یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ کے محبوب و مقرب بندگانِ حق کو جو شان و مرتبہ اور عزت و مقام حاصل ہے اور وہ جس طرح بارگاہِ ربوبیت سے نوازے جاتے ہیں، اس کے پیش نظر انہیں دنیاوی مہمات کے سَر کرنے اور اخروی نجات حاصل کرنے کا وسیلہ بنانا، ان کے مزارات کو قبولیتِ دعا کا مرکز سمجھنا اور ان میں مدفون اہل اللہ سے وسیلہ و استمداد کاخواستگار ہونا‘ روحانی و باطنی فیوض و برکات کی درخواست کرنا مدتِ مدید سے ثقہ علماء ‘ علمائے ربانی اور اکابرینِ امت کا شیوہ رہا ہے۔ یہ امور جو ہر دور میں اولیائے کرام کے معمولات رہے آج سوادِ اعظم اہلسنت و جماعت کے نظریات و عقائد کی اساس ہیں۔ پھر یہ کہ انہوں نے تمام امور محض سطحی، لا شعوری یا جذباتی طور پر نہیں اپنائے تھے بلکہ ان کی تہ میں فکر وشعور کارفرما تھے اور ایک ہمہ گیر تجربہ و مشاہدہ اور قوتِ عمل ان کے مؤیّد تھے۔ اس لئے بربنائے تحقیق یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے اقوال ثقہ اور مستند تھے اور ہر قسم کے شک و شبہ اور التباس سے بالاتر ہونے کی وجہ سے فہم و فراست رکھنے والے افرادِ امت کے لئے قوی و محکم دلیل کا درجہ رکھتے ہیں۔
علمائے ربانی‘ روشن ضمیر اولیاء اور اکابرینِ امت نے مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کے مزارات کو انوار و تجلیات اور برکات کا حامل قرار دیا ہے جہاں پر کی جانے والی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ ان حضرات مقدسہ کو وسیلہ بنانا کامیابی کی بند راہوں کو کھولنے کا سبب بنتا ہے۔ ان کی عنایات و توجہات دنیوی و اخروی عقدوں کی کشود اور ان کی روحانی مدد ہر قسم کی مشکلات سے نجات کا ذریعہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان کی کہی ہوئی باتیں تجربہ و مشاہدہ کی کسوٹی پر پوری اترتی ہیں اور انہیں محض کہی سنی (hearsay) قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ہر اعتبار سے حقائق پر مبنی ہونے کے باعث ثابت شدہ ہیں۔
اس دنیا میں دو قسم کے افراد بستے ہیں : ایک وہ جو سرکش ‘ باغی و نافرمان اور قانون شکن عناصر ہونے کے باعث باطل مفادات کے تحفظ کی خاطر ’’حلقۂ اشرار‘‘ کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور خلقِ خدا کے لئے آزار اور عذابِ جان کا موجب ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وہ خوش خصال‘ پاک نہاد‘ خوب سیرت اور نیک طبع لوگ ہیں جو مخلوقِ خداوندی کے لئے سراپا خیر ہوتے ہیں۔ ایسے سعید فطرت اور پاکباز انسانوں کا گروہ
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
کے مصداق ’’حلقۂ یاراں‘‘ بن کر ایک دوسرے کے قریب آجاتا ہے۔ یہ عالی حوصلہ باہمت مردانِ حق جہد مسلسل اور محنت و ریاضت کی بھٹی میں تب کر ایثار و مروت، خلوص و دیانت‘ صبر و استقامت اور محبت و جانفروشی کی ایسی ناقابل فراموش داستانیں جریدۂ عالم پر رقم کر جاتے ہیں جو پڑھنے سننے والوں کو مبہوت و حیرت زدہ کردیتی ہیں۔
ان ذواتِ مقدسہ سے کوئی دور خالی نہیں رہا۔ وہ بظاہر اہل دنیا سے کنارہ کش رہتے ہیں لیکن اپنے عادات و اطوار اور گفتار و کردار سے صاف پہچانے جاتے ہیں۔ خلق خدا کے لئے ان کا فیضان اتنا عام اور ہمہ گیر ہوتا ہے کہ اسے پھولوں کی خوشبو کی طرح مقید نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا سلسلہ کسی دور میں منقطع نہیں ہونے پاتا کہ اللہ رب العزت کی شانِ بندہ نوازی و کرم گستری کو یہ گوارا نہیں کہ اس کے خاص محبوب بندوں کی فیض رسانی کا سلسلہ رکنے پائے۔ لہذا وہ بندگان حق جس طرح اپنی حیات ِ ظاہری میں مخلوق کے لئے عنایاتِ کریمانہ کا مظہر اتم ہوتے ہیں، بعد از وصال بھی اس میں کمی نہیں ہوتی بلکہ ان کا سلسلۂ کرم پہلے سے بھی سوا ہو جاتا ہے۔ وہ باریابی کے لئے آنے والوں کو اسی طرح نوازتے ہیں جس طرح اپنی زندگی میں نوازا کرتے تھے۔ ان سے مراد پانے والا حسی طور پر جان لیتا ہے کہ اس بندۂ مقبول حق کی مدد اس کے شامل حال ہوئی ہے۔ توسُّل و استمداد کے باب میں ہم ان اکابرینِ امت کی نظریات و معمولات اور مشاہدات و تجربات پر ایک اجمالی نظر ڈالتے ہیں:
شہزادئہ خاندانِ بتول رضی اللہ عنہ حضرت امام زین العابدین اپنے جدِّ امجد ورحمتِ عالم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حصولِ امداد و شفاعت کے لئے اس طرح عرض پیرا نظر آتے ہیں:
یا رحمۃ للعلمین! أنت الشفیع المذنبین
أکرم لنا یوم الحزین، فضلا و جودا و الکرم
(اے رحمتِ عالمیاں! آپ گناہ گاروں کی شفاعت کرنے والے ہیں۔ اپنی شانِ جود و کرم اور فضل و احسان کے باعث، کل قیامت کے روز ہمیں بھی شفاعت کی عزت بخشیں۔)
یا رحمۃ للعلمین! أدرک لزین العابدین
محبوس أیدی الظالمین، فی مرکب و المزدحم
(اے تمام جہانوں کیلئے رحمت بن کر آنے والے! زین العابدین کی بھی دستگیری کیجئے جو ظلم و ستم کرنے والی جماعت کے ہاتھوں میں محبوس ہے، (اور مدد کا خواستگار ہے)۔)
امام مالک فقہاءِ اربعہ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ خلیفہ ابو جعفر منصور مدینہ منورہ آیا اور اس نے امام مالک سے دریافت کیا : ’’کیا میں دعا کرتے وقت قبلہ رخ ہوں (اور نبی اکرمﷺ کی طرف پشت کروں) یا نبی اکرمﷺ کی طرف رخ کروں (اور پشت قبلہ کی جانب ہو) ؟‘‘ اس استفسار پر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا : ’’(اے امیر!) تو حضور نبی اکرمﷺ کی جانب سے منہ کیوں پھیرتا ہے حالانکہ وہ تمہارے لیے اور تمہارے جدِّ اعلی حضرت آدم علیہ السلام کے لیے روزِ قیامت وسیلہ ہیں؟ بلکہ تو آپﷺ کی جانب متوجہ ہو (کر مناجات کر) اور آپﷺ کی شفاعت کا طالب ہو کہ آپﷺ اللہ کے سامنے تیری شفاعت فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَ لَوْ أَنَّھُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَھُمْ جَآءوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّاباً رَّحِیْماًo
النساء، 4 : 64
اور (اے حبیب! ) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے، آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘
یہ واقعہ قاضی عیاض نے ’الشفا (2 : 596) ‘ میں صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں علامہ سبکی نے ’شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام‘ میں، علامہ سمہودی نے ’خلاصۃ الوفاء‘ میں، امام قسطلانی نے ’المواہب اللدنیۃ‘ میں، ابن جماع نے ’ہدایۃ السالک‘ میں او ر امام ابن حجر ہیثمی نے ’الجوہر المنظم‘ میں روایت کیا ہے۔
انہوں نے ’الجامع لاحکام القرآن (5 : 6۔ 265)‘ میں سورۃ النساء کی آیت نمبر 64کی تفسیر میں توسُّل کا ذکر کیا ہے۔
امام حاکم نے اپنی کتاب ’المستدرک (2 : 615)‘ میں حدیثِ توسُّلِ آدم علیہ السلام کو ذکر کرنے کے بعد اسے صحیح قرار دیا ہے۔
امام بیہقی نے اپنی کتاب ’دلائل النبوۃ (5 : 489)‘ حضرت آدم علیہ السلام کا نبی اکرمﷺ کو وسیلہ بنانے والی روایت ذکر کی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ کوئی موضوع روایت ذکر نہ کریں۔
امام بیہقی نے ’دلائل النبوۃ (6 : 7۔ 166)‘ میں عثمان بن حنیف سے مروی روایت بھی نقل کی ہے۔ علاوہ ازیں اسی کتاب کے صفحہ 147 پر اور ’السنن الکبری (3 : 352)‘ میں انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش طلب کرنے کا واقعہ بھی بیان کیا ہے۔
انہوں نے ’الشفا (1 : 8۔ 227)‘ میں صحیح اور مشہور احادیث کے ساتھ حضرت آدم علیہ السلام کا نبی اکرم ﷺ سے توسُّل کرنا بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی کتاب میں ’باب الزیارۃ‘، ’باب فضل النبیﷺ‘اور دیگر بہت سے ابواب میں حضور نبی اکرمﷺ کے خصائص و فضائل کا ذکر کیا ہے۔
امام نووی نے اپنی کتاب ’الایضاح‘ کے چھٹے باب میں مسئلہ توسُّل کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’کتاب الاذکار‘ میں بھی ایسی دعائیں نقل کی ہیں جن سے توسُّل کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ’قاعدۃ جلیلۃ فی التوسُّل والوسیلۃ‘ میں اللہ پاک کے قول:
یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُو اللهَ وَ ابْتَغُوْآ إِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ۔
المائدۃ : 5 : 35
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور ) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو۔
کے تحت کلام کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا صرف حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان اور آپﷺ کی اتباع کی وجہ سے ہے۔ اور آپ ﷺکی اتباع اور آپ ﷺ پر ایمان کی وجہ سے یہ توسُّل ہر ایک پر ہر حال میں ظاہراً و باطناً اور آپﷺ کی حیات میں اور وفات کے بعد‘ موجودگی و غیبوبت میں فرض ہے۔ حجت قائم ہونے کے بعد کسی بھی حال میں کسی بھی فردِ بشر سے آپ ﷺپر ایمان و اطاعت کی وجہ اور کسی بھی عذر کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتا۔ اور اللہ جل شانہ کی رحمت تک پہنچنے کے لئے اور اس کی پکڑو عذاب سے بچنے کے لئے صرف اور صرف آپﷺ پر ایمان اور آپﷺ کی اطاعت کو وسیلہ بنانے کا راستہ ہے۔ کیونکہ نبیﷺ مخلوق کی شفاعت کرنے والے اور صاحبِ مقامِ محمود ہیں کہ جن پر اولین و آخرین سب رشک کریں گے۔ اور نبی ﷺ کا مقام و مرتبہ اللہ جل شانہ کے دربار میں سب سے عظیم ہے اور تمام شفیعوں (شفاعت کرنے والے) کے مقابلہ میں سب سے بلند ہے۔ اللہ جل شانہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے:
وَکَانَ عِنْدَ اللهِ وَجِیْھًاO
الاحزاب، 33 : 69
اور اللہ کے نزدیک وہ بڑے باوقار (اور آبرو والے) تھے۔
اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے:
وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ۔
آل عمران، 3 : 45
وہ دنیا اور آخرت (دونوں) میں قدر و منزلت والا ہوگا۔
جبکہ حضرت محمد ﷺ تمام انبیاء سے عظیم المرتبت ہیں۔ لیکن آپﷺ کی شفاعت و دعا سے صرف اسی شخص کو نفع ملے گا جس کے لئے آپﷺ شفاعت و دعا فرمائیں گے۔ پھر جس کے لئے آپﷺ شفاعت و دعا فرمائیں گے تو وہ شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپﷺ کی شفاعت و دعا کو وسیلہ بنائے گا جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بنایا کرتے تھے۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تسلیما۔
قاعدہ جلیلہ فی التوسُّل والوسلیۃ : 5۔ 6
ایک مرتبہ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی ﷺ کو وسیلہ بنانا جائز ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا:
’’ الحمد للہ! نبی ﷺ پر ایمان اور آپﷺ کی اطاعت اور آپﷺ کی محبت و آپﷺ پر صلوۃ و سلام و آپﷺ کی دعا و شفاعت اور اسی طرح آپﷺ کے افعال اور نبیﷺ کے حق میں بندوں کے وہ احکام جو ان پر واجب قرار دیے گئے ہیں، کو وسیلہ بنانا باتفاق المسلمین مشروع ہے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺکی حیاتِ مقدسہ میں آپﷺ سے توسُّل کیا کرتے تھے اور آپ ﷺکے وصالِ مبارک کے بعد انہوں نے آپﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بھی توسُّل کیا جس طرح وہ آپﷺ سے توسُّل کیا کرتے تھے۔
مجموع فتاویٰ، 1 : 140
انہوں نے اپنی کتاب ’شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام‘ میں بالتفصیل توسُّل پر بحث کی اور اس کا جواز ثابت کیا ہے، جیسا کہ ہم نے کتاب میں مختلف مواقع پر بیان کیا۔
امام ابن کثیر نے اپنی کتاب ’تفسیر القرآن العظیم‘ میں سورۃ النساء کی آیت نمبر 64کی تفسیر میں مسئلہ توسُّل کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے عتبی کی روایت پر کوئی اعتراض نہیں کیا جس میں ایک اعرابی نبی اکرمﷺ کے روضۂ مبارک پر شفاعت کی درخواست لے کر آیا تھا۔ اپنی کتاب ’البدایۃ والنہایۃ (1 : 131)‘ میں حضرت آدم علیہ السلام کا حضور نبی اکرمﷺ کو وسیلہ بنانے کا واقعہ ذکر کیا ہے اور اس روایت کے موضوع وغیرہ ہونے کا کوئی حکم نہیں لگایا۔ امام ابن کثیر نے ’البدایۃ والنہایۃ (5 : 167)‘ میں اس آدمی کا واقعہ بھی بیان کیا ہے جو نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک پر آکر بارش کے لیے آپﷺ کو وسیلہ بناتا ہے، اور اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ اس کے علاوہ اسی کتاب (5 : 30) میں انہوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ جنگ یمامہ میں مسلمانوں کا جنگی نعرہ ’یا محمداہ‘ (اے محمد! مدد فرمائیے) تھا۔
انہوں نے اپنی کتب ’الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (3 : 484)‘ اور ’فتح الباری (2 : 6۔ 495)‘ میں اس آدمی کا واقعہ ذکر کیا ہے جو حضور نبی اکرمﷺ کی قبرِ انور پر توسُّل کیلئے حاضر ہوا۔
مولانا عبدالرحمان جامی رحمۃ اللہ علیہ کو شعر و تصوف، علم و حکمت اور حدیث میں جو مقام حاصل ہے پورا زمانہ اس کا معترف ہے۔ اس پر مستزاد عشق رسالت مآبﷺ کی والہانہ کیفیت کسک اور تڑپ آپ کے بے شمار اشعار میں جھلکتی نظر آتی ہے۔ آپ توسُّل کے باب میں اپنے عقیدے کا اظہار یوں فرماتے ہیں :
اگر نام محمد را نیا وردے شفیع آدم
نہ آدم یافتے توبہ نہ نوح از غرق نجینا
(یہ حضورﷺ کے اسم مبارک کا اعجاز تھا کہ آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی اور کشتی نوح ہولناک طوفان کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہی۔)
امام سیوطی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توسُّل والی حدیث ’الدر المنثور (1 : 58)‘ اور ’الخصائص الکبری (1 : 6)‘ علاوہ ’الریاض الانیقۃ فی شرح اسماء خیر الخلیقۃ (ص : 9۔ 48)‘ میں بھی بیان کی ہے کہ جہاں وہ کہتے ہیں کہ امام بیہقی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
احادیث مبارکہ میں اولیاء کرام کے خاص گروہ کے اوصاف و کمالات کے تذکرے موجود ہیں۔ انہی کی دعا کی برکت سے باران رحمت ہوتی ہے اور مسلمانوں کو فتح و نصرت نصیب ہوتی ہے۔ حضرت علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ ان کے بارے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں:
فإذا عرضت الحاجۃ من أمر العامۃ ابتہل فیھا : النقبآء، ثم النجبآء، ثم الأبدال، ثم الأخیار، ثم العمد، فإن أجیبوا و إلا ابتہل الغوث، فلا یتم مسئلتہ حتی تجاب دعوتہٗ۔
1۔ المواہب اللدنیۃ، 2 : 726
2۔ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ، 7 : 487
جب عام لوگ کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو سب سے پہلے نقباء دعا کرتے ہیں، پھر باری باری نجباء، ابدال، اخیار اور پھر عمد کی باری آتی ہے، اگر ان کی دعا قبول ہوجائے تو فبہا، وگرنہ غوث دعا کرتے ہیں، اور مطالبہ ختم ہونے سے پہلے ہی ان کی دعا قبول کرلی جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص فضل و کرم ہے۔
علامہ قسطلانی نے ’المواہب اللدنیۃ‘ کے المقصد الأول ‘ میں بھی توسُّل کا ذکر کیا ہے۔
حضرت احمد شہاب الدین ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ جو فقہا و محدثین میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، نے ابو عبداللہ قریشی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کردہ مشاہدہ و تجربہ سے یہ ثابت کیا ہے کہ صاحباں خدا بعد از مرگ بھی زندوں کی طرح دعا و امداد فرماتے ہیں اور ان کی فیض رسانی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ حضرت ابو عبداللہ قرشی رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ شدید قحط سالی نے شہر مصر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور لوگوں کی بھوک اور پیاس کی مصیبت باوجود دعا و استغفار کے جوں کی توں تھی:
فسافرت إلی الشام، فلما وصلت إلی قریب ضریح الخلیل علیہ و علی نبینا أفضل الصلاۃ والسلام تلقانی، فقلت : یا رسول اللہ! اجعل ضیافتی عندک الدعآء لأھل مصر، فدعا لهم، ففرج اللہ عنهم۔
الفتاویٰ الحدیثیۃ : 6۔ 255
پس میں نے ملک شام کی طرف سفر کیا۔ جب میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے مزار مبارک کے نزدیک پہنچا، تو آپ مجھے آگے سے ملے، میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! میں مہمان کی حیثیت سے آیا ہوں، میری ضیافت یوں کریں کہ اہل مصر کے لیے دعا فرمادیں۔ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے دعا فرمائی، چنانچہ اللہ پاک نے ان سے قحط دور فرما دیا۔
اس نادر الوقوع تذکرے میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے بالمشافہ ملاقات کا جو حال بیان ہوا ہے اس کی وضاحت حضرت امام یافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں فرمائی ہے:
فقولہ : تلقانی الخلیل، قول حق لا ینکرہ إلا جاهل بمعرفۃ ما یرد علیهم من الأحوال التی یشاهدون فیها ملکوت السموات و الأرض و ینظرون الانبیآء أحیاء غیر أموات۔
الفتاوی الحدیثیۃ : 256
حضرت ابو عبداللہ قرشی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کہنا کہ حضرت خلیل علیہ السلام مجھے ملے بالکل برحق ہے۔ اس کا انکار وہی جاہل کرسکتا ہے جو اولیاء کرام کے ان احوال و مقامات سے بے خبر ہو، کیونکہ یہ لوگ زمین و آسمان کا مشاہدہ فرماتے ہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام کو بالکل زندہ حالت میں دیکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ علامہ ابن حجر ہیثمی نے توسُّل کے موضوع پر ایک خاص رسالہ ’الجوھر المنظم‘ بھی تحریر کیا ہے۔ اس کے صفحہ 61 پر انہوں نے نبی اکرمﷺ سے توسُّل کو حسن قرار دیا ہے۔
جو کہ ملا علی قاری کے نام سے مشہور ہیں، نے ’شرح الشفا‘ میں اس مسئلے پر گفتگو کی ہے۔
علامہ خفاجی نے ’الشفا‘ کی شرح ’نسیم الریاض‘ میں توسُّل کا جواز بیان کیا ہے۔
انہوں نے ’شرح المواہب اللدنیۃ (1 : 20۔ 118، 12 : 3۔ 220)‘ میں اس مسئلہ کو ثابت کیا ہے۔
علامہ شوکانی نے ’تحفۃ الذاکرین (ص : 195)‘ میں نبی اکرمﷺ سے توسُّل کرنے کا جواز بیان کیا ہے۔
علامہ ابن عابدین شامی کا شمار ان ماہر وجید علمائے ربانی میں ہوتا ہے جن کی ذہانت و فطانت اور فقہی مہارت کا شہرہ چار دانگِ عالم میں ہے۔ ان کا عظیم علمی و تحقیقی کارنامہ ’رد ّ المختار علی دُرّ المختار‘ کی ضخیم جلدوں کی شکل میں آج بھی دنیا کے اہل علم حضرات کے سامنے موجود ہے جس میں غوّاصی تبحرّ علمی اور تحقیقی بصیرت کی متقاضی ہے۔ روایات میں مذکور ہے کہ جب آپ نے اتنے بڑے کام کا بیڑہ اٹھانے کا ارادہ کیا جو فقہ اسلامی کے بحرِ بے کنار کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے تو اپنی نادرئہ روزگار دماغی قابلیت اور صلاحیت پر بھروسہ کرنے کی بجائے بارگاہِ ایزدی میں حضور ﷺ کا وسیلۂ جلیلہ پیش کیا۔ آپ کا اللہ تعالیٰ کے حضور آقائے تاجدار ﷺ، خاصانِ الٰہی اور حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا وسیلہ پیش کرنے کا انداز یہ تھا:
و إنی أسالہ تعالیٰ متوسُّلا إلیہ بنبیہ المکرمﷺ و بأہل طاعتہ من کل ذی مقام علیّ معظم، و بقدوتنا الإمام الأعظم، أن یسهل علی ذلک من إنعامہ و یعیننی علی إکمالہ و إتمامہ و یعیننی علی إکمالہ و إتمامہ۔
رد المختار علی در المختار، 1 : 3
اور میں حضور نبی اکرمﷺ کو، اور عالی مرتبت فرمانبردار بندوں کو، اور خاص طور پر ہادی برحق امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سوال کرتا ہوں کہ وہ اپنے احسان سے یہ مشکل آسان کردے، اور اسے مکمل کرنیکی توفیق بخشے۔
یہ دعا اتنی مستجاب ہوئی اور وسیلے کی ایسی برکت ظاہر ہوئی کہ آپ نے قانونِ اسلامی کے موضوع پر اتنی معرکۃ الآرا کتاب تصنیف کرلی جو اتنی مستند تصور کی جاتی ہے کہ شہرت و قبولیت میں کوئی کتاب آج تک اس کے پائے کو نہیں پہنچ سکی۔
اس ضمن میں ایمان افروز بات یہ ہے کہ جس کتاب کی یہ شرح ہے اس کا نام ’در المختار‘ ہے اور اس کے قدسی صفات مصنف نے اس کتاب کو لکھنے سے پہلے حضور نبی اکرمﷺ کا اذنِ مبارک حاصل کیا، جس کا تذکرہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ نے یوں فرمایا ہے:
وکأن الإذن للشارح حصل منہ ﷺ صریحا برؤیۃ منام أو بإلهام و ببرکتہ ﷺ، فاق هذا الشرح علی غیرہ۔
رد المختار علی در المختار‘1 : 9
اور شارح کو واضح طور پرحضورﷺ کی طرف سے خواب میں یا الہام کے ساتھ اذن حاصل ہوا تھا، حضورﷺ کی برکت ہی کے باعث یہ شرح سب پر غالب آئی ہے۔
ان واقعات کے پس منظرپر غور کیا جائے تو اس میں سعادت کا عمل دخل نظر آتا ہے، کسب کا نہیں۔
آپ اہل اللہ کو وسیلہ بنانے اور ان سے روحانی استمداد کے امکان و جواز کے باب میں سورۃ النازعات کی ابتدائی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں :
1۔ قیل : إقسام بالنفوس الفاضلۃ حال المفارقۃ لأبدانھا بالموت۔ فإنھا تنزع عن الأبدان غرقا…لعسر مفارقتھا أیاها حیث الفنه وکان مطیۃ لها لإکتساب الخیر و مظنۃ لإزدیاده، فتنشط شوقا إلی عالم الملکوت و تسبح به۔ فتسبق إلی حظائر القدس، فتصیر لشرفها و قوتھا من المدبرات أی ملحقۃ بالملائکۃ أو تصلح ھی لأن تکون مدبرۃ…و لذا قیل…إذا تحیرتم فی الأمور فاستعینوا من أصحاب القبور أی أصحاب النفوس الفاضلۃ المتوفین، و لا شک فی أنه یحصل لزائرهم مدد روحانی ببرکتهم وکثیرا ما تنحل عقد الأمور بإنامل التوسُّل إلی الله تعالی بحرمتهم۔
روح المعانی، 30 : 8۔ 27
کہا گیا ہے : اس سورتِ پاک کے ان ابتدائی جملوں میں موت کے وقت نیک لوگوں کی ارواح کی جسموں سے جدائی کی کیفیت بیان کی گئی ہے اور ارواح کی انہی مختلف کیفیات کی قسم اٹھائی گئی ہے۔ یہ ارواح بدنوں سے کھینچ کر نکالی جاتی ہیں، کیونکہ ان بدنوں کے ساتھ مانوس ہونے کی وجہ سے وہ جدا ہونا پسند نہیں کرتیں۔ اس ناپسندیدگی کی وجہ یہ ہے کہ نیکیاں کمانے کیلئے بدن سواری کی حیثیت رکھتے ہیں، اور ان کی بدولت نیکیاں بڑھنے کا امکان وگمان زیادہ ہوتا ہے۔ پھر وہ ارواح عالمِ ملکوت کی طرف پرواز کرتی ہیں اور تیرتے ہوئے حریمِ قدسی تک پہنچ جاتی ہیں، اور اپنی شرافت و قوت کی وجہ سے کارکنانِ قضا و قدر کے ساتھ مل جاتی ہیں یعنی فرشتوں میں شامل ہوجاتی ہیں، یا انتظام و تصرف کی صلاحیت حاصل کر لیتی ہیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے: جب تمہیں مشکلات پیش آئیں تو اہل مزارات سے مدد طلب کیا کرو، یعنی اللہ کے ان محبو ب و مقبول بندوں سے جو نفوسِ قدسیہ کے مالک ہیں، اور وصال فرما گئے ہیں۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ جو شخص ان کے مزارات پر حاضری دے، اسے ان کی برکت سے روحانی مدد حاصل ہوتی ہے، اور بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی حرمت کا وسیلہ پیش کرنے سے مشکلات کی گرہیں کھل جاتی ہیں۔
پھر فرماتے ہیں:
و قیل : إقسام بالنفوس حال سلوکھا و تطھیر ظاهرها و باطنھا بالإجتهاد فی العبادۃ، والترقی فی المعارف الإلهیۃ …فتسبح فی مراتب الإرتقآء، فتسبق إلی الکمالات حتی تصیر من المکملات للنفوس الناقصۃ۔
روح المعانی، 30 : 28
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان جملوں میں ان پاک سرشت لوگوں کی قسم اٹھالی گئی ہے، جو میدانِ سلوک میں قدم رکھتے ہیں اور عبادت و ریاضت اور مجاہدہ کے ذریعے ظاہر و باطن کو پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور معرفتِ خداوندی حاصل کرلیتے ہیں۔ (ان قدسی لوگوں پر ان جملوں کا انطباق یوں ہوگا کہ) یہ حضرات خود کو نفسانی خواہشات سے روکتے ہوئے عالم قدس کی طرف مائل ہوتے ہیں اور ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے کمالات کی حدوں تک پہنچ جاتے ہیں، تاآنکہ یہ ناقص و ناکارہ لوگوں کو کامل و کارآمد اور مقبول بنانے کے قابل بن جاتے ہیں۔
حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’فتوح الغیب ‘ کی ’شرح ‘میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اولیائے کرام جب فنائیتِ بشریت کی حد سے ماوراء عرصہ معرفت میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں بارگاہِ الوہیت سے خصوصی صلاحیت و قوت ارزانی کردی جاتی ہے جس کی بناء پر ظاہری اسباب کے بغیر ان سے کئی امور سرزد ہونے لگتے ہیں اور وہ عالمِ فنا سے مرتبہ بقاء پر پہنچ کر اسمِ مدیر کی تجلی کے مظہر بن جاتے ہیں۔ اس طرح ان کو وہ شان حاصل ہوجاتی ہے جو عام مومنین کو جنت میں حاصل ہوگی۔
انہوں نے اپنے ’مقالات‘ میں توسُّل کے موضوع پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے منکرین کے اعتراضات کا ردّ اور توسُّل کا جواز ثابت کیا ہے۔ ان کے قول کے مطابق انبیاء اور صالحین سے ان کی زندگی میں اور وفات کے بعد دونوں صورتوں میں توسُّل (نہ صرف جائز بلکہ) قرونِ اولی کے مسلمانوں سے متداول چلا آرہا ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب’ نشر الطیب‘ میں حضور نبی اکرمﷺ کے نورِ سرمدی کی برکات و اعجازات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپﷺ کے آباء و اجداد میں سب کی پیشانیوں میں اس کی جلوہ پاشی صاف طور پر محسوس کی جاسکتی تھی۔ آپﷺ ہی کا نورِ لم یزل حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کی قبولیت کا سبب بنا‘ حضرت نوح علیہ السلام کو طوفان سے نجات دلانے کا سبب یہی نور تھا اور اسی نور نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نارِنمرود کو گل و گلزار میں بدل دیا۔
حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ کی شانِ اقدس میں جو قصیدہ لکھا، اس کے کچھ اشعار یوں ہیں :
وَرَدْتَّ نار الخلیْل مُکتتماً
فِی صُلبِهٖ أَنْت کیف یحترق
(آپﷺ نے حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے ساتھ آگ میں وردو فرمایا۔ ان کی پشت میں آپ کا نور انہیں کیسے جلا سکتا تھا؟)
وَ اَنْت لَمَّا وُلِدْتَّ أَشرَقَتِ الأرض
و ضاءت بنورک الأفق
(اور جب آپ ﷺ پیدا ہوئے تو زمین روشن اور آفاق بُقعہ نور ہوگئے۔)
فَنحْن فِی ذٰلِکَ الضیآء
وَ فی النّور سُبُل الرّشَادِ نخترق
(پس ہم اسی روشنی اور نور کے جلو میں ہدایت کے راستے طے کر رہے ہیں۔)
حضور ﷺ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے یہ اشعار انتہائی توجہ سے سماعت فرمائے اور ان پر اظہار پسندیدگی کیا۔ اگر یہ خلافِ واقعہ ہوتے تو آپﷺ انہیں ٹوک دیتے۔ ایسا نہ کرنا اس امر کی قوی دلیل ہے کہ آپﷺ کو نفسِ مضمون سے اتفاق تھا اور اسی کو حدیث تقریری کہتے ہیں۔
اس کے علاوہ مولانا اشرف علی تھانوی نے ’نشر الطیب‘ کی اڑھتیسویں فصل کا نام ہی ’آپﷺ سے توسُّل حاصل کرنا دعا کے وقت‘ رکھا ہے۔ اس فصل میں حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح توسُّل کسی کی دعا کا جائز ہے، اسی طرح توسُّل دعا میں کسی کی ذات کا بھی جائز ہے۔ ‘‘ پھر جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ ایک سائل کو وہی دعا پڑھنے کو کہتے ہیں جو حضور نبی اکرمﷺ نے نابینا صحابی کو سکھلائی تھی تو اس روایت سے مولانا اشرف علی تھانوی حضور نبی اکرمﷺ سے بعد از وفات توسُّل ثابت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسُّل کرنا کے واقعہ سے غیر ِ نبی سے توسُّل کا جواز ثابت کیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے زمانہ میں جب نبی اکرمﷺ کی قبر شریف سے توسُّل کیا گیا تو مولانا اشرف علی تھانوی نے اسے بھی جائز کہا ہے۔ آخر میں وہ عتبی کی روایت جس میں ایک اعرابی نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک پر استغفار کے لیے آتا ہے… جیسا کہ ہم نے سورۃ نساء کی آیت نمبر64کی تفسیر میں واضح کیا ہے… لکھنے کے بعد کہتے ہیں : ’’غرض زمانہ خیر القرون کا تھا اور کسی سے اس وقت نکیر منقول نہیں، پس حجت ہوگیا۔‘‘
مفتی مکہ سید احمد بن زینی دحلان نے اپنے رسالے ’فتنۃ الوہابیۃ‘ میں توسُّل، استغاثہ اور شفاعت کے جواز پر فتوی دیا ہے اور معترضین کے شبہاتِ باطل کا جامع رد کیا ہے۔
دورِ حاضر کے معروف مذہبی سکالر حرمِ مکی میں مسندِ تدریس پر فائز عظیم محقِق سید محمد بن علوی المالکی نے اپنی کتاب ’مفاہیم یجب ان تصحح‘ میں توسُّل پر شافی کلام کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی کتاب ’شفاء الفواد بزیارۃ خیر العباد‘ میں بھی توسُّل پر سیرِ حاصل بحث کرتے ہوئے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔
دورِ جدید کے معروف مذہبی سکالر نے عقائدِ اہلِ سنت و جماعت کے موضوع پر سات جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب Encyclopedia of Islamic Doctrine تصنیف فرمائی ہے۔ اس کی چوتھی جلد میں انہوں نے توسُّل پر بحث کرتے ہوئے مختلف عقلی و نقلی دلائل سے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔
انہوں نے ’توسُّل‘ کے موضوع پر پائی جانے والی احادیث و آثار کی تخریج و تحقیق پر ایک کتاب تصنیف فرمائی ہے جس کا نام ’رفع المنارۃ لتخریج احادیث التوسُّل والزیارۃ‘ ہے۔ اس میں انہوں نے منکرینِ توسُّل کی طرف سے ثقہ و صحیح روایات پر کیے جانے والے اعتراضات کا مدلّل جواب دیتے ہوئے توسُّل کی حقانیت ثابت کی ہے۔
آسمان معرفت و طریقت کے بلند پرواز شاہینوں کو عالمِ برزخ اور عالم ملکوت و لاہوت کے اسرار و رموز کا جس طرح مشاہدہ کرادیا جاتا ہے، وہ عام لوگوں کا مقدر کہاں؟
اس لئے مستند ہے ان کا فرمایا ہوا
کے مصداق ان کی رائے پر کسی عام انسان کی رائے کو در خور اعتنا نہیں سمجھا جاسکتا اور کسی کو چون و چرا کرنے کا کوئی حق نہیں بلکہ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس غیر مادی جہاں کے بارے میں ان کی بات مانی جائے کیونکہ جو کچھ انہوں نے فرمایا ہے، وہ مشاہدے کی آنکھ سے دیکھ کر فرمایا ہے۔ اور
شنیدہ کے بود مانند دیدہ
(دیکھی ہوئی بات سنی ہوئی بات کے برابر کب ہوسکتی ہے؟)
ہم ذیل میں چند اکابر اولیائے کرام کے تجربات و مشاہدات قلمبند کرتے ہیں :
حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا 27 ھ میں قبرص پر حملہ آور ہونے والے عساکر اسلامیہ کے ہمراہ تھیں۔ آپ کے بارے میں حضور ﷺ نے پیشین گوئی فرمادی تھی کہ تم اس بحری معرکے میں شریک ہوگی۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ جہاز پر چڑھتے ہوئے گھوڑے سے گرنے یا پاؤں پھسلنے کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہا شہید ہوگئیں اور اسی جگہ آ پ کی قبر بنا دی گئی اور اس کے فیوض و برکات عوام پر آشکارا ہوگئے۔ ان کی قبر ’’قبرالمرأۃ الصالحۃ‘‘ یعنی نیک خاتون کی قبر کے نام سے مشہور ہوئی اور وہاں لوگ جو دعا کرتے ہیں قبول ہوتی ہے اور ان کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی ہے۔
البدایہ والنہایہ، 5 : 235
آپ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ معرکۂ قسطنطنیہ میں آپ شریک جہاد ہوئے۔ دشمن کی سرحد کے قریب حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیمار پڑگئے۔ مرض نے شدت اختیارکی تو وصیت فرمائی:
إذا أنا مت فاحملونی، فإذا صاففتم العدو فاد فنونی تحت أقدامکم، ففعلوا۔
الاستیعاب لابن عبدالبر، 1 : 5۔ 404
جب میں فوت ہوجاؤں تو میری میت ساتھ اٹھالینا، پھر جب دشمن کے سامنے صف آرا ہو جاؤں تو مجھے اپنے قدموں میں دفن کر دینا۔ پس انہوں نے (ایسا ہی) کیا۔
چنانچہ آپ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے مجاہدینِ اسلام نے آپ کو قلعہ کے دامن میں دفن کردیا اور دشمنوں کو متنبہ کیا کہ اگر اس جلیل القدر صحابی رسول ﷺ کی قبر کی بے حرمتی کی گئی توبلاد ِ اسلامیہ میں ان کا کوئی گرجا محفوظ نہ رہے گا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کا دشمن بھی احترام کرنے پر مجبور ہوگئے اور بہت جلد اس کے فیوض و برکات کا لوگوں کوپتہ چل گیا کہ یہاں کی جانے والی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔
و قبر أبی أیوب قرب سورھا معلوم… یستسقون به، فیسقون۔
الاستیعاب لابن عبدالبر، 4 : 6
حضرت ابو ایوب کی قبر قلعہ کی فصیل کے قریب ہے، اور سب کو معلوم ہے، وہاں پہنچ کر لو گ بارش کے لیے دعا کرتے ہیں تو بارش ہوجاتی ہے۔
حضرت مجاہد فرماتے ہیں :
کانوا إذا أمحلوا کشفوا عن قبرہ، فطمروا۔
الاستیعاب لابن عبد البر، 1 : 405
جب بھی قحط پڑ جائے تو اظہار وسیلہ کے لیے لوگ قبر کھول دیتے ہیں، پس بارش ہوجاتی ہے۔
مشہور محدّث ابن ابو حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام علی رضا بن موسیؑ کے مزار مبارک کے بارے میں اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ما حلت بی شدۃ فی وقت مقامی بطوس، و زرت قبر علی بن موسی الرضا صلوات الله علی جده و علیه، و دعوت الله تعالیٰ إزالتها عنی إلا استجیب لی، و زالت عنی تلک الشدۃ و هذا شئ جربتهٗ مراراً۔
کتاب الثقات
شہر طوس میں قیام کے دوران جب بھی کوئی مشکل پیش آئی اور حضرت امام موسیٰ رضا کے مزار مبارک پر حاضری دے کر، خدا تعالیٰ سے وہ مشکل دور کرنے کی دعا کی تو وہ دعا ضرور قبول ہوئی، اور مشکل دور ہوگئی۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے میں نے بار بار آزمایا ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک کی برکات کے بارے میں خود اپنا تجربہ بیان فرماتے ہیں :
إنی لأ تبرک بأبی حنیفۃ، و أجی ء إلی قبرہ فی کل یوم … یعنی زائرا… فإذا عرضت لی حاجۃ صلیت رکعتین، و جئت إلی قبرہ، و سألت اللہ تعالی الحاجۃ عندہ، فما تبعد عنی حتی تقضی۔
1۔ تاریخ بغداد، 1 : 123
2۔ الخیرات الحسان : 94
3۔ مقالات الکوثری : 381
4۔ رد المختار علی در المختار، 1 : 41
میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ذات سے برکت حاصل کرتا ہوں اور روزانہ ان کی قبر کی زیارت کے لیے آتا ہوں۔ جب کوئی ضرورت اور مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر آتا ہوں اور اس کے پاس (کھڑے ہوکر) حاجت برآری کے لیے اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں۔ پس میں وہاں سے نہیں ہٹتا یہاں تک کہ میری حاجت پوری ہوچکی ہوتی ہے۔
خطیب بغدادی نے یہ واقعہ صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
یہ اتنے جلیل القدر امام کا ارشاد اور معمول تھا، جن کا علمی مرتبہ و مقام پورے عالمِ اسلام میں تسلیم شدہ ہے۔ ان کی فکری و نظری صلابت و درایت ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ جب وہ خود فرما رہے ہیں کہ اہل اللہ کے مزارات پر حاضری حصولِ برکت کا ذریعہ ہوتی ہے تو پھر اس پر اعتماد نہ کرنے کی کوئی وجہ از روئے عقل و منطق نظر نہیں آتی۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ’ اشعۃ اللمعات ( 2 : 923) ‘میں امام شافعی کا ایک قول نقل کرتے ہیں :
’’حضرت موسی کاظم رحمۃ اللہ علیہ کی قبرِ انور قبولیتِ دعا کے لیے تریاق مجرب ہے۔ ‘‘
امام شافعی کامعمول تھا کہ مزارات پر حاضر ہو کرکثرت سے دعائیں مانگتے جو مقبول ہوتیں۔ اس سے انہوں نے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ قبولیتِ دعا کے باب میں یہ جگہیں اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس لئے آپ نے امام موسی کاظم کے مزار کو تریاق مجرب قرار دیا۔
اولیاء کرام کی سوانح ’صفۃ الصفوۃ‘ میں ابراہیم بن اسحاق حربی کے بارے میں لکھتے ہیں :
و قبرہ ظاھر یتبرک بہ الناس۔
صفۃ الصفوۃ‘ 2 : 266
اور ان کی قبر عام ہے‘ لوگ اس سے برکت حاصل کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب ’ الوفاء باحوال المصطفی‘ کے پہلے باب (1 : 33) میں حضرت آدم علیہ السلام کا نبی اکرم ﷺ سے توسُّل کرنا بھی بیان کیا ہے۔
ان کے بازو کے اوپر والے حصہ پر ورم ہوگیا تو انہوں متاثرہ حصہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی قبر مبارک پر رگڑا جس سے وہ بالکل ٹھیک ہو گیا۔
حافظ محمد زاہد کوثری کہتے ہیں کہ یہ واقعہ ضیاء مقدسی حنبلی نے ’الحکایات المنثورۃ‘ میں لکھا ہے اور میں نے ان کے ہاتھ سے لکھے نسخے میں دیکھا ہے۔
مقالات الکوثری : 381
امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اکابر صوفیہ و محدثین میں ہوتا ہے۔ تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں آپ کی ذات مرجع اہلِ علم تھی۔ آپ مشہور بزرگ اور ولی کامل حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کان من المشائخ الکبار، مجاب الدعوۃ، یستشفی بقبرہ۔ یقول البغدادیون : قبر معروف تریاق مجرب۔
1۔ الرسالۃ القشیریۃ : 41
2۔ تاریخ بغداد، 1 : 122
3۔ صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی، 2 : 214
آپ بزرگ ترین مشائخ میں سے تھے اور آپ کی دعا قبول ہوتی تھی۔ آج بھی آپ کی قبر مبارک کے پاس کھڑے ہو کر شفایابی کی دعا کی جاتی ہے۔ اہل بغداد کہتے ہیں : حضرت معروف کرخی کی قبر مجرّب اکسیر ہے۔
حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی ایک الجھن کا ذکر کرتے ہیں:
’’ایک چیز کے بارے میں بڑا تردّد تھا مگر اسے حل کرنے کی کوئی کوشش کارگر نہ ہوئی۔ اس اثناء میں ایک مدت بیت گئی اور معاملہ جوں کا توں رہا۔ اب یہ فکر دامن گیر رہنے لگی کہ کہیں قابلِ مواخذہ نہ ہو، اس لئے اس سے جلد خلاصی حاصل کرنی چاہئے۔ اس خیال نے طبیعت پر گرانی طاری کردی اور اس فکری ژولیدگی اور اضطراب سے نجات حاصل کرنے کے لئے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی۔ ‘‘ آگے ا نکے اپنے الفاظ یہ ہیں :
اتفاقا درین وقت گزر بر مزار عزیزے افتاد، و درین معاملہ آں عزیز را ممد و معاون خود کرد، درین اثنا عنایتِ خداوندی جل شانہ در رسید، و حقیقت معاملہ را کما ینبغی وا نمود، و روحانیتِ حضرتِ رسالت خاتمیت علیہ وعلی آلہ الصلوۃ و السلام کہ رحمتِ عالمیان است درین وقت حضور ارزانی فرمود، و تسلی خاطرِ حزین نمود۔
مکتوبات امام ربانی، 3 : 149، مکتوب نمبر : 220
اتفاقاً اس وقت ایک عزیز کے مزار مبارک کے قریب سے گزر ہوا‘ اور اس معاملہ میں اسے بھی اپنا مدد گار بنایا، اس دوران اللہ پاک کی رحمت بھی شامل حال ہوئی، اور معاملے کی حقیقت کو اچھی طرح واضح کردیا، اور حضور رحمۃ للعالمین خاتم المرسلین ﷺ کی روحانیت نے مہربانی فرمائی اور حاضر ہوکر غمگین دل کو تسلی دی۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ان اکابر اولیاء میں سے ہیں جو اپنی خداداد بصیرت و معرفت کے باعث بہت سے باطنی حقائق کو بچشمِ سر دیکھتے بھی تھے اور انہیں اعلانیہ بیان بھی کردیتے تھے۔ آپ نے اپنے مشاہدات پر مشتمل ’فیوض الحرمین‘ کے نام سے جو بے مثال کتاب تصنیف کی ہے اس کے نویں اور دسویں مشاہدے کا لُبِّ لباب اس طرح ہے :
آپ فرماتے ہیں : ’’ہم نے مدینہ منورہ میں حاضری دی تو حضور نبی اکرمﷺ کی روح مبارک کو مثالی شکل میں حسی قوت یعنی آنکھوں سے واضح طور پر دیکھا اور اس روز یہ حقیقت ہم پر منکشف ہوئی کہ روحِ اطہر کو بھی جسم کی طرح دیکھا جاسکتا ہے اور ہم پر یہ راز بھی کھلا کہ انبیائے کرام کی حیات بعد ممات کا کیا مفہو م و مطلب ہے۔
’’تیسرے روز حاضر ہوئے اور بارگاہِ اقدس میں درود سلام کا نذرانہ پیش کیا اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے روبرو حاضری دی۔ ‘‘
’’پھر نیازمندانہ عرض کیا : ’آقا ہم خیر و برکت اور فیضان کرم کے حصول کے لئے بڑی آرزوئیں لے کر حاضر ہوئے ہیں، ہمیں اپنی نگاہِ کرم سے نوازیں‘۔ ‘‘
اس سے آگے کے منظر کی یوں نقشہ کشی کرتے ہیں :
فانبسط إلیّ إنبساطا عظیما، حتی تخیلت کأن عطافۃ ردائہ لفتنی و غشیتنی، ثم غطنی غطۃ و تبدّٰی لی وأظهر لی الأسرار و عرفنی بنفسہ، و أمدنی إمدادًا عظیماً إجمالیا و عرفنی کیف أستمد بہ فی حوائجی۔
حضورﷺ نے بڑی ہی مسرت کا اظہار فرمایا، یہاں تک کہ میں نے خیال کیا گویا آپﷺ کی عنایت کی چادر نے مجھے لپیٹ لیا ہے اور ڈھانپ لیا ہے۔ پھر آپﷺ نے معانقہ فرمایا، اور میرے سامنے ظاہر ہوئے، کئی بھید کھولے، اور بذاتِ خود مجھے آگاہ فرمایا، اور اجمالی طور پر میری بہت بڑی امداد کی، اور مجھے بتایا کہ میں اپنی ضروریات میں کس طرح آپﷺسے مدد طلب کروں۔
یہ وہ چند مشاہدات و تجربات ہیں جو صدیوں پر محیط ہیں۔ ان سے یہ بات بخوبی ثابت ہے کہ اہل اللہ کی قبور و مزارات خلقِ خدا کے لئے مرجع فیوض و برکات ہوتے ہیں۔ اہل نظر ان اولیاء اللہ کے مقامات کو بے وقعت اور محض مٹی کا ڈھیر نہیں سمجھتے بلکہ ان کے بارے میںعقیدہ یہی ہے کہ وہ بارگاہِ خداوندی میں محبوب و مقبول ہیں۔ ان میں سے بعض اولیاء کرام صاحبِ تصرّف سمجھے جاتے ہیں۔ بزرگانِ دین اور پاکانِ امت کے عمل کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ وہ انسان جو خود روحانی بصیرت سے محروم ہو اسے ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ حکم لگا دے کہ اہل اللہ کے مزارات سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ان کے بارے میں ایسا تصور کرنا بے سند اور بے جواز ہے۔
اس ضمن میں ایک بات ضرور پیش نظر رہے کہ صرف وہی اہلِ مزارات اس شان کے حامل ہیں جو اللہ کے نہایت مقرب اور محبوب تھے اور ان کی ولایت و بزرگی کے چرچے ان کی زندگیوں میں ہی عام ہوگئے تھے۔ استمداد بھی ایسے ہی بزرگوں سے کرنی چاہیے۔ اس بارے میں حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے واضح صراحت فرمادی ہے۔ آپ فرماتے ہیں :
لا کن استمداد از مشہور ین باید کرد۔
فتاوی عزیزی
مشہور بزرگوں سے ہی امداد طلب کرنی چاہیے۔
آپ نے مدفون بزرگ کا مرتبہ معلوم کرنے اور ان سے استمداد کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے جو ان کے فتاوی میں دیکھا جاسکتا ہے۔
گزشہ صفحات میں ہم نے عقیدئہ توسُّل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ٹھوس دلائل سے واضح کردیا جس سے یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچا کہ توسُّل حکمِ ربانی اور ارشاداتِ نبویﷺ کی روشنی میں قربِ الٰہی اور اس کی بارگاہ سے اپنی دعاؤں کی فوری قبولیت کیلئے ایک درست‘ جائز اور شرعی طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب پاک حضور نبی اکرمﷺ نے ہمیں وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا ہے۔ دورِ صحابہ سے لیکر آج تک جملہ اہلِ اسلام نے توسُّل کی تمام جائز صورتوں کو اپنایا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حضور نبی اکرمﷺ کے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپﷺ سے توسُّل کیا۔ آپ ﷺ نے انہیں کسی بھی موقع پر یہ نہ فرمایا کہ تم توسُّل کے ذریعے شرک و بدعت میں مبتلا ہو رہے ہو اور یہ امر دین کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس تاجدارِ کائنات ﷺ نے خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بوقتِ حاجت اپنی ذات سے توسُّل کرنے کی ترغیب دی۔ جیسا کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہم نے اس نا بینا صحابی کا واقعہ تفیصل سے بیان کیا، جن کی بینائی حضور نبی اکرمﷺ کے توسُّل سے فوراً لوٹ آئی تھی۔
حضور نبی اکرمﷺ اور کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کو وسیلہ بنانا اور ان سے توسُّل کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ تابعین، تبع تابعین اور قرونِ اولی کے مسلمانوں و ائمہ کی سنت رہی ہے۔ پھر بھی اگر کوئی شخص توسُّل و وسیلہ کا انکار کرے اور حضور نبی اکرم ﷺ کے اقوال اور افعال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی غلط تاویلات کرنے کی کوشش کرے تو اسے حضور نبی اکرمﷺ کا وہ فرمان مدنظر رکھنا چاہئے جس میں آپﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمیع امت میں بہترین قرار دیا۔ آپﷺ نے فرمایا:
خیر الناس قرنی، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم۔
1۔ صحیح البخاری، 1 : 515، 362
2۔ صحیح البخاری، 2 : 985، 951
3۔ جامع الترمذی، 2 : 226
سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے۔
اس حدیث مبارکہ سے مستفادیہ امر قابل غور ہے کہ کیا منکرین توسُّل کے مقابلے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں و ائمہ کا عمل ترجیح نہیں پائے گا؟
یہ بات بالکل درست ہے کہ اللہ تعالی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور جو اس حقیقت کا انکار کرے، وہ قرآنی حکم کا منکر ہو گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اللہ تعالی کی سنت پر بھی غور کرنا چاہئے۔ اگر وہ چاہتا تو بلاواسطہ اپنے احکام و فرامین اور کتب نازل فرماتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اللہ تعالی نے اپنے برگزیدہ انبیاء و رسل کے ذریعے ہم تک پیغام حق پہنچایا۔ لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اللہ رب العزت کی سنت کے برخلاف ان انبیاء و رسل اور ان کے پیروکاروں کے وسیلہ و ذریعہ کے بغیر اس تک پہنچ جائیں، اور اس کے نازل کردہ احکامات پر اسی طرح عمل کریں جس طرح وہ چاہتا ہے یا اس کے انبیاء و رسل نے کیا ہے۔ اگر خدا تعالی نے اپنے بندوں کو بغیر وسیلہ کے اپنے ذات تک پہنچانا ہوتا اور اس کی معرفت و مشاہدہ کرانا ہوتا تو وہ کبھی بھی برگزیدہ پیغمبر نہ بھیجتا اور نہ ہی قرآن مجید میں وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیتا۔
اسے آسان فہم انداز میں ایک مثال کے ذریعے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ پن بجلی ڈیموں سے پیدا کی جاتی ہے لیکن وہاں سے براہِ راست گھروں یا کارخانوں کو مہیا نہیں کی جاتی۔ اگر کوئی ڈیم سے بلاواسطہ بجلی لینے کی کوشش کرے گا تو خاکستر ہو جائے گا۔ پاور اسٹیشن سے بجلی گرڈ اسٹیشن تک آتی ہے اور پھر وہاں سے ہر ایک کی ضروریات کے مطابق مختلف نوعیت کے ٹرانسفارمرز کی مدد سے مختلف کیفیت کی بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ لوگ اپنی گھریلو و صنعتی تنصیبات کی نزاکت و حساسیت کے پیش نطر مختلف قسم کے حفاظتی آلات یعنی اسٹیبلائزر وغیرہ بھی استعمال کرتے ہیں اور ہر شے کو اس کی ضرورت و کیفیت اور گنجائش کے مطابق بجلی فراہم کرتے ہیں، مبادا وہ شے زیادہ وولٹ کا جھٹکا لگنے سے جل جائے۔
جب ہم پاور اسٹیشن سے براہ راست بجلی حاصل کر کے اپنی صنعتی و گھریلو تنصیبات کو نہیں چلا سکتے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ذاتِ باری تعالی سے بلاواسطہ فیوض و برکات حاصل کریں۔ اللہ رب العزت کے جلوۂ بے نقاب کا مشاہدہ ہم جیسے عاصی امتیوں کو براہ راست کیونکر میسر آ سکتا ہے کہ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی اور ان کے ستر (70) امتی ذات باری تعالی کی ایک معمولی تجلی کا عکس کوہ طور پر دیکھ کر برداشت نہ کر سکے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو کر گر پڑے اور ان کی قوم کے 70 بندوں کی روح تجلئ ذات کے جلوے کی تاب نہ لا کر قفس عنصری کا ساتھ چھوڑ بیٹھی جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 55 میں مذکور ہے۔ جب اللہ کا ایک برگزیدہ نبی اس کی تجلئ ذات سے بے ہوش ہو رہا ہے اور اس جلیل القدر نبی کی صحبت و معیت میں 70 بندوں کی زندگی کا چراغ ہی گل ہوگیا تو ہم جیسے پندرہویں صدی کے عاصی و خطاکار بندوں کو جلوۂ حق تک براہ راست رسائی کے خواب کیونکر زیب دیتے ہیں؟
بدقسمتی سے آج ہم نے دینی احکام کو بھی اپنی طبیعت اور مسلک کے تابع کردیا ہے۔ جو بات ہماری طبیعت اور خاص مسلکی ذوق کی تسکین کا باعث ہو، وہ دین ہے جبکہ اس کے علاوہ اگر کوئی امر دینی صحیح اور ثقہ روایات سے ثابت ہو‘ ہماری طبیعتوں اور مسلک سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو ہم اسے دین سے خارج سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جملہ دینی عقائد و اعمال کو افراط و تفریط سے ہٹ کر دین کی حقیقی روح کے ساتھ سمجھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔
(آمین بجاہ سید المرسلینﷺ)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved