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا: کیا میں ان میں سے ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عکاشہ اس بارے میں تجھ پر سبقت لے گیا ہے۔‘‘
2۔ حضرت سہل بن سعدص سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَیَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُوْنَ أَلْفًا أَوْ سَبْعُ مِائَۃِ أَلْفٍ، شَکَّ فِی أَحَدِہِمَا، مُتَمَاسِکِیْنَ آخِذٌ بَعْضُھُمْ بِبَعْضٍ، حَتَّی یَدْخُلَ أَوُّلُهُمْ وَآخِرُھُمُ الْجَنَّةَ، وَوُجُوْھُھُمْ عَلَی ضَوْئِ الْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ.
’’میری امت کے ستر ہزار یا سات لاکھ افراد بغیر حساب وعذاب کے جنت میں داخل ہوں گے، (راوی کو دونوں میں سے ایک کا شک ہے) یہ ایک دوسرے کو تھامے ہوئے ہوں گے یہاں تک کہ ان کا پہلا اور آخری شخص جنت میں داخل ہوجائے گا۔ اور ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے۔‘‘
3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي زُمْرَۃٌ هُمْ سَبْعُوْنَ أَلْفًا، تُضِيْئُ وُجُوْهُهُمْ إِضَائَةَ الْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ، وَقَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَةَ: فَقَامَ عُکَّاشَۃُ بْنُ مِحْصَنٍ الْأَسَدِيُّ یَرْفَعُ نَمِرَۃً عَلَیْہِ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! اُدْعُ اللهَ أَنْ یَّجْعَلَنِي مِنْھُمْ؟ قَالَ: اَللّٰھُمَّ! اجْعَلْهُ مِنْھُمْ، ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللهِ! اُدْعُ اللهَ أَنْ یَّجْعَلَنِي مِنْھُمْ؟ فَقَالَ: سَبَقَکَ بِهَا عُکَّاشَۃُ.
’’میری امت کے ستر ہزار افراد کا گروہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو گا جن کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عکاشہ بن محصن نے اپنی اون کی چادر کو بلند کرتے ہوئے کھڑے ہوکر عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے ان میں شامل فرما لے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! تو اس کو ان میں شامل فرما لے، پھر ایک انصاری شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں شامل کر لے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عکاشہ تجھ پر سبقت لے گیا ہے۔‘‘
4۔ حضرت ابواُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
وَعَدَنِي رَبِّي أَنْ یُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِیْنَ أَلْفًا، لَا حِسَابَ عَلَیْھِمْ وَلَا عَذَابَ مَعَ کُلِّ أَلْفٍ سَبْعُوْنَ أَلْفًا وَثَـلَاثُ حَثَیَاتٍ مِنْ حَثَیَاتِہِ.
’’میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میری امت سے ستر ہزار افراد کو بغیر حساب وعذاب کے جنت میں داخل فرمائے گا۔ ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ مزید 70 ہزار کو داخل کرے گا نیز اللہ تعالیٰ اپنے چلوؤں میں سے تین چلو(اپنے حسبِ حال جہنمیوں سے بھر کر) بھی جنت میںڈالے گا۔‘‘
5۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أُعْطِیْتُ سَبْعِیْنَ أَلْفًا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِغَیْرِ حِسَابٍ، وُجُوْھُھُمْ کَالْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ وَقُلُوْبُھُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، فَاسْتَزَدْتُ رَبِّي ل، فَزَادَنِي مَعَ کُلِّ وَاحِدٍ سَبْعِیْنَ أَلْفًا۔ قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: فَرَأَیْتُ أَنَّ ذَالِکَ آتٍ عَلَی أَھْلِ الْقُرَی وَمُصِیْبٌ مِنْ حَافَّاتِ الْبَوَادِی.
’’مجھے ستر ہزار افراد ایسے عطا کیے گئے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے، ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے اور ان کے دل (صفاء و جلاء میں) ایک شخص کے دل کے مطابق ہوں گے۔ پس میں نے اپنے رب عزوجل سے زیادہ چاہا تو اس نے ہر ہزار کے ساتھ مزید 70 ہزار کا میرے لئے اضافہ فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ بے شک یہ (مقام) دیہات کے رہنے والوں کو حاصل ہوگا اور ننگے پاؤں چلنے والے صحرائی باشندوں کو پہنچے گا۔‘‘
6۔ حضرت علی کرم اﷲ وجھہ الکریم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَشْفَعُ لِأُمَّتِي حَتَّی یُنَادِیَنِي رَبِّي ل فَیَقُوْلُ: أَرَضِیْتَ یَا مُحَمَّدُ؟ فَأَقُوْلُ: نَعَمْ رَضِیْتُ.
’’میں اپنی امت کے لئے شفاعت کرتا رہوں گا حتی کہ میرا رب مجھے ندا دے کر پوچھے گا: محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! کیا آپ راضی ہوگئے؟ چنانچہ میں عرض کروں گا: ہاں! میں راضی ہوگیا۔‘‘
امت کا اس پر اجماع ہے اور اس کا انکار کوئی مومن نہیں کرسکتا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت عقیدہ ایمان کا جزو لاینفک ہے۔ متفق علیہ احادیث مبارکہ سے یہ بات حتمی طور پر ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شفاعتِ کبریٰ کے مقام پر فائز کیا جائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے جملہ اہلِ محشر مستفید ہوں گے اور یہ شفاعت بطورِ خاص ان گناہگاروں کے لئے بھی ہوگی جو کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہونے کے باعث جہنم کے حقدار ٹھہرائے جاچکے ہوں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعتِ عظمیٰ کی وجہ سے ہر امتی جس کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہوگا جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔
صالحین و نیکوکار اپنے محبین اور تعلق داروں کے ہاتھ تھامے ہوئے انہیں اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے۔ ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ وہ اپنے احباب کو ایک زنجیر کی طرح اپنے ہاتھوں کے قلاوے میں لئے ہوں گے اور گنہگار ان کے ساتھ بغیر حساب کے داخلِ جنت ہوں گے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved