Kitab al-Tawhid (Jild Awwal)

باب 13 :تعظیم اور عبادت میں فرق

  • فصل اَوّل: تعظیم اور عبادت کا مفہوم
  • فصل دوم: تعظیم بالمحبت اور اُس کی اَقسام
  • فصل سوم: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعظیم بالمحبت کی مثالیں
  • فصل چہارم: تعظیم بالقیام
  • فصل پنجم: تعظیم بالتقبیل
  • فصل ششم: تعظیم بخلع النعال
  • فصل ہفتم: بعض واجب تعظیمات
  • فصل ہشتم: بعض ممنوعہ تعظیمات

فصل اَوّل: تعظیم اور عبادت کا مفہوم

حقیقی اَدب و اِحترام اور اِنتہائی تعظیم کی حق دار و سزا وار صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس عظیم ہستی کی تعظیم و تکریم کا اظہار صرف عبادت کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ عبادت ایک ایسا عمل ہے جو سراسر اللہ بزرگ و برتر کے لئے دل کی گہرائیوں سے تعظیم و تکریم اور ادب واحترام کے اعلیٰ ترین درجے سے عبارت ہے۔ کسی اور کے لئے تعظیم اور ادب و احترام کے جتنے بھی درجے ہوسکتے ہیں وہ اس درجہ سے کم تر اور فروتر ہوں گے اور ان کی نوعیت بھی عمومی درجہ کی ہو گی۔ اسلامی تعلیمات اور معاشرتی آداب میں یہ بات شامل ہے کہ افرادِ اُمت درجہ بدرجہ ایک دوسرے کی عزت و تعظیم کریں۔ اولاد والدین کی تعظیم کرے، شاگرد استاد کی اور چھوٹا بڑے کی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو بڑا چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور چھوٹا بڑے کی توقیر نہ کرے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

(1) ترمذی، السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان، 4: 321، رقم: 1919

گویا توقیر اور تعظیم کے ساتھ ایک دوسرے سے پیش آنا معاشرتی تقاضا ہے جسے شائستگی اور تہذیب کی حدود میں رہتے ہوئے پورا کرنا ہر ایک کے لئے لازمی ہے۔

تعظیم کا لغوی معنی و مفہوم

تعظیم کا مادہِ اِشتقاق ع، ظ، م ہے۔ عربی لغت میں

1. عَظُمَ يَعْظُمُ عِظَمًا و عَظَامَةً کا معنی ہے: بڑا ہونا۔

2. عَظْمُ الشَّیْء کا معنی ہے: کسی چیز کا بڑا حصہ۔

3. أعْظم الأمر کا معنی ہے: بڑا اہم کام۔

(1) جوہری، الصحاح، 2: 130

4. أعظم الشیء کا معنی ہے: کسی چیز کو بڑا بنانا، شاندار بنانا، بڑا جاننا۔

5. العَظَمَة کا معنی ہے: شان و شوکت، وقار، بڑائی اور اہمیت۔(2)

(2) بطرس بستانی، محیط المحیط: 613

6۔ اسی سے العَظِيْمُ ہے جس کا معنی ہے: بڑا، باوقار، اہم، زبردست۔(3)

(3) جوہری، الصحاح، 2: 130

7۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

وَعَظُمَ الشَّيئُ أَصْلُهُ کَبُرَ عَظْمُه ثُمّ اسْتُعِيْرَ لِکُلِّ کبيرٍ فأجْرِيَ مَجْرَاه محسُوْسًا کان أومعقُوْلًا، عَيْنًا کَان أو معنی.

عظم الشئ کے اصل معنی کسی کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں۔ بعد میں یہ لفظ مجازًا ہر بڑی چیز کے لئے بولا جانے لگا۔ خواہ اس کا تعلق محسوس اشیاء سے ہو یا عقل و فکر سے یا یہ کہ وہ چیز مادی اعتبار سے بڑی ہو یا معنوی اعتبار سے۔‘‘

(4) أصفہانی، المفردات: 339

غور کیا جائے تو عَظُمَ سے مشتق تمام الفاظ میں بڑائی کا تصور نمایاں طور پر موجود ہے۔ تعظیم بھی درحقیقت کسی شخص کی بلندیِ شان اور عام لوگوں سے مقام و مرتبہ میں اس کا بڑا ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اسی لئے عربی میں حکمران اور بادشاہ کو بھی تعظیما صَاحِبُ العَظَمَۃ کہا جاتا ہے:

9۔ باب تفعیل میں اس کا معنی ادب و احترام کرنا ہے پس عَظَّمَهُ کا معنی ہے کسی شخص کو شان والا سمجھنا یا اس شخص کی تعظیم و احترام کرنا۔

(5) بطرس بستانی، محیط المحیط: 613

تعظیم کا شرعی معنی و مفہوم

اَنبیائے کرام، صالحینِ عظام، والدین، شیوخ، اساتذہ یا کسی اور معزز ہستی کی عزت و توقیر، ان کا ادب و احترام، ان کی فرمان برداری، تعمیلِ ارشاد اور ان سے منسوب اشیاء کی حرمت وتکریم ان کی تعظیم ہے۔ چونکہ یہ عمل درجہِ عبادت یعنی عاجزی و تذلّل اور عجز و انکساری کی آخری حد سے کم تر اور فروتر ہوتا ہے اور اس کی نوعیت بھی عمومی ہوتی ہے اس لئے عبادت کے زمرے میں نہیں آتا اور شرعی حوالے سے یہ ایک جائز امر ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کو ئی بھی راسخ العقیدہ مسلمان اللہ تعا لیٰ کے سوا کسی اور کی تعظیم عبادت کی نیت سے ہر گز نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افعال جو بزرگوں کی تعظیم پر مبنی ہوں وہ اسلامی تعلیمات کی تعمیل ہے۔ یہ شرک کے دائرے میں ہرگز نہیں آتے اِس لئے کہ وہ توحید سے کسی طرح بھی متعارض و متصادم نہیں۔ ایک دوسرے کی عزت و توقیر اور ادب و احترام کے حوالے سے چند احادیث ملاحظہ کریں:

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ کَانَ يَوْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَـلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ کَانَ يُوْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الاٰخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الاٰخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ.

’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے، اور جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات زبان سے نکالے یا پھر خاموش رہے۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلا یؤذ جارہ، 5: 2240، رقم: 5672

  2. مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب الحثّ علی إکرام الجار والضیف، 1: 68، رقم: 47

2۔ چھوٹوں پر رحمت و شفقت اور بڑوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احترام کا تعلق اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے۔ حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيْرَنَا، وَيَعْرِفْ شَرَفَ کَبِيْرِنَا.

’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی قدر و منزلت نہ پہچانے۔‘‘

  1. ترمذی، السنن، کتاب البر والصلۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب ماجاء فی رحمۃ الصبیان، 4: 322، رقم: 1920

  2. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب فی الرحمۃ، 4: 286، رقم: 4941

  3. أحمد بن حنبل، المسند، 2:222، رقم: 7073

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشادِ مبارک کے مطابق تعظیم حکمِ شریعت ہے۔ اگر یہ صرف اور صرف اللہ کا حق ہوتا تو کسی فرد کو کسی دوسرے کی تعظیم کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔ لہٰذا تعظیم نہ صرف شرعی واجبات میں سے ہے بلکہ مطلقاً مطلوب و مقبول عمل ہے جسے ترک کرنے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اُمت سے خارج ہے۔ تعظیم کسی کی بھی ہو سکتی ہے۔ آپ اپنے استاد، بزرگ، والد یا کسی اور معزز ہستی کی تعظیم بجا لاتے ہیں جو بالکل جائز اور صائب عمل ہے جس کی شریعتِ مطہرہ نے تعلیم و تلقین کی ہے۔ لیکن ان میں سے کسی کے لئے بھی ایسی تعظیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو عبادت کے درجے کو پہنچ جائے اور نہ ہی کوئی مؤمن شخص عبادت کی نیت سے کسی کی تعظیم کرنے کا تصور کرسکتا ہے۔ تعظیم کے ان دونوں انتہائی درجوں میں تمیز کرنا اور فرق روا رکھنا لازمی ہے۔ اس لیے ہر تعظیم کو عبادت نہیں کہا جا سکتا۔ ایک وحدہ لاشریک ہستی کے لئے بجا لائی جانے والی بلند ترین تعظیم ہی کو عبادت سے موسوم کیا جائے گا۔

تعظیم کے اِطلاقات

عبادت صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے جبکہ تعظیم کے اطلاقات بہت سے ہیں۔ اس بنیادی فرق اور واضح امتیاز کو سمجھے بغیر اکثر لوگ تعظیم کو عبادت کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں اور یہیں سے مغالطوں کا لا متناعی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ توحید اور تعظیم کی بحث میں ہم تعظیم کی مختلف شکلوں پر الگ الگ روشنی ڈالیں۔ کیونکہ یہی شکلیں تعظیم کی اَقسام بھی ہیں اور اس کے مختلف اطلاقات بھی۔ اس کی انہی حالتوں اور صورتوں کو سمجھے بغیر سطح بِین لوگ تعظیم کو اوّلاً عبادت سمجھ لیتے ہیں اور پھر اس عبادت پر شرک کو چسپاں کر دیا جاتا ہے، آئندہ صفحات میں ہم بالترتیب تعظیم کے ان جملہ پہلوؤں پر تفصیلاً روشنی ڈالیں گے اور تعظیم کے اطلاقات پر بھی تفصیلی بحث کی جائے گی تاہم اس کا اجمالاً ذکر درج ذیل ہے:

1۔ محترم و معزز شخصیات کی تعظیم

(1) اَنبیاء کرام علیہم السلام

یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس کائنات میں انتہائی تعظیم کی حق دار صرف اللہ رب العزت کی ذات بابرکات ہے اور اس کی تعظیم فقط عبادت سے ممکن ہے، وہی اس لائق ہے کہ مخلوق سراپا اطاعت بن کر اپنی جبینِ نیاز اس کے سامنے خم کریں۔ انتہائی تعظیم کا یہ حق مخلوق میں سے کسی اور کے لئے روا نہیں۔ مخلوق کی تعظیم یہ ہے کہ شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ان کا ادب و احترام کیا جائے ان کی عزت و تکریم کی جائے پس تعظیم کا اطلاق سب سے پہلے انبیاء علیہم السلام پر ہوتا ہے۔ بالخصوص حضور علیہ السلام کی تعظیم میں تو اَز روئے قرآن خوب مبالغہ کرنا چاہیے جس کے لئے وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔

(2) تعظیمِ اہلِ بیت و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

انبیاء علیہم السلام بالعموم اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تعظیم کی حقدار وہ محترم و معزز ہستیاں ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایمانی قربت کے علاوہ نسبی تعلق بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى.

’’فرما دیجئے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (اپنی اور اللہ کی) قرابت و قربت سے محبت (چاہتا ہوں)۔‘‘

(1) الشوری، 42: 23

جب کہ متعدد احادیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ نسبت سے محبت اور ادب واحترام کے بارے میں بیان ہوا ہے۔

پھر تعظیم کا اطلاق ان محترم و مکرم شخصیات پر بھی ہوتا ہے جن کو حالتِ ایمان میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دیدار کا شرف حاصل ہوا اور وہ ااسی حالت میں دنیا سے تشریف لے گئے۔ قرآن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت وارد ہوئی ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے فضائل کا بیان فرمایا ہے۔

(3) تعظیمِ والدین

اسلام میںوالدین کے ادب و احترام کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں متعدد مقامات پر اپنی عبادت بیان کرنے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی و احسان کا حکم دیا ہے، ان کی نافرمانی کو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا لہٰذا واجب تعظیم کا اطلاق والدین پر بھی ہوتا ہے۔

(4) تعظیمِ اَولیاء و صالحین

اسی طرح تعظیم کا اطلاق اللہ رب العزت کے نیک صالح بندوں پر بھی ہوتا ہے۔ قصہ موسیٰ و خضر علیہم السلام میں حضرت خضر علیہ السلام نے دو یتیم بچوں کی دیوار مرمت کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ

وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا.

’’اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا۔‘‘

(1) الکہف، 18: 82

گویا صالحین کی نسبت کا احترام بھی واجب ہے۔ جبکہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے ایک حدیثِ قدسی میں اولیاء و صالحین کی تعظیم کو بیان فرمایا جس میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ

مَنْ عَادَ لِيْ وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ.

’’جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس سے اعلانِ جنگ کرتاہوں۔‘‘

(2) بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب التواضع، 5: 2384، رقم: 6137

(5) بزرگ اور مہمان کی تعظیم

عام معاشرے میں جو عمر کے لحاظ سے بزرگ لوگ ہوں ان کی تعظیم کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح مہمان کے اکرام کا بھی حکم وارد ہوا ہے۔

2۔ شعائر اللہ کی تعظیم

تعظیم کا اطلاق شعائر اللہ پر بھی ہوتا ہے جس کا حکم خود اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں دیا ہے۔ اور اس تعظیم کو دلوں کا تقویٰ قرار دیا ہے۔ اس کی درج ذیل مثالیں ہیں:

(1) صفا و مروہ کی تعظیم

صفا و مروہ دو پہاڑ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ایک صالح بندی سیدہ ہاجرہ اور ان کے بیٹے اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت اسماعیل علیہما السلام کی نسبت سے شعائر اللہ قرار پائے ان کی تعظیم بھی واجب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی حجاج کرام ان کے درمیان سعی کرتے ہیں جو ان کی تعظیم ہے۔

(2) قربانی کے جانور کی تعظیم

قرآن مجید میں قربانی کے جانوروں کو بھی شعائر اللہ قرار دیا گیا ہے، پس ان کی تعظیم بھی واجب ہے۔

(3) اَیام و شہورِ مقدّسہ کی تعظیم

تعظیم کا اطلاق مخصوص ایام اور بعض مقدس شہور پر بھی ہوتا ہے۔ مثلا یوم جمعہ، پیر، عیدین، شبِ قدر، شبِ برات اور یوم عاشورہ کی تعظیم و احترام۔

اسی طرح چار مہینوں کی حرمت نصِ قطعی سے ثابت ہے جو یہ ہیں: رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔

(4) اَماکنِ مقدسہ کی تعظیم

تعظیم کا اطلاق بعض مقدّس مقامات پر بھی ہوتا ہے جن کی حرمت و تکریم قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ مثلاً مکہ مکرّمہ، مدینہ منورہ، مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی، مسجدِ اَقصیٰ، شام اور مقدس وادی طویٰ۔

آئندہ صفحات میں اس اجمال کی تفصیل علیحدہ علیحدہ ابواب میں آرہی ہے۔

تعظیم کی اَقسام

قرآن حکیم کی متعدد آیات سے ثابت ہے کہ اللہ رب العزت نے صحابہ کرامث کو تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب سکھائے۔ مثلاً یہ بتایا کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا ہو تو ایسے نہ بلاؤ جیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو بلکہ اس سے اعلیٰ تعظیم کے ساتھ بلایا کرو۔ گویا حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم مخلوق کی حد سے اعلیٰ و ارفع اور خالق کی حد سے نیچی ہو، جو آپٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ

بعد اَز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

کی آئینہ دار ہو۔ اس لحاظ سے تعظیم کی تین اقسام ہیں:

  1. تعظیم
  2. تعزیر
  3. توقیر

1۔ تعظیم

تعلیماتِ اسلام کی رو سے اسلامی معاشرے میں ہر چھوٹا بڑے کی تعظیم کرتا ہے۔ اپنے بڑوں، بزرگوں کی زیادہ سے زیادہ ادب و تعظیم کرنا ایک معاشرتی تقاضا سمجھا جاتا ہے لیکن جب تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہو تو لازمی ہے کہ معمول کی تعظیم کے عام طریقے ختم ہو جائیں اور تعظیم کا بلند ترین درجہ اختیار کیا جائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم از روئے قرآن واجب ہے۔ ادب و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ کرنا کفر ہے۔ سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی باقاعدہ طور پر چار خصوصیات بیان فرمائیں جو تعظیم و توقیرِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشتمل ہیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی شرط ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَo

’’پس جو لوگ اس(برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

(1) الاعراف، 7: 157

ایک اور آیتِ مبارکہ میں اسی مضمون کو مزید زور دے کر بیان فرمایا گیا ہے:

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًاo

’’بیشک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لئے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ (اے لوگو!) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اللہ کی صبح و شام تسبیح کرو۔‘‘

(2) الفتح، 48: 8، 9

وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ کا معنی حضور رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے انتہا درجے کی تعظیم و توقیر اور حد سے زیادہ ادب و احترام ہے۔ جس کا حکم اس طرح دیا گیا ہے جیسے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کے آگے سجدہِ تعظیمی بجا لانے کا حکم دیا گیا تھا۔

دوسرا اہم نکتہ اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اہلِ ایمان کو صبح شام اپنی تسبیح کی تاکید فرمائی اسی لہجے اور اسی پیرائے میں اپنے محبوب پیغمبر کی تعظیم و تکریم کا حکم فرمایا۔ گویا تعظیم و تکریمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین میں وہی درجہ اور اہمیت ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت کی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عبادت اللہ تعالیٰ کے لئے ہی مختص ہے اور اس کی ادائیگی کا ایک خاص طریقہ ہے لیکن تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دائمی اور باطنی عمل ہے جس پر جملہ عبادات کی قبولیت کا انحصار ہے۔ ان آیاتِ مبارکہ میں مجموعی طور پر ایمان بالرسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درج ذیل چار تقاضے بیان ہوئے ہیں:

  1. تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  2. توقیرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  3. نصرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  4. اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اس واضح ترتیب میں ایمان کے بعد اوّلیت تعظیم و توقیر کو دی گئی ہے۔ یہ بڑا اہم اور ایمان افروز نکتہ ہے کہ نصرت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دو تقاضوں کے بعد مذکور ہیں۔ اس اُلوہی ترتیب سے یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے کہ دعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ جو فی الحقیقت نصرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، قرآنی منشاء کے مطابق اس وقت تک مؤثر، نتیجہ خیز اور موجبِ ثمرات نہیں بنتا جب تک پہلے دین لے کر آنے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعظیم و توقیرکے دو تعلق استوار نہ ہوجائیں۔ نصرت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کا تعلق عقائد، نظریات اور جذبات سے زیادہ اعمال و افعال کے ساتھ ہے۔ جبکہ اوّل الذکر دونوں تقاضے ایمانی کیفیت، تعلق کی نوعیت اور عقیدے کی طہارت کے معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر تعظیم و توقیرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شجرِ ایمان کی جڑیں اور تنا ہیں جبکہ موِخر الذکر دو تقاضے اس شجر کی شاخیں اور پھل ہیں۔ ایمان کی توثیق و تصدیق تبھی ہوتی ہے جب تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایمان کو پرکھا جاتا ہے کیونکہ تعظیم، ایمان پر گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔ جب تک کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب اور تعظیم کو بدرجہ اتم اپنے دل میں جاگزیں نہ کرے اس کا ایمان کامل نہیں ہوتا۔ ایمان کی تکمیل کے بعد ہی اطاعت و نصرت کی کاوشیں مقبول اور باثمر ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا فرد کا اوّلین فریضہ ہے اور اس کے بعد ہر مسلمان کا پہلا فریضہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت، ادب اور تعظیم و تکریم پر مبنی انتہائی درجے کا تعلق اُستوار کرنا ہے۔

2۔ تعزیر

قرآن حکیم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کے بیان میں اللہ رب العزت نے جو الفاظ ارشاد فرمائے ہیں وہ بھی اپنے اندر بڑی معنویت اور جامعیت رکھتے ہیں چنانچہ حضور علیہ السلام کی تعظیم کے لئے ایک لفظ تُعَزِّرُوْہُ کا بیان سورہ الفتح کی آیت نمبر 48 میں آیا ہے۔ جس کا معنی ہے کہ حضور علیہ السلام کی تعظیم میں خوب مبالغہ کرو۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے عظموہ بیان نہیں ہوا تو پتہ چلا کہ وہ تعظیم جو ہم اپنے والدین، بڑے، بزرگ اور اساتذہ و مشائخ کی کرتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اس سے بہ درجہ ہا بڑھ کر کرنا واجب ہے یعنی عام مخلوق کے لئے تعظیم کی جو حد مقرر ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم ان حدود سے بڑھ کر کی جائے تو ایمان ہے۔ فقط اتنا فرق رہے کہ ذات باری تعالیٰ معبود ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے برگزیدہ بندے۔ وہ خالق ہے اور یہ مخلوق۔ پس تعظیم کا وہ بلند درجہ جو حد عبادت سے نیچے ہو وہ تعزیر ہے جو مخلوق میں سے صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ہے جبکہ عبادت فقط اللہ رب العزت کا حق ہے۔ اس حق میں کوئی نبی رسول یا برگزیدہ بندہ ہرگز اس کا شریک نہیں۔

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ تعزیر کا معنی یوں بیان کرتے ہیں:

التَّعْزيرُ: النُّصْرَهُ مَعَ التَعْظِيْمِ، قَال {وَتُعَزِّرُوْهُ؛ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ} والتَّعْزِيْرُ ضَرْبٌ دُوْنَ الْحَدِّ وَ ذَالِک يَرْجعُ الی الْاوّل فاِنّ ذٰلِکَ تأديبٌ، والتّأديبُ نُصْرَةٌ مَّا. لٰـکن الْاوّل نُصْرَةٌ بِقَمْعِ مَا يَضُرُّه عَنْه، وَالثَّانِيْ نُصْرَةٌ بِقَمْعِة عَمَّا يَضُرُّهُ. فَمَنْ قَمَعتهُ عَمَّا يَضُرّه فَقَدْ نَصَرْتهُ.

’’تعزیر سے مراد ایسی مدد ہے جس میں تعظیم بھی شامل ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے (اور ان (کے دین) کی مدد کرو. .. اور (تم ان کی مدد کرتے رہے) اسی طرح التعزیر کا ایک معنی ہے کسی کو حدِ شرعی سے کم سزا دینا۔ دراصل یہ معنی بھی پہلے معنی کی مناسبت سے لیا جاتا ہے کیونکہ یہ سزا تادیباً ہے اور یہ کسی شخص کی اصلاح کے لئے ایک طرح کی مدد ہوتی ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے معنی میں تعزیر کا مطلب کسی شخص سے نقصان پہنچانے والی چیز کو روکنا جبکہ دوسرے معنی کے لحاظ سے تعزیر کا مطلب ہے کسی شخص کو مضر چیز سے باز رکھنا۔ پس تو نے کسی شخص کو مضر چیز سے روکا تو، تُو نے اس کی مدد کی۔‘‘

(1) راغب اصفہانی، المفردات، 333

حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے تعزیر کی تشریح یوں کی ہے:

والتعزير يأتی بمعنی التعظيم والاعانة و المنع من الاعداء ومن هنا يجئی التعزير بمعنی التأديب لأنه يمنع الجانی من الوقوع فی الجناية.

’’تعزیر، تعظیم مدد و نصرت اور دشمنوں سے تحفظ کے معنی میں آتا ہے اسی لئے تعزیر بمعنی تادیب اصلاح یا سزا استعمال ہوتا ہے کیونکہ یہ مجرم کو معصیت کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔‘‘

(2) عسقلانی، فتح الباری، 8: 582

علامہ ابنِ منظور نے تعزیر پر تفصیلی بحث کی ہے، وہ لکھتے ہیں:

’’تعزیر کا اصل معنی تادیب ہے اسی لئے شرعی حد سے کم سزا کو تعزیر کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ بھی اصلاح اور اخلاقی تربیت ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے میں نے فلاں شخص کی سرزنش کی۔ اسی طرح عزرتہ متضاد معانی میں استعمال ہوتا ہے اور عزرہ کا معنی ہے فلاں شخص کی تعظیم اور تکریم کی یہ معنی متضاد کی طرح ہے اور العزر کامعنی ہے تلوار کے ذریعہ مدد اور عزرہ عزرا و عزرہ کا معنی ہے فلاں شخص کی پشت پناہی کی اس کو تقویت پہنچائی اور مدد کی ۔ ارشادِ باری تعالیٰ، وَتُعَزِّرُوْہُ۔ اور. .. وَعَزَّرْتُمُوْھُمْ. .. کی تفسیر ہے یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد تلوار کے ساتھ کرتے رہو پس جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کی گویا اس نے اللہ گ کی مدد کی۔‘‘

مزید انہوں نے لکھا ہے:

’’انبیاء علیہم السلام کی مدد و نصرت سے مراد ان کی حمایت کرنا اور ان کے دین کے دشمنوں کو باز رکھنا اور ان کی تعظیم و تکریم کرنا ہے۔‘‘

تعزیر کا اصل معنی روکنا باز رکھنا ہے گویا کہ جس نے کسی کی مدد کی تو اس نے اس سے دشمن کو روکا اور ان کی سختی سے بچایا پس اس وجہ سے وہ تادیب جو حد شرعی سے کم ہو اسے تعزیر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ مجرم کو دوبارہ ارتکابِ معصیت سے روکتی ہے۔

(1) ابن منظور، لسان العرب، 4: 562

مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ تعظیم کا وہ درجہ جہاں کسی کی تعظیم اس حد تک کی جائے کہ اس میں محض ادب و احترام نہ ہو بلکہ اگر ضرورت پڑے تو اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا جائے اور تلوار کے ذریعہ دشمنوں کا مقابلہ کرکے ان کو ایذا رسانی سے روکا جائے، تعزیر کہلاتا ہے۔ قرآن حکیم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعزیر سے مراد بھی ایسی نصرت ہے جس میں تعظیم بہر حال شامل ہو۔ ائمہ تفسیر نے بھی اس کا معنی کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

1۔ امام ابنِ کثیر نے لکھا ہے:

{لِّتُؤْمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهُ وَتُعَزِّرُوْهُ} قال ابن عباس رضی اللہ عنهما وغير واحد: تعظموه.

’’{لِّتُؤْمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهُ وَتُعَزِّرُوْهُ} کی تفسیر میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر اہلِ علم نے کہا ہے کہ تعزروہ سے مراد ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوب تعظیم کرو۔‘‘

(1) ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 4: 186

2۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:

قال ابن عباس: {تُعَزِّرُوْهُ}: أی تجلوه. وقال المبرد: {تُعَزِّرُوْهُ}: تبالغوا فی تعظيمه.

’’حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تعزروہ کا مطلب ہے ان کی تعظیم کرو، اور مبرد نے کہا: تعزروہ کا معنی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوب تعظیم کرو۔‘‘

(2) قاضی عیاض، الشفا بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: 512

3۔ امام بغوی نے لکھا ہے:

{وَتُعَزِّرُوْهُ} أی تعينوه و تنصروه.

’’{وَتُعَزِّرُوْہُ} کا معنی ہے کہ ان کی مدد و اعانت کرو۔‘‘

(3) بغوی، معالم التنزیل، 4: 190

4۔ امام بیضاوی نے لکھا ہے:

{وَتُعَزِّرُوْهُ} وتقووه بتقوية دينه و رسوله.

’’{وَتُعَزِّرُوْہُ} کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے دین اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کے ذریعہ کرو۔‘‘

(4) بیضاوی، أنوار التنزیل، 5: 201

5۔ امام طبری نے لکھا ہے:

وکان الفراء يقول العزر الرد. عزرته رددته إذا رأيته يظلم.

’’فراء کہتے تھے کہ عزر کا معنی روکنا ہے۔ عزرتہ کا معنی ہوگا میں نے جب اس کو ظلم کرتے ہوئے پایا تو اسے روکا۔‘‘

(1) طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 6: 152

6۔ امام قرطبی نے لکھا ہے:

{وَتُعَزِّرُوْهُ} أی تعظموه وتفضموه قاله الحسن والکلبی، والتعزير التعظيم والتوقير وقال قتادة: تنصروه وتمنعوا منه. ومنه التعزير فی الحد لأنه مانع.

’’و تعزروہ کا معنی حضرت حسن اور کلبی کے مطابق یہ ہے کہ ان کی تعظیم و تکریم کرو، اور تعزیر سے مراد تعظیم و توقیر ہے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس سے مراد ہے کہ ان کی مدد کرو اور ان سے دشمن کو روکو اسی سے تعزیر (جس کا معنی سزا) ہے کیونکہ وہ مجرم کو ارتکاب معصیت سے روکتی ہے۔‘‘

(2) قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 16: 266

7۔ امام نحاس نے لکھا ہے:

و أصل التعزير فی اللغة المنع، ومنه عزرت فلانًا أي أنزلت به ما يمتنع من أجله من المعاودة کما تقول نکلت به أی أنزلت به ما ينکل به عن العودة.

’’لغت میں تعزیر کا معنی روکنا ہے اسی سے ہے عزرت فلاناً یعنی میں نے فلاں شخص کو اس چیز سے روکا جس کی وجہ سے وہ بار بار جرم کا ارتکاب کرتا تھا جیسے کہا جاتا ہے میں نے فلاں کو روکا یعنی اس عادت سے روکا جس کی بناء پر وہ بار بار جرم کرتا تھا۔‘‘

(3) نحاس، معانی القرآن، 2: 385

3۔ توقیر

لغت کے اعتبار سے توقیر میں سنجیدگی، متانت، وقار اور حلم و بردباری کا معنی پایا جاتا ہے۔ یہ لفظ و۔ ق ۔ ر سے بنا ہے۔ اسی سے ایک لفظ وقار ہے۔ ابنِ منظور لکھتے ہیں:

الوقار: الحلم والرزانة.

’’وقار کا معنی ہے بردباری اور سنجیدگی۔ ‘‘

(1) ابن منظور، لسان العرب، 5: 290

وقر سے توقیر کا معنی ہوتا ہے: کسی کی عظمت بیان کرنا۔

ووقرت الرجل اذا عظمته وفی التنزيل العزير {وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ}.

’’وقرت الرجل اس وقت کہا جاتا ہے جب اس شخص کی عظمت شان کو بیان کیا جائے، قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالی ہے: (اور (ان کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو۔‘‘

(2) ابن منظور، لسان العرب، 5: 290

تعظیم و توقیر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شجرِ ایمان کی جڑ ہے۔ ایمان کی تکمیل اور اس میں بہار کاانحصار تعظیم و توقیر کے ساتھ مشروط ہے۔ قرآنِ حکیم میں ادب و احترام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب میں تعظیم کے ساتھ توقیر کا لفظ بھی استعمال ہواہے جسکا معنی اہلِ علم کے نزدیک ادب واحترام کی وہ کیفیت ہے جہاں تعظیم کرنے والا ممدوح کی عظمت و شان کا خوب چرچا کرے۔

لغوی اعتبار سے ’وقر‘ کے معانی میں سے ایک معنی ’کان کا بہرا ہونا‘ بھی ہے اور ’سنجیدگی‘ کا معنی بھی اس کے اندر پایا جاتا ہے تو گویا اس اعتبار سے توقیر، تعظیم کا ایسا بلند درجہ ہے جہاں کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم میں اس قدر سنجیدہ ہو جائے کہ اس کی زبان پر ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی تعریف ہو، اس کے دل و دماغ میں کسی بھی قسم کی بے ادبی و گستاخی کا شائبہ تک نہ ہو اور اس کے کان ہر عیب سننے سے بہرہ ہو جائیں۔

توقیر بھی تعظیم سے ہے لیکن باعتبار مخلوق یہ ادب و احترام کا وہ بلند درجہ ہے جو شرعاً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاحق ہے۔ مفسرین نے بھی توقیر کا معنی بلند درجہ تعظیم و تکریم ہی بیان کیا ہے۔

1۔ امام ابنِ کثیر نے لکھا ہے:

{وَتُوَقِّرُوْهُ} من التوقير وهو الاحترام والإجلال و الإعظام.

’’وتوقروہ یہ لفظ توقیر سے ماخوذ ہے اور اس سے مراد ادب و احترام، بلند مرتبہ اور عظمت ہے۔‘‘

(1) ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 4: 186

2۔ امام بغوی نے لکھا ہے:

{وَتُوَقِّرُوْهُ} تعظموه وتفخموه.

’’{وَتُوَقِّرُوْہُ} کا معنی ہے ان کی تعظیم کرو اور خوب شان و شوکت بیان کرو۔‘‘

(2) بغوی، معالم التنزیل، 4: 190

3۔ امام قرطبی لکھتے ہیں:

{وَتُوَقِّرُوْهُ} أی تسودوه.

’’وتوقروہ یعنی ان کی خوب شان و شوکت بیان کرو۔‘‘

(1) قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 16: 267

اِنتہائی تعظیم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ہے

مخلوق میں سب سے زیادہ تعظیم اور بزرگی کی حقدار حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات ہے۔ مترجمین نے لفظ تَعْزِیر کا ترجمہ فقط ’’مدد اور تکریم‘‘ کیا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات ذہن نشین کرنے والی ہے کہ صرف تعزیر ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اختصاص اور حق نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق تعزیر سے شروع ہو کر توقیر کے اعلیٰ و ارفع درجے کو پہنچتا ہے۔ پہلا حق تعظیم ہے، دوسرا حق تعزیر اور تیسرا حق توقیر ہے جو کہ بلند ترین سطح کا حق ہے۔ اس لئے بہتر اور زیادہ مناسب ترجمہ یہ ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر اور ادب و احترام کا بلند ترین درجہ اختیار کیا جائے۔‘‘

سورۃ الفتح کی آیت نمبر 9 میں اہلِ ایمان سے ارشاد ہوا: وَتُسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِيْـلًا (تم اللہ تعالیٰ کی تسبیح صبح و شام بیان کرو) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و بزرگی بھی اس طرح بیان کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہو۔ گویا قرآن کا پیغام ہے کہ لوگو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان پختہ تر کر لو۔ یہ تفسیر القرآن بالقرآن ہے۔ جہاں تک ایمان کو مستحکم کرنے کا تعلق ہے یہ استحکام اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق استوار کرنے سے آئے گا۔ اس وقت تک کوئی شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس کا ایمان مضبوط و مستحکم نہ ہو جائے۔ مسلمان ہونے کے بعد قرآن حکیم ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ایمان کے زبانی اقرار اور قلبی تصدیق کے بعد ہمیں بحیثیت مسلمان صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنا ہے اور رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کو جہاں تک ممکن ہو بلند سے بلند درجے تک پہنچانا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حق کو ادا کرنا امت پر فرض ہے۔

تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توحیدِ باری تعالیٰ سے متصادم نہیں

محولہ بالا آیتِ قرآنی میں ادب و تعظیمِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دی گئی ہے اور ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرینے سکھائے گئے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ کوئی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر کے یہ کہنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ مولا! میں ادب و مقامِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے آگاہ و واقف ہی نہیں تھا؟ کیونکہ تو نے تعظیم کو ’’حرام اور ممنوع‘‘ قرار دیا تھا۔ کس میں اتنی مجال ہو گی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے روبرو اس دعوے کے ساتھ پیش ہو سکے؟

حقیقت یہ ہے کہ توحیدِ باری تعالیٰ، تعظیمِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعارض و متصادم نہیں۔تعظیم و تکریمِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم قرآن مجید میں اس حد تک ہے کہ کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بلند آواز میں بات نہ کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ:

  1. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کوئی کلام نہ کرے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بات مکمل کر لیں تو تب کوئی سوال کرے۔
  2. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربانی سے پہلے کوئی اپنا جانور قربان نہ کرے۔
  3. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارادہ پر اپنا کوئی ارادہ پیش نہ کرے۔
  4. جنگی امور کا فیصلہ کرنے میں کوئی بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیش قدمی نہ کرے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان آداب سے بخوبی واقف تھے اس لئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روزے، عید الفطر اور قربانی جیسے امور میں بھی سبقت اور پیش قدمی نہیں کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کے بارے میں قرآن مجید کے ان واضح احکام و فرامین کے پیشِ نظر منکرین کے پاس اعتراض و انکار کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ ارشادِ ربانی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ

’’ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی نہ ہو جائے)۔‘‘

(1) الحجرات، 49: 1

مذکورہ آیتِ کریمہ کا خاص شانِ نزول تھا۔ جس میں امت کو آدابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دی گئی ہے۔ائمہ تفسیر کے مطابق یہ آیت عام ہے لہٰذا ہر معاملے پر اس کا اطلاق ہوگا، چاہے ان معاملات کا تعلق ارکانِ اسلام نماز، روزہ، قربانی اور حج وغیرہ کے ساتھ ہو یا دنیاوی امور جنگ، قضاء اور روزمرہ کے دیگر معمولات کے ساتھ ہو ۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام فرائض کی ادائیگی پر تکریم و تعظیمِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقدم رکھا ہے۔ اس لئے اس آیتِ کریمہ میں صحابہ کو بنیادی طور پر دو باتوں کی ممانعت کی گئی:

  1. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی عمل سے پہلے پیش قدمی نہ کریں۔
  2. اپنے آپ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مقدم نہ رکھیں۔

یہ بنیادی نکتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس امر کا متقاضی تھا کہ وہ اپنے ہر عمل کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے مربوط کریں کہ رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غائت درجہ تعظیم بجا لانا دراصل اللہ ل کی تعظیم بجا لانا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و احترام درحقیقت اللہ تعالیٰ کا ادب و احترام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اللہ تعالیٰ سے محبت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اللہگ کی اطاعت ہے۔ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوئی کے تصور کو ختم کرنے کے لئے اللہ ل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ کہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اپنی رضا قرار دیا اور تمام امور اور معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا قائم مقام اور نائب بنایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک طرف اللہ تعالیٰ سے قرآن کا نور لیتے ہیں تو دوسری طرف مخلوق کو پہنچاتے ہیں۔ صرف ایک بات میں استثنیٰ رکھا گیا ہے کہ کسی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی باقی تمام امور میں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دوئی نہیں۔ اس نکتے کی وضاحت شیخ ابنِ تیمیہ نے بھی کی ہے جس کا ذکر ذیل میں آ رہا ہے۔

تعظیمِ خداوندی اور تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقیقتِ واحدہ ہیں

نصوصِ قرآنی سے ثابت ہے کہ جو کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حرمتی کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بے حرمتی کرتا ہے، جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے اور جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آزردہ کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو آزردہ کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے سے اللہ رب العزت کو اذیت پہنچتی ہے۔ قابل ِ غور بات یہ ہے کہ اذیت دینے سے جسمانی اور ذہنی تکلیف توحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچتی ہے لیکن اللہ جل شانہ تو جسمانیت سے پاک ہے اسے کوئی کیسے کوئی تکلیف پہنچا سکتا ہے؟ پس اس کا یہ فرمانا کہ اگر تم میرے پیغمبر کو تکلیف دیتے ہو تو گویا مجھے تکلیف دیتے ہو، کا معنی اس کے غضب اور ناراضگی کو دعوت دینا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًاo

’’بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لئے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘

(1) الاحزاب، 33: 57

اس آیت ِکریمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت اور بے ادبی پر اس قدر غضب کا اظہار دراصل اللہ تعالیٰ کی اپنے محبوب سے محبت کی دلیل ہے۔

قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ایک ہی نوعیت کا اعلان فرمایا ہے جس میں اپنے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ دونوں حقوق برابر ہیں اور ان دونوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہے۔ یہ دونوں حقوق، حقوق اللہ ہیں۔ علامہ ابنِ تیمیہ کے نزدیک اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ اس آیت کے ذیل میں انہوں نے بجا طور پر لکھا ہے:

وجعل شقاق اللہ ورسوله ومحادة اللہ ورسوله وأذی اللہ ورسوله ومعصية اللہ ورسوله شيئًا واحدًا.

’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت و اذیت اور معصیت و نافرمانی کو (قرآن حکیم میں) ایک ہی چیز قرار دیا گیا ہے۔‘‘

(1) ابن تیمیۃ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: 40، 41

بعد ازاں علامہ ابنِ تیمیہ نے اپنے اس مؤقف کی تائید میں درج آیاتِ قرآنی کا بالترتیب تذکرہ کیاہے:

  1. ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ شَآقُّواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَمَن يُشَاقِقِ اللّهَ وَرَسُولَهُ {الانفال، 8: 13}
  2. إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ {المجادلہ، 58: 20}
  3. أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّهُ مَن يُحَادِدِ اللّهَ وَرَسُولَهُ {التوبہ، 9: 63}
  4. وَمَن يَعْصِ اللّهَ وَرَسُولَهُ {النسائ، 4: 14}

علامہ ابنِ تیمیہ کا یہ بیان اس امر پر دلالت کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم دراصل پیغمبر اعظم و آخر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم ہے اور یہ دونوں تعظیمیں در حقیقت ایک ہی نوعیت کی حامل ہیں۔ حقیقتِ واحدہ ہونے کے ناطے تعظیمِ خداوندی اور تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی فرق نہیں۔وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ د کے حقوق کی ترتیب ظاہر کرنے کے لئے مزید لکھتے ہیں:

وفی هذا وغيره بيانٌ لتلازم الحقين، وأن جهة حرمة اللہ تعالی ورسوله جهة واحدة، فمن أذی الرسول فقد أذی اللہ، ومن أطاعه فقد أطاع اللہ.

’’مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جل مجدہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق باہم لازم و ملزوم ہیں نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کی جہت ایک ہی ہے لہٰذا جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی اور جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔‘‘

(1) ابن تیمیۃ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: 41

بعض لوگوں کا اصرار ہوتا ہے کہ وہ وسیلے اور ذریعے کے قائل نہیں۔ ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے براہِ راست تعلق چاہتے ہیں جب کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس لیے مبعوث کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کا پیغام بذریعہ وحی نازل ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ پیغام آگے نوعِ انسانی تک پہنچائیں۔ گویا رسالت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فریضہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈیوٹی تھی سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد فقط اللہ تعالیٰ کے پیغام کو انسانیت تک پہنچانا ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول کے منصب پر فائز کیا گیا لیکن علامہ ابنِ تیمیہ کا نقطئہ نظر ان لوگوں سے مختلف ہے، وہ لکھتے ہیں:

لأن الأمة لا يصلون ما بينهم وبين ربّهم إلا بواسطة الرّسول، ليس لأحدٍ منهم طريق غيره ولا سبب سواه.

’’اس لئے کہ امت کا اپنے رب سے تعلق صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ سے استوار ہو سکتا ہے کسی کے پاس بھی اس کے سوا کوئی دوسرا طریقہ یا سبب نہیں ہے۔‘‘

(2) ابن تیمیۃ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: 41

ان آیات اور اس طرح کی دیگر آیات میں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کے حقوق کے باہم لازم و ملزوم ہونے کا بیان ہے۔ اللہ رب العزت کی عزت و توقیر اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و توقیر ایک ہے اگر کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچائی اس نے گویا اللہ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نائب ہیں - علامہ ابنِ تیمیہ کا عقیدہ

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجودِ مسعود خدا اور مخلوق کے درمیان مضبوط واسطہ ہے۔ کوئی بھی شرعی امر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ اور واسطہ کے بغیر امت تک نہیں پہنچ سکتا۔ جو لوگ واسطے کو شرک کہتے ہیں انہیں یہ بات جان لینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰتک براہِ راست رسائی قطعاً نا ممکن ہے۔ امت تک کوئی فیض وسیلہِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر نہیں پہنچ سکتا، وہی اللہ اور مخلوق میں درمیانی واسطہ ہیں۔ علامہ ابنِ تیمیہ مزید لکھتے ہیں:

وقد أقامه اللہ مقام نفسه فی أمرهِ ونهيه وإخباره و بيانه، فلا يجوز أن يفرّقَ بين اللہ ورسوله فی شیء من هذه الأمور.

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اوامر و نواہی اور اخبار و بیان میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا قائم مقام مقرر کیا ہے اس لئے مذکورہ بالا امور میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مابین تفریق جائز نہیں۔‘‘

(1) ابن تیمیۃ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: 41

اس حوالے سے علامہ ابنِ تیمیہ کہہ رہے ہیں کہ امورِ دین میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان فرق کرنا جائز نہیں۔ اگر یہ بات کہنا شرک ہے تو سب سے پہلے اس کا اطلاق علامہ ابنِ تیمیہ پر ہوتا ہے جنہوں نے اس نکتے کا استنباط و استشہاد کیا۔ اگر وہ اس کے مرتکب نہیں تو پھر امتِ مسلمہ میں کوئی بھی فرد مشرک نہیں ہوسکتا کیونکہ اس عقیدے سے آگے کوئی نہیں جاتا اور یہ بلند ترین سطح ہے جس تک کوئی گیا ہو۔

جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا قائم مقام اور نائب بنایا ہے تو کیا کسی اور کی طرف سے کسی قسم کی دوئی یا ثنویت پیدا کرنے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ ان امور میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان کوئی فرق اور دوئی نہیں۔ دونوں میں یکتائیت پائی جاتی ہے اور کوئی ان میں دوئی نہیں پیدا کر سکتا، سوائے اس فرق کے کہ اللہ رب ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے عبد ہیں، لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا نائب سمجھنا شرک نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دراصل ایک ایسے اونچے مقام پر فائز کر دیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت کے مطابق تفویض کردہ اختیار کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ سے مخلوقِ انسانی تک پہنچانا مقصود تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کے نائب اور قائم مقام ہیں۔

ذکرِ الٰہی کی قبولیت بھی تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشروط ہے

جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر گزر چکا ہے کہ قرآن حکیم نے سورۃ الفتح کی آیت میں تعظیم و تکریمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اپنی تسبیح سے پہلے فرمایا یعنی اللہ تعالیٰ نے ایمان کی ترجیحی ترتیب کو بدل دیا ہے۔ اس کا اپنے بندوں سے ارشاد ہے کہ ’’لِتُوْمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ‘‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد سب سے پہلا کام اللہ تعالیٰ کی بزرگی و تقدیس بیان کرنے سے بھی پہلے اس کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور توقیر کا عَلَم بلند کرنا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کے بغیر اللہ تعالیٰ کی تسبیح بھی قبول نہیں۔ یہی ایمان کی پرکھ کا معیار اور کسوٹی ہے جس پر پورا اترنے سے عبادت، ذکر و فکر اور تسبیح و تقدیس قابلِ قبول ہوگی۔

یاد رکھیں! اللہ تعالیٰ کو ہمارے سجود اور تسبیحات کی ضرورت نہیں، اصلاً اسے اپنی بندگی مطلوب ہے اور اس کی بندگی تقاضا کرتی ہے کہ جس ذاتِ رسالت نے تمہیں مجھ سے شناسا کرایا پہلے اس کی تعظیم و تکریم کرو۔ لہٰذا تعظیمِ رسالت ہوگی تو عبادت بھی قبول ہو گی، تکریمِ رسالت ہو گی تو ذکر و تسبیح بھی وجہِ شرف ہوگی ورنہ یہ سب منافقانہ اور کافرانہ عمل قرار پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے نبی سیدنا آدم علیہ السلام کی عدمِ تعظیم کی وجہ سے بڑے عابد ابلیس کو بھی راندہِ درگاہ ٹھہرایا تھا ورنہ ابلیس نے بارگاہِ الٰہی میں نبی کی اہانت اور گستاخی کے علاوہ کوئی اور غلطی نہیں کی تھی۔ اپنے تئیں اس نے توحیدِ خالص کا مظاہرہ کیا تھا کہ میں توحید پرست ہوں اس لئے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ میری عبادت و بندگی کو داغدار کر دے گا۔ یہ تو آدم علیہ السلام کی عدمِ تعظیم پر ملنے والی سزا کامعاملہ ہے جس نے ایک مقرب اور عابد کو شیطان اور ابلیس بنا دیا۔ جبکہ ہم تو کائنات کی سب سے بڑی ہستی جو اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ تعظیم و تکریم کی مستحق ہے اس کے ساتھ تعلق کی بات کر رہے ہیں۔

قارئین خود سوچ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عزازیل جیسے عبادت گزار ناری فرشتے کو حضرت آدم علیہ السلام کی بے ادبی کی بناء پر شیطان بنا دیا تو اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت اسے کس قدر ناپسند ہوگی؟ اسی طرح یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم اللہ تعالیٰ کو کس قدر عزیز ہوگی۔ جن کے ایمان و نصرت کے لئے عالمِ ارواح میں انبیاء علیہم السلام کی ارواحِ مقدسہ سے اللہ تعالیٰ نے پختہ وعدہ لیا تھا۔ اب اگر کوئی اس کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر سے روگردانی کرتے ہوئے تکبرانہ رویہ اختیار کرے گا تو اس کا حشر بھی نہ صرف ابلیس کے ساتھ ہوگا بلکہ اس سے کہیں بدتر ہوگا۔

ادب و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. .. ایک نازک ایمانی اِمتحان

بعض لوگ جو دن رات توحید اور رب ذوالجلال کی عظمت و تمکنت کا ذکر کرتے نہیں تھکتے۔ بدقسمتی سے انہیں اللہ تعالیٰ کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ کی عظمت کا کوئی احساس اور ادراک نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توقیر کی نسبت ان کی زبانیں گنگ اور مہر بہ لب رہتی ہیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول تو مانتے ہیں لیکن محض عمومی اور اعتقادی طور پر۔ وہ دل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیغمبرانہ عظمت اور شانِ محبوبیت کو تسلیم کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ وہ اللہ رب العزت کی توحید کی رٹ لگاتے رہتے ہیں لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم، تعزیر اور توقیر کے بارے میں ان ارشاداتِ قرآنی سے کوئی اثر قبول نہیں کرتے ۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسے لوگوں کا تعلق عام طور پر باعمل مذہبی طبقے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ’’توحید پرستی‘‘ اور ’’عبادت‘‘ کے نشے میں اتنے غرق ہو جاتے ہیں کہ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی آنکھوں میں غیر اہم ہو جاتی ہے۔ نہ صرف وہ خود تعظیمِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ وہ اسے اپنا مشن سمجھ کر دوسروں کو بھی یہی وطیرہ اختیار کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ ایسے ’’توحید پرست‘‘ اور ’’عبادت گزار‘‘ لوگ ہر دور میں موجود رہے ہیں اور آج بھی بکثرت موجود ہیں۔ وہ توحید پرستی اور کثرتِ عبادت کے دھوکے میں آکر تعظیم و تکریمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منکر ہو جاتے ہیں اور اپنی اس ناپاک جسارت کے طفیل اپنی متاعِ ایمان ضائع کر کے رشکِ ابلیس بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس نازک امتحان میں ہر مسلمان کو سرخرو فرمائے اور ہم سب کو ابلیسی توحید کی بجائے نبوی اور ایمانی توحید کا فیض عطا فرمائے۔ آمین! یا رب العالمین۔

شعائر اللہ کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور توحید قرار پائی

شعائر اللہ کی تعظیم کا قرآن میں حکم دیا گیاہے۔ ارشادِ ربانی کی رو سے وہ لوگ جو شعائر اللہ کا کمال درجہ احترام اور تعظیم کرتے ہیں وہ متقی ہیں اور یہ تقویٰ ان کے دلوں کے اندر جاگزیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِo

’’اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اللہ یا اللہ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہو گیا ہو)۔‘‘

(1) الحج، 22: 32

دلوں کا تقویٰ عبادت ہے اور عبادت توحید ہے۔ گویا اللہ ل نے فرمایا: دلوں کا تقویٰ میری توحید بھی ہے اور میری عبادت بھی۔ پس جو شعائر اللہ کی تعظیم کرے وہ گویا اللہ تعالیٰ کی عبادت اور توحید کا حق ادا کر رہا ہے۔ اسی طرح باری تعالیٰ نے فرمایا:

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّهِ

’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔‘‘

(1) البقرۃ، 2: 158

اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ یہ پہاڑ بھی میرے شعائر ہیں، گویا جو شخص صفا اور مروہ پہاڑیوںکی تعظیم کرے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کا حق ادا کر رہا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تعظیم پہاڑوںکی ہو رہی ہے اور عبادت اللہ تعالیٰ کی ہو رہی ہے۔ ان دو پہاڑوں صفا و مروہ کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی عبادت قرار پائی۔ کیا دنیا کے اور پہاڑ بھی ایسے ہیں جو شعائر اللہ میں داخل ہوں؟ اگر نہیں تو یہ دو پہاڑ صفا مروہ کس وجہ سے شعائر اللہ بنے؟ اس لئے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی صالح بندی سیدہ ہاجرہ علیھا السلام اور صالح بندے سیدنا اسماعیلں کی نسبت حاصل ہے۔

منسوب جانور کے مقابلے میں اولیاء اللہ کی تعظیم کا مقام

بعض لوگ عبادت اور تعظیم کے درمیان تشکیک اور غلط فہمی پیدا کرکے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جب کوئی شخص اہل اللہ کی تعظیم بجا لاتا ہے تو یہ شرک فی العبادت کے زمرے میں آتاہے حالانکہ عبادت کا درجہ اور حقیقت جدا ہے اور تعظیم کی تعریف اور درجہ الگ ہے۔ دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اختلاط ممکن نہیں۔ شرعاً عجز و انکساری اور تعظیم کے انتہائی درجے کا نام عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے قطعاً جائز نہیں جب کہ اللہ رب العزت کے کسی برگزیدہ بندے حتیٰ کہ ان سے منسوب اشیاء کا ادب و احترام اور تعظیم ازروئے قرآن ایک جائز امر ہے۔

قرآن حکیم میںقربانی کے جانوروں کو بھی شعائر اللہ قرار دیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ

’’اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کوہم نے تمہارے لئے اللہ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے۔‘‘

(1) الحج، 22: 36

بھیڑ، بکریاں، چھترے، گائے جو جانور بھی حج کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنے کے لئے لائے جاتے ہیں شعائر اللہ ہیں۔ اس کے علاوہ عام جانوروں کو شعائر اللہ ہونے کی حیثیت حاصل نہیں خواہ وہ اس جانور جیسا ہی کیوں نہ ہو مثلاً اتفاق سے آپ نے دو بکرے خرید لیے اس نیت سے کہ ایک سے بیٹے کا ولیمہ کرنا ہے اور دوسرے کی قربانی کرنی ہے، اب ایک ہی آدمی ایک ہی بندے سے دو بکرے ایک جیسی قیمت ادا کر کے خرید لایا ہے، ایک بیٹے کے ولیمے کے لئے اور ایک قربانی کے لئے۔ قربانی والا بکرا اگرچہ عام بکروں کی طرح ہے لیکن شعائر اللہ میں آجانے کی وجہ سے اس کی تعظیم واجب ہو گئی اور وہ عام بکروں سے ممتاز و مکرم ہوگیا کیونکہ وہ اب وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ کے حکم کا مصداق بن گیا، نسبت نے دونوں میں زمین آسمان کا فرق کر دیا۔ اللہ کی رضا کی خاطر قربانی کے لئے خریدنے سے ایک لمحہ پہلے وہ عام جانور تھا مگر جب وہ قربانی کے لئے منسوب ہوگیا تو اب وہ شعائر اللہ میں شمار ہو گیا جس کی تعظیم بھی اللہ کی عبادت ہے۔

یہاں بڑا اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قربانی کیلئے خریداگیا جانور شعائر اللہ میں شمار ہو گیا تو جو بندہ رضائے الٰہی کے لئے خدا کی راہ میں ذبح ہو گیا اور اس کی نسبت بارگاہِ الٰہی سے مستحکم ہو گئی تو کیا وہ شعائر اللہ میں داخل نہ ہوا؟ بکرا ابھی قربان ہوا نہیں کہ شعائر اللہ ہو گیا اور جس بندہ نے ساری زندگی اپنے رب کیلئے قربان کر دی، جس نے اپنا آرام قربان کر دیا، وقت قربان کر دیا، عزت قربان کر دی، جان قربان کر دی۔ جو سارے کا سارا قربان ہو چکا وہ شہید اور اللہ تعالیٰ کا ولی ہو گیا اور اللہ تعالیٰکے ساتھ نسبت پا گیا۔ اس کی نسبتِ شہادت و عبدیت اور بندگی متحقق ہو گئی۔ کیا وہ شعائر اللہ میں شمار نہیں ہوا؟ ضرور ہوا ہے، حکمِ ایزدی کے تحت اس کی جتنی تعظیم کریں کم ہے۔ جس جانور کی نسبت اللہ تعالیٰکی طرف ہوجائے تو شرعاً اس کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے، اور جو بندہ اپنی بندگی کی وجہ سے اللہ والا ہو گیا ہو اس کی تعظیم کیوں شرک ہو گی؟ ایسا کہنا حد درجہ کی جہالت ہے۔ پس عبادت اور تعظیم میں فرق کرنا ضروری ہے۔

خ عبادت اور تعظیم میں فرق

مفہومِ عبادت اور تصورِ عبادت سمجھنے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے۔ بہت سے دوسرے تصور ات کو عبادت کے ساتھ گڈ مڈ اور خلط ملط کر دیا گیاہے اور بعض ظاہری مماثلت رکھنے والی چیزوں کی بنیاد پر بہت سی ایسی چیزوں کو عبادت سمجھ لیا گیا ہے جو درحقیقت عبادت نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کسی چیز کا تصور ہی غلط مراد لے لیا جائے تو پھر اس سے حاصل کردہ اور اخذ کردہ نتائج بھی درست ثابت نہیں ہو سکتے۔ اِس لئے یہ ایک اصولی بات ہے کہ محض غلط تصور کی بنیاد پر شرک کا فتویٰ صادر کر دینا درست نہیں۔ صحیح فہمِ دین کے لئے ضروری ہے کہ ہر ایک چیز کی شرح و تعبیر اور اس کے صحیح اطلاق کو سمجھا جائے۔ بصورتِ دیگر غلط تصور کی بنیاد پر اخذ کردہ نتائج بھی غلط اور اس کی بنیاد پر لگائے گئے فتویٰ کا حکم بھی غلط ہوگا اور پھر ایسا فہمِدین بھی یقینا غلط ہوگا کیونکہ سرے سے بنیاد ہی غلط ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ تمام شرعی اور مذہبی معاملات پر بحث اور فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے صحیح تصور کو سمجھا جائے۔

عبادت کا معنی و مفہوم

توحید فی العبادت سے مراد یہ ہے کہ عبادت کے لائق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جملہ مخلوقات میں سے کوئی بھی ہستی عبادت میں اس کی شریک نہیں۔ عبادت ایک ایسا فعل ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف اور صرف اپنی غایتِ تعظیم کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ بندے کی طرف سے انتہا درجے کی تعظیم جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہو سکتی ہے وہ صرف عبادت کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ مخلوق میں سے کوئی بھی تعظیم کی اس حد کو نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی بلند ترین ہے جبکہ مخلوق عبادت گزاری کے اعتبار سے ادنیٰ ترین مقام پر ہے۔ عبادت بندے کی طرف سے اس عظیم ترین ذات کے لئے غایت درجہ ادب و تعظیم، خاکساری اور عجزو تذلل کی آئینہ دار ہے۔ عبد اور معبود کی ان دونوں انتہائوں کے مابین رابطہ و تعلق پیدا کرنے والی چیز صرف عبادت ہے، یہ چیز اس امر کی متقاضی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی اِس لائق ہے کہ اسی کی عبادت و پرستش کی جائے۔ اس کے علاوہ کوئی اور یہ حق نہیں رکھتا ۔

علمائے عقائد نے عبادت کی درج ذیل تعریف کی ہے:

هو استحقاقُه سبحانه وتعالی أن يُعبَد وحدَه لا شريکَ له.

’’یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خصوصی استحقاق ہے کہ اسی کی عبادت کی جائے، اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘

(1) ابن ابی العز دمشقی، شرح العقیدۃ الطحاویۃ، 1: 125

اس کی مزید وضاحت یوں کی گئی ہے:

هو إفراد اللہ ل بجميع أنواع العبادة الظاهرة و الباطنة قولًا و عملاً، و نفي العبادة عن کل ما سوی اللہ تعالی کائناً من کان.

’’توحیدِ اُلوہیت (عبادت)سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کا تمام ظاہری و باطنی قولی اور فعلی جملہ عبادات میں یکتا ہونا۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ماسویٰ ہر ایک چیز کی عبادت کی نفی کی جائے۔‘‘

(1) ابن احمد الحکمی، أعلام السنۃ المنشورۃ: 21

ائمہِ تفسیر نے عجز و تذلل اور انکسار کی بلند ترین کیفیت اور تعظیم کی آخری حد کو عبادت قرار دیاہے۔

(تفصیلی بحث اسی کتاب کے باب پنجم کی پہلی فصل میں ملاحظہ کریں۔)

پس عبادت کے لئے ضروری ہے کہ اس عمل میں عاجزی و انکساری کی بلند ترین کیفیت کے ساتھ تعظیم کا انتہائی درجہ شامل ہو۔ اس کے علاوہ ایسے عمل کو جو اس سے کم تر درجے میں ہو اُسے عبادت تصور نہیں کیا جا سکتا۔

عبادت عجز و نیاز کی اِنتہائی کیفیت اور تعظیم کی آخری حد ہے

تمام اجل مفسرین کے مطابق خضوع و تذلل کی بہت سی صورتیں اور درجات ہیں لیکن عبادت عاجزی و انکساری کا بلند ترین درجہ ہے۔

اس کی کئی مثالیں ہیں جن میں سے فہم کے لئے ایک درج کی جاتی ہے: چالیس طلبہ کی کلاس میں ہم ایک طالب علم کو لیتے ہیں جو اوّل آتا ہے اور گولڈ میڈل کا حقدار قرار پاتا ہے جبکہ دوسرے انتالیس طلباء اپنی کارکردگی اور پوزیشن میں اس سے پیچھے ہیں۔ طالب علم ہونے کے ناطے وہ کلاس کا ایک فرد ہے لیکن جب ہم سب طلباء کا ذکر کریں گے تو یہ کہیں گے کہ وہ صرف طالب علم ہی نہیں بلکہ گولڈ میڈلسٹ بھی ہے۔ اپنی اس حیثیت میں وہ دوسروں سے ممتاز و یگانہ ہے اور درجے میں سب طلباء سے اوپر ہے۔ چاندی کا میڈل جیتنے والا باوجود ممتاز حیثیت رکھنے کے اس سے بھی کم درجے میں ہے اسی طرح کانسی کا میڈل حاصل کرنے والا اس سے بھی کم درجے میں ہے۔ جب آپ طلباء میں تمیز کرتے ہوئے بہتر کارکردگی کے مالک طلباء کو امتیازی اور تعریفی اسناد دیں گے تو یہ تمام طلباء تکریم کے درجہ بہ درجہ حقدار ہوں گے لیکن اعلیٰ درجے کی مظہر صرف ایک سند ہو گی جس نے امتیازات کی تمام حدوں کو عبور کر رکھا ہے۔

عاجزی، تذلل، خاکساری اور عجزو انکسار کی انتہائی شکل جو عبادت کی تعریف پر پوری اترتی ہے، اس سے ظاہر ہے کہ جب ہم توحید فی العبادت کی بات کرتے ہیں تو اس کا معنی عبادت میں توحید ہے۔ اس کا اطلاق ہم تعظیم پر نہیں کرسکتے۔ قرآن حکیم میں جہاں کہیں توحید فی العبادت کا ذکر ہے وہیں اس امر کا ذکر بھی ہے۔

ہر تعظیم عبادت نہیں

عبادت اور تعظیم کی درج بالا بحث سے ثابت ہوا کہ ادب و احترام اور تعظیم کااعلیٰ ترین درجہ عبادت ہے جس کاحق دار و سزا وار صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات ہے اس میں حقیقت و مجاز کی تقسیم بھی نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا عبادت کا کسی کے لئے مجازاً اثبات بھی شرک ہے لیکن ہر تعظیم عبادت نہیں کیونکہ کسی بھی عمل کو عبادت قرار دینے کے لئے تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

1۔ بندہ عاجزی وتذلّل اور عجز و انکساری کی آخری حد پر ہو. .. جبکہ:

انبیائے کرام، صالحینِ عظام، والدین، شیوخ، اساتذہ یا کسی اور معزز ہستی کی عزت و توقیر، ان کا ادب و احترام، ان کی فرمان برداری، تعمیلِ ارشاد اور ان سے منسوب اشیاء کی حرمت و تکریم بھی ان کی تعظیم ہے۔ چونکہ یہ عمل درجہِ عبادت یعنی عاجزی و تذلّل اور عجز و انکساری کی آخری حد سے کم تر اور فروتر ہوتا ہے اور اس کی نوعیت بھی عمومی ہوتی ہے اس لئے عبادت کے زمرے میں نہیں آتا اور جائز امر ہے چونکہ کسی بھی طرح توحید سے متعارض و متصادم نہیں لہذا شرک کے دائرے میں ہرگز نہیں آتا۔

2۔ رب تعالیٰ کے لئے تعظیم کا آخری درجہ ہو. .. جبکہ:

انبیائے کرام، صالحینِ عظام اور بڑوں کی عزت و توقیر اور ادب و احترام ان کی تعطیم تو ہے مگر تعظیم کا آخری درجہ ’عبادت‘ نہیں۔ کوئی بھی راسخ العقیدہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی تعظیم عبادت کی نیت سے ہر گز نہیں کرتا۔

3۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اس عمل کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خاص قرار دیا ہو. .. جبکہ:

اسلامی تعلیمات اور معاشرتی ادب میں یہ بات شامل ہے کہ افرادِ امت درجہ بدرجہ ایک دوسرے کی عزت و تعظیم کریں۔ اولاد والدین کی تعظیم کرے، شاگرد استاد کی، چھوٹا بڑے کی، یہ یک ایسا مطلوب و مقبول عمل ہے جسے ترک کرنے والا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق امت سے خارج ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيْرَنَا وَيُؤَقِّرْ کَبِيْرَنَا.

’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور بڑوں کی عزت نہ کی۔‘‘

(1) ترمذی، السنن، کتاب البرو الصلۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان، 4: 321، رقم: 1919

پس ثابت ہوا کہ عبادت کا مستحق فقط اللہ تبارک و تعالیٰ ہے لہٰذا کسی غیر کو عبادت کا حق دار سمجھنا یا غیر کی عبادت کرنا شرک فی العبادت ہے۔ توحید اور شرک ایک دوسرے کی ضد ہیں ما سوائے اللہ رب العزت کے کسی کی عبادت جائز نہیں۔ کسی کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا شریک نہیں بنایا جاسکتا۔ جبکہ کفار و مشرکین اپنے بتوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ہم ان بتوں کی عبادت کر کے ان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ کفر و شرک اس اعتبار سے ہے کہ وہ مشرکین ان بتوں کی باقاعدہ عبادت کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ بت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب کا ذریعہ ہیں۔ وہ کہتے تھے:

مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللهِ زُلْفٰی.

’’ہم ان (بتوں) کی پرستش صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں۔‘‘

(1) الزمر، 39: 3

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عقیدہِ تقرب کی واضح تکذیب کی ہے کیونکہ اگر وہ مشرکین اپنے اس قول میں صادق ہوتے تو اُن کے نزدیک اللہ تبارک وتعالیٰ، اِن بتوں سے زیادہ قابلِ تعظیم ہوتا اور وہ لوگ غیراللہ کی عبادت نہ کرتے۔ لیکن وہ یہ جانتے ہوئے کہ اسلام میں کسی کو تقرب إلی اللہ کے لئے وسیلہ بنانا جائز ہے، اس تصور کو ’مَا نَعْبُدُهُم‘ کے الفاظ میں ان کی بت پرستی کے جواز کی دلیل کے طور پر پیش کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ توسل کی مشروعیت کے باعث مسلمان ہمارے بتوں کی عبادت کرنے کو نظرانداز کر دیں گے یا نرم گوشہ اختیار کر لیں گے۔ وہ مسلمانوں کو یہ کہہ کر قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ بتوں کی پوجا کرنے سے ہماری غرض و غایت یہ ہے کہ ان کے ذریعہ ہم اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جائیں۔ ان کے اس استدلال کو اللہ تعالیٰ نے رد کر دیا کیونکہ شرک کو کسی بھی عمل اور نیت کے ذریعے پاک اور حلال نہیں کیا جا سکتا۔

مطالعہء قرآن سے واضح ہوتا ہے کہ مشرکینِ مکہّ اللہ تعالیٰ کے وجود کے بالکل منکر نہیں تھے بسا اوقات وہ اللہ تعالیٰ کو ایک اور سب سے بالا و برتر ہستی مانتے تھے مگر ان کا شرک توحید فی الالوہیت کے باب میں تھا اسی بناء پر ان کے ہاں عقیدہِ توحید کے باب میں خرابی، توحیدِ ربوبیت کی نسبت توحیدِ الوہیت میں زیادہ تھی۔ قبل از اسلام یہود اور دیگر مشرکین عرب حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کی طرح اپنے بتوں کو مختلف قبائل سے منسوب کر کے اس کی پوجا کرتے تھے۔

زمانہِ جاہلیت میں قبر پرستی کی حقیقت

قبل از اسلام لوگ قبروں کو براہِ راست سجدہ کرتے اور بعض قبائل ان قبروں کے اوپر اس مدفون کا بت یا ان کی تصاویر بنا کر رکھ لیتے اور اس کو سجدہ کرتے تھے سجدہ کرتے ہوئے ان کا تصور یہی ہوتا تھا کہ یہ بت اور مدفون شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارے شفیع ہیں۔ ان کا یہی عمل در اصل شرک فی الاُلوہیت تھا۔

امام بخاری نے ان کے اس مشرکانہ عمل کو اس طرح روایت کیا ہے:

1۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کے متعلق فرمایا:

لَعَنَ اللهُ اليَهُوْدَ، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ.

’’اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجود بنا لیا تھا (یعنی وہ براہِ راست قبروں کو سجدہ کرتے تھے)۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الصلوۃ، باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ ویتخذ مکانھا مساجدا، 1: 165

  2. مسلم، الصحیح، کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب النہی عن بناء المساجد علی القبور واتخاذ الصور، 1: 376، رقم: 529

2۔ اس طرح ایک اور روایت میں ان کے اس مشرکانہ رجحان اور وطیرہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید واضح فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

أَنَّ أُمَّ حَبِيْبَةَ وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَکَرَتَا کَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِالحَبَشَةِ فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَذَکَرَتَا لِلنَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ: إِنَّ أُولَئِکَ إِذَا کَانَ فِيْهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ بَنَوْا عَلَی قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْکَ الصُّوَرَ فَأُولَئِکَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللهِ يَوْمَ القِيَامَةِ.

’’حضرت اُمِ حبیبہ اور حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہما نے حبشہ میں ایک گرجا دیکھا جس میں بت اور مورتیاں تھیں، پس انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کر لیتے اور اس میں اس کی مورتی بنا لیتے وہ لوگ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الصلوۃ، باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ و یتخذ مکانھا مساجدا، 1:165، رقم: 417

  2. مسلم، الصحیح، کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ، باب النہی عن بناء المساجد علی القبور و اتخاذ الصور، 1:375، رقم: 528

3۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

صَارَتِ الأوْثَانُ الَّتِي کَانَتْ فِي قَوْمِ نُوحٍ فِي العَرَبِ بَعْدُ، أَمَّا وَدٌّ کَانَتْ لِکَلْبٍ بِدَوْمَةِ الْجَنْدَلِ، وَأَمَّا سُوَاعٌ کَانَتْ لِهُذَيْلٍ، وَأَمَّا يَغُوثُ کَانَتْ لِمُرَادٍ، ثُمَّ لِبَنِي غُطَيْفٍ بِالجَوْفِ عِنْدَ سَبَإٍ، وَأَمَّا يَعُوقَُ فَکَانَتْ لِهَمْدَانَ، وَأَمَّا نَسْرٌ فَکَانَتْ لِحِمْيَرَ لِآلِ ذِی الکَلاَعِ، أَسْمَائُ رِجَالٍ صَالِحِيْنَ مِن قَوْمِ نُوْحٍ، فَلَمَّا هَلَکُوْا أَوحَی الشَّيْطَانُ إِلَی قَوْمِهِمْ أَنِ انْصِبُوا إِلَی مَجَالِسِهِم الَّتِي کَانُوْا يَجْلِسُوْنَ أَنْصَابًا وَ سَمُّوهَا بِأَسْمَاءِ هِمْ فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَدْ حَتَّی إِذَا هَلَکَ أُولٰئِکَ وَتَنَسَّخَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ.

’’جو بت حضرت نوحں کی قوم میں پوجے جاتے تھے وہی بعد میں اہل عرب نے اپنے معبود بنا لئے۔ وَد بنی کلب کا بت تھا جو دومۃ الجندل کے مقام پر رکھا ہوا تھا۔ سواع بنی ہذیل کا بت تھا، یغوث بنی مراد کا بت تھا، پھر یہی بنی غطیف کا بھی الٰہ بن گیا جو سبا کے پاس جوف میں تھا۔ یعوق قبیلہ ہمدان کا اور نسر ذی الکلاع کی آلِ حمیر کا بت تھا۔ یہ حضرت نوح کی قوم کے نیک آدمیوں کے نام ہیں جب وہ وفات پا گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ جن جگہوں پر وہ اللہ والے بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے بنا کر رکھ دو اور ان بتوں کے نام بھی ان صالحین کے نام پر ہی رکھ دو۔ چنانچہ لوگوں نے ایسا کر دیا لیکن ان کی پوجا نہیں کرتے تھے جب وہ لوگ دنیا سے چلے گئے اور علم بھی کم ہو گیا تو ان کی پوجا و پرستش ہونے لگ گئی۔‘‘

(1) بخاری، الصحیح، کتاب تفسیر القرآن، باب ودًا ولا سواعًا ولا یغوث ولا یعوق، 4:1873، رقم: 4636

مندرجہ بالا روایات سے درج ذیل امور واضح ہوئے:

1۔ مشرکین قبور کو تعظیماً نہیں بلکہ انہیں معبود سمجھ کر ان کی طرف سجدہ کرتے تھے۔

2۔ انہوں نے باقاعدہ بت تراش رکھے تھے جو قبروں کے اوپر نصب تھے اور سجدہ کرتے وقت وہ اس قبر اور اس کے اوپر رکھے ہوئے بت کو پوجتے تھے۔

3۔ مشرکین نے ان صالحین کے قیام گاہوں پر ’’تھان‘‘ یعنی چبوترے بنا رکھے تھے جن پر ان بزرگوں کے مجسمے بنا کر رکھے جاتے تھے اور انہی چبوتروں پر وہ جانور بھی ذبح کرتے تھے۔

4۔ اس خون کو وہ عبادتاً اور تقرباً ان چبوتروں پر مَل دیتے تھے۔

5۔ اس خودساختہ عبادت کو وہ اللہ تعالیٰ کی قربت اور شفاعت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔

آج جو لوگ مزاراتِ انبیاء و اولیاء کی تعظیم کو شرک کے زمرے میں شامل کرتے ہیں اور مزارات پر حاضری کو خلافِ توحید سمجھتے ہیں انہیں دراصل مشرکین کے اسی عمل سے مغالطہ ہوتا ہے حالانکہ مشرکین کا عمل مندرجہ بالا وجوہات کی بناء پر واضح اور صریح شرک تھا۔ ان دونوں افعال میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں کو ایک جیسا سمجھنے سے قبل ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ شرک کا اطلاق کرتے ہوئے اس کی حقیقت اور تاریخ کو ملحوظ رکھا کریں۔ توسل تعظیم اور عبادت میں واضح فرق کو سامنے رکھے بغیر فتوی لگانے سے ہی فتنہ پیدا ہوتا ہے۔

اہلِ اسلام کا عمل مشرکین سے بالکل برعکس ہے۔ مسلمان مزارات پر صرف اس لیے جاتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء کو اللہ تعالیٰ کی قربت محبت اور اطاعت کی وجہ سے قابلِ احترام سمجھتے ہیں۔ نہ وہاں پر کسی ولی کا بت اور مورتی بنائی جاتی ہے، نہ اس کی پوجا پاٹ ہوتی ہے اور نہ ہی کسی چبوترے پر جانور ذبح کر کے خون ملا جاتا ہے۔ الغرض اسبابِ شرک میں کوئی سبب اہلِ اسلام میں نہیں پایا جاتا۔ رہا قبروں کا احترام کرنا اور ان پر دعا و توسل کے لئے جانا تو یہ نصِ حدیث سے ثابت ہے۔

خلاصہِ کلام

اس بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ مشرکین اگرچہ بتوں کی عبادت کو اللہ تعالیٰ تک رسائی کا ذریعہ بناتے تھے مگر ان کا یہ بیان محض دھوکا، فریب اور دجل تھا جسے قرآن نے کئی مقامات پر رد کر دیا اور ان کی بت پرستی کو شرک جیسے گناہ عظیم کے زمرے میں ہی رکھا۔انسانی تاریخ کے کسی دور میں کسی پیغمبر کے عہدِ نبوت میں شرک کبھی بھی جائز نہیں رہا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ شریعت بدلتی رہی، احکام بدلتے رہے، قانون بدلتے رہے۔ حلال، حرام، جائز ناجائز پر مبنی شریعت کے احکام بدلتے رہے۔ ہر پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے نئی شریعت دی مگر شرک کسی بھی شریعت میں کبھی بھی جائز نہیں تھا۔ چونکہ ہر پیغمبر یہ دعوت لے کر آیاکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ شرک نہ کرو، شرک کا انکار اور توحیدکی دعوت ہر پیغمبر کا منصب تھا۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اس تصور کو اجاگر کرنے کے لئے مبعوث ہوئے کہ جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت جائز نہیں وہیں کسی کی بھی تعظیم نہ صرف جائز بلکہ ایک مستحب عمل ہے جس کی تحسین اور سفارش اس کے پسندیدہ ہونے کی بناء پر کی گئی ہے۔

شرعاً تعظیم کے جائز اور واجب طریقے

جیسا کہ آغازِ کلام میں بھی واضح کیا گیا کہ بعض لوگ تعظیم اور عبادت کو گڈمڈ کرتے ہوئے تعظیم پر شرک کا فتویٰ لگا دیتے ہیں حالانکہ تعظیم نہ صرف یہ کہ شرک نہیں بلکہ تعظیم کی کئی صورتیں شرعًا واجب بھی ہیں۔ ذیل میں تعظیم کی مختلف شکلیں اور صورتیں الگ الگ بیان کی جارہی ہیں۔ ان میں سے بعض کی آئندہ صفحات میں تشریح و توضیح بھی آ رہی ہے۔ تعظیم کے جائز طریقے مندرجہ ذیل ہیں:

  1. تعظیم بالقیام
  2. تعظیم بالاستقبال
  3. تعظیم بخلع النعال
  4. تعظیم بالتقبیل
  5. تعظیم بالزیارت
  6. تعظیم بالتوجہ
  7. تعظیم بالمحبت
  8. تعظیم بالتبرک

شریعت میں تعظیماتِ واجبہ مندرجہ ذیل ہیں:

  1. تعظیم الوہیت
  2. تعظیم رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  3. تعظیم انبیاء علیہم السلام
  4. تعظیم قرآن
  5. تعظیم حدیث
  6. تعظیم اہل بیت
  7. تعظیم صحابہ
  8. تعظیم اَولیاء و صالحین
  9. تعظیم اکابر و مشائخ
  10. تعظیم والدین
  11. تعظیم شعائر
  12. تعظیم شہورِ مقدسہ
  13. تعظیم ایامِ مقدسہ
  14. تعظیم اماکن مقدسہ
  15. تعظیم آثار مبارکہ

فصل دوم: تعظیم بالمحبت اور اُس کی اَقسام

محبت کا لغوی معنی و مفہوم

ائمہ لغت و ادب نے باعتبارِ اصل اور مادہ، محبت کے متعدد معانی و مطالب بیان کئے ہیں۔معروف معنوں میں حَبَّ یَحَبُّ حُبًّا اور حَبَّ یَحُبُّ حُبًّا کا مطلب محبوب و پسندیدہ ہونا ہے۔ علامہ ابنِ منظور نے لکھا ہے:

الحُبُّ نَقِيْضُ الْبُغْضِ.

’’حُبّ، بغض (یعنی نفرت اور دشمنی) کی ضد ہے۔‘‘

  1. ابن منظور، لسان العرب، 1:289

  2. زبیدی، تاج العروس، 1:389

محبت کا اِصطلاحی مفہوم

اَئمہِ کرام کے نز دیک محبت کا اصطلاحی مفہوم درج ذیل ہے:

1۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے محبت کی اصطلاحی تعریف یوں کی ہے:

فالحُبّ عبارة عن ميل الطبع إلی الشیء الملذ. فإن تأکد ذلک الميل وقوی سمي عشقاً.

’’کسی خوشنما اور پسندیدہ چیز کی طرف طبیعت کا مائل ہونا محبت کہلاتا ہے، اگر اس میلان میں پختگی اور تقویت پیدا ہوجائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔‘‘

(2) غزالی، إحیاء علوم الدین، 4: 296

2۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ محبت کی تعریف کرتے ہیں:

إرادة ما تراه أو تظنّه خيرًَا.

’’محبت ایسا ارادہ ہے جو دیکھنے میں اور گمان کرنے میں آپ کو بھلا لگے۔‘‘

(1) راغب أصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، 1: 287

ان تعریفات سے معلوم ہوا کہ کسی بھی پسندیدہ، منتخب اور پیاری چیز یا ذات کی طرف قلبی میلان کو ’محبت‘ کہتے ہیں، اور اس میں بھلائی و خیر پوشیدہ ہوتی ہے۔ امام راغب اصفہانی نے ’خیر‘ کی شرط اس لئے لگائی کہ یہ آپ کو راہِ راست سے بھٹکانے والی نہ ہو، دوسرے الفاظ میں انہوں نے دنیاوی محبت، مال کی محبت، نفسانی محبت اور خواہشات و شہوات پر مبنی محبت کی نفی فرمائی ہے جو انسان کو گمراہ کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ بھلائی اور خیر پر مبنی ’محبت‘ دراصل اللہ گ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اہلِ بیت اطہار اور صحابہ کرام ث، قرآن ِحکیم، احکام ِدین، اعمالِ صالحہ، اخلاقِ حسنہ اور شہوات و حرص سے پاک مخلوق کی محبت پر مشتمل ہوتی ہے۔ اسی تعلقِ محبت کو جب پختگی اور تقویت میسر ہو تو وہ ’عشق‘ میں بدل جاتی ہے۔

محبت کی اَقسام

بنیادی طور پر محبت کی چار اقسام ہیں ان میں سے دو مثبت پہلو رکھتی ہیں جبکہ دو منفی پہلو۔ وہ درج ذیل ہیں:

  1. محبتِ واجبہ
  2. محبتِ محمودہ
  3. محبتِ محرّمہ
  4. محبتِ مذمومہ

1۔ محبتِ واجبہ

محبتِ واجبہ میں پہلا درجہ اللہ رب العزت کی محبت کا ہے اس کے بعد اُن مقدس ہستیوں سے محبت واجب ہے جو باری تعالیٰ کی محبت اور قربت کا باعث بنتی ہیں۔ اس کی درج ذیل اقسام ہیں:

(1) محبتِ اِلٰہی

اللہ رب العزت کی محبت دینِ اسلام کی اصل ہے۔ اس کے کمال سے دین کو کمال ملتا ہے اور اس میں کمی کجی سے دین میں نقص پیدا ہوتا ہے۔ ایمان والوں کی اللہ رب العزت سے کیسی محبت ہوتی ہے، اس پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ.

’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘

(1) البقرۃ، 2: 165

ایمان والوں میں سے جو لوگ اللہ رب ذوالجلال کی محبت کو ٹھکرا کر احکامِ الہٰی سے رُخ پھیر لیتے ہیں اُن کو اِن الفاظ میں تنبیہ کی گئی:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ

’’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔‘‘

(2) المائدۃ، 5: 54

یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوصاً حضرت داؤد رضی اللہ عنہ کی دعا کا ذکر فرمایا کہ وہ اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کی محبت، اس سے محبت کرنے والے انبیائ، اولیاء و صالحین کی محبت اور اس کی محبت کے حصول میں معاون عملِ صالح کو طلب کیا کرتے تھے۔ حضرت ابودَرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کَانَ مِنْ دُعَاءِ دَاوُدَ يَقُوْلُ: اَللَّهُمَّ إِنِّي أسْأَلُکَ حُبَّکَ، وَ حُبَّ مَنْ يُحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّکَ. اَللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَ أَهْلِي وَ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ.

’’داؤد رضی اللہ عنہ دعا فرمایا کرتے تھے: اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت، تجھ سے محبت کرنے والے کی محبت اور ایسے عمل کا سوال کرتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ یا اللہ! تُو اپنی محبت کو میری جان، میرے اہل و عیال اور (پیاسے کے لئے) ٹھنڈے پانی سے بھی بڑھ کر میرے لئے محبوب بنا دے۔‘‘

  1. ترمذی، السنن، کتاب الدعوات، باب في عقد التسبیح بالید، 5:522، رقم: 3490

  2. حاکم، المستدرک، 2: 470، رقم: 3621

  3. دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 3: 271، رقم: 4810

  4. ابن سرایا، سلاح المؤمن في الدعائ، 1 502، رقم: 958

قران و سنت پر مشتمل دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر لمحہ اللہ رب العزت کی محبت کو طلب کرتے رہنا چاہیے اور اس پر استقامت رکھنی چاہیے۔

(2) محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اللہ رب العزت کی محبت کی طرح محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی واجباتِ دین میں سے ہے۔ کسی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل نہیںہوسکتا جب تک کہ اسے اپنے والدین، اولاد، رشتہ دار، عزیز و اقارب، تمام لوگ حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ حضور رضی اللہ عنہ سے محبت نہ ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَ وَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.

’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

بخاری، الصحیح، کتاب الإیمان، باب حُبّ الرَّسُوْلِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنَ الإِیْمَانِِ، 1:14، رقم: 15

مسلم، صحیح، کتاب الإیمان، باب وجوب محبّۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أکثر من الأھل والولد والوالد والناس أجمعین، 1:67، رقم: 44

اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ.

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان ہے! (اِس کے بعد سابقہ الفاظِ حدیث ہیں)۔‘‘

(2) بخاری، الصحیح، کتاب الإِیْمَانِ، باب حُبّ الرَّسُوْلِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنَ الإِیْمَانِ، 1: 14، الرقم:14

حضرت عبد اللہ بن ہِشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ! لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيئٍ إِلاَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الآنَ، وَاللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: الآنَ يَا عُمَرُ.

’’ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان ہے! جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جائوں (تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ رب العزت کی قسم! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمر! اب (تمہارا ایمان کامل ہوا) ہے۔‘‘

(3) بخاری، الصحیح، کتاب الأيْمَانِ وَ النُّذُوْرِ، باب کَيْفَ کَانَتْ يَمِيْنُ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 6:2445، رقم:6257

محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درحقیقت محبتِ الٰہی کی تابع ہے اور جو حضور رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے یہی محبت اسے باری تعالیٰ کی محبت کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے۔

(ا) محبتِ الٰہی اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہی ہے

قرآن و حدیث میں بعض مقامات پر دونوں محبتوں کا یکجا بیان ہوا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ محبتِ الٰہی اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہے اور دیگر تمام محبتوں کے مراتب سے اعلیٰ و ارفع ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ایمان والوں کے دنیا میں آٹھ (8) خصوصی تعلقات اور معاملات کا ذکر کرنے کے بعد محبتِ الٰہی، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنی راہ میں جدوجہد کو سب سے برتر اور فوق قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَo

’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘

(1) التوبۃ، 9: 24

اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت اور اس کے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، قربت اور اطاعت کے اعتبار سے افضل اور اَجل ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں:

أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنِ السَّاعَةِ، فَقَالَ: مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ: وَ مَاذَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ: لَا شَيئَ (وَفِي رِوَايَةِ أَحْمَدَ: قَالَ: مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ کَثِيْرِ عَمَلٍ، لَا صَلَاةٍ وَ لَا صِيَامٍ) إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللهَ وَ رَسُوْلَهُ صلی الله عليه وآله وسلم. فَقَالَ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ: فَمَا فَرِحْنَا بِشَيئٍ فَرَحَنَا بِقَولِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ: فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ وَأَرْجُوْ أَنْ أَکُوْنَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَاهُمْ وَ إِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِهِمْ.

’’کسی آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا: میرے پاس تو کوئی عمل نہیں۔ (امام احمد کی روایت میں ہے کہ اس نے عرض کیا: میں نے تو اس کے لئے بہت سے اعمال تیار نہیںکیے، نہ بہت سی نمازیں اور نہ بہت سے روزے) سوائے اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم (قیامت کے روز) اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں (تمام صحابہ کرام کو) کبھی کسی خبر سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان اقدس سے ہوئی کہ تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے، لہٰذا امید کرتا ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں بھی ان حضرات کے ساتھ ہی رہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان کے اعمال جیسے نہ ہوں۔‘‘

  1. بخاري، الصحیح، کتاب المناقب، باب مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي، 3:1349، رقم: 3485

  2. أیضاً، کتاب الأدب، باب ما جاء في قول الرجل ویلک، 5:2285، رقم: 5815

  3. مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب المرء مع من أحب، 4:2032، رقم: 2639

  4. ترمذی، السنن، کتاب الزھد، باب ما جاء أن المرء مع من أحب، 4: 595، رقم: 2385 (امام ترمذی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔)

محبتِ الٰہی اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بندے کے لئے سفارش کا باعث بھی ہے۔

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہِ مبارکہ میں ایک شخص جس کا نام عبداللہ اور لقب حمار تھا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظرافتِ طبع کا باعث بنتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے شراب پینے کے باعث مارا تھا، ایک دن اسے پھر (حالتِ نشہ میں) لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے مارنے کا حکم دیا پس اسے مارا گیا۔ موقع پر لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا۔ یا اللہ جتنی مرتبہ اسے مارنے کے لئے لایا گیا تو اس سے زیادہ اس پر لعنت بھیج۔ اس پر حضور رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

لَا تَلْعَنُوْهُ، فَوَاللهِ مَا عَلِمْتُ إنَّهُ يُحِبُّ اللهَ وَ رَسُوْلَهُ.

’’اسے لعنت نہ کرو، اللہ رب العزت کی قسم! میں اس کے سوا کچھ نہیں جانتا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الحدود، باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر، 6: 2489، رقم: 6398

  2. بزار، المسند، 1: 393، رقم: 269

  3. ابویعلی، المسند، 1: 161، رقم: 176

اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت تمام انواع و اقسام کی محبت سے بلند ہے جس کی خبر حضور رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا فرمانِ مبارک سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ شرابی شخص ہے، اس کا عمل گھٹیا ترین ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہیچ ترین عمل کو اپنی اور اپنے رب کی محبت دل میں رکھنے کی بناء پر نظر انداز فرما دیا۔ کسی نے خوب کہا ہے:

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اَوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

(ب) محبتِ الٰہی اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصلِ اعمال ہیں

قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ سے ہم بیان کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت تمام اعمال کی بنیاد ہے، اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے حتی کہ شیخ ابنِ تیمیہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ وہ اپنی تصنیف ’’قاعدۃ فی المحبۃ (1: 49)‘‘ ميں الحب أصل کل عمل والتصديق بالمحبة هو أصل الإيمان (محبت دراصل ہر عمل کی اصل ہے اور محبت کے ساتھ تصدیق ہی اصلِ ایمان ہے) کے تحت لکھتے ہیں:

إذا کان الحب أصل کل عمل من حق وباطل، وهو أصل الأعمال الدينية وغيرها، وأصل الأعمال الدينية حب اللہ ورسوله کما أن أصل الأقوال الدينية تصديق اللہ ورسوله.

’’یہ طے شدہ امر ہے کہ ہر عمل خواہ حق ہو یا باطل اس کی اصل محبت ہے اور یہی محبت اعمالِ دینیہ وغیرہا کی بھی اصل ہے، اعمالِ دینیہ کی اصل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہے جس طرح کہ اقوالِ دینیہ کی اصل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق ہے۔‘‘

درج بالا تمام بحث سے ثابت ہوا کہ واجباتِ محبت میں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اوّلیت حاصل ہے۔ باقی تمام محبتیں اور چاہتیں ان دونوں محبتوں کے تابع ہیں۔

(3) محبتِ اہلِ بیت اَطہار و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین

اہلِ بیتِ اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرنا بھی واجباتِ دین میں سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا تقاضا ہے کہ اُن سے وابستہ اُن کے اطاعت شعاروں، وفا شعاروں اور محبوں سے بھی محبت کی جائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی کئی احادیثِ مبارکہ میں اہلِ بیتِ اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کی ترغیب اور حکم دیا ہے۔

1۔ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنھما سے مروی ہے:

قُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ، إِنَّ قُرَيْشًا إِذَا لَقِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا لَقُوْهُمْ بِبَشْرٍ حَسَنٍ، وَإِذَا لَقُوْنَا لَقُوْنَا بِوُجُوهٍ لَا نَعْرِفُهَا. قَالَ: فَغَضِبَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم غَضَبًا شَدِيْداً، وَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّی يُحِبَّکُمْ ِﷲِ وَلِرَسُوْلِهِ وَلِقَرَابَتِي.

’’میں نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا:یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ایسے چہروں کے ساتھ ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے (یعنی مسکان سے عاری چہروں کے ساتھ)۔ حضرت عباس فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر شدید جلال میں آگئے، فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہِ قدرت میںمیری جان ہے! کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔‘‘

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 207، رقم: 1772، 1777، 17656، 17657، 17658

  2. حاکم، المستدرک، 3: 376، رقم: 5433، 2960

  3. نسائی، السنن الکبری، 5: 51، رقم: 8176

  4. بزار، المسند، 6: 131، رقم: 2175

  5. بیھقی، شعب الإیمان، 2: 188، رقم: 1501

2۔ حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّی أکُوْنَ أَحَبَّّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ وَأَهْلِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ، وَعِتْرَتِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ عِتْرَتِهِ، وَذَاتِي أَحَبََّ إِلَيْهِ مِنْ ذَاتِهِ.

’’کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جائوں اور میرے اہلِ بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔‘‘

  1. طبرانی، المعجم الکبیر، 7:75، رقم: 6416

  2. طبرانی، المعجم الأوسط، 6:59، رقم: 5790

  3. بیہقی، شعب الإیمان، 2:189، رقم: 1505

3۔ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کے بارے میں فرمایا:

اللہ اللہ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَی اللهَ، وَمَنْ آذَی اللهَ فَيُوْشِکُ أنْ يَأْخُذَهُ.

’’میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو! اللہ سے ڈرو! میرے بعد انہیں تنقید کا نشانہ مت بنانا، پس جس نے اُن سے محبت کی اس نے میری و جہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا، جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب اللہ تعالیٰ اُسے پکڑے گا۔‘‘

  1. ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب فیمن سبّ أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 5: 696، رقم: 3862

(4) محبتِ اَولیاء و صالحین

اَحادیثِ مبارکہ سے امتِ مسلمہ کو اولیاء اللہ، صالحین اور مقربین سے محبت کرنے کا بھی درس ملتا ہے۔ اللہ ل خود اپنے اولیاء اور صالحین سے محبت کا اعلان کرتا ہے اور حضرت جبرائیل رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ہر ایک کو ان سے محبت کا حکم بھی دیتا ہے۔

1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا أَحَبَّ اللهُ العَبْدَ نَادَی جِبْرِيْلَ: إِنَّ اللهَ يُحِبُّ فُلاناً، فَأَحْبِبْهُ، فَيُحِبُّهُ جِبْرِيْلُ، فَيُنَادِي جِبْرِيْلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ: إِنَّ اللهَ يُحِبُّ فُـلَاناً، فَأَحِبُّوْهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوْضَعُ لَهُ القَبُوْلُ فِي الْأَرْضِ.

’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیلں کو آواز دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ پس حضرت جبرئیلں اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام آسمانی مخلوق میں ندا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ پس آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر زمین والوں (کے دلوں) میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، 3:1175، رقم: 3037 (امام بخاری نے اس حدیث کو کتاب الأدب، رقم: 5693 اور کتاب التوحید، رقم: 7047 میں بھی بیان کیا ہے۔)

  2. مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب إذا أحب اللہ عبدًا حَبَّبَہ إلی عبادہ، 4:2030، رقم: 2637

2۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ: يَارَسُولَ اللهِ، کَيْفَ تَقُولُ فِي رَجُلٍ أَحَبَّ قَوْمًا وَلَمْ يَلْحَقْ بِهِمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ.

’’ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! اس شخص کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو کسی قوم سے محبت رکھتا ہے لیکن (ان جیسے اعمال کر کے) ان سے ملا نہیں ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (روزِ قیامت) آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ (دنیا میں) محبت کرتا ہو گا۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب عَلَامَۃ الْحُبِّ فِي اللهِ ل، 5: 2283، رقم: 5817، 5818

  2. مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب المرء مع من أحب، 4: 2034، رقم: 2640

  3. ترمذی نے ’’الجامع الصحیح (کتاب الزہد، باب ما جاء أن المرءَ مَعَ مَن أَحبَّ، 4: 596، رقم: 2387)‘‘ میں اِسے صحیح کہا ہے۔

  4. نسائی، السنن الکبری، 6: 344، رقم: 1178

  5. ابن حبان، الصحیح، 2: 316، رقم: 557

ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اہلِ بیتِ اطہار، صحابہ کرام اور اولیاء و صالحین رضی اللہ عنہم سے محبت کرنا بھی دین کا لازمی جزء ہے۔ ان سے محبت نہ کرنے کی صورت میں بھی ایمان کی کاملیت نصیب نہیں ہوتی، چاہے کوئی شخص کثرت سے دیگر اعمالِ صالحہ مثلاً نماز، روزے، حج، زکوٰۃ، تسبیحات اور جہاد کرتا پھرے۔

2۔ محبتِ محمودہ

محبت کی دوسری قسم محمودہ ہے۔ یہ ایسی محبت ہے جس کے قابلِ تعریف ہونے پر شریعت سے دلائل میسر ہیں یا انسان کی طبیعت فطرتاً ان کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس کی درج ذیل قسمیں بنتی ہیں:

(1) طبعی محبت

بعض اوقات انسان کی طبیعت میں کسی چیز کی رغبت و محبت پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً بھوکے کو کھانے کی محبت، پیاسے کے لئے پانی کی محبت، سخت گرمی میں بے سایہ کو سایہ کی محبت، تنگ و تاریک راہوں سے گزرتے پیدل مسافر کی سواری سے محبت وغیرہ اسی کی مثالیں ہیں۔ اس میں تعظیم کا عنصر شامل نہیں ہوتا بلکہ انسانی طبیعت خود بخود ان کی طرف مائل ہوتی ہے۔ یہ محبت مباح ہے۔

(2) رحیمانہ اور تعظیمانہ محبت

بعض محبتیں رحمت، شفقت اور تعظیم پر مبنی ہوتی ہیں۔ مثلاً والدین کی اولاد سے، شیخ کی مرید سے اور استاد کی شاگرد سے محبت اسی طرح اولاد کی والدین سے، مرید کی شیخ سے اور شاگرد کی استاد سے محبت۔ قرآن و حدیث میں اس محبت پر نصوص ملتی ہیں۔

(3) اُلفت اور اُنس بھری محبت

عام معاشرے میں انسانوں کے مابین باہم کئی ایسے تعلقات ہوتے ہیں جو الفت اور اُنس و پیار سے لبریز ہوتے ہیں۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی کاروبار، صنعت، تجارت، زراعت اور علم سے وابستہ افراد کی باہم محبت، مسافروں کی آپس میں محبت، بہن بھائیوں کی آپس میں محبت، اعزہ و اقارب کے درمیان محبت و الفت، میاں بیوی کے درمیان رشتہِ محبت اسی کی مثالیں ہیں۔ الفت و محبت کی یہ تمام اقسام قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ اس کا مقصدِ وحید یہ ہے کہ مخلوق کے درمیان غم و غصہ، بغض و عناد اور تعصب و عداوت کی فضا قائم ہونے کی بجائے باہم محبت کا ماحول پروان چڑھے تاکہ انہیں خالقِ کائنات کی رحمت اور برکت حاصل ہو۔

(4) اَفعالِ صالحہ سے محبت

افعالِ صالحہ اور نیکی پر مبنی اعمال سے محبت کرنا بھی قابلِ تعریف اور لائقِ ستائش محبتوں میں شامل ہے۔ ہر وہ عمل، عمل ِصالح ہوتا ہے جو اللہ ل اور اس کے حبیب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور قربت کا باعث بنے جبکہ اس کے برعکس ہر وہ عمل، عمل سیئہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی اور غضب کا باعث بنے۔ چنانچہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، حسنِ خلق سے پیش آنا، عدل و انصاف کرنا، سچ بولنا، امانت داری کا مظاہرہ کرنا، تقویٰ و طہارت پر کاربند رہنا وغیرہ تمام کے تمام اعمالِ صالحہ کی مختلف صورتیں ہیں جو رضائے الٰہی اور رضائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس لئے تمام اعمالِ صالحہ سے محبت کرنی چاہئے اور محبت سے ادا کرنا چاہیئے۔

3۔ محبتِ محرّمہ

جس طرح بنیادی طور پر محبت کی دو اقسام مثبت پہلو پر مبنی ہیں۔ اسی طرح محبت کی دو اقسام منفی پہلو پر مبنی ہیں جن سے بچنا ضروری ہے۔ ان میں سے ایک محبتِ محرمہ ہے۔

پہلی صورت

محبتِ محرّمہ کی پہلی صورت شرک پر مبنی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی ذات یا شئے کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہوئے اس سے اللہ تعالیٰ جیسی محبت کی جائے۔ یہ اللہ کے ساتھ شرک فی الحب ہے۔ کسی سے اس عقیدہ کے ساتھ محبت کرنا سراسر حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں کفار کے اس طرزِ عمل کو یوں بیان فرمایا ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ

’’اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے غیروں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور ان سے ’’اللہ سے محبتــــ‘‘ جیسی محبت کرتے ہیں۔‘‘

(1) البقرۃ، 2: 165

مذاہب باطلہ کے ماننے والے گمراہ لوگ اپنے رہنماؤں اور بتوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے بعد محبت اور تعظیم کے اسی وہمِ باطل میں مبتلا ہیں۔

دوسری صورت

محبتِ محرمہ کی دوسری صورت یہ ہے کہ جن افعال اور اعمال سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ممانعت فرمائی ہے انسان ان اعمال کی محبت میں گرفتار ہو یا مسلمانوںمیں بے حیائی پھیلانے والے افعال سے محبت کرے۔ مثلاً بدکاری، شراب نوشی، چوری اور فحاشی و بے حیائی وغیرہ تو ایسی محبت کا شمار بھی محرّمہ میں ہوگا۔ اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں ایسے ہی برے لوگوں کے کردار کی یوں مذمت فرمائی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَo

’’بیشک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوںمیں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ (ایسے لوگوں کے عزائم کو) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘

(1) النور، 24: 19

4۔ محبتِ مذمومہ

وہ محبت جو انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر اور ان کی اطاعت و فرمان برداری سے غافل کر دے، مذمومہ ہے۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت

محبتِ مذمومہ کی پہلی صورت یہ ہے کہ والدین، اولاد، مال و دولت، منصب، عیش و عشرت، کاروبار و تجارت، رہائش گاہوں اور جائداد سے ایسی محبت کی جائے جو انسان کو اللہگ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر سے غافل کردے۔ گویا انسان دنیا اور مافیھا کی محبت میں اللہگ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھول جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایمان والوں کو جھنجوڑتے ہوئے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَo

’’اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کہیں) تمہیں اللہ کی یاد سے ہی غافل نہ کردیں، اور جو شخص ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘

(1) المنافقون، 63: 9

دوسری صورت

محبتِ مذمومہ کی دوسری صورت یہ ہے کہ انسان دنیا و ما فیھا کے رشتوں اور دیگر امور کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور اُن کے واجب کردہ اعمال اور افعال پر ترجیح دے اور ان افعالِ واجبہ سے بڑھ کر دیگر امور سے محبت کرے۔ قرآن میں اللہ رب العزت نے آٹھ (8) تعلقات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر ان کی محبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اس کی راہ میں جہاد اور جدوجہد کرنے سے بڑھ گئیں تو:

فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَo

’’پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘

(2) التوبۃ، 9: 24

لہٰذا ان دونوں راستوں میں سے صحیح راستہ یہی ہے کہ انسان دنیا و ما فیھا کے رشتوں اور دیگر امور کو اللہ ل اس کے رسول ِمعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، عباداتِ الٰہیہ اور اعمالِ صالحہ پر ترجیح نہ دے اور نہ ہی ان سے بڑھ کر محبوب جانے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایسے ہی صالح بندوں کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا ہے:

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُo

’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔‘‘

(1) النور، 24: 37

محبت اور عبادت میں فرق

گزشتہ صفحات پر تفصیلی بحث سے درج ذیل علمی اور اعتقادی نکات ثابت ہوئے:

  1. محبت کے مصداقات بہت ہیں، جیسے اللہ ل، انبیاء کرام، اہلِ بیت اَطہار، صحابہ کرام، اولیاء و صالحین ثاور والدین، اساتذہ، مشائخ، اولاد، بہن بھائی، میاں بیوی، اعزہ و اقارب، دوست احباب کی محبت. .. جبکہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے مخلوق میں سے کسی کے لئے بھی عبادت جائز نہیں۔
  2. خالق اور مخلوق کی محبت میں واضح فرق ہے۔ خالقِ کائنات ہونے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی محبت کسی کے تابع نہیں بلکہ ذات کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی محبت بھی تنہا اور واحد ہے. .. جبکہ مخلوق کی محبت اللہ رب العزت کی محبت کے تابع ہے، بذاتِ خود کوئی چیز نہیں۔
  3. اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے حبیب محترم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ایک ہی ہے۔ ان میں فرق اوردوئی ہرگزروا نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنا اللہ تعالیٰ کی محبت ہے...لہٰذا اگر کوئی شخص رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کرے تو یہ شرک ہے اور اگر محبت کرے تو یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔
  4. قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہے کہ اہلِ بیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام اور اولیاء و صالحین رضی اللہ عنہم سے محبت کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے اور محبتِ واجبات میں سے ہے...جبکہ ہر وہ محبت جو اللہ رب العزت کے کسی شریک کے ساتھ کی جائے یا کسی شریک کے ساتھ رب العالمین جیسی محبت کی جائے حرام ہے۔
  5. قابلِ احترام ذوات جن میں والدین، اولاد، رشتہ دار، دوست احباب، اساتذہ اور شیوخ شامل ہیں، سے محبت کرنا مسنون مستحب اور مباح کے درجہ میں ہے۔ اسی طرح اللہ رب العزت کی محبت اور قربت حاصل کرنے کے لئے اعمالِ صالحہ سے محبت بجا لانا اور ان میں استقامت کا مظاہرہ کرنا بھی مسنون اور جائز ہے...جبکہ

اگر دنیا و ما فیہا کی محبت کو ذاتِ باری تعالیٰ، ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا ان کے احکام پر ترجیح دی جائے تو ایسی محبت مردود اور مذموم ہے۔

آئندہ صفحات میں اِن شاء اللہ تعالٰی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجعمین کی تعظیم بالمحبت کو ان کے اَحوال کی روشنی میں بیان کیا جائے گا۔

فصل سوم: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعظیم بالمحبت کی مثالیں

توحید اور تعظیم بالمحبت عبادت اور شرک کا فرق واضح کرنے کے حوالے سے ایک انتہائی اہم موضوع ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حد تعظیم کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ انتہا درجے کی محبت کا اظہار سنتِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہے۔ اس کے باوجود اس عمل کو ہرگز عبادت کے درجے پر نہیں رکھا جا سکتا اور نہ یہ منافیِ توحید ہے۔

تعظیم و توقیرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور توحیدِ باری تعالیٰ

اس باب میں دو امور ایسے ہیں جن کا لحاظ ضروری ہے:

اوّل اس بات کا عقیدہ رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور افعال میں اپنی تمام مخلوق سے منفرد اور یکتا و یگانہ ہے۔ جو شخص ذات و صفات و افعالِ باری تعالیٰ میں سے کسی میں بھی باری تعالیٰ کے ساتھ اس جیسا مخلوق کی مشارکت کا عقیدہ رکھے گا جیسا کہ مشرکینِ مکہ بتوں کے ساتھ اُلوہیت کا اِعتقاد رکھتے اور انہیں مستحقِ عبادت سمجھتے تھے تو وہ بلا شبہ مشرک ہو جائے گا۔

دوم یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم واجب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ باقی تمام مخلوق سے اونچا ہے۔ جو شخص بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبہ کے بارے میں کچھ بھی تقصیر و کمی کرے گا وہ شخص گنہگار ہو گا یا پھر بعض صورتوں میں کافر ہو جائے گا۔ جو شخص تمام انواعِ تعظیم سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کرے اور صفاتِ ربوبیت میں سے کسی کے ساتھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متصف نہ کرے تو وہ شخص حق کو پانے والا ہے اور دونوں پہلوؤں (توحید و رسالت) کی حفاظت کرنے والا ہے۔ اس قول میں کوئی افراط و تفریط نہیں۔

یاد رکھیں کہ جب اہلِ ایمان کے کلام میں کسی چیز کی نسبت غیراللہ کی طرف پائی جائے تو اس کو مجازِ عقلی پر محمول کرنا واجب ہے اور مؤمنین پر کفر کا فتویٰ اور حکم لگانے کی کوئی و جہ نہیں کیوں کہ قرآن و سنت میں مجازِ عقلی مستعمل ہے جیسا کہ ہم ’’کتاب التوحید‘‘ کی جلد اوّل میں یہ امر تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں۔

ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کے عملی مظاہر

عہدِ نبوی کی پوری اسلامی تاریخ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کردار اور طرزِ عمل پر نگاہ دوڑایئے، اَدب و تعظیم اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو مثال انہوں نے علی التواتر ہر مقام اور ہر موقع پر قائم کی وہ قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ حدیبیہ کے مقام پر تقریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ کا اجتماع ہو یا فتحِ مکہ اور دیگر مواقع پر ان کا جمِ غفیر، سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ سے لے کر عام صحابی تک ہرکوئی ادب و توقیرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملی نمونہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی کسی سے اس امر میں پیچھے نہیں۔ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احترام میں ایک دوسرے سے بڑھ کر دیدہ و دل فرشِ راہ کئے سراپا ادب بنے رہے۔ اس عمل میں ان کا اِجماع قطعی تھا جس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاموش رضامندی نے اسے سنت کادرجہ دے دیا تھا۔ذیل میں اس طرح کی چند ایمان افروز مثالیں ملاحظہ کریں:

1۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر بے اِنتہا تعظیم کے مختلف مظاہر

1۔ 6ھ کو جب کفارِ مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا تو اس وقت مسلمانوں اور کافروں کے درمیان صلح نامہ طے پایا۔ اس موقع پر عروہ بن مسعود بارگاہِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کفار کا وکیل بن کر آیا۔ اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حد تعظیم کرتے ہوئے دیکھا۔ اس نے محبت و ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جو حیران کن مناظر دیکھے اور واپس جا کر اپنے ساتھیوں کے سامنے ان کی منظر کشی کی، ان تفصیلات کو حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان نے درج ذیل الفاظ میں روایت کیا ہے:

إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِعَيْنَيْهِ. قَالَ: فَوَ اللهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَ جِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ، وَ إِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَی وَضُوْئِهِ وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَ مَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَهُ. فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَی أَصْحَابِهِ فَقَالَ: أَيْ قَوْمِ، وَاللهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوْکِ، وَ وَفَدْتُ عَلَی قَيْصَرَ وَ کِسْرَی وَ النَّجَاشِيِّ، وَ اللهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِکًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مُحَمَّدًا. وَاللهِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ، وَ إِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَی وَضُوْئِهِ وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَهُ.

’’عروہ بن مسعود صحابہ کرام کو غور سے دیکھتا رہا۔ راوی کہتے ہیں: اللہ رب العزت کی قسم! جب بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب مبارک پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں کسی بات کا حکم دیتے تو وہ اس حکم کی فوراً تعمیل میں لگ جاتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو فرماتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو کرتے تو صحابہ ہمہ تن گوش ہو کر اپنی آوازوں کو پست کر لیتے تھے اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا: اے قوم! خدا کی قسم! میں (بڑے بڑے) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کے درباری اس کی اس طرح دل سے تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! جب وہ اپنا لعاب پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا، جب وہ انہیں کسی بات کا حکم دیتے تو وہ فوراً اس کی تعمیل میں لگ جاتے، جب وہ وضو فرماتے تو وہ ان کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے، جب وہ گفتگو کرتے تو صحابہ ہمہ تن گوش ہو کر اپنی آوازوں کو پست کر لیتے اور انتہائی تعظیم کے باعث وہ ان کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجھاد والمصالحۃ مع أھل الحرب وکتابۃ الشروط، 2: 974، رقم: 2581

  2. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 329

عروہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بے پناہ اورغیر مشروط محبت کے مظاہر دیکھ کر کہا:

وَلَقَدْ رَأَيْتُ قَوْمًا لَا يُسَلِّمُوْنَهُ لِشَيْئٍ أَبَدًا.

’’میں نے ایسی قوم کو دیکھا ہے جو کبھی بھی انہیں تمہارے سپرد نہ کرے گی۔‘‘

(1) أحمد بن حنبل، المسند، 4: 324

2۔ دورانِ نماز اِنتہاء درجہ کی محبت و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حد درجہ تعظیم بجا لاتے تھے اس پر وہ واقعہ شاہد ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علالت کے آخری ایام میں صحابہ کے ساتھ اُس وقت پیش آیا جب وہ حالتِ نماز میں تھے۔ علالت کے ان ایام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ باجماعت نماز کی امامت کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ تمام صحابہ صف بستہ نماز میں مشغول تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرہ مبارک کا پردہ اٹھا کر مسجد میں تشریف لے آئے۔ حضرت انس بن مالکص اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں:

أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ يُصَلِّي لَهُمْ فِي وَجَعِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم الَّذِي تُوُفِّيَ فِيْهِ، حَتَّی إِذَا کَانَ يَوْمُ الْإِثْنَيْنِ وَهُمْ صُفُوفٌ فِي الصَّلَاةِ، فَکَشَفَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم سِتْرَ الْحُجْرَةِ، يَنْظُرُ إِلَيْنَا وَهُوَ قَائِمٌ، کَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍِ، ثُمَّ تَبَسَّمَ يَضْحَکُ فَهَمَمْنَا أَنْ نَفْتَتِنَ مِنَ الْفَرَحِ بِرُؤْيَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَنَکَصَ أَبُوبَکْرٍ عَلَی عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ الصَّفَّ، وَ ظَنَّ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم خَارِجٌ إِلَی الصَّلَاةِ، فَأَشَارَ إِلَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنْ أَتِمُّوا صَلَاتَکُمْ. وَ أَرْخَی السِّتْرَ، فَتُوُفِّيَ مِنْ يَوْمِهِ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الموت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نمازپڑھاتے تھے، چنانچہ پیر کے روز لوگ صفیں بنائے نماز ادا کر رہے تھے کہ اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھایا اور کھڑے کھڑے ہم کو دیکھنے لگے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہِ انور قرآن کے اوراق کی طرح روشن معلوم ہوتا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جماعت کو دیکھ کر) مسکرانے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار پُرانوار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم نماز توڑ دیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں تشریف لا رہے ہیں، اس لئے انہوں نے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ کر مقتدیوں میں مل جانا چاہا، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ تم لوگ نماز پوری کرو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ گرا دیا اور اسی روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الأذان، باب أَهْل الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ، 1: 240، رقم: 648۔ (اس روایت کو امام بخاری نے کتاب الأذان، رقم: 721، کتاب التھجد، رقم: 1147 اور کتاب المغازی، رقم: 4183 میں بھی بیان کیا ہے۔)

  2. مسلم، الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب استخلاف الإمام إذا عرض لہ عذر من مرض وسفر وغیرھما من یصلی بالناس، 1: 316، رقم: 419

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں چار بار اس حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنے حد درجہ ادب و احترام پر مبنی عقیدہ کا اظہار کیا ہے، اور امام مسلم نے بھی حضور علیہ السلام سے اسی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔

حدیثِ مبارکہ سے تین حُبی اور اِعتقادی اِستدلال

مذکورہ حدیثِ مبارکہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے محبت بھرے جذبات کے باعث درج ذیل علمی نوعیت کے تین اہم حبّی اور اعتقادی استدلال ثابت ہوتے ہیں:

1۔ حدیث کے کلمات وَهُمْ صُفُوفٌ فِي الصَّلَاةِ (وہ صفوں میں بحالتِ نماز کھڑے تھے) قابلِ غور ہیں۔ اگر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے وَہُمْ صُفُوفٌ لِلصَّلَاۃِ فرمایا ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ وہ نماز کے لئے کھڑے ہونے کی تیاری میں تھے یا ابھی انہوں نے نماز شروع نہیں کی تھی، لیکن روایت کے الفاظ صاف کہہ رہے ہیں کہ وہ نماز میں مشغول تھے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرہ کے دروازے سے باہر آئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہے تھے۔ اس لئے انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک کو ’’قرآن کے اوراق کی طرح چمکتا ہوا دیکھا‘‘، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخِ مبارک پر ایک دل نواز تبسم تھا۔ اس کیفیت میں ہم اتنے محو ہوگئے کہ ہم اپنی نمازیں توڑ بیٹھتے۔ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مسرت و انبساط کا یہ عالم تھا کہ انہیں اپنی نمازیں بھول گئیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت میں اس قدر کھوگئے کہ قریب تھا حالتِ نماز سے باہر آجاتے۔

2۔ یہ تو مقتدیوں کا حال تھا جن کے امام حضرت ابوبکرص تھے ان کا حال یہ تھا کہ جب انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو یہ سوچ کر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں شریک ہونے کے لئے تشریف لے آئے ہیں مصلیٰ امامت چھوڑ دیا اور پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہونے لگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شوق و اضطراب کا یہ منظر ملاحظہ فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر صدیقِ اکبرص پر پڑی جو پیچھے پہلی صف میں آ رہے تھے تو اشارے سے انہیں نماز مکمل کرنے کا حکم دیا اور پردہ گرا کر حجرہِ مبارک میں واپس تشریف لے گئے۔

2۔ تیسرا استدلال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نماز مکمل کرنے کا اشارہ ہے کہ: أَتِمُّوا صَلَا تَکُمْ (اپنی نماز مکمل کرو)۔ اگر صحابہص نے اپنی نماز شروع نہ کی ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکمیلِ صلاۃ کا اشارہ دینے کی ضرورت نہ تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں نماز شروع کرنے کا حکم دیتے۔ اس سے پتہ چلا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہلے ہی حالتِ نماز میں تھے بلکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ دوسری رکعت میں ہوں گے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پردہ اٹھا کر مسجدِ نبوی میں داخل ہوئے اور اپنے ساتھ اُن کا اتنا گہرا قلبی اور حبّی منظر دیکھ کر انہیں اپنی نماز مکمل کرنے کی تلقین فرمائی۔

صحابہ رضی اللہ عنہم نے تعظیمِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عبادتِ الٰہی سے توجہ ہٹا لی

یہ بات ذہن میں رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک کے جس دروازے پر کھڑے اپنے غلاموں کو دیکھ رہے تھے وہ قبلہ سے انتہائی مشرق کی جانب ہے، اور بحالتِ نماز ان کا رخ کعبہ کی طرف تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس حال میں انہوں نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبسم چہرے کو جو کھلے ہوئے قرآن کی مانندتھا کیسے دیکھ لیا؟ یہ عمل سوائے نماز سے توجہ ہٹانے اور اپنا رُخ کعبہ سے حجرے کی طرف موڑنے کے ممکن نہ تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دورانِ نماز بھی ان کا دھیان اور گیان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہی ہوتا تھا اس لئے وہ اِس زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اتنے محو ہوئے کہ قریب تھا ان کی نمازیں ٹوٹ جاتیں۔

اِس واقعہ سے یہ سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی یہ عمل کیا محض ادب و احترام تھا یا ادب و احترام کا آخری نقطہ اور آخری حد؟ ظاہر ہے کہ اسے محض احترام یا ادب نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ اس سے بہت آگے کا عمل ہے۔ تاہم یہ بات مسلمہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بدرجہِ اتم عمل نہ صرف جائز ہے بلکہ یہ صحابہص کی سنت بن گیا اور خود سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت بھی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر گرفت نہ کی اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس سے منع نہ فرمایا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رضامندی کا اظہار فرمایا اور انہیں اپنی نمازیں توڑنے سے روکتے ہوئے نماز مکمل کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اس سے یہ نکتہ مترشح ہوتا ہے کہ دورانِ نماز تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہ نماز ٹوٹتی ہے اور نہ ہی عبادت میں کوئی خلل واقع ہوتا ہے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت ہوا، یہ وہ حضرات تھے جن کی عبادت میں یکسوئی مثالی تھی۔

3۔ تعظیمِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کعبہ سے توجہ ہٹانا ناقضِ صلوٰۃ نہیں

ایک اور محبت و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معمور واقعہ کو حضرت سہل بن سعدص نے روایت کیا ہے، وہ بیان کرتے ہیں:

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَهَبَ إِلَی بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، فَحَانَتِ الصَّلَاةُ، فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَی أَبِي بَکْرٍ، فَقَالَ: أَتُصَلِّي لِلنَّاسِ فَأُقِيمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَصَلَّی أَبُوبَکْرٍ، فَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَالنَّاسُ فِي الصَّلَاةِ، فَتَخَلَّصَ حَتَّی وَقَفَ فِي الصَّفِّ فَصَفَّقَ النَّاسُ، وَکَانَ أَبُوبَکْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي صَلَا تِهِ، فَلَمَّا أَکْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ، الْتَفَتَ، فَرَأَی رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنِ امْکُثْ مَکَانَکَ. فَرَفَعَ أَبُوبَکْرٍص يَدَيْهِ، فَحَمِدَ اللهَ عَلَی مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ ذٰلِکَ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُوبَکْرٍ حَتَّی اسْتَوَی فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَصَلَّی، فَلَمَّا انْصَرَفَ. قَالَ: يَا أَبَا بَکْرٍ! مَا مَنَعَکَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُکَ؟ فَقَالَ أَبُوبَکْرٍ: مَا کَانَ لِاِبْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَا لِي رَأَيْتُکُمْ أَکْثَرْتُمُ التَّصْفِيقَ، مَنْ رَابَهُ شَيئٌٌ فِي صَلَا تِهِ فَلْيُسَبِّحْ، فَإِنَّهُ إِذَا سَبَّحَ الْتُفِتَ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ.

’’ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے تو اس دوران نماز کا وقت ہو گیا۔ مؤذن نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے تاکہ میں اقامت کہوں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں! چنانچہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھانا شروع کر دی۔ دورانِ نماز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے صف اوّل میں جاکر کھڑے ہو گئے۔ (حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو متوجہ کرنے کے لیے ) لوگوں نے تالیاں بجائیں، حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نماز میں کسی اور جانب متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ جب لوگوں نے زیادہ تالیاں بجائیں تو انہوں نے پیچھے مڑ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا (اور پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا)، پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی جگہ پر قائم رہنے کا اشارہ فرمایا۔ سو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں امامت کا حکم دیا ہے، پھر پیچھے ہٹ کر صفِ اوّل کے برابر آگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے بڑھ کر امامت کرائی۔ نماز سے فراغت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: ابوبکر! جب میں نے حکم دیا تھا تو تم مصلیٰ پر کیوں نہیں ٹھہرے رہے؟ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے امامت کرے۔ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: کیا وجہ ہے کہ میں نے تمہیں تالیاں بجاتے دیکھا؟ اگر کسی کو نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو (بلند آواز سے) سبحان اللہ کہے، چنانچہ جب وہ سبحان اللہ کہے تو دوسرے کو اس کی طرف دھیان دینا چاہیے، اور نماز میں تالیاں بجانا (یعنی ہاتھ پر ہاتھ مارنا) صرف عورتوں کے لئے مخصوص ہے۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الأذان، باب من دَخَلَ لِيَؤُمَّ النَّاسَ فجاء الإمام الأول فَتَأَخَّرَ الْأَوّلُ أو لَمْ يَتَأَخَّرْ جازت صلاتہ، 1: 242، رقم: 652 (اس روایت کو امام بخاری نے رقم: 1143، 1146، 1160، 1177، 2544، 2547 اور 6767 کے تحت بھی بیان کیا ہے۔)

  2. مسلم، الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب تقدیم الجماعۃ من یصلی بھم إذا تأخر الإمام، 1: 316، رقم: 421

  3. أبوداود، السنن، کتاب الصلاۃ، باب التصفیق فی الصلاۃ، 1: 247، رقم: 940

حدیثِ مبارکہ سے یہ نکتہ مستنبط ہوتا ہے کہ دورانِ نماز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہونا ناقصِ صلوٰۃ نہیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہوئی تو لوگ نماز میں مشغول تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازیوں کی صفوں میں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچ گئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جگہ چھوڑ دی اور تالیاں بجانے لگے۔ حضرت ابوبکر صدیقص حالتِ نماز میں اس قدر مستغرق و منہمک تھے کہ انہوں نے اپنے دائیں بائیں نہ دیکھا اور بدستور نماز میں محو رہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی بکثرت تالیوں کے باعث وہ سمجھ گئے کہ یقینا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریکِ نماز ہونے کے لئے تشریف لے آئے ہیں پھر حضرت ابوبکر صدیقص نے نماز کی امامت کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ لیا۔

حدیث کے الفاظ ’’فَرَأَی رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ‘‘ سے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر امام مصلیٰ پر تھا تو اس نے امامت کراتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی صف میں قیام فرما کیسے دیکھ لیا؟ حدیث کے الفاظ ہیں کہ الْتَفَتَ یعنی مصلیٰ اِمامت سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا رخ موڑ لیا۔ حضرت ابوبکر صدیقص کے اس عمل پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ فرمایا کہ تم نے یہ کیا کر دیا؟ تمہاری تو نماز ہی ٹوٹ گئی ہے۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ کعبہ سامنے تھا اور صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ پچھلی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس کی توجیہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ بشمول صدیقِ اکبرتمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا عقیدہ تھا کہ کعبہ ایک طرف ہے تو کعبے کا کعبہ دوسری طرف ہے، جن کی طرف متوجہ ہونے سے نماز ٹوٹتی نہیں بلکہ اس کی تکمیل ہوتی ہے۔ بقول ریاض الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ

جس طرف وہ نظر نہیں آتے
ہم وہ رستہ ہی چھوڑ دیتے ہیں

کعبہ بنتا ہے اُس طرف ہی ریاض
رُخ جدھر کو وہ موڑ دیتے ہیں

ایمان اَفروز نکتہ

فقہ کی رو سے اگر کوئی کسی کو دورانِ نماز اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ کہے اور نمازی جواب میں وَعَلَيْکُمُ السَّلَامُ کہے تو نماز ٹوٹ جائے گی یعنی سلام کہنا اور اس کا جواب دینا دونوں ناقضِ نماز ہیں۔ لیکن جب ہم دورانِ تشہد التحیات کے لئے بیٹھتے ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرکے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَيُھَا النَّبِیُّ (اے نبی محترم! آپ پر سلام ہو) کہتے ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ نماز نہیں ٹوٹتی بلکہ ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر یہ نہ کہیں تو نماز نہیں ہوتی جبکہ کسی اور کو حالتِ نماز میں سلام کہنا نماز کو توڑ دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ آپ دورانِ نمازاپنے نبی پر سلام بھیجیں اور اس حکم کی تعمیل سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔ اگر دورانِ نماز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجنے سے نماز نہیں ٹوٹتی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حالتِ نماز میں سمتِ کعبہ سے منہ پھیر کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب متوجہ ہونے سے نماز ٹوٹ جائے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جانتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہونے سے نماز ٹوٹتی نہیں، بلکہ کامل ہوتی ہے۔

لہٰذا صدیقِ اکبرص اللہ کا شکر بجا لاتے ہوئے پہلی صف میں آگئے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مصلیٰ پر آکر نماز مکمل کرائی۔ یہ نکتہ اہم ہے کہ نماز کا نہ تو اعادہ کیا گیا اور نہ اس کو از سرِ نو شروع کیا گیا ہر چیز جوں کی توں رہی اور نماز کو بدستور جاری رکھا گیا۔

یہاں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقہی حوالے سے امت کو یہ تعلیم بھی دے دی کہ اگر آئندہ ایسی کوئی صورتحال پیش ہو تو نمازیوں کو تالیاں بجانے کی بجائے سبحان اللہ کہنا چاہئے اور اگر عورتوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہو تو وہ تالیاں بجا کر امام کو متوجہ کریں۔

4۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جان سے عزیز جاننا تکمیلِ ایمان کی سند

حضرت عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيئٍ إِلاَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: لَا، وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الآنَ، وَاللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: الآنَ يَا عُمَرُ.

’’ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان ہے! جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جائوں (تم اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتے)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ رب العزت کی قسم! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمر! اب (تمہارا ایمان کامل ہوا) ہے۔‘‘

(1) بخاری، الصحیح، کتاب الأيْمَانِ وَ النُّذُوْرِ، باب کَیْفَ کَانَتْ يَمِیْنُ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 6: 2445، رقم: 6257

5۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر طوافِ کعبہ بھی گوارا نہیں

حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے طویل واقعہ مروی ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو کفارکی طرف سفیربنا کر روانہ کیا گیا، اور کفار نے مذاکرات کے بعد انہیں طوافِ کعبہ کی دعوت دی تو آپ صنے فوراً انکار کرتے ہوئے کہا:

مَا کُنْتُ لأَطُوْفَ بِهِ حَتَّی يَطُوْفَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’اللہ کی قسم! میں اس وقت تک کعبہ کا طواف نہیں کروں گا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا طواف نہیں کر لیتے۔‘‘

(1) بیھقی، السنن الکبری، 9: 221

یہی مشہور واقعہ بیعتِ رضوان کا سبب بنا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے اصلِ ایمان اور روحِ دین سے آگاہ تھے اس لئے فرمایا کہ طوافِ کعبہ وہی مقبول اور عبادت کے زمرے میں آئے گا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و محبت بھی شامل ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اس محبت کا ثمر اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ اس بیعتِ رضوان کے واقعہ کو قرآن کا موضوع بنایا۔ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ فرمایا اسی طرح اللہ رب العزت نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا۔ ارشادِ ربانی ہے ’’يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيْهِمْ‘‘ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ تھا۔

6۔ اِطاعتِ علی رضی اللہ عنہ اور معجزہِ رَدّ شمس

حضرت اسماء بنتِ عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يُوحَی إِلَيْهِ وَ رَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ، فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّی غَرَبَتِ الشَّمْسُ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اَللَّهُمَّ إِنَّ عَلِيًّا کَانَ فِي طَاعَتِکَ وَطَاعَةِ رَسُولِکَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ. قَالَتْ أَسْمَائُ: فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ وَ رَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرِ اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی: اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا لہٰذا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اسماء فرماتی ہیں: میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے دیکھا تھا اور اسی کو دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔‘‘

  1. طبرانی، المعجم الکبیر، 24: 150، 151، رقم: 390

  2. ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، 6: 83

اس روایت میں ڈوبے ہوئے سورج کو واپس لانے کا معجزہ ذکر ہوا لیکن حقیقت میں یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِمتحان تھا۔ ایک طرف توحید و رسالت کے بعد ارکانِ اسلام اور اعمال میں سب سے افضل عمل نماز کو رکھا اور دوسری طرف محبت و غلامیِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھی تاکہ دیکھیں علی رضی اللہ عنہ کدھر جاتے ہیں۔ پھر وہی ہوا جس کی مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے توقع تھی۔ آپ کی نماز تو قضاء ہوگئی لیکن آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام میں خلل واقع نہ ہونے دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس عمل کو خدا کی اطاعت قرار دیا، حالانکہ حضرت علی خدمت تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کر رہے تھے، ان کی گود میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرِ انور تھا، پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی گردانا۔ دراصل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی امت کو یہ پیغام دینا مطلوب تھا کہ میری فرمانبرداری و محبت میں زندگی گزارنے کو معمولی ہر گز نہ سمجھنا یہ نماز جیسے عمل سے بھی برتر اور اعلیٰ ہے کیونکہ میری محبت و غلامی میں براہِ راست ذاتِ لا شریک کی محبت و بندگی پوشیدہ ہے۔

7۔ معیارِ نجات محض اَعمال نہیں

1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے ہیں:

أنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم: مَتَی السَّاعَةُ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ: مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ کَثِيْرِ صَلَاةٍ وَلَا صَوْمٍ وَلَا صَدَقَةٍ، وَلَکِنِّي أُحِبُّ اللهَ وَ رَسُوْلَهُ، قَالَ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ.

’’ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا: میں نے اس کیلئے زیادہ نمازیں، روزے، اور صدقہ وغیرہ (اعمال) کی تیاری تو نہیں کی لیکن میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم جس سے محبت رکھتے ہو اسی کے ساتھ ہو گے۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب علامَةِ حُباللهِ لقولِہِ: إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْکُمُ اللهُ، 5: 2285، رقم: 5819

  2. مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب المرء مع من أحبَّ 4: 2032۔2033، رقم: 2639

2۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے عمل نہیں کر سکتا (اس کا معاملہ کیسا ہوگا)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أَنْتَ يَا أَبَا ذَرٍّ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ: فَإِنِّي أُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ. قَالَ: فَإِنَّکَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. (قَالَ: فَأَعََادَهَا أبُوْ ذَرٍّ فَأَعََادَهَا رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ).

’’ابوذر! تو اس کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔ انہوں نے پھر عرض کیا: میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! تو یقینا اس کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔ (راوی کا بیان ہے کہ حضرت ابوذَر نے دوسری مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی کلمات دہرائے)۔‘‘

  1. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب إخبار الرجل الرجل بمحبتہ إیاہ، 4: 333، رقم: 5126

  2. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 156

  3. ابن حبان، الصحیح، 2: 315، رقم: 556

خلفائے راشدین اور اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال و واقعات پر مشتمل درج بالا احادیثِ مبارکہ سے صرف اور صرف ایک ہی درس ملتا ہے کہ حبیبِ خدا سے تن من دھن سے بڑھ کر محبت کرنا ہر امتی پر لازم ہے، اور یہی تکمیلِ ایمان کی شرط ہے۔ طوافِ کعبہ کرنے کو دل مچلتا ہو، نماز کی شکل میں رب سے کلام کرنے کو جی چاہ رہا ہو، والدین، اولاد اور دوست احباب سے محبت کا معاملہ ہو، کیسی بھی صورت ہو مؤمن کو فقط ایک ہی تربیت دی جا رہی ہے کہ ان اعمالِ صالحہ کے کرنے میں کوتاہی نہیں ہونی چاہئے لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی ایمان اور اسلام کی روح، جڑ اور اصل نہ سمجھنا، ان کی اصل ایک ہی ذات ہے اور وہ ہے محبوبِ رب العالمین، رحمۃ للعالمین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلقِ محبت۔ اگر نامہِ اعمال میں کثرتِ صلاۃ، صوم اور صدقہ نہ بھی ہوئے اور صرف اسی ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت ہوئی تو اعمال پر ناز کرنے والے سب ایک طرف رہ جائیں گے جبکہ اپنے دل کو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فروزاں رکھنے والا معیت و قربت پالے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب اَشیاء کی تعظیم

1۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِسمِ مبارک کی تعظیم

1۔ حضرت عبدالرحمن بن سعد فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ ان کاپائوں سُن ہو گیا۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ ابوعبدالرحمن آپ کے پاؤں کو کیا ہوگیا ہے؟ انہوں نے کہا: پٹھے اکڑا گئے ہیں۔ اس پر میں نے عرض کیا:

اُدع أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَانْبَسَطَتْ.

’’جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اُس کا نام لیجئے۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے حضورں کو بلند آواز سے پکارا: يَا مُحَمَّدُ! (صلی اللہ علیک وسلم!) دوسرے ہی لمحے ان کا پائوں ٹھیک ہو چکا تھا۔‘‘

  1. ابن جعد، المسند: 369، رقم: 2539

  2. بخاری، الأدب المفرد، 1: 335، رقم: 964

  3. قاضی عیاض، الشفائ، 2: 18

  4. ابن سعد، الطبقات الکبری، 4: 154

  5. نووی، الأذکار، 1: 700، رقم: 787

  6. ابن تیمیۃ، الکلم الطیب، 1: 173، رقم: 236

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے:

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجالا کر دے

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

آبروئے ما ز نامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم است
در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم است

2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے:

يُوْقَفُ عَبْدَانِ بَيْنَ يَدَيِ اللهِ ل، فَيَقُوْلُ اللهُ لَهُمَا: اُدْخُـلَا الْجَنَّةَ، فَإِنِّی آلَيْتُ عَلَی نَفْسِي أَنْ لَا يَدْخُلَ النَّارَ مَنِ اسْمُهُ مُحَمَّدٌ وَ لَا أَحْمَدُ.

’’(یومِ قیامت احمد اور محمد نامی ) دو آدمی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اُنہیں فرمائے گا: تم جنت میں داخل ہو جاؤ کیونکہ میں نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ وہ شخص دوزخ میں داخل نہیں ہو گا جس کا نام ’محمد‘ یا ’احمد‘ ہو۔‘‘

  1. حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، 1: 135

  2. مناوی نے ’فیض القدیر (5: 453)

میں کہا ہے کہ اِسے ابنِ سعد نے ’الطبقات الکبری‘ میں بیان کیا ہے۔

3۔ شعرانی نے ’کشف الغمۃ (1: 283)

میں کہا ہے کہ اسے محمد بن حنفیۃ نے روایت کیا ہے۔

3۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا سَمَّيْتُمْ مُحَمَّدًا فَـلَا تَضْرِبُوْهُ وَ لَا تُقَبِّحُوْهُ، وَأَکْرِمُوْهُ وَأَوْسِعُوا لَهُ فِي الْمَجْلِسِ.

’’جب تم کسی کا نام محمد رکھو تو نہ اس کو مارو اور نہ ہی اس کو برا سمجھو (بلکہ) اس کی عزت کرو اور مجلس میں اس کے لیے جگہ بناؤ۔‘‘

  1. شعرانی، کشف الغمۃ، 1: 283

  2. مناوی، فیض القدیر، 1: 385

  3. عجلونی، کشف الخفاء و مزیل الإلباس، 1: 94، رقم: 239

  4. حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، 1: 135

4۔ حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ وُلِدَ لَهُ مَوْلُوْدٌ فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا تَبَرُّکًا بِهِ، کَانَ هُوَ وَ مَوْلُوْدُهُ فِی الْجَنَّةِ.

’’جس نے میرے نام سے برکت حاصل کرنے کی نیت سے اپنے بچے کا نام محمد رکھا تو وہ اور اُس کا بیٹا دونوں جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘

  1. عجلونی نے ’’کشف الخفاء ومزیل الإلباس (2: 375، رقم: 644)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے ابن عساکر نے حضرت ابو امامہ باہلی سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ سیوطی نے کہا ہے کہ یہ اِس باب میں وارد ہونے والی بہترین حدیث ہے اور اِس کی اِسناد حسن ہے۔

  2. ابن قیم، المنار المنیف: 61

5۔ علامہ قزوینی نے ’’التدوین فی إخبار قزوین (2: 343)‘‘ میں حضرت ابواُسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ وُلِدَ لَهُ مَوْلُوْدٌ، فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا حُبًّا لِي وَتَبَرُّکًا بِاسْمِي هُوَ وَمَوْلُوْدٌ فِی الْجَنَّةِ.

’’جس نے میری محبت کے باعث اور میرے اسم سے برکت حاصل کرنے کی نیت سے اپنے پیدا ہونے والے بچے کا نام محمد رکھا تو وہ اور بچہ دونوں جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘

(1) 1۔ إسماعیل حقی، روح البیان، 7: 184

2۔ حلبی نے ’’السیرۃ الحلبیۃ (1: 135)‘‘ میں کہا ہے کہ حفاظِ حدیث نے اِس روایت کی صحت کا اِقرار کیا ہے۔

2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکرِ مبارک کی تعظیم

1۔ کتبِ احادیث و سیر میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت ہے:

مَا ذَکَرَ ابْنُ عُمَرَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلاَّ بَکَی، وَ لَا مَرَّ عَلَی رَبْعِهِمْ إِلَّا غَمَّضَ عَيْنَيْهِ.

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے رو پڑتے، اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان کے پاس سے گزرتے تو (فرطِ محبت و فراق کے باعث) آنکھیں بند کر لیتے۔‘‘

  1. بیہقی، المدخل إلی السنن الکبری، 1: 148، رقم: 113

  2. عسقلانی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 4: 187

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ عمل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اُن کی شدید محبت کی غمازی کرتا ہے، تب ہی تو وہ حضور علیہ السلام کا ذکر کرنے پر آنسو بہاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقامت گاہ کے اردگرد سے گزرنے پر فراقِ محبوب میں آنکھیں بند کر لیتے۔

2۔ حضرت ابو ہریرہص روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ صَلَّی عَلَيَّ فِي کِتَابٍ لَمْ تَزَلِ الْمَلَا ئِکَةُ تَسْتَغْفِرُ لَهُ مَا دَامَ اسْمِي فِي ذَلِکَ الْکِتَابِ.

’’جو شخص کسی کتاب میں (لکھ کر) مجھ پہ درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس کے لئے اس وقت تک بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک میرا نام اس کتاب میں موجود رہتا ہے۔‘‘

  1. طبرانی، المعجم الأوسط، 2: 232، رقم: 1835

  2. منذری، الترغیب والترہیب، 1: 62، رقم: 157

3۔ حضرت عجلان سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

مَنْ صَلَّی عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِائَةَ مَرَّةٍ، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَی وَجْهِهِ مِنَ النُّوْرِ نُوْرٌ. يَقُوْلُ النَّاسُ: أَيُّ شَيْئٍ کَانَ يَعْمَلُ هَذَا.

’’جو شخص جمعہ کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سو (100) مرتبہ درود بھیجتا ہے وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے چہرے پر بہت زیادہ نور ہوگا۔ (اس کے چہرے کے نور کو دیکھ کر حیرت سے) لوگ کہیں گے: یہ شخص دنیا میں کونسا عمل کرتا تھا (جس کی بدولت آج اس کو یہ نور میسر آیا ہے)۔‘‘

(2) بیہقی، شعب الإیمان، 3: 112، رقم: 3036

3۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ طیبہ اور حدیثِ مبارکہ کی تعظیم

1۔ قاضی عیاض ’’الشفائ‘‘ میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنے اونٹ کو لے کر ایک جگہ گھما رہے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا تو پوچھا: ’’ابنِ عمر کیا کر رہے ہو؟ اونٹ کو بغیر کسی وجہ کے چکر دیئے جا رہے ہو؟ انہوں نے فرمایا:

لَا أَدْرِي إِلاَّ أَنِيّ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَعَلَهُ فَفَعَلْتُهُ.

’’مجھے اور کچھ پتہ نہیں البتہ ایک روز میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقام پر ایسا کرتے دیکھا تھا، پس میں نے بھی ایسے کیا۔‘‘

(1) قاضی عیاض، الشفائ، 2: 558

یعنی میں سنتِ طیبہ کی اتباع میں ایسا کر رہا ہوں۔ میں تو اپنے محبوب کی اداؤں کو دہرا رہا ہوں مجھے کیا خبر کہ وجہ کیا ہے؟ ایمان والے وجہ کو نہیں جانتے انہیں تو فقط محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اداؤں سے غرض ہوتی ہے۔ یہی کمالِ عشق ہے جوایمان کی اساس ہے۔

2۔ ایک مرتبہ امیہ بن عبداللہ نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: ہم قرآن میں مقیمی اور حالتِ خوف کی نماز تو پاتے ہیں لیکن نمازِ سفر کے بارے میں ہم قرآن میں کچھ نہیں پاتے (کہ وہ کیسے پڑھی جائے)؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

يَا ابْنَ أَخِي، إِنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ بَعَثَ إِلَيْنَا مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم وَلَا نَعْلَمُ شَيْئًا، وَ إِنَّمَا نَفْعَلُ کَمَا رَأَيْنَا مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم يَفْعَلُ.

’’میرے بھتیجے! بے شک اللہ گ نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری طرف مبعوث فرمایا جبکہ ہم کچھ نہیں جانتے تھے، ہم تو اسی طرح کرتے ہیں جیسا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کرتا دیکھتے ہیں۔‘‘

  1. نسائی، السنن، کتاب تقصیر الصلاۃ فی السفر، باب: 1، 3: 117، رقم: 1434

  2. ابن ماجہ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب تقصیر الصلاۃ فی السفر، 1: 339، رقم: 1066

  3. مالک، الموطأ، 1: 145، رقم: 334

ان کے بتلانے کا مقصود یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارے پاس بھیجا جبکہ ہم کسی شئے کو نہیں جانتے تھے۔ نہ کوئی مسئلہ جانتے تھے، نہ شریعت کو جانتے تھے اور نہ احکام کو، نہ جزئیات کو، نہ فروعات کواور نہ ہی اصول کو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے پس جیسے وہ کرتے تھے ہم بھی اسی طرح آنکھ بند کر کے کر لیا کرتے تھے۔ پھر یہی شریعت بن گئی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے حدیث و سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کا ثبوت ملتا ہے۔

4۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کی تعظیم

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ الْحَلَّاقُ يَحلِقُهُ، وَ أَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَمَا يُرِيْدُوْنَ أَنْ تَقَعَ شَعْرَةٌ إِلَّا فِيْ يَدِ رَجُلٍ.

’’میں نے دیکھا کہ حجام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک مونڈ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد گھوم رہے تھے، وہ چاہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی بال بھی زمین پر گرنے کی بجائے ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔‘‘

  1. مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب قرب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من الناس وتبرکہم بہ، 4: 1812، رقم: 2325

  2. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 133، 137، رقم: 12386، 12423

  3. بیہقی، السنن الکبریٰ، 7: 68، رقم: 13189

5۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کی تعظیم

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسدِ اطہر سے ہمیشہ پاکیزہ خوشبو آتی تھی، صحابہ کرامث نے اس خوشبو کو مشک و عنبر اور پھول کی خوشبو سے بھی بڑھ کر پایا۔ صحابہ کرامث اپنے لئے، اپنے بچوں کے لئے اور شادی بیاہ کے موقع پر اپنی بیٹیوں کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کو حاصل کرتے۔ اس سے برکت کی امید رکھتے اور بڑے اہتمام کے ساتھ اس متاعِ عزیز کو سنبھال کر رکھتے۔

1۔ حضرت ثمامہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چمڑے کا ایک گدا بچھایا کرتیں جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونے سے بیدار ہوکر اٹھ کھڑے ہوتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ مبارک اور موئے مبارک کو ایک شیشی میں جمع کرتیں پھر ان کو خوشبو کے برتن میں ڈال دیتیں۔ حضرت ثمامہ فرماتے ہیں:

فَلَمَّا حَضَرَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ الْوَفَاةُ، أَوْصٰی إِلَيَّ أَنْ يُجْعَلَ فِيْ حَنُوْطِهِ مِنْ ذَالِکَ السُّکِ، قَالَ: فَجُعِلَ فِی حَنُوْطِهِ.

’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے وصیت فرمائی کہ ان کے حنوط(2)

(2) حنوط: وہ خوشبو جو کافور اور صندل ملا کر میت اور کفن کے لئے تیار کی جاتی ہے۔

میں اس خوشبو کو ملایا جائے۔ حضرت ثمامہص بیان کرتے ہیں کہ ان کے حنوط میں وہ خوشبو ملائی گئی۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الاستئذان، باب من زار قوماً فقال عنہم، 5: 2316، رقم: 5925

  2. شوکانی، نیل الأوطار، 1: 69

2۔ حضرت حمید سے روایت ہے:

تُوُفِّيَ أَنَسُ بْنُ مَاِلکٍ فَجُعِلَ فِي حَنُوطِهِ سُکَّةٌ أَوْ سُکٌّ وَ مَسَکَّةٌ فِيْهَا مِنْ عَرْقِ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو ان کے حنوط میں ایسی خوشبو ملائی گئی جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینے کی خوشبو تھی۔‘‘

(1) 1۔ طبرانی، المعجم الکبیر، 1: 249، رقم: 715

2۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد (3: 21)‘‘ میں کہا ہے کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

6۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلینِ مبارک کی تعظیم

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو نعلین استعمال فرمائے وہ بھی بڑے بابرکت ہو گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان نعلین مبارک کو تبرکاً محفوظ رکھا اور ان کے فیوض و برکات سے مستفید ہوتے رہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مبارک اور ایک پیالہ بھی محفوظ تھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی نوش فرماتے تھے۔ نعلین پاک کے حوالے سے حضرت عیسیٰ بن طہمان سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:

أَخْرَجَ إِلَيْنَا أَنَسٌ نَعْلَيْنِ جَرْدَاوَيْنِ، لَهُمَا قِبَالَانِ، فَحَدَّثَنِي ثَابِتٌ البُنَانِيُّ بَعْدُ عَنْ أَنَسٍ: أَنَّهُمَا نَعْلَا النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہمیں بغیر بال کے چمڑے کے دو نعلین مبارک نکال کر دکھائے جن کے دو تسمے تھے۔ بعد میں ثابت بُنانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے مجھ سے بیان کیا کہ یہ دونوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک نعلین ہیں۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب فرض الخمس، باب ما ذکر من درع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعصاہ وسیفہ، 3: 1131، رقم: 2940

  2. أیضاً، کتاب اللباس، باب قبالان فی نعل، 5: 2200، رقم: 5520

7۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر مبارک کی تعظیم

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس منبر شریف پر جلوہ افروز ہو کر صحابہ کرامث کو دین سکھاتے تھے، عشاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس منبر شریف کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے آثار کی طرح دل و جاں سے حصولِ برکت کا ذریعہ بنا لیا۔ وہ اسے جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے اوراس سے برکت حاصل کرتے۔

امام ابنِ حبان، ابنِ سعد اور قاضی عیاض جیسے معتبر ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر مبارک کو تبرکاً مسح کرکے اپنے چہرہ پر ہاتھ مَل لیتے۔ ابراہیم بن عبدالرحمن بن عبدالقاری بیان کرتے ہیں:

رأيت ابن عمر وضع يدَه علی مَقْعَدِ النبيِ صلی الله عليه وآله وسلم من المِنبَر، ثم وضعها علی وَجْهه.

’’میں نے حضرت ابنِ عمرص کو دیکھا کہ انہوں نے منبر (نبوی) کی وہ جگہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوتے، اسے اپنے ہاتھ سے مس کیا اور پھر اسے اپنے چہرہ پر مل لیا۔‘‘

  1. ابن حبان، الثقات، 4: 9، رقم: 1606

  2. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1: 254

  3. قاضی عیاض، الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ، 2: 620

8۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثارِ مبارک کی تعظیم

حضرت عبداللہ بن اُنَیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں گستاخِ رسول خالد بن سفیان بن الھذلی کا کام تمام کر کے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا چہرہ فلاح پائے۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے اس (خالد بن سفیان) کو قتل کردیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے سچ کہا۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنے ساتھ لئے اپنے کاشانہِ اقدس میں تشریف لے گئے اور مجھے ایک عصا عطا کرکے فرمایا: عبداللہ بن اُنیس! اسے اپنے پاس رکھنا، پس جب میں یہ عصاء لے کر لوگوں کے پاس آیا توانہوں نے کہا کہ یہ عصا (ڈنڈا) کیا ہے؟ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: یہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عنایت فرمایا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ اسے پاس رکھنا۔ لوگوں نے (مجھے) کہا: کیا تم اسے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس نہیں کروگے؟ اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرو۔ عبداللہ بن انیس کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ عصا مبارک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کس لیے عطا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

آيَةٌ بَيْنِی وَ بَيْنَکَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنَّ أَقَلَّ النَّاسِ الْمُتَخَصِّرُوْنَ يَوْمَئِذٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. فَقَرَنَهَا عَبْدُاللهِ بِسَيْفِهِ فَلَمْ تَزَلْ مَعَهُ حَتَّی إِذَا مَاتَ، أَمَرَ بِهَا فَصُبَّتْ مَعَهُ فِی کَفَنِهِ ثُمَّ دُفِنَا جَمِيْعًا.

’’قیامت کے روز یہ تیرے اور میرے درمیان ایک نشانی ہوگی، بے شک قیامت کے دن بہت کم لوگ ہاتھوں میں عصاء لئے ہوں گے۔ (راوی بیان کرتے ہیں کہ) حضرت عبداللہ بن اُنیس نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہتا یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا۔ انہوں نے عصا کے متعلق وصیت کی تھی کہ اس کو ان کے کفن میں رکھ دیا جائے، پس ان کے کفن میں اسے رکھ دیا گیا پھر دونوں کو دفن کر دیا گیا۔‘‘

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 496

  2. أبویعلی، المسند، 2: 202، رقم: 905

9۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس شہرِ اِقامت کی تعظیم

1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لِکُلِّ نَبِيٍّ حَرَمٌ، وَ حَرَمِي الْمَدِيْنَةُ.

’’ہر نبی کے لئے کوئی نہ کوئی حرم ہے، اور میرا حرم مدینہ ہے۔‘‘

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 318

  2. ابن جعد، المسند، 1: 492، رقم: 3427

2۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

إِنَّ إِبْرَاهِيْمَ حَرَّمَ مَکَّةَ وَإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِيْنَةَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا، لَا يُقْطَعُ عِضَاهُهَا وَ لَا يُصَادُ صَيْدُهَا.

’’بلا شبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ منورہ کی لَابَتَین (دونوں پتھریلی اطراف) کے درمیان والی جگہ کو حرم قرار دیتا ہوں، اس کے کسی درخت کو نہ کاٹا جائے اور نہ کسی جانور کا شکار کیا جائے۔‘‘

(2) 1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیھا بالبرکۃ، 2: 992، رقم: 1362

2۔ نسائی، السنن الکبریٰ، 2: 487، رقم: 4284

3۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ يَحْمِلُ فِيْهَا السِّلَاحَ لِقِتَالٍ.

’’کسی فردِ بشر کے لئے جائز نہیں کہ مدینہ میں لڑنے کے لئے ہتھیار اُٹھائے۔‘‘

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 347، 393

  2. أبوداود، السنن، کتاب المناسک، باب فی تحریم المدینۃ، 2: 216، رقم: 2035

اِن احادیثِ مبارکہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہرِ مدینہ کو کس طرح امن کا گہوارہ بنا دیا اور ایسا کیوں نہ ہوتا! اسی زمین سے افقِ عالم پر دائمی امن کے سورج کو طلوع ہونا اور احترامِ انسانیت کا درس ملنا تھا۔ اسی شہر سے انسان دوستی کی روایت کو منشورِ زندگی ٹھہرنا تھا اور اسی شہرِ بے مثال سے حقوقِ انسانی کی توثیق ہونا تھی۔

4۔ جو شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی پابندی نہیں کرتا، مثلاً حدودِ حرم میں درختوں کو کاٹتا، جانوروں کا شکار کرتا یا لڑائی جھگڑا کرتا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے، ایسے شخص کے لئے سخت وعید آئی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد گرامی ہے:

الْمَدِيْنَةُ حَرَمٌ مِنْ کَذَا إِلَی کَذَا، لَا يُقْطَعُ شَجَرُهَا، وَلَا يُحْدَثُ فِيْهَا حَدَثٌ، مَنْ أَحْدَثَ فِيْهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَـلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ.

’’مدینہ یہاں سے لے کر وہاں تک حرم ہے، نہ اس کے درختوں کو کاٹا جائے اور نہ اس میں ( خلافِ سنت ) کوئی نئی بات پیدا کی جائے، جو شخص اس میں کوئی نئی بات نکالے اس پر اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الحج، باب حرم المدینۃ، 2: 661، رقم: 1768

  2. مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ و دعاء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیھا بالبرکۃ، 2: 995، 999، رقم: 1370، 1371

10۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کی تعظیم

جب حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے خط پر حضرت عمرص نے مدینہ کے لوگوں کو شام کی طرف کوچ کرنے کے لیے کہا تو حضرت عمرص نے سب سے پہلے مسجد نبوی میں حاضر ہوکر چار رکعت نماز ادا کی، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہِ اقدس پر حاضری دی اور (بارگاہِ نبوت میں) سلام عرض کیا۔

(1) واقدی، فتوح الشام، 1: 306، 307

اس روایت سے معلوم ہوا کہ کسی نیک کام کے آغاز کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اور آپ کی اتباع میں اولیاء و صالحین کے مزارات پر حاضری دینا خلیفہِ راشد ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سنت ہے۔

نوٹ:

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حد درجہ تعظیم کے مزید مظاہر دیکھنے کے لئے کتاب ہذا کے ابواب ’توحید اور تبرک‘ اور ’توحید اور زیارت‘ مطالعہ فرمائیں۔

تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِستغراق فی التوحید کے منافی نہیں

خوارج کا یہ باطل نظریہ ہے کہ محبت و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ذات میں کامل استغراق اور اس کی معرفت کے حصول میں انہماک سے مانع ہے۔ امام محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے ہی نظریات کے حامل لوگوں کا محاکمہ کیا ہے، ایسے باطل نظریے کے حامل بعض زندقہ اور ملحد لوگوں نے اپنے آپ کو مستغرق فی التوحید قرار دیتے ہوئے یہ کہا:

الرُّسُلُ سِوَی اللهِ تَعَالَی وَ کُلُّ مَا سِوَاهُ سُبْحَانَهُ حِجَابٌ عَنْهُ جَلّ شَأْنُهُ. فَالرُّسُلُ حِجَابٌ عَنْهُ وَ کُلُّ مَا هُوَ حِجَابٌ لَا حَاجَةَ لِلْخَلْقِ إِلَيْهِ. فَالرُّسُلُ لَا حَاجَةَ لِلْخَلْقِ إِلَيْهِمْ. وَ هَذَا جَهْلٌ ظَاهِرٌ.

’’انبیائ، اللہ رب العزت کا غیر اور اس کا ما سوا ہیں اور ہر ما سوی اللہ سبحانہ کو اس سے حجاب ہے۔ اس لئے انبیاء اور رسل کو بھی اس سے حجاب ہیں، اور ہر وہ چیز جو اللہ جل شانہ سے حجاب میں ہو مخلوق کو اس کی حاجت و ضرورت نہیں۔ پس مخلوق کو انبیاء و رسل کی کوئی حاجت اور ضرورت نہیں ہے (معاذ اللہ)۔ (علامہ آلوسی فرماتے ہیں: ) ایسا کہنا کھلی جہالت ہے۔‘‘

(1) آلوسی، روح المعانی، 14: 94

انبیائے کرام علیہم السلام کے خلاف خوارج نے یہ عقیدہ استغراق فی التوحید کے نام پر پیش کیا، حالانکہ ایسا عقیدہ الحاد اور زندقہ ہے۔ اس لئے کہ انبیاء و رسلِ عظام، اللہ تعالیٰ تک براہِ راست رسائی اور اس کے وصال و وصول کا واحد ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔ صحیح معرفتِ ربانی کے لئے آئینہ حق نما ہیں۔ رسالت و نبوت کو حجاب سمجھنا اور معرفتِ الٰہی سے مانع قرار دے کر اسے شرک بنا ڈالنا پرلے درجے کی حماقت اور گمراہی ہے۔

قرآن و سنت کی بے شمار نصوصِ قطعیہ سے یہ امر ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے امر اور اذن سے انبیاء و رسلِ عظام علیہم السلام کی اطاعت اور ان کے احکام کی تعمیل فرض ہے۔ بالخصوص اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعلیٰ ترین اختیارات اور تصرفات کے ساتھ مبعوث فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کو اپنا حکم، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کو اپنا فیصلہ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عصیان کو اپنا عصیان، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مارنے کو اپنا مارنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و احترام کو اپنی عبادت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کو اپنی توحید اور تقوی کا لازمی تقاضا قرار دیا ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کو اپنی بارگاہ میں حاضری، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہجرت کو اپنی ہجرت قرار دیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی مغفرت و بخشش کے حتمی حصول کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کو ضروری اور لازمی قرار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کو اپنی عطا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منع کو اپنی منع ٹھہرایا۔ اللہ رب العالمین نے مالک و مولا ہو کر بھی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کے خود آداب سکھائے، اونچا بولنے سے منع کیا اور لاپرواہی سے پکارنے کو حرام ٹھہرایا۔ خلاف ورزی پر تمام اعمال برباد کر دینے اور ساری محنت و کمائی پر پانی پھیر دینے کی وعید سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ، اہلِ بیت اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہم کے مرتبہ و مقام کو ملحوظ رکھنے اور انہیں ایذا پہنچانے سے اجتناب و احتراز کا حکم دیا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چلنے کا ادب اور سلیقہ سکھلایا۔ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرانے کی کیفیتِ خطاب و نداء سے آگاہ فرمایا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلاوے کی اہمیت اور فوری حاضری کے وجوب کو بیان کیا اور تغافل و لاپرواہی کے امکانات کا سد باب کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں اسی نسبتِ مطہرہ کا حق ادا کر دیا۔ انہوں نے صرف ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اپنی بلند درجہ عقیدت و احترام کو محدود نہیں رکھا بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہر شئے حرزِ جاں بنائے رکھی اور حد درجہ تعظیم و تکریم کی۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لعابِ دہن، پسینہ مبارک، مستعمل پانی، موئے مبارک، نعلینِ مقدسہ، منبر مبارک، جائے عبادت، بلدِ مقدس، قبرِ انور، حدیثِ مبارکہ، ذکرِ مبارک، اور اسمِ مبارک سے بھی اپنی والہانہ محبت کا ثبوت دیا۔

قرآن و سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال پر مشتمل ان تعلیمات کا مقصد یہ ہے کہ قیامت تک آنے والے لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت اور بلندیِ مقام کو ذہن نشین کر لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کما حقہ مستفید ہوسکیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع اور معیت و محبت کو شرک اور منافیِ توحید نہ سمجھنے لگیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں واضح فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد انبیاء و رسل کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع کے بغیر چارہ نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

ثُمَّ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ.

’’پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور ان کی مدد کرو گے۔‘‘

(1) آل عمران، 3: 81

خلاصہِ کلام

اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے محبت شرک ہوتی تو وہ عبادت کی طرح محبت کو بھی بلا شرکتِ غیرے اپنا اختصاصی و امتیازی حق قرار دے دیتا لیکن اس نے ایسا حکم کہیں بھی نہیں دیا بلکہ محبت کے باب میں صراحت کے ساتھ تینوں یعنی اللہ تعالیٰ، ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مؤمنین کو محبت کا حق دار ٹھہرایا۔ اس کا اعلان ہے کہ اگر اہلِ ایمان میں کوئی مجھ سے محبت کرنا چاہتا ہے تو وہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اپنا منتہائے مقصود بنا لے، اسے میری محبت حاصل ہوجائے گی۔ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل اللہ سب کے ساتھ محبت، چاہت اور اپنائیت کے تعلقات و روابط استوار کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ حکمِ الٰہی کے مطابق اس تعلق کی استواری خلقِ خدا کی ضرورت بھی ہے۔

فصل چہارُم: تعظیم بالقیام

حالتِ قیام میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس پر سلام عرض کرنا اہلِ عقیدت اور محبینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاصہ ہے۔ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر اہلِ ایمان پر واجب تھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حد درجہ ادب و احترام کرتے تھے۔ اسی طرح آج بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر امت پر واجب ہے۔ محفلِ میلاد یا محفلِ نعت کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام پڑھتے وقت احتراماً کھڑے ہونا اسی ادب و تعظیم کا تسلسل ہے۔ جس محفل میں ادب و تعظیم کا خصوصی اہتمام کیا جائے اس پر انوار و برکاتِ الٰہیہ کا نزول ہوتا ہے۔

بعض لوگ کھڑے ہو کر درود و سلام پڑھنے کو بھی بدعت یا شرک سمجھتے ہیں۔ اکثر اوقات اس عمل پر جھگڑے اور تلخیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ محض اس خیال سے کئی لوگ ایسی مجالسِ درود و سلام سے دور ہٹ کر کھڑے ہونے یا وہاں سے بھاگ جانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ گویا وہ کسی برائی سے کنارہ کشی کر رہے ہوں یا کسی خلافِ شریعت فعل سے اجتناب کر رہے ہوں۔ حالانکہ یہ قیام، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کے باعث ہوتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کا تصور بذاتِ خود محبت و ایمان میں اضافہ کا سبب ہے۔ اس کے برعکس جن کی طبیعتوں پر بوجھ آتا ہے وہ تعظیم و توقیرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توفیق سے خود محروم ہوتے ہیں اور اس محرومی کا نام ’توحید‘ رکھ لیتے ہیں۔ یہ تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے یا تعلیماتِ توحید کی خلاف ورزی؟ یہ جاننے کے لئے یہاں ہم قیام کی مشروعیت پر بالاختصار کچھ معروضات پیش کر رہے ہیں۔

قیام کا لغوی معنی و مفہوم

1۔ عربی لغت کے اعتبار سے قَامَ يَقُوْمُ قَوْمًا وَ قِيَامًا وَ قَوْمَةً کا معنی ہے: کھڑا ہونا، سیدھا ہونا، چلتے ہوئے رک جانا۔

  1. ابن منظور، السان العرب، 12: 496

2۔ نماز کے لئے جب کھڑے ہوتے ہیں تو اس وقت کہا جاتا ہے قامتِ الصلوۃ۔ یعنی نماز کھڑی ہوگئی۔

  1. ابن اثیر، النھایۃ، 4: 126

3۔ اسی طرح اقامۃ الصلوۃ کا معنی ہے: نماز کو اس کے جملہ اَرکان و شرائط یا حقوق اور تقاضوں کے مطابق خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا۔

  1. ابن منظور، السان العرب، 12: 498

4. أقام بالمکان کا معنی ہے: قیام کرنا، ٹھہرنا، سکونت اختیار کرنا۔

  1. ابن منظور، السان العرب، 12: 498

5۔ القیام کا مطلب ہے: ٹھہراؤ، نماز میں سیدھا کھڑا ہونا، نیند سے بے داری، مطلقاً کھڑے ہونے کی حالت۔

لغوی اعتبار سے قیام کے ان مشتقات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قیام کسی ایک اَمر کے ساتھ خاص نہیں اور نہ یہ محض شرعی اِصطلاح ہے بلکہ ہر وہ اَمر جس میں ٹھہراؤ، جماؤ اور سیدھا کھڑے ہونے کا تصور ہو، اس پر قیام کا اطلاق ہو سکتا ہے۔

قیام کا شرعی معنی و مفہوم

1۔ شریعت میں قیام نماز کی اس حالت کا نام ہے جب بندہ خاص ہیئت کے ساتھ عبادت کی نیت سے بارگاہ رب العزت میں کھڑا ہوتا ہے۔ ادائیگی اور قبولیتِ نماز کے لئے قیام شرط ہے اگر تندرست آدمی فرض نماز میں عمداً قیام ترک کر دے تو نماز نہ ہوگی۔

2۔ علاوہ ازیں اپنے والدین۔ اساتذہ و مشائخ کی تعظیم کے لئے یا مہمان کے استقبال کے لئے ادباً و احتراماً کھڑا ہونا بھی قیام ہے جو شرعاً جائز ہے۔

شاگرد کا استاد کے لئے ادباً، میزبان کا مہمان کے لئے اکراماً، شیخ کا مرید کے لئے محبتاً اور بیٹے کا والدین کے لئے ادباً، فرحۃً اور تعظیماً کھڑا ہونا بھی قیام کی جائز صورتیں ہیں۔ پس تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کھڑا ہو کر ادباً، فرحۃً، تعظیماً اور اکراماً صلوۃ و سلام پیش کرنا بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔ یہ فقط تعظیماً ہوتا ہے اس میں نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معبود تصور کیا جاتا ہے اور نہ یہ تصور اور عقیدہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ظاہری وجسمانی وجود کے ساتھ محفل میں جلوہ گر ہیں۔

کیا ہر قیام عبادت ہے؟

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قیام ذاتِ باری تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ ان کے نزدیک قیام صرف عبادت کے لئے ہوتا ہے اور عبادت اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونے کی وجہ سے قیام بھی اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں کسی اور کے لئے قیام کرنا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ ایک لغو اور مبنی بر جہالت و تعصب بات ہے۔ اس لئے کہ اگر ہر قیام عبادت قرار پائے تو پھر ہماری زندگی اجیرن بن کے رہ جائے گی ہم اپنی روز مرہ زندگی میں درجنوں مرتبہ نماز کے علاوہ قیام کرتے ہیں جو کہ فطری اور شرعی اعتبار سے درست ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر معترضین نماز میں قیام کی بناء پریہ کہیں کہ قیام کرنا عبادت کا حصہ ہے اور صرف خدا کے لئے ہے تو پھر وہ قعود( بیٹھنے) اور لیٹنے کی حالت کے بارے میں کیا کہیں گے؟ وہ بھی تو قرآن کی رو سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حصہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اَلَّذِيْنَ يَذْکُرُوْنَ اللهَ قِيَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِهِمْ.

’’یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔‘‘

(1) آل عمران، 3: 191

اس آیتِ کریمہ میں عبادت اور ذکرِ الٰہی کرنے کی تین حالتیں بیان ہوئی ہیں:

  1. حالتِ قیام میں اللہگ کی عبادت کرنا
  2. بیٹھ کر اللہگ کی عبادت کرنا
  3. لیٹ کر اللہگ کی عبادت کرنا

پس اس آیت کریمہ کی رو سے تو بیٹھنا اور لیٹنا بھی اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہوگیا۔ معترضین کی بات مان لی جائے تو پھر ان کے نظریہ کے مطابق قیام کے ساتھ قعود اور لیٹنے کی حالتیں بھی شرک قرار پائیں گی کیونکہ یہ بھی ذکرِ الٰہی اور عبادتِ الٰہی کاجزو ہیں۔ اگر یہ سب شرک ہے تو باقی کیا بچا؟ اس طرح تو سارا نظامِ حیات درہم برہم ہوکر رہ جائے گا اور انسان کا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے اٹھنا، بیٹھنا اور لیٹنا سب شرک ہو جائے گا۔

اس امر کا تعین کرنا کہ یہ حالت اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور یہ حالت اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں، اس کا دار و مدار نیت پر ہے۔ اگر آپ قیام عبادت کی نیت سے کر رہے ہیں تو پھر کسی اور کے لئے کرنا شرک ہوگا لیکن اگر قیام عبادت کے لئے نہیں بلکہ تعظیم کے لئے ہو تو پھر شرک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عبادت اور تعظیم میں ہمیشہ یہ فرق بہرحال ملحوظ رکھنا لازمی ہے۔

اَز روئے سنت قیام کی جائز اَقسام

احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں جائزہ لیتے ہوتے پتہ چلتا ہے کہ دوسروں کے لئے قیام کرنا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ قیام کرنے کی مختلف وجوہ اور اسباب ہیں۔ متعدد احادیث کے بالاستیعاب مطالعہ سے قیام کی درج ذیل سات جائز صورتیں سامنے آتی ہیں:

  1. قیامِ استقبال
  2. قیامِ محبت
  3. قیامِ فرحت
  4. قیامِ تعظیم
  5. قیامِ اِکرامِ انسانی
  6. قیامِ ذکر
  7. قیامِ سلام

یہ درجہ بندی اس مضمون کو زیادہ آسان اور باضابطہ بنانے کے لئے کی گئی ہے۔ قیام کی مشروعیت کے بارے میں مزید تفصیلات کے لئے ہماری کتاب ’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کا متعلقہ باب ملاحظہ کریں۔

1۔ قیامِ اِستقبال

کسی معزز و محترم شخصیت یا رہنما ئے ملت و قوم کی آمد پر کھڑے ہوکر استقبال کرنا قیامِ استقبال کہلاتا ہے اور اس کے جواز کی اصل سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ماخوذ ہے۔ غزوہِ احزاب کے موقع پر یہود کے قبیلہ بنو قریظہ نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عہد شکنی کی اور مسلمانوں کے خلاف کفار ومشرکین کی مدد کی۔ غزوہ کے بعد ان کو سزا دینے کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور ان کے کہنے پر فیصلہ کے لیے ان کے حلیف قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

فَأَتَی عَلَی حِمَارٍ. فَلَمَّا دَنَی مِنَ الْمَسْجِدِ، قَالَ لِلْأَنْصَارِ: قُوْمُوْا إِلَی سَيِّدِکُمْ أَوْ خَيْرِکُمْ.

’’پس حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ دراز گوش پر سوار ہو کر آئے۔ جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار سے فرمایا: (قبیلے والو!) تم اپنے سردار یا اپنے سے بہتر کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب المغازی، باب مرجع النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من الأحزاب، 4: 1511، رقم: 3895

  2. مسلم، الصحیح، کتاب الجہاد، باب جواز قتال من نقض العہد، 3: 1388، رقم: 1768

روایت کے الفاظ ’’سَيِّدِکُمْ‘‘ اس امر کے مظہر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے تمام انصار کو قیامِ استقبال کا حکم دیا تھا، اسے قیامِ تعظیم پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے۔ یہ قیامِ تعظیم متفق علیہ احادیث سے ثابت ہے۔ یہ گمان کرنا کہ یہ قیامِ تعظیم اور استقبال کے لیے نہیںبلکہ ایک بیمار شخص کی اعانت کے لیے تھا، متنِ حدیث کے خلاف ہے۔ حدیث کے الفاظ اس کی تائید نہیںکرتے۔ یہ ارشاد تو اس معنی میں ہے کہ ’سیادت‘ کی وجہ سے ان کا استقبال کرو۔ اگران کو سواری سے اتارنا مقصود ہوتا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے تو کسی ایک یا دو افراد کو مامور کر دیتے، تمام لوگوں کو کھڑا ہونے کے لیے نہ فرماتے۔ حدیث میں ’’خَیْرِکُمْ‘‘ کے الفاظ بھی قیامِ استقبال پر دلالت کر رہے ہیں۔

2۔ قیامِ محبت

یہ قیام، محبت کے اظہارکے لئے ہوتا ہے، اسے قِیَام فِی الْمَحَبَّۃ یا قِیَام فِی الْحُبِّ بھی کہتے ہیں۔ والدین کا قیام اولاد کے لیے، استاد کا شاگرد کے لیے، شیخ کا خاص مرید کے لیے، یا کسی بھی بڑے کا قیام چھوٹے کے لیے اسی قسم کے ذیل میں آتا ہے۔

1۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:

مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشْبَهَ سَمْتًا وَ دَلًّا وَ هَدْيًا بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِی قِيَامِهَا وَقُعُوْدِهَا مِنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم. قَالَتْ: وَکَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا وَأَجْلَسَهَا فِيْ مَجْلِسِهِ، وَکَانَ النَّبِيُ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا قَامَتْ مِنْ مَجْلِسِهَا فَقَبَّلَتْهُ وَأَجْلَسَتْهُ فِيْ مَجْلِسِهَا.

’’میں نے حسنِ صورت، حسنِ خلق، سکون و وقار اور قیام و قعود کے لحاظ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی ایک کو بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ نہیں دیکھا۔ آپ فرماتی ہیں: جس وقت وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لئے کھڑے ہو جاتے، ان کی پیشانی چومتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کھڑی ہو جاتیں، دستِ اقدس کا بوسہ لیتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔‘‘

  1. ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب فضل فاطمۃ، 5: 700، رقم: 3872

  2. ابوداود، السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء فی القیام، 4: 355، رقم: 5217

سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا کا اظہارِ محبت و تعظیم میں اپنے ابا جان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کھڑا ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اظہارِ محبت و فرحت میںاپنی لختِ جگر کے لئے قیام فرمانا ثابت ہے۔ اس ایک ہی حدیث میں قِيَام لِلْفَرْحَة وَالْمَحَبَّة اور قِيَام لِلتَّعْظِيم دونوں کا ذکر موجود ہے۔

2۔ قیامِ محبت پر ہی ایک حدیث حضرت انسص روایت کرتے ہیں:

رَأَی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم النِّسَاءَ وَالصِّبْيَانَ مُقْبِلِيْنَ. .. قَالَ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ... مِنْ عُرْسٍ. فَقَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مُمَثِّـلًا فَقَالَ: اَللَّهُمَّ أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ. قَالَهَا ثَـلَاثَ مِرَارٍ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں اور عورتوں کو آتے ہوئے دیکھا۔ (راوی بیان کرتے ہیں: میرا خیال ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ) ’’شادی سے آتے ہوئے‘‘ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی سے کھڑے ہو گئے اور فرمایا: خدایا! (اے انصار) تم مجھے سب لوگوںسے زیادہ محبوب ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم للأنصار: أنتم أحب الناس إليّ، 3: 1379، رقم: 3574

  2. مسلم، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضائل الأنصار، 4: 1984، رقم: 2508

امام ابو داؤد کی السنن میں قیام پر مشتمل احادیث کے باب نمبر 152، 153 کے الفاظ ذہن نشین کرنے کے لائق ہیں۔ انہوں نے قیام کا لفظ دو جگہ استعمال کرکے درج ذیل عنوانات قائم کیے ہیں:

  1. بَابُ الرَّجُلِ يَقُوْمُ لِلرَّجُلِ يُعَظِّمُهُ بِذٰلِکَ (کسی شخص کا دوسرے شخص کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا)
  2. بَابٌ فِی قِيَامِ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ (ایک شخص کا دوسرے کے لئے قیام کرنا)

یہاں انہوں نے جو باب قائم کیا ہے وہ واضح طور پرکسی انسان کا دوسرے انسان کے لئے اکراماً و تعظیماً قیام کرنے سے متعلق ہے ۔ علیحدہ علیحدہ تہذیبوں اور ثقافتوں کے پیشِ نظر عرب لوگ عربوں کے لئے اور انگریز انگریزوں کے لئے اپنا نقطہ نظر بیان کریں گے۔ مگر قیام کے باب میں سب کے ہاں قدرِ مشترک پائی جاتی ہے اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ پاکستان یا انڈیا کا عقیدہ ہے بلکہ یہ وہ عقیدہ ہے جو صحاحِ ستہ پر مبنی صرف عجم اور عرب ہی کا نہیں بلکہ تمام عالم اسلام کا عقیدہ ہے۔ یہ ائمہ حدیث کا عقیدہ تھا اس بنیاد پر ہم اسے عرب اور ساری اسلامی دنیا کا عقیدہ بھی کہہ سکتے ہیں اور یہی عقیدہ عینِ اسلام ہے۔ لہٰذا کسی بھی شخص کے لئے حباً قیام کرنا اتباعِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا ہونا ہے۔

3۔ قیامِ فرحت

یہ قیام مسرت کے اظہار کے لئے ہوتا ہے۔ اس کا محرک خوشی کے جذبات ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب کسی کے آنے کی خوشی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا اظہار کھڑے ہوکر فرماتے، مثلًا:

عون بن ابی جحیفہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حبشہ سے مدینہ آئے جبکہ اسی وقت خیبر بھی فتح ہوا تھا تو انہیں دیکھ کر آقا علیہ السلام کے یہ جذبات تھے:

تَلَقَّاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَعَانَقَهُ وَقَبَّلَ مَا بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَقَالَ: مَا أَدْرِي بِأَيِّهِمَا أَنَا أَسَرُّ بِفَتْحِ خَيْبَرَ أَوْ بِقُدُوْمِ جَعْفَرٍ؟

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے بڑھ کر ان سے معانقہ کیا اور اُن کی پیشانی پر (فرطِ مسرت سے) بوسہ دیا، اور فرمایا: مجھے نہیں معلوم کہ دونوں میں سے زیادہ خوشی مجھے کس بات پر ہوئی ہے فتحِ خیبر پر یا جعفر کے (حبشہ سے) آنے پر؟‘‘

(1) طبرانی، المعجم الکبیر، 2: 108، رقم: 1470

4۔ قیام تعظیم

یہ قیام تعظیم کے لئے ہے جس سے احترام کا اظہار ہوتا ہے۔ جیسے امتی کا قیام نبی کے لئے، اولاد کا والدین کے لئے، مریدوں کا شیخ کے لئے، شاگردوں کا استاد کے لئے اور چھوٹوں کا بڑوں کے لئے، یہ قیام کسی کی عزت و کرامت اور شرف و بزرگی کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے اور کسی کے تقدس و احترام کے پیشِ نظر بھی۔

قیامِ استقبال اور قیامِ تعظیم میں فرق

قیامِ استقبال اور قیامِ تعظیم میں تھوڑا سا فرق ہے۔ استقبال کسی کی پذیرائی کے لئے ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ اس کا محرک تعظیم ہو۔ اس کی مثال بارات میں آئے ہوئے مہمانوں کی پذیرائی ہے جن میں سے بہت سوں کو آپ جانتے بھی نہیں۔ اس کے علاوہ آپ کو ملنے والا کوئی نو وارد مہمان بھی ہوسکتا ہے جس کے استقبال کے لئے آپ محض رسماً کھڑے ہو جاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس آپ اپنے استاذ اور شیخ کے لئے تعظیمًا کھڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر اور مشائخ کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔

5۔ قیام اِکرامِ اِنسانی

پانچویں قسم کے قیام کو انسانی جسد کے اکرام سے تعبیر کیا جاتا ہے جو احترامِ انسانیت میں انسان کے بے جان جسم کے اکرام سے عبارت ہے یعنی مردہ انسان کی نعش کا احترام، اس سے انسانی رشتوں کے تقدس کا اظہار مقصود ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنازے کے احترام میں کھڑے ہو جاتے تھے خواہ وہ کسی غیر مسلم کا ہی ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قیام جسدِ انسانی کے اکرام کی وجہ سے ہوتا۔

1۔ حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا رَأَيْتُمُ الْجَنَازَةَ فَقُوْمُوا حَتَّی تُخَلِّفَکُمْ.

’’جب تم کوئی جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو یہاں تک کہ وہ تمہارے پاس سے گزر جائے۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتا ب الجنائز، باب القیام للجنازۃ، 1: 440، رقم: 1245

  2. نسائی، السنن الکبری، 1: 625، رقم: 2042

  3. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 354

جس قیام کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا، جسدِ انسانی کے احترام کی وجہ سے ہے۔ اسی اکرامِ انسانی کے باب میں امام بخاری نے’’ کتاب الجنائز میں باب من قام لجنازۃ یہودي‘‘ قائم کیا ہے جو ایک یہودی کے جنازے سے متعلق ہے۔

2۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

مَرَّتْ بِنَا جَنَازَةٌ، فَقَامَ لَهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَقُمْنَا لَهُ. فَقُلْنَا: يَارَسُوْلَ اللهِ! إِنَّهَا جَنَازَةُ يَهُوْدِيٍّ؟ قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ الْجَنَازَةَ فَقُوْمُوا.

’’ایک جنازہ ہمارے سامنے سے گزرا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لئے کھڑے ہوگئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ پس ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم کوئی جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوا کرو۔‘‘

(2) بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب من قام لجنازۃ یہودي، 1: 441، رقم: 1249

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مسلمان کے جنازے پر کھڑا ہونے کا تو علم تھا لیکن وہ یہ جاننے کے خواہش مند تھے کہ کیا کسی یہودی کا جنازہ دیکھ کر بھی کھڑے ہونے کا یہی حکم ہے؟ اس لئے انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اطلاع بہم پہنچائی کہ یہ یہودی کا جنازہ ہے شاید ان کے ذہن میں یہ خیال کار فرما ہو کہ یہودی کے جنازے پرکھڑے ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہاں صحابہ کا مقامِ ادب ملاحظہ کریں کہ وہ جنازہ دیکھ کر بیٹھے نہیں رہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھڑا ہوتے دیکھ کر فورًا کھڑے ہوگئے لیکن انہوں نے دل کی بات بتا دی۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی بات سن کر توثیق فرمائی کہ قطع نظر اس بات کے، یہودی ہے یا مسلمان جب کبھی کوئی جنازہ آتے دیکھو تو اس کے لئے کھڑے ہوجاؤ کیونکہ یہ قیام انسان کے مردہ جسم کا احترام ہے۔ جہاں تک فقط انسان ہونے کا تعلق ہے تو یہودی اور مسلمان میں کوئی فرق نہیں، دونوں گوشت پوست کے جسم ہیں اور احترامِ آدمیت کے اعتبارسے دونوں کا مردہ جسم اکرام کا مستحق ہے۔

اِن احادیث کو علامہ ابنِ تیمیہ نے بھی ’’ منتقی الاخبار‘‘ میں نقل کیا ہے۔ ان احادیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سنت کے ذریعے امت کو جنازے کے اکرام کے لئے کھڑے ہو جانے کی ترغیب فرمائی ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ جو قیام کے مطلقاً قائل نہیں انہیں سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی ربط و تعلق نہیں کیونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آقا علیہ السلام نے نماز کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر قیام فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدتک اخلاقیات کا درس دیا کہ کسی مردہ انسان کی لاش دیکھ کرقطع نظر اس کے کہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم ہمیشہ کھڑے ہونے کا حکم فرمایا۔

اگر کسی جنازے یا مردہ لاش کا احترام کرنا اس کا استحقاق ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اسے دیکھ کر کھڑا ہونے کا حکم دیتی ہے تو پھر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے یا سلام بھیجنے کے لئے کھڑا ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے اظہار کے لئے قیام کرنا کیونکر اور کیسے غلط اور غیر شرعی فعل ہو سکتا ہے؟

6۔ قیامِ ذکر

کسی بھی دینی، تبلیغی یا روحانی و تربیتی مقصد کے لئے کھڑا ہونا قیام ذکر کی صورتوں میں سے ہے۔ جیسے درس و تدریس کے لئے معلم کا کھڑا ہونا، خطبہ کے لئے عالم کا کھڑا ہونا اور قاری کا تلاوتِ قرآن کے لئے کھڑا ہونا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اَلَّذِيْنَ يَذْکُرُوْنَ اللهَ قِيَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِهِمْ.

’’یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھتے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔‘‘

(1) آل عمران، 3: 191

سلام محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو اپنا ذکر قرار دیا ہے جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کو اپنی رضا، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت کو اپنی نصرت، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی کو اپنی ناراضی قرار دیا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو اپنے ذکر کے ساتھ ملایا ہے اس لئے یہ دونوںذکر ایک ساتھ ایک ہی حالت میں کرناجائز ہیں۔ ایسا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر تو کھڑے ہو کر کرنا جائز ہو اور اس کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ناجائز۔ لہٰذا جس طرح بیٹھ کر ذکر یا درود و سلام جائز ہے اس طرح کھڑے ہو کر درود و سلام پڑھنا بھی جائزہے۔

7۔ قیامِ صلوٰۃ و سلام

قیام کی متعدد صورتوں میں سے ایک قیامِ سلام ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات پرصلوٰۃ و سلام کھڑے ہوکر پیش کیا جاتا ہے تو یہ قیام متعدد درجاتِ قیام کامجموعہ ہے۔ مثلاً قیام محبت، قیامِ فرحت، قیامِ تعظیم، قیامِ ذکر اور قیامِ صلوٰۃ و سلام۔ جب ہم محفلِ میلاد میں قیامِ سلام کو لیتے ہیں جس میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سلام پڑھا جاتا ہے تو پھر قیام اورعدم قیام کی تمیزپر مبنی ساری بحث محض سعی لاحاصل ہے جس کا میلاد سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ قیام قیامِ استقبال ہے ہی نہیں۔ اس لئے ہم سرے سے اس بحث ہی کو لغو سمجھتے ہیں کہ استقبال کے لئے قیام کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ اگر کوئی قیام کرنا چاہتا ہے تو کرے، نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے۔ درحقیقت یہ قیامِ تعظیم ہوتا ہے بلکہ اس پر مستزاد قیامِ فرحت او ر قیامِ محبت اس کا محرک ہے۔ قیام کی یہ تمام صورتیں بلا خوفِ تردید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر مبنی ہیں اور اس پر کسی قسم کی اختلاف رائے یا تکرار کرنے کا کوئی محل نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں ادب و نیاز سے کھڑے ہو کر سلام پیش کرنا حضرت موسیٰں کی سنت ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سفرِ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا:

مَرَرْتُ عَلَی مُوْسَی لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْکَثِيْبِ الْأَحْمَرِ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ.

’’میں معراج کی شب سرخ ٹیلے کے قریب موسیٰ(علیہ السلام) کے پاس سے گزرا تو وہ اپنی قبر میں صلاۃ پڑھ رہے تھے۔‘‘

  1. مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب فضائل موسیٰ ں، 4: 1845، رقم: 2375

  2. نسائی، السنن، کتاب قیام الیل و تطوع النہار، باب ذکر صلاۃ نبی اللہ موسیٰں، 3: 151، رقم: 1637

صلاۃ کا معنی. .. درود و سلام

عام طورپر کتب میں اِس حدیثِ مبارکہ کا ترجمہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ ’جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا تو وہ اپنی قبرِ انور میں نماز ادا کررہے تھے۔

لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالتِ قیام میں صلوٰۃ ادا کرنے سے راقم نے جو نتیجہ صلوٰۃ (درود) پڑھنے کا اخذ و مستنبط کیا ہے وہ حدیث سے متعارض نہیں۔

یہاں صلوٰۃ کا معنی ’’درود‘‘ اخذ کرنے کا پسِ منظر یہ ہے کہ حضرت موسیٰں سمیت دیگر تمام انبیاء علیہم السلام بیت المقدس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے جمع ہو رہے تھے۔ تمام انبیاء علیھم السلام کو اس بات کاعلم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس رات سفرِ معراج شروع ہوچکا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں ان کی امامت فرمائیں گے اور یہ امامت لیلۃ المعراج کے اگلے مرحلے پر روانہ ہونے سے پہلے ہوگی۔ حضرت موسیٰں سے آسمان پر بھی ملاقات ہونا تھی اور یہی حضرت موسیٰں مقامِ قدس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کرنے والے بھی تھے۔ پھر یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر کسی دنیاوی سواری پر نہیں بلکہ برّاق پر تھا جس کی رفتار کا عقلِ انسانی اندازہ بھی نہیں کر سکتی۔ وہ برّاق آن واحد میں اتنی مسافت طے کرلیتا تھا جو روشنی کی رفتار سے بھی کئی گنا زیادہ تھی۔ یہ سب جانتے ہوئے کیونکر ممکن تھا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر سے گزرے تو وہ محض نفلی نماز ادا کررہے ہوں، اگر کوئی فرض نماز ہوتی تو یہ بات قرینِ فہم تھی کہ وہ نماز ادا کر رہے تھے لیکن وصال کے بعد کوئی فرض نماز نہیں ہوتی جو قبر میں ادا کی جائے۔ دنیاوی زندگی گزارنے کے بعد برزخی زندگی میں کوئی فرائض و واجبات نہیں رہتے۔ انبیاء کرام اور اولیاء عظام علیہم السلام قبور میں جو اعمال بجا لاتے ہیں ان کی حیثیت نفلی عبادت کی ہوتی ہے جو ایک اضافی معاملہ ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰں کو بھی علم تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ حرام سے سفرِ معراج پر روانہ ہو رہے ہیں اور ان کا گزر اِس طرف سے ہوگا۔ اس لیے یہ بات قابلِ فہم نہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفرِ معراج کے مرحلہ میں حضرت موسیٰں کی قبر کے پاس سے گزر رہے ہوں تو وہ اس وقت نفل نماز ادا کرنے میں مصروف ہوں۔ چنانچہ مذکورہ بالا حدیث کا صحیح اور قرینِ قیاس مفہوم یہ ہو گا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہاں سے گزرنے پر حضرت موسیٰں اپنی قبر میں کھڑے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیج رہے تھے۔ یہ مفہوم متنِ حدیث کے خلاف نہیں بلکہ موقع اور محل کی مناسبت سے اقرب ہے۔

حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے صحابہ کے تعظیماً قیام کا معمول

صحابہ کرامث کا معمول تھا کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تعظیماً کھڑے ہوتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَجْلِسُ مَعَنَا فِی الْمَجْلِسِ يُحَدِثُّنَا، فَإِذَا قَامَ قُمْنَا قِيَامًا حَتَّی نَرَاهُ قَدْ دَخَلَ بَعْضَ بُيُوْتِ أَزْوَاجِهِ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری مجلس میں تشریف فرما ہو کر ہمارے ساتھ گفتگو فرمایاکرتے تھے پھر جب آپ اٹھتے تو ہم سب لوگ ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوتے اور اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی ازواجِ مطہرات میں سے کسی کے گھر داخل ہوتا نہ دیکھ لیتے۔‘‘

  1. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب فی الحلم و أخلاق النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 4: 247، رقم: 4775

  2. بیہقی، شعب الإیمان، 6: 467، رقم: 8930

اس حدیث سے واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب گھر جانے کے ارادے سے اپنی جائے نشست سے اٹھتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے قیام کرتے۔ یہ ان کا روز مرہ کا معمول تھا۔ ایک دن یا دو دن کا معاملہ نہ تھا، اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی انہیں منع نہیں فرمایا۔

نماز اللہ کے لیے اور اِقامت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے

آج تمام امت کا اقامتِ نماز کے وقت مسنون اور مستحب طریقہ کے مطابق حَيَّ عَلَی الصَّـلَاۃِ اور قَدْ قَامَتِ الصَّـلَاۃُ پر کھڑے ہونے کا معمول ہے، لیکن اس بات کو شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ اس کا آغاز کب، کیسے ہوا اور کس نے کیا؟ اقامت کے وقت یہ قیام فی الحقیقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اکرام و تعظیم کے لئے تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا کہ جب وہ آقا علیہ السلام کو نماز کے لئے آتا دیکھتے تو ادباً و احتراماً کھڑے ہوجاتے ۔ اس طرح یہ قیام اقامت کے لیے نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اکرام کے لیے ہوتا تھا جس سے در حقیقت یہ اطلاع دینا مقصود ہوتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نماز اللہ کے لئے اور اقامت ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے ہوتی۔

بعض لوگ کتبِ اَحادیث کا مطالعہ تو کرتے ہیں لیکن وہ اس نکتے کو سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے جو امام مسلم اور ابوداؤد نے درجِ ذیل حدیث میں بیان کیا ہے:

1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

إِنَّ الصَّلَاةَ کَانَتْ تُقَامُ لِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’بے شک نماز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے تشریف لانے پر کھڑی کی جاتی تھی۔‘‘

وہ بیان کرتے ہیں کہ نماز کے لئے اقامت صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے لئے ہوتی تھی۔ صحیح مسلم کی اس حدیث کے منتخب الفاظ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کلام سے بالخصوص متذکرہ بالا نکتہ واضح ہو جاتا ہے۔ یہ اہم حدیث جسے ہم حدیثِ عشق بھی کہہ سکتے ہیں اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و توقیر کی تعلیم مضمر ہے۔

آگے اس کی توجیہہ انہوں نے یہ بیان کی ہے:

فَيَأْخُذُ النَّاسُ مَصَافَّهُمْ. قَبْلَ أَنْ يَقُوْمَ النَّبِيُ صلی الله عليه وآله وسلم مَقَامَهُ.

’’حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنی جگہ (مصلیٰ) پر قیام فرما ہونے سے پہلے ہی لوگ اپنی ’’جگہوں‘‘ پر کھڑے ہو جاتے۔‘‘

  1. مسلم، الصحیح، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب متی یقوم الناس للصلاۃ، 1: 423، رقم: 605

  2. أبوداود، السنن، کتاب الصلاۃ، باب فی الصلاۃ تقام ولم یأت الإمام ینتظرونہ قعودًا، 1: 148، رقم: 541

اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نماز کی اقامت اس لئے کہی جاتی تھی تاکہ لوگوں کو مطلع کیا جائے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصلیٰ پر آمد سے پیشتر ہی اپنی صفیں باندھ لیں اور اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہوجائیں۔ حضرت ابوہریرہص نے یہ نہیں کہا کہ لوگ نماز کے لئے صفیں بنا لیتے بلکہ یہ بیان کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت کے لئے تشریف لانے اور مصلیٰ کو زینت بخشنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال و پذیرائی کے لئے صفیں باندھ کر کھڑے ہو جاتے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ قیام، قیامِ استقبال اور قیامِ تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تھا، نماز کے لیے نہیں۔

اس کی تائید ہمیں ایک اور صحیح حدیث سے بھی ملتی ہے۔ مؤذنِ رسول اور عاشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان کہنے کے بعدایک جگہ اوٹ میں کھڑے آقاں کے حجرہِ مبارک کی طرف نظریں مرکوز کئے رہتے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر سے باہر تشریف لانے کو دیکھتے رہتے۔ ادھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی صفیں آراستہ کئے انتظار کی حالت میںہوتے کہ کب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امامت کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہِ مبارک سے نکلنے سے پہلے ایک گوشے میں گوش بر آواز رہتے اور حجرے کے دروازے کا پردہ سرکنے کی آواز سنتے ہی اقامت کے لئے اگلی صف میں آکر اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے لگتے۔ اس سے صحابہ کرام ثجان لیتے کہ آقاں اپنے حجرہ مبارک سے مسجد میں تشریف لے آئے ہیں اور وہ اپنی اپنی صفوں میں سراپا ادب و تعظیم بنے کھڑے ہوجاتے۔ یہ قیامِ تعظیم تھا جو اسلام کا شعار اور سنت بن گیا۔

2۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

کَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ اِذَا دَحَضَتْ. فَــلَا يُقِيْمُ حَتَّی يَخْرُجَ النَّبِيُ صلی الله عليه وآله وسلم. فَإِذَا خَرَجَ أَقَامَ الصَّلَاةَ حِيْنَ يَرَاهُ.

’’جب نماز کا وقت ہوتا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے لیکن اس وقت تک اقامت نہ کہتے جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حجرہ سے) باہر تشریف نہ لے آتے۔ پس جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لاتے توحضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ کو دیکھنے پر اقامت کہتے۔‘‘

  1. مسلم، الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب متی یقوم الناس للصلاۃ، 1: 423، رقم: 606

  2. ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء أن الإمام أحق بالإمامۃ، 1: 391، رقم: 202

دراصل اقامت سے مراد صحابہ کو اطلاع دینا ہوتی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لے آئے ہیں، ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جائو! آج بھی اقامت کے دوران کھڑے ہونا ان کے قیامِ استقبال و تعظیم کی سنت کی پیروی ہے۔ اس طرح دو قیام ہوتے تھے ایک قیام وہ جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ آغازِ اقامت میں کرتے اور دوسرا وہ جو صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر کرتے۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شرح میں قیام کی انہی دو قسموں کو اپنی گفتگو کی بنیاد بنایا ہے اور دونوں کے درمیان تقابل کرتے ہوئے خلاصہ یوں بیان کیا ہے:

بِأَنَّ بِلَالاً رضی الله عنه کَانَ يُرَاقِبُ خُرُوْجَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ حَيْثُ لَا يَرَاهُ غَيْرُهُ أَوْ إِلاَّ الْقَلِيْلُ. فَلَأَوَّلُ خُرُوْجِهِ أَقَامَ هُوَ: ثُمَّ لَا يَقُوْمُ النَّاسُ حَتَّی يَظْهُرَ لِلنَّاسِ وَيَرَوْهُ، ثُمَّ لَا يَقُوْمُ مَقَامَهُ حَتَّی يُعَدِّلُوا صُفُوْفَهُمْ.

’’حضرت بلال رضی اللہ عنہ ایک ایسی جگہ پر کھڑے ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لانے کا انتظار کرتے رہتے تھے جہاں انہیں کوئی اور نہ دیکھ سکتا یا چند لوگ دیکھ سکتے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باہر تشریف آوری کے ساتھ ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ اقامت کہتے اور لوگ اس وقت تک کھڑے نہیں ہوتے تھے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے سامنے ظاہر نہ ہوجاتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ نہ لیتے پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی جگہ پر کھڑے نہ ہوتے تھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی صفوں کو سیدھا کرلیتے۔‘‘

(1) قاضی عیاض، إکمال المعلم، کتاب المساجد، باب متی یقوم الناس للصلاۃ، 2: 556

امام بدر الدین عینی اس حوالے سے فرماتے ہیں:

قُلْتُ وَجْهَ الْجَمْعِ بَيْنَهُمَا: أَنَّ بِلَا لًا کَانَ يُرَاقِبُ خُرُوْجَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ حَيْثُ لَا يَرَاهُ غَيْرُهُ أَوْ إِلاَّ الْقَلِيْلُ. فَعِنْدَ أَوَّلِ خُرُوْجِهِ يُقِيْمُ، وَلَا يَقُوْمُ النَّاسُ حَتَّی يَرَوْهُ ثُمَّ لَا يَقُوْمُ مَقَامَهُ حَتَّی يُعَدَّلَ الصُّفُوْفَ.

’’میں کہتا ہوں کہ ان دو باتوں میںاس طرح تطبیق ہوسکتی ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ ایک ایسی جگہ پر کھڑے ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لانے کا انتظار کرتے تھے جہاں ان کو کوئی نہ دیکھ سکے یا چند لوگ دیکھ سکیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوّل مرتبہ نکلنے کے ساتھ ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ اقامت کہتے اور لوگ اس وقت تک (نماز کے لیے) کھڑے نہ ہوتے جب تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ نہ لیتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے مصلیٰ پر کھڑے ہونے سے پہلے صفیں درست کر لی جاتیں۔‘‘

(2) عینی، عمدۃ القاری، 5: 154

درج بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ اقامت پر صحابہ کرامث کا قیام نماز کے لئے نہیں بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آتا دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بجا لانے کے لئے ہوتا تھا۔

محافلِ میلاد میں قیام، اِستقبال کے لیے نہیں، تعظیماً ہے

قیام کے موضوع پر یہ بحث بڑی صراحت سے اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ہم قیام کیوں اور کس لئے کرتے ہیں؟ ہم ہرگز یہ نہیں سمجھتے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت معاذ اللہ لمحہِ موجود میں ہوئی ہے، اس لئے ہمیں قیام کرنا ہے یا یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مجلس میں تشریف لا رہے ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر قیام کر رہے ہیں۔ یہ کسی صحیح العقیدہ مسلمان کا خیال نہیں ہوتا اور نہ ہمارا قیام استقبال کا مظہر ہے۔ نہ ہی یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ جو حضرات محفلِ میلاد میں شرکت کے لئے آئے ہیں ان کے لئے قیام کرنا چاہئے۔ تاہم یہ بات ممکنات میں سے ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روحانی طور پر محفلِ میلاد میں تشریف لائیں کیونکہ روحانی اعتبار سے ایسا ہونا قطعاً خارج از امکان نہیں ہوتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں چاہیں روحانی طور پر تشریف لے جا سکتے ہیں۔ جسمانی طور پر اس لئے نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اقدس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہِ اقدس میں قبر انور کے اندر استراحت فرما رہا ہے۔ لیکن ملائکہ اور عالمِ ارواح کے کسی فرد کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جگہ اور کسی مقام پر روحانی طور پر آ جا سکتے ہیں۔

اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خواب یا بیداری کی حالت میں دیدار کرتا ہے جیسا کہ متعدد اولیاء کرام کے بارے میں مذکور ہے تو وہ بلاشبہ ہوبہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی زیارت سے شاد کام ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسمانی طور پر نظر آتے ہیں لیکن وہ متمثل روح کی ایک صورت گری ہے او ر اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے جبرئیل امین کسی کو بشری شکل میں دکھائی دے۔ اس حوالے سے کئی مثالیں قرآن و حدیث سے دی جاسکتی ہیں۔

قرآن حکیم میں ہے کہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام، حضرت مریم علیہما السلام کے پاس جسمانی صورت میں حاضر ہوئے تھے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًاo

’’تو ہم نے ان کی طرف اپنی روح(یعنی فرشتہ جبرئیل) کو بھیجا سو جبرئیل ان کے سامنے مکمل بشری صورت میں ظاہر ہوا۔‘‘

(1) مریم، 19: 17

بَشَرًا سَوِیًّا کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک مکمل جیتے جاگتے انسان کی شکل میں سیدہ مریم علیھا السلام کے پاس آئے اور یہ اس پیکرِ نوری کا اصل جسم نہیں بلکہ متمثل صورت تھی۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روحانی طور پر جسمانی صورت میں متمثل ہو کر کہیں بھی تشریف لے جا سکتے ہیں۔ جملہ اہلِ ایمان اور بالخصوص اہلسنت کا کبھی یہ عقیدہ نہیں رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ظاہری و جسمانی وجود کے ساتھ محفلِ میلاد میں جلوہ گری فرماتے ہیں اور اس بنا پر اہلِ محفل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری و جسمانی حالت میں آنے کا تصور کرتے ہوئے استقبال کے لئے قیام کرتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو یہ غلط ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایسا کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا مگر شرکائے محفلِ میلاد صرف علامتی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے احترام میں کھڑے ہو کر صلوٰۃ و سلام پیش کرتے ہیں۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر قیام کرتے ہیں تو یہ محبت، فرحت اور خوشی کے اظہار میں کرتے ہیں۔ ہم اس گھڑی کو اپنے تصور و تخیل میں رکھتے ہوئے محبت اور فرحت کا اظہار کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیائے آب و گل میں تشریف لائے۔

الغرض میلاد میں قیام، ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب اور ولادتِ پاک کو یاد کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ بیشک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت اس قدر مہتم بالشان اور عظمتِ بے مثال کی حامل ہے کہ اس کا ذکر بھی بہت فضیلت کا درجہ رکھتا ہے اور اس لمحہِ عظیم کی تعظیم اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات والا صفات پر سلام پیش کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصافِ حمیدہ کی تحسین کریں اور ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہایت درجہ ادب و تعظیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے محبت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جائیں۔

خلاصہ بحث

قیام کی اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ شرعاً ہر ذات کے لیے قیام اس کے مرتبہ کے لحاظ سے جائز ہے چنانچہ اگر کوئی شاگرد اپنے استاد کیلئے ادباً اور تعظیماً کھڑا ہوتا ہے، کوئی میزبان مہمان کے استقبال کیلئے، کوئی مرید شیخ کے لیے اور کوئی بیٹا باپ کیلئے ادباً کھڑا ہوتا ہے تو یہ تمام صورتیں جائز ہوں گی۔ ان میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں پائی جاتی لہٰذا اگر ان تمام ذاتوں کیلئے ادباً، تعظیماً، اکراماً اور فرحۃً کھڑا ہونا جائز ہے تو تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بدرجہ اولیٰ جائز ہونے میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا۔

ممانعتِ قیام کے اَسباب

یہ بات ذہن نشین رہے کہ قیام کرنے سے منع کا تعلق بنیادی طور پر دو اسباب کے باعث ہے:

1۔ زمانہِ قدیم میں ایران کے عجمی لوگ اپنے بادشاہوں اور فرماں روائوں کے سامنے حالتِ قیام میں جھک کر اجتماعی طور پر تعظیم بجا لاتے تھے جوسراسر اسلامی تعلیم و آداب کے خلاف تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس انداز کے قیام سے منع فرمایا جو وہ اختیار کئے ہوئے تھے۔

2۔ ایسا قیام جس کی کوئی شخص اپنے اندر طلب رکھے، وہ دوسروں سے اس امر کی خواہش اور توقع رکھے کہ اس کے آنے پر لوگ اس کے لئے کھڑے ہوں۔ حدیثِ مبارکہ میں اس خواہش اور توقع کی مذمت کی گئی ہے پس اس بنا پر شریعتِ اسلامی نے اس قسم کے قیام سے منع کیا اور حرام قرار دیا ہے۔ ممانعتِ قیام پر وارد ہونے والی احادیث میں ایسے قیام کی ہی ممانعت کی گئی ہے۔

امام بخاری نے بھی اس مضمون پر مشتمل حدیث بیان کی ہے جس میں اس حوالے سے امتناعِ قیام کا ذکر کیا گیا ہے اور کسی مجلس میں آنے والے کی ایسی خواہش کی تنقیص کرتے ہوئے اسے جہنم کی خواہش قرار دیا گیا ہے۔ اس کے لئے عاجزی اور تواضع اختیار کرنے کا حکم ہے البتہ جو لوگ کسی کی آمد کے منتظر ہوں ان کے لئے حکم ہے کہ وہ اس کے استقبال کیلئے کھڑے ہو جائیں کہ یہ ادب و تعظیم کا تقاضا ہے لیکن اگر اس شخص کے دل میں یہ خواہش انگڑائیاں لینے لگے کہ دوسرے اس کی آمد پر کھڑے ہو جائیں، اس کو اس خواہش پر ہدفِ مذمت بنایا جائے کہ اس رویے سے تکبر و رعونت کا اظہار ہوتا ہے اور اس کو اس قسم کی خواہش سے گریز کرنا چاہئے۔ اس امتناعِ قیام کو اخلاقی تربیت اور اسلامی تعلیم کے ایک حصے کے طور پر لیا جائے تاکہ لوگوں کے اندر تواضع و انکساری پیدا ہو۔ اگر کوئی شخص مجلس میں آتا ہے اور اس کی آمد پر لوگ کھڑے نہیں ہوتے تو اسے ناراض اور غضبناک نہیں ہونا چاہئے کہ ایسی خواہش اور توقع اسلامی آداب و اخلاق کے منافی ہے۔

یاد رکھیں کہ یہ ایک بالکل مختلف نوعیت کا موضوع ہے جس کا قیامِ سلام اور قیامِ میلاد سے کوئی تعلق نہیں۔

اِباحتِ قیام کے اَسباب

اگر کسی محفل میں کوئی عظیم شخصیت اور عالم و فاضل شیخ یا روحانی اور علمی مقام رکھنے والا بزرگ داخل ہوتا ہے تو اس کی آمد پر مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو اس کے ادب و تعظیم کے لئے کھڑا ہونے کا حکم ہے۔ یہ ادب اس کے لئے لوگوں کی محبت، چاہت اور اپنائیت کا مظہربھی ہے اور علم و تقویٰ کا احترام بھی لہٰذا اسلامی آداب کی دو مختلف جہتیں ہیں۔ اگر بعض لوگ امتناعِ قیام کو اس پیرائے میں لیںکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام کرنے سے مطلقًا منع فرمایا ہے تو وہ یہ نتیجہ اخذ کرنے میں صریحاً غلطی کر رہے ہیں اگر اس اطلاق کو تسلیم کر لیا جائے تو درجنوں احادیث سے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات کے بارے میں ہیں اور آثارِ صحابہثسے ہیں بیک جنبش ان کا انکار لازم ٹھہرے گا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ قیام کی ان دونوں صورتوں میں مابہ الامتیاز پہلو کو سمجھا جائے کہ اِمتناعِ قیام کے حکم کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔

فصل پنجم: تعظیم بالتقبیل

ہم اگر معلمِ اعظم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے براہِ راست فیض یافتگان صحابہ کرامث کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ اَدباً اور تعظیماً حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس، قدمین شریفین، جسمِ اقدس حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نسبت اور تعلق رکھنے والے کسی فرد اور چیز تک کو بوسہ دیتے تھے۔ انہوں نے کبھی اس عمل کو خلافِ توحید نہ سمجھا اور نہ ان میں سے کسی نے اس کو شرک و بدعت قرار دیا۔ تقبیل کی حقیقت سے آگاہی کے لئے سب سے پہلے ہم اس کا لغوی اور شرعی معنی ومفہوم واضح کریں گے۔

تقبیل کا لغوی معنی و مفہوم

لفظِ ’’تقبیل‘‘ ق، ب، ل سے مشتق ہے۔ قَبَلَ يَقْبُلُ قَبْلًا کا معنی ہے: آنا۔

قَابَلَ کا معنی ہے: کسی کے آمنے سامنے ہونا، ملاقات کرنا۔

جبکہ قَبَّلَ يُقَبِّلُ تَقْبِيْلًا کا معنی ہے: چومنا، بوسہ دینا۔

  1. جوھری، الصحاح، 2: 274

  2. ابن منظور، لسان العرب، 11: 544

لغتِ عرب کی خصوصیت کی بنیاد پر (ق۔ ب۔ ل) سے مشتقات کے معانی بھی صیغوں اور متعلقات کی تبدیلی سے مختلف ہو جاتے ہیں۔ بعض ابواب میں اس کے اندر توجہ، میلان، جھکاؤ اور اظہارِ پسندیدگی و قبولیت کے معانی بھی پائے جاتے ہیں۔

مثلاً القبلۃ کا معنی ہے: نماز کے لئے سمتِ توجہ، جب کہ مَقْبُول کا معنی ہے: قابلِ قبول اور پسندیدہ۔

  1. ابن منظور، لسان العرب، 11: 544

پس تعظیم بالتقبیل میں بھی کسی بابرکت ہستی یا متبرک چیز کے ساتھ محبت اور پسندیدگی شامل ہوتی ہے۔

تقبیل کا شرعی معنی و مفہوم

اسلامی معاشرتی آداب کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اپنے بڑوں، بزرگوں، اولیاء اللہ اور صلحائے اُمت کے ہاتھ اور پاؤں کو حصولِ فیض کے لیے بوسہ دیا جائے۔ بعض لوگ اس عمل پر شرک کا فتویٰ لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ ان کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ نہ تو انہیں فہمِ دین حاصل ہے اور نہ ہی وہ حکمت و مصلحتِ دین سے شناسا ہیں۔ عربی زبان میں معمولی شُدبُد حاصل کر کے ’’ہمہ دانی‘‘ کا دعویٰ کرنا، لوگوں کو گمراہ کرنا اور ان کی لاعلمی سے فائدہ اُٹھانا ان کا شیوہ بن چکا ہے۔ اس لئے جب وہ کسی کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے شیخ، قائد یا بزرگ کے ہاتھوں کو بوسہ دے رہے ہیں، اس کی تکریم و تعظیم کر رہے ہیں تو وہ بلا سوچے سمجھے اِس پر بدعت اور خلافِ سنت عمل کا فتوی صادر کر دیتے ہیں۔ اگر انہوں نے سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ کیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ صحابہ کرامث بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں اور قدمین شریفین کا بوسہ لیا کرتے تھے۔

ذیل میں احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں صفِ اوّل کے اکابر صحابہ کرامث کے معمولات سے تعظیم بالتقبیل کی چند مثالیں دی جا رہی ہیں:

1۔ حضرت عبدالرحمن بن ابولیلیٰ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

فَدَنَوْنَا يَعْنِي مِنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَبَّلْنَا يَدَهُ.

’’ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کو بوسہ دیا۔‘‘

  1. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب فی قبلۃ الید، 4: 356، رقم: 5223

  2. بیہقی، السنن الکبری، 7: 101، رقم: 13362

  3. أیضاً، شعب الإیمان، 6: 476، رقم: 8965

2۔ ہود العبدی کے دادا مزیدہ العبدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس اس راستے سے (ابھی) اہلِ مشرق میں سے بہترین سوار آئیں گے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسی راستے میں ان کی تلاش شروع کر دی تو انہیں تیرہ سوار ملے، آپ صنے انہیں خوش آمدید کہا اور ان کے قریب ہوکر پوچھا: آپ کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا: عبدِ آلاف کی قوم سے، آپ صنے پوچھا: کیا تم یہاں تجارت کی غرض سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صنے کہا: تم اپنی یہ تلواریں بیچنے آئے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صنے کہا: شاید تم پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں آئے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں، پس آپ صان سے باتیں کرتے ہوئے ان کے ساتھ چل پڑے یہاں تک کہ آپ صنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ان لوگوں سے کہا:

هَذَا صَاحِبُکُمُ الَّذِی تَطْلُبُونَ.

’’یہ ہیں تمہارے آقا جن کی تمہیں تلاش ہے۔‘‘

آگے روایت کے الفاظ ہیں:

فَرَمَی الْقَومُ بِأَنْفُسِهِم عَنْ رِحَالِهِم، فَمِنْهُم مَنْ سَعَی سَعْيًا، وَمِنْهُم مَنْ هَرْوَلَ، وَمِنْهُم مَنْ مَشَی، حَتَّی أَتَوا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَخَذُوا بِيَدِهِ يُقَبِّلُونَهَا وَقَعَدُوا إِلَيْهِ، وَبَقِيَ الْأَشَجُّ، وَهُوَ أَصْغَرُ الْقَوْمِ، فَأَنَاخَ الْإِبِلَ وَعَقَلَهَا وَجَمَعَ مَتَاعَ الْقَوْمِ، ثُمَّ أَقْبَلَ يَمْشِی عَلَی تُوَدَةٍ حَتَّی أَتَی رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَخَذَ بِيَدِهِ فَقَبَّلَهَا.

’’پس وہ سواریوں سے فوراً کود پڑے۔ کسی نے دوڑ لگائی اور کوئی پیدل چلا یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ گئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کو بوسے دینا شروع کردئیے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ گئے، صرف ان کے پیچھے اشج رہ گیا جو وفد میں سب سے چھوٹا تھا۔ اس نے اونٹوں کو بٹھا کر باندھ دیا اور وفد کا تمام مال و متاع جمع کر دیا پھر وہ معمول کی چال چلتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کو بوسہ دینا شروع کر دیا۔‘‘

  1. أبو یعلی، المسند، 12: 246، رقم: 6850

  2. طبرانی، المعجم الکبیر، 20: 345، رقم: 812

  3. مقری، الرخصۃ فی تقبیل الید، 1: 66، رقم: 6

3۔ اُمِّ ابان بنتِ وازع بن زارع اپنے دادا زارع بن عامر جو وفدِ عبدالقیس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے، ان سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا:

لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِيْنَةَ فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَوَاحِلِنَا، فَنُقَبِّلُ يَدَ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَرِجْلَهُ.

’’جب ہم مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو تیزی سے اپنی سواریوں سے اتر کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس اور پاؤں مبارک کو چومنے لگے۔‘‘

  1. أبوداود السنن، کتاب الأدب، باب قبلۃ الجسد، 4: 357، رقم: 5225

  2. بخاری، الأدب المفرد، 1: 339، رقم: 975

  3. طبرانی، المعجم الکبیر، 5: 275، رقم: 5313

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پاؤں کو بوسہ دیتے ہوئے کیا انداز اختیار کیا ہوگا؟ جلسہ، قعود یا قیام؟ تاکہ ان کا یہ عمل سجدہ سے مشابہ ہوکر شرک کے زمرے میں نہ آئے، سنن ابوداؤد کی اس صحیح روایت کی کیا تعبیر ہوگی؟ کیا مذکورہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کیا تھا؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ ایسا کہنا ان پر بہتان طرازی ہوگا۔ لہٰذا اس حدیثِ مبارکہ کی درست تعبیر یہی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا و ما فیھا سے بڑھ کر محبوب سمجھتے تھے، یہ ان کا اظہارِ عقیدت و محبت تھا کہ ادب و تعظیمِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ ہر جائز طریقہ اور انداز اپناتے تھے۔

4۔ امام بخاری نے ’’الادب المفرد‘‘ میں باب تقبیل الرِّجل قائم کیا یعنی ’’پاؤں کو بوسہ دینے کا بیان‘‘ اس حدیث کو حضرت وازع بن عامر رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں۔

قَدِمْنَا فَقِيْلَ: ذَاکَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’ہم مدینہ حاضر ہوئے تو (ہمیں) کہا گیا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘

آگے حدیث کے الفاظ ہیں:

فَأَخَذْنَا بِيَدَيْهِ وَ رِجْلَيْهِ نُقَبِّلُهَا.

’’پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں اور قدموں سے لپٹ گئے اور انہیں بوسہ دینے لگے۔‘‘

(1) بخاری، الأدب المفرد، 1: 339، رقم: 975

یہ الفاظ خاص مفہوم کے حامل ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے صرف ہاتھ مبارک پکڑنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ہاتھوں کے علاوہ پاؤں مبارک کو بھی بوسہ دینے کا عمل جاری رکھا درآنحالیکہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک پکڑ رکھے تھے۔ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس امر کی اجازت نہ دی ہوگی؟ ان کو اس عمل سے نہ روکنا اور سکوت فرمانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس کی اجازت تھی۔

5۔ امام ترمذی نے اس مضمون پر ایک حدیث حضرت صفوان بن عسّال رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قومِ یہود کے بعض افراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کرنے کے بعد اعلانیہ گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں:

فَقَبَّلُوْا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ. فَقَالَا: نَشْهَدُ أَنَّکَ نَبِيٌّ.

’’انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کو بوسہ دیا، اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں۔‘‘

  1. ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب الاستئذان والآداب، باب فی قبلۃ الید والرجل، 5: 77، رقم: 2733

  2. ابن ماجہ، السنن، کتاب الأدب، باب الرجل یقبّل ید الرجل، 2: 1221، رقم: 3705

  3. مقدسی، الأحادیث المختارۃ، 8: 29، رقم: 18

یہاں کوئی متعصب کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک یہودی کا فعل تھا، ہم اسے کس طرح لازمی شہادت کا درجہ دے سکتے ہیں۔ اس سوچ پر سوائے افسوس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ معترض کو یہودی کا عمل تو نظر آگیا مگر جس کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ بابرکت ہستی نظر نہیں آئی۔ حضور علیہ السلام نے یہود کو تقبیل سے منع نہیں فرمایا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری ہوا۔

تقبیل ہے ہی مخلوق کے لیے

تقبیل کے لغوی اور شرعی معنی و مفہوم کی بحث پر غور کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ تقبیل ایسا عمل ہے جس کا اطلاق بہر طور مخلوق پر ہوتا ہے۔ اس کے لغوی مفہوم میں تقابل یعنی آمنا سامنا ہونا۔ چھونا۔ محسوس کرنا اور اثر کے معانی پائے جاتے ہیں، اور یہ سب چیزیں مخلوق کے لئے تو جائز ہیں مگر خالقِ کائنات اللہ جلّ مجدہ جو ہماری محسوسات، توجہات اور تقابل وغیرہ سے پاک ہے، کے لئے روا نہیں۔ پس وہ عمل جو فقط مخلوق کے لئے ہو اور مخلوق ہی پر اس کا اطلاق کیا جائے ہرگز شرک نہیں ہوسکتا۔ تعظیم بالتقبیل پر شرک کا اطلاق تب ہوتا جب یہ خالق کا حق ہوتا۔

تقبیل کی جملہ اقسام بھی مخلوق کے لئے ہیں جس کی وضاحت سطورِ ذیل میں ملاحظہ کریں:

اَقسامِ تقبیل

احادیثِ مبارکہ، صحابہ کرام، تابعین اور صالحین ثکے احوال کا مطالعہ کرنے سے تقبیل کی درج ذیل اقسام سامنے آتی ہے۔

1۔ تقبیلِ عبادت

حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کا حجرِ اسود کو بوسہ دینا عبادت کے زمرے میں شامل ہے کیونکہ یہ مناسکِ حج اور افعالِ عمرہ میں سے ہے۔ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ حج پر آئے، طواف کیا اور حجرِ اسود کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ اس سے فرمانے لگے:

إنِّي أَعْلَمُ أنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْ لَا أنِّي رَأيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ.

’’یقینا میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تو نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اگر میںنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الحج، باب ما ذکر في الحجر الأسود، 2: 579، رقم: 1520

  2. مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الأسود في الطواف، 2: 925، رقم: 1270

  3. ابن ماجہ، السنن، کتاب المناسک، باب استلام الحجر، 2: 981، رقم: 2943

  4. نسائی، السنن الکبریٰ، 2: 400، رقم: 3918

یہ کلمات ادا کرنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود کو چوما۔

(1) حاکم، المستدرک، 1: 628، رقم: 1682

2۔ تقبیلِ تبرک

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اہلِ بیتِ اطہار، صحابہ کرام اور اولیاء و صالحین ثکے ہاتھوں اور اُن سے منسوب اشیاء کو حصولِ برکت کے لئے بوسہ دینا بھی احادیث اور آثار و احوال سے ثابت ہے۔

1۔ اُسید بن حضیر سے روایت ہے کہ انصار کا ایک آدمی ایک مجلس میں لوگوں سے مزاح کرکے ان کو ہنسا رہا تھا تو اس دوران حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (پیار سے) اس کے پیٹ میں لکڑی چبھوئی تو اس نے عرض کیا:

أَصْبِرْنِی، فَقَالَ: اصْطَبِرْ، قَالَ: اِنَّ عَلَيْکَ قَمِيْصًا وَلَيْسَ عَلَيَّ قَمِيْصٌ، فَرَفَعَ النَّبِيُ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ قَمِيْصِهِ فَاحْتَضَنَهُ وَجَعَلَ يُقَبِّلُ کَشْحَهُ، قَالَ: إِنَّمَا أَرَدْتُ هَذَا يَا رَسُوْلَ اللهِ.

’’مجھے اس کا بدلہ دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم بدلہ لے لو، اس شخص نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر پر قمیص ہے جبکہ میرے جسم پر قمیص نہیں تھی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیص کو اوپر اٹھایا تو وہ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لپٹ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیٹ مبارک کو بوسہ دینے لگا اور عرض گزار ہوا کہ میرا ارادہ تو فقط یہی تھا۔‘‘

(2) أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب فی قبلۃ الجسد، 4: 356، رقم: 5224

اسی طرح جنگِ بدر کے موقع پر حضرت سواد بن غزیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کو اس خواہش کے پیشِ نظر بوسہ دیا تھا کہ اگر وہ جنگ میں شہید ہو تو ان کا آخری عمل یہ ہو کہ ان کا جسم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے مس ہو۔

  1. عسقلانی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 3: 218

  2. ابن کثیر، البدایۃ و النھایۃ، 3: 271

بعض دیگر صحابہ سے بھی اس طرح کا واقعہ منسوب ہے۔ امام ابنِ حجر عسقلانی اس روایت کے بعد فرماتے ہیں کہ قُلْتُ لا یمتنع التعدد (میں یہ کہتا ہوں کہ اس طرح کے متعدد واقعات ہونا ناممکن نہیں۔)

کتبِ احادیث میں حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ واقعہ منسوب ہے۔

2۔ عبد الرحمن بن رزین روایت کرتے ہیں کہ ہم ربذۃ کے مقام سے گزرے تو ہم سے کہا گیا کہ یہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ہے۔ پس میں ان کے پاس آیا تو ہم نے ان کو سلام کیا۔ سو انہوں نے اپنا ہاتھ باہر نکال کر کہا:

بَايَعْتُ بِهَاتَيْنِ نَبِيَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأخْرَجَ کَفًّا لَهُ ضَخْمَةً کَأَنهَا کَفُّ بَعِيْرٍ، فَقُمْنَا اِلَيْهَا فَقَبَّلْنَاهَا.

’’میں نے ان دونوں ہاتھوں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ہے تو انہوں نے اپنی بھاری بھرکم ہتھیلی نکالی گویا کہ وہ اونٹنی کی ہتھیلی کی مانند تھی پس ہم اس کی طرف بڑھے او ر ان کی ہتھیلی کو بوسہ دیا۔‘‘

  1. بخاری، الأدب المفرد، باب تقبیل الید، 1: 338، رقم: 973

  2. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 54

3۔ ایک دفعہ حضرت ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا:

أَمَسَسْتَ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم بِيَدِکَ؟ قَالَ: نَعَمْ! فَقَبَّلَهَا.

’’کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ہاتھ سے مَس کیا ہے تو انہوں نے کہا: ہاں! پس ثابت نے ان کے ہاتھ کو چوما۔ ‘‘

(1) بخاری، الأدب المفرد، باب تقبیل الید، 1: 338، رقم: 974

4۔ یحییٰ بن ذماری فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے ملا میں نے ان سے کہا:

بَايَعْتَ بِيَدِکَ هَذِهِ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَقُلْتُ: أَعْطِنِی يَدَکَ أُقَبِّلُهَا فَأعْطَانِيْهَا فَقَبَّلْتُهَا.

’’آپ نے اس ہاتھ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! تو میں نے کہا: اپنا ہاتھ میری طرف کریں کہ میں اسے بوسہ دوں۔ پس انہوں نے اس کو میری طرف کیا تو میں نے اسے بوسہ دیا۔ ‘‘

  1. طبرانی، المعجم الکبیر، 22: 94، رقم: 226

  2. ہیثمی، مجمع الزوائد، 8: 42

5۔ صاحب الصحیح امام مسلم نے برکت حاصل کرنے کے لئے امام بخاری کی پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر عرض کیا:

دعني حتی أقبّل رجليک، يا أستاذ الأستاذين وسيد المحدّثين وطبيب الحديث في علله.

’’اے استاذوں کے استاذ، سید المحدّثین اور عللِ حدیث کے طبیب! آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے پاؤں کا بوسہ لے لوں۔‘‘

  1. ابن نقطہ، التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید، 1: 33

نوٹ: اس موضوع پر مفصل مطالعہ کے لیے راقم کی کتاب ’’تبرک کی شرعی حیثیت‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔

3۔ تقبیلِ محبت و فرحت

کسی بابرکت ہستی کو محبت وفرحت سے چومنا بھی احادیث سے ثابت ہے۔

1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے موقع پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کیفیت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق مقامِ سُنح پر واقع اپنے گھر سے گھوڑے پر آئے تو مسجد میں داخل ہونے کے بعد (شدتِ غم سے) انہوں نے کسی سے کلام نہ کیا یہاں تک کہ حضرت عائشہ کے حجرہ میں داخل ہوئے اور

فَتَيَمَّمَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ مُسَجًّی بِبُرْدِ حِبَرَةٍ فَکَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَکَبَّ عَلَيْهِ فَقَبَّلَهُ.

’’وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرنا چاہتے تھے جو یمنی چادر میں لپٹے ہوئے تھے، پس انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور کھولا پھر جھک کر بوسہ لیا اور رو پڑے۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب الدخول علی المیت بعد الموت، 1: 418، رقم: 1184

  2. أیضا، کتاب المغازی، باب مرض النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و وفاتہ، 4: 1618، رقم: 4187

  3. نسائی، السنن، کتاب الجنائز، باب تقبیل المیت، 4: 11، رقم: 1841

  4. أحمد بن حنبل، المسند، 6: 117

  5. ابن حبان، الصحیح، 14: 588، رقم: 6620

2۔ اسماعیل بن عبدالرحمن بن ابی کریمہ المعروف السُّدِّی تابعی (م 127ھ) آیتِ مبارکہ - {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَسْأَلُواْ عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ} (1) المائدۃ، 5: 101 (اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)) - کے تحت بیان کرتے ہیں:

غضب رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم يوماً من الأيام فقام خطيباً، فقال: سلوني فإنکم لا تسئلوني عن شيء إلا أنبأتکم به. فقام إليه رجل من بني قريش من بني سهم، يقال له: عبداللہ بن حذافة وکان يطعن فيه. قال فقال: يارسول اللہ، من أبي؟ قال: أبوک فلان، فدعاه لأبيه. فقام إليه عمر، فقبّل رجله وقال: يارسول اللہ، رضينا باللہ رباً، وبک نبياًَ وبالإسلام ديناً، وبالقرآن إماماً، عفا اللہ عنک فلم يزل به حتی رضي.

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز جلال میں آکر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تم مجھ سے کسی بھی چیز کے بارے پوچھو، میں تمہیں یہیں کھڑے کھڑے اس کی خبر دوں گا۔ بنو قریش کے قبیلہ بنو سہم کا ایک شخص کھڑا ہوا، اس کا نام عبداللہ بن حذافہ تھا جس کے نسب میں طعن کیا جاتا تھا۔ اس نے عرض کیا: یارسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فلاں تیرا باپ ہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کا باپ بتلایا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک کو بوسہ دیا اور عرض کیا: یارسول اللہ! ہم اللہ کے رب ہونے، آپ کے نبی ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی ہیں، اللہ آپ کو سلامت (اور باعزت و عافیت) رکھے، پس وہ اسی طرح کہتے رہے یہاں تک کہ حضور علیہ السلام راضی ہوگئے۔‘‘

  1. طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 7: 81

  2. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 2: 106

  3. عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، 13: 270 (امام عسقلانی نے اس مختصراً روایت کیا ہے۔)

  4. سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، 3: 205

3۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أنه لما نزل عذره أتی النبيّ صلی الله عليه وآله وسلم فأخذ بيده فقبّلها.

’’جب ان کے عذر پر آیتِ مبارکہ نازل ہوئی تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر (فرحت سے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کا بوسہ لینا شروع کردیا۔‘‘

  1. طبرانی، المعجم الکبیر، 19: 95، رقم: 186

  2. ہیثمی، مجمع الزوائد، 8: 42

4۔ تقبیلِ مودّت و رحمت

بعض اوقات مودّت و رحمت کے باعث بھی بوسہ لیا جاتا ہے، یہ بھی احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔

1۔ حضرت ابوہریرہ سدوسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

خرج النبي صلی الله عليه وآله وسلم في طائفة النهار لا يُکَلِّمُني ولا أکلّمه حتی أتی سُوقَ بني قينُقاع فجلس بِفِناء بيت فاطمة، فقال: أَثَمَّ لُکَعُ، أَثَمَّ لُکَعُ، فحَسَبَتْه شيئاً فظننتُ أنها تُلبِسُه سِخاباً أو تُغَسِّلُه. فجاء يَشْتَدُّ حتی عانقه وقبّله.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ایک روز) دن کے حصہ میں باہر تشریف لائے تو نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے گفتگو فرمائی اور نہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی بات عرض کی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو قینُقاع کے بازار آئے تو سیدہ فاطمہ کے گھر کی دہلیز پر تشریف رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: کیا بچہ ہے؟ تو سیدہ فاطمہ نے بچے (امام حسن یا امام حسین) کو روکے رکھا، میں نے خیال کیا کہ وہ اسے کوئی ہار پہنا رہی ہیں یا نہلا رہی ہیں۔ پھر وہ دوڑتا ہوا آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے سینے سے لگا لیا اور بوسہ دیا۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب البیوع، باب ما ذکر فی الأسواق، 2: 747، رقم: 2016

  2. أیضاً، الأدب المفرد، 1: 394، رقم: 1152

2۔ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:

أَبْشِرِي يَا عَائِشَةُ! فَاِنَّ اللهَ قَدْ أَنْزَلَ عُذْرَکِ وَ قَرَأَ عَلَيْهَا الْقُرْآنَ، فَقَالَ أَبَوَايَ: قُوْمِی فَقَبِّلِي رَأسَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’اے عائشہ! تجھے خوشخبری ہو کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے تیرے عُذر کے بارے میں حکم نازل کر دیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سامنے قرآن کی آیات تلاوت فرمائیں تو میرے والدین نے مجھے کہا: کھڑی ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ اقدس کا بوسہ لے۔‘‘

(2) أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب فی قبلة الرجل ولدہ، 4: 355، رقم: 5219

3۔ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے وصال کا واقعہ مروی ہے کہ

أن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم دخل علی عثمان بن مظعون وهو ميت فأکبّ عليه فقبّله ثم بکی حتی رأيت الدموع يسيل علی وجنتيه.

’’یقینا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عثمان بن مظعون کی میت کے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھک کر (رحمت سے) اُن کا بوسہ لیا پھر رو دیئے یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک رخساروں پر آنسو بہتے ہوئے دیکھے۔‘‘

  1. عبدالرزاق، المصنف، 3: 596، رقم: 6775

  2. ابن أبی شیبة، المصنف، 3: 57، رقم: 12067

  3. عبد بن حمید، المسند، 1: 441، رقم: 1526

  4. بیہقی، السنن الکبری، 3: 407، رقم: 6503

5۔ تقبیلِ حرام

جس طرح تقبیل کے جواز کی کئی اقسام ہیں اسی طرح تقبیل کی بعض صورتیں حرام ہیں جن سے لازماً اجتناب کرنا چاہیے۔

  1. شاہانِ وقت یا متکبرین کے ہاتھ، پاؤں یا اُن کے سامنے زمین کو چومنا۔
  2. اجنبی اور غیر محرم خواتین کے ہاتھ کو چومنا۔
  3. غرور، تکبر یا شہوتِ خفی کے باعث کسی شخص کو بوسہ دینا۔

تعظیم بالتقبیل ہرگز منافیِ توحید نہیں

صحابہ کرامث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں اور پائوں کو بوسہ دیا کرتے تھے۔ بعض لوگ اس طرح کے جائز اُمور کو بھی بزعمِ خویش خلافِ توحید سمجھتے ہیں۔ وہ اس قسم کے معمولات کو شخصیت پرستی سے تعبیر کرتے اور اسے توحید کے منافی قرار دیتے ہوئے انہیں شرک اور بدعت تصور کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت متواضع اور منکسر المزاج انسان تھے۔ وہ صحابہ کو ایسے اُمور کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ یہ ان کا محض خیال اور گمانِ باطل ہے ۔ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام بے شک حد درجہ متواضع اور منکسر المزاج تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جاں نثار صحابہ کرام کے پاکیزہ جذبات اور عقیدت کو کبھی رد نہیں فرمایا۔

متذکرہ بالا احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس عقیدت و محبت سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ منسوب چیزوں کا بوسہ لیتے تھے وہ فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، تعظیم اور احترام کی خاطر ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ یہودیوں نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس اور پاؤں مبارک کو بوسہ دیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی منع نہ فرمایا پس یہ آپ کی سنتِ تقریری قرار پائی۔ یہ تمام احادیث اس بات پر دلیل ہیں کہ آج بھی اگر کوئی مرید، شاگرد یا سالک اپنے شیخ، مربی اور مرشد کے ہاتھ، پاؤں اور اس سے منسوب چیزوں کا بوسہ لے تو وہ شرک نہیں ہو گا بلکہ عین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنتِ فعلی کی اتباع ہو گی۔ اگر یہ کوئی ممانعت کی چیز ہوتی یا اس میں کوئی شرک کا شائبہ پایا جاتا تو تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی اس طرح کے عمل کو بجا لانے کی اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اور غیر مسلم یہودیوں کو اجازت نہ دیتے۔

فصل ششم: تعظیم بخلع النعال

{تعظیماً جوتے اُتار دینے کا بیان}

شرعی تعظیم کے باب میں ایک صورت یہ بھی ہے کہ مسلمان بعض قابلِ احترام جگہوں پر جوتے اُتار دیتے ہیں۔ ان مقامات میں سرِ فہرست مساجد ہیں، اسی طرح مزاراتِ اولیاء کے احاطے میں بھی جوتے اتار کر حاضری اہلِ ایمان کا معمول ہے۔ علاوہ ازیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کی قبور کے اُوپر بھی جوتوں سمیت چلنا منع فرمایا ہے۔ ان مقامات پر احترامًا جوتے اتارنے کے اس عمل کو ہم تعظیم بخلع النعال سے تعبیر کرتے ہیں جس کا ثبوت قرآن حکیم میں بھی موجود ہے۔

1۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وادئ سینا میں جوتے اُتارنے کا حکم

مدین سے مصر آتے ہوئے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو مقدس وادئ سینا میں جوتے اتارنے کا جو حکم دیاگیا تھا وہ بھی تعظیم کے لئے تھا۔ اللہ رب العزت نے انہیں ندا دی:

إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًىo

’’بے شک میںہی تمہارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو، بیشک تم طویٰ کی مقدس وادی میں ہو۔‘‘

  1. طٰہٰ، 20: 12

اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں مفسرین نے مختلف آراء بیان کی ہیں۔ راجع قول یہی ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نعلین اُتارنے کا حکم اس مقدس وادی کی تعظیم میں دیا گیا جسے بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی سے موسوم کیاگیا ہے۔

1۔ امام قرطبی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

واختلف العلماء فی السبب الذی من أجله أمر بخلع النعلين.

’’علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کیا وجہ تھی جس کے لئے حضرت موسیٰں کو نعلین اتارنے کا حکم دیا۔‘‘

اس حوالے سے آگے لکھتے ہیں:

وقيل: أمر بخلع النعلين للخشوع والتواضع عند مناجاة اللہ تعالی وکذلک فعل السلف حين طافوا بالبيت. وقيل: إعظاماً لذلک الموضع کما أن الحرم لا يُدْخَل بنعلين إعظاماً له، قال سعيد بن جبير: قيل له طإ الأرض حافياً کما تدخل الکعبة حافياً. والعرف عند الملوک أن تخلع النعال و بيلغ الإنسان إلی غاية التواضع، فکأن موسی (عليه السلام) أمر بذالک علی هذا الوجه. ولا تبالی کانت نعلاه من ميتة أو غيرها. وقد کان مالک لا يری لنفسه رکوب دابة بالمدينة براً بتربتها المحتوية علی الأعظم الشریفة؛ والجثة الکريمة. ومن هذا المعنی قوله عليه الصلوة والسلام لبشير بن الخصاصية وهو يمشي بين القبور بنعليه ’’إذا کنت فی مثل هذا المکان فاخلع نعليک‘‘ قال: فخلعتهما.

’’بعض علماء نے کہا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جوتے اتارنے کا حکم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مناجات کے وقت خشوع اور تواضع کے لئے تھا۔ اسی طرح اسلاف نے بھی بیت اللہ شریف کے طواف کے دوران ایسا کیا۔ بعض نے کہا اس مقدس مقام کی تعظیم کے پیش نظر ایسا کرنے کا حکم دیا گیا جیسے حرم شریف کی تعظیم میں کوئی شخص جوتا پہن کر اندر داخل نہیں ہوتا۔ حضرت سعید بن جبیر نے کہا: حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زمین پر ننگے پاؤں چلنے کا کہا گیا جس طرح کعبہ شریف میں ننگے پاؤں داخل ہوا جاتا ہے۔ بادشاہوں کے ہاں جوتا اتار کر جانا معروف ہے اس سے انسان انتہا درجے کی عاجزی و انکساری کا اظہار کرتا ہے گویا کہ حضرت موسیٰں کو اسی وجہ سے یہ حکم دیا گیا۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ان کے جوتے مردار چمڑے وغیرہ کے بنے ہوئے تھے۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مدینہ منورہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک روضہ کی تعظیم و احترام میں، جس کے اندر تمام مخلوق سے بڑھ کر محترم ہستی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک و محترم جسم اقدس ہے، سواری پر سوار نہیں ہوتے تھے۔ احترامِ قبر ہی کی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشیر بن خصاصیہ کو، جب وہ جوتوں سمیت قبروں کے درمیان سے گذر رہے تھے، فرمایا: جب تو اس طرح کے محترم مقامات سے گذرے تو (تعظیماً) اپنا جوتا اتار لیا کر۔ پس وہ کہتے ہیں کہ میں نے جوتے اتار لئے۔‘‘

  1. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 11: 173

2۔ امام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

وقيل إنما أمره بخلع نعليه تعظيماً للبقعة، و قال سعيد بن جبير: کما يؤمر الرجل أن يخلع نعليه إذا أراد ان يدخل الکعبة.

’’بعض نے کہا ہے کہ اس مقدس وادی کی تعظیم کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جوتے اتارنے کا حکم دیا۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ کعبۃ اللہ میں داخل ہونے کے لئے جس طرح آدمی کو جوتے اتارنے کا حکم دیا جاتا ہے بالکل اسی طرح یہ حکم تھا۔‘‘

(1) ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 143

3۔ علامہ شوکانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

أمره اللہ سبحانه بخلع نعليه، لأن ذلک أبلغ فی التواضع، وأقرب إلی التشريف والتکريم وحسن التأدب.

’’اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جوتے اتارنے کا حکم اس وجہ سے دیا کہ اس میں زیادہ عاجزی و انکساری کا اظہار ہے اور (ایسا کرنا) تعظیم و تکریم اور حسنِ ادب کے قریب تر ہے۔‘‘

(1) شوکانی، فتح القدیر، 3: 358

4۔ علامہ زمخشری نے لکھا ہے:

والقرآن يدلّ علی أن ذلک احترامٌ للبقعة وتعظيم لها وتشريف لقدسها.

’’قرآن اس چیز پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کا جوتے اتارنا اس مقدس زمین کے ٹکڑے کے احترام اور اس کی تعظیم اور تقدیس و حرمت کے پیشِ نظر تھا۔‘‘

(2) زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، 3: 55

5۔ علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:

أمره بذالک لأن الحفوة تواضع و أدب و لذلک طاف السلف حافين.

’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جوتے اتارنے کا حکم اس لئے دیا کہ ننگے پاؤں چلنا ادب و انکساری کی علامت ہے یہی وجہ ہے کہ (بعض) اسلاف ننگے پاؤں زمین پر چلتے تھے۔‘‘

(3) بیضاوی، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، 3: 71

2۔ قبرستان کی تعظیم میں جوتے اُتارنے کا حکم

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمت کو قبرستان کے تعظیم و احترام میں جوتا اتارنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت بشیر بن خَصَاصِیَہص بیان کرتے ہیں:

کُنْتُ أمْشِی مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَمَرَّ عَلَی قُبُوْرِ الْمُسْلِمِيْنَ فَقَالَ: لَقَدْ سَبَقَ هَؤُلَاءِ شَرًّا کَثِيْرًا، ثُمَّ مَرَّ عَلَی قُبُوْرِ الْمُشْرِکِيْنَ فَقَالَ: لَقَدْ سَبَقَ هَؤُلَاءِ خَيْرًا کَثِيْرًا فَحَانَتْ مِنْهُ الْتِفَاتَةٌ فَرَأَی رَجُلًا يَمْشِی بَيْنَ الْقُبُوْرِ فِي نَعْلَيْهِ فَقَالَ: يَا صَاحِبَ السِّبْتِيَّتَيْنِ أَلْقِهِمَا.

’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا تو اسی اثناء ہم مسلمانوں کی قبروں پر گذرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک یہ لوگ بہت بڑی برائی سے بچ گئے، پھر مشرکین کے قبور سے گزرے تو فرمایا یہ لوگ بہت بڑی بھلائی سے محروم رہے۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے تشریف لے گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو قبروں کے درمیان جوتوں سمیت گزرتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا: اے جوتوں والے جوتے اتار دے۔‘‘

  1. نسائی، السنن، کتاب الجنائز، باب کراھیة المشی بین القبور فی النعال، 4: 96، رقم: 2048

  2. ابن ماجة، السنن، کتاب الجنائز، باب في خلع النعلین في المقابر، 1: 499، رقم: 1568

  3. ابن حبان، الصحیح، 7: 442، رقم: 3170

  4. بخاری، الأدب المفرد، 1: 289، رقم: 829

کسی متبرک مقام کی تعظیم میں جوتے اتار کر چلنا جائز ہے

ثابت ہوا کہ تعظیم بخلع النعال یعنی کسی متبرک جگہ جوتے اتار کر چلنا جائز ہے۔ جیسا کہ مساجد اور مزارات کے احاطے میں تمام مسلمان ادب و احترام کے پیش نظر اپنے جوتے اتار کر ننگے پاؤں داخل ہوتے ہیں۔ ایسا کرنا قرآن و احادیث کی نصوص سے ثابت ہے۔ یہ ایک جائز مستحسن عملِ تعظیم ہے جسے آج تک کسی نے ناجائز نہیں کہا۔

فصل ہفتم: بعض شرعی تعظیمات

جیسا کہ ہم نے گزشتہ فصول میں متعدد مقامات پر اس حقیقت کی وضاحت کی ہے کہ تعظیم و تکریم اسلامی آداب و ثقافت کا خاصہ ہے۔ سارے کا سارا دین ادب، محبت اور تعظیم ہے۔ توحید و رسالت جیسے بنیادی عقائد اس وقت تک ایمان بنتے ہی نہیں جب تک اللہ عزوجل اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اَدب و تعظیم اور محبت کا تعلق پیدا نہ ہو۔ تعظیم دراصل ایک ایسا جامع کلمہ ہے جس میں محبت، اَدب اور تکریم بیک وقت موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس تعلق کے اظہار کو شرعًا عبادت کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نازل شدہ کتب، اللہ تعالیٰ کے انبیاء و رسل، اُن کی اولاد، رفقاء اور قربت رکھنے والے جملہ رشتے بھی اسی نسبت کے سبب واجب الاحترام ہیں۔

قبل ازیں زیرِ نظر باب میں تعظیمِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ سے منسوب اشیاء کا ذکر تفصیل سے ہو چکا ہے۔ یہاں ہم بقیہ اہم شرعی تعظیمات کا اجمالی تذکرہ کر رہے ہیں جن میں قرآن، حدیث، صحابہ، اہلِ بیت اور اولیاء اللہث اور دیگر احباب و اشیاء کی تعظیمات شامل ہیں۔ ان تعظیمات کا یہاں ذکر کرنے کا مقصد تعظیم ثابت کرنا نہیں کیونکہ یہ تعظیمات تو ثابت شدہ ہیں اور ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہیں۔ مدعائے عرض یہ ہے کہ جس طرح یہ تعظیمات ہمارے دین کا حصہ ہیں اور ہم ان میں سے کسی کو شرک قرار نہیں دیتے اسی طرح قرآن و حدیث جیسی قابلِ تعظیم نعمتیں لانے والی ہستی یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں اولیاء و صالحین کی تعظیم کو شرک کیوں سمجھا جاتا ہے؟ اگر تعظیمِ رسالت و ولایت شرک ہے تو ان تعظیماتِ شرعیہ پر بھی شرک کا فتویٰ لگانا چاہئے۔ ذیل میں چند تعظیمات کا بالترتیب ذکر ہے:

1۔ تعظیمِ قرآن

قرآن حکیم نبی آخر الزماں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لئے سرچشمہ ہدایت ہے۔ شرعاً اس کی تعظیم واجب ہے۔ قرآن حکیم کے ادب و احترام اور تعظیم کے حوالے سے قرآن و حدیث کے احکامات درجہ ذیل ہیں:

1۔ قرآن حکیم کی تلاوت سننا اور اس کا احترام کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا قُرِءَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَo

’’اور جب قرآن پڑھا جائے اسے توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘

(1) الأعراف، 7: 204

2۔ تلاوتِ قرآن سے قبل تَعَوُّذْ پڑھنا واجب ہے، اِرشاد فرمایا:

فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِo

’’سو جب آپ قرآن پڑھنے لگیں توشیطان مردود (کی وسوسہ اندازیوں) سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں۔‘‘

(2) النحل، 16: 98

3۔ طہارت اور وضو کے ساتھ تلاوت شرط ہے، فرمایا:

إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌo فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍo لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَo تَنْزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَo

’’بیشک یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے (جو بڑی عظمت والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتر رہا ہے)۔ (اس سے پہلے یہ) لوحِ محفوظ میں (لکھا ہوا) ہے۔ اس کو پاک (طہارت والے) لوگوں کے سوا کوئی نہیں چُھوئے گا۔ تمام جہانوں کے ربّ کی طرف سے اتارا گیا ہے۔‘‘

(3) الواقعۃ، 56: 77۔80

4۔ ترتیل کے ساتھ، ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا آدابِ تلاوت میں سے ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًاo

’’اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں۔‘‘

(1) المزمل، 73: 4

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تلاوتِ قرآن کے ادب و تعظیم کی تعلیم فرمائی۔

1۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

لَيْسَ مِنْ مُؤَدَّبٍ إِلَّا وَهُوَ يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَی أَدَبُهُ، وَإِنَّ أَدَبَ اللهِ الْقُرْآنُ.

’’ہر مستحقِ اَدب یہ چاہتا ہے کہ اس کا ادب کیا جائے اور بیشک اللہ تعالیٰ کا ادب قرآن ہے۔‘‘

(2) دارمی، السنن، 2: 525، رقم: 3322

مذکورہ روایت میں قرآن کے ادب کو اللہ تعالیٰ کا ادب قرار دیا جا رہا ہے تو اس قولِ صحابی کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ حدیث کا ادب حضور علیہ السلام کا ادب ہے۔

2۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

إِنَّ هَذَا الْقُرآنَ نَزَلَ بِحُزْنٍ، فَإِذَا قَرَأْتُمُوهُ فَابْکُوا، فَإِنْ لَمْ تَبْکُوا، فَتَبَاکَوا، وَتَغَنَّوْا بِهِ، فَمَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِهِ فَلَيْسَ مِنَّا.

’’بے شک یہ قرآن غم سے لبریز نازل ہوا ہے، پس جب تم اسے پڑھو تو رویا کرو، اور اگر (دل کے سخت ہو جانے کے باعث) رو نہ سکو تم (کم اَز کم) رونے والی حالت ہی بنا لیا کرو، اور نغمگی کے ساتھ خوش اِلحانی سے اس کی تلاوت کیا کرو۔ پس جو نغمگی کے ساتھ قرآن کی تلاوت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘

  1. ابن ماجۃ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب حسن الصوت بالقرآن، 1: 424، رقم: 1337

  2. ابو یعلی، المسند، 2: 49، رقم: 689

3۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا:

يَا ابْنَ عَبَّاسٍ! إِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَرَتِّلْهُ تَرْتِيْلًا بَيِّنْهُ تَبْيِيْنًا وَلَا تَنْثُرْهُ نَثْرَ الدَّقَلِ وَلَا تَهُذُّهُ هَذَّ الشِّعْرِ، قِفُوْا عِنْدَ عَجَائِبِهِ وَحَرِّکُوْا بِهِ الْقُلُوْبَ وَلَا يَکُوْنَنَّ هَمُّ أَحَدِکُمْ آخِرَ السُّوْرَةِ.

’’اے ابنِ عباس! جب تم قرآن پڑھو تو اس کو ٹھہر ٹھہر کر اور الفاظ و حروف کو خوب واضح کرکے پڑھا کرو۔ اس کو ردی کھجور کے بکھیرنے کی طرح نہ بکھیر دیا کرو اور نہ ہی اسے جلدی سے شعر گوئی کی طرح پڑھا کرو۔ اس کے عجائبات پر توقف کیا کرو اور اس کے ذریعے اپنے دلوں کو حرکت دیا کرو اور تم میں سے کسی کا بھی ارادہ صرف آخری سورت تک پہنچنے کا نہیں ہونا چاہیے (کہ قرآن جلد ختم ہو جائے بلکہ اس کو غور و فکر اور تدبر کے ساتھ پڑھا کرو)۔‘‘

  1. دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 5: 361، رقم 8438

  2. بیہقی، السنن الکبری، 3: 13، رقم: 4492

قرآن حکیم کی تعظیم بجا لانا حکمِ الٰہی اور حکمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور ادب و احترام و غور و فکر سے اس کا پڑھنا، سننا ہر امتی پر لازم ہے۔

2۔ تعظیمِ حدیث

قرآن حکیم کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک اقوال و افعال جنہیں وحی خفی کا درجہ حاصل ہے اہلِ اسلام کے نزدیک حد درجہ قابلِ احترام ہیں۔ صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، ائمہ کرام رضی اللہ عنہم بالاتفاق قرآن حکیم کے بعد حدیثِ مبارکہ کو سرچشمہِ ہدایت قرار دیتے ہیں۔ اس لئے احادیث کی تعظیم و تکریم بھی دل و جان سے بجا لاتے رہے۔ قرآن کی طرح حدیث نبوی کی تعظیم کی اصل شکل اس کی تعلیمات کو حرزِ جاں بنانا ہے۔ بڑے بڑے ائمہِ دین نے حدیث نبوی کی تعظیم کو پوری زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ امام مالک رضی اللہ عنہ کا یہ معمول تھا کہ آپ درس حدیث سے پہلے غسل کرتے، عمدہ اور بیش قیمت لباس زیب تن کرتے، خوشبو لگاتے اور پھر ایک تخت پر نہایت عجز و انکساری سے بیٹھتے اور جب تک درس جاری رہتا انگیٹھی میں عود اور لوبان ڈالتے رہتے تھے۔

(1) ابن فرحون، الدیباج المذھب، 1: 23

1۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس درجہ حدیث کا احترام کرتے کہ درسِ حدیث کے درمیان کبھی پہلو نہیں بدلتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:

کنت عند مالک وهو يحدّثنا حديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، فلدغته عقرب بست عشرة مرّة، و مالک يتغير لونه و يصفر ولا يقطع حديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فلما فرغ من المجلس و تفرّق الناس، قلت: يا أبا عبد اللہ، لقد رأيت اليوم منک عجباً فقال: نعم! إنما صبرت إجلالًا لحديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’میں امام مالک کے ہاں حاضر تھا اور وہ ہمیں احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان فرما رہے تھے۔ اس اثناء ایک بچھو نے انہیں سولہ (16) بار ڈنگ مارا۔ امام مالک کا رنگ متغیرہوکر زرد ہوگیا لیکن انہوں نے حدیث مبارکہ کے بیان میں انقطاع نہ کیا۔ جب وہ مجلس سے اٹھے اور لوگ چلے گئے تو میں نے کہا: ابو عبد اللہ! آج میں نے آپ کے ساتھ عجیب معاملہ دیکھا ہے۔ انہوں نے فرمایا: ہاں! میرا اس تکلیف پر صبر کرنا (اپنی طاقت کی بناء پر نہ تھا بلکہ) محض حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کی تعظیم کی وجہ سے تھا۔‘‘

(2) ابن فرحون، الدیباج المذھب، 1: 23

2۔ باوضو طہارت کے ساتھ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ائمہِ اسلاف کا معمول تھا۔

(1) حضرت ابن ابی اویس بیان کرتے ہیں:

کان مالک إذا أراد أن يحدّث توضّأ و جلس علی فراشه، و سرّح لحيته، و تمکّن فی الجلوس بوقار وهيبة ثم حدّث، فقيل له فی ذلک فقال: أحبّ أن أعظّم حديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، ولا أحدّث به إلا علی طهارة متمکناً، و کان يکره أن يحدّث فی الطريق وهو قائم أو يستعجل، فقال: أحبّ أن أتفهم ما أحدّث به عن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جب حدیث بیان کرنے کا ارادہ فرماتے تو وضو کرتے اور مسند پر بیٹھ جاتے۔ اپنی داڑھی کو کنگھی کر کے سنوارتے اور مسند پر باوقار انداز کے ساتھ بیٹھ جاتے پھر حدیث بیان کرتے۔ اس اہتمام کے بارے میں اُن سے پوچھا گیا تو فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ کی تعظیم کو پسند کرتا ہوں اسی لئے بحالتِ وضو بیان کرتا ہوں۔ امام مالک راستے میں کھڑے کھڑے اور عجلت میں حدیث بیان کرنا بھی ناپسند کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سمجھ کر بیان کروں۔‘‘

  1. أبو نعیم، حلیۃ الاولیائ، 6: 318

  2. ابن جوزی، صفوۃ الصفوۃ، 2: 178

(2) حضرت ضریر بن مرۃ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:

کانوا يکرهون أن يحدّثوا عن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم وهم علی غير وضوئ.

’’ائمہ اسلاف حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بغیر وضو کے بیان کرنا ناپسند کرتے تھے۔‘‘

(1) رامھرمزی، المحدث الفاصل، 1: 586

(3) حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:

يستحب أن لا تقرأ أحاديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم إلا علی طهارة.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کو طہارت کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔‘‘

  1. أبو نعیم أصبہانی، حلیة الاولیائ، 2: 335

  2. ذہبی، سیر أعلام النبلائ، 5: 274

(4) حضرت ابو معصب سے روایت ہے:

کان مالک لا يحدّث بحديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم إلا وهو علی الطهارة إجلالًا لحديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’امام مالک رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کی وجہ سے طہارت کے بغیر کبھی بھی بیان نہیں کرتے تھے۔‘‘

  1. أبو نعیم أصبہانی، حلیۃ الأولیائ، 6: 318

  2. ذھبی، سیر أعلام النبلائ، 8: 96

3۔ محمد بن سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ المطلب بن حنظب، سعید بن المسیب کی بیماری میں ان کے پاس آئے جبکہ آپ لیٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے آپ سے حدیث کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

أقعدونی، فأقعدوه قال: إنی أکره ان أحدّث حديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم وأنا مضطجع.

’’مجھے اٹھا کر بٹھاؤ پس انہوں نے آپ کو اٹھا کر بٹھایا، آپ نے کہا: میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیٹے ہوئے بیان کرنا ناپسند کرتا ہوں۔‘‘

  1. أبو نعیم أصبہانی، حلیۃ الأولیائ، 2: 169

  2. ابن جوزی، صفوۃ الصفوۃ، 2: 80

مذکورہ بالا احادیث اور ائمہ محدثین کی تصریحات سے یہ امر مترشح ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی احادیث مبارکہ کی فی نفسہ تعظیم و احترام بجا لانا منشائِ شریعت ہے، اس کے خلاف عقیدہ رکھنا باطل اور کذب ہے۔

3۔ تعظیمِ اہلِ بیتِ اَطہار

آقائے دوجہاں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آلِ پاک اور اہلِ بیتِ اطہارث کا ادب و تعظیم نصِ قرآنی سے ثابت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌo

’’فرما دیجئے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (اپنی اور اللہ کی) قرابت و قربت سے محبت (چاہتا ہوں) اور جو شخص نیکی کمائے گا ہم اس کے لئے اس میں اُخروی ثواب اور بڑھا دیں گے۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا قدر دان ہے۔‘‘

(2) الشوریٰ، 42: 23

اہلِ بیت کی تعظیم کے بیان میں چند احادیثِ مبارکہ درجہ ذیل ہیں:

1۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک دن مقامِ خُم پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کو وعظ و نصیحت کرنے کے بعد فرمایا:

أَ لَا أَيُهَا النَّاسُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوْشِکُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيْبَ، وَأَنَا تَارِکٌ فِيْکُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا کِتَابُ اللهِ فِيْهِ الْهُدَی وَالنُّوْرُ فَخُذُوْا بِکِتَابِ اللهِ. وَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ. فَحَثَّ عَلَی کِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيْهِ. ثُمَّ قَالَ: وَأَهْلُ بَيْتِي. أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي.

’’لوگو سن لو! میں تو بس ایک آدمی ہوں عنقریب میرے رب کا بھیجا ہوا (ملک الموت یعنی عزرائیل علیہ السلام میرے پاس) آئے گا اور میں اسے لبیک کہوں گا۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں: ان میں سے پہلی اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے، اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتاب اللہ (کی تعلیمات پر عمل کرنے) پر ابھارا اور اس کی ترغیب دی پھر (دوسری چیز کے بارے میں) فرمایا: اور (دوسرے) میرے اہلِ بیت ہیں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔‘‘

  1. مسلم، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علی بن أبي طالب، 4: 1873، رقم: 2408

  2. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 366، رقم: 19265

2۔ حضرت حنش بیان کرتے ہیں:

رَأيْتُ أبَا ذَرٍّ أخَذَ بِعِضَادَتَي بَابِ الْکَعْبَةِ وَ هُوَ يَقُوْلُ: مَنْ عَرَفَنِي فَقَدْ عَرَفَنِي وَمَنْ لَمْ يَعْرِفْنِي فَأنَا أبُوْ ذَرٍّ الغِفَارِيُّ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَثَلُ أهْلِ بَيْتِيْ کَمَثَلِ سَفِيْنَةِ نُوْحٍ فِي قَوْمِ نُوْحٍ، مَنْ رَکِبَهَا نَجَا وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هَلَکَ.

’’میں نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ کعبہ کی دونوں چوکھٹوں کو پکڑ کر کہہ رہے تھے جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اورجو نہیں جانتا جان لے کہ میں ابوذر غفاری ہوں۔ میںنے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفرماتے سنا کہ میرے اہلِ بیت کی مثال قومِ نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔‘‘

(1) طبرانی، المعجم الکبیر، 3: 45، رقم: 2637

3۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أحِبُّوا اللهَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِهِ، وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اللهِ، وَأحِبُّوْا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي.

’’تم اللہ کے ساتھ اس کی ان نعمتوں کی وجہ سے محبت کیا کرو جو اس نے تم پر کی ہیں اور اللہ کی محبت کی وجہ سے میرے ساتھ محبت کیا کرو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہلِ بیت کے ساتھ محبت کیا کرو۔‘‘

  1. ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب مناقب أھل بیت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 5: 664، رقم: 3789

  2. حاکم، المستدرک، 3: 162، رقم: 4716

حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مبارک فرمان میں اللہ تعالیٰ، اپنی اور اپنے اہلِ بیت کی محبت کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ جو اللہ رب العزت سے محبت کا دعویٰ دار ہے وہ حضور علیہ السلام سے محبت کرے اور جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے وہ اہلِ بیت سے محبت کرے۔ جب کوئی شخص تینوں ذاتوں سے محبت کرے گا تب اس کے ایمان کا حق ادا ہوگا۔ ان تینوں محبوں اور محبتوں میں ہرگز بھی جدائی اور فراق نہیں۔

4۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أَنْزِلُوْا آلَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ وَبِمَنْزِلَةِ الْعَيْنِ مِنَ الرَّأْسِ، فَإِنَّ الْجَسَدَ لَا يَهْتَدِي إِلَّا بِالرَّأْسِ وَإِنَّ الرَّأْسَ لَا يَهْتَدِي إِلَّا بِالْعَيْنَيْنِ.

’’آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (اپنے درمیان) وہ مقام اور درجہ دو جو مقام جسم میں سر کا، اور سر میں آنکھ کا ہوتا ہے، کیونکہ جسم، سر کے ذریعہ رہنمائی پاتا ہے اور سر آنکھوں کے ذریعہ رہنمائی حاصل کرتا ہے۔‘‘

(1) طبرانی، المعجم الکبیر، 3: 46، رقم: 2640

یاد رکھیں کہ جس طرح آنکھیں سر کی رہنمائی کرتی ہیں اور بھٹکنے سے محفوظ رکھتی ہیں، ان کی وجہ سے پھر سر جسم کی رہنمائی کرتا ہے اسی طرح اہلِ بیتِ اطہار کے ساتھ نسبت اور تعلق انسان کو گمراہی اور ضلاحت سے محفوظ رکھنے کا باعث بنتی ہے۔

5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسن و حسین اور سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہم کی طرف دیکھا اور فرمایا:

أنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَکُمْ وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَکُمْ.

’’جو تم سے جنگ کرتا ہے میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور جو تم سے صلح رکھتا ہے میں اس سے صلح رکھتا ہوں۔‘‘

(2) طبرانی، المعجم الکبیر، 3: 40، رقم: 2621

مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے اہلِ بیت سے محبت کرنا، ان کو رہنما ماننا اور ان کی تعظیم و احترام بجا لانا واجب اور لازم ہے لہٰذا اِن کی تعظیم کو شرک اور بدعت کہنا خلافِ قرآن و سنت ہے۔

4۔ تعظیمِ صحابہ کرام

حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت و تربیت پانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم وتکریم کرنا بھی امت پر واجب ہے۔

1۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ.

’’میرے صحابہ کو برا مت کہو۔ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو پھر بھی وہ ان کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لو کنت متخذًا خلیلًا، 3: 1343، رقم: 3470

  2. مسلم، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب تحریم سبّ الصحابۃ، 4: 1967، رقم: 2540

2۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِيْنَ يَسُبُّوْنَ أَصْحَابِي فَقُوْلُوْا: لَعْنَةُ اللهِ عَلَی شَرِّکُمْ.

’’جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو تم (انہیں) کہو: تمہارے شر پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔‘‘

  1. ترمذی، السنن، کتاب المناقب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب ما جاء فی فضل من رَأی النَّبِيَ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَ صَحِبَهُ، 5: 697، رقم: 3866

  2. طبرانی، المعجم الأوسط، 8: 191، رقم: 8366

  3. دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 1: 263، رقم: 1022

3۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ.

’’جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر اللہ تعالیٰ کی، تمام فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔‘‘

  1. طبرانی، المعجم الکبیر، 12: 111، رقم: 12709

  2. طبرانی، المعجم الأوسط، 5: 94، رقم: 4771

  3. ابن أبی شیبۃ، المصنف، 6: 405، رقم: 32419 (حضرت عطاء بن أبی رباح سے روایت ہے۔)

مذکورہ بالا احادیث سے یہ امر مترشح ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم و احترام بجا لانا واجب ہے اور اِن کے باہمی مشاجرات (اختلافات )کے باعث اِن کی سُوءِ ادبی حرام ہے۔

5۔ تعظیمِ اَولیاء اللہ

اللہ تعالیٰ کے مقرب اولیائے کرام اور صلحائے عظام رضی اللہ عنہم بھی از روئے قرآن و حدیث تعظیم و احترام کے مستحق ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:

وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلاَمَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًاo

’’اور وہ جو دیوارتھی تو وہ شہر میں (رہنے والے) دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لئے ایک خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا، سو آپ کے رب نے ارادہ کیا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے وہ اپنا خزانہ (خود ہی) نکالیں، اور میں نے (جو کچھ بھی کیا) وہ از خود نہیں کیا، یہ ان (واقعات) کی حقیقت ہے جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔‘‘

(1) الکہف، 18: 82

قرآن مجید دل بہلانے والی کہانیوں کا مجموعہ نہیں ہے کہ اس میں پیغمبرانہ واقعات پڑھ کر انسان محض محظوظ ہو، بلکہ اس کی ہر آیت اور لفظ حتی کہ حرف میں انسان کیلئے تعلیم اور حکمت کے مختلف پہلو مضمر ہیں۔ مذکورہ آیت میں بھی ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ’صالحین کی نسبت‘ غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ اور خضر علیہما السلام ایک بستی میں گئے جس کے رہنے والوں نے ان کی میزبانی سے انکار کر دیا، مگر اس کے باوجود حضرت خضر علیہ السلام نے وہاں پر ایک کمزور دیوار کو مضبوط کر دیا۔ مذکورہ آیت میں اس کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ وہ دیوار دو یتیم بچوں کی تھی جن کا باپ ’’صالح‘‘ تھا۔ پس بچوں کی اسی نسبت کی بدولت حضرت خضر علیہ السلام نے اس دیوار کو درست کر دیا۔

1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ قَالَ: مَنْ عَادَی لِي وَلِيّاً، فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِيِ بِشَيئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي، يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّی أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحَْبَبْتُهُ: کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وإنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيئٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ، يَکْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَهُ مَسَاءَ تَهُ.

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اُس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔ میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو، اور میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعے میرا قرب برابر حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی اس طرح متردد نہیں ہوتا جیسے بندہِ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں۔ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب التواضع، 5: 2384، رقم: 6137

  2. ابن حبان، الصحیح، 2: 58، رقم: 347

  3. بیہقی، السنن الکبری، 10: 219

2۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللهِ لَأُنَاسًا مَا هُمْ بِأَنْبِيَاءَ وَلَا شُهَدَاءَ يَغْبِطُهُمُ الْأَنْبِيَائُ وَالشُّهَدَائُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمَکَانِهِمْ مِنَ اللهِ. قَالُوا: يَا رَسُوْلَ اللهِ تُخْبِرُنَا مَنْ هُمْ؟ قَالَ: هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوْا بِرُوحِ اللهِ عَلَی غَيْرِ أَرْحَامٍ بَيْنَهُمْ، وَلَا أَمْوَالٍ يَتَعَاطُوْنَهَا، فَوَاللهِ إِنَّ وُجُوهَهُمْ لَنُوْرٌ وَإِنَّهُمْ لَعَلَی نُوْرٍ، لَا يَخَافُوْنَ إِذَا خَافَ النَّاسُ، وَلَا يَحْزَنُوْنَ إِذَا حَزِنَ النَّاسُ، وَقَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ: {أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَآءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ}.

’’بے شک اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے برگزیدہ بندے ہیں جو نہ انبیاء کرام ہیں نہ شہدائ، قیامت کے دن انبیاء کرام علیھم السلام اور شہداء ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ مقام دیکھ کر اُن پر رشک کریں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں ان کے بارے میں بتائیں کہ وہ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ ایسے لوگ ہیں جن کی باہمی محبت صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوتی ہے نہ کہ رشتہ داری اور مالی لین دین کی وجہ سے۔ اللہ رب العزت کی قسم! ان کے چہرے پر نور ہوں گے اور وہ نور (کے ٹیلوں) پر ہوں گے، انہیں کوئی خوف نہیں ہوگا جب لوگ خوفزدہ ہوں گے، انہیں کوئی غم نہیں ہوگا جب لوگ غم زدہ ہوں گے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے}۔‘‘

  1. یونس، 10: 62

  2. ابو داود، السنن، کتاب البیوع، باب فی الرھن، 3: 288، رقم: 3527

  3. نسائی، السنن الکبری، سورۃ یونس، 6: 362، رقم: 11236

3۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ مِنَ النَّاسِ مَفَاتِيْحَ لِذِکْرِ اللهِ إِذَا رُؤُوْا ذُکِرَ اللهُ.

’’یقینا بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کنجیاں ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آجاتا ہے۔‘‘

  1. طبرانی، المعجم الکبیر، 10: 205، رقم: 10476

  2. بیہقی، شعب الإیمان، 1: 455، رقم: 499

  3. ابن أبی الدنیا، کتاب الأولیائ، 1: 17، رقم: 26

  4. ہیثمی، مجمع الزوائد، 10: 78، وَصَحَّحَهُ

’’جامع کرامات الاولیاء‘‘ (1: 93) از ھبۃ اللہ بن الحسن لالکائی (م 418ھ) میں اولیاء اللہ کی تعظیم کے حوالے سے ایک مستقل باب قائم ہے۔ جس کا عنوان ہے: باب ما روي عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم في تعظیم اولیاء اللہ عزوجل ’’اولیاء کی تعظیم کے باب میں وارد ہونے والی احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان۔‘‘

مذکورہ احادیث سے ثابت ہوا کہ وہ مقربین و صالحین جنہیں اللہ کے اولیاء قرار دیا گیا ہے جن کے دیدار فرحتِ آثار سے یادِ الٰہی نصیب ہوتی ہے اُن کا ادب و احترام اور تعظیم و تکریم واجب ہے، اور ان کی تعظیم بجالانا ہرگز شرک نہیں بلکہ منشاءِ شریعت ہے۔

6۔ تعظیمِ اَکابرین و مشائخ

یہ ایک حقیقت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خدمت کی نسبت سے علمائے ربانی اور مشائخ حقانی کی تعظیم و احترام بجا لانا منشاء اِسلام ہے۔ اِن کی تعظیم کو شرک کہنا باطل اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔ اکابر علماء اور مشائخ کی تعظیم درج ذیل احادیث سے ثابت ہے۔

1۔ حضرت صہیب ص، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے، بیان کرتے ہیں:

رَأَيْتُ عَلِيًّا يُقَبِّلُ يَدَ الْعَبَّاسِ وَ رِجْلَيْهِ وَ يَقُوْلُ: يَا عَمِّ ارْضَ عَنِّي.

’’میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں چومتے دیکھا اور آپ ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے: چچا جان! مجھ سے راضی ہو جائیں۔‘‘

  1. بخاری، الأدب المفرد، 1: 339، رقم: 976

  2. مزی، تہذیب الکمال، 13: 240، رقم: 2905

  3. مقری، تقبیل الید، 1: 76، رقم: 15

2۔ حضرت ایاس بن دغفل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

رَأَيْتُ أَبَا نَضْرَةَ قَبَّلَ خَدَّ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ.

’’میں نے ابو نضرہ کو دیکھا کہ انہوں نے حضرت حسن بن علی علیھما السلام کے رُخسار مبارک پر بوسہ دیا۔‘‘

  1. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب فی قبلۃ الخدّ، 4: 356، رقم: 5221

  2. بیہقی، السنن الکبری، 7: 101، رقم: 13361

  3. ابن أبی شیبۃ، المصنف، 5: 247، رقم: 25733

3۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

أَنَّهُ کُلَّمَا قَدِمَ الشَّامَ اسْتَقْبَلَهُ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ، فَقَبَّلَ يَدَهُ.

’’وہ جب بھی شام آتے تو حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ آپ کا استقبال کرتے اور آپ کی دست بوسی کرتے۔‘‘

(2) بیہقی، شعب الإیمان، 6: 476، رقم: 8965

4۔ شعبی سے روایت ہے:

صَلّی زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ عَلَی جَنَازَةٍ فَقُرِبَتْ لَهُ بَغْلَةٌ لِيَرْکَبَهَا فَجَاءَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَخَذَ بِرِکَابِهِ فَقَالَ لَهُ زَيْدٌ: خَلِّ عَنْهُ يَا ابْنَ عَمِّ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَکَذَ أُمِرْنَا أنْ نَفْعَلَ بِاْلعُلَمَاءِ وَ الْکُبَرَاءِ، فَقَبَّلَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ يَدَهُ وَ قَالَ هَکَذَا أُمِرْنَا أَنْ نَفْعَلَ بِأَهْلِ بَيْتِ نَبِيِّنَا.

’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک جنازے پر نماز پڑھی پھر سواری کے لیے خچر لایا گیا تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر (ادباً) اس کی رکاب تھام لی۔ یہ دیکھ کر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کے بیٹے، آپ اسے چھوڑ دیں۔ اس پر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہمیں علماء و اکابر کے ساتھ اسی طرح عزت واحترام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس پر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی (تعظیماً) دست بوسی کی اور فرمایا: ہمیں اپنے نبی کے اہلِ بیت سے اسی برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘

  1. غزالی، إحیاء علوم الدین، 1: 50

  2. ابن سعد، الطبقات الکبری، 2: 360

  3. ابن حجر عسقلانی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 2: 594

دونوں جلیل القدر صحابی اور اہلِ بیت کے فرد کے درمیان تعلق پر غور فرمائیں، حضورں کے گھرانے سے نسبت رکھنے والے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے صحابيِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت زید رضی اللہ عنہ کی سواری کی رکاب ادباً اس لئے تھامی کہ وہ علم اور عمر میں اُن سے بڑے تھے، جبکہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ اس حوالے سے چھوٹے تھے لیکن حضرت زید نے اُن کا ہاتھ تعظیماً اس لئے چوما کہ اُن کا تعلق اہلِ بیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہے۔ دونوں حضرات کی پیروی کرتے ہوئے آج ہمیں اہلِ بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اسی ادب اور تعظیم کا رشتہ استوار کرنے کی ضرورت ہے، تب ہی ہمیں دنیا و آخرت میں فلاح نصیب ہوگی۔

5۔ حضرت شریک نے حضرت سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

إِنَّ مِنْ حَقِّ الْعَالِمِ أَلَا تکْثِر عَلَيْهِ بِالسُّؤَالِ، وَ لَا تُعَنِّتَهُ فِی الْجَوَابِ، وَ أَنْ لَا تُلِحَّ عَلَيْهِ إِذَا کَسَلَ، وَ لَا تَأْخُذَ بِثَوْبِهِ إِذَا نَهَضَ، وَ لَا تَغْشِي لَهُ سِرًا، وَ لَا تَغْتَابَنَّ أَحَدًا عِنْدَهُ، وَ لَا تَطْلُبَنَّ عِشْرَتَهُ، وَ إِنْ زَلَّ قَبِلْتَ مَعْذِرَتَهُ، وَ عَلَيْکَ أَنْ تُوَقِّرَهُ وَ تُعَظِّمَهُ ِﷲِ مَادَامَ يَحْفَظُ أَمْرَ اللهِ، وَلَا تَجْلِسْ أَمَامَهُ، وَإِنْ کَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ سَبَقْتَ الْقَوْمَ إِلَی خِدْمَتِهِ.

’’عالم کے حقوق میں یہ شامل ہے کہ

  1. اس سے زیادہ سوالات نہ کئے جائیں۔
  2. جواب میں اس پر سختی نہ کی جائے۔
  3. جب وہ غفلت کرے تو اصرار نہ کیا جائے۔
  4. جب وہ مجلس کے بعد اٹھ جائے تو اس کے کپڑے نہ پکڑے جائیں۔
  5. اس کے راز کو افشا نہ کیا جائے۔
  6. اس کے سامنے کسی کی غیبت نہ کی جائے۔
  7. زبردستی اس کی صحبت اختیار کرنے کا تقاضانہ کیا جائے۔
  8. اگر وہ جواب سے معذوری ظاہر کرے تو معذرت قبول کی جائے۔
  9. تجھ پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس کی تعظیم و توقیر کرے جب تک وہ اللہ تعالیٰ کے امر کو محفوظ کرتا ہے۔
  10. اس کے سامنے (بے ادبی کی حالت میں) نہ بیٹھا جائے اور
  11. اگر اس کی کوئی ضرورت ہو تو اس کی خدمت کے لئے لوگوں کو ایک دوسرے سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے۔‘‘
  12. غزالی، إحیاء علوم الدین، 1: 51

    قاضی عیاض، الإلماع إلی معرفۃ أصول الروایۃ وتقیید السماع، 1: 48

    ہندی، کنز العمّال، 1: 523، رقم: 29520

7۔ تعظیمِ والدین

والدین کی تعظیم و تکریم اور ادب و احترام پر قرآن و حدیث میں متعدد ارشادات ہیں۔ یہاں پر قرآن حکیم سے چند ارشادات نقل کئے جاتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

1. وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِىْ إِسْرَائِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً

’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اولادِ یعقوب سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔‘‘

(1) البقرۃ، 2: 83

2. وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًاo

’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اُف‘‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔‘‘

(2) بنی اسرائیل، 17: 23

وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا...

’’اور ہم نے انسان کو اس کے والدین سے نیک سلوک کا حکم فرمایا اور اگر وہ تجھ پر(یہ) کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کر...۔‘‘

(3) العنکبوت، 29: 8

4. وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُo

’’اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (نیکی کا) تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے (اسے یہ حکم دیا) کہ تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ (تجھے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘

(1) لقمان، 31: 14

مذکورہ بالا قرآنی آیات سے یہ ثابت ہوا کہ والدین کی تعظیم اور احترام بجالانا واجب ہے، شرک نہیں ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی والدین کی تعظیم و تکریم اور ادب و احترام کا حکم دیا۔ چند ایک احادیث درج ذیل ہیں:

1۔ حضرت عبداللہ بن مسعودص بیان کرتے ہیں:

سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللهِ؟ قَالَ: اَلصَّلَاةُ عَلَی وَقْتِهَا. قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: بِرُّ الْوَالِدَيْنِ. قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: اَلْجِهَادُ فِي سَبِيْلِ اللهِ.

’’میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: للہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: والدین سے حسن سلوک کرنا۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب البر والصلۃ، 5: 2227، رقم: 5625

  2. مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان کون الإیمان باللہ تعالی أفضل الأعمال، 1: 89، رقم: 85

  3. نسائی، السنن، کتاب المواقیت، باب فضل الصلاۃ لمواقیتھا، 1: 292، رقم: 610

2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا:

يَارَسُوْلَ اللهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: أُمُّکَ. قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّکَ. قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّکَ. قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبُوکَ.

’’یا رسول اللہ! لوگوں میں میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا: تمہاری والدہ۔ انہوں نے عرض کیا: پھر کون ہے؟ فرمایا: تمہاری والدہ۔ انہوں نے عرض کیا: پھر کون ہے؟ فرمایا: تمہاری والدہ ہے۔ انہوں نے عرض کیا: پھر کون ہے؟ فرمایا: پھر تمہارا والد۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب من أحقّ الناس بحسن الصحبۃ، 5: 2227، رقم: 5626

  2. مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب بر الوالدین و انھما أحق بہ، 4: 1974، رقم: 2548

  3. ابن ماجۃ، السنن، کتاب الأدب، باب بر الوالدین، 2: 1207، رقم: 6094

3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

رَغِمَ أَنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ. قِيْلَ: مَنْ؟ يَا رَسُوْلَ اللهِ! قَالَ: مَنْ أَدْرَکَ أَبَوَيْهِ عِنْدَ الْکِبَرِ، أَحَدَهُمَا أَوْ کِلَيهِمَا، فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ.

’’اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! وہ کون شخص ہے؟ فرمایا: جس نے اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہیں ہوا۔‘‘

  1. مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب زَغِمَ أنْفُ من أدرک أبویہ...، 4: 1978، رقم: 2551

  2. دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 2: 276، رقم: 3280

  3. بیہقی، شعب الإیمان، 6: 195، رقم: 7884

4۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:

أُبَايِعُکَ عَلَی الْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ، أَبْتَغِي الأَجْرَ مِنَ اللهِ، قَالَ: فَهَلْ مِنْ وَالِدَيْکَ أَحَدٌ حَيٌّ؟ قَالَ: نَعَمْ. بَلْ کِلَاهُمَا. قَالَ: فَتَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَارْجِعْ إِلَی وَالِدَيْکَ فَأَحْسِنْ صُحْبَتَهُمَا.

’’میں آپ سے جہاد اور ہجرت کی بیعت کرنا چاہتا ہوں، (اور) میں اللہ تعالیٰ سے(اس کا) اجر و ثواب چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں بلکہ دونوں زندہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے والدین کے پاس لوٹ جا اور ان سے اچھا سلوک کر۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب لا یجاھد إلا بإذن الأبوین، 5: 2227، رقم: 5627

  2. مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب بر الوالدین وأنھما أحق بہ، 4: 1975، رقم: 2549

  3. ابو داود، السنن، کتاب الجہاد، باب فی الرجل یغزو وأبواہ کارھان، 3: 17، رقم: 2528- 2529

  4. نسائی، السنن، کتاب البیعۃ، باب البیعۃ علی الھجرۃ، 7: 143، رقم: 4163

5۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أَبَرُّ البِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ وُدَّ أَبِيهِ وَ فِي رِوَايَةٍ: إِنَّ مِنْ أَبَرِّ البِرِّ صِلَةَ الرَّجُلِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ بَعدَ أَنْ يُوَلِّيَ.

’’سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والد کے دوستوں سے نیکی کرے اور ایک روایت میں ہے کہ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باپ کے وفات پا جانے کے بعد اس کے دوستوں سے نیکی کرے۔‘‘

  1. مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل صلۃ أصدقاء الأب والأم ونحوھما، 4: 1979، رقم: 2552

  2. طبرانی، المعجم الأوسط، 8: 72، رقم: 7997

  3. بیہقی، السنن الکبری، 4: 180، رقم: 7557

6۔ حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: میں جہاد کا مشورہ لینے کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أَلَکَ وَالِدَانِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: اِلْزَمْهُمَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ أَرْجُلِهِمَا.

’’کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں (زندہ ہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہی کے ساتھ رہو کہ جنت ان کے قدموں تلے ہے۔‘‘

  1. طبرانی، المعجم الکبیر، 2: 289، رقم: 2202

  2. منذری، الترغیب و الترھیب، 3: 216، رقم: 3750

لمحہِ فکریہ

والدین کا حق اولاد پر یہ ہے کہ اولاد انہیں اُف تک نہیں کہہ سکتی، جھڑک نہیں سکتی، بلکہ والدین کے سامنے انہیں نرم و دھیمے لہجہ میں بات کرنے کا پابند کیا گیا ہے تو وہ ذاتِ اقدس جو اسلام و ایمان اور سلوک و وصول کا ذریعہ اور واسطہ ہو۔ عذابِ دوزخ سے نجات اور جنت کی ابدی راحتوں اور آسودگیوں کے حصول کا وسیلہ اور سبب ہو اور روحانی ترقی اور دارین میں عظمت و عزت کے ساتھ مختص ہونے اور کونین میں شرف و بزرگی کے ساتھ بہرہ ور ہونے کے ضامن و کفیل ہو، ان کا ادب و احترام اور تعظیم و تکریم کس قدر لازم اور ضروری ہوگی۔ جو مالک الملک ان مادی اور جسمانی وسیلوں کی ایذاء و تکلیف اور اساء ت و بے ادبی گوارا نہیں فرماتا وہ ارحم الراحمین رب ایسے روحانی اور نورانی وسائل و ذرائع اور اسباب و وسائط کی ایذاء و تکلیف اور بے ادبی و گستاخی اور ان کے حضور جسارت و بے باکی کو کیونکر گوارا فرمائے گا۔ اگر والدین، اولاد کی پرورش اور تربیتِ جسمانیہ کے لئے محنت و مشقت برداشت کریں اور مختلف النوع تکالیف و مصائب کے متحمل ہوں تو ان کے احسانات کا بدلہ چکانے کے لئے اللہ عزوجل اپنی عبادت کے وجوب و لزوم کے ساتھ ہی ان کے ساتھ نیکی بھلائی اور اخلاص و خیرخواہی اور ادب و حسن سلوک کا حکم فرمائے تو رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنہوں نے ہمیں ایمان و اسلام عطا کرنے کے لئے اور جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سے بچانے کے لئے، جنت کی ابدی راحتوں تک پہنچانے کے لئے اور بارگاہِ ربانی کے حریم قدس میں مسند کرامت پر بٹھانے کے لئے کیا کیا مصائب و آلام برداشت کئے۔ پتھر کھائے، تلواروں کے وار سہے، زخمی اور لہو لہان ہوئے، وطن سے بے وطن ہوئے، شب و روز سجدہ میں گر کر ہماری مغفرت و بخشش کے لئے دعائیں فرمائیں اور اب بھی مزارِ پُر انوار میں اُمت کے لئے دعا گو ہیں اور مغفرتِ ذنوب اور تکفیر سیئات اور عفو گناہ کے لئے دست بہ دعا ہیں اور روزِ قیامت کبھی پل صراط پر، کبھی میزان کے پاس اور کبھی حوضِ کوثر پر اپنے دستِ کرم سے جام کوثر پلا کر ہمیشہ کے لئے پیاس کی مشقت سے خلاصی دلانے کے لئے اور شفاعت و سفارش کرنے کے لئے موجود ہوں گے، تو کیا ایسے سراپا رحمت محبوبِ رب العالمین نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ و اہل بیت اور اولیاء اللہ کا ادب و احترام اور عزت و توقیر اللہ تعالیٰ کے نزدیک واجب و لازم نہیں ہوگی۔ کیا رب العالمین ان کی تعظیم و تکریم کو اپنی بارگاہ میںتوسل قرار دینے کے بجائے کفر و شرک ٹھہرائے گا؟ معاذ اللہ ہرگز ایسا نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ سخت طغیان و عدوان میں مبتلا ہیں۔

اَنبیاء و رسل عظام بلکہ تمام مقربینِ الٰہی کا ادب و احترام، تکریم و تعظیم جانِ اسلام اور روحِ ایمان ہے۔ توحید کی شہادت اور اللہ رب العزت کی عبادت تعظیم رسالت کے بغیر قطعاً قابلِ قبول اور لائق اعتبار نہیں۔ کیونکہ انکارِ تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکارِ تعظیم الٰہی کے مترادف ہے۔ایسا تصورِ توحید جو انبیاء و اولیاء کی تکریم سے بے نیاز کر دے درست نہیں ہے۔ اولیاء و عرفاء سے عداوت اور کدورت و نفرت ایمان کی تباہی و بربادی کا موجب ہے۔

8۔ تعظیمِ شہورِ مقدسہ

مقدس مہینوں کی حرمت اور تعظیم نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے۔ رجب، ذو القعدہ، ذوالحجہ اور محرم کی حرمت کو قرآنِ حکیم میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے، ارشادِ ربانی ہے:

1. إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلاَ تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ...

’’بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتہِ قدرت) میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین (کے نظام) کو پیدا فرمایا تھا۔ ان میں سے چار مہینے (رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے سو تم ان مہینوں میں (از خود جنگ و قتال میں ملوث ہو کر) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرنا...۔‘‘

(1) التوبۃ، 9: 36

2. الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ....

’’حرمت والے مہینے کے بدلے حرمت والا مہینہ ہے اور (دیگر) حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کا بدل ہیں...۔‘‘

(1) البقرۃ، 2: 194

3. يَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ کَبِيْرٌ.

’’لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے۔‘‘

(2) البقرۃ، 2: 217

4. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّهِ وَلاَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ.

’’اے ایمان والو! اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت (و ادب) والے مہینے کی (یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب میں سے کسی ماہ کی)۔‘‘

(3) المائدۃ، 5: 2

5. جَعَلَ اللّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلاَئِدَ

’’اللہ نے عزت (و ادب) والے گھر کعبہ کو لوگوں کے (دینی و دنیوی امور میں) قیام (امن) کا باعث بنا دیا ہے اور حرمت والے مہینے کو اور کعبہ کی قربانی کو اور گلے میں علامتی پٹے والے جانوروں کو بھی (جو حرم مکہ میں لائے گئے ہوں سب کو اسی نسبت سے عزت و احترام عطا کر دیا گیا ہے)۔‘‘

(4) المائدۃ، 5: 97

مذکورہ بالا قرآنی آیات کی رو سے حرمت والے مہینے رجب، ذو القعدہ، ذوالحجہ اور محرم کی تعظیم و تکریم واجب ہے اور ان مہینوں میں کسی قسم کی جنگ، شرانگیزی اور فتنہ و فساد پھیلانا سوءِ ادب ہے۔ ان مہینوں کے اندر مخصوص نوافل و اوراد پڑھنے کی فضیلت پر ائمہِ محدّثین نے کتب بھی لکھی ہیں۔

9۔ تعظیمِ اَیامِ مقدسہ

اللہ رب العزت نے جس طرح سال کے مہینوں میں سے 4 مہینوں کو محترم و مقدس قرار دیا اور ان کی تعظیم و تکریم اہلِ اسلام پر واجب فرمائی اسی طرح مہینوں کے بعض ایام کو بھی فضیلت حاصل ہے اور کسی نہ کسی مقدس نسبت کی وجہ سے ان کی تعظیم بھی واجب ہے۔ ان مقدس ایام میں سے چند درج ذیل ہیں۔

(1) پیر اور جمعرات کے دن کی تعظیم

پیر کا دن بڑی فضیلت والا ہے، یہی وہ مبارک دن ہے جس میں تاجدارِ کائنات، سید المرسلین، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی، اسی بابرکت نسبتِ جلیلہ کی وجہ سے پیر کے دن کی تعظیم میں روزہ رکھنا باعثِ فضیلت ہے۔

1۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الْاِثْنَيْنِ. فَقَالَ: فِيْهِ وُلِدْتُّ وَفِيْهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ.

’’حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے سے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسی روز میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔‘‘

  1. مسلم، الصحیح، کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃ أیام من کل شہر...، 2: 820، رقم: 1162

  2. أبوداود، السنن، کتاب الصوم، باب فی الصوم الدھر تطوعاً، 2: 322، رقم: 2426

  3. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 299، رقم: 22603

پیر اور اور جمعرات کے دن اعمال بارگاہِ خداوندی میں پیش کئے جاتے ہیں۔

2۔ حضرت ابوہریرہص روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ يَوْمَ الْاِثْنَيْنِ وَالْخَمِيْسِ، فَأُحِبَّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَاَنَا صَائِمٌ.

’’پیر اور جمعرات کے روز اعمال (بارگاہِ رب العزت میں) پیش کئے جاتے ہیں پس میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے عمل پیش ہوں تو میں روزہ سے ہوں۔‘‘

  1. ترمذی، السنن، کتاب الصوم عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب ما جاء في صوم یوم الاثنین والخمیس، 3: 122، رقم: 747

  2. نسائی، السنن، کتاب الصیام، باب صوم النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 4: 201، رقم: 2358 (عن أسامۃ بن زید ص)

  3. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 201، رقم: 21801

3۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَتَحَرَّی صَوْمَ الْاِثْنَيْنِ وَالْخَمِيْسِ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔‘‘

  1. ترمذی، السنن، کتاب الصوم عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب ما جاء فی صوم یوم الاثنین والخمیس، 3: 121، رقم: 745

  2. نسائی، السنن، کتاب الصیام، باب صوم النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 4: 202، رقم: 2360

(2) یومِ جمعہ کی فضیلت

جمعۃ المبارک وہ مبارک دن ہے جسے ہفتہ کے دیگر ایام پر فضیلت حاصل ہے۔ سابقہ شریعتوں میں اس کی تعیین نہ ہو سکی چنانچہ یہود ہفتہ اور نصاریٰ اتوار کے دن کو مقدس سمجھتے رہے۔ اللہ رب العزت نے امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر احسان فرمایا اور ان کو خصوصی طور پر جمعہ کی ہدایت و رہنمائی عطا فرمائی اور اس کا خصوصی ادب و احترام اور تعظیم و تکریم کا حکم دیا، ارشاد فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَo

’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کیلئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔‘‘

(2) الجمعۃ، 62: 9

یومِ جمعہ کے فضائل بکثرت احادیث میں وارد ہیں چند ایک درجہ ذیل ہیں۔

1۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیّدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

نَحْنُ الْآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، ثُمَّ هَذَا يَوْمُهُمُُ الَّذِی فُرِضَ عَلَيْهِمْ فَاخْتَلَفُوْا فِيْهِ، فَهَدَانَا اللهُ، فَالنَّاسُ لَنَا فِيْهِ تَبَعٌ، الْيَهُوْدُ غَدًا وَالنَّصَارٰی بَعْدَ غَدٍ.

’’ہم دنیا میں آنے کے لحاظ سے پچھلے اور قیامت کے دن کے لحاظ سے پہلے ہیں سوائے اس کے کہ انہیں ہم سے پہلے کتاب ملی (اور ہمیں ان کے بعد) یہی جمعہ وہ دن ہے جو ان پر فرض کیا گیا (کہ اس کی تعظیم کریں) انہوں نے اس کی (تعیین) میں اختلاف کیا اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس دن کا بتا دیا۔ دوسرے لوگ ہمارے تابع ہیں۔ یہود نے اس کے بعد دوسرے دن یعنی ہفتہ کو اور نصاریٰ نے تیسرے دن یعنی اتوار کو (باعثِ تقدس سمجھا)۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب فرض الجمعۃ، 1: 299، رقم: 836

  2. مسلم، الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب ھدایۃ ھذہ الأمۃ لیوم الجمعۃ، 2: 586، رقم: 855

  3. ابن حبان، الصحیح، 7: 24، رقم: 2784

2۔ سنن ترمذی میں سیّدنا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 3 - {اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا} (آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔) - پڑھی۔ حضرت ابنِ عباس کے پاس ایک یہودی تھا اس نے یہ سن کر کہا:

لَوْ أُنْزِلَتْ هَذِهِ عَلَيْنَا لَاتَّخَذْنَا يَوْمَهَا عِيْدًا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَإنَّهَا نَزَلَتْ فِيْ يَوْمِ عِيْدَيْنِ فِی يَوْمِ جُمُعَةٍ وَ يَوْمِ عَرَفَةَ.

’’اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو بطور ِعید مناتے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ دو عیدوں کے دن ہی نازل ہوئی ہے، جمعہ کے دن اور عرفہ کے دن۔‘‘

(1) ترمذی، السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ المائدۃ، 5: 250، رقم: 3044

3۔ جمعہ کے احترام و تعظیم میں اس دن غسل کرنا، خوشبو لگانا اورمسواک کرنا باعثِ ثواب اور سنت ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ امام الانبیاء والمرسلین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَيَتَطَهَرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ، وَّيَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ، اَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيْبِ بَيْتِهِ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَـلَا يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ، ثُمَّ يُصَلِّی مَا کُتِبَ لَهُ، ثُمَّ يُنْصِتُ إِذَا تَکَلَّمَ الإِمَامُ، اِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرٰی.

’’جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، استطاعت کے مطابق طہارت کرتا ہے اور گھر میں میسر تیل یا خوشبو لگاتا ہے، پھر نماز کو نکلتا ہے اور دو شخصوں کے درمیان تفریق نہیں ڈالتا(جہاں جگہ ملے بیٹھ جاتا ہے)، پھر جو نماز اس کے لئے لکھ دی گئی ہے پڑھتا ہے اور امام جب خطبہ پڑھے تو خاموشی اختیار کرتا ہے پس اس کے وہ گناہ جو اس جمعہ اور اس سے اگلے جمعہ کے درمیان ہیں، کی مغفرت و بخشش کی جاتی ہے۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب الدھن للجمعۃ، 1: 301، رقم: 843

  2. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 438، رقم: 23761

  3. طبرانی، المعجم الکبیر، 6: 271، رقم: 6190

4۔ امام مالک بواسطہ حضرت عبید بن سبان روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے دن فرمایا:

يَا مَعْشَرَ الْمُسلِمِيْنَ! إِنَّ هَذَا يَوْمٌ جَعَلَهُ اللهُ عِيْدًا فَاغْتَسِلُوْا. وَمَنْ کَانَ عِنْدَهُ طِيْبٌ فَـلَا يَضُرُّهُ أَنْ يَمَسَّ مِنْهُ. وَعَلَيْکُمْ بِالسَّوَاکِ.

’’اے مسلمانوں کے گروہ! بے شک اس دن (یعنی روز جمعہ) کو اللہ تعالیٰ نے عید بنایا ہے پس اس دن غسل کرو، جس کے پاس خوشبو ہو تو اسے لگا لینا مضر نہیں (یعنی خوشبو استعمال کرو) اور مسواک ضرور کرو۔‘‘

  1. مالک، الموطأ، 1: 65، رقم: 144

  2. طبرانی، المعجم الأوسط، 3: 372، رقم: 3433 (عن أبی ھریرۃص)

علاوہ ازیں احادیثِ مبارکہ میں عیدین، یوم عاشورہ اور شبِ برات کے مواقع کے خاص آداب و احترام اور اعمال صالحہ کی بجاآوری کا حکم اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ شرعاً ان ایام اور راتوں کی حرمت اور تعظیم کرنا ضروری ہے۔

10۔ تعظیمِ اَماکنِ مقدسہ

(1) مکہ مکرمہ کی حرمت اور فضیلت

مقدس اور بابرکت مقامات کی تعظیم و تکریم بھی نصِ قرآنی سے ثابت ہے۔ حرمین شریفین یعنی مکہ و مدینہ، ارضِ شام، کوہِ طور اور دیگر محترم مقامات کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

1. وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِo

’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھماالسلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کردو۔‘‘

(1) البقرۃ، 2: 125

2. إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَo فِيهِ آيَاتٌ بَيِّـنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا

’’بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا وہی جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے (مرکزِ) ہے۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں (ان میں سے ایک) ابراہیم (علیہ السلام) کی جائے قیام ہے اور جو اس میں داخل ہوگیا امان پا گیا...۔‘‘

(2) آل عمران، 3: 96، 97

3. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـذَا

’’اے ایمان والو! مشرکین تو سراپا نجاست ہیں سو وہ اپنے اس سال کے بعد (یعنی فتح مکہ کے بعد 9ھ سے) مسجدِ حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔‘‘

(3) التوبۃ، 9: 28

4. إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا

’’(آپ ان سے فرما دیجئے کہ) مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہرِ (مکہ) کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے عزت و حرمت والا بنایا ہے۔‘‘

(1) النمل، 27: 91

(2) مدینہ منوّرہ کی حرمت و فضیلت

مکہ مکرمہ اہلِ ایمان کی تمام عقیدتوں کا مرکز و محور ہے۔ جس طرح حرمِ مکہ تقدس اور احترام کا مقام ہے اور وہاں بعض اُمور کا سرانجام دینا حرمِ مکہ کی حرمت کے منافی ہے، اسی طرح مدینہ منورہ بھی حرم ہے اور یہاں بھی اس کی عزت و احترام کے پیشِ نظر بعض افعال کی اجازت نہیں مثلاً شہرِ مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرسبز درخت اور گھاس کا کاٹنا ممنوع ہے، شکار کرنے پر بھی پابندی ہے، جنگ کی خاطر اسلحہ اُٹھانا بھی ممنوع ہے۔ مکہ مکرمہ کو یہ اعزاز کعبۃ اللہ کی وجہ سے ملا اور مدینہ منورہ کو یہ اعزاز نسبتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے حاصل ہوا۔ حرمتِ مدینہ کے حوالے سے بعض احادیثِ مبارکہ کا تذکرہ پچھلے صفحات میں ہوا۔ (مزید تفصیل کے لئے ہماری تصنیف ’’شہرِ مدینہ اور زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ ملاحظہ کریں)

(3) مسجدِ اَقصیٰ کی حرمت و فضیلت

مسجدِ اقصیٰ کی حرمت و فضیلت کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ۔

’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘

(2) بنی اسرائیل، 17: 1

(4) ملکِ شام کی حرمت

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَo

’’اے میری قوم! (ملکِ شام یابیت المقدس کی) اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجائو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پشت پر (پیچھے) نہ پلٹنا ورنہ تم نقصان اٹھانے والے بن کر پلٹو گے۔‘‘

(1) المائدۃ، 5: 21

(5) مقدس واديِ طویٰ کی حرمت

اللہ رب العزت نے جہاں حضرت موسی علیہ السلام سے کلام فرمایا۔ اس واديِ طویٰ کو بھی بابرکت بیان کیا:

1. فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ مِن شَاطِئِ الْوَادِي الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَن يَا مُوسَى إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَo

’’جب موسیٰ (علیہ السلام) وہاںپہنچے تو واديِ (طور) کے دائیں کنارے سے بابرکت مقام میں (واقع) ایک درخت سے آوازدی گئی کہ اے موسیٰ! بے شک میں ہی اللہ ہوں (جو) تمام جہانوں کاپرورد گار (ہوں)۔‘‘

(2) القصص، 28: 30

2. إِذْ نَادَاهُ رَبُّهُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًىo

’’(وہ وقت یاد فرمائیے) جب ان کے رب نے طوٰی کی مقدس وادی میں ان کو آواز دی۔‘‘

(1) النّٰزعت، 79: 16

(6) اہلِ مدینہ کی حرمت اور تعظیم

اہلِ مدینہ کو ڈرانے دھمکانے والے شخص کیلئے سخت وعید ہے، حضرت جابرص سے روایت ہے کہ سیدِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ أَخَافَ أَهْلَ الْمَدِيْنَةِ أَخَافَهُ اللهُ.

’’جو اہلِ مدینہ کو خوف زدہ کرے گا (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ اسے خوف زدہ کرے گا۔‘‘

  1. ابن حبان، الصحیح، 9: 55، رقم: 3738

  2. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 55، 56

  3. نسائی، السنن الکبری، 2: 483، رقم: 4265

آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساکنانِ مدینہ کے حقوق کو کسی مرحلے پر بھی نظر انداز نہیں ہونے دیابلکہ فرمایا کہ شہرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہریوں پر ظلم روا رکھنے والے کے فرائض اور نوافل بھی قبول نہیں ہوں گے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور حضرت سائب بن خلادص سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کیا:

اَللّٰهُمَّ! مَنْ ظَلَمَ أَهْلَ الْمَدِيْنَةِ وَأَخَافَهُمْ فَأَخِفْهُمْ، وَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ، لَا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ صَرْفاً وَلَا عَدْلاً.

’’اے اللہ! جو بھی اہلِ مدینہ پر ظلم کرے یا انہیں ڈرائے تو تو انہیں ڈرا۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ اس سے اللہ تعالیٰ فرائض قبول فرمائے گا نہ نوافل۔‘‘

  1. طبرانی، المعجم الکبیر، 7: 144، رقم: 6636

  2. دیلمی، مسند الفردوس، 1: 505، رقم: 2067

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہرِ دلنواز مدینہ منورہ کے ساکنین کا ادب و احترام بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت و تعلق کی وجہ سے لازم ہے، جو ایسا نہیں کرے گا وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ حضرت معقل بن یسارص سے مروی ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

الْمَدِيْنَةُ مُهَاجَرِي وَمَضْجَعِي فِی الْأَرْضِ، حَقَّ عَلَی أُمَّتِي أَنْ يُکْرِمُوا جِيْرَانِي مَا اجْتَنَبُوا الْکَبَائِرَ، فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِکَ مِنْهُمْ سَقَاهُ اللهُ مِنْ طِيْنَةِ الْخِبَالِ.

’’مدینہ میری ہجرت گاہ ہے اور روئے زمین میں سے میری آخری آرام گاہ ہے۔ میری امت پر لازم ہے کہ میرے ہمسایوں کی (اُس وقت تک) عزت و احترام کرے، جب تک اہلِ مدینہ کبائر کا اِرتکاب نہ کریں، اور جو ایسا نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ اُسے (آخرت میں) پیپ ملا خون پلائے گا۔‘‘

  1. طبرانی، المعجم الکبیر، 20: 205، رقم: 470

  2. رویانی، المسند، 2: 330، رقم: 1301

  3. ھیثمی، مجمع الزوائد، 3: 310

قرآن و احادیث کے دلائل سے یہ امر واضح ہوا کہ مقاماتِ مقدسہ کا احترام بجالانا منشاء شریعت ہے۔ اِن کی تعظیم کو شرک کہنا سراسر جہالت ہے۔

اہلِ مدینہ سے برائی کرنا تو درکنار برائی کا اِرادہ کرنے والے کو بھی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ أَرَادَ أَهْلَ هَذِهِ الْبَلَدَةِ بِسُوئٍ يَعْنِی الْمَدِيْنَةَ، أَذَابَهُ اللهُ کَمَا يَذُوْبُ الْمِلْحُ فِی الْمَاءِ.

’’جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے (دوزخ میں) اِس طرح پگھلائے گا جیسا کہ نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔‘‘

  1. مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب من أراد أھل المدینۃ بسوء أذبہ اللہ، 2: 1007، رقم: 1386

  2. ابن ماجۃ، السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدینۃ، 2: 1039، رقم: 3114

خلاصہِ بحث

قرآن و حدیث کی بے شمار نصوص سے ہم نے دس واجب تعظیمات کا ذکر کیا ہے، جو یہ ہیں: تعظیمِ قرآن، تعظیمِ حدیث، تعظیمِ اہلِ بیتِ اطہار، تعظیمِ صحابہ کرام، تعظیمِ اولیاء اللہ، تعظیمِ اکابرین و مشائخ، تعظیمِ والدین، تعظیمِ شہورِ مقدسہ، تعظیمِ ایامِ مقدسہ، تعظیمِ اماکنِ مقدسہ۔ سوال یہ ہے کہ کیا رب العالمین، مالک الملک عزوجل اور رحمۃً للعالمین، امام الانبیائ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ان بے شمار فرامینِ عالیہ کو صرف قرآن و حدیث کی ’زینت‘ بنایا ہے؟ اور کیا ہمیں ان پر عمل پیرا ہونے کا ’مکلف نہیں بنایا‘؟ ذہن نشین رہے کہ جو شخص ایسی سوچ رکھتا ہے وہ درحقیقت ابلیسی اتباع میں قرآن و سنت کا انکار کر رہا ہے۔ قرآن و حدیث میں ان تعظیمات کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ اللہد اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھنے والے ان مقدس ذوات، اشیاء اور ازمنہ و امکنہ کو دیگر ذوات اور اشیاء سے دل و جان سے عظمت و فوقیت دیں اور ان کی حد درجہ تعظیم و تکریم کریں۔

فصل ہشتم: بعض ممنوع تعظیمات

1۔ سجدہِ تعظیمی کی ممانعت

کسی کے آگے پیشانی کو زمین پر رکھنے کا عمل اقصیٰ غایۃ التعظیم یعنی انتہا درجے کے تذلل اور خضوع کا مظہر ہے، یہی سجدہ ہے جو صرف اللہ رب العزت کے لئے روا ہے۔ سابقہ شریعتوں میں تعظیمی سجدہ جائز تھا۔ یہ سجدہ عبادت کی نیت سے نہیں بلکہ محض ادب و تعظیم کے لئے ہوتا تھا۔ گویا پہلی اُمتوں میں سجدہ کرنا بھی غایۃ التعظیم یعنی عبادت کے درجے میں نہ تھا بلکہ تعظیماً تھا۔ شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تعظیم کی اس شکل کو بھی حرام قرار دیا گیا۔ آج بھی اگر اللہ تعالیٰ کی بجائے کسی اور کو عبادت کے ارادے اور نیت سے سجدہ کیا جائے تو شرک ہو گا اور محض تعظیم و تکریم کی نیت ہو تو شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ عمل حرام ہو گا یعنی نیت کے تبدیل ہونے سے یہ عمل شرک کی سطح سے نیچے حرام کی سطح پر آجائے گا۔

لہذا آج بھی اگر کوئی کسی نبی، ولی اور قطب غوث کے مزار پر حاضر ہو کر سجدہِ تعظیمی بجا لاتا ہے تو یہ عمل حرام ہے اگرچہ اس کا محرک اس بارگاہ کی تعظیم و تکریم ہی کیوں نہ ہو۔

عبادت کی نیت کے بغیر تعظیم و تکریم شرک نہیں

اَزروئے شرع کسی بھی عمل کا دارومدار اس کے پیچھے پوشیدہ نیت پر ہے۔ نیت ایسی چیزہے جسے قریب کھڑا ہونے والا بھی نہیں جانتا اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے یا نیت کرنے والے کو ہے۔ پس جو نیت ظاہر نہ ہو اس پرمحض شک کی بنیاد پر شرک کا حکم نہیں لگایا جاسکتا اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی مسلمان اور اس کے ایمان پر شرک کا فتویٰ لگائے۔ اس لئے ازراہ ِ تعظیم کسی کو سجدہ کرنا بلاشبہ حرام ہے لیکن بغیر نیت کے اسے شرک یا عبادت نہیں کہاجائے گا۔

تعظیم و اِکرامِ آدم علیہ السلام کے لئے فرشتوں کو سجدہ کا حکم

حضرت آدم علیہ السلام نسلِ انسانی کے سب سے پہلے فرد ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سب سے پہلے نبی ہیں۔ اللہگ نے ان کو جو علم دیا تھا اس کی تعظیم و تکریم کے لئے فرشتوں کو ان کے سامنے سجدئہ تعظیمی کا حکم دیا، جس سے فرشتوں کو یہ بتلانا مقصود تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمں کو تمام مخلوقات میں سے چن لیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَةِ اسْجُدُواْ لِآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًاo قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَـذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ

’’اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ تم آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، اس نے کہا: کیا اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے؟ (اور شیطان یہ بھی کہنے لگا: ) مجھے بتاؤ تو سہی کہ یہ وہ شخص ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے؟‘‘

(1) بنی اسرائیل، 17: 61، 62

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کوحضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے کاحکم دیا۔ فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السلام کے لئے سربسجدہ ہونا عبادت نہیںبلکہ تعظیم و احترام کے بلند ترین درجے کا آئینہ دار تھا۔

اِبلیس کے خود ساختہ تصورِ توحید کا اَنجام

ملائکہ کا حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے پر ان کا مقام اللہ گ کی نظر میں بلند ہوگیا اور وہ اِبلیس جس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا وہ ملعون ہوگیا۔ اگر سجدہِ تعظیمی کا یہ عمل عبادت ہوتا تو اللہ تعالیٰ کبھی فرشتوں کو اس کا حکم نہ دیتا۔ وہ جس نے بزعمِِ خویش توحید کا عَلَم بردار ہو کر حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا وہ ابد تک راندہِ درگاہِ الٰہی ہوگیا۔ ابلیس کا یہ خیال کہ وہ سجدے سے انکاری ہو کر موحّدِ اعظم بن جائے گا گمان باطل ثابت ہوا۔ دراصل اس کے انکار کا باعث یہ تکبر آمیز نظریہ تھا کہ آدم علیہ السلام ایک بشر ہے اور وہ اس سے برتر مخلوق ہے۔ ارشادِ ربانی کے مطابق اس نے شیخی بگارتے ہوئے کہا:

قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍo

’’اس نے (نبی کے ساتھ اپنا موازنہ کرتے ہوئے) کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور تو نے اسے مٹی سے بنایا ہے۔‘‘

(1) ص، 38: 76

اس کا یہ تکبر اسے لے ڈوبا اور وہ طوقِ لعنت کا حق دار بن گیا۔

تکبر عزازیل را خوار کرد
بہ زندانِ لعنت گرفتار کرد

(شیطان اپنے تکبر کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوگیا اور دائمی لعنت اس کے گلے کا ہار بن گئی۔)

جبکہ حکمِ ایزدی سے سجدہ کرنے والے فرشتے مقربان بارگاہِ خداوندی بن گئے۔ تمام فرشتوں نے اس ہستی کی تعظیم کی جس کی اللہ گ نے تعظیم کرنے کا حکم دیا۔ ابلیس (ملعون) نے اس ہستی کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا جس کو اللہ ل نے مٹی سے پیدا فرمایا۔ ابلیس مخلوق میں وہ پہلا فرد ہے جس نے دین کو اپنی رائے پر جانچا اور کہا ’’اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ‘‘ اور اس نے علت یہ بیان کی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا اس لئے آدم علیہ السلام کے احترام و اکرام کو اپنے لئے عار سمجھا اور تکبر کیا تو ابلیس اول المتکبرین بن گیا۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے اپنے جس برگزیدہ بندے کی عظمت بیان فرمائی، ابلیس لعین نے اس کی تعظیم نہ کی اور یہ انکارِ سجدہ بعینہ اللہ گ کی حکم عدولی اور اس کے سامنے تکبر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرشتوں کو حضرت آدمں کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم فرشتوں کے مقابلہ میں ان کی شرافت و بزرگی کی وجہ سے دیا تھا۔ شیطان ابلیس نے اپنے آپ کو موحدین میں شمار کیا مگر اس کی توحید نے اس کو کچھ بھی نفع نہ دیا اور سیدنا آدمں کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت اس سے دور ہوگئی۔

علمی اِستدلال

یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تعظیمی سجدہ تھا کوئی عبادت نہ تھی۔ اگر عبادت اور تعظیم میں فرق کئے بغیر اسے بھی سجدہِ عبادت مان لیا جائے تو کفر و ایمان کا فرق مٹ جاتا ہے۔ کوئی اعتراض کرسکتا ہے کہ (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ انسانیت کی ابتدا ہی شرک سے کروائی کہ آدم کو سجدہ کرو (استغفر اللہ)۔ آیتِ کریمہ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے نظریے کے مطابق جس نے توحید کی لاج اس حد تک رکھی کہ اللہ تعالیٰ کی بھی بات نہیں مانی اور غیر کو سجدہ نہ کیا تو وہ کافر ہو گیا اور وہ جو آدم علیہ السلام کے سامنے سجدے میں گر گئے مقرب بنا لئے گئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیا اب ضابطہ اور قانون بدل گیا ہے؟ کہ سجدہ کرنے و الے کافر اور نہ کرنے والے مومن کہلاتے ہیں۔ ابلیس نے بھی تو یہی کہا تھا کہ میں شرک نہیں کرتا مگر اس ایک سجدہ نہ کرنے پر اس کے سارے سجدے اور عبادتیں رائیگاں اور بے کار چلی گئیں۔ مطالعہِ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے سجدہِ تعظیمی بجا لانے کا انکار حکمِ الٰہی سے انحراف اور نبیں کے ادب و تعظیم کا انکار تھا۔

حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرانے کی غرض و غایت

مفسرین نے عام طورپر اِس سجدے کی تین توجیہات بیان کی ہیں:

1۔ یہ حکم سجدہ کے معروف شرعی معنی میں نہ تھا۔ بلکہ لغوی معنی کے لحاظ سے تعظیمی تھا۔ جس سے مراد یہ تھی کہ تم آدم علیہ السلام کی تعظیم و تکریم بجا لائو۔ ان کے سامنے اپنی عاجزی اور تواضع کے اظہار کے لئے جھک جائو اور خدمت و فرمانبرداری اختیار کرو حضرت ابنِ عباس ص سے مروی ہے کہ:

کان ذالک انحناء ولم يکن خرورًا علی الذقن.

’’یہ صرف جھکنا تھا، پیشانی کو زمین پر رکھنا نہ تھا۔‘‘

(1) نسفی، مدارک التنزیل، 1: 42

امام آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لکھا ہے:

ولم يکن فيه وضع الجباه بل کان مجرد تذلل وانقياد.

’’اس میں پیشانی زمین پر نہ رکھی گئی تھی بلکہ صرف جھکنا اور اِطاعت تھا۔‘‘

(2) آلوسی، روح المعانی، 1: 229

2۔ یہ حکم معروف شرعی معنی کے لحاظ سے باقاعدہ سجدہ کا تھا جس میں پیشانی بھی زمین پر لگائی گئی۔ لیکن یہ سجدہ توجۂ تھا سجدہِ عبادت نہ تھا ۔ کیونکہ عبادت تو ذات باری کے سوا کسی اور کے لئے ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ حضرت آدمں کی حیثیت قبلہ کی تھی اور فرشتوں نے حکمِ الٰہی کی تعمیل میں حضرت آدم علیہ السلام کی طرف منہ کرکے باری تعالیٰ کو سجدہ ادا کیا۔ اس لحاظ سے ’’اسجدوا لآدم‘‘کے حکم کا معنی یہ ہوا کہ

اسجدوا لي مستقبلين وجه اٰدم.

’’اے فرشتو! آدم علیہ السلام کی طرف چہرہ کرکے مجھے سجدہ کرو۔‘‘

(3) قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1: 292

یہ کیوں کہا گیا۔ اس حوالے سے امام قرطبی مزید فرماتے ہیں:

وکان اٰدم کالقبلة لنا.

’’اور آدم علیہ السلام اس سجدہ میں فرشتوں کے قبلہ کی مانند تھے (جس طرح ہمارے لیے کعبہ)۔‘‘

(4) قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1: 293

اس موقف کے بارے میںعرض یہ ہے کہ اگر حضرت آدمں کو قبلہ توجہ کے طور پر سجدہ کیاجانا مان لیا جائے تو پھر فرشتوں پر فضیلتِ آدم ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ اس صورت میں یہ ضروری نہیں کہ مسجود الیہ، ساجد سے افضل ہو۔ یہ عین ممکن ہے کہ قبلہ توجہ (جسے مسجود الیہ کہتے ہیں) کے مقابلے میں سجدہ کرنے والا خود زیادہ فضیلت اور بزرگی کاحامل ہو جیسے کعبۃ اللہ مسجود الیہ تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے تھے۔ اب جہاں تک فضیلت کا تعلق ہے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی تو درکنار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزارِ اقدس میں جسد اطہر سے مس ہونے والی خاک کے ذرات بھی کعبۃ اللہ سے افضل اور اشرف ہیں۔ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے مومنین کا درجہ بھی عنداللہ کعبہ معظمہ سے بلند قرار دیا ہے۔ لہٰذا سجدہ توجہ کی دلیل سے فرشتوں پر آدمں کی فضیلت متحقق نہیں ہوتی۔ صرف حکم الٰہی کی تعمیل ہوتی ہے جب کہ سجدہ کا حکم بنیادی طور پر حضرت آدم علیہ السلام کی علمی فضیلت و کرامت تسلیم کرانے کے لئے دیا گیاتھا۔ ائمہ تفسیر نے بہ صراحت لکھا ہے:

وإن ادم أفضل من هؤلاء الملائکة لأنه أعلم منهم، والأعلم أفضل لقوله تعالی: {هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ}

(1) الزمر، 39: 9

... لما أنباء هم بالأسماء وعلمهم ما لم يعلموا أمرهم بالسجود له اعترافاً بفضله واداء لحقه، واعتذاراً عما قالوا فيه.

’’بیشک آدم علیہ السلام ان تمام فرشتوں سے افضل تھے کیونکہ وہ ان سے زیادہ صاحبِ علم تھے اور جو زیادہ صاحبِ علم ہو وہ باری تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق دوسرے سے افضل ہوتا ہے۔ فرمایا: ’’کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘ چنانچہ جب آدمں نے فرشتوں کو اشیاء کائنات کے اسماء بتا دیئے اور اس طرح انہوں نے وہ کچھ بتا دیا جو وہ فرشتے نہیں جانتے تھے تو باری تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرتِ آدمں کو ان کی فضیلت کے اعتراف میں اور ان کے حقِ بزرگی کی ادائیگی کے لئے اور جو کچھ انہوں نے تخلیقِ آدمں کی نسبت کہا تھا، اس کی معذرت کے طور پر سجدہ کریں۔‘‘

(2) بیضاوی، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، 1: 86

بنابریں یہ خیال درست نہیں کہ سجدہ فی الحقیقت باری تعالیٰ کو کیا گیا اور حضرت آدمں کی حیثیت درمیان میں محض قبلہ کی تھی اگر یہ بات مان لی جائے تو اس سے محض منشاءِ ایزدی جو کہ فضیلت آدمں تسلیم کرانے کے لئے تھا اس کی تکمیل نہیں ہوتی۔

3۔ اس سجدے کو سجدہِ تعظیم ماننے سے واضح طور پر منشاءِ ایزدی کی تعمیل ہو جاتی ہے کیونکہ تعظیمی سجدہ کامعنی یہ ہے کہ سجدہ کرنے والا مسجود کی فضیلت اور کرامت کا معترف ہے۔

(1) امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا موقف ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

کان ذالک السجود تکريماً لادم و إظهارًا لفضله.

’’یہ سجدہ حضرت آدم علیہ السلام کی تکریم و تعظیم اور اظہارِ فضیلت کے لیے تھا۔‘‘

(1) قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1: 293

(2) امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:

وکا ن سجود الملائکة تکرمة لآدم.

’’ملائکہ کا حضرت آدمں کو سجدہ کرنا حضرت آدمں کی تکریم بجا لانے کے لئے تھا۔‘‘

(2) طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآنٓ، 1: 228

(3) امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

کان ذالک سجود تعظيم وتحية لا سجود عبادة.

’’یہ سجدہ تعظیم تھا، سجدہِ عبادت نہ تھا۔‘‘

(1) بغوی، معالم التنزیل، 1: 62

یہی موقف درست ہے۔ قرآن مجید کا سیاق و سباق بھی اسی کی تائید کرتا ہے۔ مزید برآں جب باری تعالیٰ نے شیطان سے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کا سبب پوچھا تو اس نے جواب دیا:

أَنَاْ خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍo

’’میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو تو نے مٹی سے پیدا کیا۔‘‘

(2) الأعراف، 7: 12

شیطان کا یہ جواب حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت اور برتری کے انکار پر مبنی ہے اس کا منشاء یہ تھا کہ جب میں اسے اپنے مقابلے میں افضل اور بزرگ و برتر تسلیم ہی نہیں کرتا تو سجدہ کیوں کروں؟

اِنسانی تاریخ کا پہلا جرم شرک نہیں... اِہانتِ نبوت تھا

حکمِ سجدہ، حضرت آدمں کی فضیلت و برتری کے اعتراف اور ان کی تعظیم و تکریم تسلیم کرانے کے لئے تھا۔ مقصود اس حقیقت کا اظہار تھا کہ قیامت تک جو لوگ شانِ نبوت کی تعظیم و تکریم بجا لانے میں فرشتوں کی طرح کوئی پس وپیش نہیںکریں گے اور ہمیشہ دہلیزِ نبوت و رسالت پر اَدباً و اِکراماً جھکے رہیں گے انہیں بارگاہِ الٰہی میں قرب و منزلت عطا کی جائے گی اور جو لوگ شانِ نبوت کی تعظیم و تکریم بجا لانے میں شیطان کی طرح پس و پیش کریں گے اور اعتراض و تنقید کی راہ اپنائیں گے وہ ہمیشہ کے لئے بارگاہِ الٰہی سے دھتکار دیئے جائیں گے۔ تنقیصِ رسالت کے بعد نہ ان کا عقیدہِ توحید مقبول رہے گا اور نہ ان کی عبادات و طاعات مقبول ہوں گی۔ ہم یہاں سجدئہ تعظیمی کی ایک اور مثال قرآن سے بیان کرتے ہیں۔

برادرانِ یوسف علیہ السلام کا سجدئہ تعظیمی

سجدہِ تعظیمی کا عمل حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں بھی جائز تھا جیسا کہ سورۃ یوسف میں فرمایا:

وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا

’’اور یوسف ( علیہ السلام ) نے اپنے والدین کو اوپر تخت پر بٹھا لیا اور وہ (سب) یوسف ( علیہ السلام ) کے لئے سجدہ میں گر پڑے۔‘‘

(1) یوسف، 12: 100

پہلے فرشتوں سے اللہ تعالیٰ نے سجدہ کروایا اب دو پیغمبروں کی موجودگی میں سارے بھائیوں سے سجدہ کروایا جا رہا ہے۔ اگر یہ تعظیمی سجدہ شرک ہوتا تو (معاذ اللہ) کیا اللہ گ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے شرک کی تعلیم دی؟ اللہ کے نبی توحید کے داعی ہوتے ہیں، اگر یہ سجدہ عبادۃً ہوتا، تعظیماً نہ ہوتا تو انہیں ضرور منع کر دیا جاتا۔ آیت کے الفاظ ’’َخَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا‘‘ بھی صریحاً سجدہ پر دلالت کر رہے ہیں۔ اس میں کسی کے لئے کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی گئی کہ سجدے کی یہ کیفیت حالتِ رکوع، انحناء یا جھکاؤ پرمشتمل ہوگی۔ بلکہ یہ صرف اور صرف سجدہ تھا اور یہ سجدہ تحیتاً و تکریماً حضرت یوسفں کے بھائیوں پر ان کی شرافت و فضیلت ظاہر کرنے کی وجہ سے تھا، اور سجدہِ تعظیمی ان کی شریعت میں شرک نہ تھا۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سجدئہ تعظیمی کی خواہش

سابقہ شرائع میں سجدہ تعظیمی جائز تھا۔ اس تناظر میں ہم ایک حدیث کا حوالہ دیں گے جسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اونٹ اور کچھ دوسرے جانوروں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سجدہ کرتے دیکھا تو ان کے دل میں بھی شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کیوں نہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تعظیماً سجدہ کریں حدیثِ مبارکہ میں ہے:

أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ فِیْ نَفَرٍ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ، فَجَاءَ بَعِيْرٌ فَسَجَدَ لَهُ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: يَارَسُوْلَ اللهِ، تَسْجُدُ لَکَ البهائِمُ والشَّجَرُ، فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ. فَقَالَ: اُعْبُدُوْا رَبَّکُمْ، وَأَکْرِمُوْا أَخَاکُمْ، وَلَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ ِلأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأةَ أنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہاجرین اور انصار کے کچھ لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے: ایک اونٹ آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کیا پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیک وسلم جب جانور اور درخت آپ کو سجدہ کرتے ہیں تو ہمارا حق آپ کو سجدہ کرنے کا ان سے زیادہ ہے۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے رب کی عبادت کرو اور اپنے بھائی کا احترام کرو، اگر میں کسی کو کسی کے لئے بھی سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘

(1) أحمد بن حنبل، المسند، 6: 76، رقم: 24470

شریعت کے واضح حکم کے باوجود صحابہ کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی شدید خواہش تھی، لیکن شارع ںنے ان کی اس خواہش کو سختی سے رد کر دیا۔ اس کی بجائے تعظیم کا حکم دیا گیا۔

ایک دفعہ حضرت معاذ ص شام گئے انہوں نے وہاں کے لوگوں کو اپنے علماء اور حکام کو سجدہ کرتے دیکھا واپسی پر حضرت معاذص نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کیا۔ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ملاحظہ کریں:

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِی أوْفَی قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاذٌ مِنَ الشَّامِ سَجَدَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا هَذَا يَا مُعَاذُ؟ قَالَ: أَتَيْتُ الشَّامَ فَوَافَقْتُهُمْ يَسْجُدُوْنَ لِأَسَافِقَتِهِمْ وَبَطَارِقَتِهِمْ فَوَدِدْتُ فِی نَفْسِي أَنْ نَفْعَلَ ذٰلِکَ بِکَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: فَـلَا تَفْعَلُوْا، فَإِنِّي لَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللهِ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا.

’’حضرت عبداللہ بن ابی اوفی نے روایت کیا کہ جب حضرت معاذ ص شام سے آئے تو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: معاذ! یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: میں شام گیا تو میں نے وہاں کے لوگوں کو اپنے علماء اور حکام کو سجدہ کرتے دیکھا پس میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ہم بھی آپ کو سجدہ کریں۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسا ہرگز نہ کرو۔ اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘

(1) ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب حق الزوج علی المرأۃ، 1: 595، رقم: 1853

اس حدیث سے یہی بات ثابت ہوئی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حد درجہ تعظیم کرتے تھے حتیٰ کہ ان کے دلوں میں بھی خواہش پیدا ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تعظیماً سجدہ کریں اور حضرت معاذ ص نے ایسا کیا بھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد ازاں منع فرمایا اور سجدہِ تعظیمی کو بھی اپنی امت میں حرام قرار دے دیا۔

خلاصہِ بحث

سجدہِ تعظیمی شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حرام ہے مگر شرک نہیں، اگر کوئی کسی کو تعظیماً سجدہ کر دے تو ایسا کرنے والا شرک کا نہیں بلکہ حرام کا مرتکب ہو گا۔ اگر تعظیماً سجدہ کرنا شرک ہوتا تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو کبھی حکم نہ دیتا اور آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کیا جاتا۔ شرک کبھی کسی امت میںجائز نہ تھا۔ قاعدہ اور کلیہ ہے کہ اگر قرآن مجید میں مذکور کسی امر کو شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام قرار نہیں دیا تو وہ امت کے لئے جائز ہے اگرکسی امرسے منع کر دیا گیا تو وہ پھر امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے حرام اور مکروہِ تحریمی ہو گا یہی حال سجدہ تعظیمی کا ہے۔

2۔ مزارات کے طواف اور من گھڑت تعظیمات

کعبۃ اللہ کے علاوہ کسی مقام یا قبر کا طوافِ تعظیمی منع ہے۔ اسی طرح بعض مزارات کے قریب بیری وغیرہ کے درخت ہوتے ہیں جن کے نیچے لوگ چادریں بچھا کر بیٹھتے ہیں۔ اگر بیر گرے تو اُس کا احترام بجا لاتے ہیں اور اُس سے روزہ افطار کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ بیری کے پھل سے بیٹے کی فال نکالتے ہیں اور اگر پتے گریں تو بیٹیوں کی فال نکالتے ہیں۔ کوئی شخص خود بیر توڑ لے تو اُسے بھی بے ادبی و گستاخی سمجھ کر سخت برا گردانتے ہیں۔ یہ تمام اُمور توہم پرستی کو فروغ دینے والے اور بے بنیاد ہیں، شرعاً ان کی کوئی اصل نہیں لہٰذا علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو حقائق سے آگاہ کریں۔

اِسی طرح قبر بلامقبور کی زیارت کرنے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ بعض جہلاء فرضی مزارات بنا کر اصل کی طرح اس کا ادب و احترام بجا لاتے ہیں جس کی شریعت نے بالکل اجازت نہیں دی۔ جس طرح کہ بعض جگہ لوگوں نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے مزارات وغیرہ بنائے ہوئے ہیں جن پر عرس کرتے ہیں۔ محدّث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس سلسلے میں پوچھا گیا کہ ’’پیرانِ پیر رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے بعض جگہ مزار بنا لیا گیا ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اِن کے مزار کی اینٹ دفن ہے۔ اِس مزار میں ایسی جگہ جا کر عرس کرنا، چادر چڑھانا کیسا ہے وہ قابلِ تعظیم ہے یا نہیں؟‘‘ آپ نے جواب دیا: ’’جھوٹا مزار بنانا اور اُس کی تعظیم جائز نہیں۔‘‘

(1) احمد رضا خان، فتاویٰ رضویہ، 4: 116

ظ اِسی طرح بعض اولیاء اللہ کے مزارات کے قریب ایسے درخت ہوتے ہیں جن کے بارے میں لوگوں میں مشہور ہوتا ہے کہ اِن کے کاٹنے سے صاحبانِ مزار ناراض ہو جاتے ہیں لہٰذا اِنہیں کاٹنا مقاماتِ حرم کی طرح حرام ہے۔ یہ سراسر جہالت ہے اور یہ بھی شرک فی التحریم ہے۔ اہلِ اسلام کو ایسے غلط عقائد سے اجتناب کرنا چاہیے۔

سر پر چوٹی رکھ کر اس کی تعظیم کرنا

بعض جگہوں پر مرد سر پر چوٹی رکھ کر کسی بزرگ کے نام منسوب کرتے ہیں پھر احتراماً اسے نہیں کاٹتے یا ایک معینہ مدت کے بعد کاٹتے ہیں مگر اسطرح مردوں کا سر پر کسی بھی بزرگ کے نام پر چوٹی رکھنا اور پھر کٹوانے کی نذر و منت ماننا شرعاً جائز نہیں۔ اعلیٰ حضرت محدّث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت عمدہ لکھا ہے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ کیا مرد کو چوٹی رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ بعض فقیر چوٹی رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ حرام ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے:

أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم لَعَنَ الْمُتَشَبِّهِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت رکھیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت پیدا کریں، لعنت کی ہے۔‘‘(1)

  1. احمد رضا خان، الملفوظ، 2: 110

  2. ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب فی المخنثین، 1: 614، رقم: 1904

اسی طرح بچوں کے سر پر اولیاء کے نام کی چوٹی رکھنے کے متعلق حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’بعض جاہل عورتوں میں دستور ہے کہ بچے کے سر پر بعض اولیائے کرام کے نام کی چوٹی رکھتی ہیں اور اِس کی کچھ میعاد مقرر کرتی ہیں ۔اِس میعاد تک کتنی ہی بار بچے کا سر منڈے وہ چوٹی برقرار رکھتی ہیں، پھر میعاد گذار کر مزار پر لے جا کر وہ بال اُتارتی ہیں تو یہ محض بے اصل و بدعت ہے۔‘‘(2)

(2) احمد رضا خان، فتاویٰ افریقہ: 68

مختلف درختوں میں اَرواحِ مقدسہ کے تصور سے تعظیم کرنا

کئی دیہاتوں میں بعض جہلاء درختوں کے ساتھ عجیب و غریب داستانیں وضع کئے ہوئے ہیں اور فرضی قصے کہانیاں سنا کر مجاور لوگ لنگر کے لئے تحائف و ہدایا اکٹھے کرتے ہیں ۔ اِن سے متعلق محدّث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے مسئلہ پوچھا گیا:

’’کیا فرماتے ہیں علمائے اہلِ سنت اِس صورت میں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں درخت پر شہید مرد ہیں اور فلاں طاق میں شہید مرد رہتے ہیں اور اُس درخت اور اُس طاق کے پاس جا کر ہر جمعرات کو فاتحہ، شیرینی اور چاول وغیرہ دلاتے ہیں، ہار لٹکاتے ہیں، لوبان سلگاتے ہیں، مرادیں مانگتے ہیں اور ایسا دستور اِس شہر میں بہت جگہ واقع ہے، کیا شہید مردان درختوں اور طاقوں میں رہتے ہیں اور یہ اشخاص حق پر ہیں یا باطل؟‘‘

محدّث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے منع کرتے ہوئے جواب دیا:

’’یہ سب واہیات و خرافات اور جاہلانہ حماقات و بطالات ہیں اِن کا ازالہ لازم ہے۔

ما أنزل اللہ بها من سلطان ولا حول ولا قوة إلا باللہ العلي العظيم.‘‘

(1) احمد رضا خان، احکام شریعت، 1: 32

3۔ غیر شرعی حلف کا اِحترام منع ہے

شرعی حلف اللہ تعالیٰ کے نام کا ہوتا ہے تاہم فقہائے اُمت کے نزدیک کلام اللہ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر بھی حلف منعقد ہوجاتا ہے اور مستقبل میں کسی اَمر کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھانا اور پھر توڑ دینے کی صورت میں کفّارہ لازم ہو جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ اگر کوئی شخص کسی اور کے نام کا حلف اُٹھائے اور یہ عقیدہ رکھے کہ اِس کی حرمت اور حیثیت اُسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی یا کلام اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلف کی، تو یہ عقیدہ اصلاح طلب ہے کیونکہ اعتقاداً کسی اور کے نام پر قسم کی حرمت کو اللہ تعالیٰ کی قسم کی مثل جاننا شرک ہے۔ اگر کوئی شخص بوجہ جہالت یا سہواً کسی اور کی قسم اُٹھائے تو وہ شرعی حلف نہیں ہوگا اِس لئے اِس پر کفّارہ لازم نہیں۔

4۔ ایصالِ ثواب اور نذر و نیاز میںخود ساختہ تعظیمات

نذر و نیاز برائے ایصالِ ثواب اور گیارہویں شریف وغیرہ جیسے مباح مستحب اور مستحسن اُمور کے بارے میں بعض علاقوں میں بہت سی خود ساختہ تعظیمات بوجہ جہالت رواج پا گئی ہیں جو ازروئے شرع جائز نہیں مثلاً کوئی یہ کہے کہ اگر اُس نے گیارہویں کا دودھ نہ دیا تو اِس کی بھینس یا گائے مر جائے گی، یا بیمار ہو جائے گی یا رزق کم ہو جائے گا، اولاد کی موت واقع ہو جائے گی، گھر میں نقصان ہو جائے گا۔ اِسی طرح کاروبار اور کھیتی میں بزرگوں کا حصہ یعنی زکوٰۃ اور عشر شرعی وغیرہ کے علاوہ بزرگوں کی سالانہ شیرینی جو عوام میں مروج ہے یہ شرعاً دینا تو جائز ہے لیکن نہ دینے پر توہم پرستی کو فروغ دینا جائز نہیں ہے۔ یہ تمام باتیں بوجہ جہالت فروغ پا جاتی ہیں اور پھر لوگ اِن کے ساتھ نفع و نقصان کا عقیدہ وابستہ کر لیتے ہیں جو کہ شرک فی العبادت ہے لہٰذا اِن اُمور سے بچنا ضروری ہے۔

ائمہ اہلِ بیت اطہار کے لئے نیاز برائے ایصالِ ثواب مسلمانوں کا معمول ہے۔ اس عمل میں بھی بعض حالتوں میں افراط و تفریط کا عنصر موجود ہے۔ اس مستحب عمل کو بجا لانے والے اگر نذر کی طرح فرض اور واجب سمجھ کر اسے ادا کریں تو یہ بھی احکامِ شریعت سے انحراف ہے۔ اسی طرح اس کے ردِ عمل میں بعض لوگ اس مستحب عمل کو قطعی حرام اور شرک کے زمرے میں شامل کرکے ختمِ نیاز وغیرہ کا اہتمام کرنے والوں کو مشرک ٹھہراتے ہیں حالانکہ یہ عمل مستحب ہے اس میں حرمت اور شرک کی کوئی علت موجود نہیں ہوتی۔

ایسی نذر و نیاز کے ساتھ بعض لوگ اپنی طرف سے طرح طرح کی شرائط و حدود اور پابندیاں عائد کرتے ہیں مثلاً فلاں شخص کھا سکتا ہے، فلاں عورت نہیں کھا سکتی، گھر سے باہر لے جانا منع ہے وغیرہ وغیرہ۔ اِسی طرح اولیاء اللہ کے نام جانوروں کو منسوب کر کے اُن کا احترام بجا لانا، اُن سے کوئی کام لینا شرعاً حرام سمجھنا اور اُن کی بے حرمتی کو بھی حرام سمجھنا ایسا عقیدہ شرک فی التحریم میں شمار ہوتاہے اور یہ خود ساختہ تعظیمات ہیں جن کا حقیقتِ اسلام سے کوئی تعلق نہیںلہٰذا عوام پر ایسی باریکیاں واضح کر دینی چاہئیں۔

خلاصہِ بحث

اس باب میںہم نے توحید اور تعظیم کا حقیقی تصور قرآن و سنت اور اقوالِ ائمہ حدیث و تفسیر کی روشنی میں شرح و بسط کے ساتھ بیان کر دیا جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ عبادت اور تعظیم برابر درجے کا عمل نہیں، ہاں! عبادت کے اندر تعظیم کی آخری حد ضرور شامل ہے لیکن تعظیم کے لئے ضروری نہیں کہ وہ عبادت بھی ہو۔

دوسری بات یہ کہ عبادت ایک ایسا عظیم الشان عمل ہے جو فقط ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے مختص ہے، اللہ تعالیٰ ہی اس لائق ہے کہ اسکی عبادت کی جائے جب کہ ادب و احترام اور وہ تعظیم جو درجہ عبادت سے کم ہو بہت سوں کے لئے جائز ہے مثال کے طور پر ہم نے نصِ قرآنی سے بیان کیا کہ صفا و مروہ اورقربانی کے جانور شعائر اللہ ہیں اور ازروئے قرآن شعائر اللہ کی تعظیم عبادت ہے۔ جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ صفاء و مروہ جو درحقیقت دو پہاڑیاں ہیں اسی طرح قربانی کے جانور بھیڑ بکریاں اور گائے اونٹ بھی اللہ کی مخلوق ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے شعائر قرار دیا اس لئے مسلمان ان کی تعظیم کرتے ہیں اور یہ تعظیم عبادت ہے مگر از خود ان اشیاء کی عبادت کوئی نہیں کرتا۔ یعنی ان کی شرعی تعظیم تو اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے مگر ان کی عبادت شرک ہے۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان امتیازات اور حدود و قیودات کو سمجھا جائے تاکہ بلا وجہ کسی جائز عمل کو شرک قرار دے کر خود ہی مبتلائے کفر نہ ہوں۔ مثلاً فعلِ الٰہی اور فعلِ رسول کو اگر خالق و مخلوق کے اعتبار سے دیکھیں دو الگ الگ ذاتیں ہیں جن میں کوئی مماثلت مساوات اور ہمسری نہیں لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے فعلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کو اپنے فعل کے ساتھ اکٹھا برابر درجہ میں بیان کر دیا۔ ارشاد فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ.

’’اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے آگے نہ بڑھا کرو۔‘‘

(1) الحجرات، 49: 1

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے لَا تُقَدِّمُوْا کے ذریعہ فعلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے فعل کے ساتھ برابر درجہ میں بیان کر دیا، حالانکہ اصل مقصود تو فعلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تقدم کی ممانعت ہے۔ پس اگر کوئی شخص ان شرعی باریکیوں کو سمجھے بغیر محض عقل کی بناء پر جوشِ توحید میں مسلمانوں پر کفر و شرک کا فتویٰ لگائے تو وہ نصِ قرآنی سے انکار کی وجہ سے خود کفر کے دلدل میں پھنس جائے گا۔ علاوہ ازیں ہم نے ان ممنوع تعظیمات کا بھی ذکر کر دیا جو شرعاً حرام اور ناپسندیدہ عمل ہے۔ تاکہ دونوں طرف کی انتہاء پسندیوں کو راہِ اعتدال پرلایا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ حضور علیہ السلام کے طفیل ہمیں فہم و حکمت ِدین عطا فرمائے اور امتِ مسلمہ کو انتشار و افتراق کی کیفیت سے بچائے۔ آمین بجاہ سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved