حضور ﷺ کے شمائل مبارکہ

حضور ﷺ کے مبارک ہاتھوں، ہتھیلیوں اور اُنگلیوں کا بیان

بَابٌ فِي وَصْفِ يَدَيْهِ صلی الله عليه واله وسلم وَکَفَّيْهِ وَأَصَابِعِه

{حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبارک ہاتھوں، ہتھیلیوں اور اُنگلیوں کا بیان}

99 /1. عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ رضی الله عنه قَالَ: وَقَامَ النَّاسُ فَجَعَلُوْا يَأْخُذُوْنَ يَدَيْهِ فَيَمْسَحُوْنَ بِهِمَا وُجُوْهَهُمْ، قَالَ: فَأَخَذْتُ بِيَدِه فَوَضَعْتُهَا عَلٰی وَجْهِي فَإِذَا هِيَ أَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ وَأَطْيَبُ رَائِحَةً مِنَ الْمِسْکِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.

1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب صفة النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 3 /1304، الرقم: 3360، والدارمي في السنن، کتاب الصلاة، باب إعادة الصلوات في الجماعة بعد ما صلی في بيته، 1 /366، الرقم: 1367، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /309، الرقم: 18789، وابن خزيمة في الصحيح، 3 /67، الرقم: 1638.

’’حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے، میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر اپنے چہرے پر پھیرا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبو دار تھا۔‘‘ اِس حدیث کو امام بخاری اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

100 /2. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم ضَخْمَ الْيَدَيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، حَسَنَ الْوَجْهِ، لَمْ أَرَ بَعْدَه وَلَا قَبْلَه مِثْلَه، وَکَانَ بَسِطَ الْکَفَّيْنِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ

2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب اللباس، باب الجعد، 5 /2212، الرقم: 5567، والقاضي عياض في مشارق الأنوار /101.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر مبارک گوشت سے پُر تھے، چہرہ انور حسین تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جیسا نہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد اور نہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پہلے کوئی دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں۔‘‘ اِس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

101 /3. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: تَشَکَّيْتُ بِمَکَّةَ شَکْوَی شَدِيدَةً، فَجَائَنِي النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَعُوْدُنِي، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اﷲِ، إِنِّي أَتْرُکُ مَالًا، وَإِنِّي لَمْ أَتْرُکْ إِلَّا ابْنَةً وَاحِدَةً، فَأُوْصِي بِثُلُثَي مَالِي وَأَتْرُکُ الثُّلُثَ، فَقَالَ: لَا، قُلْتُ: فَأُوْصِي بِالنِّصْفِ وَأَتْرُکُ النِّصْفَ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَأُوْصِي بِالثُّلُثِ وَأَتْرُکُ لَهَا الثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ: الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ کَثِيْرٌ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَه عَلٰی جَبْهَتِيِ ثُمَّ مَسَحَ يَدَه عَلٰی وَجْهِي وَبَطْنِي ثُمَّ قَالَ: اَللّٰهُمَّ اشْفِ سَعْدًا وَأَتْمِمْ لَه هِجْرَتَه. فَمَا زِلْتُ أَجِدُ بَرْدَه عَلٰی کَبِدِي فِيْمَا يُخَالُ إِلَيَّ حَتَّی السَّاعَةِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المرضی، باب وضع اليد علی المريض، 5 /2142، الرقم: 5335، وأيضًا في الأدب المفرد، 1 /176، الرقم: 499، والنسائي في السنن الکبری، 4 /67، الرقم: 6318، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /171، والمقدسي في الأحاديث المختاره، 3 /212، الرقم: 1013.

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ مکرمہ میں مجھے سخت بخار ہو گیا۔ پس حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے۔ میں عرض گزار ہوا: یا نبی اﷲ! میں مال چھوڑ رہا ہوں اور پیچھے (ورثاء میں) میری صرف ایک لڑکی ہے۔ کیا میں دو تہائی مال کی (اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کی) وصیت کر کے اور ایک تہائی (بیٹی کے لئے) چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں عرض گزار ہوا: نصف کی وصیت کر کے نصف چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا: تہائی کی وصیت کر دوں اور دو تہائی اُس کے لئے چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ایک تہائی کر دو اور تہائی بہت ہے۔ اِس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے میری پیشانی پر اپنا دستِ مبارک رکھا، پھر اپنا دستِ اقدس میرے چہرے اور پیٹ پر پھیرا، اُس کے بعد یوں دعا کی: اے اﷲ! سعد کو شفا عطا فرما اور اِس کی ہجرت کو پایہ تکمیل تک پہنچا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اُس وقت سے اب تک جب بھی مجھے یہ خیال گزرتا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دستِ شفقت کی ٹھنڈک مجھے اپنے جگر کے اندر محسوس ہوتی ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

102 /4. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم صَلَاةَ الْأُوْلٰی ثُمَّ خَرَجَ إِلٰی أَهْلِه، وَخَرَجْتُ مَعَه فَاسْتَقْبَلَه وِلْدَانٌ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ خَدَّي أَحَدِهِمْ وَاحِدًا وَاحِدًا، قَالَ: وَأَمَّا أَنَا فَمَسَحَ خَدِّي، قَالَ: فَوَجَدْتُ لِيَدِهِ بَرْدًا أَوْ رِيْحًا کَأَنَّمَا أَخْرَجَهَا مِنْ جُوْنَةِ عَطَّارٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

4: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب طيب رائحة النبي صلی الله عليه واله وسلم ولين مسه والتبرک بمسحه، 4 /1814، الرقم: 2329، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /323، الرقم: 31765، والطبراني في المعجم الکبير، 2 /228، الرقم: 1944، والعسقلاني في فتح الباري، 6 /573، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 9 /253.

’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے گھر کی طرف تشریف لے گئے، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ گیا، سامنے سے کچھ بچے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُن میں سے ہر ایک کے رخسار پر ہاتھ پھیرا، اور میرے رخسار پر بھی ہاتھ پھیرا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دستِ اقدس کی ٹھنڈک اور خوشبو یوں محسوس کی جیسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ابھی اُسے عطار کی ڈبیہ سے نکالا ہو۔‘‘ اِس حدیث کو امام مسلم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

103 /5. عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَأَخَذْتُ بِيَدِه، فَإِذَا هِيَ أَلْيَنُ مِنَ الْحَرِيْرِ وَأَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

5: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 7 /272، الرقم: 7110، وأيضًا في المعجم الأوسط، 9 /97، الرقم: 9237، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /282، والعسقلاني في الإصابة، 3 /323، الرقم: 3859، والصالحي في سبل الهدي والرشاد، 2 /74.

’’حضرت مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ اپنے والدِ گرامی سے روایت بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دستِ اقدس تھام لیا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دستِ اقدس ریشم سے زیادہ نرم اور برف سے زیادہ ٹھنڈا تھا۔‘‘ اِس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

104 /6. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ: وَلَا مَسِسْتُ خَزَّةً وَلَا حَرِيْرَةً أَلْيَنَ مِنْ کَفِّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَلَا شَمِمْتُ مِسْکَةً وَلَا عَبِيْرَةً أَطْيَبَ رَائِحَةً مِنْ رَائِحَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

6: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب ما يذکر من صوم النبي وإفطاره صلی الله عليه واله وسلم ، 2 /696، الرقم: 1872، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /278.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کسی دیباج یا ریشم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہتھیلی مبارک سے زیادہ نرم نہیں پایا اور نہ ہی کسی کستوری اور مرکب خوشبوؤں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خوشبو سے بڑھ کر پایا۔‘‘ اِس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

105 /7. عَنْ عَائِشَةَ رضي اللّٰه عنها قَالَتْ:…کَأَنَّ کَفَّه کَفُّ عَطَّارٍ طِيْبٌ مَسَّهَا بِطِيْبٍ أَوْ لَا مَسَّهَا، فَإذَا صَافَحَهُ الْمُصَافِحُ يَظَلُّ يَوْمَه يَجِدُ رِيْحًا وَيَضَعُهَا عَلٰی رَأْسِ الصَّبِيِِّ فُيُعْرَفُ مِنْ بَيْنِ الصِّبْيَانِ مِنْ رِيْحِهَا عَلٰی رَأْسِه. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالْبَيْهَقِيُّ.

7: أخرجه ابن عساکر في تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 /337، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 /305.

’’سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنھا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبارک ہاتھ عطار کے ہاتھوں کی طرح معطر رہتے، خواہ خوشبو لگائی ہوتی یا نہ لگائی ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مصافحہ کرنے والا شخص سارا دن اپنے ہاتھوں میں خوشبو (کا اثر) پاتا اور (جب کسی) بچے کے سر پر دستِ شفقت پھیر دیتے تو وہ اپنے سر میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھوں کی خوشبو کے باعث دوسرے بچوں میں پہچانا جاتا تھا۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابن عساکر اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

106 /8. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی الله عنه، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم رَحْبَ الرَّاحَةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ فِي الشَّمَائِلِ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ.

8: أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية /37، الرقم: 8، وابن حبان في الثقات، 2 /145.146، والطبراني في المعجم الکبير، 22 /155.156، الرقم: 414، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /154.155، الرقم: 1430، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 /422.

’’حضرت ہند بن ابی ہالہ تمیمی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہتھیلیاں مبارک فراخ تھیں۔‘‘

اِس حدیث کو امام ترمذی نے الشمائل المحمدیۃ میں، ابن حبان اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

107 /9. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی الله عنه، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم سَائِلَ الأَطْرَافِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ فِي الشَّمَائِلِ وَالطَّبَرَانِيُّ.

9: أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية / 37، الرقم: 8، والطبراني في المعجم الکبير، 22 /155.156، الرقم: 414، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /154.155، الرقم: 1430، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 /422، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /277، 338، 344، 348، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /273.

’’حضرت ہند بن ابی ہالہ تمیمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی انگشتانِ مبارک متناسب طوالت والی تھیں۔‘‘

اِس حدیث کو امام ترمذی نے الشمائل المحمدیۃ میں اور ابن حبان اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

108 /10. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم سَائِلَ الأَطْرَافِ کَأَنَّ أَصَابِعَه قُضْبَانُ فِضَّةٍ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

10: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 1 /305، والسيوطي في الجامع الصغير، 1 /40، والمناوي في فيض القدير، 5 /78.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی انگشتانِ مبارک لمبی اور خوبصورت تھیں، یوں محسوس ہوتا جیسے وہ چاندی کی ڈلیاں ہوں۔‘‘

اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

109 /11. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي أَسْمَعُ مِنْکَ حَدِيْثًا کَثِيْرًا أَنْسَاهُ؟ قَالَ: ابْسُطْ رِدَائَکَ. فَبَسَطْتُه، قَالَ: فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ: ضُمَّه، فَضَمَمْتُه فَمَا نَسِيْتُ شَيْئًا بَعْدَه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

11: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب حفظ العلم، 1 /56، الرقم: 119، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبي هريرة الدوسي ص، 4 /1940، الرقم: 2491، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب أبي هريرة ص، 5 /684، رقم: 3835، وابن حبان في الصحيح، 16 /105، الرقم:7153، وأبو يعلی في المسند، 11 /88، الرقم: 6219، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2 /329، وابن عبد البر في الاستيعاب، 4 /1771.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ سے بہت کچھ سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ؟ میں نے پھیلا دی، تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے لپ بھر کر اُس میں ڈال دیئے اور فرمایا: اسے سینے سے لگا لو۔ پس میں نے اس چادر کو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور اس کے بعد میں کچھ بھی نہیں بھولا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

110 /12. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضی الله عنه قَالَ: بَعَثَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِلٰی أَبِي رَافِعٍ الْيَهُوْدِيِّ رِجَالاً مِنَ الْأَنْصَارِ، فأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اﷲِ بْنَ عَتِيْکٍ رضی الله عنه، وَکَانَ أَبُوْ رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَيُعِيْنُ عَلَيْهِ، وَکَانَ فِي حِصْنٍ لَه بِأَرْضِ الْحِجَازِ … (قَالَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ عَتِيْکٍ رضی الله عنه فِي قِصَّةِ قَتْلِ أَبِي رَافِعٍ:) فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُه، فَجَعَلْتُ أَفْتَحَُ الْأَبْوَابَ بَابًا بَابًا، حَتَّی انْتَهَيْتُ إِلٰی دَرَجَةٍ لَه، فَوَضَعْتُ رِجْلِي وَأَنَا أُرَی أَنِّي قَدِ انْتَهَيْتُ إِلَی الْأَرْضِ، فَوَقَعْتُ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ فَانْکَسَرَتْ سَاقِي فَعَصَبْتُهَا بِعِمَامَةٍ … فَانْتَهَيْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فَحَدَّثْتُه، فَقَال: ابْسُطْ رِجْلَکَ. فَبَسَطْتُ رِجْلِي فَمَسَحَهَا، فَکَأَنَّهَا لَمْ أَشْتَکِهَا قَطُّ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

12: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب قتل أبي رافع عبد اﷲ بن أبي الحُقَيْقِ، 4 /1482، الرقم: 3813، والبيهقي فيالسنن الکبری، 9 /80، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 /125، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 /946، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 /56، وابن کثير في البداية والنهاية، 4 /139، وابن تيمية في الصارم المسلول، 2 /294.

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ابو رافع یہودی کی (سرکوبی کے لئے اس کی) طرف چند انصاری مردوں کو بھیجا اور حضرت عبد اﷲ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان پر امیر مقرر کیا۔ ابو رافع آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تکلیف پہنچاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلاف (کفار کی) مدد کرتا تھا اور سر زمین حجاز میں اپنے قلعہ میں رہتا تھا۔ (حضرت عبد اﷲ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے ابو رافع یہودی کے قتل کی کارروائی بیان کرتے ہوئے فرمایا: جب) مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے تو پھر میں نے ایک ایک کرکے تمام دروازے کھولنا شروع کر دیے یہاں تک کہ میں سیڑھی کے آخر تک پہنچ گیا۔ میں نے یہ خیال کرتے ہوئے اپنا پاؤں رکھا کہ میں زمین تک پہنچ گیا ہوں (اور سیڑھیاں ختم ہو گئیں)۔ چاندنی رات تھی میں گر گیا اور میری پنڈلی ٹوٹ گئی تو میں نے اسے عمامہ سے باندھ دیا۔ پھر میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پہنچا اور سارا واقعہ عرض کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اپنی ٹانگ پھیلاؤ (سیدھی کرو)۔ میں نے پاؤں پھیلا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس پر دستِ کرم پھیرا تو (ٹوٹی ہوئی پنڈلی جڑ کر ایسے ہو گئی کہ) گویا مجھے کبھی اس میں تکلیف نہیں ہوئی۔‘‘ اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

111 /13. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: بَعَثَنِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِلَی الْيَمَنِ فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، تَبْعَثُنِي وَأَنَا شَابٌّ أَقْضِي بَيْنَهُمْ وَلَا أَدْرِي مَا الْقَضَا؟ قَالَ: فَضَرَبَ بِيَدِه فِي صَدْرِي، ثُمَّ قَالَ: اَللّٰهُمَّ اهْدِ قَلْبَه وَثَبِّتْ لِسَانَه، قَالَ: فَمَا شَکَکْتُ بَعْدُ فِي قَضَاءٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.

13: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الاحکام، باب ذکر القضاة، 2 /774، الرقم: 2310، وعبد بن حميد في المسند، 1 /61، الرقم: 94، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2 /337، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 /122.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے یمن (کا گورنر بنا کر) روانہ فرمایا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ مجھے بھیج رہے ہیں حالانکہ میں نوجوان ہوں اور میں قضاء کے معاملات نہیں جانتا۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنا دستِ کرم میرے سینے پر مارا اور دعا کی: اے اللہ! اِس کے دل کو ہدایت پر قائم رکھ اور اِس کی زبان کو حق پر ثابت رکھ۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اُس کے بعد مجھے کبھی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں ذرہ بھر تردد کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔‘‘ اِسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

112 /14. عَنْ أَبِي زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : ادْنُ مِنِّي، قَالَ: فَمَسَحَ بِيَدِه عَلٰی رَأْسِه وَلِحْيَتِه، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: اَللّٰهُمَّ جَمِّلْهُ وَأَدِمْ جَمَالَه، قَالَ: فَلَقَدْ بَلَغَ بِضْعًا وَمِائَةَ سَنَةٍ وَمَا فِي رَأْسِه وَلِحْيَتِه بَيَاضٌ إِلَّا نَبْذٌ يَسِيْرٌ، وَلَقَدْ کَانَ مُنْبَسِطَ الْوَجْهِ، وَلَمْ يَنْقَبِضْ وَجْهُه حَتّٰی مَاتَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

14: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 /77، الرقم: 20752، والعسقلاني في الإصابة، 4 /599، الرقم: 5763، والمزي في تهذيب الکمال، 21 /542، الرقم: 4326.

’’حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے فرمایا: میرے قریب ہو جاؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور دعا کی: الٰہی! اِسے خوب صورتی عطا فرما اور اِس کے حسن و جمال کو ہمیشہ قائم رکھ۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے سو سال سے زیادہ عمرپائی، لیکن اُن کے سر اور داڑھی کے بال سفید نہیں ہوئے، سوائے معمولی حصے کے اُن کا چہرہ صاف اور تروتازہ رہا اور وفات تک سکڑا نہیں (یعنی جھریاں نہیں پڑیں)۔‘‘

اِس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved