سیرۃ الرسول کی شخصی و رسالتی اہمیت

رسالت محمدی کی خاتمیت

6۔ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت

نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کائنات انسانی کی آخری پیغمبرانہ سیرت بنا دیا ہے۔ باری تعالیٰ نے ہرچند آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلقاً اوّل الانبیاء بنایا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعثاً آخر الانبیاء قرار دیئے گئے گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت کے ملنے میں سب سے مقدم کئے گئے مگر نبوت کے ظاہر کرنے میں سب سے موخر کئے گئے تاکہ اولین و آخرین کے تمام فضائل و کمالات آپ کے دامن نبوت میں سمیٹے جائیں۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم الانبیاء بنایا گیا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کو وہ کمال و دوام اور حسن و مقام عطا کیا گیا کہ خود سیرت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہونے پر فخر ہے۔ انسانیت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ہونے پر فخر ہے، محبوبیت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زینت ہونے پر فخر ہے، عبدیت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام ہونے پر فخر ہے، نبوت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منصب ہونے پر فخر ہے اور رسالت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت ہونے پر فخر ہے۔ انسانیت ہزارہا سال سے اپنے بلوغ و ارتقاء کا سفر طے کرتی رہی اور نبوت و رسالت اپنے فضائل و کمالات کے مراحل سے گزرتی رہی جب انسان ذہنی، فکری اور شعوری طور پر حد بلوغ کو پہنچ گیا اور نبوت و رسالت جملہ محاسن کے ساتھ اپنی وسعت ابلاغ کے لحاظ سے عالمگیر ہونے کے قریب پہنچ گئی تو سلسلہ انبیاء کے خاتم سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری کائنات بلکہ ہر زمان و مکان کے لئے دائمی و ابدی نبوت و رسالت کے شاہکار کے طور پر مبعوث فرما دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے نظام نبوت کے بپا کئے جانے کا مقصد پورا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے سلسلہ رسالت کے قیام کی غرض و غایت مکمل ہو گئی سو ضروری تھا کہ اب باب رسالت کسی بھی نئی بعثت کے لئے بند کر دیا جائے اور ختم نبوت کا دائمی اعلان کر دیا جائے تاکہ قیامت کے دن تک جملہ ادوار و زمن نبوت و رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر سایہ رہیں اور آئندہ تمام انسانی نسلیں فیضان سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پرورش پائیں۔ ختم نبوت کے الوہی اعلان کے بعد اب کسی شخص کا مدعی نبوت ہونا حقیقت میں قرآن و حدیث کا منکر اور دین اسلام سے مرتد ہونے کے علاوہ باری تعالیٰ کے عظیم منصوبہ ہدایت کا کھلا باغی ہونا بھی تصور کیا جائے گا کیونکہ اس نے اپنے ‘‘اعلان سے فی الواقع نبوت و رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت کی الوہی حکمت اور حقیقی عظمت کو بزعم خویش رد کر دیا ہے اور معاذ اللہ تکمیل سلسلہ ہدایت کے الوہی منصوبہ کو ناکافی و ناقص سمجھتے ہوئے اسے اپنے تئیں مکمل کرنے کی گمراہانہ کوشش کی ہے۔ اور یہ حقیقت فراموش کر دی ہے کہ اگر علم الٰہی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی یا رسول کی بعثت کی ضرورت و گنجائش ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات (قرآن و سنت) کو حرفاً حرفاً محفوظ رکھنے کا اس قدر غیر معمولی اور عدیم المثال اہتمام نہ کیا جاتا اور باری تعالیٰ ان کی حفاظت کا خود ذمہ دار نہ بنتا۔ جب یکے بعد دیگرے انبیاء و رسل کے مبعوث ہونے کا دور تھا اللہ تعالیٰ نے کسی نبی یا رسول کی الہامی کتب، وحی اور تعلیمات کی اس طرح حفاظت کا انتظام نہیں فرمایا۔ کیونکہ ہر زمانے میں حسب ضرورت انبیاء مبعوث ہو رہے تھے، اگر پہلی وحی اور تعلیمات محفوظ نہ رہ سکیں تو نئے نبی اور رسول نے آکر انہی بنیادی تعلیمات کی پھر تجدید کردی، انہیں دوبارہ یاد کروا دیا، پھر ایک زمانے کے لئے انسانی سینوں میں محفوظ کردیا اور یوں یکے بعد دیگرے یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی تو حفاظتِ تعلیمات کا جو نظام ہزارہا سال سے چلا آرہا تھا کلیتاً بدل دیا گیا اور تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سینوں کے ساتھ ساتھ سفینوں میں بھی لفظاً و حرفاً اس طرح محفوظ کروا دیا گیا کہ کوئی تبدیلی نہ کی جاسکے۔ اس کا مقصد واضح طور پر انسانوں کو یہ باور کروانا تھا کہ اب اس نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حسب سابق کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہوگا اب قیامت تک یہی کتاب اور سیرت تمہارے کام آئے گی، اسے محفوظ رکھو۔ چنانچہ قرآن مجید نے بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملہ مقاصد کی تکمیل کا اعلان ان الفاظ میں کیا ہے :

اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِيْنًا.

المائده، 5 : 3

‘‘آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔’’

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت کا تذکرہ صرف قرآن مجید یا اسلامی ذرائع و مآخذ ہی نہیں کرتے بلکہ اس کی حیثیت آفاقی ہونے کی بنا پر ہے۔ تمام سابقہ صحف سماوی اس تذکرے سے مملو ہیں۔ بائبل کی کتاب استثناء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خطاب ہے :

‘‘اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں، میں اُن کے لئے انہی کے بھائیوں میں سے تیرے مانند ایک نبی برپا کروں گا، اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا، اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا، اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا، نہ سنے تو میں ان کا حساب اُس سے لوں گا، لیکن جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا، یا اور معبودوں کے نام سے کچھ کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے، اور اگر تو اپنے دل میں کہے کہ جو بات خداوند نے نہیں کہی ہے اسے ہم کیونکر پہچانیں؟ تو پہچان یہ ہے کہ جب وہ نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے، اور اس کے کہے کے مطابق کچھ واقع یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند کی کہی ہوئی نہیں بلکہ اس نبی نے وہ بات خود گستاخ بن کر کہی ہے تو اس سے خوف نہ کرنا۔’’

استثناء، 18 : 17، 22

اس عبارت میں بنی اسرائيل سے خطاب کرتے ہوئے یہ صراحت کی گئی ہے کہ جس نبی کی بشارت دی گئی ہے، وہ ان میں سے نہیں بلکہ ان کے بھائیوں یعنی بن اسمعیل میں مبعوث ہوگا، اور حضرت شعیاء علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد موجودہ بائبل میں منقول ہے کہ :

‘‘دیکھو! میرا خادم جس کو میں سنبھالتا ہوں، میرا برگزیدہ جس سے میرا دل خوش ہے، میں نے اپنی روح اس پر ڈالی، وہ قوموں میں عدالت جاری کرے گا، وہ نہ چلائے گا اور نہ شور کرے گا، اور نہ بازاروں میں اس کی آواز سنائی دے گی، وہ مسلے ہوئے سرکنڈے کو نہ توڑے گا، اور ٹمٹماتی بتی کو نہ بجھائے گا، وہ راستی سے عدالت کرے گا، اور ماندہ نہ ہوگا، اور ہمت نہ ہارے گا، جب تک عدالت کو زمین پر قائم نہ کرلے، جزیری اس کی شریعت کا انتظار کریں گے۔۔۔

‘‘میں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا، اور تیری حفاظت کروں گا، اور لوگوں کے عہد اور قوموں کے نور کے لئے تجھے دوں گا، کہ تو اندھوں کی آنکھیں کھولے اور اسیروں کو قید سے نکالے، اور ان کو جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں قید خانے سے چھڑالے، یہوواہ میں ہی ہوں، یہی میرا نام ہے، میں اپنا جلال کسی دوسرے کے لئے اور اپنی حمد کھودی ہوئی مورتوں کے لئے روانہ رکھوں گا۔۔۔

‘‘اے سمندر پر گزرنے والو! اور اس میں بسنے والو! اے جزیرو! اور ان کے باشندو! خداوند کے لیے نیا گیت گاؤ، زمین پر سرتاسراسی کی ستائش کرو، بیابان اور اس کی بستیاں، قیدار کے آباڈ گاؤں اپنی آوازیں بلند کریں، تسلع کے بسنے والے گیت گائیں، پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے للکاریں، وہ خداوند کا جلال ظاہر کریں، اور جزیروں میں اس کی ثناء خوانی کریں، خداوند بہادر کی مانند نکلے گا، وہ جنگی مرد کی مانند اپنی غیرت دکھائے گا۔۔۔ جو کھو دی ہوئی مورتوں پر بھروسہ کرتے اور ڈھالے ہوئے بتوں سے کہتے ہیں تم ہمارے معبود ہو وہ پیچھے ہٹیں گے اور بہت شرمندہ ہوں گے۔’’

يسعياه، 24 : 1.17

اس عبارت میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ جس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت دی جا رہی ہے وہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں گے (کیونکہ قیدار انہی کے صاحبزادے کا نام ہے اور سلع (مدینہ طیبہ کے مشہور پہاڑ) کے بسنے والے اس کی آمد پر خوشیاں منائیں گے، اس کا خاص مقابلہ بت پرستوں سے ہوگا، اور وہ اپنے حلقہ اثر میں بت پرستی کا خاتمہ کر دے گا، اسے متعدد اقوام سے جنگیں بھی پیش آئیں گی، اور بالآخر وہ غالب آ کر ان اقوام میں نظام عدل نافذ کرے گا۔

موجودہ بائبل کے عہد نامہ قدیم میں اس قسم کی اور بھی بہت سی بشارتیں اب تک موجود ہیں اور انہی کی وجہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کی تشریف آوری کے وقت تک لوگوں میں یہ بات مشہور و معروف تھی کہ مسیح علیہ السلام کے علاوہ ایک اور عظیم الشان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں تشریف لانے والے ہیں، چنانچہ انجیل یوحنا میں مذکور ہے کہ جب حضرت یحیی علیہ السلام تشریف لائے تو لوگوں نے اُن سے پوچھا کہ کیا آپ وہی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جن کی بشارت پچھلے انبیاء عليہم السلام دیتے آ رہے ہیں؟ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اس کا انکار کیا انجیل یوحنا کی عبارت یہ ہے :

‘‘اور یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لاوی یہ پوچھنے کے لئے اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے؟ تو اس نے اقرار کیا اور اس نے انکار نہ کیا، بلکہ یہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں، انہوں نے اس سے پوچھا پھر تو کون ہے؟ کیا تو ایلیاہ ہے؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں، کیا تو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔۔۔’’

انجيل، يوحنا، 1 : 19.26

اس سے واضح ہے کہ حضرت یحیی علیہ السلام کے زمانے میں بھی لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کے علاوہ ایک اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منتظر تھے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے درمیان اس قدر مشہور و معروف تھے کہ اُن کے نام لینے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی، بلکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنا کافی ہوتا تھا۔

پھر جب حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صریح اسمِ گرامی لوگوں کو بتا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی بشارت دی، انجیل یوحنا میں مسیح علیہ السلام کا یہ ارشاد منقول ہے کہ :

‘‘میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے، کیونکہ اگر میںنہ جاؤں تو وہ (فار قلیط) تمہارے پاس نہ آئے گا، لیکن اگر جاؤں گا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا اور وہ آ کر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھہرائے گا۔’’

يوحنا، 16 : 7

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved