حضور ﷺ کے خصائل مبارکہ

حضور ﷺ کی مسرت، مسکراہٹ اور مزاح کا بیان

بَابٌ فِي وَصْفِ سُرُوْرِہٖ صلى الله عليه وآله وسلم وَضِحْکِہٖ وَمَزَاحِہٖ

{حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسرت، مسکراہٹ اور مزاح کا بیان}

1 / 1۔ عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه یُحَدِّثُ حِیْنَ تَخَلَّفَ عَنْ تَبُوْکَ، قَالَ: فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَھُوَ یَبْرُقُ وَجْھُہٗ مِنَ السُّرُوْرِ، وَکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْھُہٗ حَتّٰی کَأَنَّہٗ قِطْعَۃُ قَمَرٍ، وَکُنَّا نَعْرِفُ ذَالِکَ مِنْہُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔

1: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفۃ النبي صلى الله عليه وآله وسلم ، 3 / 1305، الرقم: 3363، وأیضًا في کتاب المغازي، باب حدیث کعب بن مالک ص، 4 / 1607، الرقم: 4156، ومسلم في الصحیح، کتاب التوبۃ، باب حدیث توبۃ کعب بن مالک وصاحبیہ، 4 / 2127، الرقم: 2769، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 359، الرقم: 11232، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 458، الرقم: 15827، والحاکم في المستدرک، 2 / 661، الرقم: 4193، وقال: ھذا حدیث صحیح۔

''حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے اُس وقت کی روایت ہے جب وہ غزوہِ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اُنہوں نے بیان فرمایا: (توبہ قبول ہونے کے بعد) جب میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہِ انور خوشی سے جگمگا رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی مسرور ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرئہ مبارک یوں نور بار ہو جاتا تھا جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہِ انور ہی سے آپ کی خوشی کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔'' یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2 / 2۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضي اﷲ عنھا قَالَتْ: مَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم مُسْتَجْمِعًا قَطُّ ضَاحِکًا حَتّٰی أَرَی مِنْہٗ لَھَوَاتِہٖ، إِنَّمَا کَانَ یَتَبَسَّمُ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔

2: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب التبسم والضَّحِکِ، 5 / 2261، الرقم: 5741، وأیضًا في الأدب المفرد، 1 / 97، الرقم: 251، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاۃ الاستسقائ، باب التعوذ عند رؤیۃ الریح والغیم والفرح بالمطر، 2 / 616، الرقم: 899، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب ما یقول إذا ھاجت الریح، 4 / 326، الرقم: 5098، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 66، الرقم: 24414، والحاکم في المستدرک، 2 / 495، الرقم: 3700۔

''حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی اس طرح کھل کر (یعنی قہقہہ لگا کر) ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلق مبارک نظر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف مسکرایا کرتے تھے۔'' یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3 / 3۔ عَنْ جَرِیْرٍص قَالَ: مَا حَجَبَنِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم مُنْذُ أَسْلَمْتُ، وَلَا رَآنِي إِلَّا تَبَسَّمَ فِي وَجْھِي، وَلَقَدْ شَکَوْتُ إِلَیْہِ أَنِّي لَا أَثْبُتُ عَلَی الْخَیْلِ، فَضَرَبَ بِیَدِہٖ فِي صَدْرِي وَقَالَ: اَللّٰھُمَّ ثَبِّتْہٗ، وَاجْعَلْہٗ ہَادِیًا مَہْدِیًّا۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔

3: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجھاد، باب مَن لا یَثْبُتُ علی الخَیْلِ، 3 / 1104، الرقم: 2871، وأیضًا في کتاب الأدب، باب التبسم والضحک، 5 / 2260، الرقم: 5739، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ ث، باب من فضائل جریر بن عبد اﷲ ص، 4 / 1925، الرقم: 2475، والترمذي في السنن، کتاب المناقب باب مناقب جریر بن عبد اﷲ البجلي ص، 5 / 679، الرقم: 3821، وقال: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب فضل جریر بن عبد اﷲ البجلي، 1 / 56، الرقم: 159، والطبراني في المعجم الکبیر، 2 / 293، الرقم: 2219۔

''حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوا اُس وقت سے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کبھی ملنے سے نہیں روکا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی مجھے دیکھتے تو چہرہِ انور تبسم ریز ہو جاتا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گذارش کی کہ میں جم کر گھوڑے پر سواری نہیں کر سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک میرے سینے پر مارا اور دعا فرمائی: اے اللہ! اِسے جما دے اور اِسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دے۔''

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

4 / 4۔ عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَہْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِنْہَا وَآخِرَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ دُخُوْلًا، رَجُلٌ یَخْرُجُ مِنَ النَّارِ کَبْوًا فَیَقُوْلُ اﷲُ: اذْہَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ، فَیَأْتِیْہَا، فَیُخَیَّلُ إِلَیْہِ أَنَّہَا مَـلْأَی، فَیَرْجِعُ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ، وَجَدْتُہَا مَـلْأَی، فَیَقُوْلُ: اذْہَبْ، فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ، فَیَأْتِیْہَا، فَیُخَیَّلُ إِلَیْہِ أَنَّہَا مَـلْأَی، فَیَرْجِعُ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ، وَجَدْتُہَا مَـلْأَی، فَیَقُوْلُ: اذْہَبْ، فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ فَإِنَّ لَکَ مِثْلَ الدُّنْیَا وَعَشَرَۃَ أَمْثَالِہَا، أَوْ إِنَّ لَکَ مِثْلَ عَشَرَۃِ أَمْثَالِ الدُّنْیَا، فَیَقُوْلُ: تَسْخَرُ مِنِّي أَوْ تَضْحَکُ مِنِّي وَأَنْتَ الْمَلِکُ، فَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ضَحِکَ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہٗ، وَکَانَ یَقُوْلُ: ذَاکَ أَدْنٰی أَہْلِ الْجَنَّۃِ مَنْزِلَۃً۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔

وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ: قِیْلَ: کَانَ لَا یَضْحَکُ إِلَّا فِي أَمْرٍ یَتَعَلَّقُ بِالآخِرَۃِ فَإِنْ کَانَ فِي أَمْرِ الدُّنْیَا لَمْ یَزِدْ عَلَی التَّبَسُّمِ۔

4: أخرجہ البخاري في الصحیح،کتاب الرقاق ، باب صفۃ الجنۃ والنار، 5 / 2402، الرقم: 6202، ومسلم في الصحیح ، کتاب الإیمان، باب أخر أہل النار خروجًا، 1 / 174، الرقم: 186، والترمذي في السنن، کتاب صفۃ جھنم، باب منہ، 4 / 712، الرقم: 2595، وابن ماجہ في السنن ، کتاب الزہد ، باب صفۃ الجنۃ، 2 / 1452، الرقم : 4339، وابن حبان في الصحیح، 16 / 517، الرقم: 7475، والعسقلاني في فتح الباري، 4 / 171۔

''حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ سب سے آخر میں جہنم سے کون نکالا جائے گا یا سب سے آخر میں کون جنت کے اندر داخل ہو گا۔ یہ آدمی اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا جہنم سے باہر نکلے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا، جنت میں داخل ہو جا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا تو اُسے گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے، چنانچہ وہ واپس لوٹ کر عرض گزار ہو گا: اے ربّ! وہ تو بھری ہوئی ہے۔ پس اﷲ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا، جنت میں چلا جا۔ لہٰذا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ جنت میں جا کر اُسے پھر گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے۔ پس وہ واپس لوٹ کر پھر عرض کرے گا: اے ربّ! میں نے تو وہ بھری ہوئی پائی ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا اور جنت میں داخل ہو کیونکہ تیرے لیے جنت میں دنیا کے برابر بلکہ اُس سے دس گنا زیادہ حصہ ہے، یا فرمایا: تیرے لیے دس دنیاؤں کے برابر حصہ ہے۔ وہ عرض کرے گا: (اے اﷲ!) کیا مجھ سے مزاح کرتا ہے یا مجھ پر ہنستا ہے؟ حالانکہ تو حقیقی مالک ہے۔ (حضرت عبد اﷲ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:) میں نے دیکھا کہ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: یہ اہلِ جنت کے سب سے کم درجہ والے شخص کا حال ہے۔'' یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

امام عسقلانی نے فرمایا: یہ کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف آخرت کے اُمور میں ہنسا کرتے تھے اگر کوئی معاملہ دنیا سے متعلق ہوتا تو اُس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف تبسم فرمایا کرتے تھے۔

5 / 5۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا، وَکَانَ لِي أَخٌ یُقَالُ لَہٗ: أَبُوْ عُمَیْرٍ، قَالَ: أَحْسِبُہٗ فَطِیْمًا، وَکَانَ إِذَا جَائَ قَالَ: یَا أَبَا عُمَیْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ؟ نُغَرٌ کَانَ یَلْعَبُ بِہٖ…الحدیث۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔

5: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب الکنیۃ للصبي قبل أن یولد للرجل، 5 / 2291، الرقم: 5850، ومسلم في الصحیح، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ وحملہ إلی صالح یحنکہ، 3 / 1692، الرقم: 2150، والترمذي في السنن، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء في الصلاۃ علی البسط، 2 / 154، الرقم: 333، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في الرجل یتکنی ولیس لہ ولد، 4 / 293، الرقم: 4969، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب، باب المزاح، 2 / 1226، الرقم: 3720۔

''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اَخلاق والے تھے اور میرا ایک بھائی تھا جس کو ابو عمیر کہا جاتا تھا اور میرے خیال میں اُس کا دودھ چھڑایا جا چکا تھا۔ چنانچہ جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: اے ابو عمیر! نغیر کا کیا بنا؟ نغر (ایک پرندہ تھا جس) کے ساتھ وہ کھیلا کرتا تھا (بعد ازاں وہ فوت ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس بچے کی دل جوئی اور مزاح کے لیے یہ فرماتے)۔'' یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

6 / 6۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ رضي الله عنه قَالَ: جَالَسْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم أَکْثَرَ مِنْ مِائَۃِ مَرَّۃٍ، فَکَانَ أَصْحَابُہٗ یَتَنَاشَدُوْنَ الشِّعْرَ، وَیَتَذَاکَرُوْنَ أَشْیَائَ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ، وَہُوَ سَاکِتٌ، فَرُبَّمَا تَبَسَّمَ مَعَہُمْ۔

رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ہٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

6: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في إنشاد الشعر، 5 / 140، الرقم: 2850، وأیضًا في الشمائل المحمدیۃ / 204، الرقم: 248، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 105، الرقم: 21048، وابن حبان في الصحیح، 13 / 96، الرقم: 5781، وأبویعلی في المسند، 13 / 446، الرقم: 7449، والطبراني في المعجم الکبیر، 2 / 229، الرقم: 1948، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 372۔

''حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں سو بار سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا، صحابہ کرام ث شعر پڑھتے اور دورِ جاہلیت کی باتوں کا تذکرہ کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہتے اور بعض اوقات اُن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تبسم فرماتے۔''

اِسے امام ترمذی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

7 / 7۔ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ رضي الله عنه قَالَ: مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَکْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ۔

7: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في بشاشۃ النبي صلى الله عليه وآله وسلم ، 5 / 601، الرقم: 3641، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 191، الرقم: 17750، والبیھقي في شعب الإیمان، 6 / 251، الرقم: 8047، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 9 / 205، الرقم: 189، وابن المبارک في الزھد، 1 / 47، الرقم: 145۔

''حضرت عبد اﷲ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کسی کو نہیں دیکھا۔''

اِسے امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

8 / 8۔ عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ رضي الله عنه قَالَ: قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّکَ تُدَاعِبُنَا؟ قَالَ: إِنِّي لَا أَقُوْلُ إِلَّا حَقًّا۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ۔

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ہٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

8: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في المزاح، 4 / 357، الرقم: 1990، وأیضًا في الشمائل المحمدیۃ / 195، الرقم: 238، والبخاري في الأدب المفرد / 102، الرقم: 265، والعسقلاني في فتح الباري، 10 / 526۔

''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام ث نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں (مزاح میں بھی) سچی بات کے سوا کچھ نہیں کہتا۔''

اِسے امام ترمذی اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

9 / 9۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ رَجُـلًا اسْتَحْمَلَ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: إِنِّي حَامِلُکَ عَلٰی وَلَدِ النَّاقَۃِ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَۃِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم : وَہَلْ تَلِدُ الْإِبِلَ إِلَّا النُّوْقُ؟

رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ہٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

9: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في المزاح، 4 / 357، الرقم: 1991، وأیضًا في الشمائل المحمدیۃ / 196، الرقم: 239، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 267، الرقم: 13844۔

''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سواری کے لیے جانور مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مزاحًا) فرمایا: میں تجھے اُونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا۔ اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اُونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُونٹنیاں ہی تو اُونٹ پیدا کرتی ہیں (لہٰذا ہر اُونٹ اُونٹنی کا بچہ ہوا)۔''

اِسے امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

10 / 10۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم قَالَ لَہٗ: یَا ذَا الْأُذُنَیْنِ، قَالَ مَحْمُوْدٌ: قَالَ أَبُوْ أُسَامَۃَ: یَعْنِي مَازَحَہُ۔

رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: وَہٰذَا الْحَدِیْثُ حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ۔

10: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في المزاح، 4 / 358، الرقم: 1992، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في المزاح، 4 / 301، الرقم: 5002، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 117، 127، 242، 260، الرقم: 12185، 12307، 13568، 13764، وأبو یعلی في المسند، 7 / 91، الرقم: 4029۔

''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے فرمایا: اے دو کانوں والے! محمود کہتے ہیں ابو اسامہ نے بیان کیا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ساتھ مزاح فرمایا۔''

اسے امام ترمذی، ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔

11 / 11۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنھما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَأَمْزَحُ وَلَا أَقُوْلُ إِلَّا حَقًّا۔ رَوَاہُ الطَّبَرَانِيُّ۔

11: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 298، 7 / 219، الرقم: 995، 7322، وأیضًا في المعجم الصغیر، 2 / 59، الرقم: 779، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 56، الرقم: 155، والہیثمي في مجمع الزوائد ، 8 / 89۔

''حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک میں مزاح کرتا ہوں لیکن سچ بات کے علاوہ کچھ نہیں کہتا (یعنی مزاح میں بھی جھوٹی بات نہیں کرتا)۔'' اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved