قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے جا بجا متلاشیانِ حق کو اپنے حضور تقرب اور رسائی کے لیے وسیلہ تلاش کرنے کے بارے رہنمائی فرمائی ہے۔ قرآنِ حکیم میں متعدد واقعات اور نظائر (precedents) ایسے ہیں جن کی رُو سے تقرّب اِلی الله کے لیے اعمالِ صالحہ یا ذواتِ مقدّسہ کا توسل نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کی ترغیب بھی ملتی ہے۔ ذیل میں ہم قرآنِ مجید کے اُن مقامات میں سے چند ایک کا ذکر کریں گے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح صراحت کے ساتھ وسیلہ اِختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔
سورۃ المائدۃ میں الله تعالی نے اپنے حضور تقرب اور رسائی کے لیے وسیلہ تلاش کرنے کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْتَغُوْا إِلَیْهِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
المائدۃ، 5: 35
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔‘‘
مذکورہ آیتِ مقدسہ میں وَابْتَغُوْٓا إلَیْهِ الْوَسِیْلَۃَ فرما کر تلاشِ وسیلہ کی ترغیب دی گئی ہے۔ بعض علماء نے اس آیتِ کریمہ میں تلاشِ وسیلہ سے فقط ایمان اور اعمالِ صالحہ مراد لیا ہے۔ جبکہ اکثر علماء نے آیت کے ان اَلفاظ سے اَنبیاء، صلحاء اور اَولیاء کی ذواتِ مقدسہ مراد لی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اِتَّقُو اللهَ میں ایمان، اَعمالِ صالحہ اور عبادات سب شامل ہیں۔ قرب و حضورِالٰہی کا وسیلہ جہاں اَعمالِ صالحہ اور اِیمان بنتا ہے وہاں اللہ کے انبیاء اور اولیاء بطریقِ اولیٰ بنتے ہیں۔ اسی لیے شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی (م 1174ھ) نے ’’القول الجمیل (ص: 34)‘‘ میں وسیلہ سے مراد ’’بیعتِ مرشد‘‘ جبکہ شاہ اسمعیل دہلوی نے ’’صراطِ مستقیم (ص: 58)‘‘ میں وسیلہ سے مراد ’’مرشِد‘‘ لیا ہے اور مزید برآں کہا:
بدون مرشد راہ یابی نادر است.
’’مرشد کی راہنمائی کے بغیر (ہدایتِ ربانی) کا ملنا شاذ و نادر ہے۔‘‘
قرآنِ حکیم میں دوسرے مقام پر تلاشِ وسیلہ کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا:
أُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ إِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ أَیُّھُمْ أَقْرَبُ.
بنی اسرائیل، 17: 57
’’یہ لوگ جن کی عبادت کرتے ہیں(یعنی ملائکہ، جنات، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام وغیرہم کے بت اور تصویریں بنا کر اُنہیں پوجتے ہیں)، وہ (تو خود ہی) اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں سے (بارگاهِ الٰہی میں) زیادہ مقرب کون ہے۔‘‘
دورِ جاہلیت میں مشرکین جنات، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام کے بت اور تصاویر بناکر اُن کی پوجا کرتے تھے۔ اِسلام سے قبل جنات نے انسانوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیںچھوڑی تھی۔ یہ بتوں میں گھس کر عجیب و غریب حرکتیں کرتے۔بتوں کو ہلتا جلتا اور مسکراتا دیکھ کر سادہ لوح ضعیف الاعتقاد لوگ ان کی عبادت میں مصروف ہوجاتے۔ لیکن جب اسلام کی روشنی ظاہر ہوئی تو جنات اپنے اس گمراہ کن عمل سے تائب ہوکر مسلمان ہوگئے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس آیت کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ آیت ایک عرب جماعت کے حق میں نازل ہوئی جس کے لوگ جنات کے ایک گروہ کو پوجتے تھے۔ جب وہ جن مسلمان ہو گئے اور ان کے پوجنے والے اس سے بے خبر رہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس آیت کے ذریعے اطلاع دی اور فرمایا: جنہیں تم پوج رہے ہو وہ ہمارے حضور سر بسجود ہیں اور وہ خود ہمارے مقربین کا وسیلہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
مسلم، الصحیح، 4: 2331، کتاب التفسیر، باب فی قولہ تعالی: أُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ إِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃ، رقم:3030
اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مقربینِ الٰہی کا وسیلہ لینا جائز ہے اور وہ خود بھی قرب ِ الٰہی کے حصول کیلئے اپنے سے زیادہ مقرّب کے متلاشی رہتے ہیں، گویا مقرّبین کا اپنا عمل بھی یہی ہے۔ مختصر یہ کہ کسی غیر کی عبادت کرنا ممنوع ہے لیکن مقبولان ِحق کا وسیلہ پکڑنا اور ان سے دعا کے لئے عرض کرنا جائز ہے۔ عبادت کی نفی ہے وسیلے کی نفی نہیں۔ مقبولانِ حق وسیلہ بنتے ہیں، معبود نہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے توسُّل کرنے پر قرآن مجید کی درج ذیل آیت نصِ صریح ہے:
وَلَوْ أَنَّھُمْ إِذْ ظَّلَمُوْٓا أَنْفُسَھُمْ جَآؤُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًاo
النساء، 4: 64
’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنوں کو ان کے گناہوں اور لغزشوں کی مغفرت کے لئے بارگاهِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس آیت کا اِطلاق صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری تک محدود نہیں بلکہ بعد از وصال بھی اس کا حکم اسی طرح باقی ہے جس طرح ظاہری حیاتِ طیبہ میں تھا۔ مفسرین اور ائمہ کرام نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا گیا:
عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوْدًاo
بنی اسرائیل، 17: 79
’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اَوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے) پر فائز فرمائے گا۔‘‘
مقامِ محمود سے مراد وہ اعلیٰ و اَرفع مقام ہے جو روزِ قیامت حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مختص ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقامِ محمود پر فائز ہونے کا مقصد اُمت کی شفاعت فرمانا ہے۔ صحیح حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ قیامت کے دن مصائب و آلام میں گھرے ہوئے لوگ جمع ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آئیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے التجا کریں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور سفارش کریں تاکہ حساب کتاب جلد شروع ہو اور وہ اس جان لیوا تکلیف سے نجات پائیں۔ اَحادیثِ متواترہ صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے بعد حساب و کتاب شروع فرما دے گا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے روز بھی تمام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رب ذوالجلال کی بارگاہ میں وسیلہ بنائیں گے۔
سورۂ انفال میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِیْھِمْط وَمَا کاَنَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo
الانفال، 8: 33
’’اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں۔‘‘
یہاں اللہ تعالیٰ نے امت سے عذاب ٹال دینے کی دو وجوہات بیان فرمائی ہیں:
مذکورہ آیت میں طلبِ مغفرت سے پہلے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ بیان کرنا اس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ جب تک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ مسعود کی وجہ سے الله تعالی ان پر عذاب نازل نہیں فرمائے گا۔ بعض لوگ جو اس آیت سے ظاہری حیاـــتِ طیبہ مراد لیتے ہیں، ہمارے نزدیک وہ درست نہیں۔ آیت میں مطلقاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی کا ذکرہے۔ یہ بات بھی نصِ صریح سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے قبل یہود، مشرکینِ عرب پر فتح یابی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے مدد و نصرت طلب کرتے تھے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا.
البقرۃ، 2: 89
’’حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان پر اترنے والی کتاب قرآن کے وسیلے سے) کافروں پر فتح یابی (کی دعا) مانگتے تھے۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب گزشتہ اُمتوں کا ہمارے آقا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسُّل کرنا مشروع اور جائز ہے اور کتاب و سنت نے ان کے اس عمل کی تحسین کی ہے تو پھر اُمتِ محمدیہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑنا کیسے شرک اور بدعت ہو گیا۔
سورہ ٔ یوسف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِذْھَبُوْا بِقَمِیْصِیْ ھٰذَا فَأَلْقُوْهُ عَلٰی وَجْهِ أَبِیْ یَأْتِ بَصِیْرًا.
یوسف، 12: 93
’’ـ(حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا:) میرا یہ قمیض لے جاؤ، سو اِسے میرے باپ (حضرت یعقوب علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہوجائیں گے۔‘‘
اس کے بعد کے واقعہ کو قرآنِ کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
فَلَمَّآ أَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ أَلْقٰهُ عَلٰی وَجْھِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًا.
یوسف، 12: 96
’’پھر جب خوشخبری سنانے والا آپہنچا اس نے وہ قمیص یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی۔‘‘
اس آیتِ کریمہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ جس چیز کو انبیاء اکرام و صلحاء عظام سے نسبت ہوجائے اس سے توسُّل کرنا توحید کے منافی نہیں کیونکہ قمیض کو بھیجنے والے بھی الله کے برگزیدہ نبیں اور اس وسیلہ سے فائدہ اٹھانے والے بھی الله تعالیٰ کے برگزیدہ نبیں ہیں اور بیان کرنے والا ماحیٔ شرک یعنی قرآن ہے۔ مذکورہ آیتِ کریمہ سے درجہ ذیل نکات ثابت ہوتے ہیں:
1۔ جَآءَ الْبَشِیْرُ کے اعتبار سے یہ توسُّل اگرچہ ظاہراً توسُّل بغیر النبی ہے لیکن فی الحقیقت یہ توسُّل بآثارِ النبی ہے۔
2۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر قمیض ڈالتے وقت بشارت دینے والے نے زبان سے کچھ نہ کہا لہذا قمیض کے توسُّل سے بینائی کا لوٹ آنا توسُّل نفسی ہے۔
3۔ غیر نبی سے وسیلہ کرنا سنت انبیاء علیہم السلام ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں یہ َامر بطورِ خاص توجہ طلب ہے کہ ایک پیغمبر( حضرت یوسف علیہ السلام) وسیلے کا حکم دے رہے ہیں اور دوسرے پیغمبر( حضرت یعقوب علیہ السلام) اس قمیض سے توسُّل کر رہے ہیں یعنی قمیض متوسَّل بهِ ہے۔ لہٰذا جب پیغمبر کی قمیض سے توسُّل امرِ جائز ہے تو اس سے توسُّل بآثارِ الانبیاء اور توسُّل بالصالحین کا عقیدہ بھی از خود ثابت ہوجاتا ہے۔
سید نا زکریا علیہ السلام کا حضرت مریم علیھا السلام کی عبادت گاہ کی توسّل سے دعا مانگنے کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ج قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ج إِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِo
’’اسی جگہ(حضرت مریم علیہا السلام کی عبادت گاہ میں) زکریا (علیہ السلام)نے اپنے رب سے دعا کی۔ عرض کیا: میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔‘‘
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کا عمل مبارک بیان فرمایا کہ جب انہوں نے اپنی زیرِتربیت اللہ تعالیٰ کی صالحہ بندی حضرت مریم علیھا السلام کے پاس طرح طرح کے بے موسمی پھل اور دیگر انعاماتِ الہٰیّہ کا مشاہدہ کیا تو انہوں نے اس خاص مقام کو اپنی دعا کیلئے منتخب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور انہیں حضرت یحیٰ علیہ السلام کی صورت میں بیٹاعطا فرمایا۔
مافوق الاسباب امور کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ جو اَسباب کسی اَمر کے لیے خاص ہوں ان اسباب کو زیر استعمال لائے بغیر وہ کام ہو جائے جو کہ اس سبب کے بغیر ناممکن تھا۔ جیسے حضرت عیسی ںکی پیدائش، کہ پیدائش کے لیے اسباب کا ہونا ضروری ہے جبکہ یہاں تزوج کا وجود ہی نہیں۔ اِس طرح جنسِ مخالف کی عدم موجودگی کے باوجو دپیدائش کا ہونا مافوق الاسباب میں سے ہے۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مافوق الاسباب اُمور کے لیے توسُّل شرک اور ماتحت الاسباب کے لیے شرک نہیں ہوتا۔ یہ نظریہ دراصل مافوق الاسباب کی حقیقی تعریف سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی کی بازیابی والی مثال زیادہ موزوں معلوم ہوتی ہے کہ آنکھوں کی روشنی اور بینائی کا واپس آنا اگر دوا، علاج یا آپریشن سے ہو تو اسے اسباب سے منسوب کیا جائے گا لیکن اس کے برعکس فقط قمیض کے رکھنے سے بینائی کا لوٹ آنا تو اسباب سے ماوراء چیز ہے جسے مافوق الاسباب کی اصطلاح سے موسوم کیا جائے گا۔ اس بحث سے پتہ چلا کہ:
یہاں ایک بات جو بطورِ خاص توجہ طلب ہے وہ یہ کہ ماتحت الاسباب سے توسُّل کو جائز کہنا اور مافوق الاسباب سے ناجائز اور شرک سمجھنا یہ بھی ایک خود ساختہ تقسیم ہے جو کسی قرآنی نص اور حدیثِ صحیح سے ثابت نہیں۔ صحیح اسلامی عقیدہ تو یہی ہے کہ حقیقی کارساز و مددگار اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے اس کی ذات و صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانے کا تصور بھی ممکن نہیں کہ جو چیز شرک ہے وہ ہرجگہ اور ہر وقت شرک ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ کوئی چیز یا واقعہ ماتحت الاسباب کی بناء پر ہو رہا ہو مگر وہ شرک ہو اور کوئی واقعہ ما فوق الاسباب کے مطابق ہونے کے باوجود بھی شرک نہ ہو۔ جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی مثال سے واضح ہے۔
ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب دونوں کا تعلق دراصل ظاہری اور باطنی و روحانی اسباب سے ہے۔ ہماری زندگی کے اندر بہت سارے اُمور ایسے ہیں جو ماتحت الاسباب یعنی ظاہری اسباب کے تحت حل ہوجاتے ہیں اور کچھ اُمور وہ ہوتے ہیں جو ظاہری اَسباب کے بغیر باطنی اور روحانی طور پر حل ہوجاتے ہیںیعنی اصلاً کوئی بھی کام بغیر سبب کے نہیں ہوتا، تو معلوم ہوا کہ حقیقی معنوں میں کوئی بھی امر مافوق الاسباب نہیں ہوتا۔ اگر کوئی امر ظاہری اسباب (امورِ عادیہ) کے بغیر واقع ہوجائے تو وہ بھی حقیقتاً بغیر سبب کے نہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ فردِ بشر کو بعض اسباب دکھائی دیتے ہیں اور بعض دکھائی نہیں دیتے۔
لہذا اگر ہم مافوق الاسباب اُمورمیں توسُّل کو شرک قرار دیں تو اس سے نصِ صریح سے انحراف لازم آئے گا مثلاً حضرت جبرئیل ںجب اللہ تعالیٰ کے اِذن سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے سلسلے میں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس انسانی روپ میں آئے تو ان سے کہا:
إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَھَبَ لَکِ غُلٰماً زَکِیًّاo
مریم، 19: 19
’’میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروںo‘‘
اس آیتِ کریمہ میں حضرت جبرئیل امینں عطاء ِفرزند کی نسبت اپنی طرف کر رہے ہیں جو کہ ظاہری اسباب کے بغیر ہے، یعنی باپ کے بغیر صرف پھونک مارنے سے بچہ عطا کرنا مافوق الاسباب عمل ہے۔ اگر ما فوق الاسباب اُمور میں توسل ناجائز اور شرک ہوتا تو کبھی بھی جبرئیلِ امین عطاء ِفرزند کی نسبت اپنی طرف نہ کرتے۔ان قرآنی نظائر سے ثابت ہوا کہ توسلِ شخصی بھی منافیٔتوحید نہیں پس ایک خود ساختہ عقیدے کی بناء پرتوسلِ شخصی کا انکار کرنا آیاتِ قرآنی کے اِنکار کے متراد ف ہے۔
گزشتہ صفحات میں ہم نے قرآنِ حکیم کی روشنی میں عقیدۂ توسل کے بنیادی تصورات واضح کیے ہیں۔ اب ہم احادیثِ نبوی کی روشنی میںان تفصیلات کو دیکھتے ہیں:
اُمتِ محمدیہ پر الله تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ ایمان لانے کے بعد یہ اُمت بحیثیتِ مجموعی دوبارہ کفر و شرک کی مر تکب نہیں ہوگی۔ سابقہ اُمم میں ایسا بارہا ہوتا رہا کہ اپنے نبی کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد وہ شرک کے اندھیروں میں راہ ِ حق سے دور ہو گئیں۔ لیکن اُمت ِمصطفوی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ اقدس سے اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں اس امر کا اعلان فرما دیا تھا کہ اب مجھے اس کے شرک میں مبتلا ہونے کا ڈر نہیں رہا۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنِّی وَاللهِ، مَا أخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوا بَعْدي، وَلَکِنْ أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِیْھَا.
’’اللہ کی قسم! مجھے اس بات کا ڈر نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے لیکن مجھے تمہارے حصولِ دنیا میں ایک دوسرے سے مقابلہ کا اندیشہ ہے۔‘‘
توسل جیسے مستحسن عمل کو شرک و بدعت کہنے والے لوگ اس بات پر غور کریں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو شرک و بدعات کا قلع قمع کرنے کے لیے تشریف لائے، جن کے وسیلے سے ہمیں راہ ِہدایت نصیب ہوئی، وہ تو یہ فرمارہے ہیں کہ مجھے اپنی اُمت کے دوبارہ شرک کی طرف پلٹ جانے کا اندیشہ نہیں۔ ایک ہم ہیں کہ محض مسلکی تعصب و عناد کی بناء پر ایک دوسرے پرکفر و شرک کے فتوے لگارہے ہیں۔ ایسا رویہ دین کی حقیقی روح سے ناآشنائی کے سوا اور کچھ نہیں۔
درج ذیل سطور میں ہم نفس مضمون سے متعلق چنداحادیث ذکر کریں گے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وسیلہ ہرگز شرک اور فعلِ حرام نہیں بلکہ یہ ایک امرِجائز ہے اور تقرب الی اللہ کے لئے دین کے جائز طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔
کسی مشکل اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے الله تعالیٰ کے حضور اعمالِ صالحہ کا وسیلہ پیش کرنا تمام مکاتبِ فکر کے نزدیک جائز اورمشروع ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنھما سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’’ایک دفعہ تین مسافر جنگل سے گزر رہے تھے۔ اچانک آسمان پر گھنگھور گھٹا چھاگئی۔ ابھی بچاؤ کا طریقہ سوچ ہی رہے تھے کہ زبردست موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ ایک غار میں پناہ لینے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا چنانچہ وہ اس میں گھس گئے۔ غار کا دہانہ چھوٹا تھا اچانک ایک بھاری بھرکم پتھر لڑھکتا ہوا آیا اور غار کے دہانے پر گرگیا۔ یہ لوگ اس میں محبوس ہوکر رہ گئے۔ اس ناگہانی مصیبت سے چھٹکارا پانے کے لیے انہوں نے ایک دوسرے سے کہا:
انظُروا أعمالاً عَمِلتُموها ﷲ صالحۃً، فَادعوا اللہ بھا لَعَلَّهُ یَفْرُجُھَا.
’’اپنے اپنے (وہ نیک) اعمال یاد کرو جو تم نے خالصتاً اللہ (کی رضا و خوشنودی) کے لئے کئے۔ پھر ان کے وسیلے سے اللہ کی بارگاہ میں دعا کرو شاید وہ اس کو کھول دے (اور ہمیں اس مصیبت سے نجات دے)۔‘‘
تجویز چونکہ بڑی مناسب اور حسبِ حال تھی اس لیے سبھی اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ ہر ایک نے باری باری اپنے اعمالِ صالحہ پیش کئے اور ان سے توسُّل کرتے ہوئے باری تعالیٰ سے اس مصیبت سے خلاصی کیلئے التجا کی۔
پہلا شخص اپنے ضعیف والدین کی خدمت کا وسیلہ پیش کرتے ہوئے الله تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتا ہے:
فإن کنتَ تعلمُ أنّی فَعلتُ ذٰلک ابتغاءَ وجھِکَ فَافْرجْ لنا فُرجۃً نَرَی منھا السماءَ.
’’اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل محض تیری رضا کے لیے کیا تھا تو توُ دہانے سے پتھر ہٹادے تاکہ ہم آسمان دیکھ سکیں۔‘‘
جونہی اس وفا شعار انسان نے دعائیہ الفاظ ختم کئے وہ پتھر تھوڑا سا ہٹ گیا اور انہیں آسمان نظر آنے لگا، مگر اتنا راستہ نہ بنا کہ کوئی آدمی باہر جا سکے۔
دوسرا شخص جسے اپنے چچا کی لڑکی کے ساتھ جذباتی لگائو تھا۔ اس لڑکی پر قابو اور اختیار حاصل کرنے کے باوجود محض الله کے خوف اور خشیت کی وجہ سے اپنے دامن کو فعلِ بد سے بچا لیا۔ وہ الله د کی بارگاہ میں اپنے پاکیزگیٔ دامن کے اس عمل کو بطورِ وسیلہ پیش کرتے ہوئے عرض کرتا ہے:
اللّهم فإن کنتَ تعلمُ أنّی فَعلتُ ذٰلک ابتغاءَ وجھِکَ فَافرُجْ لنا منھا.
’’اے اللہ ! پس اگر تیرے علم میں ہے کہ میں نے تیری رضا کی خاطر ایسا کیا (اور میرا یہ عمل تیری بارگاہ میں مقبول ہے ) تو ہمارا راستہ کھول دے۔‘‘
اس کے دعائیہ کلمات پر پتھر مزید سرک گیا مگر ابھی اتنی گنجائش نہ ہوئی تھی کہ وہ بآسانی باہر نکل سکتے۔
تیسرا شخص اپنی امانت و دیانت اور حق و صداقت کو الله د کے حضور وسیلہ بناتے ہوئے عرض کرتا ہے:
فإن کُنتَ تعلَمُ أنی فعَلتُ ذٰلک ابتغائَ وجھِکَ، فَافرُجْ ما بَقِیَ.
بخاری، الصحیح، کتاب المزارعۃ، باب إذا ذرع بمال قوم بغیر إذنهم، 2: 821، رقم: 2208
’’(اے الله !) اگر میں نے یہ ایثار صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا تو (اس کی برکت سے ہماری مشکل دور فرما اور) غار کے دہانے سے باقی پتھر بھی ہٹا دے (کہ ہم باہر نکل سکیں)۔‘‘
اس طرف ان کی دعا ختم ہوئی دوسری طرف رحمتِ الٰہی جوش میں آئی اور پتھر غار کے دہانے سے ایک طرف لڑھک گیا۔ اس طرح اعمالِ صالحہ کے وسیلہ سے انہیں اس مصیبت سے نجات ملی اور بارگاهِ الٰہی سے نئی زندگی مل گئی لہٰذا یہ تینوں حضرات سلامتی اور عافیت کے ساتھ باہر نکل آئے۔
نمازِ پنجگانہ وہ عملِ صالحہ ہے جس کے وسیلے اور برکت سے اللہ رب العزت اپنے بندوں کی خطائیں معاف فرما دیتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَرَأَیْتُمْ لَوْ أَنَّ نَھْرًا بِبَابِ أَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ مِنْهُ کُلُّ یَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ. ھَلْ یَبْقَی مِنْ دَرَنِهِ شَئٌ؟ قَالُوا: لاَ یَبْقَی مِنْ دَرَنِهِ شَئٌ. قَالَ: فَذَالِکَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، یَمْحُوا ﷲُ بِهِنَّ الْخَطَایَا.
مسلم، الصحیح، کتاب المساجد، باب المشي إلی الصّلاۃ، 1:462، رقم: 667
’’(مجھے بتاؤ) اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ دن میں پانچ دفعہ اس میں نہاتا ہو تو کیا اس کے جسم پر میل نام کی کوئی چیز باقی رہ جائے گی؟ حاضرین نے جواب دیا: اس کے جسم پر میل نہیں بچے گی۔ فرمایا:یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے۔ خدا تعالیٰ ان (کے وسیلہ اور برکت ) سے گناہ مٹاتا ہے۔‘‘
بندۂ مومن کا مقصود اپنے معبودِ حقیقی اور مالک کے قرب اور رضا کا حصول ہوتا ہے۔ نوافل کے توسُّل سے بندے کو قربِ الٰہی نصیب ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہص سے مروی حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَا یَزَالُ عَبْدِی یَتَقَرَّبُ إليَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّی أَحِبَّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِی یَسْمَعُ بِهِ، و بَصَرَهُ الّذِی یُبْصِرُ بِهِ وَ یَدَهُ الَّتِی یَبْطِشُ بِهَا، وَ رِجْلَهُ الَّتِی یَمْشِی بِهَا.
بخاری، الصحیح، کتاب الرقائق، باب التواضع، 5: 2384، رقم:6137
’’میرا بندہ نوافل کے ذریعے مسلسل میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنالیتا ہوں۔پھر میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ذیعے وہ سنتا ہے اور اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوںجس کے ساتھ وہ چلتا ہے۔‘‘
ماں، بہن، بیٹی سب قابلِ عزت و تکریم رشتے ہیں۔ اسلام نے نہ صرف ان رشتوں کی تقدیس کی بات کی بلکہ ان کی حفاظت اور پرورش پر اَجرِ عظیم کا مژدہ بھی سنایا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرشاد کے مطابق بچیوں کی بہتر پرورش اور تعلیم و تربیت ایک ایسا عمل صالحہ ہے جس کے وسیلے سے ماں باپ کو جہنم کی آگ سے خلاصی نصیب ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں:
جائتنی امرأۃٌ معھا ابنتانِ تَسألُنی، فلم تجدْ عندي غیر تمرۃٍ واحدۃٍ، فأعَطیْتُھا فقسمَتْھا بین ابنتیھا، ثم قَامَتْ فخرجَتْ، فدخَلَ النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فحدَّثْتُہ، فقال: من یلی من ھذہ البناتِ شیئاً، فأحسنَ إلیھن،کُنَّ لہ سِتراً من النار.
بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب رحمۃ الولد، 5: 2234
’’میرے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، وہ مجھ سے کچھ مانگتی تھی۔ اس نے ایک کھجور کے سوا میرے پاس کچھ نہ پایا، میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے وہ کھجور دونوں بیٹیوں میں تقسیم کردی اور پھر اٹھ کر چلی گئی۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سارا ماجرا بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی بیٹیوں کے ذریعے آزمایا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو یہ اس کیلئے دوزخ سے حجاب بن جاتی ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے لئے آپس میں محبت اور اس سے استغفار کرنا ایسے اعمالِ صالحہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو نہایت پسند ہیں اور ان اعمال کو سر انجام دینے والوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ اپنی دیگر مخلوق سے بھی عذاب ٹال دیتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
إنّ الله سبحانہ یقول: إنی لأھم بأھل الأرض عذاباً، فإذا نظرت إلی عمار بیوتی والمتحابین فیّ والمستغفرین بالأسحار، صرفت عنھم.
بیہقی، شعب الإیمان، 6: 500، رقم: 9051
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں زمین والوں پر عذاب اتارنا چاہتا ہوں لیکن جب میں اپنے گھر آباد کرنے والوں، اپنے لئے باہم محبت کرنے والوں اور پچھلی رات کو استغفار کرنے والوں کو دیکھتا ہوں تو (ان کے وسیلہ سے اپنا غضب )ان سے پھیر دیتا ہوں۔‘‘
صدقات و خیرات مصیبتوں اور بلاؤں کو ٹالنے کا بہترین وسیلہ ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مصائب و آزمائش کو ٹالنے کے لیے صدقہ و خیرات کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
بَاکِرُوا بِالصَّدَقَۃِ فَإنَّ البَلاءَ لَا یَتَخَطَّا الصَّدَقَۃَ.
بیہقی، السنن، 4:189، رقم: 7620
’’صدقہ کی ادائیگی میں جلدی کیا کرو کیونکہ بلا (مصیبت) صدقہ کو نہیں پھلانگ سکتی (یعنی صدقہ کی موجودگی میں بلائیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں)۔‘‘
نیک نسبت کے توسل سے دعا کی تاثیر اور قبولیت کے امکان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ خواہ وہ عملِ صالح ہو، عبدِ صالح ہو یا کوئی مقدس مقام ہو۔ صحیح بخاری و مسلم میں بنی اسرائیل کے ایک شخص کی توبہ کا واقعہ مروی ہے۔ (صحیح مسلم کے الفاظ کے مطابق) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَنَّ رَجُلًا قَتَلَ تِسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ نَفْسًا فَجَعَلَ یَسْأَلُ هَلْ لَّهُ مِنْ تَوْبَۃٍ فَأَتَی رَاھِبًا فَسَأَلَهُ فَقَالَ: لَیْسَتْ لَکَ تَوْبَۃٌ فَقَتَلَ الرَّاهِبَ ثُمَّ جَعَلَ یَسْأَلُ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ قَرْیَۃٍ إِلَی قَرْیَۃٍ فِیْھَا قَوْمٌ صَالِحُوْنَ فَلَمَّا کَانَ فِی بَعْضِ الطَّرِیْقِ أَدْرَکَهُ الْمَوْتُ فَنَآئَ بِصَدْرِهِ ثُمَّ مَاتَ فَاخْتَصَمَتْ فِیْهِ مَلَائِکَۃُ الرَّحْمَۃِ وَمَلَائِکَۃُ الْعَذَابِ فَکَانَ إِلَی الْقَرْیَۃِ الصَّالِحَۃِ أَقْرَبَ مِنْھَا بِشِبْرٍ فَجُعِلَ مِنْ أَھْلِهَا.
’’(بنی اسرائیل کے) ایک شخص نے ننانوے (99) آدمیوں کو قتل کیا، پھر وہ یہ پوچھتا پھرتا تھا کہ کیا اس کی توبہ ہو سکتی ہے؟ اس نے ایک راہب کے پاس جا کر یہ سوال کیا، کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ راہب نے کہا: تمہاری توبہ قبول نہیں ہو سکتی، اس نے راہب کو بھی قتل کر دیا، اس نے قبولیتِ توبہ کے بارے میں پھر سوال کرنا شروع کیا اور وہ اس بستی سے نکل کر دوسری بستی کی طرف جانے لگا جس میں کچھ نیک لوگ رہتے تھے۔ جب اس نے راستہ کا کچھ حصہ طے کیا تو اس کو موت نے آ لیا، پس اس نے اپنا سینہ قریۃ الصالحۃ (نیک لوگوں کی بستی) کی سمت کر کے اپنے آپ کو اس طرف پھینک دیا پھر فوت ہوگیا، اس سے متعلق رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اختلاف ہوا۔ وہ ایک بالشت کے برابر نیک آدمیوں کی بستی کے قریب تھا سو اس کو اس نیک بستی والوں میں شامل کر دیا گیا۔‘‘
حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس واقعہ کو بیان کرنے کا مفاد یہ ہے کہ یہ طریقہ ہمارے لئے سنت بنایا جائے کہ الله تعالیٰ کی بارگاہ میں صالحین کے توسُّل اور نسبت سے بخشش و مغفرت حاصل ہوتی ہے۔
حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رَأَی سَعْدٌ رضی اللہ عنہ أَنَّ لَهُ فَضْلًا عَلَی مَنْ دُونَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: هَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِکُمْ.
بخاری، الصحیح، کتاب الجہاد، باب مَنِ اسْتَعَانَ بالضُّعَفَائِ وَالصَّالِحِین في الْحَرْبِ، 3:1061، رقم: 2739
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ انہیں اُن لوگوں پر فضیلت ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یاد رکھو تمہارے کمزور اور ضعیف لوگوں کے وسیلہ سے ہی تمہیں نصرت عطا کی جاتی ہے اور تمہیں رزق دیا جاتا ہے۔‘‘
اسی طرح سنن ترمذی میں حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
ابْغُونِی فِی ضُعَفَائِکُمْ، فَإِنَّمَا تُرْزَقُوْنَ وَ تُنْصَرُوْنَ بِضُعَفَائِکُمْ.
’’مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ تمہیں اپنے کمزور لوگوں کے وسیلہ سے رزق دیا جاتا ہے اور ان کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘
حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا انْفَلَتَتْ دَابَّۃُ أَحَدِکُمْ بِأَرْضِ فُـلَاۃٍ فَلْیُنَادِ یَا عِبَادَ اللهِ! احْبِسُوْا عَلَيَّ، یَا عِبَادَ اللهِ! احْبِسُوا عَلَيَّ، فَإِنَّ ِﷲِ فِي الْأَرْضِ حَاضِرًا سَیَحْبِسُهُ عَلَیْکُمْ.
’’جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیاباں میں چھوٹ جائے تو اس (شخص) کو (یہ) پکارنا چاہئے: اے الله کے بندو! میری سواری پکڑ دو، اے الله کے بندو! میری سواری پکڑ دو، کیوں کہ الله تعالیٰ کے بہت سے (ایسے) بندے اس زمین میں ہوتے ہیں، وہ اس کو (اس کی سواری) پکڑا دیں گے۔‘‘
حضرت عتبہ بن غزوانی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا أَضَلَّ أَحَدُکُمْ شَیْأً أَوْ أَرَادَ أَحَدُکُمْ عَوْنًا وَ ھُوَ بِأَرْضٍ لَیْسَ بِھَا أَنِیْسٌ فَلْیَقُلْ یَا عِبَادَ اللهِ أَغِیْثُونِي یَا عِبَادَ اللهِ أَغِیْثُوْنِي فَإِنَّ ِﷲِ عِبَادًا لاَ نَرَاهُمْ وَ قَدْ جُرِّبَ ذَلِکَ.
’’جب تم میں سے کسی کی کوئی شے گم ہو جائے اور تم میں سے کوئی مدد چاہے اور وہ ایسی جگہ ہو کہ جہاں اس کا کوئی مدد گار بھی نہ ہو تو اسے چاہئے کہ کہے: اے الله کے بندو! میری مدد کرو، اے الله کے بندو! میری مدد کرو، یقینًا الله تعالیٰ کے ایسے بھی بندے ہیں جنہیں ہم دیکھ تو نہیں سکتے (لیکن وہ لوگوں کی مدد کرنے پر مامور ہیں) اور یہ آزمودہ بات ہے(کہ ایسا کرنے سے انسان کو الله تعالیٰ کے ان بندوں سے مدد حاصل ہوتی ہے)۔‘‘
توسُّل کی لغوی اور اصطلاحی تعریف اور اس کے اطلاقات پر غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وسیلہ پکڑ نے والا وسیلے کو خدا یا اس کا شریک نہیں بناتابلکہ اس کا مقرب سمجھتا ہے۔ صاف ظاہر ہے تقرب إلی اللہ کا مقام بھی اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ متوسّل بہ کی ساری خوبیاں جب اللہ تعالیٰ کی عطا اور اس کی تفویض کردہ ہیں تو یہ تصور بذاتِ خود قاطع شرک ہے کیونکہ صفت اپنی اصل کی شریک نہیں ہوا کرتی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved