حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے انسانیت کے لئے ہدایت کا آخری سرچشمہ بنا کر بھیجا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اور بعثت ایک نئے دور کا آغاز اور تاریخ کی ایک نئی جہت کا تعین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہم تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے اور بعد کے زمانوں کا تقابل کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد انسانیت کلیتاً ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ ایک ایسا دور جس میں شعور، آگہی، تہذیب، کلچر اور اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ، قیام اور استحکام کے وہ نظائر ملتے ہیں جن کا نہ صرف آپ کی آمد سے قبل وجود نہ تھا بلکہ اُن کا تصور بھی مفقود تھا۔ یہ سب ختمِ نبوت کا وہ ازلی اور ابدی فیضان تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کے ذریعے عالم انسانیت میں جاری و ساری ہوا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے رہنمائی اور اخذ فیض کے جو مناہج بطور امت ہمیں اپنانے چاہیے تھے وہ اپنائے نہ جا سکے۔ ملتِ اسلامیہ جب ایک ہزار سال تک دُنیا بھر میں مقتدر رہنے کے بعد زوال کا شکار ہونا شروع ہوئی تو جہاں زندگی کے دیگر شعبے زوال اور پستی کاشکار ہوئے وہاں دین کے مختلف شعبوں خصوصاً سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہمارے تعلق اور فہم کے حوالے سے بھی زوال کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ سیرت کے ساتھ تعلق کے باب میں زوال کے اثرات پچھلی دو تین صدیوں میں سامنے آئے۔ ان میں نمایاں ترین پہلو اُمت مسلمہ کا قلبی اور عملی طور پر سیرت سے ہٹ جانا اور فکری سطح پر سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی فہم سے عاری ہونا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف ملتِ اسلامیہ کی اپنی انفرادی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں سیرت کا فیضان کما حقہ جاری نہ رہا بلکہ عالمی سطح پر اُمت اجابت تک بھی سیرت اور اِسلام کا پیغام کما حقہ نہ پہنچایا جا سکا۔
اِسلام کی تعلیمات اور سیرت کے ساتھ عملی اور زندہ تعلق کے کٹ جانے سے ملتِ اِسلامیہ کی ہئیت اجتماعی پر درج ذیل اثرات مرتب ہوئے :
ان تمام خرابیوں کے ازالے کی جدوجہد سے قبل لازم ہے کہ ان خرابیوں کے پیدا ہونے کی بنیاد اوراسباب کا کھوج لگایا جائے۔ ملتِ اسلامیہ کے سیرت سے تعلق کے حوالے سے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مذکورہ بالا خرابیوں کے بنیادی اسباب یہ ہیں :
آج عالم اسلام سیرت سے تعلق کے باب میں جن چیلنجز سے دو چار ہے وہ درج ذیل نوعیت کے ہیں :
اب ان کی تفصیل بیان کی جاتی ہے :
جب ملت اسلامیہ عالمگیر سطح پر زوال کاشکار ہوئی تو اغیار نے نہ صرف اس کے سیاسی، معاشرتی اورمعاشی وجود کو مشق ستم کا نشانہ بنایا بلکہ اسلام کے فکری نظام کو بھی کئی التباسات اور مغالطوں سے دوچار کر دیا۔ اسلام دشمن مفکرین اور مصنفین کی مسلسل کوششوں سے جہاں مسلم ذہن اپنے مستقبل کے مستقلاً مخدوش رہنے کاقائل ہوگیا وہاں دین کی مبادیات خصوصاً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ سے تعلق کے حوالے سے بھی کئی غلط فہمیوں کا شکار ہو گیا۔
اسلام کی بنیادی فکر میں یہ اختلال پیدا کرنے کے باوجود استعماری قوتیں اس پر مطمئن نہ ہوئیں۔ وہ اس تبدیلی کے نتائج و مضمرات کو ہمیشہ کے لیے ملت اسلامیہ میں باقی رکھنے کی ترکیب سوچنے لگیں کہ اگر اسلام کے دامن میں کوئی ایسی انقلاب انگیز قوت موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے مسلم قوم مذکورہ بالا تمام تر خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود کسی وقت بھی اپنی عظمت رفتہ کے حصول کے لئے تن من دھن کی بازی لگا سکتی ہے تو اس قوت کا سراغ لگا کر اسی کے خاتمے کا مؤثر اہتمام کیا جائے۔ تاکہ عالم اسلام اس ذلت و پستی کی حالت سے کبھی نجات نہ پا سکے کیونکہ اسی میں تمام طاغوتی اور مادی قوتوں کی عافیت تھی۔ اسلام کی وہ عظیم ایمانی اور انقلابی قوت جس سے عالمِ کفر لرزہ براندام تھا، حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق ہے۔ یہی عشق تاریخ اسلام میں کبھی نسبت توحید کے افق پر چمکتا دکھائی دیتا ہے اور کبھی نسبت رسالت کے افق پر۔ رندانِ مئے توحید اور اسیرانِ عشقِ رسالت کے انہی قافلوں کے سفر سے اسلام کی روحانی تاریخ عبارت ہے اور اسی سے مسلمانوں کی مذہبی اور روحانی زندگی روز اوّل سے آج تک وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تاریخ میں بارہا سیاسی تغیرات کے باوجود ملت اسلامیہ کا مذہبی اور روحانی نظام زوال پذیر نہ ہو سکا بلکہ اس کے ارتقاء کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ کیونکہ صوفیائے اسلام کی پیہم تبلیغی مساعی نے ہر دور میں مسلمانوں کے دلوں میں عشق الٰہی اور عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ شمع فروزاں رکھی جس میں ہماری ملّی حیات کی بقا کی ضمانت موجود تھی۔
مشہور مغربی مؤرّخ پروفیسر ہٹی (Philip K. Hitt) بیان کرتے ہیں :
In the darkest hour of political Islam religious Islam has been able to achieve some of its most brilliant victories.
Philip K. Hitti, History of the Arabs, p. 475.
’’اکثر ایسا ہوا کہ سیاسی اسلام کے تاریک ترین لمحات میں بھی مذہبی اسلام نے کئی شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔‘‘
اِنہی اَسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے انگلستان کے ایک مشہور ذی علم مستشرق پروفیسر ہیملٹن گب (Hamilton A . R. Gibb) نے بیان کیا ہے :
The mystics, whether as individual missionaries or (later on) as members of organized brotherhoods, were the leaders in the task of conversion among the pagans and the superficially Islamized tribes. The most successful missions were often those of co-nationals of the tribesmen, uncouth, illiterate, and crude though many of them were. They laid the foundations upon which in later generations the refining influences of orthodox law and theology could be brought to bear. It was mainly due to them that through successive centuries the religious frontiers of Islam were steadily extended in Africa, in India and Indonesia, across Central Asia into Turkestan and China, and in parts of South-eastern Europe.
Hamilton A. R. Gibb, Mohammedanism : An Historical Survey, p. 10.
’’صوفیاء اپنی انفرادی تبلیغی حیثیت اوربعد میں اجتماعی سلسلوں کے منظم رکن کے طور پر بھی غیر مسلموں میں اسلام کے فروغ اور سطحی طور پر اسلام قبول کرنے والے قبیلوں میں اسلام کو پختہ کرنے والی سرگرمیوں کے رہنما تھے۔ صوفیاء کی کامیاب ترین کوششیں وہ تھیں جو انہوں نے گنوار ان پڑھ اور بد اخلاق قبائلی لوگوں کو سنوارنے کے لئے کیں۔ انہوں نے وہ بنیادیں استوار کیں جن پر بعد میں آنے والی نسلوں نے اسلام کے بنیادی قانون اور دینیاتی تصورات کو مؤثر طور پر نافذ کیا۔ یہ صوفیاء ہی تھے جن کی وجہ سے آنے والی صدیوں میں اسلام کی مذہبی سرحدیں رفتہ رفتہ افریقہ، ہندوستان، انڈونیشیا، وسطی ایشیاء سے ترکستان، چین اور جنوبی مشرقی یورپ کے کئی حصوں تک پھیل گئیں۔‘‘
ہیملٹن گب (Hamilton A. R. Gibb) مزید لکھتے ہیں :
But while the conflict to maintain the Muslim ideals preserved the spiritual and intellectual life of Islam from stagnation, the legists were fighting on the whole a losing battle. The fault lay partly in themselves, that the more scrupulous were loth to hold any religious office under the Sultans and, in rejecting public service, left the field to their more time-serving and less scrupulous brethren. While the purity of their motives may be respected, their withdrawal weakened their power to combat effectively the vices which were taking firm root amongst the governing classes in every province of the Muslim world. The middle classes in general, on the other hand, accepted-if they did not always live up to-the Islamic ideal, and as time went on both they and the theologian-legists were more and more permeated by Sufi influences. Thus one may say, with some little exaggeration, that in the Muslim world, concealed by common outward profession of Islam, there were two distinct societies living side by side and interacting to some extent but in their basic principles opposed to one another.
Hamilton A. R. Gibb, Mohammedanism : An Historical Survey, p. 11.
’’جب مسلمانوں کے آئیڈیل کے تحفظ کی جنگ میں صوفیاء اسلام کی روحانی اور فکری زندگی کو جمود سے بچا رہے تھے فقہاء مکمل طور پر ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے تھے۔ نقص ان کے اندر ہی تھا کہ اعلیٰ کردار کے علماء نے جب سلطان کے ماتحت مذہبی ذمہ داریاں ترک کرکے پبلک سروس کو چھوڑ دیا تو اس طرح کم کردار اور کم اہلیت کے لوگوں کے لئے میدان خالی ہوگیا۔ اگرچہ ان کی نیت کے اخلاص کا احترام کیا جانا چاہئے لیکن اس قطع تعلق سے ان کی وہ طاقت کمزور پڑ گئی جس سے وہ مسلم دنیا کے حصوں میں حکمران طبقہ میں جڑ پکڑنے والی برائیوں کے خلاف مؤثر طور پر لڑ سکتے تھے۔ درمیانی طبقہ نے بالعموم اسلامی آئیڈیل کے مطابق زندگی گزارنا قبول کر لیا گو اس پر انہیں مسلسل استقامت نہ تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا عوام اور علماء میں صوفیاء کے اثرات نفوذ کرتے گئے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں گو یہ قدرے مبالغے کی بات ہے کہ مسلم دنیا میں قبول اسلام کے نقاب کے نیچے پہلو بہ پہلو دو مختلف معاشرے رہ رہے تھے جن کا آپس میں کچھ نہ کچھ تعامل بھی تھا مگر بنیادی اصولوں میں وہ ایک دوسرے کے بالکل متضاد تھے۔‘‘
The expansion of the Ottoman Empire in Asia and North Africa and the establishment of the Mughal Empire in India in the sixteenth century brought the greater part of the Muslim world once more under the government of powerful and highly centralized civil States. A marked feature of both Empires was the strong emphasis laid on Muslim orthodoxy and the Sacred Law; Church and State were not indeed unified, since the military and higher civil polity was constructed on independent non-Islamic lines, but buttressed one another by a sort of concordat that endured into the nineteenth century.)
Hamilton A. R. Gibb, Mohammedanism : An Historical Survey, p. 12.
’’ایشیاء اور شمالی افریقہ میں عثمانی سلطنت کی وسعت اور سولہویں صدی میں ہندوستان میں مغل سلطنت کے قیام سے مسلم دنیا کا بڑا حصہ بہت ہی طاقت ور اور مرکزی نظام رکھنے والی ریاستوں کے ماتحت آگیا۔ ان دونوں سلطنتوں کی ایک نمایاں خصوصیت ان کا مسلم روایت اور مقدس قانون پر زور تھا۔ اگرچہ چرچ اور ریاست باہم واحد نہیں تھے کیونکہ فوجی اور بالائی سول طبقہ کلیتاً غیر اسلامی خطوط پر تشکیل شدہ تھا۔ لیکن انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ایسی رضا مندی پیدا کر لی جو انیسویں صدی (1900ء) تک جاری رہی۔‘‘
Yet of the two channels of Muslim religious life the mystical was the broader and deeper. The seventeenth and early eighteenth centuries saw the apogee of the Sufi brotherhoods. The greater orders spread a network of congregations from end to end of the Islamic world, while smaller local orders and sub-orders grouped the members of different classes and occupations into compact communities. Apart from this, Islamic culture in both Empires lived on the heritage of the past, preserving, but scarcely adding to, its intellectual patrimony. The primary task to which its representatives felt themselves called was not to expand, but rather to conserve, to unify, and to stabilize social life on Muslim standards. Within these limits, the measure of unity which they achieved and the social stability which they maintained was indeed remarkable.
(1) Hamilton A. R. Gibb, Mohammedanism : An Historical Survey, p. 12.
’’مسلمانوں کے مذہبی زندگی کے دونوں دھاروں سے ان کی زندگی کا صوفیانہ پہلو زیادہ وسیع اور گہرا تھا۔ سترہویں اور ابتدائی اٹھارہویں صدی نے صوفیاء کے سلسلوں کے وسیع حلقوں کا نظارہ کیا اسلامی دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک صوفیاء کے سلسلے کا جال پھیل گیا۔ جبکہ چھوٹے اور مقامی ذیلی سلسلوں نے اسلامی معاشرے میں مختلف طبقات اور پیشوں کو آپس میں منسلک کر دیا۔ اس سے الگ دونوں سلطنتوں میں جواسلامی کلچر اپنے ماضی کے ورثہ پر ہی کھڑا تھا، اس نے اسے محفوظ کر دیا مگر اس کے فکری سرمائے میں کچھ اضافہ مشکل ہی کیا۔ اسلامی کلچر کے نمائندوں نے خود جو بنیادی فرض محسوس کیا وہ اس کی توسیع پذیری نہ تھا بلکہ اس کا تحفظ، وحدت اور مسلم معیارات کے مطابق سماجی زندگی کا استحکام تھا۔ ان حدود کے اندر انہوں نے وحدت اور سماجی استحکام کا جو درجہ حاصل کیا بلاشبہ بہت ہی قابل تعریف تھا۔‘‘
یہ حقیقت کہ صوفیاء کی تعلیم اور ان کا فکر عشقِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر لبریز ہے کسی بھی اہل علم سے مخفی نہیں۔ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لبریز اسی فکر کی نشاندہی کرتے ہوئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ہر کہ عشقِ مصطفیٰ سامانِ اوست
بحر و بر دَر گوشۂ دامانِ اوست
(محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عشق جس نے اپنا سامان (زادِ راہ) بنا لیا، یہ بحری و برّی کائنات اس کے زیرنگیں آگئی۔)
اِقبال، پيامِ مشرق : 190 / 20، پيش کش
ایک اور مقام پر بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح عرض پرداز ہیں کہ عشق و مستی کے ہزاروں قلزم ایک شعر میں محصور نظر آتے ہیں :
ذِکر و فکر و علم و عرفانم توئی
کشتی و دریا و طوفانم توئی
اِقبال، کلیات (مثنوی پس چہ باید کرد اے اَقوامِ مشرق) : 846 / 50، دَر حضور رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
(حضور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ذِکر و فکر اور علم و معرفتِ اِلٰہی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ دریا اور اس کی طوفانی موجیں، بھی آپ ہیں اور ساحلِ مراد تک پہنچانے والی کشتی بھی آپ ہیں۔)
اِسی حقیقت کو اُردو میں علامہ نے اِس طرح دہرایا ہے :
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اَوّل، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ
اِقبال، کلیات (بالِ جبریل) : 572، غزلیات (حصہ دُوُم)
ایک اور مقام پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ عشقِ رِسالت کا درس کیف و مستی کی عجیب کیفیت میں ڈوب کر دیتے ہیں :
معنیء حرفم کنی تحقیق اگر
بنگری بادیدۂ صدیق اگر
قوت قلب و جگر گردد نبی
از خدا محبوب تر گردد نبی
اِقبال، کلیات (اَسرار و رُموز) : 101 / 101، رُکن دُوُم : رِسالت
(میرے اشعار کے معنی و مفہوم کو اگر تو تحقیق کی نظر سے دیکھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی آنکھ چاہیے۔ اگر یہ میسر آ جائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے دِل و جگر کو تقویت یعنی حوصلہ ملتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا سے زیادہ محبوب ہو جاتے ہیں۔)
ایک اور مقام پر علامہ نے کہا :
خاکِ یثرب اَز دو عالم خوشتر است
اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است
(یثرب یعنی مدینہ منورہ کی سر زمیں دُنیا جہان کے ہر مقام سے زیادہ اچھی ہے اور وہ شہر کیوں نہ اچھا ہو جہاں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسکن ہے۔)
اِقبال، کلیات (اَسرار و رُموز) : 21 / 21، دَر بیانِ ایں کہ خودی اَز عشق و محبت اِستحکام می پذیرد
نسخۂ کونین را دیباجہ اوست
جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست
(حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتابِ کونین کا دیباچہ یعنی حرفِ آغاز ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات کے آقا اور باقی سب غلام ہیں۔)
اِقبال، کلیات (اَسرار و رُموز) : 21 / 21، دَر بیانِ ایں کہ خودی اَز عشق و محبت اِستحکام می پذیرد
علامہ کی دربارِ رِسالت میں درج ذیل اِلتجا بھی اِسی سبق کی آئینہ دار ہے :
مسلماں آں فقیرِ کج کلاہے
رمید از سینۂ اُو سوزِ آہے
دلش نالد! چرا نالد؟ نداند
نگاہے یا رسول اﷲ نگاہے!
(مسلمان وہ کجکلاہ فقیر ہے جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا مگر اس کے سینے سے آہِ سوزناک نکل گئی ہے۔ اس کا دِل فرطِ اضطراب سے نالہ کناں ہے اور وہ یہ نہیں جانتا کہ وہ (دل) کیوں رو رہا ہے۔)
اِقبال، کلیات (اَرمغانِ حجاز) : 912 / 30، حضورِ رِسالت
نہ صرف یہ کہ علامہ نے اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ و السلام کو ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عشق کا پیغام دیا بلکہ اسی عشق رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملت اسلامیہ کی بقا و دوام کا راز بھی قرار دیا اور یہی وہ انقلاب انگیز قوت تھی جس سے سامراجی و طاغوتی طاقتیں خائف تھیں۔ آپ فرماتے ہیں :
لَانَبِیّ بَعْدِی ز اِحسانِ خدا است
پردۂ ناموسِ دینِ مصطفیٰ است
قوم را سرمایۂ قوت ازو
حفظِ سرِّ وحدتِ ملّت ازو
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کا نہ آنا اﷲ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت ہماری عزت و ناموس کی محافظ ہے۔ اس قوت سے قوم مسلم کی شیرازہ بندی ہوتی ہے اور یہی ملی اتحاد و یکجہتی کا راز ہے۔)
اِقبال، کلیات (اَسرار و رُموز) : 102 / 102، رُکنِ دُوُم : رِسالت
علامہ اُمتِ مسلمہ کو چراغِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پروانہ قرار دیتے ہوئے دیگر مقامات پر کہتے ہیں :
از رسالت ہم نوا گشتیم ما
ہم نفس ہم مدعا گشتیم ما
تانہ ایں وحدت زدستِ ما رود
ھستیء ما با ابد ہمدم شود
(رسالتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان سے ہم ایک دوسرے کے ہم نوا (ہم آواز) بن گئے اور ہمارا مقصودِ حیات ایک ہی ہو گیا ہے۔)
اِقبال، کلیات (اَسرار و رُموز) : 102 / 102، رُکنِ دُوُم : رِسالت
اُمتے از ما سوا بیگانۂ
بر چراغِ مصطفیٰ (ص) پروانۂ
(اُمت مسلمہ غیر اﷲ سے کوئی سروکار نہیں رکھتی اور چراغِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پروانہ وار فدا ہونے کا جذبہ رکھتی ہے۔)
اِقبال، کلیات (اَسرار و رُموز) : 104 / 104
تا شعار
مصطفیٰ از دست رفت
قوم را رمزِ بقا از دست رفت
(جب سے یہ اُمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ کا دامن ہاتھ سے چھوڑ گئی ہے وہ اس بات سے بھی غافل ہے کہ قومی بقاء و سلامتی کا راز کیا ہے۔)
اِقبال، کلیات (اَسرار و رُموز) : 128 / 128، دَر معنیء ایں کہ پختگیء سیرتِ ملّیہ اَز اِتباعِ آئینِ اِلٰہیہ اَست
زوال اسلام کے اس دور میں جب اقبال رحمۃ اللہ علیہ ملت اسلامیہ کے عروق مردہ میں عشق مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کے ذریعے نئی روح پھونک کر اسے تباہی و ہلاکت سے بچانے کی فکر میں تھے، اسلام دشمن استعماری طاقتیں منظم ہو کر مسلمانوں کے دلوں سے اسی عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبے کو نکالنے کی علمی، فکری اور عملی تدبیریں کر رہی تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر مسلمانوں کے دل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبہ عشق و محبت سے خالی ہو گئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلا سکتی ہے نہ اِصلاح و تجدید کی تحریکیں انہیں اپنی منزلِ مراد تک پہنچا سکتی ہیں۔ یہ محض ایک مفروضہ یا خیال خام نہیں بلکہ ایک روشن حقیقت ہے۔ مغربی استعمار کی اسی سازش کی طرف علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ فرماتے ہوئے کہا تھا :
وہ فاقہ کش کہ
موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
اِقبال، کلیات (ضربِِ کلیم) : 1031، ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام
چنانچہ اسی مقصد کے تحت مغربی سامراج نے ایک طرف مسلمانوں کے اندر ایسے فرقہ وارانہ علمی مباحث کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی شروع کی جن کا ہدف زیادہ تر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و ادب اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کا اِنکار تھا تاکہ امت میں اہانت رسالت اور گستاخی نبوت کا فتنہ پیدا ہو۔ دوسری طرف یہ فکری میدان اسلامی تحقیق کے نام پر متعصب یہودی اور عیسائی مستشرقین کے سپرد کر دیا گیا جنہوں نے اسلام کی تعلیمات اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور سیرت پر اس انداز سے کتب تصنیف کیں کہ اگر ایک خالی الذہن سادہ مسلمان ان تصانیف کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کا ذہن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور تعلیمات کے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان کتابوں کے باقاعدہ مطالعہ سے جو ذہن تشکیل پاتا ہے اسے عشق و ادب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصور سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہتا۔ اس طرح مسلمانوں کے ذہنوں کو ہر دو طرح مسموم کرنے کا کام آج تک ہو رہا ہے۔
ہماری بدقسمتی کہ بعض مسلم مفکرین کے ہاتھوں بھی نادانستہ یہی کام سرانجام پانے لگا۔ وہ اس طرح کہ جب دورِ جدید میں مسائلِ حیات بدلے اور نئے نئے تقاضوں نے جنم لیا تو کئی مسلم مفکرین نے اسلام کی تعلیمات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کو اس انداز سے پیش کرنا شروع کیا کہ عصر حاضر کے چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ہر چند کہ یہ علمی کوششیں نہ صرف درست تھیں بلکہ تقاضائے وقت کے پیش نظر ضروری تھیں، ان مفکرین کے سامنے مسلمانوں کو درپیش مسئلے کا محض ایک رخ رہا، دوسرا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس شخصیت کے دو پہلو ہیں جو اپنی اپنی جگہ علیحدہ اور مستقل بھی ہیں اور باہم لازم و ملزوم بھی۔ ان میں سے کسی ایک پہلو کو بھی نظرانداز کرنا اسلام کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اسلام ایسے اعمال و اقدار کاحامل ہے جو زندگی کو ظاہراً و باطناً ایک مثبت تبدیلی سے آشنا کرتے ہیں۔ اسلام کے یہی اعمال و اقدار ماضی میں مسلمانوں کی مادّی و تعدادی کمزوریوں کے باوجود ان کے غلبہ و تمکنت کا باعث رہے ہیں۔ یہ اعمال و اقدار مسلمانوں کی ہیئت اجتماعی میں تب ہی موثر ہو سکتے ہیں جب انہیں ذات رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حقیقی اور کلی تعلق میسر ہو۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت انسانی شخصیت کے تمام اوصاف و کمالات کی جامع ہے۔ اس کے مطالعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کی ایسی جامع تصویر سامنے آتی ہے کہ انسان کامل اور اسوہ حسنہ کا صحیح نقشہ ذہن پر مرتسم ہو جاتا ہے۔ اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ اَخلاق، حسنِ معیشت، شجاعت و بسالت، صبر و تحمل، صداقت و امانت، تدبر و بصیرت، عدالت و فقاہت، جود و سخا اور رحمت و مودت جیسے عظیم خصائل و اَوصاف کا علم حاصل ہوتا ہے اور ہر قاری حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کو عظیم مصلح و رہنماء، عظیم مدبر و منتظم، عادل قاضی و منصف، بے نظیر مقنن، مثالی قائد و سپہ سالار، دیانت دار تاجر، مثالی شہری، مثالی خاوند اور سربراہ خاندان، کامیاب سربراہِ ریاست اور اسی طرح ایک عظیم انسان کے روپ میں دیکھنے لگتا ہے۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پہلو کی اہمیت و افادیت تبھی موثر ہے جب اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے دوسرے پہلوؤں کے ساتھ دیکھا جائے۔ لیکن بعض مسلم مفکرین و مصنّفین نے رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و شمائل کے بیان کو صرف اسی عملی پہلو تک محصور کر دیا اور وہ روحانی پہلو جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلند و بالا کمالات اور معجزانہ خصائص و امتیازات پر مشتمل تھا، اُسے یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا گیا کہ جدید تعلیم یافتہ نسل کا ان مسائل سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو محض صوفیاء و عرفاء کے لئے ہیں یا فقط عقیدت مندی کی باتیں ہیں جو نئے دور کی ضرورت نہیں۔
مزید برآں فضائل سیرت کے ظاہری پہلوؤں کا بیان بھی عقیدت و محبت کی چاشنی اور تعظیم و تکریم کے رنگ سے اس بنا پر عاری رکھا گیا کہ یہ جدید آداب تحقیق کے منافی ہے، لہٰذا اس غلو سے اپنی تحریروں کو مبرا ہی رکھنا چاہئے۔ نتیجتاً وہ قلبی عقیدت اور والہانہ محبت جو رفتہ رفتہ عشق میں بدل جایا کرتی ہے اس نسل کے دلوں سے ناپید ہوتی گئی اور بقول اقبال تعلیم یافتہ نوجوان نسل اس نوبت کو جا پہنچی ہے :
بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
اِقبال، کلیات (بالِ جبریل) : 745، ساقی نامہ
سیرت کے عملی پہلوؤں کے بیان سے فکری و نظری دلائل کی صورت میں عقل پرست طبقے کے اعتراضات کا جواب بھی دیا جاسکتا ہے، اس کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات کو بیشک نئے حالات میں قابل عمل اور نتیجہ خیز بھی ثابت کیا جاسکتا ہے مگر مسلمانوں کے دلوں میں حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت کا چراغ روشن نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے سینوں میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیوانہ وار الفت و عقیدت کا وہ طوفان بپا نہیں کیا جاسکتا جس کی قوت سے وہ کفر و طاغوت کے خلاف ٹکرا جائیں اور ناموس دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اس طرح جانوں کے نذرانے پیش کر دیں کہ۔ ۔ ۔ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ (کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں) (1) ۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ لاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ (کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے) (2) ۔ ۔ ۔ کے ایمان پرور نظارے دنیا کے سامنے آجائیں۔
(1) القرآن، الفتح، 48 : 29
(2) القرآن، المائده، 5 : 54
جب غیر مسلم مفکرین نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے محض ظاہری پہلوؤں کو منفی انداز میں پیش کیا تو مسلم مفکرین نے بھی انہیں ظاہری پہلوؤں کو جواباً مثبت انداز میں پیش کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی فضائل و کمالات کے بیان کو جدید دور میں غیر ضروری سمجھتے ہوئے ترک کر دیا تو خود مسلمانوں میں ہی دو طرح کے ذہن پیدا ہو گئے :
1۔ مغربیت زدہ سیکولر ذہن
2۔ مادیت زدہ مذہبی ذہن
مغربیت زدہ سیکولر ذہن جو فکری تشتت اور نظریاتی تشکیک میں مبتلاء ہو کر خود کو روشن خیال مسلمان تصور کر رہا تھا، مستشرقین کے زہریلے پراپیگنڈے کے باعث نہ صرف عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولت سے عاری اور اسلام کے روحانی تصورات سے نابلد ہو گیا بلکہ اسلام کی ابدی صداقت و عملیت اور عظمتِ رِسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اور عقیدت میں بھی متزلزل ہو گیا۔ دوسری طرف مادیت زدہ مذہبی ذہن جو مستشرقین کے پراپیگنڈے کے اثر سے کسی نہ کسی طور بچ گیا تھا وہ جدید اسلامی لٹریچر کے نتیجے میں اسلام اور بانیء اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعتقادی، فکری اور عملی طور پر وابستہ تو رہا لیکن عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیدہ کو فرسودہ، غیر ضروری اور جاہلانہ و شخصیت پرستی کے مترادف تصور کرنے لگا۔ بلکہ وہ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ عظمتِ رِسالت کے درمیان خطرناک تضادات اور اِلتباسات کا شکار ہو گیا۔ اُس کی نگاہ میں مقامِ نبوت غیر اِرادی اور لاشعوری طور پر کم سے کم تر ہوتا چلا گیا اور وہ اس نشے میں مبتلا رہا کہ اس کی توحید نکھر رہی ہے اور وہ شرک سے پاک ہو کر پختہ موَحد بن رہا ہے۔ اس طرح دونوں طبقات بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولتِ لازوال سے تہی دامن ہو کر ایمانی حلاوت اور روحانی کیفیات سے محروم ہو گئے اور یوں ہماری اعتقادی و فکری زندگی تباہی و ہلاکت کا شکار ہو گئی۔
اِس دور میں اِحیائے اسلام اور ملت کی نشاۃِ ثانیہ کی جس قدر علمی و فکری تحریکیں منصہ شہود پر آئی ہیں ان کی تعلیمات سے جو تصور مسلمانوں کی نوجوان نسل کے ذہنوں میں پیدا ہو رہا ہے وہ یہی ہے کہ اسلام کو بحیثیت نظام حیات قبول کر لینا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی کمالِ اِیمان اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے؛ اور اس اِتباع کے علاوہ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات سے خاص قسم کا قلبی، عشقی اور جذباتی لگاؤ مقصودِ ایمان ہے نہ تعلیمِ اسلام، بلکہ یہ جاہلانہ شخصیت پرستی کی ایک صورت ہے جو توحید خالص کے منافی ہے۔
اِس نام نہاد روشن خیالی سے ہماری حیاتِ ملّی پر جو مضر اَثرات مرتب ہوئے وہ محتاج بیان نہیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصل تصور کو اس طرح اُجاگر کیا جائے کہ آج کی نوجوان نسل جو تلاشِ حقیقت میں سرگرداں ہے اس آفاقی حقیقت سے باخبر ہو کر پھر سے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ حبی تعلق استوار کر لے کہ اس کی نظروں کو دانشِ فرنگ کے جلوے کبھی خیرہ نہ کرسکیں۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
اِقبال، کلیات (بالِ جبریل) : 599، غزلیات (حصہ دُوُم)
اور اُنہیں دینِ حق کی اس کامل تعبیر کی صحیح معرفت نصیب ہو جسے اِقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اِس شعری قالب میں ڈھال دیا ہے :
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نرسیدی، تمام بولہبی است
(دین سارے کا سار درِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رسائی کا نام ہے۔ اگر اس در تک ہم نہ پہنچ سکے تو ایمان رُخصت ہو جاتا ہے اور بولہبی باقی رہ جاتی ہے۔)
اِقبال، کلیات (اَرمغانِ حجاز) : 1140، حسین اَحمد
اَندریں حالات عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَہمیت کو قرآن و حدیث اور سیرت کی روشنی میں اَزسرِ نو نمایاں کرنا اَشد ضروری بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ عصر حاضر کے فکری بگاڑ اور عظمت و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ناآشنائی کے سبب پیدا ہونے والے روحانی زوال کا ممکنہ حد تک اِزالہ کیا جاسکے۔ ہماری نظر میں ایک طرف حضور سیّد دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ محبوبانہ عظمت و شان ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بارگاہ خداوندی میں حاصل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی شوکت و رفعت کا وہ عُلوّ جس کے پھریرے اَقلیمِ فرش و عرش پر پیہم لہرا رہے ہیں اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے فکری، علمی اور عملی عظمت کے وہ پہلو ہوں جن سے دنیائے علم و عمل جگمگا رہی ہے۔ اس جامع اور ہمہ جہت تصور کو حتی المقدور الفاظ کا جامہ پہنا کر عوام الناس میں متعارف کرایا جائے تاکہ تعلیمات اسلام اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا متوازن اور جامع تصور متعارف کرایا جاسکے جو بیک وقت نظروں اور عقلوں کو بھی مطمئن کرے اور دلوں اور روحوں کی اُجڑی بستی بھی سیراب کرے۔
آج اِس اَمر کی بھی اَشد ضرورت ہے کہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور صلحائے اُمت کے تذکرے عام کئے جائیں جنہوں نے اپنی زندگیاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور والہانہ عشق کی بھٹی میں سے گزارتے ہوئے قدم قدم پر ایسے ان منٹ نقوش ثبت کئے ہیں کہ رہتی دنیا تک کوئی محب اپنے محبوب کے لئے محبت کی دنیا میں ایسے نذرانے پیش نہیں کر سکتا۔ ان کی انہی اداؤں کو آج بھی ہم اپنے لئے نمونہ بنا سکتے ہیں کیونکہ پریشان حال امت کے دکھوں کا مداوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر سنت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلائے بغیر ناممکن ہے۔
اس خزاں رسیدہ چمن میں بہاریں تب ہی جوبن پر آسکتی ہیں جب آج کے پریشان حال نوجوان اپنے سینے سے عشق و محبت کے وہی تیر پھر پار کریں جن سے ابوبکر و عمر اور بلال و بوذر رضی اللہ عنھم نے اپنے دل چھلنی کئے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی طرح یہ سوزشِ عشق نہ ہو گی تو معرکہ ہائے بدر و حنین بھی برپا نہیں ہو سکیں گے اور نہ راتوں کی تاریکیوں میں شب زندہ دار اپنے نالہ ہائے نیم شبی سے قدسیان فلک کو محو رشک کر سکیں گے۔
جس ساز کے
نغموں سے حرارت تھی دِلوں میں
محفل کا وہی ساز ہے بیگانۂ مضراب
اِقبال، کلیات (ضربِ کلیم) : 982، شعاعِ اُمید
اِس لئے اِس اَمر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واقعاتی اور تعلیماتی سیرت کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبوی کمالات و فضائل اور روحانی شؤن و شمائل کا تذکرہ بھی کیا جائے تاکہ قاری عشق و محبت سے مملو جذبات کے ساتھ سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ کر سکے۔ حضور رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکرِ جمیل بالعموم تین صورتوں پر مشتمل ہو سکتا ہے :
فضائل سے حضور نبیء اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ پیغمبرانہ روحانی امتیازات اور معجزات و کمالات مراد ہیں جو وقتاً فوقتاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے ظاہر ہوتے رہے۔ ان کے ذکر کا مقصد اَوّلیں دلوں پر رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و تکریم کا نقش ثبت کرنا ہے۔ یہ تصور اگر دل میں جاگزیں ہو جائے تو اس سے بذاتِ خود حقانیتِ اسلام کی بہت بڑی دلیل ہاتھ آجاتی ہے، کیونکہ انبیاء کرام علیھم السلام کو معجزات عطا کئے جانے کا یہی بنیادی فلسفہ تھا اور مزید یہ کہ مسلمانوں کے دل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رشتہ ادب و تعظیم میں منسلک ہو جاتے ہیں۔
شمائل کا تعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت مبارکہ کے حسنِ ظاہر سے ہے۔ اس کے بیان کا مدعا یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات والا صفات سے محبت کے والہانہ جذبات اہلِ ایمان کے دلوں میں فروغ پائیں۔ یہ فطری بات ہے کہ کسی حسین کے حسن دل پذیر کا تذکرہ کیا جائے تو دل بے اختیار اس کی طرف کھچے چلے آتے ہیں۔ کیونکہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں والہانہ پن ہی ایمان کا حقیقی کمال اور اطاعت و اتباع کی صحیح بنیاد ہے۔ اس بیان سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت، سیرت، سنت اور ہر ہر ادا کا فہم اور اس کا پیار فطری طریق سے دلوں میں پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ بھی مقصود ایمان ہے۔
خصائل کا بیان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات و اطوار اور افعال و اعمال سے متعلق ہے، گویا یہ شخصیت مبارکہ کے حسن باطن کا آئینہ دار ہے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کے مطالعہ کا موقع فراہم ہوتا ہے تاکہ اس روشنی میں انسان اپنے عمل کی اِصلاح اور اَخلاق کی تطہیر کر سکے اور اپنی زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس تعلیمات کے سانچے میں ڈھال سکے۔ یہ پہلو اِطاعت و اِتباع کی ترغیب دیتا ہے اور کمالِ اِیمان اِسی سے متعلق ہے۔
اسلام کے اعمال و اقدار کے مجرد رسم میں بدل جانے کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ ملت اسلامیہ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سیرت سے دور ہو گئی۔ زندگی کے کسی بھی پہلو پر سیرت کے واضح اور نمایاں اثرات نہیں رہے۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بصیرت پر مبنی فہم نہ ہونے اور سیرت کے ساتھ زندہ عملی، قلبی اور روحانی تعلق نہ ہونے کے سبب سے نسل نو میں عمل کے نتائج کے باب میں بے یقینی پیدا ہو گئی اور اس بے یقینی نے ملت اِسلامیہ کو اجتماعی سطح پر لادینی طرز فکر اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس بے یقینی کے سبب سے نہ صرف یہ کہ ملتِ اِسلامیہ سے عمل کا داعیہ چھن گیا بلکہ راہِ عمل پر گامزن لوگ بھی اپنے عمل کی مؤثریت سے محروم ہوتے چلے گئے۔ حالانکہ اس سیرت مبارکہ کو جسے اﷲ رب العزت نے اسوۂ حسنہ قرار دے کر اہل اِسلام کے لئے تا ابد نمونہ بنایا تھا۔ ایسا نمونہ کامل جس میں حصول نتائج کی ضمانت ہے اور اُنہی احوال و کیفیات اور حالات و واقعات کے پھر سے منصہ شہود پر آنے کی ضمانت ہے جن کے سبب سے دورِ نبوت میں انسانیت تاریکی سے نکل کر روشنی، زوال سے نکل کر عروج اور جہالت سے نکل کر دورِ نو میں داخل ہوئی تھی، وہ اسوۂ حسنہ صرف بیان تک محدود ہو کر رہ گئی۔ ان حالات میں نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام عقیدے کی حد تک تو دین رہا لیکن عملاً ہماری زندگیوں میں بطور ایک مکمل دین کے موجود نہیں رہا اور اس کے نتیجے میں ہماری اجتماعی زندگی کم و بیش ہر دائرے میں تغیرات کی نذر ہو گئی جن میں سیاسی فکر، معاشی و اقتصادی فکر، قانونی فکر، عمرانی اور سماجی فکری، تہذیبی اور ثقافتی فکر، مذہبی فکر اور تعلیمی فکر شامل ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved