1. فَصْلٌ فِي مُعْجِزَاتِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم
(حضور نبی اکرم ﷺ کے معجزات کا بیان)
2. فَصْلٌ فِي کَرَامَاتِ الْأَوْلِيَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ رضى الله عنهم
(اولیاء اور صالحین رضی اللہ عنھم کی کرامات)
745 / 1. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضى الله عنه قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَي عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم فِلْقَتَيْنِ. فَسَتَرَ الْجَبَلُ فِلْقَةً وَکَانَتْ فِلْقَةٌ فَوْقَ الْجَبَلِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم: اللَّهُمَّ اشْهَدْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
وفي رواية: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضى الله عنه أَنَّ أَهْلَ مَکَّةَ سَأَلُوْا رَسُوْلَ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً، فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ مَرَّتَيْنِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
الحديث رقم 1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: سؤال المشرکين أن يريهم النبي صلى الله عليه وآله وسلم آية، فأراهم انشقاق القمر، 3 / 1330، الرقم: 3437 - 3439، وفي کتاب: التفسير / القمر، باب: وَانْشَقَّ الْقَمَرُ: وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوْا، (1، 2)، 4 / 1843، الرقم: 4583 - 4587، ومسلم في الصحيح، کتاب: صفات المنافقين وأحکامهم، باب: انشقاق القمر، 4 / 2158 - 2159، الرقم: 2800 - 2801، والترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: من سورة القمر، 5 / 398، الرقم: 3285 - 3289، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 476، الرقم: 1552 - 1553، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 377، الرقم: 3583، 3924، 4360، وابن حبان في الصحيح، 4 / 420، الرقم: 6495، والحاکم في المستدرک، 2 / 513، الرقم: 3758 - 3761، وَ قَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ. والبزار في المسند، 5 / 202، الرقم: 1801 - 1802، وأبويعلي في المسند، 5 / 306، الرقم: 2929، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 132، الرقم: 1559 - 1561، والطيالسي في المسند، 1 / 37، الرقم: 280، والشاشي في المسند، 1 / 402، الرقم: 404.
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ حضور نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں پیش آیا، ایک ٹکڑا پہاڑ میں چھپ گیا اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ تعالیٰ توگواہ رہنا۔‘‘
’’اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ اہل مکہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا تو آپ ﷺ نے انہیں دو مرتبہ چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائے۔‘‘
746 / 2. عَنْ أَنَسٍ رضى الله عنه أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَي النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَهُوَ يَخْطُبُ بِالْمَدِيْنَةِ، فَقَالَ: قَحَطَ الْمَطَرُ، فَاسْتَسْقِ رَبَّکَ. فَنَظَرَ إِلَي السَّمَاءِ وَمَا نَرَي مِنْ سَحَابٍ، فَاسْتَسْقَي، فَنَشَأَ السَّحَابُ بَعْضُهُ إِلَي بَعْضٍ، ثُمَّ مُطِرُوْا حَتَّي سَالَتْ مَثَاعِبُ الْمَدِيْنَةِ، فَمَا زَالَتْ إِلَي الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ مَا تُقْلِعُ، ثُمَّ قَامَ ذَلِکَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ، فَقَالَ: غَرِقْنَا، فَادْعُ رَبَّکَ يَحْبِسْهَا عَنَّا، فَضَحِکَ ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا. مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَجَعَلَ السَّحَابُ يَتَصَدَّعُ عَنِ الْمَدِيْنَةِ يَمِيْنًا وَشِمَالًا، يُمْطَرُ مَا حَوَالَيْنَا وَلَا يُمْطَرُ مِنْهَا شَيئٌ، يُرِيْهِمُ اللهُ کَرَامَةَ نَبِيِهِ صلى الله عليه وآله وسلم وَإِجَابَةَ دَعْوَتِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأدب، باب: التبسم والضحک، 5 / 2261، الرقم: 5742، وفي کتاب: الدعوات، باب: الدعاء غير مستقبل القبلة، 5 / 2335، الرقم: 5982، وفي کتاب: الجمعة، باب: الاستسقاء في الخطبة يوم الجمعة، 1 / 315، الرقم: 891، وفي کتاب: الاستسقاء، باب: الاستسقاء في المسجد الجامع، 1 / 343، الرقم: 967، وفي باب: الاستسقاء في خطبة مستقبل القبلة، 1 / 344، الرقم: 968، وفي باب: إذا استشفع المشرکون بالمسلمين عند القحط، 1 / 346، الرقم: 974، وفي باب: من تمطر في المطر حتي يتحادر علي لحيته، 1 / 349، الرقم: 986، وفي کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1313، الرقم: 3389، ومسلم في الصحيح، کتاب: الاستسقاء، باب: الدعاء في الاستسقاء، 2 / 612 - 614، الرقم: 897، وأبوداود في السنن، کتاب: صلاة الاستسقاء، باب: رفع اليدين في الاستسقاء، 1 / 304، الرقم: 1174، والنسائي في السنن، کتاب: الاستسقاء، باب: کيف يرفع، 3 / 159 - 166، الرقم: 1515، 1517، 1527 - 1528، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في الدعاء في الاستسقاء، 1 / 404، الرقم: 1269، والنسائي في السنن الکبري، 1 / 558، الرقم: 1818، وابن الجارود في المنتقي، 1 / 75، الرقم: 256، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 338، الرقم: 1423، وابن حبان في الصحيح، 3 / 272، الرقم: 992، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 92، الرقم: 4911، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 104، الرقم: 12038، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 221، الرقم: 5630، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 28، الرقم: 29225، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 321، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 187، الرقم: 592، وفي المعجم الکبير، 10 / 285، الرقم: 10673، وأبويعلي في المسند، 6 / 82، الرقم: 3334.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ مدینہ منورہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے اس نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) بارش نہ ہونے کے باعث قحط پڑ گیا ہے لہٰذا اپنے رب سے بارش مانگئے، تو آپ ﷺ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور ہمیں کوئی بادل نظر نہیں آ رہا تھا۔ آپ ﷺ نے بارش مانگی تو فوراً بادلوں کے ٹکڑے آ کر آپس میں ملنے لگے پھر بارش ہونے لگی یہاں تک کہ مدینہ منورہ کی گلیاں بہہ نکلیں اور بارش متواتر اگلے جمعہ تک ہوتی رہی پھر وہی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا جبکہ حضور نبی اکرم ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے: (یا رسول اللہ!) ہم تو غرق ہونے لگے لہٰذا اپنے رب سے دعا کیجئے کہ اس بارش کو ہم سے روک دے۔ آپ ﷺ مسکرا پڑے اور دعا کی: اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا اور ہمارے اوپر نہ برسا ایسا دو یا تین دفعہ فرمایا۔ سو بادل چھٹنے لگے اور مدینہ منورہ کی دائیں بائیں جانب جانے لگے چنانچہ ہمارے اردگرد (کھیتوں اور فصلوں پر) بارش ہونے لگی ہمارے اوپر بند ہو گئی۔ یونہی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی برکت اور ان کی قبولیتِ دعا دکھاتا ہے۔‘‘
747 / 3. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَي عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم فَصَلَّي، قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، رَأَيْنَاکَ تَنَاوَلُ شَيْئًا فِي مَقَامِکَ‘ ثُمَّ رَأَيْنَاکَ تَکَعْکَعْتَ؟ فَقَالَ: إِنِّي أُرِيْتُ الْجَنَّةَ‘ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُوْدًا، وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَکَلْتُمْ مِنْهُ‘ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: صفة الصلاة، باب: رفع البصر إلي الإمام في الصلاة، 1 / 261، الرقم: 715، وفي کتاب: الکسوف، باب: صلاة الکسوف جماعة، 1 / 357، الرقم: 1004، وفي کتاب: النکاح، باب: کفران العشير، 5 / 1994، الرقم: 4901، ومسلم في الصحيح، کتاب: الکسوف، باب: ما عرض علي النبي صلى الله عليه وآله وسلم في صلاة الکسوف من أمر الجنة والنار، 2 / 627، الرقم: 904، والنسائي في السنن، کتاب: الکسوف، باب: قدر قرائة في صلاة الکسوف، 3 / 147، الرقم: 1493، وفي السنن الکبري، 1 / 578، الرقم: 1878، ومالک في الموطأ، 1 / 186، الرقم: 445، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 298، الرقم: 2711، 3374، وابن حبان في الصحيح، 7 / 73، الرقم: 2832، 2853، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 98، الرقم: 4925، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 321، الرقم: 6096، والشافعي في السنن المأثورة، 1 / 140، الرقم: 47.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا اور آپ ﷺ نے نمازِ کسوف پڑھائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے دیکھا کہ آپ نے اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے کوئی چیز پکڑی پھر ہم نے دیکھا کہ آپ کسی قدر پیچھے ہٹ گئے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے جنت نظر آئی تھی، میں نے اس میں سے ایک خوشہ پکڑ لیا، اگر اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اس سے کھاتے رہتے (اور وہ ختم نہ ہوتا)۔‘‘
748 / 4. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضى الله عنهما قَالَ: عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم بَيْنَ يَدَيْهِ رِکْوَةٌ فَتَوَضَّأَ، فَجَهِشَ النَّاسُ نَحْوَهُ، فَقَالَ: مَالَکُمْ؟ قَالُوْا: لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَابَيْنَ يَدَيْکَ، فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الرِّکْوَةِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَثُوْرُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ کَأَمْثَالِ الْعُيُوْنِ، فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا قُلْتُ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: لَوْکُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا‘ کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 4: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1310، الرقم: 3383، وفي کتاب: المغازي، باب: غزوة الحديبية، 4 / 1526، الرقم: 3921 - 3923، وفي کتاب: الأشربة، باب: شرب البرکة والماءِ المبارک، 5 / 2135، الرقم: 5316، وفي کتاب: التفسير / الفتح، باب: إِذْ يُبَايِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ: (18)، 4 / 1831، الرقم: 4560، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 329، الرقم: 14562، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 65، الرقم: 125، وابن حبان في الصحيح، 14 / 480، الرقم: 6542، والدارمي في السنن، 1 / 21، الرقم: 27، وأبويعلي في المسند، 4 / 82، الرقم: 2107، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 272، وابن جعد في المسند، 1 / 29، الرقم: 82.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پانی کی ایک چھاگل رکھی ہوئی تھی آپ ﷺ نے اس سے وضو فرمایا: لوگ آپ ﷺ کی طرف جھپٹے تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے پاس وضو کے لئے پانی ہے نہ پینے کے لئے۔ صرف یہی پانی ہے جو آپ کے سامنے رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے (یہ سن کر) دستِ مبارک چھاگل کے اندر رکھا تو فوراً چشموں کی طرح پانی انگلیوں کے درمیان سے جوش مار کر نکلنے لگا چنانچہ ہم سب نے (خوب پانی) پیا اور وضو بھی کر لیا۔ (سالم راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اس وقت آپ کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کے لئے کافی ہو جاتا، جبکہ ہم تو پندرہ سو تھے۔‘‘
749 / 5. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضى الله عنهما أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَتْ لِرَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم، يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَ لَا أَجْعَلُ لَکَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ، فَإِنَّ لِي غُلَامًا نَجَّارًا. قَالَ: إِنْ شِئْتِ قَالَ: فَعَمِلَتْ لَهُ الْمِنْبَرَ، فَلَمَّا کَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، قَعَدَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم عَلَي الْمِنْبَرِ الَّذِي صُنِعَ فَصَاحَتِ النَّخْلَةُ الَّتِي کَانَ يَخْطُبُ عِنْدَهَا، حَتَّي کَادَتْ أَنْ تَنْشَقَّ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم حَتَّي أَخَذَهَا فَضَمَّهَا إِلَيْهِ، فَجَعَلَتْ تَئِنُّ أَنِيْنَ الصَّبِيِّ الَّذِي يَسَکَّتُ، حَتَّي اسْتَقَرَّتْ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: البيوع، باب: النجار، 2 / 378، الرقم: 1989، وفي کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1314، الرقم: 3391 - 3392، وفي کتاب: المساجد، باب: الاستعانة بالنجار والصناع في أعواد المنبر والمسجد، 1 / 172، الرقم: 438، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: (6)، 5 / 594، الرقم: 3627، والنسائي في السنن، کتاب: الجمعة، باب: مقام الإمام في الخطبة، 3 / 102، الرقم: 1396، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في بدء شأنالمنبر، 1 / 454، الرقم: 1414 - 1417، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 226، والدارمي نحوه في السنن، 1 / 23، الرقم: 42، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 139، الرقم: 1776 - 1777، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 186، الرقم: 5253، وابن حبان في الصحيح 14 / 48، 43، الرقم: 6506، وأبويعلي في المسند، 6 / 114، الرقم: 3384.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک انصاری عورت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے تشریف فرما ہونے کے لئے کوئی چیز نہ بنوا دوں؟ کیونکہ میرا غلام بڑھئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو (بنوا دو)۔ اس عورت نے آپ ﷺ کے لئے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیا تو حضور نبی اکرم ﷺ اسی منبر پر تشریف فرما ہوئے جو تیار کیا گیا تھا لیکن (حضور نبی اکرم ﷺ کے منبر پر تشریف رکھنے کی وجہ سے) کھجور کا وہ تنا جس سے ٹیک لگا کر آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے (ہجر و فراق رسول ﷺ میں) چِلاَّ (کر رو) پڑا یہاں تک کہ پھٹنے کے قریب ہو گیا۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم ﷺ منبر سے اتر آئے اور کھجور کے ستون کو گلے سے لگا لیا۔ ستون اس بچہ کی طرح رونے لگا، جسے تھپکی دے کر چپ کرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اسے سکون آ گیا۔‘‘
750 / 6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم، بِتَمَرَاتٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! ادْعُ اللهَ فِيْهِنَّ بِالْبَرَکَةِ فَضَمَّهُنَّ ثُمَّ دَعَا لِي فِيْهِنَّ بِالْبَرَکَةِ، فَقَالَ: خُذْهُنَّ وَاجْعَلْهُنَّ فِي مِزْوَدِکَ هَذَا أَوْ فِي هَذَا الْمِزْوَدِ، کُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا فَأَدْخِلْ فِيْهِ يَدَکَ فَخُذْهُ وَلَا تَنْثُرْهُ نَثْرًا، فَقَدْ حَمَلْتُ مِنْ ذَلِکَ التَّمْرِ کَذَا وَ کَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيْلِ اللهِ، فَکُنَّا نَأْکُلُ مِنْهُ وَنُطْعِمُ، وَکَانَ لاَ يُفَارِقُ حِقْوِي حَتَّي کَانَ يَوْمُ قَتْلِ عُثْمَانَ رضى الله عنه فَإِنَّهُ انْقَطَعَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 6: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: مناقب لأبي هريرة رضى الله عنه، 5 / 685، الرقم: 3839، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 352، الرقم: 8613، وابن حبان في الصحيح، 14 / 467، الرقم: 6532، وابن راهوية في المسند، 1 / 75، الرقم: 3، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 527، الرقم: 2150، وابن کثير في البداية والنهاية، 6 / 117، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 231، والسيوطي في الخصائص الکبري، 2 / 85.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ان میں اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمائیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں اکٹھا کیا اور میرے لیے ان میں دعائے برکت فرمائی پھر مجھے فرمایا: انہیں لے لو اور اپنے اس توشہ دان میں رکھ دو اور جب انہیں لینا چاہو تو اپنا ہاتھ اس میں ڈال کر لے لیا کرو اسے جھاڑنا نہیں۔ سو میں نے ان میں سے اتنے اتنے (یعنی کئی) وسق (ایک وسق دو سو چالیس کلو گرام کے برابر ہوتا ہے) کھجوریں اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کیں ہم خود اس میں سے کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ کبھی وہ توشہ دان میری کمر سے جدا نہ ہوا (یعنی کھجوریں ختم نہ ہوئیں) یہاں تک کہ جس دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو وہ مجھ سے کہیں گر گیا۔‘‘
751 / 7. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضى الله عنه قَالَ: کُنَّا نَعُدُّ الآيَاتِ بَرَکَةً، وَأَنْتُمْ تَعُدُّوْنَهَا تَخْوِيْفًا، کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ، فَقَلَّ الْمَاءُ، فَقَالَ: اطْلُبُوا فَضْلَةً مِنْ مَاءٍ. فَجَاؤُوْا بِإِنَاءٍ فِيْهِ مَاءٌ قَلِيْلٌ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ ثُمَّ قَالَ: حَيَّ عَلَي الطَّهُوْرِ الْمُبَارَکِ، وَالْبَرَکَةُ مِنَ اللهِ. فَلَقَدْ رَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم، وَلَقَدْ کُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيْحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْکَلُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 7: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1312، الرقم: 3386، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: (6)، 5 / 597، الرقم: 3633، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 460، الرقم: 4393، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 102، الرقم: 204، والدارمي في السنن، 1 / 28، الرقم: 29، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 316، الرقم: 31722، والبزار في المسند، 4 / 301، الرقم: 1978، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 384، الرقم: 4501، وأبويعلي في المسند، 9 / 253، الرقم: 5372، والشاشي في المسند، 1 / 358، الرقم: 346، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 803، الرقم: 1479، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 1 / 8، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 272.
’’حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم تو معجزات کو برکت شمار کرتے تھے تم انہیں خوف دلانے والے شمار کرتے ہو۔ ہم ایک سفر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے کہ پانی کی قلت ہو گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کچھ بچا ہوا پانی لے آؤ، لوگوں نے ایک برتن آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ آپ ﷺ نے اپنا دستِ اقدس اس برتن میں ڈالا اور فرمایا: پاک برکت والے پانی کی طرف آؤ اور برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی مبارک انگلیوں سے (چشمہ کی طرح) پانی ابل رہا تھا۔ علاوہ ازیں ہم کھانا کھاتے وقت کھانے سے تسبیح کی آواز سنا کرتے تھے۔‘‘
752 / 8. عَنْ أَنَسٍ رضى الله عنه قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم بِإِنَاءٍ، وَهُوَ بِالزَّوْرَاءِ، فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ، فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ. قَالَ قَتَادَةُ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: ثَلَاثَ مِائَةٍ، أَوْ زُهَائَ ثَلَاثِ مِائَةٍ. وفي رواية: لَوْ کُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 8: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1309 - 1310، الرقم: 3379 - 3380، 5316، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: في معجزات النبي صلى الله عليه وآله وسلم، 4 / 1783، الرقم: 2279، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: (6)، 5 / 596، الرقم: 3631، ومالک في الموطأ، 1 / 32، الرقم: 62، والشافعي في المسند، 1 / 15، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 132، الرقم: 12370، والبيهقي في السنن الکبري، 1 / 193، الرقم: 878، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 316، الرقم: 31724.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں پانی کا ایک برتن پیش کیا گیا اور آپ ﷺ زوراء کے مقام پر تھے۔ آپ ﷺ نے برتن کے اندر اپنا دستِ مبارک رکھ دیا تو آپ ﷺ کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلے اور تمام لوگوں نے وضو کر لیا۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: آپ کتنے (لوگ) تھے؟ انہوں نے جواب دیا: تین سو یا تین سو کے لگ بھگ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہم اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی سب کے لئے کافی ہوتا لیکن ہم پندرہ سو تھے۔‘‘
753 / 9. عَنِ الْبَرَاءِ رضى الله عنه قَالَ: کُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً وَالْحُدَيْبِيَةُ بِئْرٌ، فَنَزَحْنَاهَا حَتَّي لَمْ نَتْرُکْ فِيْهَا قَطْرَةً، فَجَلَسَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم عَلَي شَفِيْرِ الْبِئْرِ فَدَعَا بِمَاءٍ، فَمَضْمَضَ وَمَجَّ فِي الْبِئْرِ، فَمَکَثْنَا غَيْرَ بَعِيْدٍ، ثُمَّ اسْتَقَيْنَا حَتَّي رَوِيْنَا، وَرَوَتْ أَوْ صَدَرَتْ رَکَائِبُنَا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
الحديث رقم 9: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1311، الرقم: 3384.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واقعہ حدیبیہ کے روز ہماری تعداد چودہ سو تھی۔ ہم حدیبیہ کے کنویں سے پانی نکالتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ چھوڑا۔ (صحابہ کرام پانی ختم ہو جانے سے پریشان ہو کر بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے) سو حضور نبی اکرم ﷺ کنویں کے منڈیر پر آ بیٹھے اور پانی طلب فرمایا: اس سے کلی فرمائی اور وہ پانی کنویں میں ڈال دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد (پانی اس قدر اوپر آ گیا کہ) ہم اس سے پانی پینے لگے، یہاں تک کہ خوب سیراب ہوئے اور ہمارے سواریوں کے جانور بھی سیراب ہو گئے۔‘‘
754 / 10. عَنْ جَابِرٍ رضى الله عنه أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ: إِنَّ أَبِي تَرَکَ عَلَيْهِ دَيْنًا، وَلَيْسَ عِنْدِي إِلَّا مَا يُخْرِجُ نَخْلُهُ، وَلَا يَبْلُغُ مَا يُخْرِجُ سِنِيْنَ مَا عَلَيْهِ، فَانْطَلِقْ مَعِي لِکَي لَا يُفْحِشَ عَلَيَّ الْغُرَمَاءُ، فَمَشَي حَوْلَ بَيْدَرٍ مِنْ بَيَادِرِ التَّمْرِ فَدَعَا، ثُمَّ آخَرَ، ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: انْزِعُوْهُ فَأَوْفَاهُمُ الَّذِي لَهُمْ، وَبَقِيَ مِثْلُ مَا أَعْطَاهُمْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 10: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1312، الرقم: 3387، وفي کتاب: البيوع، باب: الکيل علي البائع والمعطي، 2 / 748، الرقم: 2020، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 365، الرقم: 14977.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد محترم (حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ) وفات پا گئے اور ان کے اوپر قرض تھا۔ سو میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میرے والد نے (وفات کے بعد) پیچھے قرضہ چھوڑا ہے اور میرے پاس (اس کی ادائیگی کے لئے) کچھ بھی نہیں ماسوائے جو کھجور کے (چند) درختوں سے پیداوار حاصل ہوتی ہے اور ان سے کئی سال میں بھی قرض ادا نہیں ہو گا۔ آپ ﷺ میرے ساتھ تشریف لے چلیں تاکہ قرض خواہ مجھ پر سختی نہ کریں سو آپ ﷺ (ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور ان کے) کھجوروں کے ڈھیروں میں سے ایک ڈھیر کے گرد پھرے اور دعا کی پھر دوسرے ڈھیر (کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا) اس کے بعد آپ ﷺ ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فرمایا: قرض خواہوں کو ماپ کر دیتے جاؤ سو سب قرض خواہوں کا پورا قرض ادا کر دیا گیا اور اتنی ہی کھجوریں بچ بھی گئیں جتنی کہ قرض میں دی تھیں۔‘‘
755 / 11. عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ رَضِي اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم يُوْحَي إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ رضى الله عنه فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّي غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم: اللَّهُمَّ إِنَّ عَلِيًا فِي طَاعَتِکَ وَطَاعَةِ رَسُوْلِکَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ قَالَتْ أَسْمَاءُ رضي اللہ عنها: فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ وَرَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ.
رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
الحديث رقم 11: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 24 / 147، الرقم: 390، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 297، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5 / 205، وابن کثير في البداية والنهاية، 6 / 83، والقاضي عياض في الشفاء، 1 / 400، والسيوطي في الخصائص الکبري، 2 / 137، والحلبي في السيرة الحلبية، 2 / 103، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 15 / 197.
رواه الطبراني بأسانيد، ورجال أحدهما رجال الصحيح غير إبراهيم بن حسن، وهو ثقة، وثّقه ابن حبان، ورواه الطحاوي في مشکل الآثار (2 / 9، 4 / 388 - 389) وللحديث طرق أخري عن أسماء، وعن أبي هريرة، وعليّ ابن أبي طالب، وأبي سعيد الخدري رضى الله عنه.
وقد جمع طرقه أبو الحسن الفضلي، وعبيد اللہ بن عبد اللہ الحسکا المتوفي سنة (470) في (مسألة في تصحيح حديث ردّ الشمس)، والسيوطي في (کشف اللبس عن حديث الشمس). وقال السيوطي: في الخصائص الکبري (2 / 137): أخرجه ابن منده، وابن شاهين، والطبراني بأسانيد بعضها علي شرط الصحيح. وقال الشيباني في حدائق الأنوار (1 / 193): أخرجه الطحاوي في مشکل الحديث والآثار. بإِسنادين صحيحين.
وقال الإمام النووي في شرح مسلم (12 / 52): ذکر القاضي رضى الله عنه: أن نبينا صلى الله عليه وآله وسلم حبست له الشمس مرّتين. . . ذکر ذلک الطحاوي وقال: رواته ثقات.
’’حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ ﷺ کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا کی: اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اسماء فرماتی ہیں: میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔‘‘
756 / 12. عَنْ أَنَسٍ رضى الله عنه قَالَ: کَانَ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ لَهُمْ جَمَلٌ يَسْنُوْنَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الْجَمَلَ اسْتُصْعِبَ عَلَيْهِمْ فَمَنَعَهُمْ ظَهْرَهُ، وَإِنَّ الْأَنْصَارَ جَاؤُوْا إِلَي رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم فَقَالُوْا: إِنَّهُ کَانَ لَنَا جَمَلٌ نُسْنِي عَلَيْهِ وَإِنَّهُ اسْتُصْعِبَ عَلَيْنَا وَمَنَعَنَا ظَهْرَهُ، وَقَدْ عَطَشَ الزَّرْعُ وَالنَّخْلُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم لِأَصْحَابِهِ: قُوْمُوْا فَقَامُوْا فَدَخَلَ الْحَائِطَ وَالْجَمَلُ فِي نَاحِيَةٍ، فَمَشَي النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم نَحْوَهُ. فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: يَا نَبِيَّ اللهِ، إِنَّهُ قَدْ صَارَ مِثْلَ الْکَلْبِ، وَإِنَّا نَخَافُ عَلَيْکَ صَوْلَتَهُ، فَقَالَ: لَيْسَ عَلَيَّ مِنْهُ بَأْسٌ، فَلَمَّا نَظَرَ الْجَمَلُ إِلَي رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم أَقْبَلَ نَحْوَهُ حَتَّي خَرَّ سَاجِدًا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم بِنَاصِيَتِهِ أَذَلَّ مَا کَانَتْ قَطُّ حَتَّي أَدْخَلَهُ فِي الْعَمَلِ، فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، هَذِهِ بَهِيْمَةٌ لَا تَعْقِلُ تَسْجُدُ لَکَ وَنَحْنُ نَعْقِلُ فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ؟ وفي رواية: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُوْدِ لَکَ مِنَ الْبَهَائِمِ. فَقَالَ: لَا يَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا مِنْ عِظَمِ حَقِّهِ عَلَيْهَا. . . الحديث.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَنَحْوَهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
الحديث رقم 12: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 158، الرقم: 12635، والدارمي في السنن، باب: (4)، ما أکرم اللہ به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 / 22، الرقم: 17، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 81، الرقم: 9189، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 320، الرقم: 1053، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 / 265، الرقم: 1895، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 35، الرقم: 2977، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 171، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 4، 9، والمناوي في فيض القدير، 5 / 329.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری گھرانے میں ایک اونٹ تھا جس پر (وہ کھیتی باڑی کے لئے) پانی بھرا کرتے تھے، وہ ان کے قابو میں نہ رہا اور انہیں اپنی پشت (پانی لانے کے لئے) استعمال کرنے سے روک دیا۔ انصار صحابہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ہمارا ایک اونٹ تھا ہم اس سے کھیتی باڑی کے لئے پانی لانے کا کام لیتے تھے اور وہ ہمارے قابو میں نہیں رہا اور اب وہ خود سے کوئی کام نہیں لینے دیتا، ہمارے کھیت کھلیان اور باغ پانی کی قلت کے باعث سوکھ گئے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا: اٹھو، پس سارے اٹھ کھڑے ہوئے (اور اس انصاری کے گھر تشریف لے گئے)۔ آپ ﷺ احاطہ میں داخل ہوئے تو اونٹ جو کہ ایک کونے میں تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ اونٹ کی طرف چل پڑے تو انصار کہنے لگے: (یا رسول اللہ!) یہ اونٹ کتے کی طرح باؤلا ہو چکا ہے اور ہمیں اس کی طرف سے آپ پر حملہ کا خطرہ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اونٹ نے جیسے ہی حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو آپ ﷺ کی طرف بڑھا یہاں تک (قریب آ کر) آپ ﷺ کے سامنے سجدہ میں گر پڑا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے پیشانی سے پکڑا اور حسب سابق دوبارہ کام پر لگا دیا۔ صحابہ کرام نے یہ دیکھ کر آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو بے عقل جانور ہوتے ہوئے بھی آپ کو سجدہ کر رہا ہے اور ہم تو عقلمند ہیں اس سے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کریں اور ایک روایت میں ہے کہ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم جانوروں سے زیادہ آپ کو سجدہ کرنے کے حقدار ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کسی فردِ بشر کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی بشر کو سجدہ کرے اور اگر کسی بشر کا بشر کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو اس کی قدر و منزلت کی وجہ سے سجدہ کرے جو کہ اسے بیوی پر حاصل ہے۔‘‘
757 / 13. عَنْ جَابِرٍ رضى الله عنه أَنَّ أُمَّ مَالِکٍ کَانَتْ تُهْدِي لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم فِي عُکَّةٍ لَهَا سَمْنًا. فَيَأْتِيْهَا بَنُوهَا فَيَسْأَلُوْنَ الْأُدْمَ. وَلَيْسَ عِنْدَهُمْ شَيئٌ، فَتَعْمِدُ إِلَي الَّذِي کَانَتْ تُهْدِي فِيْهِ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم، فَتَجِدُ فِيْهِ سَمْنًا. فَمَا زَالَ يُقِيْمُ لَهَا أُدْمَ بَيْتِهَا حَتَّي عَصَرَتْهُ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: عَصَرْتِيْهَا؟ قَالَتْ: نَعَمْ. قَالَ: لَوْ تَرَکْتِيْهَا مَا زَالَ قَائِمًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 13: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: في معجزات النبي صلى الله عليه وآله وسلم، 4 / 1784، الرقم: 2280، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 340، 347، الرقم: 14705، 14782، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 505، الرقم: 2984، وفي فتح الباري، 11 / 281، وفي الإصابة، 8 / 298، الرقم: 12239.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت اُم مالک رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک چمڑے کے برتن میں گھی بھیجا کرتی تھیں، ان کے بیٹے آ کر ان سے سالن مانگتے، ان کے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی تھی، تو جس چمڑے کے برتن میں وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے لئے گھی بھیجا کرتیں اس کا رخ کرتیں اس میں انہیں گھی مل جاتا، ان کے گھر میں سالن کا مسئلہ اسی طرح حل ہوتا رہا یہاں تک کہ انہوں نے ایک دن اس چمڑے کے برتن کو نچوڑ لیا پھر وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے چمڑے کے برتن کو نچوڑ لیا؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اسے اسی طرح رہنے دیتیں تو اس سے ہمیشہ (گھی) ملتا رہتا۔‘‘
758 / 14. عَنْ جَابِرٍ رضى الله عنه أَنَّ رَجُلًا أَتي النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم يَسْتَطْعِمُهُ، فَأَطْعَمَهُ شَطْرَ وَسْقِ شَعِيْرٍ. فَمَا زَالَ الرَّجُلُ يَأْکُلُ مِنْهُ وَامْرَأَتُهُ وَضَيْفُهُمَا، حَتَّي کَالَهُ. فًأَتَي النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: لَوْ لَمْ تَکِلْهُ لَأَکَلْتُمْ مِنْهُ وَلَقَامَ لَکَمْ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 14: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: في معجزات النبي صلى الله عليه وآله وسلم، 4 / 1784، الرقم: 2281، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 337، 347، الرقم: 14661، 14783.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر کچھ کھانا طلب کیا۔ آپ ﷺ نے اسے نصفِ وسق (ایک سو بیس کلو گرام) جو دے دیئے۔ وہ شخص اس کی بیوی اور ان دونوں کے (ہاں آنے والے) مہمان بھی (ایک عرصہ تک) وہی جو کھاتے رہے یہاں تک کہ ایک دن اس نے وہ جو ماپ لئے۔ پھر وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اس کو نہ ماپتے تو تم وہ جو کھاتے رہتے اور وہ یونہی (ہمیشہ) باقی رہتے۔‘‘
759 / 15. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضى الله عنه قَالَ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم يَوْمَ أُحُدٍ، وَمَعَهُ رَجُلَانِ يُقَاتِلَانِ عَنْهُ، عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيْضٌ، کَأَشَدِّ الْقِتَالِ، مَا رَأَيْتُهُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ يَعْنِي جِبْرِيْلَ وَمِيْکَائِيْلَ عليهما السلام. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 15: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: إِذَ هَمَّتَ طَائِفَتَانَ مِنْکُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللهُ وَلِيُّهُمَا وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ، (آل عمران، 3: 122)، 4 / 1489، الرقم: 3828، وفي کتاب: اللباس، باب: الثياب البيض، 5 / 2192، الرقم: 5488، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: في قتال جبريل وميکائيل عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم يوم أحد، 4 / 1802، الرقم: 2306، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 171، الرقم: 1468، والشاشي في المسند، 1 / 185، الرقم: 133، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 51، الرقم: 34، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 382، الرقم: 7575، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1 / 107.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جنگ اُحد کے روز میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس دو ایسے حضرات کو دیکھا جو آپ ﷺ کی جانب سے لڑ رہے تھے انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے بڑی بہادری سے برسرپیکار تھے میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا نہ بعد میں یعنی وہ جبرئیل و میکائیل علیہما السلام تھے۔‘‘
760 / 16. عَنْ أَنَسٍ رضى الله عنه: في رواية طويلة أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم شَاوَرَ، حِيْنَ بَلَغَنَا إِقْبَالُ أَبِي سُفْيَانَ، وَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رضى الله عنه فَقَالَ: وَالَّذي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيْضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا. وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَهَا إلَي بَرْکِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا. قَالَ: فَنَدَبَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم النَّاسَ، فَانْطَلَقُوْا حَتَّي نَزَلُوْا بَدْرًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم: هَذَا مَصْرَعُ فُلاَنٍ قَالَ: وَيَضَعُ يَدَهُ عَلَي الْأَرْضِ، هَاهُنَا وَهَاهُنَا. قَالَ: فَمَا مَاتَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوضِعِ يَدِ رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.
الحديث رقم 16: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: غزوة بدر، 3 / 1403، الرقم: 1779، ونحوه في کتاب: الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب: عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 / 2202، الرقم: 2873، وأبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب: في الأسير ينال منه ويضرب ويقرن، 3 / 58، الرقم: 2071، والنسائي في السنن، کتاب: الجنائز، باب: أرواح المؤمنين، 4 / 108، الرقم: 2074، وفي السنن الکبري، 1 / 665، الرقم؛ 2201، وابن حبان في الصحيح، 11 / 24، الرقم: 4722، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 219، الرقم: 13320، والبزار في المسند، 1 / 340، الرقم: 222، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 362، الرقم: 36708، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 219، الرقم: 8453، وفي المعجم الصغير، 2 / 233، الرقم: 1085، وأبو يعلي في المسند، 6 / 69، الرقم: 3322، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 102، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 381، الرقم: 5871.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے (قافلہ کی شام سے) آنے کی خبر پہنچی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے، اگر آپ ہمیں برک الغماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکڑانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو بلایا لوگ آئے اور وادی بدر میں اُترے۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ فلاں کافر کے گرنے کی جگہ ہے، آپ ﷺ زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ اپنا دستِ اقدس رکھتے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن دورانِ جنگ) کوئی کافر حضور نبی اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی جگہ سے ذرا برابر بھی ادھر ادھر نہیں مرا۔‘‘
761 / 17. عَنْ جَابِرٍ رضى الله عنه في رواية طويلة قَالَ: سِرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم حَتَّي نَزَلَ وَادِيًا أَفْيَحَ. فَذَهَبَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم يَقْضِي حَاجَتَهُ. فَاتَّبَعْتُهُ بِإِدَاوَةٍ مِنْ مَاءٍ. فَنَظَرَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم فَلَمْ يَرَ شَيْئًا يَسْتَتِرُبِهِ فَإِذَا شَجَرَتَانِ بِشَاطِيئِ الْوَادِي. فَانْطَلَقَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم إِلَي إِحْدَاهُمَا فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا. فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ. فَانْقَادَتْ مَعَهُ کَالْبَعِيْرِ الْمَخْشُوْشِ، الَّذِي يُصَانِعُ قَائِدَهُ. حَتَّي أَتَي الشَّجَرَةَ الْأُخْرَي. فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا. فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ فَانْقَادَتْ مَعَهُ کَذَلِکَ، حَتَّي إِذَا کَانَ بِالْمُنْصَفِ مِمَّا بَيْنَهُمَا، قَالَ: الْتَئِمَا عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ فَالْتَأَمَتَا. فَجَلَسْتُ أُحَدِّثُ نَفْسِي. فَحَانَتْ مِنِيَّ لَفْتَهٌ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم مُقْبِلًا. وَإِذَا الشَّجَرَتَانِ قَدِ افْتَرَقَتَا. فَقَامَتْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا عَلَي سَاقٍ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم: يَا جَابِرُ، هَلْ رَأَيْتَ مَقَامِي؟ قُلْتُ: نَعَمْ، يَا رَسُوْلَ اللهِ! قَالَ: فَانْطَلِقْ إِلَي الشَّجَرَتَيْنِ فَاقْطَعْ مِنْ کُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا. فَأَقْبِلْ بِهِمَا. حَتَّي إِذَا قُمْتَ مَقَامِي فَأَرْسِلْ غُصْنًا عَنْ يَمِيْنِکَ وَعَنْ يَسَارِک. قَالَ جَابِرٌ: فَقُمْتُ فَأَخَذْتُ حَجَرًا فَکَسَرْتُهُ وَحَسَرْتُهُ. فَانْذَلَقَ لِي. فَأَتَيْتُ الشَّجَرَتَيْنِ فَقَطَعْتُ مِنْ کُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا. ثُمَّ أَقْبَلْتُ أَجُرُّهُمَا حَتَّي قُمْتُ مَقَامَ رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم، أَرْسَلْتُ غُصْنًا عَنْ يَمِيْنِي وَغُصْنًا عَنْ يَسَارِي، ثُمَّ لَحِقْتُهُ فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُوْلَ اللهِ! فَعَمَّ ذَاکَ؟ قَالَ: إِنِّي مَرَرْتُ بِقَبْرَيْنِ يُعَذِّبَانِ. فَأَحْبَبْتُ: بِشَفَاعَتِي، أَنْ يُرَفَّهَ عَنْهُمَا مَا دَامَ الغُصْنَانِ رَطْبَيْنِ. . . الحديث. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ.
الحديث رقم 17: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الزهد والرقائق، باب: حديث جابر الطويل، وقصة أبي اليَسَر، 4 / 2306، الرقم: 3012، وابن حبان في الصحيح، 14 / 455 - 456، الرقم: 6524، والبيهقي في السنن الکبري، 1 / 94، الرقم: 452، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 53 - 55، الرقم: 37، وابن عبد البر في التمهيد، 1 / 222، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 383، الرقم: 5885.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ (ایک غزوہ) کے سفر پر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم ایک کشادہ وادی میں پہنچے۔ حضور نبی اکرم ﷺ رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئے۔ میں پانی وغیرہ لے کر آپ ﷺ کے پیچھے گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے (اردگرد) دیکھا لیکن آپ ﷺ کو پردہ کے لئے کوئی چیز نظر نہ آئی، وادی کے کنارے دو درخت تھے، حضور نبی اکرم ﷺ ان میں سے ایک درخت کے پاس گئے۔ آپ ﷺ نے اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری اطاعت کر۔ وہ درخت اس اونٹ کی طرح آپ ﷺ کا فرمانبردار ہوگیا جس کی ناک میں نکیل ہو اور وہ اپنے ہانکنے والے کے تابع ہوتا ہے پھر آپ ﷺ دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑ کر فرمایا: اللہ کے اذن سے میری اطاعت کر، وہ درخت بھی پہلے درخت کی طرح آپ ﷺ کے تابع ہو گیا یہاں تک کر جب آپ ﷺ دونوں درختوں کے درمیان پہنچے تو آپ ﷺ نے ان دونوں درختوں کو ملا دیا اور فرمایا: اللہ کے اذن سے جڑ جاؤ، سو وہ دونوں درخت جڑ گئے، میں وہاں بیٹھا اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا، میں نے اچانک دیکھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت اپنے اپنے سابقہ اصل مقام پر کھڑے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے جابر! تم نے وہ مقام دیکھا تھا جہاں میں کھڑا تھا۔ میں نے عرض کیا: جی! یا رسول اللہ! فرمایا: ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان میں سے ہر ایک کی ایک ایک شاخ کاٹ کر لاؤ اور جب اس جگہ پہنچو جہاں میں کھڑا تھا تو ایک شاخ اپنی دائیں جانب اور ایک شاخ اپنی بائیں جانب ڈال دینا۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں نے کھڑے ہو کر ایک پتھر توڑا اور تیز کیا، پھر میں ان درختوں کے پاس گیا اور ہر ایک سے ایک شاخ توڑی، پھر میں انہیں گھسیٹ کر حضور نبی اکرم ﷺ کے کھڑے ہونے کی جگہ لایا اس جگہ ایک شاخ دائیں جانب اور ایک شاخ بائیں جانب ڈال دی اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے آپ کے حکم پر عمل کر دیا ہے۔ مگر اس عمل کا سبب کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اس جگہ دو قبروں کے پاس سے گزرا جن میں قبر والوں کو عذاب ہو رہا تھا، میں نے چاہا کہ میری شفاعت کے سبب جب تک وہ شاخیں سرسبز و تازہ رہیں ان کے عذاب میں کمی رہے۔‘‘
762 / 18. عَنْ أَنَسٍ رضى الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم نَعَي زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ، فَقَالَ: أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيْبَ. وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ: حَتَّي أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوْفِ اللهِ، حَتَّي فَتَحَ اللهُ عَلَيْهِمْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 18: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: غزوة مؤته من أرض الشام، 4 / 1554، الرقم: 4014، وفي کتاب: الجنائز، باب: الرجل ينعي إلي أهل الميت بنفسه، 1 / 420، الرقم: 1189، وفي کتاب: الجهاد، باب: تمني الشهادة، 3 / 1030، الرقم: 2645، وفي باب: من تأمر في الحرب من غير إمرة إذا خاف العدو، 3 / 1115، الرقم: 2898، وفي کتاب: المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1328، الرقم: 3431، وفي کتاب: فضائل الصحابة، باب: مناقب خالد بن الوليد رضى الله عنه، 3 / 1372، الرقم: 3547، ونحوه النسائي في السنن الکبري، 5 / 180، الرقم: 8604، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 204، الرقم: 1750، والحاکم في المستدرک، 3 / 337، الرقم: 5295، وقال: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 105، الرقم: 1459 - 1461، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 384، الرقم: 5887.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہو جانے کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: اب جھنڈا زید نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہو گئے۔ اب جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کر گئے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ ﷺ کی چشمانِ مبارک اشک بار تھیں۔ (پھر فرمایا) یہاں تک کہ اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (حضرت خالد بن ولید) نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کافروں پر فتح عطا فرمائی۔‘‘
763 / 19. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضى الله عنه في رواية طويلة قَالَ: إِنَّ رَجُلًا کَانَ يَکْتُبُ لِرَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم فَارْتَدَّ عَنِ الإِسْلَامِ، وَلَحِقَ بِالْمُشْرِکِيْنَ، وَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِمُحَمَّدٍ إِنْ کُنْتُ لَأَکْتُبُ مَاشِئْتُ فَمَاتَ ذَلِکَ الرَّجُلُ فَقَالَ النَّبِيّ صلى الله عليه وآله وسلم: إِنَّ الْأَرْضَ لَمْ تَقْبِلْهُ وَقَالَ أَنَسٌ: فَأَخْبَرَنِي أَبُوْطَلْحَةَ أَنَّهُ أَتَي الْأَرْضَ الَّتِي مَاتَ فِيْهَا فَوَجَدَهُ مَنْبُوْذًا، فَقَالَ: مَا شَأْنُ هَذَا؟ فَقَالُوْا: دَفَنَّاهُ مِرَارًا فَلَمْ تَقْبِلْهُ الْأَرْضُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 19: أخرجه مسلم نحوه في الصحيح، کتاب: صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2145، الرقم: 2781، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 120، الرقم: 12236، 13348، والبيهقي في السنن الصغري، 1 / 568، الرقم: 1054، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 381، الرقم: 1278، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 188، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 387، الرقم: 5798.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم ﷺ کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہو گیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا: میں تم میں سب سے زیادہ محمد مصطفیٰ کو جاننے والا ہوں میں ان کے لئے جو چاہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا وہ اس جگہ آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس (لاش) کا کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے کہا: ہم نے اسے کئی بار دفن کیا مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔‘‘
764 / 20. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَي رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: بِمَ أَعْرِفُ أَنَّکَ نَبِيٌّ؟ قَالَ: إِنْ دَعَوْتُ هَذَا الْعِذْقَ مِنْ هَذِهِ النَّخْلَةِ، أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُوْلُ اللهِ؟ فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم فَجَعَلَ يَنْزِلُ مِنَ النَّخْلَةِ حَتَّي سَقَطَ إِلَي النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم ثُمَّ قَالَ: ارْجِعْ. فَعَادَ، فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 20: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: في آيات إثبات نبوة النبي صلى الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اللہ عزوجل، 5 / 594، الرقم: 3628، والحاکم في المستدرک، 2 / 676، الرقم: 4237، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 110، الرقم: 12622، والبخاري في التاريخ الکبير، 3 / 3، الرقم: 6، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 538، 539، الرقم: 527، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 48، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 394، الرقم: 5924.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کیسے علم ہو گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں کھجور کے اس درخت پر لگے ہوئے اس کے گچھے کو بلاؤں تو کیا تو گواہی دے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ پھر آپ ﷺ نے اسے بلایا تو وہ درخت سے اترنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قدموں میں آ گرا۔ پھر آپ ﷺ نے اسے فرمایا: واپس چلے جاؤ۔ تو وہ واپس چلا گیا۔ اس اعرابی نے (نباتات کی محبت و اطاعتِ رسول کا یہ منظر) دیکھ کر اسلام قبول کر لیا۔‘‘
765 / 21. عَنْ أَبِي زَيْدِ بْنِ أَخْطَبَ رضى الله عنه قَالَ: مَسَحَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم يَدَهُ عَلَي وَجْهِي وَدَعَا لِي، قَالَ عَزْرَةُ: إِنَّهُ عَاشَ مِائَةً وَعِشْرِيْنَ سَنَةً وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ إِلَّا شَعَرَاتٌ بِيْضٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 21: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: (6)، 5 / 594، الرقم: 3629، والطبراني المعجم الکبير، 17 / 27، الرقم: 45، ونحوه في المعجم الکبير، 18 / 21، الرقم: 35، الشيباني في الآحاد والمثاني، 4 / 199، الرقم: 2182، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 412.
’’حضرت ابو زید اخطب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا دست اقدس میرے چہرے پر پھیرا اور میرے لئے دعا فرمائی، عزرہ (راوی) کہتے ہیں کہ ابو زید ایک سو بیس سال زندہ رہے اور ان کے سر میں صرف چند بال سفید تھے۔‘‘
766 / 22. عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانَ رضى الله عنه أَنَّهُ أُصِيْبَتْ عَيْنُهُ يَوْمَ بَدْرٍ، فَسَالَتْ حَدَقَتُهُ عَلَي وَجْنَتِهِ، فَأَرَادُوْا أَنْ يَقْطَعُوْهَا، فَسَأَلُوْا رَسُوْلَ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: لاَ، فَدَعَا بِهِ، فَغَمَزَ حَدَقَتَهُ بِرَاحَتِهِ، فَکَانَ لاَ يُدْرَي أَيُّ عَيْنَيْهِ أُصِيْبَتْ. رَوَاهُ أَبُوْيَعْلَي.
الحديث رقم 22: أخرجه أبويعلي في المسند، 3 / 120، الرقم: 1549، وأبوعوانة في المسند، 4 / 348، الرقم: 6929، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 297، وابن سعد في الطبقات الکبري، 1 / 187، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 333، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 7 / 430، الرقم: 814، وفي الإصابة، 4 / 208، الرقم: 4888، وابن قانع في معجم الصحابة، 2 / 361، وابن کثير في البداية والنهاية، 3 / 291.
’’حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن (تیر لگنے سے) ان کی آنکھ ضائع ہو گئی اور ڈھیلا نکل کر چہرے پر بہہ گیا۔ دیگر صحابہ نے اسے کاٹ دینا چاہا۔ تو رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے منع فرما دیا۔ پھر آپ ﷺ نے دعا فرمائی اور آنکھ کو دوبارہ اس کے مقام پر رکھ دیا۔ سو حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اس طرح ٹھیک ہوگئی کہ معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کون سی آنکھ خراب ہے۔‘‘
767 / 23. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضى الله عنه قَالَ: بَعَثَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم إِلَي أَبِي رَافِعٍ الْيَهُودِيِّ رِجَالاً مِنَ الْأَنْصَارِ، فأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَتِيْکٍ رضى الله عنه، وَکَانَ أَبُوْ رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُوْلَ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم وَيُعِيْنُ عَلَيْهِ، وَکَانَ فِي حِصْنٍ لَهُ بِأَرْضِ الْحِجَازِ. . . (قَالَ: عَبْدُ اللهِ بْنُ عَتِيْکٍ رضى الله عنه فِي قِصَّةِ قَتْلِ أَبِي رَافِعٍ) فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُهُ: فَجَعَلْتُ أَفْتَحَ الْأَبْوَابَ بَابًا بَابًا، حَتَّي انْتَهَيْتُ إِلَي دَرَجَةٍ لَهُ فَوَضَعْتُ رِجْلِي وَأَنَا أُرَي قَدْ انْتَهَيْتُ إِلَي الْأَرْضِ، فَوَقَعْتُ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ فَانْکَسَرَتْ سَاقِي فَعَصَبْتُهَا بِعِمَامَةٍ. . . فَانْتَهَيْتُ إِلَي النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم فَحَدَّثْتُهُ، فَقَال: ابْسُطْ رِجْلَکَ. فَبَسَطْتُ رِجْلِي فَمَسَحَهَا، فَأَنَّهَا لَمْ أَشْتَکِهَا قَطُّ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
الحديث رقم 23: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: قتل أبي رافع عبداللہ بن أبي الحُقَيْقِ، 4 / 1482، الرقم: 3813، والبيهقي في السنن الکبري، 9 / 80، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 125، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 946، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 56، وابن کثير في البداية والنهاية: 4 / 139، وابن تيمية في الصارم المسلول، 2 / 294.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ابو رافع یہودی کی (سرکوبی کے لئے اس) طرف چند انصاری مردوں کو بھیجا اور حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان پر امیر مقرر کیا۔ ابو رافع آپ ﷺ کو تکلیف پہنچاتا تھا اور آپ ﷺ کے (دین کے) خلاف (کفار کی) مدد کرتا تھا اور سر زمین حجاز میں اپنے قلعہ میں رہتا تھا۔ ۔ ۔ (حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے ابو رافع یہودی کے قتل کی کارروائی بیان کرتے ہوئے فرمایا: ) مجھے یقین ہوگیا کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ پھر میں نے ایک ایک کرکے تمام دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ زمین پر آرہا۔ چاندنی رات تھی میں گر گیا اور میری پنڈلی ٹوٹ گئی تو میں نے اسے عمامہ سے باندھ دیا۔ ۔ ۔ پھر میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ عرض کردیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پاؤں آگے کرو۔ میں نے پاؤں پھیلا دیا۔ آپ ﷺ نے اس پر دستِ کرم پھیرا تو (ٹوٹی ہوئی پنڈلی جڑ گئی اور) پھر کبھی درد تک نہ ہوا۔‘‘
768 / 24. عَنْ عَائِشَةَ رضي اللہ عنها قَالَتْ: کَانَ لِآلِ رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم وَحْشٌ. فَإِذَا خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم لَعِبَ وَاشْتَدَّ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ. فَإِذَا أَحَسَّ بِرَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم قَدْ دَخَلَ، رَبَضَ فَلَمْ يَتَرَمْرَمْ، مَا دَامَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم فِي الْبَيْتِ، کَرَاهِيَةَ أَنْ يُؤْذِيَهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْيَعْلَي.
الحديث رقم 24: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 112، 150، الرقم: 24862، 25210، وأبويعلي في المسند، 8 / 121، الرقم: 4660، وابن راهويه في المسند، 3 / 617، الرقم: 1192، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 195، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 / 31، وابن عبد البر في التمهيد، 6 / 314، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 3.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی آل (یعنی اہلِ بیت) کے لئے ایک بیل رکھا گیا۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ باہر تشریف لاتے تو وہ کھیلتا کودتا اور (خوشی سے) جوش میں آجاتا اور (حالتِ وجد میں) کبھی آگے بڑھتا اور کبھی پیچھے آتا۔ اور جب وہ یہ محسوس کرتا کہ حضور نبی اکرم ﷺ اندر تشریف لے گئے ہیں تو پھر ساکت کھڑا ہو جاتا اور کوئی حرکت نہ کرتا جب تک کہ آپ ﷺ گھر میں موجود رہتے اس ڈر سے کہ کہیں آپ ﷺ کو تکلیف نہ ہو۔‘‘
769 / 25. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَارَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي أَسْمَعُ مِنْکَ حَدِيْثًا کَثِيْرًا أَنْسَاهُ؟ قَالَ: ابْسُطْ رِدَائَکَ. فَبَسَطْتُهُ، قَالَ: فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: ضُمَّهُ. فَضَمَمْتُهُ، فَمَا نَسِيْتُ شَيْئًا بَعْدَهُ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم 25: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: العلم، باب: حفظ العلم، 1 / 56، الرقم: 119، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل أبي هريرة الدوسي رضى الله عنه، 4 / 1939، الرقم: 2491، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: مناقب لأبي هريرة رضى الله عنه، 5 / 684، الرقم: 3834 - 3835، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 247، الرقم: 881، وأبو يعلي في المسند، 11 / 121، الرقم: 6248.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں آپ سے بہت کچھ سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ؟ میں نے اپنی چادر پھیلا دی۔ آپ ﷺ نے (فضا میں) چُلّو بھر بھر کر اس میں ڈال دیئے اور فرمایا: اسے سینے سے لگالو۔ میں نے ایسا ہی کیا: پس اس کے بعد میں کبھی کچھ نہیں بھولا۔‘‘
770 / 26. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضى الله عنهما أَنَّ يَهُوْدِيَةً مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَاةً مَصْلِيَةً ثُمَّ أَهْدَتْهَا لِرَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم الذِّرَاعَ فَأَکَلَ مِنْهَا وَأَکَلَ رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم: ارْفْعُوْا أَيْدِيَکُمْ، وَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم إِلَي الْيَهُوْدِيَةِ فَدَعَاهَا فَقَالَ لَهَا: أَ سَمَمْتِ هَذِهِ الشَّاةَ؟ قَالَتِ الْيَهُوْدِيَةُ: مَنْ أَخْبَرَکَ؟ قَالَ: أَخبَرَتْنِي هَذِهِ فِي يَدِي لِلذِّرَاعِ. قَالَتْ: نَعَمْ. قَالَ: فَمَا أَرَدْتِ إِلَي ذَلِکَ؟ قَالَتْ: إِنْ کَانَ نَبِيًا فَلَنْ يَضُرَّهُ وَإِنْ لَمْ يَکُنْ نَبِيًا اسْتَرَحْنَا مِنْهُ، فَعَفَا عَنْهَا رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم وَلَمْ يُعَاقِبْهَا . . . الحديث.
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ.
الحديث رقم 26: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: الديات، باب: فيمن سقي رجلا سماً أو اطعمه فمات أيقاظ منه، 4 / 17، الرقم: 4510، والدارمي في السنن، 1 / 46، الرقم: 68، والبيهقي في السنن، الکبري، 8 / 46.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اہل خیبر میں سے ایک یہودی عورت نے بکری کے بھنے ہوئے گوشت میں زہر ملایا پھر وہ (زہر آلود گوشت) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کر دیا۔ سو رسول اللہ ﷺ نے اس کی دستی (ران) لی اور اس سے کھانے لگے اور چند دیگر صحابہ بھی کھانے لگے۔ (اسی وقت) رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: اپنے ہاتھ (کھانے سے) روک لو اور آپ ﷺ نے اس عورت کی طرف ایک آدمی بھیجا جو اسے بلا کر لایا۔ آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم نے اس گوشت میں زہر ملایا ہے؟ یہودی عورت نے کہا: آپ کو کس نے بتایا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے اس دستی (یعنی بکری کی ران) نے بتایا ہے جو میرے ہاتھ میں ہے۔ عورت نے کہا: ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا اس فعل سے کیا ارادہ تھا؟ اس نے کہا: (میں نے سوچا) اگر آپ نبی ہیں تو زہر ہرگز آپ کو کوئی نقصان نہیں دے گا اور اگر نبی نہیں ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی رسول اللہ ﷺ نے اسے معاف فرما دیا اور کوئی سزا نہیں دی۔‘‘
771 / 27. عَنْ أَبِي زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضى الله عنه قَالَ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم: ادْنُ مِنِّي قَالَ: فَمَسَحَ بِيَدِهِ عَلَي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ. قَالَ: ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ جَمِّلْهُ وَأَدِمْ جَمَالَهُ. قَالَ: فَلَقَدْ بَلَغَ بِضْعًا وَمِئَةَ سَنَةٍ، وَمَا فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ بَيَاضٌ إِلاَّ نَبْذٌ يَسِيْرٌ وَلَقَدْ کَانَ مُنْبَسِطَ الْوَجْهِ وَلَمْ يَنْقَبِضْ وَجْهُهُ حَتَّي مَاتَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
الحديث رقم 27: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 77، الرقم: 21013، والعسقلاني في الإصابة، 4 / 599، الرقم: 5763، والمزي في تهذيب الکمال، 21 / 542، الرقم: 4326.
’’حضرت ابوزید انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے فرمایا: میرے قریب ہو جاؤ۔ پھر میرے سر اور داڑھی پر اپنا دست مبارک پھیرا اور دعا فرمائی: الٰہی! اسے زینت بخش اور اس کے حسن و جمال کو دوام عطا فرما۔ (راوی کہتے ہیں کہ) انہوں نے سو سال سے زیادہ عمر پائی لیکن ان کے سر اور داڑھی کے چند ہی بال سفید ہوئے تھے۔ ان کا چہرہ صاف او روشن رہا اور تادمِ آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔‘‘
772 / 28. عَنْ عَائِشَةَ رضي اللہ عنها زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَبَابَکْرٍ الصِّدِّيْقَ رضى الله عنه کاَنَ نَحَلَهَا جَادَّ عِشْرِيْنَ وَسْقًا مِنْ مَالِهِ بِالْغَابَةِ. فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: وَاللهِ يَا بُنَيَةُ مَامِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَيَّ غِنًي بَعدِي مِنْکِ وَلاَ أَعَزُّ عَلَيَّ فَقْرًا بَعْدِي مِنْکِ. وَإِنِّي کُنْتُ نَحَلْتُکِ جَادَّ عِشْرِيْنَ وَسْقًا. فَلَوْکُنْتِ جَدَدْتِيْهِ وَاحْتَزْتِيْهِ کَانَ لَکِ وَإِنَّمَا هُوَ الْيَوْمَ مَالُ وَارِثٍ. وَإِنَّمَا هُوَ أَخَوَاکِ وأُخْتَاکِ. فَاقْتَسِمُوْهُ عَلَي کِتَابِ اللهِ. قَالَتْ عَائِشَةُ رضي اللہ عنها: فَقُلْتُ: يَاأَبَتِ، وَاللهِ لَوْکَانَ کَذَا وَکذَا لَتَرَکْتُهُ إِنَّمَا هِيَ أَسْمَاءُ فَمَنِ الْأُخْرَي؟ فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ رضى الله عنه: ذُوْبَطْنِ بِنْتِ خَارِجَةَ أَرَاهَا جَارِيَةً فَوَلَدَتْ أُمَّ کُلْثُوْمٍ. رَوَاهُ مَالِکٌ وَالطَّحَاوِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ .
الحديث رقم 28: أخرجه مالک في الموطأ، کتاب: الأقضية، باب: مالايجوز من النحل، 2 / 752، الرقم: 1438، والبيهقي في السنن الکبري، 6 / 169، الرقم: 11728، 12267، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 88، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 177، الرقم: 62، والعسقلاني في الإصابة، 7 / 575، الرقم: 11023، والنووي في تهذيب الأسماء، 2 / 574، الرقم: 1030، 1239، والزيلعي في نصب الراية، 4 / 122، وأبو جعفر الطبري في الرياض النضرة، 2 / 123، 257، وابن سعد في الطبقات الکبري، 3 / 194.
’’حضور نبی اکرم ﷺ کی زوجہ مبارکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے غابہ (نامی وادی) میں انہیں کھجور کے چند درخت ہبہ کیے جن میں سے بیس وسق کھجوریں آتی تھیں۔ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا: اے میری پیاری بیٹی! ایسا دوسرا کوئی نہیں جس کا اپنے بعد غنی ہونا مجھے تم سے زیادہ پسند ہو اور اپنے بعد مجھے کسی کی مفلسی تم سے زیادہ گراں نہیں۔ میں نے تمہیں کچھ درخت دیئے تھے جن سے بیس وسق کھجوریں آتی تھیں۔ اگر تم نے ان پر قبضہ کیا ہوتا تو وہ تمہارے ہوجاتے۔ اب وہ میراث کا مال ہے اور تمہارے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ سو سارے مال کو اللہ کی کتاب (کے حکم) کے مطابق تقسیم کر لینا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا: اباجان! مال خواہ کتنا ہی زیادہ ہوتا میں چھوڑ دیتی لیکن میری بہن تو صرف حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ہیں دوسری کون ہے؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ بنت خارجہ کے پیٹ میں ہے اور میرے خیال میں وہ لڑکی ہے پھر انہوں نے ام کلثوم (نامی) بیٹی کو جنم دیا۔‘‘
773 / 29. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بِنْ أَبِي بَکْرٍ رضى الله عنهما في رواية طويلة فَدَعَا: (أَي أَبُوْبَکْرٍ رضي اللہ عنه) بِالطَّّعَامِ فَأَکَلَ وَأَکَلُوْا فَجَعَلُوْا لَا يَرْفَعُوْنَ لُقْمَةً إِلاَّ رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَکْثَرُ مِنْها، فَقَالَ يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ، مَاهَذَا؟ قَالَتْ: لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي، لَهِيَ الآنَ أَکْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِکَ بِثَلاَثِ مَرَّاتٍ، فَأَکَلُوْا وَبَعَثَ بِهَا إِلَي النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم فَذَکَرَأَنَّهُ أَکَلَ مِنْهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 29: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: مواقيت الصلاة، باب: السَّّمَرِ مَعَ الضَّيفِ وَالأهلِ، 1 / 216، الرقم: 577، وفي کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1312، الرقم: 3388، وفي کتاب: الأدب، باب: مايُکره من الغضب والجزع عند الضيف، 5 / 2274، الرقم: 5789، وفي کتاب: الأدب، باب: قول الضيف لصاحبه: لاَ آکُلُ حَتَّي تَاکُلَ، 5 / 2274، الرقم: 5790، ومسلم في الصحيح، کتاب: الأشربة، باب: إکرام الضيف وفضل إيثاره، 3 / 1627، الرقم: 2057، والبزار في المسند، 6 / 228، الرقم: 2263، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 197، الرقم: 1702، 1712.
’’حضرت عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنھما سے ایک طویل واقعہ میں مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام (اصحاب صفہ) کی دعوت کی، (اور ان کے ساتھ) آپ نے خود بھی کھانا کھایا اور دوسروں نے بھی۔ ہر لقمہ اٹھانے کے بعد کھانا پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے (اپنی بیوی سے جو بنی فراس کے قبیلہ سے تھیں) فرمایا: اے ہمشیرہ بنی فراس! یہ کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا: اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک (میرے سرتاج) اس وقت تو یہ کھانا پہلے سے تین گناہ زیادہ ہے چنانچہ ان سب صحابہ نے بھی خوب کھایا اور حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں بھی روانہ کیا جسے حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی تناول فرمایا۔‘‘
774 / 30. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما قَالَ: مَا سَمِعْتُ عُمَرَ لِشَيءٍ قَطُّ يَقُوْلُ: إِنِّي لَأَظُنُّهُ کَذَا إِلَّا کَانَ کَمَا يَظُنُّ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
الحديث رقم 30: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: إسلامُ عمرَ بنَ الخطابِ رضى الله عنه، 3 / 1403، الرقم: 3653، والحاکم في المستدرک، 3 / 94، الرقم: 4503، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 119، الرقم: 65، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 568، الرقم: 1510.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھماسے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کوئی ایسی بات نہیں سنی جس کے متعلق انہوں نے فرمایا ہو کہ میرے خیال میں یہ اس طرح ہے اور وہ ان کے خیال کے مطابق نہ نکلی ہو۔‘‘
775 / 31. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم: لَقَدْکَانَ فِيْمَا قَبْلَکُمْ مِنَ الْأُمَمِ نَاسٌ مُحَدَّثُوْنَ، فَإِنْ يَکُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عَمَرُ أَي مُلْهَمُوْنَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَرَوَاهُ مُسْلِمٌ مِنْ رِوَايَةِ عَائِشَةَ رضي اللہ عنها.
وقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
وفي رواية: عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضى الله عنه قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ! کَيْفَ مُحَدَّثٌ؟ قَالَ: تَتَکَلَّمُ الْمَلَائِکَةُ عَلَي لِسَانِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
الحديث رقم 31: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: مناقب عمر بنَ الخطَّابِ رضى الله عنه، 3 / 1349، الرقم: 3486، وفي کتاب: الأنبياء، باب: أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْکَهْفِ وَالرَّقِيْمِ: (الکهف: 9)، 3 / 1279، الرقم: 3282، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل عمر رضى الله عنه، 4 / 1864، الرقم: 2398، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: في مناقب عمر بن الخطاب رضى الله عنه، 5 / 622، الرقم: 3693، وابن حبان في الصحيح، 15 / 317، الرقم: 6894، والحاکم في المستدرک، 3 / 92، الرقم: 4499، وقال: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 55، الرقم: 24330، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 48، الرقم: 5734، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 18، الرقم: 6726، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 278، الرقم: 4839، وابن راهويه في المسند، 2 / 479، الرقم: 1058، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 3 / 138، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 564، الرقم: 1504، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 69، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 315، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 50، والمبارکفوري في تحفة الأهوذي، 10 / 125.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: پہلی امتوں میں ایسے لوگ تھے جن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے باتیں القاء کی جاتی تھیں (یعنی انہیں الہام ہوتا تھا) اور میری امت میں اگر کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہے۔‘‘
’’اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں بیان کیا کہ صحابہ کرام نے پوچھا: (یا رسول اللہ!) اس الہام کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس کی زبان پر فرشتے بولتے ہیں۔‘‘
776 / 32. عَنْ عَائِشَةَ رضي اللہ عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم: إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَي شَيَاطِيْنِ الإِنْسِ وَالْجِنِّ قَدْ فَرُّوْا مِنْ عُمَرَ.
وفي رواية: قَالَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَخَافُ (أَوْ لَيَفْرَقُ) مِنْکَ يَا عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 32: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: في مناقب عمر بن الخطاب رضى الله عنه، 5 / 621، الرقم: 3690، 3691، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 309، الرقم: 5957، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 353، الرقم: 23039، وفي فضائل الصحابة، 1 / 333، الرقم: 480، وابن حبان في الصحيح، 10 / 231، الرقم: 4386، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 77.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں جنات و انسانوں کے شیاطین کو دیکھتا ہوں کہ وہ عمر کے خوف سے بھاگ گئے ہیں۔
اور ایک روایت میں فرمایا: اے عمر! تم سے شیطان ڈرتا ہے۔‘‘
777 / 33. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما أَنَّ عُمَرَ بَعَثَ جَيْشًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَي سَارِيَةَ، فَبَيْنَمَا عُمَرُ يَخْطُبُ فَجَعَلَ يَصِيْحُ: يَاسَارِيُّ الْجَبَلَ. فَقَدِمَ رَسُوْلٌ مِنَ الْجَيْشِ فَقَالَ: يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِينَ! لَقِيْنَا عَدُوَّنَا فَهَزَمُوْنَا فَإِذَا بِصَائِحٍ يَصِيْحُ: يَا سَارِيُّ الْجَبَلَ. فَأَسْنَدْنَا ظُهُوْرَنَا إِلَي الْجَبَلِ فَهَزَمَهُمُ اللهُ تَعَالَي. رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي الْفَضَائِلِ وَالْبَيْهَقِيُّ وَأَبُوْنُعَيْمٍ.
الحديث رقم 33: أخرجه أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 219، الرقم: 355، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 / 370، وفي الإعتقاد، 1 / 314، وأبونعيم في دلائل النبوة، 3 / 210 - 211، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 410، الرقم: 5954، والرازي في التفسير الکبير، 21 / 87.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس کا سالار ایک شخص کو مقرر کیا جس کا نام ساریہ تھا۔ ایک دن آپ خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک دوران خطبہ آپ نے پکارا: اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لو۔ (جنگ کے بعد) لشکر سے ایک قاصد آیا اور کہنے لگا: اے امیر المومنین! ہم دشمن سے لڑ رہے تھے اور قریب تھا کہ وہ ہمیں شکست دے دے پھر اچانک کسی پکارنے والے نے پکارا: اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لو۔ ہم نے اپنی پیٹھیں پہاڑ کی طرف کرلیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست (اور ہمیں فتح عطا) کی۔‘‘
778 / 34. عَنْ قَيْسِ بْنِ الْحَجَّاجِ عَمَّنْ حَدَّثَهُ قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مِصْرُ أَتَي أَهْلُهَا إِلَي عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضى الله عنه حِيْنَ دَخَلَ بُوْنَةَ مِنْ أَشْهُرِ الْعَجَمِ. فَقَالُوْا: أَيُّهَا الْأَمِيْرُ إِنَّ لِنِيْلِنَا هَذَا سُنَّةً لاَ يَجْرِي إِلاَّ بِهَا. فَقَالَ: وَمَا ذَاکَ؟ قَالُوْا: إِذَا کَانَ ثَنَتَا عَشْرَةَ لَيْلَةً خَلَوْنَ مِنْ هَذَا الشَّهْرِ عَمَدْنَا إِلَي جَارِيَةٍ بِکْرٍ مِنْ أَبَوَيْهَا فَأَرَضَيْنَا أَبَوَيْهَا وَجَعَلْنَا عَلَيْهَا مِنَ الْحُلِيِّ وَالثِّيَابِ أَفْضَلُ مَا يَکُوْنُ ثُمَّ أَلْقَيْنَاهَا فِي هَذَا النِّيْلِ. فَقَالَ لَهُمْ عَمْرٌو رضى الله عنه: إِنَّ هَذَا مِمَّا لاَ يَکُوْنُ فِي الإِسْلاَمِ إِنَّ الإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَهُ. قَالَ: فَأَقَامُوْا بُوْنَةَ وَأَبِيْبَ وَمَسْرَي وَالنِّيْلُ لَا يَجْرِي قَلِيْلًا وَلَا کَثِيْرًا حَتَّي هَمُّوْا بِالْجِلَاءِ فَلَمَّا رَأَي ذَلِکَ عَمْرٌوصکَتَبَ بِذَلِکَ إِلَي عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضى الله عنه، فَکَتَبَ إِنَّکَ قَدْ أَصَبْتَ بِالَّذِي فَعَلْتَ وَإِنَّ الإِسْلَامَ يَعْتَدِمُ مَا قَبْلَهُ وَإِنِي قَدْ بَعَثْتُ إِلَيْکَ بِبِطَاقَةٍ دَاخِلَ کِتَابِي هَذَا فَأَلْقِهَا فِي النِّيْلِ. فَلَمَّا قَدِمَ کِتَابُ عُمَرَ رضى الله عنه إِلَي عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضى الله عنه، وأَخَذَ الْبِطَاقَةَ فَفَتَحَهَا فَإِذَا فِيْهَا: مِنْ عَبْدِ اللهِ عُمَرَ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ إِلَي نِيْلِ مِصْرَ أَمَّا بَعْدُ! فَإِنْ کُنْتَ إِنَّمَا تَجْرِي مِنْ قِبَلِکَ فَلَا تَجْرِ وَإِنْ کَانَ اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَارُ هُوَ الَّذِي يُجْرِيْکَ فَنَسْأَلَ اللهَ الْوَاحِدَ الْقَهَارَ أَنْ يُجْرِيَکَ. قَالَ: فَأَلْقَي الْبِطَاقَةَ فِي النِّيْلِ فَلَمَّا أَلْقَي الْبِطَاقَةَ أَصْبَحُوْا يَوْمَ السَّبْتِ وَقَدْ أَجْرَاهُ اللهُ تَعَالَي سِتَّةَ عَشَرَ ذِرَاعًا فِي لَيْلَةٍ وَاحِدَةٍ وَقَطَعَ اللهُ تَعَالَي تِلْکَ السُّنَّةَ عَنْ أَهْلِ مِصْرَ إِلَي الْيَوْمِ.
رَوَاهُ اللَّالْکَائِيُّ وَالْقُرْطَبِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَأَبُوْالشَّيْخِ فِي کِتَابِ الْعَظَمَةِ.
الحديث رقم 34: أخرجه اللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 119، الرقم: 66، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 103، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 465، والرازي في التفسير الکبير، 21 / 88، والحموي في معجم البلدان، 5 / 335.
’’حضرت قیس بن حجاج روایت کرتے ہیں اس سے جس نے انہیں بتایا کہ مصر فتح ہونے کے بعد اہل مصر (گورنر مصر) حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب عجمی مہینہ بونہ شروع ہوا۔ اور عرض کیا: اے امیر! ہمارے اس دریائے نیل کا ایک معمول ہے جس کی تعمیل کے بغیر اس میں روانی نہیں آتی۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بتاؤ تو وہ کیا معمول ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا: جب اس مہینہ کی بارہ تاریخ آتی ہے تو ہم ایک کنواری لڑکی اس کے والدین کی رضا مندی سے حاصل کرتے ہیں اور پھر اسے عمدہ سے عمدہ زیورات اور کپڑے پہنا کر اس دریائے نیل کی نذر کر دیتے ہیں۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ سب کچھ اسلام میں نہیں ہوگا۔ اسلام زمانہ جاہلیت کی تمام (بے ہودہ) رسوم کو ختم کرتا ہے۔ (راوی نے) کہا: اہل مصر بونہ، ابیب اور مَسرِی تین ماہ تک اس حکم پر قائم رہے۔ نیل کی روانی رُکی رہی پانی کا قطرہ نہ رہا۔ دریائے نیل کی روانی کو بند دیکھ کر لوگوں نے ترک وطن کا ارادہ کیا۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے تمام حالات کی امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ اے عمرو بن عاص! تم نے جو کچھ کیا درست کیا۔ اسلام نے سابقہ (بے ہودہ) رسوم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ میں اپنے اس خط کے اندر ایک رقعہ بھیج رہا ہوں۔ اسے دریائے نیل میں ڈال دینا۔ پس جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا خط حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو انہوں نے اس خط کو کھولا تو اس میں درج ذیل عبارت تھی۔’’اللہ تعالیٰ کے بندے امیرالمومنین عمر کی طرف سے مصر کے دریائے نیل کے نام! حمدو صلاۃ کے بعد (اے دریا) اگر تو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو ہرگز نہ بہہ! اور اگر اللہ واحدو قہار ہی تجھے رواں کرتا ہے تو ہم خداوندِ واحد و قہار سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تجھے جاری کر دے۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے وہ رقعہ دریائے نیل میں ڈال دیا۔ جب رقعہ ڈالا ہفتہ کے دن صبح لوگوں نے دیکھا کہ ایک رات میں اللہ تعالیٰ نے سولہ ہاتھ (پہلے سے بھی) اونچا پانی دریائے نیل میں جاری فرما کر اہل مصر سے اسی دن سے آج تک اس قدیم ظالمانہ رسم کو ہمیشہ کے لیے ختم فرما دیا۔‘‘
779 / 35. عَنْ مَالِکٍ رضى الله عنه قَالَ في رواية طويلة قُتِلَ عُثْمَانُ رضى الله عنه وَإِنَّ رَأْسَهُ عَلَي الْبَابِ لَيَقُوْلُ: طُقْ طُقْ حَتَّي صَارُوْا بِهِ إِلَي حَشِّ کَوْکَبٍ فَاحْتَفَرُوا لَهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
الحديث رقم 35: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 78، الرقم: 109، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 39 / 532، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 95، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1047، وابن سعد في الطبقات الکبري، 3 / 77، والمزي في تهذيب الکمال، 19 / 457، والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2 / 145.
’’حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں مروی ہے فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا، اور دروازے پر ہی ان کا سر مبارک پکار رہا تھا: مجھے دفن کرو، مجھے دفن کرو چنانچہ ان کے ساتھی ان کی نعش مبارک کو باغِ کوکب میں لے گئے جہاں انہوں نے آپ کی تدفین کی۔‘‘
780 / 36. عَنْ مَالِکٍ رضى الله عنه قَالَ: وَکَانَ عُثْمَانُ رضى الله عنه يَمُرُّ بِحَشِّ کَوْکَبٍ فَيَقُوْلُ لَيُدْفَنُ رَجُلٌ صَالِحٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
الحديث رقم 36: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 78، الرقم: 109، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 39 / 532، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 95، وابن عبدالبر في الاستيعاب، 3 / 1047، وابن سعد في الطبقات الکبري، 3 / 77، والمزي في تهذيب الکمال، 19 / 457.
’’حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ باغِ کوکب کے پاس سے گذرتے تو فرماتے کہ یہاں ایک نیک انسان دفن کیا جائے گا (چنانچہ وہ خود اسی جگہ دفن کیے گئے)۔‘‘
781 / 37. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما قَالَ: إِنَّ عُثْمَانَ رضى الله عنه أَصْبَحَ فَحَدَّثَ فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم فِي الْمَنَامِ اللَّيْلَةَ فَقَالَ: يَا عُثْمَانُ أَفْطِرْ عِنْدَنَا فَأَصْبَحَ عُثْمَانُ رضى الله عنه صَائِمًا فَقُتِلَ مِنْ يَوْمِهِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
782 / 38. وفي رواية: عَنِ امْرَأَةِ عُثْمَانَ قَالَتْ: قَالَ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رضى الله عنهما قَالُوْا: إِنَّکَ تُفْطِرُ عِنْدَنَا اللَّيْلَةَ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ سَعْدٍ.
الحديث رقم37 / 38: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 110، الرقم: 4554، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 181، الرقم: 30510 - 30511: 7 / 442، الرقم: 37085، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 232، وابن سعد في الطبقات الکبري، 3 / 74، وابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 2 / 298، الرقم: 182، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 39، 384.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے (اپنی شہادت کے) دن صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے رات کو دیکھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے عثمان! آج کا روزہ تم ہمارے پاس افطار کرو گے۔ سو اس دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے روزہ رکھا اور اسی دن انہیں شہید کر دیا گیا۔‘‘
’’ایک روایت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ سے مروی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے حضور نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا وہ سب مجھے کہہ رہے تھے: (اے عثمان!) آج رات تمہاری افطاری ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
783 / 39. عَنْ سُلَيْمَانَ ابْنِ يَسَارِ رضى الله عنه أَنَّ جَهْجَاهَ الْغَفَارِيَّ أَخَذَ عَصَا عُثْمَانَ الَّتِي يَتَخَصَّرُ بِهَا فَکَسَرَهَا عَلَي رَکْبَتِهِ فَوَقَعَتْ فِي رَکْبَتِهِ الآکِلَةُ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَاللَّالْکَائِيُّ.
الحديث رقم 39: أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 39 / 329، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 124، الرقم: 70، وابن عبد البر في الاستيعاب، 1 / 269، والرازي في التفسير الکبير، 21 / 88.
’’حضرت سلیمان بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کہ جھجاہ الغفاری نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عصا جس پر ٹیک لگائے تھے اپنے گھٹنے پر رکھ کر(گستاخی کے ساتھ) توڑ دیا تو اس کے گھٹنے پر پھوڑا نکل آیا۔‘‘
784 / 40. عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضى الله عنه مَوْلَي رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ عَلِيٍّ رضى الله عنه حِيْنَ بَعَثَهُ رَسُوْلُ اللهِ بِرَأْيَتِهِ، فَلَمَّا دًنَا مِنَ الْحِصْنِ، خَرَجَ إِلَيْهِ أَهْلُهُ فقَاتَلَهُمْ، فَضَرَبَهُ رَجُلٌ مِنْ يَهُوْدٍ فَطَرَحَ تُرْسَهُ مِنْ يَدِهِ، فَتَنَاوَلَ عَلِيٌّ رضى الله عنه بَابًا کَانَ عِنْدَ الْحِصْنِ، فَتَرَّسَ بِهِ نَفْسَهُ، فَلَمْ يَزَلْ فِي يَدِهِ وَهُوَ يُقَاتِلُ حَتَّي فَتَحَ اللهُ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَلْقَاهُ مِنْ يَدَيْهِ حِيْنَ فَرَغَ فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي نَفَرٍ مَعِي سَبْعَةٌ أَنَا ثَامِنُهُمْ، نَجْهَدُ عَلَي أَنْ نَقْلِبَ ذَلِکَ الْبَابَ فَمَا نَقْلِبُهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
الحديث رقم 40: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ، 6 / 8، الرقم: 23909، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 152، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 137، وابن هشام في السيرة النبوية، 4 / 306.
’’حضرت ابورافع جو حضور نبی اکرم ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے روایت فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا جھنڈا دے کر خیبر کی طرف روانہ کیا تو ہم بھی ان کے ساتھ تھے جب ہم قلعہ خیبر کے پاس پہنچے جو مدینہ منورہ کے قریب ہے تو خیبر والے اچانک حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے۔ آپ بے مثال بہادری کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ اچانک ان پر ایک یہودی نے چوٹ کر کے ان کے ہاتھ سے ڈھال گرا دی۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قلعہ کا ایک دروازہ اکھیڑ کر اپنی ڈھال بنا لیا اور اسے ڈھال کی حیثیت سے اپنے ہاتھ میں لئے جنگ میں شریک رہے۔ بالآخر دشمنوں پر فتح حاصل ہوجانے کے بعد اس ڈھال نما دروازہ کو اپنے ہاتھ سے پھینک دیا اس سفر میں میرے ساتھ سات آدمی اور بھی تھے اور ہم آٹھ کے آٹھ مل کر اس دروازے کو الٹنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ہم وہ دروازہ (جسے حضرت علی نے تنہا اکھیڑا تھا) نہ الٹ سکے۔‘‘
785 / 41. عَنْ جَابِرٍ رضى الله عنه أَنَّ عَلِيًا رضى الله عنه حَمَلَ الْبَابَ يَوْمَ خَيْبَرٍ حَتَّي صَعِدَ الْمُسْلِمُوْنَ فَفَتَحُوْهَا وَأَنَّهُ جُرِّبَ فَلَمْ يَحْمِلْهُ إِلاَّ أَرْبَعُوْنَ رَجُلًا.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَقَالَ الْعَسْقَلاَنِيُّ: رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
الحديث رقم 41: أخرجه ابن أبي أبي شيبة في المصنف، 6 / 374، الرقم: 32139، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 478، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 137، وابن هشام في السيرة النبوية، 4 / 306.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ غزوہ خیبر کے روز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قلعہ خیبر کا دروازہ اٹھالیا یہاں تک کہ مسلمان قلعہ پر چڑھ گئے اور اسے فتح کرلیا اور یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ اس دراوزے کو چالیس آدمی مل کر ہی اٹھا سکتے تھے۔‘‘
786 / 42. عَنْ زَادَانَ رضى الله عنه أَنَّ عَلِيًا رضى الله عنه حَدَّثَ حَدِيْثًا فَکَذَّبَهُ رَجُلٌ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ رضى الله عنه: أَدْعُوْ عَلَيکَ إِنْ قُلْتَ کَاذِبًا قَالَ: أُدْعُ فَدَعَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَبْرَحْ حَتَّي ذَهَبَ بَصَرُهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 42: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 219، الرقم: 1791، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 116، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 126، الرقم: 73.
’’زادان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گفتگو فرمائی تو ایک شخص نے انہیں جھٹلایا اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تو نے جھوٹ بولا ہو تو میں تجھے بددعا دوں؟ اس نے کہا: ہاں بددعا کریں چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے بددعا کی تو وہ شخص ابھی اس مجلس سے اٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ اندھا ہو گیا۔‘‘
787 / 43. عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ رضى الله عنه قَالَ: خَطَبَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضى الله عنهما حِيْنَ قُتِلَ عَلِيٌّ رضى الله عنه فَقَالَ: يَا أَهْلَ الْکُوفَةِ أَوْ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ لَقَدْ کَانَ بَيْنَ أَظْهُرِکُمْ رَجُلٌ قُتِلَ اللَّيْلَةَ أَوْ أُصِيْبَ الْيَوْمَ لَمْ يَسْبِقْهُ الْأَوَّلُوْنَ بِعِلْمٍ وَلَا يُدْرِکْهُ الآخَرُوْنَ کَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم إِذَا بَعَثَهُ فِي سَرِيَةٍ کَانَ جِبْرِيْلُ عليه السلام عَنْ يَمِيْنِهِ وَمِيْکَايِلُ عليه السلام عَنْ يَسَارِهِ فَلَا يَرْجِعُ حَتَّي يَفْتَحَ اللهُ عَلَيْهِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
الحديث رقم 43: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 369، الرقم: 32094، والهندي في کنزالعمال، 6 / 412.
’’حضرت عاصم بن ضمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا تو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا: اے اہل کوفہ ! (یا فرمایا: ) اے اہل عراق! آج تمہارے درمیان وہ شخص شہید کر دیا گیا جس سے علم میں (امت کے) اولین بھی سبقت نہیں کر سکے اور آخرین میں سے بھی کوئی ان کے مقام کو نہ پہنچ سکے گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی جہاد کی مہم پر روانہ فرماتے تو ان کی دائیں طرف حضرت جبرئیل اور بائیں طرف میکائیل علیھما السلام رہا کرتے تھے اور وہ کبھی بھی فتح حاصل بغیر کئے نہیں لوٹتے تھے۔‘‘
788 / 44. عَنْ أُمِّ سَلْمَي رضي اللہ عنها قَالَتْ: اشْتَکَتْ فَاطِمَةُ سلام اللہ عليها شَکْوَاهَا الَّتِي قُبِضَتْ فِيْهِ، فَکُنْتُ أُمَرِّضُهَا فَأَصْبَحَتْ يَوْمًا کَأَمْثَلِ مَارَأَيْتُهَا فِي شَکْوَاهَا تِلْکَ. قَالَتْ: وَخَرَجَ عَلِيٌّ رضى الله عنه لِبَعْضِ حَاجَتِهِ، فَقَالَتْ: يَا أُمَّهْ اسْکُبِي لِي غُسْلًا، فَسَکَبْتُ لَهَا غُسْلًا فَاغْتَسَلَتْ کَأَحْسَنِ مَا رَأَيْتُهَا تَغْتَسِلُ، ثُمَّ قَالَتْ: يَا أُمَّهْ أَعْطِيْنِي. ثِيَابِي الْجُدُدَ، فأَعْطَيْتُهَا، فَلَبِسَتْهَا، ثُمَّ قَالَتْ: يَا أُمَّهْ قَدِّمِي لِي فِرَاشِي وَسَطَ الْبَيْتِ، فَفعَلْتُ وَاضْطَجَعَتْ وَاسْتَقْبَلَتِ الْقِبْلَةَ، وَجَعَلَتْ يَدَهَا تَحْتَ خَدِّهَا، ثُمَّ قَالَتْ: يَا أُمَّهْ إِنِّي مَقْبُوْضَةٌ الآنَ، وَقَدْ تَطَهَرْتُ فَلاَ يَکْشِفْنِي أَحَدٌ، فَقُبِضَتْ مَکَانَهَا، قَالَتْ: فَجَاءَ عَلِيٌّ رضى الله عنه فَأَخَبَرْتُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
الحديث رقم 44: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 461، الرقم: 27656 - 27657، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 113، والزيلعي في نصب الراية، 2 / 250، ومحب الدين في ذخائر العقبي، 1 / 103، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 210، وابن الأثير في أسد الغابة، 7 / 221.
’’حضرت امّ سلمی رضی اللہ عنھا روایت کرتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا اپنے مرضِ وصال میں مبتلا ہوئیں تو میں ان کی تیمارداری کرتی تھی۔ بیماری کے اس پورے عرصہ کے دوران جہاں تک میرا خیال ہے ایک صبح ان کی حالت قدرے بہتر تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی کام سے باہر گئے۔ سیدہ کائنات نے کہا: اے اماں! میرے غسل کے لیے پانی لائیں۔ میں پانی لائی۔ جہاں تک میرا خیال ہے (اس روز) انہوں نے بہترین غسل کیا۔ پھر بولیں: اماں جی! مجھے نیا لباس دیں۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر وہ قبلہ رخ ہو کر لیٹ گئیں۔ ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے کر لیا پھر فرمایا: اماں جی! اب میری وفات ہو جائے گی، میں (غسل کر کے) پاک ہو چکی ہوں، لہٰذا مجھے کوئی نہ کھولے پس اُسی جگہ ان کی وفات ہو گئی۔ حضرت اُمّ سلمی فرماتی ہیں کہ پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ تشریف لائے تو میں نے انہیں ساری بات بتائی۔‘‘
789 / 45. عَنْ عُمَّارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ رضى الله عنه قَالَ: لَمَّا جِيئَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ زِيَادٍ وَأَصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَقُوْلُوْنَ: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَإِذَا حَيَةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّؤُوْسَ حَتَّي دَخَلَتْ فِي مِنْخَرَي عُبَيْدِ اللهِ بْنِ زِيَادٍ فَمَکَثَتْ هُنَيْهَةً ثُمَّ خَرَجَتْ فَذَهَبَتْ حَتَّي تَغَيَبَتْ. ثُمَّ قَالُوْا: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَفَعَلَتْ ذَلِکَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثاً. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 45: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: مناقب الحسن والحسين عليهما السلام، 5 / 660، الرقم: 3780، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 112، الرقم: 2832، والبار کفوري في تحفة الأحوذي، 10 / 193.
’’حضرت عمارہ بن عمیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب (امام حسین علیہ السلام کے قاتل) عبید اللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لا کر مسجد کے برآمدے میں رکھے گئے اور میں اس وقت ان لوگوں کے پاس پہنچا جبکہ وہ لوگ کہہ رہے تھے وہ آ گیا وہ آ گیا۔ اتنی دیر میں ایک سانپ کہیں سے آیا اور ان کے سروں میں گھسنا شروع کیا اور عبید اللہ بن زیاد کے نتھنے میں گھسا اور اس میں تھوڑی دیر ٹھہر کر پھر باہر آ گیا اور کہیں چلا گیا یہاں تک کہ وہ کہیں غائب ہو گیا، پھر اچانک وہ کہنے لگے وہ آ گیا وہ آ گیا وہ سانپ پھر آیا اور یہی عمل اس نے دو یا تین بار دہرایا۔‘‘
790 / 46. عَنْ قُرَّةَ بْنِ خَالِدِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا رِجَاءَ الْعَطَارِدِيِّ رضى الله عنه يَقُوْلُ: لَا تَسُبُّوْا عَلِيًا رضى الله عنه وَلَا أَهْلَ هَذَا الْبَيْتِ فَإِنَّ جَارًا لَنَا مِنْ بِلْهَجِيْمِ قَالَ: أَلَمْ تَرَوْا إِلَي هَذَا الْفَاسِقِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ قَتَلَهُ اللهُ، فَرَمَاهُ اللهُ بِکَوْکَبَيْنِ فِي عَيْنَيْهِ فَطَمَسَ اللهُ بَصَرَهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
إِسْنَادُهُ حَسَنٌ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
الحديث رقم 46: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 112، الرقم: 2830، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 196، وقال: وَ رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
’’حضرت قرہ بن خالد فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ حضرت ابو رجاء عطاردی رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے: حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اس خانوادہء (نبوت) کو گالیاں مت دو۔ ہمارا ایک پڑوسی جو کہ بلھجیم سے تھا کہنے لگا: کیا تم یہ نہیں دیکھتے (معاذ اللہ) کہ اس فاسق حسین بن علی کو اللہ تعالیٰ نے قتل کر دیا، (اس کا یہ کہنا ہی تھا کہ) اسی وقت اللہ تعالیٰ نے (آسمان سے) اس کی دونوں آنکھوں میں دو ستارے مارے اور وہ اندھا ہو گیا۔‘‘
791 / 47. عَنْ خَيْثَمَةَ رضى الله عنه قَالَ: أُتِيَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيْدِ رضى الله عنه بِرَجُلٍ وَمَعَهُ زَقُّ خَمٍ فَقَالَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ عَسْلاً، فَصَارَ عَسْلاً.
وفي رواية: لَمَّا قَدِمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيْدِ الْحُرَّةَ أُتِي بِسَمٍّ فَوَضَعَهُ فِي رَاحَتِهِ ثُمَّ سَمَّي وَشًرِبَهُ.
رَوَاهُ اللَّالْکَائِيُّ وَالذَّهَبِيُّ وَالْعَسْقَ.لَانِيُّ.
وَقاَلَ: رَوَاهُ أَبُوْيَعْلَي وَابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ أَبِي الدُّنْيَا بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ.
الحديث رقم 47: أخرجه اللالکائي في کرامات الأولياء، 2 / 254، الرقم: 94.97، والذهبي في سيرأعلام النبلاء، 1 / 375، 376، والعسقلاني في الإصابة، 2 / 254، والرازي في التفسير الکبير، 21 / 89.
’’حضرت خیثمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی لایا گیا اس کے پاس شراب کی صراحی تھی آپ نے فرمایا: اے اللہ! اسے شہد بنا دے تو وہ شراب فوراً شہد میں تبدیل ہو گئی۔‘‘
’’اور ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ حرہّ کے مقام پر آئے تو ان کے پاس زہر قاتل لایا گیا انہوں نے اسے ہتھیلی پر ڈالا اور بسم اللہ پڑھ کر پی گئے (مگر اس زہر نے ان پر مطلقًا کوئی مضر اثر نہیں کیا)۔‘‘
792 / 48. عَنْ أَبِي خَلدَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي الْعَالِيَةَ: سَمِعَ أَنَسٌ رضى الله عنه مِنَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم قَالَ: خَدَمَهُ عَشْرَ سِنِينَ وَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم وَکَانَ لَهُ بُسْتَانٌ يَحْمَلُ فِي السَّنَةِ الْفَاکِهَةَ مَرَّتَيْنِ، وَکَانَ فِيهَا رَيْحَانٌ، کَانَ يَجِدُ مِنْهُ رِيحَ الْمِسْکِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 48: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: مناقب لأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضى الله عنه، 5 / 683، الرقم: 3833، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 3 / 400، والعسقلاني في الإصابة، 1 / 127، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 401، الرقم: 5952.
’’حضرت ابوخلدہ (تابعی) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو عالیہ سے پوچھا: کیا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے احادیث کی سماعت کی ہے؟ ابوعالیہ نے فرمایا: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے دس سال حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت کی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی جس کے باعث حضرت انس کا باغ سال میں دو مرتبہ پھل دیتا تھا اور ان کے باغ میں ایک خوشبودار پودا تھا جس سے انہیں کستوری کی خوشبو آتی تھی۔‘‘
793 / 49. عَنْ أَبيِ هُرَيْرَةَ رضى الله عنه في رواية طويلة وَکَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ يَوَم بَدْرٍ، فَمَکَثَ عِنْدَهُمْ أَسِيْرًا. وَکَانَتْ تَقُوْلُ مِنْ بَعْضِ بِنَاتِ الْحَارِثِ: مَارَأَيْتُ أَسِيْرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ، لَقَدْ رَأَيْتُهُ يَأَکُلُ مِنْ قِطْفِ عِنَبٍ وَمَا بِمَکَّةَ يَوْمَئِذٍ ثَمَرَةٌ، وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ فِي الْحَدِيْدِ، وَمَاکَانَ إِلاَّ
رَزَقَهُ اللهُ. روَاهُ الْبُخارِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 49: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: غَزْوَةُ الرَّجِيعِ، وَرِعْلٍ، وَذَکوان، وبِئر مَعْونة، 4 / 1499، الرقم: 3858، وفي کتاب: الجهاد، باب: هل يَسْتَاسِر الرَّجُلُ ومَنَ لَم يَسْتَأَسِرُ وَمَن رَکع رَکْعَتَين عند القَتلِ، 3 / 1108، الرقم: 2880، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 310، الرقم: 8082، وعبد الرزاق في المصنف، 5 / 353، الرقم: 9730، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 221، الرقم: 4191، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 101، الرقم: 53، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 384، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 779، الرقم: 1305، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 78.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل روایت میں ہے کہ حضرت خُبیب رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں (سردارِ قریش) حارث بن عامر کو قتل کیا تھا (بعد کے ایک واقعہ میں) حضرت خُبیب (گرفتار ہو کر) ان کے قیدی بن گئے۔ حارث (جسے حضرت خُبیبص نے قتل کیا تھا) کی ایک بیٹی کہا کرتی تھی کہ میں نے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ سے زیادہ اچھا اور نیک کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ اور بے شک میں نے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو (دورانِ قید) انگور کا خوشہ کھاتے ہوئے دیکھا حالانکہ ان دنوں مکہ میں کوئی پھل نہیں ملتا تھا (یعنی پھلوں کا موسم بھی نہیں تھا) اور ویسے بھی وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ سو یہ وہ روزی تھی جو اللہتعالیٰ انہیں (غیب سے) مرحمت فرماتا تھا۔‘‘
794 / 50. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه في رواية طويلة وَبَعَثَ قُرَيْشٌ إِلَي عَاصِمٍ لِيُؤْتُوْا بِشَيءٍ مِنْ جَسَدِهِ يَعْرِفُوْنَهُ وَکَانَ عَاصِمٌ قَتَلَ عَظِيْمًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ فَبَعَثَ اللهُ عَلَيْهِ مِثْلَ الظُّلَّةِ مِنَ الدَّبْرِ، فَحَمَتْهُ مِنْ رُسُلِهِمْ فَلَمْ يَقْدِرُوْا مِنْهُ عَلَي شَيءٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 50: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: غَزْوَةُ الرَّجِيعِ، وَرِعْلٍ، وَذَکوان، وبِئر مَعُونة، 4 / 1499، الرقم: 3858، وفي کتاب: الجهاد، باب: هل يَسْتَاسِرُ الرَّجُلُ ومَنَ لَم يَسْتَأَسِر وَمَن رَکع رَکْعَتَين عند القتل، 3 / 1108، الرقم: 2880، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 310، الرقم: 8082، وعبد الرزاق في المصنف، 5 / 353، الرقم: 9730، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 221، الرقم: 4191، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 101، الرقم: 53.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں مروی ہے کہ کفارِ قریش نے (دھوکہ سے شہید کرنے کے بعد) ایک دستہ کو شناخت کے لئے حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کی لاش میں سے کوئی ٹکڑا کاٹ کر لانے کے لئے بھیجا۔ حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں ان کے بڑے سرداروں میں سے ایک کو قتل کیا تھا۔ سو (اس دستہ کے پہنچتے ہی) اللہتعالیٰ نے ان کی لاش کے پاس بہِڑوں کی مثل کوئی جانور بھیج دیئے جنہوں نے کسی کو ان کی لاش کے پاس بھی پھٹکنے نہیں دیا اور وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ لے جانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔‘‘
795 / 51. عَنْ جَابِرٍ رضى الله عنه قَالَ: لَمَّا حَضَرَ أُحُدٌ، دَعَانِي أَبِي مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ: مَا أَرَانِي إِلَّا مَقْتُوْلاً فِي أَوَّلِ مَنْ يُقْتَلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم، وَإِنِّي لاَ أَتْرُکُ بَعْدِي أَعَزَّ عَلَيَّ مِنْکَ غَيْرَ نَفْسِ رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم، فَإِنَّ عَلَيَّ دَيْنًا، فَاقْضِ، وَاسْتَوصِ بِأَخَوَاتِکَ خَيْرًا. فَأَصْبَحْنَا، فَکَانَ أَوَّلَ قَتِيْلٍ، وَدُفِنَ مَعَهُ آخَرُ فِي قَبْرٍ، ثُمَّ لَمْ تَطِبْ نَفْسِي أَنْ أَتْرُکَهُ مَعَ الآخَرِ، فَاستَخْرَجْتُهُ بَعْدَ سِتَّةِ أَشْهُرٍ، فَإِذَا هُوَ کَيَوْمٍ وَضَعْتُهُ هُنَيَةً، غَيْرَ أُذُنِهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَي شَرْطِ مُسْلِمٍ.
الحديث رقم 51: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجنائز، باب: هل يُخْرجُ المَيّتُ منَ القبر واللّحد لِعلّةٍ، 1 / 453، الرقم: 1286، والحاکم في المستدرک، 3 / 224، الرقم: 4913، والبيهقي في السنن الکبري، 6 / 285، الرقم: 12459، والعسقلاني في مقدمة فتح الباري، 1 / 270، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 399، الرقم: 5945.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب غزوہ احد کا وقت آ گیا تو میرے والد (حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ) نے مجھے رات کے وقت بلایا اور فرمایا: میں یہی دیکھتا ہوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سب سے پہلے میں شہید کیا جاؤں گا اور میں اپنے بعد کسی کو نہیں چھوڑ رہا ہوں جو رسول اللہ ﷺ کے علاوہ مجھے تم سے زیادہ عزیز ہو۔ مجھ پر قرض ہے اسے ادا کر دینا اور اپنی بہنوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ صبح ہوئی تو سب سے پہلے وہی شہید کئے گئے اور ایک دوسرے (شہید) کے ساتھ دفن کیے گئے۔ پھر میرا دل اس پر رضامند نہ ہوا کہ انہیں دوسروں کے ساتھ چھوڑے رکھوں لہٰذا (تدفین کے) چھ ماہ کے بعد میں نے انہیں نکالا تو وہ اسی طرح (ترو تازہ) تھے جیسے دفن کرنے کے روز تھے، سوائے ایک کان کے (جو کہ دورانِ جنگ شہید ہو گیا تھا)۔‘‘
796 / 52. عَنْ أَنَسٍ رضى الله عنه أَنَّ رَجُلَيْنِ خَرَجَا مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ، وَإِذَا نُوْرٌ بِيْنَ أَيْدِيْهِمَا حَتَّي تَفَرَّقَا فَتَفَرَّقَ النُّوْرُ مَعَهُمَا عَنْ أَنْسٍ رضى الله عنه کَانَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم .
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْيَعْلَي.
الحديث رقم 52: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: منقبة أُسَيدِ بنِ حُضَيرٍ وَعبَّادِ بن بِشْرٍِ رضى الله عنهما، 3 / 1384، الرقم: 3594، أبواب: المساجد، باب: إدْخال البَعيرِ في المسجد للعلّة، 1 / 177، الرقم: 453، وفي کتاب: المناقب، باب: سؤال المشرکين أن يريهم النبيّ صلى الله عليه وآله وسلم آية فأراهم انشقاق القمر، 3 / 1331، الرقم: 3440، وأبو يعلي في المسند، 5 / 361، الرقم: 3007، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 310، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 566، الرقم: 1506، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 399، الرقم: 5944
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ دو آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ اقدس سے (مجلس برخواست ہونے کے بعد) تاریک رات میں (گھر جانے کے لئے) نکلے تو (اس تاریک رات میں) اچانک ایک نور ان کے سامنے آ گیا (اور وہ ان کے ساتھ ساتھ روشنی کے لئے رہا) اور جب وہ دونوں آدمی (مختلف اطراف میں گھر ہونے کی وجہ سے الگ الگ راہ پر چل پڑے تو وہ نور بھی ان دونوں کے ساتھ (دو حصوں میں تقسیم ہو کر) الگ الگ ہو گیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ اقدس سے (تاریک رات میں گھر جانے والے وہ دو آدمی حضرت اُسید بن حضیر اور عباد بن بشر تھے۔‘‘
797 / 53. عَنْ عَائِشَةَ رضي اللہ عنها قَالَتْ: لَمَّا مَاتَ النَّجَاشِيُّ کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّهُ لاَ يَزَالُ يُرَي عَلَي قَبْرِهِ نُورٌ. رَوَاهُ أَبُودَاوُدَ.
الحديث رقم 53: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الجهاد، باب: في النور يُري عند قبر الشهيد، 3 / 16، الرقم: 2523، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1 / 430، والعسقلاني في الإصابة، 1 / 206، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 400، الرقم: 5947، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 444.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا روایت فرماتی ہیں کہ جب حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ (شاہ حبشہ) فوت ہوگئے تو ہم بیان کیا کرتے تھے کہ ان کی قبر پر ہمیشہ نور (برستا) دیکھا جاتا ہے۔‘‘
798 / 54. عَنْ سَفِينَةَ رضى الله عنه قَالَ: رَکِبْتُ الْبَحْرَ فِي سَفِيْنَةٍ فَانْکَسَرَتْ فَرَکِبْتُ لَوْحًا مِنْهَا فَطَرَحَنِي فِي أَجَمَةٍ فِيْهَا أَسَدٌ فَلَمْ يَرْعَنِي إِلاَّ بِهِ فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْحَارِثِ أَنَا مَوْلَي رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم فَطَأْطَأَ رَأَسَهُ وَغَمَزَ بِمَنْکَبِهِ شِقِّي فَمَا زَالَ يَغْمِزُنِي وَيَهْدِيْنِي إِلَي الطَّرِيْقِ حَتَّي وَضَعَنِي عَلَي الطَّرِيْقِ فَلَمَّا وَضَعَنِي هَمْهَمَ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَوَدِّعُنِي.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ في الْکَبِيْرِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَغَوِيُّ فِي شَرْحِ السُّنَّةِ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 54: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 675، الرقم: 4235: 3 / 702، الرقم: 6550، والبخاري في التاريخ الکبير، 3 / 195، الرقم: 663، والطبراني في المعجم الکبير، 7 / 80، الرقم: 6432، وابن راشد في الجامع، 11 / 281، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 158، الرقم: 114، والبغوي في شرح السنة، 13، 313، الرقم: 3732، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 400، الرقم: 5949.
’’حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوا۔ وہ کشتی ٹوٹ گئی تو میں اس کے ایک تختے پر سوار ہوگیا اس نے مجھے ایک ایسی جگہ پھینک دیا جو شیر کی کچھار تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ (اچانک) وہ شیر سامنے تھا۔ میں نے کہا: اے ابو الحارث (شیر)! میں رسول اللہ ﷺ کا غلام ہوں تو اس نے فوراً اپنا سر خم کردیا اور اپنے کندھے سے مجھے اشارہ کیا اور وہ اس وقت تک مجھے اشارہ اور رہنمائی کرتا رہا جب تک کہ اس نے مجھے صحیح راہ پرنہ ڈال دیا پھر جب اس نے مجھے صحیح راہ پر ڈال دیا تو وہ دھیمی آواز میں غر غرایا۔ سو میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے الوداع کہہ رہا ہے۔‘‘
799 / 55. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم قَالَ: هَذَا الَّذِي تَحَرَّکَ لَهُ الْعَرْشُ، وَفُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَشَهِدَهُ سَبْعُوْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِکَةِ لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً ثُمَّ فُرِّجَ عَنْهُ.
وفي رواية: قَالَ: الْحَمْدُلِلهِ لَوْ نَجَا أَحَدٌ مِنْ ضُمَّةِ الْقَبْرِ لَنَجَا مِنْهَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ رضي اللہ عنه. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
وَقَالَ الْعَسْقَلاَنِيُّ: وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ مُحْتَجٌّ بِهِمْ فِي الصَّحِيْحِ.
الحديث رقم 55: أخرجه النسائي في السنن، کتاب: الجنائز، باب: ضمة القبر وخغطته، 4 / 100، الرقم: 2055، وفي السنن الکبري، 1 / 660، الرقم: 8182، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 199، الرقم: 1707، وفي المعجم الکبير، 6 / 10، الرقم: 5333، ونحوه ابن راهوية في المسند، 2 / 552، الرقم: 1127، والزيلعي في نصب الراية، 2 / 286، والسيوطي في شرح علي سنن النسائي، 4 / 101، الرقم: 2055 والعسقلاني في القول المسدد، 1 / 81.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے (حضرت سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ کے متعلق) فرمایا: یہ وہ ہستی ہے جس کی وفات سے عرش بھی ہل گیا آسمان کے دروازے کھول دیے گئے اور ستر ہزار فرشتے اس کے جنازے میں شریک ہوئے، ایک دفعہ قبر نے اسے دبایا پھر کشادہ کر دی گئی۔‘‘
اور ایک روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہیں اگر کوئی قبر کے دبانے سے بچ سکتا تو سعد بن معاذ بھی ضرور اس کے دبانے سے بچ جاتے۔ (مومنین و صالحین کے لئے قبر کا دبانا باعث راحت ہوتا ہے جیسے ماں بچے کو گود میں لے کر محبت سے دباتی ہے)۔‘‘
800 / 56. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما قَالَ: ضَرَبَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم خِبَائَهُ عَلَي قَبْرٍ وَهُوَ لاَ يَحْسِبُ أَنَّهُ قَبْرٌ، فَإِذَا فِيْهِ إِنْسَانٌ يَقْرَأُ سورة تَبَارَکَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْکُ حَتَّي خَتَمَهَا، فَأَتَي النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم فقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ إِنِّي ضَرَبْتُ خِبَائِي عَلَي قَبْرٍ وَأَنَا لَا أَحَسِبُ أَنَّهُ قَبْرٌ، فَإِذَا فِيْهِ إِنْسَانٌ يَقْرَأُ سورة الْمُلْکِ حَتَّي خَتَمَهَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم: هِيَ الْمَانِعَةُ، هِيَ الْمُنْجِيَةُ تُنْجِيْهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 56: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: فضائل القرآن عن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: ما جاء في فضل سورة الملک، 5 / 164، الرقم: 2890، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 495، الرقم: 2510، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 1 / 405، الرقم: 2153، والمنذري في الترغيب الترهيب، 2 / 247، الرقم: 2266، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 396، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 18 / 205.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے کسی صحابی نے ایک قبر پر خیمہ لگایا۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ یہ قبر ہے، اچانک پتہ چلا کہ یہ قبر ہے اور اس کے اندر کوئی آدمی سورۃ الملک پڑھ رہا ہے۔ یہاں تک (اس صحابی نے سنا کہ) اس پڑھنے والے نے (قبر کے اندر) مکمل سورت الملک پڑھی۔ (یہ سن کر) وہ صحابی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ! میں نے (نادانستہ) ایک قبر پر خیمہ لگایا اور مجھے یہ خیال نہیں تھا کہ یہ قبر ہے، اچانک سنا کہ ایک آدمی قبر میں سورۃ الملک پڑھ رہا ہے یہاں تک کہ (میں نے سنا) اس نے مکمل سورۃ الملک پڑھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ (سورۃ الملک عذابِ قبر کو) روکنے والی ہے اور عذابِ قبر سے نجات دینے والی ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved