1. فَصْلٌ فِي فَضْلِ الصَّلَاةِ
(فضیلتِ نماز کا بیان)
2. فَصْلٌ فِي الصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوْبَةِ
(فرض نمازوں کا بیان)
3. فَصْلٌ فِي فَضْلِ السُّنَنِ وَالنَّوَافِلِ
(فضیلتِ سنن اور نوافل کا بیان)
4. فَصْلٌ فِي صِيَامِ رَمَضَانَ
(رمضان المبارک کے روزوں کا بیان)
5. فَصْلٌ فِي صِيَامِ التَّطَوُّعِ
(نفلی روزوں کا بیان)
6. فَصْلٌ فِي فَضْلِ قِيَامِ رَمَضَانَ
(فضیلتِ قیامِ رمضان کا بیان)
7. فَصْلٌ فِي فَضْلِ الاعْتِکَافِ
(فضیلتِ اعتکاف کا بیان)
8. فَصْلٌ فِي الصَّدَقَةِ وَالزَّکَاةِ
(صدقہ اور زکوٰۃ کا بیان)
9. فَصْلٌ فِي الصَّدَقَةِ عَلَی الْأَهْلِ وَالْأَقَارِبِ
(اَعِزاء و اَقرباء پر صدقہ کرنے کا بیان)
10. فَصْلٌ فِي الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ
(حج اور عمرہ کا بیان)
11. فَصْلٌ فِي فَضَائِلِ مَکَّةَ الْمُکَرَّمَةِ
(فضائلِ مکہ مکرمہ کا بیان)
12. فَصْلٌ فِي فَضَائِلِ الْمَدِيْنَةِ الْمُنَوَّرَةِ
(فضائلِ مدینہ منورہ کا بیان)
119 / 1. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: فَرَضَ اللهُ عزوجل عَلَى أُمَّتِي خَمْسِيْنَ صَلَاةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِکَ، حَتَّى مَرَرْتُ عَلَى مُوْسَي، فَقَالَ: مَا فَرَضَ اللهُ لَکَ عَلَى أُمَّتِکَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ خَمْسِيْنَ صَلَاةً، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَي رَبِّکَ، فَإِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِيْقُ ذَلِکَ، فَرَاجَعَنِي فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَي مُوْسَي، قُلْتُ: وَضَعَ شَطْرَهَا، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّکَ، فَإِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِيْقُ، فَرَاجَعْتُ فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَي رَبِّکَ، فَإِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِيْقُ ذَلِکَ، فَرَاجَعْتُهُ، فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُوْنَ، لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ، فَرَجَعْتُ إِلَي مُوْسَي، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّکَ، فَقُلْتُ: اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي ثُمَّ انْطَلَقَ بِي حَتَّى انْتَهَي بِي إِلَي سِدْرَةِ الْمُنْتَهَي وَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ، ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ، فَإِذَا فِيْهَا حَبَائِلُ اللُّؤْلُؤِ، وإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْکُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الصلاة، باب: کيف فرضت الصلوة في الإسراء، 1 / 136، الرقم: 342، وفيکتاب: الأنبياء، باب: ذکر إدريس وهو جد أبي نوح ويقال جد نوح عليهما السلام، 3 / 1217، الرقم: 3164، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الإسراء برسول اللہ ﷺ إلي السماوات وفرض الصلوات، 1 / 148، الرقم: 163، والنسائي في السنن، کتاب: الصلاة، باب: فرض الصلاة، 1 / 221، الرقم: 449، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في فرض الصلوات الخمس والمحافظة عليها، 1 / 448، الرقم: 1399، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 143، الرقم: 21326، وابن حبان في الصحيح، 16 / 421، الرقم: 7406، والبيهقي في السنن الصغري، 1 / 191، الرقم: 257، وابن منده في الإيمان، 2 / 721، الرقم: 714، وأبو عوانة في المسند، 1 / 119، الرقم: 354.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (شبِ معراج) اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں تو میں ان (نمازوں) کے ساتھ واپس آیا یہاں تک کہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر آپ کی امت کے لئے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے رب کی طرف واپس جائیے کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی پس انہوں نے مجھے واپس لوٹا دیا (میری درخواست پر) اللہ تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا۔ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف واپس گیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک حصہ کم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا: اپنے رب کی طرف پھر جائیے کیونکہ آپ کی امت میں ان کی طاقت نہیں ہے پس میں واپس گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا۔ میں ان کی طرف آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کی طرف جائیے کیونکہ آپ کی امت میں ان کی طاقت بھی نہیں ہے میں واپس لوٹا تو (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: یہ ظاہراً پانچ (نمازیں) ہیں اور (ثواب کے اعتبار سے) پچاس (کے برابر) ہیں میرے نزدیک بات تبدیل نہیں ہوا کرتی۔ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا اپنے رب کی طرف جائیے (اور مزید کمی کے لئے درخواست کریں) میں نے کہا: مجھے اب اپنے رب سے حیا آتی ہے۔ پھر (جبرائیل علیہ السلام) مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہی پر پہنچے جسے مختلف رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا، نہیں معلوم کہ وہ کیا ہیں؟ پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا جس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک ہے۔‘‘
120 / 2. عَنْ عُثْمَانَ ابْنِ عَفَّانَ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: مَنْ عَلِمَ أَنَّ الصَّلَاةَ حَقٌّ وَاجِبٌ دَخَلَ الْجَنَّةَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 2: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 60، الرقم: 423، والحاکم في المستدرک، 1 / 144، الرقم: 243، والبيهقي في السنن الکبري، 1 / 358، الرقم: 1562، والبزار في المسند، 2 / 87، الرقم: 439، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 40، الرقم: 2808، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 47، الرقم: 49، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 288.
’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفّان سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے یقین کر لیا کہ نماز حق ہے اور (ہم پر) فرض ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘
121 / 3. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه يَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَخْطُبُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَقَالَ: اتَّقُوا اللهَ رَبَّکُمْ وَصَلُّوْا خَمْسَکُمْ وَصُوْمُوْا شَهْرَکُمْ وَ أَدُّوْا زَکَاةَ أَمْوَالِکُمْ وَ أَطِيْعُوْا ذَا أَمْرِکُمْ تَدْخُلُوْا جَنَّةَ رَبِّکُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 3: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الجمعة عن رسول اللہ ﷺ، باب: منه (434)، 2 / 516، الرقم: 616، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 251، الرقم: 22215، 22312، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 12، والحاکم في المستدرک، 1 / 52، 547، الرقم: 19، 1436، وقال: هذا حديث صحيح وسائر رواته متفق عليهم، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 154، الرقم: 7664، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 5، الرقم: 7348، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 / 64، الرقم: 1687.
’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اپنے رب سے ڈرو، اپنی پانچوں نمازیں ادا کرتے رہو اور اپنے مہینے (رمضان) کے روزے رکھا کرو اور اپنے اموال کی زکوٰۃ دیا کرو اور اپنے اولی الامر کی اطاعت کرو تو تم (اس کے صلہ میں) اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
122 / 4. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه يَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا أُمَّةَ بَعْدِکُمْ أَلاَ فَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَصَلُّوْا خَمْسَکُمْ وَصُوْمُوْا شَهْرَکُمْ وَأَدُّوْا زَکَاةَ أَمْوَالِکُمْ طِيْبَةً بِهَا أَنْفُسِکُمْ وَأَطِيْعُوْا وُلَاةَ أَمْرِکُمْ تَدْخُلُوْا جَنَّةَ رَبِّکُمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
الحديث رقم 4: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 / 115، الرقم: 7535، وفي مسند الشامين، 2 / 16، الرقم: 834، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 505، الرقم: 1061.
’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! جان لو کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی اور امت ہے۔ خبردار! صرف اپنے رب کی ہی عبادت کرو، اور اپنی پانچ (فرض) نمازیں ادا کرو، اور اپنے ماہ (رمضان) کے روزے رکھو، دلی رضا مندی کے ساتھ اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرو اور اپنے (عادل) حکمرانوں کی اطاعت کرو، تو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
123 / 5. عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامَتِ رضي الله عنه قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللهُ تَعَالَى عَلَى عِبَادِهِ مَنْ أَحْسَنَ وُضُوْءَ هُنَّ وَصَلاَّهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُکُوْعَهُنَّ وَسُجُوْدَهُنَّ وَخُشُوْعَهُنَّ کَانَ لَهُ عَلَى اللهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللهِ عَهْدٌ إِنْ شَاءَ غَفَرَلَهُ وَ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ.
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 5: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: في المحافظة علي وقت الصلوات، 1 / 115، الرقم: 425، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 317، الرقم: 22756، والطبراني في المجعم الأوسط، 5 / 56، الرقم: 4658، 9 / 126، الرقم: 9315، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 366، الرقم: 6292، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 148، الرقم: 546.
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پانچ نمازیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے جس نے ان نمازوں کو بہترین وضو کے ساتھ ان کے مقررہ اوقات پر ادا کیا اور ان نمازوں کو رکوع، سجود اور کامل خشوع سے ادا کیا تو ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کی مغفرت فرما دے اور جس نے ایسا نہیں کیا (یعنی نماز ہی نہ پڑھی یا نماز کو اچھی طرح نہ پڑھا) تو ایسے شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں ہے اگر چاہے تو اس کی مغفرت فرما دے اور چاہے تو اس کو عذاب دے۔‘‘
124 / 6. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ زَمَنَ الشِّتَاءِ وَالْوَرَقُ يَتَهَافَتُ فَاَخَذَ بِغُصْنَيْنِ مِنْ شَجَرَةٍ قَالَ: فَجَعَلَ ذَلِکَ الْوَرَقُ يَتَهَافَتُ قَالَ: فَقَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ قُلْتُ: لَبَّيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لَيُصَلِّ الصَّلَاةَ يُرِيْدُ بِهَا وَجْهَ اللهِ فَتَهَافَتُ عَنْهُ ذُنُوْبَهُ کَمَا يَتَهَافَتُ هَذَا الْوَرَقُ عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
الحديث رقم 6: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 179، الرقم: 21596، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 151، الرقم: 560، وقال: رواه أحمد بإسناد حسن.
’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرما کے موسم میں جب پتے (درختوں سے) گر رہے تھے باہر نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک درخت کی دو شاخوں کو پکڑ لیا، ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں شاخ سے پتے گرنے لگے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پکارا: اے ابوذر! میں نے عرض کیا: لبیک یا رسول اللہ! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسلمان بندہ جب نماز اس مقصد سے پڑھتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل ہو جائے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح یہ پتے درخت سے جھڑتے جا رہے ہیں۔‘‘
125 / 7. عَنِ الْحَسَنِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: لِلْمُصَلِّي ثَلَاثُ خِصَالٍ تَتَنَاثَرُ الرَّحْمَةُ عَلَيْهِ مِنْ قَدَمِهِ إِلَي عِنَانِ السَّمَاءِ وَتَحُفُّ بِهِ الْمَلَائِکَةُ مِنْ قَرْنِهِ إِلَي أَعْنَانِ السَّمَاءِ وَيُنَادِي مُنادٍ لَوْ عَلِمَ الْمُنَاجِي مَنْ يُنَاجِي مَا انْفَتَلَ. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.
الحديث رقم 7: أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 1 / 49، الرقم: 150، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 1 / 199، الرقم: 160، والمناوي في فيض القدير، 5 / 292.
’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نمازی کے لئے تین خصلتیں ہیں: (ایک) یہ کہ اس کے دونوں قدموں سے لے کر سر تک رحمتِ الٰہی نازل ہوتی رہتی ہے اور دوسرا یہ کہ ملائکہ اسے اس کے دونوں قدموں سے لے کر آسمان تک گھیرے ہوئے رہتے ہیں اور (تیسرا) یہ کہ ندا کرنے والا ندا کرتا رہتا ہے کہ اگر مناجات کرنے والا (یعنی نماز پڑھنے والا) یہ جان لیتا کہ وہ کس سے راز و نیاز کی باتیں کر رہا ہے تو وہ نماز سے کبھی واپس نہ پلٹتا۔‘‘
126 / 8. عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضي الله عنه فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ وُضُوْئِهِ تَبَسَّمَ، فَقَالَ: هَلْ تَدْرُوْنَ مِمَّا ضَحِکْتُ؟ قَالَ: فَقَالَ: تَوَضَّأَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، کَمَا تَوَضَّأْتُ، ثُمَّ تَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُوْنَ مِمَّا ضَحِکْتُ قَالَ: قُلْنَا: اللهُ وَ رَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَتَمَّ وُضُوْءَهُ، ثُمَّ دَخَلَ فِي صَلَاتِهِ فَأَتَمَّ صَلَاتَهُ خَرَجَ مِنْ صَلَاتِهِ کَمَا خَرَجَ مِنْ بَطَنِ أُمِّهِ مِنَ الذُّنُوبِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ.
الحديث رقم 8: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 61، الرقم: 403، والبزار في المسند، 2 / 83، الرقم: 435، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 49، الرقم: 59، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 209، الرقم: 542.
’’حضرت حمران بن اَبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے پانی طلب کیا اور پھر وضو کیا جب آپ وضو سے فارغ ہوئے تو آپ مسکرائے اور پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں کس وجہ سے مسکرایا ہوں؟ تو پھر آپ نے خود ہی فرمایا: ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا جس طرح میں نے و ضو کیا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ میں کس وجہ سے مسکرایا ہوں؟ تو ہم نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب بندہ بڑے اہتمام کے ساتھ وضو مکمل کرتا ہے اور پھر نماز پڑھتا ہے اور نماز کو بھی بڑے اہتمام کے ساتھ مکمل کرتا ہے تو جب وہ نماز سے فارغ ہوتا ہے تو وہ اس طرح گناہوں سے پاک ہوتا ہے گویا کہ وہ اپنی ماں کے بطن سے ابھی پیدا ہوا ہے۔‘‘
127 / 9. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَوَّلُ مَا يُحَاسَبَ بِه الْعَبْدُ الصَّلَاةُ، فَإِنْ صَلَحَتْ صَلَحَ سَائِرُ عَمَلِهِ، وَ إِنْ فَسَدَتْ فَسَدَ سَائِرُ عَمَلِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 9: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 240، الرقم: 1859، والطيالسي في المسند، 1 / 106، الرقم: 788، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 145، الرقم: 2579، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 150، الرقم: 551، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 292.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یقیناً پہلی چیز جس کا حساب بندہ سے لیا جائے گا وہ نماز ہے پس اگر نماز درست ہو گی تو بندہ کے جملہ اعمال درست ہوں گے اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو دوسرے تمام اعمال بھی درست نہیں ہوں گے ۔‘‘
128 / 10. عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النُّهْدِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ الْمُسْلِمَ لَيُصَلِّي وَخَطَايَاهُ مَوْضُوْعَةٌ عَلَى رَأْسِهِ، فَکُلَّمَا سَجَدَ تَحَاتَتْ فَيَفْرُغُ عَنْهُ، حِيْنَ يَفْرُغُ مِنْ صَلَاتِهِ، وَقَدْ تَحَاتَتْ خَطَايَاهُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 10: أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 272، الرقم: 1153، وفي المعجم الکبير، 6 / 250، الرقم: 6125، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 145، الرقم: 3144، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 145، الرقم: 533، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 14 / 313، الرقم: 7634، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 300.
’’حضرت ابو عثمان نہدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک مسلمان نماز پڑھتا ہے اور اس کے گناہ اس کے سر پر دھرے رہتے ہیں پس جس وقت وہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے گناہ جھڑتے چلے جاتے ہیں اور جب وہ نماز سے فارغ ہوتا ہے تو اس کی حالت ایسی ہو جاتی ہے کہ اس کے تمام گناہ اس سے جھڑ چکے ہوتے ہیں۔‘‘
129 / 11. عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِيْنَ، وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وَفَرِّقُوْا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ.
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
وفي رواية: عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: عَلِّمُوا الصَّبِيَّ الصَّلَاةَ ابْنَ سَبْعِ سِنِيْنَ وَاضْرِبُوْهُ عَلَيْهَا ابْنَ عَشْرٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وأَبُوْدَاوُدَ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَى: حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 11: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الصلاة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء متي يؤمر الصبي بالصلاة، 2 / 259، الرقم: 407، وأبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: متي يؤمر الغلام بالصلاة، 1 / 133، الرقم: 494.495، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 187، والحاکم في المستدرک، 1 / 311، الرقم: 708، والدارقطني في السنن، 1 / 230، الرقم: 1.3، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 102، الرقم: 1002، والدارمي في السن، 1 / 393، الرقم: 1431، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 228. 229، الرقم: 3050 - 3052، وفي شعب الإيمان، 6 / 398، الرقم: 8650، والطبراني في المعجم الکبير، 7 / 115، الرقم: 6546.
’’حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی اولاد کو جب وہ سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم کیا کرو اور جب وہ دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو نماز کی پابندی نہ کرنے پر انہیں مارا کرو اور ان کے سونے کی جگہ الگ الگ کر دو۔‘‘
’’اور ایک روایت میں عبدالمالک بن ربیع بن سبرہ بواسطہ اپنے والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سات سال کے بچے کو نماز سکھاؤ اور دس سال کے بچے کو نماز (نہ پڑھنے) پر سزا دو۔‘‘
130 / 12. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ تَعَالَى؟ قَالَ: الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا. قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: بِرُّ الْوَالِدَيْنِ. قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: الْجِهَادُ فِي سَبِيْلِ اللهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 12: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: مواقيت الصلاة، باب: فضل الصلاة لوقتها، 1 / 697، الرقم: 504، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان کون الإيمان باللہ تعالي أفضل الأعمال، 1 / 89، الرقم: 85، والترمذي مثله في السنن، کتاب: الصلاة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ما جاء في الوقت الأول من الفضل، 1 / 325، الرقم: 173، والنسائي في السنن، کتاب: المواقيت، باب: فضل الصلاة لمواقيتها، 1 / 292، الرقم: 116.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: اللہ تعالیٰ کے ہاں کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟ فرمایا: وقت مقررہ پر نماز ادا کرنا۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا: والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘
131 / 13. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 13: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان إسم الکفر علي من ترک الصلاة، 1 / 88، الرقم: 82، ولفظه: (بَيْنَ الرَّجُلِ وَ بَيْنَ الشِّرْکِ وَ الْکُفْرِ تَرَکُ الصَّلاَةِ)، والترمذي في السنن، کتاب: الإيمان عن رسول اللہ ﷺ، باب: ما جاء في ترک الصلاة، 5 / 13، الرقم: 2620، وأبو داود في السنن، کتاب: السنة، باب: في ردّ الإرجاء، 4 / 219، الرقم 2: 4678، والنسائي في السنن، کتاب: الصلاة، باب: الحکم في تارک الصلاة، 1 / 231، الرقم: 463، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ما جاء في من ترک الصلاة، 1 / 342، الرقم: 1078.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انسان اور اس کے کفر کے درمیان فرق (صرف) نماز کا چھوڑنا ہے۔‘‘
132 / 14. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمُعَةُ إِلَي الْجُمُعَةِ، وَرَمَضَانُ إِلَي رَمَضَانَ، مُکَفِّرَاتٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
الحديث رقم 14: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الطهارة، باب: الصلوات الخمس والجمعة إلي الجمعة ورمضان إلي رمضان مکفرات لما بينهن ما اجتنبت الکبائر، 1 / 209، الرقم: 233، والترمذي في السنن، کتاب: الطهارة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ما جاء في فضل الصلوات الخمس، 1 / 418، الرقم: 214، وابن ماجه في السنن، کتاب: الطهارة وسننها، باب: تحت کل شعرة جنابة، 1 / 196، الرقم: 598، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 359، الرقم: 8700، وابن حبان في الصحيح، 5 / 24، الرقم: 1733، والحاکم في المستدرک، 1 / 207، الرقم: 412.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پانچوں نمازیں اور جمعہ اگلے جمعہ تک اور رمضان اگلے رمضان تک سب درمیانی عرصہ کے لئے گناہوں کا کفارہ ہو جاتے ہیں جبکہ اس دوران انسان کبیرہ گناہوں سے بچا رہے۔‘‘
133 / 15. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهْرًا بِبَابِ أَحَدِکُمْ يَغْتَسِلُ مِنْهُ کُلَّ يَومٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، هَلْ يَبْقَي مِنْ دَرَنِهِ شَيئٌ؟ قَالُوْا: لَا يَبْقَي مِنْ دَرَنِهِ شَيئٌ. قَالَ: فَذَلِکَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ. يَمْحُو اللهُ بِهِنَّ الْخَطَايَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 15: أخرجه مسلم في السنن، کتاب: الساجد، باب: المشي إلي الصلاة تُمْحَي به الخطايا وتُرْفَعُ بِهِ الدرجات، 1 / 462، الرقم: 667، والترمذي في السنن، کتاب: الأمثال عن رسول اللہ ﷺ، باب: مثل الصلوات الخمس، 5 / 151، الرقم: 2868، والنسائي في السنن، کتاب: الصلاة، باب: فضل الصلوات الخمس، 1 / 230، الرقم: 462، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في أن الصلاة کفارة،1 / 447، الرقم: 1397، والنسائي في السنن الکبري، 1 / 143، الرقم: 323، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 160، الرقم: 310، وابن حبان في الصحيح، 5 / 14، الرقم: 1726، والدارمي في السنن، کتاب: الصلاة، باب: في فضل الصلوات، 1 / 283، الرقم: 1182 - 1183، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 71، الرقم: 518، 8911.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بتاؤ! اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک دریا ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرے تو کیا اس (کے بدن) پر کچھ میل باقی رہے گا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: اس (کے بدن) پر بالکل میل باقی نہیں رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پانچ نمازوں کی مثال بھی ایسی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے سبب (بندے کے سارے) گناہ مٹا دیتا ہے۔‘‘
134 / 16. عَنْ بُرَيْدَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَکَهَا فَقَدْ کَفَرَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
وفي رواية: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيْقٍ الْعُقَيْلِيِّ، قَالَ: کَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ: لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الْأَعْمَالِ تَرْکُهُ کُفْرٌ، غَيْرَ الصَّلَاةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
الحديث رقم 16: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الإيمان عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في ترک الصَّلاة، 5 / 13، الرقم: 2621 - 2622، والنسائي في السنن، کتاب: الصلاة، باب: الحکم في تارک الصلاة، 1 / 231، الرقم: 463، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في من ترک الصلاة، 1 / 342، الرقم: 1079، والحاکم في المستدرک، 1 / 48، الرقم: 11، وقال الحاکمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإسْنَادِ، والدار قطني في السنن، 2 / 52، الرقم: 2، وابن حبان في الصحيح، 4 / 305، الرقم: 1454، والنسائي في السنن الکبري، 1 / 145، الرقم: 329، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 167، الرقم: 30396، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 346، الرقم: 22987، 23057، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 366، الرقم: 6291، وفي شعب الإيمان، 1 / 72، الرقم: 43، 2795.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان عہد نماز ہی ہے، جس نے اسے چھوڑا اس نے کفر کیا۔
’’اور عبد اللہ بن شقیق عقیلی سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نماز کے سوا کسی دوسرے عمل کے ترک کو کفر نہیں جانتے تھے۔‘‘
135 / 17. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلاَتُهُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ، فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ، فَإِنِ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيْضَتِهِ شَيئٌ، قَالَ الرَّبُّل: انْظُرُوْا، هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَيُکَمَّلُ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الْفَرِيْضَةِ، ثُمَّ يَکُوْنُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِکَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 17: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الصلاة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء أنَّ أَوَّلَ ما يُحَاسَبُ به العبد يوم القيامة الصلاة، 2 / 269، الرقم: 413، والنسائي في السنن، کتاب: الصلاة، باب: المحاسبة علي الصلاة، 1 / 232، الرقم: 465 - 467، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ما جاء في أول ما يحاسب به العبد الصلاة، 1 / 458، الرقم: 1425، والدارمي في السنن، 1 / 361، الرقم: 1355، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 276، الرقم: 36047، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 240، الرقم: 1859، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 425، الرقم: 9490، وأبويعلي في المسند، 11 / 96، الرقم: 6225، والطيالسي في المسند، 1 / 323، الرقم: 2468، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 182، الرقم: 3286، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 202، الرقم: 767.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا: قیامت کے دن بندے سے (سب سے) پہلے جس عمل کا حساب ہو گا وہ نماز ہے، اگر یہ صحیح ہوا تو وہ کامیاب ہوا اور نجات پا گیا اور اگر یہ ٹھیک نہ ہوا تو بندہ ناکام ہوا اور اس نے نقصان اٹھایا پھر اگر فرض نماز میں کچھ کمی رہ گئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میرے بندے کے پاس کوئی نفل ہے؟ پھر اس سے فرض کی کمی پوری کی جائے گی، پھر تمام اعمال کا اسی طرح حساب کتاب ہو گا (یعنی فرض اعمال کے نہ ہونے کی صورت میں نوافل سے کمی پوری کی جائے گی)۔‘‘
136 / 18. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَيُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلاً فَيَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَي رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوْتَهُمْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَو يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ: أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِيْنًا، أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ، لَشَهِدَ الْعِشَاءَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهَ وَهَذَا اللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم 18: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجماعة والإمامة، باب: وجوب صلاة الجماعة، 1 / 231، الرقم: 618، وفي باب: فضل العشاء في الجماعة، 1 / 234، الرقم: 626، وفي کتاب: الخصومات، باب: إخراج أهل المعاصي والخُصُوم من البيوت بعد المعرفة، 2 / 852، الرقم: 2288، وفي کتاب: الأحکام، باب: إخراج الخُصُوم وأَهل الرِّيَبِ من البيوت بعد المعرفة، 6 / 2640، الرقم: 6797، ومسلم في الصحيح، کتاب: المساجد، باب: فضل صلاة الجماعة، وبيان التشديد في التخلف عنها، 1 / 451، الرقم: 651، وأبو داود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: التشديد في ترک الجماعة، 1 / 150، الرقم: 548 - 549، وابن ماجه في السنن، کتاب: المساجد والجماعات، باب: التغليظ في التخلف عن الجماعة، 1 / 259، الرقم: 791، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 370، الرقم: 1484، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 292، الرقم: 3351، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 55، الرقم: 2853، وأبوعوانة في المسند، 1 / 351، الرقم: 1257، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 163، الرقم: 602.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکھٹی کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لئے اذان کہی جائے۔ پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے پھر ایسے لوگوں کی طرف نکل جاؤں (جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے گوشت پر ہڈی یا دو عمدہ کھریاں (پائے) ملیں گی تو ضرور نماز عشاء میں شامل ہوتا۔‘‘
137 / 19. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَر رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بَسَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ دَرَجَةً.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ أًبِيْهِ: بِضْعًا وَعِشْرِيْنَ.
الحديث رقم 19: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجماعة والإمامة، باب: فضل صلاة الجماعة، 1 / 231، الرقم: 619، 621، ومسلم في الصحيح، کتاب: المساجد، باب: فضل صلاة الجماعة وبيان التشديد في التخلف عنها، 1 / 450، الرقم: 650، والترمذي في السنن، کتاب: الصلاة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في فضل الجماعة، 1 / 420، الرقم: 215، والنسائي في السنن، کتاب: الإمامة، باب: فضل الجماعة، 2 / 103، الرقم: 837، وفي السنن الکبري، 1 / 294، الرقم: 911، ومالک في الموطأ، کتاب: الصلاة، باب: فضل صلاة الجماعة علي صلاة الفذ، 1 / 129، الرقم: 288، وابن حبان في الصحيح، 5 / 401، الرقم: 2052، والشافعي في المسند، 1 / 52، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 65، الرقم: 5332، 5921، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 59، الرقم: 4734، وفي شعب الإيمان، 3 / 47، الرقم: 2826، والعسقلاني في سلسلة الذهب، 1 / 44، الرقم: 9، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 158، الرقم: 586.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: با جماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔‘‘
138 / 20. عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيِّ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: قَالَ اللهُ عزوجل: افْتَرَضْتُ عَلَى أُمَّتِکَ خَمْسَ صَلَواتٍ. وَعَهِدْتُ عِنْدِي عَهْدًا أَنَّهُ مَنْ حَافَظَ عَلَيْهِنَّ لِوَقْتِهِنَّ أَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ. وَمَنْ لَمْ يُحَافِظْ عَلَيْهِنَّ، فَلَا عَهْدَ لَهُ عِنْدِي. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ.
الحديث رقم 20: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: في المحافظة علي وقت الصلاة، 1 / 117، الرقم: 430، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ما جاء في فرض الصلوات الخمس والمحافظة عليها، 1 / 450، الرقم: 1403، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 305، الرقم: 368، والطيالسي في المسند، 1 / 78، الرقم: 573، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 166، الرقم: 4440، والمروزي في تعظيم قدرة الصلاة، 2 / 970، الرقم: 1054، والمقريزي في مختصر کتاب الوتر، 1 / 31، الرقم: 13.
’’حضرت ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور میں نے اپنے یہاں پکا وعدہ کر رکھا ہے کہ جو ان کے اوقات کے ساتھ ان کی پابندی کرے گا اسے جنت میں داخل کروں گا اور جو ان کی پابندی نہیں کرے گا تو اس کے ساتھ میرا کوئی عہد نہیں (کہ اسے سزا دوں یا بخش دوں)۔‘‘
139 / 21. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ قَالَ: مَنْ عَادَي لِي وَلِيًا، فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي، يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وإنْ سَأَلَنِي، لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي، لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ، يَکْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَهُ مَسَاء تَهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.
الحديث رقم 21: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الرقاق، باب: التواضع، 5 / 2384، الرقم: 6137، وابن حبان في الصحيح، 2 / 58، الرقم: 347، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 219، وفي کتاب الزهد الکبير، 2 / 269، الرقم: 696.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اُس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو اور میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعے برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی اس طرح متردد نہیں ہوتا جیسے بندۂ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں۔ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں۔‘‘
140 / 22. عَنْ رَبِيْعَةَ بْنِ کَعْبٍ الْأَسْلَمِيِّ رضي الله عنه قَالَ: کُنْتُ أَبِيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوْئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِي: سَلْ، فَقُلْتُ: أَسْأَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِي الْجَنَّةِ قَالَ: أَوْ غَيْرَ ذَلِکَ قُلْتُ: هُوَ ذَاکَ، قَالَ: فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِکَ بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.
الحديث رقم 22: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الصلاة، باب: فضل السجود والحث عليه، 1 / 353، الرقم: 489، وأبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: وقت قيام النبي ﷺ من الليل، 2 / 35، الرقم: 1320، والنسائي في السنن، کتاب: التطبيق، باب: فضل السجود، 2 / 227، الرقم: 1138، وفي السنن الکبري، 1 / 242، الرقم: 724، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 59، والطبراني في المعجم الکبير،5 / 56، الرقم: 4570، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 486، الرقم: 4344، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 152، الرقم: 564.
’’حضرت ربیع بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں رات کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں رہا کرتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استنجاء اور وضو کے لئے پانی لاتا ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’مانگ کیا مانگتا ہے‘‘ میں نے عرض کیا: میں آپ سے جنت کی رفاقت مانگتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ ’’اور کچھ‘‘ میں نے کہا مجھے یہی کافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر کثرتِ سجود سے اپنے معاملے میں میری مدد کرو۔‘‘
141 / 23. عَنْ أُمِّ حَبِيْبَةَ رضي الله عنها زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يُصَلِّي ِللهِ کُلَّ يَوْمٍ ثِنْتَي عَشْرَةَ رَکْعَةً تَطَوُّعًا، غَيْرَ فَرِيْضَةٍ، إِلَّا بَنَي اللهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةَ. أَوْ إِلَّا بُنِي لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.
الحديث رقم 23: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: فضل السنن الراتبة قبل الفرائض وبعد هن وبيان عددهن، 1 / 503 الرقم: 728، وأبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: تفريع أبواب التطوع ورکعات السنة، 2 / 18، الرقم: 1250، والنسائي في السنن، کتاب: قيام الليل وتطوع النهار، باب: الاختلاف علي إسماعيل بن أبي خالد، 3 / 264، الرقم: 1808، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في ثنتي عشرة رکعة من السنة، 1 / 361، الرقم: 1141، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 202، الرقم: 1185، والدارمي في السنن، 1 / 397، الرقم: 1438، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 327، الرقم: 26818.
’’ام المومنین حضرت امّ حبیبہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو بھی مسلمان اللہ تعالیٰ کے لئے ہر روز بارہ رکعت نفل فرائض کے علاوہ ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنا دیتا ہے یا جنت میں اس کا گھر بنا دیا جاتا ہے۔‘‘
142 / 24. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَنْ صَلَّي فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَي عَشْرَةَ رَکْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بَنَي اللهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ، أَرْبَعِ رَکَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَکَعَتَيْنِ بَعْدَهَا وَرَکَعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَرَکَعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ وَرَکَعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 24: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الصلاة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ما جاء فيمن صلي في يوم وليلة ثنتي عشرة رکعة من السنة وماله فيه من الفضل، 2 / 274، الرقم: 415، ونحوه أبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: تفريع أبواب التطوع ورکعات السنة، 2 / 18، الرقم: 1251، والنسائي في السنن، کتاب: الإمامة، باب: الصلاة بعد الظهر، 2 / 119، الرقم: 873، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، 1 / 361، الرقم: 1140، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 51، الرقم: 5127، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 204، الرقم: 1188، والحاکم في المستدرک بإسنادين، 1 / 456، الرقم: 1173، وقال: کلا الإسنادين صحيحان.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے دن اور رات میں (فرائض کے علاوہ) بارہ رکعات سنتیں ادا کیں تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مکان بنائے گا (اُن سنتوں کی تفصیل یہ ہے) چار رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو رکعتیں ظہر کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے۔‘‘
143 / 25. عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: صَلُّوْا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِکُمْ، فَإِنَّ أَفْضَلَ الصَّلاَةِ صَلَاةُ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الْمَکْتُوْبَةَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْه وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم 25: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التهجد، باب: صلاة الليل، 1 / 256، الرقم: 698، ومسلم في الصحيح، کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: استحباب صلاة النافلة في بيته وجوازها في المسجد، 1 / 539، الرقم: 781، وأبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: صلاة الرجل التطوع في بيته، 1 / 274، الرقم: 1044، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 211، الرقم: 1203، وابن حبان في الصحيح، 6 238، الرقم: 2491 والدارمي في السنن، 1 / 366، الرقم: 1366.
’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ سوائے فرض نماز کے آدمی کی افضل نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے۔‘‘
144 / 26. عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رضي الله عنها کَيْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَزِيْدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَي عَشْرَةَ رَکْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُوْلِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَ طُوْلِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوْتِرَ؟ فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 26: أخرجه البخاري في کتاب: التهجد، باب: قيام النبي ﷺ بالليل في رمضان وغيره، 1 / 385، الرقم: 1096، ومسلم في الصحيح، کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: صلاة الليل وعدد رکعات النبي ﷺ في الليل، 1 / 509، الرقم: 738، والترمذي في السنن، کتاب: الصلاة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ما جاء في وصف صلاة النبي ﷺ بالليل، 2 / 302، الرقم: 439، وقال أبوعيسي: هذا حديث حسن صحيح، وأبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: في صلاة اليل، 2 / 40، الرقم: 1341، والنسائي في السنن، کتاب: قيام الليل وتطوع النهار، باب: کيف الوتر بثلاث، 3 / 234، الرقم: 1697، وفي السنن الکبري، 1 / 159، الرقم: 393، ومالک في الموطأ، کتاب: صلاة الليل، باب: صلاة النبي ﷺ في الوتر، 1 / 120، الرقم: 263، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 36، الرقم: 24119، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 30، الرقم: 49، 2 / 217، وابن حبان في الصحيح، 6 / 186، الرقم: 2430، وعبد الرزاق في المصنف، باب: صلاة النبي ﷺ من الليل ووتره، 3 / 38، الرقم: 4711، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 282.
’’حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: رمضان المبارک میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ تو انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں اور اس کے علاوہ بھی (نماز تہجد) گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے چار رکعتیں پڑھتے۔ تو ان کے ادا کرنے کی خوبصورتی اور طوالتِ (قیام) کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! بے شک میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔‘‘
145 / 27. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: عَلَيکُمْ بِقِيَامِ الَّليْلِ، فَإِنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحِيْنَ قَبْلَکُمْ، وَهُوَ قُرْبَةٌ لَکُمْ إِلَي رَبِّکُمْ، وَمَکْفَرَةٌ لِلسَّيِئَاتِ، وَمَنْهَاةٌ عَنِ الإِثْمِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ أَصَحُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌّ.
الحديث رقم 27: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اللہ ﷺ، باب: في دعاء النبي ﷺ، 5 / 552، الرقم: 3549، والحاکم في المستدرک، 1 / 451، الرقم: 1156، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 502، الرقم: 4423، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 92، الرقم: 7766.
’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رات کا قیام اپنے اوپر لازم کر لو کہ وہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے لیے قرب خداوندی کا باعث ہے اور برائیوں کو مٹانے والا اور گناہوں سے روکنے والا ہے۔‘‘
146 / 28. عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ رضي الله عنه أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُوْلُ: أَقْرَبُ مَايَکُوْنُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ الآخِرِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَکُوْنَ مِمَّنْ يَذکُرُ اللهَ فِي تِلْکَ السَّاعَةِ فَکُنْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 28: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اللہ ﷺ، باب: (119)، 5 / 569، الرقم: 3579، والنسائي في السنن، کتاب: المواقيت، باب: النهي عن الصلاة بعد العصر، 1 / 279، الرقم: 572، وفي کتاب: التطبيق، باب: أقرب مايکون العبد من اللہ عزوجل، 2 / 226، الرقم: 1137، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 182، الرقم: 1147، والحاکم في المستدرک، 1 / 453، الرقم: 1162، وَقَالَ الحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، وَالبهيقي في السنن الکبري، 3 / 4، الرقم: 4439، والطبراني في مسند الشامين، 1 / 349، الرقم: 605، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 245، الرقم: 933.
’’حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا: کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: اللہ عزوجل اپنے بندے کے سب سے زیادہ نزدیک رات کے آخری حصے میں ہوتا ہے اگر تم اس وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں میں شامل ہو سکتے تو ضرور ہو جاؤ۔‘‘
147 / 29. عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيْدَ رضي الله عنها عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ: يُحْشَرُ النَّاسُ فِي صَعِيْدٍ وَاحِدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُنَادِي مُنَادٍ فَيَقُوْلُ أَيْنَ الَّذِيْنَ کَانَتْ تَتَجَافَي جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ؟ فَيَقُوْمُوْنَ وَهُمْ قَلَيْلٌ فَيَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ ثُمَّ يُوْمَرُ بِسَائِرِ النَّاسِ إِلَي الْحِسَابِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 29: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 169، الرقم: 3244، 693، 3246، ونحوه الحاکم في المستدرک، 2 / 433، الرقم: 3508، وابن المبارک في کتاب الزهد، 1 / 101، الرقم: 353، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 14 / 102، والطبري في جامع البيان، 30 / 186، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 461.
’’حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ قیامت کے دن ایک میدان میں اکٹھے کئے جائیں گے اور ایک منادی اعلان کرے گا، جن لوگوں کی کروٹیں (اپنے رب کی یاد میں) بستروں پر نہ لگتی تھیں، وہ کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے، ان کی تعداد بہت کم ہوگی اور وہ جنت میں بغیر حساب و کتاب کے داخل ہو جائیں گے پھر باقی (بچ جانے والے) لوگوں کے حساب وکتاب کا حکم جاری کر دیا جائے گا۔‘‘
148 / 30. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ صَلَّي الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ثُمَّ قَعَدَ يَذْکُرُ اللهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّي رَکْعَتَيْنِ کَانَتْ لَهُ کَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 30: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الجمعة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ذکر ما يستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاة الصبح حتي تطلع الشمس، 2 / 481، الرقم: 586، والطبراني في مسند الشاميين، 2 / 42، الرقم: 885، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 138، الرقم: 9762، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 178، الرقم: 667.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص صبح کی نماز با جماعت پڑھ کر طلوع آفتاب تک بیٹھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہا پھر دو رکعت نماز (اشراق) ادا کی اس کے لیے کامل (و مقبول) حج اور عمرہ کا ثواب ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ تامۃ یعنی ’’ کامل‘‘ تین مرتبہ فرمایا۔‘‘
149 / 31. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ حَافَظَ عَلَى شُفْعَةِ الضُّحَى غُفِرَتْ لَهُ ذُنُوْبُهُ وَ إِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 31: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الصلاة عن رسول ﷺ، باب: ماجاء في صلاة الضحي، 2 / 341، الرقم: 476، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في صلاة الضحي، 1 / 440، الرقم: 1382، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 443، الرقم: 9714، وابن راهوية في المسند، 1 / 338، الرقم: 329، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 264، الرقم: 996.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص چاشت کی دو رکعات کی پابندی کرتا ہے، اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔‘‘
150 / 32. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ صَلَّي بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَکَعَاتٍ لَمْ يَتَکَلَّمْ فِيْمَا بَيْنَهُنَّ بِسُوْءٍ عُدِلْنَ لَهُ بِعِبَادَةِ ثِنْتَي عَشْرَةَ سَنَةً. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 32: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الصلاة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في فضل التطوع وست رکعات بعد المغرب، 2 / 298، الرقم: 435، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في ست رکعات بعد المغرب، 1 / 369، الرقم: 1167، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 227، الرقم: 862.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نمازِ مغرب کے بعد چھ نفل اس طرح پڑھے کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے اس کے لئے یہ نفل بارہ سال کی عبادت کے برابر شمار ہوں گے۔‘‘
151 / 33. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 33: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الصوم، باب: صوم رمضان احتسابا من الإيمان، 1 / 22، الرقم: 38، ومسلم في الصحيح، کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح، 1 / 523، الرقم: 760، وأبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: في قيام شهر رمضان، 2 / 49، الرقم: 1372، والنسائي في السنن، کتاب: الصيام، باب: ثواب من قام رمضان وصامه إيمان واحتسابا، 4 / 157، الرقم: 2203 - 2205، وابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: ماجاء في فضل شهر رمضان، 1 / 526، الرقم: 1641.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔‘‘
152 / 34. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ. وفي رواية: فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِيْنُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 34: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: بدء الخلق، باب: صفة إبليس وجنوده، 3 / 1194، الرقم: 3103، ومسلم في الصحيح، کتاب: الصيام، باب: فضل شهر رمضان، 2 / 758، الرقم: 1079، والنسائي في السنن، کتاب: الصيام، باب: ذکر الاختلاف علي الزهري فيه، 4 / 126، 128، الرقم: 2097، 2101، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 281، الرقم: 7768.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ) جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطان (زنجیروں میں) جکڑ دیئے جاتے ہیں۔‘‘
153 / 35. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: قَالَ اللهُ عزوجل: کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا کَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فلَاَ يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ. وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَخُلُوفُ فَمِ الصًّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْکِ. لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 35: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الصوم، باب: هل يقول إني صائم إذا شتم، 2 / 673، الرقم: 1805، ومسلم في الصحيح، کتاب: الصيام، باب: فضل الصيام، 2 / 807، الرقم: 1151، والنسائي في السنن، کتاب: الصيام، باب: ذکرالإختلاف علي أبي بن صالح في هذا الحديث، 4 / 2217، الرقم: 2213 - 2218، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 270، الرقم: 8094.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بنی آدم کا ہر عمل اسی کے لئے ہے سوائے روزہ کے۔ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں۔ اور روزہ ڈھال ہے اور جس روز تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو نہ فحش کلامی کرے اور نہ جھگڑے اور اگر اسے (روزہ دار کو) کوئی گالی دے یا لڑے تو یہ وہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ عزوجل کو مشک سے زیادہ پیاری ہے۔ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، جن سے اسے فرحت ہوتی ہے: ایک (فرحتِ افطار) جب وہ روزہ افطار کرتا ہے، اور دوسری (فرحتِ دیدار کہ) جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ کے باعث خوش ہو گا۔‘‘
154. / 36. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَانُ يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ: أَيْنَ الصَّائِمُوْنَ؟ فَيَقُوْمُوْنَ لَايَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلُوْا أُغْلِقَ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 36: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الصوم، باب: الريان للصائمين، 2 / 671، الرقم: 1797، ومسلم في الصحيح، کتاب: الصيام، باب: فضل الصيام، 2 / 808، الرقم: 1152، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 199، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 305، الرقم: 8294، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 192، الرقم: 5970.
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ريّان کہا جاتا ہے۔ قیامت کے دن روزہ دار اس میں سے داخل ہوں گے اور اُن کے سوا اس دروازہ سے کوئی داخل نہیں ہوگا۔ کہا جائے گا: کہاں ہیں روزہ دار؟ پس وہ کھڑے ہوں گے، ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اسے بند کر دیا جائے گا، پھر کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو سکے گا۔‘‘
155 / 37. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مُرْنِي بِعَمَلٍ قَالَ: عَلَيْکَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَا عِدْلَ لَهُ، قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مُرْنِي بِعَمَلٍ، قَالَ: عَلَيْکَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَا عِدْلَ لَهُ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 37: أخرجه النسائي في السنن، کتاب: الصيام، باب: في فضل الصائم، 4 / 165، الرقم: 2223، وفي السنن الکبري، 2 / 92، الرقم: 2533، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 248. 249، الرقم: 22194 - 22195، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 194، الرقم: 1893، وابن حبان في الصحيح، 8 / 213، الرقم: 3426، والحاکم في المستدرک، 1 / 582، الرقم: 1533، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 297، الرقم: 3587.
’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی (ایسا) عمل بتائیں (جس سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ رکھو، اس کے برابر کوئی عمل نہیں ہے۔ میں نے (پھر) عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی (اور) عمل (بھی) بتائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ رکھو اس کے برابر کوئی عمل نہیں ہے۔‘‘
156 / 38. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَتَاکُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَکٌ فَرَضَ اللهُ عزوجل عَلَيْکُمْ صِيَامَهُ تُفْتَحُ فِيْهِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَتُغْلَقُ فِيْهِ أَبْوَابُ الْجَحِيْمِ وَتُغَلُّ فِيْهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِيْن ِللهِ فِيْهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
وفي رواية للطبراني: عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: هَذَا رَمَضَانَ قَدْ جَاءَ تُفْتَحُ فِيْهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَتُغْلَقُ أَبْوَابُ النَّارِ وَتُغَلُّ فِيْهِ الشَّيَاطِيْنُ. بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ إِذَا لَمْ يُغْفَرْلَهُ فِيْهِ فَمَتَي؟
الحديث رقم 38: أخرجه النسائي في السنن، کتاب: الصيام، باب: ذکر الاختلاف علي معمر فيه، 4 / 142، الرقم: 2106، وفي السنن الکبري، 2 / 66، الرقم: 2416، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 270، الرقم: 8867، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 323، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 60، الرقم: 1492، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 143.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ماہ رمضان آیا۔ یہ مبارک مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور بڑے شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اس (مہینہ) میں اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی رات (بھی) ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو اس کے ثواب سے محروم ہوگیا سو وہ محروم ہو گیا۔‘‘
اور طبرانی کی ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آگیا ہے۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اس میں شیاطین کو (زنجیروں میں) جکڑ دیا جاتا ہے۔ وہ شخص بڑا ہی بد نصیب ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی۔ اگر اس کی اس (مغفرت کے) مہینہ میں بھی بخشش نہ ہوئی تو (پھر) کب ہو گی؟‘‘
157 / 39. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: الصِّيَامُ جُنَّةٌ، وَحِصْنٌ حَصِيْنٌ مِنَ النَّارِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 39: أخرجه بن حنبل في المسند، 2 / 402، الرقم: 9214، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 289، الرقم: 3571، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 50، الرقم: 1451، وقال: إسناده حسن، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 271، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 180، وقال: إسناده حسن.
وفي رواية: عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّمَا الصِّيَامُ جُنَّةٌ يَسْتَجِنُّ بِهَا الْعَبْدُ مِنَ النَّارِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 396، الرقم: 15299، والبزار عن ابن أبي الوقاص رضي الله عنه، 6 / 309، الرقم: 2321، والطبراني في المعجم الکبير، 9 / 58، الرقم: 8386، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 294، الرقم: 3582، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 50، الرقم: 1452، وقال: إسناد حسن، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 271، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 180، وقال: رواه أحمد وإسناده حسن.
رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے اور دوزخ کی آگ سے بچاؤ کے لئے محفوظ قلعہ ہے۔‘‘
’’اور ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے اس کے ساتھ بندہ خود کو دوزخ کی آگ سے بچاتا ہے۔‘‘
158 / 40. عَنْ أَبِي هُرَيْرَة رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: يَقُوْلُ اللهُ تَعَالَى: کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ فَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَي سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ إِلَّا الصِّيَامَ هُوَ لِي وَ أَنَا أَجْزِي بِهِ إِنَّهُ يَتْرُکُ الطَّعَامَ وَشَهَوَتَهُ مِنْ أَجْلِي وَيَتْرُکُ الشَّرَابَ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي فَهُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 40: أخرجه الدارمي في السنن، 2 / 40، الرقم: 1770، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 443، الرقم: 9712، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 197، الرقم: 1898، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 47، الرقم: 1442.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آدمی کا ہر عمل اس کے لئے ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے۔ سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں، یقینا وہ (روزہ دار) کھانا اور شہوت نفسانی کو میری وجہ سے ترک کرتا ہے اور اپنا پینا اور شہوت میری وجہ سے ترک کرتا ہے، پس وہ (روزہ) میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں۔‘‘
159 / 41. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِذَا نَسِيَ أَحَدُکُمْ، فَأَکَلَ، أَوْ شَرِبَ، فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللهُ وَسَقَاهُ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم 41: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الصوم، باب: الصائم إذا أکل أو شرب ناسيا، 2 / 682، الرقم: 1831، وفي کتاب: الأيمان والنذور، باب: إذا حنث ناسيا في الأيمان، 6 / 2455، الرقم: 6292، ومسلم في الصحيح، کتاب: الصيام، باب: أکل الناسي وشربه وجماعة لا يفطر، 2 / 809، الرقم: 1155، وابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: ماجاء فيمن أفطر ناسيا، 1 / 535، الرقم: 1673، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 425، الرقم: 9485، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 244، الرقم: 3275.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص بھول جائے اور کھا پی لے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے ہی تو کھلایا اور پلایا ہے۔‘‘
160 / 42. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لِکُلِّ شَيءٍ زَکَاةٌ وَ زَکَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ. وَقَالَ: الصِّيَامُ نِصْفُ الصَّبْرِ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 42: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: في الصوم زکاة الجسد، 1 / 555، الرقم: 1745، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 193، الرقم: 5973، والقضاعي في مسند الشهاب، 1 / 162، الرقم: 229، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 292، الرقم: 3577، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 331، الرقم: 4996، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 51، الرقم: 1459، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 182.
وفي رواية: صَلُّوْا تَنْجَحُوْا وَزَکُّوْا تُفْلِحُوْا وَصُوْمُوْا تَصِحُّوْا وَسَافِرُوْا تَغْنَمُوْا. رَوَاهُ الرَّبِيْعُ.(1)
(1): أخرجه الربيع في المسند، 1 / 122، الرقم: 291.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر ایک چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ آدھا صبر ہے۔‘‘
’’اور ایک روایت میں ہے کہ نماز پڑھو نجات پا جاؤ گے اور زکوٰۃ ادا کرو فلاح پا جاؤ گے اور روزے رکھو، صحت و تندرستی پاؤ گے اور سفر کرو غنی ہو جاؤ گے۔‘‘
161 / 43. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَنْ لَمْ يَدَعْ قَولَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ ِللهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ.
الحديث رقم 43: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الصوم، باب: من لم يدع قول الزور والعمل به في الصوم، 2 / 673، الرقم: 1804، وفي کتاب: الأدب، باب: قول اللہ تعالي: واجتنبوا قول الزور، 5 / 2251، الرقم: 5710، والترمذي في السنن، کتاب: الصوم عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في التشديد في الغيبة للصائم، 3 / 87، الرقم: 707، وقال أبوعيسي: هذا حديث حسن صحيح، وأبوداود في السنن، کتاب: الصوم، باب: الغيبة للصائم، 2 / 307، الرقم: 2362، وابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: ماجاء في الغيبة والرفث للصائم، 1 / 539، الرقم: 1689، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 238، الرقم: 3247، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 452، الرقم: 9838، وابن الجعد في المسند، 1 / 414، الرقم: 2831.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (بحالتِ روزہ) جھوٹ بولنا اور اس پر (برے) عمل کرنا ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
162 / 44. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. يَقُوْلُ الصِّيَامُ: أَي رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ وَيَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ فَيُشَفَّعَانِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 44: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 174، الرقم: 6626، والحاکم في المستدرک، 1 / 740، الرقم: 2036، وابن المبارک في الزهد، 1 / 114، الرقم: 385، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 346، الرقم: 1994، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 50، الرقم: 1455، وقال: رواه الطبراني فيالکبير ورجاله محتج بهم في الصحيح ورواه ابن أبي الدنيا في کتاب الجوع وغيره بإسناد حسن، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 181.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ اور قرآن قیامت کے روز بندۂ مومن کے لئے شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا: اے اللہ! دن کے وقت میں نے اس کو کھانے اور شہوت سے روکے رکھا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما اور قرآن کہے گا میں نے رات کو اسے جگائے رکھا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما، پس دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی۔‘‘
163 / 45. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: اسْتَعِيْنُوْا بِطَعَامِ السَّحْرِ عَلَى صِيَامِ النَّهَارِ وَبِالْقَيْلُوْلَةِ عَلَى قِيَامِ اللَّيْلِ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَالْحَاکِمُ.
الحديث رقم 45: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: ما جاء في السحور، 1 / 540، الرقم: 1693، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 214، الرقم: 1939، والحاکم في المستدرک، 1 / 588، الرقم: 1551، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 89، الرقم: 1620.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سحری کے کھانے کے ذریعے دن کا روزہ (پورا کرنے) کے لئے مدد لو اور قیلولہ (دوپہر کو کچھ دیر کی نیند) کے ذریعے رات کے قیام کے لئے مدد لو۔‘‘
164 / 46. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَ أَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 46: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: النکاح، باب: من لم يستطع الباء ة فليصم، 5 / 1950، الرقم: 4779، وفي کتاب: الصوم، باب: الصوم لمن خاف علي نفسه العزبة، 2 / 673، الرقم: 1806، ومسلم في الصحيح، کتاب: النکاح، باب: استحباب النکاح لمن تاقت نفسه إليه ووجده مؤنة، 2 / 1018. 1019، الرقم: 1400، وأبوداود في السنن، کتاب: النکاح، باب: التحريض علي النکاح، 2 / 219، الرقم: 2046، والنسائي في السنن، کتاب: الصيام، باب: في فضل الصائم، 4 / 8169، الرقم: 2239، 2241، وابن ماجه في السنن، کتاب: النکاح، باب: ماجاء في فضل النکاح، 1 / 592، الرقم: 1845، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 425، الرقم: 4035، وابن حبان في الصحيح، 9 / 335، الرقم: 4026.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے نوجوانو! جو تم میں عورتوں کے حقوق ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ ضرور نکاح کرے کیونکہ یہ نگاہ کو جھکاتا اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے اور جو نکاح کی طاقت نہ رکھے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزے رکھے، بے شک یہ اس کے لئے (برائی سے) بچاؤ کا ذریعہ ہے۔‘‘
165 / 47. عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷺ: قَالَ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِيَامِ الدَّهْرِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
الحديث رقم 47: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الصيام، باب: استحباب صوم ستة أيام من شوال إتباعا لرمضان، 2 / 822، الرقم / 1164، والترمذي في السنن، کتاب: الصوم عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في صيام ستة أيام من شوال، 3 / 132، الرقم: 759، وأبوداود في السنن، کتاب: الصوم، باب: في صوم ستة أيام من شوال، 2 / 324، الرقم: 2433، وابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: صيام ستة أيام من شوال، 10 / 547، الرقم: 1716، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 164، الرقم: 2866، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 135، الرقم: 3908، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 660، الرقم: 1512.
’’حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص رمضان المبارک کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے گویا اس نے عمر بھر کے روزے رکھے۔‘‘
166 / 48. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ: رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِذَا کَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَيْلَهَا وَصُوْمُوْا نَهَارَهَا فَإِنَّ اللهَ يَنْزِلُ فِيْهَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ إِلَي سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُوْلُ: أَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ؟ أَلَا مِنْ مُسْتَرْزِقٍ فَأَرْزُقَهُ؟ أَلاَ مُبْتَلًي فَأُعَافِيَهُ؟ أَلَا کَذَا أَلَا کَذَا؟ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 48: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في ليلة النصف من شعبان، 1 / 444، الرقم: 1388، والکناني في مصباح الزجاجة، 2 / 10، الرقم: 491، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 74، الرقم: 1550.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب پندرہ شعبان کی رات ہو تو اس رات کو قیام کیا کرو اور دن کو روزہ رکھا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ غروب آفتاب کے وقت آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے: کیا کوئی میری بخشش کا طالب ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کیا کوئی رزق مانگنے والا ہے کہ میں اسے رزق دوں؟ کیا کوئی بیمار ہے کہ میں اسے شفا دوں؟ کیا کوئی ایسے ہے؟ ایسے ہے؟ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔‘‘
167 / 49. عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ سُئِلَ عَنْ صِيَامِ يَوْمِ عَاشُوْرَاءَ، فَقَالَ: يُکَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
الحديث رقم 49: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الصيام، باب: استحباب صيام ثلاثة أيام من کل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء، 2 / 819، الرقم: 1162، والترمذي في السنن، کتاب: الصوم عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في الحث صوم يوم عاشوراء، 3 / 126، الرقم: 752، وأبوداود في السنن، کتاب: الصيام، باب: في صوم الدهر تطوعا، 2 / 321، الرقم: 2425، وابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: صيام يوم عاشوراء، 1 / 553، الرقم: 1738، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 150، الرقم: 2796، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 308، الرقم: 22674.
’’حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عاشورہ کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘
168 / 50. عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَومِ الاِثْنَيْنِ فَقَالَ: ذَلِکَ يَومٌ وُلِدْتُ فِيْهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ، أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيْهِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم50: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الصيام، باب: استحباب صيام ثلاثة أيام من کل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس، 2 / 819، الرقم: 1162، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 146، الرقم: 2777، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 297، الرقم: 22594، وابن حبان في الصحيح، 8 / 403، الرقم: 3642، وعبد الرزاق في المصنف، 4 / 295، الرقم: 7865، وأبويعلي في المسند، 1 / 133، الرقم: 144، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 300، الرقم: 8259.
’’حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوموار کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادتِ باسعادت ہوئی اور اسی دن میں مبعوث ہوا یا اسی دن مجھ پر قرآن نازل ہوا۔‘‘
169 / 51. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ: تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ يَوْمَ الاِثْنَيْنِ وَالْخَمِيْسِ فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 51: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الصوم عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في صوم يوم الاثنين والخميس، 3 / 122، الرقم: 747، وعبد الرزاق في المصنف، 4 / 314، الرقم: 7917، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 78، الرقم: 1569.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سوموار اور جمعرات کو اعمال (بارگاہِ الٰہی میں) پیش کئے جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔‘‘
170 / 52. عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رضي الله عنه قَالَ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنْ يَوْمِ عَرَفَةَ قَالَ: يُکَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ وَالْبَاقِيَةَ. رواه مسلم والترمذي: إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْسَبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: حَدِيْثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 52: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الصيام، باب: استحباب صيام ثلاثة أيام من کل شهر وصوم يوم عرفة، 2 / 819، الرقم: 1162، والترمذي في السنن، کتاب: الصوم عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في فضل صوم يوم عرفة، 3 / 124، الرقم: 749، وأبوداود في السنن، کتاب: الصوم، باب: في صوم الدهر تطوعا، 2 / 321، الرقم: 2425، وابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: صيام يوم عرفة، 1 / 551، الرقم: 1730، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 308، الرقم: 22674.
’’حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یوم عرفہ (نویں ذوالحجہ کے روزہ) کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (یوم عرفہ کا روزہ) گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ ( ترمذی کے الفاظ یہ ہیں) کہ یوم عرفہ کے روزہ کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ اسے گزشتہ اور آئندہ سال کا کفارہ بنا دیتا ہے۔‘‘
171 / 53. عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رضي الله عنهما، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، لَمْ أَرَکَ تَصُوْمُ مِنْ شَهْرٍ مِنَ الشُّهُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ؟ قَالَ: ذَاکَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَ رَمَضَانَ وَهُوَ شَعْرٌ تُرْفَعُ فِيْهِ الْأَعْمَالُ إِلَي رَبِّ الْعَالَمِيْنَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 53: أخرجه النسائي في السنن، کتاب: الصيام، باب: صوم النبي ﷺ بأبي هو وأمّي وذکر اختلاف الناقلين للخبر في ذلک، 4 / 201، الرقم: 2357، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 201، الرقم: 21801، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 2 / 82، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 346، الرقم: 9765، ونحوه البزار في المسند، 7 / 69، الرقم: 2617، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 4 / 108، الرقم: 1319، وقال: إسناده حسن، والبغوي في مسند أسامة، 1 / 123، الرقم: 48، والمحاملي في أمالي، 1 / 416، الرقم: 485.
’’حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جس قدر آپ ماہِ شعبان میں (نفلی) روزے رکھتے ہیں اس قدر میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں (نفلی) روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان میں (آتا) ہے اور لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں (پورے سال کے) عمل اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل روزہ دار ہونے کی حالت میں اٹھائے جائیں۔‘‘
172 / 54. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 54: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: تطوع قيام رمضان من الإيمان، 1 / 22، الرقم: 37، ومسلم في الصحيح، کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: الترغيب في قيام رمضان، 1 / 523، الرقم: 759، والنسائي في السنن، کتاب: قيام الليل وتطوع النهار، باب: ثواب من قام رمضان إيمانا واحتسابا، 3 / 201، الرقم: 1602. 1603، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 408، الرقم: 9277، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 336، الرقم: 2203، والدارمي في السنن، 2 / 42، الرقم: 1776.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان میں بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے گئے۔‘‘
173 / 55. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. وَمَنْ قامَ رَمَضَانَ إِيْمَاناً وَإحْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. وَمَنْ قامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيْمَانًا واحْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 55: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: صلاة التراويح، باب: فضل ليلة القدر، 2 / 709، الرقم: 1910، 37، 38، 1801، 1905، ومسلم في الصحيح کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح، 1 / 523، الرقم: 740، والترمذي في السنن، کتاب: الصوم عن رسول اللہ ﷺ، باب: الترغيب في قيام رمضان وما جاء فيه من الفضل، 3 / 171، الرقم: 808، وأبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: تفريع أبواب شهر رمضان، باب: في قيام شهر رمضان، 2 / 49، الرقم: 1371، والنسائي في السنن، کتاب: الصيام، باب: ثواب من قام رمضان وصامه إيمانا واحتسابا، 4 / 156، الرقم: 2، 22، وابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: ماجاء في فضل شهر رمضان، 1 / 526، الرقم: 1641.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے حالتِ ایمان میں اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور جو رمضان میں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے تو اس کے (بھی) سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور جو لیلۃ القدر میں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے گذشتہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔‘‘
174 / 56. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ ذَکَرَ شَهْرَ رَمضَانَ فَفَضَّلَهُ عَلَى الشُّهُوْرِ، وَقَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
وفي رواية له: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَتَعَالَى فَرَضَ صِيَامَ رَمَضَانَ عَلَيْکُمْ، وَسَنَنْتُ لَکُمْ قِيَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 56: أخرجه النسائي في السنن، کتاب: الصيام، باب: ذکر اختلاف يحيي بن أبي کثير والنضر بن شيبان فيه، 4 / 158، الرقم: 2208 - 2210، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في قيام شهر رمضان، 1 / 421، الرقم: 1328.
’’حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کا ذکر فرمایا تو سب مہینوں پر اسے فضیلت دی۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ایمان اور حصولِ ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا۔‘‘
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اور میں نے تمہارے لئے اس کے قیام (نمازِ تراویح) کو سنت قرار دیا ہے لہٰذا جو شخص ایمان اور حصولِ ثواب کی نیت کے ساتھ ماہ رمضان کے دنوں میں روزے رکھتا اور راتوں میں قیام کرتا ہے تو وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا۔‘‘
175 / 57. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيْمَةٍ، فَيَقُوْلُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. فَتُوُفِّيَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِکَ، ثُمَّ کَانَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِکَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَکْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَى ذَلِکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
الحديث رقم 57: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: صلاة التروايح، باب: فضل من قام رمضان، 2 / 707، الرقم: 1905، ومسلم في الصحيح، کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح، 1 / 523، الرقم: 759، والترمذي في السنن، کتاب: الصوم عن رسول اللہ ﷺ، باب: الترغيب في قيام رمضان وما جاء فيه من الفضل، 3 / 171، الرقم: 808، وقال أبوعيسي: هذا حديث حسن صحيح، وأبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: في قيام شهر رمضان، 2 / 49، الرقم: 1371، والنسائي في السنن، کتاب: الصيام، باب: ثواب من قام رمضان وصامه إيمانا واحتسابا، 4 / 154، الرقم: 2192، ومالک في الموطأ، کتاب: الصلاة في رمضان، باب: الترغيب في الصلاة في رمضان، 1 / 113، الرقم: 249، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 281، الرقم: 7774، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 338، الرقم: 2207، وابن حبان في الصحيح، 1 / 353، الرقم: 141، وعبد الرزاق في المصنف، 4 / 258، الرقم: 7719، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 493، الرقم: 4378، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 120، الرقم: 9299.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تراویح پڑھنے کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے چنانچہ فرماتے کہ جس نے رمضان المبارک میں حصولِ ثواب کی نیت سے اور حالتِ ایمان کے ساتھ قیام کیا تو اس کے سابقہ (تمام) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک نمازِ تراویح کی یہی صورت برقرار رہی اور خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں اور پھر خلافت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے شروع تک یہی صورت برقرار رہی۔‘‘
176 / 58. عَنْ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّهُ سَمِعَ مَنْ يَثِقُ بِهِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَقُولُ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أُرِيَ أَعْمَارَ النَّاسِ قَبْلَهُ أَوْ مَا شَاءَ اللهُ مِنْ ذَلِکَ فَکَأَنَّهُ تَقَاصَرَ أَعْمَارَ أُمَّتِهِ أَنْ يَبْلُغُوْا مِنَ الْعَمَلِ مِثْلَ الَّذِي بَلَغَ غَيْرُهُمْ فِي طُوْلِ الْعُمْرِ فَأَعْطَاهُ اللهُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شهْرٍ.
رَوَاهُ مَالِکٌ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 58: أخرجه مالک في الموطأ، کتاب: الاعتکاف، باب: ما جاء في ليلة القدر، 1 / 321، الرقم: 698، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 323، الرقم: 3667، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 65، الرقم: 1508.
’’حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ثقہ (یعنی قابل اعتماد) اہل علم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ امتوں کی عمریں دکھائی گئیں یا اس بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے چاہا دکھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کی کم عمروں کا خیال کرتے ہوئے سوچا کہ کیا میری امت اس قدر اعمال کر سکے گی جس قدر دوسری امتوں کے لوگوں نے طوالتِ عمر کے باعث کئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شبِ قدر عطا فرما دی جو ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔‘‘
177 / 59. عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! أَخْبِرْنَا عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: هِيَ فِي رَمَضَانَ الْتَمِسُوْهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فَإِنَّهَا وِتْرٌ فِي إِحْدَي وَعِشْرِيْنَ أَوْثَلَاثٍ وَعِشْرِيْنَ أَوْخَمْسٍ وَعِشْرِيْنَ أَوْسَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ أَوْ تِسْعٍ وَعِشْرِيْنَ أَوْ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ فَمَنْ قَامَهَا إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 59: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 318، 321، 324، الرقم: 22765، 22793، 22815، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 71، الرقم: 1284، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 65، الرقم: 1507، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 175 - 176.
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں شبِ قدر کے بارے میں بتائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ (رات) ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں اکسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں یا رمضان کی آخری رات ہوتی ہے۔ جو بندہ اس میں ایمان و ثواب کے ارادہ سے قیام کرے اس کے اگلے پچھلے (تمام) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔‘‘
178 / 60. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ: آمِيْنَ. آمِيْنَ. آمِيْنَ. قِيلَ يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّکَ حِيْنَ صَعِدْتَ الْمِنْبَرَ قُلْتَ: آمِيْنَ. آمِيْنَ. آمِيْنَ؟ قَالَ: إِنَّ جِبْرِيْلَ عليه السلام أَتَانِي، فَقَالَ: مَنْ أَدْرَکَ شَهْرَ رَمَضَانَ وَ لَمْ يُغْفَرْ لَهُ، فَدَخَلَ النَّارَ، فَأَبْعَدَهُ اللهُ. قُلْ: آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. وَمَنْ أَدْرَکَ أَبَوَيْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا فَلَمْ يَبَرَّهُمَا فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ فَأَبْعَدَهُ اللهُ. قُلْ آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. وَمَنْ ذُکِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْکَ فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ فَأَبْعَدَهُ اللهُ قُلْ: آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ خُزَيْمَةَ.
الحديث رقم 60: أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 3 / 192، الرقم: 1888، وابن حبان في الصحيح، 3 / 188، الرقم: 907، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 225، الرقم: 646، والبزار في المسند، 4 / 240، الرقم: 1405، 9 / 247، الرقم: 3790، وأبو يعلي في المسند، 10 / 328، الرقم: 5922، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 304، الرقم: 8287، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 17، الرقم: 8994، وفي المعجم الکبير، 2 / 243، الرقم: 2022، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 57، الرقم: 1481.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے تو تین بار آمین، آمین، آمین فرمایا۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! آپ منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو آپ نے آمین، آمین، آمین فرمایا (اس کی کیا وجہ ہے؟)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل علیہ السلام میرے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے: جس شخص نے ماہِ رمضان پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوسکی تو وہ آگ میں گیا، اسے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دور کر دے۔ (اے حبیبِ خدا!) آپ آمین کہیں۔ اس پر میں نے آمین کہا اور جس شخص نے ماں باپ دونوں کو پایا یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور ان کے ساتھ نیکی نہ کی اور مر گیا تو وہ آگ میں گیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کر دے: (اے حبیبِ خدا!) آپ آمین کہیں۔ تو میں نے آمین کہا اور وہ شخص جس کے پاس آپ کا ذکر کیا گیا اور اس نے آپ پر درود نہ پڑھا اور اسی حالت میں مر گیا تو وہ بھی آگ میں گیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کر دے (اے حبیب خدا!) آپ آمین کہیں تو میں نے آمین کہا۔‘‘
179 / 61. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ ثُمَّ لَمْ يَأْتِ فِرَاشَهُ حَتَّى يَنْسَلِخَ. رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَأَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 61: أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 3 / 342، الرقم: 2216، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 66، الرقم: 24422، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 310، الرقم: 3624، والسيوطي في الجامع الصغير، 1 / 143، الرقم: 211.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب ماہِ رمضان شروع ہو جاتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کمر بند کس لیتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔‘‘
180 / 62. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ تَغَيَرَ لَوْنُهُ وَکَثُرَتْ صَلَاتُهُ وَابْتَهَلَّ فِي الدُّعَاءِ وَأَشْفَقَ مِنْهُ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 62: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 310، الرقم: 3625، والسيوطي في الجامع الصغير، 1 / 143، الرقم: 212.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب ماہِ رمضان شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازوں کی (مزید) کثرت کر دیتے اور اللہ تعالیٰ سے عاجزی و گڑ گڑا کر دعا کرتے اور اس ماہ میں نہایت محتاط رہتے۔‘‘
181 / 63. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّ فِي رَمَضَانَ يُنَادِي مُنَادٍ بَعْدَ ثُلُثِ اللَّيْلِ الْأَوَّلِ أَوْ ثُلُثِ اللَّيْلِ الْآخِرِ أَلَا سَائِلٌ يَسْأَلُ فَيُعْطَي، أَلَا مُسْتَغْفِرٌ يَسْتَغْفِرُ فَيُغْفَرُ لَهُ، أَلَا تَائِبٌ يَتُوْبُ فَيَتُوْبُ اللهُ عَلَيْهِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 63: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 311، الرقم: 3628.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک رمضان المبارک میں رات کے پہلے تیسرے پہر کے بعد یا آخری تیسرے پہر کے بعد ایک ندا کرنے والا ندا کرتا ہے: ہے کوئی سوال کرنے والا کہ وہ سوال کرے تو اسے عطا کیا جائے؟ کیا ہے کوئی مغفرت کا طلبگار کہ وہ مغفرت طلب کرے تو اسے بخش دیا جائے؟ کیا ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ وہ توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے؟‘‘
182 / 64. عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ يَوْمًا وَحَضَرَ رَمَضَانُ: أَتَاکُمْ رَمَضَانُ شَهْرُ بَرَکَةٍ يَغْشَاکُمُ اللهُ فِيْهِ فَيُنْزِلُ الرَّحْمَةَ، وَيَحُطُّ الْخَطَايَا، وَيَسْتَجِيْبُ فِيْهِ الدُّعَاءَ، يَنْظُرُ اللهُ تَعَالَى إِلَي تَنَافُسِکُمْ فِيْهِ، وَيُبَاهِي بِکُمْ مَلَائِکَتَهُ فَأَرُوا اللهَ مِنْ أَنْفُسِکُمْ خَيْرًا، فَإِنَّ الشَّقِيَّ مَنْ حُرِمَ فِيْهِ رَحْمَةَ اللهِ عزوجل.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ الْمُنْذَرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ.
الحديث رقم 64: أخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 60، الرقم: 1490، وقال: رواه الطبراني ورواته ثقات، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 142، وقال: رواه الطبراني في الکبير.
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن فرمایا جبکہ رمضان المبارک شروع ہو چکا تھا: تمہارے پاس برکتوں والا مہینہ آگیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے۔ رحمت نازل فرماتا ہے، گناہوں کو مٹاتا ہے اور دعائیں قبول فرماتا ہے۔ اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں پر نظر فرماتا ہے اور تمہاری وجہ سے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے۔ لہٰذا تم اپنے قلب و باطن سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نیکی پیش کرو کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اس ماہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہا۔‘‘
183 / 65. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ذَاکِرُ اللهِ فِي رَمَضَانَ مَغْفُورٌ لَهُ، وَسَائِلُ اللهِ فِيْهِ لَا يَخِيْبُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 65: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 195، الرقم: 6170، 7 / 226، الرقم: 7341، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 311، الرقم: 3627، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 242، الرقم: 3141، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 64، الرقم: 1501، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 64.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ماہِ رمضان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخش دیا جاتا ہے اور اس ماہ میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے والے کو نامراد نہیں کیا جاتا۔‘‘
184 / 66. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللهُ ثُمَّ اعْتَکَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 66: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الاعتکاف، باب: الاعتکاف في العشر الأواخر والاعتکاف في المساجد، 2 / 713، الرقم: 1922، ومسلم في الصحيح، کتاب: الاعتکاف، باب: اعتکاف العشر الأواخر من رمضان، 2 / 831، الرقم: 1172، وأبوداود في السنن، کتاب: الصوم، باب: الاعتکاف، 2 / 331، الرقم: 2462، والترمذي نحوه في السنن، کتاب: الصوم عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في الاعتکاف، وقال: حديث حسن صحيح، 3 / 157، الرقم: 790، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 258، الرقم: 3338، وابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: في المعتکف يلزم مکانا من المسجد، 1 / 564، الرقم: 1773، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 92، الرقم: 24657.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ہے۔‘‘
185 / 67. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَعْتَکِفُ فِي کُلِّ رَمَضَانَ عَشْرَةَ أَيَامٍ، فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الَّذِيَ قُبِضَ فِيْهِ اعْتَکَفَ عِشْرِيْنَ يَوْمًا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 68: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الاعتکاف، باب: اعتکاف العشر الأواخر من رمضان، 2 / 830، الرقم: 1171، وأبوداود في السنن، کتاب: الصوم، باب: أين يکون الاعتکاف، 2 / 332، الرقم: 2465، وابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: في المعتکف يلزم مکانا من المسجد، 1 / 564، الرقم: 1773.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن اعتکاف کیا۔‘‘
186 / 68. عَنْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ قَالَ نَافِعٌ: وَقَدْ أَرَانِي عَبْدُ اللهِ رضي الله عنه الْمَکَانَ الَّذِي کَانَ يَعْتَکِفُ فِيْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مِنَ الْمَسْجِدِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.
الحديث رقم 67: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الاعتکاف، باب: الاعتکاف في العشر الأوسط من رمضان، 2 / 719، الرقم: 1939، وأبوداود في السنن، کتاب: الصوم، باب: أين يکون الاعتکاف، 2 / 332، الرقم: 2466، وابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: ماجاء في الاعتکاف، 1 / 562، الرقم: 1769، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 259، الرقم: 3343، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 336، الرقم: 8416، والدارمي في السنن، 2 / 43، الرقم: 1779.
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے مجھے مسجد میں وہ جگہ دکھائی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔‘‘
187 / 69. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ عُمَرَ رضي الله عنه سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: کُنْتُ نَذَرْتُ فِي الْجَاهِلِيَةِ أَنْ أَعْتَکِفَ لَيْلَةً فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَالَ: فَأَوْفِ بِنَذْرِکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 69: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الاعتکاف، باب: الاعتکاف ليلا، 2 / 714، الرقم: 1927، ومسلم في الصحيح، کتاب: الأيمان، باب: نذر الکافر وما يفعل فيه إذا أسلم، 3 / 1277، الرقم: 1656، والترمذي في السنن، کتاب: الأيمان والنذور عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في وفاء النذر، 4 / 112، الرقم: 1539، وقال أبوعيسي: حديث عمرو حديث حسن صحيح، وأبوداود في السنن، کتاب: الأيمان والنذور، باب: من نذر في الجاهلية ثم أدرک الإسلام، 3 / 242، الرقم: 3325، وابن ماجه في السنن، کتاب: الکفارات، باب: الوفاء بالنذر، 1 / 687، الرقم: 2129، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 37، الرقم: 255، والدارمي في السنن، 2 / 239، الرقم: 2333.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا: میں نے دورِ جاہلیت میں منت مانی تھی کہ خانہ کعبہ میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنی منت پوری کرو۔‘‘
188 / 70. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ النَّبِيُّ يَمُرُّ الْمَرِيْضَ وَهُوَ مُعْتَکِفٌ، فَيَمُرُّ کَمَا هُوَ وَلَا يُعَرِّجُ يَسْأَلُ عَنْهُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ.
الحديث رقم 70: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: الصوم، باب: المعتکف يعود المريض، 2 / 333، الرقم: 2472، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 321، الرقم: 8378.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی مریض کے پاس سے اعتکاف کی حالت میں گذرتے تو بغیر ٹھہرے حسب معمول گزرتے جاتے اور اس کا حال پوچھ لیتے۔‘‘
189 / 71. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ کَانَ إِذَا اعْتَکَفَ طُرِحَ لَهُ فِرَاشُهُ أَوْ يُوضَعُ لَهُ سَرِيْرُهُ وَرَاءَ أُسْطَوَانَةِ التَّوْبَةِ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ خُزَيْمَةَ.
الحديث رقم 71: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: المعتکف يلزم مکانا من المسجد، 1 / 564، الرقم: 1774، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 350، الرقم: 2236، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 385، الرقم: 13424، وفي المعجم الأوسط، 8 / 94، الرقم: 8071، والکناني في مصباح الزجاجة، 2 / 84، الرقم: 641، وقال: هذا إسناد صحيح.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اعتکاف فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ستون توبہ کے پیچھے تخت یا بستر بچھا دیا جاتا۔‘‘
190 / 72. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ فِي الْمُعْتَکِفِ: هُوَ يَعْتَکِفُ الذُّنُوْبَ وَيُجْرَي لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلِّهَا. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 72: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الصيام، باب: في ثواب الاعتکاف، 1 / 567، الرقم: 1781، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 207، الرقم: 6632، والکناني في مصباح الزجاجة، 2 / 85، الرقم: 643.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعتکاف کے بارے میں فرمایا: وہ گناہ سے روک دیتا ہے۔ اس کے لئے ایسی نیکیاں لکھی جاتی ہیں جو تمام نیکیوں پر عمل کرنے والوں کے لئے لکھی جاتی ہیں۔‘‘
191 / 73. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَنِ اعْتَکَفَ يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللہ عزوجل جَعَلَ اللهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ ثَلاَثَ خَنَادِقَ کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقِيْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِدٍ.
الحديث رقم 73: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 220، الرقم: 7326، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 263، الرقم: 3971، وقال: رواه الحاکم وقال: صحيح الإسناد، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 192.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کر دیتا ہے، ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلہ سے زیادہ لمبی ہے۔‘‘
192 / 74. عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ رضي الله عنهما عَنْ أَبِيْهِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنِ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِي رَمَضَانَ کَانَ کَحَجَّتَيْنِ وَعُمْرَتَيْنِ. رَوَاهُ الطَّبرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 74: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 128، الرقم: 2888، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 425، الرقم: 3966 - 3967، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2: 96، الرقم: 1649، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 173.
’’حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما اپنے والد (حضرت امام حسین علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف کرتا ہے اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔‘‘
193 / 75. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ: قَالَ: تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، وفي رواية: فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 75: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: صلاة التراويح، باب: تحري ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر، 2 / 710، الرقم: 1913، ومسلم في الصحيح، کتاب: الصيام، باب: فضل ليلة القدر والحث علي طلبها وبيان محلي وأرجي روينا طلبها، 2 / 823، الرقم: 1165 / 1169، والترمذي في السنن، کتاب: الصوم عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في ليلة القدر، وقال حديث عائشة رضي الله عنها حديث حسن صحيح، 3 / 158، الرقم: 792، وأبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: من روي في السبع الأواخر، 2 / 53، الرقم: 1385، ومالک في الموطأ، 1 / 319 - 320، الرقم: 693 - 694.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (اور ایک روایت میں ہے کہ رمضان کی آخری سات طاق راتوں) میں تلاش کیا کرو۔‘‘
194 / 76. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا بَقِيَ عَشْرٌ مِنْ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَاعْتَزَلَ أَهْلَهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
الحديث رقم 76: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 66، الرقم: 24422، والسيوطي في الجامع الصغير، 1 / 143، الرقم: 211.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب رمضان کے (آخری عشرہ) کے دس دن باقی رہ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کمر بند کس لیتے اور اپنے اہلِ خانہ سے الگ ہو (کر عبادت و ریاضت میں مشغول ہو) جاتے۔‘‘
195 / 77. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا کَانَ عَلَى ظَهْرِ غِنيً، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
الحديث رقم 77: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: النفقات، باب: وجوب النفقة علي الأهل والعيال، 5 / 208، الرقم: 5041، وأبوداود في السنن، کتاب: الزکاة، باب: الرجل يخرج من ماله، 2 / 129، الرقم: 1676، والنسائي في السنن، کتاب: الزکاة، باب: أي الصدقة أفضل، 5 / 69، الرقم: 2544.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد (بھی) خوشحالی قائم رہے، اور اِبتداء ان لوگوں سے کرو جو تمہارے زیرکفالت ہوں۔‘‘
196 / 78. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: يَا ابْنَ آدَمَ! إِنَّکَ أَنْ تَبْذُلَ الْفَضْلَ خَيْرٌ لَکَ، وَأَنْ تُمْسِکَهُ شَرٌّ لَکَ. وَلَا تُلَامُ عَلَى کَفَافٍ وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ. وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَي.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 78: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: بيان أن اليد العليا خير من اليد السفلي، 2 / 718، الرقم: 1036، والترمذي في السنن، کتاب: الشهادات عن رسول اللہ ﷺ، باب: منه (32)، 4 / 573، الرقم: 2343، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 182، الرقم: 7570، وفي شعب الإيمان، 3 / 224، الرقم: 3386، والرؤياني في المسند، 2 / 303، الرقم: 1251، والطيالسي مثله في المسند، 1 / 40، الرقم: 312، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 334، الرقم: 1230.
’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابن آدم! تیرے لیے ضرورت سے زائد چیز کا خرچ کرنا بہتر ہے اور (ضرورت سے زائد اپنے پاس) روکے رکھنا تیرے لئے برا ہے، اور بقدرِ ضرورت (اپنے پاس) رکھنے پر تجھے کچھ ملامت نہیں اور پہلے ان پر خرچ کرو جو تمہارے زیرکفالت ہیں اور اُوپر کا ہاتھ (یعنی دینے والا ہاتھ) نیچے کے ہاتھ (یعنی لینے والے ہاتھ) سے بہتر ہے۔‘‘
197 / 79. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! أَرَأَيْتَ إِنْ أَدَّي الرَّجُلُ زَکَاةَ مَالِهِ؟ فَقَالَ: مَنْ أَدَّي زَکَاةَ مَالِهِ فَقَدْ ذَهَبَ عَنْهُ شَرُّهُ.
رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 79: أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 4 / 13، الرقم: 2258، والحاکم في المستدرک، 1 / 547، الرقم: 1439، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 161، الرقم: 1579، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 301، الرقم: 1111، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 63 .
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یارسول اللہ! اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی، اس مال کا شر اس سے جاتا رہا ۔‘‘
198 / 80. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِذَا أَدَّيْتَ الزَّکَاةَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْکَ، وَمَنْ جَمَعَ مَالًا حَرَامًا ثُمَّ تَصَدَّقَ بِهِ لَمْ يَکُنْ لَهُ فِيْهِ أَجْرٌ، وَکَانَ أَجْرُهُ عَلَيْهِ.
رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 80: أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 4 / 110، الرقم: 2471، وابن حبان في الصحيح 5 / 11، الرقم: 3216، والحاکم في المستدرک، 1 / 547، الرقم: 1440.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تو نے (اپنے مال کی) زکوٰۃ ادا کر دی تو تو نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ اور جو شخص حرام مال جمع کرے پھر اسے صدقہ کر دے اسے اس صدقہ کا کوئی ثواب نہیں ملے گا بلکہ اس کا بوجھ اس پر ہو گا۔‘‘
199 / 81. عَنِ الْحَسَنِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: حَصِّنُوْا أَمْوَالَکُمْ بِالزَّکَاةِ، وَدَاوُوْا أَمْرَاضَکُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَاسْتَقْبِلُوْا أَمْوَاجَ الْبَلَاءِ بِالدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 81: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: المراسيل: 133، والطبراني عن عبد اللہ بن مسعود رضي الله عنه في المعجم الأوسط، 2 / 279، الرقم: 1923 وفي المعجم الکبير، 10 / 128، الرقم: 10194، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 282، الرقم: 3558، والمنذري في الترغيب والترهيب،1 / 301، الرقم: 1112، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 63 .
’’حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے مال و دولت کو زکوٰۃ کے ذریعے بچاؤ اور اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو اور مصیبت کی لہروں کا سامنا دعا اور گریہ و زاری کے ذریعے کرو۔‘‘
200 / 82. عَنْ عَلْقَمَةَ رضي الله عنه، قَالَ: فَقَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ تَمَامَ إِسْلَامِکُمْ أَنْ تُوَدُّوا زَکَاةَ أَمْوَالِکُمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالشَّيْبَانِيُّ.
الحديث رقم 82: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 18 / 8، الرقم: 6، وابن قانع في معجم الصحابة، 2 / 285، الرقم: 816، والشيباني في الآحاد والمثاني، 4 / 309، الرقم: 2334، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 301، الرقم: 1113، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 62، وقال: رواه البزار .
’’حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا: تمہارے اسلام کی تکمیل یہ ہے کہ تم اپنے مال کی (کامل) زکوٰۃ ادا کیا کرو۔‘‘
201 / 83. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِىءُ غَضَبَ الرَّبِّ، وَتَدْفَعُ عَنْ مِيْتَةِ السُّوْءِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَابْنُ حِبَّانَ.
الحديث رقم 83: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الزکاة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في فضل الصَّدَقَةِ، 3 / 52، الرقم: 664، وابن حبان في الصحيح، 8 / 103، الرقم: 3309، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 213، الرقم: 3351، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 / 218، الرقم: 1897، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 272، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 413، الرقم: 3834، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 7، الرقم: 1283.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک صدقہ اللہتعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔‘‘
202 / 84. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: تَبَسُّمُکَ فِي وَجْهِ أَخِيْکَ لَکَ صَدَقَةٌ، وأَمْرُکَ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهْيُکَ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَةٌ، وَإِرْشَادُکَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَکَ صَدَقَةٌ، وَبَصَرُکَ لِلرَّجُلِ الرَّدِيئِ الْبَصَرِ لَکَ صَدَقَةٌ، وَإِمَاطَتُکَ الْحَجَرَ وَالشَّوْکَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيْقِ لَکَ صَدَقَةٌ، وَإِفْرَاغُکَ مِنْ دَلْوِکَ فِي دَلْوِ أَخِيْکَ لَکَ صَدَقَةٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَى: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 84: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: البر والصلة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في صَنَائِعِ المعروف، 4 / 339، الرقم: 1956، وابن حبان في الصحيح، 2 / 286، الرقم: 529، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 183، الرقم: 8342، والبزار في المسند، 9 / 457، الرقم: 4070، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 235، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 2 / 817، الرقم: 813، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 282، الرقم: 4074، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 134، وفي موارد الظمآن، 1 / 220، الرقم: 864.
’’حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا بھی صدقہ ہے، تمہارا نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے، اور تمہارا بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھانا بھی تمہارے لیے صدقہ ہے، اور تمہارا کسی اندھے کو راستہ دکھانا بھی تمہارے لیے صدقہ ہے، اور تمہارا راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (وغیرہ تکلیف دہ چیز) کا ہٹانا بھی تمہارے حق میں صدقہ ہے اور اپنے ڈول سے دوسرے بھائی کی بالٹی میں پانی ڈالنا بھی صدقہ ہے۔‘‘
203 / 85. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: يُصْبِحُ عَلَى کُلِّ سُلَامَي مِنْ أَحَدِکُمْ صَدَقَةٌ. فَکُلُّ تَسْبِيْحَةٍ صَدَقَةٌ. وَکُلُّ تَحْمِيْدَةٍ صَدَقَةٌ. وَکُلُّ تَهْلِيْلَةٍ صَدَقَةٌ. وَکُلُّ تَکْبِيْرَةٍ صَدَقَةٌ وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَةٌ وَنَهْيٌ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَةٌ وَيُجْزِء مِنْ ذَلِکَ رَکْعَتَانِ يَرْکَعُهُمَا مِنَ الضُّحَى. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
الحديث رقم 85: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: استحباب صلاة الضحي، 1 / 498، الرقم: 720، وفي کتاب: الزکاة، باب: بيان أن اسم الصدقة يقع علي کل نوع من المعروف، 2 / 607، الرقم: 1006، وابن حبان في الصحيح، 3 / 119، الرقم: 838، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 167، الرقم: 21511، 7612، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 47، الرقم: 4677، 7612، والبزار في المسند، 9 / 352، الرقم: 352، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 54، الرقم: 29460، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 264، الرقم: 994.
’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کے جوڑ پر صدقہ ہے جب وہ صبح کرے، (ہر جوڑ کی طرف سے ادائیگی صدقہ یہ ہے کہ) ہر دفعہ (سُبْحَانَ اللهِ) کہنا صدقہ ہے اور ہر دفعہ (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ) کہنا صدقہ ہے اور ہر دفعہ (لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ) کہنا صدقہ ہے اور ہر دفعہ (اَللهُ أَکْبَرُ) کہنا صدقہ ہے اور نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے اور ان سب کی طرف سے چاشت کے دو نفل کافی ہیں۔‘‘
204 / 86. عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم 86: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: ماجاء أن الأعمال بالنية والحسبة، ولکل امري ءِ مانوي، 1 / 30، الرقم: 55، ومسلم في الصحيح کتاب: الزکوة، باب: فضل النفقة والصدقة علي الأقربين والزوج والأولاد والوالدين ولو کانوا مشرکين، 2 / 695، الرقم: 1002، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 122.
’’حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو وہ (جو کچھ خرچ کرتا ہے) اس کے لیے صدقہ (کا ثواب) ہے۔‘‘
205 / 87. عَنْ ثَوْبَانَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَفْضَلُ دِيْنَارٍ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ دِيْنَارٌ يُنْفِقُهُ عَلَى عِيَالِهِ. وَدِيْنَارٌ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلَى دَابَّتِهِ فِي سَبِيْلِ اللهِ. وَدِيْنَارٌ يُنْفِقُهُ عَلَى أَصْحَابِهِ فِي سَبِيْلِ اللهِ. قَالَ أَبُوقِلَابًةَ: وَبَدَأَ بِالْعَيَالِ: ثُمَّ قَالَ أَبُوْقِلَابَةَ: وَأَيُّ رَجُلٍ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنْ رَجُلٍ يُنْفِقُ عَلَى عِيَالٍ صِغَارٍ، يُعِفُّهُمْ أَوْ يَنْفَعُهُمُ اللهُ بِهِ، وَ يُغْنِيهِمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 87: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: فضل النفقة علي العيال والمملوک وإثم من ضيعهم أوحبس نفقتهم عنهم، 2 / 691، الرقم: 994، والترمذي في السنن، کتاب: البر والصلة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في النفقَةِ عَلَي الأَهْلِ، 4 / 344، الرقم: 1966، وابن ماجه في السنن، کتاب: الجهاد، باب: فضل النفقة في سبيل اللہ تعالي، 2 / 922، الرقم: 2760، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 376، الرقم: 9182، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 279، الرقم: 22459، 22506، وابن حبان في الصحيح، 10 / 53، الرقم: 4242، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 178، الرقم: 7546، وفي شعب الإيمان، 3 / 237، الرقم: 3422، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 262، الرقم: 748، وابن رجب في جامع العلوم والحاکم، 1 / 236، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 41، الرقم: 2998.
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بہترین دینار وہ ہے جو کوئی شخص اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے، بہترین دینار وہ ہے جو کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی سواری پر خرچ کرتا ہے اور بہترین دینار وہ ہے جو کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے۔ ابو قلابہ نے کہا: آپ نے گھر والوں پر خرچ سے شروع کیا تھا۔ پھر ابوقلابہ نے کہا: اس شخص سے زیادہ اور کس کا اجر ہوگا جو اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کے سبب اُن بچوں کو نفع دیتا ہے اور غنی کرتا ہے۔‘‘
206 / 88. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: دِيْنَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيْلِ اللهِ. وَدِيْنَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي رَقَبَةٍ وَدِيْنَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلَى مِسْکِيْنٍ. وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِکَ أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِکَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخارِيُّ فِي الْأَدَبَ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 88: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: فضل النفقة علي العيال والمملوک وإثم من ضيعهم أو حبس نفقتهم عنهم، 2 / 692، الرقم: 995، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 263، الرقم: 751، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 476، الرقم: 10177، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 39، الرقم: 9079، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 222، الرقم: 3079، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 236، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 41، الرقم: 2997.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک دینار وہ ہے جسے تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم غلام کی گردن آزاد کرانے میں خرچ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم مسکین پر صدقہ کرتے ہو اور ایک دینار وہ ہے جسے تم اپنے اہل خانہ پر خرچ کرتے ہو ان میں سب سے زیادہ اجر اس دینار پر ملے گا جسے تم اپنے اہل خانہ پر خرچ کرتے ہو۔‘‘
207 / 89. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: أَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بِالصَّدَقَةِ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَارَسُوْلَ اللهِ عِنْدِي دِيْنَارٌ. قَالَ: فَقَالَ: تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى نَفْسِکَ. قَالَ: عِنْدِي آخَرُ قَالَ: تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى وَلَدِکَ: قَالَ: عِنْدِي آخَرُ. قَالَ: تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى زَوْجَتِکَ أَوْ زَوْجِکَ. قَالَ: عِنْدِي آخَرُ قَالَ. أَنْتَ أَبْصَرُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 89: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: الزکاة، باب: في صلة الرحم، 2 / 132، الرقم: 1691، والنسائي في السنن، کتاب: الزکاة، باب: تفسير لک، 5 / 62، الرقم: 2535، وفي السنن الکبري، 2 / 34، الرقم: 2314، 9181، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 78، الرقم: 197، 750، وابن حبان في الصحيح، 8 / 126، الرقم: 3337، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 237، الرقم: 8508، والحاکم في المستدرک، 1 / 585، الرقم: 1514، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 466، وفي شعب الإيمان، 3 / 236، الرقم: 3421، والشافعي في المسند، 1 / 266، والشافعي في السنن الماثورة، 1 / 393، الرقم: 549، وأبو المحاسن في معتصر المختصر،1 / 126، والحميدي في المسند، 2 / 495، الرقم: 1176، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 42، الرقم: 3005.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ کرنے کا حکم فرمایا تو ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے اوپر خرچ کر لو۔ اس نے عرض کیا: میرے پاس اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنی اولاد پر خرچ کر لو، عرض کیا: میرے پاس اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنی بیوی پر خرچ کر لو۔ عرض کیا: میرے پاس اور بھی ہے فرمایا: جس کے لیے تم مناسب سمجھو (اس پر خرچ کرو)۔‘‘
208 / 90. عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: الصَّدَقَةُ عَلَى الْمِسْکِيْنِ صَدَقَةٌ وَعَلَى ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ.
رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 90: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الزکوة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في الصدقة علي ذي القرابة، 3 / 46، الرقم: 658، والنسائي في السنن، کتاب: الزکوة، باب: الصدقة علي الأقارب، 5 / 92، الرقم: 2582، وابن ماجه في السنن، کتاب: الزکاة، باب: فضل الصدقة، 1 / 591، الرقم: 1844، وابن خزيمة في الصحيح، 8 / 132، الرقم: 3344، والحاکم في المستدرک، 1 / 564، الرقم: 1476.
’’حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی حاجت مند کو صدقہ دینا (صرف) ایک صدقہ ہے اور رشتہ دار کو صدقہ دینا دو صدقات (کے برابر) ہیں، ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔‘‘
209 / 91. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَيْتَ، فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ کَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 91: أخرجه البخاري في الصحيح، أبواب: العمرة، باب: قول اللہ تعالي: فلا رفث، 2 / 645، الرقم: 1723، 1449، 1724، ومسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: فضل الحج والعمرة ويوم عرفة، 2 / 983، الرقم: 1350، والنسائي في السنن، کتاب: مناسک الحج، باب: فضل الحج، 5 / 114، الرقم: 2627، وابن ماجه في السنن، کتاب: المناسک، باب: فضل الحج والعمرة، 2 / 964، الرقم: 2887.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اس گھر (کعبہ) کا حج کیا پس وہ نہ تو عورت کے قریب گیا اور نہ ہی کوئی گناہ کیا تو (تمام گناہوں سے پاک ہو کر) اس طرح واپس لوٹا جیسے اس کی ماں نے اُسے جنم دیا تھا۔‘‘
210 / 92. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَلْعُمْرَةُ إِلَي الْعُمْرَةِ کَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 92: أخرجه البخاري في الصحيح، أبواب: العمرة، باب: وجوب العمرة وفضلها، 2 / 629، الرقم: 1683، ومسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: في فضل الحج والعمرة ويوم عرفة، 2 / 983، الرقم: 1349، والترمذي في السنن، کتاب: الحج عن رسول اللہ ﷺ، باب: ما ذکر في فضل العمرة، 3 / 272، الرقم: 933 وقال أبوعيسي: هذا حديث حسن صحيح، والنسائي في السنن، کتاب: مناسک الحج، باب: فضل العمرة، 5 / 115، الرقم: 2629، وابن ماجه في السنن، کتاب: المناسک، باب: فضل الحج والعمرة، 2: 964، الرقم: 2888.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کا درمیانی عرصہ گناہوں کا کفارہ ہے، اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ جنت ہی ہے۔‘‘
211 / 93. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ لَمْ يَمْنَعْهُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ أَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ، فَمَاتَ وَلَمْ يَحُجَّ فَلْيَمُتْ إِنْ شَآءَ يَهُوْدِيًا وَإِنْ شَآءَ نَصْرَانِيًا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
الحديث رقم 93: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الحج عن رسول اللہ ﷺ، باب: مَا جَاء فِي التّغْلِيظِ في ترک الحج، 3 / 176، الرقم: 812، والدارمي في السنن، 2 / 45 الرقم: 1785، وابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 305، الرقم: 14450، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 334، الرقم: 8443، وفي شعب الإيمان، 3 / 430، الرقم: 3979، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 625، الرقم: 5951، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 137، الرقم: 1820.
’’حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو فریضۂ حج کی ادائیگی میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری (یعنی سخت مرض) نہ روکے اور وہ پھر (بھی) حج نہ کرے اور (فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر ہی) مر جائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر (اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے)۔‘‘
212 / 94. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَلْحُجَّاجُ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ اللهِ. إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَهُمْ، وَإِنِ اسْتَغْفَرُوْهُ غَفَرَ لَهُمْ.
وَفِي رِوَايَةٍ: اَلْغَازِيُّ فِي سَبِيْلِ اللهِ وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 94: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: المناسک، باب: فضل دعاء الحج، 2 / 9، الرقم: 2892، وابن حبان في الصحيح، 9 / 447، الرقم: 3692، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 247، الرقم: 6311، والبيهقي في السنن الکبري، 5 / 262، الرقم: 10168، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 107، الرقم: 1697، وَ قَالَ الْمُنْذرِيُّ: رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخش دیتا ہے۔ (ایک روایت میں) جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا (کے الفاظ بھی ہیں)۔‘‘
213 / 95. عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ دَخًلَ الْبَيْتَ دَخَلَ فِي حَسَنَةٍ وَخَرَجَ مِنْ سَيِئَةٍ مَغْفُوْرًا لَهُ.
رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 95: أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 4 / 332، الرقم: 3013، والطبراني في المعجم الکبير، 11 / 200، الرقم: 11490، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 293.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوگیا وہ نیکی میں داخل ہوگیا اور برائی سے خارج ہو کر مغفرت پا گیا۔‘‘
214 / 96. عَنْ أَبِي هُرَيْرةَ رضي الله عنه، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، قَدْ فُرِضَ عَلَيْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوْا. فَقَالَ رَجُلٌ: أَکُلَّ عَامٍ يَارَسُوْلَ اللهِ؟ فَسَکَتَ حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثاً. فَقَالَ: لَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَوَجَبَتْ وَلَمَّا اسْتًطَعْتُمْ. ثُمَّ قَالَ: ذَرُوْنِي مَا تَرَکْتُکُمْ، فَإِنَّمَا هَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ، وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَيءٍ فَأْتُوْا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، وَإِذَا نَهَيْتُکمْ عَنْ شَيءٍ فَدَعَوْهُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ.
الحديث رقم 96: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: فرض الحج مرة في العمر، 2 / 975 الرقم: 1337، والترمذي في السنن، کتاب: الحج عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء کم فرض الحج، 3 / 178، الرقم: 814، والنسائي في السنن، کتاب: مناسک الحج، باب: وجوب الحج، 5 / 110، الرقم: 2619، وابن ماجة في السنن، کتاب: المناسک، باب: فرض الحج، 2 / 963، الرقم: 2884، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 129، الرقم: 2508.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر حج فرض کر دیا گیا ہے پس حج کیا کرو۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہر سال حج فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ تین مرتبہ اس نے یہی عرض کیا۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہر سال) فرض ہو جاتا اور پھر تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔ پھر فرمایا: میری اتنی ہی بات پر اکتفا کیا کرو جس پر میں تمہیں چھوڑوں، اس لئے کہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کی بناء پر ہی ہلاک ہوئے تھے، لہٰذا جب میں تمہیں کسی شے کا حکم دوں تو بقدر استطاعت اسے بجا لایا کرو اور جب کسی شے سے منع کروں تو اسے چھوڑ دیا کرو۔‘‘
215 / 97. عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي الْحَجَرِ: وَاللهِ لَيَبْعَثُهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا، وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ يَشْهَدُ عَلَى مَنِ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَابْنُ خَزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ.
الحديث رقم 97: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الحج عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في الحجر الأسود، 3 / 294، الرقم: 971، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 220، الرقم: 2735، وابن حبان في الصحيح، 9 / 25، الرقم: 3712، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 247، الرقم: 2215، والبيهقي في السنن الکبري، 5 / 75، الرقم: 9014.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرِ اسود کے متعلق فرمایا: اللہ تعالیٰ کی قسم! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے دو آنکھیں عطا فرمائے گا جن سے یہ دیکھے گا اور ایک زبان عطا فرمائے گا جس سے یہ بولے گا اور ہر اس شخص کے متعلق گواہی دے گا جس نے حالتِ ایمان میں اسے بوسہ دیا۔‘‘
216 / 98. عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيْعَةَ، عَنْ عُمَرَ رضي الله عنه أَنَّهُ جَاءَ إِلَي الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ، فَقَالَ: إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ، لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يُقَبِّلُکَ ما قَبَّلْتُکَ. وفي رواية: قَالَ عُمَرُ: شَيئٌ صَنَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ فَلاَ نُحِبُّ أَنْ نَتْرُکَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْه وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم 98: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الحج، باب: ما ذُکر في الحجر الأسود، 2 / 579، الرقم: 1520، 1528، ومسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: استحباب تقبيل الحجر الأسود في الطواف، 2 / 925، الرقم: 1270، وأبوداود في السنن، کتاب: المناسک، باب: في تقبيل الحجر، 2 / 175، الرقم: 1873، والنسائي في السنن، کتاب: مناسک الحج، باب: کيف يقبل، 5 / 227، الرقم: 2938، وابن ماجه في السنن، باب: استلام الحجر، 2 / 981، الرقم: 2943، ومالک في الموطأ، 1 / 367، الرقم: 818، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 16، الرقم: 99، والبزار في المسند، 1 / 949، الرقم: 139، وابن حبان في الصحيح، 4 / 212، الرقم: 2711.
’’حضرت عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر کہا: میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ وہ کام ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادا فرمایا ہے پس ہم نہیں چاہتے کہ اسے ترک کر دیں۔‘‘
217 / 99. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَيْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَيَطَؤُهُ الدَّجَّالُ إِلَّا مَکَّةَ وَالْمَدِيْنَةَ لَيْسَ لَهُ مِنْ نِقَابِهَا نَقْبٌ إِلَّا عَلَيْهِ الْمَلَائِکَةُ صَافِّيْنَ يَحْرُسُوْنَهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 99: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل المدينة، باب: لا يدخل الدجال المدينة، 2 / 665، الرقم: 1782، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفتن وأشراط الساعة، باب: قصة الجساسة، 4 / 2265، الرقم: 2943، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 485، الرقم: 4274، وابن حبان في الصحيح، 15 / 214، الرقم: 6803، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 6 / 1163، الرقم: 638.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی شہر ایسا نہیں جسے دجال نہ روندے سوائے مکّہ مکرّمہ اور مدینہ منوّرہ کے۔ ان کے راستوں میں سے ہر راستہ پر صف بستہ فرشتے حفاظت کر رہے ہوں گے۔‘‘
218 / 100. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: يَوْمَ افْتَتَحَ مَکَّةَ، فَإِنَّ هَذَا بَلَدٌ حَرَّمَهُ اللهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، وَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللهِ إِلَي يَومِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيْهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللهِ إِلَي يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَا يُعْضَدُ شَوْکُهُ وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ، وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا وَلَا يُخْتَلَي خَلَاهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 100: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: جزاء الصَّيدِ، باب: لا يحل القتال بمکة، 2 / 651، الرقم: 1737، وفي کتاب: الجزية، باب: إثم الغادر للبر والفاجر، 3 / 1164، الرقم: 3017، ومسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: تحريم مکة وصيدها وخلاها وشجرها ولقطتها إلا لمنشد علي الدوام، 2 / 986، الرقم: 1353، والنسائي في السنن، کتاب: مناسک الحج، باب: حرمة مکة، 5 / 203، الرقم: 2874، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 259، الرقم: 2353، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 441، الرقم: 4007.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللهُ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ فتح کیا تو اس روز فرمایا: اس شہر کواللہ تعالیٰ نے اس دن سے حرمت عطا فرمائی ہے جس روز آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کی حرمت کے باعث تا قیامت حرام ہے اور اِس میں جنگ کرنا کسی کے لئے نہ مجھ سے پہلے حلال ہوا نہ میرے لئے مگر دن کی ایک ساعت کے لئے، پس وہ اللہ تعالیٰ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک حرام ہے۔ نہ اِس کا کانٹا توڑا جائے اور نہ اس کا شکار بھڑکایا جائے اور اس کی گری پڑی چیز صرف وہ اٹھائے جس نے اعلان کرنا ہو اور نہ یہاں کی گھاس اُکھاڑی جائے۔‘‘
219 / 101. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَدِيِّ ابْنِ حَمْرَاءَ الزُّهْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ وَاقِفًا عَلَى الْحَزْوَرَةِ، فَقَالَ: وَاللهِ إِنَّکِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللهِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَي اللهِ وَلَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْکِ مَا خَرَجْتُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وابْنُ مَاجَه.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت عبداللہ بن عدی بن حمرا رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقام حزورہ پر کھڑے ہو کر فرماتے ہوئے سنا: اللہ رب العزت کی قسم! اے مکہ تو اللہ تعالیٰ کی ساری زمین سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کو ساری زمین سے زیادہ محبوب ہے اگر مجھے تجھ سے نکل جانے پر مجبور نہ کیا جاتا تو میں ہرگز نہ جاتا۔‘‘
220 / 102. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لِمَکَّةَ مَا أَطْيَبَکِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّکِ إِلَيَّ وَلَولَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُوْنِي مِنْکِ مَا سَکَنْتُ غَيْرَکِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَابْنُ حِبَّانَ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 102: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب: في فضل مکة، 5 / 723، الرقم: 3926، وابن حبان في الصحيح، 9 / 23، الرقم: 3709، والحاکم في المستدرک، 1 / 661، الرقم: 1787، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 267، 270، الرقم: 10624، 10633، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 443، الرقم: 4013.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کر کے فرمایا: (اے مکہ!) تو کتنا اچھا شہر ہے اور مجھے کتنا عزیز ہے اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔‘‘
221 / 103. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِيْنَ صَلَاةً، وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُجُمَّعُ فِيْهِ بِخَمْسِ مِائَةِ صَلَاةٍ. وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَي بِخَمْسِيْنَ أَلْفِ صَلَاةٍ. وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِي بِخَمْسِيْنَ أَلْفِ صَلَاةٍ. وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ.
وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ: رُوَاتُهُ ثِقَاتٌ.
الحديث رقم 103: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في الصلاة في المسجد الجامع، 1 / 453، الرقم: 1413، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 112، الرقم: 7008، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 140، الرقم: 1833.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے گھر میں نماز پڑھے اسے ایک نماز کا، اور جو اپنے قبیلے کی مسجد میں نماز پڑھے اسے پچیس نمازوں کا، اور جو جامع مسجد میں نماز پڑھے اسے پانچ سو نمازوں کا، اور جو جامع مسجد اقصی اور میری مسجد (مسجد نبوی) میں نماز پڑھے اسے پچاس ہزار کا، اور جو مسجد حرام میں نماز پڑھے اسے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔‘‘
222 / 104. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَارَسُوْلَ اللهِ! أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلُ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ. قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الْأَقْصَي. قُلْتُ: کَمْ کَانَ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: أَرْبَعُوْنَ سَنَةً، ثُمَّ أَيْنَمَا أَدْرَکَتْکَ الصَّلَاةُ بَعْدُ فَصَلِّهْ، فَإِنَّ الْفَضْلَ فِيْهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 104: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأنبياء، باب: يَزِفُّونَ النَّسلاَنُ فِي المَشْيِ، 3 / 1231، الرقم: 3186، وفي کتاب: الأنبياء، باب: قول اللہ تعالي: وَوَهَبْنَا لِدَاوُدَ سُلَيْمَانَ: (ص: 30) الرَّاجِعُ الْمُنِيْبُ، 3 / 1260، الرقم: 3243، ومسلم في الصحيح، کتاب: المساجد ومواضع الصلاة، 1 / 370، الرقم: 530، والنسائي في السنن، کتاب: المساجد، باب: ذکر أي مسجد وضع أولا، 2 / 32، الرقم: 690، وفي السنن الکبري، 1 / 255، الرقم: 769، وابن ماجه في السنن، کتاب: المساجد والجماعات، باب: أي مسجد وضع أول، 1 / 248، الرقم: 753، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 150، الرقم: 21371، 21420، 21427، 21428، 21459، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 5، الرقم: 787، 1290، وابن حبان في الصحيح، 4 / 475، الرقم: 1598: 14 / 120، الرقم: 6228، وعبد الرزاق في المصنف، 1 / 403، الرقم: 1578 - 5925، والبزار في المسند، 9 / 410، الرقم: 4015.
’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں عرض کیا: یارسول اللہ! زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیت الحرام۔ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ میں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) ان دونوں (مسجدوں) کی تعمیر کے درمیان کتنا وقفہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: چالیس سال۔ لیکن تم جہاں وقت ہو جائے اسی جگہ نماز پڑھ لیا کرو اسی میں تمہارے لئے فضیلت ہے۔‘‘
223 / 105. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ لِهَذَا الْحَجَرِ لِسَانًا وَشَفَتَيْنِ يَشْهَدُ لِمَنِ اسْتَلَمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَقٍّ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 105: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 266، الرقم: 2398، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 221، الرقم: 2736، وابن حبان في الصحيح، 9 / 25، الرقم: 1 / 37، والحاکم في المستدرک، 1 / 627، الرقم: 1680، وأبويعلي في المسند، 5 / 107، الرقم: 2719، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 450، الرقم: 4035، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 10 / 204، الرقم: 209.210.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اس پتھر (حجرِ اسود) کو اللہ تعالیٰ نے ایک زبان اور دو ہونٹ عطا فرمائے ہیں جن سے یہ قیامت کے دن ان لوگوں کے بارے میں گواہی دے گا جنہوں نے حق سمجھ کر اسے بوسہ دیا ہو گا۔‘‘
224 / 106. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما يَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: إِنَّ الرُّکْنَ وَالْمَقَامَ يَاقُوْتَتَانِ مِنْ يَاقُوْتِ الْجَنَّةِ طَمَسَ اللهُ نُوْرَهُمَا وَلَوْلَمْ يَطْمِسْ نُوْرَهُمَا لَأَضَاءَتَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 106: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الحج عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في فضل الحجر الأسود والرکن والمقام، 3 / 226، الرقم: 878، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 213 - 214، الرقم: 7000 - 7008، وابن حبان في الصحيح، 9 / 24، الرقم: 3710، والحاکم في المستدرک، 1 / 626، الرقم: 1677، وروي عن أنس بن مالک رضي الله عنه بنحوه في المستدرک، 1 / 627، الرقم: 1678، وعبد الرزاق في المصنف، 5 / 39، الرقم: 8921.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رکنِ یمانی اور مقامِ ابراہیم جنت کے یاقوتوں میں سے دو یاقوت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے نور کی روشنی بجھا دی ہے اگراللہ تعالیٰ انہیں نہ بجھاتا تو ان کی روشنی مشرق سے مغرب تک سارا ماحول روشن کر دیتی۔‘‘
225 / 107. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 107: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجمعة، باب: فضل ما بين القبر والمنبر، 1 / 399، الرقم: 1138، وفي کتاب: الحج، باب: کراهية النبي ﷺ أن تعري المدينة، 2 / 667، الرقم: 1789، وفي کتاب: الرقاق، باب: في الحوض، 5 / 2408، الرقم: 6216، وفي کتاب: الإعتصام بالکتاب والسنة، باب: ذکر النبي ﷺ، وفي باب: حض علي إتفاق أهل العلم ومااجتمع عليه الحرمان مکة والمدينة، 6 / 2672، الرقم: 6904، ومسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: ما بين القبر والمنبر روضة من رياض الجنة، 2 / 110، 111، الرقم: 1390 - 1391، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب: ما جاء في فضل المدينة، 50 / 718 - 719، الرقم: 3915 - 3916، والنسائي في السنن، کتاب: المساجد، باب: فضل مسجد النبي ﷺ والصلاة فيه، 2 / 35، الرقم: 695، والنسائي في السنن الکبري، 1 / 257، الرقم: 774، 2 / 35، الرقم: 695، ومالک في الموطأ، 1 / 197، الرقم: 463 - 464، وأحمد بن حنبل، في المسند، 2 / 236، الرقم: 7222.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔‘‘
226 / 108. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ الإِيمَانَ لَيَأْرِزُ إِلَي الْمَدِيْنَةِ، کما تَأْرِزُ الْحَيَةُ إِلَي جُحْرِهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 108: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل المدينة، باب: باب: الإيمانُ يأرز إلي المدينة، 2 / 663، الرقم: 1777، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان أن الإسلام بدأ غريبا وسيعود غريبا وإنه يأرز بين المسجدين، 1 / 131، الرقم: 147، والترمذي في السنن، کتاب: الإيمان عن رسول اللہ ﷺ، باب: ما جاء أن الإسلام بدأ غريبا وسيعود غريبا، 5 / 18، الرقم: 2630، وابن ماجه في السنن، کتاب: المناسک، باب: فضل المدينة، 2 / 108، الرقم: 3111، وابن حبان في الصحيح، 9 / 46، الرقم: 7833.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے قریب) ایمان اِس طرح مدینہ منورہ کی طرف سمٹ جائے گا جیسے سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے۔‘‘
227 / 109. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: اَلْمَدِيْنَةُ حَرَمٌ مِنْ کَذَا إِلَي کَذَا، لَا يُقْطَعُ شَجَرُهَا، وَلَا يُحْدَثُ فِيهَا حَدَثٌ، مَنْ أَحْدَثَ فِيْهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وهذا لفظ البخاري وزاد مسلم: لَا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرَفاً وَلَا عَدَلاً.
الحديث رقم 109: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل المدينة، باب: حرم المدينة، 2 / 661، الرقم: 1768، وفي کتاب: الإعتصام بالکتاب والسنة، باب: إثم من آوي محدثا، 6 / 2665، الرقم: 6876، ومسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: فضل المدينة ودعاء النبي ﷺ فيها بالبرکة وبيان تحريمها وتحريم صيدها وشجرها وبيان حدود حرمها، 2 / 994، الرقم: 1366، والبيهقي في السنن الکبري، 5 / 197، الرقم: 9739، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 193.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مدینہ منورہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک حرم ہے اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ اس میں کوئی فتنہ بپا کیا جائے جو اس میں فتنہ کا کوئی کام ایجاد کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے یہ الفاظ بھی انہی کے ہیں اور مسلم نے ان الفاظ کے اضافہ کے ساتھ روایت کیا ہے کہ: ’’قیامت کے دن اس کا فرض و نفل کچھ بھی قبول نہ ہوگا۔‘‘
228 / 110. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِنَّ إِبْرَاهِيْمَ حَرَّمَ مَکَّةَ وَإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا. لَا يُقْطَعُ عِضَاهُهَا وَلَا يُصَادُ صَيْدُهَا.
رَوَاهُ مُسلِمٌ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 110: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: فضل المدينة ودعاء النبي ﷺ فيها بالبرکة وبيان تحريمها وتحريم صيدها وشجرها وبيان حدود حرمها، 2 / 992، الرقم: 1362، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 184، والعسقلاني في فتح الباري، 4 / 84، والزرقاني في شرحه علي موطا إمام مالک، 4 / 283، والنووي في شرحه علي صحيح مسلم، 9 / 136.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے درمیان مدینہ منورہ کو حرم قرار دیتا ہوں نہ وہاں کوئی درخت اور جھاڑی کاٹی جائے اور نہ ہی وہاں کوئی جانور شکار کیا جائے۔‘‘
229 / 111. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَلَا يُرِيدُ أَحَدٌ أَهْلَ الْمَدِينَةِ بِسُوْءٍ إِلَّا أَذَابَهُ اللهُ فِي النَّارِ ذَوْبَ الرُّصَاصِ، أَوْ ذَوْبَ الْمِلْحِ فِي الْمَاءِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.
الحديث رقم 111: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: فضل المدينة ودعاء النبي ﷺ فيها بالبرکة وبيان تحريمها وتحريم صيدها وشجرها وبيان حدود حرمها، 2 / 992، الرقم: 1363، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 486، الرقم: 4279، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 184، الرقم: 1606، وابن کثير الدورقي في مسند سعد، 1 / 82، الرقم: 38، وإبراهيم الجندي في فضائل المدينة، 1 / 29، الرقم: 28.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اہلِ مدینہ کو تکلیف دینا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ دوزخ میں اسے اس طرح پگھلائے گا جس طرح آگ میں سیسہ پگھلتا ہے یا جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے۔‘‘
230 / 112. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ: رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: عَلَى أَنْقَابِ الْمَدِيْنَةِ مَلَائِکَةٌ لَا يَدْخُلُهَا الطَّاعُوْنُ وَلَا الدَّجَّالُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 112: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل المدينة، باب: لا يدخل الدجال المدينة، 2 / 664، الرقم: 1781، وفي کتاب: الطب، باب: ما يُذْکَرُ في الطاعون، 5 / 2165، الرقم: 5399، وفي کتاب: الفتن، باب: لا يدخل الدجال المدينة، 6 / 2609، الرقم: 6714، ومسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: صيانة المدينة من دخول الطاعون والدجال إليها، 2 / 1005، الرقم: 1379، ومالک في الموطأ، 2 / 892، الرقم: 1582، والجندي في فضائل المدينة، 1 / 24، الرقم: 15، والمقريء في السنن الواردة في الفتن، 6 / 1165، الرقم: 2، وأبونعيم في المسند المستخرج، 4 / 47، الرقم: 3193.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مدینہ منورہ کے راستوں پر فرشتے (بطور محافظ مقرر) ہیں لہٰذا طاعون اور دجال اس(مقدس شہر) میں داخل نہیں ہوں گے۔‘‘
231 / 113. عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَا يَدْخُلُ الْمَدِيْنَةَ رُعْبُ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ، لَهَا يَومَئِذٍ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ، عَلَى کُلِّ بَابٍ مَلَکَانِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.
الحديث رقم 113: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل المدينة، باب: لايدخُلُ الدَّجَّال المدينة، 2 / 664، الرقم: 1780، وفي کتاب: الفتن، باب: ذکر الدجال، 6 / 2607، الرقم: 6707، وابن حبان في الصحيح، 9 / 48، الرقم: 3731، 6805، والحاکم في المستدرک، 4 / 585، الرقم: 8627، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 406، الرقم: 32425، 37483.
’’حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مسیح دجال کا رعب مدینہ کے اندر داخل نہیں ہو گا اس دن اس (شہر) کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے مقرر ہوں گے۔‘‘
232 / 114. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: قَالَ: اَللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِيْنَةِ ضِعْفَي مَاجَعَلْتَ بِمَکَّةَ مِنَ الْبَرَکَةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 114: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل المدينة، باب: المدينة تَنْفِي الخَبَثَ، 2 / 666، الرقم: 1786، ومسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: فضل المدينة ودعا النبي ﷺ فيها بالبرکة وبيان تحريمها وتحريم صيدها وشجرها وبيان حدود حرمها، 2 / 994، الرقم: 1369، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 148، الرقم: 1873.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! مدینہ منورہ میں اس سے دوگنا برکت عطا فرما جتنی تو نے مکہ مکرمہ میں رکھی ہے۔‘‘
233 / 115. عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: مَنْ صَبَرَ عَلَى لَأْوَائِهَا وَشِدَّتِهَا، کُنْتُ لَهُ شَهِيدًا أَوْ شَفِيْعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ (يَعْنِي الْمَدِينَةَ). رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسّائِيُّ وَمَالِکٌ.
الحديث رقم 115: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: الترغيب في سکني المدينة والصبر علي لأْوائها، 2 / 1004، الرقم: 1377، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 487، الرقم: 4281، ومالک في الموطأ، 2 / 885، الرقم: 1569، وابن حبان في الصحيح، 3 / 56، الرقم: 3739، والبهيقي في شعب الايمان، 3 / 496، الرقم: 4179، والجندي في فضائل المدينة، 1 / 31، الرقم: 32. 34، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 145.146، الرقم: 1857.1858، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 300: 6 / 119، وَقَالَ الهيثميُّ: وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جو شخص مدینہ منورہ کی سختیوں اور مصیبتوں پر صبر کرے گا قیامت کے دن میں اس کا گواہ ہوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘
234 / 116. عَن أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: لَا يَصْبِرُ عَلَى لَأْوَاءِ الْمَدِيْنَةِ وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي، إِلاَّ کُنْتُ لَهُ شَفِيْعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَوْشَهِيْدًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
الحديث رقم 116: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: الترغيب في سکني المدينة والصبر علي لأْوائها، 2 / 1004، الرقم: 1378.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے جو شخص بھی مدینہ پاک کی تنگی اور سختی پر صبر کرے گا۔ قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved