1. فَصْلٌ فِي الإِيْمَانِ
(اِیمان کا بیان)
2. فَصْلٌ فِي حَقِيْقَةِ الإِيْمَانِ
(حقیقتِ ایمان کا بیان)
3. فَصْلٌ فِي عَلَامَاتِ الْمُؤْمِنِ وَأَوْصَافِهِ
(مومن کی علامات اور صفات کا بیان)
4. فَصْلٌ فِي الإِسْلَامِ
(اِسلام کا بیان)
5. فَصْلٌ فِي عَلَامَاتِ الْمُسْلِمِ وَأَوْصَافِهِ
(مسلمان کی علامات اور صفات کا بیان)
6. فَصْلٌ فِي حَقِّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ
(مسلمان کے مسلمان پر حقوق کا بیان)
7. فَصْلٌ فِي الإِحْسَانِ
(اِحسان کا بیان)
8. فَصْلٌ فِي عَلَامَاتِ الْمُحْسِنِ وَأَوْصَافِهِ
(محسن کی علامات اور صفات کا بیان)
9. فَصْلٌ فِي عَلَامَاتِ الْکُفْرِ وَالنِّفَاقِ
(کفر اور نفاق کی علامات کا بیان)
1 / 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ ﷺ: الإِيْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُوْنَ شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا: قَوْلُ لَا إِلَهَ اِلَّا اللهُ، وَأَدْنَاهَا: إِمَاطَةُ الْأَذَي عَنِ الطَّرِيْقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيْمَانِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
الحديث رقم 1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: أمور الإيمان، 1 / 12، الرقم: 9، ولفظه: الإِيْمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّوْنَ شُعْبَةٌ وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِِيْمَانِ، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان عدد شعب الإيمان وأفضلها وأدناها، 1 / 63، الرقم: 35، وزاد (أَوْبِضْعٌ وَسِتُّوْنَ)، والترمذي بنحوه في السنن، کتاب: الإيمان عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في استکمال الإيمان وذيادته ونقصانه، 5 / 10، الرقم: 2614، وقال أبوعيسي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في ردّ الإرجاء، 4 / 219، الرقم: 4676، والنسائي في السنن، کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: ذکر شعب الإيمان، 8 / 110، الرقم: 5005، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: في الإيمان، 1 / 22، الرقم: 57.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں جن میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ (یعنی وحدانیتِ الٰہی) کا اقرار کرنا ہے اور ان میں سب سے نچلا درجہ کسی تکلیف دہ چیز کا راستے سے دور کر دینا ہے، اور حیاء بھی ایمان کی ایک (اہم) شاخ ہے۔‘‘
2 / 2. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِيْهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الإِيْمَانِ: (وفي رواية: حَلَاوَةَ الإِسْلَامِ) أَن يَکُوْنَ اللهُ وَرَسُوْلُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَ أَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا ِللهِ، وَ أَنْ يَکْرَهَ أَنْ يَعُوْدَ فِي الْکُفْرِ کَمَا يَکْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: حلاوةِ الإِيمانِ، 1 / 14، الرقم: 16، وفي کتاب: الإيمان، باب: مَنْ کَرِهَ أَن يعودَ في الکفرِ کَمَا يَکْرَهُ أَن يُلقَي في النَّارِ مِنَ الإِيْمَانِ، 1 / 16، الرقم: 21، وفي کتاب: الإکراهِ، باب: مَنِ اخْتَارَ الضَّربَ وَالقَتلَ وَالهَوَانَ عَلىٰ الکُفْرِ، 6 / 2546، وفي کتاب: الأدب، باب: الحُبِّ في اللّٰهِ، 5 / 2246، الرقم: 5694، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان خصال من اتصف بهن وجد حلاوة الإيمان، 1 / 66، الرقم: 43، والترمذي في السنن، کتاب: الإيمان عن رسول اللہ ﷺ، باب: (10)، والنسائي في السنن، کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: طعم الإيمان، 8 / 94، الرقم: 4987، وفي باب: حلاوة الإيمان، 8 / 96، الرقم: 4988، وفي کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: حلاوة الإسلام، 8 / 97، الرقم: 4989، وابن ماجه في السنن، کتاب: الفتن، باب: الصَّبْرِ عَلىٰ الْبَلَاءِ، 2 / 13338، الرقم: 4033، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 103، الرقم: 12021، وأبويعلي في المسند، 5 / 194، الرقم: 2813، وابن حبان في الصحيح، 1 / 474، الرقم: 238، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 164، الرقم: 30360.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس (اور ایک روایت میں ہے کہ اسلام کی مٹھاس) کو پالے گا: اللہ عزوجل اور اس کا رسول ﷺ اسے باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں، جس شخص سے بھی اسے محبت ہو وہ محض اللہ عزوجل کی وجہ سے ہو، کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ (حالتِ) کفر میں لوٹنے کو وہ اسی طرح ناپسند کرتا جیسے وہ خود کو آگ میں پھینکا جانا ناپسند کرتا ہو۔‘‘
3 / 3. عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ الثَّقَفِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، قُلْ: لِي فِي الإِسْلَامِ قَوْلًا لَا أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا بَعْدَکَ (وفي حديث أبي أسامة: غَيْرَکَ). قَالَ: قُلْ: آمَنْتُ بِاللهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
الحديث رقم 3: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: جامع أوصاف الإسلام، 1 / 65، الرقم: 38، والنسائي في السنن الکبري، سورة الأحقاف، 6 / 458، الرقم: 11489، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 413، والدارمي في السنن، 2 / 386، الرقم: 2710، والشيباني في الآحاد والمثاني، 3 / 222، الرقم: 1584، وابن منده في الإيمان، 1 / 286، الرقم: 140، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 15، الرقم: 21.
’’حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اسلام کے متعلق مجھے کوئی ایسی بات بتا دیں کہ پھر میں آپ کے بعد (اور ابو اسامہ سے مروی روایت میں ہے کہ عرض کیا: آپ کے سوا) اسے کسی اور سے دریافت نہ کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کہو! میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا، پھر اس پر پختگی سے قائم رہو۔‘‘
4 / 4. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّى أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 4: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: حُبُّ الرَّسُوْلِ ﷺ مِنَ الإِيْمَانِِ، 1 / 14، الرقم: 15، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: وجوب محبّة رسول اللہ ﷺ أکثر من الأهل والولد والوالد والناس أجمعين، 1 / 67، الرقم: 44.
وفي رواية للبخاري: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، وَذَکَرَ نَحْوَهُ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإِيْمَانِ، باب: حُبُّ الرَّسُوْلِ ﷺ مِنَ الإِيْمَانِ، 1 / 14، الرقم: 14.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘
’’اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! (اِس کے بعد سابقہ الفاظِ حدیث ہیں)۔‘‘
5 / 5. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ (وَفِي حَدِيْثِ عَبْدِ الْوَارِثِ: الرَّجُلِ) حَتَّى أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
الحديث رقم 5: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: وجوب محبة رسول اللہ ﷺ أکثر من الأهل والولد والوالد والناس أجمعين وإطلاق عدم الإيمان علي من لم يحبه هذه المحبة، 1 / 67، الرقم: 44، وأحمد بن حنبل مثله في المسند، 5 / 162، الرقم: 21480، وأبويعلي في المسند، 7 / 6، الرقم: 3895، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 129، الرقم: 1375، وابن حيان في العظمة، 5 / 1780، الرقم: 2824، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 53، الرقم: 6169، وابن منصور في کتاب السنن، 2 / 204، الرقم: 2443.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے گھروالوں، اس کے مال اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘
6 / 6. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ هِشَامٍ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيءٍ إِلاَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الآنَ، وَاللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: الآنَ يَا عُمَرُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
الحديث رقم 6: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأيْمَانِ وَالنُّذُوْرِ، باب: کَيْفَ کَانَتْ يَمِيْنُ النَّبِيِ ﷺ، 6 / 2445، الرقم: 6257.
’’حضرت عبد اللہ بن ھِشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں (تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ رب العزت کی قسم! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، چنانچہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے عمر! اب (تمہارا ایمان کامل ہوا) ہے۔‘‘
7 / 7. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ أَحَبَّ ِللهِ، وَأَبْغَضً ِللهِ، وَأَعْطَى ِللهِ، وَمَنَعَ ِللهِ، فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الإِيْمَانَ.
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 7: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: الدليل علي زيادة الإيمان ونقصانه 4 / 220، الرقم: 4681، والحاکم في المستدرک، 2 / 178 الرقم: 2694، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 41، الرقم: 9083.
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی، اللہ تعالیٰ کے لئے عداوت رکھی، اللہ تعالیٰ کے لئے دیا اور اللہ تعالیٰ کے لئے دینے سے ہاتھ روک لیا پس اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا ہے۔‘‘
8 / 8. عَنْ مُعَاذٍ رضي الله عنه قَالَ: کُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ ﷺ عَلىٰ حِمَارٍ يُقَالُ لَهُ عُفَيْرٌ، فَقَالَ: يَا مُعَاذُ، هَلْ تَدْرِي حَقَّ اللهِ عَلىٰ عِبَادِهِ، وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلىٰ اللهِ. قُلْتُ: اَللهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّ حَقَّ اللهِ عَلىٰ الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوْهُ، وَلَا يُشْرِکُوْا بِهِ شَيْئًا، وَحَقَّ الْعِبَادِ عَلىٰ اللهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِکُ بِهِ شَيْئًا. فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَفَلَا أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ؟ قَالَ: لَا تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّکِلُوْا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 8: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجهاد، باب: اسم الفَرَسِ والحمار، 3 / 1049، الرقم: 2701، وفي کتاب: اللباس، باب: إرداف الرّجُلِ خلف الرجلِ، 5 / 2224، الرقم: 5622، وفي کتاب: الاستئذان، باب: مَن أجاب بَلبّيک وسعديک، 5 / 2312، الرقم: 5912، وفي کتاب: الرقاق، باب: من جاهد نفسه في طاعة اللہ، 5 / 2384، الرقم: 6135، وفي کتاب: التوحيد، باب: ماجاء في دُعَاءِ النَّبِيِ ﷺ أمَّتَهُ إلي توحيد اللہ تبارک وتعالي، 6 / 2685، الرقم: 2938، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: الدليل علي أن من مات علي التوحيد دخل الجنة، 1 / 58. 59، الرقم: 30، والترمذي في السنن، کتاب: الإيمان عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في افتراق هذه الأمة، 5 / 26، الرقم: 2643، وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: ما يرجي من رحمة اللہ يوم القيامة، 2 / 1435، الرقم: 4296، والنسائي في السنن الکبري، 3 / 443، الرقم: 5877.
’’حضرت معاذ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے پیچھے عفیر نامی دراز گوش پر سوار تھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اے معاذ! کیا تمہیں معلوم ہے بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے، اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں، اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جو شخص شرک نہ کرے وہ اسے عذاب نہ دے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں یہ خوشخبری لوگوں تک نہ پہنچا دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ انہیں یہ خوشخبری مت دو کہ پھر وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہیں گے (اور عمل میں کوتاہی کریں گے)۔‘‘
9 / 9. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَمُعَاذٌ رَدِيفُهُ عَلىٰ الرَّحْلِ، قَالَ: يَا مُعَاذُ ابْنَ جَبَلٍ، قَالَ: لَبَّيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ وَسَعْدَيْکَ، قَالَ: يَا مُعَاذُ، قَالَ: لَبَّيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ وَسَعْدَيْکَ، ثَلَاثًا، قَالَ: مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ إِلَّا حَرَّمَهُ اللهُ عَلىٰ النَّارِ. قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوْا؟ قَالَ: إِذًا يَتَّکِلُوْا. وَ أَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تأَثُّمًا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 9: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: العلم، باب: مَن خصَّ بالعلم قوما دون قومٍ، کراهيةَ أن لاَ يَفْهَمُوا، 1 / 59، الرقم: 128، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: الدليل علي أن من مات علي التوحيد دخل الجنة قطعا، 1 / 61، الرقم: 32، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 147، الرقم: 125، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 841، الرقم: 1564، وابن منده في الإيمان، 1 / 234، الرقم: 93، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 266، الرقم: 2344.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقعہ پر جبکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کی سواری پر آپ ﷺ کے پیچھے سوار تھے، حضور نبی اکرم ﷺ نے (حضرت معاذ سے) فرمایا: اے معاذ بن جبل! حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: لبیک یا رسول اللہ و سعدیک! حضرت انس کہتے ہیں کہ تین مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت معاذ کو مخاطب کیا اور ہر مرتبہ حضرت معاذ نے یہی الفاظ دہرائے۔ تیسری مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی سچے دل سے اس بات کی شہادت دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد مصطفی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اس بات سے لوگوں کو مطلع نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں! اگر تم انہیں یہ بات بتا دو گے تو وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہیں گے (اور عمل میں کوتاہی کریں گے) چنانچہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اپنے انتقال کے وقت بیان کی تاکہ حدیث بیان نہ کرنے کی وجہ سے گناہگار نہ ہوں۔‘‘
10 / 10. عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ أَبِي الصَّلْتِ الْهَرَوِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَي الرِّضَا، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنهم، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: الإِيْمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ وَقَوْلٌ بِاللِّسَانِ وَعَمَلٌ بِالْأَرْکَانِ. قَالَ أَبُوالصَّلْتِ: لَوْ قُرِءَ هَذَا الإِسْنَادُ عَلىٰ مَجْنُوْنٍ لَبَرَأَ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 10: أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: في الإيمان، 1 / 25، الرقم: 65، والطبراني في العمجم الأوسط، 6 / 226، الرقم: 6254، 8 / 262، الرقم: 8580، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 47، الرقم: 16، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 2 / 742، والسيوطي في شرحه سنن ابن ماجه، 1 / 8، الرقم: 65، وابن القيم في حاشية علي سنن أبي داود، 2 / 294.
’’امام عبدالسلام بن ابی الصلت الہروی امام علی بن موسی الرضا سے وہ اپنے والد (امام موسی الرضا) سے وہ امام جعفر بن محمد سے وہ اپنے والد (امام محمد الباقر) سے وہ امام علی بن حسین سے وہ اپنے والد (امام حسین علیہ السلام) سے وہ (اپنے والد) حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایمان دل سے پہچاننے، زبان سے اقرار کرنے اور ارکان پر عمل کرنے کا نام ہے۔ (امام ابن ماجہ کے شیخ) امام ابوصلت ہروی فرماتے ہیں کہ اگر یہ سند (عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَی الرِّضَا، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنهم) کسی پاگل پر پڑھ کر دم کی جائے تو وہ ٹھیک ہو جائے۔‘‘
11 / 11. عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مَالِکٍ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه أَنَّهُ مَرَّ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ لَهُ: کَيْفَ أْصْبَحْتَ يَا حَارِثُ، قَالَ: أَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا حَقًّا.
فَقَالَ: انْظُرْ مَا تَقُوْلُ، فَإِنَّ لِکُلِّ شَيءٍ حَقِيْقَةٌ، فَمَا حَقِيْقَةُ إِيْمَانِکَ؟ فَقَالَ: عَزَفَتْ نَفْسِي عَنِ الدُّنْيَا وَأَسْهَرْتُ لِذَالِکَ لَيْلِي وَاظْمَأَنَّ نَهَارِي، وَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَي عَرْشِ رَبِّي بَارِزًا (وفي رواية: قَالَ عَزَفَتْ نَفْسِي عَنِ الدُّنْيَا وَأَسْهَرْتُ لَيْلِي وَاظْمَأْتُ نَهَارِيِ وَکَأَنِّي أَنْظُرُ عَرْشَ رَبِّي بَارِزًا) وَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَي أَهْلِ الْجَنَّةِ يَتَزَاوَرُوْنَ فِيْهَا، وَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَي أَهْلِ النَّارِ يَتَضَاغُوْنَ فِيْهَا. قَالَ: يَا حَاِرثُ، عَرَفْتَ فَالْزَمْ، ثَلَاثًا.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ
الحديث رقم 11: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 266، الرقم: 3367، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 362، الرقم: 10590 - 10591، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 170، الرقم: ، 30423، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 165، الرقم: 445، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 57، وقال: رواه البزار، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 36.
وفي رواية: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه: فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: أَصَبْتَ فَالْزَمْ، مُؤْمِنٌ نَوَّرَ اللهُ قَلْبَهُ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْهَيْثَمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 170، الرقم: 30425، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 363، الرقم: 10592، وفي کتاب الزهد الکبير، 2 / 355، الرقم: 973، وابن المبارک في الزهد، 1 / 106، الرقم: 314، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 57، وقال الهيثمي: رواه البزار.
’’حضرت حارث بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا: اے حارث! تو نے کیسے صبح کی؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے سچے مومن کی طرح (یعنی حقیقت ایمان کے ساتھ) صبح کی، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یقینا ہر ایک شے کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے، سو تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میرا نفس دنیا سے بے رغبت ہو گیا ہے اور اسی وجہ سے اپنی راتوں میں بیدار اور دن میں (دیدارِ الٰہی کی طلب میں) پیاسا رہتا ہوں اور حالت یہ ہے گویا میں اپنے رب کے عرش کو سامنے ظاہر دیکھ رہا ہوں اور اہل جنت کو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور دوزخیوں کو تکلیف سے چلاتے دیکھ رہا ہوں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے حارث! تو نے (حقیقتِ ایمان کو) پہچان لیا، اب (اس سے) چمٹ جا۔ یہ کلمہ آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا۔‘‘
’’اور یہی روایت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ مروی ہے: حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تو نے حقیقتِ ایمان کو پالیا، پس اس حالت کو قائم رکھنا، تو وہ مومن ہے جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے نور سے بھر دیا ہے۔‘‘
12 / 12. عَنْ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوْحِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا يُحِقُّ الْعَبْدُ حَقِيقَةَ الإِيْمَانِ حَتَّى يَغْضَبَ ِللهِ وَيَرْضَى ِللهِ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِکَ اسْتَحَقَّ حَقِيْقَةَ الإِيْمَانِ، وَإِنَّ أَحِبَّائِي وَأَوْلِيَائِي الَّذِيْنَ يُذکَرُوْنَ بِذِکْرِي وَأُذْکَرُ بِذِکْرِهِمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
الحديث رقم 12: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 430، الرقم: 15634، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 203، الرقم: 651، وابن أبي الدنيا في کتاب الأولياء، 1 / 15، الرقم: 19، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 152، الرقم: 7789، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 14، الرقم: 4589، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 365، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 58 .
’’حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی (کسی سے) ناراض اور اللہ تعالیٰ کے لئے ہی (کسی سے) راضی نہ ہو (یعنی اس کی رضا کا مرکز و محور فقط خوشنودی ذاتِ الٰہی ہو جائے) اور جب اس نے یہ کام کر لیا تو اس نے ایمان کی حقیقت کو پالیا، اور بے شک میرے احباب اور اولیاء وہ لوگ ہیں کہ میرا ذکر کرنے سے وہ یاد آجاتے ہیں اور ان کا ذکر کرنے سے میں یاد آ جاتا ہوں۔ (میرے ذکر سے ان کی یاد آ جاتی ہے اور ان کے ذکر سے میری یاد آ جاتی ہے یعنی میرا ذکر ان کا ذکر ہے اور ان کا ذکر میرا ذکر ہے)۔‘‘
13 / 13. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا يَسْتَقِيْمُ إِيْمَانُ عَبْدٍ حَتَّى يَسْتَقِيْمَ قَلْبُهُ، وَلَا يَسْتَقِِيْمُ قَلْبُهُ حَتَّى يَسْتَقِيْمَ لِسَانُهُ، وَ لَا يَدْخُلُ (الْجَنَّةَ رَجُلٌ) لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 13: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 198، الرقم: 13071، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 41، الرقم: 8، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 62، الرقم: 887، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 240، الرقم: 3860، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 75، والهيثمي في مجمع الزوائد ووثّقه، 1 / 53.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کسی بندہ کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک اس کا دل درست نہ ہو اور دل اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک اس کی زبان درست نہ ہو جائے، اور کوئی بھی شخص اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا پڑوسی اس کی اذیت سے محفوظ نہ ہو جائے۔‘‘
14 / 14. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: ثَلَاثٌ مِنْ أَخْلَاقِ الإِيْمَانِ: مَنْ إِذَا غَضِبَ لَمْ يُدْخِلْهُ غَضَبُهُ فِي بَاطِلٍ، وَمَنْ إِذَا رَضِيَ لَمْ يُخْرِجْهُ رِضَاهُ مِنْ حَقٍّ، وَمَنْ إِذَا قَدَرَ لَمْ يَتَعَاطَ مَا لَيْسَ لَهُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 14: أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 114، الرقم: 164، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 87، الرقم: 2466، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 59، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 148.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تین چیزیں اخلاق ایمان میں سے ہیں: جب کسی کو غصہ آئے تو وہ غصہ اسے (عمل) باطل میں نہ ڈال دے، اور جب کوئی خوش ہو تو وہ خوشی اسے حق سے نکال نہ دے، اور وہ شخص جو قدرت رکھتا ہے مگر پھر بھی وہ چیز نہیں لیتا جو اس کی نہیں ہے۔‘‘
15 / 15. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ کَانْ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم 15: أخرجه البخاري في الصحيح، کِتاب: الأَدَبِ، باب: مَن کَانَ يُؤْمِنَ بِالله وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِ جَارَهُ، 5 / 2240، الرقم: 5672، وَ في کِتاب الأَدَبِ، باب: إکْرَامِ الضَّيْفِ وَ خِدْمَتِهِ إِيَاهُ بِنَفْسِهِ، 5 / 2273، الرقم: 5785، وفي کتاب: الرِّقَاقِ، باب: حِفْظِ اللِّسَانِ، 5 / 2376، الرقم: 6110، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: الحث علي إکرام الجار والضيف ولزوم الصمت إلا عن الخير، 1 / 6968، الرقم: 47 - 48، والترمذي في السنن، کتاب: الصفة والرقائق والورع عن رسول اللہ ﷺ، باب: (50)، 4 / 659، الرقم: 2500، وقال أبوعيسي: هذا حديث صحيح، وفي الباب: عن عَاءِشَةَ وَ أنَسٍ وَ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِ الْکَعْبِيِ الْخَزَاعِيِ وإسمُهُ خُوَيْلَدُ بْنَُ عَمْرٍو، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: في حق الجوار، 4 / 339، الرقم: 5154، وابن ماجه في السنن، کتاب: الأدب، باب: حق الجوار، 2 / 1211، الرقم: 3672، وابن حبان في الصحيح، 2 / 273، الرقم: 516، والدارمي في السنن، 2 / 134، الرقم: 2036.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو اللہ عزوجل پر اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے اپنے ہمسائے کو نہ ستائے، اور جو اللہ عزوجل اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ عزوجل اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے منہ سے اچھی بات نکالے یا خاموش رہے۔‘‘
16 / 16. عَنْ أَبِي مُوْسَي رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعضُهُ بَعْضًا، وَ شَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 16: أخرجه البخاري في الصحيح، کتابُ: المَظَالِمِ، باب: نَصرِ الْمَظْلُوْمِ، 2 / 863، الرقم: 2314، وفي کتاب: الصلاة، باب: تشبيک الأصابع في المسجد وغيره، 1 / 182، الرقم: 467، وفي کتاب: الأدب، باب: تعاون المؤمنين بعضهم بعضا، 5 / 2242، الرقم: 5680، ومسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والآدب، باب: تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم، 4 / 1999، الرقم: 2585، والترمذي في السنن، کتاب: البر والصلة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ما جاء في شفقة المسلم علي المسلم، 4 / 325، الرقم: 1928، والنسائي في السنن، کتاب: الزکاة، باب: أجر الخازن إذا تصدق بإذن مولاه، 5 / 79، الرقم: 2560، وابن حبان في الصحيح، 1 / 467، الرقم: 231، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 404.
’’حضرت ابوموسیٰ (اَشعری) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک مومن دوسرے مومن کے لئے ایک (مضبوط) دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے، اور (اس بات کی وضاحت کے طور پر) آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈالیں۔‘‘
17 / 17. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه: عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيْهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وزاد مسلم: أَوْ قَالَ لِجَارِهِ.
الحديث رقم 17: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإِيْمَانِ، باب: مِنْ الْإِيْمَانِ أَنْ يُحِبُّ لِأَخِيْهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ، 1 / 14، الرقم: 13، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: الدليل علي أن من خصال الإيمان أن يحب لأخيه المسلم ما يحب لنفسه من الخير، 1 / 67، الرقم: 45، والترمذي في السنن، کتاب: صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اللہ ﷺ، باب: (59)، 4 / 667، الرقم: 2515، والنسائي في السنن، کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: علامة الإيمان، 8 / 115، الرقم: 5016، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: في الإيمان، 1 / 26، الرقم: 66.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (اور مسلم نے یہ اضافہ کیا: ) یا حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنے پڑوسی کے لئے۔‘‘
18 / 18. عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ، قِيْلَ: مَنْ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 18: أخرجه البخاري في الصحيح، کتابُ: الأدَبِ، باب: إِثْمِ مَن لَا يَأمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ، 5 / 2240، الرقم: 5670، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان تحريم ايذاء الجار، 1 / 68، الرقم: 46، والحاکم في المستدرک، 1 / 53، الرقم: 21، وقال الحاکم: هذا حديث صحيح.
’’حضرت ابو شُریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم وہ مومن نہیں، خدا کی قسم وہ مومن نہیں۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کون (مومن نہیں)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کا پڑوسی اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں۔‘‘
19 / 19. عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيْرٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَثَلُ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ، إِذَا اشْتَکَي مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَي لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّي.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
الحديث رقم 19: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأدب، باب: رَحْمَةِ النَّاسِ وَ البَهَائِمِ، 5 / 2238، الرقم، 5665، ومسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والآداب، باب: تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم، 4 / 1999، الرقم: 2586، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 270، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 353، الرقم: 6223، وفي شعب الإيمان، 6 / 481، الرقم: 8985، والبزار في المسند، 8 / 238، الرقم: 3299، و1بن منده في: الإيمان، 1 / 455، الرقم: 319، وابن سليمان القرشي في من حديث خيثمة، 1 / 74.
’’حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مومنین کی مثال ایک دوسرے پر رحم کرنے، دوستی رکھنے اور شفقت کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے، چنانچہ جب جسم کے کسی بھی حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں اس کا شریک ہوتا ہے۔‘‘
20 / 20. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهما يَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: تَدْرُونَ مَنِ الْمُؤْمِنُ؟ قَالُوْا: اَللهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُوْنَ عَلىٰ أَنْفُسِهِمْ وَ أَمْوَالِهِمْ، وَ الْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ السُّوْءَ فَاجْتَنَبَهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 20: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 206، 215، الرقم: 6925، 7017، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 291، الرقم: 3188، وفي المعجم الکبير، 3 / 299، الرقم: 3462، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 2 / 603، الرقم: 642.
’’حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کیا تم جانتے ہو مومن کون ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: اللہ عزوجل اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مومن وہ ہے جس سے اہلِ ایمان اپنی جان و مال پر محفوظ ہوں، اور مہاجر وہ ہے جس نے برائی چھوڑ دی اور اس سے پرہیز کیا۔‘‘
21 / 21. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَلْمُؤْمِنُ مِرْآةُ أَخِيْهِ إِذَا رَأَي فِيهِ عَيْبًا أَصْلَحَهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ وَابْنُ الْمُبَارَکِ.
الحديث رقم 21: أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 93، الرقم: 238، وابن المبارک في الزهد، 1 / 485، الرقم: 1378، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 5 / 181، الرقم: 357، والمزي في تهذيب الکمال، 11 / 428، الرقم: 2515، 3256.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مومن اپنے بھائی کا آئینہ ہے، جب وہ اس میں کوئی برائی دیکھتا ہے تو اس برائی کی اصلاح کر لیتا ہے۔‘‘
22 / 22. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلىٰ خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيْتَاءِ الزَّکَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 22: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: قول النبي ﷺ: بُني الإسلام علي خمس، 1 / 21، الرقم: 8، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان أرکان الإسلام ودعائمه العظام، 1 / 45، الرقم: 16، والترمذي في السنن، کتاب: الإيمان عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء بني الإسلام علي خمس، 5 / 5، الرقم: 2609، والنسائي في السنن، کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: علي کم بني الإسلام، 8 / 107، الرقم: 5001.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: یہ گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘
23 / 23. عَنْ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وَ حَجُّوْا وَاعْتَمِرُوْا وَاسْتَقِيْمُوا يُسْتَقَمْ بِکُمْ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي مَعَاجِمِهِ الثَلَاثَةِ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ.
الحديث رقم 23: أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 99، الرقم: 136، وفي المعجم الأوسط، 2 / 298، الرقم: 2034، وفي المعجم الکبير، 7 / 216، الرقم: 6897، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 301، الرقم: 1115، وقال: رواه الطبراني في الثلاثة وإسناده جيد إن شاء اللہ تعالي، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 45، 3 / 205.
’’حضرت سَمُرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، حج اور عمرہ کرو، استقامت اختیار کرو، تمہیں استقامت دی جائے گی۔‘‘
24 / 24. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَرَّةَ الْجُهْنِيِّ رضي الله عنه قَالَ: جَاءَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ رَجُلٌ مِنْ قُضَاعَةَ فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَ رَأَيْتَ إِنْ شهِدْتُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ وَ صَلَّيْتُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ وَصُمْتُ الشَّهْرَ وَقُمْتُ رَمَضَانَ وَآتَيْتُ الزَّکَاةَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَنْ مَاتَ عَلىٰ هَذَا کَانَ مِنَ الصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاءِ.
رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 24: أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 3 / 340، الرقم: 2212، وابن حبان في الصحيح، 8 / 223، الرقم: 3438، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 308، الرقم: 3617، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 145، 302، الرقم: 531، 1120، 2 / 64، الرقم: 1505، وقال: رواه البزار بإسناد حسن وابن خزيمة وابن حبان، والشيباني في الأحاد والمثاني، 5 / 23، الرقم: 2558، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 208، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 46، وقال: رواه البزار ورجاله رجال الصحيح، وفي موارد الظمآن، 1 / 36، الرقم: 19.
’’حضرت عمرو بن مرہ جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ قضاعہ کے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں اگرمیں گواہی دوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ تعالیٰ کے (سچے) رسول ہیں، پانچوں نمازیں پڑھوں، ماہ رمضان کے روزے بھی رکھوں اور اس ماہ میں قیام بھی کروں اور زکوٰۃ بھی ادا کروں؟ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس حالت میں فوت ہوجائے وہ (روز قیامت) صدیقوں اور شہیدوں میں سے ہو گا۔‘‘
25 / 25. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: خَمْسٌ مَنْ جَاءَ بِهِنَّ مَعَ إِيْمَانٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ مَنْ حَافَظَ عَلىٰ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ عَلىٰ وُضُوْئِهِنَّ وَرُکُوْعِهِنَّ وَسُجُودِهِنَّ وَمَوَاقِيْتِهِنَّ وَصَامَ رَمَضَانَ وَحَجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيْلًا وَأَعْطَي الزَّکَاةَ طَيِبَةً بِهَا نَفْسُهُ وَأَدَّي الْأَمَانَةَ رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ.
الحديث رقم 25: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: في المحافظة علي وقت الصلوات، 1 / 116، الرقم: 429، والطبراني في المعجم الصغير، 2 / 56، الرقم: 772، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 148، 300، الرقم: 544، 1105، وقال: رواه الطبراني في الکبير بإسناد جيد، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 47، وقال: رواه الطبراني بإسناد جيد، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 215، والمقريزي في مختصر کتاب الوتر، 1 / 32، الرقم: 14، وقال: إسناده حسن.
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: پانچ کام ایسے ہیں جنہیں جو شخص بھی ایمان کی حالت میں سر انجام دے گا وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ جو شخص وضو، رکوع، سجود اور اوقات کا خیال رکھ کر پانچ وقت کی نماز کی پابندی کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرے اور زکوٰۃ ادا کرکے اپنے نفس کی پاکیزگی کا سامان کرے اور امانت ادا کرے۔‘‘
26 / 26. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ أَقَامَ الصَّلَاةَ وَأَتَي الزَّکَاةَ وَحَجَّ الْبَيْتَ وَصَامَ رَمَضَانَ وَقَرَي الضَّيْفَ دَخَلَ الْجَنَّةَ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 26: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 136، الرقم: 12692، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 92، الرقم: 9593، وابن راشد في الجامع، 11 / 274، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 301، الرقم: 1116، 3 / 252، الرقم: 3914، وقال: رواه الطبراني في الکبير وله شواهد، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 45.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے نماز قائم کی، زکوٰۃ ادا کی، بیت اللہ کا حج کیا، رمضان کے روزے رکھے اور مہمان نوازی کی وہ جنت میں داخل ہو گیا۔‘‘
27 / 27. عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ رضي الله عنهما قَالَ: بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَي الْحُرَقَةِ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ، فَهَزَمْنَاهُمْ، وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَلَمَّا غَشِيْنَا قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ. فَکَفَّ عَنْهُ الأَنْصَارِيُّ، وَطَعَنْتُهُ بِرُمْحِي حَتَّى قَتَلْتُهُ. قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا، بَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ لِي: يَا أُسَامَةُ! أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ إِنَّمَا کَانَ مُتَعَوِّذًا، قَالَ: فَقَالَ: أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ؟ قَالَ: فَمَا زَالَ يُکَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْل ذَلِکَ الْيَوْمِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية: فَدَعَاهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: لِمَ قَتَلْتَهُ؟ قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَوْجَعَ فِي الْمُسْلِمِيْنَ، وَقَتَلَ فُلَانًا وَفُلَانًا، وَسَمَّي لَهُ نَفَرًا. وَإِنِّي حَمَلْتُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَأَي السَّيْفَ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ. قَالَ رَسُوْلُ اللہ ﷺ: أَقَتَلْتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ: قَالَ: فَکَيْفَ تَصْنَعُ بِلاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ اسْتَغْفِرْلِي. قَالَ: وَکَيْفَ تَصْنَعُ بِلاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: فَجَعَلَ لَا يَزِيْدُهُ عَلىٰ أَنْ يَقُوْلَ: کَيْفَ تَصْنَعُ بِلاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقيَامَةِ؟ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 27: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: بَعْثُ النَّبِيِّ ﷺ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ إِلَي الْحُرُقَاتِ مِنْ جُهَيْنَة، 4 / 1555، الرقم: 4021، وفي کتاب: الديات، باب: قَوْلِ اللهِ تَعَالَي: وَ مَنْ أَحْيَاهَا، (المائدة: 32)، 6 / 2519، الرقم: 6478، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: تحريم قتل الکافر بعد أن قال: لَا إِله إلا اللہ، 1 / 97، الرقم: 94 - 97، وابن منده في الإيمان، 1 / 208، 210، الرقم: 63 - 65، وَ قَالَ ابن منده: هَذَا حَدِيْثُ مُجْمَع عَلىٰ صِحَّتِهِ، والبزار في المسند، 7 / 63، الرقم: 2612، والطيالسي في المسند، 1 / 87، الرقم: 626، وأبونعيم في المسند المستخرج، 1 / 171، الرقم: 277، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 195، والعظيم آبادي في عون المعبود، 12 / 4، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 4 / 547.
’’حضرت اُسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جہاد کے لئے حرقہ کی طرف روانہ کیا جو قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ ہے۔ ہم صبح وہاں پہنچ گئے اور انہیں شکست دے دی۔ میں نے اور ایک انصاری نے مل کر اس قبیلہ کے ایک شخص کو گھیر لیا، جب ہم اس پر غالب آگئے تو اس نے کہا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ. انصاری تو (اس کی زبان سے) کلمہ سن کر الگ ہو گیا لیکن میں نے نیزہ مار مار کر اسے ہلاک کر ڈالا۔ جب ہم واپس آئے تو حضور نبی اکرم ﷺ کو بھی اس واقعہ کی خبر ہو چکی تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے فرمایا: اے اسامہ! تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کیا؟ حضور ﷺ بار بار یہ کلمات دہرا رہے تھے اور میں افسوس کر رہا تھا کہ کاش آج سے پہلے اِسلام نہ لایا ہوتا۔
’’ایک اور روایت میں ہے: حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر دریافت کیا کہ تم نے اسے کیوں قتل کیا؟ عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے مسلمانوں کو تکلیف دی، چند صحابہ کرام کا نام لے کر بتایا کہ فلاں فلاں کو اس نے شہید کیا ہے۔ میں نے اس پر حملہ کیا جب اس نے تلوار دیکھی تو فورًا کہا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم نے اسے قتل کر دیا؟ عرض کیا: جی حضور! فرمایا: جب روزِ قیامت لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا کلمہ آئے گا تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟ عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لئے استغفار کیجئے۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: جب روزِ قیامت لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا کلمہ آئے گا تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟ حضور ﷺ بار بار یہی کلمات دہراتے رہے کہ جب قیامت کے دن لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا کلمہ آئے گا تو اس کا کیا جواب دو گے؟‘‘
28 / 28. عَنْ أَبِي سَعَيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِذَا أَسْلَمَ الْعَبْدُ فَحَسُنَ إِسْلَامُهُ، يُکَفِّرُ اللهُ عَنْهُ کُلَّ سَيِئَةٍ کَانَ زَلَفَهَا، ثُمَّ کَانَ بَعْدَ ذَلِکَ الْقِصَاصُ: الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَي سَبْعِ مِئَةِ ضِعْفٍ، وَالسَّيِئَةُ بِمِثْلِهَا إِلاَّ أَنْ يَتَجَاوَزَ اللهُ عَنْهَا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
الحديث رقم 28: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإِيْمَانِ، باب: حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ، 1 / 24، الرقم: 41، والنسائي في السنن، کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: حسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْئِ، 8 / 105، الرقم: 4998.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کسی شخص نے اسلام قبول کر لیا اور اس کا اسلام خوب نکھرا تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام گزشتہ خطائیں معاف فرما دیتا ہے اور پھر اس کے بعد اس کا بدلہ ہے، اس کی ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سو گنا تک ہے اور برائی کا صرف اسی کے برابر ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس سے بھی درگزر فرما دے۔‘‘
29 / 29. عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رضي الله عنه قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا عَدِيَّ بْنَ حَاتِمٍ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، قُلْتُ: وَ مَا الإِسْلَامُ؟ فَقَالَ: تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنِّي رَسُوْلُ اللهِ، وَتُؤْمِنُ بِالْأَقْدَارِ کُلِّهَا، لِخَيْرِهَا وَشَرِّهَا، حُلْوِهَا وَ مُرِّهَا. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَ الطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 29: أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: في القدر، 1 / 34، الرقم: 87، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 81، الرقم: 182، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 76، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 199، والکناني في مصباح الزجاجة، 1 / 14، الرقم: 30.
’’حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے عدی بن حاتم! اسلام قبول کر لو، سلامتی میں رہو گے۔ میں نے عرض کیا: اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور تقدیر پر ایمان لاؤ، خواہ بھلی ہو یا بری، شیریں ہو یا تلخ۔‘‘
30 / 30. عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حَيْدَةَ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ! مَا أَتَيْتُکَ حَتَّى حَلَفْتُ عَدَدَ أَصَابِعِي هَذِهِ أَنْ لَا آتِيْکَ فَمَا الَّذِي بَعَثَکَ بِهِ؟ قَالَ: الإِسْلَامُ. قَالَ: وَ مَا الإِسْلَامُ؟ قَالَ: أَنْ تُسْلِمَ قَلْبَکَ ِللهِ، وَأَنْ تُوَجِّهَ وَجْهَکَ ِللهِ وَأَنْ تُصَلِّيَ الصَّلَاةَ الْمَکْتُوْبَةَ، وَتُوَدِّيَ الزَّکَاةَ الْمَفْرُوْضَةَ، أَخَوَانِ نَصِيْرَانِ، لَا يَقْبَلُ اللهُ مِنْ أَحَدٍ تَوْبَةً أَشْرَکَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 30: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 1 / 376، 377، الرقم: 160، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 3، الرقم: 20022، والطبراني في المعجم الکبير، 19 / 426، الرقم: 1036، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 32، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 1 / 410، الرقم: 403، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 37، الرقم: 28.
’’حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! میں اس وقت تک آپ کے پاس نہیں آیا جب تک میں نے اپنی ان انگلیوں کے برابر قسم نہ کھالی کہ میں آپ کے پاس نہیں آؤں گا۔ وہ کون سی چیز ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا؟ فرمایا: اسلام۔ عرض کیا: اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کہ تو اپنا دل اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے اور اپنا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف کرلے اور یہ کہ تو فرض نماز ادا کر اور فرض زکوٰۃ ادا کر، یہ دونوں (نماز و زکوٰۃ) دو مددگار بھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں فرماتا جس نے اسلام لانے کے بعد شرک کیا۔‘‘
31 / 31. عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ: أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، قَالَ الْقَوْمُ: مَا لَهُ مَا لَهُ! وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: أَرَبٌ مَا لَهُ تَعبُدُ اللهَ وَلَا تُشْرِکُ بِهِ شَيئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّکَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 31: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: وجوب الزکاة، 2 / 505، الرقم: 1332، وفي کتاب: الأدب، باب: فضل صِلةِ الرَّحمِ، 5 / 2231، الرقم: 5637، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: الإيمان الذي يدخل به الجنة، وأن من تمسک بما أمربه دخل الجنة، 1 / 42، الرقم: 13، والنسائي في السنن الکبري، 3 / 445، الرقم: 5880، وابن حبان في الصحيح، 8 / 38، الرقم: 3246، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 418، الرقم: 23596، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 139، الرقم: 3925، وابن منده في الإيمان، 1 / 267، الرقم: 126.
’’حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ایسا عمل بتائیے جس کو انجام دینے سے میں جنت میں داخل ہو سکوں۔ (اس شخص کو آگے بڑھتے اور حضور نبی اکرم ﷺ سے مخاطب ہوتے دیکھ کر) لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اسے کیا ہوا ہے؟ کیوں اس طرح بات کر رہا ہے؟ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کچھ نہیں ہوا۔ اسے مجھ سے کام ہے۔ اسے کہنے دو۔ پھر آپ ﷺ نے اس شخص کو مخاطب کر کے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رشتہ داروں سے میل جول اور حسنِ سلوک کرو۔‘‘
32 / 32. عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ، ثَائرَ الرَّأْسِ، يُسْمَعُ دَوِيُّ صَوْتِهِ وَلَا يُفْقَهُ مَا يَقُوْلُ، حَتَّى دَنَا فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ. فَقَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ قَالَ: رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَ صِيَامُ رَمَضَانَ قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ قَالَ: وَ ذَکَرَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الزَّکَاةَ، قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ قَالَ فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ وَ هُوَ يَقُوْلُ: وَاللهِ لَا أَزِيدُ عَلىٰ هَذَا وَلَا أَنْقُصُ، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 32: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: الزّکاةُ مِنَ الإسلام، 1 / 25، الرقم: 46، وفي کتاب: الصوم، باب: وجوب صوم رمضان، 2 / 669، الرقم: 1792، وفي کتاب: الشهادات، باب: کيفَ يُسْتَحْلَفُ، 2 / 951، الرقم: 2532، وفي کتاب: الحِيَل، باب: في الزکاة، وأن لا يُفرَّقَ بينَ مُجتَمِعٍ ولا يُجمَعَ بين مُتَفرَّقٍ، خشيةَ الصَّدَقَةِ، 6 / 2551، الرقم: 6556، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان الصلوات التي هي أحد أرکان الإسلام، 1 / 40، الرقم: 11، وأبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: فرض الصلاة، 1 / 18، الرقم: 391، والنسائي في السنن، کتاب: الصلاة، باب: کم فرضت في اليوم والليلة، 1 / 226، الرقم: 458، وفي کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: الزکاة، 8 / 118، الرقم: 5028، ومالک في الموطأ، 1 / 175، الرقم: 423، والشافعي في المسند، 1 / 234، وابن حبان في الصحيح، 5 / 11، الرقم: 1724.
’’حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں نجد کا رہنے والا ایک شخص اس حال میں حاضر ہوا کہ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی گنگناہٹ تو سنائی دیتی تھی لیکن بات سمجھ میں نہیں آتی تھی، حتی کہ جب وہ قریب آیا تو معلوم ہوا کہ اسلام کے متعلق دریافت کر رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: دن اور رات کے (چوبیس گھنٹوں) میں پانچ نمازیں (فرض ہیں)۔ اس نے سوال کیا: کیا ان کے علاوہ کوئی اور نماز بھی مجھ پر فرض ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (فرض) نہیں ہے۔ ہاں، اگر تم نفل نماز ادا کرنا چاہو تو کرسکتے ہو۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: ماہ رمضان کے روزے (فرض ہیں)۔ سائل نے دریافت کیا: کیا رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ بھی مجھ پر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (فرض) نہیں ہے البتہ اگر تم نفل رکھنا چاہو تو رکھ سکتے ہو۔ آپ ﷺ نے اسے زکوٰۃ کے بارے میں بھی بتایا۔ اس شخص نے دریافت کیا: کیا مجھ پر اس کے علاوہ بھی کوئی ادائیگی ضروری ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (فرض) نہیں ہے البتہ تم رضاکارانہ طور پر کچھ (صدقہ) دینا چاہو تو دے سکتے ہو۔ راوی کہتے ہیں: پھر وہ شخص واپس جانے کے لیے مڑگیا اور کہتا جاتا تھا: بخدا ! میں نہ اس میں کوئی اضافہ کروں گا اور نہ کسی قسم کی کمی کروں گا۔ آپ ﷺ نے (اس شخص کی یہ بات سن کر) فرمایا: وہ فلاح پاگیا اگر اس نے اپنی بات سچ کر دکھائی۔‘‘
33 / 33. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ أَعْرَابِيًا أَتَي النَّبِيَّ ﷺ فَقالَ: دُلَّنِي عَلىٰ عَمَلٍ، إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ، قَالَ: تَعْبُدُ اللهَ لَا تُشْرِکُ بِهِ شَيْئًا، وَ تُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَکْتُوبَةَ، وَ تُؤَدِّي الزَّکَاةَ الْمَفْرُوْضَةَ، وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ قَالَ: وَالَّذي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا أَزِيدُ عَلىٰ هَذَا. فَلَمَّا وَلَّي، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَي رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَي هَذَا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 33: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: وجوب الزکاة، 2 / 506، الرقم: 1333، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان الإيمان الذي يدخل به الجنة وأن تمسک بما أمربه دخل الجنة، 1 / 44، الرقم: 14، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 12، وأبوعوانة في المسند، 1 / 17، الرقم: 4، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 207.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا، اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری ایسے عمل کی طرف راہنمائی فرمائیں جسے انجام دینے سے جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ فرض نمازیں اور مقررہ زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس اعرابی نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں ان اَحکام پر کوئی اضافہ نہیں کروں گا۔ پس جب وہ شخص واپس جانے کے لیے مڑا تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو کسی جنتی کو دیکھنے کی سعادت حاصل کرنا چاہے تو اسے دیکھ لے۔‘‘
34 / 34. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنه قَالَ: إِنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ: أَيُّ المُسْلِمِيْنَ خَيْرٌ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 34: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الرقاق، باب: الإنتهاء عن المعاصي، 5 / 2379، الرقم: 6119، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان تفاضل الإسلام ونصف أموره أفضل، 1 / 65، الرقم: 39، وابن حبان في الصحيح، 2 / 124، الرقم: 399.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: کون سا مسلمان افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔‘‘
35 / 35. عَنْ عَبدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَي اللهُ عَنْهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
الحديث رقم 35: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: المسلم من سَلِمَ المسلمون من لسانه ويده، 1 / 13، الرقم: 10، وأبوداود في السنن، کتاب: الجهاد، باب: في الهجرة هل انقطعت، 3 / 4، الرقم: 2481، والنسائي في السنن، کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: صفة المسلم، 8 / 105، الرقم: 4996، وابن حبان في الصحيح، 1 / 467، الرقم: 230، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 163، الرقم: 6515.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں، اور حقیقی مہاجر وہ ہے جس نے ان کاموں کو چھوڑ دیا جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔‘‘
36 / 36. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اللہ عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلىٰ دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
وَ قَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 36: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الإيمان عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في أن المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، 5 / 17، الرقم: 2627. والنسائي في السنن، کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: صفة المؤمن، 8 / 104، الرقم: 4995 وابن حبان في الصحيح، 1 / 406، الرقم: 180، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 379، الرقم: 8918.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں، اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی جانیں اور مال محفوظ ہوں۔‘‘
37 / 37. عَنِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: اًلْمُسْلِمُ أَخُوالْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَايُسْلِمُهُ، مَنْ کَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيْهِ کَانَ اللهُ فِي حَاجَتِهِ، وَ مَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کَُرْبَةً فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ کُرْبَةً مِنْ کُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَ مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ.
الحديث رقم 37: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المظالم، باب: لَا يَظْلِمُ المُسْلِمُ المُسْلِمَ وَ لَا يُسْلِمُهُ، 2 / 862، الرقم: 2310، ومسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والآداب، باب: تحريم الظلم، 4 / 1996، الرقم: 2580، والترمذي في السنن، کتاب: الحدود عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في الشر علي المسلم، 4 / 34، الرقم: 1425، وأبوداود في السنن، کتاب: الأدب، باب: المؤاخاة، 4 / 273، الرقم: 4893 والنسائي في السنن الکبري، 4 / 309، الرقم: 7291 وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 91، الرقم: 5646.
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ تو اس پر ظلم کرتا ہے نہ (مشکل حالات میں) اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے کام آتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے کام میں (مدد کرتا) رہتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی اُخروی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‘‘
38 / 38. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اللہ عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَنَاجَشُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَلَا يَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلىٰ بَيْعِ بَعْضٍ، وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا، الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَ لَا يَخْذُلُهُ وَ لَا يَحْقِرُهُ، التَّقْوَي هَاهُنَا (وَ يُشِيْرُ إِلَي صَدْرِهِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ) بِحَسْبِ امْرِيءٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلىٰ الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَ مَالُهُ وَعِرْضُهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 38: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والآداب، باب: تحريم ظلم والمسلم وخذله واحتقاره ودمه وعرضه وماله، 4 / 1986، الرقم: 2564، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 277، الرقم: 7713، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 420، الرقم: 1442، والبيهقي في السنن الکبري، 6 / 92، الرقم: 11276، وفي شعب الإيمان، 5 / 280، الرقم: 6660، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 470، الرقم: 4002، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 326، والعسقلاني في فتح الباري، 10 / 483.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو اور ایک دوسرے سے بُغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے رُخ نہ موڑو، اور تم میں سے کوئی شخص دوسرے کے سودے پر اپنا سودا نہ کرے۔ اے اللہ تعالیٰ کے بندو! باہم بھائی بھائی ہو جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر نہ تو ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے، اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے۔ تقویٰ اور پرہیزگاری یہاں ہے (اور آپ ﷺ نے تین مرتبہ اپنے سینۂ اقدس کی طرف اشارہ کیا)۔ کسی مسلمان کے لئے اتنی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ایک مسلمان پر دوسرے کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت (و آبرو پامال کرنا) حرام ہے۔‘‘
39 / 39. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اللہ عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اًلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَخُوْنُهُ وَلَا يَکْذِبُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلىٰ الْمُسْلِمِ حَرَامٌ عِرْضُهُ وَمَالُهُ وَدَمُهُ، التَّقْوَي هَاهُنَا، بِحَسْبِ امْرِيءٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْتَقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ.
الحديث رقم 39: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: البر والصلة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ما جاء في شفقة المسلم علي المسلم، 4 / 325، الرقم: 1927، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 326.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس سے خیانت کرتا ہے اور نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے۔ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت (کی پامالی) اس کا مال اور اس کا خون حرام ہے۔ (آپ ﷺ نے قلبِ اطہر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ) تقویٰ یہاں ہے، کسی مسلمان کے لئے اتنی برائی ہی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔‘‘
40 / 40. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلىٰ الْمُسْلِمِ خَمْسٌ: رَدُّ السَّلَامِ وَعِيَادَةُ الْمَرِيْضِ، وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ، وَ إِجَابَةُ الدَّعْوَةِ، وَ تَشْمِيتُ الْعَاطِسِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم 40: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجنائز، باب: الأمر باتباع الجنائز، 1 / 418، الرقم: 1183، ومسلم في الصحيح، کتاب: السلام، باب: من حق المسلم للمسلم ردّ السلام، 4 / 1704، الرقم: 2162، وابن حبان في الصحيح، 1 / 476، الرقم: 241، والحاکم في المستدرک، 1 / 550، الرقم: 1292، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 64، الرقم: 10049، وابن ماجه في السنن، کتاب: الجنائز، باب: ما جاء في عيادة المريض، 1 / 461، الرقم: 6435، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 540، الرقم: 10979.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، اس کے جنازہ کے ساتھ جانا، اس کی دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا۔‘‘
41 / 41. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلىٰ الْمُسْلِمِ سِتٌّ. قِيْلَ: مَا هُنَّ؟ يَا رَسُوْلَ اللهِ! قَالَ: إِذَا لَقِيْتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، وَإِذَا دَعَاکَ فَأَجِبْهُ، وَ إِذَا اسْتَنْصَحَکَ فَانْصَحْ لَهُ، وَ إِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللهَ فَسَمِّتْهُ، وَ إِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ، وَ إِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالدَّارِمِيُّ.
الحديث رقم 41: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: السلام، باب: من حق المسلم للمسلم ردّ السلام، 4 / 1705، الرقم: 2162، وابن حبان في الصحيح، 1 / 477، الرقم: 242، والدارمي في السنن، 2 / 357، الرقم: 2633، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 372، الرقم: 8832، والبيهقيفي السنن الکبري، 5 / 347، الرقم: 10691.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں: عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! وہ کون سے حق ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تو مسلمان کو ملے تو اسے سلام کر اور جب وہ تجھے دعوت دے تو قبول کر، اور جب وہ تجھ سے مشورہ چاہے تو اسے اچھا مشورہ دے، اور جب وہ چھینکے اور الحمد ﷲ کہے تو تو بھی جواب میں (یرحمک اللہ) کہہ، اور جب بیمار ہو تو اس کی تیمارداری کر، اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ شامل ہو۔‘‘
42 / 42. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: انْصُرْ أَخَاکَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا. فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! أَنْصُرُهُ إِذَا کَانَ مَظْلُوْمًا، أَرَأَيْتَ إِنْ کَانَ ظَالِمًا کَيْفَ أَنْصُرُهُ؟ قَالَ: تَحْجُزُهُ أَوْ تَمْنَعُهُ مِنَ الظُّلْمِ، فَإِنَّ ذَلِکَ نَصْرُهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَ نَحْوُهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 42: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإکراه، باب: يَمِينِ الرَّجُلِ لِصاحِبِهِ، إِنَّهُ أَخُوهُ، إذا خاف عليهِ القتلَ أَوْ نَحْوَهُ، 6 / 2550، الرقم: 6552، وفي کتاب: المظالم، باب: أعِن أخاک ظالماً أو مظلوما، 2 / 863، الرقم: 2311. 2312، ومسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والآداب، باب: نصر الأخ ظالما أو مظلوما، 4 / 1998، الرقم: 2584، والترمذي في السنن، کتاب: الفتن عن رسول اللہ ﷺ، باب: (68)، 4 / 523، الرقم: 2255، والدارمي في السنن، 2 / 401، الرقم: 2753، وابن حبان في الصحيح، 11: 570، الرقم: 5166 - 5168، وأحمد بن حنبل في المسند 3 / 99، الرقم: 11967، 13101، 14507، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 202، الرقم: 649، 779، والبيهقي في السنن الکبري، 6 / 94، الرقم: 11289 - 11290.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر وہ مظلوم ہو تب تو میں اس کی مدد کروں لیکن مجھے یہ بتایئے کہ جب وہ ظالم ہو تو میں اس کی مدد کیسے کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے ظلم سے باز رکھو، یا فرمایا: اُسے (اس ظلم سے) روکو، کیونکہ یہ بھی اس کی مدد ہے۔‘‘
43 / 43. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اللہ عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ عزوجل يَقُوْلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي. قَالَ: يَا رَبِّ! کَيْفَ أَعُوْدُکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ. أَمَا عَلِمْتَ أَنَّکَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ؟ يَا ابْنَ آدَمَ! اسْتَطْعَمْتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي. قَالَ: يَا رَبِّ! وَ کَيْفَ أُطْعِمُکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَکَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّکَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِکَ عِنْدِي؟ يَا ابْنَ آدَمَ! اسْتَسْقَيْتُکَ فَلَمْ تَسْقِنِي. قَالَ: يَا رَبِّ! کَيْفَ أَسْقِيْکَ وَأَنْتَ رَبَّ الْعَالَمِيْنَ؟ قَالَ: اسْتَسْقَاکَ عَبْدِي فَلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا إِنَّکَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِکَ عِنْدِي. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.
الحديث رقم 43: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والآداب، باب: فضل عيادة المريض، 4 / 1990، الرقم: 2569، والبخاري في الأدب المفرد، 1: 182، الرقم: 517، وابن حبان في الصحيح، 1 / 503، الرقم: 269، 944، 7366، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 534، الرقم: 9182، وابن راهوية في المسند، 1 / 115، الرقم: 28، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 37، الرقم: 1406.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں بیمار ہوا اور تو نے میری مزاج پرسی نہیں کی۔ بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار! میں تیری بیمار پرسی کیسے کرتا جبکہ تو خود تمام جہانوں کا پالنے والا ہے؟ ارشاد ہوگا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تو نے اس کی مزاج پرسی نہیں کی۔ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس موجود پاتا؟ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا اور تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار! میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا جبکہ تو خود تمام جہانوں کا پالنہار ہے؟ ارشاد ہو گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا اور تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا ثواب میری بارگاہ سے پاتا؟ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا اور تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ بندہ عرض کرے گا: پروردگار! میں تجھے پانی کیسے پلاتا جبکہ تو رب العالمین ہے؟ ارشاد ہوگا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا اور تو نے اسے پانی نہیں پلایا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اس کا ثواب تجھے میری بارگاہ سے ملتا؟‘‘
44 / 44. عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رضي اللہ عنه، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيْدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيْدُ سَوَادِ الشَّعْرِ، لَا يُرَي عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَي النَّبِيِّ ﷺ، فَأَسْنَدَ رُکْبَتَيْهِ إِلَي رُکْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ کَفَّيْهِ عَلىٰ فَخِذَيْهِ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! أَخْبِرْنِي عَنِ الإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: الإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ وَتُقِيمَ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّکَاةَ، وَ تَصُوْمَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيْلًا. قَالَ: صَدَقْتَ. قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ! قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِيْمَانِ. قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِکَتِهِ، وَکُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ. قالَ: صَدَقْتَ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِحْسَانِ. قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تکُنْ تَرَاهُ فإنَّهُ يَرَاکَ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ قَالَ: مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا؟ قَالَ: أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَي الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ. ثُمَّ انْطَلَقَ، فَلَبِثْتُ مَلِيّاً، ثُمَّ قَالَ: يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ قُلتُ: اللهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّهُ جِبْرِيْلُ أَتَاکُمْ يُعَلِّمُکُمْ دِيْنَکُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
الحديث رقم 44: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: سُؤَالِ جِبْرِيْلَ النَّبِيَّ ﷺ عَنِ الإِيْمان وَ الإِسْلَامِ وَ الإِحْسَانِ وَ عِلْمِ السَّاعَةِ، 1 / 27، الرقم: 50، وفي کتاب: التفسير / لقمان، باب: إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ / 34، 4 / 1793، الرقم: 4499، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان الإيمان والإسلام والإحسان، 1 / 36، الرقم: 8 - 9، والترمذي في السنن، کتاب: الإيمان عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في وصف جبريل للنبي ﷺ الإيمان والإسلام، 5 / 6، الرقم: 2601، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في القدر، 4 / 222، الرقم: 4695، والنسائي في السنن، کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: نعت الإسلام، 8 / 97، الرقم: 4990، وابن ماجة في السنن، المقدمة، باب: في الإيمان، 1 / 24، الرقم: 63، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 51، الرقم: 367، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 127، الرقم: 2504، وابن حبان في الصحيح، 1 / 389، الرقم: 168.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے۔ اچانک ایک شخص ہماری محفل میں آیا، اس کے کپڑے نہایت سفید، بال گہرے سیاہ تھے، اس پر سفر کے کچھ بھی اثرات نمایاں نہ تھے اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہیں تھا۔ بالآخر وہ شخص حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے آپ ﷺ کے گھٹنے سے گھٹنے ملا کر بیٹھ گیا اور اس نے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھ لیے اور عرض کیا: یا محمد مصطفی! مجھے بتائیں: اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں اور تو نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان المبارک کے روزے رکھے اور استطاعت رکھنے پر بیت اللہ کا حج کرے۔ اس نے عرض کیا: آپ نے سچ فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق بھی کرتا ہے۔ اس کے بعد اس نے عرض کیا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیں؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ پر، فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھے۔ وہ بولا: آپ نے سچ فرمایا۔ پھر اس نے عرض کیا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ عزوجل کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہ دیکھ سکے تو یہ جان لے کہ یقینا وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس نے عرض کیا: اچھا اب مجھے (وقوعِ) قیامت کے (وقت کے) بارے میں بتائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اس مسئلہ پر سائل سے زیادہ علم نہیں رکھتا (یعنی جو کچھ مجھے معلوم ہے وہ تمہیں بھی معلوم ہے اور دوسرے حاضرین کے لئے اسے ظاہر کرنا مفید نہیں ہے۔) اس شخص نے عرض کیا: اچھا پھر قیامت کی علامات ہی بتا دیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: علاماتِ قیامت یہ ہیں کہ نوکرانی اپنی مالکہ کو جنم دے گی (یعنی بیٹی ماں کے ساتھ نوکرانیوں والا سلوک کرے گی) اور برہنہ پاؤں اور ننگے بدن والے مفلس چرواہے اونچے اونچے محلات پر فخر کریں گے۔ پھر وہ شخص چلا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کچھ دیر ٹھہرا رہا، پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے عمر! جانتے ہو یہ سوال کرنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘
45 / 45. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيْلِي ﷺ أَنْ أَخْشَي اللهَ کَأَنِّي أَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ أَکُنْ أَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَانِي. رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ.
الحديث رقم 45: أخرجه أبونعيم في کتاب الأربعين، 1 / 39، الرقم: 12، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 126.
’’حضرت ابوذر (غفاری) رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے میرے حبیب ﷺ نے فرمایا کہ میں خشیتِ الٰہی میں ایسا ہو جاؤں گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں، پس اگر میں اسے نہیں دیکھ سکتا تو وہ تو یقیناً مجھے دیکھ ہی رہا ہے۔‘‘
46 / 46. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَلإِحْسَانُ أَنْ تَعْمَلَ ِللهِ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِلَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ.
رَوَاهُ الرَّبِيْعُ.
الحديث رقم 46: أخرجه ابن الربيع في المسند، 1 / 42، الرقم: 56، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 36.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کے لئے اس طرح عمل کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، پھر اگر تو اسے نہیں دیکھ سکتا تو یقینا وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
47 / 47. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: کُنْ کَأَنَّکَ تَرَي اللهَ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ. رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ وَالدَّيْلَمِيُّ.
الحديث رقم 47: أخرجه أبونعيم في کتاب الأربعين، 1 / 40، الرقم: 13، وفي حلية الأولياء، 8 / 202، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 274، الرقم: 4843، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 36.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (اے بندہء خدا!) اس طرح ہو جا گویا اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے، اگر تم اُسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو یقینا تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘
48 / 48. عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ رضي اللہ عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ کَتَبَ الإِحْسَانَ عَلىٰ کُلِّ شَيءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَ لْيُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَهُ فَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَهُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
الحديث رقم 48: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الصيد والذبائح وما يؤکل من الحيوان، باب: الأمر بإحسان الذبح والقتل وتحديد الشفرة، 3 / 1548، الرقم: 1955، والترمذي في السنن، کتاب: الديات عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في النهي عن المثلة، 4 / 23، الرقم: 1409، وأبوداود في السنن، کتاب: الضحايا، باب: في النهي أن تصبر البهائم والرفق بالذبيحة، 3 / 100، الرقم: 2815، والنسائي في السنن، کتاب: الضحايا، باب: الأمر بإحداد الشفرة، 7 / 227، الرقم: 4405، وفي کتاب: الضحايا، باب: ذکر المنفلتة التي لا يقدر علي أخذها، 7 / 229، الرقم: 4411، وفي کتاب: الضحايا، باب: حسن الذبح، 7 / 229، الرقم: 4412 - 4414، وابن ماجه في السنن، کتاب: الذبائح، باب: إذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، 2 / 1058، الرقم: 3170 وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 123، وابن حبان في الصحيح، 13 / 199، الرقم: 5883، وابن الجارود في کتاب المنتقي، 1 / 214، الرقم: 839، والدارمي في السنن، 2 / 112، الرقم: 1970.
’’حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر کام میں اِحسان فرض کیا ہے۔ جب تم قتل کرو تو اچھی طرح سے قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح سے ذبح کرو اور ذبح کرنے والے کو چاہیے کہ چھری کو اچھی طرح تیز کرے اور اپنے ذبح ہونے والے جانور کو آرام دے۔‘‘
49 / 49. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه يَقُوْلُ: أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْ نَتَصَدَّقَ فَوَافَقَ ذَلِکَ عِنْدِي مَالًا، فَقُلْتُ: الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَابَکْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا، قَالَ: فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِکَ؟ قُلْتُ: مِثْلَهُ، وَ أَتَي أَبُوْبَکْرٍ بِکُلِّ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: يَا أَبَابَکْرٍ! مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِکَ؟ قَالَ: أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللهَ وَرَسُوْلَهُ، قُلْتُ: وَاللهِ! لَا أَسْبِقُهُ إِلَي شَيءٍ أَبَدًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ.
الحديث رقم 49: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب: في مناقب أبي بکر وعمر رضي الله عنهما کليهما، 6 / 52، الرقم: 3675، وأبوداود في السنن، کتاب: الزکاة، باب: الرخصة في ذلک، 2 / 129، الرقم: 1678، والدارمي في السنن، 1 / 480، الرقم: 1660، والبزار في المسند، 1 / 263، الرقم: 159، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 173، الرقم: 81، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 33، الرقم: 14، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 579، الرقم: 1240.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اتفاق سے اس وقت میرے پاس مال تھا، میں نے کہا: اگر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج لے جاؤں گا۔ فرماتے ہیں کہ پھر میں نصف مال لے کر حاضر ہوا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کیا: اس (مال) کے برابر ہی، اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سارا مال لے کر حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر! گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ عرض کیا: ان کے لئے اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کو چھوڑ آیا ہوں۔ میں نے (دل میں) کہا: بخدا! میں کبھی ان سے کسی (نیک) بات میں آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔‘‘
50 / 50. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي اللہ عنه، قَالَ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اتَّقِ اللهَ حَيْثُمَا کُنْتَ، وَأَتْبَعِ السَّيِئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بخُلُقٍ حَسَنٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 50: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: البر والصلة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في معاشرة الناس، 4 / 355، الرقم: 1987، والدارمي في السنن، 2 / 415، الرقم: 2791، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 153، الرقم: 21392، والطبراني عن معاذ رضي الله عنه في المعجم الکبير، 20 / 144، الرقم: 296، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 211، الرقم: 25324، والبزار في المسند، 9 / 416، الرقم: 4022.
’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے فرمایا: تم جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، گناہ کے بعد نیکی کیا کرو وہ اسے مٹا دے گی اور لوگوں سے اخلاق حسنہ کے ساتھ پیش آیا کرو۔‘‘
51 / 51. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: يَقُوْلُ اللهُ: إِذَا أَرَادَ عَبْدِي أَنْ يَعْمَلَ سَيِئَةً فَلَا تَکْتُبُوْهَا عَلَيْهِ حَتَّى يَعْمَلَهَا، فَإِنْ عَمِلَهَا فَاکْتُبُوْهَا بِمِثْلِهَا، وَ إِنْ تَرَکَهَا مِنْ أَجْلِي فَاکْتُبُوْهَا لَهُ حَسَنَةً، وَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْمَلَ حَسَنَةً، فَلَمْ يَعْمَلْهَا فَاکْتُبُوْهَا لَهُ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا فَاکْتُبُوْهَا لَهُ بِعَشَرِ أَمْثَالِهَا إِلَي سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم 51: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التوحيد، باب: قولِ اللہ تعالي: يُرِيْدُوْنَ أَنْ يُبَدِّلُوا کَلَامَ اللهِ (الفتح: 15)، 6 / 2724، الرقم: 7062، وفي کتاب: الرقاق، باب: مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ أَوْسَيِئَةٍ، 5 / 2380، الرقم: 6126، ومسلم في الصحيح، باب: إذا همّ العبد بحسنة کتبت وإذا همّ سيّئة لم تکتب، 1 / 117، الرقم: 128.131، والترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول اللہ ﷺ، باب: ومن سورةِ الأنْعَامِ، 5 / 261، الرقم: 3073، وابن حبان في الصحيح، 2 / 103، 105، الرقم: 379.382، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 315، الرقم: 8151، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 265، الرقم: 865، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 300، الرقم: 336، 5 / 389، الرقم: 7043، 7046، وأبو عوانة في المسند، 1 / 81، الرقم: 239.242، وأبونعيم في المسند المستخرج، 1 / 27، الرقم: 335، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 27، الرقم: 21.24، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 182.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے) فرماتا ہے: جب میرا بندہ بُرے کام کا ارادہ کرے تو اس کی کوئی برائی نہ لکھو جب تک کہ وہ اس برائی کا ارتکاب نہ کر لے، اور جب وہ برائی کر لے تو اس کے برابر ہی (گناہ) لکھو، اور اگر میری وجہ سے ترک کردے تو اس (ترک گناہ) کو اس کے لئے ایک نیکی لکھ دو۔ اور جب اس نے نیکی کا ارادہ کیا مگر نیکی نہ کر سکا تو اس کے لئے ایک نیکی لکھ دو اور اگر وہ اسے کر لے تو اس نیکی کو اس کے لئے دس گنا سے سات سو گنا تک لکھو۔‘‘
52 / 52. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَي أَکُوْنُ مُحْسِنًا؟ قَالَ: إِذَا قَالَ جِيْرَانُکَ: أَنْتَ مُحْسِنٌ فَأَنْتَ مُحْسِنٌ، وَإِذَا قَالُوْا: إِنَّک مُسِيئٌ فَأَنْتَ مُسِيئٌ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ حِبَّانَ وَاللَّفْظُ لَهُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 52: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: الثناء الحسن، 2 / 1411، الرقم: 4222.4223، وابن حبان في الصحيح، ذکر العلامة التي يستبدل المرء بها علي إحسانه، 2 / 284، الرقم: 525، والحاکم في المستدرک، 1 / 534، الرقم: 1399، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 85، الرقم: 1399، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 48، الرقم: 97، والمناوي في فيض القدير، 1 / 244.
’’حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہ! میں محسن کب بنوں گا؟ فرمایا: جب تیرا پڑوسی تجھے کہے کہ تو محسن ہے تو تو محسن ہے، اور جب وہ تجھے کہیں کہ تو برا ہے۔ تو تو برا ہے۔‘‘
53 / 53. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِذَا جَمَعَ اللهُ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخَرِيْنَ يُنَادِي مُنَادٍ فِي صَعِيْدٍ وَاحِدٍ مِنْ بُطْنَانِ الْعَرْشِ: أَيْنَ أَهْلُ الْمَعْرِفَةِ بِاللهِ؟ أَيْنَ الْمُحْسِنُوْنَ؟ قَالَ: فَيَقُوْمُ عُنُقٌ مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَقِفُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ، فَيَقُوْلُ. وَهُوَ أَعْلَمُ بِذَلِکَ: مَا أَنْتُمْ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: نَحْنُ أَهْلُ الْمَعْرِفَةِ الَّذِيْنَ عَرَّفْتَنَا إِيَاکَ وَجَعَلْتَنَا أَهْلاً لِذَلِکَ. فَيَقُوْلُ: صَدَقْتُمْ. ثُمَّ يَقُوْلُ لِلآخَرِيْنَ: مَا أَنْتُمْ؟ قَالُوْا: نَحْنُ الْمُحْسِنُوْنَ. قَالَ: صَدَقْتُمْ، قُلْتُ لِنَبِيِّ: (مَا عَلىٰ الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ) (التوبة، 9: 91) مَا عَلَيْکُم مِنْ سَبِيْلٍ، ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِي. ثُمَّ تَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَقَالَ: لَقَدْ نَجَّاهُمُ اللهُ مِنْ أَهْوَالِ بِوَائِقِ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ فِي کِتَابِ الْأَرْبَعِيْنَ.
الحديث رقم 53: أخرجه أبونعيم في کتاب الأربعين، 1 / 100، الرقم: 51، والمناوي في فيض القدير، 1 / 420، الرقم: 4.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب اولین و آخرین کے لوگوں کو جمع فرمائے گا تو ایک پکارنے والا عرش کے پایوں تلے ایک میدان سے صدا دے گا: کہاں ہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے؟ کہاں ہیں صاحبانِ احسان؟ فرمایا: لوگوں میں سے ایک گروہ اللہ تعالیٰ کے سامنے آ کھڑا ہو گا۔ پس وہ (یعنی اللہ تعالیٰ) فرمائے گا، حالانکہ وہ بہتر جاننے والا ہے: تم کون ہو؟ پس وہ لوگ کہیں گے: ہم اہلِ معرفت ہیں جنہیں تو نے اپنی معرفت عطا کی اور ہمیں اس معرفت کا اہل بنایا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم نے سچ کہا، پھر دوسرے گروہ سے پوچھے گا: تم کون ہو؟ وہ عرض کریں گے: ہم صاحبانِ احسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم نے سچ کہا، میں نے اپنے نبی سے فرمایا تھا: ’’صاحبانِ احسان پر اِلزام کی کوئی راہ نہیں۔‘‘ لہٰذا تم پر بھی (طعنہ زنی کی) کوئی راہ نہیں۔ میری رحمت کے ساتھ سیدھے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے احوال اور سختیوں سے نجات دے دے گا۔‘‘
54 / 54. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 54: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: خوف المؤمن من أن يحبط عمله وهو لا يشعر، 1 / 27، الرقم: 48، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان قول النبي ﷺ: سباب المسلم فسوق وقتاله کفر، 1 / 81، الرقم: 64، والترمذي في السنن، کتاب: البر والصلة عن رسول اللہ ﷺ، باب: (52)، 4 / 353، الرقم: 1983، والنسائي في السنن، کتاب: تحريم الدم، باب: قتال المسلم، 7 / 121، الرقم: 4105، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: في الإيمان، 1 / 27، الرقم: 69، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 411، الرقم: 3903، والبزار في المسند، 4 / 13، الرقم: 1172.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔‘‘
55 / 55. عَنْ أَنْسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ يَقُوْلُ: يُجَاءُ بِالْکَافِرِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُقَالُ لَهُ: أَرَ أَيْتَ لَوْ کَانَ لَکَ مِلْئُ الْأَرْضِ ذَهَبًا أَکُنْتَ تَفْتَدِي بِهِ؟ فَيَقُوْلُ: نَعَمْ. فَيُقَالُ لَهُ: قَدْ کُنْتَ سُئِلْتَ مَا هُوَ أَيْسَرُ مِنْ ذَلِکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم 55: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الرقاق، باب: من نوقش الحساب عذب، 5 / 2395، الرقم: 6173، ومسلم في الصحيح، کتاب: صفة القيامة والجنة والنار، باب: طلب الکافر الفداء بملء الأرض ذهبا، 4 / 2161، الرقم: 2805، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 291، الرقم: 14139، وابن حبان في الصحيح، 16 / 348، الرقم: 7351، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 118، الرقم: 7026، وأبويعلي في المسند، 5 / 304، الرقم: 2926.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے: قیامت کے روز کافر کو پیش کیا جائے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ اگر تیرے پاس اتنا سونا ہو کہ اس سے زمین بھر جائے تو کیا تم اسے اپنی رہائی کے بدلے میں فدیہ دینے کو تیار ہو جاتے؟ وہ کہے گا: ہاں! تو اس سے کہا جائے گا کہ تجھ سے اس کی نسبت بہت ہی آسان چیز مانگی گئی تھی (اور تونے انکار کر دیا تھا)۔‘‘
56 / 56. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: إِذَا کَفَّرَ الرَّجُلُ أَخَاهُ فَقَدْ بَاء بِهَا أَحَدُهُمَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
الحديث رقم 56: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأدب، باب: من کفر أخاه بغير تأويل فهو کما قال، 5 / 2264، الرقم: 5753، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب، بيان حال إيمان من قال لأخيه المسلم يا کافر، 1 / 79، الرقم: 60، ومالک في المؤطا، 2 / 984، الرقم: 1777، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 18، الرقم: 4687، وأبو عوانة في المسند، 1 / 32، الرقم: 54، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 157، الرقم: 439.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص اپنے (مسلمان) بھائی کو کافر کہتا ہے تو دونوں میں سے کوئی ایک شخص اس کفر کے ساتھ لوٹا (یعنی اگر جسے کہا گیا وہ کافر نہ ہوا تو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا)۔‘‘
57 / 57. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْکَافِرِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 57: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الزهد والرقائق، 4 / 2272، الرقم: 2956، والترمذي في السنن، کتاب: الزهد عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء أن الدنيا سجن المؤمن وجنة الکافر، 4 / 562، الرقم: 2324، وابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: مثل الدنيا، 2 / 1378، الرقم: 4113، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 323، الرقم: 8272، وابن حبان في الصحيح، 2 / 462، الرقم: 687، والحاکم عن سلمان رضي الله عنه في المستدرک، وقال الحاکم: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ الإِسْنَادِ، 3 / 699، الرقم: 6545، والبزار عن سلمان رضي الله عنه في المسند، 6 / 461، الرقم: 2498.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے۔‘‘
58 / 58. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ضَافَهُ ضَيْفٌ کَافِرٌ فَأَمَرَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِشَاةٍ فَحُلِبَتْ فَشَرِبَ. ثُمَّ أُخْرَي فَشَرِبَهُ. ثُمَّ أُخْرَي فَشَرِبَهُ. حَتَّى شَرِبَ حِلَابَ سَبْعِ شِيَاه، ثُمَّ أَصْبَحَ مِنَ الْغَدِ فَأَسْلَمَ. فَأَمَرَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِشَاةٍ فَحُلِبَتْ فَشَرِبَ حِلَابَهَا. ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِأُخْرَي فَلَمْ يَسْتَتِمَّهَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: الْمُؤْمِنُ يَشْرَبُ فِي مِعًي وَاحِدٍ، وَالْکَافِرُ يَشْرَبُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
الحديث رقم 58: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الأشربة، باب: المؤمن يأکل في معي واحد والکافر يأکل في سبعة، 3 / 1632، الرقم: 2063، والترمذي في السنن، کتاب: الأطعمة عن رسول اللہ ﷺ، باب: ما جاء أن المؤمن يأکل في معي واحد والکافر يأکل في سبعة أمعاء، 4 / 267، الرقم: 1819، ومالک في الموطأ، 2 / 924، الرقم: 1648، والنسائي في السنن الکبري، 4 / 200، الرقم: 6893، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 375، الرقم: 8866، وابن حبان في الصحيح، 1 / 379، الرقم: 162.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ کے ہاں ایک کافر مہمان ہوا۔ آپ ﷺ نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا وہ دوہی گئی تو وہ تمام دودھ پی گیا، دوسری بکری کا حکم دیا وہ دوہی گئی تو اسے بھی پی گیا۔ پھر ایک اور دوہی گئی تو اسے بھی پی گیا یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔ دوسری صبح وہ اسلام لے آیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کے لئے بکری دوہنے کا حکم دیا تو اس نے دودھ پی لیا پھر دوسری بکری دوہنے کا حکم فرمایا وہ دوہی گئی تو وہ اس کا سارا دودھ نہ پی سکا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں سے پیتا ہے۔‘‘
59 / 59. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ لَا يَظْلِمُ مُؤْمِنًا حَسَنَةً. يُعْطَي بِهَا فِي الدُّنْيَا وَيُجْزَي بِهَا فِي الآخِرَةِ. وَأَمَّا الْکَافِرُ، فَيُطْعَمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا ِللهِ فِي الدُّنْيَا حَتَّى إِذَا أَفْضَي إِلَي الآخِرَةِ لَمْ يَکُنْ لَهُ حَسَنَةٌ يُجْزَي بِهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 59: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: صفة القيامة والجنة والنار، باب: جزاء المؤمن بحسناته في الدنيا والآخرة وتعجيل حسنات الکافر في الدنيا، 4 / 2162، الرقم: 2808، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 283، الرقم: 14050، وابن حبان في الصحيح، 2 / 101، الرقم: 377، والطيالسي في المسند، 1 / 269، الرقم: 2011، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 357، الرقم: 7028.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نیکی کے حوالے سے مومن پر ظلم نہیں فرماتا۔ دنیا میں بھی اس (مومن) کو اس (نیکی ) کا اجر دیا جاتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا اجر دیا جاتا ہے۔ رہا کافر تو اس نے دنیا میں جو اللہ تعالیٰ کے لئے نیکیاں کی ہیں ان کا اجر اسے دنیا میں ہی دے دیا جائے گا اور جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے پاس کوئی نیکی نہیں ہو گی جس کی اسے جزا دی جائے۔‘‘
60 / 60. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تَرْتَدُّوْا بَعْدِي کُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم 60: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الفتن، باب: قول النبي ﷺ: لا ترجعوا بعدي کفارا يضرب بعضکم رقاب بعض، 6 / 2594، الرقم: 6668، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 269، الرقم: 4166، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 283.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم میں سے بعض، بعض کی گردنیں اڑانے لگیں۔‘‘
61 / 61. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّيْلِ المُظْلِمِ. يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي کَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَ يُصْبِحُ کَافِرًا. يَبِيْعُ دِيْنَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
الحديث رقم 61: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: الحث علي المبادرة بالأعمال قبل تظاهر الفتن، 1 / 110، الرقم: 118، والترمذي في السنن، کتاب: الفتن عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء ستکون فتن کقطع الليل المظلم، 4 / 487، الرقم: 2195، وقال أبوعيسي: هذا حديث حسن صحيح، وابن حبان في الصحيح، 15 / 96، الرقم: 6704، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 303، الرقم: 8017.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان فتنوں کے واقع ہونے سے پہلے نیک اعمال کرلو جو اندھیری رات کی طرح چھا جائیں گے، ایک شخص صبح مومن ہو گا اور شام کو کافر ہو جائے گا یا شام کو مومن ہو گا اور صبح کافر ہو جائے گا اور معمولی سی دنیاوی منفعت کے عوض اپنی متاعِ ایمان فروخت کر ڈالے گا۔‘‘
62 / 62. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: الْمِرَاءُ فِي القُرْآنِ کُفْرٌ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ. إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
الحديث رقم 62: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: النهي عن الجدال في القرآن، 4 / 199، الرقم: 4603، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 33، الرقم: 8093، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 300، الرقم: 7976 وابن حبان في الصحيح، 4 / 324، الرقم: 1464، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 61، الرقم: 2478، والهيثمي في المجمع الزوائد، 1 / 157.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قرآن مجید میں (من مانی تحریفات و تاویلات کرکے) جھگڑا کرنا کفر ہے۔‘‘
63 / 63. عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَابِ اللهِ وَعُقُوْبَتِهِ فَلَيْسَ شَيئٌ أَکْرَهَ إِلَيْهِ مِمَّا أَمَامَهُ فَکَرِهَ لِقَاءَ اللهِ وَکَرِهَ اللهُ لِقَائَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 63: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الرقاق، باب: من أحب لقاء اللہ أحب اللہ لقاء ه، 5 / 2386، الرقم: 6142، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 107، الرقم: 12066، وابن حبان في الصحيح، 7 / 279، الرقم: 3009، والدارمي في السنن، 2 / 402، الرقم: 2756، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 171، الرقم: 5298.
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کافر کی موت آتی ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضگی کی خبر دی جاتی ہے۔ پس جو چیز بھی اس کے سامنے ہوتی ہے وہ اسے سخت ناپسند ہو جاتی ہے سو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنا بھی نا پسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے ملنا نا پسند کرتا ہے۔‘‘
64 / 64. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَ إِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ. وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
و زاد مسلم: وَإِنْ صَامَ وَ صَلّى وَزَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ.
الحديث رقم 64: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: علامة المنافق، 1 / 21، الرقم: 33، وفي کتاب: الشهادات، باب: من أمر بإنجاز الوعد، 2 / 952، الرقم: 2536، وفي کتاب: الوصايا، باب: قول اللہ تعالي: مِنْ بَعْدِ وَصِيَه يُوْصَي بِهَا أَوْ دَيْنٍ، 3 / 1010، الرقم: 2598، وفي کتاب: الأدب، باب: قول اللہ تعالي: يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِيْنَ، 5 / 2262، الرقم: 5744، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان خصال المنافق، 1 / 78، الرقم: 59، والترمذي في السنن، کتاب: الإيمان عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في علامة المنافق، 5 / 19، الرقم: 2631، وَ حَسَّنَهُ، والنسائي في السنن، کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: علامة المنافق، 8 / 116، الرقم: 5021، وفي السنن الکبري، 6 / 329، الرقم: 11127، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 357، الرقم: 8670.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔‘‘
’’اور مسلم نے اپنی روایت میں ’’آیۃ المنافق ثلاث‘‘ کے بعد ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: اگرچہ روزہ رکھے، نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان خیال کرے۔‘‘
65 / 65. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِيهِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فِيْهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ کَانَتْ فِيْهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ وَ إذَا خَاصَمَ فَجَرَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 65: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: علامة المنافق، 1 / 21، الرقم: 34، وفي کتاب: المظالم والغصب، باب: إذا خاصم فجر، 2 / 868، الرقم: 2327، وفي کتاب: الجزية، باب: إثم من عاهد ثم غدر، 3 / 1160، الرقم: 3007، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان خصال المنافق، 1 / 78، الرقم: 58، والترمذي في السنن، کتاب: الإيمان عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في علامة المنافق، 5 / 19، الرقم: 2632، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: الدليل علي زيادة الإيمان ونقصانه، 4 / 221، الرقم: 4688، والنسائي في السنن، کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: علامة المنافق، 8 / 16، الرقم: 5020، وفي السنن الکبري، 5 / 224، الرقم: 8734، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 189، الرقم: 6768، وابن حبان في الصحيح، 1 / 488، الرقم: 254، والبيهقي في السنن الکبري، 9 / 230.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے (وہ خصلتیں یہ ہیں): جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑے تو بیہودہ گوئی کرے۔‘‘
66 / 66. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: آيَةُ الإِيْمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 66: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: علامة الإيمان حب الأنصار، 1 / 14، الرقم: 17، وفي کتاب: فضائل الصحابة، باب: حب الأنصار من الإيمان، 3 / 1379، الرقم: 3573، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: الدليل علي أن حب الأنصار وعلي رضي الله عنه من الإيمان وعلاماته، وبغضهم من علامات النفاق، 1 / 85، الرقم: 74، والنسائي في السنن، کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: علامة الإيمان، 8 / 116، الرقم: 5019، وفي السنن الکبري، 6 / 534، الرقم: 8331، وأحمد بن حنبل في المسند عن أبي سعيد الخدري رضي اللہ عنه، 3 / 70، الرقم: 11686، 12338، 12392، 13632، وأبويعلي في المسند، 7 / 190، الرقم: 4175، 4308.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: انصار سے محبت ایمان کی نشانی ہے، اور انصار سے بغض منافقت کی علامت ہے۔‘‘
67 / 67. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي اللہ عنها تَقُوْلُ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَقُولُ: لَا يُحِبُّ عَلِيًا مُنَافِقٌ وَلَا يَبْغَضُهُ مُؤْمِنٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْيَعْلَي.
الحديث رقم 67: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب: (21)، 5 / 635، الرقم: 3717، وأبويعلي في المسند، 12 / 362، الرقم: 6931، والطبراني في المعجم الکبير، 23 / 375، الرقم: 886، وأبوالمحاسن في معتصر المختصر، 2 / 247.
’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: کوئی منافق علی (رضی اللہ عنہ) سے محبت نہیں کرتا اور کوئی مومن علی (رضی اللہ عنہ) سے بغض نہیں رکھتا۔‘‘
68 / 68. عَنْ زِرٍّ بِنْ حُبَيْشٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رضي الله عنه: وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسَمَةَ، إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ ﷺ إِلَيَّ: أَنْ لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.
الحديث رقم 68: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: الدليل علي أن حب الأنصار وعلي من الإيمان وعلاماته، وبغضهم من علامات النفاق، 1 / 86، الرقم: 78، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 47، الرقم: 32064، والبزار في المسند، 2 / 182، الرقم: 560، وقال: إِسْنَادهُ أَحْسَنَ، والصيداوي في معجم الشيوخ، 1 / 237، الرقم: 192، وأبويعلي في المسند، 1 / 250، الرقم: 291، وابن منده في الإيمان، 2 / 607، الرقم: 532، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 598، الرقم: 1325، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 354.
وفي رواية عنه: قَالَ: لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ ﷺ أَنَّهُ لَا يُحِبُّکَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يَبْغَضُکَ إِلَّا مُنَافِقٌ.(1)
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
(1) أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب: (21)، 5 / 643، الرقم: 3736، والنسائي في السنن، کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: علامة الإيمان، 8 / 115، الرقم: 5018، وفي باب: علامة المنافق، 6 / 117، الرقم: 5022، وفي السنن الکبري، 5 / 137، الرقم: 8486، 11753، وابن ماجة في السنن، المقدمة، باب: فضل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 1 / 42، الرقم: 114، وأبويعلي في المسند، 1 / 347، الرقم: 445.
’’حضرت زِرّ بن حبیش رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ چیرا اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا! حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے عہد فرمایا تھا کہ مجھ سے صرف مومن محبت رکھے گا اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا۔‘‘
’’اور ایک روایت میں انہی (حضرت زِر بن حبیش رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے عہد فرمایا: (اے علی!) تجھ سے مومن ہی محبت رکھے گا اور تجھ سے منافق ہی بغض رکھے گا۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved