کسی قوم میں فکری زوال و انحطاط کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس کے صاحبانِ علم و فکر زندگی کے حقیقی مسائل اور درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کی بجائے فروعی اور نظری مسائل میں اُلجھ جاتے ہیں۔ اپنی ساری علمی اور تحقیقی توانائیاں ایسے معاملات میں صرف کردیتے ہیں جن کے نتیجے میں اصلاح احوال کا سفر آگے بڑھنے کی بجائے نہ صرف رک جاتا ہے بلکہ عوام الناس ذہنی اور فکری انتشار کا شکار ہو کر باہم دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔ چودہ سو سالہ تاریخ میں اسلام کو یہ حالات کئی مرتبہ پیش آئے مثلاً ہلاکو خان کے ہاتھوں سقوطِ بغداد کے وقت بھی مسلمان علماء اور فقہاء فروعی مسائل میں تو مناظرے کرتے تھے، مگر کسی نے ان اسباب پر غور و فکر کے لئے کوئی بزم نہ سجائی جن کی وجہ سے امت سیاسی زوال کا شکار تھی۔ یہ تو اسلام کی اپنی آفاقیت اور روحانی قوت و طاقت تھی جس نے اس کے جوہر کو قائم رکھا اور کعبے کو صنم خانے سے پاسباں ملتے رہے۔ گذشتہ ایک صدی سے کم و بیش مسلم امہ کی پھر سے یہی حالت ہو چکی ہے۔ اس دورِ زوال کی بدترین شکل یہ ہے کہ محدود سوچ کی حامل مذہبی قیادتوں کے ذاتی افکار اور تشریحات اسلام کے عقائد اور افکار بن چکے ہیں۔ ان کی ذاتی پسند نا پسند دینی شعائر کے درجے پر ڈھل کر حرام و حلال کے نئے پیمانے تراش رہی ہے۔
اسلام میں حریت فکر و نظر کی اجازت ہے لیکن اس کی کچھ حدود و قیود بھی ہیں۔ اسلامی عقائد کا شمار ان اصول دین میں ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے متعین ہو چکے ہیں۔ ان اصولوں پر نہ سمجھوتہ ہو سکتا ہے اور نہ ان میں اجتہاد کی کوئی گنجائش ہے۔ اجتہاد کے دروازے ضرور کھلے ہیں لیکن فروعات اور تشریحات و تعبیرات کے لئے، اصولِ دین کے لئے نہیں۔ ہمارے اس دورِ فتن میں بعض دیگر قباحتوں کے ساتھ ایک قباحت یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں کئی ایسے مذہبی طبقات اور مسلکی گروہ پنپ چکے ہیں جن کے اکابرین اپنی من پسند تشریحات کی روشنی میں دوسروں پر بے دریغ کفر و شرک کے فتوے لگاتے رہتے ہیں۔ اس پر مزید بدقسمتی یہ ہے کہ ان اکابرین کے ماننے والے آج بھی اسی ڈگر پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کو کفریہ فتوؤں سے نواز رہے ہیں۔ حقیقی توحید کا ثمر تو وحدت اور محبت کی صورت میں انفرادی اور اجتماعی زندگی پر نظر آنا چاہئے لیکن اگر باہمی نفرتیں، خون ریزیاں اور کفریہ فتوؤں کی بھرمار ہو جائے تو ایسی توحید پر غور و خوض کرنا چاہئے۔ عقائد و نظریات میں غلط فہمی اور کم علمی پر مبنی رجحانات ہی دراصل فرقہ بندی کے لئے فضا سازگار کرتے ہیں۔ آج کل یہی صورتحال عرب و عجم کے مسلمانوں کی جمعیت کے منافی ہے۔ جب توحید و رسالت جیسے بنیادی ایمانی تصورات بھی متاثرہ دور کی شخصیات کے تراشیدہ پیمانوں پر پرکھے اور تولے جاتے ہیں تو مخاصمت اور عداوت کے جذبات تو لامحالہ پیدا ہوں گے حالانکہ توحید اور رسالت متغائر عقیدے نہیں بلکہ عین یک دگر اور باہم لازم و ملزوم ہیں۔ توحید اللہ تعالیٰ کی الوھیت اور خالقیت و ربوبیت میں اسے یکتا و قادر اور متصرف حقیقی ماننے کا نام ہے جبکہ رسالت پر ایمان لانے کے بعد ہی انسان اس معرفت و قربت کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔ توحید پر ایمان لانے کا معنی یہ نہیں کہ موحد اس کے انبیاء و رسل علیھم السلام اور صالحین و محبین سے بھی منہ موڑ لے۔ یہی مغالطے ہیں جو اس دور میں دو واضح گروہوں کو جنم دے چکے ہیں۔ ان کی تعظیم اس لئے بھی معتبر ہے کہ وہ مقامات اللہ رب العزت کی محبت اور علوشان کا مظہر ہیں۔
جیسا کہ ہم نے کتاب التوحید جلد اوّل کے مقدمے میں واضح کیا ہے کہ یہ کتاب اس صدی میں ہونے والی ان دور رس علمی و فکری کاوشوں میں سے ایک ہے جن کے اثرات إن شاء اللہ صدیوں تک ہر طبقہ زندگی تک پہنچیں گے۔ بہت سے مغالطے اور غلط فہمیاں ہیں جو محض ضدبازی یا ہٹ دھرمی کے باعث دلوں کی دوری اور کفر و اسلام کا مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ ان خطبات و دروس کے اکثر حصے بذریعہ TV پوری دنیا میں لوگ سن بھی چکے ہیں اور لاکھوں ہزاروں افراد ان لیکچرز کے مثبت اثرات سن کر ہی سمیٹ چکے ہیں۔ اب یہ کتابی شکل میں اہل علم و دانش کے سامنے پیش کئے جا رہے ہیں تو یقینا قارئین کے لئے بھی ایمان کی تقویت کا باعث ہوں گے۔ عنقریب یہ کتاب دنیا کی دیگر بڑی زبانوں میں بھی منتقل ہو کر پوری دنیا کے کلمہ گو مسلمانوں کے علم و عمل کی تشفی کا سامان کرے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توحید حالی کے فیض اور عقائد صحیحہ کو عمل صالح کے نور سے مزین فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
ڈاکٹر علی اکبر الازہری
ڈائریکٹر رِیسرچ
فرید ملّتؒ رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved