عقیدۂ توسُّل کے حوالے سے یہ اَمرپایۂ ثبوت کو پہنچ گیا کہ جمہور اہلِ اسلام کا قرونِ اُولیٰ سے ہی اس بات پر اِجماع رہا ہے کہ اعمالِ صالحہ یعنی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، صدقہ، خیرات اور تلاوتِ قرآن وغیرہ کو وسیلہ بنانا جائز ہے۔ اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ البتہ توسُّل بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، توسُّل بالصالحین، توسُّل بالاولیاء اور توسُّل بالآثار کا بعض لوگ اِنکار کرتے ہیں جبکہ جمہور اہلِ اسلام اعمالِ خیر کی طرح ذوات و اشخاص سے بھی توسُّل کے جواز کے قائل رہے ہیں۔ عنوانِ بالا کے حوالے سے راقم کی الگ کتاب شائع ہو چکی ہے تاہم موضوع کی مناسبت سے ذیل میں چنداَکابر أئمہ و محدّثین اور مستند علماء کے حوالہ جات دیئے جا رہے ہیں جن سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء و صالحین کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ قدسیہ میں وسیلہ بنانا جمہور امت کا عقیدہ رہا ہے اور اِن شاء اللہ تعالیٰ تاقیامت رہے گا۔
خیر القرون کے اس عظیم اِمام، امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنانا نہ صرف درست ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستمداد کرنا بھی جائز اور مشروع ہے انہوں نے اپنے شہرہ آفاق نعتیہ منظوم کلام ’’قصیدۃ النعمان (ص: 200)‘‘ میں صراحت کے ساتھ حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل و اِستمداد کیا ہے جس کا ایک مصرع یوں ہے:
لَم یَکُن لِأبِي حَنِیفَۃ فی الأنامِ سِوَاکَ
(یا رسول اللہ! (میں آپ کے جود و عطا کا امیدوار ہوں اور) مخلوق میں ابوحنیفہ کے لیے آپ کے سوا کوئی نہیں۔)
امام مالکؒ فقہاءِ اَربعہ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کے حوالے سے صحیح سند کے ساتھ ایک واقعہ قاضی عیاضؒ (م 544ھ) نے الشفا میں، علامہ سبکیؒ نے ’’شفاء السقام فی زیارۃ خیر الأنام‘‘ میں، علامہ سمہودی نے ’’خلاصۃ الوفاء‘‘ میں، امام قسطلانی نے المواہب اللدنیۃ میں، ابنِ جماع نے ہدایۃ السالک میں او ر ابنِ حجر ہیتمی مکی نے الجوہر المنظم میں روایت کیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ خلیفہ ابو جعفر منصور (م 158ھ) مدینہ منورہ آیا اور امام مالکؒ سے دریافت کیا کہ میں زیارتِ قبرِ نبوی کے وقت دعا کرتے ہوئے اپنا رخ کعبہ کی طرف کروں یا حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف؟ امام مالکؒ نے جواب دیا:
ولِمَ تصرفُ وجهک عنه، وهو وسیلتک ووسیلۃ أبیک آدم علیه السلام إِلی الله تعالی یوم القیامۃ؟ بل استبقله واستشفع به، فیشفّعک الله، قال الله تعالی: {وَلَوْ أَنَّھُمْ إِذْ ظَّلَمُوْٓا أَنْفُسَھُمْ جَآئُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّاباً رَّحِیْماً}
قاضی عیاض، الشفا بتعریف حقوق المصطفی، 2: 596
’’(اے امیر! ) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے منہ کیوں پھیرتا ہے حالانکہ وہ تمہارے لیے اور تمہارے جدِّ اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے روزِ قیامت وسیلہ ہیں؟ بلکہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب متوجہ ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا طالب ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سامنے تیری شفاعت فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘
علامہ ابنِ حجر ہیتمی نے اپنی تصنیف لطیف ’’الصواعق المحرقۃ علی أھل الرفض والضلال والزندقۃ (ص: 180)‘‘ میں امام شافعیؒ کا وہ شعر بھی نقل کیا ہے جس میں آپ نے اہلِ بیتِ نبوی کو وسیلہ بنایا ہے۔
شاہ عبدالحق محدّث دہلویؒ (م 1052ھ) ’’أشعۃ اللمعات شرح مشکاۃ المصابیح (2: 923)‘‘ میں حضرت موسیٰ کاظمؒ کی قبرِ انور کے حوالے سے امام شافعیؒ کا درج ذیل قول نقل کرتے ہیں:
’’حضرت موسی کاظمؒ کی قبرِ انور قبولیتِ دعا کے لیے تریاقِ مجرّب ہے۔‘‘
علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانیؒ (م 1350ھ) نے ’’شواھد الحق فی الاستغاثۃ بسید الخلق (ص: 166)‘‘ میں لکھا ہے کہ امام احمد بن حنبل، امام شافعی کو وسیلہ بنا تے تھے۔
اِمام احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند میں حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم سے مروی روایت بیان کی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’شام میںچالیس مرد اَبدال ہمیشہ موجود رہیں گے جن کے وسیلہ و برکت سے بارشیں برستی ہیں، دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے اور شام والوں سے عذاب دور ہوتا ہے۔‘‘
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 112
علامہ ابنِ جریر طبری نے آیتِ مبارکہ:
وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا.
البقرۃ، 2: 89
کی تفسیر میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ’’یہودی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کیا کرتے تھے۔‘‘
طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 1: 325
امام ابو منصور ماتریدیؒ فقہ حنفی کے علاوہ علم الکلام اور علم الأصول کے بھی امام تھے۔ آپ نے آیت
وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآئَھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ.
البقرۃ، 2: 89
کی تفسیر میں بیان کیا ہے: ’’بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل یہود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے۔‘‘
ماتریدی، تأویلات أھل السنۃ، 1: 70
امام طبرانی ؒنے ’’المعجم الأوسط (6: 313، 314، رقم: 6502)‘‘ میں بہ روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت آدم علیہ السلام کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل سے مغفرت طلب کرنا بیان کیا ہے۔
امام بیہقیؒ نے ’’دلائل النبوۃ (5: 489)‘‘ میں حضرت آدم علیہ السلام کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے مغفرت طلب کرنا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی روایت بھی نقل کی ہے۔
بیہقی، دلائل النبوۃ، 6: 166، 167
علاوہ ازیں اسی کتاب کے صفحہ 167 پر اور السنن الکبریٰ میں انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش طلب کرنے کا واقعہ بھی بیان کیا ہے۔
بیہقی، السنن الکبری، 3: 352
علامہ عبد الرحمن ابنِ جوزیؒ نے الوفاء بأحوال المصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے باب میں حضرت آدم علیہ السلام کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسُّل کرنا بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ علامہ ابنِ جوزیؒ نے یہود کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل سے فتح طلب کرنے والی روایت کا بھی ذکر کیا ہے۔
ابن جوزی، الوفاء بأحوال المصطفیٰ، 1: 44
اِمام فخر الدین رازیؒ آیۂ کریمہ
وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآئَھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ.
البقرۃ، 2: 89
کی تفسیر میں یہود کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے مدد و نصرت طلب کرنا بیان کیا ہے۔
رازی، التفسیر الکبیر، 3: 180
امام قرطبیؒ نے الجامع لأحکام القرآن میں سورۃ النساء کی آیت نمبر 64 {وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآئُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہ وَ اسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہ تَوَّابًا رَّحِیْمًاo} کی تفسیر میں توسُّل کا ذکر کرتے ہوئے ایک اعرابی کا واقعہ بیان کیا ہے جس میں اس نے بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کیا:
قد ظلمت نفسي وجئتک تستغفر لي.
’’میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا ہوں کہ آپ اللہ سے میرے لیے مغفرت طلب کریں۔‘‘
اِس پر اُسے قبر مبارک سے ندا دی گئی:
انہ قد غفر لک.
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 5: 265
’’بے شک تجھے بخش دیا گیا ہے۔‘‘
اِمام نوویؒ نے ’’المجموع (8: 202)‘‘ میں توسل بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک کے پاس کھڑے ہو کر اِستشفاع کے جواز پر عتبیؒ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔
اِمام نوویؒ ’’کتاب الأذکار‘‘ کے باب الأذکار فی الاستسقاء میں ذات کے توسل کے جواز پر اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے ایسا آدمی ہو جس کا زہد و تقویٰ مشہور ہے تو اس کی ذات کے وسیلہ سے بارش طلب کیا کرو اور یوں دعا مانگا کرو:
’’اے اللہ! ہم تیرے فلاں مقبول بندہ کے وسیلہ سے بارش اور شفاعت طلب کرتے ہیں جس طرح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش طلب فرمائی اور امام بخاری نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت معاویہ اور دیگر اہلِ خیر و تقویٰ کے وسیلہ سے بارش کرنا ثابت ہے۔‘‘
نووی، کتاب الأذکار: 140
امام ابو البرکات عبد اللہ بن محمود النسفیؒ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں احناف کے معروف فقیہ اور مفسر گزرے ہیں۔ آپ تفسیر ’’مدارک التنزیل وحقائق التأویل‘‘ کے علاوہ ’’منار الأنوار‘‘ اور ’’کنز الدقائق‘‘ جیسی علمی و فنی کتب کے مصنف بھی ہیں۔ آپ اپنی تفسیر میں سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 89 {وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآئَھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ} کے تحت یہود کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرنے کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’یہود جب اپنے دشمنوں سے لڑتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور فتح یابی کی دعا کرتے تھے۔‘‘
نسفی، مدارک التنزیل وحقائق التأویل، 1: 10
شیخ ابنِ تیمیہ نے مسئلہ توسل پر اپنی کتاب ’’قاعدۃ جلیلۃ فی التوسُّل والوسیلۃ‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے اِرشاد
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہ وَابْتَغُوْٓا إِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ.
المائدۃ، 5: 35
کے تحت کلام کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کی وجہ سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کی وجہ سے یہ وسیلہ ہر اُمتی پر ہر حال میں ظاہراً و باطناً، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں اور وفات کے بعد، موجودگی و غیبوبت میں فرض ہے۔ حجت قائم ہونے کے بعد کسی بھی حال میں کسی بھی اُمتی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان و اطاعت کی وجہ اور کسی بھی عذر کی وجہ سے توسل ساقط نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت تک پہنچنے کے لئے اور اس کے عذاب سے بچنے کے لئے صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو وسیلہ بنانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔‘‘
ابن تیمیۃ، قاعدۃ جلیلۃ فی التوسُّل والوسیلۃ: 5، 6
ایک مرتبہ شیخ ابنِ تیمیہ سے سوال کیا گیا کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ انہوں نے جواب دیا:
الحمد ﷲ! أما التوسّل بالإیمان به صلی الله علیه وآله وسلم ومحبته وطاعته والصّلاۃ والسّلام علیه و بدعائه و شفاعته ونحو ذلک مما هو من أفعاله وأفعال العباد المأمور بها في حقه فهو مشروع باتّفاق المسلمین.
ابن تیمیۃ، الفتاوی الکبرٰی، 1: 140
’’الحمد ﷲ! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا و شفاعت اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں بندوں کے وہ احکام جو ان پر واجب قرار دیے گئے ہیں، کو وسیلہ بنانا تمام مسلمانوں کے اتفاق سے مشروع ہے (جس پر کسی کا بھی اختلاف نہیں)۔‘‘
شیخ ابنِ تیمیہ مزید لکھتے ہیں:
’’صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسُّل کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ مبارک کے بعد انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بھی توسُّل کیا جس طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسُّل کیا کرتے تھے۔‘‘
ابن تیمیہ، مجموع فتاویٰ، 1: 140
علامہ تقی الدین سبکیؒ نے ’’شفاء السقام فی زیارۃ خیر الأنام‘‘ میں بالتفصیل توسُّل کے جواز پر بحث کی ہے۔
سبکی، شفاء السقام في زیارۃ خیر الأنام: 161
1۔ اِمام ابنِ کثیرؒ نے ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ میں سورۃ النساء کی آیت: 64 {وَلَوْ أَنَّھُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَھُمْ جَآئُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہ تَوَّاباً رَّحِیْماً} کی تفسیر میں مسئلہ توسُّل کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے عتبی کی اُس روایت پر کوئی اعتراض نہیں کیا جس میں ایک اعرابی حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ مبارک پر شفاعت کی درخواست لے کر آیا تھا۔ حافظ ابنِ کثیرؒ اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ عاصیوں اور خطا کاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لئے دعا کیجئے۔ جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع فرمائے گا، انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1: 691
2۔ امام ابنِ کثیرؒ نے ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ میں حضرت آدم علیہ السلام کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنانے کا واقعہ ذکر کیا ہے اور اس روایت پر موضوع ہونے کا کوئی حکم نہیں لگایا۔
ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، 1:131
3۔ انہوں نے ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ میں اس آدمی کا واقعہ بھی بیان کیا ہے جو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک پر آکر بارش کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بناتا ہے۔ اور اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
ابن کثیر، البدایة والنهایة، 5: 167
4۔ اس کے علاوہ اسی کتاب میں انہوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ جنگِ یمامہ میں مسلمانوں کا جنگی نعرہ ’’یا محمداہ (اے محمد! مدد فرمائیے)‘‘ تھا۔
ابن کثیر، البدایة والنهایة، 5: 30
امام ابنِ حجر عسقلانی ؒ نے ’’الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ (3: 484)‘‘ اور ’’فتح الباری بشرح صحیح البخاری‘‘ میں اس شخص کا واقعہ ذکر کیا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر توسُّل کے لیے حاضر ہوا۔ حدیثِ عمر رضی اللہ عنہ اللَّھمَّ إِنَّا کنّا نَتوسَّلُ إِلیکَ بنبیّنا فتسقِینا، وَإِنَّا نتوسَّلُ إلیکَ بعَمِّ نبیِّنا فاسقِنا. قال: فیُسقَونَ کے ذیل میں امام بیہقی کے حوالے سے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بخاری، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب ذکر عباس بن عبدالمطلب، 3: 1360، رقم: 3507
جاء رجل أعرابي إلی النّبي صلی الله علیه وآله وسلم فقال: یا رسول الله ! أتیناک وما لنا بعیر یئط، ولا صبي یغط۔ ثم أنشده شعرًا یقول فیه:
ولیس لنا إلا إلیک فرارنا
وأین فرار الناس إلا إلی الرسل
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری بشرح صحیح البخاری، 2: 495-496
’’ایک اعرابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے درآنحالیکہ نہ ہمارے پاس کوئی اُونٹ تھا جو دوڑتا ہوا آتا اور نہ کوئی بچہ تھا جو بلبلاتا ہوا آتا۔ پھر اُس نے یہ شعر پڑھا:
(ہماری آپ کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں اور(ہدایت کے طالب) لوگ انبیاء کے علاوہ بھاگ کر کہاں جا سکتے ہیں۔)
علامہ بدر الدین عینیؒ نے ’’عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری (7: 30)‘‘ میں حضرت ابو طالب کے قصیدہ لامیہ کے اس شعر
وأبیضُ یُسْتَسقَی الغمامُ بوجھِہِ
ثِمالُ الیَتَامیٰ عِصمۃٌ لِلأرامِلِ
(وہ روشن چہرے والے کہ جن کے چہرہ انور کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی ہے، جو یتیموں کے ملجا اور بیوائوں کے فریاد رس ہیں۔)
کی تشریح کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کا جواز ثابت کیا ہے۔
علامہ سیوطیؒ نے حضرت آدم علیہ السلام کی حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسُّل والی روایت ’’الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور (1: 58)‘‘ اور ’’الخصائص الکبریٰ (1: 6)‘‘ کے علاوہ ’’الریاض الانیقۃ فی شرح أسماء خیر الخلیقۃ‘‘ میں بھی بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امام بیہقیؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ سیوطیؒ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 89 {وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآئَھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ} کی تفسیر کے ذیل میں یہود کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اپنے دشمنوں پر فتح یابی کی دعا کرنا بھی بیان کیا ہے۔
سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، 1: 217
علامہ قسطلانی ؒ نے ’’المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ (2: 726)‘‘ میں صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ’’انبیاء کرام، اَولیاء اللہ اور مقربین کی برکت سے بارانِ رحمت ہوتی ہے اور مسلمانوں کو فتح و نصرت نصیب ہوتی ہے۔‘‘
ملا علی قاریؒ نے ’’الحرز الثّمین (ص: 176)‘‘ میں توسُّل کے جواز پر تفصیلا لکھا ہے۔ وہ ’’مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح‘‘ میں مسند احمد بن حنبل کی روایت - الأبدال یکونون بالشّام(2) - کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 112
أی ببرکتهم أو بسبب وجودهم فیما بهم یدفع البلاء عَنْ هٰذِهِ الْأُمَّةِ.
ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، 1: 460
’’ابدال کی برکت یا ان کے وجودِ مسعود کے سبب - جس علاقہ میں وہ ہوتے ہیں - اُمتِ محمدیہ سے بلائیں دور ہوتی ہیں۔‘‘
محدّثِ ہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ان اکابر اولیاء اور اسلاف میں سے ہیں جو اپنی خداداد بصیرت و معرفت کے باعث بہت سے باطنی حقائق کو نہ صرف بچشمِ سر دیکھتے تھے بلکہ انہیں اِعلانیہ بیان بھی کر دیتے تھے۔ آپ نے اپنے مشاہدات پر مشتمل ’’فیوض الحرمین‘‘ کے نام سے جو بے مثال کتاب تصنیف کی ہے، اس میں توسُّل و استمداد پر مشتمل کئی مکاشفات اور روایات کے ذریعہ اپنا عقیدہ بیان کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ، فیوض الحرمین: 82
شاہ عبدالعزیز محدّث دہلویؒ اُن اَجل علماء میں سے ہیں جنہیں تمام مکاتبِ فکر اپنے اکابرین میں تسلیم کرتے ہیں۔ آپ نے آیت کریمہ {وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآئَھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ} کی تفسیر بیان کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ’’یہود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے قبل اپنے دشمنوں پر فتح پانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ کی بارگاہ میں اِلتجاء کرتے تھے۔‘‘
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، تفسیر عزیزی: 329
شاہ اسمعیل دہلوی نے اپنی کتاب ’’صراط مستقیم‘‘ میں شیخ اور مرشد کو اللہ تعالیٰ تک رسائی کا وسیلہ اور ذریعہ قرار دیا ہے۔ وہ آیت {یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیلَۃَ} کے تحت وسیلہ سے مراد مرشد کی رہنمائی لیتے ہیں۔
اسمعیل دهلوی، صراطِ مستقیم: 58
قاضی شوکانی نے اپنی کتاب تحفۃ الذاکرین میں حدیثِ عثمان بن حنیفؓ اور حدیثِ اِستسقاء سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صالحین کو وسیلہ بنائے جانے پر اِستدلال کیا ہے۔ علامہ شوکانی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد دونوں حالتوں میں توسُّل کو جائز قرار دیتے ہیں۔
علامہ ابنِ عابدین شامیؒ ان اکابر علماء اور فقہاء میں سے ہیں جن کی ذہانت و فطانت اور فقہی مہارت کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ’’رد المحتار علی الدر المختار‘‘ ان کا عظیم علمی و تحقیقی کارنامہ ہے جس میں غوّاصی، تبحر علمی اور تحقیقی بصیرت کی متقاضی ہے۔ جب علامہ شامی نے اتنے بڑے علمی و فقہی کام کی تکمیل کا ارادہ کیا تو اپنی دماغی قابلیت اور صلاحیت پر بھروسہ کرنے کی بجائے بارگاہِ ایزدی میں حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، مقربینِ اِلٰہی اورحضرت امام اعظمؒ کا وسیلہ پیش کیا۔
ابن عابدین شامی، رد المحتار علی الدر المختار، 1: 4
نواب وحید الزمان توسل بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرک نہ ہونے کی دلیل دیتے ہوئے نواب صدیق حسن خان بھوپالی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ علامہ بھوپالی یا سیدی یا عروتی و وسیلتي کے الفاظ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرتے تھے۔
وحید الزمان، حاشیۃ ھدیۃ المھدی: 20
نواب صدیق حسن خان بھوپالی حدیثِ ربیعہ بن کعب - فقال لي: سل، فقلت: أسئلک مرافقتک فی الجنۃ … الخ- کی شرح کرتے ہوئے ’’مسک الختام شرح بلوغ المرام‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’(اس حدیث میں)مطلقاً فرمایا کہ مانگو اور کسی خاص مقصد کی تعیین نہیں فرمائی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام کام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمتِ کرم سے وابستہ ہیں، جو کچھ چاہیں اور جسے چاہیں اپنے پروردگار کے اذن سے عطا فرماتے ہیں۔‘‘
معروف غیر مقلد عالم شیخ وحید الزمان نے ’’ہدیۃ المہدی من فقہ المحمدی‘‘ میں توسل بعد اَز وصال جائز قرار دیا ہے۔
وحید الزمان، ھدیۃ المهدی من فقہ المحمدی: 47۔49
مولوی خلیل احمد سہارنپوری ’’حسّام الحرمین‘‘ کے ردّ میں لکھے گئے اپنے رسالہ ’’المہند علی المفند‘‘ میںعقائد علمائے دیو بند بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعاؤں میں انبیاء، صلحاء، اَولیاء، شہداء اور صدیقین کا توسل ان کی حیات میں یا بعد اَز وفات جائز ہے۔‘‘
خلیل أحمد سہارن پوری، المھند علی المفند: 31
مولانا عبد الرحمن مبارکپوری نے ’’تحفۃ الأحوذی بشرح جامع الترمذی‘‘ میں توسل کے جواز پر مختلف علماء کے اِقتباسات نقل کیے ہیں۔
مبارک پوری، تحفۃ الأحوذی بشرح جامع الترمذی، 10: 25
مولانا اشرف علی تھانوی اپنی کتاب ’’نشر الطیب‘‘ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نورِ سرمدی کی برکات و اعجازات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اجداد میں سب کی پیشانیوں میں اس نور کی جلوہ پاشی صاف طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا نورِ لم یزل حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کی قبولیت کا سبب بنا، حضرت نوح علیہ السلام کو طوفان سے نجات دلانے کا سبب یہی نور تھا اور اسی نور نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نارِ نمرود کو گل و گلزار میں بدل دیا۔ اس کے علاوہ مولانا اشرف علی تھانوی نے نشر الطیب کی اڑھتیسویں (38) فصل کا نام ہی ’’دعا کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسُّل حاصل کرنا‘‘ رکھا ہے۔ اس فصل میں حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح توسُّل کسی کی دعا کا جائز ہے، اسی طرح توسُّل دعا میں کسی کی ذات کا بھی جائز ہے۔‘‘
تھانوی، نشر الطیب، فصل نمبر: 38
علامہ شبیر احمد عثمانی ’’تفسیر عثمانی‘‘ میں اِیاک نستعین کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اللہ کے مقبول و مقرب بندوں کو غیر مستقل اور محض واسطۂ رحمتِ الٰہی سمجھ کر اُن سے اِستعانتِ ظاہری کی جائے تو یہ جائز ہے کیونکہ یہ استعانت حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی سے استعانت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اس آیتِ شریفہ سے معلوم ہوا کہ اس کی ذاتِ پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے۔ ہاں اگر مقبول بندے کو محض واسطۂ رحمتِ الٰہی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کی جائے۔ تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت اللہ تعالیٰ سے ہی استعانت ہے۔‘‘
شبیر احمد، تفسیر عثمانی، 1: 52
گزشہ صفحات میں ’توحید اور توسل‘‘ پر مختلف عناوین سے ہم نے قرآن و حدیث اور اکابر آئمہ اُمت کے معمولات و اقوال کی روشنی میں ٹھوس دلائل سے واضح کر دیا کہ توسُّل ایک درست، جائز اور شرعی طریقہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کبار صحابہث کو وسیلہ بنانا اور ان سے توسُّل کرنا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ تابعین، تبع تابعین اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں اور ائمہ کا معمول رہا ہے۔ پھر بھی اگر کوئی شخص توسُّل و وسیلہ کا انکار کرے اور اسے شرک و بدعت قرار دے تو اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ فرمان مدنظر رکھنا چاہئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمیع اُمت میں بہترین قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خیر الناس قرني، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم.
بخاری، الصحیح، کتاب الشھادات، باب لا یشھد علی شھادۃ جور إذا أشھد، 2: 938، رقم: 2509
’’سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے۔‘‘
اس حدیثِ مبارکہ سے مستفاد یہ اَمر قابل غور ہے کہ کیا منکرینِ توسُّل کے مقابلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں اور ائمہ کا عمل ترجیح نہیں پائے گا؟ بدقسمتی سے آج ہم نے قرآن و حدیث پر مبنی صریح دینی احکام و تعلیمات کو بھی اپنی طبیعت اور مسلک کے تابع کر دیا ہے۔ جو بات ہماری طبیعت اور خاص مسلکی ذوق کی تسکین کا باعث ہو، وہ دین ہے جبکہ اس کے علاوہ اگر کوئی امرِ دینی صحیح اور ثقہ روایات سے ثابت ہو لیکن ہماری طبیعتوں اور مسلک سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو ہم اسے دین سے خارج سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جملہ عقائد و اعمال کو افراط و تفریط سے ہٹ کر دین کی حقیقی روح کے ساتھ سمجھا جائے، تاکہ اللہ رب العزت کے حضور ہمیں دنیا و آخرت میں سرخروئی نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کا صحیح فہم عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved