شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
مرتبہ: نازیہ عبدالستار
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّک.
(الطور، 52: 48)
اے حبیب ﷺ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر کیا کیجیے۔
صبر ایک ڈھال بھی ہے۔
بے صبر ہونے سے سفر کٹتا اور نہ منزل ملتی ہے۔ جب منزل تک پہنچنا ہے تو پہلی تلقین صبر ہے اس لیے قرآن مجید میں ارشاد ہے:
اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo
(البقرة، 2: 153)
یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔
مزید فرمایا:
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِط
(البقرة، 2: 153)
اے ایمان والو ں صبر کے ذریعے مدد چاہو اور نماز کے ذریعے مدد چاہو۔
ہر صبر کے لیے ایک تصور ہوتا ہے، مثلاً اگر کوئی بچہ فیل ہو جائے تو والدین کہتے ہیں کہ صبر کرو۔ اس صبر کے لیے تصور کیا ہے؟ کہ اگگر اس مرتبہ رہ گئے ہو تو تصور یہ کر کے زیادہ محنت کرو کہ اگلی بار اپنی پوری کلاس میں فرسٹ آجاؤ گے اس تصور سے بچے کو صبر آ جاتا ہے۔
اگر کسی کا جوان بیٹافوت ہوجائے لوگ کہتے ہیں۔ صبر کر اس صبر میں تصور کیا ہے؟ کہ وہ اس بات کو دھیان میں لائے کہ یہ مال اللہ کا تھا اسی نے دیا اسی نے لے لیا۔
تصور اور دھیان صبر کی قوت بنتا ہے اس سے انسان کو صبر ملتا ہے۔ تو حضور ﷺ کو جب حکم ہوا کہ میرے حبیب ﷺ صبر کیجیے۔ عرض کیا مولا! کس تصور سے طاقت اور قوت پاؤں کہ پتھر بھی برستے رہیں اور صبر بھی جاری رہے اور تین تین سال کی قید بھی شعب ابی طالب میںہو اور پھر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے اور طائف کے بازاروںمیں جسد پاک لہو لہان بھی ہوتا رہے اور صبر رہے۔ فرمایا تصور یہ کہ
فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا.
(الطور، 52: 48)
ہم ہر وقت تمہیں تکتے رہتے ہیں۔ تم ہر وقت ہماری نگاہوں میں رہتے ہو۔
الَّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُo
(الشعرا، 26: 218)
جو آپ کو (رات کی تنہائیوں میں بھی) دیکھتا ہے جب آپ (نمازِ تہجد کے لیے) قیام کرتے ہیں۔
حتی کہ
وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَo
(الشعرا، 26: 219)
اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے۔
حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت عبداللہ تک جن سجدہ گزاروں کی پشتوں سے تیرا نور منتقل ہوتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔ ہر ایک کی پشت کو دیکھتا رہا ہوں یہ وہ تصور ہے کہ
لوگ پتھر مارتے ہیں تو حبیب ان پتھروں کا دھیان نہ کر۔ میں ہر وقت میں تمہیں تکتے رہتا ہوں اس کا دھیان کر۔ ایک ایسا عجیب پر کیف دھیان دے دیا کہ اگر وہ دھیان آجائے تو پھر پتھر بھی یاد نہیں آتے، پھر دشمنوں کے طعنے بھی بھول جاتے ہیں۔ اس سے تربیت کا سبق ہمیں یہ ملا کہ ہر حال میں صبر کریں۔ اسی کی طرف رجحان ہو۔
اس کے بعد تیسرا ضابطہ پھر فرمایا:
وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّک.
(الطور، 52: 48)
’’اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہ۔‘‘
جتنا زیادہ اللہ اللہ کرو گے غم اتنے کم ہو جائیں گے۔
اَلَا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo
(الرعد، 13: 28)
جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جس وقت وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر کرے تو میں تنہا اس کا ذکر کرتا ہوں اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر کرے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اگر وہ بقدر ایک بالشت میرے قریب ہو تو میں بہ قدر ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ بہ قدر ایک ہاتھ میرے قریب ہو تو میں بہ قدر چار ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں، اگر وہ میرے پاس چل کر آئے تو میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آتا ہوں۔
(صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعا، ج:4، ص: 2067، رقم: 2675)
تو بندہ جتنی اللہ کی تعریف کرتا ہے۔ اللہ بھی اس بندے کو اتنا محمود اور ممدوح کر دیتا ہے۔
چوتھا ضابطہ یہ ہوا ، کہ ہر وقت انسان کو اللہ کا حامد بن کر رہنا چاہیے کیونکہ پہلا کلمہ ہی اللہ پاک نے بسم اللہ کے بعد حمد فرمایا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ.
(البقرة، 1: 1)
سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں
حمد سے تو قرآن شروع ہو رہا ہے۔ لہذا بندے کے لئے حمد کے دروازے سے بہتر کوئی دروازہ نہیں۔
حِیْنَ تَقُوْم.
(الطور، 52: 48)
فرمایا کہ اللہ کی تسبیح کر۔
کثرت کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنی چاہیے، اللہ کو دو چیزیں بڑی پسند ہیں، اللہ کے حضور بندے کا قیام کرنا اور سجدہ کرنا۔
اور قیام کیا ہے کہ بندہ سراپا نیاز بن کر اللہ کے دروازے پر کھڑا ہے اور سجدہ کیا ہے، سراپا عجز بن کر اپنے ماتھے، اپنی ناک ہر شے کو زمیں پر گرا دے۔ یہ دو حالتیں اللہ کو بڑی پسند ہیں۔
مزید چار چیزیں اپنے اندر پیدا کریں۔
سب سے پہلی اپنے اندر عشق رسول ﷺ کو لازم کر لیں۔ عشق رسول ﷺ کی حرارت سینوں میں پیدا ہو جائے۔
دوسری چیز اپنے اوپر لازم کر لیں۔ قیام اللیل رات کا اٹھنا۔ جب تک ہم رات میں اٹھنے والے نہیں بنے گے ، تب تک ہم دل جیتنے والے نہیں بن سکتے۔ جن کی رات اچھی ہوجائے گی، ان کے دن سنور جائیں گے۔ جتنی دیر کے لیے بھی اٹھیں۔ اللہ کے دروازے پر ضرور دستک دیں۔ رات کو اٹھ کر اس وقت دستک دینے والے کم ہوتے ہیں۔ اس وقت جھولی میںخیرات زیادہ ملتی ہے۔
تیسری چیز تلاوت قرآن۔ قرآن مجید سے محبت کریں۔ہر جوان سفر میں ہو، حضر میں ہو، اس کا کوئی دن تلاوت قرآن سے خالی نہ گزرے، حتی کی سفر میں بھی جائیں، تو ایک قرآن مجید سفر حضر میں ساتھ لے جائیں۔ قرآن مجید ایک نور کا چشمہ ہے جو جتنا اس سے تعلق پیدا کرتا ہے، اس کو اسی قدر نور میں سے حصہ مل جاتاہے۔
چوتھی چیز انقلابی کردار پیدا کریں۔ کسی کے سامنے جھکنے والے، بکنے والے، باطل سے سمجھوتا کرنے والے نہ بنیں، آپ کی زندگی، رہن سہن، گفتگو، سوچ و فکر، قول اور عمل سے انقلاب کی بو آنی چاہیے۔
فَسَبِّحْهُ وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِo
(الطور، 52: 49)
اور جب ستارے ڈوب جائیں اس وقت بھی اللہ کو یاد کیا کرو۔ رات کا وقت بھی ، فجر کا وقت بھی ، دونو ں وقت خاص اللہ کے ذکر کے لئے ہیں۔
اب ان ستاروں کے ذکر کے ساتھ اللہ پاک نے بہت ہی پیارے ستارے کا ذکر فرمایا۔
سارے ستارے آسمان نبوت پر چمکے۔ آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک۔ یہ سارے آسمان نبوت کے ستارے تھے۔ کئی ستارے چمکے اور ہر ستارہ نبوت اور ہر ستارہ رسالت اپنے اپنے زمانوں میں آسمان بلندی پر چمکتا رہا۔ جب سارے ستارے غروب ہوگئے تو نور محمدی ﷺ چمک اٹھا۔
اب وہ چمکتا ہی رہے گا۔ اس کا غروب نہیں ہے۔ کیوں کہ جو صبح چمکتا ہے وہ پھر ہمیشہ چمکتا رہے گا۔ اس میں ختم نبوت کی طرف بھی اشارہ ہے۔
امام جعفر صادق سے مروی ہے۔ والنجم سے مراد قلب مصطفی ﷺ ہے۔
قسم ہے اے پیارے محمد ﷺ ! آپ کے دل کی، کہ جب وہ ساری مخلوق سے کٹ گیا اور صرف خالق سے جڑ گیا۔ اس میں ایک نقطہ ہے جو دل ہر ایک سے کٹ کر اللہ سے جڑ جائے۔ اللہ اس کو نجم بنا دیتا ہے۔ وہ ستاروں کی طرح چمکنے لگتا ہے۔ اگرچہ دل میں روشنی نہیں مگر جو صرف اللہ کی چاہت میں اللہ کے ساتھ جڑجائے تو اس دل میںروشنی اور نور آتا ہے۔ پس دل کا تعلق اللہ سے اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ پھر کوئی اور شے دل کا دھیان اللہ کی طرف سے ہٹا نہ سکے۔
رِجَالٌ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ الله.
(النور، 24: 37)
(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے۔
تربیتی نقطہ یہ ہوا کہ دل اسی وقت چمکتا ہے۔ جن وہ دنیا کی تاریکیوں سے کٹتا ہے۔
اللهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط مَثَلُ نُوْرِهٖ کَمِشْکٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ ط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ ط اَلزُّجَاجَةُ کَاَنَّهَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ.
(النور، 24: 35)
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی کی شکل میں دنیا میں روشن ہے) اس طاق (نما سینۂ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن) ہے؛ (وہ) چراغ، فانوس (قلبِ محمدی) میں رکھا ہے۔ (یہ) فانوس (نورِ الٰہی کے پَرتو سے اس قدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے۔
مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰیo
(النجم، 53: 2)
حضور علیہ السلام کی ذات اقدس طرف اشارہ ہے۔ نہ وہ بہکے، نہ وہ بے راہ ہوئے۔ لوگوجب راہ حق تمہیں نصیب ہو جائے تو پھر دائیں بائیں بھٹکو نہیں، استقامت کے ساتھ اسی پر چلتے رہو۔
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا..
(السجده، 41: 30)
بے شک جِن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے۔
جب اللہ کی معرفت نصیب ہوجائے اور ہر سمت سے آنکھیں بند کر کے اپنی منزل کی طرف چلتے جاؤ استقامت رکھو۔
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیo
(النجم، 53: 3)
اس آ یت سے ترک ھوی کا ضابطہ ملا۔ بندهِ خدا بنو اور بندهِ خدا وہی بنے گا ، جو ترکِ ھوی کرے۔
وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰیo
(النازعات، 79: 40۔41)
جس شخص نے اپنی خواہش نفس چھوڑ دی۔ جس شخص نے اپنے نفس کو معبود نہ بنایا۔ تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگا۔
اَفَرَئَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوَاه.
(الجاثیه، 45: 23)
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے۔
<جس شخص نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنا رکھا ہے۔ وہ بے شک کھڑا مسجد میں ہو، مگر سجدہ اس کا نفس کی خواہش کو ہے۔ فرمایا کہ تم اللہ کے بندے اس وقت تک نہیں ہو سکتے اور اس کی عنایات الہیہ کے محل نہیں بن سکتے۔ جب تک حرص و ہوا کی لذت نہ چھوڑ دو۔ قرب الہی کا مزہ چاہتے ہو، دل کی خواہشوں کی پوجا چھوڑ دو۔ہم دین میں وہی بات مانتے ہیں جو دل چاہتا ہے۔ ۔
اس رسول کا عالم یہ ہے۔ کہ آپ ﷺ کی زبان بھی خواہش نفس سے نہیں ہلتی۔
اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo
(النجم، 53: 4)
مزید فرمایا:
عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰیo
(النجم، 53: 4)
ان کو سکھایا زبردست قوت والے نے۔
اس سے سبق ملا کہ تعلیم پہ زور دینا چاہیے۔ہم سیکھنا چاہتے نہیں۔ کہتے ہیں یہ کون ہے سیکھانے والا یہ تو ہم سب کچھ جانتے ہیں۔
ذُوْمِرَّةٍ ط فَاسْتَوٰیo
(النجم، 53:6)
اس زور آور نے تعلیم فرمائی قصد اور ارادہ اونچا ہونا چاہیے۔ انسان اپنے ارادوں میں اونچا جائے نیچے نہ جائے پھر سفر کا مزہ ہے۔
وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعَلٰیo
(النجم، 53: 7)
اور وہ افق اعلی پر تھے۔ یعنی قلب کا حال یہ ہو کہ وہ ہر وقت افق اعلی پر رہے، وہ افق اعلی جہاں ہر گھڑی تجیلیات الہی ہوتی ہیں۔ دل تو بڑی اعلی چیز تھی۔ بڑا مقدس حال دل کو ملنا چاہیے۔ دل جتنا پاک ہو گا زندگی اتنی پاک ہو جائے گی۔
حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’کہ تمہارے اندر ایک ایسا گوشت کا ٹکڑا ہے۔ اگر وہ اچھا ہوجائے تو سارا جسم اچھا ہوجائے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگاڑ کا شکار ہوجائے اور تمہیں معلوم ہے وہ کیا ہے۔ فرمایا: وہ قلب ہے۔‘‘
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo
(النجم، 53: 8)
پھر وہ قریب ہوااور پھر وہ اور قریب ہوا۔ اس آیت کریمہ سے جو سبق ملا وہ یہ کہ ہر وقت انسان قرب الہی کا طالب رہے۔ جو عمل اللہ کے قریب کرے وہ کیا جائے۔ جو اللہ سے دور کرے اس سے بچا جائے۔
اور یاد رکھ لیں کیونکہ اللہ کا قرب نعمت ہے اور قرب سے محرومی بہت بڑی سزا ہے۔ اس سزا سے بچنے کی دعاکرنی چاہیے۔
ہر وقت انتظار رہیں کہ کب وہ وقت آئے گا کہ تجھ سے ملاقات ہو گی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جو اللہ کی ملاقات کا طالب رہتا ہے، اللہ بھی اس کی ملاقات کا طالب رہتا ہے۔
عبدیت کا ضابطہ یہ ہے کہ جہاں بھی جاؤ، جتنے اونچے ہو جاؤ، عبدیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔
عبدیت کی شان بڑی اونچی شان ہے۔ جس کی عبدیت اونچی ہے، اسی کی محبوبیت او نچی ہے۔ عبدیت سے محبوبیت ملتی ہے۔ یہ عبدیت ہی تو تھی جو پاؤں سوجھا دیتی تھی۔
ساری رات کھڑے رہتے آقا ﷺ تلاوت کرتے، قیام کرتے، قدمین شریفین متورم ہو جاتے، پاؤں مبارک سوجھ جاتے، صحابہ عرض کرتے حضور ﷺ آپ کے تو گناہ نہیں۔ اللہ نے معاف کر دئیے۔ آپ ساری رات کیوں کھڑے رہتے ہیں؟ فرمایا:
میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
صحیح بخاری، کتاب التفسیر، ص: 8030، رقم: 4556
اس نقطے کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ خواہ تنظیمی، تحریکی، عملی زندگی ہو، جہاں بھی رہیں، ہمیشہ عبد بن کر رہیں، معبود بننے کی کوشش نہ کریں۔ کبریائی اللہ کی شان ہے بندے کی شان نہیں۔ بندے کی شان عاجزی ہے، اللہ کی شان کبریائی ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، ستمبر 2021ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved