مسئلہ توحید قرآن حکیم کے بنیادی اور اساسی موضوعات میں سے ہے۔ اِس مسئلے کو ثابت کرنے کے لئے اگرچہ قرآن حکیم کی متعدد آیاتِ بینات میں دلائل و براہینِ قاطعہ موجود ہیں لیکن سورۃ الاخلاص میں اللہ رب العزت نے اپنی توحید کا جو جامع تصور عطا فرمایا ہے وہ کسی اور مقام پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورہِ مبارکہ کو سورئہ توحید بھی کہتے ہیں۔ اس سورہ میں توحید کے سات بنیادی ارکان بیان کئے گئے ہیں۔ اگر ان ارکانِ سبعہ کو ملا لیا جائے تو عقیدہِ توحید مکمل ہو جاتا ہے اور اگر ان میں سے کسی ایک رکن کی خلاف ورزی بھی عقیدۃً ہو جائے تو توحید باقی نہیں رہتی۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌo اَللهُ الصَّمَدُo لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْo وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌo
’’(اے نبیِّ مکرّم!) آپ فرما دیجئے: وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔ اللہ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔‘‘
الاخلاص، 112: 1.4
اس سورت میں بیان شدہ توحید کے ارکانِ سبعہ کی تفصیل درج ذیل ہے:
سورہِ اخلاص کا آغاز لفظِ ’’قُل‘‘ سے کیا گیا جس کا معنی ہے: ’’(اے نبیِّ مکرّم!) آپ فرما دیجئے۔‘‘ کیا فرما دیجئے؟
هُوَ اللَّهُ أَحَدٌo
’’وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔‘‘
یہ مختصر مضمون جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یعنی اس کے ایک ہونے کو بیان کر رہا ہے، اس کی وحدتِ مطلقہ کا بیان ہے۔ چونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر برہانِ ناطق ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے پیارے! ہم چاہتے ہیں کہ توحید کا مضمون بیان کرنے کے لئے تیری زبان اِستعمال ہو۔ جو کچھ اس سے نکلے، میری ہستی پر دلالت کرے۔ میرے ایک ہونے کا مضمون اتنا بلند ہے کہ اس کی ادائیگی کا حق تیری زبان سے ہی ادا ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ اے محبوب! مجھے تیری اُمت کو ایمان سے بہرہ ور کرنا ہے مگر اِن کا میری نسبت عقیدہ ِایمان تب متحقق ہوگا جب یہ آپ سے سن کر آپ کی بات کو سچا مان کر مجھے ایک مانیں گے۔
اللہ رب العزت نے سورئہ اخلاص کی ابتداء لفظ قُلْ سے فرمائی۔ لفظِ ’’قُلْ‘‘ عنوانِ رسالت ہے جبکہ عنوانِ توحید ’’ھُوَ اللہ‘‘ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو اللہ کے ہونے کا براہِ راست علم (Direct knowledge) حاصل ہو گیا تو وہ علم ’’وحدانیت‘‘ ہے، عقیدہِ توحید نہیں۔ کیونکہ وہ علم بغیر واسطہِ رسالت کے ہے اور اس میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حوالہ ہی نہیں تھا لہٰذا وحدانیت کا تصور ایمان تب بنتا ہے جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان لانے میں واسطہ و وسیلہ بنیں۔
عقیدہِ توحید کی معرفت کے لئے ایک اہم بات جو ذہن نشین کرنا ضروری ہے جسے بہت سے اہلِ علم نے اِس انداز میں بیان نہیں کیا، مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی توفیق سے قرآن مجید، احادیثِ نبوی، ائمہء کبار، محدثین و متکلمین، اسلاف کی تحقیقات اور مفسرین کی تفاسیر کے مطالعہ کے بعد جو بات راقم کے ذہن میں راسخ ہوئی وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک ہونا توحید نہیں ہے، بلکہ یہ اس کی وحدت ہے۔ اس باب میں تین الفاظ اہم ہیں:
اس اجمال کی ضروری تفصیل اِس طرح ہے:
وحدت اکائی کو کہتے ہیں اس کا مطلب ہے اللہ کا ایک ہونا اور اللہ تعالیٰ کی وحدت، وحدتِ مطلقہ (Absolute oneness) کہلاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا تصور جب نظریہ، فلسفہ اور فکر (Theory, Philosophy & Thought) میں ڈھل جاتا ہے تو اسے ’’وحدانیت‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔
توحید، نظریہ اور تصور سے بڑھ کر ایک عقیدہ ہے مگر اس کے باوجود یہ اس وقت تک ایمان نہیں بن سکتا جب تک اس کا حصول واسطہِ رسالت سے نہ ہو۔ واسطہِ رسالت سے اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا ہی وہ عقیدہ ہے جو ایمان بنتا ہے اور ہم اسی کو عقیدہ توحید کہتے ہیں۔
عربی گرائمر کی رو سے لفظِ توحید باب تفعیل کا مصدر ہے اور اس کے لغوی معنیٰ ’’ایک کرنا‘‘ کے ہیں۔ اس کا مادہِ اشتقاق وَحْدَۃً ہے اور اِسی سے واحد مشتق ہے جس کے معنی ایک کے ہیں۔ ماہرینِ علم الریاضی و علم الاعداد و ہندسہ کے نزدیک نصف الاثنین واحد یعنی دو کے آدھے کو ایک کہتے ہیں۔
واحد کی تین قسمیں ہیں:
علمائے مناطقہ و فلاسفہ کے نزدیک واحد جنسی اُسے کہتے ہیں جو اپنی جنس کے اعتبار سے ایک ہو مثلاً حیوان ایک جنس ہے اور جسم نامی ایک جنس ہے۔ شیر، گائے، بکری وغیرہ حیوان ہیں اور یہ تمام اپنی خاص جنس کے لحاظ سے واحد ہیں کیونکہ اِن تمام جانوروں میں حیوانیت مشترک جنس ہے لہٰذا یہ تمام جانور ایک جنس کے لحاظ سے واحد جنسی ہیں۔
علمائے مناطقہ و فلاسفہ کے نزدیک واحد نوعی وہ ہے جو اپنی نوع کے لحاظ سے ایک ہو مثلاً حیوان کی کئی انواع ہیں۔ کوئی حیوان صاہل یعنی ہنہنانے والا جانور ہے، کوئی حیوان مفترس یعنی چیرنے پھاڑنے والا جانور ہے اور کوئی حیوانِ ناطق جیسے اِنسان۔ اِس لئے اِنسان حیوا ن ناطق ہونے کی حیثیت سے اپنی نوع کا ایک فرد کہلاتا ہے۔ بیل کو جب واحدِ نوعی کہیں گے تو اُس میں شیر اور بکری وغیرہ شامل نہیں ہوں گے۔ اِس لئے کہ بیل اگرچہ حیوانیت میں دوسرے حیوانات کے ساتھ مشترک ہے مگر وہ اپنی نوع کے اعتبار سے الگ حیثیت رکھتا ہے اِس لئے وہ اپنی نوع کا فرد کہلائے گا۔
مذکورہ بالا واحد کی تمام تعریفات کے مطابق اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو واحدِ عددی مانے تو مشرک ہو گا کیونکہ اُس نے واحد عددی کی تعریف کے مطابق اللہ تعالیٰ کو دو کا آدھا تسلیم کیا اور اللہ تعالیٰ میں دو کے لحاظ سے وحدت کا مفہوم آیا۔ اگر کوئی اِنسان اللہ تعالیٰ کو واحد جنسی مانے تو تب بھی مشرک کہلائے گا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس میں اشتراکِ جنس ضروری ہے اور اللہ رب العزت اشتراکِ جنس سے پاک ہے۔ اِسی طرح کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو واحد نوعی مانے تو بھی مشرک ہو گا کیونکہ نوع کے لئے افرا دکا ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا یہ امر متحقق ہوا کہ مذکورہ بالا تمام تعریفات کے مطابق اللہ تعالیٰ کو نہ تو واحد عددی، نہ واحدِ جنسی اور نہ واحد نوعی مان سکتے ہیں کیونکہ اِس سے شرک لازم آتا ہے تو پھر لامحالہ تسلیم کرناپڑے گا کہ ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کو وہ واحد مانتے ہیں جسے زُبانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا ہے اور اس کا اظہار ’’هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ‘‘ میں ہے۔ ذہن نشین کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ دوسرے کے اعتبار سے اُس میں مفہوم وحدت آیا ہے۔ پوری اُمت کا متفق علیہ اور مجمع علیہ عقیدہ ہے کہ اللہ رب العزت نہ واحد عددی ہے نہ واحد جنسی ہے اور نہ واحد نوعی، بلکہ اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ واحد حقیقی ہے اور اُس کی ذات ازل سے ہی وحدتِ ذاتی سے متصف ہے اور وہ ہر قسم کے اشتراک، اشتباہ، مماثلت، تعدد، تکثر، تجزی، حلول، اتحاد، امکان، حدوث، ترکیب، تحلیل اور تبعیض سے پاک ہے اور اِن تمام عقائدِ حقہ کا اعلان زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لفظ ’’قُل‘‘سے کروایا گیا ہے۔ اس واحدِ حقیقی کو ’’اَحَد‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
خدا کا ایک ہونا تصورِ وحدت ہے۔ اگر زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے کے بغیر اپنی عقل، فہم اور سمجھ سے خدا کو ایک جانا جائے تو یہ تصورِ وحدت ہے اور زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر اللہ تعالیٰ کو ایک مانا جائے تو یہ عقیدہ توحید ہے، اس لئے ارشاد فرمایا گیا:
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌo
’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیجئے وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ان الفاظ سے پیغام دے رہے ہیں کہ میرے پیارے نبی! یوں تو جاننے والے اپنے فہم سے مجھے ایک جانتے رہیں گے لیکن آپ اپنی زبان سے فرما دیں کہ میں ایک ہوں تو ان کا یہ جاننا ان کو ایمان کی نعمت عطا کر دے گا۔ سننے والے آپ کی زبان سے سن کر اور آپ کی بات کو مان کر مجھے ایک مانیں اور ایک جانیں گے تو ان کی وحدت، توحید میں بدل جائے گی۔
قرآن مجید میں یہ ذکر بہ صراحت آیا ہے کہ حضرت ابراہیمں کے زمانے میں لوگوں نے اپنے علم و فکر اور عقل کی بنا پر وجودِ خدا کے بارے میں سوچنا شروع کردیا تھا لہٰذا اس زمانے کے لوگ مظاہرِ فطرت کو معبود بناتے ہوئے کبھی سورج کی پوجا کرتے اور کبھی ستاروں کی پرستش کرتے تھے یعنی مظاہر پرستی کو انہوں نے اپنا شعار بنا لیا تھا۔ اس کے پیچھے لوگوں کے ذہنوں میں اپنے فائدہ کا کوئی خاص تصور (concept) کارفرما ہوتا تھا۔ ایسے میں اللہ رب العزت نے ان کی طرف سیدنا ابراہیمں کو مبعوث فرمایا جنہوں نے پیغمبرانہ بصیرت و حکمت سے لوگوں کے باطل تصورات کا رد کیا اور انہیں ذاتِ وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍo وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَo فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لاَ أُحِبُّ الْآفِلِينَo فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَo فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـذَا رَبِّي هَـذَآ أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَo إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَo
’’اور (یاد کیجئے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر (جو حقیقت میں چچا تھا محاورئہ عرب میں اسے باپ کہا گیا ہے) سے کہا: کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو صریح گمراہی میں (مبتلا) دیکھتا ہوں۔ اور اسی طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھائیں اور (یہ) اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں ہو جائے۔ پھر جب ان پر رات نے اندھیرا کر دیا تو انہوں نے (ایک) ستارہ دیکھا (تو) کہا: (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے: میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر جب چاند کو چمکتے دیکھا (تو) کہا: (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ (بھی) غائب ہو گیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے: اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ فرماتا تو میں بھی ضرور (تمہاری طرح) گمراہوں کی قوم میں سے ہو جاتا۔ پھر جب سورج کو چمکتے دیکھا (تو) کہا: (کیا اب تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے (کیونکہ) یہ سب سے بڑا ہے؟ پھر جب وہ (بھی) چھپ گیا تو بول اٹھے: اے لوگو! میں ان (سب چیزوں) سے بیزار ہوں جنہیں تم (اللہ کا) شریک گردانتے ہو۔ بیشک میں نے اپنا رُخ (ہر سمت سے ہٹا کر) یکسوئی سے اس (ذات) کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے اور (جان لو کہ) میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
(1) الانعام، 6: 74.79
تاریخ میں بڑے بڑے فلسفی ہو گزرے ہیں جن میں سقراط(Socrates)، بقراط (Hippocrate)، ارسطو (Aristotle)، افلاطون (Plato) وغیرہ معروف ہیں جب سے فلسفہ کی تاریخ شروع ہوئی اور حقیقت (reality)، وجود (existence) وغیرہ پر فلسفیانہ بحثیں شروع ہوئیں کہ کائنات کی حقیقت اور اس کی اصل کیا ہے؟ انسان کیا ہے؟ اسی طرح سورج کے بارے میں، آسمانوں کے بارے میں، ستاروں کے بارے میں، خود کائنات (Universe) کے بارے میں اور بنی نوع انسان(human beings) کے بارے میں، سوچ بچار شروع ہوئی تو فلسفے وجود میں آنے لگے مثلاً اس وقت عقلیت کا فلسفہ (Rationalism)، حِسیّت کا فلسفہ (Empiricism) اور تنقیدیّت کا فلسفہ (Criticism) وجود میں آیا۔ اس طرح ارتقاء اور پیش رفت کے نتیجے میں مختلف فلسفے وجود میں آئے اور تصورات بنتے چلے گئے جو انسان کو اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر ایک نتیجے پر پہنچنے میں ممد و معاون بنے۔
انہی عقلی دلائل، غور و خوض اور سوچ و بچار سے جو تفکر کا عمل (thinking process) ظہور پذیر (develop) ہوا، اس سے استدلالی عمل (reasoning process)، اِستخراجی و اِستنباطی عمل (deductive process) سائنسی عمل (scientific process) اور منطقی عمل (logical process) کی صورت گری ہوئی اور ان تمام تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سوچ بچار کر کے انسان اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے اور وہی حقیقتِ مطلقہ (absolute reality) ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب اس تصور میں میں پختگی آ گئی تو وہ عقیدہ بن گیا مگر زیادہ تر نظریہ اور فلسفہ ہی رہا۔ عقیدہ بن جانے سے بھی وہ ایمان کے درجے کو نہیں پہنچا نہ وہ عقیدہ توحید میں متشکل ہوا کیونکہ وحدت (unity) علم میں منتقل ہو کر ایک فکر تو بن گئی مگر توحید نہ بن سکی جو مذکورہ بانیانِ فلسفہ کو ایمان کی دولت سے بہرہ ور کر سکتی۔ ان کا نتیجہِ علم ایک نظریہ اور نقطہِ نظر تو بن گیا لیکن انہیں مومن نہ بنا سکا۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے اپنے تجربات اور فکر و تدبر سے حقیقتِ مطلقہ کا جو علم حاصل کر لیا تھا وہ محض وحدت کا علم ہی رہا، توحیدِ الوھی کا درجہ حاصل نہ کر سکا۔ اس کی صرف ایک وجہ تھی کہ ان فلاسفہ نے بہ واسطہ رسالت و نبوت اس حقیقتِ مطلقہ یعنی خالقِ ارض و سماء اللہ ل کو واحد اور یکتا نہ مانا۔ نتیجتاً وہ دولتِ ایمان سے محروم رہے۔
خلاصہِ بحث یہ ہوا کہ اللہ ل کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے ایک ماننا ہی ایمان ہے۔ خواہ ذاتی علم ہو یا ماننے والا ایک سادہ سا عام انسان ہی کیوں نہ ہو اس کے برعکس اگر واسطہِ رسالت و نبوت نصیب نہ ہو اورانسان علم میں اپنے وقت کا امام ہی کیوں نہ ہو وہ علم کے ذریعے دولتِ ایمان حاصل نہیں کر سکتا اور نہ فلسفہ اسے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے میں فائدہ دے سکتا ہے۔
جیسا کہ اوپر کی سطور میں واضح ہو گیا ہے کہ اگر انسان نے اپنے ذاتی علم، مشاہدے، تجربے، تجزیئے، استدلال اور سائنسی علم (scientific knowledge)، علم فلسفہ (philosophical knowledge) پر اعتماد کر کے اللہ تعالیٰ کو ایک جانا اور مانا تو یہ فکر، نظریہ اور فلسفہ رہا اور اگر پیغمبر کی خبر پر پیغمبر کی زبان پر بن دیکھے (blind faith) اللہ تعالیٰ کو ایک جانا اور مانا تو اس کا یہ جاننا عقیدہ توحید اور ایمان بن گیا۔ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کا نبی اور رسول ہونے کے ناطے یہ کہا کہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اب خواہ کسی انسان کا اس حوالے سے کوئی علم ہے یا نہیں، قطعِ نظر اس سے جب اس نے اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات مان لی اور یقین کر لیا تو اس کا عقیدہِ توحید وجود میں آ گیا۔ اس طرح اللہ کو ایک ماننا توحید اور ایمان بن گیا۔
گویا عقیدہِ توحید تب وجود میں آتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کی معرفت کا ادراک زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو جیسا کہ حضرت یعقوبں اور ان کے بیٹوں کے درمیان مکالمہ ہوا ، جسے قرآن نے ان الفاظ کے ساتھ قیامت تک محفوظ کر لیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَـهَكَ وَإِلَـهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِلَـهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَo
’’کیا تم (اس وقت) حاضر تھے جب یعقوب (علیہ السلام) کو موت آئی، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا تم میرے (انتقال کے) بعد کس کی عبادت کرو گے؟ تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحق (علیھم السلام) کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبودِ یکتا ہے، اور ہم (سب) اسی کے فرماں بردار رہیں گے۔‘‘
البقرۃ، 2: 133
حضرت یعقوب علیہ السلام یہ سن کر خاموش اور مطمئن ہو گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو یہ پوچھ رہے تھے کہ کس کی عبادت کرو گے۔ جواب بڑا سادہ سا تھا۔ اگر وہ صرف اتنا کہہ دیتے کہ اللہ کی عبادت کریں گے تو سوال کا جواب مل جاتا لیکن آپ کے صاحبزادوں نے ذاتی علم و عرفان اور معرفتِ حق کی بہ دولت یہ جواب نہیں دیا بلکہ کہا کہ ہم آپ کے اور آپ کے آباؤاجداد کے رب کی عبادت کریں گے۔ پھر کہا وہ ایک ہے اور ہم اسی کو ماننے والے ہیں۔ یہ سن کر حضرت یعقوبں مطمئن ہو گئے۔ اس ارشادِ باری تعالیٰ سے پتہ چلا کہ حضرت یعقوبں بھی بیٹوں کی زبان سے یہ اطمینان کرنا چاہتے تھے کہ آیا ان کے بیٹے باری تعالیٰ کی ذات تک رسائی اپنی عقل و دانست سے حاصل کرنا چاہتے ہیں یا واسطہِ نبوت سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی فرد اپنی عقل پر اعتماد کرنے کی بجائے اللہ کو اس لئے رب مانے کہ زبانِ نبوت نے اعلان کر دیا اور اس کی جبین نیاز رسالت کے سامنے جھکی رہے تو پھر اس کے بہکنے کا امکان اور شائبہ نہیں ہو گا۔
جب تک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کو ایک جاننے کے علم میں واسطہ اور وسیلہ نہیں بنے تب تک وہ علم محض ایک تصور تھا عقیدہِ توحید نہیں تھا۔ فلسفہ تھا ایمان نہیں تھا، فلسفہ سے ترقی پاکر ایمان تب بنا جب اس علم کو وسیلہ رسالت نصیب ہوا۔ گویا عقیدہِ توحید یعنی ایمان باللہ وسیلہِ نبوت و رسالت کے بغیر وجود میں نہیں آتا۔ بالفاظ دیگر توحید بذات خود وسیلہِ رسالت کی متقاضی اور طالب ہے یعنی عقیدہِ توحید کا اثبات وسیلہِ رسالت سے ہوتا ہے۔ اس طرح عقیدہِ توحید ایک ایسی مسلمہ حقیقت بن گیاکہ دنیا کی کوئی قوت اس کو رد نہیں کر سکتی۔
یہاں ایمان کے ایک اور نکتہ کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو اس وقت دنیا کے پاس اپنے ذرائع سے جو دستیاب علم تھا، اگر اس کی اساس پر انسان اس نتیجے تک پہنچتا کہ خدا ایک ہے اور بہ فرضِ محال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہ دین لے کر آئے تھے، فرما دیتے کہ خدا ایک نہیں، دو یا تین ہیں تو ایمان باللہ کے باب میں ایک خدا کی بجائے دو یا تین خداوِں کو ماننا لازم ہو جاتا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام ث سے ماہِ ذوالحجہ، شہرِ مکہ اور یومِ عرفہ کے بارے میں استفسار فرمایا۔ انہوں نے اللہ و رسولہ علم کہہ کر بے خبری کا عملی مظاہرہ کیا۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ذہنوں میں موجود علم کے برعکس کوئی اور بات بھی کہہ دیتے تو وہ اس کو بھی مان لیتے۔ بخاری شریف کی روایت ہے:
عَنْ أبِيْ بَکْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: خَطَبَنَا النَّبِيُ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ النَّحْرِ، قَالَ: أَتَدْرُوْنَ أَيُ يَوْمٍ هَذَا؟ قُلْنَا: اللہُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيْهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟ قُلْنَا: بَلٰی، قَالَ: أَيُ شَهْرٍ هَذَا؟ قُلْنَا: اللہُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيْهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، فَقَالَ: أَلَيْسَ ذُوالْحَجَّةِ؟ قُلْنَا: بَلَی، قَالَ: أَيُ بَلَدٍ هَذَا؟ قُلْنَا: اللہُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيْهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَتْ بِالْبَلَدَةِ الْحَرَامِ؟ قُلْنَا: بَلَی، قَالَ: فَإنَّ دِمَائَ کُمْ، وَأَمْوَالَکُمْ، عَلَيْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هَذَا، فِيْ شَهْرِکُمْ هَذَا، فِيْ بَلَدِکُمْ هَذَا، إِلَی يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ، أَلاَ هَلْ بَلَغْتُ؟ قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: اللّٰهُمَّ اشْهَدْ، فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَی مِنْ سَامِعٍ، فَـلَا تَرْجِعُوْا بَعْدِي کُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.
’’حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم النحرکو ہمیں خطبہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم سمجھنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شایداس کا کوئی اور نام لیں گے۔ فرمایا: کیا یہ یوم النحرنہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے جی ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے جس سے ہم سمجھنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاید اس کا کوئی اور نام لیں گے۔ فرمایا: کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم سمجھنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاید اس کا کوئی اور نام لیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ حرمت والا شہر نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو (پھر یہ بھی جان لو کہ) تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں ہے جب تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) کیا میں نے پیغام پہنچانے کا حق ادا کر دیا؟ صحابہ کرام ث نے عرض کیا، ہاں۔ (تب) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا: اے اللہ! گواہ رہنا (اور فرمایا) حاضر اسے غائب تک پہنچا دے۔ بعض اوقات وہ شخص جس تک بات پہنچائی گئی براہِ راست سننے والے سے زیادہ یاد رکھتا ہے۔ میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کر کے کافر نہ ہو جانا۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی،
2: 620، رقم: 1654
(امام بخاری نے اس حدیث مبارکہ کو صحیح البخاری، کتاب العلم، رقم: 67، کتاب المغازی،
رقم: 4144، کتاب الأضاحی، رقم: 5230، کتاب الفتن، رقم: 6667، اورکتاب التوحید،
رقم: 7009 میں بھی بیان کیا ہے)
مسلم، الصحیح، کتاب القسامۃ و المحاربین والقصاص والدیات، باب تغلیظ تحریم الدماء و الأرض و الأموال، 3: 1305، رقم: 1679
اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایمان اپنے علم پر انحصار کرنے کا نام نہیںبلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر پر انحصار کرنے کا نام ہے یعنی جو کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا اس پر اعتماد کرنے کا نام ایمان ہے۔ اگر لوگوں کا مبلغِ علم اور اطلاع اس کی مطابقت میں ہو تو علم صحیح ہے اور اگر ان کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے علم سے متضاد اور غیر مطابق (inconsistent) ہو جائے تو پھر تمام ذرائع سے اکٹھا کیا ہوا علم غلط ہو گا۔
صحیح بخاری میں اس آیت کریمہ -
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَo
’’اور (اے حبیب مکرم!) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (ہمارے عذاب سے) ڈرایئے۔‘‘
(1) الشعراء، 26: 214
کے شانِ نزول کے تحت بیان ہوا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہِ صفا پر اہلِ مکہ میں سے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آرہا ہے، جو تم پر حملہ کر دے گا تو کیا تم مان لو گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ داروں نے کہا: جی ہاں! ہم مان لیں گے۔
گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صداقت کا اقرار اعلانِ توحید سے پہلے کروا لیا تاکہ انکار کرنے والوں پر حجت قائم رہے اور اقرار کرنے والوں کی نظر میں بھی توحید پر ایمان لانے سے قبل ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کی اہمیت و اوّلیت واضح ہو جائے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: کیسے مان لو گے؟ تم نے تو وہ لشکر دیکھا ہی نہیں؟ انہوں نے کہا: آپ سچے ہیں، آپ نے کبھی غلط بات نہیں کی، آپ جو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں، اس وجہ سے آپ پر ہمارا غیر متزلزل اعتماد ہے اس لیے آپ جو کچھ فرما رہے ہیں اس کو مان لیں گے۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم مجھے واقعی قابلِ اعتماد (trustworthy) سمجھتے ہو اور مجھ پر بن دیکھے بھروسا (blind faith) رکھتے ہو تو پھر میں تمہیں کہتا ہوں کہ اللہ ایک ہے، اور اس نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے، اس کی وحدانیت اور ایک ہونے پر ایمان لے آؤ۔ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات قبول کر لی وہ مؤمن ہو گئے اور جنہوں نے انکار کردیا وہ کافر ہو گئے۔ اس موقع پر ابولہب نے غضبناک ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے: اے محمد! (معاذ اللہ! استغفر اللہ!) تم برباد ہو جاؤ، تباہ ہو جاؤ، کیا اس بات کے لیے ہمیں جمع کیا تھا؟ اس کی اس دریدہ دہنی اور گستاخی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں پوری سورت نازل فرما دی اور انہی الفاظ کے ساتھ اس کی مذمت کر دی، فرمایا:
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّo
’’ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اُس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی ہے)۔‘‘
اللھب، 111: 1
کوہِ صفاء پر پہلی دعوتِ توحید کا یہ سارا منظرنامہ (scenario) اس بات پر شاہدِ عادل ہے کہ ایمان کے باب میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قابلِ اعتماد ہونے پر ایمان لانا ناگزیر ہے۔ اس لئے لوگوں کو اللہ کی وحدانیت کی خبر دینے سے پہلے وسیلہِ رسالت اور واسطہِ نبوت پر ایمان لانے کے لئے کہا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلمہِ توحید کا اعلان کروایا گیا۔ چنانچہ جب ان کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اور اعتماد قائم ہو گیا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے ایک ہونے کی خبر (divine news) انہیں پہنچائی۔ اس سے یہ نکتہ بھی کھلا کہ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ، وسیلہ اور واسطہ سے اللہ کو ایک مان لیا وہ مؤمن ہو گئے اور جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات نہ مانی وہ کافر قرار پائے۔ ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کے ذریعے ہی ایمان باللہ اور عقیدہ توحید متحقق ہوتا ہے۔ اس لئے ہر اہلِ ایمان کا عقیدہ یہی ہونا چاہئے کہ ایمان باللہ خود وسیلہِ رسالت کا طالب اور متقاضی ہے۔
اگر کوئی طالب کے لفظ پر اعتراض کرے تو اس کا جواب یہ ہے کہ طلب ارادے کو کہتے ہیں اور یہ ارادئہ الٰہی پر موقوف ہے کہ اس نے جس کو چاہا اپنانبی اور رسول مقرر کر دیا۔ یہی طلب ہے۔ اسی لئے وہ واسطہِ نبوت اور واسطہِ رسالت کا طالب ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ بندہ تو اپنی طلب میں محتاج ہے لیکن اللہ محتاج نہیں، قادر ہے۔ اپنی قدرت سے انبیاء کو مقرر فرماتا رہا ہے۔ لہٰذا ہمارا عقیدہ توحید اور ایمان باللہ کی اساس اس پر قائم ہے کہ واسطہِ نبوت و رسالت ناگزیر اور اٹل(inevitable) حقیقت ہے۔
قرآن مجید سے یہ بات بڑی واضحیت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ایمان باللہ اور عقیدہ توحید بھی واسطہِ نبوت اور وسیلہِ رسالت کے ساتھ متحقق ہوتا ہے پھر جب مسلمان دائرہ ایمان میں داخل ہوجاتے ہیں اس کے بعد جو دلائل (evidences) اللہ کی توحید کے اثبات پر قائم ہیں وہ اس عقیدے کو مزید استحکام عطا کرتے ہیں۔ توحید پر قائم کئے گئے دلائل سب کے سب ثانوی (secondry) حیثیت رکھتے ہیں یعنی وہ عقیدہِ ایمان (faith) کو مزید مضبوط (strengthen) کرنے، اس کی اعتقادی حیثیت (conviction) اور commitment کو مضبوطی و پختگی تو ضرور فراہم کرتے ہیں مگر جو حتمی، بنیادی اور قطعی شہادت ہے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ باقی تمام دلائل، واقعاتی دلائل (circumstantial evidences) کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ بات قانون کے طلباء اچھی طرح جانتے ہیں کہ وکیل عدالت (Court) میں جو مختلف دلائل دیتے ہیں ان کو قرائن (Circumstantial evidences) کہتے ہیں مثلاً: چور نے کسی کمرے سے چوری کی ہے مگر تالا ٹوٹا ہوا نہ ہی ہینڈل ٹوٹا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کہیں سے چابی حاصل کرکے دروازہ کھولا۔ یہ قرائن ہیں جو آپ کو ایک نتیجے تک پہنچنے میں مدد دیتے ہیں۔ بادی النظر میں جو بات بڑی ٹھوس (Solid) لگتی ہے وہ حقیقت میں اتنی بھی ٹھوس نہیں کیونکہ یہ امکان بھی ہے کہ رات گھر والے تالا لگانا ہی بھول گئے ہوں اور تالا لٹکا رہ گیا ہو، اس اثناء میں چور آیا، اس نے چوری کی، تالا لٹکایا اور چلا گیا۔ تو پتہ چلا کہ قرائن (circumstantial evidences) کو شہادتوں سے رد بھی کیا جا سکتا ہے۔ قرائن علم میں تیقّن اور واضحیت (clarity) میں اضافہ کرتے ہیں مگر وہ بذاتِ خود عقیدہِ توحید اور ایمان کی اساس نہیں بن سکتے۔
شہادت کی دوسری قسم قطعی شہادت(conclusive evidence) ہے اس کو قانونی اصطلاح میں براہِ راست شہادت (Direct evidence) بھی کہتے ہیں جبکہ وہ شہادت جو قرائن پر مبنی ہو بالواسطہ شہادت کہلاتی ہے۔ اللہ رب العزت کی توحید اور اس کے وجود پر بلاواسطہ، حتمی اور قطعی شہادت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے۔ اس لئے اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُم بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًاo
’’اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں ذاتِ حق ل کی سب سے زیادہ مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساتھ قرآن کی صورت میں) واضح اور روشن نور (بھی) اتار دیا ہے۔‘‘
النساء، 4: 174
وہ دلائل جو قطعی، حتمی اور ناقابلِ تردید ہوں انہیں برہان کہتے ہیں۔ عربی لغت میں برہان کا معنی ’وْکَدُ الْدِلَّة، ہے۔ یعنی دلائل میں سب سے قوی ترین دلیل جو رد نہ کی جا سکے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اللہ رب العزت کی ذاتِ اقدس اور عقیدہِ توحید پر قطعی شہادت اور سب سے زیادہ مضبوط دلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کی اصل گواہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی۔ اس پر پوری امت بغیر دیکھے گواہ بن گئی۔ کیوں؟ اس لئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دیا کہ اللہ ایک ہے تو موقع کے گواہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن گئے اور ساری امت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعتماد پر گواہ بنی ہے۔ لہٰذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نائب (Vicegerent) ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ شہادت کی دو قسمیں ہیں:
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے تو یہ شہادت اصالۃً ہے۔ جبکہ حضور کی امت کی گواہی کو نیابۃً شہادت کا درجہ حاصل ہو گیا۔
ہم جب کلمہ پڑھتے ہیں تو گویا اللہ رب العزت کے ایک ہونے کی گواہی دیتے ہیں کہ ’’اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے یعنی
I do give witness to oneness of Almighty Allah
یہاں کوئی پوچھے کہ آپ کس طرح یہ گواہی دیتے ہیں جبکہ آپ نے تو دیکھا ہی نہیں۔ دیکھے بغیر گواہی کیسے ہو سکتی ہے؟ مثلاً: اگر کوئی قتل ہوا ہو اور آپ موقع واردات پر موجود نہ ہوں اور صرف اخبار میں پڑھا ہو یا کسی سے سنا ہو کہ فلاں نے اس کو قتل کیا ہے اور آپ عدالت میں پیش ہوجائیں اور کہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ فلاں کو فلاں نے قتل کیا ہے تو آپ کی اس بات کو عدالت نہیں مانے گی بلکہ عدالت آپ سے سوال کرے گی کہ کیا آپ موقع پر موجود تھے؟ کیا آپ نے اپنی آنکھوں سے قتل ہوتے دیکھا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ نہیں تو عدالت آپ کی شہادت رد کر دے گی۔ کیونکہ گواہ کا موقع پر موجود ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح جب آپ نے توحید کا مشاہدہ کیا ہی نہیں، اللہ کو دیکھا ہی نہیں بلکہ اس کے بارے میں صرف سنا ہے تو یہ آپ کا اعلان، شہادت کیسے بن گیا؟ قانون کی زبان میں یہ ساری کی ساری گواہی نیابۃً ہے۔ نیابت کا مطلب ہے کسی کا نائب مختار بننا اور کسی کے تفویض کردہ اختیار کو استعمال کرنا۔
اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روز قیامت اعمال و احوالِ امت کا گواہ بنایا، یوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خالق کائنات اللہ رب العزت اور اس کی مخلوق کے گواہ بن گئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًا.
’’بیشک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لئے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
(1) الفتح، 48: 8
اور یہ کتنی بڑی بات ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل سے امت محمدی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کی بنا پر تمام سابقہ امم پر گواہ بن گئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ.
’’اس (اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسولِ (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوعِ انسان پر گواہ ہو جاؤ۔‘‘
الحج، 22: 78
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتماد کر کے جب ہم نے توحیدِ باری تعالیٰ کی گواہی دی تو ہمارا یہ اعلان (Declaration)، شہادت بن گیا جس کے بارے میں قرآن مجید نے کہا:
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاَءِ شَهِيدًاo
’’پھر اس دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔‘‘
النساء، 4: 41
اس آیتِ کریمہ میں روزِ قیامت کے اس منظر کی نشان دہی فرمائی جب ہر امت سے نبی لایا جائے گا جو اپنی امت پر شہید ہو گا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آدمں سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ہر نبی کی شہادت پر گواہ ہوں گے۔ گویا تمام انبیاء علیہم السلام کی شہادت پر بھی قطعیّت (finality) کی مہر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی ہو گی جو رد نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَـؤُلاَءِ.
’’اور (یہ) وہ دن ہو گا (جب) ہم ہر امت میں انہی میں سے خود ان پر ایک گواہ اٹھائیں گے اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو ان سب (امتوں اور پیغمبروں) پر گواہ بنا کر لائیں گے۔‘‘
(2) النحل، 16: 89
گویا ہر نبی شاہد الامت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاہدِ انبیاء و امم ہیں۔یعنی ہر نبی صرف اپنی امت پر گواہ ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام نبیوں اور امتوں پر گواہ ہیں۔ امتِ محمدی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کی بناء پر سابقہ تمام امتوں پر گواہ بن گئی۔
یہاں ایمان کے باب میں اورعقیدہِ توحید کے حوالے سے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے اور وسیلے سے ایمان کا متحقق ہونا واضح ہے اور یہ ثابت ہو گیا کہ ایمان کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ اور وسیلہ پر ہے جس پر اعتماد کر کے اگر اللہ کو ایک مانا جائے تو عقیدہِ توحید وجود میں آتا ہے۔ یہاں سے توحید کا تصور (concept) اپنی واضح شکل میں اجاگر ہوتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ کہتے ہیں کہ توحید کے لئے کسی وسیلہ اور واسطہ کی ضرورت نہیں ہے، انہیں جان لینا چاہئے کہ اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ اور وسیلہ درمیان سے ہٹا دیا جائے تو اس کے بعد کوئی مسلمان مسلمان ہی نہیں رہتا خواہ ظاہراً اس کے سارے اعمال مسلمانوں والے ہی کیوں نہ ہوں اور وہ دن رات توحید کا اقرار کرتا پھرتا ہو۔
سورہِ اخلاص میں لفظ ’’قُل‘‘ کے بعد اسمِ ذات سے پہلے ’’ھُوَ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے۔ کلامِ عربی میں’’ھُوَ‘‘ ضمیر غائب کے لئے استعمال ہوتی ہے اور غائب چیز وہ ہوتی ہے جو آنکھوں کے سامنے نہ ہو جب کہ اللہتعالیٰ کی شان یہ ہے کہ ہر وقت ہر جگہ موجود ہے۔ اس کے لئے زمان و مکاں کے فاصلے کوئی حیثیت نہیں رکھتے مثلاً اللہ تعالیٰ نے انسان سے اپنی قربت کے متعلق ارشاد فرمایا:
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِo
’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘
(1) ق، 50: 16
بجا ہے کہ اللہتعالیٰ کی ذات ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور ہر وقت موجود ہے لیکن اس قربت کے باوجود ہم اسے نہ دیکھ سکتے ہیں نہ چھو سکتے ہیں اور نہ وہ ہمارے ادراک و محسوسات میں آ سکتا ہے۔ اس کا فوق الادراک ہونا ہی دراصل شان اُلوہیت ہے اور اس شان کے اظہار کے لئے یہاں بیانِ توحید کے آغاز میں کلمہ ’’ھُوَ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ ذیل میں ہم اس کے استعمال کی بعض حکمتوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ان حکمتوں میں ایک یہ ہے کہ غائب میں زیادہ معنویت پائی جاتی ہے اور یہ حاضر کے مقابلہ میں ’’ بُعْدِ معنوی‘‘ پر دلالت کرتا ہے۔ کلام کی فصاحت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ حاضر و موجود حقیقت کی طرف ضمیرِ غائب سے اشارہ کیا جائے۔ یہاں پر ’’ھُوَ‘‘ کا لفظ دراصل ذاتِ حق کی غیر موجودگی اور حقیقی غیوبت پر دلالت نہیں کر رہا بلکہ اس سے مراد بُعدِ معنوی ہے یعنی فہم و ادراک و شعور سے دوری اور بلندی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
’’ بُعدِ معنوی‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہتعالیٰ کی ذات اِتنی بلند اور عُلوشان کی حامل ہے کہ انسان کی ناقص عقل و فکر اور فہم و بصیرت اس کا ادراک نہیں کرسکتی۔ عقل و شعور اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے ’’ھُوَ‘‘ کی ضمیر غائب کا استعمال کیا گیا کیونکہ ’’ھُوَ‘‘ کی غیوبت میں ذاتِ واجب الوجود کا ماورائے عقل و ادراک ہونے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس کی حقیقت کو سمجھنا انسانی فہم و ادراک سے وراء الوراء ہے۔
اِس بُعدِ معنوی، بلندی اور غیوبت کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ اِنسانی ذرائعِ علم کا مطالعہ کیا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ ذرائعِ علم یعنی حواس، عقل اور وجدان وغیرہ کا دائرہ کار کیا ہے؟ جب تک یہ معلوم نہیں ہوگا ہمیں ’’ھُوَ‘‘ ضمیر کی معنوی اہمیت کی سمجھ بھی نہیں آئے گی اور ذاتِ حق کے مافوق الادراک ہونے کا مفہوم بھی کاملاً واضح نہیں ہو گا۔ سرِدست ہم یہاں پر ذرائعِ علم اور ان کی اقسام کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں، اس موضوع پر تفصیل کے لئے ہماری کتاب ’’اَرکانِ ایمان‘‘ کا مطالعہ کیا جائے۔
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنے گردو پیش کے حالات اور ماحول سے اپنا ربط و تعلق قائم رکھنے کے لئے پانچ ذرائعِ علم عطا فرمائے ہیں جن کی بدولت وہ ظاہری طبیعی دنیا (Physical world) کی حقیقتوںکو جانتا اور ان کا شعور و ادراک حاصل کرتا ہے۔ یہ حواسِ خمسہ ظاہری کہلاتے ہیں اور ان کا ارتقاء عمر بھر جاری رہتا ہے۔ حواسِ خمسہ ظاہری مندرجہ ذیل ہیں:
یہ حواس انسانی ذہن کو فقط ظاہری خام مواد مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور ہر ایک کا اپنا اپنا مخصوص اور محدود دائرہ کارہے۔ یہ حواس ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتے اور اگر ان میں سے ایک بھی خراب ہو تو بقیہ دوسروں پر انحصار کرکے کسی شے کی حقیقت کو پرکھا نہیں جاسکتا۔ ان میں سے کوئی بھی حس مفقود ہوجائے تو باقی سب مل کر بھی اِس کی تلافی نہیں کر سکتے مثلاً آواز کو کان کے ذریعے، رنگوں کو آنکھ کے ذریعے، خوشبو کو ناک کے ذریعے، سرد اور گرم کو چھونے کے ذریعے اور کڑواہٹ اور میٹھاس کو زبان کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس آواز کو آنکھ سے، رنگ کو ہاتھ سے اور ذائقے کو کان وغیرہ کے ذریعے معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ غرض ان پانچوں حواس کا اپنا اپنا دائرہ کارہے۔ کوئی حِس دوسرے کے قائم مقام نہیں بن سکتی یعنی اپنے دائرے سے ہٹ کر کسی چیز کے معیار اور اس کی نوعیت کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ پس یہ امر طے شدہ ہے کہ اگر کوئی شے دنیا میں موجود ہو مگر اس کو معلوم کرنے والی خاص حس موجود نہ ہو تو پھر باقی سارے حواس بروئے کار لانے کے باوجود بھی اس کی موجودگی کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔ لہٰذا ان حواسِ ظاہری کے محدود دائرہ کار کی بے بضاعتی کو بنیاد بنا کر کسی وجود کی عدم موجودگی کادعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
اِنسان نے علوم و فنون اور جدید سائنسی حقائق کو دریافت کرنے میں بلا شبہ بہت ترقی کرلی ہے۔ لیکن اس کی یہ ساری ترقی، بلندی اور معراج پھر بھی ایک محدود دائرے کے اندر ہے۔ انسان کی پرواز وہیں تک پہنچ سکتی ہے جہاں تک اسے یہ حواسِ خمسہ لے کر جاسکتے ہیں۔پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ عالمِ بالا کی بہت سی حقیقتیں اور ان تک رسائی انسان کے حواس کے دائرہ ہی سے خارج ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنا کمزور انسان اور اس کا محدود دائرہِ علم اللہ تعالیٰ کے وجود کی حقیقت کو محسوس کر سکے اور سمجھ سکے۔ اس لئے یہاں انسان کو اظہارِ عجزو درماندگی کے علاوہ چارہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے بالآخر ان ماورائی حقیقتوں کی خبر رکھنے والے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز پر سرِ نیاز خم کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت تک رسائی کے لئے علمِ نبوت ہی مضبوط اور مستحکم رابطے کا کام دیتا ہے۔
اگر ان پانچوں حواس کو عقل کی سرپرستی اور رہنمائی حاصل نہ ہو تو یہ کسی چیز کو ٹھیک ٹھیک محسوس کرنے کے باوجود انسان کو کسی خاص نتیجے تک نہیں پہنچا سکتے۔ آنکھوں کی بصارت، کانوں کی سماعت، ہاتھوں کا لمس اور زبان کے ذائقے کا تاثر عقل پر وارد ہوتا ہے اور جب تک عقل اس سے صحیح نتائج اخذ کرکے انسانی جُستجو کی خاص نہج پر رہنمائی نہ کرے اس وقت تک وہ ادراک و احساس علم کا روپ نہیں دھار سکتا۔ کیونکہ اِنسانی جسم مکمل طور پر ایک خود کار مشین کی طرح ہے اور اِس میں دماغ کی حیثیت کمپیوٹر کی سی ہے۔ دماغ پورے جسمِ اِنسانی کو کنٹرول کرتا ہے اور اِس کو ایک نظام کے تحت مربُوط کرتا ہے نیز اِن سب میں ایک شعوری کیفیت کو جنم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دماغ کو بہ منزلہ ایک کارخانہ (Factory) بنا دیا اور حواس اِس میں کل پرزوں کی طرح روبہ عمل ہیں۔ حواسِ خمسہ کا کام دماغ کے لئے معلومات کا خام مواد تیار کرنا ہے نہ کہ اِن محسوسات کو سمجھنا۔ کان بذاتِ خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ سنے ہوئے الفاظ کا مطلب کیا ہے، آنکھ بذاتِ خود فیصلہ نہیں کرسکتی کہ سرخ اور سبز رنگ میں کیا فرق ہے۔ غرض اِسی طرح دوسرے حواس کا معاملہ ہے کہ وہ خود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔
عقل اپنے اِن پانچوں حواس کی مدد سے اِن محسوسات سے صحیح نتیجہ اخذ کرتی اور بتاتی ہے کہ کانوں نے کیا سنا، ہاتھوں نے کیا پکڑا، زُبان نے کون سا ذائقہ چکھا اور آنکھ نے کیا دیکھا۔ آخری فیصلہ عقل اِنسانی صادر کرتی ہے۔ لیکن جب ذاتِ حق کے ادراک کی بات آئے تو حواسِ خمسہ تو رہے ایک طرف، یہاں عقل بھی جواب دے جاتی ہے۔ ’’ھُوَ‘‘ میں پوشیدہ حکمت اِسی امر کی غماز ہے کہ ذاتِ حق کی حقیقت جس طرح حواس کے ادراک سے دُور ہے اِسی طرح عقلِ انسانی کے شعور و ادراک سے بھی وراء الوراء ہے۔
حواسِ ظاہری کا دائرہ کار، صرف مادی اور طبیعی دُنیا تک محدود ہونے کے باعث غیر مادی اشیاء کے ادراک سے محروم ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اِنسانی حواس کی معلوم کردہ اشیاء کو اگر عقلِ انسانی منظم اور مربوط نہ کرے تو حواسِ خمسہ سے حاصل کردہ خام مواد علم کا روپ نہیں دھار سکتا۔ مثلاً کسی دیوانے یا پاگل اِنسان کے تمام حواس تو اپنی اپنی جگہ درست اور صحیح و سالم ہوتے ہیں مگر دماغ ٹھیک کام نہیں کر رہا ہوتا، اِس لئے اِس کے حواس اِسے کسی نتیجے پر پہنچنے نہیں دیتے۔ نتیجتاً صحیح علم وجود میں نہیں آتا اور وہ زندگی کے اعتدال سے محروم ہو جاتا ہے۔
جس طرح محسوساتِ ظاہری کے لئے اللہ تعالیٰ نے پانچ حواس تخلیق فرمائے ہیں اِسی طرح عقلِ انسانی میں باطنی سطح پر بھی پانچ حواس یا مدرکات پیدا کئے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
اِن پانچوں حواسِ باطنی اور مدرکات کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
1۔ جیسے ہی انسانی عقل کا یہ گوشہ حواسِ ظاہری کے اوّلین تاثرات کو وصول (Receive) کرتا ہے وہ اِس حصہ عقل پر جا کر جذب ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جب ہماری آنکھ کسی چیز کو دیکھتی ہے تو اِنسانی عقل اُس حسِ مشترک کو قبول کر لیتی ہے۔ اِس کو مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ حسِ مشترک کو تالاب تصور کیا جائے اور پانچوں حواسِ ظاہری کو اُس میں پانی پہنچانے والی نہریں۔
2۔ حسِ خیال مدرکات اور محسوسات کی اُن تصاویر اور شکلوں کو جو حسِ مشترک میں پہنچتی ہیں اُن کی ظاہری صورتوں کو اپنے اندر محفوظ کر لیتی ہے مثلاً جب ہم لفظ ’’میں، بولتے ہیں تو اِس لفظ کی ظاہری صورت یعنی ’’م‘‘، ’’ی‘‘ اور ’’نون غنہ‘‘ ہے۔
3۔ حسِ واہمہ مدرکاتِ حسی کے معنی و مفہوم یعنی اُن کی باطنی شکل و صورت کا ادراک کرتی ہے اور محفوظ رکھنے کے لئے اُن تاثرات کو اُس سے اگلی حس میں منتقل کر دیتی ہے۔
4۔ حسِ حافظہ محسوسات کے مفہوم معنوی کے وجود کو اِسی طرح محفوظ کرتی ہے جس طرح اِن کی ظاہری شکل کو حسِ خیال نے محفوظ کیا تھا۔
5۔ حسِ متصرفہ کا کام یہ ہے کہ حسِ مشترکہ میں آنے والی ظاہری صورت کو قوتِ واہمہ میں حاصل ہونے والے معنی سے اور حسِ خیال میں محفوظ شکل و صورت کو قوتِ حافظہ میں محفوظ مفہوم کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔ اِس طرح انسان مختلف الفاظ سن کر اِن کا مفہوم سمجھنے اور اِن میں فرق کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔
یہ پانچوں حصے باہم مل کر ایک دوسرے کے ممد و معاون بنتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں علم، ادراک میں بدل جاتا ہے۔ اگر حسِ مشترک موجود نہ ہو تو یہ پانچوں حواس ایک عضوِ معطل کی طرح بے بس ہو کر رہ جائیں۔ ہر حس کا دوسری حس سے گہرا تعلق ہے اور ایک دوسرے کے بغیر ناقص ہیں۔
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حواسِ خمسہ ظاہری کا علم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے حواسِ خمسہ باطنی کے محتاج ہیں۔ جب تک حواسِ ظاہری کے مدرکات ان پانچوں حواسِ باطنی کے ذریعے ایک صحیح نتیجے تک نہ پہنچیں، اس وقت تک حواسِ ظاہری کی بنا پر محسوس کیے جانے والے تمام مادی حقائق علم کی شکل اختیار نہیں کرسکتے۔ گویا حواسِ ظاہری کسی شے کو محسوس توکرتے ہیں، اسے معلوم نہیں کرسکتے۔ دوسری طرف عقل اور اس کے حواسِ باطنی مکمل طور پر حواس ظاہری کے محتاج ہیں۔ اگر آنکھ دیکھنے سے، کان سننے سے، ناک سونگھنے سے اور زبان چکھنے سے محروم ہو تو تمام عقلی حواس مل کر بھی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا جہاں حواس عقل کے محتاج ہیں وہاں خود عقل بھی حواس کی محتاج ہے۔ حواس پر ماحول کی اثر پذیری اس حد تک ہے کہ اگرکسی بچے کی پیدائش کے بعد اس کی ایسے مقام پر پرورش کی جائے جہاں کوئی آواز اس کے کان میں پڑنے نہ پائے توایسا بچہ پچاس سال کو پہنچ جانے کے باوجود نہ کچھ بول سکے گا اور نہ کچھ سمجھ سکے گا۔ اس کی وجہ فقط یہ ہے کہ ہم جو کچھ اپنی زبان سے بولتے ہیں وہ دراصل ان آوازوں کا نتیجہ ہے جو کانوں نے سنیں اور جنہیں عقل نے حافظہ کی لوح پر محفوظ کر لیا۔ جب کوئی شخص اپنے کان سے کچھ سن ہی نہیں سکا اور اس کی عقل الفاظ، حروف، لہجوں اور آوازوں کو محفوظ ہی نہ کر سکی، تو جس طرح اس کا دماغ الفاظ کے معاملے میں سفید کاغذ کی طرح کورا رہا، اسی طرح اس شخص کو اپنی کیفیات، حاجات اور خواہشات کے بیان و اظہار پر بھی قدرت حاصل نہ ہو سکی۔ یہی سبب تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہِ اقدس میں اہلِ عرب اپنی اولاد کی تربیت و پرورش کیلئے انہیں بدوی عورتوں کے سپرد کردیتے تھے، تاکہ وہ ان لوگوں کی خالص اور فصیح عربی زبان سن کر بولنے پر قادر ہو سکیں۔
اب یہ بات طے ہو گئی کہ انسانی عقل کی پرواز صرف وہیں تک ہوتی ہے جہاں تک حواس اپنا کام کرتے ہیں۔ لہٰذا جو حقیقت انسان کے حواسِ خمسہ ظاہری (باصرہ، سامعہ، لامسہ، ذائقہ اور شامہ) کی دسترس سے باہر ہو، اس کا ادراک عقل بھی نہیں کر سکتی کیونکہ حواس کے خام مال کے بغیر عقل ایک عضوِ معطل ہے اورعقل کے بغیر سارے حواس بے کار اور بے مصرف ہیں۔
پس انسان کو عطا کردہ ذرائع ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ اس لیے حواسِ خمسہ اور عقل فعال ہونے کے باوجود انسانی زندگی کی حقیقت سے متعلق اکثر سوالات جواب طلب رہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ انسان کو کس نے پیدا کیا؟ انسان کی تخلیق کیسے ہوئی؟ آغازِ کائنات کیسے ہوا؟ اوراس کا اختتام کیسے اورکب ہوگا؟ اس کائنات سے انسان کا کیا تعلق ہے؟ کائنات میں بحسن و خوبی زندگی گزارنے کے لیے کون سے قانون کی پاسداری لازمی ہے؟ کون سی چیز اچھی ہے اورکون سی بری؟ ظلم کیا ہے اور انصاف کیا؟ مرنے کے بعد انسان کا کیا ٹھکانا ہے؟آیا موت ہر چیز کا اختتام ہے یا ایک نئی زندگی کا آغاز؟ اگر مرنے کے بعد انسان نئی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو اس حیاتِ ثانیہ کی کیفیت کیا ہے؟ مزید یہ کہ مرنے کے بعد وہ اپنے اعمال کے لئے جواب دہ ہو گا یا نہیں؟
علیٰ ھذا القیاس انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا بامقصد زندگی پر یقین رکھنے والے ہر انسان کو تسلی بخش جواب چاہیے۔ جب یہ تمام سوالات انسانی عقل پر دستک دیتے ہیں تو انسان ان کے جواب کے لیے حواسِ خمسہ میں سے ہر ایک کے دروازے پر دستک دے کر پوچھتا ہے کہ ہمارا خالق کون ہے؟ زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ ہمیں مرنے کے بعد کہاں جانا ہے؟ اچھائی اور برائی کیا ہے؟ مگر انسانی حواس انتہائی درماندگی کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ حقائق ہماری دسترس سے باہر ہیں۔ یہ مادی جسم سے ماورا ہیں ہم ان کا جواب کیسے دے سکتے ہیں؟ اس طرح انسانی حواس کی بے بسی اورعاجزی پوری طرح نمایاں ہوجاتی ہے۔
جب واضح ہوجاتا ہے کہ وہ تمام حقائق جن سے انسان کی اخلاقی و روحانی اور اعتقادی ونظریاتی زندگی تشکیل پاتی ہے، حواسِ خمسہ کی زد سے ماورا ہیں تو انسان اپنی عقل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کا دامن جھنجھوڑ کرکہتا ہے: اے میرے وجود کے لیے سرمایہِ افتخار! میری زندگی کے بنیادی حقائق سے متعلق، اب تو ہی میری راہنمائی کر! مگر عقل بھی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے: اے انسان! میں تو خود تیرے حواس کی محتاج ہوں۔ وہ چیز جس کا ادراک حواس نہیں کر سکتے اس کے متعلق میں کیسے فیصلہ صادر کرسکتی ہوں؟ میں تو حواس کی طرح بے بس و مجبور ہوں اور تیری کوئی راہنمائی نہیں کر سکتی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ ذاتِ حق کا ادراک باطنی حواس سے بھی ممکن نہیں۔
رب تعالیٰ نے انسان کو ذریعہ علم کے طور پر ایک اورباطنی سرچشمہ بھی عطا کیا ہے جسے وجدان کہتے ہیں۔ انسانی وجدان کے بھی پانچ گوشے ہیں، جن کو لطائفِ خمسہ سے موسوم کیا جاتا ہے:
ان لطائف کے ذریعے انسان کے دل کی آنکھ بینا ہو جاتی ہے، حقائق سے پردے اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں، روح کے کان سننا شروع کر دیتے ہیں اور یوں انسانی قلب بعض ایسی حقیقتوں کا ادراک کرنے لگتا ہے جو حواس وعقل کی گرفت میں نہیں آ سکے تھے۔ لیکن انسانی وجدان کی پرواز بھی طبیعی کائنات تک محدود ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
ووراء العقل طور آخر، تنفتح فيه عين اخرٰی، فيبصر بها الغيب، وما سيکون فی المستقبل، و أموراً آخر، العقل معزول عنها.
’’اور عقل کے بعدایک اور منزل ہے جس میں باطنی آنکھ کھل جاتی ہے اس کے ذریعے غیبی حقائق اور مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو دیکھا جا سکتا ہے اوران دیگر امور کو بھی جن کے ادراک سے عقل قاصر ہے۔‘‘
غزالی، المنقذ من الضلال: 54
لیکن اس وسعت کے باوجود وہ حقائق جو طبیعی کائنات کی محدودات (Limitations) سے ماوراء اور خدا کی ذات و صفات سے متعلق ہیں انسانی وجدان انہیں جانچنے اور پرکھنے سے قاصر رہتا ہے۔ جیسا کہ انسانی تخلیق اوراس کا مقصدِ تخلیق، نیز اس کی موت اور ما بعدالموت سے تعلق رکھنے والے معاملات۔ ان کے بارے میں حتمی اور قطعی علم نہ تو حواس دے سکتے ہیں، نہ عقل اور نہ ہی وجدان۔ انسان نے یکے بعد دیگرے تینوں ذرائع علم کے دروازوں پر دستک دی، مگرہرایک نے اسے مایوس کردیا۔ کوئی بھی ذریعہ اس کے علم کو حتمیّت اور قطعیت کا درجہ نہ دے سکا۔ چنانچہ انسان ہر طرف سے مایوس ہو کر خدا کی ذات کو پکارتا ہے اورکہتا ہے کہ اے ربِ کائنات! میں اپنی ذات، کائنات اور تیری ذات کا یقینی عرفان چاہتا ہوں مگر میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جومجھے مطمئن کرسکے۔ اس لیے تو اپنے خزانہِ غیبی سے میرے لیے علم کا کوئی ایسا سرچشمہ پیدا کر دے، جو مجھے ان سربستہ حقائق کے بارے میں حقیقی آگاہی بخش سکے کہ فقط تیری ذات ہی ہے جہاں تمام حواس ناکام ہوجائیں، انسانی عقل خیرہ ہوجائے اور انسانی وجدان بھی نامراد لوٹ آئے، وہاں تجھ سے اس سرچشمہِ علم کے فیضان کی بھیک مانگی جا سکے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَo
’’بے شک سب لوگوں سے بڑھ کر ابراہیم ( علیہ السلام ) کے قریب (اور حقدار) تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے ان (کے دین) کی پیروی کی ہے اور (وہ) یہی نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور (ان پر) ایمان لانے والے ہیں، اور اللہ ایمان لانے والوں کا مدد گار ہے۔‘‘
آل عمران، 3: 68
یہاں ھٰذَا النَّبِيُ سے تمام اکابر مفسرین نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ والا صفات مراد لی ہے۔
ابن جریر طبری، جامع البیان، 3: 218
بغوی، معالم التنزیل، 3: 313
نسفی، تفسیر القرآن الجلیل، 3: 224
سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، 2: 226
یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ اللہ رب العزت کی ذات ہمارے حواسِ ظاہری و باطنی اور وجدان کی رسائی سے بالا تر ہے۔ اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے لئے ’’ھُوَ‘‘ استعمال کیا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ان کی تعظیم کی خاطر ’’ھَذَا‘‘ فرمایا کہ اگر تم ’’ھُوَ‘‘ کی صحیح معرفت چاہتے ہو تو یہ نعمت تمہیں ’’ھَذَا‘‘ کی بارگاہ سے نصیب ہو گی۔
ترجمان حقیقت امام احمد رضا محدث بریلوی نے اسی مفہوم کو شعری قالب میں یوں ڈھالا ہے:
بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو، جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
گویا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ’’وہاں‘‘ استعمال کیا اور بارگاہِ رسالت کے لئے ’’یہاں‘‘ اور یہ عقیدہ بھی واضح کر دیا کہ ’’یہاں‘‘ کی معرفت کے بغیر ’’وہاں‘‘ کی رسائی ناممکن ہے۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ حواس کے ذریعے انسان کو حاصل ہونے والے علم میں بہرصورت غلطی کا احتمال باقی رہتا ہے۔ عقل غلطی کرسکتی ہے، وجدان اور کشف میں بھی سقم ہوسکتا ہے، جبکہ انسان تلاشِ حق کے لئے ایسے حتمی و قطعی علم کی جستجو اور طلب رکھتا ہے ، جس میں غلطی، سقم اور خطا کا کوئی ادنیٰ سا احتمال بھی موجود نہ ہو۔
اب یہ تو عین ممکن ہے کہ زید کی آنکھ نے جو کچھ دیکھا، عمرو کی آنکھ اسے غلط ثابت کردے۔ ایک شخص کی عقل ایک دلیل سے جو نتیجہ اخذ کرے، ممکن ہے دوسرے کی سوچ اسی دلیل سے اس کے برعکس نتائج اخذکرے۔ اسی طرح وجدان اور دیگرحواس کے فیصلوں میں بھی غلطی کا احتمال رہتا ہے۔ لیکن علم کا وہ درجہِ کمال اور علم کی وہ ارفع حالت جہاں غلطی اور خطا کے کسی امکان اور انتشار و افتراق کی کوئی گنجائش نہ ہو اس کے حصول کا ذریعہ صرف اور صرف بارگاہِ نبوت و رسالت کی دریوزہ گری ہے، یا پھر ان اہل اللہ سے وابستگی ہے جو اپنی ذات کو انوارِ نبوت و رسالت سے مستنیر کرچکے ہیں۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ انسانی حواس ہوں یا انسانی عقل، یہ سارے کے سارے ذرائع انسان کو حتمی علم مہیا نہیں کرسکتے۔ حتمی علم صرف اُسے حاصل ہوتا ہے جس نے آفتابِ نبوت کے انوار سے اپنے سینے کو منور کر لیا ہو اور یہ مقام صوفیاء اور عارفانِ حق کو نصیب ہوتا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ علومِ نبوت و رسالت ہی وہ واحد ذریعہ ہیں، جن کی فراہم کردہ معلومات میں غلطی اور خطا کا کوئی احتمال باقی نہیں رہتا تو جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ ہمیں ’’ھُوَ‘‘ کی خبر دی گئی تو وہ بالکل صحیح اور درست ہے اور اسی پر ایمان لانے میں ہمارے لئے نجات ہے۔
یہ بات ثابت ہو گئی کہ اللہ کی ذات فہم و ادراک سے بالا تر ہے۔ آج تک علم و شعور کا ایسا کوئی پیمانہ دریافت ہوا نہ کبھی ہو سکتا ہے جس کے ذریعے ذاتِ حق کی معرفت ممکن ہو۔ اس ذات کی صحیح معرفت اور پہچان صرف واسطہِ رسالت سے ممکن ہے۔ لہٰذا ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’’ھُوَ‘‘ علم بالادراک کا نہیں بلکہ ایمان بالغیب کا موضو ع ہے۔ عقل و شعور اور انسانی علوم کے ذریعے تحقیقات سے جو نتائج اخذ کئے جاتے ہیں وہ حتمی اور قطعی نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ نہ ہی یہ موضوع ان کے دائرہ کار میں آتا ہے۔
یہاں قدرتی طور پر ذہن سائنس اور اس کے اکتشافات کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ جہاں تک سائنس اور اس کی تحقیقات کا تعلق ہے، ان کو نظریات(Theories) کا نام تو دیا جاسکتا ہے مگر ان تحقیقات کو کائنات کے بنیادی حقائق کا نام نہیں دیا جاسکتا۔آج سائنسی تحقیق ایک بات ثابت کرتی ہے، کچھ عرصہ کے بعد دوسری تحقیق اسے غلط ثابت کردیتی ہے، آج سائنس کسی مسئلے میں ایک موقف اختیار کرتی ہے، کچھ عرصہ کے بعد نئے تجربات کے تحت سائنسدان نیا نقطہِ نظر پیش کردیتے ہیں۔ سائنسی تحقیق کا آغاز مفروضہ (Hypothesis) سے ہوتا ہے اور اس کی تصدیق تجربے (Experiment) سے ہوتی ہے۔ اس کے باوجود سائنس اپنے ارتقائی مراحل کے ذریعے نظریے کی منزل تک نہیں پہنچتی۔ ماہرین کے خیال میں سائنس کا اسی فی صد (80%) علم غیر یقینی (Indefinite) اور ظنی (Probable) ہے ۔ یہ عمرانی علوم (Social Sciences) ہوں یا قدرتی علوم (Natural Sciences)، کیمیا (Chemistry) اور طبیعات (Physics) ہو یا نباتات (Botany) اورحیوانیات (Biology)، ان سب علوم کی تحقیقات کا 70 یا 80 فیصد حصہ ابھی اقدام و خطاء (Trial & Error) کے مرحلے میں ہے۔ سائنس اپنی سینکڑوں برس کی جدوجہد کے باوجود ایسا کوئی پیمانہ دریافت نہیں کر سکی جس پر وہ اپنی معلومات اور دریافتوں کو پرکھ کر قطعی اور حتمی شکل میں سائنسی دنیا کے سامنے پیش کر سکے۔ بہت کم ایسی سائنسی تحقیقات ہوں گی جو حتمی قانون کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ علم جب تک حتمیت اور قطعیت کے درجے تک نہ پہنچے، اس وقت تک باکمال نہیں بن سکتا۔ گویا سارے ذرائع علوم ابھی تک اقدام وخطاء کے مرحلے میں ہیں۔ لیکن نبوت و رسالت کے تمام علوم و اکتشافات ہر قسم کی خطا اور غلطی سے منزہ ہونے کے باعث شروع سے آخر تک حتمیت و قطعیّت کی شان اختیار کئے ہوئے ہیں۔
سورہِ اخلاص کی پہلی آیہ کریمہ میں لفظ ’’اللہ‘‘ استعمال کیا گیا ہے جو باری تعالیٰ کا اسمِ ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی ایک نام اسمِ ذات کے طور پر جانا جاتا ہے جبکہ باقی اسماء صفات ہیں۔ جس طرح بنیادی طور پر توحید کے دو پہلو ہیں یعنی ذات کے اعتبار سے اللہ کا ایک ہونا اور صفات کے اعتبار سے یکتا اور ایک ہونا، اسی طرح اس کے اسماء کے بھی دو پہلو ہیں۔ اس کا ایک نام ذاتی ہے اور کئی نام صفاتی ہیں۔ صفاتی نام سے کسی ذات کی مختلف جہتوں کا پتہ چلتا اور اس کی مختلف سمتوں کا اندازہ ہوتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے دو اسماء رحمن اور رحیم ہیں۔ یہ صفاتی نام اس کی صفتِ رحمت پر دلالت کرتے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ کو رحمن اور رحیم کہا جائے گا تو اس سے اس ذات کی صفتِ رحمت کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی ہو گی کہ وہ ذاتِ مہربان کس قدر رحمت فرمانے والی ہے۔ جب اس کے لئے عالم کا لفظ استعمال کیا جائے گا تو اس سے اس کی صفت علم کا پتہ چلے گا کہ اس کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔
جب اس کے لئے سمیع و بصیر کے الفاظ استعمال ہوں گے تو ان سے پتہ چلے گا کہ اس کی سماعت و بصیرت کی صفات کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ جب اللہ تعالیٰ کو قدیر، خالق و مالک ، معبود، مستعان ، رب ، قہار، جبار کہا جائے گا تو ان سب صفاتی اسماء سے اس کی مختلف صفتوں کی نشاندہی ہو گی۔
ہر اسمِ صفت اس ذات کی کسی نہ کسی صفت پر دلالت کرتی ہے۔ گویا صفاتی ناموں سے اس کی صفات کا پتہ چلتا ہے جبکہ بیانِ توحید میں ذاتی نام استعمال کرنے کی حکمت یہی ہے کہ ’’اللہ‘‘ ذاتِ باری تعالیٰ کا وہ اسمِ عالی شان ہے جو کسی اور کا ہو ہی نہیں سکتا۔ جیسے اللہ یکتا ہے اسی طرح اس ذاتِ واحد کا نام بھی شانِ یکتائی رکھتا ہے۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ذاتِ حق کی معرفت سائنسی تحقیقات اور انسانی ذرائع علم سے ممکن نہیں کیونکہ وہ ذات فوق الادراک ہے۔ انسانی علوم کی اپنی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ علوم جب تک دہلیزِ رسالت و نبوت پر سجدہ ریز نہ ہوں اس وقت تک ان کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا علم جس عقل و وجدان پر اعتماد کرتا ہے، ان کی پرواز محدود ہے۔ یہ سب ایک مقام پر پہنچ کر رک جاتے ہیں۔ ان کے لیے اس سے آگے تاریکی ہی تاریکی ہے ۔ لہٰذا معرفت باری تعالیٰ کی واحد صورت یہ ہے کہ انسان ذاتی تحقیقات اور کسی علم کی بجائے علومِ رسالت کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دے اور ’’ھُوَ‘‘ یعنی معرفتِ حق کی جستجو ’’ھَذَا‘‘ یعنی سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ حق ترجمان سے سن کر کرے۔
سورئہ اخلاص میں احدیت کا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌo
’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیجئے وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔‘‘
یہاں توحید کے تصور کو اجاگر کیا گیا ہے یعنی توحید کی نسبت اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف بھی ہے اور اس کی صفات کی طرف بھی۔ ذات کی طرف توحید کی نسبت کا معنی یہ ہے کہ اس کا اس پوری کائنات ہست و بود میں کوئی شریک و سہیم نہیں۔ وہ معبود اور خالق و مالک ہونے کے اعتبار سے یکتا و یگانہ ہے۔ چونکہ احد کے صیغے میں واحد کی نسبت زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اس لئے ’’اَحد‘‘ کہا۔ ہرچند کہ ’’وَاحد‘‘ میں بھی اکیلا ہونے کا معنی پایا جاتا ہے لیکن ’’وَاحد‘‘ کہنے کی بجائے ’’احد‘‘ اس لئے کہا کہ کسی دوسرے کے ہونے کے تمام تر امکانات ختم ہو جائیں اور یہ وہم و گمان بھی ذہن میں نہ رہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس پوری کائنات میں کوئی دوسرا معبود بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا عبادت کے لائق صرف اور صرف وہ تنہا ذات ہے، وہی معبودِ برحق ہے۔ اب اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو معبود، خدا یا واجب الوجود ہستی اور قدیم مانے، تو وہ ذاتِ الٰہی میں شرک کا مرتکب ٹھہرے گا۔
پوری دنیائے انسانیت اور مذاہبِ عالم کی تاریخ کے بالاستیعاب مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مذہب و ملت اور ہر طبقہ انسانیت میں مشرکانہ تصورات کے باوجود بھی کسی ایسی ہستی کا تصور ضرور موجود رہا ہے جس کے بارے میں وہ سب سے بلند و بالا اور کائنات کے خالق و مالک، رب الارباب اور رب کائنات ہونے کا عقیدہ رکھتے رہے ہیں۔ ہندو مذہب سے بڑھ کر مشرکانہ تصورات پر مبنی مذہب اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے لاتعداد بتوں کی پوجا کا پرچار کرتا ہے۔ لیکن ان گنت خود ساختہ خداؤں کو ماننے والا یہ مذہب بھی ایک کو رب الارباب یعنی (خداؤں کا خدا) مانتا ہے۔ اسے وہ ’’پریشور‘‘ کا نام دیتا ہے۔ پریشور کو ماننے والے کسی عام دیوی دیوتا کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں کرتے۔ اسی پریشور کو ہندومت میں براہما کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یجروید ہندومت کی مقدس مذہبی کتاب ہے۔ اس کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں پریشور اس براہمہ کے لئے استعمال ہوا ہے جس کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ سمندروں، ندیوں اور دریاؤں کی نہریں بھی اسے پکارتی ہیں۔
اس پریشور اور براہما کے لئے ہندو ایک خاص لفظ ’’اووم‘‘ بطور اسمِ ذات استعمال کرتے ہیں۔ ہندوؤں میں تزکیہ نفس کرنے والے جب نشست میں بیٹھ کر کسی ایسی ذات کے نام کا ورد کرتے ہیں جس کا مقابلہ کوئی دیوی دیوتا نہیں کر سکتا تو وہ مراقبہ کی حالت میں ’’اووم‘‘ کے ساتھ اس ذات کو پکارتے ہیں۔ یہ وہ لفظ ہے جسے ہندومت کی اصطلاح میں ’’اللہ‘‘ کا ہم معنی کہا جاتا ہے۔ وہ مشرکانہ عقیدہ رکھنے والے بھی شرک کی ہزاروں آلودگیوں کے باوجود اسی کو سب سے بلند و بالا ماننے پر مجبور ہیں اور اس کو وہ نام دینے پر مجبور ہیں جو اس کے سوا کسی مصنوعی رب کا نام نہیں۔
’’اَللهُ الصَّمَد‘‘ کا معنی ذات کی نسبت سے یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اوّل سے آخر تک از خود موجود ہے۔ وہ بے نیاز اور سب پر فائق ہے جبکہ ہر شئے اپنے وجود کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا باقی جو کوئی بھی کائنات میں موجود ہے اس کے وجود میں آنے کا سبب خدا کی ذات ہے اور ہر کسی کا موجود ہونا اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔ جب ہر کسی کا وجود اللہ رب العزت کا محتاج ٹھہرا تو اس کی صفات اور کمالات بھی محتاج ہوں گے جبکہ یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ وجود میں کسی کا محتاج ہے اور نہ صفات و کمالات میں کسی کا محتاج ہے۔ مخلوق میں ہرکوئی اپنے وجود میں بھی اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے اور اپنی صفات و کمالات میں بھی اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔
چنانچہ اس فرق کے تناظر میں ہمارا عقیدہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے لیکن وہ اپنے زندہ ہونے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ دوسری طرف ہم بھی زندہ ہیں لیکن ہم اپنی زندگی کے لئے اس کی بخشی ہوئی حیات کے محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے لیکن اس کی صفتِ کلام کسی کی حاجت مند نہیں۔ ہم بھی کلام کرتے ہیں لیکن ہمارا متکلم ہونا اس صاحبِ کلام کا محتاج ہے۔ وہ بصیر ہے لیکن اس کا بصیر ہونا کسی کا محتاج نہیں۔ ہم بھی دیکھتے ہیں لیکن ہمارا دیکھنا اس کا محتاج ہے۔ وہ سمیع ہے بغیر حاجت کے، ہم سمیع ہیں اس کی حاجت کی بناء پر۔ وہ علیم و شہید ہے بغیر حاجت کے اور ہم علیم و شہید ہیں اس کے محتاج ہونے کے سبب سے۔ وہ رحیم، کریم، جواد اور رؤوف ہے بغیر حاجت کے لیکن ہم ہر معاملے میں اس کے محتاج ہیں۔ الغرض اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی صفات ہیں وہ بغیر حاجت کے ہیں اور ہماری جملہ صفات اس کی عطا سے ہیں۔ اب اگر ہم خدا کو اس کی ذات کی بناء پر رؤوف مانیں اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی عطا کی بناء پر رؤوف مانیں تو ایسا عقیدہ رکھنا ہر گز شرک نہیں ہوگا۔ اسی طرح اللہ کو کریم، شہید، علیم، قدیر اور صمد بالذات ماننا اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کریم، شہید اور علیم، اللہ کا محتاج جان کرماننا شرک نہ ہو گا۔
کچھ صفات صاحبِ صفت یعنی صفت پیدا کرنے والے میں بھی ہوتی ہیں اور دوسروں میں بھی (بطورِ عطا) ہوتی ہیں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کے حال اور شان کے مطابق ہوتی ہیں جبکہ دوسروں میں ان کے حسبِ حال ہوتی ہیں۔ ایسی صفات جو اللہ تعالیٰ کا خاصہ نہیں ہیں بلکہ مشترک ہیں ان کا مخلوق کے لئے ان کے حسبِ حال اثبات شرک نہیں ہو گا مثلاً
1۔ اللہ دیکھنے والا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُo
’’بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
الاسرائ، 17: 1
لیکن قرآن مجید میں انسان کو بھی سمیع و بصیر کہا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا۔
’’پس ہم نے اسے (ترتیب سے) سننے والا (پھر) دیکھنے والا بنایا ہے۔‘‘
الدھر، 76: 2
2- اللہ کی شان ہے کہ وہ رؤُف رحیم ہے، ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌo
’’بے شک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے۔‘‘
البقرہ، 2: 143
اور قرآن مجید میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌo
’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔‘‘
التوبہ، 9: 128
3- اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌo
’’بے شک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہا ہے۔‘‘
الحج، 22: 17
اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت فرمایا:
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاَءِ شَهِيدًاo
’’پھر اس دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔‘‘
النساء، 4: 41
فرمایا: اے محبوب! قیامت کا وہ کیا منظر ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک شہید اٹھائیں گے اور اس کی شہادت اس کی امت تک محدود ہو گی لیکن جب تمام محدود شہادتوں والے شہید (گواہ) ایک ایک کرکے گزر جائیں گے تو پھر آخر میں محبوب تجھے سب گواہوں پر ایسا گواہ بنائیں گے کہ کائنات کی ہر شئے اوّل سے آخر تک تیری شہادت پر موقوف ہو گی، اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا
’’اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تم پر گواہ ہو۔‘‘
البقرۃ، 2: 143
اللہ بھی شہید ہے بندے بھی شہید ہیں۔ اللہ بھی رؤُف ہے بندے بھی رؤُف ہیں۔ اللہ بھی رحیم ہے بندے بھی رحیم ہیں۔ اللہ بھی کریم ہے بندے بھی کریم ہیں۔
اللہ بھی کلام کرتا ہے اور اس کے بندے بھی کلام کرتے ہیں۔ جس طرح ارشاد فرمایا:
4.وَكَلَّمَ اللّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا
’’اور اللہ نے موسٰی ( علیہ السلام ) سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائی۔‘‘
النساء، 4: 164
اللہ رب العزت نے موسٰیں سے کلام کیا اور موسٰیں نے اللہ تعالیٰ سے کلام کیا۔ یہ صفاتِ مشترکہ ہیں۔ لیکن اَلْحَمْد سے وَالنَّاس تک پورے قرآن میں کوئی ایسا مقام نہیں جہاں اس کے معبود ہونے کا ذکر ہے وہیں اس کے ساتھ کسی بندے کو بھی معبود کہا گیا ہو۔ اللہ خالق ہے۔ وہ عدم سے کائنات کو وجود میں لانے والا ہے۔ وہ موت و حیات کا مالک ہے لیکن یہ سب کچھ کسی بندے کے بارے میں نہیں کہا گیا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ازروئے قرآن معبود ہونا اس کی غیر مشترک اختصاصی صفت ہے اور یہی قرآن بیان کر رہا ہے کہ سمیع و بصیر ہونا اس کی صفتِ مشترک ہے۔ معبود ہونے میں کوئی اس کا شریک، سہیم اور ساجھی نہیں جبکہ سمیع و بصیر، رؤوف ورحیم اور شہید جیسی صفات میں خالق کے ساتھ اس کے بندوں کا بھی ذکر ہے۔ اس کا جواب بڑا سادہ ہے اور وہ یہ کہ صفات کی ما ہیئت میں فرق ہے۔ وہ صفت جو صرف اللہ تعالیٰ میں پائی جائے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور میں کسی حال میں بھی نہ پائی جائے اس کو ’’خاصہِ الُوہیت‘‘ کہا جاتا ہے اور وہ صفت جو اللہ تعالیٰ میں اس کی شان اُلوہیت کے اعتبار سے اور بندے میں اس کی شانِ عبدیت کے اعتبار سے پائی جائے اس کو محض صفت کہا جائے گا خاصہِ اُلوہیت نہیں۔ جب اللہ رب العزت کی ذاتِ مقدسہ ’’وحدہ لاشریک‘‘ ٹھہری تو خاصہِ معبودیت صرف اور صرف اسی کے لئے مختص ٹھہرا۔ اس کے سوا کسی اور کے لئے ثابت نہیں۔ لہٰذا جو کوئی اللہ رب العزت کے سوا کسی اور کو ایک لمحہ کے لئے بھی معبود کا درجہ دے وہ کافر اور مشرک ہے، خواہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ہی سے ایسا اعتقاد کیوں نہ رکھے۔
لہٰذا مسلمانوں کا یہ مسلّمہ عقیدہ ہے کہ لمحہ بھر کے لئے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معبود سمجھنا کفر و شرک ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان صفات سے متصف کرنا جو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں کفر و شرک ہے کیونکہ یہ صفات خاصہِ الُوہیت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کی نسبت ہر مسلمان کاعقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ نہیں کیا جا سکتا۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کی جاسکتی ہے۔ پس ان دو چیزوں میں یہ فرق ٹھہرا کہ کچھ صفات ایسی ہیں جو صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے خاص ہیںکسی اور کے لئے نہیں اور کچھ صفات ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لئے بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے غیر کے لئے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے اس کی شان کے لائق ہیں اور غیر کے لئے اس کی شان کے لائق ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی ہم عبادت کرتے ہیں جو کمال درجے کی تعظیم ہے جبکہ اپنے والدین کی بھی تعظیم کرتے ہیں لیکن عبادت میں والدین کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں کرتے۔ (تعظیم اور عبادت میں فرق پر تفصیلی بحث اسی کتاب کے باب سیزدہم میں ملاحظہ کریں۔)
سورہِ اخلاص کی آیت نمبر 3 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَمْ يَلِدْ.
’’نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے۔‘‘
پیدا ہونے والے کو بیٹا یا بیٹی کہتے ہیں جو باپ کا جزو ہوتے ہیں۔ بیٹے سے جزئیت ثابت ہوتی ہے اور کُل کا کچھ نہ کچھ اثر جزو میں آتا ہے۔ اگر خدا کا (معاذ اللہ) کوئی بیٹا ہوتا تو پوری نہ سہی کچھ نہ کچھ خدائی اس میں بھی آ جاتی کیونکہ بیٹا ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ اس کی اُلوہیت کے اوصاف اس میں کسی حد تک منتقل ہو جائیں۔ سورہِ اخلاص کی اس آیت مبارکہ میں اس چیز کی مکمل نفی کی گئی ہے۔
فرشتوں کے بارے میں یہودی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اسی طرح حضرت عزیر ںکے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّهِ
’’اور یہود نے کہا: عزیر ( علیہ السلام ) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا: مسیح( علیہ السلام ) اللہ کے بیٹے ہیں۔‘‘
التوبۃ، 9: 30
یہود و نصاریٰ کے عقیدے کا رد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ اقدس سے کرایا گیا۔ ارشاد فرمایا:
قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَo
’’فرما دیجئے کہ اگر (بفرضِ محال) رحمان کے (ہاں) کوئی لڑکا ہوتا (یا اولاد ہوتی) تو میں سب سے پہلے (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا۔‘‘
الزخرف، 43: 81
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہلوایا گیا کہ اے یہود و نصاریٰ! تم جھوٹ بولتے ہو کہ اللہ کا کوئی بیٹا ہے۔ اگر اللہ کا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ یقینًا عبادت کے لائق ہوتا اور میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والوں میں ہوتا کیونکہ سب سے پہلا عبادت گزار اس کائنات میں مجھے بنایا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَo لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَo
’’فرما دیجئے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج و قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں(جمیع مخلوقات میں) سب سے پہلا مسلمان ہوں۔‘‘
الانعام، 6: 162-163
قرآن نے اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ ہونے پر یہ دلیل دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہو اور بیٹا ہو کر بھی خدا نہ ہو تو اس کی خدائی پر حرف آتا ہے۔ اسی طرح اگر بیٹا ہو کر خدا ہو تو بھی اس کی خدائی میں شرک واقع ہوتا ہے۔ اس لئے بیٹے سے پاک ہونے کا قطعی اعلان ہوا تاکہ نہ خدائی پر حرف آئے اور نہ خدائی میں شرک لازم آئے۔
اللہ تعالیٰ کا کوئی جزو ہونا یا اس کا بیٹا ہونا اور اس کے نور کے براہِ راست پرتو سے تخلیق میں آنے میں بنیادی فرق ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت حضرت جابر بن عبداللہص سے یہ حدیث مروی ہے۔ جب انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ نے سب سے پہلے کسے پیدا فرمایا؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا:
إن اللہ خلق قبل الأشياء نور نبيک من نورهِ.
’’بیشک اللہ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔‘‘
عبدالرزاق، المصنف، باب فی تخلیق نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، 1: 18
قسطلانی، المواھب اللدنیۃ، 1: 9
حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، 1: 31
اس حدیثِ مبارکہ کے معنی و مفہوم سے بعض لوگ التباس اور مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’نور نبيک من نوره‘‘ کے کلمات جزئیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک مغالطہ ہے۔ ’’لا والدیت‘‘ اور مذکورہ حدیث دو الگ الگ چیزیں ہیں ان کا آپس میں التباس اور شائبہ پیدا ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ نور سے تخلیق مراد ہے، جزئیت ہرگز نہیں، جزئیت عقیدہِ باطل ہے۔
اس کا مطلب نہ تولد ہے اور نہ خدا کا جزو ہونا۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نور کا جزو ٹھہرایا بلکہ اپنے نور سے پیدا فرمانے کا معنی حدیث مذکورہ کے مطابق یہ ہے کہ اپنے نور کے براہِ راست فیض سے اللہ نے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا۔ اس معنی کی تصریح مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے بھی نشرالطیبکے پہلے باب نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان میں مذکورہ بالا حدیث کے تحت یہی کی ہے کہ ’’تیرے نبی کا نور اپنے نور کے براہِ راست فیض کے پرتو سے پیدا فرمایا۔‘‘
سورہِ اخلاص کی آیت نمبر 3 میں فرمایا:
وَ لَمْ يُوْلَدْo
’’اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔‘‘
جب اس کی طرح کوئی نہیں ہے تو اس کی کوئی اصل کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کا پیدا کرنے والا بھی ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ پر بھی فائق ہو گا کیونکہ باپ بیٹے پر تقدمِ زمانی اور وجود میں لانے کا سبب ہونے کی بنا پر بھی فائق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی باپ نہیں ہے اس لئے خدا پر نہ کوئی فائق ہے اور نہ مقدم۔ بیٹا، اپنے وجود میں آنے کے لئے باپ کا محتاج ہوتا ہے جبکہ خدا کسی کا محتاج نہیں اور ہر کوئی اس کا محتاج ہے۔ اس سورہِ توحید میں پیدائش اور ولادت کا ذکر دو طرح سے بیٹے کے طور پر اور باپ کے طور پر ہوا کہ نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا۔ اگر کسی کی طرف ولادت منسوب ہو جائے، خواہ ولادت دینا ہو یا ولادت پانا، تو وہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن خدا نہیں ہو سکتا کیونکہ جو خدا ہوتا ہے وہ نہ پیدا ہوتا ہے اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوتا ہے۔
حضرت عیسٰیں کی امت نے ان کے معجزات کو دیکھا، جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھوں کو شفایاب کرنا، مادرزاد نابینا کو صحت مند اور توانا بنانا، ان معجزات اور تصرفات و کمالات کو دیکھ کر امت نے انہیں خدا کے مقام پر فائز کر دیا۔ صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسٰیں کے معجزات ، معجزاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجہ نہیں رکھتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات تو ان تمام انبیاء علیہم السلام کے معجزات پر حاوی ہیں جن کی امتوں نے ان کے کمالات دیکھ کر ان کی نسبت خدائی کا دعویٰ کر دیا۔
امتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے کہ اس نے اس امت کو یہ شعور عطا کیا کہ وہ قیامت تک ربیع الاول کے مہینے میں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں جشن مسرت مناتی ہے۔ حزم و احتیاط کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو ’’بعد از خدا بزرگ توئی‘‘ کے حق دار ہیں، خدا نہیں بلکہ اللہ کے پیدا کردہ برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کیونکہ جو پیدا ہوتا ہے وہ خدا نہیں ہوتا۔ تو گویا میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا اعلانِ توحید ہے۔ اور نصاریٰ کے برعکس امتِ مسلمہ کا یہ عمل دراصل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ہر شرک کے تصور کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے مترادف ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد نہ منانے سے شرک کا شائبہ ہو سکتا تھا کہ امت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کیوں نہیں مناتی۔ کہیں کوئی یہ تو نہیں سمجھتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا نہیں ہوئے۔ لہٰذا واضح ہوا کہ ولادت منانا شرک نہیں بلکہ ردِ شرک کا اجتماعی اعلان ہے۔
(کسی کا اللہ تعالیٰ کا ہمسر و ہم رتبہ نہ ہونے کا بیان)
وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌo
’’اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔‘‘
اس کا کوئی ہمسر اور ہم پلہ نہیں، نہ ہی اس کا کوئی شریک ہے۔ وہ اپنی تمام صفتوں میں یکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی صمد ہے نہ کوئی احد، (کوئی اللہ کے سوا) لَمْ يَلِدْ ہے اور لَمْ يُوْلَدْ، وہ سلسلہِ تولید و تولُّد سے یکسر پاک ہے۔ کوئی واجب الوجود ہے اور نہ کوئی واجب الارادہ، ان ساری صفتوں میں اللہ تعالیٰ یکتا ہے اور ہر کوئی اس کا محتاج اور تابع ہے۔ اس کا کوئی شریک، ہم پلہ اور کفو نہیں۔
سورہِ اخلاص میں بیان کردہ سات ارکان کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کو ایک ماننا عقیدہِ توحید ہے اور ان سات ارکان میں سے کسی ایک رکن کا بھی انکار اور اس سورت میں بیان کردہ صفات کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے ثابت کرنا شرک ہے۔ لیکن جن جائز امور سے اس سورت میں منع نہیں کیا گیا وہ اپنی جگہ حق ہیں۔ ان جائز امور کو شرک بنانا اور توحید کو توحید کے تقاضوں سے نکالنا افراط و تفریط کا شکار ہونے کے مترادف ہے۔ اس لئے دین اور شریعت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضا یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کے تمام طبقات توحید اور ردِ شرک کے مسئلہ میں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال و میانہ روی کی راہ کو اپنا شعار بنائیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved