عقیدہِ توحید اور حقیقتِ شرک پر روشنی ڈالنے سے قبل ہم اِن دونوں کی اقسام پر بحث کرتے ہیں جن کو محققین نے تفصیلاً بیان کیا ہے۔ وہ خطبائ، مقررین اور طلباء جو اپنے علم و فن کے میدان میں طاق اور ماہر نہیں ہوتے مگر بزعمِ خویش خود کو علماء کی صف میں شمار کرتے ہیں اپنے عقائد کے باب میں فکری و اعتقادی واضحیت Clarity نہیں رکھتے۔ لہٰذا وہ بہت سے اُمور خلط ملط اور گڈ مڈ کر دیتے ہیں اور ایسی ایسی چیزوں کو زیرِ بحث لاتے ہیں جن کا تعلق نہ عقیدہِ توحید سے ہوتا ہے اور نہ شرک سے۔ ایسے لوگ خود بھی فکری اُلجھنوں میں مبتلا رہتے ہیں اور دوسروں کی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی نہیں کر سکتے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ عقائد کے باب میں صحیح تصورات کو سمجھا جائے۔ اُمتِ مسلمہ کے جو افراد بلاوجہ مسلمانوں کی واضح اکثریت سوادِ اعظم پر فتویٰ لگا کر ان کو مشرک و بدعتی گردانتے ہیں اور انہیں دائرہِ اِسلام سے بیک جنبشِ لب خارج کر دیتے ہیں اِن کے نقطہِ نظر میں توازن و اعتدال پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملتِ اِسلامیہ کے اندر افتراق، انتشار اور خلفشار کی جو فضا پائی جاتی ہے اسے ختم کیا جا سکے۔ آئندہ ابواب (باب 3 تا باب 5) میں توحید اور شرک کی اقسام کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس سے یہ امر بخوبی نکھر کر سامنے آجائے گا کہ کسی چیز پر شرک کا اطلاق تب ہو گا جب اس کے ذریعے توحید کی اُس قسم کی نفی ہوگی جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہو۔
ائمہِ عقائد و کلام نے توحید کی مندرجہ ذیل پانچ اقسام بیان کی ہیں:
ذیل میں ان پانچوں کی مختصراً وضاحت پیش کی جا رہی ہے جبکہ ان کی تفصیل اپنے اپنے مقام پر آئے گی۔
توحید فی الرُّبوبیت کو توحیدِ اثبات کہتے ہیں۔ درحقیقت توحید فی الربوبیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے واجبُ الوجود ہونے پر اور اُس کی وحدتِ مطلقہ پر ایمان لایا جائے اور اِس امر کا اقرار کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک رب اور پروردگار ہونے میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ توحید کی یہ قسم اللہ تعالیٰ کو خالق، مالک، رازق، پروردگار اور مدبر الامور جاننے اور ماننے سے عبارت ہے۔
توحید فی الالوہیت کو توحیدِ عبادت بھی کہتے ہیں۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، صرف اسی کی ذات اِس قابل اور لائق ہے کہ اِس کی عبادت کی جائے۔ اس کے علاوہ کوئی اور یہ حق نہیں رکھتا کہ اُس کی پرستش کی جائے۔
جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے واحد اور یکتا ہے اسی طرح اسماء و صفات اور افعال کے اعتبار سے بھی واحد اور یکتا ہے۔ پھر جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس بے مثل ہے اسی طرح اس کے خاص اسماء و صفات اور افعال میں بھی کوئی اس کا شریک و مثیل نہیں۔
توحید فی التحریم سے مراد یہ ہے کہ نذر یعنی منت اور تحریمات صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے خاص ہیں۔
اِس سے مراد یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ احکامِ شریعت کو مانا جائے جنہیں اُس نے بذریعہ وحی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ سے اُمت کو عطا کئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ احکام بھی اللہ رب العزت ہی کے عطا کردہ تصور ہوں گے۔ کسی اور کے اقوال کو قرآن و سنت جیسی حجت نہیں مانا جائے گا۔
اِن پانچوں اقسام کے تفصیلی فہم کے لئے انکی مزید تقسیم بھی کی گئی ہے۔ جس کا اجمالی خاکہ درج ذیل ہے۔
اس کی مندرجہ ذیل دو اقسام ہیں:
اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے، کوئی اس کا شریک اور ہمسر نہیں۔ اس کی بیوی نہیں، اِس کے والدین اور اولاد نہیں جیسا کہ سورہ اخلاص میں بیان کیا گیا ہے۔
اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا خالق اور مالک بالذات ہے اور اُس کی خالقیتِ مطلقہ میں کوئی شریک نہیں۔
اِس کی مندرجہ ذیل چار اقسام ہیں:
اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کا حقدار اور کوئی نہیں۔ صرف وہی ذات ہے جو عبادت کی مستحق ہے۔
اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق، شہنشاہِ کل اور متصرف علی الاطلاق اور قادر بالذات ہے۔
اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا و تنہا حقدار ہے کہ جملہ دعائیں، التجائیں اور مناجات اُس سے کی جائیں۔ شدائد و مصائب میں صرف اور صرف اُسی پر توکل کیا جائے ۔ حقیقی مستجابُ الدّعوات اُسی کی بارگاہ ہے۔
اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب و الشہادۃ ہے۔ اس کا علم بالذات، بالقدرت، کلی اور ’’وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْئٍ مِّنْ عِلْمِهِ‘‘ کی شان کا حامل ہے۔
اس کی مندرجہ ذیل تین اقسام ہیں:
اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خاص اسماء میں کوئی شریک نہیں۔ وہ اپنے ناموں میں بھی واحد و یکتا ہے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاص صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں۔
اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خاص افعال میں کوئی اُس کا شریک نہیں۔ وہ تدبر فی الامور میں واحد، یکتا و یگانہ ہے۔
توحید فی التحریم کی تین اقسام مندرجہ ذیل ہیں:
توحید فی التحریمات سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کئے گئے بعض مقامات، مہینے، قربانی کے جانور، نذر و نیاز، حلف اور احکام کی حلت و حرمت کو اللہ تعالیٰ کے لئے ہی مختص سمجھا جائے۔
اللہ تعالیٰ کے لئے پیش کردہ قربانیوں اور منتوں میں توحید کا معنی یہ ہے کہ منت صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے، کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ اسی طرح نذر، صدقہ اور خیرات بطور عبادت صرف اللہ کے لئے ہے کسی اور کے لئے نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے نام پر اُٹھائی جانے والی قسم اور حلف میں توحید یہ ہے کہ شرعی حلف صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ اسی پر احکامِ شرعی مرتب ہوں گے۔
توحید فی الاحکام کی دو قسمیں ہیں:
اللہ تعالیٰ کا وہ ازلی فرمان جو کائنات کو وجود میں لانے کے لئے جاری ہوا۔
اس سے مراد شارع کا وہ خطاب ہے جس سے کوئی شرعی مسئلہ معلوم ہو جائے۔
ائمہِ عقائد اور اُصولیین نے جس طرح توحید کی اقسام بیان کی ہیں اِسی طرح اِس کے مدِ مقابل شرک کی اقسام بھی بیان کی ہیں۔ توحید کی طرح شرک کی بھی پانچ اقسام مندرجہ ذیل ہیں:
اللہ تعالیٰ کے واجب الوجود ہونے اور اس کی وحدتِ مطلقہ پر ایمان نہ لانا توحیدِ ربوبیت میں شرک ہے۔
اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی غیر کو اُس کی عبادت میں شریک مانا جائے۔
توحید فی الاسماء و الصفات کے برعکس کسی غیر کو اللہ تعالیٰ کے خاص اسماء و صفات میں شریک سمجھنا شرک فی الاسماء و الصفات ہے۔
اِس سے مراد یہ ہے کہ نذر یعنی منت اور دیگر تحریمات جو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے خاص ہیں انہیں یا اِن کے مماثل تحریمات کو غیر کے لئے ثابت کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ سے اُمتِ مسلمہ کو جو احکام و تعلیمات عطا فرمائی ہیں وہی قابلِ عمل اور باعثِ نجات ہیں۔ اِن کے علاوہ کسی اور کے احکامات اور تعلیمات کو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت یا اس کے مثل ماننا شرک فی الاحکام کہلاتا ہے۔
درج بالا شرک کی پانچوں اقسام کی مزید تقسیم درج ذیل ہے۔
توحید فی الربوبیت کی طرح شرک فی الربوبیت کی دو قسمیں ہیں:
اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ دوسروں کو اُس کا شریک ٹھہرانا، کسی کو اُس کا ثانی و ہمسرماننا اور اُس کے لئے بیوی، والدین اور اولاد کا عقیدہ رکھنا شرک فی الذات ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو کائنات کا خالق اور مالک بالذات ماننا شرک ہے۔
توحید فی الاُلوہیت کی طرح شرک فی الالوہیت کی چار اقسام ہیں:
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو معبود ماننا شرک فی العبادۃ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو قادرِ مطلق اور حقیقی متصرف بالذات ماننا شرک فی القدرت ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے دعائیں مانگنا اور اس پر دعائوں کے قبول یا عدمِ قبول کا یقین رکھنا اور اس پر بالذات توکل کرنا شرک فی الدعا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سواء کسی اور کو عالم بالذات، بالقدرت اور حقیقی معنی میں محیط بالکل سمجھنا شرک فی العلم ہے۔
توحید فی الاسماء و الصفات کی طرح شرک فی الاسماء و الصفات کی تین قسمیں ہیں:
اللہ تعالیٰ کے خاص اسماء میں کسی اور کو شریک سمجھنا شرک فی الاسماء ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ دوسروں کو اُس کی خاص صفات میں شریک ٹھہرانا شرک فی الصفات ہے۔
اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو اُس کے خاص افعال میں شریک ٹھہرانا شرک فی الافعال ہے۔
شرک فی التحریم کی توحید فی التحریم کی طرح تین اقسام ہیں:
جو تحریمات خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں انہیں یا اُن کے مماثل تحریمات غیر اللہ کے لئے ثابت کرنا شرک فی التحریمات کہلاتا ہے۔
کفار و مشرکین کی طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے منتیں ماننا، کھیتی باڑی، کاروبار اور چوپایوں کے حصے بطورِ نذر و عبادت ماننا شرک فی النذور کہلاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے نام کا شرعی حلف اُٹھانا اور اسکے توڑنے پر شرعاً کفارہ کو واجب سمجھنا جیسے کفار و مشرکین لات و عزی اور ھبل و منات کے لئے قسم اُٹھاتے تھے۔ یہ شرک فی الحلف کہلاتا ہے۔
توحید فی الاحکام کی طرح شرک فی الاحکام کی بھی دو قسمیں ہیں:
اللہ تعالیٰ کا وہ ازلی فرمان جو اس نے کائنات کو وجود میں لانے کے لئے جاری فرمایا اس میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی شریک سمجھنا شرک فی الحکم الکونی ہے۔
شارع یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کی طرح کسی اور کے اقوال کو قرآن و سنت جیسی حجت تسلیم کرنا شرک فی الحکم الشرعی ہے۔
توحید اور شرک کی مذکورہ بالا تقسیم کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ شرک کے ثبوت کے لئے توحید کی بالصراحت نفی لازم ہے کیونکہ شرک ایک واضح اور معین شرعی اصطلاح ہے جسے عمومی رنگ میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ شرک کا حتمی اور قطعی فیصلہ کرنے کے لئے یہ تعیّن کرنا ضروری ہے کہ جس اَمر کو شرک کا نام دیا جا رہا ہے اُس کا اُلٹ عینِ توحید ہے۔ شرک کوئی ایسی ٹوپی نہیں جسے اپنی صوابدید کے مطابق جس کے سر پر چاہیں رکھ دیں۔ توحید اور شرک دو متقابل اور دو متضاد چیزیں ہیں یعنی ایک کی نفی کرنے سے دوسرے کا اِثبات ہوگا۔ شرک ثابت کرنے کے لئے توحید کی نفی کرنا ہوگی اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ تعیّن کرنا بھی لازمی ہوگا کہ شرک کا توحید کے مقابلے میں کون سا درجہ ہے۔ آیا یہ شرک، شرک فی الربوبیت ہے یا شرک فی الالوہیت یا شرک فی التحریم۔
اگر شرک فی الربوبیت ہے تو اِس کا تعین کر کے یہ واضح کیا جائے گا کہ یہ مندرجہ ذیل اقسام میں سے شرک کی کون سی قسم ہے: شرک فی الذات ہے یا شرک فی الصفات، شرک فی الافعال ہے یا شرک فی الاسمائ۔ جو شخص کسی پر شرک کا فتویٰ صادر کرے لیکن وہ مدعی، شرک کی قسم کا بالصراحت تعین نہ کرسکے کہ جس سے توحید کی کسی قسم کی نفی اور تضاد کو ثابت کیا جا سکے تو ایسے شخص کا الزامِ شرک باطل تصور کیا جائے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اقسامِ توحید کے باب میں عبادت کا کسی بھی معنی میں اللہ تعالیٰ کے غیر کے لئے ثبوت بلا استثناء مجازی اور حقیقی، ہر دو معنی کے اعتبار سے شرک ہے۔ البتہ مشترک صفت کا غیر اللہ کے لئے اِستعمال مجازاً جائز ہے۔ حقیقی معنی میں اُس صفت کا اِثبات صرف اللہ تعالیٰ کے لئے جائز ہے مخلوق کے لئے جائز نہیں۔ عطائی معنی میں کسی مشترک صفت کا مخلوق کے لئے ثبوت تب شرک بنتا ہے جب وہ حق، مخلوق کے لئے اُسی طرح ثابت کیا جائے جس طرح اللہ تعالیٰ کے لئے۔ یہ نکتہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ شرک کی تخصیص، شرک کی وضاحت، تعریف اور اقسام کی صحیح معرفت کی متقاضی ہے۔ جب بھی شرک کی بحث ہوگی تو توحید فی الربوبیت، توحید فی الالوہیت اور توحید فی التحریم کی نفی اور اِن کا تضاد ثابت کرنا ہوگا۔ اِن تین صورتوں کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں کہ جس سے شرک ثابت ہو سکے۔
عقیدہِ توحید اور حقیقتِ شرک کو جاننے کے لئے ایمان کے باب میں الہٰیات کی مبادیات اور تکنیکی اُمور کو شرح صدر سے سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ عقیدہِ توحید اور حقیقتِ شرک کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ کسی چیز کا مثبت پہلو توحید اور اُس کا منفی پہلو شرک ہے مثلاً اگر ہم دن کو مثبت پہلو کہیں تو اُس کا منفی پہلو رات ہو گا۔ اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دن، ظہر اور عصر باہم متضاد چیزیں ہیںکیونکہ اِن میں تضاد کی کوئی کیفیت پائی ہی نہیں جاتی۔ اِسی طرح ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ رات، عشاء اور نصف شب متضاد صورتیں ہیں اِس لئے کہ اِن میں بھی تضاد نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔
اس تناظر میں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ کن چیزوں میں تضاد کار فرما ہے اور کن چیزوں میں نہیں جیسے:
ان مثالوں سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ دو چیزوں کی حقیقت اور ماہیت جاننے کے لیے ان کے درمیان درجہ بندی اور حد بندی کی خصوصیت کا تعیّن ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص اس سے آگاہ نہیں تو پھر کسی چیز کی حد بندی اور اس کے متضاد کو جاننا ممکن نہیں۔
اعتقادی و علمی مباحث کے ادراک کے لئے ضروری ہے کہ نفس مسئلہ کو الگ الگ کر کے اس کا تجزیہ کیا جائے۔ لہٰذا اس خاص منہجِ تحقیق کے لئے مندرجہ ذیل اصطلاحات کو ازبر کر لینا ضروری ہے:
اس اصطلاح میں مخصوص، مقرر اور معیّن ہونے کا مفہوم پایا جاتا ہے، جیسے مطلق ہستی کے مقابلے میں کسی غیر مطلق ہستی اور وجود کا ہونا۔ ہم ایک مخصوص چیز کو زیرِ بحث لاتے ہوئے کسی موضوع، شئے یا تصور کو اپنا ہدف بنا کر اس کی تخصیص کا کوئی پیمانہ وضع کرتے ہیں۔ تعیّن کی اصطلاح ہم اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کسی موضوع یا مضمون کے صحیح تشخص کا پتہ چلانا مقصود ہو۔
یہ اصطلاح اس وقت بروئے کار لائی جاتی ہے جب کسی چیز ، خیال یا مضمون کے ان عناصرِ ترکیبی کو دریافت کرنا ضروری ہوتا ہے جو اس میں اصلاً موجود ہوں اور اس کا اطلاق اس کے تمام گوشوں اور پہلوؤں پر کیا جائے تاکہ اس کے تمام مشمولات کا احاطہ ہو سکے۔ اگر کوئی پہلو اس کے دائرے (scope) سے باہر نہ ہو تو یہ تضمنات گویا اس کے اجزاء ہیں جو اس کی جامعیت کے وصف کو تسلسل عطا کرتے ہیں۔
اس اصطلاح کے ذریعے اس امر کو دریافت کرنا مقصود ہوتا ہے کہ کسی موضوع کی صحت کے حدود کیا ہیں؟ اس کا آغاز کس مقام سے ہوتا ہے؟ اور کہاں جا کر ختم ہوتا ہے؟ اس سے آگے کن مماثل اور نئے موضوعات کی سرحدیں شروع ہوتی ہیں۔ یہ حدود دراصل کسی موضوع کے معنوی اطلاقات کی صحت اور عدمِ صحت کو متعین کرنے کے ساتھ اسے ایک دائرے میں محدود کر کے کسی کمی بیشی سے محفوظ رکھتی ہیں۔
اس اصطلاح سے ہم دو مماثل چیزوں اور تصورات کے درمیان ایک حد فاصل قائم کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے نہ صرف مثبت طریقے سے اصل موضوع کی نشان دہی ہو بلکہ دیگر مماثل موضوعات سے اسے ممتاز بھی کیا جا سکے۔ یعنی کوئی ایسی تخصیص ہونی چاہیے جو اس کے وجود کی نشان دہی کرے اور اس کے مفہوم کو دوسروں سے نمایاں کر کے اسے الگ طور پر دیکھنے کی استعداد پیدا کردے۔ یہ خصوصیت نہ صرف کسی چیز کو قطعیت کا درجہ عطا کرتی ہے بلکہ اس کے اور دوسری چیزوں کے درمیان کوئی التباس اور ابہام باقی نہیں رہنے دیتی: مثلاً مختلف انسانوں اور جانوروں میں ملتی جلتی خصوصیات پائی جاتی ہیں اور کچھ چیزوں میں غیر مماثل خصوصیات ہوتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ان کے درمیان خط امتیاز قائم کیا جائے اور ان کے فرق کو جاننے کا کوئی پیمانہ ہو جس سے ان میں تمیز کی جاسکے۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ دو ملتی جلتی یعنی مماثل چیزوں میںبھی کوئی نہ کوئی فرق ضرور نکل آتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مماثلت رکھنے والی دو چیزوں میں فرق معلوم کرنے کے لئے ان میں عدمِ مماثلت رکھنے والی باتوں کا پتا چلایا جائے۔ اس کی مثال دو جڑواں بہنوں سے دی جا سکتی ہے کہ گہری مشابہت و مماثلت کی بنا پر دیکھنے والا ان میں امتیاز نہیں کر پاتا لیکن ان کی ماں سے پوچھا جائے تو وہ آپ کو سینکڑوں مختلف چیزیں بتائے گی اور کہے گی کہ یہ دونوں ایک جیسی ہرگز نہیں۔ پس اگر صرف مماثلت کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس سے ذہنی انتشار جنم لے گا۔ اس لئے ان چیزوں پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے جو عدمِ مماثلت رکھتی ہیں۔ اس طرح فکری و ذہنی خلجان سے بچا جا سکتا ہے۔ جڑواں بہنوں کی مثال کو مدِنظر رکھیں تو ماں ان کے درمیان فرق بتاتے ہوئے کہتی ہے کہ ان میں وجہِ امتیاز ان کی آنکھیں ہیں۔ ایک کی آنکھیں بڑی اور دوسری کی چھوٹی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے دانتوں کی ساخت میں بھی فرق ہے۔ ان کی عادات بھی ایک جیسی نہیں۔ ایک زیادہ چالاک ہے اور دوسری سادہ مزاج وغیرہ۔ پس اگر آپ دو علیحدہ وجود رکھنے والی حقیقتوں اور اکائیوں میں موجود عدم مماثلت رکھنے والے پہلوئوں سے آگاہ ہیں تو آپ کو ان کے درمیان پایا جانے والا فرق معلوم ہو جائے گا۔ جب تک آپ چیزوں کے امتیازی تشخص کو نہیں جانیں گے آپ کسی چیز کی تخصیص حتمی طور پر نہیں کر سکتے۔ اس لئے کسی چیز کی صحت اور عدمِ صحت کی حدود اور اس کے درست اور نادرست ہونے کے فرق کو جاننے کیلئے چیزوں کی حدود اور ممانعت کو جاننا ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر آپ کسی چیز کی تخصیص نہیں کر سکتے۔
توحید اور شرک دونوں میں بُعد المشرقین ہے۔ توحید ایک سمت میں ہے تو شرک اس کی دوسری سمت میں ہے۔ اگر کوئی توحید کی مخالف سمت میں جائے گا تبھی وہ شرک کا مرتکب ہو گا۔ یہ بڑا اہم نکتہ ہے کہ کسی چیز کو شرک Declare کرنے سے پہلے یہ تعیّن کرنا لازمی ہے کہ توحید کے کس Article، ضابطے اور درجے کی نفی ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے بعض لوگ شریعت کا یہ بنیادی تقاضا سمجھے بغیر بے دریغ شرک کا فتویٰ صادر کرتے رہتے ہیں اور اپنی فتویٰ بازی سے لوگوں کو مشرک کہنے سے ذرہ بھر نہیں ہچکچاتے۔ وہ ایک طرح سے توحید پر اجارہ داری قائم کر لیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ شرک کوئی عمومی نہیں بلکہ خصوصی تصور(Specific Concept) ہے۔ شرک محض گناہ، بدعقیدگی اور غلط بات نہیںبلکہ کفر کا ارتکاب ہے، حتیٰ کہ بدعت کو بھی شرک کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر کوئی چیز حرام ہے تب بھی آپ اسے شرک نہیں کہہ سکتے۔ شرک ہونے کے لئے لازمی ہے کہ وہ صریحاً عقیدہِ توحید کی نفی ہو۔ شرک کا مرتکب محض حرام و ناجائز کا مرتکب نہیں ہوتا بلکہ یکسر ایمان سے خارج اور کافر ہو جاتا ہے۔ شرک کا معاملہ انتہائی گھمبیر اور پیچیدہ ہے۔ اسے کبھی عمومی اور معمولی انداز سے نہیں لینا چاہیے ورنہ خود عقیدہِ توحید مذاق اور کھیل بن جائے گا۔
توحید و شرک کی متقابل اقسام کا یہ اجمالی تعارف تھا۔ آئندہ صفحات میں ان متقابل اقسام کی تفصیلات الگ الگ ابواب میں آ رہی ہیں۔
عبادت میں توحید اور شرک کی حقیقت متعیّن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے عبادت کے حقیقی مفہوم کو سمجھا جائے۔ مفہومِ عبادت اور تصورِ عبادت سمجھنے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے۔ بہت سے دوسرے تصور ات کو عبادت کے ساتھ گڈ مڈ اور خلط ملط کر دیا گیاہے اور بعض ظاہری مماثلت رکھنے والی چیزوں کی بنیاد پر بہت سی ایسی چیزوں کو عبادت سمجھ لیا گیا ہے جو درحقیقت عبادت نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کسی چیز کا تصور ہی غلط مراد لے لیا جائے تو پھر اس سے حاصل کردہ اور اخذ کردہ نتائج بھی درست ثابت نہیں ہو سکتے۔ اِس لئے یہ ایک اصولی بات ہے کہ محض غلط تصور کی بنیاد پر شرک کا فتویٰ صادر کردینا درست نہیں۔ صحیح فہمِ دین کے لئے ضروری ہے کہ ہر ایک چیز کی شرح و تعبیر اور اس کے صحیح اطلاق کو سمجھا جائے۔ بصورتِ دیگر غلط تصور کی بنیاد پر اخذ کردہ نتائج بھی غلط اور اس کی بنیاد پر لگائے گئے فتویٰ کا حکم بھی غلط ہوگا اور پھر ایسا فہم دین بھی یقینا غلط ہوگا کیونکہ سرے سے بنیاد ہی غلط ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ تمام شرعی اور مذہبی معاملات پر بحث اور فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے صحیح تصور کو سمجھا جائے۔
عبادت ایک ایسا فعل ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف اور صرف اپنی غایتِ تعظیم کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ بندے کی طرف سے انتہا درجے کی تعظیم جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہو سکتی ہے وہ صرف عبادت کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ مخلوق میں سے کوئی بھی تعظیم کی اس حد کو نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی بلند ترین ہے جبکہ مخلوق عبادت گزاری کے اعتبار سے ادنیٰ ترین مقام پر ہے۔ عبادت بندے کی طرف سے اس عظیم ترین ذات کے لئے بغایت درجہ ادب و تعظیم، خاکساری اور عجزو تذلل کی آئینہ دار ہے۔ عبد اور معبود کی ان دونوں انتہائوں کے مابین رابطہ و تعلق پیدا کرنے والی چیز صرف عبادت ہے۔ یہ چیز اس امر کی متقاضی ہے کہ صرف اسی کی ہی عبادت کی جائے۔
کسی عقیدہ اور مکتبِ فکر کے مسلمہ مفسرین اور اجل ائمہ لغت و ادب کے درمیان عبادت کی تعریف کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں۔ لہٰذا عبادت کے صحیح تصور اور درست معنی و مفہوم سمجھنے کے لئے ان ائمہ و مفسرین کی تشریحات و تعبیرات ماننا ازبس ضروری ہے۔ اکثر مفسرینِ کرام نے سورہ فاتحہ کی آیت ’’ايّاکَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاکَ نَسْتَعِيْنُ ‘‘ کے ذیل میں عبادت کی تعریف بیان کرتے ہوئے ’غایت الخضوع والتذلل‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں، چند معروف مفسرین کی تعریفات درجہ ذیل ہیں۔
1۔ امام خازن رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
والعبادة غاية التذلل من العبد و نهاية التعظيم للرب سبحانه و تعالٰی لانه العظيم المستحق للعبادة ولا تستعمل العبادة إلا فی الخضوع ﷲ تعالٰی لانه مولی أعظم النعم.
’’اور عبادت بندے کی طرف سے عجزوانکساری کی بلند ترین کیفیت اور رب تعالیٰ کے لئے تعظیم کے بلند ترین درجے کا نام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ سب سے بلند ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے، اور عبادت کا لفظ فقط اللہ تعالیٰ سے عاجزی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ عظیم ترین نعمتوں کا مالک ہے۔‘‘
خازن، تفسیر الخازن، 1: 17
2۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
إن العبادة عبارة عن نهاية التعظيم.
’’عبادت، عاجزی اور انکساری کی بلند ترین کیفیت سے عبارت ہے۔‘‘
رازی، التفسیر الکبیر، 1: 242
3۔ امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
و العبادة الطاعة مع التذلل والخضوع.
’’عبادت، عاجزی اور انکساری کے ساتھ اطاعت بجا لانے کا نام ہے۔‘‘
بغوی، معالم التنزیل، 1: 41
4۔ امام زمخشری لکھتے ہیں:
والعبادة أقصی غاية الخضوع والتذلل.
’’عبادت، عاجزی اور انکساری کی بلند ترین کیفیت کا نام ہے۔‘‘
زمخشری، الکشاف، 1: 13
5۔ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:
وفي الشرع عبارة عما يجمع کمال المحبة والخضوع والخوف.
’’شریعت کی رو سے عبادت محبت و تعظیم اور خوف کی انتہائی حالتوں کا مجموعہ ہے۔‘‘
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1: 25
6۔ امام نسفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
وهي أقصی غاية الخضوع والتذلل.
’’عبادت، عاجزی اور انکساری کی بلند ترین کیفیت کا نام ہے۔‘‘
نسفی، مدارک التنزیل وحقائق التأویل، 1: 5
7۔ امام شوکانی کے نزدیک:
والعبادة أقصی غايات الخضوع والتذلل.
’’عبادت، عاجزی اور انکساری کی بلند ترین کیفیت کا نام ہے۔‘‘
شوکانی، فتح القدیر، 1: 22
8۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ جن کا شمار برصغیر کے اجل علماء میں ہوتا ہے بہت بڑے فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مفسرِ قرآن بھی تھے۔ ان کی تفسیر ’’المظہری‘‘ سند کا درجہ رکھتی ہے۔ عبادت کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے بھی وہی لفظ استعمال کئے ہیں جن میں عبادت کا صحیح تصور مذکور ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
والعبادة أقصی الخضوع والتذلل.
’’عبادت، عاجزی اور انکساری کی بلند ترین کیفیت کا نام ہے۔‘‘
ثناء اللہ پانی پتی، تفسیر المظہری، 1: 9
9۔ امام محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
والعبادة أعلی مراتب الخضوع.
’’عبادت، تعظیم کے عمل کی بلند ترین کیفیت کو کہتے ہیں۔‘‘
آلوسی، تفسیر روح المعانی، 1: 86
10۔ امام ابوسعود لکھتے ہیں:
والعبادة أقصی غاية التذلل والخضوع.
’’عبادت، عاجزی اور انکساری کی بلند ترین کیفیت کا نام ہے۔‘‘
أبو سعود العمادی، تفسیر أبی سعود، 1: 16
11۔ لغتِ قرآن کے امام، امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
العبودية: اظهارُ التَّذَلُّلِ، وَالْعِبَادَة أبلغ مِنْهَا، لانها غايةُ التذَلُّل.
’’عبودیت (بندگی) سے مراد عاجزی اور انکساری کا اظہار ہے لیکن عبادت کا درجہ اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ عبادت عاجزی کی انتہائی کیفیت کا نام ہے۔‘‘
راغب اصفہانی، المفردات: 542
امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ عبادت کی تعریف میں عبد کالفظ لائے ہیں جو دو معنوں میں استعمال کیا گیا ہے:
عبودیہ غلامی کو کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عبودیہ کی آخری ترقی یافتہ شکل عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبد کا لفظ بندگی اور عبادت کے معنی میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور شخص اپنے نوکر اور خدمت گار کے لئے استعمال نہیں کرسکتا۔ یعنی کوئی شخص اپنے غلام اور خدمت گزار کو یہ کہنے کا مجاز نہیں کہ وہ عبد ہے اور میری عبادت کرتا ہے۔ حالانکہ کوئی شخص اپنے غلام کو مجازی معنی میں عبد تو کہہ سکتا ہے کیونکہ وہ اس کا مالک تو ہے، لیکن جو خدمت وہ اس کے لئے سرانجام دیتا ہے عبادت نہیں ہوسکتی کیونکہ عبادت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مخصوص ہے۔
12۔ امام طبرسی لکھتے ہیں:
والعبادة ضرب من الشکر و غاية فيه لأنها الخضوع بأعلی مراتب الخضوع مع التعظيم بأعلی مراتب التعظيم …
’’عبادت شکر کی ایک قسم ہے اور اس کے انتہائی درجے کا نام ہے کیونکہ عبادت عاجزی و تعظیم کے بلند ترین مراتب میں سے ایک ہے.‘‘
طبرسی، مجمع البیان، 1: 26
مذکورہ بالا تعریفات میں اَقصیٰ مضاف اور غایۃ الخضوع والتذلل مضاف الیہ ہے پس ’’ أقصی غاية الخضوع والتذلل ‘‘ کا معنی عجزو تذلل اور انکسار و تعظیم کا انتہائی درجہ ہے۔ امام شوکانی نے غایات کا لفظ استعمال کیا ہے جو غایۃ کی جمع ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ’عبادت‘ عجزو انکساری کی بلند ترین کیفیت اور تعظیم کی آخری حد ہے۔ پس عبادت کے لئے ضروری ہے کہ اس عمل میں عاجزی و انکساری کی بلند ترین کیفیت کے ساتھ تعظیم کا انتہائی درجہ شامل ہو۔ اس کے علاوہ ایسے عمل کو جو اس سے کم تر درجے میں ہو اُسے عبادت تصور نہیں کیا جا سکتا۔
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ (جنہیں غیر مقلدین بھی امام مانتے ہیں) نے بھی دیگر مفسرین کی طرح تعظیم کی بلند ترین سطح کو عبادت قرار دیا ہے اور بعض لوگوں کے ان نظریات اور دعووں کو رد کر دیا ہے جن کے مطابق محض ادب و احترام پر مبنی کوئی بھی عمل شرک قرار پاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ جب ہم توحید فی العبادت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد عاجزی، تذلل، خاکساری اور عجزو انکسار کا انتہائی درجہ ہوتا ہے اور وہ تعظیم جو محض ادب و احترام پر مشتمل ہو عبادت نہیں۔ عبادت کا مدِمقابل شرک ہے، ادب و احترام اور تعظیم پر مبنی کسی عمل کا شرک سے کوئی مقابلہ اور تضاد نہیں بلکہ تعظیم کا متضاد عمل بے ادبی، گستاخی اور توہین ہے۔
قرآن مجید کی وہ آیات جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت کرنے، ان کو خدا بنانے اور ان کو دعوائے ربوبیت میں خدا کا شریک بنانے کے واضح اقرار کا اعلان کرتی ہیں ان میں فقط عبادت کا ذکر کیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کسی کو واسطہ بنانے یا کسی کا وہ ادب و احترام اور تعظیم جو درجہِ عبادت میںنہ ہو، اس حکم میں شامل نہیں۔ کفار و مشرکین بتوں کی باقاعدہ عبادت کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ بت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب کا ذریعہ ہیں۔ پس اس وجہ سے ان کا یہ عقیدہ شرک ٹھہرا۔
وہ کہتے تھے ’’مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللہِ زُلْفٰی‘‘ (الزمر، 39: 3) ’’ہم ان (بتوں) کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں۔‘‘ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عقیدہِ تقرب کی واضح تکذیب کی ہے کیونکہ اگر وہ مشرکین اپنے اس قول میں صادق ہوتے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے نزدیک ان بتوں سے زیادہ قابلِ تعظیم ہوتا اور وہ لوگ غیراللہ کی عبادت نہ کرتے۔ لیکن وہ یہ جانتے ہوئے کہ اسلام میں کسی کو تقرب الی اللہ کے لئے وسیلہ بنانا جائز ہے، اس تصور کو بت پرستی کے جواز کی دلیل کے طور پر پیش کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ توسل کی مشروعیت کے باعث مسلمان ہمارے بتوں کی عبادت کرنے کو نظرانداز کر دیں گے یا نرم گوشہ اختیار کر لیں گے۔ وہ مسلمانوں کو یہ کہہ کر قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ بتوں کی پوجا کرنے سے ہماری غرض و غایت یہ ہے کہ ان کے ذریعہ ہم اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جائیں۔ ان کے اس استدلال کو اللہ تعالیٰ نے رد کر دیا کیونکہ شرک کو کسی بھی عمل اور نیت کے ذریعے پاک اور حلال نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ پاک نے مومنین کو کفار کے بتوں کو گالیاں دینے سے روکا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :
وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ
’’اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔‘‘
الانعام، 6: 108
اس آیتِ کریمہ کی شانِ نزول بیان کرتے ہوئے امام عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر طبری، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حضرت قتادہ ص سے روایت کیا ہے کہ مسلمان کفار کے بتوں کو برا کہتے تھے ردِ عمل میں کفار بھی اللہ تعالیٰ کو برا کہنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے آیتِ مذکورہ نازل فرمائی اور مسلمانوں کو تاکیدی الفاظ میں ان جھوٹے معبودوں کے متعلق تنقیص کا کلمہ کہنے سے روک دیا۔ کیونکہ یہ بت پرست جن بتوں کے بارے میں صمیمِ قلب سے الٰہ ہونے اور نفع و ضرر کے مالک ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے ان کے متعلق مسلمانوں کا کلمہِ تنقیص ان بت پرستوں کے غصہ کا سبب بنتا تھا۔ وہ مغلوب الغضب ہو کر جواب میں مسلمانوں کے حقیقی الٰہ اور سچے رب کو برا کہنے لگتے تھے۔ بتوں کی تنقیص برداشت نہ کرنا اور اللہ رب العالمین کو برا بھلا کہنا انہوں نے اپنا شیوہ بنا لیا تھا ان کا یہ عمل دراصل ان کے اندر کا جھوٹ اور فریب تھا جس کے اظہار میں وہ طبعًا مجبور تھے۔ حالانکہ وہ دعویٰ یہ کرتے تھے کہ ہم بتوں کی عبادت معبودِ حقیقی کی قربت حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دجل کا پردہ چاک کیا۔ اگر وہ لوگ اپنے اس دعویٰ میں صادق ہوتے تو بتوں کو برا کہنے والوں سے انتقام و بدلہ لینے کی وجہ سے اللہ ل کو برا کہنے کی جراِت نہ کرتے چونکہ ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا مرتبہ و مقام بتوں سے کم تھا اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے رُوگردانی کرتے تھے اور ان بتوں کا احترام اللہ تعالیٰ کے احترام سے زیادہ کرتے تھے۔ متعدد آیاتِ قرآنی اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ ان مشرکین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا مرتبہ ان بتوں سے کم تھا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَجَعَلُواْ لِلّهِ مِمِّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُواْ هَـذَا لِلّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـذَا لِشُرَكَآئِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَآئِهِمْ فَلاَ يَصِلُ إِلَى اللّهِ وَمَا كَانَ لِلّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَآئِهِمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَo
’’انہوں نے اللہ کے لئے انہی (چیزوں) میں سے ایک حصہ مقرر کر لیا ہے جنہیں اس نے کھیتی اور مویشیوں میں پیدا فرمایا ہے پھر اپنے گمانِ (باطل) سے کہتے ہیں کہ یہ (حصہ) اللہ کے لئے ہے اور یہ ہمارے (خود ساختہ) شریکوں کے لئے ہے پھر جو (حصہ) ان کے شریکوں کے لئے ہے سو وہ تو اللہ تک نہیں پہنچتا اور جو (حصہ) اللہ کے لئے ہے تو وہ ان کے شریکوں تک پہنچ جاتا ہے، (وہ) کیا ہی برا فیصلہ کر رہے ہیں۔‘‘
الانعام، 6: 136
اگر ان کفار و مشرکین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا مرتبہ ان معبودانِ باطلہ سے کم نہ ہوتا تو وہ ان کو اس طرح اللہ تعالیٰ پر ترجیح نہ دیتے جس کو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے، اسی بناء پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ’’سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ‘‘ (وہ کیا ہی برا فیصلہ کر رہے ہیں)۔
3۔ اسی طرح دوسرے مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَo
’’اور جب تنہا اللہ ہی کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُن لوگوں کے دل گھٹن اور کراہت کا شکار ہو جاتے ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے، اور جب اللہ کے سوا اُن بتوں کا ذکر کیا جاتا ہے(جنہیں وہ پوجتے ہیں) تو وہ اچانک خوش ہو جاتے ہیں۔‘‘
الزمر، 39: 45
تاریخی تناظر میں اس کی مثال قبولِ اسلام سے پہلے غزوئہ احد کے موقع پر حضرت ابوسفیان ص کا وہ قول ’’أَعْلُ هُبَل‘‘ ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے۔ جب لشکرِ کفار و مشرکین نے مؤمنین کو عارضی خسارے میں مبتلا کیا تو ابوسفیان نے اپنے بت ہُبل کی علویت کا نعرہ بلند کیا: ’’أَعْلُ هُبَل‘‘ ۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر کہا: اَللہُ أعْلَی وَ أجَلُّ (اللہ ہی سب سے بلند و برتر ہے)۔ یہ سن کر پھر ابوسفیان نے کہا: لَنَا الْعُزَّی وَلَا عُزَّی لَکُمْ (ہمارے لئے عزیٰ بت ہے اور تمہارے لئے کوئی عزیٰ نہیں)۔ اس کے جواب میں پھر مسلمانوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر کہا: اَللہُ مَوْلَانَا وَ لَا مَوْلَی لَکُمْ (اللہ تعالیٰ ہمارا مددگار ہے تمہارا کوئی مددگار نہیں)۔
بخاری، الصحیح، کتاب المغازی، باب غزوۃ أحد، 4: 1486، رقم: 3817
اس بحث کا خلاصہ کلام یہ ہوا کہ مشرکین اگرچہ بتوں کی عبادت کو اللہ تعالیٰ تک رسائی کا ذریعہ بناتے تھے مگر ان کا یہ بیان محض دھوکا فریب اور دجل تھا جسے قرآن نے کئی مقامات پر رد کر دیا اور ان کی بت پرستی کو شرک جیسے گناہ عظیم کے زمرے میں ہی رکھا۔
عبادت بلا شرکتِ غیرے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اگر عبادت کا عمل اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے انجام دیا جائے تو وہ شرک فی العبادت ہو گا اور اس کے مرتکب کو مشرک اور کافر قرار دیا جائے گا۔ تاہم اگر عملِ صالح کی کوئی ایسی صورت ہو جو نہ توعبادت ہو اور نہ وہ اقسامِ توحید کے کسی اور درجہ پر ہو تو اس کے کرنے والے کو مشرک اور کافر نہیں گردانا جائے گا۔ یہ بہت نازک سا فرق ہے جسے ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ذیل میں مختلف پہلوؤں کی روشنی میں اس کی وضاحت کی جا رہی ہے۔
عبادت کے لائق اور مستحق فقط اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس میں حقیقت و مجاز کی تقسیم نہیں ہو سکتی۔
(1) حقیقت اور مجاز کے قرآنی تصور پر مشتمل باب آگے آ رہا ہے۔
لہٰذا عبادت کا کسی کے لئے مجازًا اثبات بھی شرک ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات قرآنی سے واضح ہوتا ہے۔
1۔ سورہِ ہود میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌoأَن لاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ اللّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ أَلِيمٍo
’’اور بے شک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا (انہوں نے ان سے کہا) میں تمہارے لئے کھلا ڈر سنانے والا (بن کر آیا) ہوں۔ کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ میں تم پر بڑے دن کے عذاب (کی آمد) کا خوف رکھتا ہوں۔‘‘
ھود، 11: 25۔26
2۔ اسی طرح سورۃ الانعام میں فرمایا:
قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ
’’فرما دیجئے کہ مجھے اس بات سے روک دیا گیا ہے کہ میں ان سے (جھوٹے معبودوں) کی عبادت کروں جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو۔‘‘
الانعام، 6: 56
اللہ رب العزت نے مظاہر فطرت کو اپنی قدرت کی نشانیاں قرار دیا اور ان کی عبادت سے منع فرمایا۔
1۔ سورۃ النمل میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا:
وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَo
’’میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کے بجائے سورج کو سجدہ کرتے پایاہے اور شیطان نے ان کے اعمال (بد) ان کے لئے خوب خوش نما بنا دیئے ہیں اور انہیں (توحید کی) راہ سے روک دیا ہے سو وہ ہدایت نہیں پا رہےo‘‘
النمل، 27: 24
2۔ سورۃ حم السجدۃ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوا:
وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَo
’’اور رات اور دن اور سورج اور چاند اُس کی نشانیوں میں سے ہیں، نہ سورج کو سجدہ کیا کرو اور نہ ہی چاند کو، اور سجدہ صرف اللہ کے لئے کیا کرو جس نے ان (سب) کو پیدا فرمایا ہے اگر تم اسی کی بندگی کرتے ہوo‘‘
حم السجدۃ، 41: 37
1۔ ایک مقام پر توحیدِ اُلوہیت اور توحیدِ ربوبیت کے دلائل دینے کے بعد قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا:
فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَّأَنتُمْ تَعْلَمُونَo
’’پس تم اللہ کے لئے شریک نہ ٹھہراؤ حالانکہ تم (حقیقت حال) جانتے ہو۔‘‘
البقرۃ، 2: 22
2۔ سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا
’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘
النساء، 4: 36
3۔ اسی سورہِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا اور تثلیث سے منع فرمایا گیا ہے:
وَلاَ تَقُولُواْ ثَلاَثَةٌ انتَهُواْ خَيْرًا لَّكُمْ إِنَّمَا اللّهُ إِلَـهٌ وَاحِدٌ
’’اور مت کہو کہ (معبود) تین ہیں، (اس عقیدہ سے) باز آ جاؤ (یہ) تمہارے لئے بہتر ہے۔ بے شک اللہ ہی یکتا معبود ہے۔‘‘
النساء، 4: 171
4۔ حضرت ہُود علیہ السلام نے اپنی قوم کو توحید فی الالوہیت پر ایمان لانے اور شرک سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ أَفَلاَ تَتَّقُونَo
’’اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کیا کرو۔ اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، کیا تم پرہیزگار نہیں بنتے؟۔‘‘
الاعراف، 7: 65
5۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ
’’حکم کا اختیار صرف اللہ کو ہے، اسی نے حکم فرمایا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔‘‘
یوسف، 12: 40
6۔ اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلاَ تَجْعَلْ مَعَ اللّهِ إِلَهًا آخَرَ
’’اور (اے انسان!) اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ ٹھہرا۔‘‘
بنی اسرائیل، 17: 39
7۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے صرف اور صرف اپنی عبادت کا حکم دیا ہے اور عبادت میں ہر قسم کی شرکت کو رد کیا ہے۔ اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے سورۃ الکہف میں ارشاد فرمایا:
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًاo
’’فرما دیجئے: میں تو صرف (بخلقتِ ظاہری) بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں (اس کے سوا اور تمہاری مجھ سے کیا مناسبت ہے ذرا غور کرو) میری طرف وحی کی جاتی ہے (بھلا تم میں یہ نوری استعداد کہاں ہے کہ تم پر کلامِ الٰہی اترسکے) وہ یہ کہ تمہارا معبود، معبودِ یکتا ہی ہے پس جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تواسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرےo‘‘
الکہف، 18: 110
اس آیتِ کریمہ میں شرک سے باز رہنے کا قطعی حکم دیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا آیاتِ قرآنی میں حکم دیا گیا کہ اے لوگو! اس کائناتِ ارضی و سماوی اور ان کے اندر پائی جانے والے ہر شئے کی تخلیق اور مالکیت میں کوئی اللہ رب العزت کا شریک نہیں۔ وہی رب حقیقی ہے۔ وہی اس چیز کا حق دار ہے کہ اس کے سامنے جبینِ نیاز جھکائی جائے پس تم پر لازم ہے کہ صرف اسی کی عبادت کیا کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
8۔ سورۃ الجن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوا:
فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًاo
’’پس تم اللہ کے ساتھ کسی اور کی پرستش مت کیا کروo‘‘
الجن، 72: 18
9۔ وہ بدبخت جو ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معبودِ حقیقی کے سوا اور کسی کی عبادت کرتا ہے، اس کا انجام درج ذیل آیتِ مبارکہ میں بیان فرمایا گیا:
وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَo
’’اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش کرتا ہے اس کے پاس اس کی کوئی سند نہیں ہے سو اس کا حساب اس کے رب ہی کے پاس ہے۔ بیشک کافر لوگ فلاح نہیں پائیں گےo‘‘
المؤمنون، 23: 117
اللہ تعالیٰ کی ذات مستعانِ حقیقی ہے جبکہ انبیاء و اولیاء اور اہلِ علم و فن کو ’’مستعانِ مجازی‘‘ سمجھتے ہوئے ان سے مدد مانگنا عین توحید ہے۔ حقیقت و مجاز کا فرق روا رکھ کر استغاثہ کرنا شرعاً و عقلاً جائز ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اسی سے دعا کرنی چاہیے اور اسی کو مستعانِ حقیقی سمجھنا چاہیے۔ اسی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے اور مصائب و آلام میں اسی سے مدد مانگنی چاہیے۔ کسی ماسوا اللہ کو حقیقی مددگار سمجھنا شرعاً جائز نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی از خود کسی کو نہ کسی گناہ سے روک سکتا ہے نہ نیکی کی توفیق دے سکتا ہے۔ انبیاء و اولیاء سے مجازاً مدد مانگی جاتی ہے۔ قرآنِ حکیم میں لفظِ ’’دُعا‘‘ نداء کے معنی میں عام استعمال ہوا ہے اور کبھی نداء اور دعا باہم ایک دوسرے کی جگہ پر بھی استعمال ہوئے ہیں۔
ایک دوسرے کی مدد و حمایت و نصرت کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں دیا ہے :
وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِo
’’اور نیکی اور پرہیزگاری ( کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہےo‘‘
المائدۃ، 5: 2
بعض لوگ عبادت اور تعظیم کے درمیان تشکیک اور غلط فہمی پیدا کرکے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جب آپ اہل اللہ کی تعظیم بجالاتے ہیں تو یہ شرک فی العبادت کے زمرے میں آتاہے حالانکہ عبادت کا صحیح معنٰی و مفہوم پچھلے صفحات میں ہم نے تفصیل سے واضح کر دیا ہے کہ عبادت کا درجہ اور حقیقت جدا ہے اور تعظیم کی تعریف اور درجہ الگ ہے۔ دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اختلاط ممکن نہیں۔
شرعاً عجز و انکساری اور تعظیم کے انتہائی درجے کا نام عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے قطعاً جائز نہیں جب کہ اللہ رب العزت کے کسی برگزیدہ بندے حتیٰ کہ ان سے منسوب اشیاء کا ادب و احترام اور تعظیم ازروئے قرآن ایک جائز امر ہے۔
سورہِ حج میں ارشاد فرمایا:
وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِoلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِo
’’اور جو شخص اللہ کی نشانیوں (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسب وغیرہ کی تعظیم جو اللہ یا اللہ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) کی تعظیم کرتا ہے تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہ لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہو گیا ہو)o تمہارے لئے ان (قربانی کے جانوروں) میں مقررہ مدت تک فوائد ہیں پھر انہیں قدیم گھر (خانہ کعبہ) کی طرف (ذبح کے لئے) پہنچنا ہےo‘‘
الحج، 22: 32۔33
عبادت اور تعظیم پر مزید تفصیلات ’’کتاب التوحید جلد دوم‘‘ میں ملاحظہ کریں۔
’’توسّل‘‘ ایک مستقل عنوان ہے جس پر ہماری علیحدہ کتاب بھی موجود ہے اور اس پر قدرے تفصیل سے بحث آئندہ جلد میں آ رہی ہے تاہم یہاں اتنا واضح کرنا ضروری ہے کہ توسل شرک نہیں بلکہ شرک سے انکار اور انحراف ہے کیونکہ شرک تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ذات کو مطلوب اور منتہائے مقصود ماننا ہے جبکہ وسیلہ شرک کے انکار سے عبارت ہے۔ جب اہلِ ایمان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی اور دیگر انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں یا کسی کو ذاتِ باری تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں تو اس طرح وہ شرک کے تصور کی نفی کر رہے ہوتے ہیں۔ وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار ہوتاہے اور شرک کی جڑ کٹتی ہے کیونکہ ذواتِ مقدسہ اور بزرگ ہستیوں کا وسیلہ پکڑنے کا مطلب ہے کہ وہ ہستیاں اللہ تعالیٰ کی محبوب اور اس سے بہت قریب ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایسے اللہ والے بھی ہیں جو نوافل اور تلاوتِ قرآن کی کثرت اور ذکرو عبادت سے اللہ رب العزت کی نظر میں محبوبیت کا وہ مقام حاصل کرلیتے ہیں کہ ان کا توسل تقرب الی اللہ کا ذریعہ بن جاتاہے۔ اس لئے ان کے وسیلہ کو شرک یا بدعت قرار دینا خلافِ حقیقت بات ہے۔ اسے صرف وہ لوگ بدعت و شرک کہتے ہیں جو حقیقت سے ناواقف ہیں۔ وسیلہ تو وسیلہ ہی رہتا ہے کبھی عبادت نہیں ہوسکتا، وسیلہ کی چاہے کتنی بھی تعظیم و تکریم کی جائے اسے الٰہ اور معبود کا قائم مقام نہیں سمجھا جاسکتا۔ وسیلہ توایک ذریعہ ہے جو کسی مقصود و مطلوب تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔
وسیلہ دراصل اس بات کا انکار ہے کہ اللہ کی ہستی کے سوا کوئی معبود اور بھی ہے جسے منتہائے مقصود جانا اور مانا جائے۔ صاحبِ وسیلہ یعنی جس کا وسیلہ اختیار کیا جاتا ہے وہ خود مخلوق ہوتا ہے جو واسطہ یا ذریعہ بنتا ہے۔ جب کوئی مسئلہ اور تنازع پیداہوجائے جس سے خالق و مخلوق کے تعلق میں بگاڑ اور تعطل رونما ہوجائے تو اس بگاڑ اور تعطل کو ختم کرنے اور بندہ و مولا کے تعلق کو پھر سے بحال کرنے کے لئے کسی عظیم شخصیت کو توسل کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ اسلام نے توحید کا یہ عقیدہ بالتصریح بیان کردیا ہے کہ جو مخلوق ہو وہ خالق نہیں ہوسکتا، اس سے اسلام نے تمام جھوٹے خدائوں اور معبودانِ باطلہ کی نفی کر دی اور حتمی طور پر اس بات کا قطعی اعلان کر دیا کہ چاہے کوئی ہستی خواہ بعداز خدا بزرگی کے مقام پر فائز پیغمبرِ اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی کیوں نہ ہوں خدا نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ مخلوق ہیں خالق نہیں۔
توحید فی القدرت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تنہا اختیار و قوت کا مالکِ حقیقی اور قادر بالذات ہے یعنی وہ تصرفات جو صرف اللہ کے لیے خاص ہیں مثلاً اس کے خالق و قادرِ مطلق ہونے، نفع و نقصان کا مالک اور متصرف بالذات ہونے کا اِثبات صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ماننا توحید فی القدرت کہلاتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَo
’’آپ (ان سے) فرمائیے کہ وہ کون ہے جس کے دستِ قدرت میں ہر چیز کی کامل ملکیت ہے اور جو پناہ دیتا ہے اور جس کے خلاف (کوئی) پناہ نہیں دی جا سکتی، اگر تم (کچھ) جانتے ہو؟‘‘
المؤمنون، 23: 88
یعنی یہ کسی معمولی ہستی کی کوئی عامیانہ بات نہیں بلکہ ایک قادر و قدیر، خبیرو علیم، متصرفِ امر اور کلی اختیار وقوت کے سرچشمہ، ذاتِ لم یزل، اللہ تبارک و تعالیٰ کی بات ہے جس کی حاکمیت اور قدرت کو کسی غیر کیلئے ثابت کرنا شرک فی القدرت بن جاتا ہے۔
یہ بات بڑی قابلِ توجہ ہے کہ قرآن، تعریفات، تکنیکی اصطلاحات اور تصورات کی کتاب نہیں اس لئے یہ ان شرعی اصطلاحات اور تصورات کی کوئی جامع تعریف وضع نہیں کرتی لہٰذا کسی عقیدہ اور تصور کا اخذ و استنباط قرآنی آیات سے استدلال پر مبنی ہوتا ہے۔ ائمہ فقہاء و محدثین اورعلمائے تفسیر نے آیاتِ قرآنی ہی سے استشہاد و استنباط کرکے بتایا ہے کہ صحیح عقیدہ و تصور کیا ہے؟ پس جو چیزیں قرآن مجید نے الگ الگ مقامات پر بیان کر دیں ان کا سیاق و سباق سے بالاستیعاب مطالعہ کرنے سے پورا تصور سمجھ میں آتا ہے۔ اس کی مثال روز مرہ زندگی سے یوں دی جاسکتی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ میں فلاں آدمی کا مافی الضمیر سمجھ گیا ہوں یعنی جو کچھ پیغام اس نے اثنائے گفتگو بیان کرنا چاہا میں اس کو پا گیا ہوں۔ قرآن مجید نے توحید فی القدرت کا جو عقیدہ مختلف مقامات پر بیان کیا ہے اگر اسے کسی غیر کے لئے ثابت کیا جائے تو وہ شرک فی القدرت ہو گا اور اگراسی معنی اور مفہوم میں وہ تصور کسی دوسرے کے لئے ثابت نہیں تو پھروہ شرک نہیں رہے گا۔ ذیل میں ہم اس اجمال کی تفصیل چند ایک قرآنی آیات بیان کرکے واضح کریں گے۔
1۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی ہر چیز کا مالک ہے
سورۃ المائدۃ میں فرمانِ الٰہی ہے:
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌo
’’(اے انسان!) کیا تو نہیں جانتا کہ آسمانوں اور زمین کی (ساری) بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے، وہ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہےo‘‘
المائدۃ، 5: 40
یہاں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت و اختیار اور قدرت کے باب میں بتایا گیا ہے کہ اس کا تسلّط و اختیار اور حکمرانی تمام ارضی و سماوی طبقات پر ہے اور تمام عوالمِ ارضی و سماوی مکمل طور پر اسی کے قبضہِ قدرت میں ہیں۔ وہ چاہے تو ہر ایک کو معاف کردے اور چاہے تو سزا دے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکومت و اختیار کلی طور پر اس کی ذات میں مرتکز ہے اور وہی مطلقًا مالک و مختار ہے۔ انسان کو باور کرایا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمینوںپر بادشاہت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے، ہر چیز کا مالک ہے۔ عذاب اور بخشش کا مالک بھی وہی ہے۔ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مفہوم بڑی صراحت کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔
کائنات کی تخلیق اور اس کے نظام پر قدرتِ کاملہ کا مالک صرف اور صرف اللہ رب العزت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو یہ قدرت حاصل ہی نہیں کہ وہ اس کائنات کی مثل کوئی کائنات تخلیق کرے یا اس کے نظام میں اپنی مرضی سے کوئی ردو بدل کرسکے۔
قرآن مجید میں اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍo وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍo
’’(اے سننے والے!) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق (پر مبنی حکمت) کے ساتھ پیدا فرمایا اگر وہ چاہے (تو) تمہیں نیست و نابود فرمادے اور (تمہاری جگہ) نئی مخلوق لے آئےo اور یہ کام اللہ پر(کچھ بھی) دشوار نہیں ہےo‘‘
ابراہیم، 14: 19۔ 20
اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت اور قدرت کی تعریف تمام کائناتِ سماوی و ارضی اور ما فیھا کی تخلیق کے حوالے سے کی گئی ہے کہ وہی ذات ہر چیز کی خالق ہے اور اسے کلی اختیار اور قدرت حاصل ہے۔
توحید فی القدرت پر ایمان لانے کا ایک معنی تو یہ ہے کہ اللہ پاک کائنات اور اس کے جملہ نظام کا خالق ہے، اسی طرح اس بات پر ایمان لانا بھی ضروری ہے کہ جس ذات نے یہ سلسلہِ کائنات پیدا کیا ہے وہ اس کو اپنی قدرت و حکمت کے ساتھ ختم بھی کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ قَادِرٌ عَلَى أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلاً لاَّ رَيْبَ فِيهِ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إَلاَّ كُفُورًاo
’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے (وہ) اس بات پر (بھی) قادر ہے کہ وہ ان لوگو علیہ السلام کی مثل (دوبارہ) پیدا فرما دے اور اس نے ان کے لئے ایک وقت مقرر فرما دیا ہے جس میں کوئی شک نہیں، پھر بھی ظالموں نے انکار کر دیا ہے مگر (یہ) ناشکری ہےo‘‘
بنی اسرائیل، 17: 99
جیسا کہ بیان ہوا اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کے دو اجزاء ہیں: پہلا جزو یہ ہے کہ وہ خالق ہے اور اسی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ دوسرا جزو یہ کہ وہ قادرِ مطلق ہے۔ یعنی اسے یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ اَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ کے مصداق اگر چاہے تو اس طرح کی اور مخلوق لے آئے خواہ وہ پہلی مخلوق کے ہوتے ہوئے ہو یا اس کو ختم کرنے کے بعد اور پھر اس نے سب کے خاتمے کے لئے ایک وقت مقرر کر دیا ہے۔ خاتمے کا وقت مقرر کرنا اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اور دوبارہ مخلوقات کو پیدا کرنا بھی اس کے دائرہ اختیار میں ہے۔ جن کفار و مشرکین نے اللہ رب العزت کی بجائے کسی اور کو خالق اور رب خیال کرکے اللہ تعالیٰ کی اس قدرت کو ماننے سے انکار کر دیا، قرآن نے انہیں ظالم قرار دے کر ان کے اس عمل کو ناشکری سے تعبیر کیا ہے۔
یہ کائنات بے شمار جاندار اور بے جان مخلوقات کا مجموعہ ہے، زندگی اس کائنات کی سب سے بڑی نعمت ہے، اسی سے اس کائنات کا حسنِ رنگ و بو قائم ہے۔ انسان ہو یا حیوان، درخت ہوں یا پرندے سب اسی کارخانہِ قدرت کے مظہر ہیں۔ ان مظاہرِ کائنات میں زندگی کی طرح موت بھی قدرت کی ایک بڑی حجت ہے۔ الغرض موت اور زندگی جس کا اظہار کائنات میں ہر آن، ہر جگہ اور ہر لمحہ جاری و ساری ہے اس کا خالق و مالک صرف اللہ ہے۔ اس متصرفِ حقیقی کے بغیر کوئی قوت کسی جاندار کو نہ زندہ کر سکتی ہے اور نہ موت سے ہمکنار کرنے کی مجاز ہے۔ سورۃ الحج میں ارشادِ ربانی ہے:
ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّهُ يُحْيِي الْمَوْتَى وَأَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌo
’’یہ (سب کچھ) اس لئے (ہوتا رہتا) ہے کہ اللہ ہی سچا (خالق اور رب) ہے اور بیشک وہی مرُدوں (بے جان) کو زندہ (جاندار) کرتا ہے اور یقینا وہی ہر چیز پر بڑاقادر ہےo‘‘
الحج، 22: 6
اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت و اختیار کی تعریف اس حوالے سے بھی کی کہ وہ زندگی اور موت کا خالق ہے۔ سورۃ العنکبوت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّهُ يُنشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌo
’’فرمادیجئے: تم زمین میں (کائناتی زندگی کے مطالعہ کے لئے) چلو پھرو، پھر دیکھو (یعنی غور و تحقیق کرو) کہ اس نے مخلوق کی (زندگی کی) ابتداء کیسے فرمائی پھر وہ دوسری زندگی کو کس طرح اٹھا کر(ارتقاء کے مراحل سے گزارتا ہوا) نشوونما دیتا ہے۔ بے شک اللہ ہر شے پر بڑی قدرت رکھنے والا ہےo‘‘
العنکبوت، 29: 20
یہاں ایک بار پھر اللہ رب العزت نے ارضی و سماوی کائنات کی تخلیق کو اپنے حکم و اختیار کا نتیجہ قرار دیاہے کہ تخلیق کا آغاز کرنے والا بھی وہی ہے اور تخلیقِ نو کرنے والا اور پہلی تخلیق کو نئی تخلیق سے بدلنے والا بھی وہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا دائرہ دنیوی موت و حیات تک ہی محدود نہیں بلکہ وہی ہے جو انسان کو مرنے کے بعد قبروں سے زندہ بھی کرے گا، قرآن نے انسان کو قدرتِ الٰہیہ کے اسی تصرف کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:
قُلِ اللَّهُ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيبَ فِيهِ وَلَكِنَّ أَكَثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَo
’’فرما دیجئے: اللہ ہی تمہیں زندگی دیتا ہے اور پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے پھر تم سب کو قیامت کے دن کی طرف جمع فرمائے گا جس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اکثرلوگ نہیں جانتے۔‘‘
الجاثیۃ، 45: 26
سورۃ التغابن میں اسی حقیقت کو یوں بیان کیا گیا ہے:
زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن لَّن يُبْعَثُوا قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌo
’’کافر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ (دوبارہ) ہرگز نہ اٹھائے جائیں گے۔ فرما دیجئے: کیوں نہیں، میرے رب کی قسم، تم ضرور اٹھائے جاؤگے پھر تمہیں بتا دیا جائے گا جو کچھ تم نے کیا تھا، اور یہ اللہ پر بہت آسان ہےo‘‘
التغابن، 64: 7
اس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جا بہ جا اپنی قدرت کو صراحت کے ساتھ ان اصطلاحوں کے ذریعے بیان فرمایاہے۔
قرآن حکیم میں قدرتِ الٰہی کا حقیقی تصور سمجھنے اور اس امر کا یقین کرنے کے لئے کہ کسی دوسرے کے لئے وہی قدرت ثابت کرنے سے شرک کیسے لازم آتا ہے، اس ارشاد ربانی پر غور کرنے سے معلوم ہوگا:
يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْاْ فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُواْ وَلَوْ شَاء اللّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّه عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌo
’’یوں لگتا ہے کہ بجلی ان کی بینائی اُچک لے جائے گی، جب بھی ان کے لئے (ماحول میں) کچھ چمک ہوتی ہے تو اس میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں، اور اگر اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل سلب کرلیتا، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہےo‘‘
البقرۃ، 2: 20
اس آیتِ کریمہ میں بتایا گیا کہ گھٹا ٹوپ بادلوں کی تاریکی میں آسمانی بجلی ان کفار و مشرکین کی آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو وہ چلنے لگتے ہیں اورجب تاریکی کا ماحول انہیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تو ان کے قدم رک جاتے ہیں۔ اس آیتِ مبارکہ نے واضح کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کے سننے اور دیکھنے کی صلاحیتیں سلب کر لیتاکیونکہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہاں اللہ رب العزت کی قوت و اختیار کا تعیّن اس کی حاکمیت و اختیار کی مطابقت سے کیا گیا ہے۔ لوگوں کی ہدایت اختیار کرنے اور گمراہی میں مبتلا ہونے کی مثال بجلی سے دی گئی ہے کہ جب وہ چمکتی ہے اور گرجتی ہے تو اچانک گردو پیش کا ماحول روشن ہوجانے سے کافر لوگ اس میں چلنے لگتے ہیں جبکہ اندھیرے میں ان کے قدم رک جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اختیار اور قدرت میں ہے کہ ان کی سماعت اور بصارت یعنی ان کی بینائی اور سننے کی قوت ختم کردے۔ اس طرح کی بیسیوں آیات دراصل اس امر کی وضاحت کرتی ہیں کہ اللہ کی قدرت کیا ہے؟ قرآن مجید میںاس توضیح کا مقصد توحید فی القدرت کا بیان ہوتا ہے۔
اللہ رب العزت کی صفات و تصرفات قدرتِ مطلقہ اور شانِ خالقیت کو کسی غیر کے لئے مطلق اور بالذات ثابت کرنا شرک فی القدرت ہے۔ اس کے علاوہ باقی تصرفات کو اگر غیر کے لئے ثابت بھی کردیاجائے تو اس سے شرک واقع نہیں ہو گا کیونکہ ایسے تصرفات اللہ تعالیٰ کے لئے خاص نہیں بلکہ اس نے اپنے بندوں کو ان کی قوت و طاقت ودیعت فرما رکھی ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو کوئی قدرت، طاقت اور ملکہ عطا کردے اور وہ اسے بروئے کار لائے تو یہ ہرگز شرک نہیں ہو گا بلکہ منشاء اور حکمِ الٰہی کی تعمیل ہوگی۔ شرک اس وقت ہو گا جب تصرف بالذات کی وہ شان جو قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہے کسی غیر کے لئے خواہ تھوڑے عرصے کے لئے ہی کیوں نہ ہو ثابت کی جائے۔ قرآن سے اس کی چند مزید مثالیں درج ذیل ہیں:
یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور تصرف بالذات کی شان ہے کہ اگر وہ قیامت تک رات مسلط کرنے کافیصلہ کردے تو کسی کو طاقت حاصل نہیں جو اس کی جگہ دن کی روشنی لا سکے۔ سورۃ القصص میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِضِيَاءٍ أَفَلَا تَسْمَعُونَo
’’فرما دیجئے: ذرا اتنا بتاؤ کہ اگر اللہ تمہارے اوپر روزِ قیامت تک ہمیشہ رات طاری فرما دے( تو) اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہیں روشنی لا دے۔ کیا تم (یہ باتیں) سنتے نہیں ہو؟‘‘
القصص، 28: 71
گردشِ لیل و نہار پر قدرت و اختیار فقط اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے وہی ذات رات کو دن اور دن کو رات میں بدلنے پر قادر ہے۔ اللہ ل نے اس کے بدلنے کی طاقت کسی کو نہیں دی۔ اگر کوئی ایسا اعتقاد کسی غیر کے لئے رکھے گا تو وہ شرک کا مرتکب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اسی قوت و طاقت کو قرآن میں بیان کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
يُقَلِّبُ اللَّهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُوْلِي الْأَبْصَارِo
’’اور اللہ رات اور دن کو (ایک دوسرے کے اوپر) پلٹتا رہتا ہے، اور بیشک اس میں عقل و بصیرت والوں کے لئے (بڑی) رہنمائی ہےo‘‘
النور، 24: 44
ایک اور مقام پر اللہ رب العزت نے فرمایا:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَأَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌo
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ رات کو دن میں داخل فرماتا ہے اور دن کو رات میں داخل فرماتا ہے اور (اسی نے) سورج اور چاند کو مسخّر کر رکھا ہے، ہر کوئی ایک مقرر معیاد تک چل رہا ہے اور یہ کہ اللہ ان (تمام) کاموں سے جو تم کرتے ہو خبردار ہےo‘‘
لقمٰن، 31: 29
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میںجا بہ جا اپنے حقیقی رازق ہونے اور معبودانِ باطلہ کی رزق پر قدرت و اختیار کی نفی بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلاَ يَسْتَطِيعُونَo
’’اور اللہ کے سوا ان (بتوں) کی پرستش کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں سے ان کے لئے کسی قدر رزق دینے کے بھی مالک نہیں ہیں اور نہ ہی کچھ قدرت رکھتے ہیںo‘‘
(1) النحل، 16: 73
ایک اور مقام پر فرمایا:
فَابْتَغُوا عِندَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ
’’پس تم اللہ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرواور اسی کی عبادت کیاکرو اور اسی کا شکر بجا لایا کرو۔‘‘
العنکبوت، 29: 17
مذکورہ بالا آیات میں بڑے حسن و خوبی کے ساتھ واضح کردیا گیا کہ رزق دینے کااختیار اللہ جل مجدہ کے سوا اور کوئی نہیں رکھتا کہ آسمانوں اور زمیں میں اسبابِ رزق کا مالک صرف وہی ہے۔
ہمارا زیر بحث موضوع توحید فی الالوہیت کا ذیلی عنوان توحید فی القدرت ہے۔ یعنی موت و حیات، رزق اور نفع و نقصان کا حقیقی مالک و متصرف اللہ تعالیٰ کو ماننا توحید اور کسی اور کو ان امور میں حصہ دار اور ساجھی ماننا شرک ہے۔ حقیقی رازق اللہ تعالیٰ ہے لیکن عطائے رزق کے اسباب اسی کے پیدا کردہ ہیں، ہم حصول رزق کے لئے محنت مزدوری کرتے ہیں جس کے سبب زمین سے رزق حاصل ہوتا ہے۔ ان اسباب میں افراد بھی ہیں ایک شخص دوسرے کے لئے رزق کا سبب بنتا ہے۔ یہ جملہ اسباب اختیار کرنا انسان کی مجبوری بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت بھی۔ اب اگر کوئی کہے کہ رازق تو اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا کسی شخص سے رزق حاصل کرنا شرک ہوگا تو یہ تصور حماقت اور ناسمجھی کہلائے گا توحید نہیں۔
اسی طرح والدین اولاد کی ولادت کا سبب بنتے ہیں، استاد اور عالم علم دینے کا سبب ہیں اور مالک ملازم کے ذریعہِ معاش کا سبب ہوتا ہے۔ الغرض یہ ساری چیزیں اللہ جل مجدہ عطا فرماتا ہے، شان و شوکت وہی دیتا ہے لیکن وہ ان چیزوں کا خود سبب نہیں بنتا بلکہ مخلوق میں سے ہی کسی کو بناتا ہے، اللہ جل مجدہ خود مُسَبِّبْ ہے مُسَبَّب نہیں۔ سبب اور مسبَّب ہمیشہ مخلوق ہوتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ خالقِ اسباب ہے۔ سبب ہمیشہ ذرائع ہوتے ہیں جن کا شمار مخلوق میں ہوتا ہے۔ سبب میں اچھے لوگ بھی ہو سکتے ہیں اور برے لوگ بھی ہو سکتے ہیں۔ قرآن حکیم جس عقیدے کو شرک قرار دیتا ہے وہ دراصل مشرکین کا یہ بنیادی تصور ہے جس کے مطابق وہ اپنے ان جھوٹے معبودوں کے ساتھ نفع و نقصان کا ایسا عقیدہ وابستہ کر لیتے تھے جو خالق کی شان کے لائق اسی کے لئے ہونا چاہئے۔ مثلاً ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ بھی ایسی ماورائی طاقت ہے جو کسی کو نقصان اور فائدہ پہنچانے کی مالک و مختار ہے۔ یہ مشرکانہ عقیدہ ہے لیکن دوسری طرف اگر ہم نقصان اور فائدہ کا موجب بننے کے معنی کو عمومی پیرائے میں لیں تو پھر ہر ایک امر شرک کے زمرہ میں چلا جائے گا اور ہر چیز اپنا جواز کھو دے گی۔
یہ بات خاص طور پر ذہن نشین کرنے والی ہے کہ اگر کوئی کسی غیرِ خدا کو بھی حقیقی مسبِّب جانے اور مانے تب توحید فی القدرت میں شرک ہو گا، ورنہ نہیں۔ لہٰذا کسی راسخ العقیدہ مسلمان کے بارے میں یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو مسبِّبِ حقیقی مانتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ فقط وسیلہ، ذریعہ اور سبب تو مانتے ہیں لیکن اس سے اوپر کوئی نہیں جاتا کیونکہ یہ آخری حد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں کسی کے رزق کے مجازی مالک ہونے کی نفی کی ہے اور نہ ہی کسی کے رزق کے سبب ہونے کو شرک قرار دیا ہے۔ اگر کوئی اس سے مختلف عقیدہ یا یقین رکھے کہ اصل اور مطلق اختیار و حاکمیت کا مالک جس طرح اللہ رب العزت ہے کوئی اور بھی کلی یا جزوی طور پر اس جیسا مالک ہوسکتا ہے اور (معاذ اللہ ) اللہ تعالیٰ کا شریک اور ساجھی ہے یا ہو سکتا ہے تو یہ عقیدہ یقینا شرک ہے۔ اس کے برعکس اگر عقیدہ یہ ہو کہ والدین، سرپرست اور حکمران کی طرح انبیاء و اولیاء کو اختیار و قدرت اسی نے عطا کی ہے تو پھر شرک کا قطعاً کوئی امکان باقی نہیں رہتا اور عقیدہِ توحید میں کسی بھی شرک کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔
سورۃ الاعراف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَاءَ اللّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ
’’آپ (ان سے یہ بھی) فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا خود مالک نہیں ہوں مگر (یہ کہ) جس قدر اللہ نے چاہا، اور(اسی طرح بغیر عطائِ الٰہی کے) اگر میں خود غیب کا علم رکھتا تو میں از خود بہت سی بھلائی (اور فتوحات) حاصل کر لیتا۔‘‘
(1) الاعراف، 7: 188
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ حق ترجمان سے کہلوایا جا رہا ہے کہ میں بذاتِ خود کسی چیز کا اس طرح مالک نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو اپنی ذات کو نقصان یا نفع پہنچا سکوں اور نہ میں اس اختیار کا مالک ہوں کہ تمہارے لیے نفع یا نقصان کا موجِب بن سکوں۔ نفع اور نقصان پہنچانے کا کوئی شخص فی نفسہِ اختیار نہیں رکھتا اس لئے کہ اس کا اختیار اس بالاتر ہمہ مقتدر قوت کے پاس ہے جو حکم اور اختیار رکھنے والی ہے اور وہی فرماں روا ہے۔ وہ جس کو چاہے جتنا چاہے اور جب تک چاہے نفع و نقصان کا موجب بنا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے نفع بخشی اور اذیت رسانی کی بالقوۃ صلاحیت اور قابلیت مخلوق میں پیدا کی اور اسے نفع و نقصان کا موجب بنایا۔ اس نفع بخشی اور فیض رسانی میں انبیاء و اولیائ، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظہر ہوتے ہیں۔ حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی دنیوی و اخروی نعمتوں کا قاسم و مختار بنایا تو یہ تقسیم اور اختیار ذاتی نہیں بلکہ عطائی ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ يُعْطِي.
’’میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ اللہ عطا کرتا ہے۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین، 1: 39، رقم: 71
انبیاء و اولیاء تو اس کے محبوب بندے ہیں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا تعلق، قربت اور محبت کا ہوتا ہے۔ ہم توجڑی بوٹیوں، معدنیات اور اشیائے خوردنی کی تاثیرات کو بھی اللہ تعالیٰ ہی کی عطا سمجھتے ہیں۔ اسی نے ہی زہر کو یہ خاصیت بخشی ہے کہ وہ نقصان کا باعث بنے اور اسی نے سانپ کو بالقوۃ ہلاکت کا موجب بنایا ہے۔ استاد اور دوائی میں فائدہ رسانی کی اہلیت بھی اُسی نے ودیعت کی ہے۔ اگر وہ دوائی کو فائدہ پہنچانے سے روک دے تو کوئی اسے لوگوں کیلئے مفید نہیں بنا سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نفع و نقصان اور خیروشر کا مالک حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہے۔ مخلوق میں جو افراد اور ذرائع ان خصوصیات کے حامل ہیں وہ مجازی ہیں اور انہیں یہ صلاحیت دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ جیسے مالکِ رزق ہے ویسے وہ مالکِ نفع و ضرر بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی جگہ کسی کے نفع و نقصان کا سبب، وسیلہ یا ذریعہ ہونے کی نفی نہیں کی اور یہ عقیدہ عین توحید ہے۔ وسیلہ کی نفی اس وقت شرک بنتی ہے جب اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا کسی اور کو ان امور کا مالک و قادر بالذات مانا جائے۔
پاکستان، یورپی ممالک یا کہیں بھی رہائش پذیر عوام الناس کا فہمِ قرآن عربی زبان سے ناواقفیت کی بناء پر ان اردو یا انگریزی تراجم پر منحصر ہوتا ہے جو انہیں دستیاب ہوتے ہیں۔وہ کئی مقامات پر ٹھوکر کھاجاتے ہیں مثلاً محولہ بالا آیت میں لَا اَمْلِکُ کا لفظی ترجمہ کیا جاتا ہے کہ ’’میں اختیار نہیں رکھتا‘‘ صحیح فہمِ قرآن نہ رکھنے والے لوگ، لفظِ اختیار کی گہرائی میں جائے بغیر اس کو کسی اور مفہوم میں لیتے ہیں جس سے لا محالہ ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تنقیص کا پہلو نکلتا ہے۔ حالانکہ (قُلْ لَّآ اَمْلِکُ) کا صحیح معنی یہ ہے کہ میں اس اختیار و اقتدار کا مالک نہیں جو بالذات کسی کو نقصان یا نفع دینے کی قدرت رکھتا ہو۔
اس قرآنی ارشاد کا حقیقی معنی و مفہوم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے قدرت بالذات کی نفی ہے۔ قدرت عطا کئے جانے کی نفی نہیں اور اس سے یہ باور کرانا مقصود ہے کہ طاقت و اختیار میرے قبضے میں نہیںجو کسی کو نفع یا نقصان پہنچاتی ہے یا کسی کے حال اور اخلاق کو درست رکھتی ہے۔ کہ اس اختیار کا مالکِ حقیقی اللہ تبار ک و تعالیٰ کی ذات ہے میں نہیں، ذہن نشین کرنے والی بات یہ ہے کہ لَا اَمْلِکُ میں قدرت بالعطاء کی نفی نہیں۔
اسی حقیقت کو سمجھنے کے لئے قرآن مجید کے ایک اور مقام پر غور کیجئے:
إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِندَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَo
’’تم تو اللہ کے سوا بتوں کی پوجا کرتے ہو اور محض جھوٹ گھڑتے ہو، بیشک تم اللہ کے سوا جن کی پوجا کرتے ہو وہ تمہارے لئے رزق کے مالک نہیں ہیں پس تم اللہ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی کاشکربجا لایا کرو، تم اسی کی طرف پلٹائے جائو گےo‘‘
العنکبوت، 29: 17
آیتِ متذکرہ بالا میں مشرکین کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں شرک فی الالوہیت کی روش بدِ کی طرف متوجہ فرمایا ہے اور انہیں ایک ناقابلِ تردید عقلی دلیل پیش فرمائی کہ دیکھو! خالق، اِلٰہ اور معبود کو رازق بھی تو ہونا چاہئے حالانکہ یہ تمہیں کچھ نہیں دے سکتے۔ دوسرے الفاظ میں مشرکین کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ رزق دینے کا اختیار رکھنے والی ذات ہی سرچشمہِ قوت و حاکمیت ہے لہٰذا تمہارے معبودانِ باطلہ کی اصل حقیقت جب کھل کر تمہارے سامنے آچکی ہے تو تمہیں چاہئے کہ ان کی عبادت سے بھی باز آجاؤ اور رزق فقط اللہ وحدہ لا شریک سے مانگو۔ مذکورہ آیت میں بتوں سے رزق دینے کے اختیار کی نفی کرنے کے لئے بھی لَا يَمْلِکُوْنَ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔
اس کی وضاحت ایک اور مقام پر اس طرح ہے:
قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللّهُ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لاَ يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ أَمْ جَعَلُواْ لِلّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُواْ كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُo
’’(ان کافروں کے سامنے) فرما ئیے کہ آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے؟ آپ (خود ہی) فرما دیجئے: اللہ ہے۔ (پھر) آپ (ان سے دریافت) فرمائیے: کیا تم نے اس کے سوا (ان بتوں) کو کارساز بنا لیا ہے جو نہ اپنی ذاتوں کے لئے کسی نفع کے مالک ہیں اور نہ کسی نقصان کے۔ آپ فرما دیجئے: کیااندھا اور بینا برابر ہوسکتے ہیں یا کیا تاریکیاں اور روشنی برابر ہوسکتی ہیں۔ کیا انہوں نے اللہ کے لئے ایسے شریک بنائے ہیں جنہوں نے اللہ کی مخلوق کی طرح (کچھ مخلوق) خود (بھی) پیدا کی ہو، سو (ان بتوں کی پیدا کردہ) اس مخلوق سے ان کو تشابہ(یعنی مغالطہ) ہوگیا ہو، فرما دیجئے: اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ایک ہے، وہ سب پر غالب ہےo‘‘
(1) الرعد، 13: 16
یہاں بھی (لَا يَمْلِکُوْنَ) کے کلمات ذاتی قوت و اختیار رکھنے کی نفی کر رہے ہیں۔ اس سے شرک کا رد کیا گیا ہے یعنی لَا يَمْلِکُوْنَ کے الفاظ کا استعمال ردِ شرک کیلئے ہوا ہے۔
پھر تیسرے مقام پر یہی مضمون اس طرح بیان ہوا:
قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلاَ نَفْعًا وَاللّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُo
’’فرما دیجئے: کیا تم اللہ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہارے لیے کسی نقصان کا مالک ہے نہ نفع کا، اور اللہ ہی تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘
المائدۃ، 5: 76
آیاتِ متذکرہ بالا میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے تصور کو واضح کرنے کیلئے لفظ (يَمْلِکُ) کے استعمال سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ نفع و نقصان کا حقیقی مالک دراصل قادرِ مطلق کی ذات ہے۔ لیکن قرآن مجید میں کئی مقامات پر ایسی آیات وارد ہوئی ہیں جہاں يَمْلِکُ کا لفظ نہیں بلکہ یہ ارشاد ہے کہ وہ نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان۔ اس لئے نفع یا نقصان کے مالک ہونے کا معنی بغیر بیان کئے یہی متعین کیا گیا ہے۔ چونکہ قرآن مجید ملکیت کے باب میں ایک خاص معنی متعین کر چکا ہے کہ وہی رب ہی نفع و نقصان کا مالکِ بالذات ہے۔ اس تعین سے اس کے معنی میں عمومیت کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اب جہاں بھی نفع و نقصان کی بات ہوگی تو اس سے مراد مالکِ حقیقی اور قادر بالذات اللہ رب العزت کی ذات ہی ہوگی۔ اگر لفظ (يَمْلِکُوْنَ) استعمال نہ بھی ہو تو پھر بھی کوئی یہ کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا کہ ملک، اختیار اور قبضہ کی اصطلاحات کی یہ تعبیر غلط ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا ملکیت کسی اور سے بھی منسوب ہوسکتی ہے۔ نہیں، قرآن مجید نے جو بات کہہ دی اس پر دو معیار نہیں ہو سکتے۔
مثال کے طور پر سورۃ الانبیاء میں ’مِلک‘ کا لفظ لائے بغیر بیان کیا گیا ہے:
قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْo
’’(ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان (مورتیوں) کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع دے سکتی ہیں اور نہ تمہیں نقصان پہنچاسکتی ہیں۔‘‘
الانبیاء، 21: 66
اس آیت کریمہ میں لفظ يَمْلِکُوْنَ استعمال نہیں ہوا لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں مالک ہونے کا معنی نہیں بلکہ عام نفع اور نقصان کی بات کی گئی ہے۔ سانپ کا زہر بھی نقصان کا باعث ہے اور ظالم و جابر حکمران بھی نقصان دینے کا موجب ہیں۔ استاد، والدین، شیخ، ڈاکٹر اور اربابِ اقتدار واختیار نفع و نقصان کا باعث بنتے ہیں توکیا ان کی نفع بخشی اور ضرر رسانی پر شرک کا حکم لگا دیا جائے گا؟ اگر ایسا ہو تو سارے کا سارا نظام شرک پر مبنی ہوجائے گا اور توحید محض ایک مجرد تصور (Abstract Concept) بن کر رہ جائے گی۔ شرک کا یہ تصور اسلام کی نظر میں قابلِ قبول اور قابلِ عمل نہیں۔
یاد رکھیں کہ اس عالمِ اسباب میں بس دو ہی حقیقتیں ہیں۔ ایک جو نفع و نقصان کا سبب بنتی ہیں اور دوسری جو نفع و نقصان کی مالک ہیں۔ مثلاً زہر اگر بطور دوائی استعمال کیا جائے تو یہ فائدہ دیتا ہے جبکہ سانپ کا ڈسنا یا کسی دوسری صورت میں زہر کا استعمال مضراور مہلک ہوتا ہے لیکن سانپ اور زہر فی نفسہِ کسی کو نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اسی طرح دوائی ایک مریض کو صحت یاب کرنے یا صحت کی بحالی میں مددگار ہے لیکن وہ اپنے طور پر صحت دینے کا اختیار نہیں رکھتی۔ بیماری اور صحت کی مالک اور نقصان و فائدہ دینے کا اختیار دوائی میں نہیں، وہ تو محض ایک سبب ہے۔ اس طرح حکیم یا ڈاکٹر بیمار لوگوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ استاد طلباء کے لئے علم پہنچانے کی صورت میں نفع کا ذریعہ بنتے ہیں، ایک طاقتور شخص کمزور لوگوں کو فائدہ دیتا ہے، امراء زکوٰۃ وصدقات کے ذریعے غرباء و مساکین کا سہارا بنتے ہیں۔ غرضیکہ مثبت پہلو میں ہر شخص کسی نہ کسی صورت میں معاشرے کیلئے مفید ہے۔ جبکہ اس کے برعکس منفی لحاظ سے غلط کار اور بدقماش لوگ جیسے قاتل اور ڈاکو معصوم اور نہتے لوگوں کیلئے تباہی اور نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ ان امثلہ کی روشنی میں کیا درج بالا افراد کو اپنے اپنے شعبوں میںنفع و نقصان کا مالک مانا جائے گا؟ ہر گز نہیں۔ یہی کہا جائے گا کہ وہ نفع و نقصان کے مالک نہیں بلکہ ان خوبیوں کا اظہار کرنا ان کے اختیار میں رکھا گیا ہے۔
اس پوری بحث سے آیتِ کریمہ کے الفاظ کے معنی متعین کرنا پڑیں گے جو یہ ہے کہ ’’بالذات کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔‘‘ نفع و ضرر رسانی کا عمل نظام کائنات کا حصہ ہے ہر شخص دوسرے کو نفع و نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہے لہٰذا سرے سے اس بحث کا شرک سے کوئی تعلق نہیں۔ شرک صرف اسی صورت متصور ہوگا جب کسی غیر اللہ کو نفع و نقصان کا مالک سمجھا جائے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَo سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَo
’’آپ (ان سے) فرمائیے کہ وہ کون ہے؟ جس کے دستِ قدرت میں ہر چیز کی کامل ملکیت ہے اور جو پناہ دیتا ہے اور جس کے خلاف (کوئی) پناہ نہیں دی جاسکتی، اگر تم(کچھ )جانتے ہو۔ وہ فوراً کہیں گے: یہ (سب شانیں) اللہ ہی کے لئے ہیں، (تو) آپ فرمائیں: پھر تمہیں کہاں سے (جادو کی طرح) فریب دیا جا رہا ہے۔‘‘
المؤمنون، 23: 88۔ 89
اس آیت میں لفظ (بِيَدِہِ) اللہ تعالیٰ کی مالکیت اور قدرتِ کاملہ کو ظاہر کرتا ہے کہ تمام کائنات کو ایک نظم کے ساتھ چلانے کا اختیار اس نے اپنے ہاتھوں میں رکھا ہوا ہے۔ کسی اختیار کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا اعلان اس مفہوم میں ہے کہ وہی تمام اختیارات کا سرچشمہ اور مالک ہے۔ رزق کے اسباب فراہم کرنے، زندگی اور موت پیدا کرنے، ایک مخلوق کو مٹا کر دوسری مخلوق سے بدلنے کا اختیار بھی اسی کے قبضہِ قدرت میں ہے۔ یہ اختیار و قدرت کسی نے اسے عطا نہیں کی کیونکہ اس کے اوپر کوئی بالادست ہستی ہے ہی نہیں جو اسے اختیار و حاکمیت دینے والی ہو بلکہ تمام اختیار و اقتدار اور قدرت مطلقاً اسی کے ہاتھ میں ہے۔ وہی سر چشمہِ طاقت و قدرت اور کلّی اختیار و اقتدار کا مالک حقیقی ہے۔
اس سے یہ مترشح ہوا کہ قدرت و اختیارِ الہٰیہ کا مفہوم اس کے مالک ہونے میں مضمر ہے اور مطلقاً کامل زمامِ اختیار اس کے ہاتھ میں ہے۔ اس تصور کو قرآن نے اچھی طرح واضح کرتے ہوئے دو چیزوں میں امتیاز قائم کیا ہے۔
اولاً: یہ کہ وہ اختیار جو لوگوں کو ودیعت کیا گیا ہے اللہ رب العزت کا عطا کردہ ہے۔
ثانیاً: یہ کہ انہیں یہ اختیار و اقتدار ایک نعمت کے طور پر دیا گیا ہے اور یہ ان کے پاس ایک امانت ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍo
’’(ابتداء میں) سب لوگ ایک ہی دین پر جمع تھے، (پھر جب ان میں اختلافات رونما ہوگئے) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈر سنانے والے پیغمبروں کو بھیجا، اور ان کے ساتھ حق پر مبنی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں میں ان امور کا فیصلہ کردے جن میں وہ اختلاف کرنے لگے تھے اور اس میں اختلاف بھی فقط انہی لوگوں نے کیا جنہیں وہ کتاب دی گئی تھی، باوجود اس کے کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آچکی تھیں (اور انہوں نے یہ اختلاف بھی) محض باہمی بغض و حسد کے باعث (کیا) پھر اللہ نے ایمان والوں کو اپنے حکم سے وہ حق کی بات سمجھادی جس میں وہ اختلاف کرتے تھے، اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرما دیتا ہے۔‘‘
البقرۃ، 2: 213
اس آیتِ کریمہ کے آخری حصہ میں اللہ رب العزت نے فرما دیا کہ ہدایت کا مالک حقیقی وہی ہے لیکن ہدایت کے سبب کئی ہو سکتے ہیں ان اسبابِ ہدایت میں سرِ فہرست انبیاء علیہم السلام اور ان پر اترنے والی کتب ہیں۔ ان انبیاء اور کتب کو ہدایت و راہنمائی کا ذریعہ اور سبب کس نے بنایا؟ اسی اللہ نے جو ہدایت کا مالک ہے۔ لہٰذا ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے قرآن مجید کا ارشاد ہے:
يَهْدِي بِهِ اللّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَيُخْرِجُهُم مِّنِ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍo
’’اللہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے اور انہیں اپنے حکم سے (کفر وجہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و ہدایت کی) روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی سمت ہدایت فرماتا ہے۔‘‘
المائدۃ، 5: 16
سورۃ الشوریٰ میں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دینے کو بذاتِ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کیا گیا ہے:
نَّهْدِي بِهِ مَنْ نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍo
’’ہم اِس (قرآن) کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت سے نوازتے ہیں، اور بیشک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں۔‘‘
الشوریٰ، 42: 52
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ سے اپنے بندوں کو یہ پیغام دیدیا کہ اے میرے بندو! میرے حبیب کا ہدایت دینا اور ہمارا ہدایت دینا دونوں کی حقیقت ایک ہی ہے اور صرف انہی کو ہدایت نصیب ہوتی ہے جو اس حقیقت کی معرفت اور اس سے وابستگی رکھتے ہیں۔
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور صفات لوگوں کیلئے نفع رساں ہے۔ آپ کی دنیا میں تشریف آوری کا مقصد لوگوں کو شرک و ضلالت کی تاریکیوں سے باہر نکالنا اور انہیں ہدایت و ایمان سے منور کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم پر لائے اور انہیں قرآن و سنت کی تعلیمات سے بہرہ ور فرمایا۔
اسی مفہوم کو درج ذیل الفاظ میں مزید اجاگر کیا گیا ہے:
اللّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّوُرِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَوْلِيَآؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَo
’’اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے، اور جو لوگ کافر ہیں ان کے حمایتی شیطان ہیں، وہ انہیں (حق کی) روشنی سے نکال کر (باطل کی ) تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں، یہی لوگ جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
البقرۃ، 2: 257
یعنی شیطانی اور رحمانی قوتیں دونوں اپنی اپنی جگہ مصروف عمل ہیں۔ ایک قوت مخلوق کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے اور دوسری ضرر رسانی کی کاوشوں میں مگن ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ سے پہلے ہر پیغمبر کو نوعِ انسانی کی بہتری اور فلاح کیلئے مبعوث کیا گیا جبکہ کفار و مشرکین اور ابلیسی قوتیں فلاح کے ان راستوں سے انسان کو بہکانے پر تلی ہوئی ہیں اور بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ ’’ازل سے تا امروز چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی کی ستیزہ کاریاں‘‘ جاری ہیں۔
پس اس عالمِ اسباب میں کوئی فائدے کا باعث بنتا ہے اور کوئی نقصان کا۔ وہ اختیار جو ضرر رسانی اور فائدہ بخشی کا باعث ہے اس ذات کے پاس ہے جس نے ہر ایک میں بالقوۃ یہ استعداد پیدا کی کہ وہ کسی کو نفع یانقصان پہنچاسکے۔ تمام رسل، انبیاء اور صلحاء عامۃ الناس کو ہدایت سے بہرور کرنے پر مامور ہوئے۔ جبکہ شیطان اور اس کے حمایتی کفار و مشرکین لوگوں کیلئے نقصان کا باعث ہوئے پس یہ ہر دو گروہ نفع و نقصان کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں کہ چاہے تو لوگ انبیاء و صلحا کی پیروی کرکے ان سے فائدہ حاصل کر لیں یا شیطانی بہکاوے میں آکر خسارہ مول لیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُندٌ مُّحْضَرُونَo فَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَo
’’وہ بت اُن کی مدد کی قدرت نہیں رکھتے اور یہ (کفار و مشرکین) اُن (بتوں) کے لشکر ہوں گے جو (اکٹھے دوزخ میں) حاضر کردیئے جائیں گے۔ پس اُن کی باتیں آپ کو رنجیدہ خاطر نہ کریں، بیشک ہم جانتے ہیں جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔‘‘
یٰسین، 36: 75۔76
اس آیتِ مبارکہ میں معبودانِ باطلہ کی مدد کی طاقت نہ رکھنے سے مراد ان کی قدرت اور ملکیت کی نفی ہے۔
لفظِ مالک قرآن مجید میں حقیقی معنی میں اللہ رب العزت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ سورہِ فاتحہ میں ارشاد ہوا:
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِo
’’(اللہ ہی) روزِ جزا کا مالک ہے۔‘‘
الفاتحۃ، 1: 3
سورہِ آلِ عمران میں فرمایا:
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَـنْـزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌo
’’(اے حبیب! یوں) عرض کیجئے: اے اللہ ! سلطنت کے مالک! تو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے۔‘‘
آل عمران، 3: 26
ان دونوں آیات میں اللہ رب العزت کی مالکیت اور قدرت کا بیان صراحت سے دوٹوک انداز میں ہوا ہے لیکن قرآن مجید میں ہی دیگر مقامات پر اللہ تعالیٰ نے لفظِ مالک کو مشرکین و منکرین کے لئے بھی استعمال فرمایا ہے، لیکن یہ مالکیت واضح طور پر مجازًا بیان ہوئی ہے، ارشاد ہوا:
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَo
’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اپنے دستِ قدرت سے بنائی ہوئی (مخلوق) میں سے اُن کے لئے چوپائے پیدا کیے تو وہ ان کے مالک ہیں۔‘‘
یٰسین، 36: 71
لفظ مالک کے مجازًا استعمال سے عام ملکیت مراد ہے جب کوئی لفظ مجازی معنیٰ میں آئے تو اس کا شرک کے ساتھ اس لئے کوئی تعلق نہیں رہتا کہ اس مقام پر اس سے حقیقی ملکیت مراد نہیں ہوتی۔
لوگ چیزوں کا مالک ہونے کے باعث ان کے استعمال اور تصرف سے فائدہ اٹھاتے ہیں جیسے بعض لوگ زمین، بعض مکان اوربعض بہت ساری چیزوں کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کے لئے لفظِ مالک کا استعمال شرک نہیں ہو گا کیونکہ اس لفظ کے استعمال سے ان کی حقیقی ملکیت مراد نہیں ہوتی بلکہ مجازی ملکیت ہونے کے اعتبار سے الفاظ بھی مجاز کا معنی دے رہے ہوتے ہیں، اس لئے وہ شرک ہو ہی نہیں سکتا۔
قرآن مجید میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں جیسے سورہِ یوسف میں عزیزِ مصر کو ’’رب‘‘ کہا گیا تو یہ شرک نہ ہوا کیونکہ اس سے مربی اور حکمران مراد ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ لفظ جو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص تھا اگر کبھی مجازاً اور عرفاً استعمال کر لیا جائے تو بھی معنی اور اطلاق مختلف ہونے کی بنا پر شرک نہیں رہتا۔ شرک صرف اسی صورت میں بنتا ہوتا ہے جب اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے مالکیت اور قدرتِ حقیقی مراد لی جائے بصورتِ دیگر نہیں۔
ایک اور مقام پر اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًاo
’’آپ فرما دیں کہ میں تمہارے لئے نہ تو نقصان (یعنی کفر) کا مالک ہوں اور نہ بھلائی (یعنی ایمان) کا (گویا حقیقی مالک اللہ ہے میں تو ذریعہ اور وسیلہ ہوں)۔‘‘
الجن، 72: 21
اس آیت سے اگر کوئی یہ معنی اخذ کرے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی عام انسان کی طرح ایک انسان ہیں اور کسی چیز کے مالک ومختار نہیں تو اسے اس کی بدبختی اور بدعقیدگی کے سوا اور کس چیز پر محمول کیا جائے۔ ایسے شخص کا انجام آخرت میں بجز خسارے کے اور کچھ نہیں ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کردہ اختیارات و تصرفات تمام لوگوں کے لئے نفع رساں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی بلند رتبہ صفات کے حامل ہستی کے اختیارات و تصرفات کا انکار کرنا محض جہالت اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔
اگر عقیدہ یہ ہو کہ فلاں ’’بِاِذْنِ اللہ‘‘ کسی کو نفع دے سکتا ہے اور مشکل میں اس کا مددگار اور کار ساز ہوسکتا ہے تو یہ مجازی معنی میں ہو گا حقیقی معنی میں نہیں اور یہ ہرگز شرک نہیں۔ حضرت علیص کے لئے اردو اور فارسی میں ’’مولا مشکل کشا‘‘ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں تو مجازی طور پر ایسا کہنا جائز ہے۔ اسی طرح اولیاء کرام کو اللہ تعالیٰ کے مقرب ہونے کی بنا پر دنیوی اور اخروی امور میں وسیلہ، مددگار اور کارساز سمجھنا شرک نہیں البتہ اگر کوئی ان کو نفع و نقصان کا بالذات مالک مانتے ہوئے ان سے مدد و نصرت مانگے تو یہ شرک ہو گا اور اگر کسی نے اولیاء کرام کو مددگار مانا اور انہیں سبب اور ذریعہ کے طور پر لیا تو پھر یہ شرک نہیں ہو گا۔
یہاں پر یہ باریک اور نہایت اہم نکتہ ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ مقبولانِ بارگاہِ خداوندی یعنی انبیاء کرام اور اولیاء و صالحین کو مستقل طور پر اس طرح تصرف میں شریک سمجھنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ان کی شرکت کے بغیر دنیا کا نظام نہیں چلا سکتا شرک ہے جیسے سلاطین و امراء اپنے نائبین حکام کے بغیر سلطنت کا انتظام نہیں چلاسکتے اور ان کی بات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کے لئے بھی ایسا عقیدہ رکھا جائے تو یہ شرک ہوگا۔ انبیاء کرام اور اولیاء و صالحین کی محبت اور ادب و تعظیم تو واجب ہے لیکن ان کے اختیار و قدرت میں غُلو کرنا درست نہیں۔ پس افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ ہی صراط مستقیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے نیک اورمتقی بندوں کو اولیاء کہا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا:
أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَo
’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔‘‘
یونس، 10: 62
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اپنے آپ کو اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ولی کہا بلکہ اس کے ساتھ دوسرے مومنین و متقین کو بھی اس لقب سے ملقَّب کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَo
’’بے شک تمہارا (مدد گار) دوست تو اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں۔‘‘
المائدۃ، 5: 55
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات، اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مؤمنین تینوں کو ولی کہا اور اس امر کی تخصیص کرتے ہوئے اِنَّمَا کلمہِ حصر کے تابع کردیا ہے کہ بیشک تمہارا ولی بالذات تو اللہ ہی ہے۔ ولی کا جو معنی اللہ تعالیٰ کے لئے ہے وہی معنی رسول کے لئے اور مؤمنوں کے لئے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مؤمنوں کے لئے بادی النظر میں ایک ہی لفظ استعمال ہوا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ اللہ جل مجدہ پر اس کا اطلاق حقیقی اور دوسروں کے لئے مجازی ہے۔ ’’اِنَّمَا‘‘ محض حرفِ تاکید نہیں بلکہ کلمہِ حصر ہونے کی وجہ سے اس بات کا فائدہ دیتا ہے کہ تمہارا ولی تو صرف اللہ تعالیٰ اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مؤمنین ہیں، مراد یہ ہے کہ تمہارے مدد گاروں میں بس اللہ تعالیٰ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایمان والے ہیں اور چوتھی کوئی ذات نہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ قرآن میں جہاں کسی کے ولی ہونے کی نفی کی گئی ہے وہاں غیر مومنین یعنی کافر، فاسق اور فاجر لوگ ہی مراد ہوں گے۔
آیتِ کریمہ سے لوگوں کو یہ باور کرایا گیا کہ اللہ تعالی کی قدرت میں توحید تبھی ہو گی جب اس سے وہی مراد لیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے مراد لیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی ملکیت مراد ہو گی تو وہ حقیقی، بالذات اور دائمی ہو گی جبکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کے لئے وہ بالذات نہیں بلکہ بالعطاء ہوگی۔ اللہ جل مجدہ کی توحید فی القدرت میں قدرت و ملکیت حقیقی ہے جبکہ دوسروں کے لئے سبب اور وسیلہ کے معنی میں ہے۔ لیکن اس میں نفع یا نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہی کو مانا جائے گا۔ اس کی صفت کا کسی اور پر اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ وہ لامتناہی اور غیر محدود ہے جبکہ مخلوق کے لئے جو بھی معنی لیا جائے گا اس کی حد ہوگی۔ اگر عطا ہے تو عطا کی حد ہو گی خواہ اس کی وسعت ساری کائنات کو ہی کیوں نہ محیط ہو مگر وہ بالذات نہیں بالعطاء ہو گی۔ دائمی نہیں عارضی ہو گی۔ مخلوق حادث ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم ہے جب بھی حادث اور قدیم کا ذکر آئے گا تو مخلوق اور خالق کے حوالے سے تخصیص ہو گی اور یہ بدیہی امر ہے کہ تخصیص کئے بغیر شرک کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا۔
مذکورہ بالا عنوانات اور ان کی وضاحت سے یہ امر واضح ہوا کہ شرک تبھی ہو گا جب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے بالذات فیض پہنچانے، عطا کرنے، نقصان پہنچانے اور کسی مشکل کو دور کرنے کا ذاتی تصرف دائمی طور پر ثابت کیا جائے۔
بدقسمتی سے بعض لوگوں نے انبیاء کرام اور اولیاء عظام کی وہ شانیں جو اللہ رب العزت کی بارگاہ سے انہیں معجزۃً اور کرامۃً عطا کی گئیں ان کو بھی ماننے سے انکار کیا اور ان کے اثبات کو شرک کے ساتھ خلط ملط کر کے ان کی طرف شرک منسوب کر دیا حالانکہ اگر کسی کو بالذات متصرف نہ مانا جائے بلکہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ اس کا اپنا اذن نہیں بلکہ اذنِ الٰہی ہے اور وہ عطائے الٰہی سے کسی امر پر متصرف ہوئے تو ایسا عقیدہ رکھنا ہرگز شرک نہیں۔ صحیح بخاری اور بہت سی کتبِ حدیث میں ایک حدیثِ قدسی ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَمَا يَزَالُ عَبْدِيْ يَتَقَرَّبُ اِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّی اُحِبَّهُ فَاِذَا اَحْبَبْتُه کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِيْ يَسْمَعُ بِهِ، وَ بَصَرَهُ الَّذِيْ يُبْصِرُ بِهِ، وَ يَدَهُ الَّتِيْ يَبْطِشُ بِهَا، وَ رِجْلَهُ الَّتِيْ يَمْشِيْ بِهَا، وَ اِنْ سَاَلَنِيْ لَاُعْطِيَنَّهُ وَ لَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيْذَنَّه.
’’میرا بندہ مسلسل نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے، اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے۔ اس کا ہاتھ بن جاتاہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور اسے عطا فرماتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب التواضع، 5: 385، رقم : 6137
طبرانی، المعجم الکبیر، 8: 206، رقم: 7833
حکیم ترمذی، نوادر الأصول، 2: 232
ابن المبارک، الزھد، 1: 365، قم: 1032
بیہقی، الزھد الکبیر، 2: 269، رقم: 696
اس حدیثِ قدسی کی رو سے وہ مقامِ قرب جو کسی بندہِ مرتضیٰ کو مجاہدہ اور کثرتِ عبادت و نوافل سے حاصل ہو جاتا ہے وہ نہ کسی کافر کو میسر ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی مشرک اور بت پرست کو۔ یہ مقام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، انبیاء علیھم السلام، صحابہ کرامث اور اولیائے کرام کو ہی نصیب ہو سکتا ہے کہ وہ نفلی عبادت کرتے کرتے اور جادہِ سلوک کی منزلیں طے کرتے ہوئے اللہ جل مجدہ کے اتنے قریب ہو جاتے ہیں کہ اس کے محبوب بن جاتے ہیں۔ جب بندہ نیابتِ الہٰیہ کے اس منصب پر فائز کر دیا جاتا ہے تو پھر اللہ رب العزت اس میں اپنا اذن جاری کر دیتا ہے اور وہ ماذونین یعنی صاحبانِ اذن کے زمرے میں شامل ہو جاتا ہے۔ پھر اس مقام پر جو کچھ اس عبدِ الہٰی سے صادر ہوتا ہے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اذن اور اس کی عطاء سے ہوتا ہے اور اس بندے کا ہر عمل اذنِ الٰہی کے تابع ہو جاتا ہے۔
اس کیفیت کو مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یوں بیان فرمایا ہے:
گفتہِِ او گفتہِِ اللہ بود
گرچہ از حلقومِ عبداللہ بود
(اس کا بولنا اللہ تعالیٰ کا بولنا ہو جاتا ہے اگرچہ وہ بولنا اللہ کے بندے کے منہ سے جاری ہوتا ہے۔)
متکلمین، محدثین اور علماء نے اس موضوع پر بہت زیادہ علمی ابحاث کی ہیں اس پر ان کے دو مؤقف سامنے آئے ہیں۔
بعض نے کہا کہ انبیاء علیھم السلام اور اولیائے کرام کے ہاتھوں معجزات و کرامات اور تصرفات صرف اس وقت صادر ہوتے ہیں جب اللہ چاہتا ہے۔ یہ اذنِ الٰہی ان کے لئے دائمی نہیں بلکہ جب کبھی کوئی نیا موقع دوبارہ معجزے یا کرامت کا متقاضی ہو تو پھر نئے سرے سے اذن جاری ہوتا ہے۔ مگر یہ مؤقف کتاب و سنت اور جمہور اہلِ اسلام کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔
اس مؤقف کی تصریح جمہورائمہ، محدثین اور علمائے کرام نے فرمائی ہے۔ اس کی تائید نصوص و شواہد اور قرائن سے بھی ملتی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ
’’اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور (جسے چاہتا ہے نبوت اور حقِ شفاعت سے نوازنے کے لئے) منتخب فرما لیتا ہے، ان (منکر اور مشرک) لوگوں کو (اس امر میں) کوئی مرضی اور اختیار حاصل نہیں ہے۔‘‘
القصص، 28: 68
اللہ تعالیٰ کی عطا سے جب کوئی بندہ اس کا مقرب بن جاتا ہے تو اسے اس درجے سے آگے درجہ ماذونیت پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ اس مقام پر جو اذن اس کی زبان سے جاری ہوتا ہے اسے اگر من جانب اللہ دیکھیں تو وہ معجزات و کرامات قدرتِ الٰہی کا مظہر ہوتے ہیں۔ اگر من جانب العبد دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے درجہء مقربیت و ماذونیت پر فائز ہونے کے باعث، معجزات و تصرفات اور کرامات کا صدور اور اس کی استعداد اس محبوب بندے میںپیدا کر دی جاتی ہیں۔ اس درجہء ماذونیت کی برکات اور ثمرات کی وجہ سے وہ اس درجہ مختار بنا دیئے جاتے ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں مخلوق میں تصرف کرنے کا اختیار عطا فرما دیتا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے فیضیاب ہونے کے بعد پھر بھی مختار بالذات نہیں ہوتے بلکہ بہ عطائے الٰہی اور باذنِ الٰہی مختار ہوتے ہیں چونکہ مقرب ہونے کے باعث ماذون ہیں لہٰذا جب تک ماذون رہیں تب تک مختار بھی رہتے ہیں اس کو قانونی زبان میں اختیارات کی تفویض (Delegation of Powers) کہتے ہیں۔ ایک کام کے لئے جب ایک بار اختیار دے دیا گیا تو اس کے استعمال میں ہر بار اجازت نہیں لینا پڑتی بلکہ یہ اجازت اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک بندہ اس درجہِ ماذونیت پر فائز رہتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے مرتبہِ نبوت و رسالت اور مرتبہِ ولایت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنے تصرفات میں اس قدر مختار ہوتے ہیں کہ بقول حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس مقام پر فائز کر دیئے جاتے ہیں کہ
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
کا مصداق بن جاتے ہیں۔
بعض کلمات کا اطلاق بعض جگہوں میں مختلف معنی دیتا ہے۔ مثلًا لفظِ کُل جب اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو گا تو حقیقی معنی میں ہو گا مگر جب یہ اللہ تعالیٰ کے ماسوا کسی بندہ ِ مرتضیٰ کے لئے استعمال ہو گا تو اضافی معنی میں ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مختارِ کُل اسی معنی میں مراد لیا جاتا ہے۔ جب یہی لفظِ کُل مخلوق کے لئے استعمال ہو تو اس کے اطلاقات اور مفاہیم درجہ بدرجہ بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک چیز کسی دوسری چیز کے مقابلے میں کُل ہے تو وہی چیز کسی دوسری کے مقابلے میں جزو ہوگی۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، اس طرح جیسے ہماری یہ کائنات دنیا کے مقابلے میں کُل ہے مگر یہی کائنات باقی سب کائناتوں کے مقابلے میں جزو ہے۔
انسانی علم جتنا بھی لامحدود اور وسیع ہو جائے وہ ’’ما کان اور ما یکون‘‘ (جو ہو چکا اور جو ہو گا) کی حدود کے اندر ہی رہتا ہے اس سے آگے اس کی حدیں ختم ہوجاتی ہیں۔ یہی ’’کُل‘‘ انسانی علم جب حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کے مقابلے میں رکھا جائے گا تو مخلوق کا سارا علم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کے مقابلے میں محض جزو ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم تمام مخلوق کے علم کو محیط ہو گا۔ مگر جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ’’کُل‘‘ علم اللہ رب العزت کے علم کے مقابل لایا جائے تو یہ اس کا جزو ہو گا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیارات، اختیاراتِ الٰہی کے مقابلے میں جزو اور بعض ہیں جبکہ باقی ساری مخلوق کے اختیارات و تصرفات، اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں جزو ہوں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلی اختیارات و تصرفات اذنِ الٰہی سے جاری ہیں اور قیامت تک جاری رہیں گے اور جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائرہِ ماذونیت میں ہے اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مختارِ کُل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ منصب و درجہ ابدالآباد تک قائم رہے گا۔
توحید فی القدرت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی حاکمیت کا اختیار جس قدر چاہا اپنے انبیاء کو تفویض کر دیا۔ جو دنیاوی اور شرعی امور میں قوانین و ضوابطِ الٰہی کے تابع ہیں۔
قرآن مجید میں ارشادِ الٰہی ہوتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاًo
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔‘‘
النساء، 4: 59
اللہ تعالیٰ نے اولو الامر (بااختیار حاکم اور امیر) کی اطاعت کو فرض قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں ترتیب سے اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بااختیار حاکم (اولو الامر) کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اولو الامر سے مراد وہ امیر ہے جو اسلامی ریاست میں اللہ جل مجدہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کا پابند ہو۔ اس طرح وہ سب سربراہان، حکام اور صاحبانِ اقتدار جن کو اسلامی ریاست مقرر کرے اولو الامر کے زمرے میں آتے ہیں اور وہ سب مشروط الاطاعت ہیں۔ قرآن نے ایک مقام پر کہا ہے کہ سب امر یعنی اختیار اللہ تعالیٰ کا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ
’’فرما دیں کہ سب امر اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘
آل عمران، 3: 154
جبکہ سورہِ نساء کی آیت: 59 میں حکم دیا جا رہا ہے کہ ریاستِ اسلامی کے مقتدر اور مختار صاحبانِ امر کی اطاعت کی جائے اگر تصورات میں تخصیص کئے بغیر عام ڈگر اختیار کی جائے اور خالق و مخلوق کے لئے لفظِ ’’امر‘‘ کو ایک ہی شمار کیا جائے تو انتشار، افراتفری اور عقیدہِ توحید میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک واضح، مناسب اور بر محل نقطہِ نظر اپنایا جائے اور وہ یہی ہے کہ خالقِ کائنات کی طرف ’’امر‘‘ کی نسبت ذاتی طور پر ہے جبکہ مخلوق کی طرف نسبت اس کی طرف سے تفویض کردہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے احکامِ حلّت وحرمت جاری کرنے کا اختیار اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بھی چیز کو اجازت اور رخصت کا اختیار بروئے کار لا کر حلال قرار دے سکتے ہیں اور کسی بھی شے کو منع اور نہی فرما کر حرام میں بدل سکتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ کا فرمان ہے:
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَo
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی پیروی کرتے ہیں جو امّی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیامیں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اور معاش و معاد کے علوم ومعارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف وکمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اوربری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اوران سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر(نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمت آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس(برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
الاعراف، 7: 157
اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں کو حرام قرار دیا اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی حرمت کے احکام میں استثناء پیدا کیا ہے۔ مثلاً وہ جانور جسے شرعی طریقے سے ذبح کیا جائے اس کا کھانا حلال ہے اگر وہ درست طریقے سے ذبح نہ کیا گیا ہو اور اس کی موت واقع ہو گئی تو وہ جانور مردار اور حرام تصور ہو گا۔ اس قرآنی حکم میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استثناء کرتے ہوئے مچھلی اور ٹڈی کو حلال فرمایا۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ: اَلْحُوْتُ وَ الْجَرَادُ.
’’ہمارے لئے دو مردار حلال کئے گئے ہیں: مچھلی اور ٹڈی۔‘‘
ابن ماجۃ، السنن، کتاب الصید، باب صید الحیتان و الجراد، 2: 1073، رقم: 3218
بیہقی، السنن الکبریٰ، 9: 257
ایک اور حدیثِ مبارکہ میں اس استثناء کا ذکر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اس طرح مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ وَ دَمَانِ، فَامَّا الْمَيْتَتَانِ : فَالْحُوْتُ وَالْجَرَادُ، وَ أمَّا الدَّمَانِ: فَالکَبِدُ وَالطِّحَالُ.
’’ہمارے لئے دو مردار اور دو خون حلال کئے گئے ہیں دو مردار تو مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون کلیجی اور تلی ہیں۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 2: 97، رقم: 5723
بیہقی، السنن الکبریٰ، 1: 254، رقم: 1128
بیہقی، شعب الایمان، 5: 21، رقم: 5627
مردار اور خون کی حرمت کا اعلان حکمِ قرآنی ہے جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تشریعی اختیارات سے اس حکم میں استثناء کرتے ہوئے مردار مچھلی، ٹڈی اور خون کلیجی اور تلی کو حلال قرار دیا۔ مچھلی کو ذبح نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی موت فطری طور پر ہوتی ہے۔ پس ہم مچھلی، ٹڈی، کلیجی اور تلی کو جو قرآنی حکم کے مطابق ’’میتۃ اور دم‘‘ کی تعریف میں آتے ہیں، حلال کے طور پر کھاتے ہیں۔ حالانکہ قرآن میں ان اشیاء کی حلت کا استثنائی حکم نہیں دیا گیا۔ یہاں اس بنیادی نکتہ کا فہم ضروری ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطورِ شارع قانون سازی کا اختیار تفویض کیا گیا۔ جس کا ذکر اس آیت مبارکہ میں کیا گیا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت صرف قرآن کے شارح ہی کی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطور شارع (قانون دہندہ) کے قرآن کے علاوہ بھی بعض چیزوں کو حرام و حلال کرنے کا اختیار عطا ہوا۔ یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیغمبرانہ حیثیت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقنّن اور قانون ساز شارع ہونے کی حیثیت کا ہے۔ قرآن نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان دو جہتوں کو جدا جدا بیان کیا ہے۔ بعض شرعی معاملات میں قرآن مجید کا واضح حکم (قانون) موجود نہیں ہے وہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شارع یعنی صاحبِ اختیار فرمان دہندہ کی حیثیت سے قانون سازی کرتے ہیں۔ دوسری حیثیت اللہ تعالیٰ کے قانون پر رائے دہی اور تشریح سازی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اختیار بروئے کار لاتے ہیں۔ اس اعتبار سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ اپنی زبان سے فرما دیں اور جس بات کا اظہار کریں وہ قانون بن جاتا ہے، یہی حاکمانہ حیثیت امر کہلاتی ہے۔
2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیر منصوص احکام میں تشریعی اختیار
یہ ایک بدیہی امر ہے کہ غیر منصوص احکام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تفویض کئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہی اپنے حکم سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شارع مقرر کیا ہے۔ جیسا کہ علامہ ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں:
و قَدْ اَقَامَ اللہ مقام نفسه فی أمر و نهيه و أخباره و بيانه.
’’اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امر، نہی اور خبر دینے اور بیان کرنے میں اپنا نائب مقرر کیا ہے۔‘‘
ابن تیمیہ، الصارم المسلول: 41
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ تفویضِ احکام کے مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ومن ثم عد ائمتنا من خصائصه عليه السلام انه يخص من شآء بما شاء کجعله شهادة خزيمة بن ثابت شهادتين (رواه البخاری) وکترخيصه فی النياحة لأم عطية فی آل فلان خاصة (رواه مسلم) قال النووي للشارع أن يخص من العموم ما شاء وبالتضحية بالعناق لأبي بردة بن نيار وغيره.
’’یہی وجہ ہے کہ ہمارے ائمہ (فقہاء و محدثین) نے اس امر کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں شمار کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کو چاہیں جس حکم کے ساتھ خاص کرلیں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی اکیلی گواہی کو دو گواہوں کے قائم مقام قرار دیا (اس کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ حالانکہ تنازعات یعنی اختلافی معاملات میں قرآنی حکم کے مطابق ایک شخص کی گواہی جائز نہیں) اور اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام عطیہص کو فلاں خاندان کے لئے نوحہ کرنے کی اجازت دے دی (اس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے جب کہ نوحہ کرنے کی ممانعت تھی) اور علامہ نووی نے کہا ہے کہ شارع علیہ السلام کے لئے جائز ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمومِ احکام میں سے جسے چاہیں خاص فرما لیں اور یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبردہ بن نیارص کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سال سے کم عمر کے بکرے کی قربانی کی اجازت عطا فرمائی تھی (جبکہ دوسروں کے لئے ایک سال کی عمر سے کم کی قربانی جائز نہیں ہے)۔‘‘
علی القاری، مرقات المصابیح، 2: 323
علامہ شبیر احمد عثمانی نے بھی صحیح مسلم کی شرح فتح الملہم، (4: 96) میں یہی لکھا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عمومِ احکام میں تشریعی اختیارات من جانب اللہ تفویض کئے گئے ہیں۔
ایک اور حدیثِ مبارکہ محدثینِ کرام اپنی اسانید کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَوْ لَا أَنْ أشُقَّ عَلَی أمّتِيْ أَوْ عَلَی النَّاسِ لَاَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاکِ مع کُلِّ صَلٰوةٍ.
’’اگر مجھ پر اپنی امت یا (فرمایا) لوگوں کا مشقت میں پڑنا گراں نہ گزرتا تو انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب السواک یوم الجمعۃ، 1 : 303 ، رقم: 847
مسلم، الصحیح، کتاب الطہارت، باب السواک، 1: 220، رقم: 252
ترمذی، السنن، ابواب الطہارت، باب ماجاء فی السواک، 1: 34، رقم: 22
ابوحنیفۃ، المسند، 1: 206، روایتہ عن علی بن الحسین
احمد بن حنبل، المسند، 2: 287، رقم: 7845
ائمہ حدیث نے مسواک کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسواک کو امت پر دشوار سمجھتے ہوئے واجب نہ کیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کوئی امر مانع نہیں تھا۔ اس سے یہ امر متحقق ہوا کہ غیر منصوص احکام میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تشریعی اختیارات حاصل ہیں۔ جن قرآنی آیات اور احادیث میں یہ آیا ہے کہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کیا جاسکتا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حلال کردہ احکام کو حرام یا حرام کردہ احکام کو حلال نہیں کیا جا سکتا۔
تفویض کردہ احکام کا معنی منصوص احکام نہیں ہیں بلکہ اس سے غیر منصوص احکام مراد ہیں۔ منصوص احکام میں تو رد و بدل فی الواقع کفر ہے۔ پس منصوص اور غیر منصوص کی تفریق کرنا ضروری ہے ورنہ بہت سی احادیث میں تعارض لازم آئے گا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سی اشیاء کی حرمت اور حلت کو بیان فرمایا ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں نہیں ہے مثلاً درندوں اور گدھوں کے گوشت کی حرمت بھی حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ غیر منصوص احکام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریعی اختیار کا تفویض ہونا مسلمہ امر ہے۔
صحیح بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے کہ ایک شخص روزہ توڑ دیتا ہے جس کا کفارہ از روئے حکم شریعت غلام آزاد کرنا، ساٹھ لگاتار روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے ازروئے شرع کفارہ ادا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ جواب میں عذر پیش کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ اس میں کفارہ ادا کرنے کی ہمت نہیں یعنی وہ نہ غلام آزاد کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور نہ ہی ساٹھ روزے رکھنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو۔ وہ نفی میں جواب دیتا ہے، پھر کہیں سے صدقہ کی کھجوریں آ جاتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے کھجوریں دے کر ارشاد فرماتے ہیں: یہ لے جاؤ اور اسے غرباء میں تقسیم کرو۔ وہ شخص دوبارہ کھڑا ہو کر عرض کرتا ہے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہر مدینہ میں مجھ سے زیادہ غریب کوئی نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر مسکرائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک نظر آنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’یہ کھجوریں لے جاؤ خود بھی کھائو اور اہلِ خانہ کو بھی کھلائو یہی تمہارا کفارہ ہے۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، باب إذا جامع فی رمضان، 2: 684، رقم: 1834
مسلم، الصحیح، کتاب الصیام، باب تغلیظ تحریم الجماع فی نہار رمضان علی الصائم، 2: 781، رقم: 1111
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قانون بنانے اور قانون سے مستثنیٰ کرنے کا مطلق اختیار ہے۔
ثابت ہوا کہ اگر درجہء ماذونیت پر فائز کوئی محبوب بندہ اپنا اختیار ایک دن اور ایک لمحہ کے لئے بروئے کار لایا تو اس اختیار کا اس کے لئے ثابت ہونا شرک نہیں۔ اگر وہ اختیار جو بندہِ مرتضیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بارگاہ ایزدی سے دائمًا عطا کر دیا گیا ہے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ثابت کرنا کیسے شرک ہو گا؟ شرک ایک ایسی چیز ہے جس میں قلت و کثرت کی کوئی قید نہیں۔ جو کام ایک لمحے کے لئے شرک ہے وہ ساری زندگی کے لئے بھی شرک ہے۔
دُعا مومن کا ہتھیار اور عبادت کا مغز ہے۔ یہ بندے کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط و تعلق اور قربت کا ذریعہ ہے۔ دُعا اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے اور بندگانِ خدا کا محبوب عمل بھی۔ اصلًا، حقیقتًا اور شرعاً دُعا اللہ تعالیٰ کے حضور مانگی جاتی ہے اور یہ اسی کے لئے خاص ہے۔ پس توحید فی الدُعا سے مراد یہ ہے کہ فقط اللہ تعالیٰ ہی کو مستجیب الدعوات (دُعائیں قبول کرنے والا) تسلیم کیا جائے۔ اِسی کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلائے جائیں اور شدائد و مصائب اور مشکلات و آلام میں اُسی کے حضور گڑ گڑا کر گریہ و زاری کی جائے۔
فقط اللہ تعالیٰ کو پکارنا اور اس کی بارگاہ میں دُعا کرنا توحید فی الدعا ہے جبکہ اِس کے برعکس غیر اللہ کو حقیقی فریاد رس سمجھ کر اُن سے دعا کرنا شرک فی الدعا ہے۔
دُعا کے حوالے سے ایک عام غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ’’دَعَا يَدْعُو‘‘ کے ذریعے قرآن حکیم میں بہت سے مقامات پر یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًاo
’’پس اللہ کے ساتھ کسی اور کی پرستش مت کیا کروہ۔‘‘
الجن، 72: 18
اسی مضمون پر مشتمل بہت سی آیات سے برخود غلط استدلال کرتے ہوئے یہ نکتہ اٹھایا جاتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء کو نداء ’’یا‘‘ کے ساتھ مخاطب کرنا اور متوجہ کرنا شرک ہے چنانچہ بعض لوگ بتوں کی پرستش کے بارے میں نازل ہونے والی آیات سے مغالطہ پیدا کر کے ان کو اہل اللہ سے منسوب کرتے ہیں۔ اِس مغالطہ آفرینی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ’’دعا یدعو‘‘ کا صحیح معنی و مفہوم نہیں سمجھا۔ اس لئے ضروری ہے کہ دُعا کا معنی اور اس کے اطلاقات کو قرآنی آیات کے تناظر میں صحیح سیاق و سباق سے دیکھا جائے۔
لفظِ دُعا، دَعْوٌ یا دَعْوَۃٌ سے مشتق ہے، جس کا لغوی معنی بلانا یا دعا کرنا ہے۔ قرآن حکیم میں لفظ دُعا تین مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے جو درج ذیل ہیں:
اب ہم بالترتیب مذکورہ بالا تینوں معانی کی مثالیں قرآنِ حکیم سے پیش کرتے ہیں:
دُعا کا پہلا اور معروف معنی دعوت دینا یعنی بُلانا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّهِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَo
’’(اے حبیبِ مکرم!) فرما دیجئے: یہی میری راہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی، اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
یوسف، 12: 108
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ
’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے۔‘‘
(1) النحل، 16: 125
وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ
’’اور ہم نے انہیں (دوزخیوں کا) پیشوا بنا دیا کہ (وہ لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے تھے۔‘‘
(2) القصص، 28: 41
وَيَا قَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِo
’’اور اے میری قوم! مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوںاور تم مجھے دوزخ کی طرف بلاتے ہو۔‘‘
(3) المؤمن، 40: 41
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَo
’’اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے: بیشک میں (اللہ ل اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) فرمانبرداروں میں سے ہوں۔‘‘
(4) حم السجدۃ، 41: 33
كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ
’’مشرکوں پر بہت ہی گراں ہے (وہ توحید کی بات) جس کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں۔‘‘
(5) الشوریٰ، 42: 13
هَاأَنتُمْ هَؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ
’’یاد رکھو تم وہ لوگ ہو جنہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے۔‘‘
(1) محمد، 47: 38
مزید ارشاد ہوا:
وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَاقَكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَo
’’اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے، حالانکہ رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں بلا رہے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان لاؤ اور بیشک (اللہ) تم سے مضبوط عہد لے چکا ہے، اگر تم ایمان لانے والے ہو۔‘‘
(2) الحدید، 57: 8
مذکورہ بالا آیاتِ قرآنی میں دعابمعنی دعوت اِستعمال ہوا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بیان ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم داعی الی اللہ ہیں اور مخلوقِ خدا کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
دَعَا يَدْعُو کا دوسرا اطلاق پکارنا ہے یعنی بعض جگہ دعا یدعو دعا کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت کے حضور اس کے عاجز بندے دعا کرتے ہیں اور وہ ان دعائوں کو قبول کرنے والا ہے۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جب کوئی سائل اپنے ہاتھ اٹھا کر مانگتا ہے تو اس وقت التجا کی صورت میں دعا عبادت شمار ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
’’اور تمہارے رب نے فرمایا ہے تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا۔‘‘
المؤمن، 40: 60
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
(ادعونی) وحدونی قال رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم: الدعاء هو العبادة.
’’ادعونی کا معنی ہے صرف مجھ ہی سے دعا کرو، جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دُعا عبادت ہے۔‘‘
شاہ ولی اللہ ، الفوز الکبیر
اس حدیثِ پاک کی رو سے وہ دُعا شرک ہے جو غیر اللہ سے ہو اور بطورِ عبادت ہو لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ محض پکارنا ہرگز عبادت نہیں۔
ذاتِ باری تعالیٰ حقیقی معین و مغیث اورمددگار ہے۔ قرآن مجید میں سیدنا آدمں سے لے کر حضور نبی اکرم سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کئی انبیاء علیہم السلام کی وہ دعائیں مذکور ہیں جنہیں باری تعالیٰ نے شرفِ قبولیت سے نوازا۔ اسی طرح سابقہ اُمم کے لوگوں کا مختلف احوال میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کا ذکر بھی قرآن مجید میں ملتا ہے۔
قرآنِ حکیم میں جن آیاتِ مبارکہ میں دَعَا يَدْعُوْ بمعنی ’’دعا‘‘ استعمال ہوا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ
’’اسی جگہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی.‘‘
اٰل عمران، 3: 38
2. قُلْ أَرَأَيْتَكُم إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللّهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَo بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَo
’’آپ (ان کافروں سے) فرمائیے: ذرا یہ تو بتاؤ اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا تم پر قیامت آ پہنچے تو کیا (اس وقت عذاب سے بچنے کے لئے) اللہ کے سوا کسی اور کو پکاروگے؟ (بتاؤ) اگر تم سچے ہو۔ (ایسا ہرگز ممکن نہیں) بلکہ تم (اب بھی) اسی (اللہ) کو ہی پکارتے ہو پھر اگر وہ چاہے تو ان (مصیبتوں) کو دور فرما دیتا ہے جن کے لئے تم (اسے) پکارتے ہو اور (اس وقت) تم ان (بتوں) کو بھول جاتے ہو جنہیں (اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہو۔‘‘
الانعام، 6: 40۔ 41
3. قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا
’’ارشاد ہوا: بے شک تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی، سو تم دونوں ثابت قدم رہنا۔‘‘
(2) یونس، 10: 89
قُلِ ادْعُواْ اللّهَ أَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَـنَ أَيًّا مَّا تَدْعُواْ فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى
’’فرما دیجئے کہ اللہ کو پکارو یا رحمان کو پکارو، جس نام سے بھی پکارتے ہو (سب) اچھے نام اسی کے ہیں۔‘‘
(3) بنی اسرائیل، 17: 110
وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُواْ إِلَيْهِ مِن قَبْلُ…
’’اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتا ہے پھر جب (اللہ) اُسے اپنی جانب سے کوئی نعمت بخش دیتا ہے تو وہ اُس (تکلیف) کو بھول جاتا ہے جس کے لئے وہ پہلے دعا کیا کرتا تھا۔‘‘
(4) الزمر، 39: 8
لاَّ يَسْأَمُ الْإِنسَانُ مِن دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِن مَّسَّهُ الشَّرُّ فَيَؤُوسٌ قَنُوطٌo
’’انسان بھلائی مانگنے سے نہیں تھکتا اور اگر اسے برائی پہنچ جاتی ہے تو بہت ہی مایوس، آس اور امید توڑ بیٹھنے والا ہو جاتا ہے۔‘‘
(1) حم السجدہ، 41: 49
وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍo
’’اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی چوڑی دعا کرنیوالا ہوجاتا ہے۔‘‘
(2) حم السجدۃ، 41: 51
فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْo
’’سو انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں (اپنی قوم کے مظالم سے) عاجز ہوں پس تو انتقام لے۔‘‘
(3) القمر، 54: 10
مذکورہ بالا تمام آیات میں دعا کا معنی یہ ہے کہ اللہ رب العزت کو حقیقی معین و مغیث جان کر اُسی سے ہی دُعا کی جائے بلاشک و ریب وہی مجیب الدعوات ہے۔
محاورہِ قرآنی میں یہ بات بڑی عام اور متداول ہے کہ جہاں عبادت کا معنی مراد ہو وہاں قرآن یدعون کا استعمال کرتا ہے اور عموماً جہاں ’’دعا‘‘ من دون اللہ یا مع اللہ کے ساتھ استعمال ہو، وہاں عبادت مراد ہوتی ہے۔ قرآن حکیم میں اس معنی کے حوالے سے کثیر آیات وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:
وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ
’’اور آپ ان (شکستہ دل اور خستہ حال) لوگوں کو (اپنی صحبت و قربت سے) دور نہ کیجئے جو صبح و شام اپنے رب کو صرف اس کی رضا چاہتے ہوئے پکارتے رہتے ہیں۔‘‘
(1) الانعام، 6: 52
قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ
’’فرما دیجئے کہ مجھے اس بات سے روک دیا گیا ہے کہ میں ان (جھوٹے معبودوں) کی عبادت کروں جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو۔‘‘
(2) الانعام، 6: 56
قُلْ أَنَدْعُواْ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَنفَعُنَا وَلاَ يَضُرُّنَا
’’فرما دیجئے: کیا ہم اللہ کے سوا ایسی چیز کی عبادت کریں جو ہمیں نہ (تو) نفع پہنچا سکے اور نہ (ہی) ہمیں نقصان دے سکے۔‘‘
(3) الانعام، 6: 71
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ
’’بے شک جن (بتوں) کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو وہ بھی تمہاری ہی طرح (اللہ کے) مملوک ہیں۔‘‘
(4) الاعراف، 7: 194
فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ مِن شَيْءٍ
’’سو ان کے وہ جھوٹے معبود جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے ان کے کچھ کام نہ آئے۔‘‘
(5) ھود، 11: 101
رَبَّنَا هَـؤُلاَءِ شُرَكَآؤُنَا الَّذِينَ كُنَّا نَدْعُوْاْ مِن دُونِكَ
’’اے ہمارے رب! یہی ہمارے شریک تھے جن کی ہم تجھے چھوڑ کر پرستش کرتے تھے۔‘‘
(1) النحل، 16: 86
لَن نَّدْعُوَاْ مِن دُونِهِ إِلَهًا لَّقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًاo
’’ہم اس کے سوا ہرگز کسی (جھوٹے) معبود کی پرستش نہیں کریں گے (اگر ایسا کریں تو) اس وقت ہم ضرور حق سے ہٹی ہوئی بات کریں گے۔‘‘
(2) الکہف، 18: 14
يَدْعُواْ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنفَعُهُ ذَلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُo يَدْعُواْ لَمَن ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِ لَبِئْسَ الْمَوْلَى وَلَبِئْسَ الْعَشِيرُo
’’وہ (شخص) اللہ کو چھوڑ کر اس (بت) کی عبادت کرتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچا سکے اور نہ ہی اسے نفع پہنچا سکے، یہی تو (بہت) دور کی گمراہی ہے۔ وہ اسے پوجتا ہے جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے، وہ کیا ہی برا مدد گار ہے اور کیا ہی برا ساتھی ہے۔‘‘
(3) الحج، 22: 12۔ 13
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ
’’بیشک جن (بتوں) کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ ہرگز ایک مکھی (بھی) پیدا نہیں کرسکتے اگرچہ وہ سب اس (کام) کیلئے جمع ہوجائیں۔‘‘
(4) الحج، 22: 73
وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ
’’اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش کرتا ہے اس کے پاس اس کی کوئی سند نہیں ہے۔‘‘
(1) المؤمنون: 23: 117
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ
’’اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی پوجا نہیں کرتے اور نہ (ہی) کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے بغیر حق مارنا اللہ نے حرام فرمایا ہے اور نہ (ہی) بدکاری کرتے ہیں۔‘‘
(2) الفرقان، 25: 68
ثُمَّ قِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تُشْرِكُونَo مِن دُونِ اللَّهِ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا بَل لَّمْ نَكُن نَّدْعُواْ مِن قَبْلُ شَيْئًا
’’پھر ان سے کہا جائے گا: کہاں ہیں وہ (بت) جنہیں تم شریک ٹھہراتے تھے۔ اللہ کے سوا، وہ کہیں گے: وہ ہم سے گم ہوگئے بلکہ ہم تو پہلے کسی چیز کی پرستش نہیں کرتے تھے۔‘‘
(3) المؤمن، 40: 73۔ 74
وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَدْعُونَ مِن قَبْلُ
’’اور وہ سب (بت) اُن سے غائب ہو جائیں گے جن کی وہ پہلے پوجا کرتے تھے۔‘‘
(4) حم السجدہ، 41: 48
وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ
’’اور جن کی یہ (کافر لوگ) اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں وہ (تو) شفاعت کا (کوئی) اختیار نہیں رکھتے۔‘‘
(1) الزخرف، 43: 86
مندرجہ بالا تمام آیاتِ مبارکہ کے ایسے مقامات میں جہاں دُعا کا معنی عبادت ہے وہاں اس سے مراد بتوں کی عبادت لی گئی ہے۔ عبادت کے معنی میں دعا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کے لئے جائز نہیں جیسا کہ کفار و مشرکین بتوں کی عبادت کرتے تھے لیکن اس مفہوم کو انبیاء اور اولیاء عظام کو توسلاً پکارنے پر منطبق کرنا صریحاً منشاء قرآن کی خلاف ورزی ہے۔ ایسے مقامات پر جمہور مفسرینِ کرام نے بھی دعا یدعو سے عبادت مراد لیا ہے محض پکارنا نہیں، چند ایک حوالہ جات ملاحظہ کیجئے۔
رئیس المفسرین سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی تفسیر ’’تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس‘‘ میں آیاتِ قرآنی میں دعا یدعو سے مشتق الفاظ جب مِنْ دُوْنِ اللہ کے ساتھ ہوں تو ان کے معانی ’’عبادت و پرستش‘‘ اور مِنْ دُوْنِ اللہِ سے مراد ’’کفار و مشرکین کے بت اور طواغیت‘‘ ہیں۔
1۔ سورۃ الانعام، 6: 56
(اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) تعبدون (مِنْ دُوْنِ اللہِ) من الأوثان.
یہاں تَدْعُوْنَ کا معنی تَعْبُدُوْنَ ہے (یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو) اور مِنْ دُوْنِ اللہِ کا معنی مِنَ الأوْثَانِ (بت) ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تَدْعُوْنَ سے محض پکارنا مراد نہیں لیا بلکہ ان کے نزدیک اس کا معنی عبادت کرنا ہے جبکہ مِنْ دُوْنِ اللہِ کا معنی بت ہیں۔(1)
(1۔4) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
2۔ سورة الانعام، 6: 71
(اَنَدْعُوْ) تأمروننا ان تعبد (مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُنَا) ان عبدناه فی الدنيا و الآخرة (وَلَا يَضُرُّنَا) إن لم نعبده فی الدنيا والآخرة.
أنَدْعُوْا
کا معنی ہے کہ تم ہمیں یہ کہتے ہو کہ ہم اللہ کے سوا ایسی چیز کی عبادت کریں جو ہمیں دنیا اور آخرت میں کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے خواہ ہم عبادت کریں اور نہ ہی ہمیں کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں خواہ ہم ان کی عبادت نہ بھی کریں۔
(1۔4) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
3۔ سورة الانعام، 6: 108
(وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ) يعبدون.
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ
کا معنی ہے اور (اے مسلمانو!) تم ان جھوٹے معبودوں کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں۔
(1۔4) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
یہاں بھی يَدْعُوْنَ کا معنی محض پکارنا نہیں بلکہ يَعْبُدُوْنَ عبادت اور پرستش کرنا، ہے۔
4۔ سورة الأعراف،7: 194
(إِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) تعبدون (مِنْ دُوْنِ اللہِ) من الأصنام.
اس آیت کریمہ میں بھی تَدْعُوْن َ کا معنی تَعْبُدُوْنَ عبادت کرنا اور مِنْ دُوْنِ اللہِ کے معنی مِنَ الْأصْنَامِ یعنی بت ہیں۔
(1۔4) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
5۔ سورة الاعراف، 7: 197
(وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) تعبدون (مِنْ دُوْنِهِ) مِنْ دُوْنِ اللہِ مِنَ الأوثان.
اور جن (بتوں) کو تم اس کے سوا پوجتے ہو۔
(1۔4) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
یہاں بھی تَدْعُوْنَ کا معنی تَعْبُدُوْنَ ہے (جن کی تم عبادت کرتے ہو) اور من دونہ سے مراد أوثان (بت) ہیں۔
6۔ سورة یونس، 10: 106
(وَلَا تَدْعُ) لَا تَعْبُدْ.
(1۔4) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
وَلَا تَدْعُ سے مراد لا تعبد (عبادت نہ کرو) ہے۔7۔ سورة ھود، 11: 101
(يَدْعُوْنَ) يعبدون.
(1۔4) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
يَدْعُونَ کا معنی يَعْبُدُوْنَ (وہ پوجتے تھے) ہے۔8۔ سورة النحل، 16: 86
(کُنَّا نَدْعُوْا) نعبد.
کُنَّا نَدْعُوْا کا معنی کُنَّا نَعْبُدُ (جس کی ہم عبادت کرتے تھے) ہے۔9۔ سورة الکہف، 18: 14
(لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِهِ) لن نعبد من دون اللہ .
لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِهِ کا معنی لَنْ نَعْبُدَ مِنْ دُوْنِ اللہ (ہم اللہ کے سوا ہرگز کسی (جھوٹے) معبود کی عبادت نہیں کریں گے) ہے۔(1۔4) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
10۔ سورة الحج، 22: 12
(يَدْعُوْا) يعبد.
یدعوا کا معنی یعبد (عبادت کرنا ہے) ہے۔(1۔4) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
11۔ سورة الحج، 22: 73
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) تعبدون (مِنْ دُوْنِ اللہِ) من الأوثان.
’’بیشک جن (بتوں) کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔‘‘
(1۔4) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
اس آیت کریمہ میں بھی تدعون کا معنی تعبدون (تم عبادت کرتے ہو)ہے اور من دون اللہ کا معنی من الأوثان (بت) ہے۔
12۔ سورة المؤمنون، 23: 117
(وَمَنْ يَدْعُ) يعبد (مَعَ اللہِ اِلٰهًا اٰخَرَ) من الأوثان.
اور جو شخص اللہ کے سوا بتوں کی عبادت کرتا ہے۔
(1۔4) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
اس آیت میں بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی تفسیر کے مطابق يَدْعُ کا معنی يَعْبُدُ اور اِلٰهًاآخر کا معنی اوثان ہے۔13۔ سورة الفرقان، 25: 68
(وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ) لا يعبدون مع اللہ (اِلٰهًا اٰخَرَ) من الأصنام.
لا يَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ کا معنی لَا يَعْبُدُوْنَ مَعَ اللہِ (وہ لوگ اللہ کے ساتھ عبادت نہیں کرتے) اِلٰهًا اٰخَرَ کا معنی من الأصنام (بتوں میں سے) ہے۔(1۔4) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
14۔ سورة المؤمن، 40: 74
(بَلْ لَّمْ نَکُنْ نَّدْعُوْا) نعبد.
نَّدْعُوْا کا معنی نَعْبُدُ (ہم عبادت نہیں کرتے تھے) ہے۔(1۔3) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
15۔ سورة الزخرف، 43: 86
(وَلَا يَمْلِکُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ) يعبدون (مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ).
’’اور جن کی یہ (کافر لوگ) اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں وہ (تو) شفاعت کا(کوئی) اختیار نہیں رکھتے۔ ‘‘
(1۔3) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
یہاں بھی یدعون کا معنی یعبدون ہے۔
16۔ سورة الجن، 72: 18
(فَـلَا تَدْعُوْا) فلا تعبدوا.
فلا تدعوا کا معنی فلا تعبدوا (پرستش مت کیا کرو) ہے۔(1۔3) تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس
امام بغوی کے نزدیک بھی جب مِنْ دُوْنِ اللہِ کے ساتھ دَعَا يَدْعُوْ کا استعمال ہو تو عبادت کا معنی دیتا ہے۔ سورہ النحل کی آیت 86 کے تحت وہ رقمطراز ہیں:
(کُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِکَ) أربابًا و نَعبدهم.
کُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِکَ
کا معنی ہے وہ جھوٹے معبود جن کی ہم تجھے چھوڑ کر عبادت کرتے تھے۔
(4) بغوی، معالم التنزیل، 3: 81
معروف مفسر امام نسفی کے نزدیک بھی جب تدعون کے الفاظ مِنْ دُوْنِ اللہِ کے ساتھ آئیں تو اس سے مراد عبادت ہوتی ہے۔ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 194 کے تحت وہ لکھتے ہیں:
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ) أی تعبدونهم و تسمونهم آلهة.
(1) نسفی، مدارک التنزیل، 2: 168
اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ
کا معنی ہے (بے شک جن بتوں کی) تم عبادت کرتے ہو اور انہیں معبود سمجھتے ہو۔
امام ابنِ کثیر نے بھی مِنْ دُوْنِ اللہِ کے ساتھ یدعون اور تدعون کا معنی عبادت کیا ہے۔
1۔ سورة ھود، 11: 101
(فَمَآ اَغْنَتْ عَنْهُمْ اٰلِهَتُهُمْ) أوثانهم (الَّتِيْ) يعبدونها و يدعونها (مِنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ شَئٍ) ما نفعوهم ولا انقذهم لما جاء أمر اللہ بإهلاکهم.
فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ اٰلِهَتُهُمْ
سے مراد اوثانھم (ان کے بت) ہے جن کی وہ عبادت کرتے اور پکارتے (مِنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ شَئٍ) کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا انہوں نے کبھی بھی انہیں نفع پہنچایا اور نہ وہ انہیں اس وقت بچا سکے جب اللہ تعالیٰ نے ان کی ہلاکت کا فیصلہ فرمایا۔
(2) ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 2: 460
2۔ سورة الحج، 22: 73
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ يَخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَهُ) أی لو اجتمع جميع ما تعبدون من الأصنام و الانداد علی ان يقدروا علی خلق ذباب واحد.
اس آیت کا معنی ہے یعنی اگر وہ سب بت اور جھوٹے معبود بھی جمع ہو جائیں جن کی تم عبادت کرتے ہو تب بھی وہ اس بات پر قدرت نہیں رکھتے کہ ایک مچھر کی بھی تخلیق کر سکیں۔
(1) ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 235
3۔ سورة المؤمن، 40: 74
(لَمْ نَکُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَيْئًا) أی جحدوا عبادتهم.
اس میں آیت کا معنی ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت بجا لانے کا انکار کیا تو پتہ چلا کہ ہر جگہ’’ دَعَا يَدْعُوْ ‘‘کا معنی محض پکارنا نہیں بلکہ جب وہ مِنْ دُوْنِ اللہِ کے ضمن میں ہو تو قرآنی اصول کے مطابق وہاں اس سے مراد عبادت ہوتی ہے اور یہی شرک ہے۔
(2) ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 4: 88
5۔ تفسیر الجلالین
عالم اسلام کے دینی تدریسی حلقوں میں متداول معروف تفسیر جلالین میں بھی قرآنی اصول کے مطابق مِنْ دُوْنِ اللہِ کے ساتھ یدعون اور تدعون کا معنی عبادت ہے۔
1۔ سورة الانعام، 6: 56
(اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) تعبدون.
اس آیت کریمہ میں تَدْعُوْنَ کا معنی تَعْبُدُوْنَ (تم عبادت کرتے ہو) ہے۔
(1۔5) تفسیر الجلالین
2۔ سورة الاعراف، 7: 194
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) تعبدون.
’’بے شک جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو۔‘‘
(1۔5) تفسیر الجلالین
تَدْعُوْنَ سے مراد تَعْبُدُوْنَ (تم عبادت کرتے ہو) ہے۔3۔ سورة یونس 10: 106
(وَلَا تَدْعُ) تَعْبد.
وَلَا تَدْعُ کا معنی وَلَا تَعْبُدْ (اور تم عبادت نہ کرو) ہے۔(1۔5) تفسیر الجلالین
4۔ سورة ھود، 11: 101
(يَدْعُوْنَ) أی يَعبدون.
يَدْعُوْن َ کا معنی يَعْبُدُوْنَ (عبادت کرتے تھے) ہے۔(1۔5) تفسیر الجلالین
5۔ سورة الحج، 22: 12
(يَدْعُوْا) يعبد (مِنْ دُوْنِ اللہِ) من الصنم (مَا لَا يَضُرُّهُ) إن لم يعبده (وَمَا لَا يَنْفَعُهُ) إن عبده.
يَدْعُوْا کا معنی يَعْبُدُ (عبادت کرتا ہے) ہے مِنْ دُوْنِ اللہِ کا معنی من الصنم (بت) ہےمَا لَا يَضُرُّهُ
کا معنی ہے جو اسے نقصان نہیں پہنچا سکتے اگرچہ عبادت نہ بھی کریں اور وَمَا لَا يَنْفَعُهُ کا معنی (جو اسے نفع نہیں پہنچا سکتے اگرچہ اس کی عبادت بھی کریں) ہے۔
(1۔5) تفسیر الجلالین
6۔ سورة الحج، 22: 73
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ) أی غيره و هم الأصنام.
تَدْعُوْنَ يعنی تَعْبُدُوْنَ (عبادت کرتے ہیں) مِنْ دُوْنِ اللہِ سے، اللہ کے ما سوا بت مراد ہیں۔(1۔3) تفسیر الجلالین
7۔ سورة المؤمن، 40: 74
(مِنْ دُوْنِ اللہِ) معه و هی الأصنام مِنْ دُوْنِ اللہِ سے مراد اصنام (بت) ہیں۔(بَلْ لَّمْ نَکُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَيْئًا) أنکروا عبادتهم إياها.
اس آیتِ کریمہ میں کفار و مشرکین نے بتوں کی عبادت بجا لانے کا انکار کیا ہے محض پکارنے کا نہیں۔
(1۔3) تفسیر الجلالین
8۔ سورة الزخرف، 43: 86
(وَلَا يَمْلِکُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ) يعبدون أی الکفار.
اس آیت میں بھی يَدْعُوْن َ کا معنی يَعْبُدُوْنَ (کفار کا بتوں کی عبادت کرنا) ہے۔
(1۔3) تفسیر الجلالین
9۔ سورة الجن، 72: 18
(وَ اَنَّ الْمَسَاجِدَ) مواضع الصلاة (لِلّٰهِ فَـلَا تَدْعُوْا) فيها (مَعَ اللہِ اَحَدًا) بأن تشرکوا کما کانت اليهود و النصاری اذا دخلوا کنائسهم و بيعهم أشرکوا.
اس آیت کریمہ کا معنی یہ ہے کہ مساجد اللہ کے لئے نماز کی جگہ ہیں بس اس میں اس کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرو، کہ تم اس طرح شرک کرو جس طرح یہود و نصاریٰ جب اپنی عبادت گاہوں میں جاتے تھے اور شرک کرتے تھے۔
(1) تفسیر الجلالین
6۔ تفسیر فتح القدیر
علامہ شوکانی نے بھی اپنی تفسیر ’’فتح القدیر‘‘ میں دَعَا يَدْعُوْ جب مِنْ دُوْنِ اللہِ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی عبادت کیا ہے۔
1۔ سورة الانعام، 6: 56
(قُلْ اِنِّيْ نُهِيْتُ) أمره اللہ سبحانه أن يعود إلی مخاطبة الکفار و يخبرهم بأنه نهی عن عبادة ما يدعونه و يعبدونه من دون اللہ .
قُلْ اِنِّيْ نُهِيْتُ
میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا کہ کفار کی باتوں کا جواب دیا جائے اور انہیں آگاہ کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ان بتوں کو بطور عبادت پکارنے سے منع فرمایا ہے جن کی یہ کفار اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کرتے ہیں۔
(2) شوکانی، فتح القدیر، 2: 122
2۔ سورة الانعام، 6: 71
(قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْن اللہِ) أی کيف ندعوا من دون اللہ أصناما لا تنفعنا بوجه من وجوه النفع إن أردنا منها نفعا و لا نخشی ضرها بوجه من الوجوه، ومن کان هکذا فلا يستحق العبادة.
قُلْ اَنَدْعُوْ مِنْ دُوْنِ اللہِ
سے مراد ہے: ہم کس طرح اللہ تعالیٰ کے سوا ان بتوں کی عبادت کریں جو ہمیں کسی طرح بھی کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے خواہ ہم ان سے کسی نفع کی توقع رکھیں اور نہ ہمیں ان سے کسی قسم کے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ پس جن کی اتنی سی حیثیت ہو وہ ہرگز عبادت کے لائق نہیں ہوسکتے۔
(1) شوکانی، فتح القدیر، 2: 130
3۔ سورة ھود، 11: 101
(فَمَا اَغْنَتْ عَنْهُمْ اٰلِهَتُهُم) أی فما دفعت عنهم أصنامهم التی يعبدونها من دون اللہ شيئا من العذاب.
(فَمَا اَغْنَتْ عَنْهُمْ اٰلِهَتُهُمْ)
سے مراد ہے جن بتوں کی وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا عبادت کرتے تھے وہ ان کفار سے اللہ تعالیٰ کا عذاب نہ ٹال سکے۔
(2) شوکانی، فتح القدیر، 2: 524
4۔ سورة النحل، 16: 86
(الَّذِيْنَ کُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِکَ) أی الذين کنا نعبدهم من دونک.
(اَلَّذِيْنَ کُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنک)
سے مراد ہے: یہی ہمارے شریک تھے ہم تجھے چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے تھے۔
(3) شوکانی، فتح القدیر، 3: 187
5۔ سورة الحج، 22: 12
(يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ) أی يعبد متجاوزا عبادة اللہ الی عبادة الاصنام (مَا لَا يَضُرُّهُ) إن ترک عبادته، (وَلَا يَنْفَعُهُ) إن عبده لکون ذلک المعبود جمادا لا يقدر علی ضرر ولا نفع.
يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ
سے مراد ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے سوا ان بتوں کی عبادت کرتا ہے جو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اگرچہ وہ اس کی عبادت ترک بھی کرے اور نہ وہ بت اسے کوئی نفع پہنچا سکتا ہے خواہ وہ اس کی عبادت بھی کرے اس لئے کہ وہ جس بت کی عبادت کرتا ہے وہ تو ایک بے جان چیز ہے جو نفع و نقصان پہنچانے پر قادر ہی نہیں۔
6۔ سورة الحج، 22: 73
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) والمراد بما يدعونه من دون اللہ : الاصنام التی کانت حول الکعبة و غيرها.
و قيل المراد بهم السعادة الذين صرفوهم عن طاعة اللہ لکونهم أهل الحل والعقد فيهم.
و قيل الشياطين الذين حملوهم علی معصية اللہ، والأول أوفق بالمقام و أظهر فی التمثيل.
’’اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ سے مراد ایک تو وہ بت ہیں جو کعبۃ اللہ کے ارد گرد تھے یا اس کے علاوہ دیگر بت جن کی مشرکین اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے۔
(1) شوکانی، فتح القدیر، 3: 429
دوسرا یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سے وہ سردار اور وڈیرے مراد ہیں جنہوں نے لوگوں کو اللہ کی اطاعت سے روکا کیونکہ وہی ان کے ارباب بست و کشاد تھے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سے مراد وہ شیاطین ہیں جنہوں نے ان کو اللہ کی معصیت پر ابھارا۔ مذکورہ معانی میں سے پہلا معنی مقام و محل اور تمثیل کے اعتبار سے زیادہ موافق ہے۔‘‘
7۔ سورة المؤمنون، 23: 117
(وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰهًا اٰخَرَ) يعبده مع اللہ أو يعبده وحده.
وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰهًا اٰخَرَ
سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے ساتھ کسی اور بت کی عبادت کرتا ہے یا اکیلے صرف بت کی عبادت کرتا ہے۔
(1) شوکانی، فتح القدیر، 3: 501
8۔ سورة المؤمن، 40: 74
(بَلْ لَّمْ نَکُنْ نَدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَيْئًا) أی لم نکن نعبد شيئا.
بَلْ لَّمْ نَکُنْ نَدْعُوا مِنْ قَبْلُ شَيْئًا
سے مراد ہے: ہم تو پہلے کسی بھی چیز کی عبادت نہیں کرتے تھے۔
(2) شوکانی، فتح القدیر، 4: 502
9۔ سورة الزخرف، 43: 86
(وَلَا يَمْلِکُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ) أی لا يملک من يدعونه من دون اللہ من الأصنام.
وَلَا يَمْلِکُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ
سے مراد ہے: یہ کفار اللہ کے سوا جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ (تو شفاعت کا) اختیار نہیںرکھتے۔
(3) شوکانی، فتح القدیر، 4: 567
7۔ تفسیر روح المعانی
امام محمود آلوسی بھی اپنی تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں مِنْ دُوْنِ اللہِ کے ساتھ دَعَا يَدْعُوْ کا معنی عبادت کرتے ہیں۔
1۔ سورة الانعام،6: 56
(تَدْعُوْنَ) أی تعبدونهم.
تَدْعُوْنَ کا معنی تَعْبُدُوْنَهُمْ ( تم ان بتوں کی عبادت کرتے ہو) ہے۔(1) آلوسی، روح المعانی، 7: 168
2۔ سورة الاعراف،7: 194
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) … أی ان الذين تعبدونهم (مِنْ دُوْنِ اللہِ).
اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْن
َ کا معنی ہے یعنی بے شک جن بتوں کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔
(2) آلوسی، روح المعانی، 9: 143
3۔ سورة الجن،72: 18
(فَـلَا تَدْعُوْا) اَيْ فَـلَا تعبدوا فيها.
فَـلَا تَدْعُوْا
یعنی مسجدوں میں اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت مت کیا کرو۔
(3) آلوسی، روح المعانی، 29: 104
8۔ الفوز الکبیر
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ برصغیر پاک و ہند کے ان علماء ربانیین میں سے ہیںجو غیر متنازع شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ہر مسلک کے مسلمانوں کے ہاں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ علوم القرآن پر ان کی اتنی گرفت ہے کہ ان کی تصنیف لطیف ’’الفوز الکبیر‘‘ سند کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی کتاب میں انہوں نے قرآنی اصول کا تعین کرتے ہوئے بطور نمونہ چند ایک آیات کے معانی بھی بیان کئے ہیں چنانچہ سورۃ الانعام، 6: 56 کے تحت وہ لکھتے ہیں:
(تَدْعُوْنَ مِن دُوْنِ اللہِ) تَعْبُدُوْنَ.
تَدْعُوْنَ مِن دُوْنِ اللہِ کا معنی ہے: جن کی تم اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ یہاں انہوں نے بعض لوگوں کی طرف سے پیدا کردہ اس مغالطے کا رد کر دیا جو آیات کی غلط تفسیر و تاویل کرکے محض کسی کو پکارنے پر شرک کا فتوی لگادیتے ہیں۔ وہ اپنے استدلال کی بنیاد یہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن میں ’’تدعون‘‘ آیا ہے تعبدون نہیں۔
(1) شاہ ولی اللہ ، الفوز الکبیر: 130
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی قرآن کے ایسے مقامات پر تَدْعُوْنَ / يَدْعُوْنَ کا معنی تَعْبُدُوْنَ اور يَعْبُدُوْن یعنی عبادت و پرستش ہے۔
قرآن حکیم میں وارد شدہ الفاظ کے صحیح اور درست معنی کا تعین وہ شخص کر سکتا ہے جس نے قرآن مجید کا عمیق اور گہرا مطالعہ کیا ہو اور جسے علوم القرآن پر دسترس حاصل ہو۔ پس وہ اکابر ائمہ و مفسرین جو علماء ربانیین میں سے ہیں اور علومِ قرآن میں جن کی تحقیق و مہارت میں کسی کو شک و شبہ نہیں انہوں نے جو معانی و مفاہیم متعین کئے اس پر کسی سطحی علم رکھنے والے شخص کی رائے کا کوئی وزن نہیں۔
آیات کی غلط تفسیر و تاویل کے ذریعے ممانعت کا اطلاق استغاثہ اور توسُّل جیسے جائز شرعی امور پر نہیںکیا جا سکتا۔ کفار و مشرکین بزعمِ خویش اللہ جل مجدہ کے خلاف اپنے جھوٹے معبودوں اور بتوں کو پکارتے تھے لہٰذا اگر کوئی عقیدتاً (معاذ اللہ ) اللہ کے مقابلے میں کسی کو پکارے تو یہ شرک اور کفر ہے۔
امام سیوطی (سورہِ یونس، 10: 38) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
( وَ ادْعُوْا) لِلْإعانة عليه.
’’تم اللہ کے مقابلے میں اپنے جھوٹے معبودوں کو پکارو۔‘‘
(1) تفسیر الجلالین
جب ہم انبیاء اور اولیاء سے استعانت و استغاثہ کی بات کرتے ہیں تو کبھی بھی انہیں اللہ کے مقابلے میں نہیں لاتے۔ بعض لوگ جن آیات کا حوالہ دے کر شرک کا الزام لگاتے ہیں ان کا سیاق و سباق دیکھنے سے اس بات کا صاف پتا چلتا ہے کہ یہ آیات کفار و مشرکین کیلئے نازل ہوئی ہیں اور ان کا انبیاء علیہم السلام کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں۔ لہٰذا ان کا اطلاق مسلمانوں پر کرنا صریحاً گناہ ہے۔ اجل مفسّرین کے نزدیک روئے زمین پر بد ترین مخلوق وہ ہیں جو کفار اور مشرکین کے حق میں اتری ہوئی آیات کا مسلمانوں اور مومنین پر اطلاق کرتے ہیں۔
اِستعانت و استغاثہ کی صورت میں نبی یا ولی کے توسُّل سے جو دعا مانگی جاتی ہے وہ شرعاً بالکل جائز ہے منافی توحید نہیں کیونکہ اس میں اللہ جل مجدہ کے اس برگزیدہ بندے سے دعا کی درخواست کی جاتی ہے۔ اس موضوع پر آئندہ ابواب توسُّل اور استعانت کے ذیل میں مزید تفصیلات آرہی ہیں۔
توحید فی الدعاء کے باب میں شرک اس وقت ہوتا ہے جب وہ دُعا بمعنی عبادت ہو جیسا کہ کفار و مشرکین کے متعلق قرآن حکیم میں بصراحت ذکر ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر غیر سے عبادت کی نفی کے لئے قرآن مجید میں لفظ مِنْ دُوْنِ اللہِ استعمال ہوا ہے ۔ مِنْ دُوْنِ اللہِ کے استعمال میں حکمت یہ ہے کہ عبادتِ الٰہی کا مقام اتنا اونچا اور ارفع ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کیلئے ثابت نہیں اس لئے کہ معبودانِ باطلہ ’’ادنیٰ ، گھٹیا، کم تر اور حقیر‘‘ ہیں۔ مِنْ دُوْنِ اللہِ کے غیر موزوں اور غلط اطلاقات کی طرح بعض لوگ لفظ دعا کا بھی غلط اطلاق کرتے ہیں اور قرآن میں وارد شدہ ’’دعا‘‘ کا معنی ہر جگہ ’’ندا‘‘ اور ’’پکار‘‘ کرتے ہیں کہ غیر اللہ تعالیٰ کو پکارنا شرک ہے حالانکہ مِنْ دُوْنِ اللہِ کی طرح دَعَا يَدْعُو کا دائرہِ اطلاق اور مراد بھی ہر جگہ سیاق و سباق کے پیشِ نظر متعین کرنا ضروری ہے۔
لہٰذا اگر کوئی بندہِ مؤمن اللہ تعالیٰ کو مستعان و مجیب حقیقی مان کر انبیاء علیہم السلام سے استغاثہ کرے، کسی سے مدد طلب کرے، کسی روحانی شفاخانے سے علاج کروائے یا دم درود اور دعا کیلئے کسی نیک صالح بندے کے پاس جائے تو یہ ہرگز شرک نہیں ہاں اگر وہ شخص یہ عقیدہ رکھے کہ مخلوق بھی اللہ رب العزت کے اذن کے بغیر مستقل، بنفسہ نفع و ضرر کی مالک ہے تو یہ عقیدہ یقینا شرک ہے۔
ایسی تمام آیاتِ مبارکہ کا سیاق و سباق کے حوالے سے جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ مِنْ دُوْنِ اللہِ سے مراد اللہ تعالیٰ کے دشمن (اصنام، بت اور طواغیت وغیرہ) ہیں جن کو مشرکینِ عرب اپنا حاجت روا اور نجات دہندہ سمجھتے تھے اس لئے غیر اللہ کو حقیقتاً حاجت روا سمجھ کر ان سے دُعا کرنا شرک ہے۔
قرآن و حدیث کی رو سے ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کیلئے مجازاً حاجت روا اور مشکل کشا ہو سکتا ہے، مجازی اور عرفی معنی میں ایسا کہہ دینا شرک نہیں کیونکہ حقیقی حاجت روا، کار ساز تو اللہ تعالیٰ ہی کو مانا اور سمجھا جاتا ہے مگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء و اولیاء و صلحاء کے وسیلے سے دعا کرنا مسنون ہے جس کا حکم خود قرآن نے ان الفاظ میں دیا ہے:
وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ
’’اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو۔‘‘
المائدۃ، 5: 35
گذشتہ صفحات میں ہم نے توحید فی الدعا کے تحت دَعَا يَدْعُوْ کے درست اطلاقات کو قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کیا جس سے یہ بات پایہِ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ الفاظ قرآنی کے صحیح مفہوم سمجھنے کے لئے سیاق و سباق اور محاورہِ قرآن کا لحاظ رکھنا بے حد ضروری امر ہے۔ یونہی ہر جگہ الفاظِ قرآنی کا غلط اطلاق کر کے کسی کو مشرک و بدعتی قرار دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔ یہ بات تو ہم شروع میں بیان کرچکے ہیں کہ عقیدہِ توحید اور حقیقتِ شرک کو سمجھنے کیلئے تصورات کا صحیح ادراک نہایت ضروری ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال کے ساتھ تعلیماتِ اسلامی پر عمل پیرا ہوں۔ یہی دین کاتقاضا ہے اور یہی اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منشاء بھی اور اسی میں ہم سب کی نجات ہے۔
توحید فی العلم سے مراد یہ ہے کہ ذاتی، قدیم اور لا متناہی علم کا مالکِ حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہے باقی ہر کسی کا علم اس کی عطا کا مظہر ہے۔
1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ
’’اور غیب کی کنجیاں (یعنی وہ راستے جس سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اسی کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں انہیں اس کے سوا (از خود) کوئی نہیں جانتا۔‘‘
الانعام، 6: 59
2۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَo
’’فرما دیجئے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے اللہ کے (وہ عالم بالذّات ہے) اور نہ ہی وہ یہ خبر رکھتے ہیں کہ وہ (دوبارہ زندہ کر کے) کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘
النمل، 27: 65
ان آیات میں توحید فی العلم کے عقیدے کو متحقق کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب اور عالم بالذات ہے۔ وہ تنہا اور اکیلا ہی اس صفتِ علم سے متصف ہے۔ مخلوق میں سے کوئی بھی از خود موجود و شہادت اور پوشیدہ و غیب کا علم نہیں جانتا۔ یہی توحید فی العلم ہے۔
اللہ تعالیٰ عالم الغیب (از خود غیب کا جاننے والا) ہے، وہ تنہا اور اکیلا ہی اس صفت کا مالک ہے۔ مذکورہ آیات سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ جس علمِ غیب کی نفی اللہ تعالیٰ نے دوسروں کے لئے فرمائی ہے اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی بھی شامل ہے لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے علمِ غیب ثابت کرنا بھی شرک ہے۔ درست عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی حقیقی عالم الغیب ہے اور وہی عالم بالذات ہے کسی اور کے لئے علم غیب حقیقی اور بالذات ثابت کرنا واقعتا شرک ہے۔ مگر ہم انبیاء علیہم السلام اور خصوصاً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مطلع علی الغیب (علمِ غیب سے سرفراز کئے گئے) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے آپ کو ’’مَا کَانَ وَمَا يَکُوْنُ‘‘ کا علم عطا فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ علم اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں چونکہ بالذات اور حقیقی نہیں بلکہ عطائی اور متناہی ہے اس لئے یہ شرک ہرگز نہیں ہوگا۔
آیت مذکورہ بالا میں اس امر کی نفی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کائناتِ انسانی میں کوئی فرد بھی اپنی ذاتی استعداد سے ان اُمورِ غیبیہ پر مطلع نہیں ہوسکتا، ہاں مگر رب ل اپنی مرضی سے جسے چاہتا ہے مطلع کردیتا ہے۔ ان آیات میں ذاتی علم غیب کی نفی اور عطائی کا ثبوت ہے۔
اللہ تعالیٰ جس پر اپنی عنایت اور شفقت فرماتا ہے اس کو اپنے غیب پر مطلع فرمادیتا ہے اور جس کو چاہے مطلع نہ کرے، یہ سب کچھ اس کے اختیار میں ہے یعنی عطا و اطلاع ثابت و جائز ہے۔پس علمِ غیب کا انبیاء علیھم السلام کے لئے ثابت ہونا حق ہے۔
انبیائے کرام علیھم السلام کو علمِ غیب نہ دیا جائے تو نبوت کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا، کیونکہ نبوت دینے کا معنی ہی غیب پر مطلع کرنا ہے۔ یہ امر لفظِ ’’نبی‘‘ کے مادہ اشتقاق سے عیاں ہے۔ نَبِیٌّ، نَبَأٌ سے مشتق ہے جس کا معنی ہے ’’خبر‘‘۔ قرآن مجید میں لفظِ نَبَأ ٌ بمعنی ’’خبر‘‘ کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ وضاحت کے پیشِ نظر دو آیاتِ مبارکہ درج ذیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدۃ میں ارشاد فرمایا:
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ
’’(اے نبی مکرم!) آپ ان لوگوں کو آدم( علیہ السلام ) کے دو بیٹوں (ہابیل وقابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے۔‘‘
المائدۃ، 5: 27
اسی طرح سورۃ ص میں ارشاد فرمایا:
قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌo
’’فرما دیجئے: وہ (قیامت) بہت بڑی خبر ہے۔‘‘
صٓ، 38: 67
اسی لفظِ نَبَأٌ سے نَبِیٌّ اس کا فاعل ہے جس کا معنی ہے ’’خبر دینے والا‘‘۔ خبر ہمیشہ وہی چیز ہوتی ہے جو سننے والے کے لئے نئی ہو اور اسے قبل ازیں اس سے متعلق علم نہ ہو۔ گویا نبی اس ہستی کو کہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ خصوصی علم دیکر مبعوث فرماتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو اس حقیقت کی خبر دے سکے جس سے متعلق اس کی قوم لا علم اور بے خبر ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو انبیاء علیھم السلام کو علم غیب نہ دیا جائے تو نبوت کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا کیونکہ نبوت دینے کا معنی ہی غیب پر مطلع کرنا ہے۔
الغرض علمِ غیب انبیاء علیھم السلام اور مقربین کے لئے تسلیم کرنا ضروری ہے مگر علم غیب ثابت کر کے اس کی بنیاد پر انبیاء علیھم السلام میں سے کسی کو عالم الغیب حقیقی کہنا درست نہیں ہے کیونکہ حقیقی عالم الغیب کی شان فقط اللہ رب العزت کی ہے مثلاً
1۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں اپنے متعلق ارشاد فرمایا:
إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَo
’’میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔‘‘
البقرۃ، 2: 33
2۔ سورۃ الانعام میں فرمایا:
عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُo
’’(وہی) ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے اور وہی بڑا حکمت والا خبردار ہے۔‘‘
الانعام، 6: 73
مذکورہ بالا آیاتِ مبارکہ اور انکی تشریح کی روشنی میں اس بات کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ بلاشبہ حقیقی عالم الغیب ہے لیکن اس نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ میں یہ علم کسی کو عطا نہیں فرماؤں گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے انبیاء و رسل کو جو علم دیا ہے کیا وہ غیب کی خبروں پر مشتمل علم نہیں؟ وحی کے ذریعے ملنے والا علم قطعی اور دائمی علم ہے تو یہاں اس نفی کا مفہوم کیا ہوگا، اس سوال کا جواب آیات و احادیث کے علاوہ ائمہ مفسرین کی آراء سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاo
’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوںکے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصہِ نبوت اور معجزہِ رسالت ہے)، تو بیشک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لئے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے۔‘‘
الجن، 72: 26۔27
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَo
’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگے۔‘‘
التوبۃ، 9: 33
اس آیت کریمہ میں لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ کا معنی ہے ’’تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر دین (والے) پر غالب کردے۔‘‘ عربی قاعدے کی رو سے جب اِظْہَار کے ساتھ عَلٰی بطورِ صلہ آئے تو اس کا معنی ’’غلبہ و تسلط‘‘ ہوتا ہے۔
پس اس قاعدہ کی رو سے یہاں بھی اظہار کا عَلٰی کے ساتھ آنے کی وجہ سے مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے غیب پر کسی کو غالب نہیں ہونے دیتا یعنی اس کے غیب پر کوئی مسلط اور حاوی نہیں ہو سکتا، کسی کو تصرف اور غلبہ پانے کی قدرت نہیں ہے۔ وہ غیب کے علم کا نہ صرف جاننے والا ہے بلکہ غیب کے علم کا مالک بھی ہے۔ وہ ایسا مالک ہے کہ اس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں۔ مخلوق میں سے کسی کو یہ طاقت اور قدرت حاصل نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اذن اور اس کے عطا کئے بغیر اس کا علم لے سکے اور نہ کوئی ازخود عالم بالذات بن سکتا ہے۔
2۔ سورئہِ آل عمران میں اطلاع علی الغیب کے اثبات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌo
’’اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لئے) چن لیتا ہے۔ سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ، اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقوی اختیار کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے۔‘‘
آل عمران، 3: 179
اس آیت میں روئے خطاب کفار، مشرکین، عام انسانوں اور بالخصوص منکرین کی طرف ہے کہ لوگو! اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہی نہیں ہے کہ وہ تمہیں علم غیب پر مطلع کر دے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول ہے:
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىo
’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اللہ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)۔‘‘
النجم، 53: 39
علم اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ ترین نعمت ہے۔ یہ انسانیت کا امتیاز اور وجہِ شرف و تکریم ہے۔ کوئی چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے وہ اسی قدر مشکل الحصول بھی ہوتی ہے۔ یہی علم تو ہے جس کی بناء پر اللہ رب العزت نے انسان کو فرشتوں پر فوقیت عطا فرمائی لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کو بھی دوسری نعمتوں کی طرح محنت و اہلیت کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ یہ تو عام علم کی بات ہے رہا علم لدنی اور علم حقائق الاشیاء یعنی معرفت تو اس کے لئے اہلیت صرف اور صرف اس کے فضل کی مرہونِ منت ہے۔ جہاں تک تعلق ہے غیب کے علم کا تو علم کے باب میں غیب کی ڈگری سب سے اونچی ڈگری ہے جو اس کا اہل ہو گا وہی ڈگری لے گا اس کے برعکس کی مثال ایسے ہے جیسے پرائمری کلاس کے طالبعلم کوماسٹر کی ڈگری دے دی جائے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ جو طالبعلم میٹرک پاس بھی نہیں اور وہ کہے کہ مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری دے دو؟ اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ ہر ایک کو مطلع علی الغیب کے درجہ پر فائز نہیں کرتا۔ وہ عوام میں سے ہر ایک کو اولو الامر نہیں بناتا، یہ اس کی شان نہیں۔ اس کی شان یہ ہے:
يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ
وہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے غیب کے لئے منتخب کر لیتا ہے، مجتبیٰ بنا لیتا ہے۔ سورۃ جن میں مرتضیٰ فرمایا اور یہاں مجتبیٰ۔ وہ فرماتا ہے! میں نے تمہیں مجتبیٰ قرار دے دیا اور (تمہیں علم غیب دے دیا) اب تم امت میں سے جسے پسند کرو علم غیب دے دو۔
3۔ سورئہِ آل عمران میں فرمایا:
ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيكَ
’’(اے محبوب) یہ غیب کی خبریں ہیں جوہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں۔‘‘
آل عمران، 3: 44
بعض لوگ کٹ حجتی کی بنا پر یہ نکتہ بھی اٹھاتے ہیں کہ جو علم دے دیا جائے وہ غیب نہیں رہتا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے محبوب! یہ جو ہم آپ پر وحی فرما رہے ہیں اور بذریعہ وحی جو علم ہم آپ کو دے رہے ہیں ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ (یہ غیب کی خبریں ہیں) تو اس کے بعد اسے غیب ماننے میں کیا امر مانع ہو سکتا ہے؟ یہ بات ایک نئی بحث اور شوشہ چھوڑنے کے مترادف ہے کہ ’’جو علم دے دیا جائے وہ علم غیب نہیں رہتا۔‘‘ کیا ایسے لوگ خدا سے بھی بڑے معلم ہیں؟ وہ تو خود فرما رہا ہے کہ جو علم ہم نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا غیب ہے لہٰذا علم غیب کی اصطلاح سے انکار کا راستہ فتنہ گری اور دین میں رخنہ اندازی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم الغیب سے انکار جہالت کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کہہ رہا ہے کہ یہ جو ہم اپنے پیغمبر کی طرف وحی فرما رہے ہیں، غیب کی خبریں ہیں۔ گویا نبیوں کو وحی کی صورت میں جو علم ملتا ہے وہ غیب ہی تو ہوتا ہے۔
4۔ اسی مضمون کو سورئہِ ہود میں یوں بیان فرمایا:
تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ
’’یہ (بیان ان) غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔‘‘
ھود،11: 49
قرآن میں علمِ غیب پر مشتمل ایک ہی مضمون دو جگہ دو صیغوں کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ دونوں آیات میں پُرلطف بات یہ ہے کہ روئے سخن اور صیغہِ خطاب رسولِ محتشم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہے کہ اے محبوب! ان خبروں کا نزول آپ پر غیب سے ہو رہا ہے اور آپ کو علم بالوحی کے ذریعے ان سے مطلع کیا جا رہا ہے۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کو عطا کررہے ہیں۔ یہ گویا اس امر کا اعلان ہے کہ علمِ رسول عطائی ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی عطاء سے مطلع علی الغیب ہوگئے۔
مندرجہ بالا سطور میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ حقیقت بیان ہو چکی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے علمی خزانوں اور چشموں کے قاسم و مختار ہیں، اللہ تعالیٰ سے لے رہے ہیں اور مخلوق میں تقسیم کر رہے ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی عطاؤں میں کمی نہیں اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نوازشات میں انقطاع نہیں۔ اسی لئے ارشاد باری ہوا:
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍo
’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لئے کوئی کمی نہیں چھوڑی)۔‘‘
التکویر، 81: 24
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غیب پر اتنا مطلع کیا گیا ہے کہ وہ غیب بتانے میں بخل بھی نہیں کرتے یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف خود غیب جانتے ہیں بلکہ اسے بانٹتے بھی ہیں۔ اس نکتے کو یوں سمجھا جائے کہ جس کے پاس پیسہ ہی نہ ہو، جو خود غریب و مفلس اور کنگال ہو اور کھانے کو بھی نہ ملے وہ کسی کو دے یا نہ دے کوئی اس کے بارے میں یہ تو نہیں کہتا کہ وہ بخیل ہے یا نہیں۔ بخیل تو اسے کہتے ہیں جس کے پاس دولت ہو اور وہ چھپا کر رکھے۔ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے کہ میرا رسول غیب پر بخیل نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنہیں وہ بانٹتے بھی ہیں۔ صرف اپنے لئے چھپا کے نہیں رکھتے بلکہ جو حقدار ہوتا ہے اسے بتا بھی دیتے ہیں۔ قرآن کی آیتوں میں تضاد نہیں ہو سکتا دونوں کلام حق ہیں۔ پس دونوں میں جب تطبیق کریں گے تو فرق سامنے آ جائے گا۔
جب خدا کے غیب جاننے کی بات ہو گی تو بالذات جاننے کی بات ہوگی اور معنی یہ ہو گا کہ بتائے بغیر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ جب کسی بندے کی نسبت غیب بتانے کی بات ہو گی اور اس میں بخل نہ برتنے کی بات ہو گی تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو غیب بتا دیا ہے اور اس کے بتانے سے جانتا ہے اور عطا ہونے سے بانٹتا ہے۔ طالبانِ حق کو دینے میں بخیل نہیں چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک اور آج سے تا قیامت عرفاء و اولیاء اور علماء کے پاس علوم کے جتنے بھی خزانے جمع رہے یا ہوں گے سب کے سب اسی خزانہ علمِ نبوی کا فیضان ہے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ تمام خزائن غیبی کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس میں سے وہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جتنا چاہے عطا کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان امورِ غیبیہ کو کمالِ امانت و دیانت سے آگے پہنچانے میں کوئی بخل نہیں کرتے بلکہ علم الغیب کا سرمایہ اپنی امت میں بانٹ دیتے ہیں۔ امت اس سے مستفید ہوتی رہتی ہے کیونکہ نبی و رسول کا بنیادی فریضہ بھی ایمان بالغیب کی دعوت ہے اس سے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا علم الغیب اپنے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرماتا ہے جو وہ آگے امت کے منتخب افراد کو منتقل کر دیتے ہیں۔
یہاں اللہ کی دو شانیں اجاگر کی گئی ہیں ایک یہ کہ وہ عالم ہے اور دوسرا یہ کہ وہ اس کے ساتھ معلم بھی ہے گویا اللہ سب سے بڑا عالم بھی ہے اور معلم بھی، سورۃ الرحمن میں ارشاد ہوا:
الرَّحْمَنُo عَلَّمَ الْقُرْآنَo
’’(وہ) رحمن ہی ہے۔ جس نے (خود رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) قرآن سکھایا۔‘‘
الرحمن، 55: 1۔2
اللہ تعالیٰ نے اپنا علم انسان کو عطا کردیا اور وہ انسانِ کامل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو تلمیذ الرحمن ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی زیر نگرانی تعلیم و تعلّم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درجہِ کمال کو پہنچ گئے۔ علم الغیب کے باب میں جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقابل دوسرے انبیاء سے کرتے ہیں تو ہم بحیثیت معلّم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقامِ فضیلت کو بیان کرتے ہیں اور اس تناظر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پیغمبرانہ کردار پر بات ہوتی ہے جو علم کو آگے منتقل کرنے سے متعلق ہے۔ ایک اچھا معلم وہ ہے جو اپنے علم کو صرف اپنے تک ہی محدود نہ رکھے بلکہ اسے ایک ورثہ کے طور پر ان لوگوں کو منتقل کرتا رہے جو متلاشیانِ علم ہوں۔ علم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا کمال رکھنے والا شاگرد اور کون ہوسکتا تھا جس کا معلم خود رب کائنات ہو۔ اس سے پہلے جب تک علمِ الٰہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منتقل نہیں ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ نہیں جانتے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنا علمی خزانہ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منتقل کردیا تو پھر وہ علم کے بحرِ ناپیدا کنار کے مالک بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقامِ علم اور وسعتِ علم کا اندازہ کوئی فردِ بشر نہیں کر سکتا۔ کوئی بدبخت ہی ہوگا جو یہ کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ نہیں جانتے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم فلاں حد تک فلاں وقت تک محدود ہے۔ ہاں عطائے الہٰی سے قبل ایسا کہنا ممکن تھا لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تلمیذ الرحمن بن گئے تو پھر کوئی علم ان کی رسائی اور دسترس سے باہر نہ رہا اور ایسی کوئی بات نہ رہی جو وہ نہ جانتے ہوں۔ گویا ذاتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات میں سب سے بلند درجہ مقام علم پر فائز ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انسانیت کے معلّم بن گئے۔ معلّم بھی ایسے کہ ان کے پائے کا پوری کائنات میں ازل سے ابد تک نہ کوئی تھا اور نہ کبھی ہو گا۔
توحید فی العلم کے برعکس شرک فی العلم یہ ہے کہ جس ذاتی، قدیم اور لا متناہی علم کا ثبوت خالصۃً اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لئے ہے غیر کے لئے بھی ویسے ہی علم کے اثبات کا عقیدہ رکھا جائے۔
مخلوق کے لئے ان کے حسبِ حال اور مقام، اللہ رب العزت کی عطا سمجھ کر علم کا ثابت کیا جانا شرک نہیں۔ کیونکہ علم کا سرچشمہ رب العالمین ہے اور وہی اپنی مخلوق کو حسبِ استطاعت و ظرف عطا کرتا ہے۔ اسی نے مخلوق میں سے انبیاء علیھم السلام، اولیائے کرام، علماء اور عوام الناس کو درجہ بہ درجہ ان کے حسبِ حال عطا کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌo
’’اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے۔‘‘
یوسف، 12: 76
اللہ رب العزت خود بھی علیم ہے اور اس نے انسان کو بھی علیم بنایا ہے تاہم ہر انسان کو علم اس کے حسبِ حال عطا ہوتا ہے۔
توحید فی العلم اور شرک فی العلم کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں اور مغالطے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے علمِ غیب کو ثابت کرنا شرک ہے چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم کے باب میں وہ زیادہ بحث علم الغیب کے حوالے سے کرتے ہیں۔ اس مغالطے کو دور کرنے کے لئے آیت الکرسی کا مطالعہ بہت اہم ہے، جس سے اللہ رب العزت کی شانِ علم کا مکمل ادراک ہو جاتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاءَ.
’’جو کچھ مخلوقات کے سامنے (ہو رہا ہے یا ہو چکا) ہے اور جو کچھ ان کے بعد (ہونے والا) ہے (وہ) سب جانتا ہے، اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر وہ چاہے۔‘‘
البقرۃ، 2: 255
بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا علم بحرِ بے کراں ہے جس کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا۔ علم یا تو کُلیات پر محیط ہے یا جزئیات پر۔ اب کوئی یہ دعویٰ تو کرسکتا ہے کہ اس کے پاس جو علم ہے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے علم کا ایک جزو ہے، اگر اللہ رب العزت کا علم سمندر ہے تو اس کا علم محض ایک قطرہ ہے یعنی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے علم کے فیض سے اپنے دامن میں خیرات تو لے سکتا ہے لیکن اللہ رب العزت کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم جو ساری کائنات اور مَا کَانَ وَمَا يَکُونُ یعنی ابتدائے کائنات سے انتہائے کائنات تک، تحت الثریٰ سے فوق العرش تک ہر شے پر حاوی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ کے تحت اللہ تبارک و تعالیٰ کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم بھی اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں محض ایک جزو ہے۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے احاطہِ علم کی نفی فرمائی ہے کہ کوئی متنفس میرے علم میں سے کسی شے کا احاطہ نہیں کر سکتا، بات مطلق علم کی نہیں کہ جو میں جانتا ہوں اسے کوئی اور نہیں جان سکتا۔ اس مقام پر اِلَّا بِمَا شَائَ میں اِلَّا کلمہِ عام ہے یعنی اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے سوائے اس قدر علم کے جو اللہ چاہے اور جس کے لئے چاہے۔ اللہ رب العزت پر کوئی پابندی تو نہیں کہ کتنا چاہتا ہے اور کتنا نہیں چاہتا۔ وہ مالک ہے جسے جتنا چاہے عطا فرمائے۔ وہ کسی سے پوچھ کر عطا کرنے کا پابند تو نہیں۔ لہٰذا اب اس بحث میں پڑنا کہ اس سے مراد کتنا علم ہے اور کتنا نہیں؟ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کتنا علم ہے اور دیگر انبیاء کے پاس کتنا؟ یہ ایک بلاجواز بحث ہے جو بارگاہِ اُلوہیت و رسالت میں گستاخی و بے ادبی کے مترادف ہے۔
اللہ تبارک تعالیٰ نے یہاں خود اپنے علم کے باب میں استثناء پیدا کر دیاکہ مخلوق میں سے کوئی اس کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا سوائے اس قدر علم کے جو اللہ تعالیٰ چاہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہتا ہے، جس قدر چاہتا ہے، اپنی بارگاہ سے علم عطا کرنے کے لئے اسے مستثنیٰ کر دیتا ہے اگر عقلِ سلیم سے کام لیا جائے تو بحث کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود علم کے باب میں استثنائی شق رکھی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا علم خالق ہونے کی شان کے مطابق ہے۔ مخلوق کا کل (Total) علم اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں ایک جزو ہے کیونکہ اللہ رب العزت کا علم غیر محدود اور غیر متناہی ہے۔ اس لئے شرک فی العلم کا سوال ہی خارج از بحث ہے۔ شرک کا ارتکاب تب ممکن ہے اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں شخص کا علم اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر ہے خواہ یہ برابری کا دعویٰ ایک چھوٹے سے جزو میں ہی کیوں نہ ہو اور اگر اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر کسی کا علم ہونے کا کوئی بھی عقیدہ ہی نہیں رکھتا تو پھر شرک کا سوال ہی نہ رہا لہٰذا آیتِ مبارکہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم کے ساتھ کسی اور کے علم کی برابری کے امکان کو بھی ختم کر دیا گیا۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْھِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ فرما کراپنے علم کی دو خاصیتیں اور خوبیاں بیان فرمائی ہیں جو علم الشہادت اور علم الغیب پر مبنی ہیں۔ پھر اگلے حصے میں دو کلیے بیان فرمائے:
جو مخلوق کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے علم الشہادۃ (knoweldge of seen) ہے، اللہ رب العزت اسے جانتا ہے۔ قرآن نے فرمایا:
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ
’’جو کچھ مخلوقات کے سامنے (ہو رہا ہے یا ہوچکا ہے وہ) سب جانتا ہے۔‘‘
اس سے مراد وہ پوشیدہ علم جو مخلوق کی آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے جو پسِ پشت ہو رہا ہے اسے بھی اللہ رب العزت ہی جانتا ہے۔ فرمایا:
وَمَا خَلْفَهُمْ
’’اور جوکچھ ان کے بعد ہونے والا ہے (وہ بھی جانتا ہے)۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ کے علم کی یہ خوبی ہے کہ اس کا علم، علم الشہادت پر بھی محیط ہے اور علم الغیب پر بھی۔ اللہ تعالیٰ کے علم کی یہ دونوں شانیں یکساں ہیں ان میں کوئی فرق نہیں۔ علمِ الٰہی کے باب میں جب کسی کے لئے لَا يَعْلَمُ کی بات آتی ہے تو اس سے دونوں شانیں مراد ہوتی ہیں کہ کوئی بھی شخص ذاتی طور پر نہ علم الشھادۃ حاصل کرسکتا ہے اور نہ بغیر عطائے الٰہی علم الغیب سے آگاہی حاصل کرسکتا ہے۔ یعنی لَا يَعْلَمُ سے مراد لَا يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ اور لَا يَعْلَمُ مَا خَلْفَهُمْ دونوں ہیں۔ اگر کلیہِ عدمِ احاطہ کا اطلاق بغیر استثناء ہر علم پر کیا جائے تو پھر ہر جاننے والا خواہ وہ علم الشہادۃ جانتا ہو یا علم الغیب مشرک قرار پائے گا اور کائنات میں ہر طرف شرک ہی شرک کارفرما ہو جائے گا۔ اس لئے ماننا پڑے گا کہ عطائِ الٰہی اور اذنِ الٰہی کے ساتھ کلیہِ استثناء کا اطلاق عین منشائِ قرآن ہے۔
بعض لوگ کم فہمی کی بناء پر علم الغیب پر شرک کا فتویٰ عائد کر دیتے ہیں جبکہ علم الشہادت پر شرک کا حکم نہیں لگاتے۔ یہ ایک بڑا اعتقادی التباس اور ناقابلِ معافی علمی خیانت ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا اپنے علم کے بارے میں یہ فرمان تو نہیں کہ جو پردئہ غیب میں ہوتا ہے میں صرف وہ جانتا ہوں۔ اس کا فرمان تو یہ ہے کہ جو سامنے ہوتا ہے وہ بھی میں جانتا ہوں اور جو آنکھوں سے پوشیدہ ہوتا ہے وہ بھی۔ اللہ رب العزت نے تو اپنے علم کی دونوں قسمیں برابر بیان کی ہیں۔ آیت الکرسی کے علاوہ قرآن مجید کے اور مقامات سے اس پر چند آیات مبارکہ درج ذیل ہیں۔
1۔ سورۃ طہٰ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق علم الشہادۃ اور علم الغیب کے بارے میں فرمایا:
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًاo
’’وہ ان (سب چیزوں) کو جانتا ہے جو ان کے آگے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں اور وہ (اپنے ) علم سے اس (کے علم) کا احاطہ نہیں کر سکتے۔‘‘
طہ، 20: 110
2۔ سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَo
’’وہ (اللہ ) ان چیزوں کو جانتا ہے جو ان کے سامنے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں اور وہ (اس کے حضور) سفارش بھی نہیں کرتے مگر اس کے لئے (کرتے ہیں) جس سے وہ خوش ہوگیا ہو اور وہ اس کی ہیبت و جلال سے خائف رہتے ہیں۔‘‘
الانبیائ، 21: 28
2۔ سورۃ الحج میں ارشاد فرمایا:
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُo
’’وہ ان (چیزوں) کو (خوب) جانتا ہے جو ان کے آگے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں، اور تمام کام اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘
الحج، 22: 76
بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے علم کو دو ٹکڑوں میں بانٹ کر صرف ایک ٹکڑے ’’علم الغیب‘‘ کے ساتھ شرک مختص کر دیا گویا ان کی نظر میں غیب کا علم کسی اور کو ہو تو شرک ہے۔ کوئی پوچھے علم الشہادت کو انہوں نے کیوں مستثنیٰ کیا؟ اس پر شرک کا فتویٰ کیوں نہیں لگاتے؟ ان مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی دو خوبیاں اور خاصیتیں بیان فرمائیں۔ پہلے علم الشہادت کا اثبات کیا پھر علم الغیب کا لہٰذا ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ پہلے علم الشہادت کو شرک کا ہدف بنائیں کیونکہ روزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے لاکھوں ایسے واقعات ہمارے اردگرد پوری دنیا میں ہو رہے ہیں جن تک ہمارے علم کی رسائی ہے۔
اگر صرف علم کی رسائی پر ہی شرک کا اطلاق کیا جائے تو پھر نہ کوئی حال کا علم جانے، نہ ماضی کا اور نہ ہی مستقبل کا، نہ کسی کو آنکھوں کے سامنے کی خبر ہو اور نہ آنکھوں کے پیچھے کی خبر ہو تب جا کر اللہ کا علم شرک سے محفوظ ہو سکے گا لہٰذا ہمارے نزدیک یہ ساری تشریح ہی جاہلانہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے واضح اور قطعی طور پر فرما دیا ’’ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ‘‘ یعنی علم الٰہی کے لئے کوئی استثنائی شق نہیں۔ اللہ تعالیٰ تو قادر ہے جو سامنے ہو رہا ہے وہ بھی جانتا ہے اور جو پیچھے ہو رہا ہے اسے بھی جانتا ہے۔ جبکہ مخلوق کو عطاء کرنے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی دو خصوصیات بیان فرمائیں اور دو کلیے واضح کئے وَلَا یُحِيْطُوْنَ کے ذریعے کلیہِ عدم احاطہ اور إِلَّا بِمَا شَآئَ کے ذریعے کلیہِ استثناء متعین فرمایا اور مخلوق کے لئے علم بالعطا کے اثبات کو اپنی مشیت قرار دیا۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس مقام پر علم میں استثناء کی یہ شق علم شہادت کے لئے ہے۔ تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ علم شہادت کے حصول میں کسی پر کوئی قدغن نہیں؟ یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ کوئی شخص جتنا چاہے علمِ شہادت حاصل کر کے مخلوق میں سب سے بڑا عالم بن جائے تو اس سے کوئی شرک واقع نہ ہوا اور اگر کسی نے علمِ غیب کے بارے میں کوئی بات کہہ دی تو وہ شرک کا مرتکب ہوجائے؟ صحیح عقیدہ کے مطابق یہ بات درست نہیں۔ اس کا ادراک وہ شخص کرسکتا ہے جس نے قرآن کا عمیق اور گہرا مطالعہ کیا ہو۔ سو یہاں استثناء علمِ شہادت کے بارے میں ہرگز نہیں کیونکہ مشاہداتی علم حواسِ خمسہ کے ذرائع سے حاصل ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو خود عطا کئے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنا ارشاد ہے:
فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًاo
’’پس ہم نے اسے (یعنی انسان کو ترتیب سے) سننے والا (پھر) دیکھنے والا بنایا ہے۔‘‘
الدھر، 76: 2
جب اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ان ذرائع علم کی بدولت عالم حاضر و شہادۃ کا علم انسان کو مل گیا تو کلیہ استثناء کا اطلاق علم شہادت پر نہیں بلکہ علم غیب پر ہوگا۔ گویا کہ اللہ رب العزت نے یہاں علم الغیب کے بارے میں استثناء کی شق رکھی ہے کہ میرے اذن اور عطاء کے بغیر کوئی علم غیب نہیں جان سکتا۔ جب اس نے خود استثناء پیدا کر کے بعض کو علم غیب عطاء کردیا تو اب شرک تب ہو گا اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ مجھے ذاتی طور پر بغیر عطائے الٰہی کے علم حاصل ہے اور مجھے یہ علم اللہ تعالیٰ یا کسی اور نے عطا نہیں کیا۔ یعنی بغیر اذنِ الٰہی کے ہر چیز جاننے کا دعویٰ شرک ہے۔ یہ صرف غیب کے بارے میں ہی نہیںبلکہ علمِ شہادت میں بھی ذاتی علم کا دعویٰ کرنے والا شرک کا مرتکب ہو گا کیونکہ ذرائع علم اور حواسِ خمسہ کا عطا فرمانے والا بھی اللہ رب العزت ہی ہے لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی برگزیدہ بندہ اذن و عطائے الٰہی سے اپنے لئے علم غیب کا اثبات کرے تو یہ شرک نہیں۔ حضرت عیسیٰں نے علمِ غیب جاننے کا دعویٰ کیا جس کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ارشادِ ربانی ہے:
وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ
’’اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں۔‘‘
آل عمران، 3: 49
اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق شرک دونوں قسم کے علم میں تب واقع ہوگا جب کسی اور کے لئے مطلقاً علم ثابت کیا جائے ورنہ نہیں لہٰذا اب سارا مغالطہ دور ہو جانا چاہئے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اللہ رب العزت کا علمِ غیب ذاتی اور قدیم ہے جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور باقی انبیاء کرام کا علمِ غیب عطائی اور حادث ہے۔
اس ضمن میں التباسات سے بچنے کے لئے چند نکات ذہن نشین کر لینے چاہئیں:
پس ان تین صفات کے ساتھ متصف علم کو اللہ رب العزت کے لئے ثابت کرنا توحید ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے ثابت کرنا شرک ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا علم محض علم نہیں ہے بلکہ وہ علم ہے جو خالق کی شان کے لائق ہے۔ جس علم میں قدرت و تصرف، خالقیت اور احاطہ شامل ہے۔ یہی شان قدرت تصرف اور احاطہ کلی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے لئے ثابت کیا جائے تو شرک ہے۔
پورے قرآن کا مطالعہ کر لیں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے علمِ قدرت اور تصرف کی بات فرمائی کہیںبھی یہ نہیں فرمایا کہ میں علم غیب جانتا ہوں اور کسی کو عطا نہیں کرتا۔ اگر ایک آیت بھی ایسی مل جائے جس میں اللہ رب العزت نے یہ فرمایا ہو کہ میں کسی کو علم غیب پر مطلع نہیں کرتا تو ہم اپنے مؤقف سے دست بردار ہونے کے لئے تیار ہیں۔ پس صحیح عقیدہ یہی ہے کہ علم غیب کا بالذات مالک اللہ رب العزت ہے مگر وہ اپنے برگزیدہ بندوں کو اپنے اذن سے جو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اگر یہ مانا جائے کہ عطا نہ کرنا بھی اس کی توحید میں شامل ہے تو پھر عطائی علم غیب کا اثبات بھی شرک ہوگا مگر اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن میں ایسا کہیں نہیں فرمایا بلکہ اس نے انبیاء کرام کو علمِ غیب عطا فرمایا ہے جیسا کہ درج بالا آیاتِ مبارکہ میں ہم ثابت کر آئے ہیں۔ وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ میں علمِ عطائی کا اثبات ہے
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے علم غیب کی مَفَاتِح (کنجیوں) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کا علم بھی کسی کے پاس نہیں۔ دراصل اس آیت کا غلط ترجمہ اور مفہوم اخذ کرنے کی وجہ سے استدلال بھی غلط کیا جاتا ہے۔
آیتِ مبارکہ مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍo
’’اور غیب کی کُنجیاں (یعنی وہ راستے جس سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اسی کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں انہیں اس کے سوا (ازخود) کوئی نہیں جانتا، اور وہ ہر اس چیز کو (بلاواسطہ) جانتا ہے جو خشکی میں اور دریائوں میں ہے، اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر (یہ کہ) وہ اسے جانتا ہے اور نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی (ایسا) دانہ ہے اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)۔‘‘
الانعام، 6: 59
اس آیت کے کلمات ’’وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ‘‘ (اور غیب کی کُنجیاں اسی کے پاس ہیں انہیں اس کے سوا (ازخود) کوئی نہیں جانتا) قابلِ غور ہیں۔ اگر اس سے مراد یہ ہو کہ اس نے غیب کسی کو دینا ہی نہیں تو پھر غیب کے علم کی کنجیاں بنانے کا مقصد کیا ہے؟ اور پھر ایسا تالہ لگانے کا کیا جواز جس کی کنجی ہی کسی کو نہیں دینی؟ اس سے یہ پتہ چلا کہ جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے میرے پاس علمِ غیب کی کنجیاں ہیں تو دراصل وہ یہ بتانا چاہتاہے کہ میں جس کے لئے چاہتا ہوں اسے کنجی سے کھول کر علمِ غیب دے دیتا ہوں۔ پس کنجی کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر علم غیب کسی پر نہ کھولی جانے والی چیز ہوتی تو اس کے لئے کنجیوں کا لفظ استعمال ہی نہ کیا جاتا۔ اللہ رب العزت نے یہ فرما کر اشارہ کر دیا کہ میری مرضی پر منحصر ہے جس کے لئے چاہوں غیبی علم کا خزانہ کھول دوں اور جس کے لئے چاہوں بند کر دوں۔ ثابت ہوا کہ جن کو علم غیب نہیں دینا ان کے لئے قفل ہے اور جن کو عطا کردیا گیا ہے ان کے لئے کنجیاں ہیں۔ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ َ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مرضی ہے جسے چاہے خزانہِ علم سے دامن بھردے اور جسے چاہے محروم رکھے۔ جس کو جتنا چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے۔ اسے کسی کے فتویٰ کی کوئی پروا نہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے علم غیب کا خزانہ اپنے پاس رکھا ہے اور چابیاں اپنوں کے لئے رکھی ہوئی ہیں کہ جن کو عطا کرنا چاہے انہیں چابیوں کے ذریعے عطا کردیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں علم الغیب کی نفی نہیں بلکہ اثبات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علمِ غیب کا خزانہ اپنوں کو عطا کرنے کے لئے رکھا ہے۔ ائمہ تفسیر کے مطابق مفاتح وہ راستے اور ذرائع ہیں جن کا مالک بالذات اللہ تعالیٰ ہے جن کے ذریعہ اس کے خزانہِ علم تک پہنچا جاسکتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ آیتِ مذکورہ کے تحت ائمہِ تفسیر کی آراء درج ذیل ہیں:
1۔ امام خازن رحمۃ اللہ علیہ مفاتح الغیب کے بارے میں کہتے ہیں:
يکون المراد منه المفاتيح التي يفتح بها.
’’عِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس وہ چابیاں ہیں جن سے وہ کھولتا ہے۔‘‘یہاں یفتح بہا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جن کے لئے غیب کھولنا چاہتا ہے ان چابیوں کے ذریعہ کھول دیتا ہے۔
امام خازن رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:
و جعل للغيب مفاتيح علی طريق الإستعارة لأن المفاتيح هی التی يتوصل بها إلی ما فی الخزائن المستوثق منها بالإغلاق. فمن علم کيف يفتح بها و يتوصل إلی ما فيها فهو عالم.
’’غیب کی چابیوں کا یہ بیان بہ طریق استعارہ ہے کیونکہ چابیاں وہ آلہ ہیں جن کے ذریعے مقفل خزانے تک پہنچا جاتا ہے۔ پس جسے یہ بات معلوم ہو جائے کہ کس طرح خزانہ کھولا جاتا ہے اور اس تک کیسے رسائی ہوتی ہے تو وہ شخص عالم ہے۔‘‘
(1) تفسیر خازن، 2: 21
اللہ تعالیٰ کا اشارہ اس طرف ہے کہ اس کے پاس غیب کا سربستہ خزانہ ہے جس کا قفل وہ جس کے لئے چاہتا ہے کھولتا ہے اور عطا کرتا ہے۔
2۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان چابیوں سے مراد خزانہِ غیب ہے، وہ لکھتے ہیں:
فاللہ تعالی عنده الغيب، و بيده الطرق الموصلة إليه، لا يملکها إلا هو فمن شاء إطلاعه عليها إطلعه، وَمن شاء حجبه عنها حجبه.
’’اللہ تعالیٰ کے پاس علم الغیب ہے اور اسی کے ہاتھ میں وہ راستے اور ذریعے بھی ہیں (جن کو چابیاں کہا گیا ہے) جن کے ذریعے سے اس خزانہِ غیب تک پہنچا جا سکتاہے۔ ان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے پس وہ جسے اس پر اطلاع کرنا چاہے تو اسے اس پر مطلع کر دیتا ہے اور جسے محروم رکھنا چاہے محروم رکھتا ہے۔‘‘
(2) قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 7: 2
وہ ذرائع جو اس خزانہِ غیب تک پہنچتے ہیں ان ذرائع (چابیوں) کا مالک جس پر چاہے اس خزانہ علمی کو کھول دیتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ان ذرائع تک پہنچنے کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں تو جس کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اس تک پہنچا دیتا ہے۔ ثابت ہوا کہ اس نے علم غیب کا خزانہ اپنے پا س رکھا ہوا ہے اور جن کو وہ علم غیب دینا چاہتا ہے ان کے لئے چابیاں رکھی ہوئی ہیں۔
علامہ زمخشری نے تفسیر الکشاف، امام نسفی نے تفسیر مدارک التنزیل اور امام شوکانی نے تفسیر فتح القدیر میں یہی معنی بیان کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تمثیلاً چابیوں کا ذکر ہی اس لئے کیا تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ ان تک پہنچنے کا راستہ ہے اور اسے کن لوگوں پر کھولا جائے گا اور کن پر نہیں کھولا جائے گا۔ اول الذکر لوگ جن پر یہ خزانہِ غیب کھولا جائے گا وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے مقبول اور پسندیدہ بندے انبیاء و رسل عظام ہیں۔
انبیاء اور اولیاء کو علمِ غیب عطا کیے جانے پر ائمہ کی تصریحات
تمام غیبی علوم کے خزانے کی کنجیاں اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں لیکن وہ جسے چاہے عطا فرماتا ہے۔ سورہِ لقمان کی درج ذیل آیت کے تحت مفسرینِ کرام نے اس کی صراحت کردی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌo
’’بیشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، اور وہی بارش اتارتا ہے، اور جو کچھ رحموں میں ہے وہ جانتا ہے اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا (عمل) کمائے گا اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کس سرزمین پر مرے گا بیشک اللہ خوب جاننے والا ہے، خبر رکھنے والا ہے (یعنی علیم بالذّات ہے اور خبیر للغیر ہے، ازخود ہر شے کا علم رکھتا ہے اور جسے پسند فرمائے باخبر بھی کر دیتا ہے)۔‘‘
(1) لقمٰن، 31: 34
مفسرین کی درج ذیل عبارات سے علم عطائی کی تائید ہوتی ہے۔
1۔ ملا جیون رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے حوالے سے رقمطراز ہیں:
ولک أن تقول أن علم هذه الخمسة و ان کان لا يملکه إلا اللہ لکن يجوز أن يعلمها من يشاء من مُحبّه وأوليائه بقرينة قوله تعالی إن اللہ عليم خبير، علی أن يکون الخبير بمعنی المخبر.
’’اور آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ان پانچ امور کا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مالک نہیں مگر یہ جائز ہے کہ وہ اپنے محبوب بندوں اور دوستوں میں سے جسے چاہے ان امور کا علم عطا فرما دے۔ فرمانِ الٰہی کے اس قرینہ کے باعث کہ ’’بیشک اللہ بہت جاننے والا ہے تو خبیر یہاں بمعنی مخبر (یعنی خبر دینے والا) ہے۔‘‘
(1) تفسیرات احمدیہ: 607۔608
2۔ علامہ صاوی رحمۃ اللہ علیہ آیتِ مذکورہ کے تحت فرماتے ہیں:
(قوله: وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًا) أی من حيث ذاتها و أما باعلام اللہ للعبد فلا مانع منه کالأنبياء و بعض الأولياء... فلا مانع من کون اللہ يطلع بعض عباده الصالحين علی بعض هذه المغيبات فتکون معجزة للنبی و کرامة للولی، ولذالک قال العلماء الحق أنه لم يخرج نبينا من الدنيا حتی أطلعه اللہ علی تلک الخمس.
’’(اللہ تعالیٰ کا ارشاد: اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا (عمل) کمائے گا) اس کا مطلب ہے کہ ذاتی طور پر کوئی نہیں جانتا البتہ اگر اللہ تعالیٰ بندے کو علم عطا فرمائے تو اس کیلئے کچھ مانع نہیں جیسے انبیاء کو اور بعض اولیاء کو۔ اللہ تعالیٰ کیلئے اپنے بعض صالح بندوں کو ان مغیباتِ (خمسہ) میں سے بعض پر اطلاع دینے سے کوئی شے مانع نہیں یہ اطلاع نبی کیلئے بطور معجزہ اور ولی کیلئے بطور کرامت ہوتی ہے۔ پس اسی وجہ سے علماء نے کہا حق بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا سے وصال فرمانے سے قبل ان پانچوں مغیبات سے مطلع فرما دیا تھا۔‘‘
(2) صاوی، حاشیہ الصاوی علی الجلالین، 3: 260
3۔ علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وما روی عن الأنبياء والأولياء من الأخبار عن الغيوب فبتعليم اللہ تعالی إما بطريق الوحی أو بطريق الإلهام والکشف... وکذا أخبر بعض الأولياء عن نزول المطر و أخبر عما فی الرحم من ذکر و أنثی فوقع کما أخبر.
’’جو غیب کی خبریں انبیاء اور اولیاء سے مروی ہیں یہ اللہ تعالی کی تعلیم سے یا وحی کے ذریعہ یا بطریقِ الہام و کشف (مروی ہیں)... اور اسی طرح بعض اولیاء نے بارش کے اترنے کی خبر دی اور بعض نے رحمِ مادر میں لڑکا یا لڑکی کی خبر دی تو ایسے ہی ہوا جیسے انہوں نے خبر دی تھی۔‘‘
(1) اسماعیل حقی، روح البیان 7: 105
سورہِ لقمان کی آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے لفظِ’’ علم‘‘ اور بندے کے لئے لفظِ ’’درایت‘‘ آیا ہے۔ درایت اور علم اگرچہ دونوں الفاظ ’’جاننے‘‘ کا معنی دیتے ہیں جس کی بدولت دونوں کا مفہوم تقریباً ملتا جلتا ہے لیکن عربی زبان کی فصاحت اور قرآنی اسلوب کی لطافت کے باعث دونوں میں فرق ہے۔ درایت میں کوشش اور محنت و سعی اور کسب کا معنی پایا جاتا ہے۔
1۔ علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ شرح بخاری میں لکھتے ہیں:
اذ الدراية اکتساب علم الشئ بحيلة.
’’کسی شے کا علم کسی بھی ذریعہ اور تدبیر سے حاصل کرنا درایت ہے۔‘‘
(2) عینی، عمدة القاری، 1: 293
2۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ لفظِ درایت کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فعنه اشارة إلی أن العبد أن عمل حيلة و بذل فيها وسعه لم يعرف ما هو لاحق به من کسبه و عاقبته، فکيف بغيره ما لم يحصل له علم بتعليم من اللہ تعالی بتوسط الرسل أو بنصب دليل عليه.
’’آیت میں درایت سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ جو بھی تدبیر اختیار کرے اور جتنی بھی کوشش اور طاقت ممکن ہو صرف کردے پھر بھی وہ اپنے بارے میں نہیں جان سکے گا کہ وہ کیا عمل کرے گا اور اس کا خاتمہ اور انجام کب اور کہاں ہوگا۔ تو دوسروں کا عمل اور موت جاننے کی حقیقت تک کیسے رسائی حاصل کر سکتا ہے؟ ہاں اگر انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے حاصل ہونے والی تعلیمِ الٰہی سے یا دلائل کی روشنی میں اللہ تعالیٰ اس کو علم عطا فرمادے تو یہ صورت استثنائی ہے۔‘‘
(1) ثناء اللہ ، التفسیر المظہری، 7: 265
اس سے معلوم ہو اکہ آیت مذکورہ میں بندے کے لئے درایت کی نفی ہے اللہ تعالیٰ کے اپنے منتخب بندوں کو علم عطا کرنے اور امور غیبیہ پر مطلع کرنے کی نفی نہیں۔ ان پانچ چیزوں کا علمِ ذاتی صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے ان کا علم عطا فرما دیتا ہے۔
درج بالا آیتِ مبارکہ کی تائید میں جو احادیثِ مبارکہ وارد ہوئی ہیں ان میں بھی ذاتی علمِ غیب کی نفی ہے نہ کہ عطائی علمِ غیب کی۔
1۔ علامہ عبدالرؤف المناوی رحمۃ اللہ علیہ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر میں حدیثِ بریدہ کے تحت فرماتے ہیں:
خمس لا يعلمهن إلا اللہ علی وجه الإحاطة والشمول کليا وجزئيا، فلا ينافيه إطلاع اللہ تعالیٰ بعض خواصه علی کثير من المغيبات حتی من هذه الخمس لأنها جزئيات معدودة و إنکار المعتزلة لذالک مکابرة.
’’پانچ چیزیں وہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بالاستیعاب اس طرح نہیں جانتا کہ اس کا علم ہر ہر کل اور جز کو محیط اور شامل ہو۔ یہ اللہ تعالی کے اپنے بعض خاص بندوں کو بعض امورِ غیبیہ پر مطلع کرنے کے منافی نہیں حتی کہ ان امورِ خمسہ میں سے کسی پر اطلاع دے دینا بھی اطلاع علی الغیب کے منافی نہیں کیونکہ یہ چند جزئیات ہیں اور معتزلہ کا انکار حق بات کا انکار ہے۔‘‘
(1) مناوی، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، 3: 458
2۔ امام عبدالروف المناوی رحمۃ اللہ علیہ ایک اور حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
أما قوله صلی الله عليه وآله وسلم: لا يعلمها إلا هو، فمفسّر بأنه لا يعلمها أحد بذاته ومن ذاته إلا هو لکن قد تعلم بإعلام اللہ تعالی فإن ثمة من يعلمها.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کہ اللہ کے سوا ان غیوباتِ خمسہ کو کوئی نہیں جانتا سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بالذات ازخود کوئی نہیں جانتا لیکن کبھی توفیق خداوندی سے انہیں جان لیا جاتا ہے بیشک ایسے موجود ہیں جو انہیں جانتے ہیں۔‘‘
(2) مناوی، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، 5: 526
3۔ شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ بالا آیت کی شرح میں فرماتے ہیں :
مراد آنست کہ بے تعلیمِ الہٰی بحسابِ عقل ہیچکس اینہا را نداند آنہا از امور غیب اند کہ جز خدا کسے آن را نداند مگر آنکہ وے تعالی از نزد خود کسے را بداناند بوحی والہام۔
’’اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اطلاع و تعلیمِ الٰہی کے بغیر کوئی شخص محض اپنی عقل کی بنا پر ان کو نہیں جان سکتا۔ یہ وہ غیبی امور ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا مگر جن کو وہ اپنی طرف سے وحی و الہام کے ذریعے اطلاع فرما دے وہ جان سکتا ہے۔‘‘
(1) عبدالحق، اشعة اللمعات، 1: 44
قرآن میں غیر سے علمِ غیب کی نفی اس معنی میں آئی ہے کہ وہ کسی کو غالب نہیں کرتا اور غالب کا معنی ہے کہ کوئی از خود نہیں لے سکتا، جس کو جو بھی ملتا ہے بالعطاء ملتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خزانہِ غیب کا حصہِ کامل عطا کیا گیا
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ رب العزت نے اپنے خزانہ غیب سے حصہ وافر عطا فرمایا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًاo
’’اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کردیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔‘‘
(2) النساء، 4: 113
اس آیتِ مبارکہ میں چند اہم نکات بیان ہوئے ہیں:
1۔ پہلا قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں علم کے حوالے سے دو صیغے استعمال ہوئے ہیں ایک باب ثلاثی مجرد سے عَلِمَ يَعْلَمُ عِلْمًا سے جو مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ (یعنی وہ جو آپ ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے۔) سے عیاں ہے۔ اور دوسرا ثلاثی مزید فیہ کے بابِ تفعیل سے علَّم یُعلِّمُ تَعْلِيْمًا سے جو عَلَّمَکَ (اس نے آپ کوعلم عطا کر دیا ہے) سے آشکار ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب میں بڑی خاص بات یہ ہے کہ وہ علم جو مختلف ذرائع سے حاصل ہو یعنی کسی معلم سے ذاتی طور پر کسب کر کے حاصل کیا جائے۔ اس آیتِ کریمہ میں یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معلّم تو خود ربِ جلیل ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ (آپ کو وہ سب علم عطا کردیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے) کا تاج پہنا کر معلمِ کائنات بنا دیا۔ اس میں علم بالعطاء کا اثبات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر اس چیز کا علم عطا کر دیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالذات نہیں جانتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صفتِ علم سے متصف ہوکر ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت تک اور ما بعد مَا کَانَ وَ مَا يَکُوْنُ کا علم نوعِ انسانی کو منتقل کردیا۔
2۔ اسی کے حوالے سے دوسری خاص بات یہ ہے کہ باب تفعیل میں صیغہ کے ’’ع‘‘ کلمہ پر شد آجاتی ہے جیسے علّمُ یُعلِّمُ، عَزَّمَ یُعَزِّم وغیرہ ۔ اس شدّ کی وجہ سے اس کے معنی میں بنیادی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے اور اس میں سہ جہتی تعلق کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ ایک خود، دوسرا اپنے سے پہلے حرف کے ساتھ اور تیسرا بعد کے حرف کے ساتھ تعلق کا قرینہ پایا جاتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ یہ علم
جمیع انبیاء اولیاء عرفاء اور اہل علم و حکمت از اوّل تا آخر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیض علم و معرفت کے محتاج ہیں۔ ان سب کسبی اور وھبی علوم کا سرچشمہ حقیقی ذاتِ وحدہ لاشریک ہے۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اس شعر میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
کلہم من رسول اللہ ملتمس
غرف من البحر او رشف من الدیم
(سارے کے سارے انبیاء علیہم السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے (علم و معرفت کے) بحرِ بے کراں سے بقدر ایک چلو اور (جود و سخا کی) موسلا دھار بارش سے بقدر ایک قطرئہ آب ملتمس ہیں۔)
3۔ تیسرا قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ عالم ہونے کا مطلب ہے محض جاننے والا جبکہ معلم کا مطلب جاننے والا بھی ہے اور علم کو آگے منتقل کرنے والا بھی ہے۔ جو علم اپنے پاس رکھے اور شاگرد کو نہ دے وہ بخیل اور ناقص معلّم ہے۔ اس لئے کہ ان کا علم ہوتا ہی محدود ہے۔ محدود علم رکھنے والے کو ہزار اندیشے ہوتے ہیں۔ انہیں یہ خوف دامن گیر ہوتا ہے کہ کہیں شاگرد ان کے برابر نہ ہو جائے یا آگے نہ بڑھ جائے مثلاً بلی شیر کو سارے گر سکھاتی ہے درخت پر چڑھنا نہیں سکھاتی اس کے برعکس اللہ تبارک و تعالیٰ کا علم غیر محدود ہے اگر وہ ساری کائنات کا علم بھی اپنے محبوب پیغمبر کو عطا فرما دے تب بھی اس کو کوئی خطرہ نہیں۔ اسی نے تو ارشاد فرمایا ہے:
وَ يُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ
’’اور تمہیں وہ (اسرارِمعرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔‘‘
(1) البقرۃ، 2: 151
وہ علم جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں جانتے تھے اس کا علم بھی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کردیا اور بحیثیت معلم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے علم عطا کرنے پر مامور ہوگئے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت میں پسندیدہ اور برگزیدہ افراد کو وَ يُعَلّمُکُمْ مَالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ کے مصداق فیض عطا فرما رہے ہیں۔ اب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت میں سے جس محب، غلام کو پسند کریں گے ان کو عطا کریں گے۔ اب (عَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ) کی رو سے اللہ رب العزت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرماتا ہے اور اس عطائی علم میں کوئی تخصیص نہیں نہ شہادت کی نہ غیب کی یہ علم کامل ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے وصول کنندہ ہوئے پھر عطا کرنے والے بن گئے اور قیامت تک اس منصب پر فائز رہیں گے۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مستقبل کے اخبار سے بھی مطلع فرمایا تھا، قابلِ غور نکتہ یہ ہوا کہ علم غیب خاصہ الوہیت نہیں جو اسی کے پاس ہو اور مخلوق کو نہ دے۔ یہ خاصہ نہیں بلکہ یہ وہ عام صفت ہے جو اللہ کے پاس ذاتی ہوتی ہے اور وہ جب بندے کو دیتا ہے تو عطائی رنگ اختیار کر لیتی ہے۔
احادیثِ مبارکہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علمِ غیب عطا فرمایا تھا۔ چند ایک احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجئے۔
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ حِيْنَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّی الظُّهْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَذَکَرَ السَّاعَةَ، وَ ذَکَرَ أَنَّ بَيْنَ يَدَيْهَا أُمُوْرًا عِظَاماً، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيئٍ فَلْيَسْأَلْ عَنْهُ: فَوَاللہ لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيئٍ إِلَّا أَخْبَرْتُکُمْ بِهِ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا. قَالَ أَنَسٌ : فَأََکْثَرَ الْأَنْصَارُ الْبُکَائَ، وَ أَکْثَرَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ يَقُوْلَ: سَلُوْنِي. فَقَالَ أَنَسٌ: فَقَامَ اِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ : أَيْنَ مَدْخَلِي يَا رَسُوْلَ اللہِ؟ قَالَ: النَّارُ. فَقَامَ عَبْدُاللہِ بْنُ حُذَافَةَ فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُوْلَ اللہِ؟ قَالَ: أَبُوْکَ حُذَافَةُ. قَالَ: ثُمَّ أَکْثَرَ أَنْ يَقُوْلَ: سَلُوْنِي، سَلُونِي. فَبَرَکَ عُمَرُ عَلَی رُکْبَتَيْهِ فَقَالَ: رَضِيْنَا بِاللہِ رَبًّا، وَبِالإِسْلاَمِ دِيْنًا، وَبِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم رَسُوْلاً. قَالَ: فَسَکَتَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ قَالَ عُمَرُ ذَلِکَ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ، وَأَنَا أُصَلِّي، فَلَمْ أَرَ کَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ.
’’ایک موقع پر جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا: جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، خدا کی قسم میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرماتے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے پوچھ لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! میرا ٹھکانا کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ۔ پھر عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حذافہ۔ حضرت انسص فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو چنانچہ حضرت عمرص گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہوئے۔ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں (ہمیں کچھ نہیں پوچھنا)۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمرص نے یہ گذارش کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان ہے ابھی ابھی اس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب ما یکرہ من کثرۃ السؤال و تکلف ما لایعنیہ، 6: 2660، رقم: 6864
أیضاً، کتاب العلم، باب حسن برک علی رکبتیہ عند الإمام أو المحدث، 1: 47، رقم: 93
مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب توقیرہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وترک إکثار سؤال عما لا ضرورۃ إلیہ، 4: 1832، رقم: 2359
2۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قَامَ فِيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مَقَامًا، فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْئِ الْخَلْقِ حَتَّی دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنَازِلَهُمْ وَأَهْلُ النَّارِ مَنَازِلَهُمْ، حَفِظَ ذَالِکَ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز ہمارے درمیان قیام فرما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہو جانے تک ہمیں سب کچھ بتا دیا۔ جس نے اسے یاد رکھا یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللہ تعالی: وھو الذی یبدأ الخلق ثم یعیدہ وھو أھون علیہ، 3: 1166، رقم: 3020
اس حدیث سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ترین پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماضی اور مستقبل کے تمام احوال و واقعات کی اطلاع فرمائی اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ نبوت کا خاصہ ہے۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں:
فيه دلالته علی أنه أخبر فی المجلس الواحد بجميع أحوال المخلوقات من ابتدائها إلی انتهائها.
’’یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہی مجلس میں مخلوقات کے سارے حالات کی از ابتداء تا انتہاء خبر دے دی۔‘‘
(1) ملا علی قاری، المرقاۃ، 11: 4
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قَامَ فِيْنَا رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم مَقَامًا مَا تَرَکَ شَيْئًا يَکُوْنُ فِي مَقَامِهِ ذَلِکَ إِلَی قِيَامِ السَّاعَةِ اِلَّاحَدَّثَ بِهِ، حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَ نَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ.
’’حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہو کر خطاب فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس دن کھڑے ہونے سے لے کر قیامت تک کی کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان نہ فرمایا ہو۔ جس نے اسے یاد رکھا یاد رکھا اورجو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب إخبار النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیما یکون إلی قیام الساعۃ، 4: 2217، رقم:2891 (عن أبی سعید الخدری ص)
ترمذی، السنن، کتاب الفتن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب ما جاء أخبر النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أصحابہ بما ھو کائن إلی یوم القیامۃ، 4: 483، رقم: 2191
أبوداود، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلھا، 4: 94، رقم:4240
أَخْبَرَنِي رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَا هُوَ کَائِنٌ إِلَی أَنْ تَقُوْمَ السَّاعَةُ. فَمَا مِنْهُ شَيئٌ إِلاَّ قَدْ سَأَلْتُهُ إِلاَّ أَنِّي لَمْ أَسْأَلْهُ مَا يُخْرِجُ أَهْلَ الْمَدِيْنَةِ مِنْ الْمَدِيْنَةِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے قیامت تک رونما ہونے والی ہر ایک بات بتا دی اور کوئی ایسی بات نہ رہی جسے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا نہ ہو البتہ میں نے یہ نہ پوچھا کہ اہلِ مدینہ کو کون سی چیز مدینہ سے نکالے گی۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب إخبار النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیما یکون إلی قیام الساعۃ، 4: 2217، رقم: 2891
حاکم، المستدرک، 4: 472، رقم: 8311
بزار، المسند، 7: 222، رقم: 2795
احمد بن حنبل، المسند، 5: 386، رقم: 23329
طیالسی، المسند، 1: 58، رقم: 433
5۔ حضرت عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
صَلَّی بِنَا رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم الْفَجْرَ. وَ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّی حَضَرَتِ الظُّهْرُ، فَنَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ. فَخَطَبَنَا حَتَّی حَضَرَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ. فَخَطَبَنَا حَتَّی غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَخْبَرَنَا بِمَا کَانَ وَبِمَا هُوَ کَائِنٌ. قَالَ: فَاَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز فجر میں ہمارے امامت فرمائی بعد ازاں منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے تشریف لے آئے نماز پڑھائی بعد ازاں پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا حتی کہ عصر کا وقت ہو گیا، پھر منبر سے نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ہر اس بات کی خبر دے دی جو جو آج تک وقوع پذیر ہو چکی تھی اور جو قیامت تک ہونے والی تھی۔ حضرت عمر و بن اخطب فرماتے ہیں: ہم میں زیادہ جاننے والا وہی ہے جو سب سے زیادہ حافظہ والا تھا۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الفتن و أشراط الساعۃ، باب إخبار النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیما یکون إلی قیام الساعۃ، 4: 2217، رقم: 2892
ترمذی، السنن، کتاب الفتن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب ما جاء ما أخبر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أصحابہ بما ھو کائن إلی یوم القیامۃ، 4: 483، رقم: 2191
ابن حبان، الصحیح، 15: 9، رقم: 6638
حاکم، المستدرک، 4: 533، رقم: 8498
أبویعلی، المسند، 12: 237، رقم: 2844
اس حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سارے واقعات کو جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے ہوچکے تھے اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا بیان فرمادیا۔ صحابہ کرام کے فَاَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا کہنے سے علم کا معیار ثابت ہو گیا، گویا ا ن کا یہ کہنا مقصود تھا کہ ہمارے علم کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کوئی سرچشمہ اور مبد انہیں جو کچھ ملا ہے بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاہے پس جس نے جتنا کچھ یاد رکھا وہ اتنا بڑا عالم ہوگیا اور جس نے جتنا بھلا دیا اتنا ناقص ہو گیا۔
نوٹ: تفصیلی مطالعہ کے لئے ہماری کتاب ’’عقیدہ علم غیب‘‘ کا مطالعہ کیا جائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved