(البقرة، 2/ 43)
جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں او رجو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں۔
(البقرة، 2/ 43)
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو۔
(البقرة، 2/ 110)
اور نماز قائم (کیا) کرو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو، اور تم اپنے لیے جو نیکی بھی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے حضور پا لو گے، جو کچھ تم کر رہے ہو یقینا اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
(البقرة، 2/ 177)
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں۔
(المائدة، 5/ 12)
اور بے شک اﷲ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور (اس کی تعمیل، تنفیذ اور نگہبانی کے لیے) ہم نے ان میں بارہ سردار مقرر کیے، اور اﷲ نے (بنی اسرائیل سے) فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں (یعنی میری خصوصی مدد و نصرت تمہارے ساتھ رہے گی)، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور تم زکوٰۃ دیتے رہے اور میرے رسولوں پر (ہمیشہ) ایمان لاتے رہے اور ان (کے پیغمبرانہ مشن) کی مدد کرتے رہے اور اﷲ کو (اس کے دین کی حمایت و نصرت میں مال خرچ کرکے) قرض حسن دیتے رہے تو میں تم سے تمہارے گناہوں کو ضرور مٹا دوں گا اور تمہیں یقینا ایسی جنتوں میں داخل کر دوںگا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ پھر اس کے بعد تم میں سے جس نے (بھی) کفر (یعنی عہد سے انحراف) کیا تو بے شک وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔
(المائدة، 5/ 55)
بے شک تمہارا (حقیقی مددگار اور) دوست تواﷲ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ(اﷲ کے حضور عاجزی سے)جھکنے والے ہیں۔
(الأنعام، 6/ 72)
اور یہ (بھی حکم ہوا ہے) کہ تم نماز قائم رکھو اور اس سے ڈرتے رہو اور وہی اﷲ ہے جس کی رف تم (سب)جمع کیے جاؤ گے۔
(ابرٰهيم، 14 / 31)
آپ میرے مومن بندوں سے فرما دیں کہ وہ نماز قائم رکھیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ (ہماری راہ میں) خرچ کرتے رہیں اس دن کے آنے سے پہلے جس دن میں نہ کوئی خرید و فروخت ہو گی اور نہ ہی کوئی (دنیاوی) دوستی (کام آئے گی)۔
(النور، 24/ 56)
اور تم نماز (کے نظام) کو قائم رکھو اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کرتے رہو اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (مکمل) اطاعت بجا لؤ تاکہ تم پر رحم فرمایا جائے (یعنی غلبہ و اقتدار، استحکام اور امن و حفاظت کی نعمتوں کو برقرار رکھا جائے)۔
(العنکبوت، 29/ 45)
(اے حبیبِ مکرّم!) آپ وہ کتاب پڑھ کر سنائیے جو آپ کی طرف (بذریعہ) وحی بھیجی گئی ہے، اور نماز قائم کیجیے، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، اور واقعی اﷲ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اﷲ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔
(الأحزاب، 33/ 33)
اور اپنے گھروں میں سکون سے قیام پذیر رہنا اور پرانی جاہلیت کی طرح زیب و زینت کا اظہار مت کرنا، اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت گزاری میں رہنا، بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔
(المزمل، 73/ 20)
بے شک آپ کارب جانتا ہے کہ آپ (کبھی) دو تہائی شب کے قریب اور (کبھی) نصف شب اور (کبھی) ایک تہائی شب (نماز میں) قیام کرتے ہیں، اور اُن لوگوں کی ایک جماعت (بھی) جو آپ کے ساتھ ہیں (قیام میں شریک ہوتی ہے)، اور اﷲ ہی رات اور دن (کے گھٹنے اور بڑھنے) کا صحیح اندازہ رکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ تم ہر گز اُس کے اِحاطہ کی طاقت نہیں رکھتے، سو اُس نے تم پر (مشقت میں تخفیف کرکے) معافی دے دی، پس جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھ لیا کرو، وہ جانتا ہے کہ تم میں سے (بعض لوگ) بیمار ہوںگے اور (بعض) دوسرے لوگ زمین میں سفر کریں گے تاکہ اﷲ کا فضل تلاش کریں اور (بعض) دیگر اﷲ کی راہ میں جنگ کریں گے، سو جتنا آسانی سے ہوسکے اُتنا (ہی) پڑھ لیا کرو، اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اﷲ کو قرضِ حسن دیا کرو، اور جو بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اُسے اﷲ کے حضور بہتر اور اَجر میں بزرگ تر پا لوگے، اور اﷲ سے بخشش طلب کرتے رہو، اﷲ بہت بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے۔
(البينة، 98/ 5)
حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اﷲ کی عبادت کریں، (ہر باطل سے جدا ہو کر) حق کی طرف یکسوئی پیدا کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیا کریں اور یہی سیدھا اور مضبو ط دین ہے۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم: بني الإسلام علی خمس، 1/ 12، الرقم/ 8، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان أرکان الإسلام، 1/ 45، الرقم/ (21) 16، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 120، الرقم/ 6015، والترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء بني الإسلام علی خمس، 5/ 5، الرقم/ 2609، والنسائي في السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب علی کم بني الإسلام، 8/ 107، الرقم/ 5001.
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اﷲ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ امام مسلم کے ہیں۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب الإيمان، باب سؤال جبريل النبّي صلی الله عليه وآله وسلم عن الإيمان والإسلام والإحسان و علم السّاعة، 1/ 27، الرقم/ 50، وفي کتاب التفسير/ لقمان، باب إنّ اﷲ عنده علم السّاعة/ 34، 4/ 1793، الرقم/ 4499، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الإيمان والإسلام والإحسان، 1/ 36، الرقم/ 8-9، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 51، الرقم/ 367، وأبوداود في السنن، کتاب السنة، باب في القدر، 4/ 222، الرقم/ 4695، والترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء في وصف جبريل للنبي صلی الله عليه وآله وسلم الإيمان والإسلام، 5/ 6، الرقم/ 2601.
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے رسول ہیں اور تو نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے اگر تجھ میں حج کرنے کی استطاعت ہو۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الزکاة من الإسلام، 1/ 25، الرقم/ 46، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الصلوات التي هي أحد أرکان الإسلام، 1/ 40، الرقم/ 11، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب فرض الصلاة، 1/ 106، الرقم/ 391، والنسائي في السنن، کتاب الصلاة، باب کم فرضت في اليوم والليلة، 1/ 226، الرقم/ 458، ومالک في الموطأ، 1/ 175، الرقم/ 423.
حضرت طلحہ بن عبید اﷲ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اہلِ نجد میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سنائی دیتی تھی لیکن سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ قریب آیا تو(معلوم ہوا کہ) وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دن رات میں پانچ نمازیں (فرض) ہیں۔ وہ عرض گزار ہوا: کیا مجھ پر ان کے علاوہ بھی کوئی نماز فرض ہے؟ فرمایا: نہیں، مگر جو ( نفل نماز) تم خوشی سے پڑھو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور رمضان کے روزے فرض ہیں۔ اس نے عرض کیا: کیا مجھ پر ان کے علاوہ بھی روزے فرض ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں مگر جو (نفلی روزے) تم خوشی سے رکھو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے زکوٰۃ کا ذکر فرمایا۔ عرض گزار ہوا: کیا مجھ پر اس کے علاوہ بھی کچھ لازم ہے؟ فرمایا: نہیں مگر جو تم خوشی سے خیرات کرو۔ راوی کہتے ہیں: پھر وہ یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا خدا کی قسم! نہ میں اس پر اضافہ کروں گا اور نہ کمی کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے (یہ عہد) سچ کر دکھایا تو نجات پا گیا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ حِبَّان وَالدَّارَ قُطْنِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ، وَابْنُ خُزَيْمَةَ فِي تَرْجَمَةِ الْبَابِ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ، وََسَائِرُ رُوَاتِهِ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِمْ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 251، الرقم/ 22215، 22312، والترمذي في السنن، کتاب الجمعة، باب منه (434)، 2/ 516، الرقم/ 616، وابن خزيمة في الصحيح، 4/ 12، وابن حبان في الصحيح، 10/ 426، الرقم/ 4563، والحاکم في المستدرک، 1/ 52، 547، الرقم/ 19، 1436، والدار قطني في السنن، 456، الرقم/ 2733، والطبراني في المعجم الکبير، 8/ 115، الرقم/ 7535، وأيضا في مسند الشاميين، 2/ 16، الرقم/ 834، وابن أبي عاصم في السنة، 2/ 505، الرقم/ 1061.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے رب سے ڈرو، اپنی پانچوں نمازیں ادا کرتے رہو اور اپنے (رمضان المبارک کے) مہینے میں روزے رکھا کرو اور اپنے اَموال کی زکوٰۃ ادا کیا کرو اور اپنے حاکم کی اطاعت کرو، تم (اس کے صلہ میں) اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔
اس حدیث کو امام احمد، ترمذی، ابن حبان، دارقطنی، حاکم، طبرانی اور ابن أبی عاصم نے روایت کیا ہے۔ امام ابن خزیمہ نے اسے ترجمۃ الباب میںبیان کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ سننِ ترمذی کے ہیں، انہوں نے فرمایا ہے: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام حاکم نے فرمایا ہے: یہ حدیث مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے اور اس کے تمام راویوں کی صحت پر اتفاق ہے۔
وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه: يَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: أَيُهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا أُمَّةَ بَعْدَکُمْ. أَ لَا! فَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ، وَصَلُّوْا خَمْسَکُمْ، وَصُوْمُوْا شَهْرَکُمْ، وَأَدُّوْا زَکَاةَ أَمْوَالِکُمْ طَيِّبَةً بِهَا أَنْفُسُکُمْ، وَأَطِيْعُوْا وُلَاةَ أَمْرِکُمْ، تَدْخُلُوْا جَنَّةَ رَبِّکُمْ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8/ 115، الرقم/ 7535، وأيضا في مسند الشامين، 2/ 16، الرقم/ 834، وابن أبي عاصم في السنة، 2/ 505، الرقم/ 1061.
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی اور اُمت ہے۔ خبردار! اپنے رب کی عبادت کرو، اپنی پانچ (فرض) نمازیں ادا کرو، اپنے ماہِ (رمضان) کے روزے رکھو، خوش دلی کے ساتھ اپنے اَموال کی زکوٰۃ ادا کرو اور (اُمورِ خیر میں) اپنے (عادل) حکمرانوں کی اِطاعت کرو، (اس کے صلے میں) تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔
اس حدیث کو امام طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَعَبْدُالرَّزَّاقِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لِلتِّرْمِذِيِّ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 231، الرقم/ 22069، والترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء في حرمة الصلاة، 5/ 11، الرقم/ 2616، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب کف اللسان في الفتنة، 2/ 1314، الرقم/ 3973، وابن حبان في الصحيح، 1/ 447، الرقم/ 214، والمستدرک في الحاکم، 2/ 447، الرقم/ 3548، وعبد الرزاق في المصنف، 11/ 194، الرقم/ 20303، والطبراني في المعجم الکبير، 20/ 131، الرقم/ 266.
حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں: میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا، ایک روز جب ہم چل رہے تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ایسا عمل ارشاد فرمائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور جہنم سے دور کر دے۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے مجھ سے بہت بڑی بات کا سوال کیا، البتہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسان فرما دے اس کے لئے آسان ہے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ شریف کا حج کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں نیکی کے دروازے نہ بتلاؤں؟ (پھر خود ہی ارشاد فرمایا) روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو (اس طرح) مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے۔
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ترمذی اور ابن ماجہ، ابن حبان، حاکم، عبدالرزاق اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ سننِ ترمذی کے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved