انبیاء و رسل علیہم السلام کے فضائل و مناقب

امام الانبیاء سیدنا محمد مصطفی ﷺ کے مناقب کا بیان

1. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ إِمَامِ الْأَنْبِيَاءِ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ ﷺ

{امام الانبیاء سیدنا محمد مصطفی ﷺ کے مناقب کا بیان}

1/ 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَی حَوْضِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم1: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: الجمعة، باب: فضل ما بين القبر والمنبر، 1/ 399، الرقم: 1138، وفی کتاب: الحج، باب: کراهية النبی ﷺ، أن تعری المدينة، 2/ 667، الرقم: 1789، وفی کتاب: الرقاق، باب: فی الحوض، 5/ 2408، الرقم: 6216، وفی کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: ذکر النبی ﷺ، وفی باب: حض علی إتفاق أهل العلم وما اجتمع عليه الحرمان مکة والمدينة، 6/ 2672، الرقم: 6904، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الحج، باب: ما بين القبر والمنبر روضة من رياض الجنة، 2/ 110، 111، الرقم: 1390. 1391، والترمذی فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء فی فضل المدينة، 50/ 718. 719، الرقم: 3915. 3916، والنسائی فی السنن، کتاب: المساجد، باب: فضل مسجد النبی ﷺ والصلاة فيه، 2/ 35، الرقم: 695، والنسائی فی السنن الکبری، 1/ 257، الرقم: 774، 2/ 35، الرقم: 695، ومالک فی الموطأ، 1/ 197، الرقم: 463. 464، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2/ 236، الرقم: 7222.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2/ 2. عَنْ مُعَاوِيَةَ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُوْلُ: مَن يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ يُعْطِي.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

الحديث رقم 2: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: العلم، باب: من يرد اللَّه به خيرا يفقّهه فی الدين، 1/ 39، الرقم: 71، وفی کتاب: فرض الخمس، باب: قول اللَّه تعالی: فإن ﷲ خمسه وللرسول، 3/ 1134، الرقم: 2948، وفی کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: قول النبی ﷺ لا تزال طائفة من أمتی ظاهرين علی الحق وهم أهل العلم، 6/ 2667، الرقم: 6882، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: النهی عن المسألة، 2/ 718، الرقم: 1037، وبعضه فی کتاب: الإمارة باب: قوله: لا تزال طائفة من أمتی ظاهرين علی الحق لا يضرهم من خالفهم، 3/ 1524، الرقم: 1037، والترمذی عن ابن عباسرضی الله عنهما وحسّنه فی السنن، کتاب: العلم عن رسول الله ﷺ، باب: إذا اراد الله بعبد خيرا فقهه فی الدين، 5/ 28، الرقم: 2645، وابن ماجة عن معاوية وأبی هريرة رضی الله عنهما، فی السنن، المقدمة، باب: فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1/ 80، الرقم:220. 221، والنسائی فی السنن الکبری، کتاب: العلم، باب: فضل العلم، 3/ 425، الرقم: 5839، ومالک بعضه فی الموطأ، 2/ 900، الرقم: 1599، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2/ 234، الرقم: 793، والدارمی فی السنن، 1/ 85، الرقم: 224. 22.

’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: الله تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے، اور بے شک تقسیم کرنے والا میں ہی ہوں جبکہ اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ بخاری کے ہیں۔

3/ 3. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ: أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللهُ بِيَ الْکُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 3: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: المناقب، باب: ما جاء فی أسماء رسول الله ﷺ، 3/ 1299، الرقم: 3339، وفی کتاب: التفسير، باب: تفسير سورة الصف، 4/ 1858، الرقم: 4614، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: فی أسمائه ﷺ، 4/ 828، الرقم: 2354، والترمذی فی السنن، کتاب: الأدب عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء فی أسماء النبی ﷺ، 5/ 135، الرقم:2840، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. والنسائی فی السنن الکبری، 6/ 489، الرقم: 11590، ومالک فی الموطأ، کتاب: أسماء النبی ﷺ، باب: أسماء النبی ﷺ، 2/ 1004، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4/ 80، 84، والدارمی فی السنن، 2/ 409، الرقم: 2775، وابن حبان فی الصحيح، 14/ 219، الرقم: 6313، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 4/ 44، الرقم: 3570، وفی المعجم الکبير، 2/ 120، الرقم: 1520. 1529، وأبويعلی فی المسند، 13/ 388، الرقم: 7395، والبيهقی فی شعب الإيمان، 2/ 140، الرقم: 1397، وابن سعد فی الطبقات الکبری، 1/ 105، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8/ 284.

’’حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے پانچ نام ہیں میں محمد اور احمد ہوں اور میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعے سے کفر کو محو کر دے گا اور میں حاشر ہوں۔ سب لوگ میری پیروی میں ہی(روز حشر) جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ہوں (یعنی سب سے آخر میں آنے والا ہوں)۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے

4/ 4. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

وفي رواية للبخاري: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، وَذَکَرَ نَحْوَهُ.

الحديث رقم 4: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: حُبُّ الرَّسُوْلِ ﷺ مِنَ الإِيْمَانِِ 1/ 14، الرقم:15، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: وجوب محبّة رسول الله ﷺ أکثر من الأهل والولد والوالد والناس أجمعين، 1/ 67، الرقم: 44.

أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: حُبُّ الرَّسُوْلِ ﷺ مِنَ الإِيْمَانِِ 1/ 14، الرقم: 14.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے

’’اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے! (اِس کے بعد سابقہ الفاظِ حدیث ہیں)۔‘‘

5/ 5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي أُتِيْتُ بِمَفَاتِيْحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَتْ فِي يَدِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: قول النبي ﷺ : بعثت بجوامع الکلم، 6/ 2654، الرقم: 6845، وفي کتاب: الجهاد، باب: قول النبي ﷺ : نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مسيرة شهر، 3/ 1087، الرقم: 2815، وفي کتاب: التعبير، باب: المفاتيح في اليد، 6/ 2573، الرقم: 6611، ومسلم في الصحيح، کتاب: المساجد ومواضع الصلاة، 1/ 371، الرقم: 523، والنسائی فی السنن، کتاب: الجهاد، باب: وجوب الجهاد، 6/ 3. 4، الرقم: 3087. 3089، وفی السنن الکبری، 3/ 3، الرقم: 4295، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2/ 264، 455، الرقم: 7575، 9867، وابن حبان فی الصحيح، 14/ 277، الرقم: 6363، وأبو عوانة فی المسند، 1/ 330، الرقم: 1170، والبيهقی فی شعب الإيمان، 1/ 161، الرقم: 139.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں جامع کلمات کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہوں اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور جب میں سویا ہوا تھا اس وقت میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے لیے لائی گئیں اور میرے ہاتھ میں تھما دی گئیں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

6/ 6. عَنْ حُذَيفَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَامَ فِيْنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَقَامًا مَا تَرَکَ شَيْئًا يَکُوْنُ فِي مَقَامِهِ ذَلِکَ إِلَی قِيَامِ السَّاعَةِ‘ إِلَّا حَدَّثَ بِهِ حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

الحديث رقم6: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: القدر، باب: وکان أمر الله قدرا مقدورا، 6/ 2435، الرقم: 6230، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الفتن وأشراط الساعة، باب: إخبار النبی ﷺ فيما يکون إلی قيام الساعة، 4/ 2217، الرقم:2891، والترمذي مثله عن أبی سعيد الخدری رضی الله عنه فی السنن، کتاب: الفتن عن رسول الله ﷺ، باب: ماجاء أخبر النبي ﷺ أصحابه بما هو کائن إلی يوم القيامة، 4/ 483، الرقم: 2191، وأبوداود فی السنن، کتاب: الفتن والملاحم، باب: ذکر الفتن ودلائلها، 4/ 94، الرقم:4240، وأحمد بن حنبل فی المسند، 5/ 385، الرقم: 23322، والبزار فی المسند، 7/ 231، الرقم: 8499، وقال: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والطبرانی مثله عن أبی سعيد الخدريص فی مسند الشاميين، 2/ 247، الرقم: 1278، والخطيب التبريزي في مشکوٰة المصابيح، کتاب: الفتن، الفصل الاول، الرقم: 5379.

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہو کر خطاب فرمایا: آپ ﷺ نے اپنے اس دن کھڑے ہونے سے لے کر قیامت تک کی کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی، جس کو آپ ﷺ نے بیان نہ فرما دیا ہو۔ جس نے اسے یاد رکھا یاد رکھا اورجو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔

7/ 7. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي‘ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ اِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوْفُوْنَ بِهِ وَيَعْجَبُوْنَ لَهُ وَيَقُوْلُوْنَ: هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ: فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم7: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: المناقب، باب: خَاتَم النَّبِيِنَ ﷺ، 3/ 1300، الرقم: 3341. 3342، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: ذکر کونه ﷺ خاتم النبين، 4/ 1791، الرقم: 2286، والنسائی فی السنن الکبری، 6/ 436، الرقم: 11422، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2/ 398، الرقم: 9156، وابن حبان فی الصحيح، 14/ 315، الرقم: 6405.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری مثال اور گزشتہ انبیائے کرام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی نے ایک بہت خوبصورت مکان بنایا اور اسے خوب آراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آکر اس مکان کو دیکھنے لگے اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے بولے: یہاں اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سومیں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے بعد نبوت ختم ہو گئی)۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

8/ 8. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: نَهَی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنِ الْوِصَالِ، قَالُوا: إِنَّکَ تُوَاصِلُ، قَالَ: إِنِّي لَسْتُ مِثْلَکُمْ إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَی.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيُِّ.

الحديث رقم 8: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: الصوم، باب: الوصال ومن قال: ليس فی اللّيلِ صيامٌ، 2/ 693، الرقم: 1861، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الصيام، باب: النهی عن الوصال فی الصوم، 2/ 774، الرقم: 1102، وأبوداود فی السنن، کتاب: الصوم، باب: فی الوصال، 2/ 306، الرقم: 2360، والنسائی فی السنن الکبری، 2/ 241، الرقم: 3263، ومالک فی الموطأ، 1/ 300، الرقم: 667، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2/ 102، الرقم: 5795، وابن حبان فی الصحيح، 8/ 341، الرقم: 3575، وابن أبی شيبة فی المصنف، 2/ 330، الرقم: 9587، وعبد الرزاق فی المصنف، 4/ 268، الرقم: 7755، والبيهقی فی السنن الکبری، 4/ 282، الرقم: 8157.

’’حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے صومِ وِصال (سحری و اِفطاری کے بغیر مسلسل روزے رکھنے) سے منع فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں ہرگز تمہاری مثل نہیں ہوں، مجھے تو (اپنے رب کے ہاں) کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔

9/ 9. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: نَهَی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنِ الْوِصَالِ فَقَالَ لَهُ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ: فَإِنَّک يَا رَسُوْلَ اللهِ تُوَاصِلُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَيُکُمْ مِثْلِي إِنِّي أَبِيْتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِيْنِ… الحديث.

مُتَّفَقٌٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيُِّ. .

الحديث رقم9: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الحدود، باب: کم التعزير والأدب، 6/ 2512، رقم: 6459، وفي کتاب: التمني، باب ما يجوز من اللو، 6/ 2646، رقم: 6815، ومسلم في الصحيح، کتاب: الصيام، باب: النهي عن الوصال في الصوم، 2/ 774، رقم: 1103، والنسائي في السنن الکبری، 2/ 242، رقم: 3264، والدارمي في السنن، کتاب: الصوم، باب: النهي عن الوصال في الصوم، 2/ 15، رقم: 1706، والطبراني في المعجم الأوسط، 2/ 68، رقم: 1274، والدارقطني في العلل الواردة في الأحاديث النبوية، 9/ 232.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو صومِ وصال سے منع فرمایا تو بعض صحابہ نے آپ ﷺ سے عرض کیا: یا رسول الله! آپ خود تو صومِ وصال رکھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کون میری مثل ہو سکتا ہے۔ میں تو اس حال میں رات بسر کرتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتابھی ہے اور پلاتا بھی ہے الحدیث۔‘‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام بخاری کے ہیں۔

10/ 10. عَنْ أَنَسِ رضی الله عنه أَنَّ أَهْلَ مَکَّةَ سَأَلُوْا رَسُولَ اللهِ ﷺ أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً، فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ مَرَّتَيْنِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

الحديث رقم10: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: المناقب، باب: سؤال المشرکين أن يريهم النبي ﷺ آية، فأراهم انشقاق القمر، 3/ 1330، الرقم: 3437. 3439، ومسلم فی الصحيح، کتاب: صفات المنافقين وأحکامهم، باب: انشقاق القمر، 4/ 2158. 2159، الرقم: 2800. 2801، والترمذی فی السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: من سورة القمر، 5/ 398، الرقم: 3285. 3289، والنسائی فی السنن الکبری، 6/ 476، الرقم: 1552. 1553، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 207، الرقم: 13177، 13327، وابن حبان فی الصحيح، 4/ 420، الرقم: 6495، والحاکم فی المستدرک، 2/ 513، الرقم: 3758. 3761، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ اہل مکہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا تو آپ ﷺ نے انہیں دو مرتبہ چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائے۔‘‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔

11/ 11. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما، قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَی عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَصَلَّی، قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ الله، رَأَيْنَاکَ تَنَاوَلُ شَيْئًا فِي مَقَامِکَ‘ ثُمَّ رَأَيْنَاکَ تَکَعْکَعْتَ؟ فَقَالَ: إِنِّي أُرِيْتُ الْجَنَّةَ‘ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُوْدًا، وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَکَلْتُمْ مِنْهُ‘ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 11: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: الصفة الصلاة، باب: رفع البصر إلی الإمام فی الصلاة، 1/ 261، الرقم: 715، وفی کتاب: الکسوف، باب: صلاة الکسوف جماعة، 1/ 357، الرقم: 1004، وفی کتاب: النکاح، باب: کفران العشير، 5/ 1994، الرقم: 4901، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الکسوف، باب: ما عرض علی النبی ﷺ فی صلاة الکسوف من أمر الجنة والنار، 2/ 627، الرقم: 904، والنسائی فی السنن، کتاب: الکسوف، باب: قدر قرائة فی صلاة الکسوف، 3/ 147، الرقم: 1493، وفی السنن الکبری، 1/ 578، الرقم: 1878، ومالک فی الموطأ، 1/ 186، الرقم: 445، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1/ 298، الرقم: 2711، 3374، وابن حبان فی الصحيح، 7/ 73، الرقم: 2832، 2853، وعبد الرزاق فی المصنف، 3/ 98، الرقم: 4925، والبيهقی فی السنن الکبری، 3/ 321، الرقم: 6096، والشافعی فی السنن المأثورة، 1/ 140، الرقم: 47.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا اور آپ ﷺ نے نمازِ کسوف پڑھائی۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے کوئی چیز پکڑی پھر ہم نے دیکھا کہ آپ کسی قدر پیچھے ہٹ گئے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے جنت نظر آئی تھی، میں نے اس میں سے ایک خوشہ پکڑ لیا، اگر اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اس سے کھاتے رہتے (اور وہ ختم نہ ہوتا)۔‘‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

12/ 12. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَوْمَ أُحُدٍ، وَمَعَهُ رَجُـلَانِ يُقَاتِلَانِ عَنْهُ، عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيْضٌ، کَأَشَدِّ الْقِتَالِ، مَا رَأَيْتُهُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ يَعْنِي جِبْرِيْلَ وَمِيْکَائِيْلَ عليهما السلام.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 12: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: المغازی، باب: إِذَ هَمَّتَ طَائِفَتَانَ مِنْکُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللهُ وَلِيُهُمَا وَعَلَی اللهِ فَلْيَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ، [آل عمران، 3: 122]، 4/ 1489، الرقم: 3828، وفی کتاب: اللباس، باب: الثياب البيض، 5/ 2192، الرقم: 5488، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: فی قتال جبريل وميکائيل عن النبی ﷺ يوم أحد، 4/ 1802، الرقم: 2306، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1/ 171، الرقم: 1468، والشاشی فی المسند، 1/ 185، الرقم: 133، وأبونعيم فی دلائل النبوة، 1/ 51، الرقم: 34، والخطيب التبريزی فی مشکاة المصابيح، کتاب: أحوال القيامة وبدء الخلق، باب: فی المعجزات، الفصل الأول: 2/ 382، الرقم: 7575، والذهبی فی سير أعلام النبلاء، 1/ 107.

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جنگ اُحد کے روز میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس دو ایسے حضرات کو دیکھا جو آپ ﷺ کی جانب سے لڑ رہے تھے انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے بڑی بہادری سے برسرپیکار تھے میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا نہ بعد میں یعنی وہ جبرائیل و میکائیل علیہما السلام تھے۔‘‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

13/ 13. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : فَرَضَ اللهُ عَلَی أُمَّتِي خَمْسِيْنَ صَـلَاةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِکَ، حَتَّی مَرَرْتُ عَلَی مُوْسَی، فَقَالَ: مَا فَرَضَ اللهُ لَکَ عَلَی أُمَّتِکَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ خَمْسِيْنَ صَـلَاةً، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ، فَإِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِيْقُ ذَلِکَ، فَرَاجَعَنِي فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَی مُوْسَی، قُلْتُ: وَضَعَ شَطْرَهَا، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّکَ، فَإِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِيْقُ، فَرَاجَعْتُ فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ، فَإِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِيْقُ ذَلِکَ، فَرَاجَعْتُهُ، فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُوْنَ، لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ، فَرَجَعْتُ إِلَی مُوْسَی، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّکَ، فَقُلْتُ: اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي ثُمَّ انْطَلَقَ بِي حَتَّی انْتَهَی بِي إِلَی سِدْرَةِ الْمُنْتَهَی وَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ، ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ، فَإِذَا فِيْهَا حَبَائِلُ اللُّؤْلُؤِ، وإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْکُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 13: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الصلاة، باب: کيف فرضت الصلاة في الإسراء، 1/ 136، الرقم: 342، وفيکتاب: الأنبياء، باب: ذکر إدريس وهو جد أبي نوح ويقال جد نوحعليهما السلام، 3/ 1217، الرقم: 3164، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: الإسراء برسول الله ﷺ إلی السماوات وفرض الصلوات، 1/ 148، الرقم:163، والنسائي في السنن، کتاب: الصلاة، باب: فرض الصلاة، 1/ 221، الرقم:449، وابن ماجة في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ما جاء في فرض الصلوات الخمس والمحافظة عليها، 1/ 448، الرقم: 1399، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 143، الرقم: 21326، وابن حبان في الصحيح، 16/ 421، الرقم:7406، وابن منده في الإيمان، 2/ 721، الرقم: 714، وأبو عوانة في المسند، 1/ 119، الرقم:354، والبيهقي في السنن الصغری، 1/ 191، الرقم: 257.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (شبِ معراج) اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں تو میں ان (نمازوں) کے ساتھ واپس آیا یہاں تک کہ میں حضرت موسٰی کے پاس سے گزرا تو انہوں نے سوال کیا: اللہ تعالیٰ نے آپ پر آپ کی امت کے لئے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: الله تعالیٰ نے پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا: اپنے رب کی طرف واپس جائیے کیونکہ آپ کی امت اس (کی ادائیگی) کی طاقت نہیں رکھتی۔ پس انہوں نے مجھے واپس لوٹا دیا۔ (میری درخواست پر) الله تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا۔ میں حضرت موسىٰ علیہ السلام کی طرف واپس گیا اور کہا کہ الله تعالیٰ نے ایک حصہ کم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا: اپنے رب کی طرف (پھر) جائیے کیونکہ آپ کی امت میں ان کی (ادائیگی کی) طاقت نہیں ہے۔ پس میں واپس گیا تو الله تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ اور کم کر دیا۔ میں ان کی طرف آیا تو انہوں نے پھر کہا: اپنے رب کی طرف جائیے کیونکہ آپ کی امت میں ان کی طاقت بھی نہیں ہے۔ میں واپس لوٹا تو (الله تعالیٰ نے) فرمایا: یہ (ہیں تو) پانچ (نمازیں) مگر (ثواب کے اعتبار سے) پچاس (کے برابر) ہیں۔ میرے نزدیک بات تبدیل نہیں ہوا کرتی۔ میں حضرت موسٰی کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: اپنے رب کی طرف جائیے (اور مزید کمی کے لئے درخواست کیجئے) میں نے کہا: مجھے اب اپنے رب سے حیا آتی ہے۔ پھر (جبرائیل) مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے جسے مختلف رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا، نہیں معلوم کہ وہ کیا ہیں؟ پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا جس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک ہے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

14/ 14. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي دَعْوَةٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَکَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً وَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ الْقَوْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَلْ تَدْرُوْنَ بِمَ يَجْمَعُ اللهُ الْأَوَّلِيْنَ وَالْأخِرِيْنَ فِي صَعِيْدٍ وَاحِدٍ فَيُبْصِرُهُمُ النَّاظِرُ وَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَتَدْنُو مِنْهُمُ الشَّمْسُ فَيَقُوْلُ بَعْضُ النَّاسِ: أَلاَ تَرَوْنَ إِلَی مَا أَنْتُمْ فِيْهِ إِلَی مَا بَلَغَکُمْ أَلاَ تَنْظُرُوْنَ إِلَی مَنْ يَشْفَعُ لَکُمْ إِلَی رَبِّکُمْ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ: أَبُوکُمْ آدَمُ فَيَأْتُوْنَهُ فَيَقُوْلُوْنَ: يَا آدَمُ، أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَکَ اللهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيْکَ مِنْ رُوْحِهِ وَأَمَرَ الْمَلاَئِکَةَ فَسَجَدُوْا لَکَ وَأَسْکَنَکَ الْجَنَّةَ أَلاَ تَشْفَعُ لَنَا إِلَی رَبِّکَ أَلاَ تَرَی مَا نَحْنُ فِيْهِ وَمَا بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ: رَبِّي غَضِبَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَنَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي اِذْهَبُوا إِلَی غَيْرِي اِذْهَبُوا إِلَی نُوْحٍ فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ، أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَی أَهْلِ الْأَرْضِ وَسَمَّاکَ اللهُ عَبْدًا شَکُوْرًا أَمَا تَرَی إِلَی مَا نَحْنُ فِيْهِ أَلاَ تَرَی إِلَی مَا بَلَغَنَا أَلاَ تَشْفَعُ لَنَا إِلَی رَبِّکَ؟ فَيَقُوْلُ: رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ نَفْسِي نَفْسِي ائْتُوا النَّبِيَّ ﷺ فَيَأْتُوْنِي فَأَسْجُدُ تَحْتَ الْعَرْشِ فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَکَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَسَلْ تُعْطَهْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

الحديث رقم 14: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأنبياء، باب: قول الله تعالی: إنا أرسلنا نوحا إلی قومه، 3/ 1215، الرقم: 3162، وفي کتاب: التفسير، باب: ذرية من حملنا مع نوح إنه کان عبدا شکورا، 4/ 1745، الرقم: 4435، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: أدنی أهل الجنة منزلة فيها، 1/ 184، الرقم: 194، والترمذي في السنن، کتاب: صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء في الشفاعة، 4/ 622، الرقم: 2434، وقال: هذا حديث حسن صحيح، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 435، الرقم: 9621، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 307، الرقم: 31674، وابن منده في الإيمان، 2/ 847، الرقم: 879، وأبو عوانة في المسند، 1/ 147، الرقم: 437، وابن أبي عاصم في السنة، 2/ 379، الرقم: 811، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4/ 239، الرقم: 5510.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دعوت میں ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے تو آپ ﷺ کی خدمت میں بکری کی دستی کا گوشت پیش کیا گیا یہ آپ ﷺ کو بہت مرغوب تھا۔ آپ ﷺ اس میں سے کاٹ کاٹ کر تناول فرمانے لگے اور فرمایا: میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں۔ تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ سب اگلوں پچھلوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع کیوں فرمائے گا تاکہ دیکھنے والا سب کو دیکھ سکے اور پکارنے والا اپنی آواز (بیک وقت سب کو) سنا سکے اور سورج ان کے بالکل نزدیک آ جائے گا۔ اس وقت بعض لوگ کہیں گے:کیا تم دیکھتے نہیں کہ کس حال میں ہو، کس مصیبت میں پھنس گئے ہو؟ ایسے شخص کو تلاش کیوں نہیں کرتے جو تمہارے رب کے حضور تمہاری شفاعت کرے؟ بعض لوگ کہیں گے: تم سب کے باپ تو حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ پس وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے: اے سیدنا آدم! آپ ابو البشر ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور آپ میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اور آپ کو جنت میں سکونت بخشی، کیا آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں گے؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم کس مصیبت میں گرفتار ہیں؟ ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ وہ فرمائیں گے: میرے رب نے آج ایسا غضب فرمایا ہے کہ نہ ایسا پہلے فرمایا، نہ آئندہ ایسا فرمائے گا۔ مجھے اس نے ایک درخت (کا میوہ کھانے) سے منع فرمایا تھا تو مجھ سے اس کے حکم میں لغزش ہوئی لہٰذا مجھے اپنی جان کی فکر ہے، تم کسی دوسرے کے پاس جائو۔ تم حضرت نوح ں کے پاس چلے جائو۔ لوگ حضرت نوح ں کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: اے سیدنا نوح! آپ اہل زمین کے سب سے پہلے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام ’’عبدًا شکورًا‘‘ (یعنی شکر گزار بندہ) رکھا۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت میں ہیں؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ کیا آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں گے؟ وہ فرمائیں گے: میرے رب نے آج غضب کا وہ اظہار فرمایا ہے کہ نہ پہلے ایسا اظہار فرمایا تھا اور نہ آئندہ ایسا اظہار فرمائے گا۔ مجھے خود اپنی فکر ہے، مجھے اپنی جان کی پڑی ہے۔ (باقی حدیث مختصر کر کے فرمایا:) سو تم حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس جائو۔ لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں عرش کے نیچے سجدہ کروں گا اور (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) فرمایا جائے گا: یا محمد! اپنا سر اٹھائیں اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔

15/ 15. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، وَتَوَلَّی عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَکَانِ فَيُقْعِدَانِهِ، فَيَقُوْلاَنِ: مَا کُنْتَ تَقَوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ لِمُحَمَّدٍ ﷺ، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُوْلُ: أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللهِ وَرَسُوْلُهُ. فَيُقَالُ لَهُ: اُنْظُرْ إِلَی مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَکَ اللهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ، فَيَرَاهُمَا جَمِيْعًا. قَالَ: وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ: مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ: لَا أَدْرِي! کُنْتُ أَقُوْلُ مَا يَقُوْلُ النَّاسُ! فَيُقَالُ: لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، ويُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَةً، فَيَصِيْحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيْهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

الحديث رقم 15: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: الجنائز، باب: ما جاء فی عذاب القبر، 1/ 462، الرقم: 1308، وفی کتاب: الجنائز، باب: الميت يسمع خفق النعال، 1/ 448، الرقم: 1673، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب: التی يصرف بها فی الدنيا أهل الجنة وأهل النار، 4/ 2200، الرقم: 2870، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: فی المسألة في القبر وعذاب القبر، 4/ 238، الرقم: 4752، والنسائی فی السنن کتاب: الجنائز، باب: المسألة فی القبر، 4/ 97، الرقم: 2051، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3/ 126، الرقم: 12293.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بندے کو جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے۔ دریں اثناء اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں: تو اس شخص یعنی (سیدنا محمد مصطفی ﷺ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ اگر مومن ہو تو کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ﷺ ہیں۔ اس سے کہا جائے گا: (اگر تو ایمان نہ لاتا تو جہنم میں تیرا ٹھکانہ ہوتا) جہنم میں اپنے اس ٹھکانے کی طرف دیکھ کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے اس کے بدلے جنت میں ٹھکانہ دے دیا ہے۔ پس وہ دونوں کو دیکھتا ہو گا اور اگر منافق یا کافر ہو تو اس سے پوچھا جائے گا تو اس شخص (یعنی سیدنا محمد مصطفی ﷺ ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا تو نے نہ جانا اور نہ پڑھا۔ اسے لوہے کے گُرز سے مارا جائے گا تو وہ (شدت تکلیف) سے چیختا چلاتا ہے جسے سوائے جنات اور انسانوں کے سب قریب والے سنتے ہیں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام بخاری کے ہیں۔

16/ 16. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُو يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّی يَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ، فَبَيْنَاهُمْ کَذَلِکَ اسْتَغَاثُوا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوْسَی، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ ﷺ . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

الحديث رقم 16: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: مَنْ سأل الناس تَکَثُّرًا، 2/ 536، الرقم: 1405، وابن منده فی کتاب الإيمان، 2/ 854، الرقم: 884، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 8/ 30، الرقم: 8725، والبيهقی فی شعب الإيمان، 3/ 269، الرقم: 3509، والديلمی فی مسند الفردوس، 2/ 377، الرقم: 3677، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 10/ 371، ووثّقه.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے روز سورج لوگوں کے بہت قریب آ جائے گا یہاں تک کہ پسینہ نصف کانوں تک پہنچ جائے گا لوگ اس حالت میں (پہلے) حضرت آدم علیہ السلام سے مدد مانگنے جائیں گے، پھر حضرت موسٰی سے، پھر بالآخر حضرت محمد مصطفی ﷺ سے مدد مانگیں گے۔‘‘

اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

17/ 17. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ‘ قَالَتْ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ، يَا رَسُوْلَ اللهِ. أَ لَا أَجْعَلُ لَکَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ، فَإِنَّ لِي غُـلَامًا نَجَّارًا. قَالَ: إِنْ شِئْتِ قَالَ: فَعَمِلَتْ لَهُ الْمِنْبَرَ، فَلَمَّا کَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، قَعَدَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَی الْمِنْبَرِ الَّذِي صُنِعَ فَصَاحَتِ النَّخْلَةُ الَّتِي کَانَ يَخْطُبُ عِنْدَهَا، حَتَّی کَادَتْ أَنْ تَنْشَقَّ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّی أَخَذَهَا فَضَمَّهَا إِلَيْهِ‘ فَجَعَلَتْ تَئِنُّ أَنِيْنَ الصَّبِيِّ الَّذِي يَسَکَّتُ‘ حَتَّی اسْتَقَرَّتْ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنِّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم 17: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: البيوع، باب: النجار، 2/ 378، الرقم: 1989، وفی کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة فی الإسلام، 3/ 1314، الرقم: 3391. 3392، وفی کتاب: المساجد، باب: الاستعانة بالنجار والصناع فی أعواد المنبر والمسجد، 1/ 172، الرقم: 438، والترمذی فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: (6)، 5/ 594، الرقم: 3627، والنسائی فی السنن، کتاب: الجمعة، باب: مقام الإمام فی الخطبة، 3/ 102، الرقم: 1396، وابن ماجة فی السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء فی بدء شان المنبر، 1/ 454، الرقم: 1414. 1417، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3/ 226، والدارمی نحوه فی السنن، 1/ 23، الرقم: 42، و ابن خزيمة فی الصحيح، 3/ 139، الرقم: 1776. 1777، وعبد الرزاق فی المصنف، 3/ 186، الرقم: 5253، وابن حبان فی الصحيح 14/ 48، 43، الرقم: 6506، وأبويعلی فی المسند، 6/ 114، الرقم: 3384.

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ ایک انصاری عورت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے (خطبہ کے) لئے کوئی چیز بیٹھنے کو نہ بنوا دوں؟ کیونکہ میرا غلام بڑھئی ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو (بنوا دو)۔ اس عورت نے آپ ﷺ کے لئے منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیا تو حضور نبی اکرم ﷺ اسی منبر پر تشریف فرما ہوئے جو تیار کیا گیا تھا لیکن (حضور نبی اکرم ﷺ کے منبر پر تشریف رکھنے کی وجہ سے) کھجور کا وہ ستون جس سے ٹیک لگا کر آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے چِلاَّ پڑا یہاں تک کہ پھٹنے کے قریب ہو گیا۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم ﷺ منبر سے اتر آئے اور ستون کو گلے لگایا۔ ستون اس بچہ کی طرح رونے لگا، جسے تھپکی دے کر چپ کرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اسے سکون آ گیا۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

18/ 18. عَنْ آدَمَ بْنِ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رضي الله عنهما يَقُوْلُ: إِنَّ النَّاسَ يَصِيْرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُثًا، کُلُّ أُمَّةٍ تَتْبَعُ نَبِيَهَا يَقُوْلُوْنَ: يَا فُلاَنُ اشْفَعْ، يَا فُلاَنُ اشْفَعْ، حَتَّی تَنْتَهِيَ الشَّفَاعَةُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَذَلِکَ يَوْمَ يَبْعَثُهُ اللهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنِّسَائِيُّ.

الحديث رقم 18: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: تفسير القرآن، باب: قوله: عسی أن يبعثک ربک مقاما محمودا، 4/ 1748، الرقم: 4441، والنسائی فی السنن الکبری، 6/ 381، الرقم: 295، وابن منده فی الإيمان، 2/ 871، الرقم: 927.

’’حضرت آدم بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کو فرماتے ہوئے سنا : روزِ قیامت سب لوگ گروہ در گروہ ہو جائیں گے۔ ہر امت اپنے اپنے نبی کے پیچھے ہو گی اور عرض کرے گی: اے فلاں! شفاعت فرمائیے، اے فلاں! شفاعت کیجئے۔ یہاں تک کہ شفاعت کی بات حضور نبی اکرم ﷺ پر آ کر ختم ہو گی۔ پس اس روز شفاعت کے لئے اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘

اسے امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

19/ 19. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلاَّ وَأَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اقْرَؤُوْا إِنْ شِئْتُمْ :{النَّبِيُّ أَوْليَ بِالْمُؤْمنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ} [الأحزاب، 33: 6] فَأَيُمَا مُؤْمِنٍ تَرَکَ مَالاً فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ کَانُوْا، فَإِنْ تَرَکَ دَيْنًا، أَوْ ضِيَاعًا فَلْيَأْتِنِي وَأَنَا مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالدَّارَمِيُّ.

الحديث رقم 19: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: التفسير/ الأحزاب، باب: النبيّ أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، 4/ 1795، الرقم: 4503، والدارمی فی السنن، 2/ 341، الرقم: 2594، والبيهقی فی السنن الکبری، 6/ 238، الرقم: 12148.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی مومن ایسا نہیں کہ دنیا و آخرت میں جس کی جان کا میں اس سے بھی زیادہ مالک نہ ہوں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ’’نبی مکرم ﷺ مومنوں کے لئے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ سو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو جو بھی اس کا خاندان ہوگا وہی اس کا وارث ہوگا پس اگر قرض یا بچے چھوڑ کر مرے تو وہ بچے میرے پاس آئیں میں ان کا سرپرست ہوں (اور میرے بعد میرا نظامِ حکومت یہ دونوں ذِمّہ داریاں نبھائے گا)۔‘‘

اسے امام بخاری اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

20/ 20. عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه يَقُوْلُ: قَامَ فِيْنَا النَّبِيُّ ﷺ مَقَامًا، فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْءِ الْخَلْقِ حَتَّی دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنَازِلَهُمْ وَأَهْلُ النَّارِ مَنَازِلَهُمْ، حَفِظَ ذَلِکَ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

الحديث رقم 20: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: بدء الخلق، باب: ما جاء فی قول الله تعالی: وهو الذی يبدأ الخلق ثم يعيده وهوأهون عليه، 3/ 1166، الرقم: 3020.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک روز ہمارے درمیان قیام فرما ہوئے اور آپ ﷺ نے مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہو جانے تک ہمیں سب کچھ بتا دیا۔ جس نے اسے یاد رکھا، یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

21/ 21. عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ رضي الله عنهما قَالَا: إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ بِعَيْنَيْهِ قَالَ: فَوَاللهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا يَقْتَتِلُونَ عَلَی وُضُوْئِهِ وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَهُ. فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَی أَصْحَابِهِ فَقَالَ: أَيْ قَوْمِ، وَاللهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوْکِ، وَفَدْتُ عَلَی قَيْصَرَ وَکِسْرَی وَالنَّجَاشِيِّ وَاللهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِکًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ مُحَمَّدًا. حَدِيْثٌ بِطُوْلِهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 21: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: الشروط، باب: الشروط فی الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وکتابة، 2/ 974، الرقم: 2581، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4/ 329، وابن حبان فی الصحيح، 11/ 216، الرقم: 4872، والطبرانی فی المعجم الکبير، 20/ 9، الرقم: 13، والبيهقی فی السنن الکبری، 9/ 220.

’’حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی الله عنہما سے روایت ہے، عروہ بن مسعود (جب بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں کفار کا وکیل بن کر آیا تو) صحابہ کرام (کے معمولات) کو دیکھتا رہا کہ جب بھی آپ ﷺ اپنا لعاب دہن پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور وہ اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب آپ ﷺ کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو اس کی فوراً تعمیل کی جاتی ہے۔ جب آپ ﷺ وضو فرماتے ہیں تو لوگ آپ ﷺ کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جب آپ ﷺ گفتگو فرماتے ہیں تو صحابہ اپنی آوازوں کو آپ ﷺ کے سامنے پست کر لیتے ہیں اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ ﷺ کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا: اے قوم! الله رب العزت کی قسم! میں (عظیم الشان) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسری اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں۔ لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد ﷺ کے اصحاب محمد ﷺ کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘

اسے امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

22/ 22. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما، قَالَ: عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ‘ وَالنَّبِيُّ ﷺ بَيْنَ يَدَيْهِ رِکْوَةٌ فَتَوَضَّأَ، فَجَهِشَ النَّاسُ نَحْوَهُ‘ فَقَالَ: مَالَکُمْ؟ قَالُوْا: لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَا بَيْنَ يَدَيْکَ‘ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الرِّکْوَةِ‘ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَثُوْرُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ کَأَمْثَالِ الْعُيُوْنِ‘ فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا قُلْتُ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: لَوْکُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا‘ کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 22: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة فی الإسلام، 3/ 1310، الرقم: 3383، وفی کتاب: المغازی، باب: غزوة الحديبية، 4/ 1526، الرقم: 3921. 3923، وفی کتاب: الأشربة، باب: شرب البرکة والماء المبارک، 5/ 2135، الرقم: 5316، وفی کتاب: التفسير/ الفتح، باب: إِذْ يُبَايعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ : (18)، 4/ 1831، الرقم: 4560، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3/ 329، الرقم: 14562، وابن خزيمة فی الصحيح، 1/ 65، الرقم: 125، وابن حبان فی الصحيح، 14/ 480، الرقم: 6542، والدارمی فی السنن، 1/ 21، الرقم: 27، وأبويعلی فی المسند، 4/ 82، الرقم: 2107، والبيهقی فی الاعتقاد، 1/ 272، وابن جعد فی المسند، 1/ 29، الرقم: 82.

’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پانی کی ایک چھاگل رکھی ہوئی تھی آپ ﷺ نے اس سے وضو فرمایا: لوگ آپ ﷺ کی طرف جھپٹے تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے پاس وضو کے لئے پانی ہے نہ پینے کے لئے۔ صرف یہی پانی ہے جو آپ کے سامنے رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے (یہ سن کر) دستِ مبارک چھاگل کے اندر رکھا تو فوراً چشموں کی طرح پانی انگلیوں کے درمیان سے جوش مار کر نکلنے لگا چنانچہ ہم سب نے پانی پیا اور وضو بھی کر لیا۔ (سالم راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اس وقت آپ کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کے لئے کافی ہو جاتا، جبکہ ہم تو پندرہ سو تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

23/ 23. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَنْ صَلَّی عَلَيَّ وَاحِدَةً، صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.

وَزَادَ التِّرْمِذِيُّ: وَکَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ.

وَقَالَ أَبُوعِيْسَی: حَدِيْثُ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم 23: أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب: الصلاة، باب: الصلاة علی النبي ﷺ بهذا التشهد، 1/ 306، الرقم: 408، والترمذی فی السنن، کتاب: الوتر عن رسول الله ﷺ، باب: ماجاء في فضل الصلاة علی النبی ﷺ، 2/ 353، 354، الرقم: 484. 485، والنسائی فی السنن، کتاب: السهو، باب: الفضل فی الصلاة علی النبی ﷺ، 3/ 50، الرقم: 1296، وفی السنن الکبری، 1/ 384، الرقم: 1219، والدارمی فی السنن، 2/ 408، الرقم: 2772، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2/ 375، الرقم: 8869. 10292، وابن حبان فی الصحيح، 3/ 187، الرقم: 906، وابن أبی شيبة فی المصنف، 2/ 253، الرقم: 8702، والطبرانی فی المعجم الصغير، 2/ 126، الرقم: 899، وأبويعلی بإسناده فی المسند، 11/ 380، الرقم: 6495، والبيهقی فی شعب الإيمان، 2/ 211، الرقم: 1559، وأبو عوانة فی المسند، 1/ 546، الرقم: 2040، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 4/ 395، الرقم: 1567، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 2/ 323، الرقم: 2558، 2559، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 10/ 163، وفی موارد الظمآن، 1/ 594، الرقم: 2390.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو الله تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (رحمت) بھیجتا ہے۔‘‘

اسے امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

اور امام ترمذی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا: ’’اور الله تعالیٰ اس کے لئے دس نیکیاں بھی اس (درود پڑھنے) کے بدلے میں لکھ دیتا ہے۔‘‘

امام ترمذی نے فرمایا کہ حدیث ابوہریرہ صحیح حدیث ہے۔

24/ 24. عَنْ عَمْرِو بْنِ أَخْطَبَ رضی الله عنه قَالَ: صَلَّی بِنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْفَجْرَ. وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّی حَضَرَتِ الظُّهْرُ، فَنَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ. فَخَطَبَنَا حَتَّی حَضَرَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ. فَخَطَبَنَا حَتَّی غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَخْبَرَنَا بِمَا کَانَ وَبِمَا هُوَ کَائِنٌ قَالَ: فَأَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.

الحديث رقم 24: أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب: الفتن وأشراط الساعة، باب: إخبار النبی ﷺ فيما يکون إلی قيام الساعة، 4/ 2217، الرقم: 2892، والترمذی فی السنن، کتاب: الفتن عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء ما أخبر النبی ﷺ أصحابه بما هو کائن إلی يوم القيامة، 4/ 483، الرقم: 2191، وابن حبان فی الصحيح، 15/ 9، الرقم: 6638، والحاکم فی المستدرک، 4/ 533، الرقم: 8498، وأبويعلی فی المسند، 12/ 237، الرقم: 2844، والطبرانی فی المعجم الکبير، 17/ 28، الرقم: 46، والشيبانی فی الأحاد والمثانی، 4/ 199، الرقم: 2183.

’’حضرت عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے نماز فجر میں ہماری امامت فرمائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا‘ پھر آپ ﷺ نیچے تشریف لے آئے نماز پڑھائی بعد ازاں پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا حتی کہ عصر کا وقت ہو گیا پھر منبر سے نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا پس آپ ﷺ نے ہمیں ہر اس بات کی خبر دے دی جو جو آج تک وقوع پذیر ہو چکی تھی اور جو قیامت تک ہونے والی تھی۔ حضرت عمرو بن اخطب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم میں زیادہ جاننے والا وہی ہے جو سب سے زیادہ حافظہ والا تھا۔‘‘

اسے امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

25/ 25. عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ رضی الله عنه يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: إِنَّ اللهَ اصْطَفَی کِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيْلَ، وَاصْطَفَی قُرَيْشًا مِنْ کِنَانَةَ، وَاصْطَفَی مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

الحديث رقم 25: أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: فضل نسب النبی ﷺ، 4/ 1782، الرقم: 2276، والترمذی فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ : باب: ما جاء فی فضل النبی ﷺ، 5/ 583، الرقم: 3605، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4/ 107، وابن حبان فی الصحيح، 14/ 135، الرقم: 6242، وابن أبي شيبة فی المصنف، 6/ 317، الرقم: 31731، والبيهقی فی السنن الکبری، 6/ 365، الرقم: 12852، 3542، وفی شعب الإيمان، 2/ 139، الرقم: 1391، والطبرانی فی المعجم الکبير، 22/ 66، الرقم: 161، وأبويعلی فی المسند، 13/ 469، الرقم: 7485، واللالکائی فی اعتقاد أهل السنة، 4/ 751، الرقم: 1400.

’’حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیل سے بنی کنانہ کو اور اولادِ کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرف انتخاب بخشا اور پسندیدہ قرار دیا۔‘‘

اسے امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

26/ 26. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُودَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

الحديث رقم 26: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: تفضيل نبينا ﷺ علی جميع الخلائق، 4/ 1782، الرقم: 2278، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في التخيير بين الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، 4/ 218، الرقم: 4673، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 540، الرقم: 10985، وابن أبي شيبة في المصنف، 7/ 257، الرقم: 35849، وابن حبان عن عبد اللهص في الصحيح، 14/ 398، الرقم: 6478، وأبو يعلی عن عبد الله بن سلامص في المسند، 13/ 480، الرقم: 7493، وابن أبي عاصم في السنة، 2/ 369، الرقم: 792، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 788، الرقم: 1453، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 4، وفي شعب الإيمان، 2/ 179، الرقم: 1486.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا، اور سب سے پہلا شخص میں ہوں گا جس کی قبر شق ہو گی، اور سب سے پہلا شفاعت کرنے والا بھی میں ہوں گا اور سب سے پہلا شخص میں ہی ہوں گا جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘

اسے امام مسلم، ابوداود، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

27/ 27. عَنْ جُنْدَبٍ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَهُوَ يَقُولُ: إِنِّي أَبْرَأُ إِلَی اللهِ أَنْ يَکُونَ لِي مِنْکُمْ خَلِيْلٌ، فَإِنَّ اللهَ تَعَالَی قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيْـلًا کَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلًا. رواه مسلم وابن ماجة إِلَّا قَالَ: فَمَنْزِلِي وَمَنْزِلُ إِبْرَاهِيْمَ فِي الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُجَاهَيْنِ.

الحديث رقم 27: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: المساجد ومواضع الصلاة، باب: النهي عن بناء المسجد علی القبور، 1/ 377، الرقم: 532، وابن ماجة في السنن، المقدمة، باب: فضل العباس بن عبدالمطلب ص، 1/ 50، الرقم: 141، وابن حبان في الصحيح، 14/ 334، الرقم: 6425، وأبو عوانة في المسند، 1/ 335، الرقم: 1192، والحاکم في المستدرک، 2/ 599، الرقم: 4018، وقال: هذا حديث صحيح، وأبو نعيم في المسند المستخرج، 2/ 133، والطبراني في المعجم الأوسط، 4/ 334، الرقم: 4357، وفي المعجم الکبير، 2/ 168، الرقم: 1686، 8/ 201، الرقم: 7816، وفي مسند الشاميين، 2/ 71، الرقم: 936، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 10177، الرقم: 660.

’’حضرت جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس چیز سے بری ہوتا ہوں کہ تم میں سے کسی کو اپنا خلیل بناؤں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے جیسا حضرت ابراہیمں کو خلیل بنایا تھا۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

امام ابن ماجہ کے الفاظ یوں ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پس قیامت کے روز میری منزل اور حضرت ابراہیم ں کی منزل آمنے سامنے ہو گی۔‘‘

28/ 28. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ، وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ، فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا، فَکَرِبْتُ کُرْبَةً مَا کَرِبْتُ مِثْلَهُ قَطُّ، قَالَ: فَرَفَعَهُ اللهُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ. مَا يَسْأَلُونِي عَنْ شَيئٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ. وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَإِذَا مُوسَي قَائِمٌ يُصَلِّي، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَ ةَ. وَإِذَا عِيْسَی ابْنُ مَرْيَمَ عليهما السلام قَائِمٌ يُصَلِّي، أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُوْدٍ الثَّقَفِيُّ. وَإِذَا إِبْرَاهِيْمُ قَائِمٌ يُصَلِّي، أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُکُمْ (يَعْنِي نَفْسَهُ) فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ قَائِلٌ: يَا مُحَمَّدُ، هَذَا مَالِکٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ. فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِي بِالسَّـلَامِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنِّسَائِيُّ.

الحديث رقم 28: أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: ذکر المسيح ابن مريم والمسيح الدجال، 1/ 156، الرقم: 172، والنسائی فی السنن الکبری، 6/ 455، الرقم: 11480، وأبو عوانة فی المسند، 1/ 116 الرقم: 350، وأبو نعيم فی مسند المستخرج، 1/ 239، الرقم: 433، والعسقلانی فی فتح الباری، 6/ 487.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نے اپنے آپ کو حطیم کعبہ میں دیکھا اور قریش مجھ سے سفرِ معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جنہیں میں نے (یاد داشت میں) محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہوا کہ اس سے پہلے اتنا کبھی پریشان نہیں ہوا تھا، تب اللهتعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے رکھ دیا۔ وہ مجھ سے بیت المقدس کے متعلق جو بھی چیز پوچھتے میں (دیکھ دیکھ کر) انہیں بتا دیتا اور میں نے خود کو گروہ انبیائے کرام علیہم السلام میں پایا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت موسٰی کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، اور وہ قبیلہ شنوء ہ کے لوگوں کی طرح گھنگریالے بالوں والے تھے اور پھر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی ان سے بہت مشابہ ہیں، اور پھر حضرت ابراہیم کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور تمہارے آقا (یعنی خود حضور نبی اکرم ﷺ ) ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں پھر نماز کا وقت آیا، اور میں نے ان سب انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت کرائی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا: یہ مالک ہیں جو جہنم کے داروغہ ہیں، انہیں سلام کیجئے۔ پس میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے (مجھ سے) پہلے مجھے سلام کیا۔‘‘

اسے امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

29/ 29. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ (وَفِي حَدِيْثِ عَبْدِ الْوَارِثِ: الرَّجُلُ) حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 29: أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: وجوب محبة رسول الله ﷺ أکثر من الأهل والولد والوالد والناس أجمعين وإطلاق عدم الإيمان علی من لم يحبه هذه المحبة، 1/ 67، الرقم: 44، وأحمد بن حنبل مثله فی المسند، 5/ 162، الرقم: 21480، وأبو يعلی فی المسند، 7/ 6، الرقم: 3895، والبيهقی فی شعب الإيمان، 2/ 129، الرقم: 1375، وابن حيان فی العظمة، 5/ 1780، الرقم: 2824، والديلمی فی مسند الفردوس، 4/ 53، الرقم: 6169، وابن منصور فی کتاب السنن، 2/ 204، الرقم: 2443.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے گھروالوں، اس کے مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

اسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

30/ 30. عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِ ّرضی الله عنه، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يُسَمِّی لَنَا نَفْسَهُ أَسْمَاءً. فَقَالَ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّي وَالْحَاشِرُ وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 30: أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: فی أسمائه ﷺ، 4/ 1828، الرقم: 2355، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4/ 395، 404، 407، والحاکم فی المستدرک، 2/ 659، الرقم: 4185. 4186، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ وابن أبی شيبة فی المصنف، 6/ 311، الرقم: 31692. 31693، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 4/ 327، الرقم: 4338، 4417، وابن جعد فی المسند، 1/ 479، الرقم: 3322.

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمارے لئے اپنے کئی نام بیان کئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور مقفی (بعد میں آنے والا) اور حاشر ہوں اور نبی التوبہ، نبی الرحمہ ہوں۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

31/ 31. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِذَا کَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّيْنَ، وَخَطِيْبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ،

وَقَالَ الْحَاکِمُ:هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.

الحديث رقم 31: أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: فی فضل النبي ﷺ، 5/ 586، الرقم: 3613، وابن ماجة فی السنن، کتاب: الزهد، باب: ذکر الشفاعة، 2/ 1443، الرقم: 4314، وأحمد بن حنبل فی المسند، 5/ 137، 138، الرقم: 021283 2129، والحاکم فی المستدرک، 1/ 143، الرقم: 240، 6969، وعبد بن حميد فی المسند، 1/ 90، الرقم: 171، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 3/ 385، الرقم: 1179، والمزي فی تهذيب الکمال، 3/ 118.

’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن میں انبیاء کرام علیہم السلام کا امام، خطیب اور شفیع ہوں گا اور اس پر (مجھے) فخر نہیں۔‘‘

اسے امام ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی اور حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح اور صحیح الاسناد ہے۔

32/ 32. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اللهُ عنهما، قَالَ: جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ يَنْتَظِرُوْنَهُ قَالَ فَخَرَجَ، حَتَّی إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاکَرُوْنَ فَسَمِعَ حَدِيْثَهُمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَجَبًا إِنَّ اللهَ اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيْـلًا، إِتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْـلًا، وَقَالَ آخَرُ: مَاذَا بِأَعَجَبَ مِنْ کَـلَامِ مُوْسَی: کَلَّمَهُ تَکْلِيْمًا، وَقَالَ آخَرُ: فَعِيْسَی کَلِمَةُ اللهِ وَرُوْحُهُ، وَقَالَ آخَرُ: آدَمُ اصْطَفَاهُ اللهُ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَسَلَّمَ وَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ کَلَامَکُمْ وَعَجَبَکُمْ أَنَّ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلُ اللهِ وَهُوَ کَذَلِکَ وَمُوْسَی نَجِيُّ اللهِ وَهُوَ کَذَلِکَ، وَعِيْسَی رُوْحُ اللهِ وَکَلِمَتُهُ وَهُوَ کَذَلِکَ، وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللهُ وَهُوَ کَذَلِکَ، أَ لَا وَأَنَا حَبِيْبُ اللهِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّکُ حِلَقَ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اللهُ لِي فَيُدْخِلُنِيْهَا وَمَعِيَ فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَکْرَمُ الْأَوَّلِيْنَ وَالْأخِرِيْنَ عَلَی اللهِ وَلَا فَخْرَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارَمِيُّ.

الحديث رقم 32: أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: فی فضل النبي ﷺ، 5/ 587، الرقم: 3616، والدارمی فی السنن، باب: (8)، ما أعْطِيَ النَّبِيَ ﷺ مِن الفضلِ، 1/ 39، 42، الرقم: 47، 54.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ چند صحابہ کرام حضور نبی اکرم ﷺ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے جب ان کے قریب پہنچے تو انہیں کچھ گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ اُن میں سے بعض نے کہا: کیا خوب! اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے حضرت ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا: یہ حضرت موسیٰ کے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے سے زیادہ بڑی بات تو نہیں۔ ایک نے کہا: حضرت عیسیٰ اللہ تعالیٰ کا کلمہ اور روح ہیں۔ کسی نے کہا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو چن لیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ اُن کے پاس تشریف لائے سلام کیا اور فرمایا: میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہارِ تعجب سنا کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں۔ بیشک وہ ایسے ہی ہیں۔ حضرت موسیٰ نجی اللہ ہیں۔ بیشک وہ اسی طرح ہیں، حضرت عیسیٰ روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں۔ واقعی وہ اسی طرح ہیں۔ آدم کو اللہ تعالی نے چن لیا۔ وہ بھی یقینا ایسے (شرف والے) ہیں۔ سن لو! میں اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ قیامت کے دن سب سے پہلا شفاعت کرنے والا بھی میں ہی ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ سب سے پہلے جنت کا کنڈا کھٹکھٹانے والا بھی میں ہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرے لئے اسے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل فرمائے گا۔ میرے ساتھ فقیر و غریب مومن ہوں گے اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں۔ میں اولین و آخرین میں اللہ تعالیٰ کے حضور سب سے زیادہ عزت والا ہوں لیکن مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں۔‘‘

اسے امام ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

33/ 33. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَنَا أَوَّلُهُمْ خُرُوْجًا وَأَنَا قَائِدُهُمْ إِذَا وَفَدُوْا، وَأَنَا خَطِيْبُهُمْ إِذَا أَنْصَتُوْا، وَأَنَا مُشَفِّعُهُمْ إِذَا حُبِسُوْا، وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَيِسُوْا. اَلْکَرَامَةُ، وَالْمَفَاتِيْحُ يَوْمَئِذٍ بِيَدِيَّ وَأَنَا أَکْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَی رَبِّي، يَطُوْفُ عَلَيَّ أَلْفُ خَادِمٍ کَأَنَّهُمْ بَيْضٌ مَکْنُوْنٌ، أَوْ لُؤْلُؤٌ مَنْثُوْرٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارَمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

الحديث رقم 33: أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: فی فضل النبي ﷺ، 5/ 585، الرقم: 3610، والدارمی فی السنن، (8) باب: ما أعطی النبي ﷺ من الفضل، 1/ 39، الرقم: 48، والديلمی فی مسند الفردوس، 1/ 47، الرقم: 117، والخلال فی السنة، 1/ 208، الرقم: 235، والقزوينی فی التدوين فی أخبار قزوين، 1/ 235، وابن جوزی فی صفة الصفوة، 1/ 182، والمناوی فی فيض القدير، 3/ 40.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے پہلے میں (اپنی قبر انور) سے نکلوں گا اور جب لوگ وفد بن کر جائیں گے تو میں ہی ان کا قائد ہوں گا اور جب وہ خاموش ہوں گے تو میں ہی ان کا خطیب ہوں گا۔ میں ہی ان کی شفاعت کرنے والا ہوں جب وہ روک دیئے جائیں گے، اور میں ہی انہیں خوشخبری دینے والا ہوں جب وہ مایوس ہو جائیں گے۔ بزرگی اور جنت کی چابیاں اس روز میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ میں اپنے رب کے ہاں اولادِ آدم میں سب سے زیادہ مکرّم ہوں میرے اردگرد اس روز ہزار خادم پھریں گے گویاکہ وہ پوشیدہ حسن ہیں یا بکھرے ہوئے موتی ہیں۔‘‘

اسے امام ترمذی اور دارمی نے روایت کیا، الفاظ دارمی کے ہیں۔

34/ 34. عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ يَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ، قَالَ: فَهُمْ يَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ، حَتَّی جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، يَبْعَثُهُ اللهُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ، فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ: مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ: إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ، وَکَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الْإِبِلِ، قَالَ: أَرْسِلُوْا إِلَيْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ. فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوْهُ إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، فَقَالَ: انْظُرُوْا إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ. … قَالَ: أَنْشُدُکُمْ بِاللهِ أَيُکُمْ وَلِيُهُ؟ قَالُوْا: أَبُوطَالِبٍ. فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّی رَدَّهُ أَبُوْ طَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ بِلَالًا، وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّيْتِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

الحديث رقم 34: أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء فی نبوة النبي ﷺ، 5/ 590، الرقم: 3620، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6/ 317، الرقم: 31733، 36541، وابن حبان فی الثقات، 1/ 42، والأصبهانی فی دلائل النبوة، 1/ 45، الرقم: 19، والطبری فی تاريخ الأمم والملوک، 1/ 519.

’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم ﷺ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچے وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰص فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قریب پہنچا اور آپ ﷺ کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا: یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ الله تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا آپ کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا: جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو۔ اور وہ صرف نبی ہی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ ﷺ اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ ﷺ تشریف لائے تو آپ کے سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا اور جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ (پہلے سے ہی) درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جیسے ہی آپ ﷺ تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ ﷺ کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا: درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ ﷺ پر جھک گیا ہے۔ پھر راہب نے کہا: میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سر پرست کون ہے؟ انہوں نے کہا ابوطالب! چنانچہ وہ ابو طالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا یہاں تک کہ ابوطالب نے آپ ﷺ کو واپس (مکہ) بھجوا دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور راہب نے آپ ﷺ کے ساتھ زادِ راہ کے طور پر کیک اور زیتون پیش کیا۔‘‘

اسے امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

35/ 35. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه، قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ بِمَکَّةَ، فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا، فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ يَقُوْلُ: السَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارَمِيُّ وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

الحديث رقم 35: أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: (6)، 5/ 593، الرقم: 3626، والدارمی فی السنن، (4) باب: ما أکرم الله به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1/ 31، الرقم:21، والحاکم فی المستدرک، 2/ 677، الرقم: 4238، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 2/ 134، الرقم: 502، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 2/ 150، الرقم: 1880، والمزي فی تهذيب الکمال، 14/ 175، الرقم: 3103، والجرجانی فی تاريخ جرجان، 1/ 329، الرقم: 600.

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ ﷺ کے سامنے آتا (وہ آپ کو) {السَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ} کہتا۔‘‘

اسے امام ترمذی، دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی اور حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن اور صحیح الاسناد ہے۔

36/ 36. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا، فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيْلُ، أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ هَذَا؟ قَالَ: فَمَا رَکِبَکَ أَحَدٌ أَکْرَمُ عَلَی اللهِ مِنْهُ. قَالَ: فَارْفَضَّ عَرَقًا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ يَعْلَی وَابْنُ حِبَّانَ وَأَحْمَدُ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

الحديث رقم 36: أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: ومن سورة بنی اسرائيل، 5/ 301، الرقم: 3131، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3/ 164، الرقم: 12694، وابن حبان فی الصحيح، 1/ 234، وأبو يعلی فی المسند، 5/ 459، الرقم: 3184، وعبد بن حميد فی المسند، 1/ 357، الرقم: 1185، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 7/ 23، الرقم: 2404، والخطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 3/ 435، الرقم: 1574، والعسقلانی فی فتح الباری، 7/ 206.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں شب معراج براق لایا گیا جس پر زین کسی ہوئی تھی اور لگام ڈالی ہوئی تھی۔ (حضور نبی اکرم ﷺ کی سواری بننے کی خوشی میں)اس براق کی خرمستیوں کی وجہ سے آپ ﷺ کا اس پر سوار ہونا مشکل ہو گیا تو حضرت جبرئیل نے اسے کہا: کیا تو حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اس طرح کر رہاہے؟ حالانکہ آج تک تجھ پر کوئی ایسا شخص سوار نہیں ہوا جو الله تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ ﷺ جیسا معزز و محترم ہو۔ یہ سُن کر وہ براق شرم سے پسینہ پسینہ ہو گیا۔‘‘

اسے امام ترمذی، ابو یعلی، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

37/ 37. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَومَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ، قَالَ: فَيَفْزَعُ النَّاسُ ثَـلَاثَ فَزَعَاتٍ فَيَأْتُونَ آدَمَ …فذکر الحدیث إلی أن قَالَ: فَيَأْتُونَنِي فَأَنْطَلِقُ مَعَهُمْ، قَالَ ابْنُ جُدْعَانَ: قَالَ أَنَسٌ: فَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: مُحَمَّدٌ فَيَفْتَحُوْنَ لِي وَيُرَحِّبُوْنَ بِي فَيَقُولُونَ: مَرْحَبًا فَأَخِرُّ سَاجِدًا فَيُلْهِمُنِيَ اللهُ مِنَ الثَّنَاءِ وَالْحَمْدِ فَيُقَالُ لِي: ارْفَعْ رَأْسَکَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَقُلْ يُسْمَعْ لِقَولِکَ وَهُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللهُ: {عَسَی أَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُوْدًا} [الإسراء، 17: 79]. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَقَالَ أَبُوعِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

وروی ابن ماجة عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ الْأَرْضُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ، وَلِوَاءُ الْحَمْدِ بِيَدِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ.

الحديث رقم 37: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: ومن سورة بني إسرائيل، 5/ 308، الرقم: 3148، وابن ماجة في السنن، کتاب: الزهد، باب: ذکر الشفاعة، 2/ 1440، الرقم: 4308، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 2، الرقم: 11000، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 788، الرقم: 1455، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4/ 238، الرقم: 5509.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں روزِ قیامت (تمام) اولادِ آدم کا قائد ہوں گا اور مجھے (اس پر) فخر نہیں، حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا اور کوئی فخر نہیں۔ حضرت آدم اور دیگر تمام انبیاء کرام اس دن میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ اور میں پہلا شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہو گی اور کوئی فخر نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگ تین بار خوفزدہ ہوں گے پھر وہ حضرت آدم کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کی درخواست کریں گے۔ پھر مکمل حدیث بیان کی یہاں تک کہ فرمایا: پھر لوگ میرے پاس آئیں گے (اور) میں ان کے ساتھ (ان کی شفاعت کے لئے) چلوں گا۔ ابن جدعان (راوی) کہتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: گویا کہ میں اب بھی حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں جنت کے دروازے کی زنجیر کھٹکھٹائوں گا، پوچھا جائے گا: کون؟ جواب دیا جائے گا: حضرت محمد مصطفی ﷺ۔ چنانچہ وہ میرے لیے دروازہ کھولیں گے اور مرحبا کہیں گے۔ میں (بارگاہِ الٰہی میں) سجدہ ریز ہو جائوں گا تو اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد و ثناء کا کچھ حصہ الہام فرمائے گا۔ مجھے کہا جائے گا: سر اٹھائیے، مانگیں عطا کیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، قبول کی جائے گی، اور کہئے آپ کی بات سنی جائے گی۔ (آپ ﷺ نے فرمایا:) یہی وہ مقام محمود ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘

اسے امام ترمذی نے روایت کیا نیز فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

اور امام ابن ماجہ نے بھی ان سے ہی روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور اس پر بھی فخر نہیں، قیامت کے روز سب سے پہلے میری زمین شق ہو گی اس پر بھی فخر نہیں، سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول ہو گی۔ اس پر بھی فخر نہیں اور حمدِ باری تعالیٰ کا جھنڈا قیامت کے دن میرے ہی ہاتھ میں ہو گا اور اس پر بھی فخر نہیں۔‘‘

38/ 38. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: أَتَانِي رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ لَبَّيْکَ: وَسَعْدَيْکَ، قَالَ: فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَـلَأُ الْأَعْلَی؟ قُلْتُ: رَبِّي لَا أَدْرِي، فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ کَتِفَيَّ، حَتَّی وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ.

وفي رواية عنه: قَالَ: فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَتَلاَ: {وَکَذَلِکَ نُرِي إِبْرَاهِيْمَ مَلَکُوْتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَکُونَ مِنَ الْمُؤْقِنِيْنَ} [الأنعام، 6:75].

وفي رواية: عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍص قَالَ: فَتَجَلَّی لِي کُلُّ شَيئٍ وَعَرَفْتُ.

وفي رواية: عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ: فَعَلِمْتُ فِي مَقَامِي ذَلِکَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ.

وفي رواية: فَعَلِمْتُ مِنْ کُلِّ شَيئٍ وَبَصَرْتُهُ.

وفي رواية: عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ: فَمَا سَأَلَنِي عَنْ شَيئٍ إِلَّا عَلِمْتُهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارَمِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

إِسْنَادُهُ حَسَنٌ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

الحديث رقم 38: أخرجه الترمذی فی السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: ومن سورة ص، 5/ 366. 368، الرقم: 3233. 3235، والدارمی فی السنن، کتاب الرؤيا، باب: في رؤية الرب تعالی فی النوم، 2/ 170، الرقم: 2149، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1/ 368، الرقم: 3484، 4/ 66، 5/ 243، الرقم: 22162، 23258، والطبرانی فی المعجم الکبير، 8/ 290، الرقم: 8117، 20/ 109، الرقم: 216، 690، والرويانی فی المسند، 2/ 299، الرقم: 1241، وأبويعلی فی المسند، 4/ 475، الرقم: 2608، والشيبانی فی الآحاد والمثانی، 5/ 49، الرقم: 2585، وعبد بن حميد فی المسند، 1/ 228، الرقم: 682، وابن أبی عاصم فی السنة 1/ 203، الرقم: 465، وقال: إِسْنَادُهُ حَسَنٌ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ. وعبد الله بن أحمد فی السنة، 2/ 489، الرقم: 1121، والحکيم الترمذی فی نوادر الأصول، 3/ 120، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 1/ 159، الرقم: 591، 652، وابن عبد البر فی التمهيد، 24/ 323، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 7/ 176. 178.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرا رب میرے پاس (اپنی شان کے لائق) نہایت اچھی صورت میں آیا اور فرمایا: اے محمد! میں نے عرض کیا: میرے رب! حاضر ہوں بار بار حاضر ہوں۔ فرمایا: عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: اے میرے رب! میں نہیں جانتا۔ پس الله تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔ اور میں وہ سب کچھ جان گیا جو مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔

حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے ہی مروی ایک اور روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اور میں جان گیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائبات خلق) دکھا رہے ہیں اور (یہ) اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہو جائے۔‘‘

اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اور مجھ پر ہر شے کی حقیقت ظاہر کر دی گئی جس سے میں نے (سب کچھ) جان لیا۔

حضرت ابو امامہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: پس مجھ سے دنیا و آخرت کے بارے میں کیے جانے والے سوالات کا جواب میں نے اسی مقام پر جان لیا۔

اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اور میں نے دنیا و آخرت کی ہر ایک شے کی حقیقت جان بھی لی اور دیکھ بھی لی۔

اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: پس مجھ سے جب بھی کسی چیز کے متعلق سوال کیا گیا تو میں نے اسے جان لیا۔ پس اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھ سے کسی شے کے متعلق سوال کیا گیا اور میں اسے جانتا نہ ہوں۔‘‘

اسے امام ترمذی، دارمی، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند حسن اور رجال ثقات ہیں۔

39/ 39. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه: قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَی وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّةُ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

وَقَالَ أَبُوعِيْسيَ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

وفي رواية: عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِرضی الله عنه قَالَ: قُلْتُ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ : مَتَی کُنْتَ نَبِيا؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.

وفي رواية: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَی کُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.

الحديث رقم 39: أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في فصل النبي ﷺ، 5/ 585، الرقم: 3609، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4/ 66: 5/ 379، الرقم: 23260، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 4/ 272، الرقم: 4175، وفی المعجم الکبير، 12/ 92، الرقم: 12571، 12646، 833، وابن أبی شيبة فی المصنف، 7/ 329، الرقم: 36553، وأبو نعيم فی حلية الأولياء، 9/ 53، والرويانی فی المسند، 2/ 496، الرقم: 1527، والشيبانی فی الآحاد والمثانی، 5/ 347، الرقم: 2918، والخلال فی السنة، 1/ 188، الرقم: 200، وقال: إسناده صَحِيْحٌ، وابن أبی عاصم فی السنة، 1/ 179، الرقم: 411، وقال: إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ، وعبد الله بن أحمد فی السنة، 2/ 398، الرقم: 864، وقال: إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ، والحاکم فی المستدرک، 2/ 665، الرقم: 4209. 4210، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. وابن سعد فی الطبقات الکبری، 7/ 60، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 9/ 142، الرقم: 123، والديلمی فی مسند الفردوس، 3/ 284، الرقم: 4845، وأبو المحاسن فی معتصر المختصر، 1/ 10، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8/ 223، وفی سلسلة الأحاديث الصحيحة للألبانی، 4/ 471، الرقم: 1856: وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں: صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ: آپ شرفِ نبوت سے کس وقت بہرہ وَر ہوئے تھے؟ ( یعنی آپ ﷺ کے لئے نبوت کب واجب یا ثابت ہوئی؟) حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب کہ حضرت آدم کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے مرحلہ میں تھی (یعنی روح اور جسم کاباہمی تعلق بھی ابھی قائم نہ ہوا تھا)۔‘‘

اسے امام ترمذی، احمد، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

حضرت میسرہ فجر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا: آپ کب نبوت سے سرفراز کیے گئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب حضرت آدم ںکی تخلیق ابھی روح اور مٹی کے مرحلے میں تھی۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: آپ کب نبوت سے سرفراز کیے گئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ) آدم کی تخلیق ابھی روح اور مٹی کے مرحلے میں تھی۔

40/ 40. عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ رضی الله عنه قَالَ: جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَکَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا‘ فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ: مَنْ أَنَا؟ قَالُوْا: أَنْتَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلَيْکَ السَّلَامُ قَالَ: أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنَّ اللهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً‘ ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً‘ ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيْلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوْتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا وَخَيْرِهِمْ نَسَبًا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.

وَقَالَ أَبُو عِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

الحديث رقم 40: أخرجه الترمذی فی السنن، کتاب: الدعوات عن رسول الله ﷺ، باب: (99)، 5/ 543، الرقم:3532، وفي کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: فی فضل النبی ﷺ، 5/ 584، الرقم: 3607. 3608، وأحمد بن حنبل فی المسند 1/ 210، الرقم: 1788، والبيهقی في دلائل النبوة، 1/ 149، والديلمی فی مسند الفردوس، 1/ 41، الرقم: 95، والحسينی في البيان والتعريف، 1/ 178، الرقم: 466، والهندی فی کنز العمال، 11/ 415، الرقم: 31950.

’’حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ اس وقت (کافروں سے کچھ ناشائستہ کلمات) سنکر (غصہ کی حالت میں تھے‘ پس واقعہ پر مطلع ہو کر) حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: میں کون ہوں؟ صحابہ کرامث نے عرض کیا: آپ پر سلامتی ہو آپ رسولِ خدا ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ خدا نے مخلوق کو پیدا کیا تومجھے بہترین خلق (یعنی انسانوں) میں پیدا کیا‘ پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا (یعنی عرب و عجم)‘ تو مجھے بہترین طبقہ (یعنی عرب) میں داخل کیا۔ پھر ان کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ (یعنی قریش) میں داخل فرمایا‘ پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے بہترین گھرانہ (یعنی بنو ہاشم) میں داخل کیا اور بہترین نسب والا بنایا، (اس لئے میں ذاتی شرف اور حسب و نسب کے لحاظ سے تمام مخلوق سے افضل ہوں)۔‘‘

اسے امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

41/ 41. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ فَأُکْسَی حُلَّةً مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ أَقُوْمُ عَنْ يَمِيْنِ الْعَرْشِ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْخَلَائِقِ يَقُوْمُ ذَلِکَ الْمَقَامَ غَيْرِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَقَالَ أَبُو عِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

الحديث رقم 41: أخرجه الترمذی فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في فضل النبي ﷺ، 5/ 585، الرقم: 3611، والمبارکفوری في تحفة الأحوذی، 7/ 92، والمناوی في فيض القدير، 3/ 41.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے پہلا شخص میں ہوں جس کی زمین (یعنی قبر) شق ہو گی، پھر مجھے ہی جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا، پھر میں عرش کی دائیں جانب کھڑا ہوں گا، اس مقام پر مخلوقات میں سے میرے سوا کوئی نہیں کھڑا ہو گا۔‘‘

اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

42/ 42. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ صَلَّی عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً، صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ، وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيْئَاتٍ، وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ. رَوَاهُ النِّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

الحديث رقم 42: أخرجه النسائی فی السنن، کتاب: السهو، باب: الفضل في الصلاة علی النبی ﷺ، 4/ 50، الرقم: 1297، وفی السنن الکبری، 1/ 385، الرقم: 1220/ 10194، وفی عمل اليوم والليلة، 1/ 296، الرقم: 362، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3/ 102، الرقم: 12017، والبخاری فی الأدب المفرد، 1/ 224، الرقم: 643، وابن أبی شيبة فی المصنف، 2/ 253، والرقم: 8703، والبيهقی فی شعب الإيمان، 2/ 210، الرقم: 1554، والحاکم فی المستدرک، 1/ 735، الرقم: 2018.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کیے جاتے ہیں اور اس کے لئے دس درجات بلند کیے جاتے ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

43/ 43. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما أَنَّ يَهُودِيَةً مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَاةً مَصْلِيَةً ثُمَّ أَهْدَتْهَا لِرَسُولِ اللهِ ﷺ فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الذِّرَاعَ فَأَکَلَ مِنْهَا وَأَکَلَ رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ ﷺ : اِرفْعُوا أَيْدِيَکُمْ، وَأَرْسَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِلَی الْيَهُوْدِيَةِ فَدَعَاهَا فَقَالَ لَهَا: أَسَمَمْتِ هَذِهِ الشَّاةَ؟ قَالَتِ الْيَهُوْدِيَةُ: مَنْ أَخْبَرَکَ؟ قَالَ: أَخبَرَتْنِي هَذِهِ فِي يَدِي لِلذِّرَاعِ. قَالَتْ: نَعَمْ. قَالَ: فَمَا أَرَدْتِ إِلَی ذَلِکَ؟ قَالَتْ: إِنْ کَانَ نَبِيًّا فَلَنْ يَضُرَّهُ وَإِنْ لَمْ يَکُنْ نَبِيًّا اسْتَرَحْنَا مِنْهُ، فَعَفَا عَنْهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَلَمْ يُعَاقِبْهَا … الحديث.

رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ.

الحديث رقم 43: أخرجه أبوداود فی السنن، کتاب: الديات، باب: فيمن سقی رجلاً سماً أو أطعمه فمات، أيقاظ منه، 4/ 17، الرقم: 4510، والدارمی فی السنن، 1/ 46، الرقم: 68، والبيهقی فی السنن، الکبری، 8/ 46.

’’حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ اہلِ خیبر میں سے ایک یہودی عورت نے بکری کے بھنے ہوئے گوشت میں زہر ملایا پھر وہ (زہر آلود گوشت) حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کر دیا۔ رسول الله ﷺ نے اس کی دستی (ران) لی اور اس سے کھانے لگے اور چند دیگر صحابہ بھی کھانے لگے۔ پھر اچانک حضور نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: اپنے ہاتھ روک لو اور آپ ﷺ نے اس عورت کی طرف ایک آدمی بھیجا جو اسے بلا کر لایا۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اس گوشت میں زہر ملایا ہے؟ یہودی عورت نے کہا: آپ کو کس نے بتایا؟ فرمایا: مجھے اس دستی (بکری کی ران) نے بتایا ہے جو میرے ہاتھ میں ہے۔ عورت نے کہا: ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا اس فعل سے کیا ارادہ تھا؟ اس نے کہا: (میں نے سوچا) اگر آپ نبی ہیں تو زہر ہرگز آپ کو کوئی نقصان نہیں دے گا اور اگر نبی نہیں ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی رسول الله ﷺ نے اسے معاف فرمادیا اور کوئی سزا نہیں دی۔‘‘

اسے امام ابو داود اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

44/ 44. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَکْثِرُوْا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِکَةُ وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّی يَفْرُغَ مِنْهَا قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ فَنَبِيُّ اللهِ حَيٌّ يُرْزَقُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ.

الحديث رقم 44: أخرجه ابن ماجة فی السنن، کتاب: الجنائز، باب: ذکر وفاته ودفنه ﷺ، 1/ 524، الرقم: 1637، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 2/ 328، الرقم: 2582.

’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا کرو، یہ یوم مشہود (یعنی حاضری کا دن) ہے، اس دن فرشتے (کثرت سے میری بارگاہ میں) حاضر ہوتے ہیں، کوئی شخص جب بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے فارغ ہونے تک میرے سامنے اس کا درود مجھے پیش کر دیا جاتا ہے۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اور وفات کے بعد (کیا ہو گا)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں موت کے بعد بھی (یہی عمل جاری رہے گا) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیائے کرام علیھم السلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔ پس الله ل کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق دیا جاتا ہے۔‘‘

اسے امام ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

45/ 45. عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّص قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : خُيِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ وَبَيْنَ أَنْ يُدْخَلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ. فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ لِأَنَّهَا أَعَمُّ وَأَکْفَی أَتَرَوْنَهَا لِلْمُتَّقِيْنَ؟ لَا. وَلَـکِنَّهَا لِلْمُذْنِبِيْنَ، الْخَطَّائِيْنَ الْمُتَلَوِّثِيْنَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 45: أخرجه ابن ماجة فی السنن، کتاب: الزهد، باب: ذکر الشفاعة، 2/ 1441، الرقم:4311، وأحمد بن حنبل عن ابن عمر رضی الله عنهما فی المسند، 2/ 75، الرقم: 5452، والبيهقي في الاعتقاد، 1/ 202، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 10/ 378.

’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے یہ اختیار دیا گیا کہ خواہ میں قیامت کے روز شفاعت کروں یا میری آدھی اُمت کو (بلاحساب و کتاب) جنت میں داخل کر دیا جائے تو میں نے اس میں سے شفاعت کو اختیار کیا ہے کیونکہ وہ عام اور (پوری اُمت کے لئے)کافی ہوگی اور تم شائد یہ خیال کرو کہ وہ پرہیزگاروں کے لئے ہو گی؟ نہیں بلکہ وہ گناہگاروں، خطاکاروں اور برائیوں میں مبتلا ہونے والوں کے لئے ہو گی۔‘‘

اسے امام ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔

46/ 46. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ.

رَوَاهُ الدَّارَمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

الحديث رقم 46: أخرجه الدارمي فی السنن، باب: (8) ما أعطي النبي ﷺ من الفضل، 1/ 40، الرقم: 49، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 1/ 61، الرقم: 170، والبيهقی فی کتاب الاعتقاد، 1/ 192، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8/ 254، والذهبی فی سير أعلام النبلاء، 10/ 223، والمناوی فی فيض القدير، 3/ 43.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں رسولوں کا قائد ہوں اور یہ (مجھے اس پر) فخر نہیں اور میں خاتم النبیین ہوں اور (مجھے اس پر) کوئی فخر نہیں ہے۔ میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میں ہی وہ پہلا (شخص) ہوں جس کی شفاعت قبول ہوگی ہے اور (مجھے اس پر) کوئی فخر نہیں ہے۔‘‘

اسے امام دارمی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

47/ 47. عَنْ نَبِيْهِ بْنِ وَهَبٍ رضی الله عنه أَنَّ کَعْبًا دَخَلَ عََلَی عَائِشَةَ رضي الله عنها، فَذَکَرُوْا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَقَالَ کَعْبٌ: مَا مِنْ يَوْمٍ يَطْلُعُ إِلَّا نَزَلَ سَبْعُوْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِکَةِ حَتَّی يَحُفُّوْا بِقَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ يَضْرِبُوْنَ بِأَجْنِحَتِهِمْ، وَيُصَلُّوْنَ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، حَتَّی إِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوْا وَهَبَطَ مِثْلُهُمْ فَصَنَعُوْا مِثْلَ ذَلِکَ، حَتَّی إِذَا انْشَقَّتْ عَنْهُ الْأَرْضُ خَرَجَ فِي سَبْعِيْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِکَةِ يَزِفُّوْنَهُ. رَوَاهُ الدَّارَمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

الحديث رقم 47: أخرجه الدارمی فی السنن، (5) باب: ما أکرم الله تعالی نبيه بعد موته، 1/ 57، الرقم: 94، والبيهقی فی شعب الإيمان، 3/ 492، الرقم: 4170، وابن حيان الأصبهانی فی العظمة، 3/ 1018، الرقم: 537، وأبو نعيم فی حلية الأولياء، 5/ 390، وابن کثير فی تفسير القرآن العظيم، فی قول الله تعالی: هو الذي يصلی عليکم وملائکته. . . الخ 3/ 518.

’’حضرت نبیہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر کیا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: جب بھی دن نکلتا ہے ستر ہزار فرشتے اترتے ہیں اور وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی قبرِ اقدس کو گھیر لیتے ہیں اور قبر اقدس پر اپنے پَر مارتے ہیں (یعنی اپنے پروں سے جھاڑو دیتے ہیں۔) اور حضور نبی اکرم ﷺ پر درود (وسلام) بھیجتے ہیں اور شام ہوتے ہی آسمانوں پر چلے جاتے ہیں اور اتنے ہی مزید اُترتے ہیں اور وہ بھی دن والے فرشتوں کی طرح کرتے ہیں۔ حتی کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کی قبرِ مبارک (روزِ قیامت) شق ہو گی تو آپ ﷺ ستر ہزار فرشتوں کے جھرمٹ میں تشریف لائیں گے۔‘‘

اسے امام دارمی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

48/ 48. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ لَهُمْ جَمَلٌ يَسْنُوْنَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الْجَمَلَ اسْتُصْعِبَ عَلَيْهِمْ فَمَنَعَهُمْ ظَهْرَهُ، وَإِنَّ الأَنْصَارَ جَاؤُوْا إِلَی رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالُوْا: إِنَّهُ کَانَ لَنَا جَمَلٌ نُسْنِي عَلَيْهِ وَإِنَّهُ اسْتُصْعِبَ عَلَيْنَا وَمَنَعَنَا ظَهْرَهُ، وَقَدْ عَطَشَ الزَّرْعُ وَالنَّخْلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لِأَصْحَابِهِ: قُوْمُوْا فَقَامُوْا فَدَخَلَ الْحَائِطَ وَالْجَمَلُ فِي نَاحِيَةٍ، فَمَشَی النَّبِيُّ ﷺ نَحْوَهُ. فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: يَا نَبِيَّ اللهِ، إِنَّهُ قَدْ صَارَ مِثْلَ الْکَلْبِ، وَإِنَّا نَخَافُ عَلَيْکَ صَوْلَتَهُ، فَقَالَ: لَيْسَ عَلَيَّ مِنْهُ بَأْسٌ، فَلَمَّا نَظَرَ الْجَمَلُ إِلَی رَسُولِ اللهِ ﷺ أَقْبَلَ نَحْوَهُ حَتَّی خَرَّ سَاجِدًا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِنَاصِيَتِهِ أَذَلَّ مَا کَانَتْ قَطُّ حَتَّی أَدْخَلَهُ فِي الْعَمَلِ، فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَذِهِ بَهِيْمَةٌ لَا تَعْقِلُ تَسْجُدُ لَکَ وَنَحْنُ نَعْقِلُ فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ؟ وفي رواية: قَالُوْا: يَا رَسُولَ اللهِ! نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُوْدِ لَکَ مِنَ الْبَهَائِمِ. فَقَالَ: لَا يَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا مِنْ عِظَمِ حَقِّهِ عَلَيْهَا…الحديث.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَنَحْوَهُ الدَّارْمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

الحديث رقم 48: أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 3/ 158، الرقم: 12635، والدارمی فی السنن، باب: (4)، ما أکرم الله به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1/ 22، الرقم: 17، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 9/ 81، الرقم: 9189، وعبد بن حميد فی المسند، 1/ 320، الرقم: 1053، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 5/ 265، الرقم: 1895، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 3/ 35، الرقم: 2977، والحسينی فی البيان والتعريف، 2/ 171، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9/ 4، 9، والمناوی فی فيض القدير، 5/ 329.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری گھرانے میں ایک اونٹ تھا جس پر وہ پانی لایا کرتے تھے، وہ ان کے قابو میں نہ رہا اور انہیں اپنی پیٹھ استعمال کرنے سے روک دیا۔ انصار صحابہ کرام حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ہمارا ایک اونٹ تھا ہم اس سے کھیتی باڑی کے لئے پانی لانے کا کام لیتے تھے اور وہ ہمارے قابو میں نہیں رہا اور اب وہ خود سے کوئی کام نہیں لینے دیتا، ہمارے کھیت کھلیان اور باغ پانی کی قلت سے سوکھ گئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا: اٹھو پس وہ سارے اٹھ کھڑے ہوئے (اور اس انصاری کے گھر میں تشریف لے گئے)۔ آپ ﷺ احاطے میں داخل ہوئے تو اونٹ ایک کونے میں تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ اونٹ کی طرف چل پڑے تو انصار کہنے لگے: یا رسول اللہ! یہ اونٹ کتے کی طرح باؤلا ہو چکا ہے اور ہمیں اس کی طرف سے آپ پر حملے کا خطرہ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اونٹ نے جیسے ہی حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو آپ ﷺ کی طرف بڑھا یہاں تک آپ ﷺ کے سامنے سجدے میں گر پڑا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے پیشانی سے پکڑا اور حسب سابق دوبارہ کام پر لگا دیا۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم ﷺ سے صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول الله! یہ تو بے عقل جانور ہوتے ہوئے بھی آپ کو سجدہ کر رہا ہے اور ہم تو عقلمند ہیں اس سے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کریں اور ایک روایت میں ہے کہ عرض کیا: یا رسول الله! ہم جانوروں سے زیادہ آپ کو سجدہ کرنے کے حقدار ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کسی فردِ بشر کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی بشر کو سجدہ کرے اور اگر کسی بشر کا بشر کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو اس کی قدر و منزلت کی وجہ سے سجدہ کرے۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد، اسی طرح دارمی اور طبرانی نے اِسنادِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔

49/ 49. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ بِأَبِي أَنْتَ وَاُمِّي، أَخْبِرْنِي عَنْ أَوَّلِ شَيئٍ خَلَقَهُ اللهُ تَعَالَی قَبْلَ الْأَشْيَاءِ؟ قَالَ: يَا جَابِرُ، إِنَّ اللهَ تَعَالَی قَدْ خَلَقَ قَبْلَ الْأَشْيَاءِ نُوْرَ نَبِيِّکَ مِنْ نُورِهِ، فَجَعَلَ ذَلِکَ النُّورَ يَدُوْرُ بِالْقُدْرَةِ حَيْثُ شَاءَ اللهُ تَعَالَی، وَلَمْ يَکُنْ فِي ذَلِکَ الْوَقْتِ لَوْحٌ وَلَا قَلَمٌ، وَلَا جَنَّةٌ وَلَا نَارٌ، وَلَا مَلَکٌ وَلَا سَمَاءٌ، وَلَا أَرْضٌ وَلَا شَمْسٌ وَلَا قَمَرٌ، وَلَا جِنِّيٌّ، وَلَا إِنْسِيٌّ، فَلَمَّا أَرَادَ اللهُ تَعَالَی أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ قَسَمَ ذَلِکَ النُّورَ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ: فَخَلَقَ مِنَ الْجُزْءِ الْأَوَّلِ الْقَلَمَ، وَمِنَ الثَّانِيِّ: اللَّوحَ وَمِنَ الثَّالِثِ: الْعَرْشَ، ثُمَّ قَسَمَ الْجُزْءَ الرَّابِعَ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءِ فَخَلَقَ مِنَ الْأَوَّلِ: حَمَلَةَ الْعَرْشِ، وَمِنَ الثَّانِيِّ: الْکُرْسِيَّ وَمِنَ الثَّالِثِ: بَاقِيَ الْمَلَائِکَةِ، ثُمَّ قَسَمَ الْجُزْءَ الرَّابِعَ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ، فَخَلَقَ مِنَ الْأَوَّلِ: السَّمَوَاتِ، وَمِنَ الثَّانِيِّ: الْأَرْضِيْنَ وَمِنَ الثَّالِثِ: الْجَنَّةَ وَالنَّارَ … الحديث. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.

الحديث رقم 49: أخرجه عبد الرزاق في المصنف (الجزء المفقود من الجزء الأول من المصنف)، 1/ 63، الرقم: 63، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1/ 71، وقال: أخرجه عبد الرزاق بسنده، والزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 1/ 89. 91، والعجلوني في کشف الخفاء، 1/ 311، الرقم: 827، وقال: رواه عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، والعيدروسي في تاريخ النور السافر، 1/ 8، وقال: رواه عبد الرزاق بسنده، والحلبي في السيرة، 1/ 50، والتهانوي في نشر الطيب، 1/ 13.

’’حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنہما سے مروی ہے فرمایا کہ میں نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا: یا رسول الله! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ الله تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے جابر! بے شک الله تعالیٰ نے تمام مخلوق (کو پیدا کرنے) سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور (کے فیض ) سے پیدا فرمایا، یہ نور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ (کوئی) فرشتہ تھا نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھے اور نہ انسان، جب الله تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوق کو پیدا کرے تو اس نے اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلے حصہ سے قلم بنایا، دوسرے حصہ سے لوح اور تیسرے حصہ سے عرش بنایا۔ پھر چوتھے حصہ کو (مزید) چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصہ سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے حصہ سے کرسی اور تیسرے حصہ سے باقی فرشتے پیدا کئے۔ پھر چوتھے حصہ کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصہ سے آسمان بنائے، دوسرے حصہ سے زمین اور تیسرے حصہ سے جنت اور دوزخ بنائی یہ طویل حدیث ہے۔‘‘

اسے امام عبدالرزاق نے روایت کیا ہے۔

50/ 50. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَيِّدُ الْأَنْبِيَاءِ خَمْسَةٌ، وَمُحَمَّدٌ ﷺ سَيِّدُ الْخَمْسَةِ: نُوْحٌ، وَإِبْرَاهِيْمُ، وَمُوْسَی، وَعِيْسَی صلوات الله وسلامه عليهم. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالدَّيْلَمِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ نَحْوَهُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ وَإِنْ کَانَ مَوْقُوْفًا عَلَی أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه.

الحديث رقم 50: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 595، الرقم: 4007، والديلمي في مسند الفردوس، 2/ 177، الرقم: 2884، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 62/ 272.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انبیاء کرام کے سردار پانچ انبیاء کرام علیہم السلام ہیں اور محمد ﷺ ان پانچوں میں سے بھی سردار ہیں (اور وہ سردار انبیاءِ کرام یہ ہیں:) حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور دیلمی نے روایت کیا اور ابن عساکر نے اسی سے ملتی جلتی حدیث روایت کی ہے نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اگرچہ یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔

51/ 51. عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، أَنَّهُمْ قَالُوا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَخْبِرْنَا عَنْ نَفْسِکَ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَنَا، دَعْوَةُ إِبْرَاهِيْمَ، وَبَشَّرَ بِي عِيْسَی بْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَتْ أُمِّي حِيْنَ وَضَعَتْنِي خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَ تْ لَهُ قُصُورُ الشَّامِ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ، وَأَقَرَّهُ الذَّهْبِيُّ.

الحديث رقم 51: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 656، الرقم: 4174، وابن سعد في الطبقات، 1/ 150، والبيهقي في دلائل النبوة، 1/ 83، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 1/ 170، 3/ 393، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 2/ 131، والطبري في جامع البيان، 1/ 556، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 361، والسمرقندي في تفسيره، 3/ 421، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 1/ 458، وابن إسحاق في السيرة النبوية، 1/ 28، وابن هشام في السيرة النبوية، 1/ 302، والحلبي في السيرة الحلبية، 1/ 77.

’’حضرت خالد بن معدان حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول الله! ہمیں اپنی ذات کی (حقیقت) کے بارے میں بتائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے میری ہی بشارت دی تھی اور میری ولادت کے وقت میری والدہ محترمہ نے اپنے بدن سے ایسا نور نکلتے ہوئے دیکھا جس سے ان پر شام کے محلات روشن ہو گئے تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم، ابن سعد، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور امام ذہبی نے ان کی تائید کی ہے۔

52/ 52. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ عَنْ جِبْرِيْلَ عليه السلام قَالَ: قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا فَلَمْ أَجِدْ رَجُلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ ﷺ، وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِي هَاشِمٍ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاللاَّلْکَائِيُّ.

الحديث رقم 52: أخرجه الطبرانی فی المعجم الأوسط، 6/ 237، الرقم: 6285، واللالکائی فی اعتقاد أهل السنة، 4/ 752، الرقم: 1402، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8/ 217.

’’ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حضرت جبریل نے کہا: میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ کو چھان مارا، مگر نہ تو میں نے محمد مصطفی ﷺ سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھر سے بڑھ کر بہتر کوئی گھر دیکھا۔‘‘

اسے امام طبرانی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

53/ 53. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَأْوِيْلَ ذَلِکَ: دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، دَعَا: {وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} [البقرة، 2: 129] وَبِشَارَةُ عِيْسَی بْنَ مَرْيَمَ قَوْلُهُ: {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ}، [الصف، 61: 6]. وَرُؤْيَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّان وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُونُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ.

الحديث رقم 53: أخرجه ابن حبان فی الصحيح، 14/ 312، الرقم: 6404، والطبرانی في المعجم الکبير، 18/ 253، الرقم: 631، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6/ 40، وفي دلائل النبوة، 1/ 17، والحاکم في المستدرک، 2/ 656، الرقم: 4174، وابن سعد في الطبقات، 1/ 149، والعسقلاني في فتح الباري، 6/ 583، والطبري في جامع البيان، 6/ 583، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1/ 185، وفي البداية والنهاية، 2/ 321، والهيثمي في موارد الظمآن، 1/ 512، الرقم: 2093، وفي مجمع الزوائد، 8/ 223، وقال: واحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح غير سعيد بن سويد وقد وثقه ابن حبان.

’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ جب میرے جدِ امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی: ’’اے ہمارے رب! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اوربرگزیدہ) رسول ( ﷺ ) مبعوث فرما۔‘‘ اور حضرت عیسی بن مریم ں کی بشارت کے بارے میں بھی جبکہ انہوں نے کہا: ’’اور اُس رسولِ (معظم ﷺ ) کی (آمد آمد کی) بشارت سنانے والاہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( ﷺ ) ہے۔‘‘ اور میری والدہ محترمہ کے خواب کے بارے میں جبکہ انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن حبان، طبرانی، ابونعیم، حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

54/ 54. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : مَنْ صَلَّی عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا وَمَنْ صَلَّی عَلَيَّ عَشْرًا صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ مِائَةً وَمَنْ صَلَّی عَلَيَّ مِائَةً کَتَبَ اللهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ بَرَاءَ ةً مِنَ النِّفَاقِ وَبَرَاءَ ةً مِنَ النَّارِ وَأَسْکَنَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الشُّهَدَاءِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

الحديث رقم 54: أخرجه الطبرانی فی المعجم الأوسط، 7/ 188، الرقم: 7235، وفی المعجم الصغير، 2/ 126، الرقم: 899، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 2/ 323، الرقم: 2560، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 10/ 163.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتوں کا نزول فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر دس مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر سو رحمتیں نازل فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر سو مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (ماتھے پر) منافقت اور آگ (دونوں) سے ہمیشہ کے لئے آزادی لکھ دیتا ہے اور روزِ قیامت اس کا قیام شہداء کے ساتھ ہو گا۔‘‘

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقات ہیں۔

55/ 55. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ زَارَ قَبْرِي بَعْدَ مَوْتِي کَانَ کَمَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِي.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّارُقُطْنِيُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

الحديث رقم 55: أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 12/ 406، الرقم: 13496، والدارقطنی عن حاطبص فی السنن، 2/ 278، الرقم: 193، والبيهقی فی شعب الإيمان، 3/ 489، الرقم: 4154، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 4/ 2.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

56/ 56. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: خَرَجْتُ مِنْ نِکَاحٍ وَلَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ، مِنْ لَدُنْ آدَمَ إِلَی أَنْ وَلَدَنِي أَبِي وَأُمِّي.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

الحديث رقم 56: أخرجه الطبرانی فی المعجم الأوسط، 5/ 80، الرقم: 4728، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6/ 303، الرقم: 31641، والبيهقی عن ابن عباس رضی الله عنهما فی السنن الکبری، 7/ 190، والديلمی فی مسند الفردوس، 2/ 190، الرقم: 2949، والحسينی فی البيان والتعريف، 1/ 294، الرقم: 784، والهندی فی کنزالعمال، 11/ 402، الرقم: 31870، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8/ 214.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نکاح کے ساتھ متولد ہوا نہ کہ غیر شرعی طریقہ پر‘ اور میرا (یہ نسبتی تقدس) حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ رضی الله عنہما کے مجھے جننے تک برقرار رہا (اور زمانہ جاہلیت کی بدکرداریوں اورآوارگیوں کی ذرا بھر بھی ملاوٹ میری نسبت میں نہیں پائی گئی)۔‘‘

اسے امام طبرانی، ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

57/ 57. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: خِيَارُ وَلِدِ آدَمَ خَمْسَةٌ: نُوْحٌ وَإِبْرَاهِيْمُ وَعِيْسَی وَمُوْسَی وَمُحَمَّدٌ ﷺ، وَخَيْرُهُمْ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِيْنَ وَسَلَّمَ.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ، کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ وَالْخَلَالُ. وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

الحديث رقم 57: أخرجه البزار في المسند (کشف الأستار)، 8/ 255، برقم: 2368، والخلال في السنة، 1/ 264، الرقم: 324، وقال: إسناده حسن، والمناوي في فيض القدير، 3/ 464، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3/ 470، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 570، والآلوسي في روح المعاني، 21/ 154، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 255.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ ﷺ نے فرمایا: تمام اولادِ آدم میں سے بہتر (یہ) پانچ ہستیاں ہیں: حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد ﷺ ہیں اور ان سب میں سے بہترین حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں جیسا کہ امام ہیثمی اور خلال نے فرمایا اور اس کی اسناد حسن ہیں۔

58/ 58. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ: اللهُ أَکْبَرُ اللهُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مَرَّتَيْنِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ آدَمُ: مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ: آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ.

رَوَاهُ أَبُونُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ.

الحديث رقم 58: أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5/ 107، والديلمي في مسند الفردوس، 4/ 271، الرقم: 6798، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 7/ 437.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام ہند میں نازل ہوئے اور (نازل ہونے کے بعد) آپ نے وحشت محسوس کی تو (ان کی وحشت دور کرنے کے لئے) جبرائیل نازل ہوئے اور اذان دی: الله أکبر، الله أکبر، أشهد أن لا إله إلا الله دو مرتبہ کہا، أشهد أنّ محمدا رسول الله دو مرتبہ کہا تو حضرت آدم علیہ السلام نے دریافت کیا: محمد (ﷺ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل نے کہا: آپ کی اولاد میں سے آخری نبی ﷺ۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved