جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ ذات کے اعتبار سے واحد اور یکتا ہے اسی طرح اسماء کے اعتبار سے بھی واحد اور یکتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس میں کوئی اس کا شریک نہیں اور وہ شرک سے پاک ہے اس طرح اس کے خاص اسماء میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّاo
’’(وہ) آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دو کے درمیان ہے (سب) کا رب ہے۔ پس اس کی عبادت کیجئے اور اس کی عبادت میں ثابت قدم رہیے۔ کیا آپ اس کا کوئی ہم نام جانتے ہیں؟‘‘
مریم، 19: 65
توحیدفی الصفات سے مراد یہ عقیدہ ہے کہ وہ صفات جو اللہ رب العزت کے لئے خاص ہیں ان کا اثبات فقط اللہ تعالیٰ کے لئے ہی کیا جائے اور کسی غیرکے لئے ان مختص صفات کے اثبات کا عقیدہ رکھنے سے بچا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات غیر محدود، غیر متناہی اور بالذات ہیں، اللہ تعالیٰ کی ان ہی صفاتِ خاصہ کے حوالے سے چند آیاتِ قرآنی درج ذیل ہیں:
(1) اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام میں ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ذَلِكُمُ اللّهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَo فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِo وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُواْ بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَo وَهُوَ الَّذِيَ أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَo وَهُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ انظُرُواْ إِلِى ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ إِنَّ فِي ذَلِكُمْ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَo وَجَعَلُواْ لِلّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُواْ لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَصِفُونَo بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌo ذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمْ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌo لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُo
’’بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کو پھاڑ نکالنے والا ہے وہ مُردہ سے زندہ کو پیدا فرماتا ہے اور زندہ سے مُردہ کو نکالنے والا ہے، یہی(شان والا) تو اللہ ہے پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔ (وہی) صبح (کی روشنی) کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والاہے، اور اسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کوحساب وشمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے (ربّ) کا مقررہ اندازہ ہے۔ اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے ستاروں کو بنایا تاکہ تم ان کے ذریعے بیابانوں اور دریاؤں کی تاریکیوں میں راستے پا سکو۔ بیشک ہم نے علم رکھنے والی قوم کے لئے (اپنی) نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں۔ اور وہی(اللہ) ہے جس نے تمہیں ایک جان (یعنی ایک خلیہ) سے پیدا فرمایا ہے پھر (تمہارے لئے) ایک جائے اقامت (ہے) اور ایک جائے امانت (مراد رحم مادر اور دنیا ہے یا دنیا اور قبر ہے)۔ بیشک ہم نے سمجھنے والے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیں۔ اور وہی ہے جس نے آسمان کی طرف سے پانی اتارا پھر ہم نے اس (بارش) سے ہر قسم کی روئیدگی نکالی پھر ہم نے اس سے سرسبز(کھیتی) نکالی جس سے ہم اوپر تلے پیوستہ دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے گابھے سے لٹکتے ہوئے گچھے اور انگوروں کے باغات اور زیتون اور انار (بھی پیدا کئے جو کئی اعتبارات سے)آپس میں ایک جیسے (لگتے) ہیں اور (پھل، ذائقے اور تاثیرات) جداگانہ ہیں۔ تم درخت کے پھل کی طرف دیکھو جب وہ پھل لائے اور اس کے پکنے کو (بھی دیکھو)، بیشک ان میں ایمان رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ اور ان کافروں نے جِنّات کو اللہ کا شریک بنایا حالانکہ اسی نے ان کو پیدا کیا تھا اور انہوں نے اللہ کے لئے بغیر علم (و دانش) کے لڑکے اور لڑکیاں (بھی) گھڑ لیں۔ وہ ان (تمام) باتوں سے پاک اور بلند و بالا ہے جو یہ (اس سے متعلق) کرتے پھرتے ہیں۔ وہی آسمانوں اور زمینوں کا موجد ہے، بھلا اس کی اولاد کیونکر ہو سکتی ہے حالانکہ اس کی بیوی (ہی) نہیں ہے، اور اسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ یہی (اللہ) تمہارا پروردِگار ہے اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں (وہی) ہر چیز کا خالق ہے پس تم اسی کی عبادت کیا کرو اور وہ ہر چیز پرنگہبان ہے۔ نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اور وہ بڑا باریک بین بڑا باخبرہے۔ ‘‘
الانعام، 6: 95۔103
سورۃ الانعام کی درج بالا آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی درج ذیل صفاتِ خاصہ کا بیان ہوا ہے:
(2) اللہ تعالیٰ نے سورہِ یونس میں فرمایا:
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ والْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللّهُ فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَo فَذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلاَلُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَo كَذَلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِينَ فَسَقُواْ أَنَّهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَo قُلْ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ قُلِ اللّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَo
’’آپ (ان سے) فرما دیجئے:تمہیں آسمان اور زمین (یعنی اوپر اور نیچے) سے رزق کون دیتا ہے، یا (تمہارے) کان اور آنکھوں (یعنی سماعت و بصارت) کا مالک کون ہے، اور زندہ کو مُردہ (یعنی جاندار کو بے جان) سے کون نکالتا ہے اور مُردہ کو زندہ (یعنی بے جان کو جاندار) سے کون نکالتا ہے، اور (نظام ہائے کائنات کی) تدبیر کون فرماتا ہے؟ سو وہ کہہ اٹھیں گے کہ اللہ، تو آپ فرمائیے:پھرکیا تم (اس سے) ڈرتے نہیں؟ پس یہی (عظمت و قدرت والا) اللہ ہی تو تمہارا سچا رب ہے، پس (اس) حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کیا ہو سکتا ہے، سو تم کہاں پھرے جارہے ہو؟ اسی طرح آپ کے رب کا حکم نافرمانوں پر ثابت ہوکر رہا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ آپ (ان سے دریافت) فرمائیے کہ کیا تمہارے (بنائے ہوئے) شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو تخلیق کی ابتداء کرے پھر (زندگی کے معدوم ہوجانے کے بعد) اسے دوبارہ لوٹائے؟ آپ فرما دیجئے کہ اللہ ہی (حیات کو عدم سے وجود میں لاتے ہوئے) آفرینش کا آغاز فرماتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ (بھی) فرمائے گا، پھر تم کہاں بھٹکتے پھرتے ہو۔ ‘‘
یونس، 10: 31۔34
سورہِ یونس کی درج بالا آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی درج ذیل صفاتِ خاصہ کا بیان ہوا ہے:
(3) اللہ تعالیٰ نے سورہِ یس میں فرمایا:
وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَo وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنْ الْعُيُونِo لِيَأْكُلُوا مِن ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ أَفَلَا يَشْكُرُونَo سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَo وَآيَةٌ لَّهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَo وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِo وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِo لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَo
’’اور اُن کے لئے ایک نشانی مُردہ زمین ہے، جِسے ہم نے زندہ کیا اور ہم نے اس سے (اناج کے) دانے نکالے، پھر وہ اس میں سے کھاتے ہیں۔ اور ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات بنائے اور اس میں ہم نے کچھ چشمے بھی جاری کردیئے۔ تاکہ وہ اس کے پھل کھائیں اور اسے اُن کے ہاتھوں نے نہیں بنایا، پھر (بھی) کیا وہ شکر نہیں کرتے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کے جوڑے پیدا کئے، ان سے (بھی) جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود اُن کی جانوں سے بھی اور (مزید) ان چیزوں سے بھی جنہیں وہ نہیں جانتے۔ اور ایک نشانی اُن کے لئے رات (بھی) ہے، ہم اس میں سے (کیسے) دن کو کھینچ لیتے ہیں سو وہ اس وقت اندھیرے میں پڑے رہ جاتے ہیں۔ اور سورج ہمیشہ اپنی مقررہ منزل کے لئے (بغیر رکے) چلتا رہتا ہے، یہ بڑے غالب بہت علم والے (رب) کی تقدیر ہے۔ اور ہم نے چاند کی (حرکت و گردش کی) بھی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں یہاں تک کہ (اس کا اہلِ زمین کو دکھائی دینا گھٹتے گھٹتے) کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے۔ نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنا مدار چھوڑ کر) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہوسکتی ہے، اور سب (ستارے اور سیارے) اپنے (اپنے) مدار میں حرکت پذیر ہیں۔ ‘‘
یٰسین، 36: 33۔40
(4) اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر میں فرمایا:
قُلِ اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَo
’’آپ عرض کیجئے:اے اللہ! آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والے، غیب اور ظاہر کا علم رکھنے والے، تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اُن (امور) کا فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ ‘‘
الزمر، 39: 46
مذکورہ آیاتِ کریمہ میں بیان ہونے والی صفاتِ خاصہ ہیں جو مخلوق کے لیے ثابت نہیں ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ اِلٰـہ (معبود) اس میں کسی کا اشتراک نہیں، وہ بدیع السموات والارض یا فاطر السموات والارض ہے پوری کائنات کا خالق اور اسے عدم سے وجود میں لانے والا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی اشتراک نہیں، وہ مالک یوم الدین ہے، یوم جزا و سزا کا مالک ہے وہی سب کا حساب لیگا اور وہی سب کو جزا و سزا سے نوازے گا، اس میں کسی کا اشتراک نہیں، وہی رازقِ حقیقی ہے۔ وہی حقیقۃً مالک نفع و ضرر ہے، اسی پر سب کا توکل ہے، یہ بھی اس کا خاصہ ہے اس میں کوئی شریک نہیں مخلوق کے لئے توسل ہے اور خالق پر توکل، وہی دعاؤں کو سننے والا اور قبول فرمانے والا ہے۔
ذبح اور نذرِ عبادت اسی کا حق ہے، اس کی صفت رحمان ہے۔ یہ اس صفاتی کسی اور کے لئے جائز نہیں جبکہ رحیم مخلوق کے لئے جائز ہے۔ وہی سجدہِ عبادت کا حقدار ہے وہی موت و حیات کا حالق بھی ہے اور مالک بھی اسی طرح اسی کے گھر کا حج ہے، اسی کے گھر کا طواف ہے اسی ے نام پر قربانی ہے اسی کی رضا کے لئے اعمال اور عبادات ہیں۔ الغرض ایسی بہت سی صفات خاصّہ ہیں جن میں وہ وحدہ لا شریک ہے، یہی توحید فی الصفات ہے۔
کئی صفات ایسی ہیں جو خالق اور مخلوق دونوں کے درمیان مشترک (Common) ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے لئے کسی اور معنی میں ہوتی ہیں اورمخلوق کے لئے کسی اور معنی میں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات اس کی شان اور اس کے حال کے مطابق ہیں جبکہ مخلوق کے لئے ان کے حسبِ حال یہ صفات محدود، متناہی اور عطائی ہیں۔ مثلاً اللہ بھی (حَیٌّ) ’’زندہ‘‘ ہے اور ما و شما بھی لمحہ موجود میں زندہ ہیں اور اس وقت تک زندہ ہیں جب تک ہم وفات پا کر مردہ نہیں ہو جاتے گویا 50، 60، 70 سال یا اس سے بھی اوپر کی طبعی عمر کو پہنچنے تک ہم بھی زندہ و موجود ہیں اور اللہ بھی زندہ و موجود ہے۔ تو کیا طبعی عمر کے اتنے عرصے کے اشتراک سے ہم (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ کے شریک ہو گئے؟ پھر مخلوق میں تو ابتداء سے آج تک موت و حیات کا سلسلہ جاری ہے اور ابدالاباد تک جاری رہے گا جبکہ ہم میں آج کوئی ہے تو کل نہیں۔ گویا من حیث المجموع ایک اعتبار سے مخلوق بھی زندہ ہے اور اللہ تعالیٰ بھی زندہ ہے۔ لیکن کیا دونوں میں یہ جزوی (partially) شرک تصور ہو گا؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ اس لئے کہ مخلوق کے زندہ ہونے کے معنی اور ہیں اور اللہ تعالیٰ کے زندہ ہونے کے معنی اور ہیں۔ یہ صفات میں شرک نہیںبلکہ اشتراک ہے اسکی بحث آگے ایک مستقل باب میں آئے گی۔
ان صفات کا اطلاق مخلوق کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے لئے بالکل مختلف معنی میں ہوتا ہے مثلاً قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ شہید بیان ہوئی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمبھی امت کے لئے شھید ہیں۔ تو کیا معاذ اللہ قرآن نے یہ عقیدہ بیان کرکے شرک کی تعلیم دی؟ نہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ رؤوف و رحیم ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمبھی رؤوف و رحیم ہیں۔ تو کیا رؤوف و رحیم کا دونوں کے لئے اشتراک ماننے سے شرک لازم ہوگیا؟ نہیں۔ اس طرح کئی اسماء اور صفات ایسی ہیں جو خالق و مخلوق دونوں کے لئے بیان ہوئی جیسے اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر ہے اور انسان بھی سمیع و بصیر تو کیا یہ بیان شرک ہو گیا؟ ہرگز نہیں اس لئے کہ قرآن میں جو مشترک صفات کا بیان ہے ان کی توجیہہ اللہ تعالیٰ کے لئے اور معنی میں ہے اور مخلوق کے لئے اورمعنی میں۔ یہی عقیدہ صحیحہ ہے۔
ہم جو صفات اللہ تعالیٰ کے لئے مانتے ہیں وہ مخلوق کے لئے نہیں مانتے اس لئے ان پر شرک کا اطلاق نہیں ہو گا، شرک فی الصفات ثابت کرنے کے لئے لازم ہے کہ وہ صفت جو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہو اسے مخلوق کے لئے ثابت کیا جائے، لیکن اگر کوئی صفت اللہ تعالیٰ کا خاصہ نہیں ہے مگر وہ مخلوق کے لئے بھی ثابت ہے تو اس اشتراک کی صورت میں حقیقت اور مجاز کی تقسیم دونوں میں شرک کے امکان کو ختم کر دیتی ہے۔
توحید فی الاسماء کے برعکس شرک فی الاسماء یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذاتی اور صفاتی ناموں میں کوئی اس کا شریک ٹھہرایا جائے۔ قرآن و حدیث سے جو اسماء صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو ان اسماء سے پکارنا شرک فی الاسماء ہے۔ اسی طرح اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نیا نام بنانا اور پکارنا خلافِ شرع اور خلافِ ادب ہے۔ بندے کی عقل ناقص اور محدود ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کی شان اور مرتبہ وراء الوراء ہے، اس تک انسانی عقل کی رسائی ممکن نہیں۔ اپنے مرتبے اور شان کے لائق حسین اور پاک نام وہ خود ہی رکھ سکتا ہے۔ کسی بندے کے بس میں نہیں ہے کہ اس کا کوئی نام رکھ سکے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُo
’’وہی اللہ ہے جو پیدا فرمانے والا ہے، عدم سے وجود میں لانے والا (یعنی ایجاد فرمانے والا) ہے، صورت عطا فرمانے والا ہے۔ (الغرض) سب اچھے نام اسی کے ہیں، اس کے لئے وہ (سب) چیزیں تسبیح کرتی ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور وہ بڑی عزت والا ہے بڑی حکمت والا ہے۔ ‘‘
الحشر، 59: 24
. وہ صفات جو اللہ رب العزت کا خاصہ ہیں اور جن پر خالصۃً اللہ تعالیٰ کا حق ہے اگر ایسی صفات کو کسی غیر کے لئے ثابت کیا جائے تو پھر شرک فی الصفات لازم آئے گا۔ جو صفت اللہ تعالیٰ کے لئے بیان کی گئی اور وہ اس کے لئے خاص ہو تو وہ قرآن کے مطابق قطعی و حتمی طور پر بلاامتیاز صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اسے کسی غیر اللہ کے لئے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بنیادی اور اوّلین شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شان اور صفت ہے استواء علی العرش اس کا غیر کے لئے اثبات جائز نہیں، وہ قدیم، ازلی، اور ابدی ہے، وہ زمان و مکان سے پاک ہے۔ وہ تغیر، تکمیل اور حرکات سے منزّہ ہے، اسکی نہ کوئی ابتداء ہے نہ انتہائ، وہ قیوم بالذات ہے۔ وہ احد لا شریک ہے، وہ صمد اور بے نیاز ہے، وہ نہ والد ہے نہ مولود، اسکی نہ کوئی ضد ہے نہ نِد، نہ ہمسر نہ مثال، اس کا نہ کوئی جسم ہے نہ جوہر، وہ غیر محدود اور غیر معدود ہے، نہ اس پر نیند آتی ہے نہ بڑھاپا، نہ اس کی پیدائش ہوئی نہ اس پر موت ہے، وہ ہر شے کا خالق ہے، مالک ہے، ان پر قادر مطق ہے، الغرض ان صفاتِ خاصہ کو کسی غیر کے لئے ثابت کرنا، جزوی طور پر ہو یا وقتی طور پر یہ ’’شرک فی الصفات‘‘ ہوگا۔
قرآن مجید میں ایسے سینکڑوں الفاظ وارد ہوئے ہیں جو بعض اوقات حقوق، صفات، افعال اور اسماء کے باب میں مشترک طورپر استعمال ہوئے ہیں لیکن جس معنی میں وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ہیں ان معانی کا اطلاق مخلوق پر نہیں کیا جاسکتا ۔ بے شمار الفاظ اللہ تعالیٰ کیلئے جن معانی کے حامل ہیں، مخلوق کے لئے مختلف معانی رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کیلئے امین اور قوی کے جو معنی ہیں، مخلوق کے لئے ان الفاظ کے وہ معنی نہیں ہوسکتے۔ ان الوہی صفات کے معانی و مطالب واضح اور معین ہیں۔ ان کے معانی اور تصریحات جدا جدا ہیں اور ان کے معنوی اطلاقات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ چونکہ ان صفاتِ الٰہیہ کا مفہوم اللہ تعالیٰ کیلئے خاص ہے لہٰذا مذکورہ الفاظ کی تخصیص اللہ تعالیٰ کیلئے واضح اور متعین ہے۔ ان کا مفہوم اور معنوی اطلاقات، مضمرات و تصورات یکسر مختلف پیرائے میں بیان ہوئے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ اور مخلوق کیلئے یہ تصورات و صفات جدا جدا معنی رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان بہت بڑا معنوی فرق و امتیاز کار فرما ہے۔ پس کسی چیز کے شرک یا عدمِ شرک کا تعیّن کرنے کے لئے یہ حقیقت ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ آیا وہ صفت مشترک ہے یا غیر مشترک۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی خاص یا غیر مشترک صفت ہے اور اسے کسی غیر کیلئے ثابت کیا گیا ہے تو پھر یہ عمل شرک کے مترادف ہو گا۔
بدیہی طور پر اللہ تعالیٰ کی ایک امتیازی صفت الوُھیت ہے جو کسی کے ساتھ مشترک نہیں ہو سکتی۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ معبود ہے اور وہی اس قابل ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ اس کے مقابلے میں کسی کو معبود نہیں ٹھہرایا جا سکتا حتی کہ کسی کو استعاراتی یا مجازی طور پر بھی معبود نہیں کہا جا سکتا۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا ہے۔ مخلوق میں کوئی بھی رحمٰن نہیں ہوسکتا۔ رحمٰن ہونا خالصتاً اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو رحمٰن مانے تو وہ شرک کا مرتکب ہو گا۔ لیکن رحیم ہونے کی صفت اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمدونوں میں مشترک ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکو رحیم کہنے سے شرک کا ارتکاب نہیں ہوگا۔
البتہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکو اسی معنی میں رحیم نہیں مانیں گے جس معنی میں ہم اللہ تعالیٰ کو رحیم مانتے ہیں۔ اگر ایسا کریں گے تو شرک کے مرتکب ہو جائیں گے۔ رحیم کی صفت میں جو تصور اور حقیقت اللہ تعالیٰ کیلئے خاص ہے اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور ہستی کے ساتھ خواہ وہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمہی کیوں نہ ہوں منسوب کرنا شرک ہو گا اگر رحیم کا معنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے لئے آپ کی شان کے مطابق مختلف معنی میں لیا جائے تو پھر شرک نہیں ہو گا۔
وہ افعال جو اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہیں ان کا فقط اللہ رب العزت ہی کے لئے ثابت کرنا توحید فی الافعال کہلاتا ہے مثلاً عدم سے کائنات کو وجود میں لانے والا، زندگی دینے والا اور موت سے ہمکنار کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہ اگر چاہے تو اپنے امرِ کُنْ سے ساری کائنات کو نیست و نابود کر دے۔ اسی طرح دوزخ و جنت قائم کرنا، فرشتوں کوتخلیق کرنا، انبیاء کو نبوت و رسالت عطا کرنا، وحی نازل کرنا مخلوق کے لئے ہدایت نازل کرنا، انہیں مرض اور شفا اور موت و حیات سے ہمکنار کرنا، طاعت گزراوں کو ثواب اور نافرمانوں کو عذاب دینا یہ سب افعال الہٰیہ ہیں جو افعالِ خاصہ بھی ہیں۔ خلقِ کائنات کی طرح انعقادِ قیامت بھی افعالِ خاصہ الہٰیہ میں سے ہے۔
اس دنیا میں روز و شب کا نظام، سورج کے طلوع و غروب کا نظام، بارش اور خشک سالی کا نظام، رزق کی فراہمی تنگی اور کشادگی سب اسی کے کام ہیں۔ یہ افعال کسی اور کے نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اولاد، مال و دولت، عزت و آبرو، قوت و اقتدار اور شان و شوکت دینا اور چھین لینا اسی کے دستِ قدرت میں ہے ان افعال میں نہ کوئی اسکا شریک ہے، نہ حصہ دار، نہ معاون اور نہ مددگار۔ ان افعال کا صرف اللہ تعالیٰ کے لئے عقیدہ رکھنا توحید فی الافعال کا اثبات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ان افعالِ خاصہ کے حوالے سے چند آیاتِ قرآنی درج ذیل ہیں:
(1) اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف میں ارشاد فرمایا:
إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَo ادْعُواْ رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَo وَلاَ تُفْسِدُواْ فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَo وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ حَتَّى إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالاً سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ كَذَلِكَ نُخْرِجُ الْموْتَى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَo وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لاَ يَخْرُجُ إِلاَّ نَكِدًا كَذَلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَo
’’بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی کائنات) کو چھ مدتوں (یعنی چھ ادوار) میں پیدا فرمایا پھر (اپنی شان کے مطابق) عرش پر استوا (یعنی اس کائنات میں اپنے حکم و اقتدار کے نظام کا اجرائ) فرمایا۔ وہی رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے (درآنحالیکہ دن رات میں سے) ہر ایک دوسرے کے تعاقب میں تیزی سے لگا رہتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے (سب) اسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔ خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔ اللہ بڑی برکت والا ہے جو تمام جہانوں کی (تدریجاً) پرورش فرمانے والا ہے۔ تم اپنے رب سے گِڑگڑا کر اور آہستہ (دونوں طریقوں سے) دعا کیا کرو، بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور زمین میں اس کے سنور جانے (یعنی ملک کا ماحولِ حیات درست ہو جانے) کے بعد فساد انگیزی نہ کرو اور (اس کے عذاب سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت کی) امید رکھتے ہوئے اس سے دعا کرتے رہا کرو، بیشک اللہ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہے۔ اور وہی ہے جو اپنی رحمت (یعنی بارش) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ (ہوائیں) بھاری بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں تو ہم ان (بادلوں) کو کسی مردہ (یعنی بے آب و گیاہ) شہر کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر ہم اس (بادل) سے پانی برساتے ہیں پھر ہم اس (پانی) کے ذریعے (زمین سے) ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں۔ اسی طرح ہم (روزِ قیامت) مُردوں کو (قبروں سے) نکالیں گے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔ اور جو اچھی (یعنی زرخیز) زمین ہے اس کا سبزہ اللہ کے حکم سے (خوب) نکلتا ہے اور جو (زمین) خراب ہے (اس سے) تھوڑی سی بے فائدہ چیز کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اسی طرح ہم (اپنی) آیتیں (یعنی دلائل اور نشانیاں) ان لوگوں کے لئے بار بار بیان کرتے ہیں جو شکرگزار ہیں۔ ‘‘
الاعراف، 7: 54۔58
سورۃ الاعراف کی درج بالا آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کے درج ذیل افعالِ خاصّہ کا ذکر ہوا ہے:
(2) اللہ تعالیٰ نے سورۃ ا لاسراء میں ارشاد فرمایا:
رَّبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُواْ مِن فَضْلِهِ إِنَّهُ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًاo وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلاَّ إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الْإِنْسَانُ كَفُورًاo أَفَأَمِنتُمْ أَن يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لاَ تَجِدُواْ لَكُمْ وَكِيلاًo أَمْ أَمِنتُمْ أَن يُعِيدَكُمْ فِيهِ تَارَةً أُخْرَى فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفا مِّنَ الرِّيحِ فَيُغْرِقَكُم بِمَا كَفَرْتُمْ ثُمَّ لاَ تَجِدُواْ لَكُمْ عَلَيْنَا بِهِ تَبِيعًاo وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاًo
’’تمہارا رب وہ ہے جو سمندر (اور دریا) میں تمہارے لئے (جہاز اور ) کشتیاں رواں فرماتا ہے تاکہ تم (اندرونی و بیرونی تجارت کے ذریعہ ) اس کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرو، بیشک وہ تم پر بڑا مہربان ہے۔ اور جب سمندر میں تمہیں کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو وہ (سب بت تمہارے ذہنوں سے) گم ہو جاتے ہیں جن کی تم پرستش کرتے رہتے ہو سوائے اسی (اللہ) کے (جسے تم اس وقت یاد کرتے ہو)، پھر جب وہ (اللہ) تمہیں بچا کر خشکی کی طرف لے جاتا ہے (تو پھر اس سے) روگردانی کرنے لگتے ہو، اور انسان بڑا ناشکرا واقع ہوا ہے۔ کیا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ وہ تمہیں خشکی کے کنارے پر ہی (زمین میں) دھنسا دے یا تم پر پتھر برسانے والی آندھی بھیج دے پھر تم اپنے لئے کوئی کارساز نہ پاسکو گے۔ یا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ وہ تمہیں دوبارہ اس (سمندر) میں پلٹا کرلے جائے اور تم پر کشتیاں توڑ دینے والی آندھی بھیج دے پھر تمہیں اس کفر کے باعث جو تم کرتے تھے (سمندر میں) غرق کر دے پھر تم اپنے لئے اس (ڈبونے) پر ہم سے مؤاخذہ کرنے والا کوئی نہیں پاؤگے۔ اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا۔ ‘‘
الإسراء، 17: 66۔70
سورۃ ا لاسراء کی ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کے درج ذیل افعالِ خاصہ کا ذکر ہوا ہے:
(3) اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل میں ارشاد فرمایا:
وَاللّهُ أَنزَلَ مِنَ الْسَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَo وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشَّارِبِينَo وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَo وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَo ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلاً يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَo
’’اور اللہ نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا اور اس کے ذریعہ زمین کو اس کے مردہ (یعنی بنجر) ہونے کے بعد زندہ (یعنی سرسبز و شاداب) کر دیا۔ بیشک اس میں (نصیحت) سننے والوں کے لئے نشانی ہے۔ اور بیشک تمہارے لئے مویشیوں میں (بھی) مقامِ غور ہے، ہم ان کے جسموں کے اندر کی اس چیز سے جو آنتوں کے (بعض) مشمولات اور خون کے اختلاط سے (وجود میں آتی ہے) خالص دودھ نکال کر تمہیں پلاتے ہیں (جو) پینے والوں کے لئے فرحت بخش ہوتا ہے۔ اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے تم شکر اور (دیگر) عمدہ غذائیں بناتے ہو، بیشک اس میں اہلِ عقل کے لئے نشانی ہے۔ اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں (خیال) ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوں میں اور بعض چھپروں میں (بھی) جنہیں لوگ (چھت کی طرح) اونچا بناتے ہیں۔ پس تو ہر قسم کے پھلوں سے رس چوسا کر پھر اپنے رب کے (سمجھائے ہوئے) راستوں پر (جو ان پھلوں اور پھولوں تک جاتے ہیں جن سے تو نے رس چوسنا ہے، دوسری مکھیوں کے لئے بھی) آسانی فراہم کرتے ہوئے چلا کر، ان کے شکموں سے ایک پینے کی چیز نکلتی ہے (وہ شہد ہے) جس کے رنگ جداگانہ ہوتے ہیں، اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے، بیشک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانی ہے۔ ‘‘
النحل، 16: 65۔69
سورۃ النحل کی ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کے درج ذیل افعالِ خاصّہ کا ذکر ہوا ہے:
قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَo أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَo أَمَّن جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَo أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَo أَمَّن يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَن يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَo أَمَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَo
’’فرما دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اس کے منتخب (برگزیدہ) بندوں پر سلامتی ہو، کیا اللہ ہی بہتر ہے یا وہ (معبودانِ باطلہ) جنہیں یہ لوگ (اس کا) شریک ٹھہراتے ہیں۔ بلکہ وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور تمہارے لئے آسمانی فضا سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس (پانی) سے تازہ اور خوشنما باغات اُگائے، تمہارے لئے ممکن نہ تھا کہ تم ان (باغات) کے درخت اُگاسکتے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو (راہِ حق سے) پرے ہٹ رہے ہیں۔ بلکہ وہ کون ہے جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں بنائیں اور اس کے لئے بھاری پہاڑ بنائے۔ اور (کھاری اور شیریں) دو سمندروں کے درمیان آڑ بنائی۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ بلکہ ان (کفار) میں سے اکثر لوگ بے علم ہیں۔ بلکہ وہ کون ہے جو بے قرار شخص کی دعا قبول فرماتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور فرماتا ہے اور تمہیں زمین میں(پہلے لوگوں کا) وارث و جانشین بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو۔ بلکہ وہ کون ہے جو تمہیں خشک و تر (یعنی زمین اور سمندر) کی تاریکیوں میں راستہ دکھاتا ہے اور جو ہواؤں کو اپنی (بارانِ) رحمت سے پہلے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ اللہ ان (معبودانِ باطلہ) سے برترہے جنہیں وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ بلکہ وہ کون ہے جو مخلوق کو پہلی بار پیدا فرماتا ہے پھر اسی (عملِ تخلیق) کو دہرائے گا اور جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق عطا فرماتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی)معبود ہے؟ فرما دیجئے:(اے مشرکو!) اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو۔ ‘‘
النمل، 27: 59۔ 64
سورۃ النمل کی ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کے درج ذیل افعالِ خاصہ کا بیان ہوا ہے:
(5) اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر میں ارشاد فرمایا:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِأُوْلِي الْأَلْبَابِo
’’(اے انسان!) کیا تو نے نہیںدیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر زمین میں اس کے چشمے رواں کیے، پھر اس کے ذریعے کھیتی پیدا کرتا ہے جس کے رنگ جداگانہ ہوتے ہیں، پھر وہ (تیار ہوکر) خشک ہوجاتی ہے، پھر (پکنے کے بعد) تو اسے زرد دیکھتا ہے، پھر وہ اسے چورا چورا کردیتا ہے، بے شک اس میں عقل والوں کے لئے نصیحت ہے۔ ‘‘
الزمر، 39: 21
(6) اللہ تعالیٰ نے سورۃ المؤمن میں ارشاد فرمایا:
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّى مِن قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَo هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ فَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُo
’’وہی ہے جس نے تمہاری (کیمیائی حیات کی ابتدائی) پیدائش مٹی سے کی پھر (حیاتیاتی ابتدائ) ایک نطفہ (یعنی ایک خلیہ) سے، پھر رحم مادر میں معلّق وجود سے، پھر (بالآخر) وہی تمہیں بچہ بنا کر نکالتا ہے پھر (تمہیں نشوونما دیتا ہے) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ۔ پھر (تمہیں عمر کی مہلت دیتا ہے) تاکہ تم بوڑھے ہو جاؤ اور تم میں سے کوئی (بڑھاپے سے) پہلے ہی وفات پا جاتا ہے اور (یہ سب کچھ اس لئے کیاجاتا ہے) تاکہ تم (اپنی اپنی) مقررّہ میعاد تک پہنچ جاؤ اور اِس لئے (بھی) کہ تم سمجھ سکو۔ وہی ہے جو زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے پھر جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو صرف اسے فرما دیتا ہے ہو جا پس وہ ہو جاتا ہے۔ ‘‘
المؤمن، 40: 67۔68
(7) اللہ تعالیٰ نے سورہِ نوح میں ارشاد فرمایا:
وَاللَّهُ أَنبَتَكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًاo ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًاo وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًاo لِّتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًاo
’’اور اللہ نے تمہیں زمین سے سبزے کی مانند اُگایا۔ پھر تم کو اسی (زمین) میں لوٹا دے گا اور (پھر) تم کو (اسی سے دوبارہ) باہر نکالے گا۔ اور اللہ نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنا دیا۔ تاکہ تم اس کے کشادہ راستوں میں چلو پھرو۔ ‘‘
نوح، 71: 17۔20
اَرضی زندگی میں پودوں کی طرح حیاتِ اِنسانی کی اِبتداء اور نشو و نما بھی کیمیائی اور حیاتیاتی مراحل سے گزرتے ہوئے تدریجاً ہوئی، اِسی لئے اِسے اَنْـبَـتَـکُمْ مِّـنَ الْاَرْضِ نَـبَـاتًـا کے بلیغ اِستعارہ کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔
(8) اللہ تعالیٰ نے سورہِ عبس میں ارشاد فرمایا:
فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ إِلَى طَعَامِهِo أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّاo ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّاo فَأَنبَتْنَا فِيهَا حَبًّاo وَعِنَبًا وَقَضْبًاo وَزَيْتُونًا وَنَخْلًاo وَحَدَائِقَ غُلْبًاo وَفَاكِهَةً وَأَبًّاo مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْo
’’پس انسان کو چاہیے کہ اپنی غذا کی طرف دیکھے (اور غور کرے)۔ بیشک ہم نے خوب زور سے پانی برسایا۔ پھر ہم نے زمین کو پھاڑ کر چیر ڈالا۔ پھر ہم نے اس میں اناج اگایا۔ اور انگور اور ترکاری۔ اور زیتون اور کھجور۔ اور گھنے گھنے باغات۔ اور (طرح طرح کے) پھل میوے اور (جانوروں کا) چارہ۔ خود تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے لئے متاعِ (زیست)۔ ‘‘
عبس، 80: 24۔32
کائنات (زمین و آسمان) اور تمام مخلوقات کا خالق اللہ رب العزت ہے اور اس کی خالقیت اسی کے لئے خاص ہے۔ اس طرح دن اور رات کا بدلنا، سمندروں میں جہاز اور کشتیاں بہ حفاظت رواں دواں کرنا، آسمان سے بارش نازل کرنا اور اس کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کرنا، بادلوں اور ہواؤں کا چلانا، افعالِ الٰہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے افعالِ خاصّہ کا کسی اور کے لئے اثبات شرک ہے
اللہ رب العزت جن افعالِ خاصہ میں وحدہ لاشریک ہے انہیں اگر کسی غیر کے لئے ثابت کیا جائے تو یہ شرک ہوگا مثلاً
هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُo
’’(اللہ) وہی ہے جو (ماؤں کے) رحموں میں تمہاری صورتیں جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے۔‘‘
آل عمران، 3: 6
الغرض اللہ تعالیٰ کے خاص افعال و صفات کو کسی اور کیلئے خواہ وہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو ثابت کرنا شرک ہو گا۔ افعال و صفات کی دو ہی صورتیں ہیں:یا تووہ اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہوں گی یا نہیں ہوں گی۔ اگر وہ خاص اللہ تعالیٰ کے افعال و صفات ہیں تو انہیں کسی اور کیلئے ثابت کرنا شرک ہو گا۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ صفات عامہ ہوں تو اس میں لامحالہ دو باتیں ہوں گی:یا تو وہ مخلوق کے حسبِ حال ہیں یا نہیں ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا مخلوق کے لئے بھی ان کے حسبِ حال ثابت ہیں تو شرک صادر نہیں ہوگا۔ بصورتِ دیگر اگر وہ ایسی صفات ہوں کہ جن کا اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت کرنا سرے سے جائز ہی نہیں (جیسے میلاد، وسیلہ، شفاعت) تو ان کو شرک نہیں گردانا جا سکتا۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ انبیاء و اولیاء اور مقربین و صالحین کی دعا سے، انکی برکت سے، اور ان کے توسّل سے کسی بیمار کو تندرستی و صحتیابی مل جانا، کسی پریشان حال اور دکھی کے دکھوں کا مداوا ہوجانا، کسی بے اولاد کو اولاد کی نعمت نصیب ہونا، کسی غریب و محتاج کا مال و دولت سے نوازا جانا حق ہے۔ یہ نہ شرک ہے نہ اشتراک، بلکہ محض توسل ہوتا ہے کیونکہ فاعلِ حقیقی جملہ امور میں اللہ تعالیٰ ہی رہتا ہے۔ وہ جس کے باعث اور جس کے سبب سے جس کو جو چاہے عطا فرما دے اور جس سے جو چاہے سلب فرما لے، قدرت اور فعل اسی کا ہی رہتا ہے، سبب خواہ کوئی ہو۔ اس سے ’’توحید فی الافعال‘‘ میں حرج واقع نہیں ہوتا۔
توحید فی الافعال کے برعکس اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروںکو اس کے خاص افعال میں شریک ٹھہرانا شرک فی الافعال ہے۔
جیسا کہ قبل ازیں یہ وضاحت ہو چکی ہے کہ شرک صرف اس وقت وجود میں آتا ہے جب توحید کی واضح نفی کی جائے کیونکہ یہ طے شدہ امر ہے کہ توحید اور شرک ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایمان اور توحید کی نفی ثابت کرنے کیلئے یہ تعیّن کرنا لازمی ہے کہ توحید کے جس درجہ کی خلاف ورزی ہوتی ہے اس کا شمار حقوق اللہ میں ہو۔ خالصتاً یہ حق کوئی عام یا مشترک حق اور صفت نہ ہو بلکہ بلا شرکتِ غیر خالصتاً، اللہ تعالیٰ کا حق ہو یعنی اس میں اختصاص پایا جائے نہ کہ اشتراک۔ لہٰذا جو شخص کسی کے عمل کو توحید کے منافی خیال کرتے ہوئے شرک کا الزام عائد کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ قرآن و سنت کے قطعی دلائل و شواہد سے اس امر کو حتمی طور پر توحید کے منافی ثابت کرے۔ جب تک وہ ثابت نہیں کرتا اس وقت تک اس کے کسی عمل اور خیال کو مشرکانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ شرک کا مدار کمیت اور توقیت پر نہیں بلکہ کیفیت و ماہیت پر ہے۔
قرآن حکیم نے اکثر و بیشتر مقامات پر مشرکین کے خصوصی پس منظر میں ان کے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے معبودانِ باطلہ کا ذکر کیا ہے اور ان باطل عقائد کا تذکرہ بھی کیا ہے جو ان کے ساتھ انہوں نے وابستہ کر رکھے ہیں۔ اسی طرح اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا کسی اور کے بارے میں بھی عقیدہ اُلوہیت رکھا جائے تو ایسا کرنا شرک ہو گا۔ قرآن کریم میں ہے:
اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَo
’’انہوں نے اللہ کے سوا اپنے عالموں اور زاہدوں کو رب بنا لیا تھا اور مریم کے بیٹے مسیح (علیہ السلام) کو (بھی) حالانکہ انہیں بجز اس کے (کوئی) حکم نہیںدیا گیا تھا کہ وہ اکیلے ایک (ہی) معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ان سے پاک ہے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ ‘‘
التوبۃ، 9: 31
یہود و نصاریٰ نے اپنے راہبوں، عابدوں اور عالم لوگوں کو اپنا معبود بنا لیا تھا اس بنا پر وہ مشرک ٹھہرائے گئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا:
قَاتَلَ اللہُ الْيَهُوْدَ اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِيَائِ هِمْ مَسَاجِدَ.
’’اللہ رب العزت یہود کو غارت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا ڈالا۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الصلوٰۃ، باب الصلاۃ فی البیعۃ، 1: 168،
رقم:426
مسلم، الصحیح، کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ، باب النہی عن اتخاذ القبور مساجد، 1: 377،
رقم:530
ابو داؤد، السنن، کتاب الجنائز، باب فی البناء علی القبر، 3:216، رقم:3227
اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح بتوں کو سجدہ کرنا منع ہے اسی طرح ماسوی اللہ کو خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو سجدہ کرنا ممنوع اور کفر و شرک ہے۔ توحید اور شرک کے ما بین فرق کا فقط ایک درجہ ہے۔ ایک ذات الٰہ ہے اور باقی سب ما سوی اللہ اس کے علاوہ کوئی درجہ بندی نہیں۔ ان دونوں میں کوئی اشتراک نہیں۔ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے۔ وہ اکیلا معبود برحق ہے۔ اگر کوئی اس کی ذات میں کسی اور کو شریک مانے تو یہ توحید فی الذات کی نفی ہے۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا مشرک قرار پائے گا۔
بعض لوگ جہالت اور کم علمی کی وجہ سے میلاد جیسی مستحسن، بابرکت اور مستحب تقریبات کے انعقاد کو بھی شرک قرار دیتے ہیں۔ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمجیسا محبوب عمل بھی ان کے نزدیک شرک ہے۔ یہ عقیدہ ہرگز درست نہیں کیونکہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا انعقاد شرک کی کسی بھی قسم کے تحت نہیں آتا بلکہ وہ عین توحید کا اثبات ہے۔ شرک تو تب ہوگا کہ جو امر صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہو اور اس کو کسی اور کیلئے ثابت کیا جائے۔ اگر کوئی شخص میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلممنانے کو شرک کہتا ہے تو گویا اس کے نزدیک میلاد منانا (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کا حق تھا جس کو غیر کے لئے ثابت کیا گیا جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تو میلاد جیسی چیزوں سے پاک ہے۔ حقیقتاً میلاد تو ہوتا ہی مخلوق کا ہے لہٰذا میلاد منانا عینِ ایمان ہے۔ اس میں شرک کا شائبہ بھی نہیں۔ راسخ العمل ار صحیح العقیدہ مسلمان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا میلاد منا کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے محبوب و مکرم بندے ہیں، خالق نہیں۔ اس اعتبار سے میلاد منانا قاطعِ شرک ہے نہ کہ موجبِ شرک۔
گذشتہ صفحات میں ہم نے توحید و شرک کے باب میں یہ بیان کیا کہ اللہ تبارک و تعالی کے خاص افعال، اسماء اور صفات کسی اور کیلئے ثابت کئے جائیں تو شرک صادر ہو گا ورنہ نہیں۔ اس پر کوئی یہ اعتراض وارد کر سکتا ہے کہ یہ ’’خاص‘‘کا اضافہ ہم نے اپنی طرف سے کیا ہے۔ قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے افعال و اسماء اور صفات میں عام و خاص کی قید نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے اگر قرآن حکیم کا بغور مطالعہ کیا جائے تو عام اور خاص کا فرق ثابت ہو جاتا ہے اور اس حوالے سے ہم نے اپنی طرف سے کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا، جیسے مندرجہ ذیل قرآنی ارشادات سے ظاہر ہے:
1۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو شہید کہا:
إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًاo
الاحزاب، 33: 55
’’اور اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی شہید کہا، فرمایا:
وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا
البقرۃ، 2: 143
2 ۔ اپنے لئے فرمایا:
إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌo
البقرۃ، 2: 143
اپنے رسول کے لئے بھی فرمایا:
بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌo
التوبۃ، 9: 128
3۔ اپنے لئے فرمایا:
إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُo
بنی اسرائیل، 17: 1
عام مخلوق کے لئے فرمایا:
فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًاo
الدھر، 76: 2
معلوم ہوا کہ ایسی درجنوں صفات اور صفاتی اسماء ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا مخلوق کے لئے بھی ثابت ہیں اس فرق کے ساتھ کہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں اور مخلوق کے لئے عام۔
اگر معترضین اللہ تعالیٰ کے سمیع و بصیر ہونے اور مخلوق کے سمیع و بصیر ہونے کے بارے میں یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کا سمیع و بصیر ہونا اور معنی میں ہے اور مخلوق کے سمیع و بصیر ہونے کے اور معنی ہیں۔ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ ’’اور معنی‘‘ کا مفہوم قرآن کی کس آیت سے اخذ کر لیا گیا ہے۔ جبکہ وہ خاص و عام معنی کے فرق پر مبنی ہمارے موقف کو نہیںمانتے۔ اگر کوئی غیرمسلم اعتراض وارد کرے تو اور بات ہے لیکن ان کے لئے ہمارا جواب یہ ہے کہ جس کو وہ ’’اور معنی‘‘ سے منسوب کر رہے ہیں اسے ہم ’’خاص معنی‘‘کہہ رہے ہیں۔
ہمارے مبنی بر حق عقیدہ کی رو سے اگر خاص اور عام کا فرق پیش نظر رہے تو پھر توحید اور شرک کا صحیح تصور نکھر کر واضح ہو جاتا ہے اور سارا فساد خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ بات بات پر شرک کے فتوے یونہی صادر کرتے رہتے ہیں، وہ یہ امتیاز نہیں کرتے کہ کیا مخلوق کے لئے ثابت کرنا جائز ہے اور کیا ثابت کرنا جائز نہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے اور کیا اللہ تعالیٰ کے لئے خاص نہیں؟ اس خلط مبحث سے توحید اور شرک گڈمڈ ہو جاتا ہے اور تکرار جھگڑا فساد شروع ہو جاتا ہے۔ پس مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات متحقق ہو گئی کہ توحید اور شرک کے باب میں دونوں کے فرق کو سمجھا جائے اور تصورات کی تفہیم کو درست کیا جائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved