اس کتاب کا اچھوتا اندازِ تحریر اپنے اسلوب میں تیر بہ ہدف ہے۔ اس کا بغور مطالعہ اس کے نہایت صحیح اور سریع التاثیر ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دیتا ہے۔ کتاب کے مخاطبین نہ صرف عوام و خواص بلکہ ا خص الخواص بھی ہیں اور ان سب کے لیے اپنے اپنے معیار، سطح اور ضرورت کے مطابق کتاب ہٰذا میں سامان ہدایت و رجوع موجود ہے۔ کتاب کو دقت نظر ی سے پڑھنے کی شرط، تشنگی نہ رہنے کی ضمانت دیتا ہے۔ کتاب کا موضوع اتنا جامع ہے کہ اس کے ذیل میں جاندار عنوانات کا تنوع ہے۔ جس طرح واقعہ کربلا اپنی اہمیت کے اعتبار سے کثیر الجہات ہے، کتاب بھی انہی جہات کا پرتو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے یہ کتاب کر بلا کے مسافر شہزادے نے خود کربلا کے نام لیوا کو لکھوائی ہو،کہ لکھو: یہ بیتا مجھ پر ...، رقم کرو: یہ سلوک کیا گیا میرے ساتھ ...، اور نشان دہی کرو کہ کس نے کیا اور کر وایا یہ سانحۂ دلخراش؟ ... بلکہ لکھ کر ثابت کرو کہ اس واقعہ کا اصل ذمہ دار یزید لعین ہے، ... اور یہی مضبوط اور متحقق قول متین ہے۔
دلائل کی کثرت نے استدلالات کی کثرت کو جنم دیا ہے، فی زمانہ کچھ عاقبت نا اندیشوں کی مقام حسین علیہ السلام سے لا علمی اور نسبت حسین علیہ السلام سے بے اعتنائی نے انھیں یزید کی طرف داری اور واقعہ کربلا سے اس کی بریت کے فتنہ میں مبتلا کر دیا ہے، یہ فتنہ اتنا خطرناک تھا اور ہے کہ مصنف نے اپنی کتاب میں جگہ جگہ فوری استدلال سے اس کی سرکوبی کی ہے، اِس امید اور وثوق کے پیش نظر کہ:
؎شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات
استدلال ایک علمی ہتھیار ہے جس سے علماء اپنے مؤقف میں مضبوطی پیدا کرتے ہیں اور اس کے ذریعے گمراہی اور فکری مغالطوں کا سر کچلا جاتاہے یعنی استدلال اپنےfunction کے اعتبار سے ہتھوڑا ہوتا ہے۔ اس کتاب کے استنباطات نے جہاں یزید کے حواریوں اور وکلاء صفائی کے سروں پر کاری ضربات لگائی ہیں وہاں بڑے بے ایمان یزید لعین کا سر بھی ایسا کچلا ہے کہ اس کتاب کی موجودگی میں اب وہ گمراہی و ضلالت پر مبنی اپنے وسواس عام نہ کر سکے گا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
یزید کے ظلم وستم اور اہل بیت اطہار کے ساتھ ناروا رویے پر مبنی اعمال کا ذکر کرنے کے بعد یزید کے طرف داروں یا اس کے لیے تاریخ کے نام پر نرم گوشہ رکھنے والوں کو بڑے اچھوتے انداز میں مخاطب کر کے پوچھا گیا ہے کہ بتاؤ: اس کا کوئی ایک عمل ایسا ہے جس کی بنیاد پر تم اسے بریت کا پروانہ جاری کر سکو؟
اِستعاراتی اَندازِ بیاں جہاں اپنے اندر بلاغت لیے ہوتا ہے وہاں نام لیے بغیر کسی معین فرد کی اس طرح نشان دہی کر دیتا ہے کہ ذرا سا پس منظر و پیش منظر سے واقفیت رکھنے والا قاری فورا بول پڑتا ہے کہ کس کی بات ہو رہی ہے اور کتاب کی یہ عبارت اس حقیقت کی واضح نمائندگی کر رہی ہے، پڑھیے اور نام بتائیے۔
(ان میں سے کوئی ایک عمل ایسا ہے کہ عقل سلیم اور قلب منیب رکھنے والا کوئی مسلمان اسے قتلِ حسین اور اس بنا پر اذیت رسول سے بریت کا پروانہ دے سکے؟ ... کتاب ہٰذا، صفحہ نمبر 63(
ایک لطیف اشارہ ایک اخص الخواص کے طبقے سے تعلق رکھنے والے صاحب علم مفتی اور اس کے بیان کی طرف کیا گیاہے، جن کا بیان بقول مصنف اس کتاب کی تصنیف کا باعث بنا۔ آپ اندازہ کریں جب خاص الخاص لو گوں کی لا علمی کا یہ حال ہو یا کم از کم اتنے متواتر واقعہ سے متعلق ان کی رائے واضح طور پر خطاء پر مبنی ہو تو عوام الناس کی رائے کا کیا حال ہوگا؟
انگریزی شاعری کے بانی شاعر Geoffrey Chaucer نے کہا تھا:
If gold rust what shall iron do?
کہ اگر سونا ہی زنگ آلود ہو جائے تو لوہا کیا کرےگا؟
اس لیے میں نے لکھا کہ اس خاص مو ضوع میں،تمام طبقات ِعلم سے متعلق افراد کے لیے سامان ہدایت موجود ہے اور بساط بھر کوشش کی گئی ہے کہ کوئی پہلو تشنہ طلب نہ رہے۔ یعنی کوئی شخص اگر مگر کر کے یا مکر کے یا دور کی کوڑی لاکر بھی راہِ فرار اختیار نہیں کر سکتا اِلّا یہ کہ اگر کسی کو، نعوذ باللہ، اللہ پاک گمراہ قرار دے دے تو پھر اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔
کتاب پڑھ کر ایسے لگتا ہے جیسے کوئی اپنا ذاتی مقدمہ بڑی سنجیدگی اور جانفشانی سے لڑ رہا ہو کہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرنا چاہتا ہو۔ بلکہ ایمان افروز انکشاف یہ ہوتا ہے کہ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے کوئی تگڑا وکیل اس دور میں اپنا کیس لڑنے کے لیے منتخب کیا ہے، جو یزید کے طرف داروں کی تمام برائے نام علمی موشگافیوں کو اپنے حسینی جذبے کے سمندر میں خس و خاشاک کی طرح بہا کے لے جا رہا ہو؛ مگر اس کے ساتھ ہی وکیل کی اپنے مؤکل کے ساتھ یک گونہ نسبت تنہائی بھی عیاں ہوتی ہے۔ جیسے امام عالی مقام میدان کربلا میں اپنے چند وفادار جانثاران کے سوا اکیلے تھے ایسے ہی یہ وکیل، طاہر حسینی اس دور میں اپنی طرز کا منفرد علمی مقدمہ لڑنے کے لیے اکیلے ہیں، ماسوائے ان علمی مستند حوالہ جات اور اقتباسات کے جو سابقہ کتب سے نکال نکال کر طرف دارانِ یزید و یزیدیت پر تیروں کی طرح بر سا رہے ہیں۔
واقعہ کربلا کی شہادتوں کے ذمہ دار یزید کو طرح طرح کی تاویلوں، حیلے بہانوں، کم علمی اور کم فہمی پر مبنی علمی ڈھکوسلوں کے ذریعے بری کرنے کی تمام کوششیں کتاب ھذا کے اسلوب اور مندرجات کے سیل رواں کے آگے ریت کی دیواریں ثابت ہو کر زمین بوس ہو گئیں اور اب وہ تمام دلائل جو یزید کی یزیدیت پر پردہ ڈالنے کے لیے گھڑے گئے تھے اپنے گھڑنے والوں سمیت اپنے ملبے تلے خود ہی دب چکے ہیں۔
شہادتِ حسین کو اندھا قتل قرار دینے والوں کی کوششوں پر پانی پھر دیا گیا ہے اور اس کتاب نے خود یزید کے اقبالِ جرم، یزید کے خلاف اس کے بیٹے کی گواہی اور ا کابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیانات سے یزید کے نامزد مجرم ہونے کی جامع تفتیش مکمل کر دی۔ اب یزید کو واقعہ کربلا سے بری الذمہ قرار دینے والے محض حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہوئے مدعی سست گواہ چست کے مصداق بنیں گے۔
شہادتِ حسین کی تفصیلات کا احادیث مبارکہ میں بیان ہونا اس کا ایک امتیازی وصف تو ہے ہی مگر اس کتاب کے مطالعہ سے واقعہ کربلا کی انفرادیت ظاہر ہوتی ہے یعنی قدرتی مناظر بھی اس واقعہ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور معتبر روایات سے آسمان اور زمین پر جگہ جگہ خونی مناظر لوگوں نے مشاہدہ کیے اور بیان کیے اور کتب اہل سنت میں اس کا بیان آیا ہے۔ ایسے واقعات کے بیان پر بادی النظر میں شیعیت کا شبہ ہوتا ہے مگر ثابت ہوا کہ ایسے واقعات کا بیان نہ صرف یہ کہ سنیت ہے بلکہ قدرتی مناظر بھی حسینیت کے رنگ میں رنگے گئے تھے۔ مصنف ان واقعات کا بیان کرکے یزید کے ایمان کی فکر کرنے والوں کو جھنجھوڑ تے ہوئے متوجہ کررہے ہیں کہ دیکھو حسین کی مظلومیت پر قدرتی مناظر بھی خون کے آنسو رو رہے ہیں اور ایک تم ہو کہ تمہیں یزید کی فکر کھائے جا رہی ہے۔
میر تقی میر کے ایک شعر میں ترمیم کر کے، میں بھی ایسے لوگوں سے کہتا ہوں:
پتا پتا، بوٹا بوٹا حال حسین کا جانے ہے
جانے نہ جانے تو ہی نہ جانے، امت تو ساری جانے ہے
اور
پتا پتا، بوٹا بوٹا قاتل حسین کا جانے ہے
کتاب کے اختتام پر دل و دماغ پر دستک دینے والے، اہل بیت اطہار کی طرف سے فرضی سوالات طرف دارانِ یزید سے پوچھے گئے ہیں اور انھیں یہ باور کروایا گیا ہے کہ سمجھو تم میدان محشر میں کھڑے ہو۔ اگر اہل بیت اطہار نے تم سے پوچھ لیا کہ تمہیں ہماری فکر تھی یا یزید کی؟ تو تم کیا جواب دوگے؟
مصنف نے دراصل اختتام پر دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کے بعد آخرت میں ایمان بچانے کی فکر کرنے پر ان لوگوں کو مجبور کرنے کی کوشش کی ہے جن کے نزدیک قتل حسین ایک عام مسلمان کا قتل ہے اور وہ یہ بھول گئے ہیں کہ حسین، مصطفی اور مصطفی، حسین سے ہیں۔
مصنف کا دل دلائل دینے سے نہ بھرا مگر الفاظ کا دامن جذبات کے اظہار کے لیے ہمیشہ سے تنگ رہا ہے، اس لیے کتاب کے اختتام پر سوالات کا سہارا لیا تا کہ اگر کوئی کسر رہ گئی ہو تو ان استفسارات کے ذریعے ضمیر کو جگایا جا سکے کہ دیکھو کس کی طرف داری کر رہے ہو؟ ... قاتل کی یا مقتول کی؟ ... ظالم کی یامظلوم کی؟ ... حق کی یا باطل کی؟ ... جنت کی یا دوزخ کی؟ ... ایمان کی یا کفر کی؟ ... حسین کی یا۔۔۔؟
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved