حضور نبی اکرم ﷺ کی عظمت اور اختیارات

حضور ﷺ کو زمین اور آسمان میں بارگاہ الٰہی سے وزراء عطا کئے جانے کا بیان

بَابٌ فِي أَنَّ اﷲَ عزوجل جَعَلَ لَهُ صلی الله عليه وآله وسلم وُزَرَاءَ فِي الْأَرْضِ وَالسَّمَاءِ

{حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زمین اور آسمان میں بارگاہِ الٰہی سے وزراء عطا کئے جانے کا بیان}

98 / 1. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ أُحُدٍ، وَمَعَهُ رَجُـلَانِ يُقَاتِـلَانِ عَنْهُ، عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيْضٌ، کَأَشَدِّ الْقِتَالِ، مَا رَأَيْتُهُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ يَعْنِي جِبْرِيْلَ وَمِيْکَائِيْلَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

98 : أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب : المغازی، باب : إِذَ هَمَّتَ طَائِفَتَانَ مِنْکُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاﷲُ وَلِيُهُمَا وَعَلَی اﷲِ فَلْيَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ، آل عمران، 3 : 122، 4 / 1489، الرقم : 3828، وفی کتاب : اللباس، باب : الثياب البيض، 5 / 2192، الرقم : 5488، ومسلم فی الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : فی قتال جبريل وميکائيل عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم يوم أحد، 4 / 1802، الرقم : 2306، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 171، الرقم : 1468، والشاشی فی المسند، 1 / 185، الرقم : 133، والأصبهاني فی دلائل النبوة، 1 / 51، الرقم : 34، والخطيب التبريزی فی مشکاة المصابيح، 2 / 382، الرقم : 7575، والذهبی فی سير أعلام النبلاء، 1 / 107.

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جنگ اُحد کے روز میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس دو ایسے حضرات کو دیکھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے لڑ رہے تھے انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے اور بڑی بہادری سے بر سر پیکار تھے میں نے انہیں اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا نہ بعد میں کبھی دیکھا یعنی وہ جبرائیل و میکائیل علیہما السلام تھے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

99 / 2. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا لَهُ وَزِيْرَانِ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ وَوَزِيْرَانِ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَأَمَّا وَزِيْرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ فَجِيْرِيْلُ وَمِيْکَائِيْلُ، وَأَمَّا وَزِيْرَايَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ فَأَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

99 : أخرجه الترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : فی مناقب أبی بکر وعمر رضي اﷲ عنهما کليهما، 5 / 616، الرقم : 3680، والحاکم فی المستدرک، 2 / 290، الرقم : 3047، وابن الجعد فی المسند، 1 / 298، الرقم : 2026، والديلمی فی مسند الفردوس، 4 / 382، الرقم : 7111، والمبارکفوری فی تحفة الأحوذی، 10 / 114.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لئے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ سو آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر، جبرائیل و میکائیل علیھما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر (رضی اﷲ عنہما) ہیں۔‘‘

اسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

100 / 3. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ حَنْطَبٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَی أَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ فَقَالَ : هَذَانِِ السَّمْعُ وَالْبَصَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.

100 : أخرجه الترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : فی مناقب أبی بکر وعمر رضی اﷲ عنهما کليهما، 5 / 613، الرقم : 3671، والحاکم في المستدرک، 3 / 73، الرقم : 4432.

’’حضرت عبداﷲ بن حنطب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا تو فرمایا : یہ دونوں (میرے لئے) کان اور آنکھ کی حیثیت رکھتے ہیں (یعنی دونوں میرے وزراء خاص ہیں)۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

101 / 4. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما أَنَّهُ کَانَ يُحَدِّثُ : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أُرِيَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ صَالِحٌ، أَنَّ أَبَابَکْرٍ نِيْطَ بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَنِيْطَ عُمَرُ بِأَبِي بَکْرٍ، وَنِيْطَ عُثْمَانُ بِعُمَرَ. قَالَ : جَابِرٌ : فَلَمَّا قُمْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قُلْنَا : أَمَّا الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَأَمَّا تَنَوُّطُ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ، فَهُمْ وُلَاةُ هَذَا الْأَمْرِ الَّذِي بَعَثَ اﷲُ بِهِ نَبِيَهُ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.

101 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في الخلفاء، 4 / 208، الرقم : 4636، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 355، الرقم : 14863، وابن حبان في الصحيح، 15 / 343، الرقم : 6913، والحاکم في المستدرک، 3 / 109، الرقم : 4551، 3 / 75، الرقم : 4438، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 537، الرقم : 1134.

’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : گزشتہ رات ایک نیک آدمی کو خواب دکھایا گیا کہ ابوبکر کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ منسلک کر دیا گیا اور عمر کو ابوبکر کے ساتھ اور عثمان کو عمر کے ساتھ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے اٹھے تو ہم نے کہا : اس نیک آدمی سے مراد تو خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں۔ رہا بعض کا بعض سے منسلک ہونا تو وہ ان کا اس ذمہ داری کے لئے خلفاء و امراء مقرر کیا جانا ہے جس کے لئے اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا تھا۔‘‘

اس حدیث کو امام ابوداود، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

102 / 5. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ اﷲَ نَظَرَ فِي قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم ، خَيْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ اﷲُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوْبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُوْنَ عَلَی دِيْنِهِ (وفي رواية : فَجَعَلَهُمْ أَنْصَارَ دِيْنِهِ) فَمَا رَأَی الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا، فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا، فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ سَيِّئٌ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ مُوَثَّقُوْنَ.

102 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 379، الرقم : 3600، والبزار فی المسند، 5 / 212، الرقم : 1816،1702، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 4 / 58، الرقم : 3602، وفی المعجم الکبير، 9 / 112،115، الرقم : 8582، 8593، والبيهقی فی الاعتقاد، 1 / 322،والهيثمی فی مجمع الزوائد، 1 / 177، 8 / 212.

’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں کی طرف نظر کی تو قلبِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں کے دلوں سے بہتر دل پایا تو اسے اپنے لئے چن لیا (اور خاص کر لیا) اور انہیں اپنی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کو (صرف اپنے لئے) منتخب کرنے کے بعد دوبارہ قلوبِ انسانی کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کے دلوں کو سب بندوں کے دلوں سے بہتر پایا تو انہیں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وزیر بنا دیا وہ ان کے دین کے لئے جہاد کرتے ہیں (اور ایک روایت میں ہے کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کا مددگار بنا دیا) پس جس شے کو مسلمان اچھا جانیں تو وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک (بھی) اچھی ہے اور جسے بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بُری ہے۔‘‘

اسے امام احمد بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقات ہیں۔

103 / 6. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه يَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَيْسَ مِنْ نَبِيٍّ کَانَ قَبْلِي إِلاَّ قَدْ أُعْطِيَ سَبْعَةَ نُقَبَاءَ وُزَرَاءَ نُجَبَاءَ وَإِنِّي أُعْطِيْتُ أَرْبَعَةَ عَشَرَ وَزِيْرًا نَقِيْبًا نَجِيْبًا سَبْعَةً مِنْ قُرَيْشٍ وَسَبْعَةً مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

103 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 88، الرقم : 665، وابن عساکر في تاريخ مدينه دمشق، 60 / 178.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کو سات نقباء (ذمہ دار سرداران)، وزراء، نجباء (شرفاء) عطا نہ کیے گئے ہوں، اور بے شک مجھے چودہ نقباء وزراء اور نجباء عطا کیے گئے ہیں : سات قریش میں سے اور سات مہاجرین میں سے۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

104 / 7. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّهُ لَمْ يَکُنْ قَبْلِي نَبِيٌّ إِلاَّ أُعْطِيَ سَبْعَةَ رُفَقَاءَ نُجَبَاءَ وُزَرَاءَ وَإِنِيّ أُعْطِيْتُ أَرْبَعَةَ عَشَرَ : حَمْزَةُ، وَجَعْفَرٌ، وَعَلِيٌّ، وَحَسَنٌ، وَحُسَيْنٌ، وَأَبُوْبَکْرٍ، وَعُمَرُ، وَالْمِقْدَادُ، وَعَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ، وَأَبُوْ ذَرٍّ، وَحُذَيْفَةُ، وَسَلْمَانُ، وَعَمَّارٌ، وَبِـلَالٌ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْنُعَيْمٍ وَالْبَزَّارُ.

وفي رواية : فَقِيْلَ لِعَلِيٍّ رضی الله عنه مَنْ هُمْ؟ قَالَ : أَنَا، وَابْنَايَ الْحَسَنُ، وَالْحُسَيْنُ، وَحَمْزَةُ، وَجَعْفَرٌ، وَأَبُوْبَکْرٍ، وَعُمَرُ، وَالْمِقْدَادُ، وَسَلْمَانُ، وَطَلْحَةُ، والزُّبَيْرُ رضی الله عنهم رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

104 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 148، الرقم : 1262، وفي فضائل الصحابة، 1 / 228، الرقم : 277، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 216، الرقم : 6048. 6049، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 128، والبزار في المسند، 3 / 109، الرقم : 896، والشيباني في الآحاد والمثانی، 1 / 190، الرقم : 245، وأبوالمحاسن في معتصر المختصر، 2 / 314، وابن تمام الرازي في الفوائد، 2 / 231، الرقم : 1597، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1 / 412، 482، والمزي في تهذيب الکمال، 21 / 221، وابن عساکر في تاريخ مدينه دمشق، 10 / 451. 452، 12 / 270، 13 / 226، 43 / 384، 60 / 178، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1140، 4 / 1481.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں گزرا مگر یہ کہ اسے سات رفقاء، نجباء، وزراء عطا کیے گئے اور بے شک مجھے چودہ رفقاء ، نجباء، وزراء عطا کیے گئے (اور وہ یہ ہیں) : حمزہ، جعفر، علی، حسن، حسین، ابوبکر، عمر، مقداد، عبد اﷲ بن مسعود، ابو ذر، حذیفہ، سلیمان، عمار، بلال (رضی اللہ عنہم)۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد، طبرانی، ابو نعیم اور بزار نے روایت کیا ہے۔

اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ وہ (چودہ نقباء) کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا : میں (خود)، میرے دونوں بیٹے (حسن اور حسین رضی اﷲ عنھما)، حمزہ، جعفر، ابوبکر، عمر، مقداد، سلمان، طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہم۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

105 / 8. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : قِيْلَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ يُؤَمَّرُ بَعْدَکَ؟ قَالَ : إِنْ تُؤَمِّرُوْا أَبَابَکْرٍ تَجِدُوْهُ أَمِيْنًا زَاهِدًا فِي الدُّنْيَا رَاغِبًا فِي الْآخِرَةِ وَإِنْ تُؤَمِّرُوْا عُمَرَ تَجِدُوْهُ قَوِيًا أَمِيْنًا، لَا يَخَافُ فِي اﷲِ تَعَالَی لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَإِنْ تُؤَمِّرُوْا عَلِيًا تَجِدُوْهُ هَادِيًا مَهْدِيًا يَأْخُذُ بِکُمُ الطَّرِيْقَ الْمُسْتَقِيْمَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.

105 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 108، الرقم : 859، والحاکم فی المستدرک، 3 / 73، الرقم : 4434، والبزار فی المسند، 3 / 33، الرقم : 783، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 2 / 86، الرقم : 463.

’’حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا : یا رسول اﷲ! آپ کے بعد کسے امیر بنایا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم ابوبکر کو امیر بناؤ گے تو تم اُنہیں امانت دار، دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والا اور آخرت سے رغبت رکھنے والا پاؤ گے اور اگر عمر کو امیر بناؤ گے تو انہیں ایسا قوی اور امین پاؤ گے جسے اﷲ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہیں ہو گا اور اگر تم علی رضی اللہ عنہ کو امیر بناؤ گے تو انہیں ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا پاؤ گے جو تمہیں سیدھے راستے پر چلائے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

106 / 9. عِنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ اﷲَ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَصْهَارًا وَأَنْصَارًا فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اﷲِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ. لَا يَقْبَلُ اﷲُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفاً وَلَا عَدْلاً. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

106 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 732، الرقم : 6656، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 1 / 144، الرقم : 456، وابن أبي عاصم فی السنة، 2 / 483، الرقم : 1000، والشيبانی فی الآحاد والمثانی، 3 / 370، الرقم : 1772.

’’حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تعالیٰ نے مجھے (اپنا پسندیدہ رسول) اختیار کیا اور میرے لیے میرے صحابہ کو اختیار کیا۔ پس اس نے میر ے لئے ان میں سے وزراء بنائے اور قریبی رشتہ دار اور انصار (مدد گار) پس جس نے انہیں گالی دی تو اس پر اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ ان کا فرض قبول کرے گا نہ نفل۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم، طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

107 / 10. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ أَبُوْبَکْرٍ الصِّدِّيْقُ رضی الله عنه مِنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مَکَانَ الْوَزِيْرِ. فَکَانَ يُشَاوِرُهُ فِي جَمِيْعِ أُمُوْرِهِ، وَکَانَ ثَانِيْهِ فِي الإِسْلَامِ، وَکَانَ ثَانِيْهِ فِي الْغَارِ، وَکَانَ ثَانِيْهِ فِي الْعَرِيْشِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَکَانَ ثَانِيْهِ فِي الْقَبْرِ، وَلَمْ يَکُنْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُقَدِّمُ عَلَيْهِ أَحَدًا. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

107 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 66، الرقم : 4408.

’’حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں وزیر کی حیثیت رکھتے تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے تمام اُمور میں اُن سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لانے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوسرے تھے، وہ غارِ(ثور)میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوسرے تھے، وہ غزوئہ بدر کے عریش (وہ چھپر جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بنا یا گیا تھا) میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوسرے تھے، وہ قبر میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوسرے ہیں اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن پر کسی کو بھی مقدّم نہیں سمجھتے تھے۔‘‘

اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

108 / 11. عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَبْعَثَ إِلَی الْآفَاقِ رِجَالًا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السُّنَنَ وَالْفَرَائِضَ کَمَا بَعَثَ عِيْسَی ابْنُ مَرْيَمَ عليه السلام الْحَوَارِيِّيْنَ قِيْلَ لَهُ : فَأَيْنَ أَنْتَ مِنْ أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ؟ قَالَ : إِنَّهُ لَا غِنَی بِي عَنْهُمَا، إِنَّهُمَا مِنَ الدِّيْنِ کَالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

108 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 1 / 78، الرقم : 4448.

’’حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے ارادہ کیا ہے کہ اطراف و اکنافِ عالم میں اپنے نمائندگان بھیجوں جو لوگوں کو سنن و فرائض سکھائیں، جس طرح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو بھیجا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا (حضرت) ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک (دینِ اسلام کی ترویج کے لئے) میرے ساتھ ساتھ اُن دونوں کا وجود بھی ناگزیر ہے۔ یقینا یہ دونوں دین میں کان اور آنکھ کا درجہ رکھتے ہیں (یعنی میرے وزراء خاص ہیں)۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved