قرآن مجید میں ایسے چار مقامات ہیں جہاں مردار، خون، خنزیر کے گوشت اور ان جانوروں کو جن پر بوقتِ ذبح غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو حرام قرار دیا گیا ہے، وہ مقامات یہ ہیں :
1۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد فرمایا :
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْـزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بے شک اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
البقرة، 2 : 173
2۔ سورۃ المائدۃ میں فرمایا :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ. . .
’’تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو۔ ۔ ۔‘‘
المائدة، 5 : 3
3۔ سورۃ الانعام میں فرمایا :
قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْـزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’آپ فرما دیں کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں تو میں کسی (بھی) کھانے والے پر (ایسی چیز کو) جسے وہ کھاتا ہو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مُردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سُؤر کا گوشت ہو کیونکہ یہ ناپاک ہے یا نافرمانی کا جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام بلند کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص (بھوک کے باعث) سخت لاچار ہو جائے نہ تو نافرمانی کر رہا ہو اور نہ حد سے تجاوز کر رہا ہو تو بیشک آپ کا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
الانعام، 6 : 145
4۔ سورۃ النحل میں اللہ رب العزت نے فرمایا :
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالْدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو، حرام کیا ہے، پھر جو شخص حالتِ اضطرار (یعنی انتہائی سخت مجبوری کی حالت) میں ہو، نہ (طلبِ لذت میں احکامِ الٰہی سے) سرکشی کرنے والا ہو اور نہ (مجبوری کی حد سے) تجاوز کرنے والا ہو، تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
النحل، 16 : 115
ان آیات میں وَمَا اُھِلَّ بِہ لِغَيْرِ اﷲِ یا اُھِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِہ (وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو) کے الفاظ آئے ہیں جن کا بعض لوگ غلط اطلاق کرتے ہیں۔ یہی خود ساختہ اطلاق کسی کے ایصالِ ثواب کے لئے دیئے گئے صدقہ و خیرات اور نذر و نیاز پر بھی کیا جاتا ہے۔ ان قرآنی آیات کی غلط اور من گھڑت تاویل کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ ہر وہ چیز جس پر صدقہ اور نذر و نیاز کے لئے غیراللہ کا نام لیا جائے اُھِلَّ بِہ لِغَيْرِاﷲِ میں داخل ہے، جس کے باعث وہ شے حرام ہے۔ اس طرح ان کے باطل خیال کے مطابق وہ صدقہ و خیرات اور گیارہویں شریف جو سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ یاد دیگر اولیاء و بزرگانِ دین اور صالحین کی طرف منسوب ہوتی ہے نہ صرف حرام ہے بلکہ یہ عمل معاذ اللہ شرک ہے۔ یہ ان قرآنی آیات کی غلط تفسیر ہے اور ایسی چیزیں جو فقط ایصالِ ثواب کے لئے کسی بزرگ ہستی کی طرف منسوب کی جائیں ہرگز وَ مَا اُھِلَّ لِغَيْرِاﷲ بِہ کے زمرے میں داخل نہیں، نہ ہی انہیں شرک پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ دراصل نذر کے تعین میں یہ اختلاف حرمت پر مبنی آیاتِ کریمہ کا معنی و مفہوم غلط سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ذیل میں ہم وَ مَا اُھِلَّ بِہ لِغَيْرِاﷲِ اور اس کے متعلقات پر تفصیلاً بحث کرتے ہیں۔
دراصل لفظِ ’’ اُھِلَّ‘‘ ثلاثی مزید فیہ کے باب اِفعال ’’اِھْلَالٌ ‘‘ سے مشتق صیغہ ماضی مجہول ہے۔ اہلِ لغت نے ’’اِھْلَال‘‘ کے متعدد معانی بیان کیے ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
1. وانهلت السماء إذا صبت، واستهلت إذا ارتفع صوت ’وقعها‘ و کان استهلال الصبي منه.
’’انْہَلَّتِ السَّمَاءُ ‘‘ اس وقت کہا جاتا ہے جب بارش برسے اور اسْتَہَلَّتْ اس خاص وقت کو کہتے ہیں جب بارش کے قطرے بلند آواز کے ساتھ زمین پر گریں۔ اسی سے اسْتِہْلَالُ الصَّبِيّ (عین پیدائش کے وقت بچے کا رونا) بھی ہے۔‘‘
1. ابن منظور، لسان العرب، 11 : 701
2. زبيدی، تاج العروس، 15 : 809
2. و استهل الصبي بالبکاء : رفع صوته و صاح عند الولادة، و کل شيء ارتفع صوته فقد استهل. والإهلال بالحج : رفع الصوت بالتلبية، و کل متکلم رفع صوته أو خفضه فقد أهل و استهل.
’’اسْتَہَلَّ الصَّبِيّ کا معنی ولادت کے وقت بچے کا بلند آواز اور چلاّ کر روناہے۔ (اس معنی میں) ہر وہ چیز جس کی آواز بلند ہو اسے ’’اسْتَھَلَّ‘‘ کہتے ہیں۔ حج کے موقع پر بلند آواز کے ساتھ تلبیہ پڑھنے کو اھْ۔ لَال کہا جاتا ہے، اور ایسا ہی ہر بولنے والے کی آواز بلند کرنے کو اَھَلَّ اور اسْتَھَلَّ کہا جاتا ہے۔‘‘
1. ابن منظور، لسان العرب، 11 : 701
2. زبيدی، تاج العروس، 15 : 810
3. و أصل الإهلال رفع الصوت. و کل رافع صوته فهو مهل، و کذلک قوله عزوجل : (وَ مَا اُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه) هو ما ذبح للآلهة و ذلک لأن الذابح کان يسميها عند الذبح، فذلک هو الإهلال.
’’اِھْلَال کا اصل معنی آواز بلند کرنا ہے۔ ہر آواز بلند کرنے والا مُھِلٌّ ہے، اور اسی معنی میں اللہ تعاليٰ کا ارشاد ہے : (وَمَا اُھِلَّ لِغَيْرِاﷲ بِہ)۔ اس سے مراد ہر وہ جانور ہے جسے جھوٹے معبودوں کیلئے ذبح کیا گیا ہو اور یہ مفہوم اس بنا پر ہے کہ ذبح کرنے والا عین ذبح کے وقت اس بت کا نام لیتا تھا۔ پس یہی اِھْلَال ہے۔‘‘
ابن منظور، لسان العرب، 11 : 701
4. قال أبو العباس : وسمي الهلال، هلالاً لأن الناس يرفعون أصواتهم بالإخبار عنه.
’’ابو العباس نے کہا : چاند کو ہلال اس لئے کہتے ہیں کہ لوگ اسے دیکھتے ہی اپنی آوازیں بلند کر کے اس کا اعلان کرتے ہیں۔‘‘
1. ابن منظور، لسان العرب، 11 : 703
2. زبيدی، تاج العروس، 15 : 2108
ائمہ لغت کی درج بالا تصریحات کی روشنی میں ’’أُهِلَّ‘‘ کا اطلاق کئی معانی پر ہوتاہے جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔
ہر اسلامی ماہ کی پہلی تاریخ کو طلوع ہونے والے چاند کو ہلال کہتے ہیں جس کا مختلف وجوہ کی بنا پر لوگ شدت سے انتظار کرتے ہیں لہٰذا نیا چاند دیکھنے والوں کی طرف سے ایک آواز بلند ہوتی ہے : استجابة الإهلال’’وہ چاند نظر آ گیا‘‘ اس خاص وقت میں بلند ہونے والی آواز کو ’’اِھْلَال‘‘ کہتے ہیں جبکہ کسی اور آواز کو اھلال سے موسوم نہیں کیا جاتا۔
اِھْلال کا ایک معنی ہے ’’پیدائش کے وقت بچے کا رونا‘‘ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو پیدا ہوتے ہی اس کے منہ سے رونے چیخنے کی آواز نکلتی ہے۔ جسے عربی میں ’’اَھَلَّ الصَّبِيّ‘‘ کہا جاتا ہے۔ عام حالات میں بچے کا چیخنا اور رونا ’’اھلال الصبی‘‘ نہیں کہلاتا بلکہ عین پیدائش کے وقت آواز بلند کرنے اور چیخنے کو ’’اھلال الصبيّ‘‘ کہتے ہیں۔
کفار و مشرکین جب کسی جانور کو ذبح کرتے تو وہ یہ اعلان کرنے کے لئے کہ وہ اپنے کس بت کے نام پر اسے ذبح کر رہے ہیں۔ آواز بلند کرتے جسے رَفْعُ الصَّوْتِ عِنْدَ الذِّبْحِ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ آواز وہ اس لیے لگاتے کہ ان کے معبودانِ باطلہ بے شمار تھے۔ لہٰذا وقتِ ذبح آواز بلند کرتے ہوئے اپنے خاص بت کا نام لیتے۔ اس بلند کی جانے والی آواز کو ’’اِھلال‘‘ کہا جاتا۔
کسی خاص موقع پر کوئی اعلان کرنے کے لئے آواز بلند کرنا بھی اِھْلَال کے معنی میں لیا جاتا ہے۔
اِھْلَال کا ایک معنی بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا بھی ہے جیسا کہ دورانِ حج حجاجِ کرام بلند آواز سے تلبیہ پڑھتے ہیں۔
عربی لغت کے حوالے سے درج بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ بنیادی طور پر ’’اہلال‘‘ میں کسی خاص موقع پر آواز بلند کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس کے لغوی معنی کی رو سے آیتِ مبارکہ وَمَا اُهِلَّ میں بھی لازماً رفعِ صوت کا مفہوم موجود ہوگا۔ وَمَا وَمَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ سے محدّثین اور مفسرینِ کرام نے کیا معنی مراد لیا ہے؟ ذیل میں ہم اسی پہلو پر تفصیلی بحث رقم کریں گے تاکہ اس آیت میں بیان کردہ قرآن مجید کا صحیح منشا اور مقصود اہلِ حق کے لئے قلبی سرور کا باعث بن سکے اور اہلِ باطل کے بطلان کا قلع قمع ہونے کا ساماں فراہم ہوسکے۔
محدثینِ کرام اور شارحینِ حدیث وَمَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ سے مراد بآوازِ بلند بتوں کے نام پر ذبح کئے جانے والے جانور لیتے ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔
1۔ امام بیہقی، حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا قول اس آیت (وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه) کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :
يعني ما أهل للطواغيت کلها.
’’اس سے مراد وہ جانور ہیں جنہیں بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘
بيهقی، السنن الکبری، 9 : 249
2۔ امام بیہقی رقمطراز ہیں :
(وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه) ما ذبح لآلهتهم.
’’وَمَا أهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه کا معنی وہ جانور ہیں جو مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے نام ذبح کیا کرتے تھے۔‘‘
شعب الايمان، 5 : 20، رقم : 5627
3۔ امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں :
وأصل الإهلال في اللغة رفع الصوت، وکل رافع صوته فهو مهل. ومنه قيل للطفل : إذا سقط من بطن أمه فصاح قد استهل صارخا. والاستهلال والإهلال سواء. ومنه قول اﷲ عزوجل (وَ مَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) لأن الذابح منهم کان إذا ذبح لآلهة سماها ورفع صوته بذکرها.
’’اھلال کا اصل لغوی معنی آواز بلند کرنا ہے لہٰذا آواز بلند کرنے والا ہر شخص مُھِلٌّ ہے اور اسی سے بچے کا استھلال کرنا ہے یعنی جب عین پیدائش کے وقت وہ بلند آواز سے روتا ہے۔ استھلال اور اھلال ہم معنی ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ تعاليٰ کا ارشاد (وَ مَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) ہے کیونکہ کفار و مشرکین میں سے ذبح کرنے والا جب اپنے بت کے نام پر ذبح کرتا تو اس کا نام لیتے وقت آواز کو بلند کرتا۔‘‘
ابن عبدالبر، التمهيد، 13 : 168
امام ابنِ حجر عسقلانی نے صحیح البخاری کی شرح فتح الباری (3 : 415) اور امام نووی نے صحیح مسلم کی شرح (8 : 89) میں بھی یہی معانی بیان کئے ہیں۔
ذیل میں ہم آیت (وَ مَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) کی تشریح و تفسیر معروف ائمہ تفسیر کی آراء کی روشنی میں بیان کریں گے۔ جن سے یہ بات مترشح ہے کہ کسی ایک مفسرِ قرآن نے بھی ایصالِ ثواب کے لئے ذبح کیے گئے جانور کا تعلق ان حرمت والی آیات سے نہیں جوڑا اور نہ کسی نے اولیاء و صالحین کے ایصالِ ثواب کے لئے اللہ کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کو حرام قرر دیا۔
سورۃ البقرۃ کی آیتِ کریمہ ملاحظہ کیجئے، ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْـزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بے شک اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
البقرة، 2 : 173
اس آیتِ مبارکہ میں أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ کے جو الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ ان کا مفسرینِ کرام نے شرعی معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ جانور ہے جس پر عین وقتِ ذبح غیر اﷲ کا نام بلند کرکے چھری پھیر دی جائے۔ ذیل میں مشہور ائمہ تفسیر کے حوالے درج کئے جاتے ہیں۔
رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تفسیر
’’تنویر المقباس‘‘ میں (وَمَآ اُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) کا معنی یہ لکھا ہے :
(وَمَآ اُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) ماذبح لغير اسم اﷲ عمداً للأصنام. ’’(وَمَآ اُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) کا معنی ہے وہ جانور جس کو جان بوجھ کر اللہ کا نام لیے بغیر بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘
ابن عباس، تنوير المقباس : 24
عن قتادة فی قوله : (وَمَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِاﷲِ) قال : ما ذبح لغير اﷲ مما لم يسم عليه.
’’حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ وہ (وَ مَا أُهِلَّ بِہ لِغَيْرِاﷲِ) سے مراد وہ جانور ہے جس کو اللہ تعاليٰ کا نام لیے بغیر غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہو۔‘‘
تفسير عبدالرزاق، 1 : 301، رقم : 155
عن الزهري قال : الإهلال أن يقولوا : باسم المسيح.
’’امام زھری فرماتے ہیں کہ اِھلال کا مطلب ہے کہ بوقت ذبح یوں کہا جائے : بإِسم المسيح (یعنی حضرت عیسیں کے نام پر ذبح کرتا ہوں)۔‘‘
تفسير عبدالرزاق، 1 : 01 3، رقم : 156
نوٹ : واضح ہو کہ امام زھری نے اِهْلَال کے حوالے سے اپنی تفسیر میں ان عیسائیوں کا معمول بیان کیا ہے جو حضرت عیسيٰ علیہ السلام کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے۔
و أما قوله : (وَمَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِاﷲِ) فإنه يعني به وما ذبح للآلهة والأوثان يسمي عليه بغير اسمه أو قصد به غيره من الأصنام. و إنما قيل (وَمَا أُهلَّ بِه) لأنهم کانوا إذا أرادوا ذبح ما قربوه لآلهتهم سموا اسم آلهتهم التي قربوا ذلک لها وجهروا بذلک أصواتهم. فجري ذلک من أمرهم علي ذلک حتي قيل لکل ذابح يسمي أو لم يسم، جهر بالتسمية أو لم يجهر مُهل. فرفعهم أصواتهم بذلک هو الإهلال الذي ذکره اﷲ تعالي فقال : (وَ مَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) ومن ذلک قيل للملبي في حجة أو عمرة مهل لرفعه صوته بالتلبية. و منه استهلال الصبي إذا صاح عند سقوطه من بطن أمه. واستهلال المطر وهو صوت وقوعه علي الأرض کما قال عمرو بن قميئة :
ظلم البطاح له انهلال حريصة
ابن جرير طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 2 : 50
’’اللہ تعاليٰ کے ارشاد (وَمَا ه لِغَيْرِ اﷲِ) سے مراد وہ جانور ہیں جو معبودانِ باطلہ یعنی بتوں کے لئے ذبح کیے گئے ہوں جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو یا اس کے علاوہ بتوں میں سے کسی ایک کا نام لینے کا ارادہ کیا گیا ہو۔ وَمَا أُهِلَّ بِه اس لیے ارشاد فرمایا گیا : کیونکہ جب مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے تقرب کے لئے کسی جانور کو ذبح کرنے کا ارادہ کرتے تو وہ اس مخصوص بت کا نام لیتے جس کے تقرب کے لئے وہ جانور ذبح کیا جانا ہوتا اور اس پر وہ اپنی آواز کو بلند کرتے پس پھر یہ ان کا معمول بن گیا حتی کہ ہر ذبح کرنے والے کو خواہ اس نے بآواز بلند اپنے معبود کا نام لیا ہو یا نہ مُھِلٌّ کہا جانے لگا۔ پس ان کا جانور پر آواز بلند کرنا اِھلَال کہلاتا ہے۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعاليٰ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (وَ مَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ)۔ اسی بلندی آواز کے مفہوم کی وجہ سے حج اور عمرہ کے دوران بلند آواز سے تلبیہ پڑھنے والے کو بھی مُھِلٌّ کہا گیا۔ اسی مفہوم میں استھلال الصبی ہے جب بچہ پیدائش کے وقت اپنی ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی روتا ہے۔ اسی سے استھلال المطر ہے، یہ وہ آواز ہے جو بارش کے قطرے زمین پر گرتے وقت پیدا ہوتی ہے جیسا کہ عمر بن قمیئہ نے اپنے ایک شعر میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے :
وادیوں کی ظلمت زور دار بارش کا ہونا ہے‘‘
قوله تعالي : (وَمَا أُهلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) أي ذکر عليه غير اسم اﷲ تعالي، و هي ذبيحة المجوسي والوثني والمُعَطِّل. فالوثني يذبح للوثن، والمجوسي للنار، والمُعَطِّل لا يعتقد شيئًا فيذبح لنفسه. والإهلال : رفع الصوت، يقال : أهلَّ بکذا، أي رفع صوته.
ومنه إهلال الصبيّ و استهلاله، و هو صياحه عند ولادته. و قال ابن عباس وغيره : المراد ما ذبح للأنصاب والأوثان.
’’اللہ تعاليٰ کا ارشاد (وَ مَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) سے مراد وہ جانور ہے جس پر اللہ کے غیر کا نام لیا گیا ہو اور یہ مجوسی، بت پرست اور معطل کا ذبیحہ ہے۔ بت پرست اپنے بت کے لئے ذبح کرتا ہے، مجوسی آگ کے لئے اور معطل کا کسی چیز پر اعتقاد نہیں ہوتا وہ صرف اپنی ذات کے لیے ذبح کرتا ہے۔
قرطبی، الجامع لأحکام القران، 2 : 223
إهلال آواز بلند کرنے کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : اس شخص نے اس طرح آواز بلند کی۔
اسی سے اھلال الصبی اور نومولود بچے کا استھلال ہے جس سے مراد عین پیدائش کے وقت اس کا چیخنا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر ائمہ فرماتے ہیں : اس سے مراد وہ جانور ہے جس کو نصب شدہ مورتیوں اور بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘
الإهلال : رفع الصوت، يقال أهلّ بکذا : أي رفع صوته، قال الشاعر يصف فلاة :
تهلّ بالفرقد رکبانها
کما يهلّ الراکب المعتمر
و منه إهلال الصبيّ، واستهلاله : وهو صياحه عند ولادته، والمراد هنا : ما ذکر عليها اسم غير اﷲ کاللات والعزّي.
’’اھلال : کا معنی آواز بلند کرنا ہے، کہا جاتا ہے کہ فلاں نے اس طرح آواز بلند کی۔ یعنی اپنی آواز کو اونچا کیا۔ کسی شاعر نے بنجر بیابان زمین کی تعریف یوں بیان کی ہے :
’’بنجر و ہموار زمین میں چلنے والے مسافروں نے زور سے آواز دی جیسے عمرہ کرنے والا سوار بآوازِ بلند تلبیہ کہتا ہے۔
شوکانی، فتح القدير الجامع بين فنی الرواية والدراية من علم التفسير، 1 : 169
اسی سے اھلال الصبی اور استھلال الصبی ہے، جس سے مراد عین پیدائش کے وقت بچہ کا بآواز بلند چیخنا ہے۔ یہاں اس آیت کا مطلب ہے کہ وہ جانور جس پر غیر اللہ مثلاً لات و عزيٰ کا نام لیا گیا ہو۔‘‘
(وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه) : أی ما ذبح فذکر عليه اسم غير اﷲ فهو حرام.
’’یعنی وہ جانور جسے ذبح کرتے ہوئے اللہ کے غیر کا نام لیا جائے پس ایسا جانور حرام ہے۔‘‘
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 8
علاوہ ازیں دیگر معروف تفاسیر میں بھی مفسرین کرام نے (سورۃ البقرۃ، 2 : 173 اور سورۃ المائدۃ، 5 : 3) کے تحت مذکورہ بالا تمام معروف معانی بیان کئے ہیں کسی ایک مفسر نے بھی ان آیات کی یہ تاویل نہیں کی جو عام طور پر معترضین کرتے اور ایصالِ ثواب کے عمل کو شرک سے منسلک کرتے ہیں۔ مزید تفصیل درج ذیل تفاسیر میں دیکھیے :
1. ابن ابي حاتم، تفسير القرآن العظيم، 5 : 1407
2. امام فخر الدين رازي، التفسير الکبير، 5 : 11
3. ابن جوزي، تفسير زاد المسير في علم التفسير، 1 : 175
4. امام بغووي، معالم التنزيل، 1 : 140
5. امام خازن، تفسير لباب التأويل في معاني التنزيل، 1 : 119
6. امام بيضاوي، تفسير البيضاوي، 1 : 162
7. علامه زمخشري، تفسير الکشاف، 1 : 215
8. امام نسفي، تفسير مدارک التنزيل و حقائق التأويل، 1 : 110
9. امام صاوي، تفسير الصاوي، 1 : 143
10. امام جلال الدين سيوطي، تفسير الدر المنثور، 3 : 15
11. أيضاً، تفسير الجلالين
12. امام آلوسي، تفسير روح المعاني، 2 : 42
13. قاضي ثناء اﷲ پاني پتي، تفسير المظهري، 1 : 190
14. علامه عجيلي، تفسير الجمل، 1 : 207
15. احمد مصطفي، تفسير المراغي، 1 : 47
16. ابن عادل الدمشقي، تفسير اللباب في علوم القرآن، 7 : 188
17. امام ابي سعود، تفسير ارشاد العقل السليم إلي مزايا القرآن الکريم، 1 : 191
18. ابن عجيبه، تفسير البحر المديد، 2 : 142
گزشتہ صفحات میں ہم نے اہلِ لغت، محدثینِ کرام اور مفسرینِ عظام کی آراء کی روشنی میں أُهِلَّ کا درست مفہوم تفصیل سے واضح کر دیا ہے۔ جس کے مطابق صرف وہ جانور حرام ہے جس پر عین ذبح کے وقت اﷲ کے نام کی جگہ کسی دوسرے کا نام اس طرح لیا جائے کہ میں اس جانور کو فلاں بت یا شخص کے نام پر اس کے تقرب کے لئے ذبح کرتا ہوں۔ یہ عمل شرک ہوگا اور یہ ذبیحہ از روئے نص حرام ہوگا۔ لیکن اگر صدقہ و خیرات اور نذر و نیاز کے لئے جانور خرید کر اﷲ کی رضا کے لئے اﷲ کے نام پر ذبح کر دیا جائے اور اس کا ثواب کسی بزرگ یا اپنے عزیز رشتہ دار کے نام کر دیا جائے تو یہ عمل حرام اور شرک نہیں۔
ائمہ لغت اور محدثین و مفسرین نے اس کے معانی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاند دیکھتے ہی لوگ اچانک آواز بلند کرنے لگتے ہیں کہ
’’وہ چاند ہو گیا‘‘، بعد ازاں اسی وجہ سے پہلی رات کے چاند کو ھِلال کا نام دیدیا گیا۔ ذیل میں ہم سورۃ البقرہ کی ایک اور آیت سے اس مفہوم کا استشہاد کرتے ہیں جس میں لفظ أَهِلَّةٌ سے مراد چاند ہی ہے جب کہ مفسرینِ کرام نے اس لفظ أَهِلَّةٌ کے تحت اِھلال کے وہ تمام معروف و متداول معنی بیان کئے ہیں جن کا ذکر ہم نے پچھلے صفحات میں کر دیا ہے۔
ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُواْ الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُواْ الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
’’(اے حبیب) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں یہ لوگوں کے لئے اور ماهِ حج (کے تعین) کے لئے وقت کی علامتیں ہیں، اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم (حالتِ احرام میں) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو (ایسی الٹی رسموں کی بجائے) پرہیزگاری اختیار کرنا ہے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
البقرة، 2 : 189
سابقہ صفحات پر مشتمل مکمل بحث کا لبِ لباب ذیل کے چار نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے :
مشرکین جب کسی جانور کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے تو ان کے اس عمل سے ان کا مقصود اپنے معبودانِ باطلہ کی عبادت، تعظیم و تکریم، ان کی رضا و خوشنودی اور تقرب کا حصول ہوتا تھا۔ لہٰذا ان آیات میں بطورِ خاص اس طرح کے عمل کو جو غیراللہ کے تقرب اور عبادت کے لئے ہو حرام ٹھہرایا گیا۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ . . . .
’’تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لئے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘
المائدة، 5 : 3
مفسرینِ کرام نے سورۃ المائدۃ کی آیت : 3 کے تحت اس کی وضاحت کی ہے :
1. (وَ مَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ). . . قال مجاهد و قتادة : کانت حول البيت ثلاثمائة وستون حجرًا منصوبة، کان أهل الجاهلية يعبدونها و يعظمونها و يذبحون لها، و ليست هي بأصنام إنما الأصنام هي المصورة المنقوشة، و قال الآخرون : هي الأصنام المنصوبة، و معناه : وما ذُبح علي اسم النصب، قال ابن زيد : و ما ذبح علي النصب و ما أهل لغير اﷲ به : هما واحد.
’’امام مجاہد اور امام قتادہ کا قول ہے کہ بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ زمانہ جاہلیت کے لوگ ان کی عبادت اور تعظیم کیا کرتے تھے اور ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کیا کرتے تھے، وہ حقیقی بت نہیں تھے بلکہ صرف نقش و نگار والی تصاویر تھیں۔ بعض ائمہ کا قول ہے کہ یہ نصب شدہ بت تھے۔ اور اسکا معنی یہ ہے کہ وہ جانور جو بتوں کے نام پر ذبح کے گئے ہوں۔ ابن زید کا قول ہے کہ (وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ) اور (وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه) دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔‘‘
بغوی، تفسير معالم التنزيل، 2 : 9
2. قوله تعالي : (وَ مَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ) في النصب قولان :
أحدهما : أنها أصنام تنصب، فتعبد من دون اﷲ، قاله ابن عباس، و الفراء، و الزجاج، فعلي هذا القول يکون المعني، و ما ذبح علي اسم النصب، وقيل : لأجلها.
و الثاني : أنها حجارة کانوا يذبحون عليها، و يشرحون اللحم عليها و يعظمونها، و هوقول ابن جريج.
’’اللہ تعاليٰ کے قول (وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ) میں لفظ نُصُب کے بارے میں دو اقوال ہیں : ایک یہ کہ اس سے مراد نصب شدہ بت ہیں جن کی اللہ تعاليٰ کے علاوہ عبادت کی جاتی۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ، فراء اور زجاج کا یہی قول ہے۔ اس قول کے مطابق اس کا معنی یہ ہوگا : جو جانور بتوں کے نام پر ذبح کیا جائے، اور یہ بھی قول ہے کہ جو جانور ان بتوں کی رضا اور خوشنودی کے حصول کیلئے ذبح کیا جائے۔
ابن جوزی، زاد المسير فی علم التفسير، 2 : 283 - 284
دوسرا قول یہ ہے کہ
’’نُصُب‘‘ وہ پتھر تھے جن پر مشرکین جانور ذبح کئے کرتے تھے اور ان پر گوشت کے ٹکڑے کرتے اور ان کی تعظیم کیا کرتے تھے۔ یہ ابنِ جریج کا قول ہے۔‘‘
3. (وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ) کانت لهم حجارة منصوبة حول البيت، يذبحون عليها و يشرحون اللحم عليها، يعظمونها بذلک و يتقربون به إليها.
’’( وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ) کی تفسیر یہ ہے کہ زمانہء جاہلیت میں لوگوں نے بیت اللہ کے اردگرد پتھر سے بنی ہوئی مورتیاں نصب کر رکھی تھیں اور تھان بنا رکھے تھے جن پر وہ جانور ذبح کرتے تھے اور گوشت کے ٹکڑے کرتے تھے، اس سبب سے وہ ان مورتیوں کی تعظیم کرتے اور ان کی خوشنودی حاصل کرتے تھے۔‘‘
زمخشري، الکشاف، 1 : 603
4. (وَ مَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ) النصب واحد الأنصاب، و هي أحجار کانت منصوبة حول البيت يذبحون عليها و يعدون ذلک قربة.
’’انصاب کا واحد نصب ہے اور ان سے مراد وہ پتھر ہیں جو بیت اللہ کے ارد گرد نصب تھے، مشرکین ان کے اوپر جانور ذبح کرتے اور اس عمل کو باعثِ تقرب سمجھتے تھے۔‘‘
بيضاوی، تفسير البيضاوی، 1 : 410
5. (وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ) کانت لهم حجارة منصوبة حول البيت يذبحون عليها يعظمونها بذلک و يتقربون إليها.
’’خانہ کعبہ کے اردگرد مشرکین کے پتھر سے بنے بت نصب تھے جن پر وہ جانور ذبح کرتے تھے۔ اس کے باعث وہ ان کی تعظیم کرتے تھے اور (عملِ ذبح کے ذریعے) ان کا تقرب حاصل کرتے تھے۔‘‘
نسفي، تفسير القرآن الجليل، 1 : 388
6. و أخرج الطستي في مسائله عن ابن عباس أن نافع بن الأزرق قال له :. . . أخبرني عن قوله (الأنصاب) قال : الأنصاب الحجارة التي کانت العرب تعبدها من دون اﷲ و تذبح لها.
’’امام طستی نے مسائل میں نافع بن ازرق کے حوالے سے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے انصاب کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ ان سے مراد وہ پتھر (کے بت) ہیں جن کی مشرکینِ عرب عبادت کرتے اور ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرتے۔‘‘
سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 3 : 16
7. قال ابن جريج : کانت العرب تذبح بمکة و تنضح بالدم ما أقبل من البيت، و يشرحون اللحم و يضعونه علي الحجارة، فلما جاء الإسلام، قال المسلمون للنبي صلي الله عليه وآله وسلم : نحن أحق أن نعظم هذا البيت بهذه الأفعال، فکأنه عليه الصلاة و السلام لم يکره ذلک، فأنزل اﷲ تعالي : ( لَنْ ينَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا) و نزلت (وَ مَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ) المعني : و النية فيها تعظيم النصب لا أن الذبح عليها غير جائز.
’’ابنِ جریج نے کہا : مشرکینِ عرب مکہ مکرمہ میں جانور ذبح کرتے اور بیت اللہ کے سامنے خون چھڑکاتے، اور گوشت کے ٹکڑے کرکے اسے پتھروں کی مورتیوں پر رکھ دیتے۔ جب زمانۂ اسلام آیا تو مسلمانوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خواہش کا اظہار کیا کہ بیت اﷲ کے پاس اس طرح کے تعظیمی افعال کے ہم زیادہ حقدار ہیں۔ شاید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ان کی) اس خواہش کو ناگوار نہ سمجھتے اس لئے اللہ تعاليٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی : (ہرگز اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون) اور یہ آیت بھی نازل فرمائی : (اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لئے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو)۔ اس کے ناجائز ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس طرح ذبح کرنے میں بتوں کی تعظیم کی نیت شامل ہے اس وجہ سے نہیں کہ یہاں مطلقاً ذبح ناجائز ہے۔‘‘
1. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 6 : 57
2. شوکاني، فتح القدير الجامع بين فني الرواية والدراية من علم التفسير، 2 : 10
اکثر لوگ (وَمَا أُهِلّ بِه لِغَيْرِاﷲِ) اور (وَمَا ذُبِحَ عَلی النُّصُبْ) کے معنی و مفہوم کو آپس میں خلط ملط کردیتے ہیں درحقیقت ان دونوں کا اطلاق الگ الگ ہے۔
وَمَا ذُبِحَ عَلی النُّصُب سے مراد باطل معبود کے لیے تھان یعنی مخصوص چبوترہ بنا کر ان کی خوشنودی و رضا کے لئے جانور ذبح کرنا ہے۔
اہلِ اسلام کا عمل اس تصور سے پاک ہے۔ وہ اولیاء و صالحین اور مرحومین کو نہ تو کفار و مشرکین کی طرح جانور کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور نہ ان کے مجسمے اور مورتیاں بنا کر عبادت کرتے ہیں۔
اسی طرح وَمَا أُهِلّ بِه لِغَيْرِاﷲِ سے مراد جیسا کہ ہم نے گذشتہ صفحات میں بیان کر دیا یہ ہے کہ بوقتِ ذبح بلند آواز سے کسی کا نام لینا اس میں مخصوص مقام اور تھان کا تصور نہیں بلکہ کسی جگہ بھی جانور ذبح کرکے اگر اﷲتعاليٰ کے علاوہ کسی اور کی خوشنودی اور تقرب کے لیے بطورِ عبادت اس کا نام لیا جائے یہ عمل شرک ہے۔
مسلمان جانور کی جان کا نذرانہ بھی اﷲ تعاليٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں اور بوقتِ ذبح بصورتِ تکبیر صرف اﷲ تعاليٰ کا نام لیتے ہیں۔ اس لیے ایصالِ ثواب کے لیے ذبح کیے گئے جانور پر شرک کا اطلاق نہیں ہوتا۔
ائمہ تفسیر نے وَمَا ذُبِحَ عَلی النُّصُب کی تفسیر میں جو کچھ لکھا ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کفارو مشرکین کے اس مشرکانہ عمل اور مسلمانوں کے جائز اعمال میں بُعد المشرِقین ہے کیونکہ :
مسلمان جب کسی جانور کو ایصالِ ثواب کے لئے ذبح کرتے ہیں تو :
نذر و نیاز کے بارے میں درست اور صحیح عقیدہ یہ ہے کہ یہ خالصتاً اللہ تعاليٰ کا حق ہے اور صرف اسی کے لئے جائز ہے۔ عرف عام میں اولیاء اللہ کے لئے نذر کا لفظ استعمال کئے جانے پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ناجائز ہے۔ اس حوالے سے یہ ذہن نشین کر لیا جائے کہ اس سے مراد ان کے نام پر ہدیہ اور تحفہ پیش کرناہے جو کہ عبادت نہیں۔ بعض لوگ نذور اور ایصالِ ثواب کو آپس میں خلط ملط کرتے ہیں اور پھر ایصالِ ثواب کے جائز طریقوں کو بھی شرک اور ناجائز کہنے لگتے ہیں یہ تصور درست نہیں۔ ایصال ثواب ثابت شدہ شرعی طریقہ ہے کوئی چیز محض کسی بزرگ کی طرف منسوب کرنے سے حرام نہیں ہوتی جسے بعض لوگ غلط فہمی کی بنا پر ’’مَا اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اﷲِ‘‘ سے تعبیر کر کے اس کا غلط اطلاق دوسری چیزوں پر کرتے ہیں۔ اِھلال کا معنی ’’منسوب کرنا‘‘ کسی طرح بھی ثابت نہیں۔ شرعی نذر اﷲ تعاليٰ کیلئے خاص ہے اور یہ شاملِ عبادت ہوتی ہے جبکہ اس کی نسبت اہل اﷲ کی طرف کر دی جاتی ہے آپ منت مان کر کھانا پکائیں یا کچھ اور کریں وہ اﷲ تعاليٰ ہی کی نذر ہو گی جبکہ اس کا ایصالِ ثواب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ یا کسی اور بزرگ کی طرف منسوب کرنا امرِ جائز ہے۔ یہ عمل شرک تب ہو گا جب کسی غیر کی خوشنودی کے لئے نذر مانی جائے۔
نذر صدقہ کے معنی میں استعمال ہوتی ہے اس میں عبادت، نیاز مندی، جھکنے اور غایتِ تعظیم کے معانی پائے جاتے ہیں۔ نذر کے بارے میں درست عقیدہ یہی ہے کہ یہ اللہ تعاليٰ کا حق ہے اور صرف اسی کے لئے ماننا جائز ہے۔ اس لئے نذر شرعی نہ تو کسی رسول اور نبی کے لئے جائز ہے اور نہ ہی اولیاء و صلحاء کے لئے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ انبیاء و اولیاء کے لئے جو نذر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ مجازی معنی میں ہوتا ہے حقیقی معنی میں نہیں۔ ان کے لئے جب نذر کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نذر عرفی بمعنی ہدیہ، نذرانہ اور ایصالِ ثواب ہے جو انبیاء، اولیاء اور عام مسلمانوں کے لئے ہے اور یہ بہترین ہدیہ ہے۔ جس طرح قربانی، عبادت اور دعا، خالصۃً اللہ تعاليٰ کے لئے ہوتی ہے اسی طرح ہم نذر اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کے لئے مانتے ہیں جب کہ اس کا فائدہ اطعام الطعام اور صدقہ و خیرات کی صورت میں غریب، مسکین، محتاج، مفلس، یتیم اور بے سہارا افراد کو پہنچاتے ہیں۔ قربانی کی حقیقت کے بارے قرآن میں ارشاد فرمایا گیا :
لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ.
’’ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقويٰ پہنچتا ہے۔‘‘
الحج، 22 : 37
قربانی کے اندر تقويٰ اور اخلاص کی نیت مضمر ہوتی ہے اور وہی اس کی روح ہے جبکہ گوشت سے ناداروں اور غریبوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ نذر خالصتاً اللہ تعاليٰ کے لئے ہے مگر اس کے ذریعے ثواب انبیاء علیھم السلام اور اولیائے کرام کو پہنچایا جاتا ہے۔
یہاں یہ بات ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ اہلِ علم جب نذر کا لفظ استعمال کریں تو بہتر ہے کہ وہ اسے حقیقی معنی میں استعمال کریں۔ اگر وہ اس کو مجازی یا عرفی معنی میں استعمال کرنا چاہیں تو پھر درست عقیدے کی وضاحت بھی کر دیں تاکہ عوام میں کسی قسم کا مغالطہ اور عقیدے کا بگاڑ بوجہِ جہالت پیدا نہ ہونے پائے۔
کوئی عملِ صالح بطورِ نذر مانا جا سکتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ جب ایک مرتبہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنھما علیل ہوئے تو ان کے لئے بطورِ نذر روزے رکھے گئے اور حقداروں کو کھانا کھلایا گیا۔
یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ ہر عملِ صالح دوگونہ تعلق کا حامل ہے :
رازی، التفسير الکبير، 30 : 244
ایک تعلق اللہ تعاليٰ کے ساتھ جس میں اس عمل کی نیت اور اس کے متعلق عقیدے کا اﷲتعاليٰ کے لئے خاص ہونا ہے۔
اس عمل کا دوسرا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے مثلاً مزاراتِ اولیاء پر اظہارِ تعظیم کے لئے چادر چڑھانا جو شعائر اللہ ہونے کے باعث تعظیماً جائز عمل ہے۔ صاحبِ مزار کے ساتھ یہ تعلق اس امر کا مظہر ہے کہ اس عمل سے اللہ تعاليٰ کی رضا و خوشنودی کا حصول مقصود ہے کہ اﷲ والوں کے مزارات کی تعظیم شعائر اﷲ سمجھ کر حکمِ الٰہی کی تعمیل میں کی جاتی ہے۔
لہٰذا اگر کوئی گیارہویں شریف کی نذر مانتا ہے کہ میرا فلاں کام ہو گیا تو سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی گیارہویں دوں گا تو جان لیجئے کہ یہ صدقہ و خیرات ہی کی ایک صورت ہے۔ اس میں نیت کے ساتھ دعا ہو گی کہ موليٰ کریم تیری رضا کے لئے یہ کھانا پکانا، قرآن پڑھنا پڑھانا تیرے حضور پیش کیا جاتا ہے اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرما اور اس عمل سے جو ثواب ملے اسے میں جملہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام بشمول شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی ارواح کو بالخصوص تحفۃً پیش کرتا ہوں۔ پس اس دعا کے ساتھ ایصالِ ثواب کرنا شرک نہیں۔
صدقات اور خیرات پر اللہ کے محبوب و مقرب بندوں کا نام لینے سے وہ حرام نہیں ہوتے کیوں کہ نام لینے سے صرف ایصالِ ثواب مقصود ہوتا ہے لہٰذا خیرات و صدقات کا ایصالِ ثواب کے لئے دینا ’’وَمَا اُهِلَّ لِغَيْرِاﷲِ بِه‘‘ میں شامل ہی نہیں۔ شرعاً یہ امر جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی نیک عمل اور صدقہ و خیرات کو کسی دوسرے کے نام منسوب کر دے۔ اس کی شرعی حیثیت واضح کرنے کے لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاداتِ مبارکہ میں سے چند ایک ذیل میں دیئے جا رہے ہیں تاکہ کسی کے لئے ایصالِ ثواب کرنے کا مستند و معتبر جواز ثابت ہو جائے۔
1۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے :
أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ.
’’ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : میری والدہ اچانک فوت ہوگئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقتِ نزع) گفتگو کر سکتی تو صدقہ کرتی۔ اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب موتِ الفَجْأَةِ البَغْتَةِ، 1 : 467،
رقم : 1322
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب وصول ثواب الصدقة عن الميت إليه، 2 : 696،
رقم : 1004
3. ابوداود، السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء فيمن مات وصية يتصدق عنه، 3 :
118، رقم : 2881
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم : إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَکَ مَالًا وَلَمْ يُوْصِ. فَهَلْ يُکَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ؟ قَالَ : نَعَمْ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے اور اس نے مال چھوڑا ہے مگر اس بارے میں کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ (صدقہ کرنا) اس (کے گناہوں) کا کفارہ بن جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلي الميت، 3 : 1254،
رقم : 1630
2. نسائي، السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 : 251، رقم : 3652
3. ابن ماجة، السنن، کتاب الوصايا، باب من مات و لم يوص هل يتصدق عنه، 2 : 206،
رقم : 2716
4. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 371، رقم : 8828
5. ابن خزيمة، الصحيح، 4 : 123، رقم : 2498
3۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا :
يَا رَسُوْلَ اﷲِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ أَفَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَإِنَّ مَخْرَفًا فَأُشْهِدُکَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا.
وَ قَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَ بِهِ : يَقُوْلُ أَهْلُ الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ : لَيْسَ شَيئٌ يَصِلُ إِلَی الْمَيّتِ إِلَّا الصَّدَقَةُ وَ الدُّعَاءُ.
’’یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہوچکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! اس نے عرض کیا : میرے پاس ایک باغ ہے آپ گواہ رہیں کہ میں نے یہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا۔‘‘
’’امام ترمذی فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے اور علماء کا یہی قول ہے، وہ فرماتے ہیں : میت کو صرف صدقہ اور دعا پہنچتی ہے۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب الزکاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب ما
جاء في الصدقة عن الميت، 3 : 56، رقم : 669
2. ابوداود، السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء فيمن مات وصية يتصدق عنه، 3 : 118،
رقم : 2882
3. نسائي، السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 : 252، رقم : 3655
4۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ : إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ.
’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (ان کا اجر اسے برابر ملتا رہتا ہے) : ایک وہ صدقہ جس کا نفع جاری رہے، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، تیسری وہ نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، 3
: 1255، رقم : 1631
2. ابوداود، السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 : 117،
رقم : 2880
3. ابن ماجة، السنن، المقدمة، باب ثواب معلم الناس الخير، 1 : 88، رقم : 239
4. بخاري، الأدب المفرد، 1 : 28، رقم : 38
5۔ امام سفیان ثوری بیان کرتے ہیں کہ حضرت طاووس نے فرمایا :
إِنَّ الْمَوتَی يُفْتَنُونَ فِي قُبُورِهِمْ سَبْعًا، فَکَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُطْعُمَ عَنْهُمْ تِلْکَ الأَيّامِ.
وَ قَالَ السُّيُوطِيُّ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
’’بے شک سات دن تک مردوں کو ان کی قبروں میں آزمایا جاتا ہے اس لئے لوگ ان دنوں میں ان کی طرف سے کھانا کھلانے کو مستحب سمجھتے تھے۔‘‘
’’امام سیوطی نے کہا ہے کہ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔‘‘
1. أبو نعيم، حلية الأولياء، 4 : 11
2. سيوطي، الديباج علي صحيح مسلم، 2 : 491، رقم : 905
3. سيوطي، شرح علي سنن النسائي، 4 : 104
درج بالا روایات سے ثابت ہوا کہ ایصالِ ثواب اور صدقات و خیرات کے لئے کسی کے نام کی طرف نسبت شرعاً جائز بلکہ سنت ہے۔
کوئی نیک عمل کر کے کسی کی روح کو ایصالِ ثواب کرنا یا اس کے نام سے منسوب کرنا یہ از روئے شرع جائز اور باعثِ ثواب عمل ہے۔ نذر و نیاز، صدقہ و خیرات اعمال خیر میں سے ہیں اور جیسے ہر عمل خالصتاً اللہ کیلئے ہوتا ہے مگر جس بزرگ، شیخ، دوست یا عزیز کے لئے ایصال ثواب کیا جائے اس کے نام سے منسوب کرنا از روئے شرع جائز اور درست ہے۔ اس حوالے سے چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :
6۔ سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے بصرہ کی ایک بستی اُبُلَّہ سے آئے ہوئے حاجیوں سے فرمایا تھا کہ تم میں سے کوئی شخص مسجد عَشَّار میں دو یا چار رکعت نفل نماز پڑھ کر میری طرف منسوب کرے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں :
عَنْ اِبْرَاهِيْمَ بْنِ صَالِحِ بْنِ دِرْهَمٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِيْ يَقُوْلُ : انْطَلَقْنَا حَاجِّيْنَ، فَاِذَا رَجُلٌ فَقَالَ لَنَا : اِلَی جَنْبِکُمْ قَرْيَةٌ يُقَالُ لَهَا الأُبُلَّةُ؟ فَقُلْنَا : نَعَمْ. قَالَ : مَنْ يَضْمَنُ لِيْ مِنْکُمْ اَن يُصَلِّيَ لِيْ فِي مَسْجِدِ الْعَشَّارِ رَکْعَتَيْنِ أَوْ اَرْبَعًا، وَ يَقُوْلُ هَذِهِ لِأَبِيْ هُرَيْرَةَ. سَمِعْتُ خَلِيْلِيْ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ اﷲَ يَبْعَثُ مِنْ مَسْجِدِ الْعَشَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُهَدَاءَ لَا يَقُومُ مَعَ شُهَدَاءِ بَدْرٍ غَيْرُهُم.
’’ابراہیم بن صالح بن درھم کا بیان ہے کہ میرے والد محترم نے فرمایا : ہم حج کرنے حرم کعبہ گئے تو ایک آدمی نے ہم سے دریافت کیا : کیا تمہارے علاقے میں ’’اُبُلّۃ‘‘ نام کی کوئی بستی ہے؟ ہم نے جواب دیا : ہاں۔ اُس نے کہا : تم میں سے کون مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ ’’مسجدِ عَشَّار‘‘ میں میرے لئے دو یا چار رکعتیں پڑھنے کے بعد کہے : ان رکعتوں کا ثواب ابو ہریرہ کے لئے ہے۔ میں نے اپنے خلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعاليٰ قیامت کے دن مسجد عشار سے ایسے شھیدوں کو اٹھائے گا کہ شہدائے بدر کے سوا کوئی ان کے ساتھ کھڑا نہ ہو گا۔‘‘
1. أبوداؤد، السنن، کتاب الملاحم، باب فی ذکر البصرة،
4 : 113، رقم : 4308.
2. بيهقی، شعب الإيمان، 3 : 479، رقم : 4115
اس روایت سے دو باتیں ثابت ہوئیں :
علاوہ ازیں اس روایت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نفل نماز پڑھ کر ایصال ثواب کرنا ایک جائز عمل ہے۔ اسی وجہ سے بزرگوں کا ہمیشہ یہ معمول رہا ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایصالِ ثواب کرنے کے لئے نوافل پڑھا کرتے تھے۔
7۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں :
أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ مَاتَ وَ عَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيّهُ.
’’بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے وہ روزے رکھے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب من مات وعليه صوم، 2 : 690، رقم : 1851
2. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 : 803، رقم : 1147
3. أبوداؤد، السنن، کتاب : الصوم، باب : فيمن مات و عليه صيام، 2 : 315، رقم
: 2400
8۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
وَإِنْ کَانَ عَلَيْهِ نَذْرٌ قَضَي عَنْهُ وَلِيّهُ.
’’اگر اس (فوت ہونے والے) پر کسی نذر کا پورا کرنا باقی ہو (جو اس نے مانی تھی) تو وہ اس کی طرف سے اس کا ولی پوری کرے۔‘‘
1. أبوداود، السنن، کتاب الصيام، باب فيمن مات وعليه صيام، 2 : 315، رقم : 2400، 2401
2. دار قطني، السنن، 2 : 194، رقم : 79 - 80
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 3 : 113، رقم : 12598
9۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت نے حاضر ہوکر عرض کیا :
إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، فَقَالَ : أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ، أَکُنْتِ تَقْضِيْنَهُ؟ قَالَتْ : نَعَمْ. قَالَ : فَدَيْنُ اﷲِ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ.
وَ فِي رِوَايَةٍ : فَقَالَتْ : إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ وَ عَلَيْهَا صِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ.
’’میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس پر ایک ماہ کے روزے واجب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بتاؤ کہ اگر اس پرکچھ قرض ہوتا تو کیا تم اس کی طرف سے وہ قرض ادا کرتیں؟ اس عورت نے عرض کیا : ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعاليٰ قرض ادا کئے جانے کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘
’’اور ایک روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں کہ اس نے عرض کیا : میری بہن فوت ہو گئی ہے اور اس پر دو ماہ کے مسلسل روزے واجب ہیں۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 : 804، رقم : 1148
2. ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب من مات و عليه صيام من نذر، 1 : 559،
رقم : 1758
3. نسائي، السنن الکبري، 2 : 173 - 174، رقم : 2912 - 2915
10۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ جُہَینہ کی ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا :
إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ، فَلَمْ تَحُجَّ حَتَّي مَاتَتْ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا، أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلَي أُمِّکِ دَيْنٌ أَکُنْتِ قَاضِيَةً؟ اقْضُوا اﷲَ، فَاﷲُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ.
’’میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک کہ فوت ہوگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ فرمایا : ہاں تم اس کی طرف سے حج کرو۔ بھلا بتاؤ تو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں؟ اللہ تعاليٰ کا حق ادا کیا کرو، کیونکہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اُس سے وفاء کی جائے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الإحصار وجزاء الصيد، باب الحج و النذور عن الميت، وَ
الرَّجُلُ يَحُجُّ عَنِ المَرْأَةِ، 2 : 656، رقم : 1754
2. نسائي، السنن، کتاب مناسک الحج، باب الحج عن الميت الذي نذر أن
يحج، 5 :
116، رقم : 2632
3. ابن خزيمة، الصحيح، 4 : 346، رقم : 3041
اس حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کے فوت شدہ عمل کی بعداز وفات ادائیگی کو جائز قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دلیل بھی عطا کر دی کہ زندگی میں جس طرح کوئی کسی کی طرف سے قرض کی ادائیگی جیسا عمل کرے تو وہ قرض ادا ہو جاتا ہے تو اسی طرح بعد از وفات بھی اگر کوئی کسی کے لئے نیک عمل مثلاً حج کرے گا تو وہ مرنے والے کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جائے گا۔
11۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت نے حاضر ہوکر عرض کیا :
إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَي أُمِّي بِجَارِيَةٍ، وَ إِنَّهَا مَاتَتْ. قَالَ : فَقَالَ : وَجَبَ أَجْرُکِ. وَرَدَّهَا عَلَيْکِ الْمِيْرَاثُ. قَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّهُ کَانَ عَلَيْهَا صَومُ شَهْرٍ. أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟ قَالَ : صُوْمِي عَنْهَا. قَالَتْ : إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ. أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ : حُجِّي عَنْهَا.
وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور اب میری ماں فوت ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں ثواب مل گیا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں لوٹا دی ہے۔ اس عورت نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے (باقی) تھے کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا : میری ماں نے حج کبھی نہیں کیا تھا کیا میں اس کی طرف سے حج ادا کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو۔‘‘
’’امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 : 805، رقم : 1149
2. ترمذي، السنن، کتاب الزکاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب ما
جاء في المُتَصَدِّقِ يَرِثُ صَدَقَتَهُ، 3 : 54، رقم : 667
3. نسائي، السنن الکبري، 4 : 66 - 67، رقم : 6314 - 6316
12۔ والدین کی وفات کے بعد ان کی طرف سے حج کرنے کا اجر بیان فرماتے ہوئے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ حَجَّ عَنْ وَالِدَيْهِ بَعْدَ وَفَاتِهِمَا کُتِبَ لَه عِتْقًا مِنَ النَّارِ.
’’جس نے اپنے والدین کے انتقال کے بعد ان کی طرف سے حج کیا تو اس کے لئے دوزخ کی آگ سے رہائی لکھ دی جائے گی۔‘‘
1. بيهقي، شعب الإيمان، 6 : 205، رقم : 7912
2. سيوطي، شرح الصدور : 129
یہ بہت بڑی صلہ رحمی اور خدمت کی انجام دہی ہے کہ اولاد، والدین کی طرف سے حج کا فریضہ ادا کرے، اس کے علاوہ وہ دیگر صدقات وغیرہ بھی والدین کی طرف سے ادا کرتے رہیں۔ اللہ تعاليٰ رحیم و کریم ذات ہے اس نے اپنے بندوں کی بخشش و مغفرت کے لئے کئی طریقے عطا فرمائے ہیں جن میں میت کی طرف سے حج کرنا اور صدقات و خیرات وغیرہ جیسے اعمالِ صالحہ کرنا شامل ہیں۔
13۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی والدہ فوت ہوگئی تو انہوں نے عرض کیا :
يَا رَسُوْلَ اﷲِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ : سَقْي الْمَاءِ. فَتِلْکَ سِقَايَةُ سَعْدٍ بِالْمَدِيْنَةِ.
’’یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے، کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کرسکتا ہوں؟ فرمایا : ہاں! انہوں نے عرض کیا : تو کونسا صدقہ بہتر رہے گا؟ فرمایا : پانی پلانا۔‘‘ پس مدینہ منورہ میں یہ سعد کی پانی کی سبیل ہے۔‘‘
1. نسائي، السنن، کتاب الوصايا، باب ذکر الاختلاف علي سفيان، 6 : 254
- 255، رقم : 3662 - 3666
2. ابن ماجة، السنن، کتاب الأدب، باب فضل صدقة الماء، 2 : 1214، رقم : 3684
3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 284، رقم : 22512
14۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا :
يَا رَسُوْلَ اﷲِ إِنَّ أُمِّ سَعْدٍ مَاتَتْ، فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ : الْمَاءُ، قَالَ : فَحَفَرَ بِئْرًا، وَ قَالَ : هَذِهِ لِأُمِّ سَعْدٍ.
’’یا رسول اللہ! امّ سعد کا انتقال ہوگیا ہے۔ سو (اس کے ایصالِ ثواب کے لئے) کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا : پانی۔‘‘
’’پس انہوں نے ایک کنواں کھدوا دیا اور کہا : یہ امّ سعد کا کنواں ہے۔‘‘
1. ابوداود، السنن، کتاب الزکاة، باب في فضل سقي الماء، 2 : 130، رقم : 1681
2. منذري، الترغيب و الترهيب، 2 : 41، رقم : 1424
3. خطيب تبريزي، مشکاة المصابيح، کتاب الزکاة، باب فضل الصدقة، 1 : 362، رقم
: 12 19
کنواں کھدوانے کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لئے دیا کہ اس وقت مدینہ منورہ میں میٹھے پانی کی قلت تھی جس کے باعث مسلمانوں کو میٹھا پانی پینے کے لئے دستیاب نہیں تھا۔ وہ مشقت برداشت کرتے ہوئے میلوں کا سفر کر کے چھوٹی چھوٹی مشکیں پانی بھر کے لاتے۔ اس دوران حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی سے میٹھے پانی کا ایک کنواں خرید کر وقف کر دیا جس سے مسلمانوں کو آسانی ہو گئی۔ اس حدیث میں بھی اسی زمانہ کی طرف اشارہ ہے اور امّ سعد کے ایصالِ ثواب کے لئے وقف کئے گئے کنوئیں کے سبب مسلمانوں کی اس مشکل کو حل کیا گیا۔
یہ بات ذہن نشین رکھنے والی ہے کہ امّ سعد کا انتقال ہو چکنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو پانی فراہم کا مشورہ دے رہے ہیں۔ جس کے باعث حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک کنواں ان کے لئے وقف کر دیا جو ’’فَتِلْکَ سِقَايَةُ سَعْدٍ يا هَذِهِ ( أي البئر) لِأُمِّ سَعْدٍ‘‘ (امّ سعد کا کنواں) کے نام سے مشہور ہو گیا۔ واضح رہے کہ اس کنوئیں سمیت تمام پانیوں کا حقیقی مالک اللہ رب العزت کی ذات ہے مگر اسے غیر اللہ سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ صحابہ کرام و تابعین اپنی روایات میں فرما رہے ہیں کہ وہ امّ سعد کے نام سے مشہور ہوا۔
مزید تفصیل کے لئے ہماری کتاب ’’ایصالِ ثواب کی شرعی حیثیت‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔
نذر میں شرک تب ہو گا جب اس کا حق باری تعاليٰ کے علاوہ کسی اور کے لئے ثابت کیا جائے جیسا کہ کفار و مشرکین اپنے بتوں اور معبودانِ باطلہ کے لئے اللہ تعاليٰ کے مقابلے میں اپنے کھیتوں اور فصلوں کی پیداوار کا حصہ اسی طرح مقرر کرتے تھے جیسے اﷲ تعاليٰ نے ہمارے اموال اور فصلوں میں زکوٰۃ و عشر کے حصے مقرر فرمانے کا حکم دیاہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے :
وَجَعَلُواْ لِلّهِ مِمِّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُواْ هَـذَا لِلّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـذَا لِشُرَكَآئِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَآئِهِمْ فَلاَ يَصِلُ إِلَى اللّهِ وَمَا كَانَ لِلّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَآئِهِمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَO
’’انہوں نے اللہ کے لئے انہی (چیزوں) میں سے ایک حصہ مقرر کر لیا ہے جنہیں اس نے کھیتی اور مویشیوں میں سے پیدا فرمایا ہے پھر اپنے گمانِ (باطل) سے کہتے ہیں کہ یہ (حصہ) اللہ کے لئے ہے اور یہ ہمارے (خودساختہ) شریکوں کے لئے ہے۔ پھر جو (حصہ) ان کے شریکوں کے لئے ہے سو وہ اللہ تک نہیں پہنچتا اور جو (حصہ) اللہ کے لئے ہے تو وہ ان کے شریکوں تک پہنچ جاتا ہے (وہ) کیا ہی برا فیصلہ کر رہے ہیں۔‘‘
الانعام، 6 : 136
یاد رہے کہ مشرکین کا یہ عمل (شرک فی النذر) بتوں اور اپنے جھوٹے خداؤں کے لئے ہوتا تھا لیکن اگر یہی عمل بتوں کی بجائے کسی بزرگ ہستی کے لئے اسی عقیدے کے ساتھ روا رکھا جائے تبھی یہ عمل شرک ہو گا ورنہ نہیں بلکہ اس کے برعکس جب نذر اللہ کی مانی جائے مگر اس کا ثواب انبیاء علیھم السلام اور اولیائے کرام کو پہنچایا جائے تو یہ ہرگز شرک نہیں کیونکہ اس سے مقصود اللہ رب العزت کی بخشش و عطا کا حصول ہے وہ اپنے بندوں پر انتہائی شفیق و مہربان ہے اس کے عفو و کرم کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا اور وہ اپنی مخلوق کے لئے رحیم و کریم ہے۔ ربِّ کائنات تو معمولی سے معمولی قربانی کو بھی رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ ایک دانہ کے بدلے میں سات سو دانے عطا فرماتا ہے۔ جب ایک عمل اﷲ سبحانہ و تعاليٰ کی نذر کرکے اس کا ثواب کسی کو پہنچایا جائے تو وہ ایصالِ ثواب کرنے والے کو بھی عطا کرے گا اور اسے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں جابجا ایصالِ ثواب کی تلقین فرمائی۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کفر و شرک کا مدار عبادت کے اعتقاد پر ہے۔ اس کے بغیر عقیدۃً و عملاً شرک واقع نہیں ہو سکتا اگر عملِ ذبح فی نفسہ تقرّب الی الغیر کی نیت سے ہو تو یہ عبادت بن جائے گا اور داخلِ شرک ہو گا۔ اس اعتقاد کی نہ اجازت ہے اور نہ کوئی کلمہ گو مسلمان اس عقیدے کا حامل ہے۔
ائمہ حدیث و تفسیر کی آراء سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ذبیحہ کی حرمت کا بنیادی سبب اُس تقرّب کو قرار دیا گیا ہے جو تقرّب بذریعہ عبادت ہو جبکہ مطلق تقرب الی الغیر شرک نہیں۔ اگر مطلقاً تقرّب الی الغیر کو شرک کہا جائے تو پھر تمام ذوی القربيٰ اللہ تعاليٰ کے شریک قرار پاتے ہیں۔ ان کو ذوی القربيٰ اِسی لئے کہا گیا ہے کہ ان سے قرابت کا تعلق ہوتا ہے اور ہر شخص کو اس قرابت کے برقرار رکھنے کاحکم ہے۔ مطلق تقرّب الی الغیرکو شرک سمجھ لیا جائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایسے تمام احکام باطل اور ساقط قرار پائیں گے جن میں مودت فی القربيٰ کے لئے ترغیبات وارد ہوئی ہیں نیز وہ آیات جن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقرباء سے محبت و مودت کا حکم موجود ہے مثلاً ارشادِ ربانی ہے :
قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى.
’’فرما دیجئے : میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (اپنی اور اللہ کی) قرابت و قربت سے محبت (چاہتا ہوں)۔‘‘
الشوريٰ، 42 : 23
اِس لئے ماننا پڑے گا کہ مطلقاً تقرّب الی الغیر شرک نہیں بلکہ ایسا تقرب شرک ہے جو بطور عبادت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے اُمت نے مسلمانوں سے متعلق ایسے معاملات میں بدگمانی سے منع کیا ہے، صاحبِ در المختار فرماتے ہیں :
إنا لا نسئ الظنَّ بالمسلم أنه يتقرب إلي الآدمي بهذا النحر.
’’ہم کسی مسلمان کے بارے میں ہرگز یہ بدگمانی نہیں کرتے کہ وہ اِس فعل ذبح کے ذریعہ کسی شخص کا تقرب (بطورِ عبادت) چاہتا ہے۔‘‘
حصکفي، الدرالمختار، 6 : 310
علامہ ابنِ عابدین الشامی رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ حصکفی کی اسی عبارت (انہ یتقرب الی الآدمی) کی شرح کرتے ہوئے تقرب کو بطور عبادت تصریحاً کفر بیان کیا ہے :
أي علي وجه العبادة لأنه المکفر وهذا بعيد من حال المسلم.
’’یعنی (کسی بھی انسان کا تقرب جو) بطور عبادت ہو (وہ کفر ہوتا ہے) کیونکہ وہ کفر کا ارتکاب کرتا ہے اور یہ مسلمان کے حال سے بہت بعید ہے۔‘‘
ابن عابدين، ردالمحتار علي الدر المختار، 6 : 310
یہ بات ذہن نشین رہے کہ جو لوگ مطلقاً تقرب الی اﷲ کے لئے وسیلہ اور ذریعہ کی بھی نفی ثابت کرتے ہیں وہ درست نہیں کیونکہ کفار اپنے ان بتوں کو فقط ’’ تقرب الی اﷲ‘‘ کا ذریعہ نہیں مانتے تھے بلکہ ان کے آگے سربسجود ہوتے، انہیں معبود سمجھ کر ان کی پوجا بھی کرتے اور ان کے لئے جانوروں کا نذرانہ بھی عبادت کی نیت سے پیش کرتے جیسا کہ آیتِ کریمہ کے الفاظ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى ’’ہم اُن کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اﷲ کا مقرّب بنا دیں۔‘‘ سے عیاں ہے۔
الزمر، 39 : 3
اس کے برعکس کوئی ادنيٰ مؤمن بھی انبیاء اور اولیاء کو معبود سمجھتے ہوئے انہیں وسیلہ اور ذریعہ نہیں بناتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادنيٰ ترین غلام بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عبد اور عابد ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے نہ کے معبود ہونے کا۔ یہی وہ بنیادی عقیدہ ہے جو ایک مؤمن و کافر، توحید پرست و بت پرست اور موحد و مشرک کے درمیان واضح حدِ فاصل قائم کرتا ہے۔ اسی نکتۂ آغاز سے سے دو راہیں نکلتی ہیں ایک صراط الی اﷲ اور دخول فی الجنۃ کا باعث بنتی ہے اور دوسری طریق الی الشیطان اور دخول فی النار کا سبب قرار پاتی ہے۔ ان دو بالکل ہی مختلف راہوں پر چلنے والوں کو ایک ہی راہ کا مسافر سمجھنا ہرگز درست نہیں۔ کفار کے اس خود ساختہ تصور اور باطل نظریے کا قرآن نے بطلان فرما دیا ہے کہ اگر وہ اصنام و اوثان کو محض سفارشی سمجھتے ہوتے اور اللہ تعاليٰ کے ہاں صرف قربت و نزدیکی کا ذریعہ گردانتے تو پھر معبودِ حقیقی پر اپنے بتوں کو ترجیح نہ دیتے اور نہ اپنے بتوں کی گالی کا بدلہ (معاذ اﷲ) اﷲ تعاليٰ کی ارفع و اعليٰ شان میں دشنام طرازی سے لیتے اگر کفار و مشرکین کو اللہ تعاليٰ سے اتنا ہی لگاؤ اور پیار تھا تو بندوں کو اللہ تعاليٰ کی عبادت سے منع کیوں کرتے تھے؟ جیسا کہ ارشاد باری تعاليٰ ہے :
اَرَءَ يْتَ الَّذِيْ يَنْهٰيO عَبْدًا اِذَا صَلّٰيO
’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہےo (اﷲ کے) بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہےo‘‘
العلق، 96 : 9 - 10
اسی طرح اگر کفار و مشرکین اللہ تعاليٰ ہی کو مستقل مؤثر و مدبر اور متصرفِ حقیقی سمجھتے تھے تو انہوں نے یہ کیوں کہا؟
وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ.
’’اور ہمیں زمانے کے (حالات و واقعات کے) سوا کوئی ہلاک نہیں کرتا۔‘‘
الجاثية، 45 : 24
لہٰذا ’’شُفَعَاءُ نَا عِنْدَ اﷲِ اور يُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اﷲِ زُلْفٰی‘‘ کی بنیاد پر جمہور امت پر شرک کا فتویٰ صادر کرنا جہالت اور زیادتی ہے۔ ان آیات میں یہ بتلایا گیا ہے کہ کفار و مشرکین اپنے بتوں کو معبود سمجھتے تھے، ان کے لئے عبادت کی نیت سے نذر پیش کرتے تھے۔ چونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء و رسل ہدایت کا وسیلہ و واسطہ اور ذریعہ ہیں اور روزِ قیامت شفیع ہوں گے لہٰذا جب ہم اپنے معبودوں کے لئے شفیع اور قرب جیسے الفاظ استعمال کریں گے تو شاید مسلمان ان کے بارے میں نرم گوشہ اختیار کریں۔ پس قرآن حکیم نے واضح طور پر بتا دیا کہ ایک جائز دلیل کو بنیاد بنا کر کسی بت کو قربت کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اُس کی پوجا پاٹ شروع کر دینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ کفار کا یہ عمل صراحتًا شرک ہے۔ ان کی اس روشِ بد کا قیاس، ایمان والوں کی انبیاء و اولیاء سے پاکیزہ عقیدت و محبت اور انہیں اﷲتعاليٰ کی بارگاہ میں سفارش، شفاعت یا استعانت کا ذریعہ بنانے پر نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ایک مؤمن اور کافر کے درمیان اس بنیادی فرق کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنا چاہیے تاکہ ایمان و کفر اور توحید و شرک کے درمیان تمیز اور فاصلہ قائم رہے۔
ہمارے ہاں جو جانور بھی ذبح کئے جاتے ہیں خواہ وہ صدقات و خیرات کی غرض سے ہوں، ولیمہ و عقیقہ کی غرض سے یا عام دعوت و اطعام کی غرض سے، شادی اور اجتماع کا موقع ہو یا عید، عرس اور میلاد کا، کبھی بھی عملِ ذبح جسے اہراق الدم یعنی خون بہانے کا عمل کہتے ہیں تقرّب الی الغیر کی نیت سے نہیں کیا جاتا۔ عملِ ذبح ہمیشہ خالصۃً لِوَجْۃِ اﷲ یعنی اللہ تعاليٰ کی رضا کے لئے اور عبادۃِﷲ یعنی اللہ کی عبادت کے لئے ہوتا ہے اور باسم اللہ یعنی اللہ کے نام پر ہوتا ہے یہی عملِ ذبح اور إهلال کہلاتا ہے اور یہی عبادت بنتا ہے، اس میں کسی غیر کو شریک کر لیں یا اسے غیر کے تقرب کے لئے مخصوص کر دیں تو شرک ہو جائے گا۔ اگراس میں توحید اور خالصیت برقرار رہی تو قبل ازاں یا بعد ازاں اس کا مقصد و مصرف جو بھی تھا وہ شرک نہیں بن سکتا۔ مثلًا کسی نے جانور اپنی شادی اور ولیمہ کے لئے خریدے تھے، کسی نے احباب اور اقارب کی دعوت اور مہمانداری کے لئے، کسی نے اپنے بیٹے کے عقیقہ کے لئے، کسی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طعامِ میلاد کے لئے اور کسی نے اولیاء و صالحین کے ختم اور عرس کے لئے تو ان میں سے کوئی سبب بھی مانعِ توحید اور باعثِ شرک نہیں ہے۔ جس نے بھی اطعامِ طعام یعنی کھانا کھلانے میں اعتقاد سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رکھا، اسے بھی ثواب حاصل ہو گا اور جس نے صدقہ و خیرات کا رکھا اسے بھی ثواب حاصل ہوگا، اب یہ اس کی مرضی ہے چاہے ثواب اپنے لئے رکھے یا اولیاء و صالحین کے لئے ہدیہ و تحفہ کر دے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے لئے اس ثواب کے ہدیہ و تحفہ کرنے کو ایصالِ ثواب کہتے ہیں۔
ایصالِ ثواب کی دعا اور درخواست بھی اللہ تعاليٰ ہی سے کی جاتی ہے۔ کہ ’’یااﷲ اس کا ثواب فلاں بزرگ کی روح کو میری طرف سے ہدیۃً عطا فرما دے‘‘۔ اس لئے اس میں شرک کا شائبہ پیدا کرنا سوائے لا علمی اور جہالت کے کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ عمل کثرت کے ساتھ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ ایصالِ ثواب میں نہ کسی غیر کی عبادت کا شائبہ و امکان ہے، نہ غیر کے لئے ذبحِ مطلق ہے، نہ ذبحِ تقرب ہے اور نہ ذبحِ تعظیم۔ ہاں اگر ایصالِ ثواب میں آرزوئے قرب ہو تو اس میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے۔ کیونکہ مطلقاً صالحین کی محبت، اُن کا قرب و صحبت اور ان کی زیارت و مجالست، یہ سب کچھ شریعت میں نہ صرف مطلوب اور مستحسن ہے بلکہ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انکا صریح حکم اور فضیلت وارد ہوئی ہے۔
بعض لوگ اِس باب میں ایک اور مغالطہ پیدا کرتے ہیں کہ ذبح سے مقصود غیر اللہ کو گوشت پہنچانا نہیں ہوتا بلکہ غیر اللہ کو جانور کی جان پیش کرنا ہوتی ہے۔ ایسا کرنا عہدِ جاہلیت کے ساتھ مشابہ ہے کیونکہ کفار و مشرکین بھی اسی طرح بتوں کو جانوروں کی رُوح بھینٹ چڑھاتے تھے، چونکہ مسلمانوں کا ایصالِ ثواب بھی اِسی کے مشابہ ہے لہٰذا یہ شرک ہے؟ یہ ایک لغو اور بے حقیقت اعتراض ہے اور صریحاً غلط فہمی ہے۔
1۔ اس لغو سوال کا جواب شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ یوں دیتے ہیں :
وکنہ ایں مسئلہ آنست کہ جان را برائے غیر جان آفرین نثار کردن درست نیست۔ و ماکولات و مشروبات ودیگر اموال را نیز اگرچہ از راہِ تقرب لِغیر اللہ دادن حرام و شرک است اما ثواب آں چیزہا را کہ عائد بر دہندہ مے شود از آن غیر ساختن جائز است۔ زیرا کہ ایشان را مے رسد کہ ثواب عمل خود را بغیر بخشند چنانچہ مے رسد کہ مالِ خود را بغیر خود بدہد و جانِ جانور مملوک آدمی نیست تا او را بکسے تواند بخشید۔ و نیز دادن مال ازیں جہت مستوجب ثواب است کہ آدمیان بوئے منتفع مے شوند، وچوں مردہ ہا بعد از مفارقت ازیں جہاں قابل انتفاع بعین مال نماندہ اند طریقِ نفع رسانیدن آنہا در شرع چنین قرار یافت کہ ثواب اموال را بمتسحقان برسانند بآنہا عائد سازند۔ و جانِ جانور اصلاً قابلِ انتفاع نیست در زندگی پس از مردگی نیز قابل انتفاع نباشد۔ آرے اضحیہ از طرف مردہ کردن در حدیث صحیح آمدہ است لیکن معینش ہمیں است کہ دادن جان برائے خدا و ثوابے کہ دارد بآں مردہ بخشیدہ شود نہ آنکہ ذبح برائے مردہ کردہ آید.
’’اِس مسئلہ کی اصل حقیقت اور روح یہ ہے کہ جان اللہ تعاليٰ کے سوا کسی غیر کے لئے قربان کرنا درست نہیں ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء اور دوسرے اموال کی نذر بھی اگرچہ تقربًا غیر اللہ کے لئے کرنا حرام اور شرک ہے لیکن اِن اشیاء کے دینے پرثواب غیر اللہ کو ارسال کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح کہ کسی شخص کے ذاتی عمل کا ثواب بغیر بخشے دوسروں کو نہیں ملتا، اسی طرح ذاتی مال میں سے کسی کو دیئے بغیر کوئی کسی کا مال نہیں پا سکتا تو جانور کی جان کا مالک تو اِنسان بھی نہیں ہے وہ اسے کسی دوسرے کو کیسے دے سکتا ہے؟ نیز مال اس نیت سے دینا کہ کہ لوگ اِس سے نفع حاصل کریں باعثِ ثواب ہوتا ہے اور جب فوت شدہ لوگ مال سے نفع حاصل نہیں کر سکتے تو شریعت نے اُس مال کا ثواب ارسال کرنے کا طریقہ اور ذریعہ مقرر کیا ہے تاکہ مرحومین اُس مال سے نفع حاصل کریں۔ جانور کی جان دینے سے کسی شخص کو حقیقۃً جب حیاتِ دُنیوی میں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا تو مرنے کے بعد کسی شخص کو جانور کی جان دینے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ تاہم فوت شدہ لوگوں کی طرف سے قربانی کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ لیکن اِس کا مطلب یہی ہے کہ جان اللہ جل جلالہ کے لئے دی جائے اور اُس عمل کا ثواب فوت شدہ لوگوں کو پہنچایا جائے۔ نہ یہ کہ ذبح اس فوت شدہ شخص کے لئے کیا جائے۔‘‘
شاه عبد العزيز، فتاوي عزيزي، 1 : 56
مذکورہ بالا فتويٰ سے یہ بات عیاں ہوئی کہ مقربین و صالحین کو ثواب پہنچانے کی غرض سے جو جانور نامزد اور مشہور کئے جاتے ہیں عقلاً، نقلاً و شرعاً حلال ہیں اور یہی صحیح عقیدہ ہے۔ اِس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ باطل ہے۔
2۔ نذر اور ایصالِ ثواب کے باہمی تعلق کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مزید واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ونذر اولیاء کہ برائے قضاء حوائج معمول و مرسوم است۔ اکثر فقہاء بحقیقت آں پے نبردہ اند و آنرا بر نذر خدا قیاس کردہ حکم مردود برآوردہ اند کہ اگر نذر بالاستقلال برائے آں ولی است باطل و اگر برائے خدا است و ذکر ولی برائے بیان مصرف است صحیح است۔ لیکن حقیقت ایں نذر آنست کہ اہداء ثواب اطعام و انفاق و بذل مال بروح میت کہ امریست مسنون و از روئے احادیث صحیحہ ثابت است۔ مثل ما ورد فی الصحيحین من حال اُم سعد و غیرہا دریں نظر مستلزم مے شود۔ پس حاصل ایں نذر آنست کہ آں نسبت مثلاً : اہدا ثواب ہذا القدر الی روح فلان۔ و ذکر ولی برائے تعین عمل منذور است نہ برائے مصرف و مصرف ایں نذر نزد ایشاں متوسلان آں ولی میباشد از اقارب و خدمہ۔ وہم طریقان وامثال ذالک۔ وہمین است مقصود نذر کنندگان بلا شبہ و حکمہ : انہ صحیح یجب الوفاء بہ لانہ قربۃ معتبرۃ فی الشرع۔ آرے اگر آں ولی را حلالِ مشکلات بالاستقلال یا شفیع غالب اعتقاد مے کنند ایں عقیدہ او منجر شرک وفساد مے گردد۔ و لیکن ایں عقیدہ چیز دیگر است و نذر چیزے دیگر۔
’’اولیاء اﷲ و صالحین کے لئے جو نذر عوام میں مشہور و معروف اور معمول بہ ہے اکثر فقہاء اُس کی اصل حقیقت کو نہیں سمجھ سکے اور اُنہوں نے اس کو نذرِ باری تعاليٰ پر قیاس کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ نذر بالاستقلال اُس ولی کے لئے ہو تو باطل ہے اور اگر نذر اللہ تعاليٰ کے لئے ہو اور اللہ تعاليٰ کے ولی کا ذکر برائے مصرف کے ہو تو جائز ہے۔ لیکن اِس نذر کی اصل حقیقت یہ ہے کہ کھانے اور مال خرچ کرنے کے ثواب کا میت کو تحفہ بھیجنا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت اُمِ سعد رضی اللہ عنہ وغیرھا کے حوالے سے حدیث بیان ہوئی ہے، اس نذر میں بھی اِسی ثواب کا پہنچانا مستلزم ہے۔ لہٰذا اِس نذر کا حاصل و خلاصہ یہ ہے کہ اس میں یوں نسبت کرتے ہوئے کہا جاتا ہے : میں اِس مقدار کے ثواب کو فلاں رُوح کو ہدیہ کرتا ہوں۔ اللہ تعاليٰ کے ولی کا ذکر نذر کے عمل کو متعین کرنے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ برائے مصرف، کیونکہ اُس ولی اللہ کے متوسلین کے نزدیک اس نذر کا مصرف اس کے اقارب و خدام وغیرہ ہوتے ہیں۔ لوگ دونوں طریقوں پر ہیں اور اس کی مثالیں موجود ہیں۔ بلاشبہ نذر ماننے والوں کا یہی مقصود ہوتا ہے اور اِس نذر کا حکم یہ ہے کہ یہ نذر صحیح ہے اور اِس نذر کو پورا کرنا واجب ہے کیونکہ یہ شریعت میں معتبر قربت کی حیثیت ہے۔ البتہ اس ولی کے حقیقی مشکل کشا کا اعتقاد کرنا یا شفیع غالب کا اعتقاد کرنا غلط ہے اور یہ عقیدہ شرک و فساد کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن یہ عقیدہ رکھنا اور چیز ہے جبکہ نذر اور چیز ہے۔‘‘
شاه عبد العزيز، فتاويٰ عزيزي، 1 : 121 - 122
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے اِس فتويٰ سے صلحاء و اولیاء کے نام کئے گئے جانوروں کی حرمت کی مندرجہ ذیل وجوہ عیاں ہوئیں :
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ کوئی بھی صحیح العقیدہ شخص بزرگانِ دین کے ایصالِ ثواب کے لئے نذر مانے ہوئے جانوروں کے ذبح میں مذکورہ بالا تینوں نیتوں یا عقیدوں میں سے کسی ایک کا بھی قصد نہیں کرتا بلکہ صرف اور صرف ایصالِ ثواب کی خاطر جانوروں کو انبیاء و اولیاء اور صالحین و مرحومین کے لئے منسوب کیا جاتا ہے۔ حقیقتاً اور عبادۃً نذر اللہ تعاليٰ ہی کی ہوتی ہے مگر اِس کا ثواب اولیاء اللہ کو پہنچایا جاتا ہے۔ اِس صورت میں نذر یوں مانی جاتی ہے۔
’’یا الٰہی اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں نذر مانتا ہوں کہ فلاں جانور تیری رضا کے لئے ذبح کروں گا اور اِس نذر کا ثواب فلاں بزرگ کی رُوح کو پیش کروں گا۔‘‘ ایسی نذر ماننا شرعاً ہر اعتبار سے جائز ہے اور اِس کے جواز میں کسی محدث، فقیہ اور مفسر کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ لفظِ ’’نذر‘‘ کے استعمال کے تین معنی اور تین جہات ہیں :
نذر کے ہر معنی کی نسبت اور جہت بھی جدا ہے اور مصرف بھی جدا ہے لہٰذا اس فرق کو سمجھے بغیر جن علماء نے اس پر فتوی زنی کی ہے انہوں نے ناجائز طور پر خلطِ مبحث میں مسلمانوں کو اُلجھایا ہے اور امت میں انتشارِ فکری کا باعث بنے ہیں۔
نذر کو اولیاء کرام کی طرف ظاہراً اور مجازاً منسوب کرنا جائز ہے، اِس سلسلہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بذاتِ خود نقل کردہ دو واقعات درج ذیل ہیں۔
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد گرامی شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات کے باب میں لکھتے ہیں :
حضرت ایشاں میفرمودند فرہاد بیگ را مشکلے پیش آمد۔ نذر کرد بار خدایا اگر ایں مشکل برآمد ایں قدر مبلغ حضرت ایشاں ہدیہ برم، آن مشکل مندفع شود، وآں نذر از خاطر او رفت۔ بعد چندے اسپ او بیمار شد و نزدیک ہلاک رسید۔ بر سبب ایں امر مشرف شدم بدست یکے از خادمان گفتہ فرستادم کہ ایں بیماری بسبب عدم وفاءِ نذر است۔ اگر اسپ خود مے خواہی نذرے را کہ در فلاں محلہ التزام نمودۂ۔ بفرست وے نادم شد وآں نذر فرستاد، ہماں ساعت اسپ او شفا یافت.
’’شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ فرہاد بیگ کو کوئی مشکل پیش آئی۔ اس نے نذر مانی کہ اے بارِ الٰہ! اگر یہ مشکل حل ہوگئی تو میں اِس قدر ہدیہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حضور پیش کروں گا۔ چنانچہ وہ مشکل حل ہوگئی مگر وہ نذر پوری کرنا بھول گیا۔ اِس کے کچھ عرصہ بعد اُس کا گھوڑا بیمار ہوگیا اور ہلاکت کے قریب آپہنچا۔ میں اِس بیماری اور ہلاکت کے سبب پر آگاہ ہوا تو ایک خادم کے ذریعہ پیغام بھیجا کہ یہ بیماری نذر پوری نہ کرنے کے باعث ہے۔ اگر گھوڑے کی خیریت چاہتے ہو تو فلاں نذر جسے فلاں مقام پر مانا تھا پوری کرو۔ وہ اپنے اِس فعل پر شرمندہ ہوا اور نذر ارسال کی، اُسی وقت اُس کا گھوڑا شفایاب ہوگیا۔‘‘
شاه ولي اﷲ، انفاس العارفين : 53
اِس واقعہ سے یہ امر مترشح ہوا کہ مطلقاً کسی سے نفع و ضرر پہنچنے کا عقیدہ رکھنا یا محبۃً اور تعظیماً کسی کا قرب حاصل کرنے کی آرزو رکھنا شرک نہیں ہے اور نہ ہی مطلقاً تقرب لِغیر اللہ موجبِ شرک ہے۔ ساتھ ہی اس واقعہ سے یہ بھی پتہ چلا کہ اولیاء اور صلحاء کی طرف نذر کو مجازًا منسوب کیا جا سکتا ہے۔
2۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والدِ گرامی حضرت شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :
درقصبہ ڈاسنہ بزیارت مخدوم اﷲ دیا رفتہ بودند، شب ہنگام بود در آں محل فرمودند : مخدوم ضیافت ما میکند چیزے خوردہ دید توقف کردند تا آنکہ اثر مردم من۔ قطع شد، و ملال بر یاراں غالب آمد۔ آنگاہ زنے بیاید طبق برنج و شیرینی بر سر و گفت نذر کردہ بودم کہ اگر زوج من بیاید ہماں ساعت ایں طعام پختہ با نشینندگان درگاہِ مخدوم اللہ دیا رسانم۔ دریں وقت آمد ایفائے نذر کردم۔
’’(میرے والد شاہ عبدالرحیم) قصبہ ڈاسنہ میں مخدوم اللہ دیا کی زیارت کو گئے۔ رات کے وقت اُس مقام پر انہوں نے کہا کہ مخدوم صاحب ہماری دعوت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کچھ کھا کر جانا۔ (پھر حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ بیٹھ گئے) یہاں تک کہ آدمیوں کی آمد و رفت ختم ہوگئی۔ احباب اُکتا گئے۔ اُس وقت ایک عورت اپنے سر پر چاول اور شیرینی کا تھال لئے ہوئے آئی اور کہا کہ میں نے نذر مانی تھی کہ جس وقت میرا شوہر آئے گا مخدوم اللہ دیا کی خانقاہ میں بیٹھنے والوں کو کھانا پہنچاؤں گی، وہ اِسی وقت آیا ہے لہٰذا میں نے اپنی نذر پوری کر دی ہے۔‘‘
شاه ولي اﷲ، انفاس العارفين : 44
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے درج بالا دونوں واقعات نقل کر کے اِس امر کی تصریح کی ہے کہ نذر باوجود اس کے کہ تقرّب الی اﷲ کے لئے ہوتی ہے مگر اسے اولیاء کرام کی طرف ظاہراً اور مجازاً بغیر عبادت کی نیت کئے منسوب کرنا جائز ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا جانور جسے غیراللہ کی نذر کر کے بسم اﷲ اﷲ اکبر کے کلمات پڑھ کر ذبح کیا گیا ہو تو کیا اس کا ذبح کرنا جائز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ذبیحہ ہرگز جائز نہیں ہے۔ آیتِ کریمہ (وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه) میں أُهِلَّ میں ’’رفع الصوت‘‘ کا مفہوم ہے جبکہ لِغَيْرِ اﷲِ میں تقرب لغیراللہ کا مفہوم ہے۔ چونکہ کفار و مشرکین کا اصل مقصود و منشاء کسی جھوٹے معبود کا تقرب ہوتا تھا اس لیے نام اگرچہ اللہ تعاليٰ کا لے لیا مگر جب نیت غیراللہ کے تقرب کی ہوئی تو وہ عمل بھی غیراللہ کے لئے ہوا اور اسی طرح یہ نذر بھی غیراللہ کے لئے ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔ اسی طرح ہر وہ عمل اور صدقہ و خیرات جس میں غیراللہ کے تقرب (بطور عبادت) کی نیت رکھی جائے، ناجائز ہے۔ جس طرح اگر ظاہراً کوئی حرام فعل صادر ہو جائے اور اس میں نیت سو فیصد درست ہو تو اس کا اعتبار نہیں کیوں کہ فی نفسہ وہ عمل بھی حرام ہے، اسی طرح اگر کسی جانور کو ذبح کرتے وقت نیت تقرب لغیراللہ کی تھی مگر اس نے ذبح کرتے وقت بظاہر اللہ تعاليٰ کا نام لے لیا جبکہ اس کی نیت خلافِ توحید اور مشرکانہ تھی تو یہ عمل بھی ناجائز اور حرام ہوا کیونکہ عمل کی بنیاد و اساس نیت پر استوار ہوتی ہے۔ اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّيّاتِ.
’’اعمال کا دار و مدار بس نیتوں پر ہے۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب بدء الوحي، 1 : 2، رقم : 1
ایصالِ ثواب کی نیت سے کسی کی طرف سے جانور ذبح کرنا جائز عمل ہے بشرطیکہ اس میں تقرب لغیر اللہ نہ ہو۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمر بھر کم وبیش ہر سال دو قربانیاں دیں۔ ایک قربانی اپنی اور اپنے اہلِ بیت کی طرف سے اور دوسری قربانی اپنی امت کی طرف سے۔ امت کی طرف سے قربانی کا جانور ذبح کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعاليٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے :
اللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ.
’’اے اللہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )، آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس قربانی کو قبول فرما۔‘‘
ابوداؤد، السنن، کتاب الضحايا، باب ما يستحب من الضحايا، 3 : 94، رقم : 2792
اس حدیثِ مبارکہ میں خود آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملِ مبارک اس بات کا ثبوت مہیا کر رہا ہے کہ محض ایصالِ ثواب کی نیت سے کسی کے نام قربانی منسوب کرنا حرام نہیں۔
ثقہ محدثین و مفسرینِ کرام اور اہلِ لغت کی آرا و تشریحات کی روشنی میں خلاصۃً یہ بات قطعی طور پر بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ فرمانِ باری تعاليٰ ’’وَمَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ‘‘ کا اطلاق ان بتوں (معبودان باطلہ) پر ہوتا ہے جن کی کفار و مشرکین پرستش کرتے اور بوقتِ ذبح اللہ کا نام لینے کی بجائے ان کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے۔ سورۃ البقرۃ اور دیگر سورتوں میں مذکور ان الفاظ کی تفسیر کرتے ہوئے یہی مفہوم رئیس المفسرین حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سمیت تمام مفسرین نے بیان کیا ہے اور کسی ایک محدث و مفسر نے بھی اس سے ایصالِ ثواب کے لئے دیا گیا نذر و نیاز اور دیگر صدقہ وخیرات مراد نہیں لیا۔ لہٰذا جو لوگ ’’وَمَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ‘‘ کی غلط تعبیر کر کے اس کا اطلاق صدقہ و خیرات اور گیارھویں شریف جیسے معمولات پر کرتے ہیں وہ نہ قرآن حکیم کا صحیح فہم رکھتے ہیں اور نہ انہیں سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی ادراک حاصل ہے۔ اولیاء کرام اور بزرگانِ دین کے ایصال ثواب کے لئے کسی جانور کو محض ان کے نام منسوب کرکے اﷲ کے نام پر ذبح کرنا ایک جائز اور مشروع عمل ہے۔
کسی نیک عمل اور صدقہ و خیرات پر مداومت کے لئے انتظاماً کسی ایک تاریخ کا تعيّن سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صدقہ و خیرات تو کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے تاریخ کیوں مقرر کی جائے؟ اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین ہوجانی چاہئے کہ تعین دو طرح کا ہوتا ہے۔
1۔ تعيّنِ شرعی
2۔ تعيّنِ انتظامی
نماز پنجگانہ، حج، زکوٰۃ اور روزہ کی بجاآوری کیلئے شریعت نے خاص اوقات اور ایام کا تعین کر دیا ہے۔ ان ایام اور اوقات سے ہٹ کر اگر کوئی عمل کرے گا تو وہ ہر گز قابل قبول نہ ہوگا لہٰذا یہ تعین شرعی ہے۔
دوسرا تعین ذاتی اور انتظامی ہے۔ اگر بندۂ مومن اپنی ذاتی سہولت کی خاطر عمل میں مداومت، باقاعدگی اور استقامت پیدا کرنے کے لئے نفلی عبادات اور معمولات کے لئے بعض اوقات اور ایام کا تعین کرے تو یہ بھی جائز ہے اور ایسا کرنا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر جمعرات قبرستان میں فاتحہ خوانی کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض نوافل کے لئے رات اور دن مقرر فرمائے تھے تاکہ عمل میں مداومت پیدا ہو۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
إِنَّ أَحَبَّ الْعَمَلِ إِلَي اﷲِ أَدْوَمُهُ وَ إِنْ قَلَّ.
’’بے شک اللہ تعاليٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب عمل وہ ہے جو بلاناغہ کیا جائے خواہ وہ تھوڑا ہی ہو۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب صفة القيامة والجنة والنار، باب لن يدخل
أحد الجنة بعمله
بل برحمة اﷲ، 4 : 2171، رقم : 2818
2. ابوداؤد، السنن، کتاب الصلاة باب ما يؤمر به من القصد في الصلاة، 2 : 48،
رقم : 1368
3. نسائي، السنن، کتاب القبلة، باب المصلي يکون بينه وبين الإمام سترة، 2 :
68، رقم : 762
4. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 125
احادیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ طیبہ سے نفلی اعمال اور عبادات کے لئے وقت کے تقرر کا تصور موجود ہے۔ اس حوالے سے چند ذیلی عنوانات کے تحت احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ
کَانَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَأْتِي مَسْجِدَ قُبَاءٍ کُلَّ سَبْتٍ مَاشِياً وَ رَاکِباً فَيُصَلِّي فِيْهِ رَکْعَتَيْنِ. وَکَانَ عَبْدُاﷲِ بْنُ عُمَرَ يَفْعَلُه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر ہفتہ کے دن مسجد قبا میں تشریف لایا کرتے تھے۔ کبھی پیدل اور کبھی سواری پر اور اس میں دو رکعت نمازادا فرمایا کرتے تھے۔ (راوی بیان کرتے ہیں کہ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجمعة، باب من أتي مسجد قباء کل سبت، 1 : 399، رقم
: 1135
2. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب فضل مسجد قباء و فضل الصلاة فيه و زيارته،
2 : 1017، رقم : 1399
3. حميدي، المسند، 2 : 291، رقم : 658
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسجدِ قباء جا کر دو رکعت ادا کرنا نفلی عبادت کے لئے مکان و زمان، جگہ اور دن کے تعيّن کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ نہ تو قرآن میں مسجدِ قباء جا کر ہفتہ کے دن نفل پڑھنے کا حکم تھا اور نہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے واضح طور پر اس کا حکم دیا گیا تھا لیکن پھر بھی اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مطہرہ سمجھ کر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اوپر اس نیک عمل کے لئے مسجد اور دن کی تخصیص کو برقرار رکھا۔
2۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں :
کَانَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَتَحَرَّي صَوْمَ الْإِثْنَيْنِ وَالْخَمِيْسِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالخصوص پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب الصوم عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، ما جاء في
صوم يوم الإثنين والخميس، 3 : 121، رقم : 745
2. بيهقي، السنن الکبري 2 : 85، رقم : 2497
3. ابو يعلي، المسند، 8 : 122، رقم : 4751
عد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سنت کو زندہ کیا اور اس طرح ایام کے تعین کے ساتھ نفلی روزہ کا معمول برقرار رکھا۔
3۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے موليٰ سے روایت ہے :
أنَّه انْطَلَقَ مَعَ أُسَامَةَ إِلَي وَادِي الْقُريٰ فِيْ طَلَبِ مَالٍ لَه، فَکَانَ يَصُوْمُ يَوْمَ الْاِثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيْسِ. فَقَالَ لَه مَوْلَاهُ : لِمَ تَصُوْمُ يَوْمَ الْاِثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيْسِ وَأَنْتَ شَيْخٌ کَبِيْرٌ؟ فَقَالَ : اِنَّ نَبِيَّ اﷲَِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ يَصُوْمُ يَوْمَ الْاِثْنَيْنِ وَالْخَمِيْسِ، وَسُئِلَ عَنْ ذٰلِکَ، فَقَالَ : اِنَّ أَعْمَالَ الْعِبَادِ تُعْرَضُ يَوْمَ الْاِثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيْسِ.
’’وہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے اونٹ تلاش کرنے وادی القريٰ میں گئے۔ حضرت اسامہ بن زید پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ ان کے موليٰ نے ان سے دریافت کیا : آپ پیر اور جمعرات کو روزہ کیوں رکھتے ہیں حالانکہ آپ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس معمول کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بندوں کے اعمال پیر اور جمعرات کو بارگاہِ الٰہی میں پیش کیے جاتے ہیں۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، کتاب الصوم، باب في صوم الاثنين والخميس، 2 : 325، رقم :
4636
2. نسائي، السنن الکبري، 2 : 147، رقم : 2781
3. دارمي، السنن، 2 : 32، رقم : 1750
4. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 200
بغور کریں یہ کوئی شرعی تعین نہیں بلکہ کسی عملِ خیر پر مداومت کے لئے ایک ذاتی تعین ہے اور شریعت نے اسے منع بھی نہیں کیا۔
4۔ حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيّامِکُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَ فِيْهِ قُبِضَ، وَ فِيْهِ النَّفْخَةُ، وَ فِيْهِ الصَّعْقَةُ، فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، قَالَ : قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَکَيْفَ تُعْرَضُ صَلَا تُنَا عَلَيْکَ وَ قَدْ أَرِمْتَ؟ يَقُوْلُوْنَ : بَلِيْتَ. قَالَ : إِنَّ اﷲَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ عَلَي الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ.
’’بیشک تمہارے بہترین دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہوگی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد کیسے آپ کو پیش کیا جائے گا؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسدِ مبارک تہِ خاک ہو گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کرام کے جسموں کو کھانا حرام کر دیا ہے۔‘‘
1. أبوداؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب فضل يوم الجمعة و ليلة الجمعة، 1 : 275،
رقم : 1047
2. نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله
وسلم يوم الجمعة، 2 : 91، رقم : 1374
3. ابن ماجة، السنن، کتاب إقامة الصلاة، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085
5۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أَکْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ يَوْمٌ مَشْهُوْدٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِکَةُ، وَ إِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّي يَفْرُغَ مِنْهَا. قَالَ : قُلْتُ : وَ بَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ : وَ بَعْدَ الْمَوْتِ. إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَي الْأَرْضِ أَنْ تَأکُلَ أَجْسَادَ الأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اﷲِ حَيٌّ يُرْزَقُ.
’’ جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ یہ یومِ مشہود ہے اس دن ملائکہ حاضر ہوتے ہیں اور جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے درود سے فارغ ہونے سے پہلے ہی اس کا درود مجھے پیش کر دیا جاتا ہے۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! موت کے بعد بھی؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں موت کے بعد بھی، بیشک اللہ تعاليٰ نے انبیاء کے مبارک جسموں کا کھانا زمین پر حرام کر دیا ہے۔ پس اللہ کا نبی (قبر میں بھی) زندہ ہوتا ہے اور (قبر میں ہی) اسے رزق دیا جاتا ہے۔‘‘
ابن ماجة، السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته و دفنه صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 524، رقم : 1637
6۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
أَنَّ النَّبِيّ صلي الله عليه وآله وسلم خَرَجَ يَوْمَ الْخَمِيْسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ وَکَانَ يُحِبُّ أنْ يَخْرُجَ يَوْمَ الْخَمِيْسِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعرات کے دن غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعرات کے دن سفر پر نکلنا پسند فرماتے تھے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب. . . ومن أحب الخروج
يوم الخميس،
3 : 1078، رقم : 2790
2. ابن حبان، الصحيح، 8 : 156، رقم : 3370
3. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 170، رقم : 9270
7۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے وعظ و نصیحت کے لئے جمعرات کا دن مخصوص کر رکھا تھا جیسا کہ اس روایت میں بیان ہوا ہے :
عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ : کَانَ عَبْدُاﷲِ يُذَکِّرُ النَّاسَ فِي کُلِّ خَمِيْسٍ.
’’حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب العلم، من جعل لأهل العلم أيامًا معلومة، 1 : 39،
رقم : 70
2. ابن حبان، 10 : 382، رقم : 4524
ان احادیثِ مبارکہ سے یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اعمالِ صالحہ اور نفلی عبادات کے لئے جگہ اور دن کا تعيّن کرنا عام معمول تھا۔ اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ کوئی خاص دن متعین کرکے ایصالِ ثواب اور گیارھویں شریف کی محافل کرنا شریعت کے عین مطابق ہے اور جائز امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ اسلام کا قرونِ اوليٰ سے لے کر آج تک یہ معمول رہا ہے کہ وہ اپنے فوت شدہ اعزہ و اقارب کے لئے صدقہ و خیرات اور دیگر اعمالِ صالحہ کی صورت میں ایصالِ ثواب کرتے رہے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved