معمولات میلاد

چند اِعتراضات کا علمی محاکمہ

قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں جمہور ائمہ و علماء اِس بات پر متفق ہیں کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا جشن منانا شرعاً جائز بلکہ مستحب ہے اور بے اِنتہاء فضائل و برکات اور خیر و بھلائی کا موجب ہے۔ لہٰذا ایک بندۂ مومن کو حتی المقدور برکتوں کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔ کتاب کے اِس آخری باب میں ہم جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالہ سے چند اِعتقادی اُمور زیر بحث لائیں گے تاکہ اِس موضوع پر اُٹھائے جانے والے اُن بعض اِعتراضات کا قلع قمع ہو جو ناقدین کی طرف سے اِس مباح اور مستحسن اَمر پر کیے جاتے ہیں۔

1۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِصطلاح کا اِستعمال

لفظِ میلاد کی اَصل (origin) کے بارے میں بعض ناقدین کی طرف سے سوال اٹھایا جاتا ہے کہ عالم عرب میں اس کی جگہ مولد کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور میلاد ایسا لفظ ہے جو صرف برصغیر پاک و ہند میںمستعمل ہے۔ یہ ایک غلط تصور ہے۔ دراصل اُردو ایک لشکری زبان ہے جس کے ذخیرۂ اَلفاظ میں عربی، فارسی اور دیگر زبانوں کے بے شمار الفاظ شامل ہیں۔ اُردو میں ولد، والد، والدہ، مولود، میلاد اور متولد تمام عربی الاصل الفاظ ہیں۔ اِسی طرح عربی اور فارسی کے بے شمار الفاظ ہیں جنہیں اُردو نے کثرتِ اِستعمال سے اپنے اندر سمو لیا ہے اور وہ اُردو زبان و محاورہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ عربی کتب میں مولد کا لفظ کثرت سے متداول ہے، اِسی طرح اردو کتبِ سیرت میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثیر الاستعمال لفظ بن گیا ہے۔ میلاد عربی لفظ ہے جسے ترمذی (210-279ھ)، طبری (224-310ھ)، ابن کثیر (701-774ھ)، سیوطی (849-911ھ) اور عسقلانی (773-852ھ) سمیت متعدد مفسرین، محدّثین، مؤرّخین اور اَصحابِ سیر نے اِستعمال کیا ہے۔

  1. کتبِ لغت میں لفظِ میلاد کا اِستعمال

اَئمہ لغت نے لفظ میلاد اپنی کتب میں استعمال کیا ہے۔

1۔ ابن منظور افریقی (630-711ھ) اور عبد القادر رازی حنفی (660ھ کے بعد فوت ہوئے)، مرتضی زبیدی (1145-1205ھ) اور علامہ جوہری فرماتے ہیں:

ومیلاد الرجل: اسم الوقت الذی وُلِدَ فیه.

  1. ابن منظور، لسان العرب، 3: 468
  2. رازی، مختار الصحاح: 422
  3. زبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس، 5: 327
  4. جوہری، الصحاح فی اللغة والعلوم، 2: 713

’’اور اِنسان کا میلاد اُس وقت کا نام ہے جس میں اُس کی پیدائش ہوتی ہے۔‘‘

2۔ لغت کی معروف کتب ’’المعجم الوسیط (2: 1056)‘‘ اور ’’تاج العروس من جواہر القاموس (5: 327)‘‘ میں ہے:

المیلاد: وقت الولادة.

’’میلاد سے مراد وقتِ ولادت ہے۔‘‘

  1. کتبِ اَحادیث و سیر میں لفظِ میلاد کا اِستعمال

اَحادیث و آثار کے متن میں بھی لفظِ میلاد اِستعمال ہوا ہے۔ اِمام ترمذی (210-279ھ) نے الجامع الصحیح میں کتاب المناقب کا دوسرا باب ہی ’’ما جاء فی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ قائم کیا ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ بالکل باطل ہے کہ لفظِ میلاد ہندی الاصل ہے۔ وہ روایت کرتے ہیں:

سأل عثمان بن عفان رضی الله عنه قباث بن أُشَیْمِ أخا بنی یعمر بن لیث: أأنت أکبر أم رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم ؟ فقال: رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم أکبر منی، وأنا أقدم منه فی المیلاد.

  1. ترمذی، الجامع الصحیح، 5: 589، کتاب المناقب، باب ماجاء فی میلاد النبی صلی الله علیه وآله وسلم ، رقم: 3619
  2. شیبانی، الآحاد والمثانی، 1: 407، رقم: 566
  3. طبری، تاریخ الأمم والملوک، 1: 453
  4. بیهقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشریعة، 1: 77
  5. ابن کثیر، البدایة والنهایة، 2: 216، 217

’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بنی یعمر بن لیث کے بھائی قباث بن اُشیم سے پوچھا: آپ بڑے ہیں یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ تو اُنہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے بڑے ہیں، اور میں میلاد (پیدائش) میں اُن سے پہلے ہوں۔‘‘

حضرت قباث بن اُشیم رضی اللہ عنہ کا قول - ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے بڑے ہیں لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے پیدا ہوا تھا‘‘ - حسنِ اَدب اور معراجِ اِحترام کی زُہرہ صفت مثال ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہجرتِ مدینہ کے دوران نہاں خانۂ غارِ ثور میں قیام فرما ہوئے درآں حالیکہ قریشِ مکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلاش کر رہے تھے۔ روایت کے الفاظ ہیں:

وطلبت قریش رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم أشد الطلب حتی انتهوا إلی باب الغار، فقال بعضهم: إن علیه العنکبوت قبل میلاد محمد صلی الله علیه وآله وسلم فانصرفوا.

  1. ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1: 228
  2. سیوطی، کفایة الطالب اللبیب فی خصائص الحبیب، 1: 305

’’قریش نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت تلاش کیا یہاں تک کہ تلاش کرتے کرتے غارِ ثور کے دہانے تک پہنچ گئے۔ پس اُن میں سے بعض نے کہا: اِس کے منہ پر تو محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے میلاد سے بھی پہلے کا مکڑی کا بنا ہوا جالا ہے۔ پس (یہ دیکھ کر) وہ لوٹ گئے۔‘‘

اِسی موضوع کی ایک روایت میں درجِ ذیل اَلفاظ ہیں:

فلما انتهوا إلی فم الغار، قال قائل منهم: ادخلو الغار۔ فقال أمیة بن خلف: وما أر بکم أی حاجتکم إلی الغار؟ أن علیه لعنکبوتًا کان قبل میلاد محمد صلی الله علیه وآله وسلم.

  1. حلبی، إنسان العیون فی سیرة الأمین المامون، 2: 209
  2. کلاعی، الإکتفاء بما تضمنه من مغازی رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم ، 1: 339
  3. سیوطی، کفایة الطالب اللبیب فی خصائص الحبیب، 1: 306

’’جب قریشِ مکہ غار کے دہانہ پر پہنچے تو اُن میں سے کسی نے کہا: غار میں داخل ہو جائو۔ اِس پر اُمیہ بن خلف نے کہا: تم غار میں جا کر کیا کرو گے؟ اِس کے منہ پر تو محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے میلاد سے قبل کا مکڑی کا جالہ لگا ہوا ہے۔‘‘

ابن عون فرماتے ہیں:

قُتل عمارٌ، رحمه اﷲ، وهو ابن إحدی وتسعین سنة، وکان أقدم فی المیلاد من رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم.

  1. ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 3: 259
  2. ابن عساکر، تاریخ دمشق الکبیر، 43: 471
  3. مزی، تهذیب الکمال فی أسماء الرجال، 21: 224

’’حضرت عمار رضی اللہ عنہ 91 سال کی عمر میں شہید کیے گئے اور وہ میلاد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے تھے۔‘‘

حافظ ابن حجر عسقلانی (773-852ھ) زمانۂ جاہلیت کے ’’محمد‘‘ نامی لوگوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ’’محمد بن مسلمہ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:

وهو غلط فأنه ولد بعد میلاد النبی صلی الله علیه وآله وسلم بمدة، ففضل له خمسة، وقد خلص لنا خمسة عشر.

عسقلانی، فتح الباری، 6: 557

’’اور یہ درست نہیں ہے کیوں کہ ان کی پیدائش حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے مدت بعد ہوئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پانچ ناموں کے ذریعے فضیلت دی گئی اور ہمیں پندرہ سے نجات دے دی گئی۔‘‘

حضرت اِبن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

کان بین موسی بن عمران وعیسی بن مریم ألف سنة وتسعمائة سنة ولم تکن بینهما فَترة، وإنه أرسل بینهما ألف نبی من بنی إسرائیل سوی من أرسل من غیرهم، وکان بین میلاد عیسٰی والنبی علیه الصلاة والسلام، خمسمائة سنة وتسع وستون سنة.

  1. ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1: 53
  2. طبری، تاریخ الأمم والملوک، 1: 495
  3. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 6: 122

’’حضرت موسیٰ بن عمران اور عیسیٰ بن مریم علیھما السلام کے درمیان 1900 سال کا عرصہ ہے اور اُن دونوں کے درمیان زمانہ فترت (جس میں وحی کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے) نہیں گزرا۔ اُن دونوں کے اِس عرصہ نبوت کے درمیان بنی اسرائیل میں ہی ایک ہزار نبی بھیجے گئے، اُن کے علاوہ بھیجے جانے والے علیحدہ ہیں۔ میلادِ عیسیٰ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کی بعثت) کا درمیانی عرصہ 569 سال بنتا ہیں۔‘‘

مذکورہ روایات واضح کرتی ہیں کہ ثقہ رُواۃ اور اَجل ائمہ و محدثین نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے بیان کے لیے لفظِ میلاد اِستعمال کیا ہے، اور یہ لفظ قطعاً برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کی اِیجاد نہیں ہے۔

  1. تصانیف میں لفظِ میلاد کا اِستعمال

کبار اور مستند مصنفین نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف کے موضوع پر کتب لکھیں، جیسا کہ ہم نے گزشتہ اَبواب میں بالتفصیل بیان کیا ہے۔ اُنہوں نے اپنی کتب کے ناموں میں لفظِ میلاد اِستعمال کیا ہے۔ حاجی خلیفہ نے اپنی کتاب ’’کشف الظنون عن أسامی الکتب والفنون‘‘ میں ایک کتاب کا نام یوں بیان کیا ہے:

’’درج الدرر فی میلاد سید البشر‘‘ للسید اصیل الدین عبد اﷲ بن عبد الرحمن الحسینی الشیرازی المتوفی سنة 884 أربع وثمانین وثمانمائة.

حاجی خلیفه، کشف الظنون عن أسامی الکتب والفنون، 1: 745

’’درج الدرر فی میلاد سید البشر‘‘ کتاب اصیل الدین عبد اللہ بن عبد الرحمن حسینی شیرازی کی تصنیف ہے، جن کا سنِ وِصال 884ھ ہے۔‘‘

علامہ ابن جوزی (510-597ھ) نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو مستقل کتب لکھی ہیں، جن میں سے ایک کا عنوان ’’بیان المیلاد النبوي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ ہے۔

اِس تفصیل سے ہر صاحبِ علم اور صاحبِ رائے شخص کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ لفظِ میلاد کی اصل برصغیر پاک و ہند کی اِختراع نہیں بلکہ عربی لغت کا لفظ ہے جس کا اِستعمال عالمِ عرب میں قدیم تاریخی دور سے ثابت ہے۔ اِس کے خلاف جو باتیں کی جاتی ہیں وہ ایک مخصوص ذہنی کیفیت کی غماز ہیں، حالاں کہ مصطلحاتِ دینی کے اِستعمال میں عرب دنیا اور غیرِ عرب دنیا میں کوئی فرق نہیں۔

2۔ بیانِ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اَئمہ حدیث کا اُسلوب

اِمام مسلم (206-261ھ)، اِمام ترمذی (210-279ھ) اور دیگر اَئمۂ حدیث کا یہ اُسلوب ہے کہ مناقب و فضائلِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب میں میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مضمون بالالتزام بیان کرتے ہیں۔ اَئمہ کرام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر فی نفسہٖ گفتگو کرنے کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف، یومِ ولادت، نسبِ عالی اور ان سب چیزوں کا حوالہ دیتے ہیں جو براہِ راست آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس سے متعلق ہیں۔

اِمام مسلم (206-261ھ) نے اپنی ’’الصحیح‘‘ کی کتاب الفضائل اور اِمام ترمذی (210-279ھ) اپنی ’’الجامع الصحیح‘‘ کی کتاب المناقب کے آغاز میں حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إن اﷲ اصطفی من ولد إبراهیم إسماعیل، واصطفی من ولد إسماعیل بنی کنانة، واصطفی من بنی کنانة قریشاً، واصطفی من قریش بنی هاشم، واصطفانی من بنی هاشم.

  1. ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب فی فضل النبي صلی الله علیه وآله وسلم ، 5: 583، رقم: 3605
  2. مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبي صلی الله علیه وآله وسلم وتسلیم الحجر علیه قبل النبوة، 4: 1782، رقم: 2276
  3. احمد بن حنبل، المسند، 4: 107
  4. ابن ابی شیبة، المصنف، 6: 317، رقم: 31731
  5. ابو یعلی، المسند، 13: 469، 472، رقم: 7485، 7487
  6. طبرانی، المعجم الکبیر، 22:66، رقم: 161
  7. بیهقی، السنن الکبری،6:365، رقم: 12852
  8. بیهقی، شعب الإیمان، 2: 139، رقم: 1391

’’بے شک ربِ کائنات نے اِبراہیم (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے اِسماعیل (علیہ السلام) کو منتخب فرمایا، اور اِسماعیل (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے بنی کنانہ کو، اور اَولادِ کنانہ میں سے قریش کو، اور قریش میں سے بنی ہاشم کو، اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ اِنتخاب سے نوازا اور پسند فرمایا۔‘‘

اِس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا پورا سلسلۂ نسب بیان فرما دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے إصطفی کا لفظ اس لیے بیان کیا کہ صاحبِ نسب، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (چُنے ہوئے) ہیں اور پورے نسبی سلسلہ کو یہ صفاتی لقب دیا گیا ہے۔

اِمام مسلم (206-261ھ) اپنی ’’الصحیح‘‘ کی کتاب الفضائل اور اِمام ترمذی (210-279ھ) نے اپنی ’’الجامع الصحیح‘‘ کی کتاب المناقب کے آغاز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و اَخلاق کو موضوع نہیں بنایا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات و اَقدار بیان کی ہیں، بلکہ سارا کا سارا باب بیانِ میلاد کے لیے وقف کیا ہے۔ اِمام ترمذی نے کتاب المناقب کے پہلے باب فضل النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث نمبر 2 میں دوبارہ اِسی مضمون کو لیا ہے۔ حدیث نمبر 3 اور حدیث نمبر 4 میں بھی یہی مضمون ہے۔ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ پانچویں حدیث میں امام ترمذی نے ولادت سے قبل تخلیقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرحلہ بیان کیا ہے جس میں تخلیقِ آدم علیہ السلام کا حوالہ ہے، جہاں سے اَولادِ آدمں کے سلسلۂ پیدائش کا آغاز ہوا۔ اِس حدیث کی اِبتدا یوں ہوتی ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ث نے بارگاہِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا:

یا رسول اﷲ! متی وجبت لک النبوة؟

’’یا رسول اﷲ! آپ کو شرفِ نبوت سے کب نوازا گیا؟‘‘

یہ ایک معمول سے ہٹا ہوا سوال تھا کیوں کہ صحابہ میں سے کون نہیں جانتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت چالیس سال کی عمر میں فرمایا جب غار حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی۔ یہ سب اُن کے علم میں تھا اور کسی کو اِعلانِ نبوت کے زمانہ اور وقت کے بارے میں کوئی شک و شبہ اور مغالطہ بھی نہیں تھا۔ تو پھر اس سوال کی کیا ضرورت لاحق ہوئی کہ پوچھنے لگے: ’’متی وجبت لک النبوۃ (آپ کو شرفِ نبوت سے کب نوازا گیا)؟‘‘ جب یہ بات واضح تھی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت چالیس سال کی عمر میں ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی جواباً یہ نہیں فرمایا:

ألم تعلموا؟

’’کیا تم یہ نہیں جانتے؟‘‘

اِس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام ث بعثت اور عطائِ نبوت میں فرق سمجھتے تھے اور اِس سے بخوبی آشنا تھے۔ اِسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام ث کے سوال کے جواب میں فرمایا:

وآدم بین الروح والجسد.

ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب فی فضل النبي صلی الله علیه وآله وسلم ، 5: 585، رقم: 3609

’’(میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم کی تخلیق ابھی رُوح اور جسم کے مرحلے میں تھی۔‘‘

اِس حدیث سے مراد ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت بھی نبی تھے جب روح اور جسم سے مرکب حضرت آدم علیہ السلام کا خمیر ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوا تھا۔ اور ہم نے یہاں اِس حدیث شریف کو اِسی لیے بیان کیا ہے کہ اِس میں میلاد کا مضمون بیان ہوا ہے نہ کہ سیرت کا۔ اِمام ترمذی نے اس حدیث کو کتاب المناقب میں نقل کیا ہے کیوں کہ اِس میں کوئی اَحکامِ حلّت و حُرمت، اَخلاقیات، اَقدار وغیرہ سے بحث نہیں بلکہ میلاد کا بیان ہے۔

امام ترمذی کی ’’الجامع الصحیح‘‘ میں کتاب المناقب کا پہلا باب فضل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، جب کہ دوسرا باب ما جاء فی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اگر بعض لوگ نبوت و سیرت کے لاحقہ کا ذکر کریں تو اِس کا سابقہ میلاد ہے جس کی وقوع پذیری پہلے ہوئی اور نبوت وسیرت کا ظہور اِس کے بعد ہوا ۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ولادت سے پہلے ہی بعثت ہو جائے؟ اَمرِ واقع ہے کہ ولادت پہلے ہوئی اور اِعلانِ نبوت بعد میں ہوا۔ پس اگر کوئی میلاد منائے تو وہ رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے روحانی طور پر والہانہ وابستگی اختیار کرتا ہے، پھر اس کے قلب کو وہ حالت نصیب ہوتی ہے جس میں وہ نورِ نبوت کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ امام ترمذی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت اور برتری کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس ترتیب کو مقدم رکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و اَخلاق کی تبلیغ کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَعلیٰ و اَرفع مقام و منصب کا ذکر کیا ہے۔ ہو سکتا ہے بعض کوتاہ فہم لوگ کہیں کہ اس فضیلت و برتری کے بیان کا کیا جواز ہے، کیوں نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سیرت و کردار اور اَخلاق کی تبلیغ کی جائے۔ ایسا کہنے والوں کو اِمام ترمذی کی طرف رجوع کرناچاہیے۔ اِمام مسلم، ترمذی و دیگر ائمہ علم کا ذریعہ اور ماخذ ہیں۔ مناقب میں وہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت و برتری سے آغاز کرتے ہیں، پھر میلاد کا ذکر کیا جاتا ہے۔

میلاد کے بعد جامع الترمذی کی کتاب المناقب کا تیسرا باب ہے: ما جاء فی بدء نبوۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ یہ ایک تاریخی، عقلی اور منطقی ترتیب ہے جس میں میلاد کا ذکر پہلے اور نبوت کا بعد میں آتا ہے۔ پھر چوتھے باب کا آغاز اِمام ترمذی بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کرتے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ چوتھے باب میں ان کا موضوع حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہے اور اِس کا اِعلان اُس وقت ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک چالیس برس تھی حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے ہی نبوت عطا ہو چکی تھی۔ اِس کا بیان یہاں بڑی وضاحت سے کر دیا گیا ہے کہ نبوت عطا ہونا اور اِس کا اِعلان ہونا یکسر دو مختلف چیزیں ہیں اور بعض علماء کج فہمی کی بناء پر اِن دونوں کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔

اِمام ترمذی کی اِس ترتیب سے اَئمہ حدیث اور اَصحابِ صحاحِ ستہ کا عقیدہ سمجھ میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ پانچویں باب - فی آیات إثبات نبوۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - کا آغاز ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر سلام سے کرتے ہیں۔ وادیٔ مکہ میں ایک پتھر پر سے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوتا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام پڑھا کرتا تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إن بمکة حجرا کان یسلم عليّ لیالی بُعثتُ إني لأعرفه الآن.

  1. ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب فی آیات إثبات نبوة النبی صلی الله علیه وآله وسلم ، 5: 592، رقم: 3624
  2. ابو یعلی، المسند، 13: 459، رقم: 7469
  3. طبرانی، المعجم الکبیر، 2: 220، رقم: 1907
  4. طبرانی، المعجم الأوسط، 2: 291، رقم: 2012

’’بے شک مکہ میں ایک پتھر تھا، (جب) مجھے مبعوث کیا گیا تو وہ مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ بے شک میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘

سیدنا علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں:

کنت مع النبی صلی الله علیه وآله وسلم بمکة، فخرجنا فی بعض نواحیها فما استقبله جبل ولا شجر إلا وهو یقول: السلام علیک یا رسول اﷲ.

  1. ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب فی آیات إثبات نبوة النبی صلی الله علیه وآله وسلم ، 5: 593، رقم: 3626
  2. حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 677، رقم: 4238
  3. مقدسی، الأحادیث المختارة، 2: 134، رقم: 502

’’میں مکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم راہ تھا، پس ہم بیرونی مضافات سے گزرے تو جس درخت اور پتھر سے ہمارا گزر ہوتا وہ السلام علیک یا رسول اﷲ کی صدا ضرور بلند کرتا۔‘‘

یہ وہی سلام ہے جو ہم محافلِ میلاد میں پڑھتے ہیں۔ اَفسوس! شجر و حجر تو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام پڑھ رہے ہیں لیکن آج کے بعض نام نہاد مُوَحد، شدت پسند اور بدعتی اِسے کفر و شرک گردانتے ہیں۔ حالاں کہ حدیث شریف کی اَصح کتب جیسے جامع الترمذی اور الصحیح لمسلم کی اِبتدا اِس طرح ہوئی ہے، اور جہاں تک عقیدہ کا تعلق ہے امام مسلم اور امام بخاری اِسی عقیدہ کے حامل ہیں۔ فضائل و مناقب کے مختلف اَبواب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف و فضیلت پر وقف ہیں۔ ان میں مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب بھی ہیں اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِصطلاح اِمام ترمذی نے بیان کی ہے۔

3۔ بیانِ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ائمہ سیرت و تاریخ کا اُسلوب

محدثین کے علاوہ سیرت و تاریخ نگاروں نے بھی یہی اُسلوب اپنایا ہے۔ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور اَحوال کے بیان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب پاک اور میلاد و مولد کے اَبواب بالالتزام باندھے ہیں۔

1۔ سیرت طیبہ کی سب سے پہلی اور بنیادی کتاب - السیرۃ النبویۃ - کے مؤلف ابن اِسحاق (80-151ھ) نے کتاب کا آغاز ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب اور میلاد کے بیان سے کیا ہے۔ اُنہوں نے درج ذیل دو اَبواب قائم کیے ہیں:

  1. ذکر سرد النسب الزکی من محمد صلی الله علیه وآله وسلم إلی آدم علیه السلام
  2. مولد رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم

ابن إسحاق، السیرة النبویة: 17، 99

2۔ ابن ہشام (م 213ھ) نے السیرۃ النبویۃ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب و میلاد کی فصول درج ذیل ترتیب کے مطابق قائم کی ہیں:

  1. ذکر سرد النسب الزکی من محمد صلی الله علیه وآله وسلم إلی آدم علیه السلام
  2. ولادة رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم ورضاعته

ابن هشام، السیرة النبویة: 23، 153

3۔ نام وَر سیرت نگار ابن سعد (168۔230ھ) نے ’’الطبقات الکبری (1: 20، 25، 100)‘‘ کے آغاز میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسبِ پاک اور ولادت باسعادت کے اَبواب بالتفصیل قائم کیے ہیں۔

4۔ اِمام محمد خرکوشی نیشاپوری (م 406ھ) نے ’’کتاب شرف المصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کی پہلی جلد میں جماع أبواب ظھورہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ومولدہ الشریف کے عنوان سے میلاد شریف کی بابت کئی اَبواب قائم کیے ہیں۔

5۔ ابو نعیم اَصبہانی (336۔ 430ھ) نے ’’دلائل النبوۃ (1: 14۔18)‘‘ میں ایک فصل کا عنوان ذکر فضیلتہ بطیب مولدہ وحسبہ ونسبہ رکھا ہے۔

6۔ معروف محدّث و سیرت نگار اِمام بیہقی (384۔458ھ) نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ (1: 71)‘‘ میں جماع أبواب مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے میلاد شریف کی بابت کئی فصول قائم کی ہیں۔

7۔ اِمام مقریزی (769۔845ھ) نے ’’إمتاع الأسماع بما للنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من الأحوال والأموال والحفدۃ والمتاع‘‘ میں کئی مقامات پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے متعلق فصول قائم کی ہیں۔

8۔ علامہ قسطلانی (851۔923ھ) نے ’’المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ‘‘ کے المقصد الأول میں میلاد شریف کی اَبحاث بالتفصیل بیان کی ہیں۔

9۔ یوسف صالحی شامی (م 942ھ) نے ’’سبل الھدیٰ و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (1: 325۔374)‘‘ میں جماع أبواب مولدہ الشریف صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے میلاد شریف کی بابت کئی فصول قائم کی ہیں۔

10۔ خلیفہ بن خیاط (160۔240ھ) نے ’’التاریخ‘‘ میں مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ووفاتہ کا عنوان قائم کیا ہے۔

11۔ اِمام طبری (224۔310ھ) نے ’’تاریخ الأمم والملوک‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب پاک اور میلاد کا بیان بالتفصیل کیا ہے۔

12۔ ابن عساکر (499۔571ھ) نے ’’تاریخ دمشق الکبیر (3: 29، 39)‘‘ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب پاک اور میلاد شریف بیان کیا ہے۔

13۔ اِمام ابن جوزی (510۔597ھ) نے ’’المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم‘‘ کی پہلی جلد کے آغاز میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اَجداد اور ولادت باسعادت بالتفصیل بیان کی ہے۔

14۔ اِمام ابن اثیر جزری (555۔630ھ) نے ’’الکامل فی التاریخ‘‘ کی دوسری جلد کے آغاز میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب پاک اور ولادت کا بیان بالتفصیل کیا ہے۔

15۔ اِمام ذہبی (673۔748ھ) نے ’’تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام‘‘ کی السیرۃ النبویۃ کے بیان پر مشتمل جلد میں مولدہ المبارک کا عنوان قائم کیا ہے۔

16۔ ابن الوردی (م 749ھ) نے اپنی تاریخ - ’’تتمۃ المختصر فی أخبار البشر‘‘ - کی پہلی جلد میں مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وشرف نسبہ الطاہر کا عنوان باندھا ہے۔

17۔ اِمام ابن کثیر (701۔774ھ) نے ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ کی دوسری جلد میں مولد سے متعلق کئی فصول قائم کی ہیں۔

18۔ شیخ حسین دیاربکری (م 966ھ) نے ’’تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس نفیس‘‘ کی پہلی جلد کے آغاز میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام کے میلاد شریف کے واقعات بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔

مندرجہ بالا حوالہ جات سے اَجل سیرت و تاریخ نگار اَئمہ کا اسلوب واضح ہوتا ہے کہ ان سب نے اپنی کتب کے آغاز میں گزشتہ انبیاء کرام علیھم السلام کی ولادت و واقعات، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب پاک اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف سے متعلق معلومات بڑی تفصیل کے ساتھ فراہم کی ہیں۔ اِن کے علاوہ بھی تقریباً ہر کتابِ سیرت و تاریخ میں یہ موضوع ضرور زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے لیے میلاد و مولد کے الفاظ قدیم زمانہ سے مستعمل ہیں اور کبار مصنفین اپنی کتب میں میلاد و مولد کے عنوانات سے اَبواب و فصول قائم کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب بھی اگر کوئی یہ اِعتراض کرے کہ لفظِ میلاد و مولد کی کوئی اَصل نہیں تو یہ ہٹ دھرمی اور بد بختی کے سوا کچھ نہیں۔

4۔ میلاد منانا عملِ توحید ہے شرک نہیں

یہاں یہ نکتہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ میلاد منانا فی الواقع عملِ توحید ہے۔ یہ عمل ذاتِ باری تعالیٰ کو واحد ویکتا ماننے کی سب سے بڑی دلیل ہے کیوں کہ میلاد منانے سے یہ اَمر خود بخود ثابت ہو جاتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے والے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا بندہ اور اللہ کی مخلوق مانتے ہیں۔ اور جس کی ولادت منائی جائے وہ خدا نہیں ہو سکتا، کیوں کہ خدا کی ذات لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ (نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے) کی شان کی حامل ہے۔ جب کہ نبی وہ ذات ہے جس کی ولادت ہوئی ہو جیسا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حوالے سے سورئہ مریم میں اﷲ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا:

وَسَـلَامٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ.

مریم، 19: 15

’’اور یحییٰ پر سلام ہو، اُن کے میلاد کے دن۔‘‘

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:

وَالسَّـلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ.

مریم، 19: 33

’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن۔‘‘

تو میلاد منانا گویا نبی کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق قرار دینا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اَفضل و اَعلیٰ مخلوق اِس کائنات میں کوئی نہیں۔ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد مناتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ کی خالقیت اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخلوقیت کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے۔ اِس سے بڑی توحید اور کیا ہے؟ مگر اہلِ بدعت اِس خالص عملِ توحید کو بھی بزعمِ خویش شرک کہتے ہیں جو کہ صریحاً غلط ہے۔

5۔ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خرچ کرنا اِسراف نہیں

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی میں خرچ کرنا اِسراف نہیں کیوں کہ یہ ایک اَمرِ خیر ہے اور ائمہ و فقہا کے نزدیک اُمورِ خیرمیں اِسراف نہیں۔ ذیل میں ہم چند ائمہ کے اَقوال درج کر رہے ہیں جن کے مطابق اُمورِ خیر پر خرچ کرنا اِسراف کے زمرے میں نہیں آتا:

1۔ حسن بن سہل کے بیٹے سے روایت ہے کہ حسن بن سہل نے کسی پانی پلانے والے کو اپنے گھرمیں دیکھا تو اُس کا حال پوچھا۔ سقہ نے اپنے زبوں حالی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بیٹی کی شادی کا اِرادہ ظاہر کیا۔ حسن بن سہل نے اُس کی حالتِ زار پر رحم کرتے ہوئے اُسے ایک ہزار درہم دینے کا عندیہ دیا لیکن غلطی سے اُسے دس لاکھ درہم دے دیے۔ حسن بن سہل کے اہلِ خانہ نے اِس عمل کو پسند نہ کیا اور حسن بن سہل کے پاس جانے سے خوف زدہ ہوئے۔ پھر وہ رقم کی واپسی کے لیے غسان بن عباد کے پاس گئے جو خود بھی سخی ہونے کی شہرت رکھتا تھا۔ اُس نے کہا:

أیها الأمیر! إن اﷲ لا یحب المسرفین.

’’اے امیر! بے شک اللہ تعالیٰ اِسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

اِس پر حسن نے کہا:

لیس فی الخیر إسراف.

’’خیرمیں کوئی اِسراف نہیں۔‘‘

پھر حسن نے سقہ کے حال کا ذکر کیا اور کہا:

واﷲ! لا رجعت عن شیء خطّته یدي.

’’اللہ رب العزت کی قسم! میں اپنے ہاتھوں سے ادا کردہ جملہ دراہم میں سے کچھ بھی واپس نہیں لوں گا۔‘‘

پس سقہ کو اُن تمام دراہم کا حق دار ٹھہرا دیا گیا۔

  1. ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم، 11: 240، 241، رقم: 1392
  2. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 7: 322
  3. ابن جرادۃ، بغیة الطلب فی تاریخ حلب، 5: 2386

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما فرماتے ہیں:

لیس فی الحلال اسراف، وإنما السرف فی إرتکاب المعاصی.

  1. شربینی، مغنی المحتاج إلی معرفۃ معانی ألفاظ المنهاج، 1: 393
  2. دمیاطی، إعانة الطالبین، 2: 157

’’حلال میں کوئی اِسراف نہیں، اِسراف صرف نافرمانی کے اِرتکاب میں ہے۔‘‘

3۔ سفیان ثوری  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

الحلال لا یحتمل السرف.

  1. ابو نعیم، حلیة الأولیاء وطبقات الأصفیائ، 6: 382
  2. شربینی، مغنی المحتاج إلی معرفة معانی ألفاظ المنہاج، 1: 393
  3. دمیاطی، إعانة الطالبین، 2: 157

’’حلال کام میں اِسراف کا اِحتمال نہیں ہوتا۔‘‘

مذکورہ اَقوال سے واضح ہوتا ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جتنا بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے اور خرچ کیا جائے اُس کا شمار اِسراف میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا جو لوگ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خرچ کرنے کو فضول خرچی گردانتے ہیں اُنہیں اپنی اِصلاح کرلینی چاہیے اور اِس اَمر خیر کو ہرگز نشانۂ طعن نہیں بنانا چاہیے۔

6۔ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شوکت و عظمتِ اِسلام کا مظہر ہے

حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: میں خانہ کعبہ میں شیبہ کے ساتھ کرسی پر بیٹھا تھا تو اس نے کہا کہ اسی جگہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیٹھتے تھے، میرا ارادہ ہے کہ اِس (کعبہ) میں سے تمام زرد و سفید (سونا اور چاندی) تقسیم کر دوں۔ میں نے کہا: لیکن آپ کے صاحبوں (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو بکر ص) میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔ تو انہوں نے فرمایا: اُن دونوں کی اِقتداء مجھ پر لازم ہے (یعنی میں یہ مال تقسیم نہیں کروں گا)۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الحج، باب کسوة الکعبة، 2: 578، رقم: 1517
  2. بخاری، الصحیح، کتاب الإعتصام بالکتاب والسنة، باب الإقتداء بسنن رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم ، 6: 2655، رقم: 6847
  3. احمد بن حنبل، المسند، 3: 410
  4. طبرانی، المعجم الکبیر، 7: 300، رقم: 7196
  5. بیهقی، السنن الکبری، 5: 159، رقم: 9511

حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔852ھ) نے کعبہ شریف کا خزانہ تقسیم نہ کرنے کی ایک وجہ یہ لکھی ہے:

وفی ذلک تعظیم الإسلام وترهیب العدو.

عسقلانی، فتح الباری، 3: 457

’’اور اِس میں تعظیمِ اسلام اور دشمنوں کو ڈرانا معلوم ہوتاہے۔‘‘

آپ مزید لکھتے ہیں:

واستدل التقی السبکی بحدیث الباب علی جواز تعلیق قنادیل الذهب والفضة فی الکعبة ومسجد المدینة.

عسقلانی، فتح الباری، 3: 457

اور تقی الدین سبکی نے باب کی (درج بالا) حدیث سے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سونے اور چاندی کی قنادیل لٹکانے کے جواز کا اِستدلال کیا ہے۔‘‘

کعبہ کے غلاف کے بارے میں آپ لکھتے ہیں:

أن تجویز ستر الکعبة بالدیباج قام الإجماع علیه.

عسقلانی، فتح الباری، 3: 457

’’بے شک کعبہ کو دیباج (قیمتی ریشم کے کپڑے) کے ساتھ ڈھانپنے کی تجویز پر اِجماع ہوگیا ہے۔‘‘

قاضی زین الدین عبد الباسط کو بحکم شاہی اِس کا غلاف تیارکرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اسے نہایت عمدگی سے تیار کیا۔ ابن حجر عسقلانی (773۔852ھ) اِس بارے میں لکھتے ہیں:

بسط اﷲ له فی رزقه وعمره، فبالغ فی تحسینھا بحیث یعجز الواصف عن صفة حسنھا، جزاه اﷲ علی ذلک أفضل المجازاة.

عسقلانی، فتح الباری، 3: 460

’’اللہ تعالیٰ اُس کی عمر اور رِزق میں اِضافہ کرے، اُس نے کعبہ کو اتنا حسین کیا کہ کوئی بھی اس کا حسن بیان کرنے سے عاجز ہے۔ اللہ تعالیٰ اُسے اِس پر بہترین جزا دے۔‘‘

اِس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ اگر اسلام کی عظمت و شوکت اور دشمنوں پر رعب و دبدبہ جمانے کے لیے کعبہ کو سونے اور چاندی کی قندیلوں اور شمعوں سے سجایا جا سکتا ہے اور بہترین ریشم کے غلاف سے کعبہ کی زینت کا سامان کیا جا سکتا ہے تو پھر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اور پرجوش عقیدت کا والہانہ اظہار کرتے ہوئے گلی، محلوں، بازاروں اور مسجدوں کو کیوں نہیں سجایا جا سکتا؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحبِ لولاک ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کائنات کی روح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہی سے ہمیں کعبہ ملا، اگر کعبہ کو سجایا جا سکتا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر چراغاں کیوں نہیں ہو سکتا؟ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر آرائش و زیبائش کا اہتمام کرنا بدرجہ اَتم مستحسن اور مقبول عمل ہے۔

7۔ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عیدِ مسرّت ہے عیدِ شرعی نہیں

جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عیدِ شرعی ہے نہ ہم اِسے عیدِ شرعی سمجھتے ہیں،لیکن یہ عید شرعی سے بھی زیادہ عظمت والا اور کئی گنا زیادہ قدر و منزلت والا دن ہے۔ اِس لیے اس دن خوشیاں منانا ایک فطری عمل ہے، اور اگر اِسے عید مسرت بھی کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو سال میں صرف ایک دفعہ آتی ہیں جب کہ محافلِ میلاد اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر اور سیرت کا بیان سال بھر جاری رہتاہے، اس میں زمان و مکان کی کوئی قید نہیں۔ مگر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن کو عید کا نام اِس لیے دیا جاتا ہے کہ لوگ اپنی ہر بڑی خوشی اور فرحت کے اِظہار کے لیے لفظِ عید اِستعمال کرتے ہیں۔

یومِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معروف معنی میں عید کا دن ہے، جیسے کسی قریبی دوست یا محبوب کی آمد پر کہا جاتا ہے کہ آپ کا آنا عید ہے! آپ کا ملنا عید ہے! عربی زبان کا یہ شعر اس معنی کی صحیح عکاسی کرتا ہے:

عید و عید و عید صرن مجتمعة
وجه الحبیب و عید الفطر والجمعة

(ہمارے لیے تین عیدیں اکٹھی ہوگئی ہیں: محبوب کا چہرہ، عید الفطر اور یومِ جمعہ۔)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت کو عیدِ میلاد اور عیدِ نبوی کا نام دینا اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ ہمارے نزدیک شرعی طور پر صرف دو ہی عیدیں ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی۔ حالاں کہ بنظر غائر دیکھا جائے تو یومِ میلاد ان عیدوں سے کئی گنا بلند رُتبہ اور عظمت کا حامل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے صدقہ و توسط سے ہمیں تمام عیدیں، تمام تہوار اور اسلام کے تمام عظمت والے دن نصیب ہوئے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوتی نہ قرآن نازل ہوتا، نہ معراج ہوتی، نہ ہجرت ہوتی، نہ جنگ بدر میں نصرتِ خداوندی ہوتی اور نہ ہی فتحِ مبین ہوتی۔ یہ تمام چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے تصدق و توسل سے نصیب ہوئی ہیں۔

عاشقانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محافلِ میلاد ہر اُس موقع پر منعقد کرتے ہیں جس میں خوشی، فرحت اور سرور ہوتا ہے اور یہ مسرت و شادمانی کا احساس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماہِ ولادت ’’ربیع الاول‘‘ میں اور بڑھ جاتا ہے اور بروز پیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے دن خوشی و مسرت کے لطیف جذبات اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال کرنا کہ محافلِ میلاد کیوں منعقد کی جاتی ہیں، درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اِس سوال سے مراد گویا یہ پوچھنا ہے کہ تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن پر کیوں خوش ہوتے ہو؟ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ تمہیں صاحبِ معراج صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں یہ خوشی اور مسرت کیوں حاصل ہوئی؟ کیا کسی مسلمان کو یہ سوال زیب دیتا ہے؟ اس لایعنی سوال کے جواب میں اتنا کہہ دیناکافی ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر مسرور اور خوش ہونے کی وجہ سے محفلِ میلاد منعقد کرتا ہوں، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اس لیے کہ میں مومن ہوں۔ بلاشبہ محافلِ میلاد اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجالس کا انعقاد، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت و مدحت سننے سنانے کے لیے جلسۂ و جلوس کا اہتمام، غریبوں کو کھانا کھلانا اور اہل اسلام کے لیے اجتماعی طور پر خوشی اور مسرت کا سامان پیدا کرنا جائز اور مستحسن عمل ہے! یہ بھی فطری اَمر ہے کہ ماہِ ولادت باسعادت (ربیع الاول) میں ذکرِ جمیلِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسباب زیادہ قوی اور مضبوط ہوتے ہیں کیوں کہ اس مناسبت سے لوگ ایسی محفلوں میں کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ لوگ شعوری طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ بعض لمحات کسی خاص مناسبت کی وجہ سے دوسرے لمحات و اوقات سے زیادہ شان اور شرف کے حامل ہوتے ہیں لہٰذا دوسروں کی نسبت سے وہ زیادہ پرکشش اور کیف آور یادیں لے کر آتے ہیں۔ اور اِسی طرح لوگ حال کو ماضی کے ساتھ ملا کر اور موجود کو غائب کی طرف منتقل کر کے ذکرِ یار کی لذت سے اِنتہائی کیف و سرور حاصل کرتے ہیں۔ بقول شاعر:

باز گو اَز نجد و اَز یارانِ نجد
تا دَر و دیوار را آری بہ وجد

(شہرِ دِل بر اور اِس میں بسنے والے اَحباب کا ذِکر کرتے رہیے تاکہ اِس کے در و دیوار یک گونہ کیف و مستی سے وجد میں آجائیں۔)

محافلِ میلاد کے اِجتماعات دعوت اِلی اللہ کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ یہ لمحات درحقیقت اُن کیفیاتِ جذب و مستی کے امین ہوتے ہیں جنہیں ہر گز ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ خطباء و علماء اور اہلِ علم حضرات کے لیے تو لازم ہے کہ وہ اِن محافل کے ذریعے اُمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اَخلاق و آدابِ نبوی، سیرتِ طیبہ، معاملات و عباداتِ نبوی جیسے اَہم امور کی یاد دلاتے رہیں۔ لوگوں کو بھلائی، نیکی اور خیر و فلاح کی تلقین کرتے رہیں۔ نیز ان کو امت مسلمہ پر نازل ہونے والی مصیبتوں اور اُمتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کو کمزور اور بے جان بنا دینے والی گمراہیوں، اسلام میں پیدا ہونے والے نئے نئے فتنوں اور اپنوں بیگانوں کے اٹھائے ہوئے شر اور فتور کی آگ سے اپنے خرمنِ ایمان کو بچانے کے لیے پند و نصائح کیا کریں۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِن اِجتماعات کا مقصد محض اکٹھے ہونا اور لوگوں کو دکھانا یعنی گفتند، نشستند، برخاستند نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ ضروری ہے کہ یہ مقدس اِجتماعات اَعلیٰ مقاصد کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں۔ پس جو شخص اِن اِجتماعات سے کوئی دینی فائدہ حاصل نہ کر سکا وہ میلاد شریف کی خیر و برکت سے محروم رہا!

8۔ جشنِ میلاد پر شرعی دلیل طلب کرنے والوں کی خدمت میں

اَحکامِ اِلٰہیہ سے مستنبط اُصول و قوانین ہر شرعی عمل کی اَساس ہیں اور ہر عمل سنتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بنیاد پر استوار ہے۔ یہی اس دین کی حقانیت و صداقت کی وہ بیّن دلیل ہے جو اسے دیگر اَدیانِ باطلہ سے ممتاز کرتی ہے۔ اِس ضمن میں ہم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید منانے اور اِظہار مسرت کرنے کی بابت تفصیلی بحث کر چکے ہیں؛ لیکن ایسے حضرات کے لیے جو بلاوجہ میلاد شریف کے موقع پر فتویٰ بازی سے جمہور مسلمانوں کو کفر و شرک اور بدعت کا مرتکب ٹھہراتے ہیں اور ہر بات پر قرآن و سنت سے دلیل طلب کرتے ہیں اُن کے دل و دماغ تنگ نظری کا شکار ہیں اور وہ بزعم خویش یہ سوچتے ہیں کہ اِس عمل کا کوئی شرعی ثبوت نہیں؟ اُن سے بہ قولِ اِقبالؔ بس اِتنی گزارش ہے:

دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں

اِقبال، کلیات (اُردو)، بالِ جبریل

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی نعمتِ عظمی پر شکرانے کے ثبوت طلب کرنے والے نادان اور کم نصیب لوگوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ زندگی میں ہزارہا دنیاوی خوشیاں مناتے وقت کبھی قرآن و حدیث کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھ لیں کہ اِس کا ذکر اِن میں ہے یا نہیں؟

1۔ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ جب کبھی ایک مدت کے بعد اولاد پیدا ہو تومٹھائیاں بانٹی جاتی اور دعوتیں دی جاتیں ہیں؟ کیا اُس وقت بھی کتبِ حدیث اٹھا کر یہ ثبوت طلب کیا جاتا ہے کہ آیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا کسی صحابی نے بیٹوں کی پیدائش پر مٹھائی بانٹی تھی؟

2۔ ہر سال اپنے بچوں کی سالگرہ پر ہزاروں لاکھوں کی ضیافتیں کرنے والوں نے کیا کبھی قرآن و حدیث سے اِس بارے میں بھی ثبوت تلاش کیا ہے؟

3۔ عام معمول ہے کہ جب کسی کی شادی قریب ہوتی ہے تو کئی کئی مہینے اِس کی تیاریوں میں گزرتے ہیں۔ اِشتہار اور دعوتی کارڈ چھپوائے جاتے ہیں، رسم و رواج اور تبادلہ تحائف پر لاکھوں روپے اڑائے جاتے ہیں۔ اچھے کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ ولیمہ پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اپنے خویش و اَقارب اور دوست و اَحباب کی حتی الوسع خدمت کی جاتی ہے۔ کیا اس موقع پر بھی ہم نے کبھی قرآن و حدیث سے دلیل طلب کی کہ شادیوں پر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یا ان کے غلاموں نے ایسی خوشیاں منائی تھیں یا نہیں؟ کیا انہوں نے بھی اتنے مہنگے اور پرتکلف کھانے تیار کرائے تھے؟ یہاں اِس لیے ثبوت طلب نہیں کیے جاتے کہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کا معاملہ ہے اور بات اپنے گھر تک پہنچتی ہے مگر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ثبوت یاد آجاتا ہے کیوں کہ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا معاملہ ہے۔

4۔ 23 مارچ کو آزادی کے حصول کے لیے قرارداد پاس ہوئی اور جد و جہد آزادی کا آغاز ہوا تھا۔ اِس کی خوشی میں ہر سال ملک کے طول و عرض میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر تقریبات، جشن اور محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس دن - 14 اگست - غیروں کے تسلط سے آزادی ملی اور مملکتِ خداداد پاکستان کی صورت میں اﷲ تعالیٰ کی نعمت ملی تو اُس دن ہر سال پورے ملک کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے، بے پناہ وسائل خرچ ہوتے ہیں، جگہ جگہ جہازوں، ٹینکوں اور گاڑیوں کی سلامی دی جاتی ہے، گارڈ آف آنر پیش ہوتے ہیں۔ یومِ دفاع (6 ستمبر) کی خوشی میں پاک فوج کی جنگی مشقیں دیکھنے کے لیے مخصوص مقامات پر اِجتماعات ہوتے ہیں۔ یہ سب اُمور اگرچہ درست ہیں مگر اِن قومی تہواروں کے لیے عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عہدِ صحابہ سے ثبوت تلاش نہیں کیے جاتے۔

5۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور حصولِ آزادی کی جد و جہد میں کام کرنے والے رہنماؤں کے یومِ ولادت پر پورے ملک میں عید کا سا سماں ہوتا ہے۔ دفاتر، تعلیمی اور صنعتی اِدارے بند کر دیے جاتے ہیں۔ جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے دور دور سے دانش وروں اور زعماء کو بڑے اہتمام سے دعوتیں دے کر بلوایا جاتا ہے اور ان کی شان میں قصیدہ خوانی کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں قرآن و حدیث یا اُسوئہ صحابہ ث سے کسی ثبوت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ بجا طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ملک و قوم کے رہبروں کی ملی خدمات کو سراہا جانا چاہیے لیکن پوری انسانیت بلکہ کائناتِ ہست و بود کے محسنِ اَعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت آئے تو اُن کی یاد میں محافلِ میلاد اور خوشی کرنے پر ہمیں ثبوت یاد آنے لگتے ہیں اور دلیلیں طلب کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اَعلیٰ حضرت اِمام اَحمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  اس حوالے سے کیا خوب لکھتے ہیں:

اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی اِحسان گیا

احمد رضا خان، حدائقِ بخشش، 1: 33

6۔ جب ملک کا یوم تاسیس آئے یا بیرونِ ملک سے کوئی مہمان آئے (خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم) اُسے اِکیس توپوں کی سلامی دی جائے تو اُس وقت قرآن و حدیث سے جواز تلاش نہیں کیا جاتا۔

7۔ ملک کے صدر، سربراہِ ریاست یا بہت بڑے لیڈر کے اِنتقال پر بڑے اِعزاز کے ساتھ اُس کی تدفین عمل میں آتی ہے، اُس کی وفات پر سوگ کے جلوس نکالے جاتے ہیں، میت پر ماتمی دھنوں سے بینڈ باجے، توپوں کی سلامی ہوتی ہے، پھولوں کی چادریں چڑھتی ہیں، گل پاشیاں اور نہ جانے کیا کیا تقریبات ہوتی ہیں۔ علماء و غیر علماء سب اِن تقریبات میں شریک ہوتے ہیں مگر کسی نے کبھی فتویٰ صادر نہیں کیا۔ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُسوئہ صحابہ ث سے کبھی سند تلاش نہیں کی۔ اِس لیے کہ اِس میں ملک کا اِعزاز اور مرحوم لیڈر کی خدمات کا اعتراف تھا، اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار تھا اور اقوام عالم کے سامنے اپنے قومی وقار کا مسئلہ تھا۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے اور ہمارے نزدیک بھی یہ غلط نہیں ہے۔ ایسا ہونا چاہیے مگر اَمر زیرِ بحث یہ ہے کہ کسی صدر مملکت کے لیے ایسا اہتمام ہو تو کوئی ثبوت نہیں مانگے جاتے لیکن باعثِ موجودات حضرت محمد علیہ الصلوٰت والتسلیمات کے یوم ولادت کے سلسلے میں دلائل اور فتووں کا مطالبہ کیا جاتاہے۔ آقائے دوجہاں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا دن آئے تو خوشی منانے کے لیے دلائل و براہین اور ثبوت مانگے جائیں، اس کا صاف مطلب ہے کہ باقی ہر موقع پر خوشی تھی بس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملے میں دل اِحساسِ مسرت سے محروم ہوگیا اور حکمِ خداوندی- فَلْیَفْرَحُوْا هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (یونس، 10: 58) - یاد نہ رہا۔ اَعمالِ حسنہ، عبادت و ریاضت میں کثرتِ ذکر پر بھروسہ کافی محسوس ہونے لگا اور دل اس احساس سے خالی ہوگیا کہ دنیا کی سب سے پیاری، سب سے معظم اور سب سے زیادہ واجب التعظیم ہستی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ان کی محبت ایمان کی اساس ہے اور ایمان دل کی وہ حالت ہے جسے کیفیت یا حال کہتے ہیں، جسے لگن بھی کہتے ہیں اور لگائو بھی، محبت بھی کہتے ہیں اور محبت کا الائو بھی۔ یہ الائو دل میں جل اٹھے تو مومن اپنی زندگی کے ہر لمحے کو عید میلاد بنا کر مناتا رہے اور اپنے در و دیوار کو آخرت کا گھر سمجھ کر سجاتا رہے۔ ہم سب کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان خشک و بے مغز عبادتوں کے ذخیروں کے مقابلے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر خوشی کرنا اﷲ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ اَفضل عمل ہے۔

اَفسوس کہ کفر و شرک کے فتاویٰ صادِر کرنے والے منکرِ میلاد بدعتیوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی خوشیوں پر لاکھوں روپے خرچ کر دیے تو کوئی چیز رکاوٹ نہ بنی لیکن محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ماہِ ولادت جلوہ فگن ہوا تو اِس کے اہتمام پر خود خرچ کرنے کی بجائے دوسروں کو بھی اس سے منع کرتے رہے۔ یاد رہے کہ کوئی خوشی آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی سے بڑی نہیں، اس کے مقابلے میں دنیا و جہان کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں۔

9۔ محافلِ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِنعقاد کے تقاضے

گزشتہ صفحات میں ہماری معروضات صراحت سے اِس اَمر کی شہادت فراہم کر رہی ہیں کہ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِہتمام کرنا یقینا مستحسن اور باعثِ اَجر و ثواب عمل ہے لیکن اِس موقع پر اگر اِنعقادِ میلاد کے بعض قابلِ اِعتراض پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُنہیں برقرار رہنے دیا جائے تو ہم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض و برکات سے محروم رہیں گے۔ جب تک اس پاکیزہ جشن میں طہارت، نفاست اور کمال درجہ کی پاکیزگی کا خیال نہیں رکھا جائے گا سب کچھ کرنے کے باوجود اِس سے حاصل ہونے والے مطلوبہ ثمرات سمیٹنا تو درکنار ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی مول لیں گے۔ محفلِ میلاد ہو یا جلوسِ میلاد، یہ سارا اِہتمام چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کے سلسلہ میں ہوتا ہے، لہٰذا اس کا تقدس برقرار رکھنا اُسی طرح ضروری ہے جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ماحول کی پاکیزگی کو خرافات اور خلافِ شرع بے ہودہ کاموں سے آلودہ نہ ہونے دیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ جشنِ میلاد کے موقع پر محفلیں منعقد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا، جانی و مالی، علمی و فکری غرضیکہ ہر قسم کی قربانی کا جذبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ صبح و شام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے علاوہ اپنی اُمت کے دوسرے نیک و بد اَعمال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے کام دیکھ کر خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور برائی دیکھ کر ناراضگی اور اَفسوس کا اظہار کرتے ہیں۔

  1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5: 308، 309، رقم: 1925
  2. ابن أبی أسامۃ نے اِسے صحیح سند کے ساتھ ’’مسند الحارث (2: 884، رقم: 953)‘‘ میں روایت کیا ہے۔
  3. حکیم ترمذی، نوادر الأصول فی أحادیث الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، 4: 176
  4. دیلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 1: 183، رقم: 686
  5. قاضی عیاض، الشفا بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، 1: 19
  6. ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (9: 24)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث بزار نے روایت کی ہے اور اِس کے تمام رجال صحیح ہیں۔
  7. ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، 4: 257
  8. أبو الفضل عراقی نے ’’طرح التثریب فی شرح التقریب (3: 297)‘‘ میں اس روایت کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔

بالکل اسی طرح ہماری یہ میلاد کی خوشیاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اگر ان میں صدق و اخلاص شامل نہیں ہوگا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری ایسی محفلوں کے انعقاد سے کیا مسرت ہوگی؟ اور اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر کی جانے والی اس تقریب کو کیوں کر شرفِ قبولیت سے نوازے گا؟ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ صدقہ و خیرات میں کثرت اور اِظہارِ مسرت کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوس اُس بارگاہ میں باعثِ شرف و قبولیت نہیں جب تک کہ ظاہری عقیدت میں اخلاصِ باطن اور حسنِ نیت شامل نہ ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت اور ادب و تعظیم ہی ہمارے ہر عمل کی قبولیت کی اَوّلیں شرائط میں سے ہیں۔ محفل میلاد کے تقاضوں میں خلوص و تقویٰ کے ساتھ ساتھ ظاہری و باطنی طہارت بھی انتہائی ضروری ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چوں کہ خود صفائی کو انتہائی پسند فرماتے تھے، اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں ہر طرح کی صفائی، طہارت اور پاکیزگی کا خیال رکھا جاتا تھا اُسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے منعقد ہونے والی محافل و مجالس میں بھی ہمیں کمال درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر چاہیں تو اپنے غلاموں کی ان محافل میں اپنے روحانی وجود کے ساتھ تشریف لاتے ہیں۔ یہاں اسی سلسلہ میں ایک مثال سے اس اَمر کی توثیق کی جاتی ہے:

’’راقم کے والد گرامی حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ  نے اِسی موقع کی مناسبت سے ایک واقعہ بیان فرمایا ہے کہ مولانا عبد الحئ فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ  حقہ پیتے تھے۔ ایک دفعہ محفل میلاد منعقد تھی۔ حقہ پی کر جلدی سے بغیر کلی کیے محفل میں چلے آئے، بیٹھے بیٹھے اونگھ آگئی۔ خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمانے لگے: ’’عبد الحئ! تمہیں اِحساس نہیں کہ ہماری محفل میں حقہ پی کر اسی بدبودار منہ کے ساتھ آگئے ہو؟‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت مبارکہ اتنی پاک، منزہ اور لطیف تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لہسن اور پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں آنے سے بھی صحابہ کرام ث کو منع فرماتے تھے۔(1) ایسے کئی واقعات ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاص غلاموں کو جس طرح ظاہری حیاتِ طیبہ میں ایسی بدبودار اشیاء استعمال کرنے سے روکتے تھے بعداَز وصال بھی اسی طرح حکماً یا اشارتًا منع فرماتے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1114-1174ھ) ’’الدر الثمین فی مبشرات النبی الأمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کی اٹھائیسویں حدیث میں اپنے والد گرامی شاہ عبد الرحیم (1054-1131ھ) کے حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں: دو صالح آدمیوں - جن میں سے ایک عالم بھی تھا اور عابد بھی، جب کہ دوسرا عابد تھا عالم نہ تھا - کو ایک ہی وقت اور ایک ہی حالت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں صرف عابد کو بیٹھنے کی اجازت دی گئی، عالم اس سے محروم رہا۔ چنانچہ اس عابد نے بعد میں لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا ماجرا ہے؟ اس عالم کو اس سعادت سے کیوں محروم رکھا گیا؟ تو اُسے بتایا گیا کہ وہ حقہ پیتا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقہ ناپسند فرماتے ہیں۔ دوسرے دن یہ عابد اس عالم کے پاس گیا تو دیکھاکہ عالم اپنی اس محرومی پر زار و قطار رو رہا ہے۔ جب عابد نے حقیقتِ حال سے اُسے آگاہ کیا اور محرومی کا اصل سبب بتایا تو عالم نے اسی وقت تمباکو نوشی سے توبہ کرلی۔ پھر اگلی شب دونوں نے اسی طرح بیک وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور اِس بار عالم کو مجلس میں نہ صرف حاضری کا شرف بخشا گیا بلکہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے پاس بٹھایا۔

مسلم، الصحیح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نھی من أکل ثوماً أو بصلاً أو کراثاً أو نحوھما، 1: 394، رقم: 561

  1. أبو داود، السنن، کتاب الأطعمة، باب فی أکل الثوم، 3: 160، 161، رقم: 3824، 3825
  2. شاہ ولی اﷲ، الدر الثمین فی مبشرات النبی الأمین صلی الله علیه وآله وسلم : 43، 44

10۔ اِصلاح طلب پہلو

یہ بات خوش آئند ہے کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیدہ رکھنے والے اور جشنِ میلاد کے جلوس کا اِہتمام کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اتنی محبت و عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ میلاد کی خوشیوں کو جزوِ ایمان سمجھتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ درست اور حق ہے، مگر انہیں اس کے تقاضوںکو بھی بہرحال مدنظر رکھنا چاہئے۔ کاش ان عقیدت مندوں کو بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا بھی کما حقہ علم ہوتا!

اس مبارک موقع کے فیوضات سمیٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی ان پاکیزہ محفلوں میں اس انداز سے شرکت کریں جس میں شریعتِ مطہرہ کے احکام کی معمولی خلاف ورزی بھی نہ ہونے پائے لیکن فی زمانہ بعض مقامات پر مقام و تعظیم رسالت سے بے خبر جاہل لوگ جشنِ میلاد کو گوناگوں منکرات، بدعات اور محرمات سے ملوث کر کے بہت بڑی نادانی اور بے ادبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جلوسِ میلاد میں ڈھول ڈھمکے، فحش فلمی گانوں کی ریکارڈنگ، نوجوانوں کے رقص و سرور اور اِختلاط مرد و زن جیسے حرام اور ناجائز اُمور بے حجابانہ سرانجام دیے جاتے ہیں جو کہ انتہائی قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے اور ادب و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراسر منافی ہے۔ اگر ان لوگوں کو ان محرمات اور خلافِ ادب کاموں سے روکا جاتا ہے تو وہ بجائے باز آنے کے منع کرنے والے کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ٹھہرا کر اِصلاحِ اَحوال کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ اُن نام نہاد عقیدت مندوں کو سختی سے سمجھانے کی ضرورت ہے ورنہ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان ادب ناشناس جہلاء کی اِسلام سوز رسوم و رواج کے باعث پاکیزگی و تقدس سے محروم ہو کر محض ایک رسم بن کر رہ جائے گا۔ جب تک ان محافل و مجالس اور جشن میلاد کو ادب و تعظیم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سانچے میں نہیں ڈھال لیا جاتا اور ایسی تقاریب سے ان تمام محرمات کا خاتمہ نہیں کردیا جاتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور خوش نودی ہمارے شاملِ حال نہیں ہوسکتی۔ ایسی محافل میں جہاں بارگاہِ رِسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب سے پہلوتہی ہو رہی ہو نہ صرف یہ کہ رحمتِ خداوندی اور اس کے فرشتوں کا نزول نہیں ہوتا بلکہ اہلِ محفل و منتظمینِ جلوس خدا کے غضب اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ اس برائی کے خلاف کہیں آواز بلند کی جاتی ہے نہ حکومت کی طرف سے حکمت یا سختی کے ساتھ اس قبیح روش کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ مذہبی طبقے کی خاموشی کی سب سے بڑی وجہ (الا ماشاء اللہ) پیٹ کا دھندا ہے جو ان قبیح رسموں کو روکنے میں آڑے آجاتا ہے۔ مفاد پرست حلقوں کی سوچ یہ ہے کہ اگر ان غیر اَخلاقی و غیر شرعی اُمور کی سختی سے گرفت کی گئی تو شاید جلسے جلوسوں میں ان علماء کی دھواں دھار تقریریں ختم ہو جائیں اور کاروباری حضرات سے ملنے والے معاوضے اور چندے بند ہو جائیں۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ مالی مفادات اور ان گروہی اور نام نہاد محدود مسلکی منفعتوں کی خاطر یہ لوگ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقدس اور عظمت کو پامال کر رہے ہیں۔

ایسے مواقع پر حکومت کو خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن اِصلاحی تدابیر عمل میں لائے۔ کیا وجہ ہے کہ اَربابِ اِقتدار یا سیاسی حکومت کے کسی لیڈر یا عہدے دار کے خلاف معمولی سی گستاخی اور بے ادبی کرنے والے کو حکومت اپنی پولیس فورس کے ذریعے ڈنڈے کے زور سے نہ صرف باز رکھتی ہے بلکہ معاملہ گھمبیر ہو تو قانون شکنی کرنے والوں کو فوراً گرفتار بھی کر لیا جاتا ہے۔ مگر عرس اور میلاد جیسے موقعوں پر بدعمل، اوباش اور کاروباری لوگ ناچ گانے اور ڈانس کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں، میلے، تھیٹر اور سرکسوں کا انتظام ہوتا ہے، اَولیائے کرام کی پاکیزہ تعلیمات کی دانستہ اور سرِبازار خلاف ورزی ہوتی ہے مگر معلومات کے باوجود حکومت کوئی قانونی کارروائی نہیں کرتی۔ حکومت کے اَربابِ بست و کشاد نہ جانے کیسے گوارا کر لیتے ہیں کہ باقاعدہ پولیس کی نگرانی اور اَمن و امان میں یہ خلافِ شریعت اُمور ہو رہے ہیں۔ ایسے عناصر کو بزورِ قانون خلافِ شریعت حرکات سے روکنا اَشد ضروری ہے۔

عرس کے موقعوں پر بزرگانِ دین کے مزارات پر آنے کا مقصد قرآن حکیم کی تلاوت اور ان اولیائے کرام کی پاکیزہ تعلیمات سے بہرہ ور ہونے اور ان پر عمل کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس نعت خوانی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص و شمائل اور فضائل و مراتب کے بیان اور جائز شرعی طریقے سے خوشیاں منانے کے لیے نکالے جاتے ہیں۔ مگر افسوس کہ

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمت روایات میں کھو گئی

اِقبال، کلیات (اُردو)، بالِ جبریل: 416

کے مصداق دینی شعار کا کھلے بندوں مذاق اڑایا جاتا ہے اور حکومت اور اہلِ فکر و نظر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔

11۔ اِفراط و تفریط سے اِجتناب کی ضرورت

بدقسمتی سے آج اُمتِ مسلمہ دو بڑے طبقوں میں بٹ گئی ہے: ایک طبقہ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سرے سے ناجائز، حرام اور بدعت کہہ کر اِس کا اِنکار کر رہا ہے، جب کہ دوسرا طبقہ میلاد کے نام پر (اِلا ما شاء اللہ) ناجائز اور فحش کام سرانجام دینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اُنہوں نے بہت سے ناجائز اور حرام اُمور کو داخلِ میلاد کر کے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاکیزہ تصور کو بدنام اور تقدس کو پامال کردیا ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اِن انتہاء پسند رویوں کے بین بین اِعتدال پسندی کی روش اِختیار کی جائے۔ ہم نے میلاد اور سیرت کے نام پر مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ کوئی صرف میلاد کا داعی بن گیا اور کوئی صرف سیرت کا نام لیوا۔ میلاد کا نام لینے والا سیرت سے کتراتا ہے اور سیرت کا داعی میلاد کو ناجائز کہہ کر اپنی دانش وری اور بقراطیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ سوچ ناپید ہے کہ اگر میلاد نہ ہوتا تو سیرت کہاں سے ہوتی اور اگر سیرت کے بیان سے اِحتراز کیا تو پھر میلاد کا مقصد کیسے پورا ہو سکتا ہے! بیانِ میلاد اور بیانِ سیرت دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے طریقے ہیں۔ دونوں ایک شمع کی کرنیں ہیں۔ میلاد کو نہ تو بدعت اور حرام کہہ کر ناجائز سمجھیں اور نہ اِسے جائز سمجھتے ہوئے اس کے پاکیزہ ماحول کو خرافات سے آلودہ کیا جائے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی خوشی مناتے ہوئے محافلِ میلاد میں محبت و تعظیم کے ساتھ باوُضو ہو کر شریک ہوں تو یہ اَفضل عبادت ہے۔ میلاد کے جلسے، جلوسوں اور محافل میں سیرت کا ذکرِ جمیل کرنا، لوگوں کو آقائے نامدار حبیبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سیرت و صورت اور فضائل و شمائل سنانا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور عشق کے نغمے الاپنا ہر سچے مسلمان کا شیوہ ہونا چاہیے کہ اِسی میں پوری اُمتِ مسلمہ کی کامیابی کا راز مضمر ہے اور یہی وقت کی سب سے اہم مذہبی ضرورت ہے۔ ملتِ اِسلامیہ کے واعظین اور مبلغین اگر میلاد اور سیرت کی دو بنیادی حقیقتوں کو الگ الگ کر دیں گے تو عوام الناس تک کلمہ حق کیسے پہنچے گا؟

واعظین اور مبلغین اگر دین کا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و رسالت کا تحفظ چاہتے ہیں تو یہ ان کی ذاتی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حتی المقدور ناجائز اور خلافِ شرع بدعت، ہرقسم کے منکرات اور فحش اُمور کے خلاف علم جہاد بلند کریں۔

حکومت کا فرض ہے کہ محافلِ میلاد کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے مداخلت کرے اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر ناچ گانا اور دیگر خرافات کرنے والوں پر قانونی پابندی لگا دے جس کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں تاکہ جلسوں اور جلوسوں کا ماحول ہر قسم کی خرافات اور غیر شرعی اُمور سے پاک رہے۔

اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصدق سے ہمارے حال پر رحم فرمائے، ہمیں میلاد شریف کے فیوض و برکات سمیٹنے، اپنی زندگیاں سیرتِ طیبہ کے سانچے میں ڈھالنے اور منکرات و فواحش سے بچنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved