اربعین: فضیلت و حقیقت ایمان

ایمان کی حقیقت اور اس کی شرائط و ثمرات

حَقِيْقَةُ الإِيْمَانِ وَشُرُوْطُهُ وَثَمَرَاتُهُ

{ایمان کی حقیقت اور اُس کی شرائط و ثمرات}

الْقُرْآن

(1) فَـلَا وَرَبِّکَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی يُحَکِّمُوْکَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًاo

(النساء، 4/ 65)

پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔

(2) لٰـکِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُوْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَالْمُقِيْمِيْنَ الصَّلٰوةَ وَالْمُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ط اُولٰٓئِکَ سَنُؤْتِيْهِمْ اَجْرًا عَظِيْمًاo

(النساء، 4/ 162)

لیکن ان میں سے پختہ علم والے اور مومن لوگ اس (وحی) پر جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور اس (وحی) پر جو آپ سے پہلے نازل کی گئی (برابر) ایمان لاتے ہیں، اور وہ (کتنے اچھے ہیں کہ) نماز قائم کرنے والے (ہیں) اور زکوٰۃ دینے والے (ہیں) اور اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے (ہیں)۔ ایسے ہی لوگوں کو ہم عنقریب بڑا اجر عطا فرمائیں گے۔

(3) وَلَوْ کَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ باللهِ وَالنَّبِیِّ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ اَوْلِيَآءَ وَلٰـکِنَّ کَثِيْرًا مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَo

(المائدة، 5/ 81)

اور اگر وہ اللہ پر اور نبی (آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر اور اس (کتاب) پر جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے ایمان لے آتے تو ان (دشمنانِ اسلام) کو دوست نہ بناتے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔

(4) يَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ ط قُلِ الْاَنْفَالُ ِﷲِ وَالرَّسُوْلِ ج فَاتَّقُوا اللهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِکُمْ ص وَاَطِيْعُوا اللهَ وَرَسُوْلَهُٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰـتُهُ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّهِمْ يَتَوَکَّلُوْنَo اَلَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَo اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ کَرِيْمٌo

(الأنفال، 8/ 1-4)

(اے نبیٔ مکرّم!) آپ سے اَموالِ غنیمت کی نسبت سوال کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اموالِ غنیمت کے مالک اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اگر تم ایمان والے ہو۔ ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اس کی راہ میں) خرچ کرتے رہتے ہیں۔ (حقیقت میں) یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لیے ان کے رب کی بارگاہ میں (بڑے) درجات ہیں اور مغفرت اور بلند درجہ رزق ہے۔

(5) قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِيْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْکُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی يَاْتِيَ اللهُ بِاَمْرِهِ ط وَاللهُ لَا يَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَo

(التوبة، 9/ 24)

(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔

(6) اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآءِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللهِ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَo

(التوبة، 9/ 112)

(یہ مومنین جنہوں نے اللہ سے اُخروی سودا کر لیا ہے) توبہ کرنے والے، عبادت گذار، (اللہ کی) حمد و ثنا کرنے والے، دنیوی لذتوںسے کنارہ کش روزہ دار، (خشوع و خضوع سے) رکوع کرنے والے، (قرب الٰہی کی خاطر) سجود کرنے والے، نیکی کاحکم کرنے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی (مقرر کردہ) حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور ان اہلِ ایمان کو خوشخبری سنا دیجئے۔

(7) اَ لَآ اِنَّ اَوْلِيَآءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَo الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا يَتَّقُوْنَo

(يونس، 10/ 62-63)

خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گےo (وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہے۔

(8) مَنْ کَفَرَ بِاللهِ مِنْ م بَعْدِ اِيْمَانِهِٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِيْمَانِ وَلٰـکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِج وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌo

(النحل، 16/ 106)

جو شخص اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے، سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور) ایمان سے مطمئن ہے، لیکن (ہاں) وہ شخص جس نے (دوبارہ) شرحِ صدر کے ساتھ کفر (اختیار) کیا سو ان پر اللہ کی طرف سے غضب ہے اور ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔

(9) قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰـشِعُوْنَo وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَo وَالَّذِيْنَ هُمْ لِلزَّکٰوةِ فٰعِلُوْنَo وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰـفِظُوْنَo اِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَيْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَo فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْعٰـدُوْنَo وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَھْدِهِمْ رٰعُوْنَo وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰی صَلَوٰتِهِمْ يُحٰفِظُوْنَo اُولٰٓـئِکَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَo الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ط هُمْ فِيْهَا خٰـلِدُوْنَo

(المؤمنون، 23/ 1-11)

بے شک ایمان والے مراد پا گئے۔ جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں۔ اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں۔ اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیں۔ اور جو (دائماً) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بے شک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں۔ اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہی لوگ (جنت کے) وارث ہیں۔ یہ لوگ جنت کے سب سے اعلیٰ باغات (جہاں تمام نعمتوں، راحتوں اور قربِ الٰہی کی لذتوں کی کثرت ہو گی ان) کی وراثت (بھی) پائیں گے، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔

(10) وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللهِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰی فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ ط وَمَآ اُولٰٓـئِکَ بِالْمُؤْمِنِيْنَo

(النور، 24/ 47)

اور وہ (لوگ) کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں پھر اس (قول) کے بعد ان میں سے ایک گروہ (اپنے اقرار سے) رُوگردانی کرتا ہے، اور یہ لوگ (حقیقت میں) مومن (ہی) نہیں ہیں۔

(11) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ وَاِذَا کَانُوْا مَعَهُ عَلٰٓی اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوْا حَتّٰی يَسْتَاْذِنُوْهُ ط اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَکَ اُولٰٓئِکَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ ج فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْکَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْلَهُمُ اللهَ ط اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo

(النور، 24/ 62)

ایمان والے تو وہی لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے ہیں اور جب وہ آپ کے ساتھ کسی ایسے (اجتماعی) کام پر حاضر ہوں جو (لوگوں کو) یکجا کرنے والا ہو تو وہاں سے چلے نہ جا ئیں (یعنی امت میں اجتماعیت اور وحدت پیدا کرنے کے عمل میں دلجمعی سے شریک ہوں) جب تک کہ وہ (کسی خاص عذر کے باعث) آپ سے اجازت نہ لے لیں، (اے رسولِ معظّم!) بے شک جو لوگ (آپ ہی کو حاکم اور مرجع سمجھ کر) آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں وہی لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھنے والے ہیں، پھر جب وہ آپ سے اپنے کسی کام کے لیے (جانے کی) اجازت چاہیں تو آپ (حاکم و مختار ہیں) ان میں سے جسے چاہیں اجازت مرحمت فرما دیں اور ان کے لیے (اپنی مجلس سے اجازت لے کر جانے پر بھی) اللہ سے بخشش مانگیں (کہ کہیں اتنی بات پر بھی گرفت نہ ہو جائے)، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

(12) اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰـتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَکْبِرُوْنَo

(السجدة، 32/ 15)

پس ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں اُن (آیتوں) کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گِرجاتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبّر نہیں کرتے۔

(13) وَالَّذِيْنَ اٰ مَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ کَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَاَصْلَحَ بَالَهُمْo

(محمد، 47/ 2)

اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اس (کتاب) پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی ہے اور وہی ان کے رب کی جانب سے حق ہے اللہ نے ان کے گناہ ان (کے نامۂِ اعمال) سے مٹا دیے اور ان کا حال سنوار دیا۔

(14) وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِيْکُمْ رَسُوْلَ اللهِ ط لَوْ يُطِيْعُکُمْ فِيْ کَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰـکِنَّ اللهَ حَبَّبَ اِلَيْکُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَنَهُ فِيْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّهَ اِلَيْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ ط أُولٰٓئِکَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ o

(الحجرات، 49/ 7)

اور جان لو کہ تم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں، اگر وہ بہت سے کاموں میں تمہارا کہنا مان لیں تو تم بڑی مشکل میں پڑ جاؤ گے لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت عطا فرمائی اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ فرمادیا اور کفر اور نافرمانی اور گناہ سے تمہیں متنفرّ کر دیا، ایسے ہی لوگ دین کی راہ پر ثابت اور گامزن ہیں۔

(15) قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰـکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِکُمْ ط وَاِنْ تُطِيْعُوا اللهَ وَرَسُوْلَهُ لَا يَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَيْئًا ط اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo

(الحجرات، 49/ 14)

دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، آپ فرما دیجئے، تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال (کے ثواب میں) سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا، بے شک اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔

(16) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ ط اُولٰٓـئِکَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَo

(الحجرات، 49/ 15)

ایمان والے تو صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہے، یہی وہ لوگ ہیں جو (دعوائے ایمان میں) سچیّ ہیں۔

(17) سَابِقُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا کَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اُعِدَّتْ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللهِ وَرُسُلِهِ ط ذٰلِکَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَآءُ ط وَاللهُ ذُو الْفَضْلِِ الْعَظِِيْمِo

(الحديد، 57/ 21)

(اے بندو!) تم اپنے رب کی بخشش کی طرف تیز لپکو اور جنت کی طرف (بھی) جس کی چوڑائی (ہی) آسمان اور زمین کی وسعت جتنی ہے، اُن لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے اسے عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔

(18) هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰٓئِکَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّکَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّکَ ط يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّکَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِهَا خَيْرًا ط قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَo

(الأنعام، 6/ 158)

وہ فقط اسی انتظار میں ہیں کہ ان کے پاس (عذاب کے) فرشتے آ پہنچیں یا آپ کا رب (خود) آ جائے یا آپ کے رب کی کچھ (مخصوص) نشانیاں (عیاناً) آ جائیں۔ (انہیں بتا دیجئے کہ) جس دن آپ کے رب کی بعض نشانیاں (یوں ظاہراً) آ پہنچیں گی (تو اس وقت) کسی (ایسے) شخص کا ایمان اسے فائدہ نہیں پہنچائے گا جو پہلے سے ایمان نہیں لایا تھا یا اس نے اپنے ایمان (کی حالت) میں کوئی نیکی نہیں کمائی تھی، فرما دیجئے: تم انتظار کرو ہم (بھی) منتظر ہیں۔

(19) وَجٰـوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَآئِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَّعَدْوًا ط حَتَّٰی اِذَآ اَدْرَکَهُ الْغَرَقُلا قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهُ لَآ اِلٰهَ الِاَّ الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ بِهِ بَنُوْٓا اِسْرَآئِيْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَo آ لْئٰنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَo فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰيَةً ط وَاِنَّ کَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَo

(يونس، 10/ 90-92)

اور ہم بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے گئے پس فرعون اوراس کے لشکر نے سرکشی اور ظلم و تعدّی سے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب اسے (یعنی فرعون کو) ڈوبنے نے آ لیا وہ کہنے لگا: میں اس پر ایمان لے آیا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس (معبود) کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں (اب) مسلمانوں میں سے ہوں۔ (جواب دیا گیا کہ) اب (ایمان لاتا ہے؟) حالاں کہ تو پہلے (مسلسل) نافرمانی کرتا رہا ہے اور تو فساد بپا کرنے والوں میں سے تھا۔ (اے فرعون!) سو آج ہم تیرے (بے جان) جسم کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے (عبرت کا) نشان ہوسکے اور بے شک اکثر لوگ ہماری نشانیوں (کو سمجھنے) سے غافل ہیں۔

الْحَدِيْث

21. عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ الثَّقَفِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، قُلْ لِي فِي الإِسْلَامِ قَوْلًا لَا أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا بَعْدَکَ (وَفِي حَدِيْثِ أَبِي أُسَامَةَ: غَيْرَکَ). قَالَ: قُلْ: آمَنْتُ بِاللهِ؛ فَاسْتَقِمْ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب جامع أوصاف الإسلام، 1/ 65، الرقم/ 38، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 413، الرقم/ 15455، والنسائي في السنن الکبری، سورة الأحقاف، 6/ 458، الرقم/ 11489، والدارمي في السنن، 2/ 386، الرقم/ 2710، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 3/ 222، الرقم/ 1584، وابن منده في الإيمان، 1/ 286، الرقم/ 140.

حضرت سفیان بن عبد اللہ الثقفی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اسلام کے متعلق مجھے کوئی ایسی بات بتا دیں کہ پھر میں آپ کے بعد (اور ابو اسامہ سے مروی روایت میں ہے کہ عرض کیا: آپ کے سوا) اس کے بارے میں کسی اور سے دریافت نہ کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کہو! میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا۔ پھر اس پر ہمیشہ قائم رہو۔

اِسے امام مسلم، احمد، نسائی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

22. عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: ذَاقَ طَعْمَ الإِيْمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِيْنًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.

وَفِي رِوَايَةِ أَحْمَدَ: وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا وَرَسُوْلًا.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علی أن من رضي باللہ ربا وبالإسلام دينا وبمحمد صلی الله عليه وآله وسلم رسولا فهو مؤمن، 1/ 62، الرقم/ 34، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 208، الرقم/ 1778-1779، والترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب: (10)، 5/ 14، الرقم/ 2623، وابن حبان في الصحيح، 4/ 592، الرقم/ 1694، وأبو يعلی في المسند، 12/ 50، الرقم/ 6692.

حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اللہ تعالیٰ کے ربّ ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے پر راضی ہوگیا اُس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا۔

اِسے امام مسلم، ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

امام احمد بن حنبل کی بیان کردہ روایت میں ہے: اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول اور نبی مان کر راضی ہوگیا۔

23. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ قَالَ: رَضِيْتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ.

رَوَاهُ أَبُو دَاؤدَ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ.

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في الاستغفار، 2/ 87، الرقم/ 1529، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 4، الرقم/ 9833، والحاکم في المستدرک، 1/ 699، الرقم/ 1904، وابن حبان في الصحيح، 3/ 144، الرقم/ 863، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 36، الرقم/ 29282.

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے کہا: میں اللہتعالیٰ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے پر راضی ہوں، تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔

اسے امام ابو داؤد، نسائی، حاکم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

24. وَعَنْهُ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا أَسْلَمَ الْعَبْدُ فَحَسُنَ إِسْـلَامُهُ، يُکَفِّرُ اللهُ عَنْهُ کُلَّ سَیِّئَةٍ کَانَ زَلَفَهَا، ثُمَّ کَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ الْقِصَاصُ: الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلٰی سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَالسَّیِّئَةُ بِمِثْلِهَا إِلَّا أَنْ يَتَجَاوَزَ اللهُ عَنْهَا.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب حسن إسلام المرء، 1/ 24، الرقم/ 41، والنسائي في السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب حسن إسلام المرء، 8/ 105، الرقم/ 4998.

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ ہی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی بندہ اِسلام قبول کر لیتا ہے اور اس کے اسلام میں حُسن و خوبی پیدا ہو جاتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی گزشتہ تمام خطائیں معاف فرما دیتا ہے اور پھر اس کے بعد اس کا بدلہ ہے؛ اس کی ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سو گنا تک ہے اور برائی کا صرف اسی کے برابر ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس سے بھی درگزر فرما دے۔

اِسے امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

25. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ: أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْمُوجِبَتَانِ؟ فَقَالَ: مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِکُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ. وَمَنْ مَاتَ يُشْرِکُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب من مات لا يشرک باللہ شيئًا دخل الجنة، 1/ 94، الرقم/ 93، وأحمد في المسند، 3/ 391، الرقم/ 15237.

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کون سی دو چیزیں ہیں جو جنت یا دوزخ کو واجب کرتی ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’ جس شخص کا خاتمہ اس حالت میں ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا وہ جنت میں جائے گا اور جس شخص کا خاتمہ شرک پر ہوا وہ جہنم میں جائے گا۔

اسے امام مسلم اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔

26. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَکُمْ فَيَقُوْلُ: مَنْ خَلَقَ کَذَا، مَنْ خَلَقَ کَذَا، حَتّٰی يَقُوْلَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّکَ؟ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللهِ وَلْيَنْتَهِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

وَفِي رِوَايَةِ أَحْمَدَ: فَإِذَا وَجَدَ ذٰلِکَ أَحَدُکُمْ فَلْيَقْرَأْ: آمَنْتُ بِاللهِ وَرُسُلِهِ. فَإِنَّ ذٰلِکَ يَذْهَبُ عَنْهُ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس وجنوده، 3/ 1194، الرقم/ 3102، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الوسوسة في الإيمان، 1/ 120، الرقم/ 134، وأحمد بن حنبل في المسند عن عائشة 6/ 257، الرقم/ 26246، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 170، الرقم/ 10499.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شیطان تم میں سے کسی کے پاس آئے گا تو اُس کے دل میں یہ خیال پیدا کرے گا کہ فلاں شے کو کس نے پیدا کیا اور فلاں کو کس نے؟ آخر کار دل میں یہ بات ڈالے گا کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ہے؟ جب بات یہاں تک پہنچ جائے تو اُسے اِس خیال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے اور ایسے خیالات کو ترک کردینا چاہیے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

امام احمد کی بیان کردہ روایت میں ہے: جب تم میں سے کوئی اس صورتِ حال سے دوچار ہو تو وہ کہے: میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ پس اس سے شیطان رفع ہو جائے گا۔

27. وَعَنْهُ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَائَلُوْنَ حَتّٰی يُقَالَ هٰذَا خَلَقَ اللهُ الْخَلْقَ، فَمَنْ خَلَقَ اللهَ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذٰلِکَ شَيْئًا، فَلْيَقُلْ: آمَنْتُ بِاللهِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُو دَاؤدَ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الوسوسة في الإيمان وما يقوله من وجدها، 1/ 119، الرقم/ 134، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في الجهمية، 4/ 231، الرقم/ 4721.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے (تخلیقِ کائنات کے متعلق) سوالات کرتے رہیں گے حتیٰ کہ یہ کہا جائے گا کہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ جس شخص کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو وہ یوں کہے: میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا ہوں۔

اسے امام مسلم اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

28. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنِ الْوَسْوَسَةِ. قَالَ: تِلْکَ مَحْضُ الإِيْمَانِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الوسوسة في الإيمان وما يقوله من وجدها، 1/ 119، الرقم/ 133، والطبراني في المعجم الکبير، 10/ 83، الرقم/ 10024، وابن منده في الإيمان/ 471، الرقم/ 341.

حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (دلوں میں) وسوسے (پیدا ہونے) کے متعلق دریافت کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تو خالص اور سچے ایمان کی نشانی ہے (یعنی وساوس کو محسوس کرلینا علامتِ ایمان ہے)۔

اسے امام مسلم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

29. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَکَلَّمَ بِهِ. قَالَ: وَقَدْ وَجَدْتُمُوهُ؟ قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ ذَاکَ صَرِيْحُ الإِيْمَانِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُو دَاؤدَ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الوسوسة في الإيمان وما يقوله من وجدها، 1/ 119، الرقم/ 132، وأحمد في المسند، 2/ 441، الرقم/ 9692، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في رد الوسوسة، 4/ 329، الرقم/ 5111.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بعض صحابہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ ہمارے دلوں میں بعض ایسے خیالات آتے ہیں جن کا بیان کرنا بھی ہم گناہ سمجھتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: واقعی تمہیں ایسے خیالات آتے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تو عینِ ایمان ہے (یعنی برے خیالات پر پریشان ہونا ایمان کی نشانی ہے)۔

اسے امام مسلم، احمد اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

30. وَعَنْهُ رضي الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: يُوشِکُ النَّاسُ أَنْ يَتَسَائَلُوا بَيْنَهُمْ حَتّٰی يَقُولَ قَائِلُهُمْ: ہٰذَا اللهُ خَلَقَ الْخَلْقَ، فَمَنْ خَلَقَ اللهَ؟ فَإِذَا قَالُوْا ذٰلِکَ فَقُولُوا: {قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌo اللهُ الصَّمَدُo لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْo وَلَمْ يَکُنْ لَّهُ کُفُوًا اَحَدٌo}[الإخلاص، 112/ 1-4].

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَابْنُ السُّنِّيِّ.

30: أخرجه النسائي في السنن الکبری، 6/ 169، الرقم/ 10497، وابن أبي عاصم في السنة، 1/ 294، الرقم/ 653، وابن السني في عمل اليوم والليلة/ 581، الرقم/ 627.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: قریب ہے کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں گے، یہاں تک کہ ان میں سے کوئی کہنے والا کہے گا: اس اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو تو پیدا فرمایا ہے، لیکن خود اس کو کس نے پیدا کیا ہے؟ جب وہ اس طرح کہیں گے تو تم کہنا: {قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌo اللهُ الصَّمَدُo لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْo وَلَمْ يَکُنْ لَّهُ کُفُوًا اَحَدٌo} ’(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجیے: وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔ اللہ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔‘۔

اِسے امام نسائی، ابن ابی عاصم اور ابن السنی نے روایت کیا ہے۔

31. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مَا الإيمان؟ قَالَ: إِذَا سَرَّتْکَ حَسَنَتُکَ وَسَائَ تْکَ سَيِّئَتُکَ فَأَنْتَ مُؤْمِنٌ. قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، فَمَا الإِثْمُ؟ قَالَ: إِذَا حَاکَ فِي نَفْسِکَ شَيْئٌ فَدَعْهُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 252، الرقم/ 22220، والحاکم في المستدرک، 1/ 58، الرقم/ 33، والطبراني في المعجم الکبير، 8/ 117، الرقم/ 7540.

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں تمہاری نیکی خوش کرے اور تمہاری برائی پریشان کرے تو تم مومن ہو۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! گناہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تمہارے دل میں کوئی چیز کھٹکے تو اسے چھوڑ دو۔

اِسے امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔

32. عَنْ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوْحِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يُحِقُّ الْعَبْدُ حَقِيْقَةَ الإِيْمَانِ حَتّٰی يَغْضَبَ ِﷲِ وَيَرْضٰی ِﷲِ، فَإِذَا فَعَلَ ذٰلِکَ اسْتَحَقَّ حَقِيْقَةَ الإِيْمَانِ، وَإِنَّ أَحِبَّائِي وَأَوْلِيَائِي الَّذِيْنَ يُذْکَرُوْنَ بِذِکْرِي وَأُذْکَرُ بِذِکْرِهِمْ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي الدُّنْيَا وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 430، الرقم/ 15634، وابن أبي الدنيا في کتاب الأولياء/ 15، الرقم/ 19، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/ 203، الرقم/ 651، وذکره الديلمي في مسند الفردوس، 5/ 152، الرقم/ 7789، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4/ 14، الرقم/ 4589، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 365، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 58.

حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پا سکتا جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر (کسی سے) ناراض اور اللہ تعالیٰ کی خاطر ہی (کسی سے) راضی نہ ہو (یعنی اس کا کسی سے ناراض اور راضی ہونا صرف ذاتِ باری تعالیٰ کی خوش نودی کے لیے ہو)۔ جب اس نے یہ کام کر لیا تو اس نے ایمان کی حقیقت کو پالیا، اور بے شک میرے احباب اور اولیاء وہ لوگ ہیں کہ میرا ذکر کرنے سے وہ یاد آ جاتے ہیں اور ان کا ذکر کرنے سے میں یاد آ جاتا ہوں۔ (یعنی میرا ذکر ان کا ذکر ہے اور ان کا ذکر میرا ذکر ہے)۔

اِسے امام احمد، ابن ابی دنیا اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

33. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يَسْتَقِيْمُ إِيْمَانُ عَبْدٍ حَتّٰی يَسْتَقِيْمَ قَلْبُهُ، وَلَا يَسْتَقِِيْمُ قَلْبُهُ حَتّٰی يَسْتَقِيْمَ لِسَانُهُ، وَلَا يَدْخُلُ رَجُلٌ الْجَنَّةَ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 198، الرقم/ 13071، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 41، الرقم/ 8، والقضاعي في مسند الشهاب، 2/ 62، الرقم/ 887، وذکره المنذري في الترغيب والترھيب، 3/ 240، الرقم/ 3860، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1/ 75، ووثّقه الهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 53.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہوتا، جب تک اس کا دل درست نہ ہو اور اس کا دل اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک اس کی زبان درست نہ ہو جائے، اور کوئی بھی شخص اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اس کا پڑوسی اس کی اذیت سے محفوظ نہ ہو جائے۔

اِسے امام احمد، بیہقی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔

34. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ أَحَبَّ ِﷲِ، وَأَبْغَضَ ِﷲِ، وَأَعْطٰی ِﷲِ، وَمَنَعَ ِﷲِ، فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الإِيْمَانَ.

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

34: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب السنة، باب الدليل علی زيادة الإيمان ونقصانه 4/ 220، الرقم/ 4681، والحاکم في المستدرک، 2/ 178، الرقم/ 2694، والطبراني في المعجم الأوسط، 9/ 41، الرقم/ 9083.

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی خاطر (کسی سے) محبت کی، اللہ تعالیٰ (کی رضا) کے لیے (کسی سے) عداوت رکھی، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہی (کسی کو کچھ) دیا اور اللہ تعالیٰ کے لیے ہی (کسی کو) دینے سے ہاتھ روک لیا، تو بے شک اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔

اِسے امام ابو داود، طبرانی اور حاکم نے روایت کیا اور حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔

35. عَنْ الْحَارِثِ بْنِ مَالِکٍ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه أَنَّهُ مَرَّ بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ لَهُ: کَيْفَ أَصْبَحْتَ يَا حَارِثُ، قَالَ: أَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا حَقًّا. فَقَالَ: انْظُرْ مَا تَقُوْلُ، فَإِنَّ لِکُلِّ شَيئٍ حَقِيْقَةً، فَمَا حَقِيْقَةُ إِيْمَانِکَ؟ فَقَالَ: عَزَفَتْ نَفْسِي عَنِ الدُّنْيَا وَأَسْهَرْتُ لِذٰلِکَ لَيْلِي وَاظْمَأَنَّ نَهَارِي، وَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلٰی عَرْشِ رَبِّي بَارِزًا. وَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلٰی أَهْلِ الْجَنَّةِ يَتَزَاوَرُوْنَ فِيْهَا، وَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلٰی أَهْلِ النَّارِ يَتَضَاغُوْنَ فِيْهَا. قَالَ: يَا حَاِرثُ، عَرَفْتَ فَالْزَمْ، ثَـلَاثًا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حُمَيْدٍ.

35: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 266، الرقم/ 3367، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 170، الرقم/ 30423، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 165، الرقم/ 445، والبيهقي في شعب الإيمان، 7/ 362، الرقم/ 10590. 10591، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 57، وقال: رواه البزار، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 36.

حضرت حارث بن مالک الانصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: اے حارث! تو نے صبح کیسے کی؟ انہوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!)میں نے سچے مومن کی طرح (یعنی حقیقتِ ایمان کے ساتھ) صبح کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سوچ لو، تم کیا کہہ رہے ہو؟ یقینا ہر شے کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے، سو تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میرا نفس دنیا سے بے رغبت ہو گیا ہے، اسی وجہ سے (عبادت کے لیے) میں راتوں کو بیدار اور دن میں (روزے کی حالت میں) پیاسا رہتا ہوں اور (میری حالت یہ ہے) گویا میں اپنے رب کے عرش کو سامنے ظاہر دیکھ رہا ہوں اور اہل جنت کو ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوئے اور دوزخیوں کو تکلیف سے کراہتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے حارث! تو نے (حقیقتِ ایمان کا) عرفان حاصل کرلیا ہے۔ اب اِس حالت کو ہمیشہ قائم اور لازم رکھنا۔ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا۔

اِسے امام طبرانی، ابن ابی شیبہ اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔

36. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه مِثْلَهُ وَزَادَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَصَبْتَ فَالْزَمْ، مُؤْمِنٌ، نَوَّرَ اللهُ قَلْبَهُ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ الْمُبَارَکِ وَالْهَيْثَمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

36: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 170، الرقم/ 30425، وابن المبارک في الزهد، 1/ 106، الرقم/ 314، والبيهقي في شعب الإيمان، 7/ 363، الرقم/ 10592، وأيضًا في کتاب الزهد الکبير، 2/ 355، الرقم/ 973، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 57، وقال الهيثمي: روه البزار.

یہی روایت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ مروی ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے حقیقتِ ایمان کو پالیا ہے، اب اس حالت کو ہمیشہ قائم رکھنا، مومن وہ ہے جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے نورِ (معرفت) سے روشن کردیا۔

اِسے امام ابن ابی شیبہ اور ابن مبارک نے جب کہ ہیثمی نے مذکورہ الفاظ سے روایت کیا ہے۔

37. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَنْتَهِبُ نُهْبَةً يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ فِيهَا أَبْصَارَهُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ.

وَعَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مِثْلَهُ إِلَّا النُّهْبَةَ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

37: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الحدود، باب، وما يحذر من الحدود والزنا وشرب الخمر،6/ 2487، الرقم/ 6390، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان نقصان الإيمان بالمعاصي ونفيه عن المتلبس بالمعصية علی إرادة نفي کماله،1/ 76، الرقم/ 57.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی بدکار حالتِ ایمان میں بدکاری نہیںکرتا، کوئی شرابی حالتِ ایمان میں شراب نہیںپیتا، کوئی چور حالتِ ایمان میں چوری نہیں کرتا۔ وہ حالتِ ایمان میں ایسی شے بھی نہیں لوٹتا جس کی حفاظت کے لیے لوگوں کی نگاہیں لگی ہوں (یعنی لوگوں کے سامنے دیدہ دلیری سے ان کی زیر حفاظت چیزیں نہیں ہتھیاتا)۔

ابن شہاب زہری، سعید بن المسیب، ابو سلمہ اور حضرت ابو ہریرہ l نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی کی مانند حدیث روایت کی ہے مگر اس میں النُّهْبَةَ (لوٹی ہوئی شے) کا لفظ نہیں ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

38. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: ثَـلَاثٌ مِنْ أَخْـلَاقِ الإِيْمَانِ: مَنْ إِذَا غَضِبَ لَمْ يُدْخِلْهُ غَضَبُهُ فِي بَاطِلٍ، وَمَنْ إِذَا رَضِيَ لَمْ يُخْرِجْهُ رِضَاهُ مِنْ حَقٍّ، وَمَنْ إِذَا قَدَرَ لَمْ يَتَعَاطَ مَا لَيْسَ لَهُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.

38: أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 1/ 114، الرقم/ 164، والديلمي في مسند الفردوس، 2/ 87، الرقم/ 2466، وذکره ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 148، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 59.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایمان کے اَخلاق میں سے ہیں: جب کسی کو غصہ آئے تو وہ غصہ اسے باطل کے دائرے میں نہ داخل کر دے، اور جب کوئی خوش ہو تو وہ خوشی اسے حق (کے دائرے اور ضابطے) سے نکال نہ دے، اور وہ شخص جو قدرت رکھنے کے باوجود اس چیز پر نہ جھپٹے جو اس کی نہیں ہے۔

اِسے امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

39. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا رَآهَا النَّاسُ آمَنَ مَنْ عَلَيْهَا فَذَاکَ حِيْنَ {لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ} [الأنعام، 6/ 158].

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

39: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب تفسير القران، باب قوله هلم شهدائکم، 4/ 1697، الرقم/ 4359، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الزمن الذي لا يقبل فيه الإيمان، 1/ 137، الرقم/ 157، وأبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب أمارات الساعة، 4/ 115، الرقم/ 4312، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب طلوع الشمس من مغربها، 2/ 1352، الرقم/ 4068.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے۔ جب لوگ اُسے مغرب سے طلوع ہوتا ہوا دیکھ کر ایمان لائیں گے تو یہ وہ وقت ہو گا (جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے): {لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيْمَانُهَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ} ’(تو اس وقت) کسی (ایسے) شخص کا ایمان اسے فائدہ نہیں پہنچائے گا جو پہلے سے ایمان نہیں لایا تھا‘۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

40. وَعَنْهُ رضي الله عنه، قَالَ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآهَا النَّاسُ آمَنُوْا أَجْمَعُوْنَ، فَذٰلِکَ حِيْنَ {لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِهَا خَيْرًا} [الأنعام، 6/ 158].

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

40: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الرقاق، باب طلوع الشمس من مغربها، 5/ 2386، الرقم/ 6141، وأيضًا في کتاب الفتن، باب خروج النار، 6/ 2605، الرقم/ 6704.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے گا۔ لہٰذا جب لوگ اُسے مغرب سے طلوع ہوتا دیکھیں گے، تو سب کے سب ایمان لے آئیں گے، لیکن یہ وہ وقت ہو گا (جس کے بارے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے): {لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِهَا خَيْرًا} ’(تو اس وقت) کسی (ایسے) شخص کا ایمان اسے فائدہ نہیں پہنچائے گا جو پہلے سے ایمان نہیں لایا تھا یا اس نے اپنے ایمان (کی حالت) میں کوئی نیکی نہیں کمائی تھی‘۔

اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

41. وَعَنْهُ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : ثَـلَاثٌ إِذَا خَرَجْنَ { لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِهَا خَيْرًا} [الأنعام، 6/ 158]. طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَالدَّجَّالُ وَدَابَّةُ الْأَرْضِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَنْدَه وَالْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.

41: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الزمن الذي لا يقبل فيه الإيمان، 1/ 138، الرقم/ 158، وابن منده في الإيمان، 2/ 930، الرقم/ 1023، والبيھقي في الاعتقاد/ 213، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 2/ 93، الرقم/ 2498.

ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (قرآن مجید میں ہے:) جب تین چیزوں کا ظہور ہو جائے گا تو {لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِهَا خَيْرًا} ’(تو اس وقت) کسی (ایسے) شخص کا ایمان اسے فائدہ نہیں پہنچائے گا جو پہلے سے ایمان نہیں لایا تھا یا اس نے اپنے ایمان (کی حالت) میں کوئی نیکی نہیں کمائی تھی‘۔ (اس سے مراد یہ تین چیزیں ہیں:) سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال کا خروج اور دابۃ الأرض کا ظاہر ہونا۔

اسے امام مسلم، ابن مندہ، بیہقی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الصَّحَابَةِ وَالسَّلَفِ الصَّالِحِيْنَ

عَنْ ذَرٍّ، قَالَ: کَانَ عُمَرُ ابْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه يَقُوْلُ لِأَصْحَابِهِ: هَلُمُّوْا نَزْدَدْ إِيْمَانًا فَيَذْکُرُوْنَ اللهَ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالَّلاَلکَائِيُّ وَالَّلفْظُ لَهُ.

أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 164، الرقم/ 30366، واللالکائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة، 5/ 941، الرقم/ 1700.

حضرت ذر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اپنے اصحاب سے فرمایا کرتے تھے: آؤ! ہم اپنے ایمان میں اضافہ کر لیں۔ پھر وہ اللہ عزوجل کا ذکر کرتے تھے۔

اسے ابن ابی شیبہ اور لالکائی نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ لالکائی کے ہیں۔

کَانَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنهما يَقُوْلُ فِي دُعَائِهِ: اللّٰهُمَّ، زِدْنِي إِيْمَانًا وَيَقِيْنًا وَفَهْمًا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9/ 105، الرقم/ 8549.

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اپنی دعا میں کہا کرتے تھے: اے اللہ! میرے ایمان، یقین اور فہم میں اضافہ فرما۔

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ الْمُحَارِبِيِّ، قَالَ: قَالَ لِي مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رضي الله عنه : اجْلِسْ بِنَا، نُؤْمِنْ سَاعَةً، يَعْنِي نَذْکُرُ اللهَ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 164، 7/ 126، الرقم/ 30363، 34698، واللالکائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة، 5/ 943، الرقم/ 1707.

اسود بن ہلال المحاربی نے بیان کیا ہے: مجھے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمارے پاس بیٹھ جاؤ، کچھ گھڑی ہم بھی مومن ہو جائیں یعنی (ایمان کی لذت پانے کے لئے کچھ گھڑی) ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کر لیں۔

اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضي الله عنه، أَنَّهُ قَالَ: ثَـلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِيْهِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ بِهِنَّ الإِيْمَانَ: إِنْصَافٌ مِنْ نَفْسِهِ، وَالإِنْفَاقُ مِنَ الْإِقْتَارِ، وَبَذْلُ السَّلَامِ لِلْعَالَمِ.

رَوَاهُ الَّلاَلکَائِيُّ.

(1) أخرجه اللالکائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة، 5/ 945، الرقم/ 1713.

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تین چیزیں جس شخص میں پائی جائیں، وہ ان کے ذریعے اپنا ایمان مکمل کر لیتا ہے: اپنی ذات سے انصاف کرنا (یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوامر و نواہی کی پاس داری اور ان کی حکم عدولی کرکے اپنی جان پر ظلم نہ کرنا)، تنگ دستی میں بھی راہِ حق میں خرچ کرنا اور پوری دنیا میں امن و سلامتی کے قیام کی کوشش کرنا۔

اسے امام لالکائی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved