1. فَصْلٌ فِي فَضْلِ الْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ
( علم اور علماء کی فضیلت کا بیان)
2. فَصْلٌ فِي فَضْلِ الذِّکْرِ وَالذَّاکِرِيْنَ
( ذکرِ الٰہی اور ذاکرین کی فضیلت کا بیان)
3. فَصْلٌ فِي فَضْلِ الصَّلاَةِ وَالسَّلَامِ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ
(حضور نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کی فضیلت کا بیان)
4. فَصْلٌ فِي فَضْلِ قِيَامِ اللَّيْلِ
(رات کو قیام کرنے کی فضیلت کا بیان)
5. فَصْلٌ فِي الْمَدَائِحِ النَّبَوِيَةِ وَ إِنْشَادِهَا
(حضور نبی اکرم ﷺ کی مدح اور نعت خوانی کا بیان)
6. فَصْلٌ فِي فَضْلِ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ
(زیارتِ قبور کی فضیلت کا بیان)
7. فَصْلٌ فِي فَضْلِ إِيْصَالِ الثَّوَابِ إِلَی الْأَمْوَاتِ
( فوت شدگان کو ثواب پہنچانے کی فضیلت کا بیان )
461 / 1. عَنْ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُوْلُ: مَن يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ يُعْطِي.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم 1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: العلم، باب: من يرد اللَّه به خيرا يفقّهه في الدين، 1 / 39، الرقم: 71، وفي أبواب: فرض الخمس، باب: قول اللَّه تعالي: فإن ﷲ خمسه وللرسول، 3 / 1134، الرقم: 2948، وفي کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: قول النبي ﷺ: لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علي الحق وهم أهل العلم، 6 / 2667، الرقم: 6882، ومسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: النهي عن المسألة، 2 / 718، الرقم: 1037، والترمذي عن ابن عباس في السنن، کتاب: العلم عن رسول اللہ ﷺ، باب: إذا اراد اللہ بعبد خيرا فقهه في الدين، 5 / 28، الرقم: 2645، وابن ماجه عن معاوية وأبي هريرة رضي الله عنهما في السنن، المقدمة، باب: فضل العلماء والحث علي طلب العلم، 1 / 80، الرقم: 220. 221، والنسائي في السنن الکبري، 3 / 425، الرقم: 5839، ومالک في الموطأ، 2 / 900، الرقم: 1599، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 234، الرقم: 793، والدارمي في السنن، 1 / 85، الرقم: 224. 22.
’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے، اور میں تو بس تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ دیتا اللہ تعالیٰ ہے۔ ‘‘
462 / 2. عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ کَانَ فِي سَبِيْلِ اللهِ حَتَّى يَرْجِعَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 2: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: العلم عن رسول اللہ ﷺ، باب: فضل طلب العلم، 5 / 29، الرقم: 2647، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 234، الرقم: 380، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 6 / 124، الرقم: 2119، وإسناده حسن، والمنذري في الترغيب، 1 / 60، الرقم: 148.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص حصولِ علم کے لئے نکلا وہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے جب تک کہ واپس نہیں لوٹ آتا۔ ‘‘
463 / 3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: أَ لَا! إِنَّ الدُّنْيَا مَلْعُوْنَةٌ مَلْعُوْنٌ مَا فِيْهَا إِلَّا ذِکْرُ اللهِ وَمَا وَالَاهُ وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ. رَوَاهَ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 3: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الزهد عن رسول اللہ ﷺ، باب: منه، (14)، 4 / 561، الرقم: 2322، وابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: مثل الدنيا، 2 / 1377، الرقم: 4112، والدارمي في السنن، 1 / 106، الرقم: 322، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 236، الرقم: 4072، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 122.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کا دم بھرنے والے اور عالم اور طالب علموں کو چھوڑ کر بقایا دنیا اور جو کچھ اس (دنیا) میں ہے سب ملعون ہیں۔ ‘‘
464 / 4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّ يُبْتَغَي بِهِ وَجْهُ اللهِ، لا يَتَعَلَّمُهُ إِلاَّ لِيُصِيْبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا، لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَعْنِي رِيْحَهَا. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 4: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: العلم، باب: في طلب العلم لغير اللہتعالي، 3 / 323، الرقم: 3664، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: الانتقاع بالعلم والعمل به، 1 / 92، الرقم: 252، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 338، الرقم: 8438، وابن حبان في الصحيح، 1 / 279، الرقم: 78، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 285، الرقم: 26127، وأبويعلي في المسند، 11 / 260، الرقم: 6373، والبهيقي في شعب الإيمان، 2 / 282، الرقم: 1770، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 65، الرقم: 177.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے علم حاصل کیا جس سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کی جاتی ہے لیکن (اگر) وہ یہ علم حصولِ دنیا کے لئے سیکھتا ہے تو قیامت کے روز وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔ ‘‘
465 / 5. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رضي الله عنه، قَالَ: ذُکِرَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ رَجُلاَنِ: أَحَدُهُمَا عَابِدٌ وَالْآخَرُ عَالِمٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: فَضْلُ الْعَالِمِ عَلىٰ الْعَابِدِ، کَفَضْلِي عَلىٰ أَدْنَاکُمْ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ، وَمَلاءِکَتَهُ، وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ، وَالْأَرْضِيْنَ، حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوْتَ، لَيُصَلُّوْنَ عَلىٰ مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَالدَّارِمِيُّ.
الحديث رقم 5: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: العلم عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في فضل الفقه علي العبادة، 5 / 50، الرقم: 2685، والدارمي في السنن، 1 / 100، الرقم: 289، والطبراني في العمجم الکبير، 8 / 233، الرقم: 7911، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 56، الرقم: 130.
’’حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا: جن میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عابد پر عالم کی فضیلت اسی طرح ہے جس طرح میری فضیلت تم میں سے ایک ادنی (صحابی) پر ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے، (تمام) زمین و آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلیاں (بھی سمندروں، دریاؤں اور تالابوں میں) اس شخص کے لئے رحمت (کی دعا) مانگتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے۔ ‘‘
466 / 6. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، يَقُولُ: مَنْ سَلَکَ طَرِيْقًا يَبْتَغِي فِيْهِ عِلْمًا سَلَکَ اللهُ لَهُ طَرِيْقًا إِلَي الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَلَائِکَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا، رِضَاءً لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ حَتَّى الْحِيْتَانُ فِي الْمَاءِ، وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلىٰ الْعَابِدِ، کفَضْلِ الْقًمَرِ عَلىٰ سَائِرِ الْکَوَاکِبِ، إِنَّ الْعُلْمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءَ إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُؤَرِّثُوْا دِيْنَارًا، وَلاَ دِرْهَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوْا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَ بِهِ، أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ. رَوَاهُ أَبُوْحَنِيْفَةَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
الحديث رقم 6: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: العلم عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في فضل الفقه علي العبادة، 5 / 48، الرقم: 2682، وأبو حنيفة في المسند، 1 / 57، وأبوداود في السنن، کتاب: العلم، باب: الحث علي طلب العلم، 3 / 317، الرقم: 3641، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: فضل العلماء والحث علي طلب والطبراني في مسند الشامين، 2 / 224، الرقم: 1231، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 262، الرقم: 1696. 1697، والمحاملي في الأمالي، 1 / 330، الرقم: 354، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 51، الرقم: 106. العلم، 1 / 81، الرقم: 21723، والدارمي في المسند، 1 / 110، الرقم: 342،
’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو آدمی طلبِ علم میں کسی راستہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے۔ اور بیشک فرشتے طالبِ علم کی رضا کے حصول کے لئے اس کے پاؤں تلے اپنے پر بچھاتے ہیں۔ اور عالم کے لئے زمین و آسمان کی ہر چیز یہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بھی مغفرت طلب کرتی ہیں۔ اور عابد پر عالم کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے۔ اور بے شک علماء انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔ بے شک انبیاء کرام کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتی بلکہ ان کی میراث علم ہے پس جس نے اسے پایا اسے (وراثتِ انبیاء سے) بہت بڑا حصہ مل گیا۔ ‘‘
467 / 7. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: فَقِيْهٌ أَشَدُّ عَلىٰ الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
وفي رواية. وَلِکُلِّ شَيءٍ عِمَادٌ وَعِمَادُ هَذَا الدِّيْنِ الْفِقْهُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 7: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: العلم عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في فضل الفقه علي العبادة، 5 / 48، الرقم: 2681، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: فضل العلماء والحث علي طلب العلم، 1 / 81، الرقم: 222، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 194، الرقم: 6166، وفي مسند الشاميين، 2 / 161، الرقم: 1109، وفي المعجم الکبير، 11 / 78، الرقم: 11099، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 266. 267، الرقم: 1712. 1715، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 57، الرقم: 136.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک فقیہ، ایک ہزار عابد سے زیادہ شیطان پر سخت اور بھاری ہے۔
اورایک روایت کے الفاظ ہیں کہ ہر ایک شے کا ستون ہوتا ہے اور اس دین کا ستون (علم) فقہ ہے۔ ‘‘
468 / 8. عَنْ أَنَسِ بنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ مَثَلَ الْعُلَمَاءِ فِي الْأَرْضِ کَمَثَلِ النُّجُومِ فِي السَّمَاءِ يُهتَدَي بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ فَإِذَا انْطَمَسَتِ النُّجُوْمُ أَوْشَکَ أَنْ تَضِلَّ الْهُدَاةُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
الحديث رقم 8: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 157، الرقم: 12621، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 134، الرقم: 6418، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 343، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 56، الرقم: 128، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 121. 122.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: علمائے کرام زمین میں ان ستاروں کی طرح ہیں جن کے ذریعے بحر و بر کے اندھیروں میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ اور اگر ستارے غروب ہوجائیں تو قریب ہے کہ (مسافروں کو راستہ دکھانے والے) رہنما بھٹک جائیں۔ (یعنی علماء کرام نہیں ہوں گے تو عوام گمراہ ہو جائیں گے)۔ ‘‘
469 / 9. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ: اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ: فَعِلْمٌ فِي الْقَلْبِ فَذَلِکَ الْعِلْمُ النَّافِعُ، وَعِلْمٌ عَلىٰ اللِّسَانِ فَذَلِکَ حُجَّةُ اللهِ عَلىٰ ابْنِ آدَمَ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالْمُنْذَرِيُّ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ.
وفي رواية: اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ: فَعِلْمٌ ثَابِتٌ فِي الْقَلْبِ وَعِلْمٌ فِي اللِّسَانِ فَذَلِکَ حُجَّةٌ عَلىٰ عِبَادِهِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.
الحديث رقم 9: أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 114، الرقم: 364، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 294، الرقم: 1825، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 58، الرقم: 139 - 140، والديلمي عن عائشة رضي الله عنها في مسند الفردوس، 3 / 68، الرقم: 4194، وابن عمر الأزدي في مسند الربيع، 1 / 365، الرقم: 947، وابن المبارک في الزهد، 1 / 407، الرقم: 1141، والحکيم الترمذي نحوه في نوادر الأصول، 3 / 42، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 343، والمناوي في فيض القدير، 4 / 390.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: علم دو (طرح کے) ہیں: ایک علم دل میں ہوتا ہے اور یہ علم نافع ہے اور ایک علم زبان پر ہوتا ہے یہ (علم) بنی آدم پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ علم دو (طرح کے) ہیں: ایک علم دل میں راسخ ہوتا ہے اور ایک علم زبان پر (جاری ہوتا) ہے پس یہ علم اللہ تعالیٰ کے بندوں پر حجت ہے (یعنی اگر صحیح عمل نہیں کریں گے تو یہ ان کے خلاف گواہ ہو گا)۔ ‘‘
470 / 10. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: يَقُوْلُ اللهُ تَعَالَي: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَکَرَنِي فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَکَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَکَرَنِي فِي مَلَاءٍ ذَکَرْتُهُ فِي مَلَاءٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا وَ إِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَ إِنْ أَتَانِي يَمْشِي، أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 10: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التوحيد، باب: قول اللہتعالي: ويحذرکم اللہ نفسه، 6 / 2694، الرقم: 6970، ومسلم في الصحيح، کتاب: الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب: الحث علي ذکر اللہتعالي، 4 / 2061، الرقم: 2675، والترمذي في السنن، کتاب: الزهد عن رسول اللہ ﷺ، باب: في حسن الظن باللہ عزوجل، 5 / 581، الرقم: 3603، وَقَالَ أَبُو عِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، والنسائي في السنن الکبري، 4 / 412، الرقم: 7730، وابن ماجه في السنن، کتاب: الأدب، باب: فضل العمل، 2 / 1255، الرقم: 3822.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (یعنی ذکر خفی) کرے تو میں بھی اپنی (شایانِ شان) اپنے دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (یعنی ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت (یعنی فرشتوں) میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔ ‘‘
471 / 11. عَنْ أَبِي مُوْسَي رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَثَلُ الَّذِي يَذْکُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا يَذْکُرُ رَبَّهُ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِتِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
الحديث رقم 11: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الدعوات، باب: فضل ذکر اللہ عزوجل، 5 / 2353، الرقم: 6044، ومسلم في الصحيح، کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: استحباب صلاة النافلة في بيته وجواز ها في المسجد، 1 / 539، الرقم: 779، ولفظه: مثل البيت الذي يذکر اللہ فيه والبيت الذي لا يذکر اللہ فيه، وابن حبان في الصحيح، 3 / 135، الرقم: 854، وأبويعلي في المسند، 13 / 291. 292، الرقم: 7306، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 401، الرقم: 536.
’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنے ربّ کا ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ (دلوں) کی سی ہے۔ ‘‘
472 / 12. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنهما أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلىٰ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: لَا يَقْعُدُ قَوْمٌ يَذْکَرُوْنَ اللهَ عزوجل إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلَائِکَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّکِيْنَةُ، وَذَکَرَهُمُ اللهُ فِيْمَنْ عِنْدَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 12: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب: فضل الاجتماع علي تلاوة القرآن وعلي الذکر، 4 / 2074، الرقم: 2700، والترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اللہ ﷺ، باب: ما جاء في القوم يجلسون فيذکرون اللہ عزوجل ما لهم من الفضل، 5 / 459، الرقم: 3378، وابن ماجه في السنن، کتاب: الأدب، باب: فضل الذکر، 2 / 1245، الرقم: 3791، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 92، الرقم: 11893، وابن حبان في الصحيح، 3 / 136، الرقم: 855، وأبويعلي في المسند، 11 / 20، الرقم: 6159، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 60، الرقم: 29475، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 137، الرقم: 1500، والطيالسي في المسند، 1 / 296، الرقم: 2233، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 398، الرقم: 530، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 262، الرقم: 2328.
’’حضرت ابوہریرہ اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنھما دونوں نے گواہی دی کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب بھی لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے بیٹھتے ہیں فرشتے انہیں ڈھانپ لیتے ہیں اور رحمتِ الٰہی انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ کا نزول ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنی بارگاہ کے حاضرین میں کرتا ہے۔ ‘‘
473 / 13. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ سُئِلَ: أَيُّ الْعِبَادِ أَفْضَلُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: الذَّاکِرُوْنَ اللہَ کَثِيْرًا وَالذَّاکِرَاتُ. قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ وَمِنَ الْغَازِي فِي سَبِيْلِ اللهِ؟ قَالَ: لَوْ ضَرَبَ بِسَيْفِهِ فِي الْکُفَّارِ وَالْمُشْرِکِيْنَ حَتَّى يَنْکَسِرَ، وَيَخْتَضِبَ دَمًا لَکَانَ الذَّاکِرُوْنَ اللهَ أَفْضَلُ مِنْهُ دَرَجَةً. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 13: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اللہ ﷺ، باب: منه (5)، 5 / 458، الرقم: 3376، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 75، الرقم: 11738، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 419، الرقم: 589، وأبويعلي في المسند، 2 / 530، الرقم: 1401، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 254، الرقم: 2296.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا گیا: (یا رسول اللہ!) کون سے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں درجہ میں افضل ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں ہیں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے سے بھی (زیادہ افضل ہوں گے)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (ہاں) اگر کوئی شخص اپنی تلوار کافروں اور مشرکوں پر اس قدر چلائے کہ وہ ٹوٹ جائے اور خون آلود ہو جائے پھر بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے اُس سے ایک درجہ افضل ہیں۔ ‘‘
474 / 14. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِکُمْ وَأَزْکَاهَا عِنْدَ مَلِيْکِکُمْ، وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِکُمْ، وَخَيْرٍ لَکُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، وَخَيْرٍ لَکُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوا عَدُوَّکُمْ، فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَهُمْ وَيَضْرِبُوْا أَعْنَاقَکُمْ؟ قَالُوْا: بَلَي. قَالَ: ذِکْرُ اللهِ تَعَالَي، قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رضي الله عنه: مَا شَيئٌ أَنْجَي مِنْ عَذَابِ اللهِ مِنْ ذِکْرِ اللهِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 14: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اللہ ﷺ، باب: منه (6)، 5 / 459، الرقم: 3377، وابن ماجه في السنن، کتاب: الأدب، باب: فضل الذکر، 2 / 1245، الرقم: 3790، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 239، الرقم: 22132، والحاکم في المستدرک، 1 / 673، الرقم: 1825، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 394، الرقم: 519، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 253، الرقم: 2294، وَقَالَ المُنْذَرِيُّ: إِسْنَادُهُ جَيِدٌ.
’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے اعمال میں سے سب سے اچھا ایسا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے مالک کے ہاں بہتر اور پاکیزہ ہے۔ تمہارے درجات میں سب سے بلند ہے۔ تمہارے سونے اور چاندی کی خیرات سے بھی افضل ہے، اور تمہارے دشمن کا سامنا کرنے یعنی جہاد سے بھی بہتر ہے درآنحالیکہ تم انہیں قتل کرو اور وہ تمہیں قتل کریں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: کیوں نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: وہ عمل اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: (ذکرِ الٰہی سے بڑھ کر) کوئی چیز ایسی نہیں جو عذابِ الٰہی سے نجات دلانے والی ہو۔ ‘‘
475 / 15. عَنْ مُعَاذٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ الصَّلَاةَ وَالصِّيَامَ وَالذِّکْرَ تُضَاعَفُ عَلىٰ النَّفَقَةِ فِي سَبِيْلِ اللهِ بِسَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ.
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 15: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الجهاد، باب: في تضعيف الذکر في سبيل، 3 / 8، الرقم: 2498، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 438، الرقم: 15613، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 186، الرقم: 405، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 249، الرقم: 3171، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 162، الرقم: 1935، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 282، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 134.
’’حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک نماز، روزہ اور ذِکر الٰہی اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے پر بھی سات سو گنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ ‘‘
476 / 16. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: أَکْثِرُوْا ذِکرَ اللهِ حَتَّى يَقُوْلُوْا مَجْنُوْنٌ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْيَعْلَي.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 16: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 68، الرقم: 11671، 3 / 71، الرقم: 311692، وابن حبان في الصحيح، 3 / 99، الرقم: 817، والحاکم في المستدرک، 1 / 677، الرقم: 1839، وأبويعلي في المسند، 2 / 521، الرقم: 1376، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 397، الرقم: 526، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 72، الرقم: 212، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 444، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 256، الرقم: 2304.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہیں۔ ‘‘
477 / 17. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أُذْکُرُوا اللهَ ذِکْرًا، يَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ: إِنَّکُمْ تُرَاؤُوْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 17: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 169، الرقم: 12786، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 3 / 81، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 444، والمناوي في فيض القدير، 1 / 456.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کثرت سے کرو کہ منافق تمہیں ریاکار کہیں۔ ‘‘
478 / 18. عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَکْثِرُوْا ذِکْرَ اللهِ حَتَّى يَقُوْلَ الْمُنَافِقُوْنَ: إِنَّکُمْ مُرَاؤُوْنَ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 18: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 1 / 397، الرقم: 527 والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 256، الرقم: 2305، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 76، والمناوي في فيض القدير، 2 / 85.
’’حضرت ابو جوزا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ منافق تمہیں ریاکار کہیں۔ ‘‘
479 / 19. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ: قَالَ: إِنَِّﷲِ عزوجل: مَلَائِکَةً سَيَارَةً فُضُلًا يَلْتَمِسُوْنَ مَجَالِسَ الذِّکْرِ، يَجْتَمِعُوْنَ عِنْدَ الذِّکْرِ، فَإِذَا مَرُّوْا بِمَجْلِسٍ عَلَا بَعْضُهُمْ عَلىٰ بَعْضٍ حَتَّى يَبْلُغُوا الْعَرْشَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ.
الحديث رقم 19: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب: فضل مجالس الذکر، 4 / 2069، الرقم: 2689، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 358، الرقم: 8689. 8705، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 244، الرقم: 5523.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جن کی باقاعدہ ذمہ داری یہی ہے کہ وہ صرف مجالسِ ذکر کی تلاش میں رہتے ہیں اور مجالس ذکر میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پس جب وہ کسی مجلسِ ذکر کے پاس سے گزرتے ہیں تو (اس مجلس میں اتنی کثرت سے شرکت کرتے ہیں کہ) تہہ در تہہ عرش تک پہنچ جاتے ہیں۔ ‘‘
480 / 20. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِيَاضِ الْجَنَّةِ فَارْتَعُوْا، قَالُوْا: وَمَا رِيَاضُ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: حِلَقُ الذِّکْرِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 20: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اللہ ﷺ، باب: (85)، 5 / 532، الرقم: 3510، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 150، الرقم: 2545، وأبو يعلي في المسند، 6 / 155، الرقم: 3432، والبيهقي فيشعب الإيمان، 1 / 398، الرقم: 529، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 268، الرقم: 1044، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 262، الرقم: 2329.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم جنت کی کیاریوں سے گزرو تو (ان میں سے) خوب کھایا کرو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) جنت کی کیاریاں کون سی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ذِکر الٰہی کے حلقہ جات۔ ‘‘
481 / 21. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: يَقُوْلُ اللهُ عزوجل: أَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ ذَکَرَنِي يَوْمًا أَوْ خَافَنِي فِي مَقَامٍ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ.
الحديث رقم 21: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: صفة جهنم عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء أن للنار نفسين، 4 / 712، الرقم: 2594، والحاکم في المستدرک، 1 / 141، الرقم: 234، وقال الحاکم: صَحِيْحُ الإِسْنَادِ، 5 / 244، الرقم: 8084، وابن أبي عاصم في کتاب السنة، 2 / 400، الرقم: 833، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 201.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل فرمائے گا: دوزخ میں سے ایسے شخص کو نکال دو جس نے ایک دن بھی مجھے یاد کیا یا کبھی کسی مقام پر مجھ سے ڈرا۔ ‘‘
482 / 22. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَيَبْعَثَنَّ اللهُ أَقْوَامًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي وُجُوْهِهِمُ النُّوْرُ عَلىٰ مَنَابِرِ اللُّؤْلُوءِ، يَغْبِطُهُمُ النَّاسُ لَيْسُوْا بِأَنْبِيَاءٍ وَلَا شُهَدَاءَ، قَالَ: فَجَثَّي أَعْرَابِيٌّ عَلىٰ رُکْبَتَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ حَلِّهُمْ لَنَا نَعْرِفْهُمْ. قَالَ: هُمُ الْمُتَحَابُّوْنَ فِي اللهِ مِنْ قَبَائِلَ شَتَّي وَ بِلَادٍ شَتَّي يَجْتَمِعُوْنَ عَلىٰ ذِکْرِ اللهِ يَذْکُرُوْنَهُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ کَمَا قَالَ الْمُنْذَرِيُّ.
وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ: إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
الحديث رقم 22: أخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 262، الرقم: 2362: 4 / 12، الرقم: 4583، وقال المنذري: رواه الطبراني بإسنادٍ حَسَنٍ، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 77، وَ قَالَ: رَوَاهُ الطَّبَرَانيُّ بإِسْنَادِ حَسَنٍ، والسيوطي في الدر المنثور، 10 / 368.
’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کچھ ایسے لوگوں کو اٹھائے گا جن کے چہرے پُرنور ہوں گے، وہ موتیوں کے منبروں پر (بیٹھے) ہوں گے، لوگ انہیں دیکھ کر رشک کریں گے، نہ تو وہ انبیاء ہوں گے اور نہ ہی شہداء۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی اپنے گھٹنے کے بل بیٹھ کر کہنے لگا: یا رسول اللہ! آپ ہمارے سامنے ان کا حلیہ بیان فرمائیں تاکہ ہم انہیں جان لیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو مختلف قبیلوں اور مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اکٹھے ہو کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ ‘‘
483 / 23. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ مَا غَنِيمَةُ مَجَالِسِ الذِّکْرِ؟ قَالَ: غَنِيمَةُ مَجَالِسِ الذِّکْرِ الْجَنَّةُ الْجَنَّةُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ. إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
الحديث رقم 23: أخرجه أحمد بن حنبل، 2 / 177، الرقم: 6651، 6777، والطبراني في مسند الشاميين، 2 / 273، الرقم: 1325، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 261، الرقم: 2324 والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 78، المناوي في فيض القدير، 4 / 407، والسيوطي في الدر المنثور، 1 / 366.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا: یا رسول اللہ! مجالسِ ذکر کی غنیمت (یعنی نفع) کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مجالسِ ذکر کی غنیمت جنت ہے جنت ہے۔ ‘‘
484 / 24. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه، قَالَ: إِنَّ الَّذِيْنَ لَا تَزَالُ أَلْسِنَتُهُمْ رَطَبَةً مِنْ ذِکْرِ اللهِ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَهُمْ يَضْحَکُوْنَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
الحديث رقم 24: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 111، الرقم: 34587، 35052، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 219، وابن المبارک في الزهد، 1 / 397، وابن أبي عاصم في الزهد، 1 / 136، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 639، والسيوطي في الدر المنثور، 1 / 366، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 445.
’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جن لوگوں کی زبانیں ہمیشہ ذِکرِ الٰہی سے تر رہتی ہیں وہ مسکراتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے۔ ‘‘
485 / 25. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: إِنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ لَيَرَوْنَ بُيُوْتَ أَهْلِ الذِّکْرِ تَضِيئُ لَهُمْ کَمَا تَضِيئُ الْکَوَاکِبُ لِأَهْلِ الْأَرْضِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حِبَّانَ.
الحديث رقم 25: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 170، الرقم: 30555، وابن حبان في طبقات المحدثين، 4 / 282، الرقم: 668، والسيوطي في الدر المنثور، 1 / 367.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آسمان والے اہل ذِکر کے گھروں کو ایسے روشن دیکھتے ہیں جیسے زمین والے ستاروں کو روشن دیکھتے ہیں۔ ‘‘
486 / 26. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، قَالَ: يَقُوْلُ الرَّبُّ عزوجل يَوْمَ الْقِيَامَةِ: سَيَعْلَمُ أَهْلُ الْـجَمْعِ مَنْ أَهْلُ الْكَرَمِ فَقِيْلَ: وَمَنْ أَهْلُ الْكَرَمِ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: أَهْلُ مَجَالِسِ الذِّكْرِ فِي الْـمَسَاجِدِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَصَحَّحَهُ.
الحديث رقم 26: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 68، الرقم: 11670، 11740، وابن حبان في الصحيح، 3 / 98، الرقم: 816، وأبو يعلي في المسند، 2 / 531، الرقم: 1403، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 401، الرقم: 535، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 253، الرقم: 8104، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 259، الرقم: 2318.
’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: (میدانِ حشر میں) جمع ہونے والے عنقریب جان لیں گے کہ اَہلِ کرم کون ہیں۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ 'اہلِ کرم' کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مساجد میں مجالسِ ذِکر منعقد کرنے والے۔‘‘
487 / 27. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ: مَا مِنْ قَوْمٍ اجْتَمَعُوْا يَذْکُرُوْنَ اللہَ لَا يُرِيْدُوْنَ بِذَلِکَ إِلَّا وَجْهَهُ، إِلَّا نَادَاهُمْ مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ قُوْمُوْا مَغْفُوْرًا لَکُمْ، قَدْ بُدِّلَتْ سَيِئَاتُکُمْ حَسَنَاتٍ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 27: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 142، الرقم: 12476، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 154، الرقم: 1556، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 401، الرقم: 534، 694، وأبو يعلي في المسند، 7 / 167، الرقم: 4141، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 60، الرقم: 29477، 7 / 244، الرقم: 35713، وابن أبي عاصم في کتاب الزهد، 1 / 205، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 260، الرقم: 2320، وقال: رواه أحمد ورواته محتج بهم.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب کچھ لوگ محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کی خاطر اجتماعی طور پر اس کا ذکر کرتے ہیں تو آسمان سے ایک منادی آواز دیتا ہے: کھڑے ہو جاؤ! تمہیں بخش دیا گیا ہے، تمہارے گناہ نیکیوں میں بدل دیئے گئے ہیں۔ ‘‘
488 / 28. عَنْ سُهَيْلِ بْنِ حَنْظَلَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا جَلَسَ قُوْمٌ مَجْلِسًا يَذْکُرُوْنَ اللهَ عزوجل فِيْهِ فَيَقُوْمُوْنَ حَتَّى يُقَالَ لَهُمْ: قُوْمُوْا قَدْ غَفَرَ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَبُدِّلَتْ سَيِئَاتُکُمْ حَسَنَاتٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 28: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 212، الرقم: 6039، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 454، الرقم: 695، والمنذري الترغيب والترهيب، 2 / 260، الرقم: 2321، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 76 .
’’حضرت سہیل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب لوگ مجلسِ ذکر میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر (کرنے کے بعد اس مجلس سے) اٹھتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے: کھڑے ہو جاؤ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے گناہ بخش دیئے ہیں اور تمہارے گناہ نیکیوں میں بدل دیئے گئے ہیں۔ ‘‘
489 / 29. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: مَنْ ذَکَرَ اللهَ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ مِنْ خَشْيَةٍ حَتَّى يُصِيْبَ الْأَرْضَ مِنْ دُمُوْعِهِ لَمْ يُعَذِّبْهُ اللهُ تَعَالىٰ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 29: أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 289، الرقم: 7668، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 178، الرقم: 1641، 6170، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 113، الرقم: 5023.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کے خوف سے اس کی آنکھیں اس قدر اشک بار ہوئیں کہ زمین تک اس کے آنسو پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ اُسے قیامت کے دن عذاب نہیں دے گا۔ ‘‘
490 / 30. عَنْ مُعَاذٍ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ، فَقَالَ: أَيُّ الْجِهَادِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ: أَکْثَرُهُمْ لِلّٰهِ تَبَارَکَ وَتَعَالىٰ ذِکْرًا، قَالَ: فَأَيُّ الصَّائِمِيْنَ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ: أَکْثَرُهُمْ لِلّٰهِ تَبَارَکَ وَتَعَالىٰ ذِکْرًا، ثُمَّ ذَکَرَ لَنَا الصَّلَاةَ وَالزَّکَاةَ وَالْحَجَّ وَالصَّدَقَةَ، کُلُّ ذَلِکَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: أَکْثَرُهُمْ لِلّٰهِ تَبَارَکَ وَتَعَالىٰ ذِکْرًا. فَقَالَ: أَبُوْبَکْرٍ رضي الله عنه لِعُمَرَ رضي الله عنه: يَاأَبَاحَفْصٍ ذَهَبَ الذَّاکِرُوْنَ بِکُلِّ خَيْرٍ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَجَلْ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 30: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 438، الرقم: 15699، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 186، الرقم: 407، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 257، الرقم: 2309، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 74.
’’حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے آپ ﷺ سے سوال کیا: کس جہاد کا سب سے زیادہ اجر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس بندے کا جہاد جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا ہے، اس نے سوال کیا: کس روزہ دار کا اجر سب سے زیادہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے کا، پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمارے لئے نماز، زکوٰۃ، حج اور صدقہ کا ذکر کیا اور آپ ﷺ نے فرمایا: ان سب عبادتوں میں اس کا اجر سب سے زیادہ اسے ہو گا جو اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ ذکر کرنے والا ہو گا. (یہ سن کر) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابوحفص! ذکر کرنے والے تمام بھلائی لے گئے؟ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہاں (ابوبکر تو سچ کہہ رہا ہے)۔ ‘‘
491. / 31. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَزَادَ التِّرْمِذِيُّ: وَکَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: حَدِيْثُ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 31: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الصلاة، باب: الصلاة علي النبي ﷺ بهذا التشهد، 1 / 306، الرقم: 408، والترمذي في السنن، أبواب: الوتر عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في فضل الصلاة علي النبي ﷺ، 2 / 353، 354، الرقم: 484 - 485، والنسائي في السنن، کتاب: السهو، باب: الفضل في الصلاة علي النبي ﷺ، 3 / 50، الرقم: 1296، وفي السنن الکبري، 1 / 384، الرقم: 1219، والدارمي في السنن، 2 / 408، الرقم: 2772، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 375، الرقم: 8869 - 10292، وابن حبان في الصحيح، 3 / 187، الرقم: 906، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم: 8702، والطبراني في المعجم الصغير، 2 / 126، الرقم: 899، وأبويعلي بإسناده في المسند، 11 / 380، الرقم: 6495، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 211، الرقم: 1559، وأبو عوانة في المسند، 1 / 546، الرقم: 2040.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (رحمت) بھیجتا ہے۔ اور امام ترمذی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا: اور اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس نیکیاں بھی اس (درود پڑھنے) کے بدلے میں لکھ دیتا ہے۔ ‘‘
492. / 32. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ، وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيْئَاتٍ، وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 32: أخرجه النسائي في السنن، کتاب: السهو، باب: الفضل في الصلاة علي النبي ﷺ، 4 / 50، الرقم: 1297، وفي السنن الکبري، 1 / 385، الرقم: 1220 / 10194، وفي عمل اليوم والليلة، 1 / 296، الرقم: 362، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 224، الرقم: 643، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، والرقم: 8703، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 102، الرقم: 12017، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 210، الرقم: 1554، والحاکم في المستدرک، 1 / 735، الرقم: 2018.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کیے جاتے ہیں اور اس کے لئے دس درجات بلند کیے جاتے ہیں۔ ‘‘
493 / 33. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: أَوْلَي النَّاسِ بِي يَومَ الْقِيَامَةِ أَکْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ .
الحديث رقم 33: أخرجه الترمذي في السنن أبواب: الوتر عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في فضل الصلاة علي النبي ﷺ، 2 / 354، الرقم: 484، وابن حبان في الصحيح، 3 / 192، الرقم: 911، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 249، الرقم: 5791، وفي شعب الإيمان، 2 / 212، الرقم: 1563، وأبويعلي في المسند، 8 / 427، الرقم: 5011، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 81، الرقم: 250، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 327، الرقم: 2575.
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہو گا جو (اس دنیا میں) ان میں سے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجتا ہے۔ ‘‘
494 / 34. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ ِﷲِ مَلَائِکَةً سَيَاحِيْنَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُوْنِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ والدَّارِمِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 34: أخرجه النسائي في السنن کتاب: السهو، باب: السلام علي النبي ﷺ، 3 / 43، الرقم: 1282، وفي السنن الکبري، 1 / 380، الرقم: 1205، 6 / 22، الرقم: 9894، وفي عمل الليوم والليلة، 1 / 67، الرقم: 66، والدارمي في السنن، 2 / 409، الرقم: 2774، وابن حبان في الصحيح، 3 / 195، الرقم: 914، والحاکم في المستدرک، 2 / 456، الرقم: 3576، والبزار في المسند، 5 / 307، الرقم: 4210، 4320، وأبويعلي في المسند، 9 / 137، الرقم: 5213، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 219، الرقم: 10528. 10530، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 217، الرقم: 1582، وابن شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم: 8705، 31721، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 215، الرقم: 3116، والشاشي في المسند، 2 / 252، ، الرقم: 825. 826، وابن حيان في العظمة، 3 / 990، الرقم: 513، وابن المبارک في الزهد، 1 / 364، الرقم: 1028، والديلمي عن أبي هريرة رضي الله عنه في مسند الفردوس، 1 / 183، الرقم: 686، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم: 2570.
’’حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں بعض گشت کرنے والے فرشتے ہیں جو مجھے میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں۔ ‘‘
495 / 35. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَا مِنْ أَحَدٍ يُسلِّمُ عَلَيَّ إِلاَّ رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوْحِي حَتيَ أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ.
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 35: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: المناسک، باب: زيارة القبور، 2 / 218، الرقم: 2041، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 527، الرقم: 10867، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 262، الرقم: 3092، 9329، والبيهقي في السنن الکبري، 5 / 245، الرقم: 10050، وفي شعب الإيمان، 2 / 217، الرقم: 5181. 4161، وابن راهويه في المسند، 1 / 453، الرقم: 526، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم: 2573، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 162.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (میری امت میں سے کوئی شخص) ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری روح واپس لوٹا دی ہوئی ہے یہاں تک کہ میں ہر سلام کرنے والے کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ ‘‘
496 / 36. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍِّ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: حَيْثُمَا کُنْتُمْ فَصَلُّوْا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تَبْلُُغُنِي.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ وَاللَّفْظُ لَهُ.
الحديث رقم 36: أخرجه أحمد بن حنبل عن أبي هريرة رضي الله عنه في المسند، 2 / 367، الرقم: 8790، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 82، الرقم: 2729، وفي المعجم الأوسط، 1 / 17، الرقم: 365، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 15، الرقم: 7307 والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم: 2571.
’’حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجا کرو، بیشک تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔ ‘‘
497 / 37. عَنْ أَبِي طَلْحَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ جَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ وَالْبِشْرُ يُرَي فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ: إِنَّهُ جَاءَنِي جِبْرِيْلُ عليه السلام، فَقَالَ: إِنَّ ربَّکَ يَقُوْلُ: أَمَا يُرْضِيْکَ يَا مُحَمَّدُ، أَنْ لَا يُصَلِّيَ عَلَيْکَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِکَ إِلَّا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا، وَلَا يُسَلِّمُ عَلَيْکَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِکَ إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.
الحديث رقم 37: أخرجه النسائي في السنن کتاب: السهو، باب: الفضل في الصلاة علي النبي ﷺ 3 / 50، الرقم 1295، والدارمي في السنن 2 / 408، الرقم: 2773، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 30، وابن المبارک في کتاب الزهد، 1 / 364، الرقم: 1067، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 100، الرقم: 4720، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 252، الرقم: 8695.
’’حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک مرتبہ تشریف لائے۔ آپ ﷺ کے چہرۂ اقدس پر خوشی ظاہر ہو رہی تھی.آپ ﷺ نے فرمایا: ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا: آپ کا رب فرماتا ہے: اے محمد! کیا آپ اس بات پر راضی نہیں کہ آپ کی امت میں سے جو شخص ایک مرتبہ آپ پر درود بھیجے، میں اس پر دس رحمتیں بھیجوں؟ اور آپ کی امت میں سے کوئی آپ پر ایک مرتبہ سلام بھیجے تو میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں۔ ‘‘
498 / 38. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه، قَالَ: إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوْفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، لَا يَصْعَدُُ مِنْهُ شَيئٌ حَتَّى تُصَلِّيَ عَلىٰ نَبِيِکَ ﷺ .
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
الحديث رقم 38: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الصلاة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في فضل الصلاة علي النبي ﷺ، 2 / 356 الرقم 486، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 330، الرقم: 2590.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ یقیناً دعا اس وقت تک زمین اور آسمان کے درمیان ٹھہری رہتی ہے اور اس میں سے کوئی بھی چیز اوپر نہیں جاتی جب تک تم اپنے نبی مکرم ﷺ پر درود نہ پڑھ لو۔ ‘‘
499 / 39. عَنْ عَلِيٍ رضي الله عنه قَالَ: کُلُّ دُعَاءٍ مَحْجُوْبٌ حَتَّى يُصَلَّى عَلىٰ مُحَمَّدٍ ﷺ، وَآلِ مُحَمَّدٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِدٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
الحديث رقم 39: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 220، الرقم: 721، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 216، الرقم: 1575، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 330، الرقم: 2589 وقال رواته ثقات، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 255، الرقم: 4754، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 160.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر دعا اس وقت تک پردہ حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور نبی اکرم ﷺ پراور آپ ﷺ کے اہلِ بیت پر درود نہ بھیجا جائے۔ ‘‘
500 / 40. عَنْ عَبْدِ اللهِ بنِ عَمْروٍ رضي الله عنهما، قَالَ: مَنْ صَلَّى عَلىٰ النَّبِيِّ ﷺ وَاحِدَةً، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَمَلَائِکَتُهُ سَبْعِيْنَ صَلَاةً. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
الحديث رقم40: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 172، 187، الرقم: 6605. 6754، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 325، الرقم: 2566 وقال: إِسْنَادُهُ حَسَنٌ، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 160، وقال: رواه أحمد وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جو حضور نبی اکرم ﷺ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر ستر مرتبہ (بصورتِ رحمت) درود بھیجتے ہیں۔ ‘‘
501 / 41. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي مَجْلِسٍ فَتَفَرَّقُوْا مِنْ غَيْرِ ذِکْرِ اللهِ وَالصَّلَاةِ عَلىٰ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا کَانَ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 41: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2 / 351، الرقم: 590، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 446، الرقم: 9763، وابن المبارک في الزهد، 1 / 342، الرقم: 962، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 79 وقال الهيثمي: رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو لوگ کسی مجلس میں اکٹھے ہوئے اور پھر (اس مجلس میں) اللہ تعالیٰ کا ذکر اور حضور نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھے بغیر وہ منتشر ہو گے تو وہ مجلس ان کے لئے قیامت کے روز باعث حسرت (و باعثِ خسارہ) بننے کے سوا اور کچھ نہیں ہو گی۔ ‘‘
502 / 42. عَنْ أَبِي هُرِيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَا قَعَدَ قَوْمٌ مَقْعَدًا لَا يَذْکُرُوْنَ اللهَ فِيْهِ وَيُصَلُّوْنَ عَلىٰ النَّبِيِّ ﷺ، إِلَّا کَانَ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ إِنْ أُدْخِلُوا الْجَنَّةَ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 42: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2 / 352، الرقم: 591، وابن أبي عاصم في کتاب الزهد، 1 / 27، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 263، الرقم: 2331، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 577، الرقم: 2322، وفي مجمع الزوائد، 10 / 79.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی قوم کسی بیٹھنے کی جگہ (یعنی مجلس میں) بیٹھے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کرے اور حضور نبی اکرم ﷺ پر درود نہ بھیجے تو وہ مجلس روزِ قیامت ان کے لئے حسرت (و خسارہ) کا باعث ہونے کے سوا کچھ نہیں ہوگی اگرچہ وہ لوگ جنت میں بھی داخل ہو جائیں (لیکن انہیں ہمیشہ اس بات کا پچھتاوا رہے گا)۔ ‘‘
503 / 43. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ عَشْرًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ مِائَةً وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ مِائَةً کَتَبَ اللهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ بَرَاءَةً مِنَ النِّفَاقِ وَبَرَاءَةً مِنَ النَّارِ وَأَسْکَنَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الشُّهَدَاءِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
الحديث رقم 43: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 188، الرقم: 7235، وفي المعجم الصغير، 2 / 126، الرقم: 899، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 323، الرقم: 2560، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 163.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتوں کا نزول فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر دس مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر سو رحمتیں نازل فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر سو مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (یعنی پیشانی پر) منافقت اور آگ (دونوں) سے ہمیشہ کے لئے آزادی لکھ دیتا ہے اور روزِ قیامت اس کا قیام (اور درجہ) شہداء کے ساتھ ہو گا۔ ‘‘
504 / 44. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: صَلُّوْا عَلَيَّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ عَلَيَّ زَکَاةٌ لَکُمْ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْيَعْلَي بِإِسْنَادِهِ.
الحديث رقم 44: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم: 8704، وأبو يعلي في المسند، 11 / 298، الرقم: 6414، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي)، 2 / 962، الرقم: 1062، وهناد في الزهد، 1 / 117، الرقم: 147.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھ پر درود پڑھا کرو بلاشبہ (تمہارا) مجھ پر درود پڑھنا تمہارے لئے (روحانی و جسمانی) پاکیزگی کا باعث ہے۔ ‘‘
505 / 45. عَنْ أَبِيالدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ صَلَّى عَلَيَّ حِيْنَ يُصْبِحُ عَشْرًا وَحِيْنَ يُمْسِي عَشْرًا أَدْرَکَتْهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِدٍ کَمَا قَالَ الْمُنْذَرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ.
الحديث رقم 45: أخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 261، الرقم: 987، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 120، وَقَالَ المُنذرِيُّ وَالْهَيْثَميُّ: رواه الطبراني بإسنادين أحدهما جيد ورجاله وثقوا.
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص صبح کے وقت اور شام کے وقت مجھ پر دس دفعہ درود بھیجے گا اسے قیامت کے روز میری شفاعت نصیب ہو گی۔ ‘‘
506 / 46. عَنْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: لَا حَسَدَ إِلاَّ عَلىٰ اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ الْکِتَابَ وَقَامَ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ، وَرَجُلٌ أَعْطَاهُ اللهُ مَالًا فَهُوَ يَتَصَدَّقُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 46: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل القرآن، باب: اغْتِبَاطِ صَاحِبِ القرآنِ، 4 / 1919، الرقم: 4737، وفي کتاب: التمني، باب: تَمَنِّي القُرآنِ وَالعِلْمِ، 6 / 2643، الرقم: 6805، ومسلم في الصحيح، کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: فضل من يقوم بالقرآن ويعلمه، وفضل من تعلم حکمة من فقه أوغيره فعمل بها وعلمها، 1 / 558. 559، الرقم: 815، والترمذي في السنن، کتاب: البر والصلة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في الحسد، 4 / 330، الرقم: 1936، وَقَالَ أَبُوعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: الحسد، 2 / 408، الرقم: 4209، وابن حبان في الصحيح، في الصحيح، 1 / 332، الرقم: 125، 126، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 27، الرقم: 8072، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 8، الرقم: 4550، 4924، 5618، 6403، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 375، الرقم: 2271.2688، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 153، الرقم: 30281. 30282، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 188، الرقم: 7615. 7616، وأبويعلي في المسند، 9 / 291، الرقم: 5417.
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حسد (یعنی رشک) صرف دو آدمیوں سے کرنا چاہئے: ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک عطا کیا ہوا اور وہ رات کو نماز میں اس کی تلاوت کرے، دوسرا وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہو وہ اسے رات کی گھڑیوں اور دن کے مختلف حصوں میں (راہِ الٰہی میں) خرچ کرتا رہے۔ ‘‘
507 / 47. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُوْلُ: إِنَّ فِي اللَّيْلِ لَسَاعَةً، لَا يُوَافِقُهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللهَ خَيْرًا مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَاهُ، وَذَلِکَ کُلَّ لَيْلَةٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 47: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: : صلاة المسافرين وقصرها، باب: في الليل ساعة مستجاب فيها الدعاء، 1 / 521، الرقم: 757، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 331، الرقم: 14584، وأبويعلي في المسند، 4 / 189، الرقم: 2281، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 241، الرقم: 971.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: رات کو ایک ایسی ساعت بھی آتی ہے جس میں کوئی مسلمان اللہ عزوجل سے دنیا و آخرت کی کوئی بھی چیز مانگے، اللہ تعالیٰ اسے وہی عنایت فرما دیتا ہے اور یہ ساعت ہر رات آتی ہے۔ ‘‘
508 / 48. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: عَلَيْکُمْ بِقِيَامِ الَّليْلِ، فَإِنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحِيْنَ قَبْلَکُمْ، وَهُوَ قُرْبَةٌ لَکُمْ إِلَي رَبِّکُمْ، وَمَکْفَرَةٌ لِلسَّيِئَاتِ، وَمَنْهَاةٌ عَنِ الإِثْمِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ أَصَحُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌّ.
الحديث رقم 48: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اللہ ﷺ، باب: في دعاء النبي ﷺ، 5 / 552، الرقم: 3549، والحاکم في المستدرک، 1 / 451، الرقم: 1156، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 502، الرقم: 4423، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 92، الرقم: 7766.
’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: رات کا قیام اپنے اوپر لازم کر لو کہ وہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے لیے قرب خداوندی کا باعث ہے، برائیوں کو مٹانے والا اور گناہوں سے روکنے والا ہے۔ ‘‘
509 / 49. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ وأَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنهما قَالَا: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنَ اللَّيْلِ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ فَصَلَّيَا رَکْعَتَيْنِ جَمِيْعًا کُتِبَا مِنَ الذَّاکِرِيْنَ اللهَ کَثِيْرًا وَالذَّاکِرَاتِ.
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 49: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: التطوع، باب: الحث علي قيام الليل، 2 / 70، الرقم: 1451، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء فيمن أيقظ أهله من الليل، 1 / 423، الرقم: 1335، والنسائي في السنن الکبري، 1 / 413، الرقم: 1310، 11406، والحاکم في المستدرک، 1 / 461، الرقم: 1189، 3561، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 48، الرقم: 4738، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 501، الرقم: 4420، وفي السنن الصغري، 1 / 473، الرقم: 869، وفي شعب الإيمان، 3 / 126، الرقم: 3083، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 242، الرقم: 922.
’’حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص خود رات کو بیدار ہو اور اپنی اہلیہ کو (بھی) بیدار کرے، دونوں دو رکعت نماز مل کر ادا کریں تو ان کا شمار اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مردوں اور (کثرت سے) ذکر کرنے والی عورتوں میں ہو گا۔ ‘‘
510 / 50. عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ رضي الله عنه أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُوْلُ: أَقْرَبُ مَايَکُوْنُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ الآخِرِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَکُوْنَ مِمَّنْ يَذکُرُاللهَ فِي تِلْکَ السَّاعَةِ فَکُنْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 50: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اللہ ﷺ، باب: (119)، 5 / 569، الرقم: 3579، والنسائي في السنن، کتاب: المواقيت، باب: النهي عن الصلاة بعد العصر، 1 / 279، الرقم: 572، وفي کتاب: التطبيق، باب: أقرب مايکون العبد من اللہ عزوجل، 2 / 226، الرقم: 1137، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 182، الرقم: 1147، والحاکم في المستدرک، 1 / 453، الرقم: 1162، وَقَالَ الحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والبهيقي في السنن الکبري، 3 / 4، الرقم: 4439، والطبراني في مسند الشامين، 1 / 349، الرقم: 605، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 245، الرقم: 933.
’’حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے: اللہ عزوجل اپنے بندے کے سب سے زیادہ نزدیک رات کے آخری حصے میں ہوتا ہے۔ اگر تم اس وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں میں شامل ہو سکتے ہو تو ضرور ہو جاؤ۔ ‘‘
511 / 51. عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيْدَ رضي الله عنها عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ: يُحْشَرُ النَّاسُ فِي صَعِيْدٍ وَاحِدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُنَادِي مُنَادٍ فَيَقُوْلُ: أَيْنَ الَّذِيْنَ کَانَتْ تَتَجَافَي جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ؟ فَيَقُوْمُوْنَ وَهُمْ قَلَيْلٌ فَيَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ ثُمَّ يُوْمَرُ بِسَائِرِ النَّاسِ إِلَي الْحِسَابِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 51: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 169، الرقم: 3244، 693، 3246، ونحوه الحاکم في المستدرک، 2 / 433، الرقم: 3508، وابن المبارک في کتاب الزهد، 1 / 101، الرقم: 353، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 14 / 102، والطبري في جامع البيان، 30 / 186، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 461.
’’حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لوگ قیامت کے دن ایک میدان میں اکٹھے کئے جائیں گے اور ایک منادی اعلان کرے گا، جن لوگوں کے پہلو (اپنے رب کی یاد میں) بستروں سے جدا رہتے تھے، وہ کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے، ان کی تعداد بہت کم ہو گی اور وہ جنت میں بغیر حساب و کتاب کے داخل ہوجائیں گے پھر باقی (بچ جانے والے) لوگوں کے حساب وکتاب کا حکم جاری کردیا جائے گا۔ ‘‘
512 / 52. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَشْرَافُ أُمَّتِي حَمَلَةُ الْقُرْآنِ وَأَصْحَابُ اللَّيْلِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 52: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 556، الرقم: 2703، والإسماعيلي في معجم الشيوخ، 1 / 319، الرقم: 6، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 125، الرقم: 12662، (إِلاَّ وَأَصْحَابُ اللَّيْلِ) والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 243، الرقم: 930، وقال المنذري: رواه ابن أبي الدنيا في کتاب التهجد، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 161.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قرآن کے عالم و عامل اور شب زندہ دار (لوگ) میری امت کے اشراف (سردار) ہیں۔ ‘‘
513 / 53. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه قَالَ: مَکْتُوْبٌ فِي التَّوْرَاةِ لَقَدْ أَعَدَّ اللهُ لِلَّذِيْنَ تَتَجَافَي جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ مَا لَمْ تَرَ عَيْنٌ، وَلَمْ تَسْمَعْ أُذُنٌ وَ لَمْ يَخْطُرْ عَلىٰ قَلْبِ بَشَرٍ، وَلَا يَعْلَمُهُ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ، وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ قَالَ: وَنَحْنُ نَقْرَؤُهَا: (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا يَعْمَلُوْنَo) ( السجدة، 32: 17). رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 53: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 448، الرقم: 3550، وأبن أبي شيبة في المصنف، 7 / 34، 108، الرقم: 34003، 34568، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 246، الرقم: 938.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تو رات میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تہجد گزاروں کے لئے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھی نہیں، کسی کان نے سنی نہیں، کسی انسان کے دل میں ان کا خیال (تک) نہیں آیا، نہ ہی انہیں کوئی مقرب فرشتہ جانتا ہے اور نہ ہی کوئی نبی مرسل۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم بھی قرآن پاک میں اس (مفہوم) کے ہم معنی آیت تلاوت کرتے ہیں: ’’سو کسی کو معلوم نہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے، یہ ان (اعمالِ صالحہ) کا بدلہ ہو گا جو وہ کرتے رہے تھے۔ ‘‘
514 / 54. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالىٰ کُلَّ لَيْلَةٍ إِلَي السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِيْنَ يَبْقَي ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ فَيَقُوْلُ: مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيْبَ لَهُ، وَمَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، وَمَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 54: أخرجه البخاري في الصحيح، أبواب: التهجد، باب: الدُّعاءِ وَ الصَّلَاةِ مِن آخِرِ اللَّيْلِ، 1 / 384، الرقم: 1094، وفي کتاب: الدعوات، باب: الدُّعاءُ نصفَ اللَّيْلِ، 5 / 2330، الرقم: 5962، وفي کتاب: التوحيد، باب: قول اللہ تعالي: يريدونَ أَن يُبَدِّلُوْا کَلَامَ اللهِ (الفتح: [15، 6 / 2723، الرقم: 7056، ومسلم في الصحيح، کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: الترغيب في الدعاء والذکر في آخر الليل والإجابة فيه، 1 / 521، الرقم: 705، والترمذي في السنن، کتاب: الصلاة عن رسول اللہ ﷺ باب: ما جاء في نُزُولِِ الرَّبِّ عزوجل إلَي السَّماءِ الدُّنْيا کُلَّ لَيْلَة، 2 / 307، الرقم: 446، وقال أَبُوْعِيْسَى: وهَذَا أَصحُّ الرِّوَايَاتِ. وفي کتاب: الدعوات عن رسول اللہ ﷺ، باب: (79)، 5 / 526، الرقم: 3498، وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، والنسائي في السنن الکبري، 4 / 420، الرقم: 7768، 10313، 10314، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ما جاء في أي ساعات اللّيل أفضل، 1 / 435، الرقم: 1366، ومالک في الموطأ، 1 / 214، الرقم: 498.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو آسمان دنیا پر نزولِ اجلال فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے: ہے کوئی جو مجھ سے دعا کرے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں، ہے کوئی جو مجھ سے سوال کرے کہ میں اسے عطا کروں، ہے کوئی جو مجھ سے معافی چاہے کہ اسے بخش دوں۔ ‘‘
515 / 55. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلَامٍ رضي الله عنه قَالَ: وَکَانَ أَوَّلُ مَا سَمِعْتُ مِنْ کَلَامِهِ ﷺ أَنْ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ وَأَطْعِمُوْا الطَّعَامَ وَصِلُوا الْأَرْحَامَ وَصَلُّوْا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
وَقَالَا أَبُوْعِيْسَى وَالْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 55: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اللہ ﷺ، باب: (42)، 4 / 652، الرقم: 2485، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ما جاء في قيام الليل، 1 / 423، الرقم: 1334، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 451، الرقم: 23835.
’’حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا سب سے پہلا کلام جو میں نے سنا یہ تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! سلام پھیلاؤ (یعنی کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کیا کرو) کھانا کھلایا کرو، خونی رشتوں کے ساتھ بھلائی کیا کرو اور راتوں کو (اٹھ کر) نماز پڑھا کرو، جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ ‘‘
516 / 56. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: فَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُولُ لِحَسَّانَ: إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ لَا يَزَالُ يُؤَيِدُکَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللهِ وَرَسُوْلِهِ، وَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، يَقُوْلُ: هَجَاهُمْ حَسَّانُ فَشَفَي وَاشْتَفَي. قَالَ حَسَّانُ:
هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ
وَعِنْدَ اللهِ فِي ذَاکَ الْجَزَاءُ
هَجَوْتَ مُحمَّدً بَرًّا حَنِيْفًا
رَسُوْلَ اللهِ شِيْمَتُهُ الْوَفَاءُ
فَإِنَّ أَبِي وَ وَالِدَة وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ وَاللَّفْظُ لَهُ.
الحديث رقم 56: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: من أحب أن لا يسب نسبه، 3 / 1299، الرقم: 3338، وفي کتاب: المغازي، باب: حديث الإفک، 4 / 1523، الرقم: 3914، وفي کتاب: الأدب، باب: هجاء المشرکين، 5 / 2278، الرقم: 5798، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت رضي الله عنه، 4 / 1934 - 1935، الرقم: 2489 - 2490، وابن حبان في الصحيح، 13 / 103، الرقم: 5787، وأبويعلي في المسند، 7 / 341، الرقم: 4377، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 273، الرقم: 26021، والحاکم في المستدرک، 3 / 555، الرقم: 6063، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 238، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 38، الرقم: 3582، والبغوي في شرح السنة، 12 / 377، الرقم: 3408.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: (اے حسان) جب تک تم اللہ عزوجل اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ان کا دفاع کرتے رہو گے روح القدس (جبرائیل علیہ السلام) تمہاری تائید کرتے رہیں گے، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ حسان نے کفارِ قریش کی ہجو کرکے مسلمانوں کو شفا دی (یعنی ان کا دل ٹھنڈا کر دیا) اور اپنے آپ کو شفا دی (یعنی اپنا دل ٹھنڈا کیا) حضرت حسان نے (کفار کی ہجو میں) کہا:
’’تم نے محمد ﷺ کی ہجو کی، تو میں نے آپ ﷺ کی طرف سے جواب دیا ہے اور اس کی اصل جزا اللہ عزوجل ہی کے پاس ہے۔‘‘
’’تم نے محمد ﷺ کی ہجو کی، جو نیک اور ادیانِ باطلہ سے اعراض کرنے والے ہیں، وہ اللہ عزوجل کے (سچے) رسول ہیں اور ان کی خصلت وفا کرنا ہے۔‘‘
’’بلا شبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی ﷺ کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘
517 / 57. عَنْ عُرْوَةَ رضي الله عنه قَالَ: کَانَتْ عَائِشَةُ رضي الله عنها تَکْرَهُ أَنْ يُّسَبَّ عِنْدَهَا حَسَّانُ وَتَقُوْلُ: فَإِنَّهُ قَالَ:
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَة وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 57: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: حديث الإفک، 4 / 1518، الرقم: 3910، ومسلم في الصحيح، کتاب: التوبة، باب: في حديث الإفک وقبول توبة القاذف، 4 / 2137، الرقم: 2770، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 296، الرقم: 8931، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 197، وأبويعلي في المسند، 8 / 341، الرقم: 4933، والحاکم في المستدرک، 3 / 555، الرقم: 6060.
’’حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس بات کو (سخت) ناپسند فرماتی تھیں کہ ان کے سامنے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جائے (حضرت حسان بھی ان پر تہمت لگانے والوں میں شامل تھے) فرماتی تھیں (انہیں برا بھلا مت کہو) انہوں نے (حضور نبی اکرم ﷺ کی شان میں) یہ نعت پڑھی ہے:
’’بلاشبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی ﷺ کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘
518 / 58. عَنْ هِشَامٍ رضي الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: ذَهَبْتُ أَسُبُّ حَسَّانَ عِنْدَ عَائِشَةَ رضي الله عنها، فَقَالَتْ: لَا تَسُبَّهُ فَإِنَّهُ کَانَ يُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم 58: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب، حديث الإفک، 4 / 1523، الرقم: 3914، وفي کتاب: الأدب، باب: هجاء المشرکين، 5 / 2278، الرقم: 5798، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت رضي الله عنه، 4 / 1933، الرقم: 2487، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 299، الرقم: 863، والحاکم في المستدرک، 3 / 555، الرقم: 6063، وقال: هذا حديث صحيح، والطبراني في المعجم الکبير، 23 / 107، الرقم: 149.
’’حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے اپنے والد (حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما) سے راویت کیا کہ انہوں نے فرمایا: میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگا (کیونکہ وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں میں شامل تھے) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: انہیں برا بھلا نہ کہو وہ (اپنی شاعری کے ذریعے) رسول اللہ ﷺ کا کفار کے مقابلہ میں دفاع کیا کرتے تھے۔‘‘
519 / 59. عَنِ الْبَرَاءِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِحَسَّانَ: اهْجُهُمْ أَوْهَاجِهِمْ وَجِبْرِيْلُ مَعَکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية البخاري: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: يَوْمَ قُرَيْظَةَ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضي الله عنه: اهْجُ الْمُشْرِکِيْنَ فَإِنَّ جِبْرِيْلَ مَعَکَ.
الحديث رقم 59: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: بدء الخلق، باب: ذکر الملائکة، 3 / 1176، الرقم: 3041، وفي کتاب: المغازي، باب: مرجع النبي ﷺ من الأحزاب ومخرجه إلي بني قريظة، 4 / 1512، الرقم: 3897، وفي کتاب: الأدب، باب: هجاء المشرکين، 5 / 2279، الرقم: 5801، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة رضي الله عنهم، باب: فضائل حسان بن ثابت رضي الله عنه، 4 / 1933، الرقم: 2486، والنسائي في السنن الکبري، 3 / 493، الرقم: 6024، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 302، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 237، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 298، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 90، الرقم: 119 وفي المعجم الأوسط، 2 / 49، الرقم: 1209، 3 / 268، الرقم: 3108، وفي المعجم الکبير، 4 / 41، الرقم: 3588. 3589، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 214.
’’حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: مشرکین کی ہجو کرو (یعنی ان کی مذمت میں اشعار پڑھو) اور حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی (اس کام میں) تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘
بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے قریظہ کے روز حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’ مشرکین کی ہجو (یعنی مذمت) کرو یقینا جبرائیل علیہ السلام بھی (میری ناموس کے دفاع میں) تمہارے ساتھ شریک ہیں۔‘‘
520 / 60. عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ: دَخَلْنَا عَلىٰ عَائِشَةَ رضي الله عنها وَعِنْدَهَا حَسَّانُ ابْنُ ثَابِتٍ رضي الله عنه يُنْشِدُهَا شِعْرًا يُشَبِّبُ بِأَبْيَاتٍ لَهُ وَقَالَ:
حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيْبَةٍ
وَتُصْبِحُ غَرْثَي مِنْ لُحُوْمِ الْغَوَافِلِ
فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ رضي الله عنها: لَکِنَّکَ لَسْتَ کَذَلِکَ قَالَ مَسْرُوْقٌ: فَقُلْتُ لَهَا: لِمَ تَأْذَنِيْنَ لَهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْکِ وَقَدْ قَالَ اللهُ تَعَالَي: (وَالَّذِي تَوَلَّي کِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيْمٌo) (النور، 24: 11) فَقَالَتْ: وَأَيُّ عَذَابٍ أَشَدُّ مِنَ الْعَمَي قَالَتْ لَهُ: إِنَّهُ کَانَ يُنَافِحُ أَوْ يُهَاجِي عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم60: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: حديث الإفک، 4 / 1523، الرقم: 3915، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت رضي الله عنه، 4 / 1934، الرقم: 2488، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 238، والطبراني في المعجم الکبير، 23 / 135، الرقم: 175.
’’حضرت مسروق بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، درآحالیکہ ان کے پاس حضرت حسان رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے انہیں اپنے اشعار سنا رہے تھے، حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’وہ پاکیزہ اور دانشمند ہیں ان پر کشی کے عیب جوئی کی تہمت نہیں ہے وہ صبح غافلوں کے گوشت سے بھوکی اٹھتی ہیں (یعنی کسی کی غیبت نہیں کرتیں)۔‘‘ حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا نے ان سے (ازراہ تفننًا) فرمایا: لیکن تم اس طرح نہیں تھے، مسروق نے کہا: آپ انہیں اپنے پاس آنے کی کیوں اجازت دیتی ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اور ان میں سے جس نے اس (بہتان) میں سب سے زیادہ حصہ لیا اس کے لئے زبردست عذاب ہے۔‘‘ حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا نے فرمایا: اندھے ہونے سے زیادہ اور کون سا بڑا عذاب ہو گا؟ حضرت حسان رضی اللہ عنہ تو حضور نبی اکرم ﷺ کے دفاع میں کفار کو جواب دیتے تھے، یا ان (کفار) کی ہجو و مذمت کرتے تھے۔‘‘
521 / 61. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ يَقُوْمُ عَلَيْهِ قَائِمًا يُفَاخِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَوْ قَالَ: يُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ. وَ يَقُوْلُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ يُؤَيِدُ حَسَّانَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ مَا يُفَاخِرُ أَوْ يُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 61: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الأدب عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في إنشاد الشعر، 5 / 138، الرقم: 2846، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 72، الرقم: 24481، والحاکم في المستدرک، 3 / 554 - 555، الرقم: 6058 - 6059، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 298، وأبو يعلي في المسند، 8 / 189، الرقم: 4746، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 37، الرقم: 3580، والخطيب البغدادي في موضح أوهام الجمع والتفريق، 2 / 423، الرقم: 427، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 123.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ مسجد نبوی میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے منبر رکھتے تھے جس پر وہ کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف سے (مشرکین کے مقابلہ میں) فخر یا دفاع کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ فرماتے: بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا رہے گا۔ جب تک وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے فخر یا دفاع کرتا رہے گا۔‘‘
522 / 62. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ فَيَقُومُ عَلَيْهِ يَهْجُوْ مَنْ قَالَ فِي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ مَعَ حَسَّانَ مَا نَافَحَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ.
الحديث رقم 62: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ماجاء في الشعر، 4 / 304، الرقم: 5015، والعسقلاني في فتح الباري، 1 / 548، الرقم: 442، والشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 169.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لئے مسجد میں منبر رکھوایا کرتے تھے اور وہ اس پر کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم ﷺ کی گستاخی کرنے والوں کی ہجو (یعنی مذمت) کیا کرتے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک جب تک حسان رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دفاع کرتا رہے گا روح القدس (حضرت جبرائیل علیہ السلام) بھی حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے ساتھ (ان کے مددگار) ہوں گے۔‘‘
523 / 63. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَنَي لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ يُنْشِدُ عَلَيْهِ الشِّعْرَ.
وفي رواية: يَهْجُوْ عَلَيْهِ الْمُشْرِکِيْنَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اهْجُهُمْ أَوْ هَاجِهِمْ وَجِبْرِيْلُ مَعَکَ.
رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَابْنُ شَاهِيْنَ وَابْنُ عَدِيٍّ وَوَافَقَهُ ابْنُ تَيْمِيَةَ وَالذَّهَبِيُّ.
الحديث رقم 63: أخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 298، وابن شاهين في ناسخ الحديث ومنسوخه، 1 / 484، الرقم: 648، وابن عدي في الکامل، 4 / 274، الرقم: 1106، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 214، والذهبي في ميزان الاعتدال، 4 / 300، الرقم: 4913.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے مسجد میں منبر بنوا رکھا تھا۔ وہ اس پر (حضور نبی اکرم ﷺ کی شان میں) نعت پڑھتے۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ اس پر کھڑے ہو کر (حضور نبی اکرم ﷺ کے دفاع میں) مشرکین کی ہجو کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مشرکین کی ہجو کرو اور حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی تمہارے ساتھ (اس کام میں مدد گار) ہیں۔‘‘
524 / 64. عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيْعٍ رضي الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَارَسُوْلَ اللهِ إِنِّي قَدْ مَدَحْتُ بِمَدْحَةٍ وَمَدْحَتُکَ بِأُخْرَي فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: هَاتِ وَابْدَأْ بِمَدْحَةِ اللهِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.
الحديث رقم 64: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 24، الرقم: 15711، والطبراني في العجم الکبير، 1 / 287، الرقم: 843، والبيهقي في شعب الإيمان، 4 / 89، الرقم: 4365، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 126، الرقم: 342، والحسيني فيالبيان والتعريف، 2 / 252، الرقم: 1636، وقال: أخرجه البغوي، وابن عدي في الکامل، 5 / 200.
’’حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ بے شک میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی ہے اور آپ ﷺ کی نعت بیان کی ہے۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا لاؤ (مجھے بھی سناؤ) اور ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد سے کرو۔‘‘
525 / 65. عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيْعٍ رضي الله عنه قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ: يَارَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي قَدْ حَمِدْتُ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالىٰ بِمَحَامِدَ وَمِدَحٍ، وَإِيَاکَ، قَالَ: هَاتِ مَاحَمِدْتَ بِهِ رَبَّکَ عزوجل قَالَ: فَجَعَلْتُ أُنْشِدُهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْنُعَيْمٍ.
وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
الحديث رقم 65: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 435، الرقم: 15033، 15038، وفي فضائل الصحابة، 1 / 260. 261، الرقم: 334. 335، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 125، الرقم: 342، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 287الرقم: 844، وأبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 46، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 118، 9 / 66، 10 / 95، وقال: رجال أحمد رجال الصحيح، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 154، الرقم: 411، وقال: أخرجه الإمام أحمد والبخاري في الأدب والنسائي والحاکم أحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح، والمناوي في فيض القدير، 2 / 162، وقال: أحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح.
’’حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسول اللہ! میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور آپ کی مدحت و نعت بیان کی ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: لاؤ مجھے بھی سناؤ (اور ابتداء) اللہ تعالیٰ کی حمد سے کرو جو تم نے بیان کی ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ میں نے (حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے) پڑھنا شروع کر دیا۔‘‘
526 / 66. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ مَکَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ رضي الله عنه بَيْنَ يَدَيْهِ يَمْشِي وَهُوَ يَقُوْلُ:
خَلُّوا بَنِي الْکُفَّارِ عَنْ سَبِيْلِهِ
الْيَومَ نَضْرِبْکُمْ عَلىٰ تَنْزِيْلِهِ
ضَرْبًا يَزِيْلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيْلِهِ
وَيُذْهِلُ الْخَلِيْلَ عَنْ خَلِيْلِهِ
فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا ابْنَ رَوَاحَةَ، بَيْنَ يَدَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَفِي حَرَمِ اللهِ تَقُوْلُ الشِّعْرَ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ: خَلِّ عَنْهُ يَا عُمَرُ، فَلَهِيَ أَسْرَعُ فِيْهِمْ مِنْ نَضْحِ النَّبْلِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالْبَغَوِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 66: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الأدب عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في إنشاد الشعر، 5 / 139، الرقم: 2847، والنسائي في السنن، کتاب: مناسک الحج، باب: إنشاد الشعر في الحرم والمشي بين يدي الإمام، 5 / 202، الرقم: 2873، وفي السنن، الکبري، 2 / 383، الرقم: 3856، والبغوي في شرح السنة، 12 / 374.375، الرقم: 3404 - 3405، وقال: إسناده صحيح، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 502، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1 / 235، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 151، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1 / 297.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عمرہ قضاء کے موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ میں اس شان سے داخل ہوئے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے آگے آگے چل رہے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے:
’’کافروں کے بیٹو! حضور نبی اکرم ﷺ کے راستہ سے ہٹ جاؤ۔ آج ان کے آنے پر ہم تمہاری گردنیں ماریں گے۔ ایسی ضرب جو کھوپڑیوں کو گردن سے جدا کردے اور دوست کو دوست سے الگ کردے۔‘‘
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے عبداللہ بن رواحہ! رسول اللہ ﷺ کے سامنے اور اللہ تعالیٰ کے حرم میں شعر کہتے ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عمر! اسے چھوڑ دو! یہ اشعار اِن (دشمنوں) کے حق میں تیروں سے تیز تر اثر کرتے ہیں۔‘‘
527 / 67. عَنْ مُوْسَي بْنِ عُقْبَةَ رضي الله عنه قَالَ: أَنْشَدَ النَّبِيَّ ﷺ کَعْبُ بْنُ زُهَيْرِ بَانَتْ سُعَادُ فِي مَسْجِدِهِ بِالْمَدِيْنَةِ فَلَمَّا بَلَغَ قَوْلَهُ:
إِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ يُسْتَضَاءُ بِهِ
وَ صَارِمٌ مِنْ سُيُوْفِ اللهِ مَسْلُوْلُ
أَشَارَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِکُمْهٍ إِلَي الْخَلْقِ لَيَسْمَعُوْا مِنْهُ . . . الحديث.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
وفي رواية: عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ رضي الله عنه قَالَ: لَمَّا انْتَهَي خَبْرُ قَتْلِ ابْنِ خَطْلٍ إِلَي کَعْبِ بْنِ زُهَيْرٍ بْنِ أَبِي سَلْمَي وَکَانَ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَوْعَدَهَ بِمَا أَوْعَدَهَ ابْنَ خَطْلٍ فَقِيْلَ لِکَعْبٍ إِنْ لَمْ تُدْرِکْ نَفْسَکَ قُتِلْتَ، فَقَدِمَ الْمَدِيْنَةَ فَسَأَلَ عَنْ أَرَقِّ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَدُلَّ عَلىٰ أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنه وَأَخْبَرَهُ خَبْرَهُ فَمَشَي أَبُوْبَکْرٍ وَکَعْبٌ عَلىٰ إِثْرِهِ حَتَّى صَارَ بَيْنَ يَدَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ يَعْنِي أَبَابَکْرٍ: الرَّجُلُ يُبَايِعُکَ فَمَدَّ النَّبِيُّ ﷺ يَدَهَ فَمَدَّ کَعْبٌ يَدَهُ فَبَايَعَهُ وَسَفَرَ عَنْ وَجْهِهِ فَأَنْشَدَهُ:
نَبِئْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ أَوْعَدَنِي
وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ مَأْمُوْلُ
إِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ يُسْتَضَاءُ بِهِ
مُهَنَّدٌ مِنْ سُيُوْفِ اللهِ مَسْلُوْلُ
فَکَسَاهُ النَّبِيُّ ﷺ بُرْدَةً لَهُ فَاشْتَرَاهَا مُعَاوِيَةُ رضي الله عنه مِنْ وَلَدِهِ بِمَالٍ فَهِيَ الَّتِي تَلْبَسُهَا الْخُلَفَاءُ فِي الْأَعْيَادِ.
رَوَاهُ ابْنُ قَانِعٍ وَالْعَسْقَ.لَانِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ فِي الْبَدَايَةِ، وَقَالَ: قُلْتُ: وَرَدَ فِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَعْطَا بُرْدَتَهُ حِيْنَ أَنْشَدَهُ الْقَصِيْدَةَ . . . وَهَکَذَا الْحَافِظُ أَبُوْالْحَسَنِ ابْنُ الْأثِيْرِ فِي الْغَابَةِ قَالَ هِيَ الْبُرْدَةُ الَّتِي عِنْدَ الْخُلَفَاءِ، قُلْتُ: وَهَذَا مِنَ الْأُمُوْرِ الْمَشْهُوْرَةِ جِدًا.
الحديث رقم 67: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 670. 673، الرقم: 6477. 6479، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 243، الرقم: 77، والطبراني في المعجم الکبير، 19 / 177 - 178، الرقم: 403، وابن قانع في معجم الصحابة، 2 / 381، والعسقلاني في الإصابة، 5 / 594، وابن هشام في السيرة النبوية، 5 / 191، والکلاعي في الاکتفاء، 2 / 268، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 4 / 373.
’’حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کعب بن زہیر نے اپنے مشہور قصیدے ’’بانت سعاد‘‘ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی مسجد نبوی میں مدح کی اور جب اپنے اس قول پر پہنچا:
’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم ﷺ وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ ﷺ (کفر و ظلمت کے علمبرداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیزدھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے دستِ اقدس سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ وہ انہیں (یعنی کعب بن زہیر) کو (غور سے) سنیں۔‘‘
اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جب کعب بن زہیر کے پاس (گستاخِ رسول) ابن خطل کے قتل کی خبر پہنچی اور اسے یہ خبر بھی پہنچ چکی تھی کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے بھی وہی دھمکی دی ہے جو آپ ﷺ نے ابن خطل کو دی تھی تو کعب سے کہا گیا کہ اگر تو بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی ہجو سے باز نہیں آئے گا تو قتل کر دیا جائے گا تو اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کے سب سے زیادہ نرم دل صحابی کے بارے میں معلومات کیں تو اسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا گیا تو وہ ان کے پاس گیا اور انہیں اپنی ساری بات بتا دی پس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور کعب بن زہیر چپکے سے چلے (تاکہ کوئی صحابی راستے میں ہی اسے پہچان کر قتل نہ کر دے) یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پہنچ گئے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) یہ ایک آدمی ہے جو آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے سو حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا دستِ اقدس آگے بڑھایا تو کعب بن زہیر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر آپ ﷺ کی بیعت کر لی پھر اپنے چہرے سے نقاب ہٹا لیا اور اپنا وہ قصیدہ پڑھا جس میں ہے:
’’مجھے خبر دی گئی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے دھمکی دی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے ہاں عفو و درگزر کی (زیادہ) امید کی جاتی ہے۔‘‘
اور اسی قصیدہ میں ہے:
’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم ﷺ وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ ﷺ (کفر و ظلمت کے علمبرداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیزدھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘
پس حضور نبی اکرم ﷺ نے (خوش ہو کر) اسے اپنی چادر پہنائی جس کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی اولاد سے مال کے بدلہ میں خرید لیا اور یہی وہ چادر ہے جسے (بعد میں) خلفاء عیدوں (اور اہم تہواروں کے موقع) پر پہنا کرتے تھے۔
اس حدیث کو امام ابن قانع اور امام عسقلانی نے روایت کیا ہے اور امام ابن کثیر نے ’’البدایہ‘‘ میں روایت کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی چادر مبارک ان کو اس وقت عطا فرمائی جب انہوں نے اپنے قصیدے کے ذریعے آپ ﷺ کی مدح فرمائی۔ ۔ ۔ اور اسی طرح حافظ ابوالحسن ابن الاثیر نے ’’اسد الغابہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ یہ وہی چادر ہے جو خلفاء کے پاس رہی اور یہ بہت ہی مشہور واقعہ ہے۔‘‘
528 / 68. عَنْ خُرَيْمِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي أُرِيْدُ أَنْ أَمْدَحَکَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: هَاتِ لَا يَفْضُضُ اللهُ فَاکَ فَأَنْشَأَ الْعَبَّاسُ رضي الله عنه يَقُوْلُ:
وَأَنْتَ لَمَّا وُلِدْتَ أَشْرَقَتِ
الْأَرْضُ وَضَائَتْ بِنُورِکَ الْأُفُقُ
فَنَحْنُ فِي الضِّيَاءِ وَفِي
النُّوْرِ وَسُبُلُ الرَّشَادِ نَخْتَرِقُ
رَوَاهُ الطَّبَرَانِي وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْنُعَيْمٍ.
الحديث رقم 68: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 4 / 213، الرقم: 4167، والحاکم في المستدرک، 3 / 369، الرقم: 5417، وأبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 364، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 217، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 102، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 53، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 447، الرقم: 664، والعسقلاني في الإصابة، 2 / 274، الرقم: 2247، والخطابي في إصلاح غلط المحدثين، 1 / 101، الرقم: 57، وابن قدامة في المغني، 10 / 176، والسيوطي في الخصائص الکبري، 1 / 66، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 2 / 258، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 146، والحلبي في السيرة، 1 / 92.
’’حضرت خریم بن اوس بن حارثہ بن لام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے خدمتِ اقدس میں موجود تھے تو حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما نے آپ ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کی مدح و نعت پڑھنا چاہتا ہوں تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لاؤ مجھے سناؤ اللہ تعالیٰ تمہارے دانت صحیح و سالم رکھے (یعنی تم اسی طرح کا عمدہ کلام پڑھتے رہو) تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ پڑھنا شروع کیا:
’’اور آپ وہ ذات ہیں کہ جب آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تو (آپ کے نور سے) ساری زمین چمک اٹھی اور آپ کے نور سے اُفقِ عالم روشن ہو گیا پس ہم ہیں اور ہدایت کے راستے ہیں اور ہم آپ کی عطا کردہ روشنی اور آپ ہی کے نور میں ان (ہدایت کی راہوں) پر گامزن ہیں۔‘‘
529 / 69. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ النَّابِغَةَ الْجَعْدِيَّ (وَإِسْمُهُ قَيْسُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنه لَهُ صُحْبَةٌ) يَقُوْلُ: أَتَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَأَنْشَدْتُهُ قَوْلِي. . . فَلَمَّا أَنْشَدْتُهُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا يَفْضُضُ اللهُ فَاکَ. قَالَ: وَکَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ ثَغْرًا. وَکَانَ إِذَا سَقَطَتْ لَهُ سِنٌّ نَبَتَتْ أُخْرَي.
وفي رواية: عَبْدِ اللهِ بْنِ جَرَّادٍ لِهَذَا لْخَبْرِ، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ کَأَنَّ فَاهُ الْبَرْدُ الْمَنْهَلُ يَتَلَأْ لَأُ وَيُبْرِقُ، مَا سَقَطَتْ لَهُ سِنٌّ وَلَا تَفَلَّتَتْ لِقَوْلِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ: أَجَدْتَ لَا يَفْضُضُ اللهُ فَاکَ. قَالَ: وَعَاشَ النَّابِغَةُ بِدَعْوَةِ النَّبِيِّ ﷺ حَتَّى أَتَتْ عَلَيْهِ مِائَةٌ وَاثْنَتَا عَشَرَةَ سَنَةً.
رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْعَسْقَلَانِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ وَقَالَ: رَوَاهُ الْبَزَّارُ.
وَقَالَ السُّيُوْطِيُّ فِي الْخَصَائِصِ: أَخْرَجَ الْبَيْهَقِيُّ وَأَبُوْنُعَيْمٍ مِنْ طَرِيْقِ يَعْلَي بْنِ الْأَشْدَقِ قَالَ: سَمِعْتُ النَّابِغَةَ رضي الله عنه نَابِغَةَ بَنِي جَعْدَةَ رضي الله عنه يَقُوْلُ: أَنْشَدْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ هَذَا الشِّعْرَ فَأَعْجَبَهُ، فَقَالَ: أَجَدْتَ لَا يَفْضُضُ اللهُ فَاکَ. فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ وَلَقَدْ أَتَي عَلَيْهِ نَيِفٌ وَمِائَةٌ سَنَةٍ وَمَا ذَهَبَ لَهُ سِنٌّ ثُمَّ أَخْرَجَهُ الْبَيْهَقِيُّ مِنْ وَجْه آخَرَ عَنِ النَّابِغَةِ وَأَخْرَجَهُ ابْنُ أَبِي أُسَامَةَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْهُ وَفِيْهِ: فَکَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ ثَغْرًا فَکَانَ إِذَا سَقَطَتْ لَهُ سِنٌّ نَبَتَتْ لَهُ أُخْرَي وَأَخْرَجَهُ ابْنُ السُّکْنِ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْهُ، وَفِيْهِ: فَرَأَيْتُ أَسْنَانَ النَّابِغَةِ أَبْيَضُ مِنَ الْبَرْدِ لِدَعْوَةِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ.
الحديث رقم 69: أخرجه ابن عبد البر في الاستعياب، 4 / 1514 - 1517، 1743، الرقم: 2648، 3154، والعسقلاني في الإصابة، 5 / 588، الرقم: 7407، 6 / 394، وقال: أخرجه البزار وأبونعيم في تاريخ أصبهان، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 126، وقال: رواه البزار، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي)، 2 / 844، الرقم: 894، وابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 1 / 274، 276، والسيوطي في الخصائص الکبري، 2 / 282، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 6 / 168، وفي ريح النسرين فيمن عاش من الصحابة، 1 / 77، والقنوجي في أبجد العلوم، 1 / 329، وقال: أخرجه السيوطي والبيهقي.
’’حضرت حسین بن عبید اللہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے اس نے بتایا جس نے حضرت نابغہ جعدی رضی اللہ عنہ (اور ان کا پورا نام قیس بن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ہے اور انہیں صحبتِ رسول اللہ ﷺ کا شرف حاصل ہے) سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کو اپنا کلام سنایا پس جب میں نے آپ ﷺ کی مدح کی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دانت سلامت رکھے (اور تم اسی طرح کا عمدہ کلام پڑھتے رہو) اور (اس دعا کے نتیجہ میں) وہ تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت دانتوں والے تھے اور جب ان کا کوئی دانت گرتا تو اس جگہ دوسرا دانت نکل آتا تھا۔‘‘
اور یہی حدیث عبد اللہ بن جراد سے بھی مروی ہے اس میں ہے کہ میں نے آپ (نابغہ جعدی رضی اللہ عنہ) کی طرف دیکھا گویا ان کا منہ (پہاڑوں پر) گری ہوئی برف کی طرف روشن اور چمکدار تھا۔ ان کا کوئی دانت گرا نہ خراب ہوا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کی بدولت کہ ’’تم نے کیا خوب میری مدح کی ہے اللہ تعالیٰ تمہارے دانت سلامت رکھے۔‘‘ آپ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی دعا کی بدولت حضرت نابغہ رضی اللہ عنہ نے طویل زندگی پائی یہاں تک کہ آپ 112 سال زندہ رہے۔‘‘
امام سیوطی ’’الخصائص‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام بیہقی اور ابونعیم نے یعلی بن اشدق کے طریق سے یہ حدیث روایت کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نابغہ جو کہ نابغہ بنی جعدہ ہیں کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ فرماتے ہیں: میں نے اس شعر کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کی مدح سرائی کی تو آپ ﷺ کو یہ بہت پسند آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: تو نے کیا خوب کہا ہے! اللہ تعالیٰ تمہارے دانت سلامت رکھے۔ پس میں نے انہیں دیکھا کہ ان کی عمر سو اور کچھ سال اوپر ہو گئی تھی لیکن ان کا کوئی دانت نہیں گرا تھا۔ اور امام بیہقی نے یہ حدیث ایک اور طریق سے حضرت نابغہ سے روایت کی ہے اور ابن ابی اسامہ نے بھی ان ہی سے ایک اور طریق سے اس کی روایت کی ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں: ’’حضرت نابغہ رضی اللہ عنہ تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت دانتوں والے تھے اور جب ان کا کوئی دانت گرتا تو اس کی جگہ دوسرا دانت نکل آتا‘‘ اور امام ابن سُکن نے آپ ہی سے ایک اور طریق سے اس کو روایت کیا ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں: ’’میں نے حضرت نابغہ رضی اللہ عنہ کے دندان سفید اولوں سے بڑھ کر سفید دیکھے اور یہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ان کے لئے دعا کا نتیجہ تھا۔‘‘
530 / 70. عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ: إِنَّ اللهَ عزوجل قَدْ أَنْزَلَ فِي الشِّعْرِ مَا أَنْزَلَ فَقَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ يُجَاهِدُ بِسَيْفِهِ وَلِسَانِهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَکَأَنَّ مَا تَرْمُوْنَهُمْ بِهِ نَضْحُ النَّبْلِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَالْبَغَوِيُّ.
الحديث رقم 70: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 387، الرقم: 27218، 3 / 456، وابن حبان في الصحيح، 13 / 102، الرقم: 5786، 11 / 5، الرقم: 4707، والبخاري في التاريخ الکبير، 5 / 304، والطبراني في المعجم الکبير، 19 / 75، الرقم: 151 - 153، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 239، والبغوي في شرح السنة، 12 / 378، الرقم: 3409، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1325، والمزي في تهذيب الکمال، 24 / 195، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 216، الرقم: 566.
’’حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے شعر کے بارے میں نازل کیا جو نازل کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک مومن اپنی تلوار اور زبان دونوں کے ساتھ جہاد کرتا ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! گویا جو الفاظ تم ان (کفار و مشرکین) کی مذمت میں کہتے ہو وہ (ان کے لئے) بمنزلہ تیر برسانے کے ہیں۔‘‘
531 / 71. رَوَي أَبُوْحَنِيْفَةَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيْهِ رضي الله عنهم عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: نَهَيْنَاکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ وَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِي زِيَارِةِ قَبْرِ أُمِّهِ فَزُوْرُوْهَا وَلَا تَقُوْلُوْا هِجْرًا.
رَوَاهُ أَبُوْحَنِيْفَةَ.
الحديث رقم71: أخرجه الخوارزمي في جامع المسانيد للإمام أبي حنيفة، 2 / 199، وأبو يوسف في کتاب الآثار، 1 / 225، الرقم: 996، والنسائي في السنن، کتاب: الجنائز، باب: زيارة القبور، 4 / 89، الرقم: 2033، ومالک في الموطأ، 2 / 485، الرقم: 1031، والشافعي في المسند، 1 / 361، والحاکم في المستدرک، 1 / 532، الرقم: 1393.
’’امام اعظم ابوحنیفہ علقمہ بن مرثد سے وہ سلیمان بن بریدہ سے اور وہ اپنے والد حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے اور وہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ہم نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا، محمد مصطفی (ﷺ) کو اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کرنے کا اذن دے دیا گیا ہے، سو (اب) تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو اور بے ہودہ باتیں مت کیا کرو۔‘‘
532 / 72. عَنْ بُرَيْدَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُوْرُوْهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَزَادَ: فَأِنَّهَا تُذَکِّرُکُمُ الْآخِرَةَ.
الحديث رقم 72: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الجنائز، باب: استئذان النبي ﷺ ربه عزوجل في زيارة قبر أمه، 2 / 672، الرقم: 977، وفي کتاب: الأضاحي، باب: بيان ماکان من النهي عن أکل لحوم الأضاحي بعد ثلاث في أول الإسلام وبيان نسخه وإباحة إلي متي شاء، 3 / 1563، الرقم: 1977، والترمذي في السنن، کتاب: الجنائزعن رسول اللہ، باب: ماجاء في الرخصة في زيارة القبور، 4، 3 / 370، الرقم: 1054 وزاد: (فَإِنَّهَا تُذَکِّرُکُمُ الْآخِرَةَ). وأبو داود في السنن، کتاب: الجنائز، باب: في زيارة القبور، 3 / 218، الرقم: 3235، والنسائي في السنن، کتاب: الجنائز، باب: زيارة القبور، 4 / 89، الرقم: 2032.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا کرتا تھا، پس اب تم زیارتِ (قبور) کیا کرو۔‘‘
اسے امام مسلم نے روایت کیا اور امام ترمذی نے ان الفاظ کا اضافہ بیان کیا کہ ’’یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔‘‘
533 / 73. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّهَا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ (کُلَّمَا کَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ) يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَي الْبَقِيْعِ، فَيَقُوْلُ: السَّلَامُ عَلَيْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ، وَأَتَاکُمْ مَا تُوْعَدُوْنَ، غَدًا مُؤَجَّلُوْنَ، وَإنَّا، إِنْ شَاءَ اللهُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ. اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيْعِ الْغَرْقَدِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.
الحديث رقم 73: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الجنائز، باب: ما يقال عند دخول القبور والدعاء لأهلها، 2 / 669، الرقم: 974، والنسائي في السنن، کتاب: الجنائز، باب: الأمر بالاستغفار للمؤمنين، 4 / 93، الرقم: 2039، وأبويعلي في المسند، 8 / 199، الرقم: 4758، وابن حبان في الصحيح، 7 / 444، الرقم: 3172.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ (کی جب میرے یہاں باری ہوتی تو آپ ﷺ) رات کے آخری پہر بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے اور (اہلِ قبرستان سے) فرماتے: تم پر سلامتی ہو، اے مومنوں کے گھر والو! جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ تمہارے پاس آ گئی کہ جسے کل ایک مدت بعد پاؤ گے اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ! بقیع غرقد (اہلِ مدینہ کے قبرستان) والوں کی مغفرت فرما۔‘‘
534 / 74. عَنْ بُرَيْدَةَ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يُعَلِّمُهُمْ إِذَا خَرَجُوْا إِلَي الْمَقَابِرِ فَکَانَ قَائِلُهُمْ يَقُوْلُ . . . وفي رواية زُهَيْرٍ: السَّلَامُ عَلَيْکُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ. وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ، لَلاَحِقُوْنَ. أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِيَةَ. رواهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 74: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الجنائز، باب: ما يقال عند دخول القبور والدعاء لأهلها، 2 / 671، الرقم: 975، وأحمد بن حنبل في المسند المسند، 5 / 353، الرقم: 23035، والروياني في المسند، 1 / 67، الرقم: 15، وابن حبان في الصحيح، 7 / 445، الرقم: 3173، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 79، الرقم: 7005.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ انہیں سکھایا کرتے تھے کہ جب وہ قبور کی زیارت کے لئے جائیں تو ان میں سے کہنے والا کہے: ۔ ۔ ۔ اور حضرت زہیر کی روایت میں ہے اے مومنوں اور مسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی ضرور بالضرور تم سے ملنے والے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے عافیت کے طلب گار ہیں۔‘‘
535 / 75. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها، في رواية طويلة قَالَتْ: قُلْتُ: کَيْفَ أَقُوْلُ لَهُمْ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ (تَعْنِي فِي زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ) قَالَ: قُوْلِي: السَّلَامُ عَلىٰ أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ، وَيَرْحَمُ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِيْنَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.
الحديث رقم 75: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الجنائز، باب: ما يقال عند دخول القبر والدعاء لأهلها، 2 / 669، الرقم: 974، والنسائي في السنن، کتاب: الجنائز، باب: الأمر بالاستغفار للمؤمنين، 4 / 91، الرقم: 2037، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 221، الرقم: 25897، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 576، الرقم: 6722.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ایک طویل روایت میں بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں زیارتِ قبور کے وقت اہلِ قبور سے کس طرح مخاطب ہوا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یوں کہا کرو: اے مومنو اور مسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو، اللہ تعالیٰ ہمارے اگلے اور پچھلے لوگوں پر رحم فرمائے اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تمہیں ملنے والے ہیں۔‘‘
536 / 76. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: مَرَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِقُبُوْرِ الْمَدِيْنَةِ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمْ بوَجْهِهِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْکُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُوْرِ يَغْفِرُ اللهُ لَنَا وَلَکُمْ، أَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْأَثَرِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَفِي الْبَابِ: عَنْ بُرَيْدَةَ، وَعَائِشَةَ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 76: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الجنائز عن رسول اللہ ﷺ، باب: ما يقول الرجل إذا دخل المقابر، 2 / 357، الرقم: 1053.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ کے قبرستان سے گزرے تو اہلِ قبور کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’اے اہلِ قبور! تم پر سلامتی ہو اللہ تعالیٰ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے تم ہم سے پہلے پہنچے ہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔‘‘
537 / 77. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَزُوْرُوْهَا، فَإِنَّهَا تُزَهِدُ فِي الدُّنْيَا، وَتُذَکِّرُ الآخِرَةَ. رَوَاهُ ابنُ مَاجَه.
الحديث رقم 77: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الجنائز، باب: ماجاء في زيارة القبور، 1 / 501، الرقم: 1571.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا کرتا تھا اب زیارتِ (قبور) کیا کرو کیونکہ یہ دنیا میں زاہد بناتی ہے (یعنی دنیاوی لذتوں سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے) اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘
538 / 78. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما وَإِنْ کَانَ عَلَيْهِ نَذْرٌ قَضَي عَنْهُ وَلِيُّهُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ.
الحديث رقم 78: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الصوم، باب: من مات وعليه صوم، 2 / 690، الرقم: 1851، ومسلم في الصحيح، کتاب: الصيام، باب: قضاء الصيام عن الميت، 2 / 803، الرقم: 1147، وأبو داود في السنن، کتاب: الصيام، باب: فيمن مات وعليه صيام، 2 / 315، الرقم: 2400، 2401، وفي کتاب: الأيمان والنذور، باب: ما جاء فيمن مات وعليه صيام صام عنه وليه، 3 / 237، الرقم: 3311، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 175، الرقم: 2919، وابن حبان في الصحيح، 8 / 334، الرقم: 3569، وأبو يعلي في المسند، 7 / 390، الرقم: 4417: 8 / 200، الرقم: 4761، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 253، الرقم: 4121، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 255، 256، الرقم: 8010: 6 / 279، الرقم: 12424، والدار قطني في السنن، 2 / 194، الرقم: 79. 80، وقال الدار قطني: إسْنَادُهُ صَحِيْحٌ، وابن الجارود في المنتقي، 1 / 237، الرقم: 943، وابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 113، الرقم: 12598.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے (باقی) ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے وہ روزے رکھے۔‘‘
’’اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ فرمایا: اگر اس (فوت ہونے والے) پر کسی نذر کا پورا کرنا باقی ہو (جو اس نے مانی تھی) تو وہ اس کی طرف سے اس کا ولی پوری کرے۔‘‘
539 / 79. عَنْ عَائَشِةَ رضي الله عنها أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ: إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ فِي بَابِ: وُصُوْلِ ثَوَابِ الصَّدَقَاتِ إِلَي الْمَيِتِ.
الحديث رقم 79: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجنائز، باب: موتِ الفَجْأَةِ البَغْتَةِ، 1 / 467، الرقم: 1322، وفي کتاب: الوصايا، باب: ما يستحب لمن يتوفي فجأة أن يتصدقوا عنه وقضاء النذور عن الميت، 3 / 1015، الرقم: 2609، ومسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: وصول ثواب الصدقة عن الميت إليه، 2 / 696، الرقم: 1004، وفي کتاب: الوصية، باب: وصول ثواب الصدقات إلي الميت، 3 / 1254، الرقم: 1004، وأبوداود في السنن، کتاب: الوصايا، باب: ما جاء فيمن مات وصية يتصدق عنه، 3 / 118، الرقم: 2881، والنسائي في السنن، کتاب: الوصايا، باب: إذا مات الفجأة هل يستحب لأهله أن يتصدقوا عنه، 6 / 250، الرقم: 3649، وفي السنن الکبري، 4 / 109، الرقم: 6476، وابن ماجه في السنن، کتاب، الوصايا، باب: من مات ولم يوصي هل يتصدق عنه، 2 / 906، الرقم: 2717، ومالک في الموطأ، کتاب: الأقضية باب: صدقة الحي عن الميت، 2 / 760، الرقم: 1451، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 124، الرقم: 2499، وابن حبان في الصحيح، 8 / 140، الرقم: 3353، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 51، الرقم: 24296، وأبو يعلي في المسند، 7 / 410، الرقم: 4434، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 62، الرقم: 6895، 12409، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 218، الرقم: 703.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقت نزع) گفتگو کرسکتی تو صدقہ (کی ادائیگی کا حکم) کرتی۔ اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے ثواب پہنچے گا آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔‘‘
اسے بخاری اور مسلم ہے روایت کیا ہے اور امام مسلم نے ’’صدقات کے ثواب کا فوت شدگان تک پہنچنے‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ باب قائم کیا ہے۔
540 / 80. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ، جَاءَتْ إِلَي النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ، فَلَمْ تَحُجَّ حَتَّى مَاتَتْ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا، أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلىٰ أُمِّکِ دَيْنٌ أَکُنْتِ قَاضِيَةَ؟ اقْضُو اللهَ، فَاللهُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
الحديث رقم 80: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإحصار وجزاء الصيد، باب: الحج والنذور عن الميت، وَ الرَّجُلُ يَحُجُّ عَنِ المَرْأَةِ، 2 / 656، الرقم: 1754، وفي کتاب: الأيمان والنذور، باب: من مات وعليه نَذْرٌ، 6 / 2464، الرقم: 6321، وفي کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: مَن شَبَّهَ أَصْلًا مَعْلُوْمًا بِأَصْلِ مُبَيَنٍ وَقد بَيَنَ النَّبِيُّ ﷺ حُکْمُهُمَا لِيُفْهِمَ السَّائِلَ، 6 / 2668، الرقم: 6885، والنسائي في السنن، کتاب: مناسک الحج، باب: الحج عن الميت الذي نذر أن يحج، 5 / 116، الرقم: 2632، وفي السنن الکبري، 2 / 322، الرقم: 3612، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 346، الرقم: 3041، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 50، الرقم: 12443 - 12444، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 335، الرقم: 8455: 5 / 179، الرقم: 9634، 12382، 12407، وابن الجارود في المنتقي، 1 / 133، الرقم: 501، 944، وابن جعد في المسند، 1 / 258، الرقم: 1710.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (قبیلہ) جُہَینہ کی ایک عورت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا: میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک کہ فوت ہوگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں تم اس کی طرف سے حج کرو۔ بھلا بتاؤ تو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا نہ کرتیں؟ پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو کیونکہ وہ زیادہ حق دار ہے کہ اُس کا قرض ادا کیا جائے۔‘‘
541 / 81. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ: إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَکَ مَالًا وَلَمْ يُوْصِ. فَهَلْ يُکَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 81: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الوصية، باب: وصول ثواب الصدقات إلي الميت، 3 / 1254، الرقم: 1630، والنسائي في السنن، کتاب: الوصايا، باب: فضل الصدقة عن الميت، 6 / 251، الرقم: 3652، وابن ماجه في السنن، کتاب: الوصايا، باب: من مات ولم يوصي هل يتصدق عنه، 2 / 206، الرقم: 2716، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 371، الرقم: 8828، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 123، الرقم: 2498، والبيهقي في السنن الکبري، 6 / 278، الرقم: 12414، وأبو يعلي في المسند، 11 / 379، الرقم: 6494، وأبو عوانة في المسند، 3 / 493، الرقم: 5816.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا والد فوت ہو گیا ہے اور اس نے مال چھوڑا ہے اور اس نے وصیت بھی نہیں کی اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ (صدقہ) اس کے گناہوں کا کفّارہ ہو جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔‘‘
542 / 82. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ فَقَالَ: أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ، أَکُنْتِ تَقْضِيْنَهُ؟ قَالَتْ: نَعَمْ. قَالَ: فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ بِالقَضَاءِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
وفي رواية: فَقَالَتْ: إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 82: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الصيام، باب: قضاء الصيام عن الميت، 2 / 804، الرقم: 1148، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 173.174، الرقم: 2912 - 2915، وابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: من مات وعليه صيام من نذر، 1 / 559، الرقم: 1758، وابن حبان في الصحيح، 8 / 299، 335، الرقم: 3530، 3570، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 255، الرقم: 8012، وابن الجارود في المنتقي، 1 / 237، الرقم: 942.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا: میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس پر ایک ماہ کے روزے واجب ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ بتاؤ اگر اس پرکچھ قرض ہوتا تو کیا تم اس کی طرف سے وہ قرض ادا کرتیں؟ اس عورت نے عرض کیا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پس اللہ تعالیٰ زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض (پہلے) ادا کیا جائے۔‘‘
’’اور ایک روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں کہ اس نے عرض کیا: میری بہن فوت ہو گئی ہے اور اس پر دو ماہ کے مسلسل روزے واجب ہیں۔ (تو آپ ﷺ نے اسے اس کی طرف سے ادائیگی کا حکم دیا)۔‘‘
543 / 83. عَنْ بُرَيْدَةَ رضي الله عنه قَالَ: بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، إِذَا أَتَتْهُ امْرَأَةٌ. فَقَالَتْ: إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلىٰ أُمِّي بِجَارِيَةٍ وَإِنَّهَا مَاتَتْ. قَالَ: فَقَالَ: وَجَبَ أَجْرُکِ. وَرَدَّهَا عَلَيْکِ الْمِيْرَاثُ. قَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! إِنَّهُ کَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ. أَفَأَصُوْمُ عَنْهَا؟ قَالَ: صُوْمِي عَنْهَا. قَالَتْ: إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ. أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: حُجِّي عَنْهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 83: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الصيام، باب: قضاء الصيام عن الميت، 2 / 805، الرقم: 1149، والترمذي في السنن، کتاب: الزکاة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في المُتَصَدِّقِ يَرِثُ صَدَقَتَهُ، 3 / 54، الرقم: 667، والنسائي في السنن الکبري، 4 / 66.67، الرقم: 6314 - 6316، وابن ماجه في السنن، کتاب: الصدقات، باب: من تصدق بصدقه ثم ورثها، 2 / 800، الرقم: 2394، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 256، الرقم: 8019، وابن أبي شيبة في المصنف، 4 / 356، الرقم: 121، وعبد الرزاق في المصنف، 9 / 120، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 349، 351، 359، 361، الرقم: 23006، 23021 - 23082، 23104.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی اور عرض کیا: میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور اب میری ماں فوت ہو گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں ثواب مل گیا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں لوٹا دی۔ اس عورت نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے (بھی باقی) تھے کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، اس کی طرف سے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا: میری ماں نے حج بھی کبھی نہیں کیا تھا کیا میں اس کی طرف سے حج بھی ادا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو (اسے ان سب اعمال کا ثواب پہنچے گا)۔‘‘
544 / 84. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ أَفَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ لِي مَخْرَفًا فَأُشْهِدُکَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَبِهِ: يَقُوْلُ أَهْلُ الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ: لَيْسَ شَيئٌ يَصِلُ إِلَي الْمَيِتِ إِلَّا الصَّدَقَةُ وَ الدُّعَاءُ.
الحديث رقم 84: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الزکاة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 56، الرقم: 669، وأبو داود في السنن، کتاب: الوصايا، باب: ما جاء فيمن مات وصية يتصدق عنه، 3 / 118، الرقم: 2882، والنسائي في السنن، کتاب: الوصايا، باب؛ فضل الصدقة عن الميت، 6 / 252، الرقم: 3655، وفي السنن الکبري، 4 / 110، الرقم: 6482، والحاکم في المستدرک، 1 / 581، الرقم: 1531، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 125، الرقم: 2502، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 370، الرقم: 3504.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہو چکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اس نے عرض کیا: میرے پاس ایک باغ ہے آپ گواہ رہیں میں نے یہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا۔‘‘
’’امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور علماء کا یہی قول ہے وہ فرماتے ہیں: میت کو صرف صدقہ اور دعا پہنچتی ہے۔‘‘
545 / 85. عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رضي الله عنه أَنَّ أُمَّهُ مَاتَتْ، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: سَقْيُ الْمَاءِ. فَتِلْکَ سِقَايَةُ سَعْدٍ أَوْ آلِ سَعْدٍ بِالْمَدِيْنَةِ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 85: أخرجه النسائي في السنن، کتاب: الوصايا، باب: ذکر اختلاف علي سفيان، 6 / 254. 255، الرقم: 3662 - 3666، وفي السنن الکبري، 4 / 112، الرقم: 6491، وابن ماجه في السنن، کتاب: الأدب، باب: فضل صدقة الماء، 2 / 1214، الرقم: 3684، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 284، الرقم: 22512، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 20، الرقم: 5379، والبيقهي في شعب الإيمان، 3 / 221، الرقم: 3379، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 42، الرقم: 1423 - 1424.
’’حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان کی والدہ فوت ہو گئی۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے، کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! انہوں نے عرض کیا: تو کونسا صدقہ بہتر رہے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پانی پلانا۔ (تو انہوں نے ایک کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا) پس یہ کنواں مدینہ منورہ میں سعد یا آل سعد کی پانی کی سبیل (کے نام سے مشہور تھا)۔‘‘
546 / 86. عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الْمَاءُ، قَالَ: فَحَفَرَ بِئْرًا وَقَالَ: هَذِهِ لِأُمِّ سَعْدٍ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ.
الحديث رقم 86: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: الزکاة، باب: في فضل سقي الماء، 2 / 130، الرقم: 1681، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 41، الرقم: 1424، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 120، الرقم: 307، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 1 / 362، الرقم: 12 19.
’’حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! امّ سعد (یعنی ان کی والدہ ماجدہ) کا انتقال ہو گیا ہے۔ سو (ان کی طرف سے) کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پانی (پلانا) تو انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا: یہ امّ سعد کا کنواں ہے۔‘‘
547 / 87. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ. أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ. أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدبِ وَأَبُوْدَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 87: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الوصية، باب: ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، 3 / 1255، الرقم: 1631، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 28، الرقم: 38، وأبوداود في السنن، کتاب: الوصايا، باب: ماجاء في الصدقة عن الميت، 3 / 117، الرقم: 2880، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: ثواب معلم الناس الخير، 1 / 88، الرقم: 239، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 122، الرقم: 2494، وابن حبان في الصحيح، 7 / 286، الرقم: 3016: 11 / 266، الرقم: 4902، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 372، الرقم: 8831، والبيهقي في السنن الکبري، 6 / 278، الرقم: 12415، وفي شعب الإيمان، 3 / 247، الرقم: 3447، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 8، الرقم: 3472، وفي المعجم الصغير، 1 / 242، الرقم: 395، وأبويعلي في المسند، 11 / 343، الرقم: 6457، وابن الجارود في المنتقي، 1 / 101، الرقم: 370، وأبو عوانة في المسند، 3 / 394 - 395، الرقم: 5824، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 306، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 283، الرقم: 1109، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 55، الرقم: 124 - 125، 156، 188.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (ان کا اجر اسے برابر ملتا رہتا ہے: ) ایک وہ صدقہ جس کا نفع جاری رہے، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے تیسری وہ نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔‘‘
548 / 88. عَنْ سُفْيَانَ قَالَ: قَالَ طَاوُوْسُ رضي الله عنه: إِنَّ الْمَوْتَي يُفْتَنُوْنَ فِي قُبُوْرِهِمْ سَبْعًا فَکَانُوْا يَسْتَحِبُّوْنَ أَنْ يُطْعَمَ عَنْهُمْ تَلْکَ الْأَيَامِ.
رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ السُّيُوْطِيُّ: إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ وَلَهُ حُکْمُ الرَّفْعِ.
الحديث رقم 88: أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 4 / 11، والسيوطي في الديباج علي صحيح مسلم، 2 / 491، الرقم: 905، وفي شرحه علي سنن النسائي، 4 / 104، ونور الدين السندي في حاشية السندي علي النسائي، 4 / 103.
’’حضرت سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت طاووس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک سات دن تک مردوں کو قبروں میں آزمایا جاتا ہے اس لئے لوگ ان دنوں میں ان کی طرف سے کھانا کھلانے کو مستحب سمجھتے تھے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved