Allah Ta`ala Per Bandoon Kay Huqooq

اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں سے محبت کا بیان

بَابٌ فِي مَحَبَّةِ اللهِ تَعَالٰی لِعِبَادِهٖ

اَلْقُرْآن

(1) وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَةِ ج وَاَحْسِنُوْا ج اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo

(البقرۃ، 2: 195)

اور الله کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بے شک الله نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔

(2) اِنَّ اللهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَo

(البقرۃ، 2: 222)

بے شک الله بہت توبہ کرنیوالوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہےo

(3) قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo

(آل عمران، 3: 31)

(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم الله سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب الله تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور الله نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔

(4) بَلٰی مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِهٖ وَاتَّقٰی فَاِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَo

(آل عمران، 3: 76)

ہاں جو اپنا وعدہ پورا کرے اور تقویٰ اختیار کرے (اس پر واقعی کوئی مؤاخذہ نہیں) سو بے شک الله پرہیزگاروں سے محبت فرماتا ہے۔

(5) وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ لا اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَo الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo

(آل عمران، 3: 133-134)

اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت میں سب آسمان اور زمین آجاتے ہیں، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہےo یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

(6) وَکَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰـتَلَ مَعَهٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ ج فَمَا وَھَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَکَانُوْا ط وَاللهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَo وَمَا کَانَ قَوْلَهُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَo فَاٰتٰهُمُ اللهُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَةِ ط وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo

(آل عمران، 3: 146-148)

اور کتنے ہی انبیاء ایسے ہوئے جنہوں نے جہاد کیا ان کے ساتھ بہت سے اللہ والے (اولیائ) بھی شریک ہوئے، تو نہ انہوں نے ان مصیبتوں کے باعث جو انہیں اللہ کی راہ میں پہنچیں ہمت ہاری اور نہ وہ کمزور پڑے اور نہ وہ جھکے، اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اور ان کا کہنا کچھ نہ تھا سوائے اس التجا کے کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور ہمارے کام میں ہم سے ہونے والی زیادتیوں سے درگزر فرما اور ہمیں (اپنی راہ میں) ثابت قدم رکھ اور ہمیں کافروں پر غلبہ عطا فرما۔ پس اللہ نے انہیں دنیا کا بھی انعام عطا فرمایا اور آخرت کے بھی عمدہ اجر سے نوازا، اور اللہ (ان) نیکو کاروں سے پیار کرتا ہے (جو صرف اسی کو چاہتے ہیں)۔

(7) فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْلَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ ج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ ط اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَo

(آل عمران، 3: 159)

(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لیے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بے شک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے۔

(8) فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ط اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo

(المائدۃ، 5: 13)

سو آپ انہیں معاف فرما دیجیے اور درگزر فرمائیے، بے شک الله احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

(9) فَاِنْ جَآئُوْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ ج وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْھُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْکَ شَیْئًا.

(المائدۃ، 5: 42)

سو اگر (یہ لوگ) آپ کے پاس (کوئی نزاعی معاملہ لے کر) آئیں تو آپ (کو اختیار ہے کہ) ان کے درمیان فیصلہ فرمادیں یا ان سے گریز فرما لیں، اور اگر آپ ان سے گریز(بھی) فرما لیں تو (تب بھی) یہ آپ کو ہر گز کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے۔

(10) یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗٓ لا اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ز یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ ط ذٰلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ ط وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo

(المائدۃ، 5: 54)

اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب الله (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے الله کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (تعمیری کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور الله وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے۔

(11) لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا ط وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo

(المائدۃ، 5: 93)

ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اس (حرام) میں کوئی گناہ نہیں جو وہ (حکمِ حرمت اترنے سے پہلے) کھا پی چکے ہیں جب کہ وہ (بقیہ معاملات میں) بچتے رہے اور (دیگر اَحکامِ اِلٰہی پر) ایمان لائے اور اَعمالِ صالحہ پر عمل پیرا رہے، پھر (اَحکامِ حرمت کے آجانے کے بعد بھی ان سب حرام اَشیاء سے) پرہیز کرتے رہے اور (اُن کی حرمت پر صدقِ دل سے) ایمان لائے، پھر صاحبانِ تقویٰ ہوئے اور (بالآخر) صاحبانِ اِحسان (یعنی الله کے خاص محبوب و مقرب و نیکوکار بندے) بن گئے، اور الله اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔

(12) وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِیْهِمْ ط وَمَا کَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo

(الأنفال، 8: 33)

اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں۔

(13) اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَo

(التوبۃ، 9: 4)

بے شک اللہ پرہیزگاروں کو پسند فرماتا ہے۔

(14) لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِ ط فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَرُوْا ط وَاللهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَo

(التوبۃ، 9: 108)

البتہ وہ مسجد، جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، حقدار ہے کہ آپ اس میں قیام فرما ہوں۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو (ظاہراً و باطناً) پاک رہنے کو پسندکرتے ہیں، اور الله طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔

(15) نَبِّئْ عِبَادِیْٓ اَنِّیْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo

(الحجر، 15: 49)

(اے حبیب!) آپ میرے بندوں کو بتا دیجیے کہ میں ہی بے شک بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہوں۔

(16) وَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهٗ وَاَنَّ اللهَ تَوَّابٌ حَکِیْمٌo

(النور، 24: 10)

اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو تم ایسے حالات میں زیادہ پریشان ہوتے) اور بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا بڑی حکمت والا ہے۔

(17) فَاِنْ فَآئَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ط اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo

(الحجرات، 49: 9)

پھر اگر وہ رجوع کر لے تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو، بے شک الله انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے۔

(18) لَا یَنْهٰکُمُ اللهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْهِمْ ط اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo

(الممتحنۃ، 60: 9)

اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

(19) وَ ھُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُo

(البروج، 85: 14)

اور وہ بڑا بخشنے والا بہت محبت فرمانے والا ہے۔

اَلْحَدِیْث

1: 1. عَنْ مُعَاذٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ ﷺ عَلٰی حِمَارٍ، یُقَالُ لَهٗ عُفَیْرٌ، فَقَالَ: یَا مُعَاذُ، هَلْ تَدْرِي حَقَّ اللهِ عَلٰی عِبَادِهٖ، وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللهِ؟ قُلْتُ: اللهُ وَرَسُوْلُهٗ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّ حَقَّ اللهِ عَلَی الْعِبَادِ أَنْ یَعْبُدُوْهُ، وَلَا یُشْرِکُوْا بِهٖ شَیْئًا، وَحَقَّ الْعِبَادِ عَلَی اللهِ أَنْ لَا یُعَذِّبَ مَنْ لَا یُشْرِکُ بِهٖ شَیْئًا. فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَفَـلَا أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ؟ قَالَ: لَا تُبَشِّرْهُمْ فَیَتَّکِلُوْا.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجھاد، باب اسم الفَرَسِ والحمار، 3: 1049، الرقم: 2701، وأیضا في کتاب اللباس، باب إرداف الرجل خلف الرجل، 5: 2224، الرقم: 5622، وأیضًا في کتاب الاستئذان، باب من أجاب بَلبّیک وسعدیک، 5: 2312، الرقم: 5912، وأیضا في کتاب الرقاق، باب من جاہد نفسہ في طاعۃ الله، 5: 2384، الرقم: 6135، وأیضًا في کتاب التوحید، باب ما جاء في دُعائِ النّبيِّ ﷺ أمَّتَهٗ إلی توحید الله تبارک وتعالی، 6: 2685، الرقم: 6938، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب الدلیل علی أن من مات علی التوحید دخل الجنۃ، 1: 58-59، الرقم: 30، والترمذي في السنن، کتاب الإیمان، باب ما جاء في افتراق ھذہ الأمۃ، 5: 26، الرقم: 2643.

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: میں حضور نبی اکرم ﷺ کے پیچھے عفیر نامی دراز گوش پر سوار تھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اے معاذ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے، اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جو شخص عبادت میں کسی کو اُس کا شریک نہ ٹھہرائے (تو اُس کی توحید پرستی کی بنا پر) الله تعالیٰ اُسے عذاب نہ دے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں یہ خوش خبری لوگوں تک نہ پہنچادوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ انہیں یہ خوش خبری مت دو کہ پھر وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہیں گے (اور عمل میں کوتاہی کریں گے)۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2: 2. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَدِمَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ سَبْيٌ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنَ السَّبْيِ قَدْ تَحْلُبُ ثَدْیَهَا تَسْقِي إِذَا وَجَدَتْ صَبِیًّا فِي السَّبْيِ، أَخَذَتْهُ فَأَلْصَقَتْهُ بِبَطْنِهَا وَأَرْضَعَتْهُ. فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ ﷺ: أَتُرَوْنَ هٰذِهٖ طَارِحَۃً وَلَدَهَا فِي النَّارِ؟ قُلْنَا: لَا، وَهِيَ تَقْدِرُ عَلٰی أَنْ لَا تَطْرَحَهٗ. فَقَالَ: لَلّٰهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهٖ مِنْ هٰذِهٖ بِوَلَدِهَا.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، 5: 2235، الرقم: 5653، ومسلم في الصحیح، کتاب التوبۃ، باب في سعۃ رحمۃ الله تعالی وأنھا سبقت غضبہ، 4: 2109، الرقم: 2754.

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس چند قیدی آئے۔ اُن قیدیوں میں موجود ایک عورت کی چھاتیوں میں دودھ بھرا ہوا تھا۔ جب وہ قیدیوں میں کسی (دودھ پیتے) بچے کو دیکھتی تو اسے پکڑ کر سینے سے لگا لیتی اور اُسے اپنا دودھ پلانے لگتی۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم ﷺ نے ہم سے (مخاطب ہو کر) فرمایا: کیا تمہارے خیال میں یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے: نہیں (یا رسول الله!)، جبکہ وہ اسے آگ میں نہ ڈالنے پر قدرت بھی رکھتی ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جتنی یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3: 3. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: سَبْعَةٌ یُظِلُّهُمُ اللهُ فِي ظِلِّهٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهٗ، الْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهٖ، وَرَجُلٌ قَلْبُهٗ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللهِ اجْتَمَعَا عَلَیْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفٰی حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُهٗ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُهٗ، وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللهَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاهُ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب من جلس في المسجد ینتظر الصلاۃ وفضل المساجد، 1: 234، الرقم: 629، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب فضل إخفاء الصدقۃ، 2: 715، الرقم: 1031، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 439، الرقم: 9663، والترمذي في السنن، کتاب الزہد، باب ما جاء في الحب في الله، 4: 598، الرقم: 2391، والنسائي في السنن، کتاب آداب القضاۃ، باب الإمام العادل، 8: 222، الرقم: 5380، ومالک في الموطأ، 2: 952، الرقم: 1709۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سات لوگ ایسے ہیں جنہیں الله تعالیٰ اُس دن اپنا سایہ (رحمت) عطا کرے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا: (1) عادل حکمران، (2) ایسا جوان جو ہمہ وقت اپنے رب کی عبادت میں پروان چڑھا ہو، (3) ایسا شخص جس کا دل مساجد میں معلق رہتا ہو، (4) ایسے دو اَفراد جو الله کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں اور الله کے لیے اکٹھے ہوں اور اسی کے لیے جدا ہوں، (5) ایسا شخص جس کو کسی صاحبِ منصب اور صاحبِ جمال عورت نے (برائی کے ارادے سے) طلب کیا ہو تو وہ کہے: ’میں الله سے ڈرتا ہوں‘، (6) ایسا شخص جو خفیہ صدقہ کرے حتیٰ کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی دائیں ہاتھ کے خرچ کرنے کا علم نہ ہو، (7) ایسا شخص جس نے تنہائی میں الله کو یاد کیا تو (خوف یا محبتِ اِلٰہی سے) اس کی آنکھوں سے آنسو برس پڑے ہوں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

4: 4. عَنْ أَبِي ھُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِذَا أَحَبَّ اللهُ الْعَبْدَ نَادیٰ جِبْرِیْلَ: إِنَّ اللهَ یُحِبُّ فُـلَانًا، فَأَحْبِبْهُ، فَیُحِبُّهٗ جِبْرِیْلُ، فَیُنَادِي جِبْرِیْلُ فِي أَھْلِ السَّمَاءِ: إِنَّ اللهَ یُحِبُّ فُـلَانًا، فَأَحِبُّوْهُ، فَیُحِبُّهٗ أَھْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ یُوْضَعُ لَهُ الْقَبُوْلُ فِي الْأَرْضِ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، 3: 1175، الرقم: 3037، وأیضًا في کتاب الأدب، باب المِقَةِ من الله تعالی، 5: 2246، الرقم: 5693، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب إذا أحب الله عبدا حببہ إلی عبادہ، 4: 2030، الرقم: 2637، ومالک في الموطأ، 2: 953، الرقم: 1710.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو آواز دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لهٰذا تم بھی اس سے محبت کرو تو جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر جبرائیل علیہ السلام آسمانی مخلوق میں ندا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے لهٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور پھر زمین والوں (کے دلوں) میں (بھی) اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

5: 5. عَنْ أَبِي ھُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ قَالَ: مَنْ عَادٰی لِي وَلِیًّا، فَقَدْ آذَنْتُهٗ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْهِ، وَمَا یَزَالُ عَبْدِي، یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّهٗ، فَإِذَا أَحَبَبْتُهٗ: کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي یَسْمَعُ بِهٖ، وَبَصَرَهُ الَّذِي یُبْصِرُ بِهٖ، وَیَدَهُ الَّتِي یَبْطِشُ بِھَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي یَمْشِي بِھَا، وِإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِیَنَّهٗ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي، لَأُعِیْذَنَّهٗ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب التواضع، 5: 2384، الرقم: 6137، وابن حبان في الصحیح، 2: 58، الرقم: 347، والبیھقي في السنن الکبری، 10: 219، وأیضًا في کتاب الزھد الکبیر، 2: 269، الرقم: 696.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے، میں اُس سے اعلانِ جنگ کر دیتا ہوں اور میرے بندے کا فرائض کی ادائیگی کے ذریعے میرا قرب پانا دیگر اعمال (مستحبات وغیرہ) کے ذریعے قرب پانے سے مجھے زیادہ محبوب ہے، اور میرا (صالح) بندہ نفلی عبادات کے ذریعے مسلسل میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔

اسے امام بخاری اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

رُوِيَ أَنَّ اللهَ تَعَالٰی أَوْحٰی إِلٰی یَحْیَی بْنِ زَکَرِیَّا علیهما السلام: إِنِّي قَضَیْتُ عَلٰی نَفْسِيْ أَنْ لَّا یُحِبَّنِي عَبْدٌ مِنْ عِبَادِي أَعْلَمُ ذٰلِکَ مِنْ قَلْبِهٖ إِلَّا کُنْتُ سَمْعَهٗ وَبَصَرَهٗ وَلِسَانَهٗ، وأُبْغِضُ إِلَیْهِ کُلَّ شَيئٍ، وَأَمْنَعُهٗ شَهَوَاتِ الدُّنْیَا وَلَذَّاتِهَا، وَطِیْبَ عَیْشِهَا، وَأَطَّلِعُ عَلَیْهِ فِي کُلِّ یَومٍ سَبْعِینَ أَلْفَ مَرَّۃٍ، وَأَزِیْدُ لَهٗ کُلَّ سَاعَۃٍ لَذَائِذَ حُبِّي، وَحَلَاوَةَ أُنْسِي، وَأَمْلَأُ قَلْبَهٗ نُوْراً مِنِّي، حَتّٰی یَنْظُرَ إِلَيَّ کُلَّ سَاعَۃٍ فَأَمْسَحُ بِرَأْسِهٖ، وَأَضَعُ یَدِي عَلٰی أَلَمِ قَلْبِهٖ، حَتّٰی لَا یَشْکُوَ مِنْهُ، وَأَنَا أَسْمَعُ خَفَقَانَ قَلْبِهٖ مِنَ الشَّوْقِ إِلٰی لِقَائِي، وَالْخَوْفِ مِنْ قَطِیعَتِي، وَهُوَ یَقُوْلُ: حَقِیقٌ عَلَيَّ أَنْ لَّا یَسْکُنَ قَلْبِي حَتّٰی أَصِلَ إِلَیکَ یَا رَبِّي.

یَا یَحْیٰی، وَکَیفَ یَسْکُنُ قَلْبُ الْمُشْتَاقِ وَأَنَا غَایَۃُ مَنِیَّتِهٖ، وَمُنْتَهٰی أَمَلِهٖ، وَهُوَ کُلُّ سَاعَۃٍ یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ وَأَتَقَرَّبُ إِلَیْهِ، وَأَسْمَعُ کَلَامَهٗ، وَأَعْلَمُ أَسَفَهٗ، وَأُحِبُّ صَوْتَهٗ؟ فَوَعِزَّتِي وَجَلَالِي، لَأَنْقُبَنَّهٗ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مَنْقَباً یَغْبِطُهُ الأَوَّلُوْنَ وَالآخِرُوْنَ، ثُمَّ آمُرُ مُنَادِیاً یُنَادِي مِنْ تَحْتِ عَرْشِي: هٰذَا فُلَانُ بْنُ فُلاَنٍ، وَلِيُّ اللهِ وَصَفِیُّهٗ، دَعَاهُ اللهُ لِیُقِرَّ عَیْنَهٗ، ثُمَّ آمُرُ بِرَفْعِ الْحِجَابِ حَتّٰی یَنْظُرَ حَبِیْبِي إِلَيَّ، وَأَقُوْلُ: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَبْدِيْ وَوَلِیِّيْ أُبَشِّرُکَ. قَالَ: فَغُشِيَ عَلٰی یَحْیٰی فَلَمْ یُفِقْ ثَـلَاثَةَ أَیَّامٍ، فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ: سُبْحَانَکَ، سُبْحَانَکَ، مَا أَکْثَرَ تَوَدُّدَکَ إِلٰی أَوْلِیَائِکَ وَأَصْفِیَائِکَ، لَا یَفْصِلُ عَنْکَ الْأَمَلُ، یَا خَیْرَ صَاحِبٍ وَأَنِیْسٍ، فَنِعْمَ الْمَوْلٰی أَنْتَ، وَنِعْمَ النَّصِیْرُ.

ذَکَرَهُ الرِّفَاعِيُّ فِي حَالَةِ أَهْلِ الْحَقِیْقَةِ.

الرفاعي في حالۃ أھل الحقیقۃ مع الله: 149.

روایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کو وحی فرمائی: میں نے اپنے بارے میں یہ طے کر لیا ہے کہ مجھ سے جو کوئی بندہ محبت کرے گا اور میں نے اُس کے دل کو اپنی محبت سے لبریز پایا تو میں اُس کی سماعت، بصارت اور زبان ہو جاؤں گا، ہر دنیاوی شے کو اُس کے دل میں مبغوض بنا دوں گا، اُسے دنیوی خواہشوں، لذتوں اور عیش و عشرت سے باز رکھوں گا، ہر دن اُس پر ستر ہزار مرتبہ نظر رحمت فرماؤں گا، ہر ساعت اپنی محبت کی لذتیں اور اپنے انس کی حلاوت بڑھاؤں گا اور اُس کے قلب کو اپنے نور سے معمور کر دوں گا حتیٰ کہ وہ ہر ساعت میرے جلووںسے بہرہ ور ہو گا، میں اُس کے سر پر دستِ قدرت اور اُس کے قلب کے روگ پر اپنا دستِ شفقت رکھوں گا تاکہ وہ اُس روگ کی شکایت نہ کرے۔ میں اپنے محب کے دل کی اُس کسک کو سنتا ہوں جو میرے شوق میں پیدا ہوتی ہے اور مجھ سے جدائی کا کھٹکا جو اُس کے دل میں ہوتا ہے اور وہ کہہ رہا ہوتا ہے: یا رب! میرے لیے تیرا وصال ضروری ہے کہ میرا دل تیرے وصال کے بغیر مطمئن نہیں ہوتا۔

اے یحییٰ! بھلا محب کا قلب کیسے قرار پا سکتا ہے؟ حالانکہ میں ہی اس کی آرزو اور اُمید کی غرض و غایت ہوں، وہ ہر لمحہ میرے قرب کا متلاشی ہے اور میں اُسے قریب کرتا رہتا ہوں، میں اُس کا کلام سنتا ہوں، اُس کی اداسی جانتا ہوں اور اُس کی آواز کو پسند کرتا ہوں۔ مجھے میری عزت و جلال کی قسم! قیامت کے دن میں اُسے ایسے مرتبہ پر فائز کروں گا کہ اُس پر اولین و آخرین رشک کریں گے، پھر ایک منادی باآواز بلند کہے گا: یہ اللہ تعالیٰ کا دوست اور اُس کا چنیدہ فلاں بن فلاں ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے مدعو کیا ہے تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی کرے۔ پھر میں حجابات اٹھا دوں گا تاکہ میرا محب میرا دیدار کر سکے، اور میں کہوں گا: ’السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَبْدِي وَوَلِیِّيْ أُبَشِّرُکَ‘ (میرے بندے اور میرے دوست!تجھے سلام اور خوش آمدید)۔ اس کے بعد حضرت یحییٰ علیہ السلام پر غشی طاری ہو گئی تو وہ مسلسل تین روز تک افاقہ میں نہ آئے، جب وہ ہوش میں آئے توکہنے لگے: تو پاک ہے، تو پاک ہے، تیری اپنے اولیاء و اصفیاء کے ساتھ کیا ہی بھرپور محبت ہے کہ تجھ سے آرزو کا سلسلہ منقطع ہی نہیں ہوتا، اے بہترین ساتھی اور بہترین مونس! تو کتنا ہی بہترین مولیٰ اور مددگار ہے۔

اِسے امام رفاعی نے حالۃ أھل الحقیقہ مع الله میں بیان کیا ہے۔

6: 6. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ تَعَالٰی یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ: أَیْنَ الْمُتَحَابُّوْنَ بِجَلَالِي؟ اَلْیَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّي.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجہ مسلم في صحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب في فضل الحب في الله، 4: 1988، الرقم: 2566، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 237، الرقم: 723، والدارمي في السنن، 2: 403، الرقم: 2757، وابن حبان في الصحیح، 2: 334، الرقم: 574، والبیھقي في السنن الکبری،10: 232، الرقم: 20856.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: میری عظمت و جلال کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں انہیں اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دوں گا۔ یہ دن وہ دن ہے کہ جس میں میرے سایہ رحمت و کرم کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں۔

اِسے امام مسلم، احمد، دارمی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

7-8: 7. عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: قَالَ اللهُ تعالیٰ : اَلْمُتَحَابُّوْنَ فِي جَـلَالِي لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُوْرٍ یَغْبِطُهُمُ النَّبِیُّوْنَ وَالشُّهَدَاءُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَأَبُوْ نُعَیْمٍ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5: 239، الرقم: 22133، والترمذي في السنن،کتاب الزہد، باب ما جاء في الحب في الله، 4: 597، الرقم: 2390، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیائ، 2: 131، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 4: 11، الرقم: 4576، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 58: 425.

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے (قیامت کے دن) نور کے (ایسے) منبر (بچھے) ہوں گے جن پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے۔

اِسے امام اَحمد نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ میں اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

(8) وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: قَالَ اللهُ تَعَالٰی: وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِيَّ، وَالْمُتَجَالِسِیْنَ فِيَّ، وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِيَّ، وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِيَّ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَمَالِکٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: وَإِسْنَادُهٗ صَحِیْحٌ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5: 233، الرقم: 22083، ومالک في الموطأ،کتاب الشعر، باب ما جاء في المتحابین في الله، 2: 953، الرقم: 1711، وابن حبان في الصحیح وصحّحہ، 2: 335، الرقم: 575، والحاکم في المستدرک، 4: 186، الرقم: 7314، والطبراني في المعجم الکبیر،20: 80، الرقم: 150، والبیھقي في السنن الکبری،10: 233، وابن عبد البر في الاستذکار، 8: 451، وأیضًا في التمہید، 21: 125، وقال: ہو إسنادہ صحیح، وذکرہ المنذري في الترغیب والترہیب، 4: 10، الرقم: 4574.

ایک اور روایت میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول الله ﷺ کو یہ فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میری خاطر محبت کرنے والوں، میری خاطر مجالس قائم کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے سے ملاقات کرنے والوں اور میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں کے لیے میری محبت واجب ہوگئی۔

اِسے امام اَحمد، مالک، ابن حبان اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔ امام منذری نے بھی فرمایا: اِس کی اِسناد صحیح ہیں۔

9: 8. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوْا، أَوَلَا أَدُلُّکُمْ عَلٰی شَيئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوْهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّـلَامَ بَیْنَکُمْ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ.

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان أنہ لا یدخل الجنۃ إلا المؤمنون وأن محبۃ المؤمنین من الإیمان وأن إفشاء السلام سبب لحصولھا، 1: 74، الرقم: 54، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 512، الرقم: 10658، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في إفشاء السلام، 4: 350، الرقم: 5193، والترمذي في السنن، کتاب الاستئذان والآداب، باب ما جاء في إفشاء السلام، 5: 52، الرقم: 2688، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب، باب إِفشاء السلام، 2: 1217، الرقم: 3692.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو گے جب تک تم ایمان نہ لاؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتائوں جس پر تم عمل کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو؟ (اور وہ عمل یہ ہے کہ) اپنے درمیان سلام کو پھیلایا کرو (یعنی کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کیا کرو)۔

اِسے امام مسلم، احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

10: 9. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّ رَجُلًا زَارَ أَخًا لَهٗ فِي قَرْیَۃٍ أُخْرٰی فَأَرْصَدَ اللهُ لَهٗ عَلٰی مَدْرَجَتِهٖ مَلَکًا، فَلَمَّا أَتٰی عَلَیْهِ، قَالَ أَیْنَ تُرِیدُ؟ قَالَ: أُرِیْدُ أَخًا لِي فِي هٰذِهِ الْقَرْیَةِ، قَالَ: هَلْ لَکَ عَلَیْهِ مِنْ نِعْمَۃٍ تَرُبُّهَا؟ قَالَ: لَا غَیْرَ أَنِّي أَحْبَبْتُهٗ فِي اللهِ تعالیٰ، قَالَ: فَإِنِّي رَسُوْلُ اللهِ إِلَیْکَ بِأَنَّ اللهَ قَدْ أَحَبَّکَ کَمَا أَحْبَبْتَهٗ فِیْهِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب في فضل الحب في الله، 4: 1988، الرقم: 2567، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 408، الرقم: 9280، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7: 64، الرقم: 34223، وعبد الله بن المبارک في المسند، 1: 5، الرقم: 4، وابن حبان في الصحیحِ، 2: 331، الرقم: 572.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کے لیے ایک دوسری بستی میں گیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے راستہ میں ایک فرشتہ کو اس کے انتظار کے لیے بھیج دیا، جب اس شخص کا اس کے پاس سے گزر ہوا تو فرشتے نے پوچھا کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ اس شخص نے کہا اس بستی میں میرا ایک بھائی ہے اس سے ملنے کا ارادہ ہے، فرشتہ نے پوچھا کیا تم نے اس پر کوئی احسان کیا ہے جس کی تکمیل مقصود ہے، اس نے کہا اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ مجھے اس سے صرف اللہ کے لیے محبت ہے، تب اس فرشتہ نے کہا میں تمہارے پاس اللہ کا یہ پیغام لایا ہوں کہ جس طرح تم اس شخص سے محض اللہ تعالیٰ کی وجہ سے محبت کرتے ہو اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔

اِسے امام مسلم، احمد، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

11: 10. عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَجُلًا کَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَمَرَّ بِهٖ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي لَأُحِبُّ هٰذَا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ: أَعْلَمْتَهٗ، قَالَ: لَا، قَالَ: أَعْلِمْهُ، قَالَ فَلَحِقَهٗ، فَقَالَ: إِنِّي أُحِبُّکَ فِي اللهِ، فَقَالَ: أَحَبَّکَ الَّذِي أَحْبَبْتَنِي لَهٗ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3: 140، الرقم: 12453، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب إخبار الرجل الرجل بمحبتہ إلیہ، 4: 333، الرقم: 5125، والنسائي في السنن الکبری، 6: 54، الرقم: 10010، وأبو یعلی في المسند، 6: 162، الرقم: 3442، والطبراني في المعجم الکبیر، 20: 92، الرقم: 178.

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا تو دوسرا شخص اس کے پاس سے گزرا اور عرض گزار ہوا کہ یا رسول الله! میں اس سے محبت رکھتا ہوں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم نے اسے بتا دیا ہے؟ عرض کیا: نہیں، فرمایا کہ اسے بتا دو۔ وہ اس سے ملا اور کہا: میں آپ سے خدا کے لیے محبت رکھتا ہوں۔ دوسرے نے کہا: آپ سے وہ (الله) محبت کرے جس کی خاطر آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔

اِسے امام احمد، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

12-13: 11. عَنِ الْبَرَائِ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ، أَوْ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: الْأَنْصَارُ لَا یُحِبُّھُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا یُبْغِضُھُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ، فَمَنْ أَحَبَّھُمْ أَحَبَّهُ اللهُ، وَمَنْ أَبْغَضَھُمْ أَبْغَضَهُ اللهُ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب حب الأنصار، 3: 1379، الرقم: 3572، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب الدلیل علی أن حب الأنصار و علي رضوان اللہ علیہم اجمعین من الإیمان وعلاماتہ، 1: 85، الرقم: 75، وأحمد بن حنبل في المسند، 4: 292، الرقم: 18599، وأیضًا في فضائل الصحابۃ، 2: 807، الرقم: 1455، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل الأنصار وقریش، 5: 712، الرقم: 3900، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب فضل الأنصار، 1: 57، الرقم: 163، وابن مندہ في الإیمان، 2: 608، الرقم: 534، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6: 398، الرقم: 32353، والطبراني في المعجم الأوسط، 7: 91، الرقم: 6946، والبیہقي في شعب الإیمان، 2: 190، الرقم: 1509، والمروزي في تعظیم قدر الصلاۃ، 1: 456، الرقم: 473.

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، یا آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: انصار سے صرف مومن محبت کرتا ہے اور ان سے بغض صرف منافق رکھتا ہے۔ جس نے اُن سے محبت رکھی اس سے اللہ تعالیٰ نے محبت رکھی اور جس نے اُن سے بغض رکھا اُس سے اللہ تعالیٰ نے بغض رکھا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

(13) وَفِي رِوَایَةِ مُجَاهِدٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما قَالَ: قَالَ لِي: أَحِبَّ فِي اللهِ، وَأَبْغِضْ فِي اللهِ، وَوَالِ فِي اللهِ، وَعَادِ فِي اللهِ، فَإِنَّهٗ لَا تُنَالُ وِلَایَۃُ اللهِ إِلَّا بِذٰلِکَ، وَلَا یَجِدُ رَجُلٌ طَعْمَ الإِیْمَانِ، وَإِنْ کَثُرَتْ صَلَاتُهٗ وَصِیَامُهٗ، حَتّٰی یَکُوْنَ کَذٰلِکَ، وَصَارَتْ مُؤَاخَاۃُ النَّاسِ فِي أَمْرِ الدُّنْیَا، وَإِنَّ ذٰلِکَ لَا یَجْزِي عَنْ أَهْلِهٖ شَیْئًا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَکِ.

أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 12: 417، الرقم: 13537، وعبد الله بن المبارک في الزھد، 1: 120، الرقم: 353، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیائ، 1: 312.

مجاہد (تابعی) حضرت (عبد الله) بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: اُنہوں نے مجھ سے فرمایا: الله تعالیٰ ہی کے لیے (کسی سے) محبت رکھو، الله تعالیٰ ہی کے لیے (کسی سے) بُغض رکھو، الله تعالیٰ ہی کے لیے (کسی سے) دوستی کرو اور الله تعالیٰ ہی کے لیے (کسی سے) دشمنی رکھو۔ بے شک الله تعالیٰ کی دوستی اِن چیزوں کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ کوئی شخص اُس وقت تک ایمان کا ذائقہ نہیں چکھ سکتا جب تک وہ ایسا نہ ہو جائے اگرچہ اُس کی نمازیں اور روزے بہت زیادہ ہوں۔ اِس صورت میں لوگوں سے بھائی چارہ دُنیاوی اُمور میں سے ہو گا اور یہ اپنے اہل کو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔

اِسے امام طبرانی اور عبد الله بن مبارک نے روایت کیا ہے۔

14: 12. عَنْ أَبِي سَعِیدٍ وَأَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہما أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلَی النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهٗ قَالَ: مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرُ. صَدَّقَهٗ رَبُّهٗ. فَقَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنَا، وَأَنَا أَکْبَرُ. وَإِذَا قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ. قَالَ: یَقُولُ اللهُ: لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنَا وَحْدِي. وَإِذَا قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهٗ لَا شَرِیکَ لَهٗ. قَالَ اللهُ: لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنَا وَحْدِي، لَا شَرِیکَ لِي. وَإِذَا قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، لَهُ الْمُلْکُ، وَلَهُ الْحَمْدُ. قَالَ اللهُ: لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنَا، لِيَ الْمُلْکُ، وَلِيَ الْحَمْدُ. وَإِذَا قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ. قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنَا، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِي. وَکَانَ یَقُولُ: مَنْ قَالَهَا فِي مَرَضِهٖ ثُمَّ مَاتَ لَمْ تَطْعَمْهُ النَّارُ.

رَوَاهُ التِّرَمِذِيُّ وابْنُ مَاجَہ وَالْحَاکِمُ وابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ.

أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب ما یقول العبد إذا مرض، 5: 492، الرقم: 3430، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب، باب فضل لا إلٰہ إلا الله، 2: 1246، الرقم: 3794، وأبو یعلی في المسند، 11: 14، الرقم: 6154، والحاکم في المستدرک، 1: 46، الرقم: 8، وابن حبان في الصحیح، 3: 131، الرقم: 851.

حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما دونوں رسول الله ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرُ کہے، اللہ تعالیٰ اس کی تصدیق کرتا ہے اور فرماتا ہے: میرے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں سب سے بڑا ہوں۔ جب بندہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے علاوہ کوئی معبود نہیں، میں ایک ہوں۔ جب بندہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیکَ لَهٗ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے علاوہ کوئی معبود نہیں، میں ایک ہوں، میرا کوئی شریک نہیں۔ جب بندہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، لَهُ الْمُلْکُ، وَلَهُ الْحَمْدُ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تمام بادشاہی اور سب تعریفیں میرے لیے ہیں۔ جب بندہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میری مدد کے بغیر کوئی قوت و طاقت نہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے: جو آدمی اپنی بیماری میں یہ کلمات کہے اور پھر فوت ہو جائے تو اسے آگ نہیں جلائے گی۔

اِسے امام ترمذی، ابن ماجہ، حاکم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا ہے: یہ حدیث حسن ہے۔

عَنْ أَبِي مُوْسَی الدَّیْبُلِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُـلًا یَسْأَلُ أَبَا یَزِیْدَ فَقَالَ: دُلَّنِي عَلٰی عَمَلٍ أَتَقَرَّبُ بِهٖ إِلٰی رَبِّي تعالیٰ؟ فَقَالَ: أَحْبِبْ أَوْلِیَائَ اللهِ تَعَالٰی لِیُحِبُّوْکَ، فَإِنَّ اللهَ تَعَالٰی یَنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِ أَوْلِیَائِهٖ، فَلَعَلَّهٗ أَنْ یَنْظُرَ إِلَی اسْمِکَ فِي قَلْبِ وَلِیِّهٖ فَیَغْفِرُ لَکَ.

ذَکَرَهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي صِفَةِ الصَّفْوَةِ.

ابن الجوزي في صفۃ الصفوۃ، 4: 112، وابن الملقن في حدائق الأولیاء: 202.

حضرت ابو موسی الدَیبلی بیان کرتے ہیں: میں نے ایک شخص کو امام ابو یزید بسطامی سے یہ سوال کرتے ہوئے سنا: مجھے ایسا عمل بتائیں جس کے ذریعے میں الله تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکوں؟ اُنہوں نے فرمایا: الله تعالیٰ کے اولیاء سے محبت کرو تاکہ وہ تجھ سے محبت کرے۔ الله تعالیٰ اپنے اولیاء کے دلوں کی طرف نظر (محبت و شفقت) فرماتا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارا نام کسی ولی کے دل میں پائے اور تمہاری مغفرت فرما دے۔

اِسے علامہ ابن الجوزی نے صفۃ الصفوۃ میں ذکر کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved