اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے۔ وہ اِس اَمر کا پابند نہیں کہ قبولیتِ دعا کے لیے کسی اور کو اس کی بارگاہ میں وسیلہ بنایا جائے۔ وہ بلا واسطہ اپنے بندوں کی دعائیں سننے، قبول کرنے اور لطف و کرم سے نوازنے پر قادر ہے، لیکن یہ سنتِ الٰہیہ ہے کہ بہت سے نفوسِ قدسیہ اور اُمورِ صالحہ جو اُسے پسند اور محبوب ہیں اِن کی نسبت سے نہ صرف یہ کہ عمل بابرکت ہو جاتا ہے بلکہ دُعا کی قبولیت کا درجہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ رضائے اِلٰہی اور عطائے اِلٰہی کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور کسی بابرکت ذات یا عمل کا توسل پیش کرنا شرک و بدعت نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا مشروع، مباح اور جائز طریقہ ہے جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کے مقرّب و معزّز بندوں اور افعالِ صالحہ کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ کرنا ہے تاکہ دعاؤں کی جلدی قبولیت کی توقع کی جا سکے۔ قرآنِ کریم اور اَحادیثِ مبارکہ میں ایسے بہت سے دلائل موجود ہیں جو نہ صرف وسیلہ کا جواز فراہم کرتے ہیں بلکہ اِس اَمر کو بھی واضح کرتے ہیں کہ حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، أنبیا علیہم السلام اور أولیاء اللہ رحمہم اللہ کے توسّل سے دعا کرنا أقرب إلی الإجابت ہے۔ اس باب میں ہم وسیلہ کے جواز اور اس کی مشروعیت پر دلائلِ شرعیہ بیان کریں گے اور اس پر وارد ہونے والے اِعتراضات و اِشکالات کی وضاحت کرتے ہوئے ثابت کریں گے کہ اِبتداء سے آج تک اللہ تعالی کے مقبول اور محبوب بندوں سے توسل اُمتِ مسلمہ کا معمول رہا ہے۔ لہٰذا توسل ایک جائز عمل ہے۔ اسے شرک کہنے والے لوگ باقی چیزوں کی طرح دین میں نہ صرف اپنی خواہشات اور اِنتہا پسندی کا اِضافہ کرتے ہیں بلکہ ایک مشر وع عمل کو شرک کہہ کر احکامِ شرعیہ میں تجاوز کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ آئیے سب سے پہلے ہم توسل کا مفہوم واضح کرتے ہیں اور اس کے بعدقرآن و سنت کے دلائل کا ترتیب سے تذکرہ کرتے ہیں۔
اَئمہ لُغت نے وسیلہ کو مقصد کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ ذیل میں ہم معتبر ماہرینِ لغت اور مفسرینِ کرام کی کتب سے لفظِ وسیلہ کا معنی و مفہوم بیان کرتے ہیں:
1۔ امام راغب اصفہانیؒ (م 502ھ) وسیلہ کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں:
اَلْوَسِیْلة: التَّوَصُّلُ إلی الشَّیئِ بِرَغْبَةٍ.
راغب أصفهانی، المفردات فی غریب القرآن: 871
’’وسیلہ کے معنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنے کے ہیں۔‘‘
2۔ علامہ ابنِ اثیر جزریؒ (544۔606ھ)، ابنِ منظور افریقی اور مرتضیٰ زبیدی نے لفظِ وسیلہ کی تعریف یوں کی ہے:
اَلْوَسِیْلَةُ: هی فی الأصل ما یُتَوَصَّلُ به إلی الشیء و یُتَقَرَّبُ به.
’’وسیلہ درحقیقت وہ واسطہ ہے جس کے ذریعے کسی شئے تک پہنچا جائے اور اس کا قرب حاصل کیا جائے۔‘‘
3۔ علامہ جار اللہ زمخشری (427۔538ھ) اپنی تفسیر میں لفظِ وسیلہ کا معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الوسیلة: کل ما یُتَوَسَّلُ به أی یتقرّب.
زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، 1: 488
’’ہر وہ چیز جس کے ذریعے کسی کا قرب حاصل کیا جائے، اسے وسیلہ کہتے ہیں۔‘‘
بارگاہِ اِلٰہی میں قُرب حاصل کرنے، اپنی کسی حاجت اور ضرورت کے وقت مراد کے حصول کے لئے یا پریشانی و مصیبت کو رفع کرنے کے لئے بوقتِ دُعا کسی مقبول عمل، صالح بزرگ، یا بابرکت مقام و زماں کا واسطہ پیش کرنا توسل کہلاتا ہے۔ شرعی نقطۂ نظر سے ہر ایسی چیز کو دعا کی قبولیت کا ذریعہ بنانا توسل ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قدر و منزلت رکھتی ہے، بارگاہِ الٰہی میں اعمالِ صالحہ اور ذواتِ صالحہ دونوں ہی مقبول اور محبوب ہیں لہٰذا دونوں کو وسیلہ پیش کیا جا سکتا ہے۔
عقیدۂ توسُّل نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے۔ اس لیے اس کے شرعی جواز کے بارے میں مطلقاً انکار آیاتِ قرآنی سے انکار کے مترادف ہے جو کفر ہے۔ توسُّل کے معانی کثیر ہیں۔ یہ حاجت، رغبت، منزلت اور قربت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ان میں تین معانی وہ ہیں جو توسُّل کے شرعی معنی کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں:
وسیلہ جنت میں ایک خاص مقام ہے جو حضور شافعِ یوم النشور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مختص ہے۔ اَذان کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسی مقامِ وسیلہ کی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی جاتی ہے۔ صحیح البخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود یہ دعا مانگنے کی ترغیب دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا:
من قال حین یسمع النداء: اَللّٰهُم رَبَّ ھَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدَا نِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَا نِ الَّذِی وَعَدْتَّهُ حَلَّتْ لَہ شَفَاعَتِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
’’جو شخص اَذان سننے کے بعد یہ دعا پڑھے: ’’اے ہمارے رب! اس دعوۃِ تامہ اوراس کے نتیجہ میں کھڑی ہونے والی نماز کے رب تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقامِ محمود پر فائز فرما جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا۔‘‘(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) قیامت کے دن اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔‘‘
اس دعا میں الوسیلۃ سے وہ مقامِ رفیع مراد ہے جو جنت میں ایک خاص درجہ ہے اور یہی مقامِ محمود ہے۔ گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے جب وسیلہ مانگیں گے تو اس سے جنت کا یہ خاص مقام مراد ہوگا۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں قرب بنفسہ ایک وسیلہ ہے۔ جب بندہ ایمانِ کامل، اتباعِ سنت، شرعی احکام و عبادات پر مواظبت اور تقویٰ کے سبب اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا ہے تو یہ قرب خود ہی وسیلہ بن جاتا ہے۔ جس طرح کہ خلوصِ نیت سے کام کرنے والے اللہ رب العزت کے مقرّب بندے بن جاتے ہیں۔ ان کا یہ قرب اور اخلاص انہیں راہِ راست پر ثابت قدم رکھنے اور شیطان کی دسیسہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کا وسیلہ بن جاتا ہے۔لہٰذا قرآن کے مطابق شیطان کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے مقرب اور مخلص بندوں کو گمراہ نہیں کرسکے گا۔
ص، 38: 82
جو چیزیں قرب کے حصول کا ذریعہ بنیں وہ بھی وسیلہ ہیں، چاہے ان کا تعلق افراد سے ہو یا اعمال سے، کیونکہ قرآن حکیم نے وسیلہ کے تلاش کرنے کا حکم مطلق رکھا ہے اور مطلق کو بغیر دلیلِ شرعی و نصِ قطعی مقید نہیں کیا جاسکتا۔ سورۃ المائدۃ میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ ابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ.
المائدۃ، 5: 35
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو۔‘‘
یہ آیت اپنے عموم پر رہے گی۔ اس کا اِطلاق اَعمال و اَفراد دونوں پر ہوگا اور اسے کسی ایک چیز کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا۔ یہی آیتِ کریمہ توسُّل کے جواز اور اس کی مشروعیت پر نصِ صریح کا درجہ رکھتی ہے۔
شاہ اسماعیل دہلوی اس آیت سے مراد مرشد کی رہنمائی لیتے ہیں:
اہل سلوک ایں آیت را اشارت بسلوک می فھمند، و وسیلہ مرشد را می دانند، پس تلاش مرشد بنا بر فلاح حقیقی و فوز تحقیقی پیش از مجاہدہ ضروری است، وسنت اللہ برھمین منوال جاریست، لہذا بدون مرشد راہ یابی نادر است۔
اسماعیل دہلوی، صراطِ مستقیم: 58
’’سالکانِ راہِ حقیقت نے وسیلہ سے مراد مرشد لیا ہے۔ حقیقی کا میابی و کامرانی کے حصول کے لئے مجاہدہ و ریاضت سے پہلے تلاشِ مرشد از حد ضروری ہے اور اللہ تعالی نے سالکانِ راہِ حق کے لئے یہی قاعدہ مقرر فرمایا ہے۔ اسی لئے مرشد کی راہنمائی کے بغیر اس راستے کا ملنا شاذ و نادر ہے۔‘‘
توسُّل درحقیقت بندے کا اللہ رب العزت کی بارگاہِ بے کس پناہ میں اپنی دعا کی قبولیت اور حاجت برآری کے لئے اپنی عاجزی اور بے کسی کے اعتراف کے ساتھ کسی مقبول عمل یا مقرّب بندے کا واسطہ پیش کرنا ہے تاکہ بندئہ گنہگار کی دُعا جلد قبول ہو۔ توسُّل کے مندرجہ ذیل چار ارکان ہیں انہیں ذہن نشین کرنا ضروری ہے تاکہ حقیقتِ توسّل کا صحیح تصور واضح ہو جائے:
کسی کو بطورِ وسیلہ پیش کرنے میں ہرگز ہرگز یہ عقیدہ کارفرما نہیں ہوتا کہ وہ مقبول و مقرب بندہ جس کا وسیلہ دیا جا رہا ہے دعا قبول کرے گا یا وہ اللہ بزرگ و برتر کو (معاذ اللہ) اس اَمر پر مجبور کردے گا کہ فلاں کا کام ہونا چاہئے یا فلاں بندے کی بخشش و مغفرت لازمًا کردی جائے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو بعض لوگوں کے ذہنوں میں پائی جاتی ہے۔ دراصل وسیلہ پیش کرتے وقت سائل کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ جب وہ اپنی عاجزی‘ بے بسی اور نیاز مندی کا اظہار کر کے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد اس کے کسی مقبول اور مقرّب بندے کا نام یا نیک عمل بطورِ وسیلہ پیش کرے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے اس اطاعت گزار مقبول اور مقرّب بندے اور محبوب عمل کا لحاظ فرماتے ہوئے اس کی حاجت پوری فرمائے گا قبولیتِ دعا کے باب میں یہ کوئی ضروری و لازمی اَمر بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کادعا قبول کرنا محض توسُّل ہی پر موقوف ہے، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ.
البقرۃ، 2: 186
’’اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں۔‘‘
یہ محض اللہ تعالیٰ کا انعام و اکرام اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے اپنے بعض صالح بندوں کو اپنی محبت، اطاعت اور فرمانبرداری کی وجہ سے یہ مقام عطا فرمایا ہے کہ ان کے توسل سے گناہ گار‘ خطاکار اور عاجز و مسکین بندوں کو اپنی دعاؤں کی باریابی کی زیادہ امید لگ جاتی ہے۔
بعض لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگنے میں تامل کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگنا‘ اللہ سے براہ ِراست مانگنے کے منافی ہے۔ وہ قرآن مجید کی ان آیات کا جن میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرانے کا حکم ہے، صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی بنا پر خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا (معاذ اللہ) کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے کے مترادف ہے۔ یہ تصور کتاب و سنت کی روح کو نہ سمجھنے کے باعث پیدا ہوا ہے، ہمیں اس کی اِصلاح کرنی چاہیے۔ اَنبیاء و رسل علیہم السلام میں سے کسی کو، یا اللہ تعالیٰ کے کسی مقرّب اور صالح بندے کو یا کسی بھی عملِ صالح کو اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے اس کی بارگاہ میں بطور ِوسیلہ پیش کرنا نہ تو کسی قسم کا شرک ہے اور نہ ہی براہ راست اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے منافی ہے۔
کسی کو وسیلہ بنانے کے باوجود اللہ تعالیٰ ہی سے مانگا جاتا ہے، صاحبِ وسیلہ سے نہیں۔ شرک کا اِرتکاب تو تب ہوکہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی اور کو بالذّات نفع و نقصان کا مالک‘ قادر مطلق اور دعائیں سننے والا سمجھا جائے۔ یہاں سرے سے ایسا معاملہ ہی نہیں۔ دعا فقط اللہ تعالیٰ ہی سے مانگی جاتی ہے اور اس سے اپنی حاجتیں اور مرادیں مانگتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی، کسی نیک عمل یا کسی ایسے مقرب بندے کا واسطہ دیا جاتا ہے جس سے خود اللہ تعالیٰ کو محبت ہو اور جس کا وہ عام مخلوق سے کہیں بڑھ کر حیا اور لحاظ فرماتا ہو۔ لہٰذا ایسا وسیلہ پیش کرنے سے جہاں خود کلماتِ دعا کی برکت اور تاثیر میں اضافہ ہوجاتا ہے وہاں اس کی بارگاہ ِعالی میں شرفِ قبولیت پانے کے اِمکانات پہلے سے کہیں زیادہ ہوجاتے ہیں کیونکہ اب بندے کی اِلتجا کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی اپنی محبت بھی اس کے پیش نظر ہوتی ہے۔ خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنے وسیلہ جلیلہ سے دعا مانگنے کی تلقین فرمائی تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور بنی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے بارش کی دعا مانگتے تھے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے۔ اسی طرح ایک مرتبہ جب مدینہ طیبہ میں سخت قحط پڑگیا تھا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر اہل مدینہ کو توسُّلاً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کی طرف بھیجا اور اس کی برکت سے موسلا دھار بارش ہوئی۔
بخاری، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب ذکر العَبَّاسِ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ رضی اللہ عنہما، 3:1360، رقم: 3507
الغرض یہ مبارک عمل حضرت آدم علیہ السلام اور دیگر انبیاء علیہم السلام سے لے کر خود عہد ِرسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اور پھر عہد صحابہ و تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر تاحال اُمت میں مقبول اور متداول چلا آرہا ہے۔ اب بعض لوگ دین کی صحیح معرفت نہ ہونے کے باعث اس پر اعتراض کرنے لگے ہیں اور اسے (معاذ اللہ) توحید کے منافی سمجھنے لگے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ بات بات پر کفر و شرک کے فتوے جاری کرنے کی بجائے احکامِشریعت کی حقیقی روح کو سمجھا جائے۔
دارمی، السنن، 1: 43، رقم: 93
صحیح عقیدہ کے مطابق بوقتِ توسل متوسِّل کے ذہن میں ہرگزیہ تصور نہیں ہوتا کہ وہ صالح بندہ جس کا وسیلہ دیا جا رہا ہے(معاذ اللہ) خدائی میں شریک ہے۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ توسُّل کی حقیقت کو سمجھا جائے تاکہ جو لوگ توسُّل کے صحیح مفہوم کو سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں اور نتیجتاً اسے شرک و بدعت قرار دیتے ہیں وہ اپنی اصلاح کرسکیں۔
توسل اختیار کرتے ہوئے مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
توسُّل کو مندرجہ ذیل قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ برکات کو بارگاہِ الہٰیہ میں قرب کے حصول، حاجت پورا کرنے اور نقصان کو دور کرنے کے لئے وسیلہ بنانا شریعت کی رو سے جائز ہے۔ خود حضور علیہ السلام کی سنت سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابی کو اپنے وسیلہ کی تعلیم دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی صحابہ کرام ث، تابعین اور ائمہ سلف صالحین و امت کا معمول رہا ہے کہ وہ بارگاہِ رب العزت میں ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ پیش کرتے۔ اس پر تفصلی بحث آئندہ فصل میں آرہی ہے۔
اللہ رب العزت کا امتِ مسلمہ پرخصوصی فضل و کرم ہے کہ اپنے حبیب کے وسیلہ سے اپنی نعمتوں کے بے بہا خزینے اس امت پرلُٹا رہا ہے۔ دعاؤں، التجاؤں اور مناجات و معاملات کی قبولیت و حل کی ایک صورت اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں اہلِ بیت، صحابہ کرام، اولیائِ عظام اور زاہدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے وسیلہ میں بھی رکھی ہے۔
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ مطالعہ فرمائیں کہ جب ایک بستی والوں نے ان کی میزبانی سے انکار کردیا۔ اس کے باوجود حضرت خضر علیہ السلام نے وہاں پر موجود گرتی ہوئی دیوار کو سیدھا کر دیا۔ اس کی صرف انہوں نے یہ وجہ بتائی کہ یہ دیوار دو یتیم بچوں کی ملکیت میں ہے جس کے نیچے خزانہ دفن ہے۔ ان کا باپ صالح تھا لہٰذا انہوں نے دیوار کو درست کردیا۔ قرآنِ حکیم کا بیان ہے:
وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُـلَامَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌ لَّهُمَا وَکَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا ج فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَا اَشُدَّهُمَا وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَهُمَا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ ج وَمَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ ط ذٰلِکَ تَاوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًاo
’’اور وہ جو دیوارتھی تو وہ شہر میں (رہنے والے) دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لئے ایک خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا، سو آپ کے رب نے ارادہ کیا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے وہ اپنا خزانہ (خود ہی) نکالیں، اور میں نے (جو کچھ بھی کیا) وہ از خود نہیں کیا، یہ ان (واقعات) کی حقیقت ہے جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔‘‘
حضرت خضر علیہ السلام نے دیوار کو اس لئے درست کیا کہ یتیم بچوں کے باپ صالح تھے۔ ان کے صالح باپ کے وسیلہ کے باعث ہی انہوں نے دیوار کو درست کردیا۔ صالحین سے وسیلہ کے اثبات پر اور کئی آیاتِ قرآنی ہیں جن کو ہم نے مختلف مقامات پر بیان کیا ہے۔ اصل مدعا و مقصود بتلانے کا یہی ہے کہ اولیاء اور صالحین کا بارگاہِ اِلٰہی میں وسیلہ بنانا جائز ہے۔
ہو: التقرب إلی اللہ بالوسیلۃ الشرعیۃ.
’’وسیلہ شرعیہ (جس کو شریعت جائز قرار دیتی ہو) کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنا توسُّل للدعا ہے۔‘‘
اس قسم میں دعا سے صرف یہی مقصد ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ رب العزت کی رضا، بندگی، خوشنودی اور قربت نصیب ہو۔
ھو: التقرب إلی اللہ تعالی وقت المسئلۃ و عرض المقصود.
اللہ تعالی کی بارگاہ میں کوئی حاجت اور پریشانی پیش کرتے وقت کسی ضرورت اور مراد کے حصول کے لئے کسی کو بطورِ وسیلہ پیش کرنا توسُّل فی الدعا ہے۔
پہلی قسم میں فقط اللہ تعالی کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے کے لئے توسُّل ہے جبکہ دوسری قسم میں اپنی پریشانی کے دور کرنے، حاجت اور ضرورت کے پورا ہونے اور مراد کے حصول کے لئے کسی کو بطورِوسیلہ پیش کیا جانا ہے۔
التوسُّل فی الدعاء کی دو قسمیں ہیں:
فھو: أن یذکر فی دعائہ ما یتقرب بہ إلی اللہ تعالی.
’’(دعا کی قبولیت کے لئے، کسی حاجت یا مراد کے حصول کے لئے یا) اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنے کے لیے جس کا وسیلہ پیش کیا جائے، لفظا ًاس کا ذکر کرنا توسُّل لفظی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے حضور بوقتِ دعا کسی مقبول عمل کا ذکر یا کسی برگزیدہ ذات و ہستی کا ذکر ہی تقرب الی اللہ اور دعا کی قبولیت کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ اس چیز کی ضرورت نہیں کہ لفظِ وسیلہ استعمال کرکے کہے کہ میں فلاں کا وسیلہ تیری بارگاہ میں پیش کرتا ہوں فقط متوسَّل بہٖ (جس کا وسیلہ پکڑا گیا ہو) کا ذکر ہی کافی ہوتا ہے۔
بوقتِ دعا کسی چیز، عمل یا مقام کو تقرب کا ذریعہ بنا لینا جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہو مگر دعا میں لفظاً ذکر نہ کرنا عملاً اور محلاًّاس کا خود بخود ہو جانا توسُّل نفسی ہے۔
توسُّلِ نفسی کو توسُّل بالعمل بھی کہتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دعا میں لفظاً ذکر نہ کرنا بلکہ کسی اللہ والے کی مجلس میں جاکر دعا کرنا یا کسی بابرکت جگہ یا اللہ تعالی کی مقبول چیز کو سامنے رکھ کر دعا کرنا۔
توسُّل نفسی (عملی) کی مثال سید نا زکریا علیہ السلام کا حضرت مریم علیھا السلام کی عبادت گاہ میں دعا مانگنا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ج قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ج إِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِo
آل عمران، 3: 38
’’اسی جگہ(حضرت مریم علیہا السلام کی عبادت گاہ میں) زکر یا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی۔ عرض کیا :میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السلام کا عمل مبارک بیان فرمایا کہ جب انہوں نے اپنی زیر تربیت اللہ کی بندی حضرت مریم علیھا السلام کے پاس طرح طرح کے بے موسمی پھل اور دیگر انعاماتِ الہٰیہ کا مشاہدہ کیا تو انہوں نے اس خاص مقام کو اپنی دعا کیلئے منتخب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شر فِ قبولیت بخشا اور انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام عطا فرمایا۔
یہ اللہ تعالیٰ کے کسی مقرب بندے سے دعا کی التجاہے کہ وہ بارگاہِ الٰہی میں حاجت مند کیلئے اپنا ہاتھ اٹھا دیں اور اس پر نازل شدہ آفات و بلیات سے نجات کیلئے حضور الٰہ میں دعا کریں۔ یقینا اس کا دریائے رحمت اپنے مقرب بندے کے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی نہ لوٹنے دے گا بلکہ اس دعا کو شرف قبولیت سے نوازے گا۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَإِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسیٰ لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ مِنْ م بَقْلِھَا وَقِثَّآئِھَا وَفُوْمِھَا وَعَدَسِھَا وَبَصَلِھَا.
البقرۃ، 2: 61
’’اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم فقط ایک کھانے (یعنی منّ و سلویٰ) پر ہر گز صبر نہیں کرسکتے تو آپ اپنے رب سے ہمارے (حق میں) دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے زمین سے اگنے والی چیزوں میں سے ساگ اور ککڑی اور گیہوں اورمسور اور پیاز پیدا کر دے۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ کے الفاظ ’’توسُّل بالدعاء‘‘ کا سبب بن رہے ہیں۔ ان میں صراحتاً امتِ موسوی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے رب کے حضور دعا مانگنے کی گزارش کر رہی ہے۔ چونکہ یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے توسُّل کیا جا رہا ہے، اس لیے یہ عمل توسُّل بالدعا ہے۔
سائل اپنا مقصود خود بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کرے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسُّل سے رب کی مدد و نصرت کو طلب کرے یہ ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد و نصرت کیلئے وسیلہ بن جاتا ہے۔ امام طبریؒ اور حافظ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں:
’’جنگِ یمامہ کے موقع پر ’’یا محمداہ (اے محمدؐ! مدد فرمائیے)‘‘ مسلمانوں کا نعرہ تھا۔‘‘
وہ لکھتے ہیں:
’’جنگِ یمامہ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا اٹھایا اور لشکر سے گزر کر مسیلمہ کذاب کے پہاڑ کی طرف چل دیئے اور انتظار کرنے لگے کہ وہ آپؓ تک پہنچے اورآپ رضی اللہ عنہ اسے قتل کر دیں۔ پھر آپ لوٹ آئے اور دونوں لشکروں کے درمیان کھڑے ہوکر بلند آواز سے فرمایا:
أنا ابن الولید العود، أنا ابن عامر وزید ونادیٰ بشعارھم، وکان شعارھم یومئذ: ’’یا محمداہ‘‘.
’’میں ولید کا بیٹا ہوں، میں عامرو زید کا بیٹا ہوں۔ اور پھر آپ نے مسلمانوں میں مروّج نعرہ بلند کیا، اور ان دنوں ان کا جنگی نعرہ ’’یا محمداہ‘‘ (اے محمدؐ! مدد فرمائیے) تھا۔‘‘
اس روایت میں ’’یا محمداہ‘‘ کے الفاظ کے ذریعے سے توسُّل کیا جارہا ہے اور اس عمل کا ارتکاب کرنے والے بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے توسُّل سنت صحابہ ٹھہرا۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إن ﷲ ملائکۃ فی الأرض سوی الحفظۃ یکتبون ما یسقط من ورق الشجر، فإذا أصاب أحدکم عرجۃ بأرض فلاۃ، فلیناد: أعینوا عباد اللہ.
’’بے شک زمین میں اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے بھی ہیں جو محافظ فرشتوں کے علاوہ ہیں۔ درخت کا جو پتا بھی گرتا ہے وہ اسے لکھ لیتے ہیں۔ پس جب تم میں سے کسی شخص کو جنگل میں اذیت پہنچے تو وہ یوں نداء کرے: ’’أعینوا عباد اللہ (اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو)‘‘۔
سرور ِکائنات فخرِ موجودات حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زبان اقدس سے خود تعلیم توسُّل دے رہے ہیں کہ جنگل و بیاباں میں بھی اللہ والوں سے اپنا رابطہ منقطع نہ کرو۔ بظاہر انسانی صورت میں کوئی بندہ نظر نہ آئے تو ملائکہ سے توسُّل کرتے ہوئے رب کی بارگاہ میں عرض کرو۔ اس کے حکم سے اس کے فرشتے تمہاری مدد کو پہنچ جائیں گے اور تمہاری ضرورت کو پورا کردیں گے۔ یہ کائنات ملائکہ سے معمور ہے۔ مذکورہ حدیث میں فلیناد: أعینوا عباد اللہ کے الفاظ توسُّل بالاستغاثہ پر صریح دلیل ہے۔
جمہور اہلِ اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ اعمالِ صالحہ یعنی صوم و صلوٰۃ اورحج و زکوٰۃ، تلاوتِ قرآن، انفاق فی سبیل اللہ اور دیگر اعمالِ خیر کو وسیلہ بنانا جائز ہے۔ جیسا کہ ’صحیح بخاری‘ میںتین آدمیوں کا واقعہ مذکور ہے، جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
’’دورانِ سفر ان پر غار کا دروازہ بندہوگیا۔ تینوں بندے خدا رسیدہ اور نیک خصلت تھے۔ ایک نے ماں باپ سے حسنِ سلوک کا ذکر کیا اور اللہ رب العزت سے دعا کی، دوسرے نے بے حیائی کے اسباب پر قدرت کے باوجود اس سے بچنے کا ذکر کیا اور دعا کی، تیسرے نے کسی مزدور کی اجرت جو کئی سالوں کے بعد مال و متاع میں تبدیل ہوگئی تھی اس کی حفاظت کرنے اور مکمل ادائیگی کا ذکر کرنے کے بعد دعا کی تو قاضی الحاجات نے تینوں کی دعا سے اس بھاری پتھر کو غار کے دہانے سے ہٹا کر انہیں مشکل سے نجات دی۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے کسی مقرب بندے سے منسوب کسی بابرکت مقام کو تقرب کا ذریعہ بنا لینا یا اللہ تعالیٰ کے کسی صالح بندے سے منسوب کسی چیزکے وسیلے سے دعا کرنا۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی قمیض سیدنا یعقوب علیہ السلام کو بھیجی تاکہ اس قمیض کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کی بینائی لوٹائے، جس سے ثابت ہوتاہے کہ آثار ِانبیاء و صالحین سے توسُّل کرنا جائز ہے۔ جمہور اہلِ اسلام کا اس امر پر اجماع ہے اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا۔
بعض لوگ توسُّل بغیرِ عمل جیسے توسُّل بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، توسُّل بالصالحین، توسُّل بالاولیاء اور توسُّل بالآثار کا انکار کرتے ہیں حالانکہ جمہور اہلِ اسلام شروع سے ان ذواتِ مقدسہ سے توسُّل کے جواز کے قائل رہے ہیں۔
درحقیقت یہ اختلاف صرف صوری ہے، اگر معترضین تھوڑا سا غور کریں تو اُن پر عیاں ہوگا کہ انبیاء اور اولیاء کی ذوات کا توسل اُن سے حبی تعلق اور اُن کے اعمال ہی کی بناء پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی دعا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بناتا ہے تو گویا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہی کی وجہ سے وسیلہ اختیار کرتا ہے اگر متوسِّل کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت نہ ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہ ہوتا تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ نہ بناتا اور یہ ثابت شدہ امرِ شرعی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت عملِ صالح ہے، اور توسُّل بالاعمال بالاتفاق جائز ہے۔ اسی طرح اَولیائے اُمت کا توسل بھی ان سے حبی تعلق ہی کی بناء پر ہوتا ہے۔
اس بحث سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ جو اختلاف حقیقتاً صرف ایک صوری ہے اس سے یہ بات کہاں لازم آتی ہے کہ متوسِّلین پر کفر و شرک کا حکم لگا دیا جائے اور ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے؟
وسیلہ کے حقیقی تصور کے باب میں درج بالا بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ عقیدۂ توسُّل توحید کے منافی نہیں کیونکہ مقصود و مطلوب وسیلہ نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
توسُّل کو اگر شرک سمجھا جائے تو اس کا لامحالہ مطلب یہ نکلے گا کہ معاذ اللہ توسل اللہ تبارک و تعالیٰ کا حق تھا اور آپ نے اس حق کو کسی اور کے لئے خاص کردیا ہے جو شرعاً حرام ہے لہٰذا یہ شرک ہوا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کسی کا وسیلہ بننے سے پا ک ہے بلکہ اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے کسی کو اس کے حضور وسیلہ بنایاجاتا ہے۔ جب یہ اللہ رب العزت کا حق ہی نہیں ہے تو پھر انبیاء و اولیاء اور صلحاء کے لئے اس کا اثبات کرنا کس طرح شرک ہو گا؟ جس طرح عجز و انکساری اور ضعف اللہ تعالیٰ کا خاصہ نہیں اسی طرح توسل کو کسی بھی درجے میں اس کا خاصہ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کو شرک کہنا محض جہالت اور آیات قرآنی کی غلط تعبیرو تشریح کا نتیجہ ہے۔
گزشتہ صفحات میں ہم نے توسل کے صحیح تصور کی وضاحت میں بیان کیا کہ توسل بندوں کا حق ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کسی کا وسیلہ بننے سے پاک ہے۔ اس جملے سے بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ روز مرہ گفتگو میں بعض جملے متداول ہیں مثلاً اللہ کے واسطے میرا فلاں کام کردے، اللہ کے واسطے مجھے فلاں چیز دے دے، اللہ کے واسطے مجھے معاف کردے یا بعض شعر جیسے یہ مصرع
یا رسول اللہ ! کرم کیجئے خدا کے واسطے
کیا ان جیسے تمام جملوں کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ وسیلہ ہے؟
اس کی وضاحت یہ ہے کہ ان جملوں میں اللہ تعالیٰ کو واسطہ بنانے سے مراد اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی کبریائی کا لحاظ مقصود ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کا واسطہ دے کر کرم کی التجا کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں رسائی کے لئے اللہ تعالیٰ وسیلہ ہے یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذن و عطائے الٰہی کے بغیر کرم کرتے ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کرم اور توجہ بھی عطاء الٰہی ہوتا ہے۔ اسی طرح دیگر مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دینا بھی رضائے الٰہی اور لحاظ ربوبیت مراد ہوتا ہے نہ کہ مخلوق کے لئے وسیلہ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سبب اور ذریعہ بننے سے بلند و بالا ہے اس لئے وہ خود کسی اور کی بارگاہ تک رسائی کا واسطہ نہیں۔
توکل اور توسل کا معنی و مفہوم سمجھنے میں بعض اوقات ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ اس کا ازالہ ضروری ہے۔
توکل کا معنی یہ ہے کہ کسی ذات کو مختارِ مطلق سمجھتے ہوئے اس پر اعتماد و بھروسہ کیا جائے اور یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا حق ہے جو کسی غیر کے لئے ثابت کرنا شرک ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ عَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَo
ابراھیم، 14: 12
’’اور اہلِ توکل کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہئے۔‘‘
توسُّل کا معنی یہ ہے کہ مالک ِحقیقی کی بارگاہ میں پہنچنے کے لئے کوئی ذریعہ تلاش کیا جائے۔ چونکہ توسُّل اللہ تعالیٰ کے محبوبین و مقربین کا حق ہے اس لئے یہ حق اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت کرنا شرک ہے۔
توسّل اختیار کرنے کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
المائدۃ، 5: 35
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔‘‘
یہاں وسیلہ سے مراد محبوب و مقرب بندے بھی ہو سکتے ہیں اور نیک اعمال بھی۔ پس توکل اللہ پر کیا جاتا ہے اور توسُّل اس کے محبوبین اور مقربین کا لیا جاتا ہے۔ حقیقتًا عطا اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے مگر جب یہ عطا کسی برگزیدہ بندے کی طرف منسوب کی جاتی ہے تو یہ بمعنٰی توسُّل ہوتی ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ توسُّل حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنانا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کو وسیلہ نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ وہ تو مقصودِ حقیقی ہے۔ ہر کام کا انجام اور نتیجہ اس کے دستِ قدرت میں ہے۔
توکل خالصتاً اللہ تعالیٰ کا حق ہے اس لئے اُسی کی ذات پر بھروسہ و توکل کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حق کو کسی اور کے لئے ثابت کرنا شرک ہے حتیٰ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے بارے میں بھی توکل کا عقیدہ رکھنا شرک ہے۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ جس کا حق ہے اس کے پاس رہے۔ کسی ایک کا حق دوسرے کو دینا ظلم ہے۔ اللہ رب العزت کی شان تو بہت بلند ہے لہٰذا اس کا حق کسی دوسرے کو دینا نہ صرف ظلم بلکہ ظلم عظیم ہے۔
انبیاء و اولیاء اور صالحین سے توسل کیا جاتا ہے جو انہی کا حق اور شرعاً امر جائز ہے۔ اس ضمن میں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ بعض الفاظ مجازاً استعمال کئے جاتے ہیں اور ایسا کرنا جائز ہے مثلاً اگر یہ الفاظ استعمال کئے جائیں کہ ’’آپ کے بھروسے پر جی رہا ہوں‘‘ تو اس سے مراد توکل نہیں بلکہ توسُّل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کے فیض نسبت‘ برکت‘ نظرِکرم اور عنایت و توجہ سے جی رہا ہوں۔ ایسے جتنے اشعار‘ کلمات اور جملے آئیں گے وہ سارے بمعنی توسُّل ہوں گے حتیٰ کہ اگر لفظ استعانت بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے استعمال ہو تو وہ بھی بمعنی توسُّل ہو گا بمعنی توکل نہ ہو گا کیونکہ توکل مستعانِ حقیقی اور فاعلِ حقیقی پر کیا جاتا ہے اور اسی کی طرف سب امور لوٹائے جاتے ہیں اور جو اس کا باعث اور ذریعہ بنے اس کا توسُّل ہوتا ہے۔ یہی عقیدہ صحیحہ ہے۔ اِس کے علاوہ جو بھی کہتا ہے وہ غلط کہتا ہے۔
بارگاہِ الٰہی میں حصولِ تقرب کے لئے کسی مقرب ذات کے ساتھ کوئی علاقہ یا تعلق توسُّل کے ذیل میں آتا ہے۔ توسُّل کا توحید کے ساتھ کوئی تضاد نہیں ہے اس لئے اسے شرک پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved