دُعا مومن کا ہتھیار اور عبادت کا مغز ہے۔ یہ بندے کا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ربط و تعلق اور قربت کا ذریعہ ہے۔ دُعا اﷲ تعالیٰ کا حکم بھی ہے اور بندگانِ خدا کا محبوب عمل بھی۔ اصلًا، حقیقتًا اور شرعاً دُعا اللہ تعالیٰ کے حضور مانگی جاتی ہے اور یہ اسی کے لئے خاص ہے۔ پس توحید فی الدُعا سے مراد یہ ہے کہ فقط اللہ تعالیٰ ہی کو مستجیب الدعوات (دُعائیں قبول کرنے والا) تسلیم کیا جائے۔ اِسی کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلائے جائیں اور شدائد و مصائب اور مشکلات و آلام میں اُسی کے حضور گڑ گڑا کر گریہ و زاری کی جائے۔
فقط اللہ تعالیٰ کو پکارنا اور اس کی بارگاہ میں دُعا کرنا توحید فی الدعا ہے جبکہ اِس کے برعکس غیر اللہ کو حقیقی فریاد رس سمجھ کر اُن سے دعا کرنا شرک فی الدعا ہے۔
دُعا کے حوالے سے ایک عام غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ’’دَعَا يَدْعُو‘‘ کے ذریعے قرآن حکیم میں بہت سے مقامات پر یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًاO
’’پس اللہ کے ساتھ کسی اور کی پرستش مت کیا کرو۔‘‘
الجن، 72 : 18
اسی مضمون پر مشتمل بہت سی آیات سے برخود غلط استدلال کرتے ہوئے یہ نکتہ اٹھایا جاتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء کو نداء ’’یا‘‘ کے ساتھ مخاطب کرنا اور متوجہ کرنا شرک ہے چنانچہ بعض لوگ بتوں کی پرستش کے بارے میں نازل ہونے والی آیات سے مغالطہ پیدا کر کے ان کو اہل اللہ سے منسوب کرتے ہیں۔ اِس مغالطہ آفرینی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ’’دعا یدعو‘‘ کا صحیح معنی و مفہوم نہیں سمجھا۔ اس لئے ضروری ہے کہ دُعا کا معنی اور اس کے اطلاقات کو قرآنی آیات کے تناظر میں صحیح سیاق و سباق سے دیکھا جائے۔
لفظِ دُعا، دَعْوٌ یا دَعْوَۃٌ سے مشتق ہے، جس کا لغوی معنی بلانا یا دعا کرنا ہے۔ قرآن حکیم میں لفظ دُعا تین مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے جو درج ذیل ہیں :
1۔ دُعا بمعنی دعوت (Invitation)
2۔ دعا بمعنی التجا (Supplication)
3۔ دُعا بمعنی عبادت (Worship)
اب ہم بالترتیب مذکورہ بالا تینوں معانی کی مثالیں قرآنِ حکیم سے پیش کرتے ہیں :
دُعا کا پہلا اور معروف معنی دعوت دینا یعنی بُلانا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے :
1. قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّهِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَO
’’(اے حبیبِ مکرم!) فرما دیجئے : یہی میری راہ ہے میں اﷲ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی، اور اﷲ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
يوسف، 12 : 108
2. ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ.
’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے۔‘‘
النحل، 16 : 125
3. وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ.
’’اور ہم نے انہیں (دوزخیوں کا) پیشوا بنا دیا کہ (وہ لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے تھے۔‘‘
القصص، 28 : 41
4. وَيَا قَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِO
’’اور اے میری قوم! مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلاتے ہو۔‘‘
المؤمن، 40 : 41
5. وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَO
’’اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو اﷲ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے : بیشک میں (اﷲ عزوجل اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) فرمانبرداروں میں سے ہوں۔‘‘
حم السجدة، 41 : 33
6. كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ.
’’مشرکوں پر بہت ہی گراں ہے (وہ توحید کی بات) جس کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں۔‘‘
الشوریٰ، 42 : 13
7. هَاأَنتُمْ هَؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ.
’’یاد رکھو تم وہ لوگ ہو جنہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے۔‘‘
محمد، 47 : 38
8۔ مزید ارشاد ہوا :
وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَاقَكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَO
’’اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے، حالانکہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں بلا رہے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان لاؤ اور بیشک (اللہ) تم سے مضبوط عہد لے چکا ہے، اگر تم ایمان لانے والے ہو۔‘‘
الحديد، 57 : 8
مذکورہ بالا آیاتِ قرآنی میں دعابمعنی دعوت اِستعمال ہوا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بیان ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم داعی الی اللہ ہیں اور مخلوقِ خدا کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
دَعَا يَدْعُو کا دوسرا اطلاق پکارنا ہے یعنی بعض جگہ دعا یدعو دعا کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت کے حضور اس کے عاجز بندے دعا کرتے ہیں اور وہ ان دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جب کوئی سائل اپنے ہاتھ اٹھا کر مانگتا ہے تو اس وقت التجا کی صورت میں دعا عبادت شمار ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ.
’’اور تمہارے رب نے فرمایا ہے تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا۔‘‘
المؤمن، 40 : 60
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :
(ادعوني) وحدوني قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : الدعاء هو العبادة.
’’صرف مجھ ہی سے دعا کرو، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دُعا عبادت ہے۔‘‘
شاه ولي اﷲ، الفوز الکبير
اس حدیثِ پاک کی رو سے وہ دُعا شرک ہے جو غیر اللہ سے ہو اور بطورِ عبادت ہو لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ محض پکارنا ہرگز عبادت نہیں۔
ذاتِ باری تعالیٰ حقیقی معین و مغیث اور مددگار ہے۔ قرآن مجید میں سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر حضور نبی اکرم سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کئی انبیاء علیہم السلام کی وہ دعائیں مذکور ہیں جنہیں باری تعالیٰ نے شرفِ قبولیت سے نوازا۔ اسی طرح سابقہ اُمم کے لوگوں کا مختلف احوال میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کا ذکر بھی قرآن مجید میں ملتا ہے۔
قرآنِ حکیم میں جن آیاتِ مبارکہ میں دَعَا يَدْعُوْ بمعنی ’’دعا‘‘ استعمال ہوا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
1. هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ.
’’اسی جگہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی۔‘‘
اٰل عمران، 3 : 38
2. قُلْ أَرَأَيْتَكُم إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللّهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَO بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَO
’’آپ (ان کافروں سے) فرمائیے : ذرا یہ تو بتاؤ اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا تم پر قیامت آ پہنچے تو کیا (اس وقت عذاب سے بچنے کے لئے) اللہ کے سوا کسی اور کو پکاروگے؟ (بتاؤ) اگر تم سچے ہو۔ (ایسا ہرگز ممکن نہیں) بلکہ تم (اب بھی) اسی (اللہ) کو ہی پکارتے ہو پھر اگر وہ چاہے تو ان (مصیبتوں) کو دور فرما دیتا ہے جن کے لئے تم (اسے) پکارتے ہو اور (اس وقت) تم ان (بتوں) کو بھول جاتے ہو جنہیں (اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہو۔‘‘
الانعام، 6 : 40 - 41
3. قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا. . .
’’ارشاد ہوا : بے شک تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی، سو تم دونوں ثابت قدم رہن۔‘‘
يونس، 10 : 89
4. قُلِ ادْعُواْ اللّهَ أَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَـنَ أَيًّا مَّا تَدْعُواْ فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى.
’’فرما دیجئے کہ اللہ کو پکارو یا رحمان کو پکارو، جس نام سے بھی پکارتے ہو (سب) اچھے نام اسی کے ہیں۔‘‘
بنی اسرائيل، 17 : 110
5. وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُواْ إِلَيْهِ مِن قَبْلُ . . .
’’اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتا ہے پھر جب (اللہ) اُسے اپنی جانب سے کوئی نعمت بخش دیتا ہے تو وہ اُس (تکلیف) کو بھول جاتا ہے جس کے لئے وہ پہلے دعا کیا کرتا تھا۔‘‘
الزمر، 39 : 8
6. لاَّ يَسْأَمُ الْإِنسَانُ مِن دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِن مَّسَّهُ الشَّرُّ فَيَؤُوسٌ قَنُوطٌO
’’انسان بھلائی مانگنے سے نہیں تھکتا اور اگر اسے برائی پہنچ جاتی ہے تو بہت ہی مایوس، آس اور امید توڑ بیٹھنے والا ہو جاتا ہے۔‘‘
حم السجده، 41 : 49
7. وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍO
’’اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی چوڑی دعا کرنیوالا ہوجاتا ہے۔‘‘
حم السجدة، 41 : 51
8. فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْO
’’سو انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں (اپنی قوم کے مظالم سے) عاجز ہوں پس تو انتقام لے۔‘‘
القمر، 54 : 10
مذکورہ بالا تمام آیات میں دعا کا معنی یہ ہے کہ اللہ رب العزت کو حقیقی معین و مغیث جان کر اُسی سے ہی دُعا کی جائے بلاشک و ریب وہی مجیب الدعوات ہے۔
محاورہءِ قرآنی میں یہ بات بڑی عام اور متداول ہے کہ جہاں عبادت کا معنی مراد ہو وہاں قرآن یدعون کا استعمال کرتا ہے اور عموماً جہاں ’’دعا‘‘ من دون اﷲ یا مع اﷲ کے ساتھ استعمال ہو، وہاں عبادت مراد ہوتی ہے۔ قرآن حکیم میں اس معنی کے حوالے سے کثیر آیات وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :
1. وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ.
’’اور آپ ان (شکستہ دل اور خستہ حال) لوگوں کو (اپنی صحبت و قربت سے) دور نہ کیجئے جو صبح و شام اپنے رب کو صرف اس کی رضا چاہتے ہوئے پکارتے رہتے ہیں۔‘‘
الانعام، 6 : 52
2. قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ.
’’فرما دیجئے کہ مجھے اس بات سے روک دیا گیا ہے کہ میں ان (جھوٹے معبودوں) کی عبادت کروں جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو۔‘‘
الانعام، 6 : 56
3. قُلْ أَنَدْعُواْ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَنفَعُنَا وَلاَ يَضُرُّنَا.
’’فرما دیجئے : کیا ہم اللہ کے سوا ایسی چیز کی عبادت کریں جو ہمیں نہ (تو) نفع پہنچا سکے اور نہ (ہی) ہمیں نقصان دے سکے۔‘‘
الانعام، 6 : 71
4. إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ.
’’بے شک جن (بتوں) کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو وہ بھی تمہاری ہی طرح (اللہ کے) مملوک ہیں۔‘‘
الاعراف، 7 : 194
5. فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ مِن شَيْءٍ.
’’سو ان کے وہ جھوٹے معبود جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے ان کے کچھ کام نہ آئے۔‘‘
هود، 11 : 101
6. رَبَّنَا هَـؤُلاَءِ شُرَكَآؤُنَا الَّذِينَ كُنَّا نَدْعُوْاْ مِن دُونِكَ.
’’اے ہمارے رب! یہی ہمارے شریک تھے جن کی ہم تجھے چھوڑ کر پرستش کرتے تھے۔‘‘
النحل، 16 : 86
7. لَن نَّدْعُوَاْ مِن دُونِهِ إِلَهًا لَّقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًاO
’’ہم اس کے سوا ہرگز کسی (جھوٹے) معبود کی پرستش نہیں کریں گے (اگر ایسا کریں تو) اس وقت ہم ضرور حق سے ہٹی ہوئی بات کریں گے۔‘‘
الکهف، 18 : 14
8. يَدْعُواْ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنفَعُهُ ذَلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُO يَدْعُواْ لَمَن ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِ لَبِئْسَ الْمَوْلَى وَلَبِئْسَ الْعَشِيرُO
’’وہ (شخص) اﷲ کو چھوڑ کر اس (بت) کی عبادت کرتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچا سکے اور نہ ہی اسے نفع پہنچا سکے، یہی تو (بہت) دور کی گمراہی ہے۔ وہ اسے پوجتا ہے جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے، وہ کیا ہی برا مدد گار ہے اور کیا ہی برا ساتھی ہے۔‘‘
الحج، 22 : 12 - 13
9. إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ.
’’بیشک جن (بتوں) کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ ہرگز ایک مکھی (بھی) پیدا نہیں کرسکتے اگرچہ وہ سب اس (کام) کیلئے جمع ہوجائیں۔‘‘
الحج، 22 : 73
10. وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ.
’’اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش کرتا ہے اس کے پاس اس کی کوئی سند نہیں ہے۔‘‘
المؤمنون : 23 : 117
11. وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ.
’’اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی پوجا نہیں کرتے اور نہ (ہی) کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے بغیر حق مارنا اللہ نے حرام فرمایا ہے اور نہ (ہی) بدکاری کرتے ہیں۔‘‘
الفرقان، 25 : 68
12. ثُمَّ قِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تُشْرِكُونَO مِن دُونِ اللَّهِ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا بَل لَّمْ نَكُن نَّدْعُواْ مِن قَبْلُ شَيْئًا.
’’پھر ان سے کہا جائے گا : کہاں ہیں وہ (بت) جنہیں تم شریک ٹھہراتے تھے۔ اللہ کے سوا، وہ کہیں گے : وہ ہم سے گم ہوگئے بلکہ ہم تو پہلے کسی چیز کی پرستش نہیں کرتے تھے۔‘‘
المؤمن، 40 : 73 - 74
13. وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَدْعُونَ مِن قَبْلُ.
’’اور وہ سب (بت) اُن سے غائب ہو جائیں گے جن کی وہ پہلے پوجا کرتے تھے۔‘‘
حم السجده، 41 : 48
14. وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ.
’’اور جن کی یہ (کافر لوگ) اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں وہ (تو) شفاعت کا (کوئی) اختیار نہیں رکھتے۔‘‘
الزخرف، 43 : 86
مندرجہ بالا تمام آیاتِ مبارکہ کے ایسے مقامات میں جہاں دُعا کا معنی عبادت ہے وہاں اس سے مراد بتوں کی عبادت لی گئی ہے۔ عبادت کے معنی میں دعا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کے لئے جائز نہیں جیسا کہ کفار و مشرکین بتوں کی عبادت کرتے تھے لیکن اس مفہوم کو انبیاء اور اولیاء عظام کو توسلاً پکارنے پر منطبق کرنا صریحاً منشاء قرآن کی خلاف ورزی ہے۔ ایسے مقامات پر جمہور مفسرینِ کرام نے بھی دعا یدعو سے عبادت مراد لیا ہے محض پکارنا نہیں، چند ایک حوالہ جات ملاحظہ کیجئے۔
رئیس المفسرین سیدنا عبد اﷲ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تفسیر ’’تنوير المقباس من تفسير ابن عباس‘‘ میں آیاتِ قرآنی میں دعا یدعو سے مشتق الفاظ جب مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے ساتھ ہوں تو ان کے معانی ’’عبادت و پرستش‘‘ اور مِنْ دُوْنِ اﷲِ سے مراد ’’کفار و مشرکین کے بت اور طواغیت‘‘ ہیں۔
(اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) تعبدون (مِنْ دُوْنِ اﷲِ) من الأوثان
یہاں تَدْعُوْنَ کا معنی تَعْبُدُوْنَ ہے (یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو) اور مِنْ دُوْنِ اﷲِ کا معنی مِنَ الاوْثَانِ (بت) ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تَدْعُوْنَ سے محض پکارنا مراد نہیں لیا بلکہ ان کے نزدیک اس کا معنی عبادت کرنا ہے جبکہ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کا معنی بت ہیں۔
(1 - 5) تنوير المقباس من تفسير ابن عباس
(اَنَدْعُوْ) تأمروننا ان تعبد (مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَا لَا يَنْفَعُنَا) ان عبدناه فی الدنيا و الآخرة (وَلَا يَضُرُّنَا) إن لم نعبده فی الدنيا والآخرة.
اَنَدْعُوْا کا معنی ہے کہ تم ہمیں یہ کہتے ہو کہ ہم اﷲ کے سوا ایسی چیز کی عبادت کریں جو ہمیں دنیا اور آخرت میں کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے خواہ ہم عبادت کریں اور نہ ہی ہمیں کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں خواہ ہم ان کی عبادت نہ بھی کریں۔
(1 - 5) تنوير المقباس من تفسير ابن عباس
(وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ) يعبدون.
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ کا معنی ہے اور (اے مسلمانو!) تم ان جھوٹے معبودوں کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں۔
یہاں بھی يَدْعُوْنَ کا معنی محض پکارنا نہیں بلکہ يَعْبُدُوْنَ عبادت اور پرستش کرنا، ہے۔
(1 - 5) تنوير المقباس من تفسير ابن عباس
(إِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) تعبدون (مِنْ دُوْنِ اﷲِ) من الأصنام.
اس آیت کریمہ میں بھی تَدْعُوْنَ کا معنی تَعْبُدُوْنَ عبادت کرنا اور مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے معنی مِنَ الْاَصْنَامِ یعنی بت ہیں۔
(1 - 5) تنوير المقباس من تفسير ابن عباس
(وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) تعبدون (مِنْ دُوْنِه) مِنْ دُوْنِ اﷲِ مِنَ الأوثان.
اور جن (بتوں) کو تم اس کے سوا پوجتے ہو۔
(1 - 5) تنوير المقباس من تفسير ابن عباس
یہاں بھی تَدْعُوْنَ کا معنی تَعْبُدُوْنَ ہے (جن کی تم عبادت کرتے ہو) اور من دونہ سے مراد اوثان (بت) ہیں۔
(وَلَا تَدْعُ) لَا تَعْبُدْ.
وَلَا تَدْعُ سے مراد لا تعبد (عبادت نہ کرو) ہے۔
(يَدْعُوْنَ) يعبدون.
يَدْعُونَ کا معنی يَعْبُدُوْنَ (وہ پوجتے تھے) ہے۔
(کُنَّا نَدْعُوْا) نعبد.
کُنَّا نَدْعُوْا کا معنی کُنَّا نَعْبُدُ (جس کی ہم عبادت کرتے تھے) ہے۔
(لَن نَّدْعُوَاْ مِن دُونِهِ) لن نعبد من دون اﷲ.
لَن نَّدْعُوَاْ مِن دُونِهِ کا معنی لَنْ نَعْبُدَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ (ہم اﷲ کے سوا ہرگز کسی (جھوٹے) معبود کی عبادت نہیں کریں گے) ہے۔
(يَدْعُوْا) يعبد.
یدعوا کا معنی یعبد (عبادت کرنا ہے) ہے۔
(1 - 4) تنوير المقباس من تفسير ابن عباس
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) تعبدون (مِنْ دُوْنِ اﷲِ) من الأوثان.
’’بیشک جن (بتوں) کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں بھی تدعون کا معنی تعبدون (تم عبادت کرتے ہو) ہے اور من دون اﷲ کا معنی من الاوثان (بت) ہے۔
(وَمَنْ يَدْعُ) يعبد (مَعَ اﷲِ اِلٰهًا اٰخَرَ) من الأوثان.
اور جو شخص اللہ کے سوا بتوں کی عبادت کرتا ہے۔
اس آیت میں بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تفسیر کے مطابق يَدْعُ کا معنی يَعْبُدُ اور اِلٰھًاآخر کا معنی اوثان ہے۔
(وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اﷲِ) لا يعبدون مع اﷲ (اِلٰهًا اٰخَرَ) من الأصنام.
لا يَدْعُوْنَ مَعَ اﷲِ کا معنی لَا يَعْبُدُوْنَ مَعَ اﷲِ (وہ لوگ اﷲ کے ساتھ عبادت نہیں کرتے) اِلٰھًا اٰخَرَ کا معنی من الاصنام (بتوں میں سے) ہے۔
(بَلْ لَّمْ نَکُنْ نَّدْعُوْا) نعبد.
نَّدْعُوْا کا معنی نَعْبُدُ (ہم عبادت نہیں کرتے تھے) ہے۔
(1 - 4) تنوير المقباس من تفسير ابن عباس
(وَلَا يَمْلِکُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ) يعبدون (مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ).
’’اور جن کی یہ (کافر لوگ) اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں وہ (تو) شفاعت کا (کوئی) اختیار نہیں رکھتے۔‘‘
یہاں بھی یدعون کا معنی یعبدون ہے۔
(فَلَا تَدْعُوْا) فلا تعبدوا.
فلا تدعوا کا معنی فلا تعبدوا (پرستش مت کیا کرو) ہے۔
(1۔ 2) تنوير المقباس من تفسير ابن عباس
امام بغوی کے نزدیک بھی جب مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے ساتھ دَعَا يَدْعُوْ کا استعمال ہو تو عبادت کا معنی دیتا ہے۔ سورہ النحل کی آیت 86 کے تحت وہ رقمطراز ہیں :
(کُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِکَ) أربابًا و نَعبدهم.
کُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِکَ کا معنی ہے وہ جھوٹے معبود جن کی ہم تجھے چھوڑ کر عبادت کرتے تھے۔
بغوی، معالم التنزیل، 3 : 81
معروف مفسر امام نسفی کے نزدیک بھی جب تدعون کے الفاظ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے ساتھ آئیں تو اس سے مراد عبادت ہوتی ہے۔ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 194 کے تحت وہ لکھتے ہیں :
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ) أي تعبدونهم و تسمونهم آلهة.
اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کا معنی ہے (بے شک جن بتوں کی) تم عبادت کرتے ہو اور انہیں معبود سمجھتے ہو۔
نسفی، مدارک التنزیل، 2 : 168
امام ابنِ کثیر نے بھی مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے ساتھ یدعون اور تدعون کا معنی عبادت کیا ہے۔
(فَمَآ اَغْنَتْ عَنْهُمْ اٰلِهَتُهُمْ) أوثانهم (الَّتِيْ) يعبدونها و يدعونها (مِنْ دُوْنِ اﷲِ مِنْ شَئٍْ) ما نفعوهم ولا انقذهم لما جاء أمر اﷲ بإهلاکهم.
فَمَا اَغْنَتْ عَنْھُمْ اٰلِھَتُھُمْ سے مراد اوثانھم (ان کے بت) ہے جن کی وہ عبادت کرتے اور پکارتے (مِنْ دُوْنِ اﷲِ مِنْ شَئٍْ) کا معنی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا انہوں نے کبھی بھی انہیں نفع پہنچایا اور نہ وہ انہیں اس وقت بچا سکے جب اﷲ تعالیٰ نے ان کی ہلاکت کا فیصلہ فرمایا۔
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 460
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ لَنْ يَخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَه) أي لو اجتمع جميع ما تعبدون من الأصنام و الانداد علی ان يقدروا علی خلق ذباب واحد.
اس آیت کا معنی ہے یعنی اگر وہ سب بت اور جھوٹے معبود بھی جمع ہو جائیں جن کی تم عبادت کرتے ہو تب بھی وہ اس بات پر قدرت نہیں رکھتے کہ ایک مچھر کی بھی تخلیق کر سکیں۔
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 235
(لَمْ نَکُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَيْئًا) أي جحدوا عبادتهم.
اس میں آیت کا معنی ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت بجا لانے کا انکار کیا تو پتہ چلا کہ ہر جگہ ’’دَعَا يَدْعُوْ‘‘ کا معنی محض پکارنا نہیں بلکہ جب وہ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے ضمن میں ہو تو قرآنی اصول کے مطابق وہاں اس سے مراد عبادت ہوتی ہے اور یہی شرک ہے۔
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 88
عالم اسلام کے دینی تدریسی حلقوں میں متداول معروف تفسیر جلالین میں بھی قرآنی اصول کے مطابق مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے ساتھ یدعون اور تدعون کا معنی عبادت ہے۔
(اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) تعبدون
اس آیت کریمہ میں تَدْعُوْنَ کا معنی تَعْبُدُوْنَ (تم عبادت کرتے ہو) ہے۔
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) تعبدون
’’بے شک جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو۔‘‘
تَدْعُوْنَ سے مراد تَعْبُدُوْنَ (تم عبادت کرتے ہو) ہے۔
(وَلَا تَدْعُ) تَعْبد.
وَلَا تَدْعُ کا معنی وَلَا تَعْبُدْ (اور تم عبادت نہ کرو) ہے۔
(يَدْعُوْنَ) أي يَعبدون.
يَدْعُوْنَ کا معنی يَعْبُدُوْنَ (عبادت کرتے تھے) ہے۔
(يَدْعُوْا) يعبد (مِنْ دُوْنِ اﷲِ) من الصنم (مَا لَا يَضُرُّه) إن لم يعبده (وَمَا لَا يَنْفَعُه) إن عبده.
يَدْعُوْا کا معنی يَعْبُدُ (عبادت کرتا ہے) ہے مِنْ دُوْنِ اﷲِ کا معنی من الصنم (بت) ہے مَا لَا يَضُرُّہ کا معنی ہے جو اسے نقصان نہیں پہنچا سکتے اگرچہ عبادت نہ بھی کریں اور وَمَا لَا يَنْفَعُہ کا معنی (جو اسے نفع نہیں پہنچا سکتے اگرچہ اس کی عبادت بھی کریں) ہے۔
(1 - 5) تفسير الجلالين
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ) أي غيره و هم الأصنام.
تَدْعُوْنَ یعنی تَعْبُدُوْنَ (عبادت کرتے ہیں) مِنْ دُوْنِ اﷲِ سے، اﷲ کے ما سوا بت مراد ہیں۔
(مِنْ دُوْنِ اﷲِ) معه و هی الأصنام
مِنْ دُوْنِ اﷲِ سے مراد اصنام (بت) ہیں۔
(بَلْ لَّمْ نَکُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَيْئًا) أنکروا عبادتهم إياها.
اس آیتِ کریمہ میں کفار و مشرکین نے بتوں کی عبادت بجا لانے کا انکار کیا ہے محض پکارنے کا نہیں۔
(وَلَا يَمْلِکُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ) يعبدون أي الکفار.
اس آیت میں بھی يَدْعُوْنَ کا معنی يَعْبُدُوْنَ (کفار کا بتوں کی عبادت کرنا) ہے۔
(1 - 3) تفسير الجلالين
(وَ اَنَّ الْمَسَاجِدَ) مواضع الصلاة (لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا) فيها (مَعَ اﷲِ اَحَدًا) بأن تشرکوا کما کانت اليهود و النصاري اذا دخلوا کنائسهم و بيعهم أشرکوا.
اس آیت کریمہ کا معنی یہ ہے کہ مساجد اﷲ کے لئے نماز کی جگہ ہیں بس اس میں اس کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرو، کہ تم اس طرح شرک کرو جس طرح یہود و نصاریٰ جب اپنی عبادت گاہوں میں جاتے تھے اور شرک کرتے تھے۔
تفسير الجلالين
علامہ شوکانی نے بھی اپنی تفسیر ’’فتح القدير‘‘ میں دَعَا يَدْعُوْ جب مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی عبادت کیا ہے۔
(قُلْ اِنِّيْ نُهِيْتُ) أمره اﷲ سبحانه أن يعود إلی مخاطبة الکفار و يخبرهم بأنه نهی عن عبادة ما يدعونه و يعبدونه من دون اﷲ.
قُلْ اِنِّيْ نُھِيْتُ میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا کہ کفار کی باتوں کا جواب دیا جائے اور انہیں آگاہ کیا جائے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان بتوں کو بطور عبادت پکارنے سے منع فرمایا ہے جن کی یہ کفار اﷲ تعالیٰ کے سوا عبادت کرتے ہیں۔
(2) شوکانی، فتح القدير، 2 : 122
(قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْن اﷲِ) أي کيف ندعوا من دون اﷲ أصناما لا تنفعنا بوجه من وجوه النفع إن أردنا منها نفعا و لا نخشي ضرها بوجه من الوجوه، ومن کان هکذا فلا يستحق العبادة.
قُلْ اَنَدْعُوْ مِنْ دُوْنِ اﷲِ سے مراد ہے : ہم کس طرح اﷲ تعالیٰ کے سوا ان بتوں کی عبادت کریں جو ہمیں کسی طرح بھی کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے خواہ ہم ان سے کسی نفع کی توقع رکھیں اور نہ ہمیں ان سے کسی قسم کے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ پس جن کی اتنی سی حیثیت ہو وہ ہرگز عبادت کے لائق نہیں ہوسکتے۔
شوکانی، فتح القدير، 2 : 130
(فَمَا اَغْنَتْ عَنْهُمْ اٰلِهَتُهُم) أي فما دفعت عنهم أصنامهم التی يعبدونها من دون اﷲ شيئا من العذاب.
(فَمَا اَغْنَتْ عَنْھُمْ اٰلِھَتُھُمْ) سے مراد ہے جن بتوں کی وہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا عبادت کرتے تھے وہ ان کفار سے اﷲ تعالیٰ کا عذاب نہ ٹال سکے۔
شوکانی، فتح القدير، 2 : 524
(الَّذِيْنَ کُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِکَ) أي الذين کنا نعبدهم من دونک.
(اَلَّذِيْنَ کُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنک) سے مراد ہے : یہی ہمارے شریک تھے ہم تجھے چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے تھے۔
شوکانی، فتح القدير، 3 : 187
(يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اﷲِ) أي يعبد متجاوزا عبادة اﷲ الي عبادة الاصنام (مَا لَا يَضُرُّه) إن ترک عبادته، (وَلَا يَنْفَعُه) إن عبده لکون ذلک المعبود جمادا لا يقدر علي ضرر ولا نفع.
يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اﷲِ سے مراد ہے یعنی وہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے سوا ان بتوں کی عبادت کرتا ہے جو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اگرچہ وہ اس کی عبادت ترک بھی کرے اور نہ وہ بت اسے کوئی نفع پہنچا سکتا ہے خواہ وہ اس کی عبادت بھی کرے اس لئے کہ وہ جس بت کی عبادت کرتا ہے وہ تو ایک بے جان چیز ہے جو نفع و نقصان پہنچانے پر قادر ہی نہیں۔
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ) والمراد بما يدعونه من دون اﷲ : الاصنام التی کانت حول الکعبة و غيرها.
و قيل المراد بهم السعادة الذين صرفوهم عن طاعة اﷲ لکونهم أهل الحل والعقد فيهم.
و قيل الشياطين الذين حملوهم علي معصية اﷲ، والأول أوفق بالمقام و أظهر في التمثيل.
شوکاني، فتح القدير، 3 : 429
’’اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ سے مراد ایک تو وہ بت ہیں جو کعبۃ اﷲ کے ارد گرد تھے یا اس کے علاوہ دیگر بت جن کی مشرکین اﷲ کے سوا عبادت کرتے تھے۔
دوسرا یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سے وہ سردار اور وڈیرے مراد ہیں جنہوں نے لوگوں کو اﷲ کی اطاعت سے روکا کیونکہ وہی ان کے ارباب بست و کشاد تھے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سے مراد وہ شیاطین ہیں جنہوں نے ان کو اﷲ کی معصیت پر ابھارا۔ مذکورہ معانی میں سے پہلا معنی مقام و محل اور تمثیل کے اعتبار سے زیادہ موافق ہے۔‘‘
(وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اﷲِ اِلٰهًا اٰخَرَ) يعبده مع اﷲ أو يعبده وحده.
وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اﷲِ اِلٰھًا اٰخَرَ سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے ساتھ کسی اور بت کی عبادت کرتا ہے یا اکیلے صرف بت کی عبادت کرتا ہے۔
شوکانی، فتح القدير، 3 : 501
(بَلْ لَّمْ نَکُنْ نَدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَيْئًا) أي لم نکن نعبد شيئا.
بَلْ لَّمْ نَکُنْ نَدْعُوا مِنْ قَبْلُ شَيْئًا سے مراد ہے : ہم تو پہلے کسی بھی چیز کی عبادت نہیں کرتے تھے۔
شوکانی، فتح القدير، 4 : 502
(وَلَا يَمْلِکُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ) أي لا يملک من يدعونه من دون اﷲ من الأصنام.
وَلَا يَمْلِکُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الشَّفَاعَۃَ سے مراد ہے : یہ کفار اللہ کے سوا جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ (تو شفاعت کا) اختیار نہیں رکھتے۔
شوکانی، فتح القدير، 4 : 567
امام محمود آلوسی بھی اپنی تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے ساتھ دَعَا يَدْعُوْ کا معنی عبادت کرتے ہیں۔
(تَدْعُوْنَ) أي تعبدونهم.
تَدْعُوْنَ کا معنی تَعْبُدُوْنَہُمْ ( تم ان بتوں کی عبادت کرتے ہو) ہے۔
آلوسی، روح المعانی، 7 : 168
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ). . . أي ان الذين تعبدونهم (مِنْ دُوْنِ اﷲِ).
اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ کا معنی ہے یعنی بے شک جن بتوں کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔
آلوسی، روح المعانی، 9 : 143
(فَلَا تَدْعُوْا) اَيْ فَلَا تعبدوا فيها.
فَلَا تَدْعُوْا یعنی مسجدوں میں اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت مت کیا کرو۔
آلوسی، روح المعانی، 29 : 104
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ برصغیر پاک و ہند کے ان علماء ربانیین میں سے ہیںجو غیر متنازع شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ہر مسلک کے مسلمانوں کے ہاں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ علوم القرآن پر ان کی اتنی گرفت ہے کہ ان کی تصنیف لطیف ’’الفوز الکبیر‘‘ سند کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی کتاب میں انہوں نے قرآنی اصول کا تعین کرتے ہوئے بطور نمونہ چند ایک آیات کے معانی بھی بیان کئے ہیں چنانچہ سورۃ الانعام، 6 : 56 کے تحت وہ لکھتے ہیں :
(تَدْعُوْنَ مِن دُوْنِ اﷲِ) تَعْبُدُوْنَ.
تَدْعُوْنَ مِن دُوْنِ اﷲِ کا معنی ہے : جن کی تم اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ یہاں انہوں نے بعض لوگوں کی طرف سے پیدا کردہ اس مغالطے کا رد کر دیا جو آیات کی غلط تفسیر و تاویل کرکے محض کسی کو پکارنے پر شرک کا فتوی لگا دیتے ہیں۔ وہ اپنے استدلال کی بنیاد یہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن میں ’’تدعون‘‘ آیا ہے تعبدون نہیں۔
شاه ولی اﷲ، الفوز الکبير : 130
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی قرآن کے ایسے مقامات پر تَدْعُوْنَ / يَدْعُوْنَ کا معنی تَعْبُدُوْنَ اور يَعْبُدُوْن یعنی عبادت و پرستش ہے۔
قرآن حکیم میں وارد شدہ الفاظ کے صحیح اور درست معنی کا تعین وہ شخص کر سکتا ہے جس نے قرآن مجید کا عمیق اور گہرا مطالعہ کیا ہو اور جسے علوم القرآن پر دسترس حاصل ہو۔ پس وہ اکابر ائمہ و مفسرین جو علماء ربانیین میں سے ہیں اور علومِ قرآن میں جن کی تحقیق و مہارت میں کسی کو شک و شبہ نہیں انہوں نے جو معانی و مفاہیم متعین کئے اس پر کسی سطحی علم رکھنے والے شخص کی رائے کا کوئی وزن نہیں۔
آیات کی غلط تفسیر و تاویل کے ذریعے ممانعت کا اطلاق استغاثہ اور توسُّل جیسے جائز شرعی امور پر نہیں کیا جا سکتا۔ کفار و مشرکین بزعمِ خویش اللہ جل مجدہ کے خلاف اپنے جھوٹے معبودوں اور بتوں کو پکارتے تھے لہٰذا اگر کوئی عقیدتاً (معاذ اﷲ) اللہ کے مقابلے میں کسی کو پکارے تو یہ شرک اور کفر ہے۔
امام سیوطی (سورئہ یونس، 10 : 38) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
( وَ ادْعُوْا) لِلْإعانة عليه.
’’تم اللہ کے مقابلے میں اپنے جھوٹے معبودوں کو پکارو۔‘‘
تفسير الجلالين
جب ہم انبیاء اور اولیاء سے استعانت و استغاثہ کی بات کرتے ہیں تو کبھی بھی انہیں اﷲ کے مقابلے میں نہیں لاتے۔ بعض لوگ جن آیات کا حوالہ دے کر شرک کا الزام لگاتے ہیں ان کا سیاق و سباق دیکھنے سے اس بات کا صاف پتا چلتا ہے کہ یہ آیات کفار و مشرکین کیلئے نازل ہوئی ہیں اور ان کا انبیاء علیہم السلام کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں۔ لہٰذا ان کا اطلاق مسلمانوں پر کرنا صریحاً گناہ ہے۔ اجل مفسّرین کے نزدیک روئے زمین پر بد ترین مخلوق وہ ہیں جو کفار اور مشرکین کے حق میں اتری ہوئی آیات کا مسلمانوں اور مومنین پر اطلاق کرتے ہیں۔
اِستعانت و استغاثہ کی صورت میں نبی یا ولی کے توسُّل سے جو دعا مانگی جاتی ہے وہ شرعاً بالکل جائز ہے منافی توحید نہیں کیونکہ اس میں اﷲ جل مجدہ کے اس برگزیدہ بندے سے دعا کی درخواست کی جاتی ہے۔ اس موضوع پر ہماری تصانیف عقیدہء توسُّل اور مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت کا مطالعہ کریں۔
توحید فی الدعاء کے باب میں شرک اس وقت ہوتا ہے جب وہ دُعا بمعنی عبادت ہو جیسا کہ کفار و مشرکین کے متعلق قرآن حکیم میں بصراحت ذکر ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر غیر سے عبادت کی نفی کے لئے قرآن مجید میں لفظ مِنْ دُوْنِ اﷲِ استعمال ہوا ہے۔ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے استعمال میں حکمت یہ ہے کہ عبادتِ الٰہی کا مقام اتنا اونچا اور ارفع ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے ثابت نہیں اس لئے کہ معبودانِ باطلہ ’’ادنیٰ، گھٹیا، کم تر اور حقیر‘‘ ہیں۔ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے غیر موزوں اور غلط اطلاقات کی طرح بعض لوگ لفظ دعا کا بھی غلط اطلاق کرتے ہیں اور قرآن میں وارد شدہ ’’دعا‘‘ کا معنی ہر جگہ ’’ندا‘‘ اور ’’پکار‘‘ کرتے ہیں کہ غیر اللہ تعالیٰ کو پکارنا شرک ہے حالانکہ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کی طرح دَعَا يَدْعُو کا دائرئہ اطلاق اور مراد بھی ہر جگہ سیاق و سباق کے پیشِ نظر متعین کرنا ضروری ہے۔
لہٰذا اگر کوئی بندئہ مؤمن اللہ تعالیٰ کو مستعان و مجیب حقیقی مان کر انبیاء علیہم السلام سے استغاثہ کرے، کسی سے مدد طلب کرے، کسی روحانی شفاخانے سے علاج کروائے یا دم درود اور دعا کیلئے کسی نیک صالح بندے کے پاس جائے تو یہ ہرگز شرک نہیں ہاں اگر وہ شخص یہ عقیدہ رکھے کہ مخلوق بھی اللہ رب العزت کے اذن کے بغیر مستقل، بنفسہ نفع و ضرر کی مالک ہے تو یہ عقیدہ یقیناً شرک ہے۔
ایسی تمام آیاتِ مبارکہ کا سیاق و سباق کے حوالے سے جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ مِنْ دُوْنِ اﷲِ سے مراد اللہ تعالیٰ کے دشمن (اصنام، بت اور طواغیت وغیرہ) ہیں جن کو مشرکینِ عرب اپنا حاجت روا اور نجات دہندہ سمجھتے تھے اس لئے غیر اللہ کو حقیقتاً حاجت روا سمجھ کر ان سے دُعا کرنا شرک ہے۔
قرآن و حدیث کی رو سے ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کیلئے مجازاً حاجت روا اور مشکل کشا ہو سکتا ہے، مجازی اور عرفی معنی میں ایسا کہہ دینا شرک نہیں کیونکہ حقیقی حاجت روا، کار ساز تو اللہ تعالیٰ ہی کو مانا اور سمجھا جاتا ہے مگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء و اولیاء و صلحاء کے وسیلے سے دعا کرنا مسنون ہے جس کا حکم خود قرآن نے ان الفاظ میں دیا ہے :
وَابْتَغُوْا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ.
’’اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو۔‘‘
المائدة، 5 : 35
گذشتہ صفحات میں ہم نے وَمَا اُھِلَّ بِہ لِغَيْرِ اﷲِ، مِنْ دُوْنِ اﷲ اور دَعَا يَدْعُوْ کے درست اطلاقات کو قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کیا جس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ الفاظ قرآنی کے صحیح مفہوم سمجھنے کے لئے سیاق و سباق اور محاورئہ قرآن کا لحاظ رکھنا بے حد ضروری امر ہے۔ یونہی ہر جگہ الفاظِ قرآنی کا غلط اطلاق کر کے کسی کو مشرک و بدعتی قرار دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔ عقیدہء توحید اور حقیقتِ شرک کو سمجھنے کیلئے تصورات کا صحیح ادراک نہایت ضروری ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال کے ساتھ تعلیماتِ اسلامی پر عمل پیرا ہوں۔ یہی دین کا تقاضا ہے اور یہی اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منشاء بھی اور اسی میں ہم سب کی نجات ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved