قرآن مجید میں ایسے چار مقامات ہیں جہاں مردار، خون، خنزیر کے گوشت اور ان جانوروںکو جن پر بوقتِ ذبح غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو حرام قرار دیا گیا ہے، وہ مقامات یہ ہیں:
1۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْـزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌo
’’اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بے شک اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
(1) البقرۃ، 2: 173
2۔ سورۃ المائدۃ میں فرمایا:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ...
’’تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو...‘‘
(2) المائدۃ، 5: 3
3۔ سورۃ الانعام میں فرمایا:
قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْـزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌo
’’آپ فرما دیں کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں تو میں کسی (بھی) کھانے والے پر (ایسی چیز کو) جسے وہ کھاتا ہو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مُردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سُؤر کا گوشت ہو کیو نکہ یہ ناپاک ہے یا نافرمانی کا جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام بلند کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص (بھوک کے باعث) سخت لاچار ہو جائے نہ تو نافرمانی کر رہا ہو اور نہ حد سے تجاوز کر رہا ہو تو بیشک آپ کا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
(1) الانعام، 6: 145
4۔ سورۃ النحل میں اللہ رب العزت نے فرمایا:
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالْدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌo
’’اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو، حرام کیا ہے، پھر جو شخص حالتِ اضطرار (یعنی انتہائی سخت مجبوری کی حالت) میں ہو،نہ (طلبِ لذت میں احکامِ الٰہی سے) سرکشی کرنے والا ہو اور نہ (مجبوری کی حد سے) تجاوز کرنے والا ہو، تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
(2) النحل، 16: 115
ان آیات میں وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللہ ِ یا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللهِ بِهِ (وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو) کے الفاظ آئے ہیں جن کا بعض لوگ غلط اطلاق کرتے ہیں۔ یہی خود ساختہ اطلاق کسی کے ایصالِ ثواب کے لئے دیئے گئے صدقہ و خیرات اور نذر و نیاز پر بھی کیا جاتا ہے۔ ان قرآنی آیات کی غلط اور من گھڑت تاویل کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ ہر وہ چیز جس پر صدقہ اور نذر و نیاز کے لئے غیراللہ کا نام لیا جائے أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِاللهِ میں داخل ہے، جس کے باعث وہ شے حرام ہے۔ اس طرح ان کے باطل خیال کے مطابق وہ صدقہ و خیرات اور گیارہویں شریف جو سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیص یاد دیگر اولیاء و بزرگانِ دین اور صالحین کی طرف منسوب ہوتی ہے نہ صرف حرام ہے بلکہ یہ عمل معاذ اللہ شرک ہے۔ یہ ان قرآنی آیات کی غلط تفسیر ہے اور ایسی چیزیں جو فقط ایصالِ ثواب کے لئے کسی بزرگ ہستی کی طرف منسوب کی جائیں ہرگز وَ مَا أُهِلَّ لِغَيْرِاللہ بِهِ کے زمرے میں داخل نہیں، نہ ہی انہیں شرک پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ دراصل نذر کے تعین میں یہ اختلاف حرمت پر مبنی آیاتِ کریمہ کا معنی و مفہوم غلط سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ذیل میں ہم وَ مَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِاللهِ اور اس کے متعلقات پر تفصیلاً بحث کرتے ہیں۔
1۔ ’’أُهِلَّ‘‘ کا لغوی معنی و مفہوم دراصل لفظِ ’’أُهِلَّ‘‘ ثلاثی مزید فیہ کے باب اِفعال ’’إِهْلَالٌ ‘‘ سے مشتق صیغہ ماضی مجہول ہے۔ اہلِ لغت نے ’’اِھْلَال‘‘ کے متعدد معانی بیان کیے ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1. وانهلت السماء إذا صبت، واستهلت إذا ارتفع صوت ’وقعها‘ و کان استهلال الصبي منه.
’’انْھَلَّتِ السَّمَائُ ‘‘ اس وقت کہا جاتا ہے جب بارش برسے اور اسْتَھَلَّتْ اس خاص وقت کو کہتے ہیں جب بارش کے قطرے بلند آواز کے ساتھ زمین پر گریں۔ اسی سے اسْتِھْلَالُ الصَّبِیِّ (عین پیدائش کے وقت بچے کا رونا) بھی ہے۔‘‘
ابن منظور، لسان العرب، 11: 701
زبیدی، تاج العروس، 15: 809
2. و استهل الصبي بالبکائ: رفع صوته و صاح عند الولادة، و کل شيء ارتفع صوته فقد استهل. والإهلال بالحج: رفع الصوت بالتلبية، و کل متکلم رفع صوته أو خفضه فقد أهل و استهل.
’’اسْتَھَلَّ الصَّبِيُ کا معنی ولادت کے وقت بچے کا بلند آواز اور چلاّ کر روناہے۔ (اس معنی میں) ہر وہ چیز جس کی آواز بلند ہو اسے ’’اسْتَھَلَّ‘‘ کہتے ہیں۔ حج کے موقع پر بلند آواز کے ساتھ تلبیہ پڑھنے کو اھْـلَال کہا جاتا ہے، اور ایسا ہی ہر بولنے والے کی آواز بلند کرنے کو اَھَلَّ اور اسْتَھَلَّ کہا جاتا ہے۔‘‘
3. و أصل الإهلال رفع الصوت. و کل رافع صوته فهو مهل، و کذلک قوله ل: {وَ مَا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللهِ بِهِ} هو ما ذبح للآلهة و ذلک لأن الذابح کان يسميها عند الذبح، فذلک هو الإهلال.
’’اِھْلَال کا اصل معنی آواز بلند کرنا ہے۔ ہر آواز بلند کرنے والا مُھِلٌّ ہے، اور اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: {وَمَا اھِلَّ لِغَيْرِاللہ بِہِ} ۔ اس سے مراد ہر وہ جانور ہے جسے جھوٹے معبودوں کیلئے ذبح کیا گیا ہو اور یہ مفہوم اس بنا پر ہے کہ ذبح کرنے والا عین ذبح کے وقت اس بت کا نام لیتا تھا۔ پس یہی اِھْلَال ہے۔‘‘
ابن منظور، لسان العرب، 11: 701
4. قال أبو العباس: وسمي الهلال، هلالاً لأن الناس يرفعون أصواتهم بالإخبار عنه.
’’ابو العباس نے کہا: چاند کو ہلال اس لئے کہتے ہیں کہ لوگ اسے دیکھتے ہی اپنی آوازیں بلند کر کے اس کا اعلان کرتے ہیں۔‘‘
ابن منظور، لسان العرب، 11: 703
زبیدی،تاج العروس، 15: 108
ہر اسلامی ماہ کی پہلی تاریخ کو طلوع ہونے والے چاند کو ہلال کہتے ہیں جس کا مختلف وجوہ کی بنا پر لوگ شدت سے انتظار کرتے ہیں لہٰذا نیا چاند دیکھنے والوں کی طرف سے ایک آواز بلند ہوتی ہے: استجابة الإهلال ’’وہ چاند نظر آ گیا‘‘ اس خاص وقت میں بلند ہونے والی آواز کو ’’اِھْلَال‘‘ کہتے ہیں جبکہ کسی اور آواز کو اھلال سے موسوم نہیں کیا جاتا۔
اِھْلال کا ایک معنی ہے ’’پیدائش کے وقت بچے کا رونا‘‘ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو پیدا ہوتے ہی اس کے منہ سے رونے چیخنے کی آواز نکلتی ہے۔ جسے عربی میں ’’اَھَلَّ الصَّبِيُ‘‘ کہا جاتا ہے۔ عام حالات میں بچے کا چیخنا اور رونا ’’اھلال الصبی‘‘ نہیں کہلاتا بلکہ عین پیدائش کے وقت آواز بلند کرنے اور چیخنے کو ’’اھلال الصبیّ‘‘ کہتے ہیں۔
کفار و مشرکین جب کسی جانور کو ذبح کرتے تو وہ یہ اعلان کرنے کے لئے کہ وہ اپنے کس بت کے نام پر اسے ذبح کر رہے ہیں۔ آواز بلند کرتے جسے رَفْعُ الصَّوْتِ عِنْدَ الذِّبْحِ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ آواز وہ اس لیے لگاتے کہ ان کے معبودانِ باطلہ بے شمار تھے۔ لہٰذا وقتِ ذبح آواز بلند کرتے ہوئے اپنے خاص بت کا نام لیتے۔ اس بلند کی جانے والی آواز کو ’’اِھلال‘‘ کہا جاتا۔
کسی خاص موقع پر کوئی اعلان کرنے کے لئے آواز بلند کرنا بھی اِھْلَال کے معنی میں لیا جاتا ہے۔
اِھْلَال کا ایک معنی بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا بھی ہے جیسا کہ دورانِ حج حجاجِ کرام بلند آواز سے تلبیہ پڑھتے ہیں۔
عربی لغت کے حوالے سے درج بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ بنیادی طور پر ’’اہلال‘‘ میں کسی خاص موقع پر آواز بلند کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس کے لغوی معنی کی رو سے آیتِ مبارکہ وَمَا أُهِلَّ میں بھی لازماً رفعِ صوت کا مفہوم موجود ہوگا۔ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِاللہ ِ سے محدّثین اور مفسرینِ کرام نے کیا معنی مراد لیا ہے؟ ذیل میں ہم اسی پہلو پر تفصیلی بحث رقم کریں گے تاکہ اس آیت میں بیان کردہ قرآن مجید کا صحیح منشا اور مقصود اہلِ حق کے لئے قلبی سرور کا باعث بن سکے اور اہلِ باطل کے بطلان کا قلع قمع ہونے کا ساماں فراہم ہوسکے۔
محدثینِ کرام اور شارحینِ حدیث وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ سے مراد بآوازِ بلند بتوں کے نام پر ذبح کئے جانے والے جانور لیتے ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔
محمد بن اسماعیل البخاری کے مقام سے کون واقف نہیں۔ اہلِ علم نے انہیں امیر المؤمنین فی الحدیث کا عظیم الشان لقب دیا ہے جبکہ آپ کی شہر آفاق کتاب ’صحیح بخاری کو اصحح الکتب بعد کتاب اللہ کا درجہ حاصل ہے۔ حضرت امام بخاری کو روایتِ حدیث اور فہمِ حدیث کا جو درک حاصل تھا وہ خال خال محدثین کے حصہ میں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُمت کی اکثریت انہیں حدیث میں حجت مانتی ہے۔ انہوں نے حدیث مبارکہ سے جو معنی و مفہوم اخذ کرکے اپنی کتاب کی زینت بنایا وہ درست اور مقبول ہے۔ اُھِلَّ کا جو معنی انہوں نے بیان فرمایا اور پھر شارحین بخاری نے جن معانی کو اختیار کیا ان کی موجودگی میں ہمیں کسی اور کی طرف التفات کرنے کی ضرورت نہیں۔ اُن کے بیان کردہ مفہوم کے مطابق اہل کا اطلاق کسی مخفی امر یا چھپی ہوئی نیت پر نہیں ہوتا اور نہ یہ لفظ ایصالِ ثواب کے لئے منسوب جانوروں کے ساتھ خاص ہے۔ اسی بات کو ہم ذیل میں قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
امام بخاری نے صحیح البخاری کتاب الحج میں اس لفظ کو حج و عمرہ کے اعمال کے ضمن میں استعمال کیا ہے مثلاً انہوں نے حدیث نمبر 1473 جس میں بلند آواز کے ساتھ تلبیہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ اس بحث کا عنوان اس طرح قائم کیا ہے: ’’بَاب رفْعِ الصَّوْتِ بِالاهْلَالِ‘‘ ’’بآواز بلند تلبیہ پڑھنے کا باب‘‘ پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ کو روایت کیا ہے۔
عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: صَلَّی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِالْمَدِینَةِ الظُّهْرَ أَرْبَعًا وَالْعَصْرَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَکْعَتَيْنِ وَسَمِعْتُهُمْ يَصْرُخُوْنَ بِهِمَا جَمِيْعًا.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر کی چار اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعتیں پڑھیں اور میں نے تمام لوگوں کو بلند آواز سے حج اور عمرہ دونوں کا نام پکارتے ہوئے سنا۔
(1) بخاری، الصحیح، 2: 561، کتاب الحج باب رفع الصوت بالاھلال، رقم: 1473
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام بخاری نے ’’اھلال‘‘ کو رفع الصوت کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ جبکہ اس سے متصل دیگر ابواب درج ذیل عنوان کے تحت قائم کئے ہیں:
{بابُ التَّحْمِيْدِ وَالتَّسْبِيْحِ وَالتَّکْبِيْرِ قَبْلَ الإْهْلَالِ عِنْدَ الرُّکُوْبِ عَلَی الدَّابَّةِ}
’’جانور پر سوار ہونے کے وقت لبیک سے پہلے تحمید، تسبیح اور تکبیر کہنا‘‘
(1) بخاری، الصحیح، 2: 562، باب: 26
اس باب میں حدیث نمبر 1476 درج ہے۔
اس سے اگلے باب کا عنوان ہے:
{بَابُ مَنْ أهَلَّ حِيْنَ اسْتَوَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ قَائِمَةً}
’’کسی شخص کا اس وقت تلبیہ پڑھنا جب سواری اس کو سیدھی لے کر کھڑی ہو‘‘
(2) بخاری، الصحیح، 2: 562، باب: 27
اس کے تحت حدیث نمبر 1477 درج ہے۔
اس سے اگلے باب کا عنوان ہے:
{بَابُ الإهْلَالِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ}
’’قبلہ رخ ہو کر تلبیہ پڑھنا‘‘
(2) بخاری، الصحیح، 2: 562، باب: 28
اس کے تحت حدیث نمبر 1478 درج ہے۔
پھر امام بخاری نے آگے جاکر ایک اور باب باندھا جس کا عنوان قائم کیا ہے:
{بَابُ کَيْفَ تُهِلُّ الْحَائِضُ وَالنُّفَسَائُ؟}
’’حیض اور نفاس والی عورتیں کس طرح احرام باندھیں؟‘‘
یہاں امام بخاری نے اھلَّ کے لغوی معنی کی وضاحت کی ہے وہ لکھتے ہیں:
أهَلَّ: تَکَلَّمَ بِهِ: وَاسْتَهْلَلْنَا وَأَهْلَلْنَا الْهِلَالَ، کُلُّهُ مِنَ الظُّهُوْرِ. وَاسْتَهَلَّ الْمَطَرُ خَرَجَ مِنَ السَّحَابِ {وَمَا أهِلَّ لِغَيْرِ اللہ بِهِ} ]المائدة، 5: 3[ وَهُوَ مِنَ استِهْلَالِ الصَّبِیِّ.
’’اھلَّ کا معنی ہے: اس نے کلام کیا (یعنی زبان سے کہا) اور اسْتَھْلَلْنَا اور اھْلَلْنَا، الْھِلاَلَ یہ سب ظہور سے ہے۔ اسْتَھَلَّ الْمَطَرُ کے معنی ہیں: بادل سے بارش نکلی اور آیہ کریمہ (وَمَا اھِلَّ لَِغَيْرِ اللهِ بہِ) میں اھل کا معنی پیدائش کے وقت بچہ کے رونے سے ماخوذ ہے (یعنی جس طرح بچہ پیدائش کے وقت آواز نکالتا ہے اسی طرح جانور کو ذبح کرتے وقت بلند آواز سے تکبیر کہی جائے گی)
(1) بخاری، الصحیح، 2: 563، باب: 30
امام بخاری نے اھلال کے لغوی معنی بیان کرکے اس اشکال کو دور کر دیا جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اھل جانوروں کے ساتھ خاص ہے اور کسی جانور کو اگر کسی کے ایصال ثواب کے لئے منسوب کر دیا جائے تو وہ اھل بہ لغیر اللہ میں شامل ہو کر حرام ہو جاتا ہے۔
امام بخاری کی تشریح اور توضیح اس مفہوم کے برعکس ہے انہوں نے احرام اور تلبیہ کے لئے اھلال کا لفظ بار بار استعمال کیا ہے۔
پتہ چلا کہ اھلال اور اھل اللہ شریعت کے حرام کردہ امور میں سے کوئی امر نہیں۔ دوسرے یہ کہ اھل کا اطلاق چھپی ہوئی نیت یا کسی اور مخفی امر پر نہیں ہوتا بلکہ اھل اور اھلال کا مفہوم ان شرائط کے ساتھ واضح ہوتا ہے:
لا محالہ ان ساری چیزوں کا تعلق کسی دائمی اور مستمر عمل سے نہیں۔ پس اگر جانور کی بات ہو تو پھر اھلال کا اطلاق عین ذبح کے وقت زیادہ موزوں ہے کہ جب جانور کو لٹا کر ذبح کیا جا رہا ہو تو دیکھا جائے گا کہ اس وقت وہ کس کے نام ذبح کیا جا رہا ہے؟ بت اور اصنام جیسے لات، منات، ھبل اور عزیٰ یا اللہ تعالیٰ ل کے نام پر۔
لہٰذا وہ جانور جسے کوئی شخص اپنے والدین اعزہ و اقارب یا کسی بزرگ کے ایصال ثواب کے لئے ان سے منسوب کر دے مثلاً یہ کہے کہ یہ جانور فلاں بزرگ کے ایصال ثواب کے لئے ہے تو امام بخاری کے مطابق یہ ہرگز اھل بہ لغیر اللہ میں شامل نہیں کیونکہ نذر و نیاز اور ایصال ثواب میں نہ کوئی خاص واقعہ ظہور پذیر ہوا ہے نہ کوئی آواز نکالتا ہے اور نہ کوئی ظہور کی صورت ہے۔
تاریخ عرب پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے نظام الاوقات کا تعلق قمری مہینے سے ہوتا تھا۔ وہ ماہ و سال کا تعین قمری حساب سے کرتے تھے حج و عمرہ اور تجارتی سفر وغیرہ کا دارو مدار بھی چاند کی رؤیت پر تھا۔ پس اسی وجہ سے انہیں چاند نکلنے کا شدت سے انتظار رہتا تھا اور جس دن چاند نکلتا وہ اپنی عادت کے مطابق خوشی کا اظہار کرتے اور بآواز بلند شور کرکے کہتے: وہ چاند، اسی وجہ سے پہلے دن کے چاند کو بھی ھلال کہا گیا۔ امام بخاری نے بھی مہینوں کے تعین میں چاند کی اس اہمیت کو واضح کیا اور ایک باب درجہ ذیل عنوان سے قائم کیا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الحج میں ایک باب یوں باندھا:
بابُ قولِ اللہ تعالی: {اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰت فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ} ] البقرة، 2: 197[ وقوله: { يَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَهِلَّةِط قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ} ] البقرة، 2: 189[
’’حج کے چند مہینے معیّن ہیں (یعنی شوّال، ذوالقعدہ اور عشرئہ ذی الحجہ) تو جو شخص ان (مہینوں) میں نیت کر کے (اپنے اوپر) حج لازم کرلے تو حج کے دنوں میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے اور نہ کوئی (اور) گناہ اور نہ ہی کسی سے جھگڑا کرے‘‘ اور اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ’’(اے حبیب!) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرمادیں یہ لوگوں کے لئے اور ماہِ حج (کے تعیّن) کے لئے وقت کی علامتیں ہیں‘‘
(1) بخاری، الصحیح، 2: 565، باب: 32
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور حدیث بیان کی ہے جس میں احرام باندھنے کو اھلال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حدیث مبارکہ کے الفاظ یہ ہیں:
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنه أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ، وَعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ. وَأَهَلَّ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِالْحَجِّ، فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لَمْ يَحِلُّوا حَتَّی کَانَ يَوْمُ النَّحْرِ.
’’حضرت عُروہ بن زُبَیر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ پس ہم میں سے بعض نے عمرہ کا، بعض نے حج و عمرہ دونوں کا اور بعض نے صرف حج کا احرام باندھا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کا احرام باندھا۔ پس جس نے حج کا احرام باندھا یا حج و عمرہ کو جمع کیا تو انہوں نے قربانی کے دن تک احرام نہیں کھولا۔‘‘
(2) بخاری، الصحیح، 2: 567، کتاب الحج، باب التمتع والإقران و الإفراد بالحج و فسخ الحج لمن لم یکن معہ ھدی، رقم: 1487
اس حدیث مبارکہ میں حج و عمرہ کے موقع پر احرام باندھنے کو پر اھلال سے تعبیر کیا گیا جو کسی مخفی امر یا دل کی خفیہ نیت کا معاملہ نہیں بلکہ حجاج کرام ایک مخصوص وقت میں احرام باندھ کر بآواز بلند تلبیہ پڑھتے ہیں تو سب لوگوں کو علم ہو جاتا کہ یہ زائر حرمین ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ اھلال میں ظہور ضروری ہے۔
امام بخاری نے اھل کے جو لغوی معنی بیان کئے ہیں ان میں نمایاں اور اہم بات ’’ظہور‘‘ ہے مثلاً زبان سے اونچی آواز میں کوئی بات کہنا تکلم ہے اور بارش جب زمین پر گرتی ہے تو اس سے جو آواز نکلتی ہے اُسے استھل المطر کہتے ہیں۔ نو مولود بچہ جب بطن مادر سے ظاہر ہوتا ہے تو روتا ہے تو عربی میں اسے استھل الصبی کہا جاتا ہے۔ پہلی رات کا چاند جب ظاہر ہوتا ہے تو اسے اھلہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح بوقت ذبح جب جانور کو لٹا کر کسی کا نام پکارا جاتا ہے تو وہ بھی اھلال ہے۔
مدعائے کلام یہ ہے کہ محض نسبت سے حرام ہونا ثابت نہیں بلکہ صحیح احادیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی شخص جس جانور پر بوقت ذبح نام لینا بھول گیا تو اس کا کھانا حلال ہے۔ اسی طرح صحابہ نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعراب کے ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت کھانے سے متعلق دریافت کیا کہ معلوم نہیں وہ ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیتے بھی ہیں یا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایسا گوشت کھانا حلال ہے۔ چنانچہ عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے:
أَنَّ قَوْمًا قَالُوا لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم إِنَّ قَوْمًا يَاْتُوْنَا بِاللَّحْمِ لَا نَدْرِي أَذُکِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ أَمْ لَا؟ فَقَالَ: سَمُّوا عَلَيْهِ أَنْتُمْ وَکُلُوهُ. قَالَتْ: وَکَانُوا حَدِيثِي عَهْدٍ بِالْکُفْرِ.
’’کچھ لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ ہم ایسے لوگ ہیں جن کے پاس گوشت آتا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں؟ (اس کا کیا حکم ہے، کھائیں یا نہ کھائیں) ارشاد ہوا کہ تم اس پر بسم اللہ پڑھ کر کھا لیا کرو۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ یہ زمانہِ کفر کے قریب کی بات ہے۔ ‘‘
(1) بخاری، الصحیح، کتاب الذبائح، باب ذبیحۃ الأعراب و نحوھم، 5: 2097، رقم: 5188
اس حدیث مبارکہ کے بعد امام بخاری نے اگلے باب کے ترجمۃ الباب میں امام زہری اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے خواہ ان کا عقیدہ کفر کا کیوں نہ ہو یعنی وہ حضرت عیسی ں کو خدا مانیں تب بھی اور اگرچہ وہ ذبح کرتے ہوئے کسی کا نام نہ بھی لیں تو بھی وہ ذبیحہ حلال ہے۔ باب کا عنوان اس طرح ہے:
بَاب ذَبَائِحِ أَهْلِ الْکِتَابِ وَشُحُومِهَا مِنْ أَهْلِ الْحَرْبِ وَغَيْرِهِمْ وَقَوْلِهِ تَعَالَی {الْيَوْمَ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِيْنَ أُوتُوا الْکِتَابَ حِلٌّ لَکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلٌّ لَهُمْ}. وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: لَا بَاْسَ بِذَبِيحَةِ نَصَارَی الْعَرَبِ وَإِنْ سَمِعْتَهُ يُسَمِّي لِغَيْرِ اللهِ فَلَا تَاْکُلْ وَإِنْ لَمْ تَسْمَعْهُ فَقَدْ أَحَلَّهُ اللهُ لَکَ وَعَلِمَ کُفْرَهُمْ وَيُذْکَرُ عَنْ عَلِیٍّ نَحْوُهُ. وَقَالَ الْحَسَنُ وَإِبْرَاهِيمُ لَا بَاْسَ بِذَبِيحَةِ الْأَقْلَفِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ طَعَامُهُمْ ذَبَائِحُهُمْ.
’’اہل کتاب اور حربی کافروں وغیرہ کے ذبیحہ سے متعلق باب میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال ہوئیں اور کتابیوں کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے) اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے (سورہِ المائدہ، 5)زہری کا قول ہے کہ عرب کے نصاریٰ کے ذبح کئے ہوئے میں کوئی حرج نہیں اور اگر تم سنو کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لے کر ذبح کیا تو نہ کھاؤ اور اگر تم نہ سنو تو اللہ نے اسے تمہارے لئے حلال کیا اور وہ ان کا کفر جانتا ہے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ حسن بصری اور ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ غیر مختون کے ذبیحہ میں کوئی حرج نہیں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان کا کھانا ہی ان کے ذبائح ہیں۔‘‘
پتہ چلا کہ اھل میں ’’ظہور‘‘ نہایت ضروری امر ہے اس کے بغیر کسی پر اھل لغیر اللہ کا حکم لگا کر حرام اور شرک قرار دینا شرعاً جائز نہیں۔ شارحینِ کرام نے بھی اھل کا یہی معنی لیا ہے۔
مندرجہ بالا عنوان باب کی شرح کرتے ہوئے امام ابن حجر عسقلانی نے بڑی تفصیلی بحث کی ہے امام زہری کے حوالے سے انہوں نے لکھا ہے کہ
و إهلاله ان يقول باسم المسيح.
’’اھلال سے مراد یہ ہے کہ وہ ذبح کرتے ہوئے یوں کہیں باسم المسیح یعنی حضرت عیسیٰں کے نام پر ذبح کرتا ہوں۔‘‘
(1) ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 9: 637
اگر بوقت ذبح ان سے اس طرح کے الفاظ نہ سنیں تو پھر گوشت حلال ہے وجہ یہ ہے کہ اصل دین ان کا برحق تھا اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ ان روایات کو پڑھ کر ان لوگوں پر نہایت تعجب ہوتا ہے جو صحیح البخاری کی رٹ لگاتے رہتے ہیں لیکن ان احادیث سے واقف نہیں مذکورہ احادیث میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ کرام اور ائمہ عظام سے صراحتہً اس حکم کی اجازت مل رہی ہے کہ اگر اہل کتاب یا اور غیر مسلم اجنبی کا ذبحہ آپ کو پہنچے جس کی حقیقت سے آپ واقف نہ ہوں تو اللہ کا نام لے کر کھالیں۔ جب غیر مسلموں کے ذبیحہ کا یہ حکم ہے تو جو مسلمان اولیاء اللہ کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے منسوب کر کے جانور اللہ کے نام پر ذبح کرتے ہیں یقینا وہ بدرجہِ اتم حلال اور پاک ہیں، ان میں کسی قسم کی کوئی حرمت یا شرک کا عمل دخل نہیں۔
شارحینِ صحیح بخاری میں حافظ ابن حجرعسقلانی کا علمی مقام و مرتبہ اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں۔ حدیث کی شرح اور رجال میں ان کی بات سند کا درجہ رکھتی ہے۔ انہوں نے بھی امام بخاری کے بیان کردہ معنی کی مزید تائید کی ہے، لکھتے ہیں:
(قوله باب رفع الصوت بالإهلال) قال الطبري: الإهلال هنا رفع الصوت بالتلبية، وکل رافع صوته بشيء فهو مهل به وأما أهل القوم الهلال فأری أنه من هذا لأنهم کانوا يرفعون أصواتهم عند رؤيته انتهی.
’’امام بخاری نے باب قائم کیا ہے {باب رفع الصوت بالاھلال} امام طبری نے کہا: یہاں اھلال سے مراد تلبیہ پڑھتے ہوئے آواز بلند کرنا ہے اور ہر وہ شخص جو کسی بھی چیز پر آواز بلند کرے وہ مھل ہے۔ لوگوں کا چاند کے وقت اھل کا معنی بھی اسی سے ماخوذ ہے کیونکہ وہ اس کو دیکھتے ہی آواز بلند کرتے ہیں۔‘‘
(1) عسقلانی، فتح الباری، 3: 408
ابن حجر مزید لکھتے ہیں:
أن أصل الإهلال رفع الصوت لأن رفع الصوت يقع بذکر الشيء عند ظهوره.
قوله {وَمَا أَهِلَّ لِغَيْرِ اللهِ بِهِ} وهو من استهلال الصبي أي أنه من رفع الصوت بذلک فاستهل الصبي أي رفع صوته بالصياح إذا خرج من بطن أمه وأهل به لغير اللہ أي رفع الصوت به عند الذبح للأصنام، ومنه استهلال المطر والدمع وهو صوت وقعه بالأرض و من لازم ذلک الظهور غالبا.
’’اھلال کا اصل معنی آواز بلند کرنا ہے کیونکہ کسی چیز کے ظہور میں آتے وقت آواز بلند ہوتی ہے۔ اور ارشاد باری تعالیٰ {وَمَا اَھِلَّ لِغَيْرِ اللهِ بِہِ} کا معنی استھلال الصبی (بچے کے رونے سے) ماخوذ ہے یعنی یہ معنی آواز کی بلندی سے ماخوذ ہے۔ استھل الصبی کا معنی ہے جب وہ بطن مادر سے نکلا تو اس نے چیخ کے ساتھ اپنی آواز بلند کی۔ اور اھل بہ لغیر اللہ کا معنی ہے بتوں کے ذبح کرتے وقت آواز بلند کرنا اور اسی سے بارش اور آنسوؤں کا برسنا ہے جب وہ زمین پر گرنا ہے پس ان معانی سے لازم ٹھہرا ہے کہ (اھلال میں) ظہور نمایاں ہو۔‘‘
(2) عسقلانی، فتح الباری، 3: 415
3۔ امام بیہقی حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا قول اس آیت {وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللهِ بِهِ} کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:يعني ما أهل للطواغيت کلها.
’’اس سے مراد وہ جانور ہیں جنہیں بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘
(1) بیہقی، السنن الکبری، 9: 249
ایک اور مقام پر امام بیہقی رقمطراز ہیں:
{وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللهِ بِهِ} ما ذبح لآلهتهم.
’’وَمَا اھِلَّ لِغَيْرِ اللهِ بِہِ کا معنی وہ جانور ہیں جو مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے نام ذبح کیا کرتے تھے۔‘‘
(2) شعب الایمان، 5: 20، رقم: 56277
وأصل الإهلال في اللغة رفع الصوت، وکل رافع صوته فهو مهل. ومنه قيل للطفل: إذا سقط من بطن أمه فصاح قد استهل صارخا. والاستهلال والإهلال سوائ. ومنه قول اللہ عزوجل {وَ مَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ} لأن الذابح منهم کان إذا ذبح لآلهة سماها ورفع صوته بذکرها.
’’اھلال کا اصل لغوی معنی آواز بلند کرنا ہے لہٰذا آواز بلند کرنے والا ہر شخص مُھِلٌّ ہے اور اسی سے بچے کا استھلال کرنا ہے یعنی جب عین پیدائش کے وقت وہ بلند آواز سے روتا ہے۔ استھلال اور اھلال ہم معنی ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد {وَ مَا اھِلَّ بِہِ لِغَيْرِ اللهِ} ہے کیونکہ کفار و مشرکین میں سے ذبح کرنے والا جب اپنے بت کے نام پر ذبح کرتا تو اس کا نام لیتے وقت آواز کو بلند کرتا۔‘‘
(1) ابن عبدالبر، التمھید، 13: 1688
امام ابنِ حجر عسقلانی نے صحیح البخاری کی شرح فتح الباری (3: 415) اور امام نووی نے صحیح مسلم کی شرح (8: 89) میں بھی یہی معانی بیان کئے ہیں۔
ذیل میں ہم آیت {وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ} کی تشریح و تفسیر معروف ائمہ تفسیر کی آراء کی روشنی میں بیان کریں گے۔ جن سے یہ بات مترشح ہے کہ کسی ایک مفسرِ قرآن نے بھی ایصالِ ثواب کے لئے ذبح کیے گئے جانور کا تعلق ان حرمت والی آیات سے نہیں جوڑا اور نہ کسی نے اولیاء و صالحین کے ایصالِ ثواب کے لئے اللہ کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کو حرام قرر دیا۔۔
سورۃ البقرۃ کی آیتِ کریمہ ملاحظہ کیجئے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْـزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌo
’’اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بے شک اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
(1) البقرۃ، 2: 173
اس آیتِ مبارکہ میں أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ کے جو الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ ان کا مفسرینِ کرام نے شرعی معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ جانور ہے جس پر عین وقتِ ذبح غیر اللہ کا نام بلند کرکے چھری پھیر دی جائے۔ ذیل میں مشہور ائمہ تفسیر کے حوالے درج کئے جاتے ہیں۔
رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تفسیر ’’تنویر المقباس‘‘ میں {وَمَآ اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ} کا معنی یہ لکھا ہے:
class="arabic30pt1" {وَمَآ اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ} ماذبح لغیر اسم اﷲ عمداً للأصنام.
’’{وَمَآ اُھِلَّ بِہِ لِغَيْرِ اللهِ} کا معنی ہے وہ جانور جس کو جان بوجھ کر اللہ کا نام لیے بغیر بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘
(2) ابن عباس، تنویر المقباس: 244
class="arabic30pt1" عن قتادة فی قوله: {وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِاللهِ} قال: ما ذبح لغير اﷲ مما لم يسم عليه.
’’حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ وہ {وَ مَا اھِلَّ بِہِ لِغَيْرِاللهِ} سے مراد وہ جانور ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا نام لیے بغیر غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہو۔‘‘
(1) تفسیر عبدالرزاق، 1: 301، رقم: 1555
عن الزهری قال: الإهلال أن يقولوا: باسم المسيح.
’’امام زھری فرماتے ہیں کہ اِھلال کا مطلب ہے کہ بوقت ذبح یوں کہا جائے: باسم المسیح (یعنی حضرت عیسی ں کے نام پر ذبح کرتا ہوں)۔‘‘
(2) تفسیر عبدالرزاق، 1: 01 3، رقم: 156
نوٹ: واضح ہو کہ امام زھری نے اِھْلَال کے حوالے سے اپنی تفسیر میں ان عیسائیوں کا معمول بیان کیا ہے جو حضرت عیسیٰ ں کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے۔
و أما قوله: {وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِاللهِ} فإنه يعنی به وما ذبح للآلهة والأوثان يسمی عليه بغير اسمه أو قصد به غيره من الأصنام. و إنما قيل {وَمَا أُهِلَّ بِهِ} لأنهم کانوا إذا أرادوا ذبح ما قربوه لآلهتهم سموا اسم آلهتهم التي قربوا ذلک لها وجهروا بذلک أصواتهم. فجری ذلک من أمرهم علی ذلک حتی قيل لکل ذابح يسمی أو لم يسم، جهر بالتسمية أو لم يجهر مُهل. فرفعهم أصواتهم بذلک هو الإهلال الذی ذکره اﷲ تعالی فقال: {وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ} ومن ذلک قيل للملبی فی حجة أو عمرة مهل لرفعه صوته بالتلبية. و منه استهلال الصبی إذا صاح عند سقوطه من بطن أمه. واستهلال المطر وهو صوت وقوعه علی الأرض کما قال عمرو بن قميئة:
ظلم البطاح له انهلال حريصةة
’’اللہ تعالیٰ کے ارشاد {وَمَا اُھِلَّ بِہِ لِغَيْرِ اللهِ} سے مراد وہ جانور ہیں جو معبودانِ باطلہ یعنی بتوں کے لئے ذبح کیے گئے ہوں جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو یا اس کے علاوہ بتوں میں سے کسی ایک کا نام لینے کا ارادہ کیا گیا ہو۔ وَمَا اُھِلَّ بِہِ اس لیے ارشاد فرمایا گیا: کیونکہ جب مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے تقرب کے لئے کسی جانور کو ذبح کرنے کا ارادہ کرتے تو وہ اس مخصوص بت کا نام لیتے جس کے تقرب کے لئے وہ جانور ذبح کیا جانا ہوتا اور اس پر وہ اپنی آواز کو بلند کرتے پس پھر یہ ان کا معمول بن گیا حتی کہ ہر ذبح کرنے والے کو خواہ اس نے بآواز بلند اپنے معبود کا نام لیا ہو یا نہ مُھِلٌّ کہا جانے لگا۔ پس ان کا جانور پر آواز بلند کرنا اِھلَال کہلاتا ہے۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: {وَمَا اُھِلَّ بِہِ لِغَيْرِ اللهِ}۔ اسی بلندیِ آواز کے مفہوم کی وجہ سے حج اور عمرہ کے دوران بلند آواز سے تلبیہ پڑھنے والے کو بھی مُھِلٌّ کہا گیا۔ اسی مفہوم میں استھلال الصبی ہے جب بچہ پیدائش کے وقت اپنی ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی روتا ہے۔ اسی سے استھلال المطر ہے، یہ وہ آواز ہے جو بارش کے قطرے زمین پر گرتے وقت پیدا ہوتی ہے جیسا کہ عمر بن قمیئہ نے اپنے ایک شعر میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے: وادیوں کی ظلمت زور دار بارش کا ہونا ہے‘‘
(1) ابن جریر طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 2: 500
قوله تعالی: {وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ} أی ذکر عليه غير اسم اﷲ تعالی، و هي ذبيحة المجوسی والوثنی والمُعَطِّل. فالوثنی يذبح للوثن، والمجوسی للنار، والمُعَطِّل لا يعتقد شيئًا فيذبح لنفسه. والإهلال: رفع الصوت، يقال: أَهَلَّ بکذا، أي رفع صوته.
ومنه إهلال الصبیّ و استهلاله، و هو صياحه عند ولادته. و قال ابن عباس وغيره: المراد ما ذبح للأنصاب والأوثان..
’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد {وَمَا اُھِلَّ بِہِ لِغَيْرِ اللهِ} سے مراد وہ جانور ہے جس پر اللہ کے غیر کا نام لیا گیا ہو اور یہ مجوسی، بت پرست اور معطل کا ذبیحہ ہے۔ بت پرست اپنے بت کے لئے ذبح کرتا ہے، مجوسی آگ کے لئے اور معطل کا کسی چیز پر اعتقاد نہیں ہوتا وہ صرف اپنی ذات کے لیے ذبح کرتا ہے۔
(1) قرطبی، الجامع لأحکام القران، 2: 2233
اھلال آواز بلند کرنے کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے: اس شخص نے اس طرح آواز بلند کی۔
اسی سے اھلال الصبی اور نومولود بچے کا استھلال ہے جس سے مراد عین پیدائش کے وقت اس کا چیخنا ہے۔ حضرت ابن عباسص اور دیگر ائمہ فرماتے ہیں: اس سے مراد وہ جانور ہے جس کو نصب شدہ مورتیوں اور بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘
الإهلال: رفع الصوت، يقال أهلّ بکذا: أي رفع صوته، قال الشاعر يصف فلاة:
تهلّ بالفرقد رکبانها
کما يهلّ الراکب المعتمر
و منه إهلال الصبیّ، واستهلاله: وهو صياحه عند ولادته، والمراد هنا: ما ذکر عليها اسم غير اللہ کاللات والعزّیٰ.
’’اھلال: کا معنی آواز بلند کرنا ہے، کہا جاتا ہے کہ فلاں نے اس طرح آواز بلند کی۔ یعنی اپنی آواز کو اونچا کیا۔ کسی شاعرنے بنجر بیابان زمین کی تعریف یوں بیان کی ہے:
’’بنجر و ہموار زمین میں چلنے والے مسافروں نے زور سے آواز دی جیسے عمرہ کرنے والا سوار بآوازِ بلند تلبیہ کہتا ہے۔
اسی سے اھلال الصبی اور استھلال الصبی ہے، جس سے مراد عین پیدائش کے وقت بچہ کا بآواز بلند چیخنا ہے۔ یہاں اس آیت کا مطلب ہے کہ وہ جانور جس پر غیر اللہ مثلاً لات و عزیٰ کا نام لیا گیا ہو۔‘‘
(1) شوکانی، فتح القدیر الجامع بین فنی الروایة والدرایة من علم التفسیر، 1: 169
(وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللهِ بِهِ): أی ما ذبح فذکر عليه اسم غير اﷲ فهو حرام.
’’یعنی وہ جانور جسے ذبح کرتے ہوئے اللہ کے غیر کا نام لیا جائے پس ایسا جانور حرام ہے۔‘‘‘
(2) ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 2: 8
علاوہ ازیں دیگر معروف تفاسیر میں بھی مفسرین کرام نے
{سورة البقرة، 2: 173 اور سورة المائدة، 5: 3}
کے تحت مذکورہ بالا تمام معروف معانی بیان کئے ہیں کسی ایک مفسر نے بھی ان آیات کی یہ تاویل نہیں کی جو عام طور پر معترضین کرتے اور ایصالِ ثواب کے عمل کو شرک سے منسلک کرتے ہیں۔ مزید تفصیل درج ذیل تفاسیر میں دیکھئے:
ابن ابی حاتم، تفسیر القرآن العظیم، 5: 1407
امام فخر الدین رازی، التفسیر الکبیر، 5: 11
ابن جوزی، تفسیر زاد المسیر فی علم التفسیر، 1: 175
امام بغووی، معالم التنزیل، 1: 140
امام خازن، تفسیر لباب التأویل فی معانی التنزیل، 1: 119
امام بیضاوی، تفسیر البیضاوی، 1: 162
علامہ زمخشری، تفسیر الکشاف، 1: 215
امام نسفی، تفسیر مدارک التنزیل و حقائق التأویل، 1: 110
امام صاوی، تفسیر الصاوی، 1: 143
امام جلال الدین سیوطی، تفسیر الدر المنثور، 3: 15
أیضاً، تفسیر الجلالین
امام آلوسی، تفسیر روح المعانی، 2: 42
قاضی ثناء اللہ پانی پتی، تفسیر المظہری، 1: 190
علامہ عجیلی، تفسیر الجمل، 1: 207
احمد مصطفی، تفسیر المراغی، 1: 47
ابن عادل الدمشقی، تفسیر اللباب فی علوم القرآن، 7: 188
امام ابی سعود، تفسیر ارشاد العقل السلیم إلی مزایا القرآن الکریم، 1: 191
ابن عجیبہ، تفسیر البحر المدید، 2: 142
گزشتہ صفحات میں ہم نے اہلِ لغت، محدثینِ کرام اور مفسرینِ عظام کی آراء کی روشنی میں اھِلَّ کا درست مفہوم تفصیل سے واضح کر دیا ہے۔ جس کے مطابق صرف وہ جانور حرام ہے جس پر عین ذبح کے وقت اللہ کے نام کی جگہ کسی دوسرے کا نام اس طرح لیا جائے کہ میں اس جانور کو فلاں بت یا شخص کے نام پر اس کے تقرب کے لئے ذبح کرتا ہوں۔ یہ عمل شرک ہوگا اور یہ ذبیحہ از روئے نص حرام ہوگا۔ لیکن اگر صدقہ و خیرات اور نذر و نیاز کے لئے جانور خرید کر اللہ کی رضا کے لئے اللہ کے نام پر ذبح کر دیا جائے اور اس کا ثواب کسی بزرگ یا اپنے عزیز رشتہ دار کے نام کر دیا جائے تو یہ عمل حرام اور شرک نہیں۔۔
ائمہ لغت اور محدثین و مفسرین نے اس کے معانی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاند دیکھتے ہی لوگ اچانک آواز بلند کرنے لگتے ہیں کہ ’’وہ چاند ہو گیا‘‘، بعد ازاں اسی وجہ سے پہلی رات کے چاند کو ھِلال کا نام دیدیا گیا۔ ذیل میں ہم سورۃ البقرہ کی ایک اور آیت سے اس مفہوم کا استشہاد کرتے ہیں جس میں لفظ اَھِلَّۃٌ سے مراد چاند ہی ہے جب کہ مفسرینِ کرام نے اس لفظ ’’اَھِلَّۃ‘‘ کے تحت اِھلال کے وہ تمام معروف و متداول معنی بیان کئے ہیں جن کا ذکر ہم نے پچھلے صفحات میں کر دیا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُواْ الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُواْ الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo
’’(اے حبیب) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرمادیں یہ لوگوں کے لئے اور ماہِ حج (کے تعین) کے لئے وقت کی علامتیں ہیں، اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم (حالتِ احرام میں) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو (ایسی الٹی رسموں کی بجائے) پرہیزگاری اختیار کرنا ہے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
(1) البقرۃ، 2: 189
سابقہ صفحات پر مشتمل مکمل بحث کا لبِ لباب ذیل کے چار نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:
. کسی خاص وقت میں کی گئی بات عام وقت میں کی گئی بات سے مختلف ہوتی ہے۔
. کسی خاص وقت میں آواز بلند کرنا عام وقت میں آواز بلند کرنے سے مختلف ہوتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو ہم کسی اور کی طرف منسوب کر دیتے ہیں مثلاً ہم کچھ چیزیں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اسی طرح جانوروں کی طرف کچھ چیزیں منسوب کی جاتی ہیں۔ چوں کہ یہ چیزیں کسی خاص وقت میں نہیں بلکہ عام وقت اور حالت میں ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اس لئے اس پر حکم شرک نہیں لگایا جا سکتا۔
. ذبح ایک ایسا عمل ہے جو کہ ایک خاص وقت میں کیا جاتا ہے اور اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ اھلال ’’رفع الصوت عند الذبح‘‘ ’’عین وقتِ ذبح جانور پر آواز بلند کرنے‘‘ کو کہتے ہیں۔. وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللهِ بِهِ سے مراد وہ جانور ہیں جن پر ذبح کے وقت اللہ کی بجائے غیراللہ کا نام لیا جائے۔ اس خاص موقع پر اللہ کی بجائے غیراللہ کا نام بلند کرنا شرک ہے اور ایسے جانور کا کھانا حرام ہے۔۔
مشرکین جب کسی جانور کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے تو ان کے اس عمل سے ان کا مقصود اپنے معبودانِ باطلہ کی عبادت، تعظیم و تکریم ، ان کی رضا و خوشنودی اور تقرب کا حصول ہوتا تھا۔ لہٰذا ان آیات میں بطورِ خاص اس طرح کے عمل کو جو غیراللہ کے تقرب اور عبادت کے لئے ہو حرام ٹھہرایا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ.... (1)
’’تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لئے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘
(1) المائدۃ، 5: 3
مفسرینِ کرام نے سورۃ المائدۃ کی آیت: 3 کے تحت اس کی وضاحت کی ہے:
1. {وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ}... قال مجاهد و قتادة: کانت حول البيت ثلاثمائة وستون حجرًا منصوبة، کان أهل الجاهلية يعبدونها و يعظمونها و يذبحون لها، و ليست هي بأصنام إنما الأصنام هی المصورة المنقوشة، و قال الآخرون: هی الأصنام المنصوبة، و معناه: وما ذُبح علی اسم النصب، قال ابن زيد: و ما ذبح علی النصب و ما أهل لغير اللہ به: هما واحد.
’’امام مجاہد اور امام قتادہ کا قول ہے کہ بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ زمانہ جاہلیت کے لوگ ان کی عبادت اور تعظیم کیا کرتے تھے اور ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کیا کرتے تھے، وہ حقیقی بت نہیں تھے بلکہ صرف نقش و نگار والی تصاویر تھیں۔ بعض ائمہ کا قول ہے کہ یہ نصب شدہ بت تھے۔ اور اسکا معنی یہ ہے کہ وہ جانور جو بتوں کے نام پر ذبح کے گئے ہوں۔ ابن زید کا قول ہے کہ{ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ} اور {وَمَا اُھِلَّ لِغَيْرِ اللهِ بِهِ} دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔‘‘
(1) بغوی، تفسیر معالم التنزیل، 2: 99
أحدهما: أنها أصنام تنصب، فتعبد من دون اللہ، قاله ابن عباس، و الفرائ، و الزجاج، فعلی هذا القول يکون المعنی، و ما ذبح علی اسم النصب، وقيل: لأجلها.
والثاني: أنها حجارة کانوا يذبحون عليها، و يشرحون اللحم عليها و يعظمونها، و هوقول ابن جريج.
’’اللہ تعالیٰ کے قول {وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ} میں لفظ نُصُب کے بارے میں دو اقوال ہیں: ایک یہ کہ اس سے مراد نصب شدہ بت ہیں جن کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جاتی۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ ، فراء اور زجاج کا یہی قول ہے۔ اس قول کے مطابق اس کا معنی یہ ہوگا: جو جانور بتوں کے نام پر ذبح کیا جائے، اور یہ بھی قول ہے کہ جو جانور ان بتوں کی رضا اور خوشنودی کے حصول کیلئے ذبح کیا جائے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ ’’نُصُب‘‘ وہ پتھر تھے جن پر مشرکین جانور ذبح کئے کرتے تھے اوران پر گوشت کے ٹکڑے کرتے اور ان کی تعظیم کیا کرتے تھے۔ یہ ابنِ جریج کا قول ہے۔‘‘
(2) ابن جوزی، زاد المسیر فی علم التفسیر، 2: 283۔284
2. قوله تعالی: {وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ} فی النصب قولان:
3. {وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ} کانت لهم حجارة منصوبة حول البيت، يذبحون عليها و يشرحون اللحم عليها، يعظمونها بذلک و يتقربون به إليها.
’’{ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ} کی تفسیر یہ ہے کہ زمانہ ِجاہلیت میں لوگوں نے بیت اللہ کے اردگرد پتھر سے بنی ہوئی مورتیاں نصب کر رکھی تھیں اور تھان بنا رکھے تھے جن پر وہ جانور ذبح کرتے تھے اور گوشت کے ٹکڑے کرتے تھے، اس سبب سے وہ ان مورتیوں کی تعظیم کرتے اور ان کی خوشنودی حاصل کرتے تھے۔‘‘
(1) زمخشری، الکشاف، 1: 603
4. {وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ} النصب واحد الأنصاب، و هی أحجار کانت منصوبة حول البيت يذبحون عليها و يعدون ذلک قربة.
’’انصاب کا واحد نصب ہے اور ان سے مراد وہ پتھر ہیں جو بیت اللہ کے ارد گرد نصب تھے، مشرکین ان کے اوپر جانور ذبح کرتے اور اس عمل کو باعثِ تقرب سمجھتے تھے۔‘‘
(2) بیضاوی، تفسیر البیضاوی، 1: 410
5. {وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ} کانت لهم حجارة منصوبة حول البيت يذبحون عليها يعظمونها بذلک و يتقربون إليها.
’’خانہ کعبہ کے اردگرد مشرکین کے پتھر سے بنے بت نصب تھے جن پر وہ جانور ذبح کرتے تھے۔ اس کے باعث وہ ان کی تعظیم کرتے تھے اور (عملِ ذبح کے ذریعے) ان کا تقرب حاصل کرتے تھے۔‘‘
(3) نسفی، تفسیر القرآن الجلیل، 1: 388
6. و أخرج الطستي في مسائله عن ابن عباس أن نافع بن الأزرق قال له:... أخبرني عن قوله {الأنصاب} قال: الأنصاب الحجارة التي کانت العرب تعبدها من دون اللہ و تذبح لها.
’’امام طستی نے مسائل میں نافع بن ازرق کے حوالے سے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے انصاب کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ ان سے مراد وہ پتھر (کے بت) ہیں جن کی مشرکینِ عرب عبادت کرتے اور ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرتے۔‘‘
(1) سیوطی، الدر المنثور في التفسیر بالمأثور، 3: 16
7. قال ابن جريج: کانت العرب تذبح بمکة و تنضح بالدم ما أقبل من البيت، و يشرحون اللحم و يضعونه علی الحجارة، فلما جاء الإسلام، قال المسلمون للنبی صلی الله عليه وآله وسلم: نحن أحق أن نعظم هذا البيت بهذه الأفعال، فکأنه عليه الصلاة و السلام لم يکره ذلک، فأنزل اللہ تعالی: { لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا} ]الحج، 22: 37[ و نزلت {وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ} ]المائده، 5: 3[ المعنی: و النية فيها تعظيم النصب لا أن الذبح عليها غير جائز.
’’ابنِ جریج نے کہا: مشرکینِ عرب مکہ مکرمہ میں جانور ذبح کرتے اور بیت اللہ کے سامنے خون چھڑکاتے، اور گوشت کے ٹکڑے کرکے اسے پتھروں کی مورتیوں پر رکھ دیتے۔ جب زمانہِ اسلام آیا تو مسلمانوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خواہش کا اظہار کیا کہ بیت اللہ کے پاس اس طرح کے تعظیمی افعال کے ہم زیادہ حقدار ہیں۔ شاید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ان کی) اس خواہش کو ناگوار نہ سمجھتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی: {ہرگز اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون} اور یہ آیت بھی نازل فرمائی: {اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لئے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو}۔ اس کے ناجائز ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس طرح ذبح کرنے میں بتوں کی تعظیم کی نیت شامل ہے اس وجہ سے نہیں کہ یہاں مطلقاً ذبح ناجائز ہے۔‘‘
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 6: 57
شوکانی، فتح القدیر الجامع بین فنی الروایة والدرایة من علم التفسیر، 2: 10
اکثر لوگ (وَمَا أُهِلّ بِهِ لِغَيْرِاللهِ) اور (وَمَا ذُبِحَ عَلی النُّصُبْ) کے معنی و مفہوم کو آپس میں خلط ملط کردیتے ہیں درحقیقت ان دونوں کا اطلاق الگ الگ ہے۔ وَمَا ذُبِحَ عَلی النُّصُب سے مراد باطل معبود کے لیے تھان یعنی مخصوص چبوترہ بنا کر ان کی خوشنودی و رضا کے لئے جانور ذبح کرناہے۔
اہلِ اسلام کاعمل اس تصور سے پاک ہے۔ وہ اولیاء و صالحین اور مرحومین کو نہ تو کفار و مشرکین کی طرح جانور کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور نہ ان کے مجسمے اور مورتیاں بنا کر عبادت کرتے ہیں۔
اسی طرح وَمَا أُهِلّ بِهِ لِغَيْرِاللهِ سے مراد جیسا کہ ہم نے گذشتہ صفحات میں بیان کر دیا یہ ہے کہ بوقتِ ذبح بلند آواز سے کسی کا نام لینا اس میں مخصوص مقام اور تھان کا تصور نہیں بلکہ کسی جگہ بھی جانور ذبح کرکے اگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی خوشنودی اور تقرب کے لیے بطورِ عبادت اس کانام لیاجائے یہ عمل شرک ہے۔
مسلمان جانور کی جان کا نذرانہ بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں اور بوقتِ ذبح بصورتِ تکبیر صرف اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہیں۔ اس لیے ایصالِ ثواب کے لیے ذبح کیے گئے جانور پر شرک کا اطلاق نہیں ہوتا۔
ائمہ تفسیر نے وَمَا ذُبِحَ عَلی النُّصُب کی تفسیر میں جو کچھ لکھا ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کفارو مشرکین کے اس مشرکانہ عمل اور مسلمانوں کے جائز اعمال میں بُعد المشرِقین ہے کیونکہ:
مسلمان جب کسی جانور کو ایصالِ ثواب اور نذر کے لئے ذبح کرتے ہیں تو:
1۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور تقرب ہی پیش نظر ہوتاہے، ہرگز کسی غیر اللہ کا تقرب اور خوشنودی و رضا کا حصول مد نظر نہیں ہوتا۔
2۔ وہ شرعی طریقے پر جانور ذبح کرتے ہیں اور یہ عمل بطورِ خیرات خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے۔ اس کا ایصالِ ثواب اولیاء و صالحین اور مرحومین کے لئے ہوتا ہے اور گوشت پکا کر شرکاء و حاضرین اور فقراء و مساکین کے لئے پیش کیا جاتاہے۔
3۔ مسلمانوں کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں ہوتا کہ جانور کا گوشت فی نفسہِ مرحومین کو پہنچتا ہے بلکہ اس عمل میں یہ عقیدہ کارفرما ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بندگی و عاجزی پہنچتی ہے جبکہ اولیاء و صالحین اور مرحومین کو ہدیہء ثواب پہنچتا ہے اور موجود و زندہ افراد کھانے سے مستفید ہوتے ہیں۔
صدقات اور خیرات پر اللہ کے محبوب و مقرب بندوں کا نام لینے سے وہ حرام نہیں ہوتے کیوںکہ نام لینے سے صرف ایصالِ ثواب مقصود ہوتا ہے لہٰذا خیرات و صدقات کا ایصالِ ثواب کے لئے دینا ’’وَمَا اُهِلَّ لِغَيْرِاللهِ بِهِ‘‘ میں شامل ہی نہیں۔ شرعاً یہ امر جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی نیک عمل اور صدقہ و خیرات کو کسی دوسرے کے نام منسوب کر دے۔ اس کی شرعی حیثیت واضح کرنے کے لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاداتِ مبارکہ میں سے چند ایک ذیل میں دیئے جا رہے ہیں تاکہ کسی کے لئے ایصالِ ثواب کرنے کا مستند و معتبر جواز ثابت ہو جائے۔
1۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے:
أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَ أَظُنُّهَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ.
’’ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: میری والدہ اچانک فوت ہوگئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقتِ نزع) گفتگو کر سکتی تو صدقہ کرتی۔ اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب موتِ الفَجْأَةِ البَغْتَةِ، 1: 467، رقم: 1322
مسلم، الصحیح، کتاب الزکاة، باب وصول ثواب الصدقة عن المیت إلیہ، 2: 696، رقم: 1004
ابوداود، السنن، کتاب الوصایا، باب ما جاء فیمن مات وصیة یتصدق عنہ، 3: 118، رقم: 2881
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَکَ مَالًا وَلَمْ يُوْصِ. فَهَلْ يُکَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے اور اس نے مال چھوڑا ہے مگر اس بارے میں کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ (صدقہ کرنا) اس (کے گناہوں) کا کفارہ بن جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الوصیة، باب وصول ثواب الصدقات إلی المیت، 3: 1254، رقم: 1630
نسائی، السنن، کتاب الوصایا، باب فضل الصدقة عن المیت، 6: 251، رقم: 3652
ابن ماجة، السنن، کتاب الوصایا، باب من مات و لم یوصی ھل یتصدق عنہ، 2: 206، رقم: 2716
احمد بن حنبل، المسند، 2: 371، رقم: 8828
ابن خزیمة، الصحیح، 4: 123، رقم: 2498
3۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا:
يَا رَسُوْلَ اللهِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ أَفَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ مَخْرَفًا فَأُشْهِدُکَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا.
وَ قَالَ أَبُوْ عِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَ بِهِ: يَقُوْلُ أَهْلُ الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ: لَيْسَ شَيئٌ يَصِلُ إِلَی الْمَيِّتِ إِلَّا الصَّدَقَةُ وَ الدُّعَائُ.
’’یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہوچکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اس نے عرض کیا: میرے پاس ایک باغ ہے آپ گواہ رہیں کہ میں نے یہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا۔‘‘
’’امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور علماء کا یہی قول ہے، وہ فرماتے ہیں: میت کو صرف صدقہ اور دعا پہنچتی ہے۔‘‘
ترمذي، السنن، کتاب الزکاة عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب ما جاء فی الصدقة عن المیت، 3: 56، رقم: 669
ابوداود، السنن، کتاب الوصایا، باب ما جاء فیمن مات وصیة یتصدق عنہ، 3: 118، رقم: 2882
نسائی، السنن، کتاب الوصایا، باب فضل الصدقة عن المیت، 6: 252، رقم: 3655
4۔ حضرت ابوہریرہص سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَـلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ.
’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (ان کا اجر اسے برابر ملتا رہتا ہے): ایک وہ صدقہ جس کا نفع جاری رہے، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، تیسری وہ نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الوصیة، باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ، 3: 1255، رقم: 1631
ابوداود، السنن، کتاب الوصایا، باب ما جاء فی الصدقة عن المیت، 3: 117، رقم: 2880
ابن ماجة، السنن، المقدمة، باب ثواب معلم الناس الخیر، 1: 88، رقم: 239
بخاری، الأدب المفرد، 1: 28، رقم: 38
5۔ امام سفیان ثوری بیان کرتے ہیں کہ حضرت طاووس نے فرمایا:
إِنَّ الْمَوتَی يُفْتَنُونَ فِي قُبُورِهِمْ سَبْعًا، فَکَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُطْعُمَ عَنْهُمْ تِلْکَ الأَيَامِ.
وَ قَالَ السُّيُوطِيُّ: إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
’’بے شک سات دن تک مردوں کو ان کی قبروں میں آزمایا جاتا ہے اس لئے لوگ ان دنوں میں ان کی طرف سے کھانا کھلانے کو مستحب سمجھتے تھے۔‘‘
أبو نعیم، حلیة الأولیائ، 4: 11
سیوطی، الدیباج علی صحیح مسلم، 2: 491، رقم: 905
سیوطی، شرح علی سنن النسائی، 4: 104
’’امام سیوطی نے کہا ہے کہ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔‘‘
درج بالا روایات سے ثابت ہوا کہ ایصالِ ثواب اور صدقات و خیرات کے لئے کسی کے نام کی طرف نسبت شرعاً جائز بلکہ سنت ہے۔ اسی حوالے سے ذیل میں مزید احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔
6۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے کسی کو اپنی جگہ نوافل ادا کرنے کے لئے فرمایا:
عَنْ اِبْرَاهِيْمَ بْنِ صَالِحِ بْنِ دِرْهَمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِيْ يَقُوْلُ: انْطَلَقْنَا حَاجِّيْنَ، فَاِذَا رَجُلٌ فَقَالَ لَنَا: اِلَی جَنْبِکُمْ قَرْيَةٌ يُقَالُ لَهَا الأُبُلَّةُ؟ فَقُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ: مَنْ يَضْمَنُ لِيْ مِنْکُمْ اَن يُصَلِّيَ لِيْ فِي مَسْجِدِ الْعَشَّارِ رَکْعَتَيْنِ أَوْ اَرْبَعًا، وَ يَقُوْلُ هَذِهِ لِأَبِيْ هُرَيْرَةَ. سَمِعْتُ خَلِيْلِيْ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ مِنْ مَسْجِدِ الْعَشَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُهَدَائَ لَا يَقُومُ مَعَ شُهَدَائِ بَدْرٍ غَيْرُهُم.
’’ابراہیم بن صالح بن درھم کا بیان ہے کہ میرے والد محترم نے فرمایا: ہم حج کرنے حرم کعبہ گئے تو ایک آدمی نے ہم سے دریافت کیا: کیا تمہارے علاقے میں ’’اُبُلّۃ‘‘ نام کی کوئی بستی ہے؟ ہم نے جواب دیا: ہاں۔ اُس نے کہا: تم میں سے کون مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ ’’مسجدِ عَشَّار‘‘ میں میرے لئے دو یا چار رکعتیں پڑھنے کے بعد کہے: ان رکعتوں کا ثواب ابو ہریرہ کے لئے ہے۔ میں نے اپنے خلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مسجد عشار سے ایسے شھیدوں کو اٹھائے گا کہ شہدائے بدر کے سوا کوئی ان کے ساتھ کھڑا نہ ہو گا۔‘‘
ابوداؤد، السنن، کتاب الملاحم، باب فی ذکر البصرۃ، 4: 113، رقم: 4308۔
بیہقی، شعب الإیمان، 3: 479، رقم: 4115
اس روایت سے دو باتیں ثابت ہوئیں:
علاوہ ازیں اس روایت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نفل نماز پڑھ کر ایصال ثواب کرنا ایک جائز عمل ہے۔ اسی وجہ سے بزرگوں کا ہمیشہ یہ معمول رہا ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایصالِ ثواب کرنے کے لئے نوافل پڑھا کرتے تھے۔
7۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا روایت کرتی ہیں:
أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ مَاتَ وَ عَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُهُ.
’’بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے وہ روزے رکھے۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، باب من مات وعلیہ صوم، 2: 690، رقم: 1851
مسلم، الصحیح، کتاب الصیام، باب قضاء الصیام عن المیت، 2: 803، رقم: 1147
8۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَإِنْ کَانَ عَلَيْهِ نَذْرٌ قَضَی عَنْهُ وَلِيُهُ.
’’اگر اس (فوت ہونے والے) پر کسی نذر کا پورا کرنا باقی ہو (جو اس نے مانی تھی) تو وہ اس کی طرف سے اس کا ولی پوری کرے۔‘‘
ابوداود، السنن، کتاب الصیام، باب فیمن مات و علیہ صیام، 2: 315، رقم: 2400، 2401
دار قطنی، السنن، 2: 194، رقم: 79۔ 80
ابن ابی شیبہ، المصنف، 3: 113، رقم: 12598
9۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت نے حاضر ہوکر عرض کیا:
إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، فَقَالَ: أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ، أَکُنْتِ تَقْضِيْنَهُ؟ قَالَتْ: نَعَمْ. قَالَ: فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ بِالْقَضَائِ.
وَ فِي رِوَايَةٍ: فَقَالَتْ: إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ وَ عَلَيْهَا صِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ
’’میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس پر ایک ماہ کے روزے واجب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ اگر اس پرکچھ قرض ہوتا تو کیا تم اس کی طرف سے وہ قرض ادا کرتیں؟ اس عورت نے عرض کیا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قرض ادا کئے جانے کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘
’’اور ایک روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں کہ اس نے عرض کیا: میری بہن فوت ہو گئی ہے اور اس پر دو ماہ کے مسلسل روزے واجب ہیں۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الصیام، باب قضاء الصیام عن المیت، 2: 804، رقم: 1148
ابن ماجۃ، السنن، کتاب الصیام، باب من مات و علیہ صیام من نذر، 1: 559، رقم: 1758
نسائی، السنن الکبری، 2: 173۔174، رقم: 2912۔2915
10۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ جُہَینہ کی ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا:
إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ، فَلَمْ تَحُجَّ حَتَّی مَاتَتْ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا، أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلَی أُمِّکِ دَيْنٌ أَکُنْتِ قَاضِيَةً؟ اقْضُوا اللهَ، فَاللهُ أَحَقُّ بِالْوَفَائِ.
’’میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک کہ فوت ہوگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ فرمایا: ہاں تم اس کی طرف سے حج کرو۔ بھلا بتاؤ تو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں؟ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کیا کرو، کیونکہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اُس سے وفاء کی جائے۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الإحصار وجزاء الصید، باب الحج و النذور عن المیت، وَ الرَّجُلُ يَحُجُّ عَنِ المَرْأَةِ، 2: 656، رقم: 1754
نسائی، السنن، کتاب مناسک الحج، باب الحج عن المیت الذي نذر أن یحج، 5: 116، رقم: 2632
ابن خزیمۃ، الصحیح، 4: 346، رقم: 3041
اس حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کے فوت شدہ عمل کی بعداز وفات ادائیگی کو جائز قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دلیل بھی عطا کر دی کہ زندگی میں جس طرح کوئی کسی کی طرف سے قرض کی ادائیگی جیسا عمل کرے تو وہ قرض ادا ہو جاتا ہے تو اسی طرح بعد از وفات بھی اگر کوئی کسی کے لئے نیک عمل مثلاً حج کرے گا تو وہ مرنے والے کے نامہِ اعمال میں لکھ دیا جائے گا۔
11۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت نے حاضر ہوکر عرض کیا:
إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَی أُمِّي بِجَارِيَةٍ، وَ إِنَّهَا مَاتَتْ. قَالَ: فَقَالَ: وَجَبَ أَجْرُکِ. وَرَدَّهَا عَلَيْکِ الْمِيْرَاثُ. قَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّهُ کَانَ عَلَيْهَا صَومُ شَهْرٍ. أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟ قَالَ: صُوْمِي عَنْهَا. قَالَتْ: إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ. أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: حُجِّي عَنْهَا.
وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور اب میری ماں فوت ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں ثواب مل گیا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں لوٹا دی ہے۔ اس عورت نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے (باقی) تھے کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ فرمایا: ہاں، اس کی طرف سے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا: میری ماں نے حج کبھی نہیں کیا تھا کیا میں اس کی طرف سے حج ادا کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الصیام، باب قضاء الصیام عن المیت، 2: 805، رقم: 1149
ترمذی، السنن، کتاب الزکاۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب ما جاء في المُتَصَدِّقِ يَرِثُ صَدَقَتَهُ، 3: 54، رقم: 667
نسائی، السنن الکبری، 4: 66۔67، رقم: 6314۔6316
’’امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘
12۔ والدین کی وفات کے بعد ان کی طرف سے حج کرنے کا اجر بیان فرماتے ہوئے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ حَجَّ عَنْ وَالِدَيْهِ بَعْدَ وَفَاتِهِمَا کُتِبَ لَهُ عِتْقًا مِنَ النَّارِ.
’’جس نے اپنے والدین کے انتقال کے بعد ان کی طرف سے حج کیا تو اس کے لئے دوزخ کی آگ سے رہائی لکھ دی جائے گی۔‘‘
بیہقی، شعب الإیمان، 6: 205، رقم: 7912
سیوطی، شرح الصدور: 129
یہ بہت بڑی صلہ رحمی اور خدمت کی انجام دہی ہے کہ اولاد، والدین کی طرف سے حج کا فریضہ ادا کرے، اس کے علاوہ وہ دیگر صدقات وغیرہ بھی والدین کی طرف سے ادا کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ذات ہے اس نے اپنے بندوں کی بخشش و مغفرت کے لئے کئی طریقے عطا فرمائے ہیں جن میں میت کی طرف سے حج کرنا اور صدقات و خیرات وغیرہا جیسے اعمالِ صالحہ کرنا شامل ہیں۔
13۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی والدہ فوت ہوگئی تو انہوں نے عرض کیا:
يَا رَسُوْلَ اللهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: سَقْي الْمَائِ. فَتِلْکَ سِقَايَةُ سَعْدٍ بِالْمَدِيْنَةِ.
’’یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے، کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کرسکتا ہوں؟ فرمایا: ہاں! انہوں نے عرض کیا: تو کونسا صدقہ بہتر رہے گا؟ فرمایا: پانی پلانا۔‘‘ پس مدینہ منورہ میں یہ سعد کی پانی کی سبیل ہے۔‘‘
نسائی، السنن، کتاب الوصایا، باب ذکر الاختلاف علی سفیان، 6: 254۔255، رقم: 3662۔3666
ابن ماجۃ، السنن، کتاب الأدب، باب فضل صدقۃ المائ، 2: 1214، رقم: 3684
احمد بن حنبل، المسند، 5: 284، رقم: 22512
14۔ حضرت سعدص ہی سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا:
يَا رَسُوْلَ اللهِ إِنَّ أُمِّ سَعْدٍ مَاتَتْ، فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الْمَائُ، قَالَ: فَحَفَرَ بِئْرًا، وَ قَالَ: هَذِهِ لِأُمِّ سَعْدٍ.
’’یا رسول اللہ! امّ سعد کا انتقال ہوگیا ہے۔ سو (اس کے ایصالِ ثواب کے لئے) کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا: پانی۔‘‘
’’پس انہوں نے ایک کنواں کھدوا دیا اور کہا: یہ امّ سعد کا کنواں ہے۔‘‘
ابوداود، السنن، کتاب الزکاۃ، باب فی فضل سقي المائ، 2: 130، رقم: 1681
منذری، الترغیب و الترھیب، 2: 41، رقم: 1424
خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح، کتاب الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ، 1: 362، رقم: 12 19
کنواں کھدوانے کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لئے دیا کہ اس وقت مدینہ منورہ میں میٹھے پانی کی قلت تھی جس کے باعث مسلمانوں کو میٹھا پانی پینے کے لئے دستیاب نہیں تھا۔ وہ مشقت برداشت کرتے ہوئے میلوں کا سفر کر کے چھوٹی چھوٹی مشکیں پانی بھر کے لاتے۔ اس دوران حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی سے میٹھے پانی کا ایک کنواں خرید کر وقف کر دیا جس سے مسلمانوں کو آسانی ہو گئی۔ اس حدیث میں بھی اسی زمانہ کی طرف اشارہ ہے اور امّ سعد کے ایصالِ ثواب کے لئے وقف کئے گئے کنوئیں کے سبب مسلمانوں کی اس مشکل کو حل کیا گیا۔
یہ بات ذہن نشین رکھنے والی ہے کہ امّ سعد کا انتقال ہو چکنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو پانی فراہم کا مشورہ دے رہے ہیں۔ جس کے باعث حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک کنواں ان کے لئے وقف کر دیا جو ’’فَتِلْکَ سِقَايَةُ سَعْدٍ يا هَذِهِ ( أي البئر) لِأُمِّ سَعْدٍ‘‘ (امّ سعد کا کنواں) کے نام سے مشہور ہو گیا۔ واضح رہے کہ اس کنوئیں سمیت تمام پانیوں کا حقیقی مالک اللہ رب العزت کی ذات ہے مگر اسے غیر اللہ سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ صحابہ کرام و تابعین اپنی روایات میں فرما رہے ہیں کہ وہ امّ سعد کے نام سے مشہور ہوا۔
. قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس کنوئیں کا امّ سعد کے نام سے معروف ہونا یا کرنا ان کی وفات کے بعد ہوا۔ کیا اس کنوئیں کو غیر اللہ سے منسوب کرنے کے باعث صحابہ کرام اور تابعین (معاذ اللہ) مشرکین ہوگئے؟ اور (نعوذ باللہ من ذالک) کیا اس میں سے پانی پینا حرام ہوگیا؟ جیسا کہ معترضین نکتہ چینی کرتے ہیں۔ ہرگز نہیں! نہ ہی کسی صحابی اور تابعی نے شرک کیا اور نہ ہی کا پانی حرام ہوا بلکہ وہ ایسا طیب وپاکیزہ تھا جس طرح کا آج میسر نہیں۔
. ان احادیثِ مبارکہ سے ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور سنتِ مطہرہ سے یہ درس ملتا ہے کہ وہ مسلمان جن کے والدین، بزرگ، عزیز و اقارب اور دوست احباب وفات پا چکے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ بعداز وصال ان کو یاد رکھیں اور ان کی اخروی زندگی بہتر بنانے کا ساماں فراہم کریں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری ایصالِ ثواب کی صورت میں ہی نبھائی جا سکتی ہے۔
. یہ بات ذہن میں مستحضر رہے کہ نذر اور ایصالِ ثواب دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ نذر اور نیاز صرف اللہ تعالی کے لئے ہے جب کہ ایصالِ ثواب کسی بزرگ اور عام مسلمانوں کے لئے جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ عرفِ عام میں کسی بزرگ کے نام نذر و نیاز منسوب کرنے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنا یہ عمل تحفةً اور ہدیةً ان کے ثواب کے لئے اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا جانور جسے غیراللہ کی نذر کر کے بسم اللہ اللہ اکبر کے کلمات پڑھ کر ذبح کیا گیا ہو تو کیا اس کا ذبح کرنا جائز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ذبیحہ ہرگز جائز نہیں ہے۔ آیتِ کریمہ {وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللهِ بِهِ} میں اُھِلَّ میں ’’رفع الصوت‘‘ کا مفہوم ہے جبکہ لِغَيْرِ اللهِ میں تقرب لغیراللہ کا مفہوم ہے۔ چونکہ کفار و مشرکین کا اصل مقصود و منشاء کسی جھوٹے معبود کا تقرب ہوتا تھا اس لیے نام اگرچہ اللہ تعالیٰ کا لے لیا مگر جب نیت غیراللہ کے تقرب کی ہوئی تو وہ عمل بھی غیراللہ کے لئے ہوا اور اسی طرح یہ نذر بھی غیراللہ کے لئے ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔ اسی طرح ہر وہ عمل اور صدقہ و خیرات جس میں غیراللہ کے تقرب (بطور عبادت) کی نیت رکھی جائے، ناجائز ہے۔ جس طرح اگر ظاہراً کوئی حرام فعل صادر ہو جائے اور اس میں نیت سو فیصد درست ہو تو اس کا اعتبار نہیں کیوں کہ فی نفسہِ وہ عمل بھی حرام ہے، اسی طرح اگر کسی جانور کو ذبح کرتے وقت نیت تقرب لغیراللہ کی تھی مگر اس نے ذبح کرتے وقت بظاہر اللہ تعالیٰ کا نام لے لیا جبکہ اس کی نیت خلافِ توحید اور مشرکانہ تھی تو یہ عمل بھی ناجائز اور حرام ہوا کیونکہ عمل کی بنیاد و اساس نیت پر استوار ہوتی ہے۔ اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّيَاتِ.
’’اعمال کا دار و مدار بس نیتوں پر ہے۔‘‘
(1) بخاری، الصحیح، کتاب بدء الوحی، 1: 2، رقم: 1
ایصالِ ثواب کی نیت سے کسی کی طرف سے جانور ذبح کرنا جائز عمل ہے بشرطیکہ اس میں تقرب لغیر اللہ نہ ہو۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمر بھر کم وبیش ہر سال دو قربانیاں دیں۔ ایک قربانی اپنی اور اپنے اہلِ بیت کی طرف سے اور دوسری قربانی اپنی امت کی طرف سے۔ امت کی طرف سے قربانی کا جانور ذبح کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے:
اللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ.
’’اے اللہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )، آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس قربانی کو قبول فرما۔‘‘
(1) ابوداؤد، السنن، کتاب الضحایا، باب ما یستحب من الضحایا، 3: 94، رقم: 2792
اس حدیثِ مبارکہ میں خود آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملِ مبارک اس بات کا ثبوت مہیا کر رہا ہے کہ محض ایصالِ ثواب کی نیت سے کسی کے نام قربانی منسوب کرنا حرام نہیں۔
ثقہ محدثین ومفسرینِ کرام اور اہلِ لغت کی آرا و تشریحات کی روشنی میں خلاصۃً یہ بات قطعی طور پر بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ فرمانِ باری تعالیٰ ’’وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ‘‘ کا اطلاق ان بتوں (معبودان باطلہ) پر ہوتا ہے جن کی کفار و مشرکین پرستش کرتے اور بوقتِ ذبح اللہ کا نام لینے کی بجائے ان کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے۔ سورۃ البقرۃ اور دیگر سورتوں میں مذکور ان الفاظ کی تفسیر کرتے ہوئے یہی مفہوم رئیس المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سمیت تمام مفسرین نے بیان کیا ہے اور کسی ایک محدث و مفسر نے بھی اس سے ایصالِ ثواب کے لئے دیا گیا نذر و نیاز اور دیگر صدقہ وخیرات مراد نہیں لیا۔ لہٰذا جو لوگ ’’وَ مَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِاللہ ‘‘ کی غلط تعبیر کر کے اس کا اطلاق صدقہ و خیرات اور گیارھویں شریف جیسے معمولات پر کرتے ہیں وہ نہ قرآن حکیم کا صحیح فہم رکھتے ہیں اور نہ انہیں سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی ادراک حاصل ہے۔ اولیاء کرام اور بزرگانِ دین کے ایصال ثواب کے لئے کسی جانور کو محض ان کے نام منسوب کرکے اللہ کے نام پر ذبح کرنا ایک جائز اور مشروع عمل ہے۔
کسی نیک عمل اور صدقہ و خیرات پر مداومت کے لئے انتظاماً کسی ایک تاریخ کا تعیّن سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صدقہ و خیرات تو کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے تاریخ کیوں مقرر کی جائے؟ اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین ہوجانی چاہئے کہ تعین دو طرح کا ہوتا ہے۔
نماز پنجگانہ، حج، زکوٰۃ اور روزہ کی بجاآوری کیلئے شریعت نے خاص اوقات اور ایام کا تعین کر دیا ہے۔ ان ایام اور اوقات سے ہٹ کر اگر کوئی عمل کرے گا تو وہ ہر گز قابل قبول نہ ہوگا لہٰذا یہ تعین شرعی ہے۔
دوسرا تعین ذاتی اور انتظامی ہے۔ اگر بندہِ مومن اپنی ذاتی سہولت کی خاطر عمل میں مداومت، باقاعدگی اور استقامت پیدا کرنے کے لئے نفلی عبادات اور معمولات کے لئے بعض اوقات اور ایام کا تعین کرے تو یہ بھی جائز ہے اور ایسا کرنا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر جمعرات قبرستان میں فاتحہ خوانی کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض نوافل کے لئے رات اور دن مقرر فرمائے تھے تاکہ عمل میں مداومت پیدا ہو۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
إِنَّ أَحَبَّ الْعَمَلِ إِلَی اللهِ أَدْوَمُهُ وَ إِنْ قَلَّ.
’’بے شک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب عمل وہ ہے جو بلا ناغہ کیا جائے خواہ وہ تھوڑا ہی ہو۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب لن یدخل أحد الجنۃ بعملہ بل برحمۃ اللہ، 4: 2171، رقم: 2818
ابوداؤد، السنن، کتاب الصلاۃ باب ما یؤمر بہ من القصد فی الصلاۃ، 2: 48، رقم: 1368
نسائی، السنن، کتاب القبلۃ، باب المصلی یکون بینہ وبین الإمام سترۃ، 2: 68، رقم: 762
احمد بن حنبل، المسند، 6: 125
احادیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ طیبہ سے نفلی اعمال اور عبادات کے لئے وقت کے تقرر کا تصور موجود ہے۔ اس حوالے سے چند ذیلی عنوانات کے تحت احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ حضرت عبداللہ بن عمر ث سے روایت ہے کہ
کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَأْتِي مَسْجِدَ قُبَائٍ کُلَّ سَبْتٍ مَاشِياً وَ رَاکِباً فَيُصَلِّی فِيْهِ رَکْعَتَيْنِ. وَکَانَ عَبْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر ہفتہ کے دن مسجد قبا میں تشریف لایا کرتے تھے۔ کبھی پیدل اور کبھی سواری پر اور اس میں دو رکعت نمازادا فرمایا کرتے تھے۔ (راوی بیان کرتے ہیں کہ) حضرت عبداللہ بن عمرص بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب من أتی مسجد قباء کل سبت، 1: 399، رقم: 1135
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب فضل مسجد قباء و فضل الصلاۃ فیہ و زیارتہ، 2: 1017، رقم: 1399
حمیدی، المسند، 2: 291، رقم: 658
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسجدِ قباء جا کر دو رکعت ادا کرنا نفلی عبادت کے لئے مکان و زمان، جگہ اور دن کے تعیّن کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ نہ تو قرآن میں مسجدِ قباء جا کر ہفتہ کے دن نفل پڑھنے کا حکم تھا اور نہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے واضح طور پر اس کا حکم دیا گیا تھا لیکن پھر بھی اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مطہرہ سمجھ کر حضرت عبداللہ بن عمرص نے اپنے اوپر اس نیک عمل کے لئے مسجد اور دن کی تخصیص کو برقرار رکھا۔
2۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَتَحَرَّی صَوْمَ الْإِثْنَيْنِ وَالْخَمِيْسِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالخصوص پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ ‘‘
ترمذی، السنن، کتاب الصوم عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ما جاء في صوم یوم الإثنین والخمیس، 3: 121، رقم: 745
بیہقی، السنن الکبریِ 2: 85، رقم: 2497
ابو یعلی، المسند، 8: 122، رقم: 4751
بعد میں صحابہ کرام ث نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سنت کو زندہ کیا اور اس طرح ایام کے تعین کے ساتھ نفلی روزہ کا معمول برقرار رکھا۔
3۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے مولیٰ سے روایت ہے:
أنَّهُ انْطَلَقَ مَعَ أُسَامَةَ إِلَی وَادِي الْقُریٰ فِيْ طَلَبِ مَالٍ لَهُ، فَکَانَ يَصُوْمُ يَوْمَ الْاِثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيْسِ. فَقَالَ لَهُ مَوْلَاهُ: لِمَ تَصُوْمُ يَوْمَ الْاِثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيْسِ وَأَنْتَ شَيْخٌ کَبِيْرٌ؟ فَقَالَ: اِنَّ نَبِيَّ اللهَ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَصُوْمُ يَوْمَ الْاِثْنَيْنِ وَالْخَمِيْسِ، وَسُئِلَ عَنْ ذٰلِکَ، فَقَالَ: اِنَّ أَعْمَالَ الْعِبَادِ تُعْرَضُ يَوْمَ الْاِثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيْسِ.
’’وہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے اونٹ تلاش کرنے وادی القریٰ میں گئے۔ حضرت اسامہ بن زید پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ ان کے مولیٰ نے ان سے دریافت کیا: آپ پیر اور جمعرات کو روزہ کیوں رکھتے ہیں حالانکہ آپ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس معمول کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بندوں کے اعمال پیر اور جمعرات کو بارگاہِ الٰہی میں پیش کیے جاتے ہیں۔‘‘
ابوداؤد، السنن، کتاب الصوم، باب فی صوم الاثنین والخمیس، 2: 325، رقم: 4636
نسائی، السنن الکبری، 2: 147، رقم: 2781
دارمی، السنن، 2: 32، رقم: 1750
احمد بن حنبل، المسند، 5: 200
غور کریں یہ کوئی شرعی تعین نہیں بلکہ کسی عملِ خیر پر مداومت کے لئے ایک ذاتی تعین ہے اور شریعت نے اسے منع بھی نہیں کیا۔
4۔ حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَامِکُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَ فِيْهِ قُبِضَ، وَ فِيْهِ النَّفْخَةُ، وَ فِيْهِ الصَّعْقَةُ، فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، قَالَ: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَکَيْفَ تُعْرَضُ صَلَا تُنَا عَلَيْکَ وَ قَدْ أَرِمْتَ؟ يَقُوْلُوْنَ: بَلِيْتَ. قَالَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَ جَلَّ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَائِ.
’’بیشک تمہارے بہترین دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔ اس دن حضرت آدمں پیدا ہوئے، اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہوگی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد کیسے آپ کو پیش کیا جائے گا؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسدِ مبارک تہِ خاک ہو گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کرام کے جسموں کو کھانا حرام کر دیا ہے۔‘‘
أبوداؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب فضل یوم الجمعۃ و لیلۃ الجمعۃ، 1: 275، رقم: 1047
نسائی، السنن، کتاب الجمعۃ، باب إکثار الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم الجمعۃ، 2: 91، رقم: 1374
ابن ماجۃ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب في فضل الجمعۃ، 1: 345، رقم: 1085
5۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَکْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ يَوْمٌ مَشْهُوْدٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِکَةُ، وَ إِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّی يَفْرُغَ مِنْهَا. قَالَ: قُلْتُ: وَ بَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: وَ بَعْدَ الْمَوْتِ. إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأکُلَ أَجْسَادَ الأَنْبِيَائِ، فَنَبِيُّ اللهِ حَيٌّ يُرْزَقُ.
’’جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ یہ یومِ مشہود ہے اس دن ملائکہ حاضر ہوتے ہیں اورجو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے درود سے فارغ ہونے سے پہلے ہی اس کا درود مجھے پیش کر دیا جاتا ہے۔ راوی کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! موت کے بعد بھی؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں موت کے بعد بھی، بیشک اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے مبارک جسموں کا کھانا زمین پر حرام کر دیا ہے۔ پس اللہ کا نبی (قبر میں بھی) زندہ ہوتا ہے اور (قبر میںہی) اسے رزق دیا جاتا ہے۔‘‘
(2) ابن ماجۃ، السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتهِ و دفنهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، 1: 524، رقم: 1637
6۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
أَنَّ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ يَوْمَ الْخَمِيْسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ وَکَانَ يُحِبُّ أنْ يَخْرُجَ يَوْمَ الْخَمِيْسِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعرات کے دن غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعرات کے دن سفر پر نکلنا پسند فرماتے تھے۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الجہاد والسیر، باب... ومن أحب الخروج یوم الخمیس، 3: 1078، رقم: 2790
ابن حبان، الصحیح، 8: 156، رقم: 3370
عبدالرزاق، المصنف، 5: 170، رقم: 9270
7۔ حضرت عبداللہ بن مسعودص نے وعظ و نصیحت کے لئے جمعرات کا دن مخصوص کر رکھا تھا جیسا کہ اس روایت میں بیان ہوا ہے:
عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: کَانَ عَبْدُاللهِ يُذَکِّرُ النَّاسَ فِي کُلِّ خَمِيْسٍ.
’’حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب العلم، من جعل لأھل العلم أیامًا معلومۃ، 1: 39، رقم: 70
ابن حبان، 10: 382، رقم: 4524
ان احادیثِ مبارکہ سے یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں صحابہ کرام ث کا اعمالِ صالحہ اور نفلی عبادات کے لئے جگہ اور دن کا تعیّن کرنا عام معمول تھا۔ اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ کوئی خاص دن متعین کرکے ایصالِ ثواب اور گیارھویں شریف کی محافل کرنا شریعت کے عین مطابق ہے اور جائز امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ اسلام کا قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک یہ معمول رہا ہے کہ وہ اپنے فوت شدہ اعزہ و اقارب کے لئے صدقہ و خیرات اور دیگر اعمالِ صالحہ کی صورت میں ایصالِ ثواب کرتے رہے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved