1. عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ. قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَجِدْ؟ قَالَ: فَيَعْمَلُ بِيَدَيْهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ وَيَتَصَدَّقُ. قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَوْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ: فَيُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ. قَالُوْا: فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ: فَلْيَأْمُرْ بِالْخَيْرِ. أَوْ قَالَ: بِالْمَعْرُوفِ. قَالَ: فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ: فَيُمْسِکُ عَنِ الشَّرِّ فَإِنَّهُ لَهُ صَدَقَةٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأدب، باب کل معروف صدقة، 5 / 2241، الرقم: 5676، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب بيان أن اسم الصدقة يقع علی کل من المعروف، 2 / 699، الرقم: 1008، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 395، الرقم: 19549، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب صدقة العبد، 5 / 64، الرقم: 2538.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان کے لیے صدقہ ضروری ہے۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ اگر کوئی شخص اِس کی اِستطاعت نہ رکھے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے ہاتھوں سے کام کرے، جس سے اپنی ذات کو فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ لوگوں نے عرض کیا: اگر اس کی طاقت بھی نہ ہو یا ایسا نہ کر سکے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ضرورت مند اور محتاج کی مدد کرے۔ لوگ عرض گزار ہوئے: اگر ایسا نہ کر سکے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے چاہیے کہ خیر کا حکم کرے یا فرمایا کہ نیکی کا حکم دے۔ لوگوں نے پھر عرض کیا: اگر یہ بھی نہ کر سکے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ برائی سے رکا رہے کیونکہ یہی اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اﷲُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: الْإِمَامُ الْعَادِلُ وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اﷲِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ. فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اﷲَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفٰی حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِيْنُهُ. وَرَجُلٌ ذَکَرَ اﷲَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجماعة والإمامة، باب من جلس في المسجد ينتطر الصلاة وفضل المساجد، 1 / 234، الرقم: 629، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب فضل إخفاء الصدقة، 2 / 715، الرقم: 1031، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 439، الرقم: 9663، والترمذي في السنن، کتاب الزهد، باب ما جاء في الحب في اﷲ، 4 / 598، الرقم: 2391، والنسائي في السنن، کتاب آداب القضاة، باب الإمام العادل، 8 / 222، الرقم: 5380، ومالک في الموطأ، کتاب الشعر، باب ما جاء في المتحابين في اﷲ، 2 / 952، الرقم: 1709.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس روز اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا، جس روز اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا: عادل حاکم، وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں پروان چڑھا، وہ آدمی جس کا دل مسجد میں لٹکا رہتا ہے، وہ دو آدمی جو اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کریں اسی محبتِ الٰہی کی حالت میں دونوں اکٹھے ہوں اور اسی کی خاطر جدا ہوں، وہ آدمی جس کو حیثیت اور جمال والی عورت برائی کی دعوت دے مگر وہ یہ کہہ کرانکار کر دے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں، اور وہ آدمی جو چھپا کر خیرات کرے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ آدمی جو خلوت میں اللہ کا ذکر کرے تو اس کی آنکھیں بہنے لگیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ. فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ، فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ، فَأَصْبَحُوْا نيَتَحَدَّثُونَ: تُصُدِّقَ عَلٰی سَارِقٍ. فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ لَکَ الْحَمْدُ، لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ. فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ، فَوَضَعَهَا فِي يَدَي زَانِيَةٍ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُوْنَ: تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلٰی زَانِيَةٍ. فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ لَکَ الْحَمْدُ، عَلٰی زَانِيَةٍ؟ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ. فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ، فَوَضَعَهَا فِي يَدَيْ غَنِيٍّ، فَأَصْبَحُوْا يَتَحَدَّثُوْنَ: تُصُدِّقَ عَلٰی غَنِيٍّ. فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ لَکَ الْحَمْدُ عَلٰی سَارِقٍ، وَعَلٰی زَانِيَةٍ، وَعَلٰی غَنِيٍّ. فَأُتِيَ، فَقِيلَ لَهُ: أَمَّا صَدَقَتُکَ عَلٰی سَارِقٍ: فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعِفَّ عَنْ سَرِقَتِهِ، وَأَمَّا الزَّانِيَةُ: فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ عَنْ زِنَاهَا، وَأَمَّا الْغَنِيُّ: فَلَعَلَّهُ يَعْتَبِرُ، فَيُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاهُ اﷲُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب إذا تصدق علی غني وهو لا يعلم، 2 / 516، الرقم: 1355، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب ثواب أجر المتصدق وإن وقعت الصدقة في أهلها، 2 / 709، الرقم: 1022، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب إذا أعطاها غنيا وهو لا يشعر، 5 / 55، الرقم: 2523.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی نے کہا کہ میں ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ صدقہ کرنے کی غرض سے (رات کو) مال لے کر نکلا اور اس نے ایک چور کو دے دیا۔ صبح لوگ باتیں کرنے لگے کہ چور پر صدقہ کیا گیا ہے۔ تو وہ عرض گزار ہوا کہ اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، میں ضرور پھر صدقہ دوں گا۔ وہ مال لے کر نکلا اور بدکار عورت کو دے دیا۔ صبح کے وقت لوگوں نے چرچا کیا کہ آج رات بدکار عورت پر صدقہ کیا گیا ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ میں ضرور پھر صدقہ دوں گا۔ وہ مال لے کر نکلا تو ایک مالدار کو دے دیا۔ صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے کہ غنی پر صدقہ کیا گیا ہے۔ تو اس نے کہا: اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، (افسوس کہ) چور، زانیہ اور غنی پر صدقہ کر بیٹھا! پھر اُسے لایا گیا تو اس سے کہا گیا: تم نے چور کو جو صدقہ دیا تو شاید وہ چوری کرنے سے رک جائے اور بدکار عورت، شاید وہ بدکاری سے باز آ جائے اور مالدار شاید عبرت حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو مال دیا ہے اس میں سے خرچ کرنے لگے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : کُلُّ سُلَامٰی مِنَ النَّاسِ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ کُلَّ يَوْمٍ تَطْلُعُ فِيهِ الشَّمْسُ، يَعْدِلُ بَيْنَ النَّاسِ صَدَقَةٌ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
4: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصلح، باب فضل الإصلاح بين الناس والعدل بينهم، 2 / 964، الرقم: 12560.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر روز جس میں سورج طلوع ہوتا ہے لوگوں کے لیے اپنے ہر جوڑ کا صدقہ دینا ضروری ہو جاتا ہے، جو لوگوں کے درمیان عدل کرتا ہے تو اس کا یہ عمل بھی صدقہ ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ مِنْ شَيْئٍ مِنَ الْأَشْيَائِ فِي سَبِيلِ اﷲِ، دُعِيَ مِنْ أَبْوَابِ يَعْنِي الْجَنَّةَ: يَا عَبْدَ اﷲِ، هٰذَا خَيْرٌ، فَمَنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصِّيَامِ، وَبَابِ الرَّيَانِ. فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: مَا عَلٰی هٰذَا الَّذِي يُدْعٰی مِنْ تِلْکَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ. وَقَالَ: هَلْ يُدْعٰی مِنْهَا کُلِّهَا أَحَدٌ يَا رَسُولَ اﷲِ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَأَرْجُوْ أَنْ تَکُوْنَ مِنْهُمْ يَا أَبَا بَکْرٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذًا خليلا، 3 / 1340، الرقم: 3466، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب وجوب الزکاة، 5 / 9، الرقم: 2439، وابن حبان في الصحيح، 8 / 206، الرقم: 3418.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک چیز کا جوڑا خرچ کرے تو اسے (اس کے عمل کے مطابق) جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا، (اُسے کہا جائے گا:) اے اللہ کے بندے! (اس دروازے سے داخل ہونا تمہارے لئے) بہتر ہے۔ پس جو کوئی نمازیوں میں سے ہوگا، اسے باب الصلاۃ سے بلایا جائے گا۔ جو مجاہد ہے اسے باب الجھاد سے، جو خیرات کرتا ہے اسے باب الصدقۃ سے اور جو روزے رکھے گا اسے باب الصیام اور باب الریان سے بلایا جائے گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ان دروازوں میں سے جس کو بھی بلایا جائے گا ایک خاص ضرورت اور سبب کے تحت بلایا جائے گا۔ پھر عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! کیا کوئی ایسا بھی ہے جسے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اے ابوبکر! مجھے یقین ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: بَيْنَا رَجُلٌ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَسَمِعَ صَوْتًا فِي سَحَابَةٍ: اسْقِ حَدِيْقَةَ فُلَانٍ فَتَنَحّٰی ذٰلِکَ السَّحَابُ. فَأَفْرَغَ مَاءَهُ فِي حَرَّةٍ فَإِذَا شَرْجَةٌ مِنْ تِلْکَ الشِّرَاجِ قَدِ اسْتَوْعَبَتْ ذٰلِکَ الْمَاءَ کُلَّهُ فَتَتَبَّعَ الْمَاءَ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي حَدِيْقَتِهِ يُحَوِّلُ الْمَاءَ بِمِسْحَاتِهِ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَبْدَ اﷲِ، مَا اسْمُکَ؟ قَالَ: فُلَانٌ؛ للِاِْسْمِ الَّذِي سَمِعَ فِي السَّحَابَةِ. فَقَالَ لَهُ: يَا عَبْدَ اﷲِ، لِمَ تَسْأَلُنِي عَنِ اسْمِي؟ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ صَوْتًا فِي السَّحَابِ الَّذِي هٰذَا مَاؤُهُ. يَقُولُ: اسْقِ حَدِيْقَةَ فُلَانٍ لِاسْمِکَ. فَمَا تَصْنَعُ فِيْهَا؟ قَالَ: أَمَّا إِذْ قُلْتَ هٰذَا، فَإِنِّي أَنْظُرُ إِلٰی مَا يَخْرُجُ مِنْهَا، فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِهِ، وَآکُلُ أَنَا وَعِيَالِي ثُلُثًا، وَأَرُدُّ فِيْهَا ثُلُثَهُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
6: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب الصدقة في المساکين، 4 / 2288، الرقم: 2984، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 296، الرقم: 7928، وابن حبان في الصحيح، 8 / 142، الرقم: 3355.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک مرتبہ ایک شخص نے جنگل میں بادل سے ایک آواز سنی کہ فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کرو۔ وہ بادل چل پڑا اور اس نے بجری والی زمین پر پانی برسایا، وہاں کے نالوں میں سے ایک نالہ بھر گیا، وہ شخص اس پانی کے پیچھے پیچھے گیا، وہاں ایک شخص باغ میں کھڑا ہوا اپنے پھاوڑے سے پانی کو اِدھر اُدھر کر رہا تھا، اس شخص نے باغ والے سے پوچھا: اے اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے اپنا وہی نام بتایا جو اس نے بادل سے سنا تھا، اس شخص نے پوچھا: اے بندئہ خدا! تم میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس نے کہا: جس بادل نے اس باغ میں پانی برسایا ہے میں نے اس بادل سے یہ آواز سنی تھی: فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کرو۔ اس نے تمہارا نام لیا تھا، تم اس باغ میں کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا: اب جب تم نے یہ بتایا ہے تو سنو! میں اس باغ کی پیداوار پر نظر رکھتا ہوں، اس میں سے ایک تہائی کو میں صدقہ کرتا ہوں، ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور باقی ایک تہائی کو میں اس باغ میں لگا دیتا ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
7. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اﷲُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌِﷲِ إِلَّا رَفَعَهُ اﷲُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالدَّارِمِيُّ.
7: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب استحباب العفو والتواضع، 4 / 2001، الرقم: 2588، والدارمي في السنن، کتاب الزکاة، باب في فضل الصدقة، 1 / 486، الرقم: 1676، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 97، الرقم: 2438، وأبويعلی في المسند، 11 / 344، الرقم: 6458.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صدقہ مال میں کچھ بھی کمی نہیں کرتا، بندے کے معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھاتا ہے اور جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کا درجہ ہی بلند فرماتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
8. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اﷲُ الْأَرْضَ جَعَلَتْ تَمِيْدُ، فَخَلَقَ الْجِبَالَ، فَعَادَ بِهَا عَلَيْهَا فَاسْتَقَرَّتْ، فَعَجِبَتِ الْمَلَائِکَةُ مِنْ شِدَّةِ الْجِبَالِ. قَالُوْا: يَا رَبِّ، هَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْجِبَالِ؟ قَالَ: نَعَمْ! الْحَدِيدُ. قَالُوْا: يَا رَب! فَهَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْحَدِيدِ؟ قَالَ: نَعَمْ! النَّارُ. فَقَالُوْا: يَا رَبِّ، فَهَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: نَعَمْ! اَلْمَائُ. قَالُوْا: يَا رَبِّ، فَهَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْمَائِ؟ قَالَ: نَعَمْ! اَلرِّيْحُ. قَالُوْا: يَا رَبِّ، فَهَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الرِّيحِ؟ قَالَ: نَعَمْ! ابْنُ آدَمَ، تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ بِيَمِيْنِهِ يُخْفِيْهَا مِنْ شِمَالِهِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ. وَقَالَ التِّرمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيثٌ غَرِيْبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هٰذَا الْوَجْهِ.
8: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 124، الرقم: 12275، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب، 95،5 / 454 الرقم: 3369، وعبد بن حميد في المسند،1 / 365، الرقم: 1215، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 423، الرقم: 5298.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا فرمائی تو وہ ہلنے لگی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پیدا کئے اور انہیں زمین پر رکھ دیا چنانچہ وہ ٹھہر گئی۔ فرشتوں کو پہاڑوں کی شدت اور قوت پر تعجب ہوا، انہوں نے عرض کیا: اے پروردگار! تیری مخلوق میں پہاڑوں سے بھی طاقتور کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں! لوہا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رب! تیری مخلوق میں لوہے سے بھی زیادہ طاقت والی کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں! آگ ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا: اے پروردگار! تیری مخلوق میں آگ سے بھی زیادہ طاقت والی کوئی چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں! پانی ہے۔ پھر عرض کیا: اے رب! تیری مخلوق میں پانی سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں! ہوا ہے۔ پوچھا: ہوا سے بھی زیادہ سخت کوئی مخلوق ہے؟ فرمایا: ہاں انسان ہے۔ وہ اپنے داہنے ہاتھ سے صدقہ دیتا ہے اور بائیں ہاتھ سے پوشیدہ رکھتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں:یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے مرفوعاً صرف اسی طریق سے جانتے ہیں۔
9. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِيئُ غَضَبَ الرَّبِّ، وَتَدْفَعُ عَنْ مِيْتَةِ السُّوْئِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ مِنْ هٰذَا الْوَجْهِ.
9: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في فضل الصَّدَقَةِ، 3 / 52، الرقم: 664، وابن حبان في الصحيح، 8 / 103، الرقم: 3309، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 213، الرقم: 3351، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 / 218، الرقم: 1897، وذکره الهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 209، الرقم: 816، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1 / 272.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک صدقہ اﷲ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث اس سند کے ساتھ حسن غریب ہے۔
10. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنهما قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، تُوبُوْا إِلَی اﷲِ قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوا، وَبَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ قَبْلَ أَنْ تُشْغَلُوْا، وَصِلُوا الَّذِي بَيْنَکُمْ وَبَيْنَ رَبِّکُمْ بِکَثْرَةِ ذِکْرِکُمْ لَهُ وَکَثْرَةِ الصَّدَقَةِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ، تُرْزَقُوْا، وَتُنْصَرُوْا، وَتُجْبَرُوْا، وَاعْلَمُوا أَنَّ اﷲَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْکُمُ الْجُمُعَةَ فِي مَقَامِي هٰذَا، فِي يَوْمِي هٰذَا، فِي شَهْرِي هٰذَا، مِنْ عَامِي هٰذَا إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ. فَمَنْ تَرَکَهَا فِي حَيَاتِي أَوْ بَعْدِي وَلَهُ إِمَامٌ عَادِلٌ أَوْ جَائِرٌ اسْتِخْفَافًا بِهَا أَوْ جُحُوْدًا لَهَا فَلَا جَمَعَ اﷲُ لَهُ شَمْلَهُ، وَلَا بَارَکَ لَهُ فِي أَمْرِهِ. أَلَا وَلَا صَلَاةَ لَهُ، وَلَا زَکَاةَ لَهُ، وَلَا حَجَّ لَهُ، وَلَا صَوْمَ لَهُ، وَلَا بِرَّ لَهُ، حَتّٰی يَتُوبَ، فَمَنْ تَابَ تَابَ اﷲُ عَلَيْهِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.
10: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة، باب في فرض الجمعة، 1 / 343، الرقم: 1081.
’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا: اے لوگو! مرنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کر لو، اور (موت کی سختی میں) مشغول کر دیے جانے سے قبل اعمال صالحہ میں جلدی کر لو۔ کثرتِ ذکر سے اپنے اور اپنے رب کے درمیان تعلق پیدا کرو، اسی طرح ظاہر و باہر اور پوشیدہ طور پر صدقہ کرو تو تمہیں رزق بھی دیا جائے گا اور تمہاری مدد بھی کی جائے گی۔ اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر جمعہ اس مقام، اس دن، اس مہینہ میں فرض کیا ہے اور اس سال سے تا قیامت فرض ہے۔ جس نے اس کی ادائیگی میری زندگی میں یا میرے بعد ترک کر دی حالانکہ اس کے لیے امام موجود ہو چاہے وہ منصف ہو یا ظالم اسے حقیر جانتے ہوئے یا اس کا انکار کرتے ہوئے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو متحد نہیں کرے گا اور اس کے کام میں برکت نہ کرے گا۔ خبردار! نہ تو اس کی نماز ہے نہ زکوٰۃ، نہ حج نہ روزہ اور نہ کوئی اور نیکی، یہاں تک کہ وہ توبہ کرے۔ پس جو توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
11. عَنْ کَثِيْرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ الْمُزَنِيِّ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ صَدَقَةَ الْمُسْلِمِ تَزِيْدُ فِي الْعُمْرِ، وَتَمْنَعُ مِيْتَةَ السُّوئِ، وَيُذْهِبُ اﷲُ بِهَا الْکِبْرَ وَالْفَخْرَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
11: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 22، الرقم: 31.
’’کثیر بن عبد اﷲ المزنی اپنے والد گرامی کے واسطہ سے اپنے جد امجد (حضرت عمرو بن عوف) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کا صدقہ عمر میں اضافہ کرتا ہے، بری موت کو روکتا ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعے تکبر و فخر کو ختم کر دیتے ہیں۔‘‘ اِس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
12. عَنْ مَيْمُونَةَ بِنْتِ سَعْدٍ رضی الله عنها : أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولُ اﷲِ، أَفْتِنَا عَنِ الصَّدَقَةِ. فَقَالَ: إِنَّهَا حِجَابٌ مِنَ النَّارِ، لِمَنِ احْتَسَبَهَا يَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اﷲِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
12: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 25 / 35، الرقم: 3449.
’’حضرت میمونہ بنت سعد رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوںنے پوچھا: یا رسول اﷲ! آپ ہمیں صدقہ کے متعلق بتائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ثواب کی نیت سے اﷲ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لئے صدقہ کرتا ہے اس کے لئے یہ نار جہنم سے رکاوٹ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
13. عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيْجٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلصَّدَقَةُ تَسُدُّ سَبْعِيْنَ بَابًا مِنَ السُّوْئِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
13: أخرجه الطبراني في معجم الکبير، 4 / 274، الرقم: 4402.
’’حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صدقہ برائی اور بدبختی کے ستر دروازے بند کر دیتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرنی نے روایت کیا ہے۔
14. عَنْ عُقْبَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِیُ عَنْ أَهْلِهَا حَرَّ الْقُبُوْرِ، وَإِنَّمَا يَسْتَظِلُّ الْمُؤْمِنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي ظِلِّ صَدَقَتِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
14: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 286، الرقم: 787.
’’حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صدقہ اہلِ قبور سے گرمی کو ختم کرتا ہے اور مومن قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سائے تلے ہو گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
15. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه، أَنَّ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اﷲِ، أَرَأَيْتَ الصَّدَقَةَ مَاذَا هِيَ؟ قَالَ: أَضْعَافٌ مُضَاعَفَةٌ، وَعِنْدَ اﷲِ الْمَزِيدُ، قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اﷲِ، فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: سِرٌّ إِلٰی فَقِيْرٍ، وَجُهْدٌ مِنْ مُقِلٍّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
15: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 265، الرقم: 22644، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 217، الرقم: 7871، وأيضًا في، 8 / 226، الرقم: 7891.
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! صدقہ کی کیا حقیقت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (یہ مال و دولت کو) کئی گنا کرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے ہاں اور بھی زیادہ. پھر عرض کی گئی: یارسول اﷲ! کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی تنگ دست کو خفیہ صدقہ دینا اور مفلوک الحال آدمی کے خون پسینے کی کمائی۔‘‘
اس حدیث کو امام احمدبن حنبل اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
16. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّ.هُ قَالَ: خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا کَانَ عَلٰی ظَهْرِ غِنيً، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُو دَاؤدَ وَالنَّسَائِيُّ.
16: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب النفقات، باب وجوب النفقة علی الأهل والعيال، 5 / 208، الرقم: 5041، وأبوداود في السنن، کتاب الزکاة، باب الرجل يخرج من ماله، 2 / 129، الرقم: 1676، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب أي الصدقة أفضل، 5 / 69، الرقم: 2544.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد (بھی) خوشحالی قائم رہے (یعنی دوسروں کو دے کر خود خالی ہو کر نہ بیٹھ جاؤ)، اور اِبتداء ان لوگوں سے کرو جو تمہارے زیر کفالت ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
17. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، أَنَّ.هُ قَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: جُهْدُ الْمُقِلِّ، وَابْدَأ بِمَنْ تَعُوْلُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْدَاؤدَ.
17: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 358، الرقم: 8687، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب في الرخصة في ذلک، 2 / 129، الرقم: 1677، وابن حبان في الصحيح، 8 / 134، الرقم: 3346، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 102، الرقم: 2451، والحاکم في المستدرک، 1 / 574، الرقم: 1509.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! کون سا صدقہ سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تنگ دست کے خون پسینے کی کمائی کا صدقہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اور اس سے شروع کر جس کی کفالت تیرے ذمہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابوداود نے روایت کیا ہے۔
18. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : دِيْنَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيْلِ اﷲِ، وَدِيْنَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي رَقَبَةٍ، وَدِيْنَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلٰی مِسْکِيْنٍ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ عَلٰی أَهْلِکَ، أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهُ عَلٰی أَهْلِکَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
18: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب فضل النفقة علی العيال والمملوک وإثم من ضيعهم أو حبس نفقتهم عنهم، 2 / 692، الرقم: 995، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 476، الرقم: 10177، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 39، الرقم: 9079، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 222، الرقم: 3079.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک دینار وہ ہے جسے تم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جسے تم نے غلام کی آزادی کے لئے خرچ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تم نے مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تم نے اپنے اہل خانہ پر خرچ کیا، ان میں سب سے زیادہ اجر اس دینار پر ملے گا جسے تم نے اپنے اہل خانہ پر خرچ کیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
19. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: أَمَرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِالصَّدَقَةِ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، عِنْدِي دِيْنَارٌ. قَالَ: فَقَالَ: تَصَدَّقْ بِهِ عَلٰی نَفْسِکَ. قَالَ: عِنْدِي آخَرُ. قَالَ: تَصَدَّقْ بِهِ عَلٰی وَلَدِکَ. قَالَ: عِنْدِي آخَرُ. قَالَ: تَصَدَّقْ بِهِ عَلٰی زَوْجَتِکَ، أَوْ زَوْجِکَ. قَالَ: عِنْدِي آخَرُ. قَالَ: تَصَدَّقْ عَلٰی خَادِمِکَ: قَالَ: عَنْدِي آخَرُ. قَالَ: أَنْتَ أَبْصَرُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤدَ وَالنَّسَائِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
19: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب الزکاة، باب في صلة الرحم، 2 / 132، الرقم: 1691، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب تفسير لک، 5 / 62، الرقم: 2535، والحاکم في المستدرک، 1 / 585، الرقم: 1514، وابن حبان في الصحيح، 8 / 126، الرقم: 3337، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 78، الرقم: 197، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 237، الرقم: 8508، والشافعي في المسند، 1 / 266، والشافعي في السنن المأثورة، 1 / 393، الرقم: 549، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 7 / 466.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ کرنے کا حکم فرمایا تو ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے اوپر خرچ کر لو۔ اس نے عرض کیا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنی اولاد پر خرچ کر لو۔ عرض کیا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنی بیوی پر خرچ کر لو۔ عرض کیا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنے خادم پر خرچ کرو۔ عرض کیا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ فرمایا:جس کے لیے تم مناسب سمجھو (اس پر خرچ کرو).‘‘
اس حدیث کو امام ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔
20. عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: اَلصَّدَقَةُ عَلَی الْمِسْکِيْنِ صَدَقَةٌ، وَهِيَ عَلٰی ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ: صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
20: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب الصدقة علی مَا جَاءَ فِي الصَّدَقَةِ عَلَی ذِي الْقَرَبَةِ، 5 / 92، الرقم: 2582، وابن ماجه في السنن، کتاب الزکاة، باب فضل الصدقة، 1 / 591، الرقم: 1844، والحاکم في المستدرک، 1 / 564، الرقم: 1476، وابن خزيمة في الصحيح، 8 / 132، الرقم: 3344.
’’حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی حاجت مند کو صدقہ دینا (صرف) ایک صدقہ ہے اور رشتہ دار کو صدقہ دینا دو صدقات (کے برابر) ہے: ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد قرار دیاہے۔
21. عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اﷲِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ: أَنَّ.هُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رضی الله عنه يَقُولُ: کَانَ أَبُوْ طَلْحَةَ أَکْثَرَ الْأَنْصَارِ بِالْمَدِيْنَةِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ، وَکَانَ أَحَبُّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ، وَکَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَکَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَدْخُلُهَا، وَيَشْرَبُ مِنْ مَائٍ فِيهَا طَيِّبٍ. قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا أُنْزِلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾، قَامَ أَبُوْ طَلْحَةَ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ اﷲَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی يَقُوْلُ: ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلّٰهِ، أَرْجُوْ بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اﷲِ فَضَعْهَا، يَا رَسُولَ اﷲِ، حَيْثُ أَرَاکَ اﷲُ. قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : بَخْ، ذٰلِکَ مَالٌ رَابِحٌ، ذٰلِکَ مَالٌ رَابِحٌ. وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، وَإِنِّي أَرٰی أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ. فَقَالَ أَبُوْ طَلْحَةَ: أَفْعَلُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ. فَقَسَمَهَا أَبُوْ طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
21: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب الزکاة علی الأقارب، 2 / 530، الرقم: 1392، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب فضل النفقة والصدقة علی الأقربين، 2 / 693، الرقم: 998.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں کھجور کے باغات کے لحاظ سے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ انصار میں سب سے مالدار تھے اور انہیں اپنے سارے باغات میں بیرحاء زیادہ پسند تھا جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں تشریف لے جاتے اور اس کا صاف پانی نوش فرمایا کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت (تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اﷲ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو) نازل ہوئی تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اﷲ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو) اور مجھے اپنے تمام مالوں میں بیرحاء باغ سب سے زیادہ پیارا ہے، لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے میری طرف سے صدقہ ہے، اللہ کے ہاں اس کے ثواب اور ذخیرے کی امید رکھتا ہوں۔ پس یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ اس کا جو چاہیں کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شاباش! یہ سودا تو مفید اور نفع بخش ہے۔ تم نے جو کہا وہ میں نے سن لیا۔ میرے خیال میں یہ اپنے قرابت داروں میں بانٹ دو تو بہتر ہے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! میں اسی طرح کر دوں گا۔ پس حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کر دیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
22. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنهما، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم : أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلٰی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
22: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب إطعام الطعام من الإسلام، 1 / 13، الرقم: 12، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان تفاضل الإسلام ونصف أموره أفضل، 1 / 65، الرقم: 39، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في افشاء السلام، 4 / 350، الرقم: 5194، والنسائي في السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب أي الاسلام خير، 6 / 107، الرقم: 5000، وابن ماجه في السنن، کتاب الأطعمة، 2 / 1083، الرقم: 3253، وابن حبان في الصحيح، 2 / 258، الرقم: 505.
’’حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے بارگاہِ نبوت میں عرض کیا: کون سا اسلام بہتر ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ اور ہر ایک کو سلام کرو خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہ جانتے ہو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
23. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ يَقُوْلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي! قَالَ: يَا رَبِّ، کَيْفَ أَعُوْدُکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّکَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ؟ يَا ابْنَ آدَمَ، اسْتَطْعَمْتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي. قَالَ: يَا رَبِّ، وَکَيْفَ أُطْعِمُکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَکَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّکَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذٰلِکَ عِنْدِي؟ يَا ابْنَ آدَمَ، اسْتَسْقَيْتُکَ فَلَمْ تَسْقِنِي؟ قَالَ: يَا رَبِّ، کَيْفَ أَسْقِيکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ؟ قَالَ: اسْتَسْقَاکَ عَبْدِي فُ.لَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا إِنَّکَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَّ ذٰلِکَ عِنْدِي.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ.
23: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل عيادة المريض، 4 / 1990، الرقم: 2569، وابن حبان في الصحيح، 1 / 503، الرقم: 269، وفي 3 / 224، الرقم: 444، ومسند اسحق بن راهويه، 1 / 115، الرقم: 28، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 534، الرقم: 9182.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ u فرمائے گا: اے ابن آدم! میں بیمار ہوا تو تو نے میری عیادت نہیں کی! وہ شخص کہے گا: اے میرے رب! میں تیری عیادت کیسے کرتا حالانکہ تو رب العالمین ہے! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا! وہ شخص کہے گا: اے میرے رب! میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا حالانکہ تو رب العالمین ہے! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اگر تو اسے کھانا کھلا دیتا تو اُسے میرے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ وہ شخص کہے گا: اے میرے رب! میں تجھے کیسے پانی پلاتا حالانکہ تو رب العالمین ہے! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو اسے میرے پاس پاتا۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
24. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنهما، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اعْبُدُوا الرَّحْمٰنَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَأَفْشُوا السَّلَامَ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
24: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الأطعمة، باب ما جاء في فضل إطعام الطعام، 4 / 287، الرقم: 1855، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 139، الرقم: 355.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خدائے رحمن کی عبادت کرو، کھانا کھلاؤ اور سلام کرنے کو رواج دو۔ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
اسے امام ترمذی نے روایت کرتے ہوئے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
25. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَيُّمَا مُؤْمِنٍ أَطْعَمَ مُؤْمِنًا عَلٰی جُوْعٍ أَطْعَمَهُ اﷲُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، وَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَقٰی مُؤْمِنًا عَلٰی ظَمَإٍ سَقَاهُ اﷲُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الرَّحِيْقِ الْمَخْتُوْمِ، وَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ کَسَا مُؤْمِنًا عَلٰی عُرْيٍ، کَسَاهُ اﷲُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّةِ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاؤدَ وَالتِّرْمِذِيُّ.
25: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب في فضل سقي الماء، 2 / 130، الرقم: 1682، والترمذي في السنن، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع، باب 18، 4 / 633، الرقم: 2449.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو مومن کسی دوسرے مومن کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن جنت کے پھل کھانے کے لئے دے گا۔ جو مومن کسی دوسرے مومن کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے مہر لگائی ہوئی شرابِ طہور پلائے گا، اور جو مومن کسی برہنہ مومن کو لباس پہنائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کا سبز لباس پہنائے گا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابوداود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
26. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ کَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا إِلَّا کَانَ فِي حِفْظٍ مِنَ اﷲِ مَا دَامَ مِنْهُ عَلَيْهِ خِرْقَةٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
26: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب صفة القيامة، باب 41، 4 / 651، الرقم: 2484، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 97، الرقم: 12591.
’’حضرت (عبد اﷲ) بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص کسی مسلمان کو کپڑا پہنائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے جب تک کہ پہننے والے پر اس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی باقی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیاہے۔
27. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ: سُئلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : إِدْخَالَُکَ السُّرُوْرَ عَلٰی مُؤْمِنٍ أَشْبَعْتَ جَوْعَتَهُ، أَوْ کَسَوْتَ عَرْيَهُ أَوْ قَضَيْتَ لَهُ حَاجَةً. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
27: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 202، الرقم: 5081.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا: کون کون سے اعمال سب سے افضل ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل کام مومن کے لیے خوشی مہیا کرنا ہے۔ اس طرح کہ تو نے اس کی بھوک کو مٹا دیا یا اسے لباس پہنا دیا یا اس کی کوئی ضرورت پوری کر دی۔‘‘
اس کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
28. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْکُلُ مِنْهُ طَيْرٌ، أَوْ إِنْسَانٌ، أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا کَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
28: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المزارعة، باب فضل الزرع والغرس إذا أکل منه، 2 / 817، الرقم: 2195، ومسلم في الصحيح، کتاب المساقاة، باب فضل الغرس والزرع، 3 / 1189، الرقم: 1553.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی پھل دار درخت لگاتا ہے یا کھیتی باڑی کرتا ہے اور اس میں سے پرندے، انسان یا مویشی کھاتے ہیں تو وہ اس کی طرف سے صدقہ لکھا جاتا ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
29. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا إِلَّا کَانَ مَا أُکِلَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةً، وَمَا سُرِقَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةٌ، وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ مِنْهُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ، وَمَا أَکَلَتِ الطَّيْرُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ، وَلَا يَرْزَؤُهُ أَحَدٌ إِلَّا کَانَ لَهُ صَدَقَةٌ.
وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ: کَانَ لَهُ صَدَقَةً إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
29: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب المساقاة، باب فضل الغرس والزرع، 3 / 1188، الرقم: 1552.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان کوئی پودا اُگاتا ہے تو اس درخت میں سے جو کچھ کھایا جائے وہ اس کی طرف سے صدقہ ہوجاتا ہے، جو کچھ اس سے چوری ہو وہ بھی اس کی طرف سے صدقہ ہوجاتا ہے، اور جو درندے کھالیں وہ بھی اس کے لئے صدقہ ہو جاتا ہے، اور جو کچھ پرندے کھائیں وہ بھی اس کے لئے صدقہ ہو جاتا ہے، اور جو شخص اس میں سے کم کرے گا وہ اس کا صدقہ ہوجائے گا۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ قیامت کے دن تک اس کے لئے صدقہ ہو گا۔‘‘ اِس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
30. عَنْ حُذَيْفَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : تَلَقَّتِ الْمَلَائِکَةُ رُوْحَ رَجُلٍ مِمَّنْ کَانَ قَبْلَکُمْ. فَقَالُوْا: أَعَمِلْتَ مِنَ الْخَيْرِ شَيْئًا؟ قَالَ: لَا. قَالُوْا: تَذَکَّرْ. قَالَ: کُنْتُ أُدَايِنُ النَّاسَ فَآمُرُ فِتْيَانِي: أَنْ يُنْظِرُوْا الْمُعْسِرَ وَيَتَجَوَّزُوْا عَنِ الْمُوْسِرِ. قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : قَالَ اﷲُ: تَجَوَّزُوْا عَنْهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
30: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب البيوع، باب من أنظر موسرا، 2 / 731، الرقم: 1971، ومسلم في الصحيح، کتاب المساقاة، باب فضل إنظار المعسر، 3 / 1194، الرقم: 1560.
’’حصرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلی اُمتوں کا واقعہ ہے کہ فرشتوں نے ایک شخص کی روح قبض کی اور پوچھا: کیا تم نے کوئی نیک کام کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ فرشتوں نے کہا: یاد کرو۔ اس نے کہا: میں لوگوں کو قرض دیتا تھا اور اپنے نوکروں سے کہتا تھا کہ تنگ دست کو مہلت دینا اور مالدار سے درگزر کرنا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ u نے فرشتوں سے فرمایا: اس سے درگزر کرو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
31. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ کُرْبَةً مِنْ کُرَبِ الدُّنْيَا، نَفَّسَ اﷲُ عَنْهُ کُرْبَةً مِنْ کُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ؛ وَمَنْ يَسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ، يَسَّرَ اﷲُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؛ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا، سَتَرَهُ اﷲُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؛ وَاﷲُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأًحْمَدُ وَأَبُو دَؤدَ وَالتِّرْمِذِيُّ.
31: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب فضل الاجتماع علی تلاوة القرآن وعلی الذکر، 4 / 2074، الرقم: 2699، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 252، الرقم: 7421، وأبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب في المعونة للمسلم، 4 / 287، الرقم: 4946، والترمذي في السنن، کتاب القراء ات، باب ما جاء أن القرآن أنزل علی سبعة أحرف، 5 / 195، الرقم: 2945، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی مشکلات میں سے کوئی مشکل دور کی تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے ایک مشکل دور کر دے گا، اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی پیدا فرما دے گا، اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ اس کی دنیا اور آخرت میں پردہ پوشی فرمائے گا اور جب تک کوئی بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا رہتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، احمد، ترمذی اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔
32. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ لَهُ، أَظَلَّهُ اﷲُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
32: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 359، الرقم: 8696، والترمذي في السنن، کتاب البيوع، باب ما جاء في أنظار المعسر والرفق به، 3 / 599، الرقم: 1306، والقضاعي في مسند الشهاب، 1 / 281، الرقم: 459.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کر دیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عرش کے سائے میں رکھے گا جبکہ اس دن اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ سے روایت کیا ہے۔
33. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ أَرَادَ أَنْ تُسْتَجَابَ دَعْوَتُهُ وَأَنْ تُکْشَفَ کُرْبَتُهُ فَلْيُفَرِّجْ عَنْ مُعْسِرٍ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ.
33: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 23، الرقم: 4749، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 262، الرقم: 826.
’’حضرت (عبد اﷲ) بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے اور اس کی مشکلات دور کی جائیں تو اسے چاہئے کہ وہ تنگ دست (مقروض) کے لیے آسانی پیدا کرے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور عبد بن حمید نے روایت کیا ہے۔
34. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْمَسْجِدِ، وَهُوَ يَقُوْلُ بِيَدِهِ هٰکَذَا. فَأَوْمَأَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بِيَدِهِ إِلَی الْأَرْضِ. مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ لَهُ، وَقَاهُ اﷲُ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
34: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 327، الرقم: 3017.
’’حضرت (عبد اﷲ) بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد کی طرف نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے۔ ابو عبد الرحمن نے اپنے ہاتھ کے ساتھ زمین کی طرف اشارہ کیا: جو شخص تنگ دست کو مہلت دے یا اسے معاف کر دے تو اﷲ تعالیٰ اسے دوزخ کی تیز لُو سے بچائے گا۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
35. عَنْ أَبِي الْيَسَرِ رضی الله عنه صَاحِبِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُظِلَّهُ اﷲُ فِي ظِلِّهِ، فَلْيُنْظِرْ مُعْسِرًا أَوْ لِيَضَعْ لَهُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ.
35: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الصدقة، باب إنظار المعسر، 2 / 808، الرقم: 2419، والطبراني في المعجم الکبير، 19 / 167، الرقم: 376، والبيهقي في السنن الکبریٰ، کتاب البيوع، باب من عجل له أدنی من حقه قبل محله فقبله ووضع عنه طيبة به أنفسهما، 6 / 27، الرقم: 10917.
’’صحابیِ رسول حضرت ابو الیسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ (روزِ قیامت) اسے اپنے سائے میں لے، تو اسے چاہیے کہ وہ تنگ دست کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کر دے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
36. عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُقْرِضُ مُسْلِمًا قَرْضًا مَرَّتَيْنِ إِلَّا کَانَ کَصَدَقَتِهَا مَرَّةً. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.
36: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الصدقات، باب القرض، 2 / 812، الرقم: 2430.
’’حضرت (عبد اﷲ) بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو دو مرتبہ قرض دے دے توگویا اُس نے ایک مرتبہ صدقہ دے دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
37. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلٰی بَابِ الْجَنَّةِ مَکْتُوبًا: اَلصَّدَقَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا: وَالْقَرْضُ بِثَمَانِيَةَ عَشَرَ. فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ، مَا بَالُ الْقَرْضِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ؟ قَالَ: لِأَنَّ السَّائِلَ يَسْأَلُ وَعِنْدَهُ، وَالْمُسْتَقْرِضُ لَا يَسْتَقْرِضُ إِلَّا مِنْ حَاجَةٍ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ.
37: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الصدقات، باب القرض، 2 / 812، الرقم: 2431، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 16، الرقم: 6719.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا کہ صدقے کا ثواب دس گنا اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا ہے۔ میں نے پوچھا: اے جبریل! قرض دینا صدقہ سے افضل کیوں ہے؟ جبرائیل نے کہا: اس کی وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات بھیک مانگنے والے کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا ہے پھر بھی وہ بھیک مانگتا ہے، جبکہ قرض مانگنے والابغیر حاجت کے قرض نہیں مانگتا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
38. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ. مُتَّفَقُ عَلَيْهِ.
38: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب مَوْتِ الفجأه البغتة، 1 / 467، الرقم: 1322، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب وصول ثواب الصدقة عن الميت، 2 / 696، الرقم: 1004، وفي کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلی الميت، 3 / 1254، الرقم: 1004، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 51، الرقم: 24296، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب إذا مات الفجأة هل يستحب لأهله أن يتصدقوا عنه، 6 / 250، الرقم: 3649، ومالک في الموطأ، کتاب الأقضية، باب صدقة الحي عن الميت، 2 / 760، الرقم: 1451.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا: میری والدہ ماجدہ اچانک فوت ہو گئی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر وہ گفتگو کر سکتیں تو صدقہ دیتیں، اب اگر میں ان کی طرف سے خیرات کروں تو کیا انہیں ثواب ملے گا؟ فرمایا: ہاں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
39. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدَ.
39: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته 3 / 1255، الرقم: 1631، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 372، الرقم: 8831، وأبوداود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 117، الرقم: 2880، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 / 251، الرقم: 3651، وأبو يعلی فی المسند، 11 / 343، الرقم: 6457، وأبوعوانة فی المسند، 3 / 495، الرقم: 5824.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں لیکن تین عمل منقطع نہیں ہوتے: صدقہ جاریہ، علم نافع اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
40. عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رضی الله عنه أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اﷲِ، إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ، فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الْمَائُ، قَالَ: فَحَفَرَ بِئْرًا. وَقَالَ: هٰذِهِ لِأُمِّ سَعْدٍ. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤدَ.
40: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب في فضل سقي الماء، 2 / 130، الرقم: 1681.
’’حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! سعد کی ماں (یعنی میری والدہ محترمہ) کا انتقال ہو گیا ہے۔ ان کے لیے کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پانی پلانا۔ انہوں نے کنواں کھدوایا اور کہا: یہ کنواں اُمِ سعد کے لیے ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔
41. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ، وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَکَهُ، وَمُصْحَفًا وَرَّثَهُ، أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ، أَوْ بَيْتًا لِابْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ، أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ، أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَّتِهِ وَحَيَاتِهِ يَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْبَيْهَقِيُّ.
41: أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب ثواب معلم الناس الخير، 1 / 88، الرقم: 242، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 121، الرقم: 2490، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 248، الرقم: 3448.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کے مرنے کے بعد اس کی نیکیوں اور اعمال میں سے جو چیزیں اسے نفع دیتی ہیں: ایک تو ان میں سے علم ہے جس کی وہ تعلیم دے اور پھیلائے، دوسرا نیک بیٹا ہے جسے وہ چھوڑ کر مرا ہو، تیسرا قرآن ہے کہ اس نے کسی کو اس کا وارث بنایا ہو، چوتھی مسجد ہے جس کی اس نے تعمیر کی ہو، پانچواں وہ مکان ہے جو اس نے مسافروں کے قیام کے لیے بنایا ہو، چھٹی وہ نہر ہے جو اس نے جاری کی ہو، ساتواں وہ صدقہ ہے جو اس نے اپنی زندگی میں اور بحالتِ صحت اللہ کی راہ میں دیا ہو۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو موت کے بعد بھی اس سے ملتی رہتی ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved