مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصلاة، باب کیف فرضت الصلوة في الإسراء، 1/ 136، الرقم/ 342، وأيضا فيکتاب الأنبياء، باب ذکر إدريس وهو جد أبي نوح ويقال جد نوح f، 3/ 1217، الرقم/ 3164، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الإسراء برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم إلی السماوات وفرض الصلوات، 1/ 148، الرقم/ 163، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 143، الرقم/ 21326، والنسائي في السنن، کتاب الصلاة، باب فرض الصلاة، 1/ 221، الرقم/ 449، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في فرض الصلوات الخمس والمحافظة عليها، 1/ 448، الرقم/ 1399.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:- پھر طویل حدیث روایت کی جس میںسے یہ ہے- (شبِ معراج) اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں تو میں ان (نمازوں) کے ساتھ واپس آیا یہاں تک کہ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کی خاطر آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: اﷲ تعالیٰ نے پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے رب کی طرف واپس جائیے کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھ سکے گی۔ انہوں نے مجھے واپس بھیج دیا (اور میری درخواست پر) اﷲ تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا۔ میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف واپس آیا اور کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک حصہ کم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا: اپنے رب کے پاس پھر جائیے کیونکہ آپ کی امت میں (اتنی نمازوں کی) طاقت نہیں ہے۔ میں واپس گیا تو اﷲ تعالیٰ نے ان کا ایک اور حصہ کم کر دیا۔ میں ان کی طرف آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس واپس جائیے کیونکہ آپ کی امت میں ان کی بھی طاقت نہیں ہے۔ میں لوٹ کر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اس نے فرمایا: یہ بظاہر پانچ (نمازیں) ہیں لیکن (ثواب کے اعتبار سے) پچاس (کے برابر) ہیں، میرے نزدیک بات تبدیل نہیں ہوا کرتی۔ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا اپنے رب کے پاس جائیے (اور مزید کمی کے لئے درخواست کیجئے)۔ میں نے کہا: مجھے اب اپنے رب سے حیا آتی ہے۔ پھر (جبرائیل علیہ السلام ) مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہی پر پہنچے، جسے مختلف رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا، نہیں معلوم کہ وہ کیا ہیں؟ پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا جس میں موتیوں کے گنبد ہیں اور اس کی مٹی مشک ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُوْ عَوَانَةَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: حَدِيْثُ أَنَسٍ حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ غَرِيْبٌ. وَفِي الْبَابِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، وَطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اﷲِ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَمَالِکِ بْنِ صَعْصَعَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 161، الرقم/ 12662، والترمذي في السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء کم فرض اﷲ علی عباده من الصلوات، 1/ 417، الرقم/ 213، وعبد الرزاق في المصنف، 1/ 452، الرقم/ 1768، وأبو عوانة في المسند، 1/ 120، الرقم/ 356.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: شبِ معراج حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں، پھر کم کر کے پانچ کر دی گئیں، پھر آواز دی گئی: اے محمد! میرے ہاں بات تبدیلی نہیں ہوتی اور آپ کے لیے (اور آپ کے واسطے سے آپ کی امت کے لئے) ان پانچ میں پچاس نمازوں کا اجر رکھ دیا گیا ہے۔
اس حدیث کو امام احمد، ترمذی، عبد الرزاق اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: حضرت اَنس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ اور اس باب میں حضرت عبادہ بن صامت، طلحہ بن عبید اللہ، ابو قتادہ، ابو ذر، مالک بن صعصعہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم سے بھی روایات منقول ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved