دینِ اسلام کے منجملہ امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ دین بیک وقت عقائد و اعمال (beliefs & practices) کا مجموعہ ہے۔ ان دونوں کے فعال اور متحرک رہنے میں ہی اسکی بقاء اور تسلسل کا انحصار ہے۔ عقائد کو اصول الدین، ایمانیات اور علم الکلام کہا جاتا ہے جبکہ اعمال کو ارکانِ اسلام سے موسوم کیا جاتا ہے اور یہ علم الفقہ کا موضوع ہے۔ ان دونوں حقیقتوں کا باہمی ربط و تعلق بالکل وہی ہے جو انسانی شخصیت میں روح اور جسم کا ہے۔ اول الذکر کا موضوع انسان کے باطنی احساسات جذبات اور نیت کے احوال ہیں جبکہ دوسرے کا موضوع تعبدی، تشریعی اور عائلی و سماجی اعمال ہیں اور ایمان ان دونوں دھاروں کے یکجا ہونے کا نام ہے۔
اعمال کے مقابلے میں عقائد کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ وہ بنیاد اور جڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے بنیاد کے بغیر عمارت کا تصور محال اور جڑ کے بغیر درخت کی زندگی ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ ص نے فقہ اسلامی کی تدوین سے قبل اصول الدین اور ایمانیات پر گراں قدر رسائل مرتب فرمائے جن میں سے اہم ترین رسالے کا عنوان الفقہ الاکبر رکھا۔ بعد میں عقائد و ایمانیات پر جتنی کتب لکھی جاتی رہیں ان میں بنیادی اصول و ضوابط امام صاحب ہی کے تھے۔ چنانچہ اسکی وضاحت میں آپ نے فرمایا۔
الفقه فی أصول الدين أفضل من الفقه فی فروع الأحکام.
’’اصول دین کی تفہیم جزئیاتِ احکام کی تفہیم سے افضل اور اَہم ہے۔‘‘
(1) الدکتور حسن محمود الشافعی، المدخل إلی دراسۃ علم الکلام: 14
چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک دیگر علوم و فنون کی طرح علم الکلام میں بھی نمایاں شخصیات نے حسب موقع و ضرورت خدمات سر انجام دیں اور ملت کو معاصر فتنوں کی زد سے بچائے رکھا حتی کہ اسی نظریاتی و اعتقادی محاذ پر لڑتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا۔ بارہ سو سالہ عروج کے بعد مجموعی زوال کا شکار ہونے والی امتِ مسلمہ کی ایک بڑی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اسے دائمی زوال سے ہمکنار کرنے کے لئے بنیادی عقائد میں تشکیک و ابہاممیں مبتلا کر دیا گیا۔ عالم اسلام میں بالعموم اور برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص مسلکی تنازعات اور باہمی مذہبی منافرت نے مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا وہ کسی ذی شعور شخص سے مخفی نہیں۔ اسی منفی روئیے نے عالم اسلام کا دامن علم و تحقیق کے حقیقی جو ہر سے محروم رکھا اوریہی رجحان ملت کی سیاسی تمکنت کا دشمن ثابت ہوا ۔ شو مئی قسمت کہ امت جن عقائد و اعمال کی موشگافیوں میں اُلجھ چکی ہے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اعتقادی اختلافات کے ساتھ ہے جن کے حل میں تحمل اور بردباری سے زیادہ جذباتی اور مجادلاتی عنصر رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اسی رجحان نے مختلف مسلکی گروہوں کو بھی جنم دیا ہے جو اب صبر وتحمل اور تحقیق و تفتیش کی ساری حدوں کو عبور کرکے باہمی قتل و غارتگری پر اتر آئے ہیں اور ایک دوسرے کے خون کو مباح قرار دے دیا گیا ہے۔
عقیدئہ توحید و رسالت اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہیں جن پرایمان و اسلام کی پوری عمارت کا دارومدار ہے۔ یہ دونوں دراصل عین یک دگر ہیں۔ فساد اور بگاڑ اس وقت پیدا ہواجب توحید اور رسالت میں مغائرت پیدا کر دی گئی۔ یہ مغایرت تنقیصِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منتج ہوئی۔ شرک اور بدعت کے تصور کو اتنا اچھالا گیا کہ ہر دوسرا شخص بدعتی اور مشرک قرار پانے لگا۔ داعیانِ اسلام کی قوتیں جب ان منفی پہلوؤں پر مرتکز ہوئیں تو اسکے دو نقصانات ہوئے ایک یہ کہ اسلام کی تعلیمات کے فروغ کا دائرہ سکڑ گیا اور دوسرا یہ کہ باہمی منافرت اور تضادات کے نتیجے میں مسلمان باہم دست و گریباں ہوگئے۔
اس ضمن میں دوسرا بنیادی نکتہ جو سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ توحید محض الفاظ و معانی کا گورکھ دھندا یا قیل و قال کا معاملہ نہیں بلکہ یہ تو عقیدے کے ساتھ ساتھ ایک کیفیت اور حال ہے جو انسان کے اندر سے پھوٹتا ہے۔ یہ تو ایک لذت آشنائی ہے جو انسان کو دو عالم کے خوف و غم سے بے نیاز کرکے بندگی کے اطوار سکھاتی ہے۔ یہ تو ایک نورِ باطن ہے جسے عبادت، ریاضت اور ذکر و فکر سے جِلا ملتی ہے پھر اس نورِ توحید کا حامل انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا چلتا پھرتا مظہر بن جاتا ہے وہ تقریروں، وعظوں اور مناظروں سے توحید کی تعلیم نہیں دینا بلکہ اس کی گفتار اور اس کا کردار توحید کی گواہی دیتا ہے۔ انہیں ملنے والا اور ان سے ہمکلام ہونے والا اپنے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور قربت محسوس کرتا ہے اور بالآخر بندہ واصل بحق ہوجاتا ہے۔ حال میں ڈھلی ہوئی یہی توحید دراصل اولیاء اللہ کا مشرب ہے جس کے باعث وہ استغناء کے بلند مرتبے پر فائز ہو جاتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتی۔ ایسے مست الست بندگانِ الٰہی قیامت میں بھی اسی شان استغناء سے ہمکنار ہوں گے۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
دورِ زوال بوجوہ میں توحید جب حال کی اس خاص کیفیت سے محروم ہو کر قیل و قال اور مناظروں کا موضوع بن گئی تو ’’موحدین‘‘ کی طبعیت میں ترشی‘ کبر و نخوت اور سخت گیری کا غلبہ ہوگیا جس کے مظاہر دنیا بھر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہی رجحانات ہر ملک میں کم و بیش یکساں طور پر اسلام کا چہرہ، محبت و مودت، مروت و احسان، تحمل و بردباری اور برداشت کی بجائے جارحیت‘ کرختگی اور غیر لچکدار رویوں سے مسخ کر رہے ہیں۔ پھر پورے عالم اسلام میں شرک و بدعت کا غلغلہ اور ردِ عمل میں ہونے والے مناقشات بذاتِ خود مسلمانوں کے داخلی انتشار اور عدم وحدت کی علامت بن چکے ہیں۔ حالانکہ عالم کفر ادیان و مذاہب، رنگ و نسل اور تاریخ و جغرافیہ کی تقسیم مٹا کر اہل اسلام کے خلاف صف آراء ہو چکا ہے۔
اس صورتحال کے پیش نظر ضروری تھا کہ ان اعتقادی موضوعات پر خالص علمی پیرائے اور معتدل طرز فکر کے ساتھ روشنی ڈالی جاتی تاکہ حقیقت حال سمجھنے میں عوام و خواص کو مدد ملتی۔ چنانچہ ان اعتقادی فتنوں کی بیخ کنی کے لئے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کی مدلل اور گرجدار آواز اُبھری جس نے تلخیوں کے موسم ناروا میں شرق تا غرب محبت و مودت کے گلزار آباد کر دیئے۔ مضبوط دلائل کے ساتھ شرک اور بدعت کے ’’طوفان‘‘ کو نہ صرف روک دیا بلکہ تنقیصِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدترین فتنے کو اپنی موت آپ مارنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ کتاب فی الحقیقت اس صدی میں حضرت شیخ الاسلام مدظلہ کا وہ نمایاں تجدیدی کارنامہ ہے جس کے مثبت اثرات آئندہ صدیوں تک مترتب ہوتے رہیں گے۔
یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ ’’کتاب التوحید‘‘ حضرت شیخ الاسلام مدظلہ کے خطبات و دروس کا مرتبہ مجموعہ ہے جو آپ نے دراسات القرآن کے عنوان سے علماء کونسل کے اراکین اور منہاج یونیورسٹی کے طلباء کو دیئے۔ اولاً یہ ’’توحید اور حقیقتِ شرک‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ یہ کتاب جون 1999ء میں پہلی بار طبع ہوئی۔ بعد ازاں منہاج یونیورسٹی کے شعبہ ICIS کے طلباء و طالبات (کے سیشن 5-2004ء) کو دیے گئے انگلش لیکچرز اس موضوع میں توسیع کا سبب بنے۔ یوں جب ان خطبات و دراسات کو حضور شیخ الاسلام کی براہِ راست نگرانی میں از سر نو مرتب کیا گیا تو کتاب کی ضخامت میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا اور اسے دو جلدوں میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جلد اوّل میں تین بڑے عنوانات کو شامل کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے مبادیات عقیدہ توحید کا حصہ ہے جس میں توحید اور شرک کے مفہوم کو اکابر ائمہ کی تصریحات کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے، اس حصے کا دوسرا جزو چند بنیادی نکات پر مشتمل ہے۔ یہ نکات دراصل پوری کتاب کا خلاصہ ہیں جنہیں ذہن نشین کئے بغیر کتاب سے کما حقہ استفادہ ممکن نہیں۔ اس حصہ کتاب کا دوسرا باب توحید کے ارکانِ سبعہ ہیں جو سورۃ اخلاص کی اعتقادی تفسیر ہے اور دنیائے علم و معرفت میں شاید پہلی مرتبہ اس شکل میں سامنے آ رہی ہے۔ یہ وہ کامیاب الہامی کاوش ہے جس نے توحید اور رسالت کے باہمی ربط و تعلق کو نہایت خوبصورتی سے اہل دانش و بینش کے سامنے رکھا ہے۔ کتاب کا دوسرا اور بڑا حصہ توحید کی متقابل اقسام پر مشتمل ہے، یہی حصہ دراصل کتاب کا دل ہے۔ تیسرے حصے میں ایسے موضوعات شامل کئے گئے ہیں جن سے روز مرہ زندگی میں واسطہ پڑتا ہے۔ اس حصہ کتاب میں اہل اسلام کو اعتقادی مسائل کے حل میں انتہاء پسندی کی بجائے احتیاط، تدبر میانہ روی اور تحمل کی راہ دکھائی گئی ہے۔ کتاب التوحید کی جلد دوم میں استعانت، استغاثہ توسل، توسط اور زیارت جیسے اہم اور متنازعہ فیہ موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔
کوشش کی گئی ہے کہ حضور شیخ الاسلام کا حقیقی مدعا قارئین تک بآسانی پہنچ پائے، اسلوب بیان کی ندرت دلائل کی صحت اور موضوعات کی تقسیم میں ابلاغ اور تسہیل کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دلیل اور تحمل سے حقائق کو سمجھایا گیا ہے۔ انشاء اللہ اسکے بعد عرب و عجم میں اعتقادی مخاصمت کی شدت میں کمی آئے گی اور توحید کا صحیح تصور سمجھنے میں مدد ملے گی۔ بالخصوص پاک و ہند میں سوادِ اعظم کے دو گروہوں کے باہمی اختلافات کی خلیج کو ختم کئے جانے کی طرف پیش رفت ہو سکے گی۔
اس اہم تاریخی دستاویز کو مرتب و مدون کرنے میں بنیادی کردار علامہ محمد تاج الدین کالامی کا ہے جنہوں نے ان خطبات کی ترتیب اوّل اور بعد ازاں ترتیب ثانی میں براہ راست حضور شیخ الاسلام کی ہدایات کے مطابق ان تھک محنت سے کام لیا۔ ان کے ساتھ علامہ محمد عمر حیات الحسینی، محترم ضیاء اللہ نیّر رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ فرحان ثنائی کی خصوصی معاونت بھی مختلف مراحل میں شامل رہی ہے۔ آخر میں راقم نے بھی اس اہم علمی کتاب کی ترتیب و تدوین میں بساط بھرخدمت کی سعادت حاصل کی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں حقیقی معنوں میں اسلام کے عقائد و اعمال کی حقیقی تصویر بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
(آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
ڈاکٹر علی اکبر الازہری
ڈائریکٹر رِیسرچ
فرید ملّت رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ
3 اپریل 2006ء، 4 ربیع الاول 1427ھ
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved