1. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ النَّبِيِّ ﷺ
(حضور نبی اکرم ﷺ کے مناقب کا بیان)
2. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ أَهْلِ الْبَيْتِ وَقَرَابَةِ الرَّسُوْلِ سلام الله عليهم
(حضور ﷺ کے اہلِ بیت اور اہلِ قرابت کے مناقب کا بیان)
3. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ الْخُلَفَاءِ وَصَحَابَةِ الرَّسُوْلِ رضي الله عنهم
(خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مناقب کا بیان)
4. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ الإِمَامِ الْمَهْدِيِّ الْمُنْتَظَرِ عليه السلام
( مناقبِ امام مہدی منتظر علیہ السلام کا بیان)
5. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ الْأَئِمَّةِ الْفُقَهَاءِ الْمُجْتَهِدِيْنَ رضي الله عنهم
( اَئمہ فقہاءِ مجتہدین رضی اللہ عنھم کے مناقب کا بیان)
6. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ الْأَوْلِيَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ رضي الله عنهم
(اولیاء اور صالحین رضی اللہ عنھم کے مناقب کا بیان)
7. فَصْلٌ فِي مَا أَعَدَّهُ اللهُ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ لِعِبَادِهِ الصَّالِحِيْنَ
(صالحین کے لئے الله تعالیٰ کی طرف سے تیارکردہ تسکین چشم و جاں کا بیان)
649 / 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي أُتِيْتُ بِمَفَاتِيْحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَتْ فِي يَدِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: قول النبي ﷺ: بعثت بجوامع الکلم، 6 / 2654، الرقم: 6845، وفي کتاب: الجهاد، باب: قول النبي ﷺ: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مسيرة شهر، 3 / 1087، الرقم: 2815، وفي کتاب: التعبير، باب: المفاتيح في اليد، 6 / 2573، الرقم: 6611، ومسلم في الصحيح، کتاب: المساجد ومواضع الصلاة، 1 / 371، الرقم: 523، والنسائي في السنن، کتاب: الجهاد، باب: وجوب الجهاد، 6 / 3 - 4، الرقم: 3087 - 3089، وفي السنن الکبري، 3 / 3، الرقم: 4295، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 264، 455، الرقم: 7575، 9867، وابن حبان في الصحيح، 14 / 277، الرقم: 6363.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں جامع کلمات کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہوں اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور جب میں سویا ہوا تھا اس وقت میں نے خود کو دیکھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے لیے لائی گئیں اور میرے ہاتھ میں تھما دی گئیں۔‘‘
650 / 2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ يَنْتَظِرُوْنَهُ قَالَ: فَخَرَجَ، حَتَّي إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاکَرُوْنَ فَسَمِعَ حَدِيْثَهُمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَجَبًا إِنَّ اللهَ عزوجل اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيْلًا، إِتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلًا، وَقَالَ آخَرُ: مَاذَا بِأَعَجَبَ مِنْ کَلَامِ مُوْسىٰ: کَلَّمَهُ تَکْلِيْمًا، وَقَالَ آخَرُ: فَعِيْسىٰ کلمۃ اللهِ وَرُوْحُهُ، وَقَالَ آخَرُ: آدَمُ اصْطَفَاهُ اللهُ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ فَسَلَّمَ وَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ کَلَامَکُمْ وَعَجَبَکُمْ أَنَّ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلُ اللهِ وَهُوَ کَذَلِکَ وَمُوْسىٰ نَجِيُّ اللهِ وَهُوَ کَذَلِکَ، وَعِيْسىٰ رُوْحُ اللهِ وَکَلِمَتُهُ وَهُوَ کَذَلِکَ، وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللهُ وَهُوَ کَذَلِکَ، أَ لَا وَأَنَا حَبِيْبُ اللهِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّکُ حِلَقَ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اللهُ لِي فَيُدْخِلُنِيْهَا وَمَعِيَ فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَکْرَمُ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ وَلَا فَخْرَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.
الحديث رقم 2: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في فضل النبي ﷺ، 5 / 587، الرقم: 3616، والدارمي في السنن، باب: (8)، ما أعْطِيَ النَّبِيَ ﷺ مِن الفضلِ، 1 / 39، الرقم: 47.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم ﷺ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے جب ان کے قریب پہنچے تو انہیں کچھ گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ اُن میں سے بعض نے کہا: کیا خوب! اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا: یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے سے زیادہ بڑی بات تو نہیں۔ ایک نے کہا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ الله اور روح اللہ ہیں۔ کسی نے کہا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو چن لیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ اُن کے پاس تشریف لائے سلام کیا اور فرمایا: میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہارِ تعجب سنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں۔ بیشک وہ ایسے ہی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نجی اللہ ہیں۔ بیشک وہ اسی طرح ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں۔ واقعی وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا۔ وہ بھی یقیناً ایسے ہی (شرف والے) ہیں۔ سن لو! میں اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ قیامت کے دن سب سے پہلا شفاعت کرنے والا بھی میں ہی ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ سب سے پہلے جنت کا کنڈا کھٹکھٹانے والا بھی میں ہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرے لئے اسے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل فرمائے گا۔ میرے ساتھ فقیر و غریب مومن ہوں گے اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں۔ میں اولین و آخرین میں سب سے زیادہ عزت والا ہوں لیکن مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں۔‘‘
651 / 3. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنَا أَوَّلُهُمْ خُرُوْجًا وَأَنَا قَاءِدُهُمْ إِذَا وَفَدُوْا، وَأَنَا خَطِيْبُهُمْ إِذَا أَنْصَتُوْا، وَأَنَا مُشَفِّعُهُمْ إِذَا حُبِسُوْا، وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَيِسُوْا. اَلْکَرَامَةُ، وَالْمَفَاتِيْحُ يَوْمَئِذٍ بِيَدِيَّ وَأَنَا أَکْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلىٰ رَبِّي، يَطُوْفُ عَلَيَّ أَلْفُ خَادِمٍ کَأَنَّهُمْ بَيْضٌ مَکْنُوْنٌ، أَوْ لُؤْلُؤٌ مَنْثُوْرٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
الحديث رقم 3: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في فضل النبي ﷺ، 5 / 585، الرقم: 3610، والدارمي في السنن، (8) باب: ما أعطي النبي ﷺ من الفضل، 1 / 39، الرقم: 48، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 47، الرقم: 117، والخلال في السنة، 1 / 208، الرقم: 235، والقزويني في التدوين في أخبار قزوين، 1 / 235، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1 / 182، والمناوي في فيض القدير، 3 / 40.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے پہلے میں (اپنی قبر انور) سے نکلوں گا اور جب لوگ وفد بن کر جائیں گے تو میں ہی ان کا قائد ہوں گا اور جب وہ خاموش ہوں گے تو میں ہی ان کا خطیب ہوں گا۔ میں ہی ان کی شفاعت کرنے والا ہوں جب وہ روک دیئے جائیں گے، اور میںہی انہیں خوشخبری دینے والا ہوں جب وہ مایوس ہو جائیں گے۔ بزرگی اور جنت کی چابیاں اس روز میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ میں اپنے رب کے ہاں اولادِ آدم میں سب سے زیادہ مکرّم ہوں میرے اردگرد اس روز ہزار خادم پھریں گے گویا کہ وہ پوشیدہ حسن ہیں یا بکھرے ہوئے موتی ہیں۔‘‘
652 / 4. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِذَا کَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِيْنَ، وَخَطِيْبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.
الحديث رقم 4: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في فضل النبي ﷺ، 5 / 586، الرقم: 3613، وابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: ذکر الشفاعة، 2 / 1443، الرقم: 4314، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 137، 138، الرقم: 21283 - 21290، والحاکم في المستدرک، 1 / 143، الرقم: 240، 6969، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 90، الرقم: 171، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 3 / 385، الرقم: 1179، والمزي في تهذيب الکمال، 3 / 118.
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن میں انبیاء کرام علیہم السلام کا امام و خطیب اور شفیع ہوں گا اور اس پر (مجھے) فخر نہیں۔‘‘
653 / 5. عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: نَحْنُ الْآخِرُوْنَ، وَنَحْنُ السَّابِقُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنِّي قَائِلٌ قَوْلًا غَيْرَ فَخْرٍ: إِبْرَاهِيْمُ خَلِيْلُ اللهِ، وَمُوْسىٰ صَفِيُّ اللهِ، وَأَنَا حَبِيْبُ اللهِ، وَمَعِي لِوَاءُ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّ اللهَ عزوجل وَعَدَنِي فِي أُمَّتِي، وَأَجَارَهُمْ مِنْ ثَلَاثٍ: لَا يَعُمُّهُمْ بِسَنَةٍ، وَلَا يَسْتَأْصِلُهُمْ عَدُوٌّ، وَلَا يَجْمَعُهُمْ عَلىٰ ضَلاًلةٍ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
الحديث رقم 5: أخرجه الدارمي في السنن باب: (8) ما أعطِيَ النَّبِيَّ ﷺ من الفضل، 1 / 42، الرقم: 54، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 6 / 323.
’’حضرت عمرو بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہم آخر میں آنے والے اور قیامت کے دن سب سے سبقت لے جانے والے ہیں۔ میں بغیر کسی فخر کے یہ بات کہتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام صفی اللہ ہیں اور میں حبیب اللہ ہوں۔ قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میری امت کے متعلق وعدہ کر رکھا ہے اور تین باتوں سے اسے (امت کو) بچایا ہے۔ ایسا قحط ان پر نہیں آئے گا جو پوری امت کا احاطہ کر لے اور کوئی دشمن اسے جڑ سے نہیں اکھاڑ سکے گا اور (اللہ تعالیٰ) انہیں کبھی گمراہی پر جمع نہیں فرمائے گا۔‘‘
654 / 6. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَنَا قَاءِدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 6: أخرجه الدارمي في السنن، باب: (8) ما أعطي النبي ﷺ من الفضل، 1 / 40، الرقم: 49، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 61، الرقم: 170، والبيهقي في کتاب الاعتقاد، 1 / 192، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 254، والذهبي في سير اعلام النبلاء، 10 / 223، والمناوي في فيض القدير، 3 / 43.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں (تمام) رسولوں کا قائد ہوں اور یہ (کہ مجھے اس پر) فخر نہیں اور میں خاتم النبیین ہوں اور (مجھے اس پر) کوئی فخر نہیں ہے۔ میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میں ہی وہ پہلا (شخص) ہوں جس کی شفاعت قبول ہو گی اور (مجھے اس پر) کوئی فخر نہیں ہے۔‘‘
655 / 7. عَنْ أَبِي مُوْسىٰ الأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: خَرَجَ أَبُوْطَالِبٍ إِلىٰ الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلىٰ الرَّاهِبِ هَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ يَمُرُّوْنَ بِهِ فَلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ، قَالَ: فَهُمْ يَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ، حَتَّي جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: هَذَا سَيِدُ الْعَالَمِيْنَ، هَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، يَبْعَثُهُ اللهُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ، فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ: مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ: إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ، وَکَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الْإِبِلِ، قَالَ: أَرْسِلُوْا إِلَيْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ. فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوْهُ إِلىٰ فَيئِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، فَقَالَ: انْظُرُوْا إِلىٰ فَيئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ. . . قَالَ: أَنْشُدُکُمْ بِاللهِ أَيُّکُمْ وَلِيُّهُ؟ قَالُوْا: أَبُوْطَالِبٍ. فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّي رَدَّهُ أَبُوْطَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ بِلَالًا، وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّيْتِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
الحديث رقم 7: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء في نبوة النبي ﷺ، 5 / 590، الرقم: 3620، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 317، الرقم: 31733، 36541، وابن حبان في الثقات، 1 / 42، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 45، الرقم: 19، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 1 / 519.
’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم ﷺ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچے وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قریب پہنچا اور آپ ﷺ کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا: یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ الله تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا: جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو۔ اور وہ صرف نبی ہی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ ﷺ اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ ﷺ تشریف لائے تو آپ کے سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا اور جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ (پہلے سے ہی) درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جیسے ہی آپ ﷺ تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ ﷺ کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا: درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ ﷺ پر جھک گیا ہے۔ پھر راہب نے کہا: میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سرپرست کون ہے؟ انہوں نے کہا ابوطالب! چنانچہ وہ حضرت ابوطالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا (کہ انہیں واپس بھیج دیں) یہاں تک کہ حضرت ابوطالب نے آپ ﷺ کو واپس (مکہ مکرمہ) بھجوا دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور راہب نے آپ ﷺ کے ساتھ زادِ راہ کے طور پر کیک اور زیتون پیش کیا۔‘‘
656 / 8. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ بِمَکَّةَ، فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا، فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ يَقُوْلُ: اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 8: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: (6)، 5 / 593، الرقم: 3626، والدارمي في السنن، (4) باب: ما أکرم الله به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 / 31، الرقم: 21، والحاکم في المستدرک، 2 / 677، الرقم: 4238، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 134، الرقم: 502، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 150، الرقم: 1880، والمزي في تهذيب الکمال، 14 / 175، الرقم: 3103، والجرجاني في تاريخ جرجان، 1 / 329، الرقم: 600.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ ﷺ کے سامنے آتا (وہ آپ ﷺ سے) عرض کرتا: (اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ)۔‘‘
657 / 9. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا، فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيْلُ: أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ هَذَا؟ قَالَ: فَمَا رَکِبَکَ أَحَدٌ أَکْرَمُ عَلىٰ اللهِ مِنْهُ. قَالَ: فَارْفَضَّ عَرَقًا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْيَعْلَي وَابْنُ حِبَّانَ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 9: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: ومن سورة بني اسرائيل، 5 / 301، الرقم: 3131، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 164، الرقم: 12694، وابن حبان في الصحيح، 1 / 234، وأبو يعلي في المسند، 5 / 459، الرقم: 3184، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 357، الرقم: 1185، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 23، الرقم: 2404، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 3 / 435، الرقم: 1574، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 206.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں شب معراج براق لایا گیا جس پر زین کسی ہوئی تھی اور لگام ڈالی ہوئی تھی۔ (حضور نبی اکرم ﷺ کی سواری بننے کی خوشی میں) اس براق کے رقص کی وجہ سے آپ ﷺ کا اس پر سوار ہونا مشکل ہو گیا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اسے کہا: کیا تو حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اس طرح کر رہا ہے؟ حالانکہ آج تک تجھ پر کوئی ایسا شخص سوار نہیں ہوا جو الله تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ ﷺ جیسا معزز و محترم ہو۔ یہ سن کر وہ براق شرم سے پسینہ پسینہ ہو گیا۔‘‘
658 / 10. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنَا سَيِدُ وَلَدِ آدَمَ يَومَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ، قَالَ: فَيَفْزَعُ النَّاسُ ثَلَاثَ فَزَعَاتٍ فَيَأْتُوْنَ آدَمَ . . . فذکر الحديث إلي أن قَالَ: فَيَأْتُونَنِي فَأَنْطَلِقُ مَعَهُمْ، قَالَ ابْنُ جُدْعَانَ: قَالَ أَنَسٌ رضي الله عنه: فَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلىٰ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ: فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: مُحَمَّدٌ فَيَفْتَحُوْنَ لِي وَيُرَحِّبُوْنَ بِي فَيَقُولُونَ: مَرْحَبًا فَأَخِرُّ سَاجِدًا فَيُلْهِمُنِيَ اللهُ مِنَ الثَّنَاءِ وَالْحَمْدِ فَيُقَالُ لِي: ارْفَعْ رَأْسَکَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَقُلْ يُسْمَعْ لِقَولِکَ وَهُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللهُ: (عَسَي أَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُوْدًا) (الإسراء، 17: 79). رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
وروي ابن ماجه عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنَا سَيِدُ وَلَدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ الْأَرْضُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ، وَلِوَاءُ الْحَمْدِ بِيَدِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ.
الحديث رقم 10: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: ومن سورة بني إسرائيل، 5 / 308، الرقم: 3148، وابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: ذکر الشفاعة، 2 / 1440، الرقم: 4308، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 2، الرقم: 11000، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 788، الرقم: 1455، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 238، الرقم: 5509.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں روزِ قیامت (تمام) اولادِ آدم کا قائد ہوں گا اور مجھے (اس پر) فخر نہیں، حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا اور کوئی فخر نہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام اور دیگر تمام انبیاء کرام اس دن میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ اور میں پہلا شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہو گی اور کوئی فخر نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگ تین بار خوفزدہ ہوں گے پھر وہ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کی درخواست کریں گے۔ پھر مکمل حدیث بیان کی یہاں تک کہ فرمایا: پھر لوگ میرے پاس آئیں گے (اور) میں ان کے ساتھ (ان کی شفاعت کے لئے) چلوں گا۔ ابن جدعان (راوی) کہتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: گویا کہ میں اب بھی حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں جنت کے دروازے کی زنجیر کھٹکھٹاؤں گا، پوچھا جائے گا: کون؟ جواب دیا جائے گا: حضرت محمد مصطفی ﷺ۔ چنانچہ وہ میرے لیے دروازہ کھولیں گے اور مرحبا کہیں گے۔ میں (بارگاہِ الٰہی میں) سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد و ثناء کا کچھ حصہ الہام فرمائے گا۔ مجھے کہا جائے گا: سر اٹھائیے، مانگیں عطا کیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، قبول کی جائے گی، اور کہئے آپ کی بات سنی جائے گی۔ (آپ ﷺ نے فرمایا: ) یہی وہ مقام محمود ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یقیناً آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘
اور امام ابن ماجہ نے بھی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا انہوں نے بیان فرمایا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور اس پر بھی فخر نہیں، قیامت کے روز سب سے پہلے میری زمین شق ہو گی اس پر بھی فخر نہیں، سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول ہو گی۔ اس پر بھی فخر نہیں اور حمدِ باری تعالیٰ کا جھنڈا قیامت کے دن میرے ہی ہاتھ میں ہو گا اور اس پر بھی فخر نہیں۔‘‘
659 / 11. عَنْ نَبِيْهِ بْنِ وَهَبٍ رضي الله عنه أَنَّ کَعْبًا دَخَلَ عًلَي عَائِشَةَ رضي الله عنها، فَذَکَرُوْا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَقَالَ کَعْبٌ: مَا مِنْ يَوْمٍ يَطْلُعُ إِلَّا نَزَلَ سَبْعُوْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِکَةِ حَتَّي يَحُفُّوْا بِقَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ يَضْرِبُوْنَ بِأَجْنِحَتِهِمْ، وَيُصَلُّوْنَ عَلىٰ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، حَتَّي إِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوْا وَهَبَطَ مِثْلُهُمْ فَصَنَعُوْا مِثْلَ ذَلِکَ، حَتَّي إِذَا انْشَقَّتْ عَنْهُ الْأَرْضُ خَرَجَ فِي سَبْعِيْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَ.لَاءِکَةِ يَزِفُّوْنَهُ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 11: أخرجه الدارمي في السنن، (5) باب: ما أکرم الله تعالي نبيه بعد موته، 1 / 57، الرقم: 94، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 492، الرقم: 4170، وابن حيان في العظمة، 3 / 1018، الرقم: 537، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 390، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، في قول الله تعالي: هو الذي يصلي عليکم وملائکته...الخ 3 / 518.
’’حضرت نبیہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر کیا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: جب بھی دن نکلتا ہے ستر ہزار فرشتے اترتے ہیں اور وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی قبرِ اقدس کو گھیر لیتے ہیں اور قبر اقدس پر اپنے پَر مارتے ہیں (یعنی اپنے پروں سے جھاڑو دیتے ہیں۔ ) اور حضور نبی اکرم ﷺ پر درود (و سلام) بھیجتے ہیں اور شام ہوتے ہی واپس آسمانوں پر چلے جاتے ہیں اور اتنے ہی مزید اُترتے ہیں اور وہ بھی دن والے فرشتوں کی طرح کا عمل دہراتے ہیں۔ حتی کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کی قبرِ مبارک (روزِ قیامت) شق ہو گی تو آپ ﷺ ستر ہزار فرشتوں کے جھرمٹ میں (میدانِ حشر میں) تشریف لائیں گے۔‘‘
660 / 12. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّ اللهَ فَضَّلَنِي عَلىٰ الْأَنْبِيَاءِ أَوْ قَالَ: أُمَّتِي عَلىٰ الْأُمَمِ وَأَحَلَّ لِيَ الْغَنَائِمَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: حَدِيْثٌ أَبِي أُمَامَةَ حَدِيْثُ حَسَنٍ صَحِيْحٍ.
الحديث رقم 12: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: السير عن رسول الله ﷺ، باب: ماجاء في الغنيمة، 4 / 123، الرقم: 1553، والطبراني نحوه في المعجم الکبير، 8 / 257، الرقم: 8001، والروياني في المسند، 2 / 308، الرقم: 1260، والبيهقي في السنن الکبري، 1 / 222، الرقم: 999، و في السنن الصغري، 1 / 180، الرقم: 245، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 16.
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء سے زیادہ فضیلت عطا فرمائی یا فرمایا: میری امت کو دیگر تمام امتوں پر فضیلت عطا کی اور میرے لئے مال غنیمت کو حلال فرما دیا۔‘‘
661 / 13. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: مَرَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلىٰ قَوْمٍ قَدْ صَادُوْا ظَبْيَةً فَشَدُّوْهَا إِلىٰ عَمُوْدِ الْفُسْطَاطِ. فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي وَضَعْتُ وَلِي خَشْفَانِ. فَاسْتَأْذِنْ لِي أَنْ أُرْضِعَهُمَا ثُمَّ أَعُوْدُ إِلَيْهِمْ. فَقَالَ: أَيْنَ صَاحِبُ هَذِهِ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ: نَحْنُ، يَا رَسُوْلَ اللهِ. فَقَالَ: رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: خُلُّوْا عَنْهَا حَتَّي تَأْتِيَ خَشْفَيْهَا تُرْضِعُهُمَا وَتَأْتِيَ إِلَيْکُمْ. قَالُوْا: وَمَنْ لَنَا بِذَلِکَ، يَارَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: أَنَا. فَأَطْلَقُوْهَا فَذَهَبَتْ فَأَرْضَعَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَيْهِمْ فَأَوْثَقُوْهَا. فَمَرَّ بِهِمُ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: أَيْنَ أَصْحَابُ هَذِهِ؟ قَالُوْا: هُوَ ذَا نَحْنُ، يَارَسُوْلَ اللهِ. قَالَ: تَبِيْعُوْنِهَا؟ قَالُوْا: يَارَسُوْلَ اللهِ، هِيَ لَکَ. فَخَلُّوْا عَنْهَا فَأَطْلَقُوْهَا فَذَهَبَتْ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْنُعَيْمٍ.
الحديث رقم 13: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 358، الرقم: 5547، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 376، الرقم: 274، و ابن کثير في شمائل الرسول، 347.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک گروہ کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے ایک ہرنی کو شکار کرکے ایک بانس کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ اس ہرنی نے عرض کیا: یارسول الله! میرے دو چھوٹے بچے ہیں جنہیں میں نے حال ہی میں جنا ہے۔ پس آپ ﷺ مجھے ان سے اجازت دلوا دیں کہ میں اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آجاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے کہا: یارسول الله، ہم اس کے مالک ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر تمہارے پاس واپس آجائے۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول الله! اس کی واپسی کی ہمیں کون ضمانت دے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں۔ انہوں نے ہرنی کو چھوڑ دیا پس وہ گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس لوٹ آئی۔ انہوں نے اسے پھر باندھ دیا۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ دوبارہ ان لوگوں کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا: اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے عرض کیا: یارسول الله! وہ ہم ہی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس ہرنی کو مجھے فروخت کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا: یارسول الله! یہ آپ ہی کی ہے۔ پس انہوں نے اسے کھول کر آزاد کر دیا اور وہ چلی گئی۔‘‘
662 / 14. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: أَوْحَي اللهُ إِلىٰ عِيْسىٰ عليه السلام، يَا عِيْسىٰ! آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَکَهُ مِنْ أُمَّتِکَ أَنْ يُؤْمِنُوْا بِهِ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ آدَمَ وَلَولَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ. وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلىٰ الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ فَکَتَبْتُ عَلَيْهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ فَسَکَنَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ وَ وَافَقَهُ الذَّهَبِيُّ.
الحديث رقم 14: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 671، الرقم: 4227، و ابن الخلال، في السنة، 1 / 261، الرقم: 316، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5 / 299، الرقم: 6336، والعسقلاني في لسان الميزان، 4 / 354، الرقم: 1040، و ابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 287.
’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی: اے عیسیٰ! حضرت محمد (ﷺ) پر ایمان لے آؤ اور اپنی امت کو بھی حکم دو کہ جو بھی ان کا زمانہ پائے تو (ضرور) ان پر ایمان لائے (جان لو!) اگر محمد (ﷺ) نہ ہوتے تو میں حضرت آدم علیہ السلام کو بھی پیدا نہ کرتا۔ اور اگر محمد مصطفیٰ (ﷺ) نہ ہوتے تو میں نہ جنت پیدا کرتا اور نہ دوزخ، جب میں نے پانی پر عرش بنایا تو اس میں لرزش پیدا ہو گئی، لہٰذا میں نے اس پر ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ‘‘ لکھ دیا تو وہ ٹھہر گیا۔‘‘
663 / 15. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ: قَامَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَوْمًا فِيْنَا خَطِيْباً. بِمَاءٍ يُدْعَي خُمًّا. بَيْنَ مَکَّةَ وَالْمَدِيْنَةِ. فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَي عَلَيْهِ، وَ وَعَظَ وَذَکَّرَ ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ . أَلَا أَيُّهَاالنَّاسُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوْشِکُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُوْلُ رَبِّي فَأُجِيْبُ، وَأَنَا تَارِکٌ فِيْکُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا کِتَابُ اللهِ فِيْهِ الْهُدَي وَالنُّوْرُ فَخُذُوْا بِکِتَابِ اللهِ. وَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ. فَحَثَّ عَلىٰ کِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيْهِ. ثُمَّ قَالَ: وَأَهْلُ بَيْتِي. أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
الحديث رقم 15: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 3 / 1873، الرقم: 2408، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 366، الرقم: 19265، وابن حبان في الصحيح، 1 / 145، الرقم: 123، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 62، الرقم: 2357، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 1 / 79، الرقم: 88، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 148، الرقم: 2679، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 487.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ ہمیں خطبہ دینے کے لئے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان اس تالاب پر کھڑے ہوئے جسے خُم کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے الله تعالیٰ کی حمدو ثناء اور وعظ و نصیحت کے بعد فرمایا: اے لوگو! میں تو بس ایک آدمی ہوں عنقریب میرے رب کا پیغام لانے والا فرشتہ (یعنی فرشتہ اجل) میرے پاس آئے گا اور میں اسے لبیک کہوں گا۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی الله تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ الله تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو، پھر آپ ﷺ نے کتاب الله (کی تعلیمات پر عمل کرنے کی) ترغیب دی اور اس کی طرف راغب کیا پھر فرمایا: اور (دوسرے) میرے اہلِ بیت ہیں میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق الله کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق الله کی یاد دلاتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق الله کی یاد دلاتا ہوں۔‘‘
664 / 16. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُم مَا إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ: کِتَابُ اللهِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلىٰ الْأَرْضِ وَعِتْرَتِي: أَهْلُ بَيْتِي وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوْا کَيْفَ تَخْلُفُوْنِي فِيْهِمَا. رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَحَسَنَّهُ وَالنَّسَائِيُّ.
الحديث رقم 16: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في مناقب أهل بيت النبي ﷺ، 5 / 663، الرقم: 3788 / 3786، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 45، الرقم: 8148، 8464، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 14، 26، 59، الرقم: 11119، 11227، 11578، والحاکم في المستدرک، 3 / 118، الرقم: 4576، وأبويعلي في المسند، 2 / 303، الرقم: 10267، 1140، والطبراني عن أبي سعيد رضي الله عنه في المعجم الأوسط، 3 / 374، الرقم: 3439، وفي المعجم الصغير، 1 / 226، الرقم: 323، وفي المعجم الکبير، 3 / 65، الرقم: 2678، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 133، الرقم: 30081، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 644، الرقم: 1553.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی اہلِ بیت اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس (اکٹھے) حوض کوثر پر آئیں گی پس دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟‘‘
665 / 17. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: يَا أَيُّهَاالنَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوْا: کِتَابَ اللهِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي. رَوَاهُ التِرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ.
الحديث رقم 17: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في مناقب أهل بيت النبي ﷺ، 5 / 662، الرقم: 3786، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 89، الرقم: 4757، وفي المعجم الکبير، 3 / 66، الرقم: 2680، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 114.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضور نبی اکرم ﷺ فرما رہے تھے: اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (ان میں سے ایک) الله تعالیٰ کی کتاب اور (دوسری) میرے اہلِ بیت (ہیں)۔‘‘
666 / 18. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطً مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعَرٍ أَسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضي الله عنهما فَأَدْخَلَهَ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضي الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ رضي الله عنها فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جاَءَ عَلِيٌّ رضي الله عنه فَأَدْخُلَهُ، ثُمَّ قَالَ: (إِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) (الأحزاب، 33: 33). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
الحديث رقم 18: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل أهل بيت النّبي ﷺ، 4 / 1883، 2424، والحاکم في المستدرک، 3 / 159، الرقم: 4707. 4709، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 149، الرقم: 2680، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم: 32102.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی الله عنہما آئے تو آپ ﷺ نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا آئیں اور آپ ﷺ نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم الله وجہہ آئے تو آپ ﷺ نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی: ’’اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘
667 / 19. عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلْمَةَ رَبِيْبِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلىٰ النَّبِيِّ ﷺ (إِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) (الأحزاب، 33: 33) فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَدَعَا فَاطِمَةَ، وَحَسَنًا، وَحُسَيْنًا، فَجَلَّلَهُمْ بِکِسَاءٍ، وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِکِسَاءٍ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ، هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِرْهُمْ تَطْهِيْرًا، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَأَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللهِ، قَالَ: أَنْتِ عَلىٰ مَکَانِکِ وَأَنْتِ عَلىٰ خَيْرٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَفِي الْبَابِ: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَأَنَسِ ابْنِ مَالِکٍ وَأَبِي الْحَمْرَاءِ وَمَعْقَلِ بْنِ يَسَارٍ وَعَائِشَةَ.
الحديث رقم 19: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: ومن سورة الأحزاب، 5 / 351، الرقم: 3205، وفي کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: فضل فاطمة بنت محمد ﷺ، 5 / 699، الرقم: 3871، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 134، الرقم: 3799.
’’حضور نبی اکرم ﷺ کے پروردہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی الله عنہا کے گھر حضور نبی اکرم ﷺ پر یہ آیت ’’اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام الله علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پیچھے تھے، آپ ﷺ نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا: اے الله! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ سیدہ اُم سلمہ رضی الله عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں، فرمایا: تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔‘‘
668 / 20. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي الله عنه قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَآءَ نَا وَ أَبْنَآءَکُم) (آل عمران، 3: 61) دَعَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلِيًا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 20: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 4 / 1871، الرقم: 2404، والترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: ومن سورة آل عمران، 5 / 225، الرقم: 2999، وفي کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: (21)، 5 / 638، الرقم: 3724، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم: 1608، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 107، الرقم: 8399، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الرقم: 13169 - 13170، والحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم: 4719.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی: ’’آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں۔‘‘ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا: یا الله! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔‘‘
669 / 21. عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ قُرَيْشًا إِذَا لَقِيَ بَعْضُهُمْ بَعضًا لَقُوْهُمْ بِبَشْرٍ حَسَنٍ، وَإِذَا لَقُوْنَا لَقُوْنَا بِوُجُوْهِ لَا نَعْرِفُهَا. قَالَ: فَغَضِبَ النَّبِيُّ ﷺ غَضَبًا شَدِيْدًا، وَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّي يُحِبَّکُمِﷲِ وَلِرَسُوْلِهِ وَلِقَرَابَتِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسّائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ.
وفي رواية: قَالَ: وَاللهِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ امْرِيءٍ إِيْمَانٌ حَتَّي يُحِبَّکُمِْﷲِ، وَلِقَرَابَتِي.
الحديث رقم 21: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 207، الرقم: 1772، 1777، 17656، 17657، 17658، والحاکم في المستدرک، 3 / 376، الرقم: 5433، 2960، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 51 الرقم: 8176، والبزار في المسند، 6 / 131، الرقم: 2175، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 188، الرقم: 1501، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 361، الرقم: 7037.
’’حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی الله عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت ﷺ میں عرض کیا: یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو (جذبات سے عاری) ایسے چہروں کے ساتھ ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک الله تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ فرمایا: ’’خدا کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہ ہوگا جب تک اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اکرم ﷺ اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرے۔‘‘
670 / 22. عَنِ الْعَبَاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما قَالَ: کُنَّا نَلْقَي النَّفَرَ مِنْ قُرَيْشٍ، وَهُمْ يَتَحَدَّثُوْنَ فَيَقْطَعُوْنَ حَدِيْثَهُمْ فَذَکَرْنَا ذَلِکَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَحدَّثُوْنَ فَإِذَا رَأَوْا الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي قَطَعُوْا حَدِيْثَهُمْ وَاللهِ، لاَ يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّي يُحِبَّهُمِﷲِ وَلِقَرَابَتِهِمْ مِنِّي. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ.
الحديث رقم 22: أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: فضل العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، 1 / 50، الرقم: 140، والحاکم في المستدرک، 4 / 85، الرقم: 6960، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 382، الرقم: 472، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 113، الرقم: 6350.
’’حضرت عباس بن عبد المطلب رضی الله عنھما بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کر رہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کو دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں؟ الله رب العزت کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک ان (یعنی میرے اہلِ بیت) سے الله تعالیٰ کے لیے اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔‘‘
671 / 23. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوْحٍ، مَنْ رَکِبَ فِيْهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنَهَا غَرِقَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ وَالْحَاکِمُ.
وفي رواية: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رضي الله عنهما قَالَ: مَنْ رَکِبَهَا سَلِمَ، وَمَنْ تَرَکَهَا غَرِقَ.
الحديث رقم 23: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 34، الرقم: 2388، 2638، 2638، 2636، وفي المعجم الأوسط، 4 / 10، الرقم: 3478: 5 / 355، الرقم: 5536: 6 / 85، الرقم: 5870، وفي المعجم الصغير، 1 / 240، الرقم: 391: 2 / 84، الرقم: 825، والحاکم في االمستدرک، 3 / 163، الرقم: 4720، والبزار في المسند، 9 / 343، الرقم: 3900، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 238، الرقم: 916.
’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔‘‘
اور ایک روایت میں حضرت عبدالله بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا: جو اس میں سوار ہوا وہ سلامتی پا گیا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ غرق ہو گیا۔
672 / 24. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: کُلُّ سَبَبٍ وَنَسَبٍ يَنْقَطِعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلاَّ مَا کَانَ مِنْ سَبَبِي وَنَسَبِي. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
الحديث رقم 24: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 153، الرقم: 4684، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 44، الرقم: 2633، 2634 - 2635، وفي المعجم الأوسط، 5 / 376، الرقم: 5606، وعبد الرزاق في المصنف، 6 / 163، الرقم: 10354، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الرقم: 13171، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 197، الرقم: 101، وَقَالَ: إِسْنَادَهُ حَسَنٌ، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 255، الرقم: 4755، والهيثمي في مجممع الزوائد، 9 / 173، وقال: إِسنادُهُ حَسَنٌ.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے: قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سواء ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا۔‘‘
673 / 25. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لِکُلِّ بَنِي أُمٍّ عُصْبَةٌ يَنْتِمُوْنُ إِلَيْهِمْ إِلَّا ابْنَي فَاطِمَةَ فَأَنَا وَلِيُّهُمَا وَعُصْبَتُهُمَا.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَأَبُوْيَعْلَي.
الحديث رقم 25: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 179، الرقم: 4770، وأبو يعلي في المسند 2 / 109، الرقم: 6741، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 44، الرقم: 2631 - 2632.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر ماں کے بیٹوں کا آبائی خاندان ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں سوائے فاطمہ کے بیٹوں کے، پس میں ہی ان کا ولی ہوں اور میں ہی ان کا نسب ہوں۔‘‘
674 / 26. عَنْ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: کُلُّ بَنِي أُنْثَي فَإِنَّ عُصْبَتَهُمْ لِأَبِيْهِمْ مَا خَلَا بَنِي فَاطِمَةَ، فَإِنِّي أَنَا عُصْبَتُهُمْ وَأَنَا أَبُوْهُمْ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
الحديث رقم 26: أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 3 / 234، الرقم: 4787، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 224.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے یہ سنا آپ ﷺ فرماتے: ہر عورت کی اولاد کا نسب اپنے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہ کے کیونکہ میں ہی ان کا نسب اور میں ہی ان کا باپ ہوں۔‘‘
675 / 27. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ عزوجل جَعَلَ ذُرِّيَةَ کُلِّ نَبِيٍّ فِي صُلْبِهِ، وَإِنَّ اللهَ جَعَلَ ذُرِّيَتِي فِي صُلْبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 27: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 43، الرقم: 2630، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 172، الرقم: 643، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172، والمناوي في فض القدير، 2 / 223.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یقیناً الله تعالیٰ نے ہر نبی کی اولاد اس کی صلب میں رکھی اور بیشک اللہ تعالیٰ نے میری اولاد علی بن ابی طالب کی صلب میں رکھی ہے۔‘‘
676 / 28. عَنْ أَبِي مَسْعُوْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ صَلَّي صَلَاةً لَمْ يُصَلِّ فِيْهَا عَلَيَّ وَعَلَي أَهْلِ بَيْتِي، لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ. وَقَالَ أَبُوْ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه: لَوْ صَلَّيْتُ صَلَاةً لَا أُصَلِّي فِيْهَا عَلىٰ مُحَمَّدٍ، مَا رَأَيْتُ أَنَّ صَلَاتِي تَتِمُّ. رَوَاهُ الدَّارُقُطْنِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 28: أخرجه الدار قطني في السنن، 1 / 355، الرقم: 6.7، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 530، الرقم: 3969، وابن الجوزي في التحقيق في أحاديث الخلاف، 1 / 402، الرقم: 544، والشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 322.
’’حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے نماز پڑھی اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ پڑھا اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔ حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر میں نماز پڑھوں اور اس میں حضور نبی اکرم ﷺ پر درود پاک نہ پڑھوں تو میں نہیں سمجھتا کہ میری نماز کامل ہوگی۔‘‘
677 / 29. عَنْ حُذَيْفَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ: رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ هَذَا مَلَکٌ لَمْ يَنْزِلِ الْأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ اسْتَأَذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ وَ يُبَشِرَّنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَيِدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ سَيِدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 29: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: مناقب الحسن والحسين علهيما السلام، 5 / 660، الرقم: 3781، والنسائي في السنن الکبري، 80، 95، الرقم: 8298، 8365، وفي فضائل الصحابة، 1 / 58، 76، الرقم: 193، 260، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 391، الرقم: 23369، وفي فضائل الصحابة، 2 / 788، الرقم: 1406، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 388، الرقم: 32271، والحاکم في المستدرک، 3 / 164، الرقم: 4721. 4722، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 402، الرقم: 1005، وأبونعيم في حلية اولياء، 4 / 190، والبهيقي في الاعتقاد: 328.
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک فرشتہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرے اور مجھے یہ خوشخبری دے کہ حضرت فاطمہ رضی الله عنھا اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی الله عنھما جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘
678 / 30. عَنْ عَلَيِّ رضي الله عنه أَنَّهُ دَخَلَ عَلىٰ النَّبِيِّ ﷺ، وَقَدْ بَسَطَ شَمْلَةً، فَجَلَسَ عَلَيْها هُوَ وَفَاطِمَةُ وَعَلِيٌّ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، ثُمُّ أَخَذَ النَّبِيُّ ﷺ بِمَجَامِعِهِ فَقَعَدَ عَلَيْهِمْ ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ ارْضَ عَنْهُمْ کَمَا أَنَا عَنْهُمْ رَاضٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 30: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 348، الرقم: 5514، والهيثي في مجمع الزوائد، 9 / 169.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ درآں حالیکہ آپ ﷺ نے چادر بچھائی ہوئی تھی۔ پس اس پر حضور نبی اکرم ﷺ (بنفسِ نفیس) حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیھم السلام بیٹھ گئے پھر آپ ﷺ نے اس چادر کے کنارے پکڑے اور ان پر ڈال کر اس میں گرہ لگا دی۔ پھر فرمایا: اے الله! تو بھی ان سے راضی ہوجا، جس طرح میں ان سے راضی ہوں۔‘‘
679 / 31. عَنْ عُمَرَ رضي الله عنه أَنَّهُ دَخَلَ عَلىٰ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: يَا فَاطِمَةُ، وَاللهِ! مَارَأَيْتُ أَحَدًا أَحَبَّ إِلىٰ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مِنْکِ، وَاللهِ! مَا کَانَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ أَبِيْکِ ﷺ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْکِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
الحديث رقم 31: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 168، الرقم: 4736، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 432، الرقم: 37045، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 364، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 360، الرقم: 2952، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 4 / 401.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا کے ہاں گئے اور کہا: اے فاطمہ! خدا کی قسم! میں نے آپ کے سوا کسی شخص کو حضور نبی اکرم ﷺ کے نزدیک محبوب تر نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! لوگوں میں سے مجھے بھی آپ کے والد محترم کے بعد کوئی آپ سے زیادہ محبوب نہیں۔‘‘
680 / 32. عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: الْحَسَنُ أَشْبَهُ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ مَا بَيْنَ الصَّدْرِ إِلىٰ الرَّأْسِ، وَالْحُسَيْنُ أَشْبَهُ بِالنَّبِيِّ ﷺ مَا کَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِکَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 32: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: مناقب الحسن والحسين، 5 / 660، الرقم: 3779، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 99، الرقم: 774، 854، وابن حبان في الصحيح، 15 / 430، الرقم: 6974، والطيالسي في المسند، 1 / 91، الرقم: 130، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 394، الرقم: 780.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن علیہ السلام سینہ سے سر تک رسول الله ﷺ کی کامل شبیہ ہیں اور حضرت حسین علیہ السلام سینہ سے نیچے تک حضور ﷺ کی کامل شبیہ ہیں۔‘‘
681 / 33. عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَرِيْحَةَ. . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
وقد روي شعبة هذا الحديث عن ميمون أبي عبد الله عن زيد بن أرقم عن النبي ﷺ.
الحديث رقم 33: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في مناقب علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 5 / 633، الرقم: 3713، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الرقم: 5071، 5096.
رُوِي هَذَا الْحَدِيْثُ عَنْ حُبْشَي بْنِ جَنَادَةَ فِي الْکُتُبِ الْآتِيَةِ:
الحاکم في المستدرک، 3 / 134، الرقم: 4652، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 78، الرقم: 12593، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 12 / 343، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، وابن کثير في البداية والنهاية، 5 / 451، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 108.
رُوِيَ هَذَا الْحَدِيْثُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي الکُتُبِ الآتِيَةِ:
ابن أبي عاصم في السنة: 602، الرقم: 1355، وابن ابي شيبه في المصنف، 6 / 366، الرقم: 32072.
وَ قَدْ رُوِيَ هَذَ الْحَدِيْثُ عَنْ أَيُّوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتُبِ الآتِيَةِ:
إبن أبي عاصم في السنة: 602، الرقم: 1354، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 173، الرقم: 4052، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 229، الرقم: 348.
وَرُوِيَ هَذَا لْحَدِيْثُ عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتُبِ الْآتِيَةِ:
عبد الرزاق في المصنف، 11 / 225، الرقم: 20388، والطبراني في المعجم الصغير، 1: 71، وابن عساکرفي تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143.
وَرُوِيَ هَذَالْحَدِيْثُ عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ:
إبن أبي عاصم في السنة: 601، الرقم: 1353، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفي البداية والنهاية، 5 / 457، وحسام الدين هندي في کنز العمال، 11 / 602، رقم: 32904.
وَرُوِيَ هَذَالْحَدِيْثُ عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ:
الطبراني في المعجم الکبير، 19 / 252، الرقم: 646، وابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45: 177، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 106.
’’شعبہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ۔ ۔ ۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ ۔ ۔ (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔
682 / 34. عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ التَّمِيْمِيِّ رضي الله عنه قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِي عَلىٰ عَائِشَةَ رضي الله عنها فَسُئِلَتْ أَيُّ النَّاسِ کَانَ أَحَبَّ إِلىٰ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ؟ قَالَتْ: فَاطِمَةُ، فَقِيْلَ: مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَتْ: زَوْجُهَا، إِنْ کَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 34: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: فضل فاطمة بنتِ محمد ﷺ، 5 / 701، الرقم: 3874، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 403. 404، الرقم: 1008. 1009، والحاکم في المستدرک، 3 / 171، الرقم: 4744، وأبويعلي في المعجم، 1 / 128، الرقم: 235.
’’جمیع بن عمر تمیمی بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ہمراہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے حضور نبی اکرم ﷺ کے ہاں کون زیادہ محبوب تھا؟ اُمُّ المومنین رضی الله عنہا نے فرمایا: فاطمہ (سلام الله علیھا)۔ عرض کیا گیا: مردوں میں سے (کون زیادہ محبوب تھا؟) فرمایا: ان کے شوہر اور جہاں تک میں جانتی ہوں وہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے اور راتوں کو عبادت کے لئے بہت قیام کرنے والے تھے۔‘‘
683 / 35. عَنْ زَيْدٍ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: لِعَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِث: أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 35: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: فضل فاطمة بنت محمد ﷺ، 5 / 699، الرقم: 3870، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: فضل الحسن والحسين ابنَيْ عَلِيِّ بْنِ أبي طالِبٍ رضی الله عنهم، 1 / 52، الرقم: 145، والحاکم في المستدرک، 3 / 161، الرقم: 4714، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 182، الرقم: 5015، وفي المعجم الکبير، 3 / 40، الرقم: 2620، والصيداوي في معجم الشيوخ، 1 / 133، الرقم: 85.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم سے فرمایا: تم جس سے لڑو گے میں اُس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اور جس سے تم صلح کرنے والے ہو میں بھی اُس سے صلح کرنے والا ہوں۔‘‘
684 / 36. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَي عَنْ أَبيْهِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّي أَکُوْنَ أَحَبَّّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ وَأَهْلِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَعِتْرَتِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ عِتْرَتِهِ. وَذَاتِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ ذَاتِهِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 36: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 7 / 75، الرقم: 6416، وفي المعجم الأوسط، 6 / 59، الرقم: 5790، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 189، الرقم: 1505، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 154، الرقم: 7795، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 88.
’’حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں اور میرے اہلِ بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔‘‘
685 / 37. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
ورواه مسلم عن أبي هريرة رضي الله عنه وزاد فيه: (لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ) ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيْثَ بِنَحْوِهِ.
الحديث رقم 37: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: قول النبي ﷺ: لو کنت متخذاً خليلا، 3 / 1343، الرقم: 3470، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: تحريم سب الصحابة، 4 / 1967، الرقم: 2540، والترمذي فيالسنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: (59)، 5 / 695، الرقم: 3861 وقال: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في النهي عن سب أصحاب رسول الله ﷺ، 4 / 214، الرقم: 4658، وابن ماجه في السنن، باب: فضائل أصحاب رسول الله ﷺ، فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم: 161، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 84، الرقم: 8308، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 11، الرقم: 11094، 11534، 11535، 11626، وابن حبان في الصحيح، 16 / 238، الرقم: 7253، وأبو يعلي في المسند، 2 / 342، الرقم: 1087، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 404، الرقم: 32404، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 212، الرقم: 687.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کو برا مت کہو۔ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو پھر بھی وہ ان کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ‘‘
اسے بخاری نے روایت کیا ہے اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے اضافہ کے ساتھ روایت کیا ہے: ’’میرے صحابہ کو برا مت کہو، میرے صحابہ کو برا مت کہو (دو مرتبہ فرمایا)۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ ‘‘ پھر اسی طرح پوری حدیث بیان کی۔ ‘‘
686 / 38. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اللهَ اللهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَي اللهَ، وَمَنْ آذَي اللهَ فَيُوْشِکُ أَنْ يَأْخُذَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 38: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: فيمن سبّ أصحاب النبي ﷺ، 5 / 696، الرقم: 3862، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 54، 57، الرقم: 20549 - 20578، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 191، الرقم: 1511، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 479، الرقم: 992، والروياني في المسند 2 / 92، الرقم: 882، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 146، الرقم: 525، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 568، الرقم: 2284.
’’حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ رضی اللہ عنھم کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو! الله سے ڈرو! اور میرے بعد انہیں تنقید کا نشانہ مت بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب اللہ تعالیٰ اُسے پکڑے گا۔ ‘‘
687 / 39. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِيْنَ يَسُبُّوْنَ أَصْحَابِي فَقُوْلُوْا: لَعْنَةُ اللهِ عَلىٰ شَرِّکُمْ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
الحديث رقم 39: أخرجه الترمذي فيالسنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء في فضل من رَأي النَّبِيَ ﷺ وَ صَحِبَهُ، 5 / 697، الرقم: 3866، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 191، الرقم: 8366، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 263، الرقم: 1022.
’’حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو تم (انہیں) کہو: تمہارے شر پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ ‘‘
688 / 40. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 40: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 142، الرقم: 12709، وعن أبي سعيد رضي الله عنه في المعجم الأوسط، 5 / 94، الرقم: 4771، وابن أبي شيبة عن عطا بن أبي رباح في المصنف، 6 / 405، الرقم: 32419، والخلال في السنة، 3 / 515، الرقم: 833، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 483، الرقم: 1001، وابن جعد في المسند، 1 / 296، الرقم: 2010، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 14، الرقم: 7302، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 21، والمناوي في فيض القدير، 5 / 274.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس پر الله تعالیٰ کی، تمام فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ ‘‘
689 / 41. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضي الله عنهما يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ. ثُمَّ الّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ، قَالَ عِمْرَانُ: فَلَا أًدْرِي: أَذَکَرَ بَعْدَ قَرْنِهِ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلَاثاً. ثُمَّ إِنَّ بَعْدَکُمْ قَوْمًا يَشْهَدُوْنَ وَلَا يُسْتَشْهَدُوْنَ، وَيَخُوْنُوْنَ وَلَا يُؤْتَمَنُوْنَ، وَيَنْذُرُوْنَ وَلَا يَفُوْنَ، وَيَظْهَرُ فِيْهِمُ السِّمَنُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 41: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل أصحاب النبي ﷺ، 3 / 1335، الرقم: 3450، وفي کتاب: الرقاق، باب: مايحذر من زهرة الدنيا والتنافس فيها، 5 / 2362، الرقم: 6064، وفي کتاب: الأيمان والنذور، باب: إِثم مَن لا يَفِي بِالنَّذرِ، 6 / 2463، الرقم: 6317، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1964، الرقم: 5235، والترمذي في السنن، کتاب: الفتن عن رسول الله ﷺ، باب: ماجاء في القرن الثالث، 4 / 500، الرقم: 2302. 2303، وفي کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: ماجاء في فضل من رأَي النبي وفضل ﷺ وصَحِبَه، 5 / 695، الرقم: 3859، والنسائي في السنن، کتاب: الأيمان والنذور، باب: الوفاء بالنذر، 7 / 17، الرقم: 3809، وابن ماجة في السنن، کتاب: الأحکام، باب: کراهية الشهادة لمن لم يستشهد، 2 / 791، الرقم: 2362، والبيهقي في السنن الکبري، کتاب: النذور، باب: الوفاء بالنذر، 10 / 74، والبزار في المسند، 9 / 18، الرقم: 3521، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 427، الرقم: 19835، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 233، الرقم: 581، والطيالسي في المسند، 1 / 113، الرقم: 841، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 151، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 5، الرقم: 4546.
’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری بہترین امت میرے زمانہ کی ہے پھر ان کے زمانہ کے بعد کے لوگ اور پھر ان کے زمانہ کے بعد کے لوگ (حضرت عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے زمانہ کے بعد دو زمانوں کا ذکر فرمایا یا تین زمانوں کا)۔ پھر تمہارے بعد ایسی قوم آئے گی کہ وہ گواہی دیں گے حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خیانت کریں گے اور ان پر یقین نہیں کیا جائے گا۔ وہ نذریں مانیں گے مگر ان کو پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو گا۔ ‘‘
690 / 42. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِيْنَ يَلُوْنِي ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 42: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الشهادت، باب: لا يشهد علي شهادة جورٍ إذا شهد، 2 / 938، الرقم: 2509، وفي کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل أصحاب النبي ﷺ، 3 / 1335، الرقم: 3451، وفي کتاب: الرقاق، باب: ما يحذر من زهرة الدنيا والتنافس فيها، 5 / 2362، الرقم: 6065، وفي کتاب: الأيمان والنذور، باب: إذا قال أشهد بالله أو شهدت بالله، 6 / 2452، الرقم: 2682، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1962، الرقم: 2533، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 404، الرقم: 3240، وأبو يعلي في المسند، 9 / 40، الرقم: 5103.
’’حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے قریب ہیں، پھر وہ لوگ ہیں جو ان کے قریب ہیں، پھر وہ لوگ ہیں جو ان کے قریب ہیں۔ ‘‘
691 / 43. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ ﷺ: أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيْهِ ثُمَّ الثَّانِيُّ ثُمَّ الثَّالِثُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
الحديث رقم 43: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1965، الرقم: 2536، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 156، الرقم: 25272، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 404، الرقم: 32409، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 629، الرقم: 1475.
’’حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا کہ (یا رسول الله!) کون سے لوگ بہتر ہیں؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر لوگ اس زمانے کے ہیں جس زمانہ میں، میں موجود ہوں اس کے بعد دوسرے زمانہ کے لوگ اور اس کے بعد تیسرے زمانہ کے لوگ۔ ‘‘
692 / 44. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَومَ الْحُدَيْبِيَةِ: أَنْتُمْ خَيْرُ أَهْلِ الْأَرْضِ، وَکُنَّا أَلْفاً وَأًرْبَعَ مِائَةٍ، وَلَوْ کُنْتُ أُبْصِرُ الْيَوْمَ لَأَرَيْتُکُمْ مَکَانَ الشَّجَرَةِ. مُتْفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 44: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: غزوة الحديبية، 4 / 1526، الرقم: 3923، ومسلم في الصحيح، کتاب: الامارة، باب: استحباب مبايعة الإمام الجيش، عند إرادة القتال، وبيان بيعة الرضوان تحت الشجرة، 3 / 1484، الرقم: 1856، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 308، الرقم: 14352، والشافعي في المسند، 1 / 217، وأبوعوانة في المسند، 4 / 301، الرقم: 6818، والبيهقي في السنن الکبري، 5 / 235، الرقم: 9981، والخراساني في کتاب السنن، 2 / 367، الرقم: 2885، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 385، الرقم: 36849.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حدیبیہ کے دن ہمیں فرمایا: تم زمین پر بسنے والوں میں سب سے بہتر ہو اور ہم چودہ سو افراد تھے اور اگر آج میں دیکھ سکتا ہوں تو تمہیں اس درخت کی جگہ دکھا دیتا (اس وقت حضرت جابر رضی اللہ عنہ نابینا ہو چکے تھے)۔ ‘‘
693 / 45. عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِأَهْلِ بَدْرٍ: فَلَعَلَّ اللهَ اطَّلَعَ إِلىٰ أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّةُ، أَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 45: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: فضل مَن شَهِدَ بدراً، 4 / 1463، الرقم: 3762، وفي کتاب: الجهاد، باب: الجاسوس، 3 / 1095، الرقم: 2845، وفي کتاب: المغازي، باب: وَمَا بَعَثَ بِهِ حَاطِبُ بْنُ أَبِي بلتعة إلي أهل مکة يُخْبِرُهُمْ بِغَزْوِ النَّبِيِّ ﷺ، 4 / 1557، الرقم: 4025، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل أهل بدر رضي الله عنهم، وقصة حاطب بن أبي بلتعة رضي الله عنه، 4 / 1941، الرقم: 2494، والترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: ومن سورة الممتحنة، 5 / 409، الرقم: 3305، والدارمي في السنن، 2 / 404، الرقم: 2761.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اصحاب بدر کے لئے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اہلِ بدر کی طرف توجہ فرمائی اور فرمایا: تم جو عمل کرنا چاہتے ہو کرو بیشک تمہارے لئے جنت لازم ہو گئی ہے یا فرمایا: میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔ ‘‘
694 / 46. عَنِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ: خَطَبَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِالْجَابِيَةِ فَقَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَامَ فِيْنَا مِثْلَ مُقَامِي فِيْکُمْ فَقَالَ: احْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي. ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ .
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ.
وفي رواية: عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما: فَقَالَ: اسْتَوْصَوْا بِأَصْحَابِي خَيْرًا.
الحديث رقم 46: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الأحکام، باب: کراهية الشهادة لمن لم يستشهد، 2 / 791، الرقم: 2363، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 18، الرقم: 114، والحاکم في المستدرک، 1 / 198. 199، الرقم: 388، 390، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 306، الرقم: 6483، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 91، الرقم: 13299، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 1 / 106، الرقم: 155، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 219، الرقم: 1546.
’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جابیہ کے مقام پر ہمیں خطبہ دیا پھر فرمایا: ہمارے درمیان حضور نبی اکرم ﷺ یوں قیام فرما تھے جیسے میں تمہارے درمیان کھڑا ہوں اور آپ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں میری حفاظت کرو (یعنی ان کی عزت و احترام کرو!) (اور ان لوگوں کی عزت و احترام کرو) جو ان کے بعد آنے والے ہیں پھر (ان لوگوں کی) جو ان کے بعد آنے والے ہیں۔
اور حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ایک روایت میں فرمایا: میرے صحابہ سے اچھا سلوک کرنا۔ ‘‘
695 / 47. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَا تَمُسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَاٰنِي أَوْ رَآي مَنْ رَآنِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 47: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: ماجاء في فضل من رأي النبي ﷺ وصحبه، 5 / 694، الرقم: 3858، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 357، الرقم: 983، وفي المعجم الأوسط، 1 / 308، الرقم: 1036، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 116، الرقم: 7659، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 630، الرقم: 1484، والهيثمي في المجمع الزوائد، 10 / 21.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس مسلمان کو جہنم کی آگ ہرگز نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے (یعنی میرے صحابی) کو دیکھا۔ ‘‘
696 / 48. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا لَهُ وَزِيْرَانِ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ وَ وَزِيْرَانِ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَأَمَّا وَزِيْرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ فَجِيْرِيْلُ وَمِيکَائِيْلُ، وَأَمَّا وَزِيْرَايَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ فَأَبُوبَکْرٍ وَعُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 48: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في مناقب أبي بکر وعمر رضي الله عنهما کليهما، 5 / 616، الرقم: 3680، والحاکم في المستدرک، 2 / 290، الرقم: 3047، وابن جعد في المسند، 1 / 298، الرقم: 2026، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 382، الرقم: 7111، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 10 / 114.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کے لئے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ سو آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر، جبرئیل و میکائیل علیھما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما ہیں۔ ‘‘
697 / 49. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَبٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ رَآي أَبَابَکْرٍ وَ عُمَرَ فَقَالَ: هَذَانِِ السَّمْعُ وَالْبَصَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
الحديث رقم 49: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في مناقب أبي بکر وعمر رضي الله عنهما کليهما، 5 / 613، الرقم: 3671.
’’حضرت عبدالله بن حنطب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی الله عنہما کو دیکھا تو فرمایا: یہ دونوں (میرے لئے) کان اور آنکھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ‘‘
698 / 50. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَعِدَ أُحُدًا، وَأَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ، فَرَجَفَ بِهِمْ، فَقَالَ: اثْبُتْ أُحُدُ! فَإِنَّمَا عَلَيْکَ نَبِيٌّ وَصِدِّيْقٌ، وَشَهِيْدَانِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ.
الحديث رقم 50: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: قول النبي ﷺ: لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1344، الرقم: 3472، وفي باب: مناقب عثمان بن عفان أبي عمرو القرشي رضي الله عنه، 3 / 1344، الرقم: 3496، وفي مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي رضي الله عنه، 3 / 1346، الرقم: 3483، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في مناقب عثمان بن عفان رضي الله عنه، 5 / 624، الرقم: 3697، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في الخلفاء، 4 / 212، الرقم: 4651، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 43، الرقم: 8135، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 112، الرقم: 12127، 22862، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 338، الرقم: 6566، وابن حبان في الصحيح، 14 / 415، الرقم: 6492، وأبويعلي في المسند، 5 / 289، الرقم: 2910.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ اُحد پہاڑ پر تشریف لے گئے اور آپ ﷺ کے ہمراہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم بھی تھے، اچانک پہاڑ اُن کے (آنے کی خوشی کے) باعث (جوشِ مسرت سے) جھومنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے احد! ٹھہر جا تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ ‘‘
699 / 51. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لِأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ رضي الله عنهما: هَذَانِ سَيِّدَا کُهُوْلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ إِلَّا النَّبِيِّيْنَ وَالْمُرْسَلِيْنَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ.
الحديث رقم 51: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في مناقب أبي بکر وعمر رضي الله عنهما کليهما، 5 / 610، الرقم: 3664 - 3665، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: في فضائل أصحاب رسول الله ﷺ، 1 / 36، الرقم: 95 - 100، وابن حبان في الصحيح، 15 / 330، الرقم: 6904، والبزار في المسند، 2 / 132، الرقم: 490، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 80، الرقم: 602، وأبويعلي في المسند، 1 / 405، الرقم: 533، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 617، الرقم: 1419، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 91، الرقم: 1348، 7 / 68، الرقم: 6873، وفي المعجم الصغير، 2 / 173، الرقم: 976.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: یہ دونوں انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے علاوہ اوّلین و آخرین میں سے تمام عمر رسیدہ جنتیوں کے سردار ہیں۔ ‘‘
700 / 52. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ عَلىٰ حِرَاءٍ هُوَ وَأَبُوْبَکْرِ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَةُ. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: اهْدَأْ، فَمَا عَلَيْکَ إلاَّ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 52: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل طلحة والزبير رضي الله عنه، 4 / 1880، الرقم: 2417، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في مناقب عثمان بن عفان رضي الله عنه، 5 / 624، الرقم: 3696، وابن حبان في الصحيح، 15 / 441، الرقم: 6983، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 59، الرقم: 8207، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 419، الرقم: 9420، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 621، الرقم: 1441.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ حرا پہاڑ پر تشریف فرما تھے اور آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنھم تھے اتنے میں پہاڑ نے حرکت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی نہیں ہے۔ ‘‘
701 / 53. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ: إِنَّ اللهَ نَظَرَ فِي قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ ﷺ، خَيْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ اللهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوْبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِهِ، يُقَاتِلُوْنَ عَلىٰ دِيْنِهِ (وَفِي رِوَايَةٍ: فَجَعَلَهُمْ أَنْصَارَ دِيْنِهِ) فَمَا رَأَي الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا، فَهُوَ عِنْدَ اللهِ حَسَنٌ، وَمَا رَأَوْا سَيِئًا، فَهُوَ عِنْدَ اللهِ سَيِّئٌ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُّ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُهُ مُوَثَّقُوْنَ.
الحديث رقم 53: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 379، الرقم: 3600، والبزار في المسند، 5 / 212، الرقم: 1816، 1702، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 58، الرقم: 3602، وفي المعجم الکبير، 9 / 112، 115، الرقم: 8582، 8593، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 322، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 177، 8 / 212.
’’حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: الله تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں کی طرف نظر کی تو قلب محمد ﷺ تمام لوگوں کے دلوں سے بہتر قلب پایا تو اسے اپنے لئے چن لیا (اور خاص کر لیا) اور انہیں اپنی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ کے دل کو (صرف اپنے لئے) منتخب کرنے کے بعد دوبارہ قلوبِ انسانی کو دیکھا تو آپ ﷺ کے صحابہ کرام کے دلوں کو سب بندوں کے دلوں سے بہتر پایا انہیں اپنے نبی مکرم ﷺ کا وزیر بنا دیا وہ ان کے دین کے لئے جہاد کرتے ہیں (اور ایک روایت میں ہے کہ انہیں آپ ﷺ کے دین کا مددگار بنا دیا) پس جس شے کو مسلمان اچھا جانیں تو وہ الله تعالیٰ کے نزدیک (بھی) اچھی اور جسے بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بُری ہے۔ ‘‘
702 / 54. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَهْمَا أُوْتِيْتُمْ مِنْ کِتَابِ اللهِ فَالْعَمَلُ بِهِ لَا عُذْرَ لِأَحَدٍ فِي تَرْکِهِ فَإِن لَمْ يَکُنْ فِيکِتَابِ اللهِ فَسُنَّةٌ مِنِّي مَاضِيَةً فَإِنْ لَمْ يَکُنْ سُنَّتِي فَمَا قَالَ أَصْحَابِي إِنَّ أَصْحَابِي بِمَنْزِلَةِ النُّجُوْمِ فِي السَّمَاءِ فَأَيُّمَا أَخَذْتُمْ بِهِ اهْتَدَيْتُمْ وَاخْتِلاَفُ أَصْحَابِي لَکُمْ رَحْمَةٌ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 54: أخرجه البيهقي في المدخل إلي السنن الکبري، 1 / 162، الرقم: 152، وعبد بن حميد نحوه في المسند، 1 / 250، الرقم: 783، والقضاعي في مسند الشهاب، باب: مثل أصحابي مثل النجوم، 2 / 275، الرقم: 1346، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 160، الرقم: 6497، والذهبي في ميزان الاعتدال، 2 / 142: 8 / 73، وفي لسان الميزان، 2 / 118، 137، الرقم: 594، والخطيب البغدادي في الکفاية في علم الرواية، 1 / 48، والسيوطي في مفتاح الجنة، 1 / 45، وابن کثير في تحفة الطالب، 1 / 451، الرقم: 341، وابن الملقن في خلاصة البدر المنير، 2 / 431، الرقم: 2868 وفي شرح الزرقاني، 2 / 302، وابن عبد البر في التمهيد، 4 / 263، والعسقلاني في فتح الباري، 4 / 57، وابن قدامة في المغني، 3 / 2109، وآمدي في الإحکام، 1 / 290، وابن حزم في الإحکام، 5 / 61.
’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب بھی تمہیں کتاب اللہ کا حکم دیا جائے تو اس پر عمل لازم ہے، اس پر عمل نہ کرنے پر کسی کا عذر قابل قبول نہیں، اگر وہ (مسئلہ) کتاب اللہ میں نہ ہو تو میری سنت میں اسے تلاش کرو جو تم میں موجود ہو اور اگر میری سنت سے بھی نہ ہو تو (اس مسئلہ کا حل) میرے صحابہ کے اقوال کے مطابق (تلاش) کرو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی مثال یوں ہے جیسے آسمان پر ستارے (جو کہ یکساں روشنی دیتے ہیں)، ان میں سے جس کا دامن پکڑ لو گے ہدایت پا جاؤ گے اور میرے صحابہ کا اختلاف (بھی) تمہارے لئے رحمت ہے۔ ‘‘
703 / 55. عَنْ نُسَيْرِ بْنِ ذُعْلُوْقٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضي الله عنهما يَقُوْلُ: لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ ﷺ فَلَمُقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً، خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِکُمْ عُمْرَهُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
الحديث رقم 55: أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم: 162، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 405، الرقم: 32415، وابن أبي عاصم في کتاب السنة، 2 / 484، الرقم: 1006.
’’حضرت نسیر بن ذعلوق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما فرمایا کرتے تھے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام کو برا مت کہو، کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں گزرا ہوا ان کا ایک ایک لمحہ تمہاری زندگی بھر کے (اعمال) سے بہتر ہے۔ ‘‘
704 / 56. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي الله عنه قَالَ: وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيْغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُوْنُ وَ وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوْبُ، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَارَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: أُوْصِيْکُمْ بِتَقْوَي اللهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْکُمْ يَرَي اخْتِلاَفاً کَثِيْرًا، وَإِيَاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ، فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ، فَمَنْ أَدْرَکَ ذَلِکَ مِنْکُمْ، فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِيْنَ، عَضُّوْا عَلَيْهَا بَالنَّوَاجِذِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذيُّ وَابْنُ مَاجَه.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 56: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: العلم عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 / 44، الرقم: 2676، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في لزوم السنة 4 / 200، الرقم: 4607، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين، 1 / 15، الرقم: 42، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 126، وابن حبان في الصحيح، 1 / 178، الرقم: 5، والحاکم في المستدرک، 1 / 174، الرقم: 329، وقال: هذا حديث صحيح ليس له علة، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 246، الرقم: 618.
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ نے فجر کی نماز کے بعد ہمیں نہایت فصیح و بلیغ وعظ فرمایا، جس سے آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے اور دل (خشیتِ الٰہی سے) کانپنے لگے۔ ایک شخص نے کہا: یہ تو الوداع کہنے والے شخص کے وعظ جیسا (خطاب) ہے۔ یا رسول الله! آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں پرہیزگاری اور سننے اور ماننے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ تمہارا حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ خبردار (شریعت کے خلاف) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ یہ گمراہی کا راستہ ہے۔ لہٰذا تم میں سے جو شخص یہ زمانہ پائے اسے چاہیے کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت اختیار کرے تم لوگ اسے (سنت کو) دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لینا۔ ‘‘
705 / 57. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ اللهَ جَعَلَ الْحَقَّ (وفي رواية: وَضَعَ الْحَقَّ) عَلىٰ لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ. وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رضي الله عنهما: مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أَمْرٌ قَطُّ فَقَالُوْا فِيْهِ وَقَالَ فِيْهِ عُمَرُ أَوْ قَالَ ابْنُ الْخَطَّابِ فِيْهِ، (شَکَّ خَارِجَةٌ) إِلاَّ نَزَلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ عَلىٰ نَحْوِ مَا قَالَ عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 57: أخرجه الترمذي السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في مناقب عمر بن الخطاب رضي الله عنه، 5 / 617، الرقم: 3682، وأبو داود في السنن، کتاب: الخراج والإمارة والفيء، باب: في تدوين العطاء، 3 / 138، الرقم: 2961، 2962، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: في فضائل أصحاب رسول الله ﷺ، 1 / 40، الرقم: 108، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 53، الرقم: 5145، وابن حبان في الصحيح، 15 / 312، الرقم: 6889، والحاکم في المستدرک، 3 / 93، الرقم: 4501، والبيهقي في السنن الکبري، 6 / 295، الرقم: 12503.
’’حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ نے حق کو عمر کی زبان اور دل پر جاری کر دیا ہے۔ حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنھما فرماتے ہیں: جب کبھی لوگوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہوا اور لوگوں نے اس میں بات کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس مسئلہ پر کچھ کہا تو قرآن حکیم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول کے موافق نازل ہوا۔ ‘‘
(مناقبِ اِمام مہدی منتظر علیہ السلام کا بیان)
706 / 58. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: کَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْکُمْ وَ إِمَامُکُمْ مِنْکُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 58: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأنبياء، باب: نُزُول عيسي بن مريم عليهما السلام، 3 / 1272، الرقم: 3265، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: نزول عيسي بن مريم حاکما بشريعة نبيّنا محمد ﷺ، 1 / 136، الرقم: 155، وابن حبان في الصحيح، 15 / 213، الرقم: 6802، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 493.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم لوگوں کا اس وقت (خوشی سے) کیا حال ہو گا جب تم میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام (آسمان سے) اُتریں گے اور تمہارا امام تمہیں میں سے ہو گا۔ ‘‘
707 / 59. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُوْنَ عَلىٰ الْحَقِّ ظَاهِريْنَ إِلىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، قَالَ: فَيَنْزِلُ عِيْسىٰ ابْنُ مَرْيَمَ عليهما السلام فَيَقُوْلُ أَمِيْرُهُمْ: تَعَالَ صَلِّ لَنَا. فَيَقُوْلُ: لَا، إِنَّ بَعْضَکُمْ عَلىٰ بَعْضٍ أُمَرَاءُ تَکْرِمَةَ اللهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
الحديث رقم 59: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: نزول عيسي بن مريم حاکماً بشريعة نبينا محمد ﷺ، 1 / 137، الرقم: 156، وابن حبان في الصحيح، 15 / 231، الرقم: 6819، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 345، الرقم: 14762. 15167، وابن الجارود في المنتقي، 1 / 257، الرقم: 1031، والبيهقي في السنن الکبري، 9 / 180، وأبوعوانة في المسند، 1 / 99، الرقم: 317، وابن منده في الإيمان، 1 / 517، الرقم: 518.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا: میری امت میں سے ایک جماعت قیام حق کے لیے کامیاب جنگ قیامت تک کرتی رہے گی حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان مبارک کلمات کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: آخر میں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام آسمان سے اتریں گے تو مسلمانوں کا امیر ان سے عرض کرے گا: تشریف لائیں ہمیں نماز پڑھائیں اس کے جواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: (اس وقت) میں امامت نہیں کراؤں گا۔ تم ایک دوسرے پر امیر ہو (یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت امامت سے انکار فرما دیں گے) اس فضیلت و بزرگی کی بناء پر جو اللہ تعالیٰ نے اس امت کو عطا کی ہے۔ ‘‘
708 / 60. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: يَلِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِيئُ اسْمُهُ إِسْمِي قَالَ عَاصِمٌ وَحَدَّثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ لَطَوَّلَ اللهُ ذَلِکَ الْيَوْمَ حَتَّي يَلِيَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 60: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الفتن عن رسول الله ﷺ، باب: ماجاء في المهدي، 4 / 505، الرقم: 2231، وأبو داود في السنن، کتاب: المهدي، 4 / 236، الرقم: 4282، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 376، الرقم: 3571، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 133، الرقم: 10215، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 5 / 104، الرقم: 562، و الهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 464، الرقم: 1877.
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے اہلِ بیت سے ایک شخص خلیفہ ہو گا جس کا نام میرے نام کے موافق ہو گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ اگر دنیا کا ایک ہی دن باقی رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اسی ایک دن کو اتنا دراز فرما دے گا کہ وہ شخص (یعنی مہدی علیہ السلام) خلیفہ ہو جائے۔ ‘‘
709 / 61. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّي يَمْلِکَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ إِسْمِي.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 61: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الفتن عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء في المهدي، 4 / 505، الرقم: 2230، وأبوداود في السنن، کتاب: المهدي، 4 / 106، الرقم: 4282، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 448، الرقم: 4279، والحاکم في المستدرک، 4 / 488، الرقم: 8364، والبزار في المسند، 5 / 204، الرقم: 1804، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 435، الرقم: 10223، والشاشي في المسند، 2 / 110، الرقم: 235.
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص عرب کا بادشاہ نہ ہو جائے جس کا نام میرے نام کے مطابق (یعنی محمد) ہو گا۔ ‘‘
710 / 62. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: الْمَهْدِيُّ مِنِّي، أَجْلَي الْجَبْهَةِ، أَقْنيَ الْأَنْفِ: يَمْلأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا کَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَجَوْرًا، وَيَمْلِکُ سَبْعَ سِنِيْنَ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدً.
الحديث رقم 62: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: المهدي، 4 / 107، الرقم: 428، والحاکم في المستدرک، 4 / 512، الرقم: 8438، والطبراني المعجم الأوسط، 9 / 176، الرقم: 9460.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مہدی مجھ سے (یعنی میری نسل سے) ہوں گے ان کا چہرہ خوب نورانی، چمک دار اور ناک ستواں و بلند ہو گی۔ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جس طرح پہلے وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔ (مطلب یہ ہے کہ امام مہدی کی خلافت سے پہلے دنیا میں ظلم و زیادتی کی حکمرانی ہو گی اور عدل و انصاف کا نام و نشان تک نہ ہو گا اور وہ سات سال تک بادشاہت (خلافت) کریں گے۔ ‘‘
711 / 63. عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: الْمَهْدِيُّ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ يُصْلِحُهُ اللهُ تَعَالَي فِيلَيْلَةٍ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 63: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الفتن، باب: خروج المهدي، 2 / 1367، الرقم: 4085، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 84، الرقم: 645، وأبويعلي في المسند، 1 / 359، الرقم: 465، وابن أبي شيبه في المصنف، 7 / 513، الرقم: 37644.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (امام) مہدی میرے اہلِ بیت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ایک ہی رات میں صالح بنا دے گا (یعنی اپنی توفیق و ہدایت سے ایک ہی شب میں ولایت کے اس بلند مقام پر پہنچا دے گا جو ان کے لئے مطلوب ہو گا)۔ ‘‘
712 / 64. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: الْمَهْدِيُّ مِنْ عِتْرَتِي مِنْ وَلَدِ فَاطِمَةَ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ.
الحديث رقم 64: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: المهدي، 4 / 107، الرقم: 4284، والمقريء في السنن الواردة في الفتن، 5 / 1057، الرقم: 575، والعظيم آبادي في عون المعبود، 11 / 251، والمناوي في فيض القدير، 6 / 277.
’’ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: مہدی میری نسل اور فاطمہ ( رضی الله عنہا ) کی اولاد میں سے ہو گا۔ ‘‘
713 / 65. عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رضي الله عنه: وَنَظَرَ إِلىٰ ابْنِهِ الْحَسَنِ فَقَالَ: إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِدٌ کَمَا سَمَّاهُ النَّبِيُّ ﷺ، وَسَيَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ رَجُلٌ يُسَمَّي بِإِسْمِ نَبِيِکُمْ ﷺ يُشْبِهُهُ فِي الْخُلْقِ وَلَا يُشْبِهُهُ فِي الْخَلْقِ ثُمَّ ذَکَرَ قِصَّةَ يَمْلَاءُ الْأَرْضَ عَدْلًا. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ.
الحديث رقم 65: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: المهدي، 4 / 108، الرقم: 4290، والعظيم آبادي في عون المعبود، 11 / 257، والمبارکفوري في تحفة الأحوزي، 6 / 403، والسيوطي في شرحه سنن ابن ماجه، 1 / 300، الرقم: 4085.
’’ابو اسحاق روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو دیکھ کر فرمایا: بے شک میرا یہ بیٹا سردار ہو گا جیسا کہ رسول الله ﷺ نے اس کا نام رکھا ہے اور عنقریب اس کی نسل سے ایک ایسا شخص پیدا ہو گا اور اس کا نام تمہارے نبی ﷺ کے نام پر ہوگا وہ صورت میں مشابہ نہ ہو گا پھر حضرت علی علیہ السلام نے قصہ بیان فرمایا کہ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ ‘‘
714 / 66. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ يَقُوْلُ: لَا يَزَالُ الإِسْلَامُ عَزِيْزًا إِلىٰ اثْنَي عَشَرَ خَلِيْفَةً ثُمَّ قَالَ: کَلِمَةٌ لَمْ أَفْهَمْهَا. فَقُلْتُ لِأَبِي: مَا قَالَ؟ فَقَالَ: کُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 66: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الإمارة، باب: الناس تبع لقريش والخلافة من قريش، 3 / 1453، الرقم: 1821، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 106، الرقم: 21058، وابن حبان في الصحيح، 15 / 44، الرقم: 6662، وأبوعوانة في المسند، 4 / 370، الرقم: 6982، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 195، الرقم: 1792، والشيباني في الأحاد والمثاني، 3 / 126، الرقم: 1448، والعسقلاني في فتح الباري، 13 / 211.
’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بارہ خلیفہ ہونے تک اسلام غالب رہے گا پھر آپ ﷺ نے ایک بات فرمائی جسے میں نہیں سمجھ سکا۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا: حضور نبی اکرم ﷺ نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ (تمام خلفاء) قریش سے ہوں گے۔ ‘‘
715 / 67. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّي تُمْلَأَ الْأَرْضُ ظُلْمًا وَجَوْرًا وَعُدْوَانًا ثُمَّ يَخْرُجُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي مَنْ يَمْلَأُهَا قِسْطًا وَ عَدْلًا. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ: صَحِيْحٌ عَلىٰ شَرْطِهِمَا وَوَافَقَهُ الذَّهَبِيُّ.
الحديث رقم 67: أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 600، الرقم: 8669، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 464، الرقم: 1880.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک کہ زمین ظلم و جور اور سرکشی سے بھر نہ جائے، بعد ازاں میرے اہلِ بیت سے ایک شخص (مہدی) پیدا ہو گا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ (یعنی خلیفہ مہدی کے ظہور سے پہلے قیامت نہیں آئے گی)۔ ‘‘
716 / 68. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: نَحْنُ وَلَدُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، سَادَةُ أَهْلِ الْجَنَّةِ: أَنَا وَحَمْزَةُ وَعَلِيٌّ وَجَعْفَرٌ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ وَالْمَهْدِيُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 68: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الفتن، باب: خروج المهدي، 2 / 1368، الرقم: 4087.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خود فرماتے ہوئے سنا ہے: ہم عبدالمطلب کی اولاد اہلِ جنت کے سردار ہوں گے یعنی میں، حمزہ، علی، جعفر، حسن، حسین اور مہدی۔ ‘‘
717 / 69. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: يُبَايَعُ رَجُلٌ مِنْ أُمَّتِي بَيْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقَامِ کَعِدَّةِ أَهْلِ بَدْرٍ، فَيَأْتِيْهِ عَصْبُ الْعِرَاقِ وَأَبْدَالُ الشَّامِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
الحديث رقم 69: أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 478، الرقم: 8328، وابن أبيشيبة في المصنف، 7 / 460، الرقم: 37223.
’’حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کے ایک شخص (مہدی) کی رکنِ حجر اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان اہلِ بدر کی تعداد (313 افراد) کی مثل بیعت کی جائے گی۔ بعدازاں اس امام کے پاس عراق کے اولیاء اور شام کے ابدال (بیعت کے لئے) آئیں گے۔ ‘‘
(اَئمہ فقہاءِ مجتہدین رضی اللہ عنھم کے مناقب کا بیان)
718 / 70. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ: (وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ). (الجمعة، 62: 3) قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هُمْ يَارَسُوْلَ اللهِ؟ فَلَمْ يُرَاجِعْهُ حَتَّي سَأَلَ ثَلَاثاً، وَفِيْنَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، وَضَعَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَدَهُ عَلىٰ سَلْمَانَ، ثُمَّ قَالَ: لَوْکَانَ الإِيْمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَا، لَنَالَهُ رِجَالٌ، أَوْ رَجُلٌ، مِنْ هَؤُلاءِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم 70: أخرجه البخاري في الصحيح، 16 / 298، کتاب: التفسير / الجمعة، باب: قوله: وآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ: 3، 4 / 1858، الرقم: 4615، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضل فارس، 4 / 1972، الرقم: 2546، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في فضل العجم، 5 / 725، الرقم: 3942، وفي کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: وَمِنْ سُورَةِ محمد ﷺ، 5 / 384، الرقم: 3260. 3261، وفي باب: ومِنْ سَوْرةِ الجُمَعَةِ، 5 / 413، الرقم: 3310، وابن حبان في الصحيح، 16 / 298، الرقم: 7308، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 367، الرقم: 7060، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 64، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 642، الرقم: 4615، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 170، الرقم: 1399، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 364، الرقم: 4797، والطبراني في جامع البيان، 28 / 96، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 18 / 93.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ پرسورہ جمعہ (کی یہ آیت) نازل ہوئی ’’اور اِن میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اِس رسول ﷺ کو تزکیہ و تعلیم کے لئے بھیجا ہے) جو ابھی اِن لوگوں سے نہیں ملے۔ ‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسول الله! وہ کون حضرات ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب ارشاد نہ فرمایا تو میں نے تین مرتبہ دریافت کیا اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی ہمارے درمیان موجود تھے رسول الله ﷺ نے اپنا دستِ اقدس حضرت سلمان رضی اللہ عنہ (کے کندھوں) پر رکھ کر فرمایا: اگر ایمان ثریا (یعنی آسمان دنیا کے سب سے اونچے مقام) کے قریب بھی ہوا تو ان (فارسیوں) میں سے کچھ لوگ یا ایک آدمی (راوی کو شک ہے) اسے وہاں سے بھی حاصل کر لے گا۔ ‘‘
719 / 71. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَوْ کَانَ الدِّيْنُ عِنْدَ الثُّرَيَا لَذَهَبَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ أَوْ قَالَ: مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسَ، حَتَّي يَتَنَاوَلَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌُ.
الحديث رقم 71: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضل فارس، 4 / 1972، الرقم: 2546، والهيثمي في مجمع الزوائد، باب: ما جاء في ناس من أبناء فارس، 10 / 64، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 3 / 744، الرقم: 366، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 23 / 218، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 170، الرقم: 1399، والمناوي في فيض القدير، 5 / 322، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 18 / 93.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر دین ثریا پر بھی ہوتا تب بھی فارس کا ایک شخص اسے حاصل کرلیتا۔ یا فرمایا: فارس (والوں) کی اولاد میں سے ایک شخص اسے حاصل کرلیتا۔ ‘‘
720 / 72. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَوْ کَانَ الدِّيْنُ عِنْدَ الثُّرَيَا لَذَهَبَ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ أَوْ أَبْنَاءِ فَارِسَ حَتَّي يَتَنَاوَلَهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
الحديث رقم 72: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 308، الرقم: 8067.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر دین ثریا پر بھی ہوتا تب بھی فارس کا ایک شخص اسے حاصل کرلیتا یا فارس (والوں) کی اولاد میں سے ایک شخص اسے حاصل کر لیتا۔ ‘‘
721 / 73. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَوْکَانَ الدِّيْنُ مُعَلَّقاً بِالثُّرَيَا لَتَنَاوَلَهُ نَاسٌ مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
الحديث رقم 73: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 204، الرقم: 10470، وابن أبي شيبة في المصنف، باب: ماجاء في العجم، 6 / 415، الرقم: 32515. 32516، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 360، الرقم: 5084، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 23 / 218، والواسطي في تاريخ واسط، 1 / 220، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 10 / 312، الرقم: 5460، وفي تالي تلخيص المتشابه، 1 / 209، الرقم: 108، وابن قانع في معجم الصحابة، 3 / 129، الرقم: 1102، والعسقلاني في الإصابة، 6 / 213، الرقم: 8217، والهيثمي في مجمع الزوائد، باب: ماجاء في ناس من أبناء فارس، 10 / 65.
’’حضرت عبدالله رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر دین ثریا کے ساتھ بھی معلق ہوا تو اہلِ فارس میں سے ایک شخص اسے ضرور پا لے گا۔ ‘‘
722 / 74. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، لَوْ کَانَ الْعِلْمُ بِالثُّرَيَا لَتَنَاوَلَهُ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ (أَبْنَاءِ) فَارِسَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَبُوْيَعْلَي وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُمْ رِجَالُ الصَّحِيْح.
الحديث رقم 74: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 420، الرقم: 9430، 7937، 9454، 10059، والبزار في المسند، 9 / 195، الرقم: 3741، وابن حبان في الصحيح، باب: ذکر ﷺ لأهل الفارس بقول الإيمان والحق، 16 / 299، الرقم: 7309، والهيثمي في موارد الظمآن، باب: في ناس من أبناء فارس، 1 / 574، الرقم: 2309، وفي مجمع الزوائد، باب: ماجاء في ناس من أبناء فارس، 10 / 64، والحارث في مسند زوائد الهيثمي، 2 / 943، والقيسراني في تذکرة الحفاظ، 3 / 972، الرقم: 912، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 10 / 210، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 51 / 140.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر علم ثریا کے ساتھ بھی معلق ہوا تو اہلِ فارس میں سے کچھ لوگ اسے ضرور پالیں گے۔ ‘‘
723 / 75. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ، أَفْلَحَ مَنْ کَفَّ يَدَهُ، تَقَرَّبُوْا يَا بَنِي فَرُّوْخَ إِلىٰ اللهِ، فَإِنَّ الْعَرَبَ قَدْ أَعْرَضَتْ، وَ وَاللهِ! إِنَّ مِنْکُمْ لَرِجَالاً لَوْکَانَ الْعِلْمُ بِالثُّرَيَا لَنَالُوْهُ. رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ.
الحديث رقم 75: أخرجه الطحاوي في مشکل الآثار، 3 / 94.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بربادی ہے عربوں کے لئے اس شر سے جو عنقریب آنے والا ہے۔ وہ فلاح پاگیا جس نے اس سے اپنا ہاتھ روک لیا۔ اے بنی فروخ! اللهتعالی کا قرب حاصل کرو، یقیناً عربوں نے اس سے ترکِ تعلق کرلیا اور الله کی قسم! یقیناً تم میں سے ضرور ایسے لوگ بھی ہوں گے کہ اگر علم ثریا پر بھی ہوا تو وہ اسے ضرور پالیں گے۔ ‘‘
724 / 76. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: اقْتَرِبُوْا يَا بَنِي فَرُّوخَ إِلىٰ الذِّکْرِ، وَاللهِ! إِنَّ مِنْکُمْ لَرِجَالًا لَوْ أَنَّ الْعِلْمَ کَانَ مُعَلَّقًا بِالثُرَيَا لَتَنَاوَلُوْهُ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 76: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 4 / 342، الرقم: 5330.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے بنی فروخ! (اللہ تعالیٰ کے) ذکر کے قریب ہو جاؤ۔ اللہ رب العزت کی قسم! یقیناً تم میں سے ایسے لوگ ہوں گے اگر علم ثریا کے ساتھ بھی معلق ہوا تو وہ ضرور اسے پالیں گے۔ ‘‘
725 / 77. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: ادْنُوْا يَا مَعْشَرَ الْمَوَالِيِّ إِلىٰ الذِّکْرِ، فَإِنَّ الْعَرَبَ قَدْ أَعْرَضَتْ، وَإِنَّ الإِيْمَانَ لَوْ کَانَ مُعَلَّقًا بِالْعَرَشِ کَانَ مِنْکُمْ مَنْ يَطْلُبُهُ. رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ فِي تَارِيْخِهِ.
الحديث رقم 77: أخرجه أبو نعيم في تاريخ أصبهان، 1 / 6.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے گروہ موالی! (یعنی عجم) ذکر کے قریب ہو جاؤ یقیناً عربوں نے اس سے منہ موڑ لیا۔ اور یقیناً اگر ایمان عرش کے ساتھ بھی معلق ہوا تب بھی تم میں سے ایک شخص اسے ضرور پا لے گا۔ ‘‘
726 / 78. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه رواية: يُوْشِکُ أَنْ يَضْرِبَ النَّاسُ (الرَّجُلُ) أَکْبَادَ الإِبِلِ يَطْلُبُوْنَ الْعِلْمِ. وفي رواية: يَخْرُجُ النَّاسُ مِنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، فَلَا يَجِدُوْنَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَالِمِ الْمَدِيْنَةِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ، هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 78: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: العلم عن رسول الله ﷺ، باب: ماجاء في عالم المدينة، 5 / 57، الرقم: 2680، والنسائي في السنن الکبري، باب: عالم المدينة، 2 / 489، الرقم: 4291، والحاکم في المستدرک، 1 / 168، الرقم: 2308، والبيهقي في السنن الکبري، 1 / 385، الرقم: 1681، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 339، والحميدي في المسند، 2 / 485، الرقم: 1147، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 5 / 306، الرقم، 1 / 195، الرقم: 90، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 134، وابن عبد البر في التمهيد، 1 / 84، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 8 / 55، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 10 / 7، والمزي في تهذيب الکمال، 27 / 117.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عنقریب لوگ طلبِ علم میں اونٹوں کی سینہ کوبی کریں گے (یعنی نہایت تیزی سے سفر کریں گے) اور ایک راویت میں ہے کہ مشرق و مغرب سے لوگ علم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے لیکن وہ عالم مدینہ سے زیادہ صاحبِ علم کسی کو نہیں پائیں گے۔ ‘‘
727 / 79. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تَسُبُّوْا قُرَيْشًا، فَإِنَّ عَالِمَهَا يَمْلَأُ طِبَاقَ الْأَرْضِ عِلْمًا.
رَوَاهُ الطَّيَالِسيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْخَطِيْبُ.
الحديث رقم 79: أخرجه الطيالسي في المسند، 1 / 39، الرقم: 309، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 637، الرقم: 1523، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 295، 9 / 65، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 2 / 61، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 12، الرقم: 7295، والبيهقي في بيان من أخطا علي الشافعي، 1 / 94، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 9 / 24، والمزي في تهذيب الکمال، 24 / 364، والنووي في تهذيب الأسماء، 1 / 73، والمناوي في فيض القدير، 2 / 105، والشاشي في المسند، 2 / 169، الرقم: 728، والذهبي في ميزان الاعتدال، 7 / 27، والعسقلاني في لسان الميزان، 6 / 159، الرقم: 566.
’’حضرت عبدالله رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قریش کو گالی مت دو بیشک اہلِ قریش کا عالم تمام دنیا کو علم (کی روشنی) سے بھر دے گا۔ ‘‘
(اولیاء اور صالحین رضی اللہ عنھم کے مناقب کا بیان)
728 / 80. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِذَا أَحَبَّ اللهُ الْعَبْدَ نَادَي جِبْرِيْلَ: إِنَّ اللهَ يُحِبُّّ فُلَاناً، فَأَحْبِبْهُ، فَيُحِبُّهُ جِبْرِيْلُ، فَيُنَادِي جِبْرِيْلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ: إِنَّّ اللهَ يُحِبُّ فُلَاناً، فَأَحِبُّوْهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوْضَعُ لَهُ الْقَبُوْلُ فِي الْأَرْضِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 80: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: بدء الخلق، باب: ذکر الملائکة، 3 / 1175، الرقم: 3037، وفي کتاب: الأدب، باب: المِقَة من الله تعالي، 5 / 2246، الرقم: 5693، وفي کتاب: التوحيد، باب: کلام الرب مع جبريل ونداء الله الملائکة، 6 / 2721، الرقم: 7047، ومسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والآداب، باب: إذا أحب الله عبدا حببه إلي عباده، 4 / 2030، الرقم: 2637، ومالک في الموطأ، 2 / 953، الرقم: 1710.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آواز دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ پس حضرت جبرئیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام آسمانی مخلوق میں ندا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ پس آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر زمین والوں (کے دلوں) میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘
729 / 81. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ قَالَ: مَنْ عَادَي لِي وَلِيّاً، فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِيِ بِشَيئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي، يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّي أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحَْبَبْتُهُ: کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِها، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وإنْ سَأَلَنِي، لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي، لَأُعِيْذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيئٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ، يَکْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَهُ مَسَاءَتَهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
الحديث رقم 81: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الرقاق، باب: التواضع، 5 / 2384، الرقم: 6137، وابن حبان في الصحيح، 2 / 58، الرقم: 347، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 219، باب (60)، وفي کتاب الزهد الکبير، 2 / 269، الرقم: 696.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اُس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو اور میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعے برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی اس طرح متردد نہیں ہوتا جیسے بندۂ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں۔ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں۔‘‘
730 / 82. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللهِ لَأُنَاسًا مَا هُمْ بِأَنْبِيَاءَ وَلَا شُهَدَاءَ يَغْبِطُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ وَالشُّهَدَاءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمَکَانِهِمْ مِنَ اللهِ. قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ! تُخْبِرُنَا مَنْ هُمْ؟ قَالَ: هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوْا بِرُوْحِ اللهِ عَلىٰ غَيْرِ أَرْحَامٍ بَيْنَهُمْ، وَلَا أَمْوَالٍ يَتَعَاطُوْنَهَا، فَوَاللهِ إِنَّ وُجُوْهَهُمْ لَنُوْرٌ وَإِنَّهُمْ لَعَلَي نُوْرٍ، لَا يَخَافُوْنَ إِذَا خَافَ النَّاسُ، وَلَا يَحْزَنُوْنَ إِذَا حَزِنَ النَّاسُ، وَقَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ: (أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَآءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَo). (يونس، 10: 62).
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
الحديث رقم 82: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: البيوع، باب: في الرهن، 3: 288، الرقم: 3527، والنسائي في السنن الکبري، سورة يونس، 6 / 362، الرقم: 11236، والبيهقي في شعب الايمان، 6 / 486، الرقم: 8998.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک الله تعالیٰ کے کچھ ایسے برگزیدہ بندے ہیں جو نہ انبیاء کرام ہیں نہ شہداء، قیامت کے دن انبیاء کرام علیھم السلام اور شہداء انہیں الله تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ مقام دیکھ کر اُن پر رشک کریں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: یا رسول الله! آپ ہمیں ان کے بارے میں بتائیں کہ وہ کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ ایسے لوگ ہیں جن کی ایک دوسرے سے محبت صرف الله تعالیٰ کی خاطر ہوتی ہے نہ کہ رشتہ داری اور مالی لین دین کی وجہ سے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم! ان کے چہرے نور ہوں گے اور وہ نور (کے منبروں) پر ہوں گے، انہیں کوئی خوف نہیں ہوگا جب لوگ خوفزدہ ہوں گے، انہیں کوئی غم نہیں ہوگا جب لوگ غم زدہ ہوں گے پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’خبردار! بیشک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔‘‘
731 / 83. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ: إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللهِ عِبَادًا لَيْسُوْا بِأَنْبِيَاءَ، يَغْبِطُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ وَالشُّهَدَاءُ. قِيْلَ: مَنْ هُمْ لَعَلَّنَا نُحِبُّهُمْ؟ قَالَ: هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوْا بِرُوْحِ اللهِ مِنْ غَيْرِ أَرْحَامٍ وَلَا إِنْتِسَابٍ، وُجُوْهُهُمْ نُوْرٌ عَلىٰ مَنَابِرَ مِنْ نُوْرٍ، لَا يَخَافُوْنَ إِذَا خَافَ النَّاسُ، وَلَا يَحْزَنُوْنَ إِذَا حَزِنَ النَّاسُ، ثُمَّ قَرَأَ: (أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَo) (يونس، 10: 62).
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْيَعْلَي وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 83: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2 / 332، الرقم: 573، وأبويعلي في المسند، 10 / 495، الرقم: 6110، والبيقهي في شعب الإيمان، 6 / 485، الرقم: 8997، 8999، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 12، الرقم: 4580.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو انبیاء نہیں لیکن انبیاء کرام اور شہداء بھی ان پر رشک کریں گے۔ عرض کیا گیا: (یا رسول الله!) وہ کون لوگ ہیں (ہمیں ان کی صفات بتائیں)؟ تاکہ ہم بھی ان سے محبت کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ ایسے بندے ہیں جو آپس میں بغیر کسی قرابت داری اور واسطہ کے محض اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت کرتے ہیں، ان کے چہرے پر نور ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر جلوہ افروز ہوں گے، انہیں کوئی خوف نہیں ہوگا جب لوگ خوفزدہ ہوں گے اور انہیں کوئی غم نہیں ہو گا جب لوگ غمزدہ ہوں گے پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔‘‘
732 / 84. عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيْدَ رضي الله عنها قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوَْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: أَلاَ أَُنَّبِئُکُمْ بِخِيَارِکُمْ؟ قَالُوْا: بَلَي، يَارَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: خِيَارُکُمُ الَّذِيْنَ إِذَا رُؤُوْا، ذُکِرَ اللهُ عزوجل.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ.
الحديث رقم 84: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: من لا يؤبه له، 2 / 1379، الرقم: 4119، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 459، الرقم: 27640، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 119، الرقم: 323، والطبراني في المعجم الکبير، 24 / 167، الرقم: 423.
’’حضرت اسماء بنت یزید رضی الله عنھا سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: کیا میں تمہیں تم میں سے سب سے بہتر لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: یا رسول الله! کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہتر لوگ وہ ہیں کہ جب انہیں دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ یاد آ جائے۔‘‘
733 / 85. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما، قَالَ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنْ أَوْلِيَاءِ اللهِ؟ فَقَالَ: الَّذِيْنَ إِذَا رُؤُوْا ذُکِرَ اللهُ عزوجل. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَوَثَّقَهُ.
الحديث رقم 85: أخرجه النسائي في السنن الکبري، سورة يونس، 6 / 362، الرقم: 11235، وابن المبارک في کتاب الزهد، 1 / 72، الرقم: 217، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 10 / 108، الرقم: 105، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 2 / 39، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 78.
’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے اولیاء الله کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: وہ لوگ (اولیاء الله ہیں) جنہیں دیکھنے سے اللہ یاد آ جائے۔‘‘
734 / 86. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ مِنَ النَّاسِ مَفَاتِيْحُ لِذِکْرِ اللهِ إِذَا رُؤُوْا ذُکِرَ اللهُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ أَبِي الدُّنْيَا.
الحديث رقم 86: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 205، الرقم: 10476، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 455، الرقم: 499، وابن أبي الدنيا في کتاب الأولياء، 1 / 17، الرقم: 26، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 78، وَصَحَّحَهُ.
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یقینا بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کنجیاں ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آجاتا ہے۔‘‘
735 / 87. عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَمِقِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا يُحِقُّ الْعَبْدُ حَقِيقَةَ الإِيْمَانِ حَتَّي يَغْضَبَِﷲِ وَيَرْضَيﷲِ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِکَ، اسْتَحَقَّ حَقِيْقَةَ الإِيْمَانِ، وَإِنَّ أَحِبَّائِي وَأَوْلِيَائِي الَّذِيْنَ يُذْکَرُوْنَ بِذِکْرِي وَأُذْکَرُ بِذِکْرِهِمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 87: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 203، الرقم: 651، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 430، الرقم: 15634، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 365، وابن أبي الدنيا في کتاب الأولياء، 1 / 15، الرقم: 19، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 152، الرقم: 7789، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 14، الرقم: 4589، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 58.
’’حضرت عمرو بن حمق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی (کسی سے) ناراض اور اللہ تعالیٰ کے لئے ہی (کسی سے) راضی نہ ہو (یعنی اس کی رضا کا مرکز و محور فقط ذاتِ الٰہی ہو جائے) اور جب اس نے یہ کام کر لیا تو اس نے ایمان کی حقیقت کو پا لیا، اور بے شک میرے احباب اور اولیاء وہ لوگ ہیں کہ میرے ذکر سے ان کی یاد آجاتی ہے اور ان کے ذکر سے میری یاد آ جاتی ہے (یعنی میرا ذکر ان کا ذکر ہے اور ان کا ذکر میرا ذکر ہے)۔‘‘
736 / 88. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: إِنَّ يَسِيْرَ الرِّيَاءِ شِرْکٌ، وَ إِنَّ مَنْ عَادَيﷲِ وَلِيًّا، فَقَدْ بَارَزَ اللهَ بِالْمُحَارَبَةِ. إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْأَبْرَارَ الْأَتْقِيَاءَ الْأَخْفِيَاءَ، الَّذِيْنَ إِذَا غَابُوْا لَمْ يُفْتَقَدُوْا، وَإِنْ حَضَرُوْا لَمْ يُدْعَوْا وَلَمْ يُعْرَفُوْا. قُلُوْبُهُمْ مَصَابِيْحُ الْهُدَي يَخْرُجُوْنَ مِنْ کُلِّ غَبْرَاءَ مُظْلِمَةٍ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 88: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الفتن، باب: من ترجي له السلامة من الفتن، 2 / 1320، الرقم: 3989، والحاکم في المستدرک، 1 / 44، الرقم: 4، 4 / 364، الرقم: 7933، والطبراني في المعجم الصغير، 2 / 122، الرقم: 892، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 548، الرقم: 9049، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 34، الرقم: 49.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک معمولی دکھاوا بھی شرک ہے اور جس نے اولیاء اللہ سے دشمنی کی تو اس نے اللہ تعالیٰ سے اعلان جنگ کیا، بے شک اللہ تعالیٰ ان نیک متقی لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو چھپے رہتے ہیں، اگر وہ غائب ہو جائیں تو انہیں تلاش نہیں کیا جاتا اور اگر وہ موجود ہوں تو انہیں (کسی بھی مجلس میں یا کام کے لئے) بلایا نہیں جاتا اور نہ ہی انہیں پہچانا جاتاہے، ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں ایسے لوگ ہر طرح کی آزمائش اور تاریک فتنے سے (بخیر و عافیت) نکل جاتے ہیں۔‘‘
737 / 89. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قِيْلَ يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَيُّ جُلَسَائِنَا خَيْرٌ؟ قَالَ: مَنْ ذَکَرَکُمُ اللهَ رُؤْيَتُهُ وَزَادَ فِي عِلْمِکُمْ مَنْطِقُهُ وَذَکَرَکُمْ بِالْآخِرَةِ عَمَلُهُ. رَوَاهُ أَبُوْيَعْلَي وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَنَحْوَهُ أَبُوْنُعَيْمٍ.
الحديث رقم 89: أخرجه أبو يعلي في المسند، 4 / 326، الرقم: 2437، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 213، الرقم: 631، وأبونعيم في حلية الأولياء، 7 / 46، وابن المبارک في الزهد، 1 / 121، الرقم: 355، وابن أبي الدنيا في الأولياء، 1 / 17، الرقم: 25، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 63، الرقم: 163، والهندي في کنز العمال، 9 / 28، 37، الرقم: 24764، 24820، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 39، الرقم: 994، والزرقاني في شرحه، 4 / 553، والمناوي في فيض القدير، 3 / 467.
’’حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ہمارے بہترین ہم نشین کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا ہم نشین جس کا دیکھنا تمہیں الله تعالیٰ کی یاد دلائے اور جس کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔‘‘
(صالحین کے لئے الله تعالیٰ کی طرف سے تیار کردہ تسکینِ چشم و جاں کا بیان)
738 / 90. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: قَالَ اللهُ عزوجل: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِيْنَ: مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلىٰ قَلْبِ بَشَرٍ فَاقْرَؤُوْا إنْ شِئْتُمْ: (فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا يَعْمَلُوْنَ) (السجدة، 32: 17).
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 90: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: بدء الخلق، باب: ماجاء في صفة الجنة وأنها مخلوقة، 3 / 1185، الرقم: 3072، وفي کتاب: التفسير / السجدة، باب: قوله: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ: (17)، 4 / 1794، الرقم: 4501. 4502، وفي کتاب: التوحيد، باب: قوله تعالي: يُرِيْدُوْنَ أَنْ يُبَدِّلُوْا کَلَامَ اللهِ: (الفتح: 15)، 6 / 2723، الرقم: 7059، ومسلم في الصحيح، کتاب: الجنة وصفة نعيمها، باب: (51)، 4 / 1274. 2175، الرقم: 2824، والترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: ومن سورة السجدة، 5 / 346، الرقم: 3197، وفي باب: ومن سورة الواقعة، 5 / 400، الرقم: 3292، وقال أبو عيسي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: صفة الجنة، 2 / 1447، الرقم: 4328، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 317، الرقم: 11085، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 438، الرقم: 10428، 9647، 22877، وابن حبان في الصحيح، 2 / 91، الرقم: 369، والحاکم في المستدرک، 2 / 448، الرقم: 3549. 3550، وقال الحاکم: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإسْنَادِ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل کا فرمان ہے: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی فرد بشر کے دل میں ان کا خیال آیا ہے۔ چاہتے ہو تو پڑھو: ’’سو کسی کو معلوم نہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے، یہ ان (اعمالِ صالحہ) کا بدلہ ہو گا جو وہ کرتے رہے تھے۔‘‘
739 / 91. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه: قَالَ: رَسُوْلُ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ اللهَ عزوجل يَقُوْلُ لِأَهْلِ الْجَنَّةِ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: لَبَّيْکَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْکَ، وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْکَ، فَيَقُولُ: هَلْ رَضِيْتُمْ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: وَمَا لَنَا لَا نَرْضَي يَا رَبِّ وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ، فَيَقُوْلُ: أَلَا أُعْطِيْکُمْ أَفْضًلَ مِنْ ذَلِکَ، فَيَقُوْلُوْنَ: يَا رَبِّ، وَأَيُّ شَيئٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِکَ؟ فَيَقُوْلُ: أُحِلُّ عَلَيْکُمْ رِضْوَانِي؟ فَ. لَا أَسْخَطُ عَلَيْکُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 91: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الرقاق، باب: صفة الجنة والنار، 5 / 2398، الرقم: 6183، وفي کتاب: التوحيد، باب: کلام الرب مع أهل الجنة، 6 / 2732، الرقم: 7080، ومسلم في الصحيح، کتاب: الجنة وصفة نعيمها، باب: إحلال الرضوان علي أهل الجنة، 4 / 2176، الرقم: 2829، والترمذي في السنن، کتاب: صفة الجنة عن رسول الله ﷺ، باب: (18)، والنسائي في السنن الکبري، 4 / 416، الرقم: 7749، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 88، الرقم: 11853، وابن حبان في الصحيح، 16 / 470، الرقم: 7440، وابن المبارک في الزهد، 1 / 129، الرقم: 430، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 313، الرقم: 5750.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل جنتیوں سے فرمائیں گے: اے جنتیو! وہ کہیں گے: ’’اے ہمارے پروردگار ہم تیرے حکم کے سامنے بار بار سر تسلیم خم کر کے دوہری سعادت چاہتے ہیں اور ہر قسم کی بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم خوش ہو؟ وہ کہیں گے اے رب! ہم خوش کیوں نہ ہوں تو نے ہمیں وہ کچھ عطا کیا ہے جو مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر نہ عطا کروں؟ وہ کہیں گے اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے اپنی رضا و خوشنودی تمہیں دے دی۔ اب کے بعد میں تم پر کبھی ناراض نہیں ہو گا۔‘‘
740 / 92. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَسُوْقًا يَأْتُوْنَهَا کُلَّ جُمُعَةٍ فَتَهُبُّ رِيْحُ الشِّمَالِ فَتَحْثُوْ فِي وُجُوْهِهِمْ وَثِيَابِهِمْ. فَيَزْدَادُوْنَ حُسْنًا وَجَمَالًا، فَيَرْجِعُوْنَ إِلىٰ أَهْلِيْهِمْ وَقَدِ ازْدَادُوْا حُسْنًا وَجَمَالا. فَيَقُوْلُ لَهُمْ أَهْلُوْهُمْ: وَاللهِ، لَقَدِ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالًا. فَيَقُوْلُوْنَ: وَأَنْتُمْ، وَاللهِ لَقَدْ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالًا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالدَّارِمِيُّ.
الحديث رقم 92: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: صفة الجنة ونعيمها، باب: في سوق الجنة وما ينالون فيها من النعيم والجمال، 4 / 2178، الرقم: 2833، والدارمي في السنن، 2 / 436، الرقم: 2841، وابن المبارک في الزهد، 1 / 524، الرقم: 1491، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 301، الرقم: 5727.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک ایسا بازار ہے جس میں لوگ ہر جمعہ کے روز آئیں گے، شمالی جانب سے ہوا چلے گی اور ان کے کپڑوں اور چہروں پر لگے گی جس سے ان کا حسن و جمال بڑھ جائے گا۔ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس واپس جائیں گے تو ان کا حسن و جمال بڑھا ہوا دیکھ کر وہ کہیں گے: الله کی قسم! ہم سے دور جا کر تمہارا حسن و جمال بڑھ گیا ہے اور یہ ان سے کہیں گے کہ الله کی قسم! ہمارے بعد تمہارا بھی حسن و جمال بڑھ گیا ہے۔‘‘
741 / 93. عَنْ صُهَيْبٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِِّ ﷺ قَالَ: إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، قَالَ: يَقُوْلُ اللهُ عزوجل: تُرِيْدُوْنَ شَيْئًا أَزِيْدُکُمْ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: أَ لَمْ تُبَيِّضْ وُجُوْهَنَا؟ أَ لَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: فَيُکْشِفُ الْحِجَابَ فَمَا أُعْطُوْا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَی رَبِّهِمْ عزوجل ثُمَّ تَلاَ هَذِهِ الآيَةَ: (لِلَّذِيْنَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَ زِيَادَةٌ) (يونس، 10: 26).
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
الحديث رقم 93: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: إثبات رؤية المؤمنين في الآخرة ربهم، 1 / 163، الرقم: 181، والترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: ومن سورة يونس، 5 / 286، الرقم: 3105، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 332، وعبد الله بن أحمد في السنة، 1 / 245، الرقم: 449، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 309، الرقم: 5744.
’’حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے، اللہ عزوجل فرمائے گا: تم کچھ اور چاہتے ہو تو میں تمہیں دوں؟ وہ عرض کریں گے: (اے ہمارے رب! کیا تو نے ہمارے چہرے منور نہیں کر دیئے کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کر دیا اور ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی۔ فرمایا: اس کے بعد اللہ تعالیٰ پردہ اٹھادے گا، انہیں اپنے پروردگار کے دیدار سے بہتر کوئی چیز نہیں ملی ہو گی پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’ایسے لوگوں کے لئے جو نیک کام کرتے ہیں نیک جزا ہے (بلکہ) اس پر اضافہ بھی ہے۔‘‘
742 / 94. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّهُ لَقِيَ أَبَا هُرَيْرَةَ رضي الله عنه فَقَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضي الله عنه: أَسْأَلُ اللهَ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنِي وَبَيْنَکَ فِي سُوْقِ الْجَنَّةِ، فَقَالَ سَعِيْدٌ: أَوَ فِيْهَا سُوْقٌ؟ قَالَ: نَعَمْ أَخْبَرَنِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلُوْهَا نَزَلُوْا فِيْهَا بِفَضْلِ أَعْمَالِهِمْ، فَيُؤْذَنُ لَهُمْ فِي مِقْدَارِ يَومِ الْجُمُعَةِ مِنْ أَيَامِ الدُّنْيَا فَيَزُوْرُوْنَ رَبَّهُمْ، وَ يُبْرِزُ لَهُمْ عَرْشَهُ.
قَالَ أَبُوهُرَيْرَةَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَهَلْ نَرَي رَبَّنَا؟ قَالَ: نَعَمْ، هَلْ تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ قُلْنَا: لَا، قَالَ: کَذَلِکَ لَا تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّکُمْ عزوجل وَلَا يَبْقَي فِي ذَلِکَ الْمَجْلِسِ رَجُلٌ إِلَّا حَاضَرَهُ اللهُ مُحَاضَرَةً. . .
ثُمَّ نَنْصَرِفُ إِلىٰ مَنَازِلِنَا، فَيَتَلَقَّانَا أَزْوَاجُنَا فَيَقُلْنَ: مَرْحَبًا وَأَهْلًا لَقَدْ جِئْتَ وَإِنَّ بِکَ مِنَ الْجَمَالِ وَالطِّيْبِ أَفْضَلُ مِمَّا فَارَقْتَنَا عَلَيْهِ، فَيَقُوْلُ: إِنَّا جَالَسْنَا الْيَومَ رَبَّنَا الْجَبَّارَ (عزوجل)، وَيَحِقُّ لَنَا أَن نَنْقَلِبَ بِمِثْلِ مَا انْقَلَبْنَا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 94: أخرجه الترمذي، کتاب: صفة الجنة، عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء في سوق الجنة، 4 / 685، الرقم: 2549، وابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: صفة الجنة، 2 / 1450، الرقم: 4336، وابن حبان في الصحيح، 16 / 464. 467، الرقم: 7437، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 258، الرقم: 585. 586، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 301، الرقم: 5728.
’’حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی ملاقات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو جنت کے بازار میں اکٹھا کردے۔ سعید کہنے لگے: کیا جنت میں کوئی بازار بھی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں مجھے رسول اللہ ﷺ نے بتایا ہے کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو وہ اپنے عملوں کی برتری کے لحاظ سے مراتب حاصل کریں گے۔ دنیا کے جمعہ کے روز کے برابر انہیں اجازت دی جائے گی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔ اور وہ ان کے لیے اپنا عرش ظاہر کرے گا۔ ۔ ۔ ۔‘‘
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، کیا تم سورج اور چودھویں کے چاند کو دیکھنے میں کوئی شک کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسی طرح تم اپنے پروردگار کے دیدار میں کوئی شک نہیں کروگے۔ اس محفل میں کوئی ایسا شخص نہیں ہوگا جس سے اللہ تعالیٰ براہِ راست گفتگو نہ فرمائے۔ ۔ ۔ ۔‘‘
’’انہوں نے کہا کہ پھر ہم واپس اپنے گھروں میں آجائیں گے۔ ہماری بیویاں ہمارا استقبال کریں گی اور کہیں گی خوش آمدید، خوش آمدید، تم واپس آئے ہو، تو تمہارا حسن و جمال ہم سے جدا ہوتے وقت سے بڑھ گیا ہے۔ وہ کہے گا: آج ہماری مجلس ہمارے رب جبار سے ہوئی ہے۔ ہم اسی (خوبصورت) شکل و صورت میں تبدیل ہونے کے حق دار تھے۔‘‘
743 / 95. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ عزوجل أَحَاطَ حَائِطَ الْجَنَّةِ لَبِنَةً مِنْ ذَهَبٍ وَلَبِنَةً مِنْ فِضَّةٍ ثُمَّ شَقَّقَ فِيْهَا الأَنْهَارَ وَغَرَسَ الْأَشْجَارَ فَلَمَّا نَظَرَتِ الْمَلَائِکَة إِلىٰ حُسْنِهَا قَالَتْ: طُوْبَي لَکِ مَنَازِلَ الْمُلُوْکِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ وَأَحْمَدُ مُخْتَصَرًا.
الحديث رقم 95: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 362، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 74، الرقم: 2532، والحميدي مختصرا في المسند، 2 / 486، الرقم: 1150، والبزار في المسند (کشف الأستار)، 4 / 189، والهيثمي في مجمع الزوائد 10 / 397، وقال: رواه البزار مرفوعا وموقوفا، والطبراني في الأوسط ورجال الموقوف رجال الصحيح، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 178، الرقم: 664: 2 / 115، الرقم: 2605، وابن المبارک في الزهد، 1 / 512، الرقم: 1457، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 282، الرقم: 5650. وقال: أخرجه البيهقي.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل نے جنت کی بیرونی دیوار اس طرح بنائی ہے کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی ہے اور ایک چاندی کی پھر اس میں نہریں چلائیں اور درخت لگائے۔ جب فرشتوں نے اس کی خوب صورتی کو دیکھا تو انہوں نے کہا: اے (روحانیت اور ولایت کے) بادشاہوں کی جائے قرار! تجھے مبارک ہو۔‘‘
744 / 96. عَنْ حُذَيْفَةَ رضي الله عنه في رواية طويلة قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: فَيَکُونُ أَوَّلُ مَا يَسْمَعُوْنَ مِنْهُ أَنْ يَقُوْلَ أَيْنَ عِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَطَاعُوْنِي بِالْغَيْبِ وَلَمْ يَرَوْنِي وَصَدَّقُوْا رُسُلِي وَاتَّبَعُوْا امْرِي فَسَلُوْنِي فَهَذَا يَوْمُ الْمَزِيْدِ قَالَ: فَيَجْتَمِعُوْنَ عَلىٰ کَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ رَبِّ! رَضِيْنَا عَنْکَ فَارْضَ عَنَّا قَالَ: فَيَرْجِعُ اللهُ تَعَالَي فِي قَوْلِهِمْ أَنْ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ إِنِّي لَوْ لَمْ أَرَضَ عَنْکُمْ لَمَا أَسْکَنْتُکُمْ جَنَّتِي فَسَلُونِي فَهَذَا يَوْمُ الْمَزِيْدِ قَالَ: فَيَجْتَمِعُوْنَ عَلىٰ کَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ رَبِّ وَجْهَکَ أَرِنَا نَنْظُرُ إِلَيْهِ قَالَ: فَکَشَفَ اللهُ تَبَارَکَ وَ تَعَالَي تِلْکَ الْحُجُبَ وَيَتَجَلَّي لَهُمْ شَيئٌ لَوْ لَا أَنَّهُ قَضَي عَلَيْهِمْ أَنْ لَا يَحْتَرِقُوْا لَاحْتَرَقُوْا مِمَّا غَشِيَهُمْ مِنْ نُوْرِهِ فَيَغْشَاهُمْ مِنْ نُوْرِهِ.
قَالَ: فَيَرْجِعُونَ إِلىٰ مَنَازِلِهِمْ وَقَدْ خَفُوْا عَلىٰ أَزْوَاجِهِمْ وَخَفِيْنَ عَلَيْهِمْ مِمَّا غَشِيَهُمْ مِنْ نُوْرِهِ تبارک وتعالي فَإِذَا صَارُوْا إِلىٰ مَنَازِلِهِمْ تَرَادَّ النُّوْرُ وَأَمْکَنَ وَتَرَادَّ وَأَمْکَنَ حَتَّي يَرْجِعُوْا إِلىٰ صُوَرِهِمُ الَّتِي کَانُوْا عَلَيْهَا قَالَ: فَيَقُوْلُ لَهُمْ أَزْوَاجُهُمْ: لَقَدْ خَرَجْتُمْ مِنْ عِنْدِنَا عَلىٰ صُوْرَةٍ وَ رَجَعْتُمْ عَلىٰ غَيْرِهَا قَالَ: فَيَقُوْلُوْنَ: ذَلِکَ بِأَنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَي تَجَلَّي لَنَا فَنَظَرْنَا مِنْهُ إِلىٰ مَا خَفِيْنَا بِهِ عَلَيْکُمْ قَالَ: فَلَهُمْ فِي کُلِّ سَبْعَةِ أَيَامٍ الضِّعْفُ عَلىٰ مَا کَانُوْا قَالَ: وَذَلِکَ قَولُهُ عزوجل: (فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا يَعْمَلُوْنَo): (السجدة، 32: 17). رَوَاهُ البَزَّارُ.
الحديث رقم 96: أخرجه البزار في المسند، 7 / 288، الرقم: 2881، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 311، الرقم: 5748، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 422.
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو سب سے پہلی بات سنیں گے، وہ یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے وہ بندے کہاں ہیں جنہوں نے مجھے دیکھے بغیر میری اطاعت کی اور میرے رسولوں کی تصدیق کی اور میرا حکم مانا؟ تم مجھ سے مانگو یہ یوم المزید (یعنی میرے لطف و کرم کی بے بہا بارشوں کا دن) ہے وہ تمام لوگ ایک بات پر اتفاق کریں گے کہ اے رب! ہم تجھ سے خوش ہیں، تو ہم سے خوش ہو جا۔ اللہ تعالیٰ ان سے دوبارہ فرمائے گا: اے جنتیو! اگر میں تم سے راضی نہ ہوتا تو میں تمہیں جنت میں نہ ٹھہراتا۔ تم مجھ سے مانگو یہ یوم المزید ہے۔ وہ بیک آواز کہیں گے اے رب! ہمیں اپنا چہرہ انور دکھا، ہم تیرا دیدار کرلیں۔ اللہ تعالیٰ وہ پردے اٹھا دے گا اور ان کے سامنے ایک چیز جلوہ افروز ہو گی اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ وہ جلیں گے نہیں تو وہ اس کے نور کی وجہ سے جل بھی جائیں، اس کے بعد اس کا نور ان پر سایہ فگن ہوجائے گا۔ ۔ ۔ ۔
وہ اپنے ٹھکانوں کی طرف آجائیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونے والے نور سے ان کی بیویاں ان کے متعلق لا علم ہوں گی اور وہ ان کے متعلق لا علم ہوں گے، جب وہ گھر پہنچیں گے تو نور بڑھتا جائے گا اور پختہ ہوتا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی ان شکلوں کی طرف لوٹ آئیں گے جن میں وہ پہلے تھے۔ ان کی بیویاں ان سے کہیں گی تم جس شکل و صورت میں ہمارے ہاں سے گئے تھے اس کے علاوہ شکل و صورت میں واپس ہوئے۔ وہ کہیں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے سامنے جلوہ افروز ہوا اور ہم نے اس کا دیدار کیا تو ہماری شکلیں تم سے مخفی رہ گئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر سات روز میں انہیں اس سے دوگنا (دیدار) نصیب ہو گا اور یہی بات اللہ عزوجل کے اس فرمان میں ہے: ’’سو کسی کو معلوم نہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے، یہ ان (اعمالِ صالحہ) کا بدلہ ہو گا جو وہ کرتے رہے تھے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved