الاربعین فی فضائل النبی الامین

حضور ﷺ کی بارگاہ میں کثرتِ سوالات کی ممانعت کا بیان

فَصْلٌ فِي تَرْکِ إِکْثَارِ سُوَالِهِ تَوْقِیْرًا لَهُ صلی الله علیه وآله وسلم

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کثرتِ سوالات کی ممانعت کا بیان

88/1. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم خَرَجَ حِیْنَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، فَصَلّٰی الظُّهْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلٰی الْمِنْبَرِ، فَذَکَرَ السَّاعَةَ، وَذَکَرَ أَنَّ بَیْنَ یَدَیْهَا أُمُوْرًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَسْأَلَ عَنْ شَيئٍ فَلْیَسْأَلْ عَنْهُ: فَوَﷲِ لَا تَسْأَلُوْنِي عَنْ شَيئٍ إِلَّا أَخْبَرْتُکُمْ بِهِ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا، قَالَ أَنَسٌ: فَأَکْثَرَ النَّاسُ الْبُکَاءَ، وَأَکْثَرَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَنْ یَقُوْلَ: سَلُوْنِي. فَقَالَ أَنَسٌ: فَقَامَ إِلَیْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: أَیْنَ مَدْخَلِي یَا رَسُوْلَ ﷲِ؟ قَالَ: النَّارُ. فَقَامَ عَبْدُ ﷲِ بْنُ حُذَافَةَ فَقَالَ: مَنْ أَبِي یَا رَسُوْلَ ﷲِ؟ قَالَ: أَبُوْکَ حُذَافَةُ. قَالَ: ثُمَّ أَکْثَرَ أَنْ یَقُوْلَ: سَلُوْنِي، سَلُونِي. فَبَرَکَ عُمَرُ عَلَی رُکْبَتَیْهِ فَقَالَ: رَضِیْنَا بِاللهِ رَبًّا، وَبِالإِسْـلاَمِ دِیْنًا، وَبِمُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم رَسُوْلاً. قَالَ: فَسَکَتَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم حِیْنَ قَالَ عُمَرُ: ذَلِکَ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ، وَأَنَا أُصَلِّي، فَلَمْ أَرَ کَالْیَوْمِ فِي الْخَیْرِ وَالشَّرِّ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب ما یکره من کثرة السؤال وتکلف ما لا یعنیه، 6/2660، الرقم: 6864، وفي کتاب مواقیت الصلاة، باب وقت الظهر عند الزوال، 1/200، الرقم: 2001، 2278، وفي کتاب العلم، باب حسن برک علی رکبتیه عند الإمام أو المحدث، 1/47، الرقم: 93، وفي الأدب المفرد، 1: 404، الرقم: 1184، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب توقیره صلی الله علیه وآله وسلم وترک إکثار سؤال عما لا ضرورة إلیه، 4/1832، الرقم: 2359، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/162، الرقم: 12681، وأبو یعلی في المسند، 6/286، الرقم: 3201، وابن حبان في الصحیح، 1/309، الرقم: 106، والطبراني في المعجم الأوسط، 9/72، الرقم: 9155.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا: اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا: جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، خدا کی قسم! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے (جو چاہو) پوچھ لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دوزخ میں۔ پھر حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تیرا باپ حذافہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو مجھ سے سوال کرو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہوئے۔ ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں (اور ہمیں کچھ نہیں پوچھنا)۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گذارش کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ابھی ابھی اس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

89/2. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ، قَدْ فَرَضَ ﷲُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوْا. فَقَالَ رَجُلٌ: أَکُلَّ عَامٍ یَا رَسُوْلَ ﷲِ؟ فَسَکَتَ حَتّٰی قَالَهَا ثَـلَاثاً. فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: لَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَوَجَبَتْ وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ. ثُمَّ قَالَ: ذَرُوْنِي مَا تَرَکْتُکُمْ، فَإِنَّمَا هَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ، وَاخْتِـلَافِهِمْ عَلَی أَنْبِیَائِهِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَيئٍ فَأْتُوْا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، وَإِذَا نَهَیْتُکُمْ عَنْ شَيئٍ فَدَعُوْهُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَة.

89: أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الحج، باب فرض الحج مرة في العمر، 2/975، الرقم: 1337، والترمذي في السنن، کتاب الحج عن رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم، باب ما جاء کم فرض الحج، 3/178، الرقم: 814، والنسائي في السنن، کتاب مناسک الحج، باب وجوب الحج، 5/110، الرقم: 2619، وابن ماجه في السنن، کتاب المناسک، باب فرض الحج، 2/963، الرقم: 2884، وابن خزیمة في الصحیح، 4/129، الرقم: 2508.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر حج فرض کر دیا گیا ہے پس حج کیا کرو۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! کیا ہر سال حج فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ تین مرتبہ اس نے یہی عرض کیا۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہر سال) فرض ہو جاتا اور پھر تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔ پھر فرمایا: میری اتنی ہی بات پر اکتفا کیا کرو جس پر میں تمہیں چھوڑوں، اس لئے کہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کی بناء پر ہی ہلاک ہوئے تھے، لہٰذا جب میں تمہیں کسی شے کا حکم دوں تو بقدر استطاعت اسے بجا لایا کرو اور جب کسی شے سے منع کروں تو اسے چھوڑ دیا کرو۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

90/3. عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم عَنْ أَشْیَاءَ کَرِهَهَا فَلَمَّا أَکْثَرُوا عَلَیْهِ الْمَسْأَلَةَ غَضِبَ وَقَالَ: سَلُونِي. فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا رَسُولَ ﷲِ، مَنْ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوکَ حُذَافَةُ: ثُمَّ قَامَ آخَرُ فَقَالَ: یَارَسُولَ ﷲِ، مَنْ أَبِي؟ فَقَالَ: أَبُوکَ سَالِمٌ مَوْلَی شَیْبَةَ فَلَمَّا رَأَی عُمَرُ مَا بِوَجْهِ رَسُولِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم مِنَ الْغَضَبِ قَالَ: إِنَّا نَتُوبُ إِلَی ﷲِ عَزَّ وَجَلَّ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب ما یکره من کثرة السوال وتکلف ما لا یعنیه، 6/2659، الرقم: 6861، وفي کتاب العلم، باب الغضب في الموعظة والتعلیم، إذا رأی ما یکره، 1/19، الرقم: 92، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب توقیره صلی الله علیه وآله وسلم و ترک إکثار سواله عما لا ضرورة إلیه، 2/263 الرقم:2360، وعبد الرزاق في المصنف، 11/379، الرقم: 3720، وابن أبي شیبة في المصنف، 11/496، الرقم: 11812.

’’ابو بردہ کا بیان ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی چیزوں کے متعلق پوچھا گیا جو آپ نے نا پسند فرمایا۔ جب لوگوں نے سوالات کی بھرمار کر دی تو آپ کو غصہ آ گیا اور فرمایا: جو چاہو پوچھ لو۔ چنانچہ ایک آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ فرمایا تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ فرمایا کہ تیرا باپ سالم مولیٰ شیبہ ہے۔ حضرت عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھے تو عرض گزار ہوئے: ہم اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتے ہیں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved