یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شریعت میں کسی لفظ کا استعمال اور اس کا کسی امر پر اطلاق بطریقِ حقیقت بھی جائز ہے اور بطریقِ مجاز بھی۔ مگر اس شرط کو ملحوظ رکھنا ہو گا کہ مجاز کا استعمال وہاں کیا جائے جہاں مجاز کا محل ہو۔ ہم اپنی روزمرہ کی گفتگو میں بہت سے امور میں حقیقت و مجاز کے الفاظ کا استعمال کرتے رہتے ہیں اور ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں مثلاً اگر کسی کا بچہ جاں بہ لب ہو اور ڈاکٹر کے علاج سے اس کی جان بچ گئی تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں ڈاکٹر کے اعجازِ مسیحائی نے میرے بچے کو موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا۔ اس اندازِ گفتگو میں حقیقت اور مجاز دونوں بیان ہوئے ہیں۔ درحقیقت بچانے والا تو اللہ تعالیٰ ہے مگر ڈاکٹر شفایابی کا وسیلہ اور ذریعہ بن گیا۔ اس طرح ایک اور مثال کسی ڈرائیور کی ہے، جس کی گاڑی کے نیچے آکر حادثاتی طور پر بچہ کچلا گیا اور باپ کہنے لگا کہ اس ڈرائیور نے میرے بچے کو مار دیا حالانکہ ڈرائیور محض بچے کی حادثاتی موت کا ذمہ دار ہوتا ہے اور حقیقت میں مارنے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ایسے امور میں حقیقت اور مجاز پر مبنی دونوں الفاظ بولے جاتے ہیں۔ پس دینا، لینا، مارنا، جِلانا وغیرہ تمام امور میں حقیقت و مجاز کا استعمال ایک معمول کی بات ہے۔
اس ضمن میں بعض الفاظ توسُّل کے پیرائے میں بول دیے جاتے ہیں اور اس سے توکُّل مراد نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی کی نسبت کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’آپ کی نظرِ کرم، نگاہِ عنایت و توجہ سے میری زندگی کے شب و روز کٹ رہے ہیں‘‘ تو یہ الفاظ مجاز و توسل کے معنی میں ہیں حقیقت کے معنی میں نہیں۔ اس طرح کے بے شمار کلمات، اشعار اور جملے بمعنی توسل بیان ہوتے ہیں بمعنی توکل نہیں۔ حتی کہ اگر کوئی لفظ استعانت اور استغاثہ کے طور پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی استعمال ہوگا تو وہ بھی توسُّل کے معنی میں ہو گا توکُّل کے معنی میں نہیں کیونکہ توکل کا اطلاق مستعانِ حقیقی اور فاعلِ حقیقی پر ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ کریمانہ ہے اور اسی کی طرف سب امور لوٹائے جاتے ہیں۔
سورۃ الفاتحہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِيَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاکَ نَسْتَعِيْنُo
’’(اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘
اس آیتِ کریمہ کے حوالے سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس فرمانِ الٰہی کی موجودگی میں ہمارے لئے کسی اور سے مدد لینا جائز نہیں کیونکہ جب ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور حقیقی معین و مددگار اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھتے اور مانتے ہیں تو کسی غیر سے مدد لینے کا کیا جواز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صرف عبادت ایک ایسا عمل ہے جس میں حقیقی، مجازی اور استعاراتی تقسیم نہیں کی جاتی۔ عبادت میں سرے سے حقیقت اور مجاز کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس میں مجاز کا سوال ہی خارج از بحث ہے کیونکہ عبادت یا تو عبادت ہے یا پھر نہیں ہے۔ جبکہ استغاثہ یعنی مدد میں عبادت سے کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی، اس کو دو درجوں میں تقسیم کیا گیاہے۔
اس تقسیم کو بہرحال ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ شریعتِ اسلامیہ نے اس طبعی اور مادی دنیا میں زندگی کا انحصار انسانوں کے ایک دوسرے سے باہمی تعامل و تعاون پر رکھا ہے۔ جہاں ایک دوسرے کی مدد کرنا بھی پڑتی ہے اور مدد لینا بھی پڑتی ہے۔ ہمارے سامنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہِ حسنہ بطور معیار موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی مدد کی، انہیں کفر و شرک کے اندھیروں سے باہر نکالا اور انسانی زندگی کو اخلاقِ عالیہ سے سنوارا تاکہ وہ نیکو کار انسان، بھلے اور اچھے مسلمان بن جائیں۔ گویا یہ اس امر کی تعلیم ہے کہ امتِ مسلمہ کے افراد کو ایک دوسرے کی مدد کرنا، نصیحت اور خیر خواہی پر مبنی سلوک کرنا عملی طور پر ان کی مدد و استعانت ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے استاد اپنے شاگردوں کی، والدین اپنے بچوں کی، بزرگ نوجوانوں کی اور بھائی بہنوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے ضروری ہے کہ طاقتور کمزور کی مدد کرے، حاکم رعایا کی اور ہمسایہ پڑوسی کی۔ جب تمام دینی اور دنیاوی نظام اس باہمی مدد و استعانت کے سہارے پر چل رہے ہیں تو کس منطق سے اسے شرک تصور کیا جائے؟ اگر ایسا ہو تو پھر یہ سارا نظام درہم برہم ہو جائے اور عقیدہِ توحید محض مذاق بن کر رہ جائے۔
فی الحقیقت یہ تمام کائنات ایک دوسرے کی مدد و استعانت کی زنجیر میں بندھی ہوئی ہے انسان تو انسان، ملائکہ کو بھی نیابت کے امور سونپے جاتے ہیں جنہیں قرآن نے مُدَبِّراتُ الْاَمْر سے موسوم کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًاo
’’پھر ان (فرشتوں) کی قسم جو مختلف امور کی تدبیر کرتے ہیں۔‘‘
(1) النازعات، 79: 5
یہ سب ایک نظام کے تحت ہے جس کے مطابق باہمی مدد و استعانت جائز ہے۔ اس اصول کی روشنی میں انبیاء اور اولیاء سے استعانت کا جواز خودبخود فراہم ہو جاتا ہے۔
عملی زندگی میںحقیقت و مجاز کے اطلاق کی ممکنہ صورتیں تین ہو سکتی ہیں:
1۔ بعض ایسے امور ہیں جن میں حقیقت و مجاز کی تقسیم قابلِ عمل نہیں۔ ان مبنی برحقیقت امور میں کسی امر کے لئے مجاز ثابت کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ اس کی ایک مثال عبادت کی ہم دے چکے ہیں جس میں حقیقی اور مجازی کی تقسیم جائز نہیں۔
2۔ بعض ایسے امور ہیں جن میں حقیقت و مجاز کی تقسیم ممکن تو ہے مگر تقسیم کی ضرورت اس لئے نہیں پڑتی کہ جو امور اللہ تعالی کے لئے ثابت ہیں وہ اس کی شان کے لائق ہیں اور اسی طرح جو امور مخلوق کے لئے ثابت ہیں وہ ان کے حسبِ حال ہیں۔
3۔ بعض امور ایسے ہیں جن کا اثبات اللہ تعالیٰ کے لئے بھی ہے اور مخلوق کے لئے بھی مگر جب ان کی نسبت اللہ تعالیٰ سے ہو گی تو وہ حقیقی معنی میں ہوں گے اور جب مخلوق کے لئے ہوں گے تو وہ مجازی معنی میں ہوں گے جیسے انبیاء و اولیاء سے مدد طلب کرنا وغیرہ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ بعض لوگ توحید سے متعلق چند آیات سیاق و سباق سے جدا کر کے لے لیتے ہیں اور ان کا اطلاق ایسے امور پر بھی کر دیتے ہیں جہاں حقیقت و مجاز کی تقسیم لازم ہے۔ اس سے لامحالہ مغالطہ پیدا ہوتا ہے پس ضروری ہے کہ ہم حقیقت و مجاز پر مبنی ہر حکم کو اس کی حقیقت اور حیثیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دیکھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔ یہاں پر قرآن مجید کی آیات سے حقیقت و مجاز کے استعمال اور اطلاق کے نمونہ کی آیات ملاحظہ کیجئے۔
4۔ حقیقت و مجاز کا اطلاق قرآن حکیم کی روشنی میں
1۔ لفظِ ’’خَلق‘‘ کا استعمال اللہ تعالیٰ اور مخلوق دونوں کے لئے
قرآنِ حکیم میں بعض مقامات پر حقیقت و مجاز کا صراحۃً استعمال کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ
’’خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔‘‘
الاعراف، 7: 54
دوسرے مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے:
أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ.
’’میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں۔‘‘
آل عمران، 3: 49
پہلی آیتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے اپنے لئے ’’خَلْق‘‘ اور دوسری آیت میں حضرت عیسٰی علیہ السلام نے بھی اپنے لئے ’’خَلْق‘‘ کا لفظ استعمال کیا ۔ یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی ضروری ہے کہ لفظِ ’’خَلق‘‘ پہلی جگہ حقیقی معنی میں اور دوسری جگہ مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
یہ اسلوبِ قرآنی ہے کہ کبھی فعل کو دن کی طرف، کبھی زمانے کی طرف، کبھی حالات کی طرف اور کبھی کسی برگزیدہ بندے کی طرف منسوب کر دیتا ہے جیسے اللہ عزوجل کا برگزیدہ بندہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اگر زندگی، بینائی اور شفا کا وسیلہ بنے تو ان صفات کو ان کی طرف منسوب کردیا حالانکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شان ہے کہ وہی کسی کو زندگی ، موت اور شفا دیتا ہے۔ وہی کسی کو ہدایت دیتا ہے اور کسی کا مقدر گمراہی ٹھہرا دیتا ہے۔ کلام کے اس اسلوب کو کوئی نادان ہی شرک پر محمول کرے گا۔
حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم علیہا السلام کی عبادت گاہ کا توسلِ مکانی کرتے ہوئے اپنے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے لئے دعا مانگی، اس دُعا کے الفاظ یہ ہیں:
قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِo
’’عرض کیا: میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔‘‘
آل عمران، 3: 38
دُعا کے الفاظ میں رَبِّ ھَبْ لِيْ مذکور ہے جس سے اللہ رب العزت کی شانِ عطا کا بیان ہو رہا ہے۔
اَلْوَھَابُ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسی نام سے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی:
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُo
’’عرض کیا: اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو میسّر نہ ہو، بیشک تو ہی بڑا عطا فرمانے والا ہے۔‘‘
ص، 38: 35
اللہ تعالیٰ کو ’’إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ‘‘ اے رب! ’’بے شک تو ہی وہاب ہے‘‘ کہہ کر پکارا جائے تو وہ اپنے خزانہِ غیب سے بے نوائوں کو جھولیاں بھر بھر کر نعمتیں عطا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ حقیقی معنوں میں وہاب ہے مگر اس کے وہاب ہونے کی اس صفت کی مجازاً مخلوق کی طرف نسبت بھی جائز ہے جب حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت مریم علیہما السلام کے پاس انسانی شکل و صورت میں آئے تو آپ نے پوچھا تم کون ہو؟ کیوں آئے ہو؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے جواب میں کہا:
قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا زَكِيًّاo
’’میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔‘‘
مریم، 19: 19
قرآن حکیم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کا بصورتِ بشری اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مقبول بندی حضرت مریم علیھا السلام کے پاس آنے کو بیان کیا کہ وہ ان کی خلوت گاہ میں حاضر ہو کر گویا ہوئے:
’’میں اللہ کا بھیجا ہوا ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔‘‘
صیغہِ واحد متکلم لِأَهَبَ لَكِ کا مفہوم یہ ہے کہ میں ’’آپ کو عطا کروں۔‘‘ حضرت مریم علیہا السلام کو جبریل امین علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں تمہیں بیٹا دینے آیا ہوں صرف مجازی معنوں میں ہے کیونکہ حقیقت میں بیٹا دینے والا اللہ رب العزت ہے۔ یہاں جبریلِ امینں بیٹا دینے اور خوشخبری سنانے کا وسیلہ بنے اگرچہ بظاہر انہوں نے یہ عمل اللہ تعالیٰ کی جانب سے مامور کیے جانے پر اپنی طرف منسوب کیا۔ جب اللہ تعالیٰ کسی مخلوق کو اپنا پیغام رساں بنا کر بھیجتا ہے تو اسے اس کام کی ہمت اور طاقت بھی عطا فرماتا ہے۔
مجازی معنی میں جبرائیلں بھی اس لئے وہاب ہیں کہ وھاب اسے کہتے ہیں جو کسی کو کچھ دیتا ہے۔ گو وہاب، اللہ کی صفت ہے اور حقیقت میں وہی ہر نعمت کا دینے والا ہے لیکن اگر مجازی معنوں میں کسی کو وھاب کہہ دیا جائے تو یہ شرک نہ ہو گا۔ جبرائیل امینں نے جب
اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ
اللہ کا فرستادہ (رسول) بن کر جو کچھ کہا وہ شرک نہ ہوا اس لیے کہ رب کا نمائندہ بن کر جو کچھ عطا کیا وہ بھی در حقیقت اللہ تعالیٰ کے حکم اور اذن سے اسی کی عطا ہے۔
رب اللہ تعالیٰ کا پہلا صفاتی نام ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی پہلی سورت، سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت میں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰـلَمِيْنَo
’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔‘‘
الفاتحۃ، 1: 1
یہ ذہن نشین رہے کہ لفظِ رب ایک واضح قطعی اور حتمی صفت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو قرآن مجید میں جابجا متعارف کرایا ہے۔
لیکن اسی لفظِ رب کو حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہِ مصر کے لئے بھی استعمال کیا۔ ان کی اس گفتگو کو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا:
يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ قُضِيَ الأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِo وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَo
’’اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک (کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ وہ) اپنے مربی (یعنی بادشاہ) کو شراب پلایا کرے گا اور رہا دوسرا (جس نے سرپر روٹیاں دیکھی ہیں) تو وہ پھانسی دیا جائے گا پھر پرندے اس کے سر سے (گوشت نوچ کر) کھائیں گے، (قطعی) فیصلہ کر دیا گیا جس کے بارے میں تم دریافت کرتے ہو۔ اور یوسف (علیہ السلام) نے اس شخص سے کہا جسے ان دونوں میں سے رہائی پانے والا سمجھا کہ اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا (شاید اسے یاد آجائے کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا نتیجتاً یوسف (علیہ السلام) کئی سال تک قید خانہ میں ٹھہرے رہے۔‘‘
(2) یوسف، 12: 41۔42
اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ دو افراد حضرت یوسفں کے ساتھ قید خانے میں اسیر تھے اور انہوں نے خواب دیکھ کر اپنا خواب سیدنا یوسفں کو سنایا اور اس کی تعبیر چاہی۔ حضرت یوسفںنے تعبیرِ خواب بتا دی ان میں سے ایک کو کہا کہ وہ اپنے رب یعنی بادشاہ کو شراب پلایا کرے گا اور اسی رہائی پانے والے شخص سے یہ بھی کہا کہ مجھے ایک معینہ مدت کے لئے قید میں ڈالا گیا تھا جو گزر گئی ہے تم قید سے رہائی پانے کے بعد اپنے رب یعنی آقا سے جو مجھے بھول گیا ہے میرا ذکر کرنا کہ میں مدتِ قید پوری کرنے کے بعد بھی جیل میں پڑا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کے پیغمبر سیدنا یوسفں نے مذکورہ قیدی سے بادشاہِ مصر کا ذکر کرتے ہوئے دو مرتبہ لفظِ رب استعمال کیا حالانکہ یہ علاقائی زبان میں روز مرہ گفتگو کا لفظ تھا اور رہائی پانے والے قیدیوں میں متداول نہ تھا، وہ اسے بادشاہ اور آقا وغیرہ کہتے تھے اور حقیقی معنوں میں یہی کہنا چاہئے تھا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر نے استعاراتی اور مجازی معنی میں لفظِ ’’رب‘‘ بادشاہ کے لئے استعمال کیا جو اس امر پر دلالت کرتاہے کہ کسی کو مجازی طور پر رب کہنا بھی شرک نہیں۔
پھر یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس لفظ کی ممانعت میں صراحتاً اور وضاحتاً کچھ نہیں کہا اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت سمجھی کیونکہ اس علاقے کی روزمرہ زبان میں بادشاہ کے لئے ’’رب‘‘ کا لفظ استعمال کرنا معمول بن چکا تھا۔ اس قسم کی وضاحت طلب کرنا ان لوگوں کا کام ہے جن کا شعار ہی لفظوں کی کھال اتار کر لوگوں کو خواہ مخواہ شرک سے مطعون کرنا ہے۔
آگے قرآن مجید میں رہائی پانے والے قیدی کے حوالے سے بیان ہے کہ اسے بھی شیطان نے بادشاہ کے سامنے حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کرنا بھلادیا۔ اس مقام پر اللہ رب العزت نے خود بھی بادشاہ کے لئے لفظِ ’’رب‘‘ ارشاد فرمایا ہے جو آیت کے الفاظ ذِکْرَ رَبِّہ سے واضح ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ حقیقی رب اللہ تعالیٰ نے عزیزِ مصر یا بادشاہِ مصر جو ایک عام انسان تھا کے لئے اپنی صفت ’’رب‘‘ کا استعمال مجازاً فرمایا تو کسی مربی کو رب کہنا شرک نہیں ہوتا ورنہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہرگز بادشاہِ مصر کو قرآن میں ’’رب‘‘ کے لفظ سے نہ پکارتا۔
اسی طرح مجازی معنی میں والدین اپنی اولاد کے لئے بمنزلہ رب ہیں کہ وہ ان کی پرورش کے ذمے دار ہیں۔ والدین کے حق میں ایک دعائیہ التجا کی قرآن مجید نے تلقین کی ہے جو اس طرح ہے:
وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاo
’’اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو اے میرے رب! ان دونوں (میرے والد اور والدہ) پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔‘‘
(1) بنی اسرائیل، 17: 24
اس دعا میں کائنات کے خالق و مالک پروردگار سے التجا کی جا رہی ہے کہ اے میرے رب تو میرے والدین کو اپنے رحم اور لطف و کرم سے اس طرح نواز جس طرح وہ صغرِ سنی میں میرے لئے رب (پرورش کرنے والے) بنے، شیر خوارگی اور طفلی کے ان ایام میں انہوں نے مجھے پالا پوسا اور اپنی ربوبیت کے دامن میں لے لیا اور میری ضروریات و حاجات کو پورا کرتے رہے۔ اس آیتِ کریمہ میں رَبَّیٰنِيْ کے الفاظ قابلِ غور ہے جس کی تلقین خود رب العالمین نے فرمائی ہے۔
لفظِ رب اسی طرح اساتذہ کے لئے بھی بولا جاتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کی روحانی اور اخلاقی پرورش اور تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ رب ہونے کے یہ معانی مجازی و استعاراتی ہیں۔ مفہوم بدل جانے سے ایسا کہنے میں شرک کا کوئی احتمال اور شائبہ نہیں رہتا۔
قرآن کی رو سے جیسے بادشاہ کے لئے رب کا لفظ مجازاً کہہ دینے سے وہ حقیقی رب نہیں بن جاتا۔ اسی طرح سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو غوث الاعظم اور حضرت علی ہجویریرحمۃ اللہ علیہ کو داتا گنج بخش کہہ دینے سے شرک نہیں ہوتا کیونکہ غوث اور داتا رب سے بڑے الفاظ نہیں ہیں جو مجازاً بول دیے جاتے ہیں۔ اس طرح ’’يَا اَکْرَمَ الْخَلْقِ اور يَارَسُوْلَ اللهِ اُنْظُرْ حَالَنا ‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل اور استغاثہ کے لئے مجازی معانی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اس سے وہ حقیقی معنی مراد نہیں لئے جاتے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کیلئے خاص ہیں۔
ایمان میں زیادتی کا حقیقی مسبّب اللہ رب العزت کی ذات وحدہ لاشریک ہے مگر بعض آیاتِ قرآنی میں ایمان کی زیادتی کو خود آیاتِ قرآنی ہی کی طرفمنسوب کیاگیا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا:
وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَo
’’اور جب ان پر اس (اللہ) کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلام محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)۔‘‘
(1) الانفال، 8: 2
یہاں ان آیات کی طرف ایمان میں زیادتی کی نسبت مجاز عقلی ہے کیونکہ ایمان میں زیادتی کا سبب درحقیقت خود اللہ عزوجل کی ذات ہے۔ آیتیں محض ایمان بڑھانے کا ذریعہ اور سبب بنتی ہیں۔
قرآن مجید نے انتہائی بلیغ انداز سے ایک اہم بات سورۃ البقرۃ کی آیت میں صراحت سے بیان کر دی ہے۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَـذَا مَثَلاً يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَّيَهْدِي بِهِ كَثِيراً وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَo
’’بے شک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (سمجھانے کے لئے) کوئی بھی مثال بیان فرمائے (خواہ) مچھر کی ہو یا (ایسی چیز کی جو حقارت میں) اس سے بھی بڑھ کر ہو، تو جو لوگ ایمان لائے وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ان کے رب کی طرف سے حق (کی نشاندہی) ہے، اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ (اسے سن کر یہ) کہتے ہیں کہ ایسی تمثیل سے اللہ کو کیا سروکار؟ (اس طرح) اللہ ایک ہی بات کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے، اور اس سے صرف انہی کو گمراہی میں ڈالتا ہے جو (پہلے ہی) نافرمان ہیں۔‘‘
(1) البقرۃ، 2: 26
اللہ کی ذات ہی ھَادِی اور مُضِل ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتاہے گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے۔ یہ بھی اللہ رب العزت کے صفاتی اسماء ہیں۔ ہدایت سے سرفراز کرنا اور شامتِ اعمال سے گمراہی میں مبتلا کر دینا صفاتِ الہٰیہ ہیں۔
جس طرح یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفات ہیں اس طرح ان کا اطلاق انسانوں پر بھی کیا جا سکتا ہے جو بعض کو ہدایت سے ہمکنار اور بعض کو ضلالت وگمراہی سے دوچار کردیتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہادی ہیں، اس بارے میں ارشادِ ربانی ہے:
وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍo
’’اور بے شک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں۔‘‘
(1) الشوریٰ، 42: 52
جبکہ مضلین (گمراہ کرنے والوں) کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًاo
’’اور واقعی انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا، سو (اے میرے رب!) تو (بھی ان) ظالموں کو سوائے گمراہی کے (کسی اور چیز میں) نہ بڑھا۔‘‘
(2) نوح، 71: 24
سورہِ نوح کی اس آیت میں کہا گیا ہے کہ ان لوگوں نے بہت ساروں کو گمراہ کیا ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو گمراہ تو وہ خود ہورہے ہیں دوسروں کو کیا گمراہ کریں گے۔ اس آیت سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ ہدایت دینے کی طرح گمراہ کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جسے ان گمراہوں سے اس لئے منسوب کیا گیا کہ وہ گمراہی کا وسیلہ اور ذریعہ بن رہے ہیں اس لئے یہ لفظ مجازاً ان کے لئے استعمال ہوا ہے۔
آگے اسی سورہِ نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کی اللہ کے حضور التجا کا ذکر ہے:
اِنَّکَ اِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَ لَا يَلِدُوْا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًاo
’’بیشک اگر تو اُنہیں (زندہ) چھوڑے گا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے، اور وہ بدکار (اور) سخت کافر اولاد کے سوا کسی کو جنم نہیں دیں گے۔‘‘
(3) نوح،1 7: 27
حضرت نوحں عرض گزار ہیں کہ اے رب کریم! اگر ان کو ڈھیل دی گئی تو یہ راہ راست پر نہیں آئیں گے اور اپنی اولاد کو ورثہ میں گمراہی کے سوا کچھ نہیں دیں گے۔ یعنی اس آیت کریمہ میں بھی ان گمراہوں کو مضل کہا حالانکہ گمراہ تو حقیقتاً اللہ تعالیٰ ٹھہراتا ہے مگر چونکہ وہ گمراہی کا سبب بنتے ہیں اس لئے اِضلال کی نسبت ان کی طرف کی گئی۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَکَيْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ يَوْمًا يَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبًاo
’’اگر تم کفر کرتے رہو تو اُس دن (کے عذاب) سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔‘‘
(1) المزمل، 73: 17
یومِ حساب کی ہولناکیوں کے حوالے سے قرآن مجید نے بیان کیا کہ وہ دن بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ یہاں دن کو بوڑھا کر دینے کا سبب قرار دیا گیا ہے حالانکہ قیامت کی ہولناکیاں، حساب و کتاب، غم و اندوہ اور خوف انسان کو بوڑھا کر دینے کا سبب بنیں گے جو مُسبَّب ہیں اور ان کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اس آیت میں مسبِّب کی بجائے سبب کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے اسلوبِ بیان سے پتا چلا کہ استعاراتی اور مجازی معنی میں کسی چیز کو بیان کرنا جائز ہے اور مسبب کی بجائے سبب کی طرف کسی چیز کو منسوب کرنا شرک نہیں ہوتا۔
ہماری روزمرہ زندگی کا مشاہدہ ہے کہ بعض لوگ اپنے اختیارات کسی دوسرے شخص کو سونپ دیتے ہیں جس کو بروئے کار لا کر مختلف لوگوں سے کام کرائے جاتے ہیں مثلاً ٹھیکیدار کسی سڑک اور عمارت کا کام مزدوروں سے کرواتا ہے تو محاورۃً بول دیا جاتا ہے کہ فلاں نے یہ عمارت بنائی اور فلاں کام سرانجام دیا حالانکہ درحقیقت کرنے والے کوئی اور لوگ ہوتے ہیں۔ اس روزمرہ کے معمول کے محاورہ کو قرآن نے بھی استعمال کیا ہے جیسے فرعون نے ہامان کو یہ حکم دیا:
يٰهَامَانُ ابْنِ لِيْ صَرْحًا.
’’اے ہامان! تو میرے لئے ایک اونچا محل بنا دے۔‘‘
(1) المؤمن، 40: 36
اس میں ہامان کی طرف عمارت بنانے کی نسبت مجازِ عقلی ہے کیونکہ وہ سبب اور حکم دینے والا ہے خود بنانے والا نہیں۔ حقیقت میں بنانے والے تو اس کے عُمّال اور مزدور ہیں۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، حقیقی و مجازی کے فرق سے آشنا شخص ان کو بہ خوبی جانتا ہے۔
صحیح عقیدہ یہی ہے کہ بندوں کا اور ان کے افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ ہر فعل اور ہر امر میں نتیجہ خیزی کی باعث اللہ ہی کی ذات ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی خواہ اس کا شمار زندوں میں ہو یا فوت شدہ لوگوں میں، کسی چیز میں دخیل و کفیل نہیں۔ یہی عقیدہ خالص توحید ہے اور اس کے علاوہ اگر کوئی اور عقیدہ رکھتا ہے تو وہ شرک میں مبتلا ہے۔
بہت سے گمراہ فرقے قرآن کے ظاہری لفظ سے دھوکہ کھا گئے اور انہوں نے قرآن میںبیان کردہ مجازی و حقیقی قرائن کے فرق کو مدّنظر نہ رکھا اور آیاتِ قرآنی کے ظاہری تعارض کو تطبیق سے دور کرنے کی کوشش نہ کی مثلاً:
1۔ خلقِ قرآن کا فتنہ پھیلانے والے اللہ تعالیٰ کے قول اِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا (الزخرف، 43: 3) ’’بے شک ہم نے اسے عربی (زبان کا) قرآن بنایا ہے۔‘‘ کے ظاہری الفاظ سے ٹھوکر کھا گئے اور گمراہ ہو کر خلقِ قرآن کا عقیدہ گھڑ لیا۔
2۔ فرقہ قدریہ اللہ تعالیٰ کے قول وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَيْدِيْکُمْ (الشوریٰ، 42: 30) ’’اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اس (بداعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے۔‘‘ اور فَيُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (المائدۃ، 5: 105) ’’پھر وہ تمہیں ان (کاموں) سے خبر فرما دے گا جو تم کرتے رہے تھے‘‘ کے ظاہری الفاظ سے دھوکہ کھا گئے۔
3۔ فرقہ جبریہ والوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَاللهُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ (الصافات، 37: 96) ’’حالانکہ اللہ نے تمہیں اور تمہارے (سارے) کاموں کو خلق فرمایا‘‘ اور وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰـکِنَّ اللهَ رَمٰی (الانفال، 8: 17) ’’اور (اے حبیب محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے‘‘ کے ظاہری الفاظ سے غلط نتیجہ اخذ کیا اور راہِ راست سے بھٹک گئے۔
ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ تمام امت کا سوائے فرقہ قدریہ کے اس عقیدے پر اجماع ہے کہ بندوں کے افعال و اعمال اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ایک طرف ارشاد ہے
وَاللهُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ
اور دوسری طرف ارشادِ ربانی ہے
وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰـکِنَّ اللهَ رَمٰی.
ان اقوالِ ربّانی کے مقاصد کے پیشِ نظر یہ جائز ہے کہ کسی فعل کی نسبتِ اکتساب بندہ کی طرف کر دی جائے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے
لَهَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَيْهَا مَا اکْتَسَبَتْ
(البقرۃ، 2: 286)
’’اس (جان) نے جو نیکی کمائی اس کے لئے اس کا اجر ہے اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے‘‘ نیز بِمَا کَسَبَتْ اَيْدِيْکُمْ کے علاوہ اور آیات میں بھی کسب کی اضافت بندہ کی طرف صراحتاً کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا صاحبِ قدرت ہونا اس عالم کے وجود میں آنے سے پہلے سے ثابت ہے۔ کسی کے فعل کے کسب پر قادر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کا خالق بھی ہے، صحیح عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بالذات قدرت اور بندے کو حاصل شدہ قدرت میں حقیقت و مجاز کا فرق ہے کیونکہ بندے کی قدرت کو وجود میں لانے والا اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے۔
مذکورہ بالا بحث سے یہ ثابت ہوا کہ کسی کام پر قادر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کام وجود میں بھی آ جائے۔ بندوں کی طرف کسی فعل کی نسبت بطورِ کسب کے ہوتی ہے جس کی بنا پر بندے اس فعل کی قدرت رکھتے ہیں نہ کہ وہ اس فعل کو عدم سے وجود میں لانے پر قادر ہیں۔ حقیقت میں افعال کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، اسی کے قبضہ میں بندوں اور ان کے افعال کی تقدیر ہے۔ وہی اپنے بندوں کو ان کے کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ اس کے لئے کوئی چیز وجود میں لانا مشکل نہیں۔ جس چیز سے اللہ تعالیٰ منع فرما دے تو اس کی مشیت کے برعکس کون ہے جو اسے وجود میں لاسکے؟ حکم تو ارادے کا مغائیر ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایمان لانے کا حکم دیا لیکن اس کی یہ مشیت بھی ہے کہ سب مؤمن نہ ہوں جیسا کہ قرآن میں فرما دیا:
وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَo
’’اور اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اگرچہ آپ (کتنی ہی) خواہش کریں۔‘‘
(1) یوسف،12: 103
پس بندوں کی طرف ان کے اکتسابِ افعال کی نسبت کرنا ایسے ہی ہے جیسے مسبب کی نسبت واسطہ یا سبب کی طرف کردی جائے اور اس میں کچھ تضاد نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اسباب پیدا کرنے والا یعنی مسبب الاسباب ہے، وہی واسطہ کو پیدا کرنے والا ہے اور اسی نے واسطہ میں وساطت کی صلاحیت رکھی ہے۔ اگر اللہل وساطت کی صلاحیت نہ رکھتا تو وہ واسطہ کیسے بن سکتا تھا؟ اس وساطت کا تعلق چاہے غیر ذوی العقول یعنی غیر ذی شعور اشیاء سے ہو جیسے جمادات، افلاک، باد و باراں اور آگ وغیرہ یا اہلِ عقول سے ہو جیسے فرشتے، انسان و جن لیکن ہوتا وہی ہے جو اس کی مشیت میں ہو۔
اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ایک ہی فعل کی نسبت دو فاعلوں کی طرف کرنا عقل و منطق کے خلاف ہے کیونکہ اس سے ایک ہی اثر پر دو مؤثر عاملوں کا اجتماع لازم آتا ہے جو محال ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض اس وقت صحیح ہو گا جبکہ دونوں فاعلوں کی فاعلیت متحد ہو لیکن جب دونوں کی فاعلیت ایک نہ ہو تو اس صورت میں مفعول کی مفعولیت معناً دونوں کے درمیان علیحدہ علیحدہ ہو گی اور اس صورت میں فعل کی نسبت، دونوں کی طرف ممتنع نہ ہو گی جیسا کہ اسماء مشترکۃ المعنی کا فرق حقیقت و مجاز کے استعمال سے ظاہر ہے مثلاً کہا جاتا ہے قتل الامیر فلاناً اور قتل السّیّاف ’’اس کو امیر نے قتل کیا اور اس کو جلاد نے قتل کیا‘‘ اس طرح جلاد کو بھی ایک اعتبار سے قاتل کہا جا سکتا ہے اور دوسرے اعتبار سے امیر کو بھی قاتل کہا جا سکتا ہے کیونکہ قتل کا تعلق دونوں سے ہے اگرچہ ایک ہی فعل کا عمل دو مختلف اعتبار سے ہے لیکن دونوں کو فاعل کہنا صحیح ہے۔
یہی حال کسی ایک مقدور کے دو قدرتوں سے متعلق ہونے کا بھی ہے۔ اس کے جواز و وقوع کی دلیل وہ امور ہیں جن کی نسبت خود اللہ تعالیٰ نے کبھی ملائکہ کی طرف، کبھی بندں کی طرف اور کبھی اپنی ذات کی طرف کی ہے۔ اس کی چند مثالیں بطورِ نمونہ ملاحظہ کیجئے۔
سورۃ الزمر میں ارشاد فرمایا:
اَللهُ يَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا.
’’اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے۔‘‘
(1) الزمر، 39: 42
یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ روحوں کو قبض کرتا ہے اس لئے یہاں اس فعل کو اپنی طرف منسوب کیا ہے جبکہ سورۃ السجدۃ میں فرمایا:
قُلْ يَتَوَفّٰکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِيْ وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَo
’’آپ فرمادیں کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روح قبض کرتا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
(1) السجدۃ، 32: 11
اس آیتِ مبارکہ میں جانیں قبض کرنے کی نسبت ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ السلام کی طرف کی گئی جو جانیں قبض کرنے پر مامور ہے۔ ایک ہی بات تھی۔ ایک جگہ فاعل مذکور ہے اور دوسری جگہ وہ حذف ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب جانیں عزرائیل قبض کرتا ہے تو اَللهُ يَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ کا کیا مطلب ہے؟ اس کی وضاحت یوں ہے کہ دراصل اللہ تعالیٰ یہاں یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ جانیں قبض کرنا حقیقتاً تو میرے قبضہِ قدرت میں ہے لیکن اس کے لئے میں نے اپنے فرشتے عزرائیل کو مامور کیا ہے لہٰذا ان سب باتوں کو شرک ہونے سے مجاز نے بچا لیا اور شرک کا امکان ہی باقی نہ رہا جو لوگ وسیلہ کو نہیں مانتے انہیں عالم نزع میں عزرائیل کو کہنا چاہیے کہ میں تو وسیلہ اور ذریعہ کو نہیں مانتا تم چلے جاؤ اللہ تعالیٰ خود آئے اور میری جان قبض کرے۔ ایسا نکتہ نظر رکھنا سوائے جہالت اور لا علمی کے کچھ نہیں۔
بعض متشدد نقطہ نظر رکھنے والے لوگوں کو مندرجہ ذیل واقعہ پر خود غور و فکر کر کے فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
صحیح البخاری (کتاب الجنائز، باب من أحب الدفن فی الأرض المقدسۃ أو نحوہا، 1: 449، رقم: 1274) اور صحیح مسلم (کتاب الفضائل، باب من فضائل موسی، 4: 1842، رقم: 2372)
کی متفق علیہ روایت میں حضرت موسیٰں کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے پاس ملک الموت انسانی شکل میں روح قبض کرنے آئے تو آپں نے کسی سبب سے ملک الموت کو ایک طمانچہ مارا اور اس کی آنکھ نکال دی۔ ملک الموت انسانی شکل میں تھے اس لیے ان کی آنکھ نکل گئی کیونکہ قاعدہ ہے کہ جس ہیئت میں کوئی ہوتا ہے اس پر اسی ہیئت کے احوال وارد ہوتے ہیں۔
وہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور عرض کیا:
اَرْسَلْتَنِيْ اِلَی عَبْدٍ لَا يُرِيْدُ الْمَوتَ.
’’باری تعالیٰ آپ نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیج دیا جو مرنا ہی نہیں چاہتا۔‘‘ اس نے میری آنکھ پھوڑ دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دوبارہ جاؤ لیکن یہ نہ کہنا کہ میں آپ کی جان قبض کرنے آیا ہوں کیونکہ بارگاہِ انبیاء کے آداب ہوتے ہیں۔ میرے برگزیدہ نبی موسیٰ سے پہلے اجازت طلب کرنا اور پھر ان کی روح قبض کرنا۔
حضرت موسیٰں نے ملک الموت حضرت عزرائیل کو یہ ادب کیوں سکھایا وہ موسیٰں کے زمانے تک 70 ہزار انبیاء کی روحیں قبض کر چکے تھے پہلے بھی بڑے جلالی نبی آئے لیکن کسی نے تھپڑ نہیں مارا تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا؟ اس لئے کہ انہیں خبر تھی کہ آخر میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیائں آنے والے ہیں جن کی شان اور عظمت کا کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔ جب ان کے وصال مبارک کا وقت آ جائے تو عزرائیل (علیہ السلام) کو بارگاہِ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے آداب معلوم ہوں۔
درجِ بالا حدیثِ مبارکہ میں حضرت عزرائیل علیہ السلام کے یہ الفاظ قابل توجہ ہیں ’’لا یرید الموت‘‘ (وہ بندہ مرنا ہی نہیں چاہتا) کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مرنا نہ مرنا اس بندہِ مرتضیٰ کے اختیار میں ہے یعنی زندگی یا موت کا اختیار بندے کو سونپ دیا گیا۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
لَا يَمُوْتُ نَبِيٌّ حَتَّی يُخَيَّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.
’’ہر نبی کو اس کے وصال سے پہلے یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو اپنی مرضی سے واصلِ بہ حق ہوجائے اور اگر چاہے تو مزید دنیا میں قیام کرے۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب المغازی، باب مرض النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ووفاتہ، 4: 1612، رقم: 4171
مسلم، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضل عائشۃ، 4: 1893، رقم: 2444
ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے بھی یہ اختیار دیا گیا لیکن میں نے اپنے رب سے ملاقات کرنے کو اختیار کیا ہے۔(1)
(1) احمد بن حنبل، المسند، 3: 488،489
2۔ سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے روح پھونکنے کے عمل کو اپنی طرف منسوب کر کے ارشاد فرمایا:
فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا.
’’پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔‘‘
(2) الانبیائ، 21: 91
حالانکہ روح پھونکنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام مامور تھے اور وہ اس فعل کے فاعلِ حقیقی نہیں تھے۔
3۔ سورۃ القیامۃ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے وحی سنانے کو اپنی طرف منسوب کر کے فرمایا:
فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُo
’’پھر جب ہم اسے (زبانِ جبرائیل سے) پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی پیروی کیا کریں۔‘‘
(3) القیٰمۃ، 75: 18
حالانکہ پڑھنے والے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے جن کی قرات کے سامع حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔
4۔ جنگِ بدر میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کا آمنا سامنا ہوا۔ کئی کفار مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو کر واصلِ جہنم ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے قتل کرنے کے عمل کی نسبت اپنی طرف کی اور ارشاد فرمایا:
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَلٰـکِنَّ اللهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰـکِنَّ اللهَ رَمٰی.
’’(اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا اور (اے حبیب محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔‘‘
(1) الانفال، 8: 17
اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں کفار کے قتل کی نفی کر کے اسے اپنی ذات سے منسوب کیا اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سنگریزے مارنے کی نفی کر کے اس عمل کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حسی طور پر نسبتِ قتال کی نفی فرمائی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کنکریاں پھینکنے کے عمل کی نفی فرمائی ہے۔ مسلمانوں کے کفار کو قتل کرنے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کنکریاں پھینکنے کا معنی اور ہے اور اللہل کے قتل کرنے اور کنکریاں پھینکنے کا مفہوم کچھ اور۔ اس کا مقصد حقیقت و مجاز کا فرق واضح کرنا اور خلق و تقدیر کا اثبات ہے جس کا مفہوم دو مختلف طریقوں میں بیان کیا گیا۔
قرآن میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاںبیک وقت ایک فعل خالق اور مخلوق دونوں کی طرف منسوب ہوا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَo
’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے اگریہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا)۔‘‘
(2) التوبۃ، 9: 59
اس آیت میں عطا کرنے کا عمل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کی طرف منسوب ہے۔
ایک حدیثِ مبارکہ میں اسی مضمون کی وضاحت اس طرح بیان ہوئی ہے جسے حضرت حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
يَدْخُلُ الْمَلَکُ عَلَی النُّطْفَةِ بَعْدَ مَا تَسْتَقِرُّ فِی الرَّحِمِ بِأَرْبَعِيْنَ أَوْ خَمْسَةٍ وَ أَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً. فَيَقُوْلُ: يَا رَبِّ أَشَقِیٌّ أَوْ سَعِيْدٌ؟ فَيُکْتَبَانِ. فَيَقُوْلُ: أَيْ رَبِّ أَذَکَرٌ أَوْ اُنْثٰی؟ فَيُکْتَبَانِ. وَيُکْتَبُ عَمَلُهُ وَأَثَرُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ ثُمَّ تُطْوَی الصُّحُفُ فَـلَا يُزَادُ فِيْهَا وَلَا يُنْقَصُ.
’’جب چالیس یا پینتالیس راتوں میں نطفہ رحمِ مادر میں ٹھہر جاتا ہے تو فرشتہ رحم مادر میں داخل ہوکر کہتا ہے: اے رب! یہ شقی ہو گا یا سعید؟ پھر ان میں سے ایک لکھ دیا جاتا ہے۔ پھر پوچھتا ہے: اے رب! یہ مذکر ہو گا یا مونث؟ پس اس میں سے ایک کو لکھ دیا جاتا ہے، پھر اس کے اعمال، اثر، مدتِ حیات اور اس کا رزق لکھ دیا جاتا ہے پھر صحیفے لپیٹ دیئے جاتے ہیں اور ان میں کوئی زیادتی ہوتی ہے نہ کمی۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب القدر، باب کیفیۃ خلق الآدمي فی بطن أمہ، 4: 2037، رقم: 2644
احمد بن حنبل، المسند، 3: 116، رقم: 12178
اس حدیثِ مبارکہ میں خیرو شر کی تقدیر کا نکتہ بیان ہوا ہے جس کا صدور بہ یک وقت اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ کسی فعل کا استعمال مختلف وجوہ سے ہوتا ہے اور ان میں کوئی تناقض بھی نہیں ہوتا، قرآن مجید میں عالَم نباتات کی طرف کسی فعل کو منسوب کر دیا جاتا ہے۔ جیسے اس آیت میں ارشادِ ربانی ہے:
تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا.
’’(وہ درخت) اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے۔‘‘
ابراہیم، 14: 25
اب ذرا غور کریں تو وہ درخت خود کہاں سے پھل لا سکتا ہے اس کے ثمر آور ہونے کا فعل تو اللہ تعالیٰ نے اس درخت میں فطرتاً پیدا کیاہے اس مفہوم میں کوئی تعارض اور تناقض نہیں۔ اسی طرح طبرانی اور ابن حبان کی روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو کھجور دیتے ہوئے فرمایا: ’’یہ لے لو۔ اگر یہ تمہاری قسمت میں ہے اور تم خود نہ بھی لو تو پھر بھی یہ چل کر تمہارے پاس آ جائے گی۔‘‘
(2) ابن حبان، الصحیح، 8: 33، رقم: 3240
کھجور کے چل کر آنے کا مطلب کچھ اور ہے اور آدمی کے چل کر آنے کا مطلب کچھ اور ہے۔ دونوں کی طرف نسبت مجازی ہے۔ آدمی کے چل کر آنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے میں قدرت و ارادہ پیدا فرما دے گا اور کھجور کے آنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا سبب پیدا فرما دے گا کہ کوئی اور بندہ کھجور کو اس تک پہنچا دے گا اس طرح حقیقت میں دونوں صورتوں میں اس فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے اور ان میں معنوی طورپر کوئی تناقض نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے واسطہ کو پیدا کیا اور اس میں وساطت کی قدرت رکھی ہے لیکن اگر کوئی واسطے کو اصل اور مؤثر حقیقی سمجھنے لگے تو اس سے کفر لازم آتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قارون کو مال و دولت کی فراوانی سے نوازا تو وہ اِترا گیا اورگھمنڈ کرنے لگا کہ شاید یہ میرا کمال ہے۔ اس نے مال و دولتِ کثیرہ کو اپنی محنت اور کوشش کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا:
قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهُ عَلَی عِلْمٍ عِنْدِيْ.
’’وہ کہنے لگا: (میں یہ مال معاشرے اور عوام پر کیوں خرچ کروں) مجھے تویہ مال صرف اس (کسبی) علم و ہنر کی بنا پر دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے۔‘‘
(1) القصص، 28: 78
قارون مال و دولت کی فراوانی سے غرور پر اتر آیا اور یہ سمجھنے لگا کہ یہ مجھے اپنی ذاتی تگ و دو اور ہنرمندی سے ملا ہے حالانکہ اللہ رب العزت نے اسے خزانوں کا مالک بہ طور آزمائش بنایا تھا لیکن وہ مؤثر حقیقی کو بھول گیا، اللہ رب العزت کو اس کا غرور وتکبر پسند نہ آیا اور اسے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا اور وہ اپنے اس کفر کے باعث دنیوی اور اخروی عذاب کا مستحق ٹھہرا۔
اس مفہوم کی مزید وضاحت اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتی ہے، حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی، اس وقت رات کی بارش کا اثر باقی تھا۔ نماز سے فارغ ہو کر حاضرین کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا:
هَلْ تَدْرُوْنَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ قَالُوْا: اَللهُ وَرَسُوْلُهُ اَعْلَمُ. قَالَ: قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِيْ مُوْمِنٌ بِيْ وَ کَافِرٌ، فَاَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللهِ وَ رَحْمَتِهِ، فَذَلِکَ مُوْمِنٌ بِيْ کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ. وَ أَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْئِ کَذَا وَ کَذَا فَذَلِکَ کَافِرٌ بِيْ مُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ.
’’کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے بندوں میں سے بعض کی صبح ایمان پر اور بعض کی صبح کفر پر ہوئی ہے۔ جس شخص نے کہا ہے کہ ہم پر خدا کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث بارش ہوئی تو اس نے مجھ پر ایمان رکھا اور ستاروں کا کفر کیا، اور جس نے کہا کہ فلاں ستاروں کی تاثیر سے بارش ہوئی ہے تو اس نے میرا کفر کیا اور ستاروں پرایمان رکھا۔‘‘
(2) مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، بیان کفر من قال مطرنا بالنوئ، 1: 83، رقم: 71
گویا کفر کا باعث یہ زعمِ باطل ہے کہ واسطہ کو مؤثر حقیقی و خالق مانا جائے۔
اس حوالے سے ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص فعل کو واسطہ کی طرف منسوب کرتا ہے اور واسطہ کو مؤثر حقیقی نہیں سمجھتا تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی کیونکہ واسطہ اور ذریعہ کو ملحوظ رکھنے کا خود شریعت نے حکم دیا ہے۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنِ اسْتَعَاذَ بِاللهِ فَأَعِيْذُوْهُ، وَمَنْ سَأَلَ بِاللهِ فَأَعْطُوْهُ، وَمَنْ دَعَاکُمْ فَأَجِيْبُوْهُ، وَمَنْ صَنَعَ إِلَيْکُمْ مَعْرُوْفًا فَکَافِئُوْهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوْا مَا تُکَافِئُوْنَهُ فَادْعُوْا لَهُ حَتَّی تَرَوْا أَنَّکُمْ قَدْ کَافَأْتُمُوْهُ.
’’جو شخص تم سے اللہ تعالیٰ کے نام پر پناہ مانگے تو تم اسے پناہ دے دو، جو اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کرے تو اسے عطا کر دو، جو تمہیں دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو، جو تمہارے ساتھ احسان کرے تو اس کا بدلہ احسان کے ساتھ دو، اگر تم اس کی نیکی کا بدلہ نہ دے سکو تو اس کے لئے دعا کیا کرو یہاں تک کہ تم اطمینانِ قلب حاصل کرلو کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے۔‘‘
(1) ابوداؤد، السنن، کتاب الزکاۃ، باب عطیۃ من سأل باللہ، 2: 128، رقم: 1672
کسی کے کام آنا اس کی مشکل آسان کرنا اس پر احسان کرنا بلاشبہ نیکی ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ انسان کے انسان پر احسان کا مؤثر حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ اس احسان کی نسبت موثر مجازی کی طرف کرکے اس کا بدلہ دینے کی کوشش کرنا مستحسن اسلامی اقدار میں سے ہے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ لَمْ يَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْکُرِ اللهَ.
’’جوشخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔‘‘
ترمذی، السنن، کتاب البر، باب فی الشکر، 4: 339، رقم: 1955
احمد بن حنبل، المسند، 3: 32
ابویعلی، المسند، 2: 365
احسان کا مؤثر مجازی بندہ ہے اور یہی اس احسان کا واسطہ بن رہا ہے، اس واسطہ احسان کا اس قدر خیال رکھنا اس احسان کے مؤثر حقیقی (یعنی اللہ تعالیٰ) کی طرف سے ہونے کے منافی نہیں۔ اگر منافی ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مذکورہ بالا انسان کا شکر بجالانے کا حکم نہ فرماتے۔
قرآن حکیم میں اگر ایک فعل کا استعمال مختلف طریق سے ہوتا ہے تو اس کے مختلف معانی ہوتے ہیں۔ پس اگر ہم صرف حقیقت کو لیں اور مجاز کو ترک کر دیں تو مختلف و متفرق نصوص میں تطبیق کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ قول مجازًا منسوب کیا:
رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ.
’’اے میرے رب! ان (بتوں) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر ڈالا ہے۔‘‘
(2) ابراھیم، 14: 36
کیا اس آیت کے مفہوم پر غور کرنے سے کوئی مؤمن یہ گمان بھی کر سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پتھر سے تراشے ہوئے بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا ہو گا۔ العیاذ باللہ ایسا قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی نفی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے اس قول سے ہو جاتی ہے جس میں قرآن نے انہیں مشرکین سے مخاطب ہو کر ان (بتوں) معبودانِ باطلہ کے حوالے سے یہ استفسار کرتے ہوئے بیان کیا:
قَالَ اَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُوْنَo
’’ابراہیم (علیہ السلام) نے (ان سے) کہا: کیا تم ان (ہی بے جان پتھروں) کو پوجتے ہو جنہیں خود تراشتے ہو۔‘‘
(1) صآفات، 37: 95
ان دو قرآنی ارشادات کے مفہوم میں کوئی تعارض اور تضاد نہیں۔ بلاشبہ وہ شخص مشرک قرار پائے گا جو غیر اللہ کے کسی عمل کی اختراع اور اس میں پائی جانے والی تاثیر کو اللہ تعالیٰ کا شریک سمجھے۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے محبوب و برگزیدہ بندوں جیسے انبیاء و اولیاء یا عام مخلوقاتِ جن و انس، جمادات اور مظاہرِ فطرت میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائے تو ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص مشرک ہو گا البتہ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ مسبب میں سبب کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اور وہی فاعلِ حقیقی ہے تو اس کا ایمان شرک سے محفوظ رہے گا خواہ وہ سبب سمجھنے میں خطا ہی کر جائے۔ کیونکہ اس صورت میں اس کی خطا سبب میں ہو گی نہ کہ مسبِّب میں؟ مسبب الاسباب اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔
معانی قرآن کی تطبیق میں توحید اور شرک کا فرق سمجھنا ضروری ہے صحیح عقیدہ یہ ہے کہ کسی غیر کو رازق ماننا شرک ہے اسے رزق کا سبب ماننا شرک نہیں۔ محنت کرنے والا کسان، زمین سے رزق پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے نہ کہ مسبب؟ کسان کو رزق کا سبب ماننا شرک نہیں۔ اسی طرح لوگ کسی دفتر، فیکٹری یا کارخانہ میں کام کرتے ہیں اور آجر اور مالک ان سے کام لیتے ہیں۔ والدین اپنی اولاد کی ولادت کا سبب بنتے ہیں۔ درسگاہوں میں استاد اور معلم علم دینے کا سبب بنتے ہیں جبکہ مسبِب حقیقی اللہ تعالیٰ ہی رہتا ہے۔ سب سے بڑا عالم اور ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ساری عطائیں، عزت اور شان و شوکت اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے اور یہ سب کچھ دینے میں وہ خود سبب نہیں بنتا بلکہ مخلوق میں سے کسی کو رزق، علم اور ولدیت کا سبب بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مسبِّب ہی ہوتا ہے۔ سبب نہیں۔ سبب ہمیشہ مخلوق میں سے ہوتا ہے۔ اور اسی سبب کو واسطہ و وسیلہ کا نام دیا جاتا ہے نہ کہ مسبِّب کو، لہٰذا سبب یعنی واسطہ سے توسل ہوتا ہے جبکہ مسبِّب پر توکل ہوتا ہے۔
کسی اور کو اللہ تعالیٰ کے سوا نفع و نقصان کا سبب اور ذریعہ ماننا توحید کی نفی نہیں۔ توحید کی نفی اور شرک تو تب ہو گا جب کسی اور کو مسبِّب حقیقی مانا جائے۔ کوئی مسلمان ازروئے عقیدہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو مسبِّب حقیقی نہیں مانتا حتی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ تک رسائی کے لئے صرف وسیلہ، ذریعہ اور سبب مانا جاتا ہے اس آخری حد سے اوپر کوئی نہیں جاتا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہواکہ اللہ رب العزت نے زمین میں کسی کے رزق کا مالک ہونے کی نفی کی ہے رزق کا وسیلہ، سبب اور ذریعہ بننے کی نفی نہیں کی۔
اللہ تعالیٰ جیسے مالکِ رزق ہے ویسے وہ مالکِ نفع و ضرر بھی ہے۔ قرآن حکیم نے نقصان کا سبب، باعث، وسیلہ یا ذریعہ ہونے کی نفی نہیں کی۔ وسیلہ کی نفی اس وقت ہو گی جب اللہ تعالیٰ کے سوا ان امور کا مالک دوسروں کو مانا جائے اس کی مثال یوں ہے کہ سانپ نے کاٹ لیا تو سانپ نقصان کا سبب یا باعث بنا، ڈاکٹر کی دوا سے کسی مرض سے شفایابی ہوئی تو وہ شفا کا سبب بن گیا مگر نہ ڈاکٹر اور دوائی نفع یا شفا کے مالک ہیں اور نہ سانپ یا زہر نقصان کے مالک ہیں یہاں سببیت کی نہیں بلکہ مالکیت کی نفی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved