شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ. مٰـلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ.
(الفاتحة، 1: 1۔3)
’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔ نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔ روزِ جزا کا مالک ہے۔‘‘
انسانی رویے اور کردار کی تطہیر کا راز اگرہم جان جائیں تو یقینا ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسلام کی تعلیمات کے تمام مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی پہلی سورۃ کی مذکورہ ابتدائی آیات میں سے پہلی آیت میں اپنے آپ کو ’’رب العالمین‘‘ ’’تمام جہانوں کا رب‘‘ قرار دے کر اگلی دو آیات میں اپنے تعارف میں اپنی درج ذیل تین صفات کا ذکر کیا ہے:
1۔ ’’الرحمن‘‘: نہایت مہربان
2۔ ’’الرحیم‘‘: ہمیشہ رحم فرمانے والا
اللہ تعالیٰ نے ’’رب العالمین‘‘ ہونے کے ناطے اپنی ان صفات کو بیان فرماکر واضح کردیا کہ اگر تم میرے متعلق جاننا چاہتے ہو تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بطورِ رب میں ’’الرحمن‘‘ اور ’’الرحیم‘‘ ہوں۔ بعض مترجمین نے ’’الرحیم‘‘ کا ترجمہ ’’بہت رحم فرمانے والا‘‘ کیا ہے لیکن میں نے اس کا ترجمہ ’’ہمیشہ رحم فرمانے والا‘‘ کیا ہے۔ اس لیے کہ ’’رحیم‘‘ بر وزن فعیل ہے اور اس میں استمرار اور تسلسل پایا جاتا ہے۔ ’’الرحمن‘‘ میں کمال درجے کی رحمت کرنے کا معنی پایا جاتا ہے یعنی اس کی رحمت اپنی انتہا پر ہے اور بلاتفریقِ مذہب اور رنگ و نسل ہر ایک کے لیے ہے جبکہ ’’الرحیم‘‘ میں اُس کی رحمت کے مسلمانوں پر مسلسل ہونے کا معنی پایا جاتا ہے۔مزید یہ کہ اس میں آخرت میں ہونے والی رحمت کی طرف بھی اشارہ ہے۔
3۔ سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تیسری صفت ’’مالک یوم الدّین‘‘ (وہ روزِ جزا کا مالک ہے) کے الفاظ کے ذریعے بیان فرمائی۔
آیئے! انسان کردار کی تطہیر کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی اِن مذکورہ تین صفات کا موازنہ کرتے ہیں:
اللہ تعالیٰ اُس کردار کو پاکیزہ اور خالص قرار دیتا ہے جس میں اللہ کی صفات کا رنگ موجود ہو۔ وہ رب اور مربیّ ہے اور ساری کائنات مربوب (جس کی تربیت کرنا ہو) ہے یعنی اللہ نے اس کی پرورش کی ہے۔ اسی طرح استاد، والدین بھی مربیّ ہوتے ہیں اس لیے کہ وہ بھی جسمانی اور فکری طور پر بندے کی پرورش کرتے ہیں۔ یاد رکھیں! اچھی پرورش وہ ہوتی ہے کہ پرورش کرنے والا اپنی صفات، خصائل اور عادات کو اُن میں منتقل کردے جن کی وہ پرورش اور تربیت کررہا ہے اور مربیّ کی صفات کا رنگ مربوب میں نظر آئے۔ جب مربیّ کی صفات اور خوبیاں اپنے مربوب کی ذات میں نظر آنے لگیں تو اللہ تعالیٰ بطور رب اُن کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے فرمایا:
تَخَلَّقُوْا بِاَخْلاَقِ اللّٰهِ.
(تفسیر الکبیر، رازی، 7: 60)
’’تم اللہ کی صفات کے رنگ میں رنگے جاؤ۔‘‘
پس جو بندہ اللہ کی صفات میں جتنا رنگا جائے، وہ اللہ تعالیٰ کے اتنا ہی قریب ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو اتنا ہی پسند و محبوب ہوتا ہے اور جس بندے میں اللہ تعالیٰ کی صفات نظر نہ آئیں یا کم نظر آئیں تو وہ بندہ اُسی قدر اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بطور ’’رب العالمین‘‘ اپنی جن صفات کا تذکرہ کیا، اُن میں سے پہلی دو صفات رحمت، شفقت Merci ،Caring ،Loving ،Providing ،Forgiving ہیں، جبکہ تیسری صفت ’’روزِ جزا کا مالک‘‘ ہونا بیان فرمائی۔ آیئے! اس تیسری صفت کا بھی جائزہ لیں کہ کل قیامت والے دن جو سزا و جزا کا دن ہے، اس میں کتنی رحمت و بخشش ہے اور کتنا مواخذہ و گرفت ہے؟ تب جاکر ہمیں معلوم ہوگا کہ اُس نے اپنی جن صفات کا تذکرہ کیا، اُن میں کس چیز کو زیادہ بیان کیا اور کس کو کتنا کم بیان کیا؟
صحیح و بخاری و صحیح مسلم میں متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ رب العزت کا لوگوں کے ساتھ معاملہ چار طرح کا ہوگا:
1۔ کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ جنہیں اللہ رب العزت بغیر حساب و کتاب اور بغیر عذاب کے جنت میں داخل فرمائے گا۔
(بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، 5: 2396، الرقم: 6175-6176)
یہ شفاعت کا ایک درجہ اور اللہ کی رحمت کا ایک حصہ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے فرامین میں کسی جگہ ان افراد کی تعداد ستر ہزار ذکر ہے۔ (بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، 5: 2375، رقم:6107) اور کسی جگہ آپ ﷺ نے اِن افراد کی تعداد سات لاکھ بیان فرمائی۔ (مسلم، الصحیح، کتاب الایمان، 1: 198، رقم:219) (اس کی تفصیل کے لیے میری کتاب ’’کتاب الشفاعۃ‘‘ اور ’’روضۃ السالکین فی مناقب الاولیاء والصالحین‘‘ کا مطالعہ کریں)
2۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں پر مشتمل ہوگا جنھیں بعد الحساب مگر بغیر عذاب کے جنت میں داخل فرمائے گا یعنی اس طبقہ کا حساب تو ہوگا مگر حساب کے بعد اللہ تعالیٰ انھیں بغیر عذاب کے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمادے گا۔
گویا جو بغیر حساب و عذاب جنت میں گئے، یہ بھی اللہ کی رحمت کا حصہ ہوگئے اورجو بعد حساب مگر بغیر عذاب جنت میں گئے، یہ بھی اللہ کی رحمت کا عکس ہوا۔
3۔ تیسرا طبقہ ان کلمہ گو مسلمانوں کا ہوگا جو حساب و کتاب کے بعد اپنے نامہ اعمال کے مطابق دوزخ میں بھیجے جائیں گے مگر کچھ عرصہ دوزخ میں گزار کر شفاعت کی وجہ سے دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کردیئے جائیں گے۔ متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے کہ بالآخر اس طبقے کے سارے لوگ اپنے اپنے ظلم، نافرمانی اور گناہ کے مطابق دوزخ میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد بالآخر جنت میں داخل کردیئے جائیں گے۔ اس طبقہ کے لوگوں کا جنت میں جانا بھی اللہ کی رحمت کا حصہ ہے۔ ان لوگوں سے یہ معاملہ اللہ کے عدل اور اس کی مغفرت کا امتزاج ہے۔
4۔ چوتھا طبقہ وہ ہوگا جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں اپنی جن تین صفات ’’الرحمن، الرحیم، مالک یوم الدین‘‘ سے اپنا تعارف کروایا، ان میں سے دو صفات اُس کی مطلق رحمت کا بیان ہیں، جبکہ جس تیسری صفت کا ذکر فرمایا، وہ چار پہلوؤں پر مشتمل ہے اور اُن میں سے بھی تین پہلو رحمت و شفقت کو محیط ہیں۔ دو پہلو مطلقاً رحمت و شفقت کے آئینہ دار ہیں، ایک پہلو عدل اور مغفرت کا امتزاج ہے اور صرف چوتھا پہلو اللہ رب العزت کے عدل کا عکاس ہے، اس لیے کہ یہ لوگ اپنی بداعمالیوں، کفر اور گناہ کے باعث کسی بھی طرح اس کی رحمت و شفقت کے حقدار نہ بن سکے۔
اگر ہم مخلوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سلوک اور معاملہ کے حوالے سے رحمت اور عذات کے تناسب کو جاننا چاہیں تو سورۃ الفاتحہ میں مذکورہ تین صفات کے کلی و جزوی طور پر کل چھ حصے بنتے ہیں:
1۔ الرحمن
2۔ الرحیم
3۔ بغیر حساب و عذاب دخولِ جنت
4۔ بعد الحساب لیکن بغیر عذاب دخولِ جنت
5۔ بعد الحساب و بعد العذاب دخولِ جنت
6۔ بعد الحساب دائمی عذاب
ان چھ حصوں میں سے مخلوق کے ساتھ سلوک کے معاملے میں پانچ معاملات ایسے ہیں جو رحمت، شفقت اور آسانی پر مشتمل ہیں اور صرف ایک پہلو مطلق عدل پر مشتمل ہے۔
اللہ تعالیٰ کی اِن صفاتِ رحمت و شفقت کو جان لینے کے بعد اب آیئے انسانی کردار کی تطہیر کے معاملے میں اللہ کی اِن صفات سے رہنمائی لیتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جو اللہ کا قرب چاہتے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ اللہ کی ان صفاتِ رحمت، شفقت، آسانی اور عفو و درگزر کا عکس اپنی سیرت کے آئینہ میں پیدا کریں۔ ان کے اقوال، اعمال، احوال، معاملہ، مزاج، رویہ اور زندگی میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی انِ صفات کا رنگ نظر آنا چاہیے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو وہی لوگ پسند ہیں جو سراپا رحمت و شفقت ہیں۔۔۔ جن کے مزاج، طبیعت اور رویّے میں کثرت کے ساتھ بخشش غالب ہے، حتی کہ عدل میں بھی بخشش اور وسعت غالب ہے۔
اس تمام بات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانی کردار کی تطہیر کا ذریعہ سخاوتِ نفس ہے۔ اگرہماری زندگی میں سخاوتِ نفس پیدا ہوجائے اور ہم اپنے دلوں میں سخی ہوجائیں تو ہمارے کردار کی تطہیر ہوتی چلی جائے گی۔ سخاوت دو قسم کی ہے:
1۔ سخاوتِ مال
2۔ سخاوتِ نفس
کبھی انسان مال خرچ کرکے اور دوسروں کی ضروریات پوری کرکے سخی بنتا ہے لیکن یہ سخاوت کا نچلا درجہ ہے۔ سخاوت کا سب سے اونچا درجہ سخاوتِ نفس ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم میں سخاوتِ نفس کتنی ہے۔۔۔؟ ہم میں سے دل کا سخی کون ہے۔۔۔؟ ہمارے دل، روح، عقل، خیالات، اقوال، اعمال، رویہ، مزاج، طبیعت اور معاملہ سازی میں کتنی سخاوت پائی جاتی ہے۔۔۔؟ ہمارا دل دوسروں کے دکھ درد کو کس حد تک اپنا محسوس کرتا ہے۔۔۔؟ اپنی توانائیاں دوسروں کے لیے کتنی خرچ کرتا ہے۔۔۔؟ دوسروں کو کتنی محبت، شفقت اور آسانی مہیا کرتا ہے۔۔۔؟ لوگوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے کتنا سخی بنتا ہے۔۔۔؟
پس اگر دل اور نفس سخی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس انسان کی شخصیت میں موجود ہے۔ لیکن اگر انسان قلبی طور پر بخیل اور کنجوس ہے تو یہ انسانی زندگی کی سب سے بڑی ہلاکت ہے۔ ہاتھ کا کنجوس اور بخیل ہونا نچلا درجہ ہے جبکہ دل کا کنجوس اور بخیل ہونا سب سے نچلا درجہ ہے۔ جب دل سخی نہیں رہتے تو دل میں تنگی آتی ہے۔۔۔ دوسروں کے لیے برداشت، صبرو تحمل اور محبت اور غم محسوس نہیں ہوتا۔۔۔ دوسروں کی عزت کو اپنی عزت سے زیادہ عزیز نہیں سمجھتا۔۔۔ اس میں خود غرضی، تنگ نظری، تعصب اور دوری آتی ہے۔ یہ تمام آفات اور بیماریاں اس شخص میں آجاتی ہیں، جس کا دل کنجوس ہوتا ہے جبکہ جس کا دل سخی ہوجاتا ہے، اس کے بارے میں حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلْجَنَّةُ دَارُالْاَسْخِیآء.
(ابن عدی، الکامل، 4: 320، الرقم: 1154)
’’جنت اسخیاء کا گھر ہے۔‘‘
سخاوتِ نفس: قرآن مجید کی روشنی میں
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جابجا سخاوتِ نفس کا ذکر فرمایا ہے۔ ’’سخاوتِ نفس‘‘ کی یہ صفت حضور نبی اکرم ﷺ کی تربیت اور تزکیہ نفس کے ذریعے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بدرجہ اتم نظر آتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر قرآن مجید میں یوں فرمایا:
وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُالدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
(الحشر، 59: 9)
’’(یہ مال اُن انصار کے لیے بھی ہے) جنہوں نے اُن (مہاجرین) سے پہلے ہی شہرِ (مدینہ) اور ایمان کو گھر بنالیا تھا۔ یہ لوگ اُن سے محبت کرتے ہیں جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں۔ اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو، اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچالیا گیا پس وہی لوگ ہی با مراد و کامیاب ہیں۔‘‘
اس آیتِ مبارکہ میں انصارِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر ہے۔ آیئے! اس آیت کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صفتِ سخاوتِ نفس کو کس طرح بیان فرمایا ہے کہ وہ عملی زندگی میں سخاوتِ نفس کا اظہار کس طرح کیا کرتے تھے؟
اس آیتِ مبارکہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پہلی صفت یہ بیان کی گئی کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوںنے مدینہ کو اور ایمان کو اپنا وطن اور اپنا گھر بنالیا تھا۔ ان کے لیے ایمان صرف تصدیق اور اقرار نہیں رہا تھا بلکہ ایمان اُن کے اندر گھر کرگیا تھا، ایمان اُن کا گھر ہوگیا تھا اور یہ ایمان کے گھر میں رہنے لگ گئے تھے، گویا ایمان ان کا وطن ہوگیا تھا۔ایمان کو اپنا وطن بنالینے کے سبب ہی ان لوگوں پر یہ اثر ہوا کہ یہ لوگ مہاجرین سے محبت کرتے تھے۔
یاد رکھیں! ایمان لانے اور ایمان کو وطن بنالینے میں بڑا فرق ہے۔ ہم ایمان لانے والے لوگ ہیں۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں، وہ اقرار و تصدیق کرتے ہیں اور اعمالِ صالحہ بجا لاتے ہیں، یہ ایک درجہ ہے مگر جو لوگ ایمان کو اپنا گھر بنالیتے ہیں اور ایمان کے گھر میں خود بس جاتے ہیں، ایمان اُن کا وطن ہوجاتا ہے تو پھر اُن کی سوچ، عمل، فکر، مزاج، رویہ اور سلوک ایمان کی حدود سے باہر نہیں نکلتا۔۔۔ ایمان ان کا مزاج بن جاتا ہے۔۔۔ وہ ایمان کے مزاج اور ترجیحات کو اپنالیتے ہیں۔۔۔ ایمان اُن کے دل و دماغ میں رچ بس جاتا ہے اور اُن کا احساس بن جاتا ہے۔ پھر وہ لوگ ایمان پر عمل کرتے ہیں۔۔۔ ایمان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔۔۔ ایمان سے طاقت لیتے ہیں۔۔۔ ایمان اُن کی غذا اور خوراک ہوتا ہے اور اس سے اُن کی بھوک و پیاس ختم ہوتی ہے۔۔۔ ایمان سے انھیں قوت اور لذت میسر آتی ہے اور ایمان اُن کی زندگی بن جاتا ہے۔ ہمیں بھی زبان کے کلمات والے ایمان کو اپنے باطن میں راسخ کرنا ہے اور ایمان کو اپنے اندر ایسا اتارنا ہے کہ ہم خود ایمان کے گھر میں رہیں۔
اس آیت مبارکہ میں انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی کہ:
وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا.
’’اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے۔‘‘
یعنی مہاجرین کو مالِ غنیمت دیتے ہوئے ان انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں کوئی تنگی نہیں پائی جاتی۔ غزوات میں مہاجرین و انصار دونوں نے برابر حصہ لیا اور دونوں میں سے ہر کسی نے ایک ساکردار ادا کیا ہے، لہذا دونوں مالِ غنیمت کے برابر کے حقدار تھے مگر آپ ﷺ مالِ غنیمت سب سے پہلے مہاجرین کو عطا فرماتے۔ انسانی نفسیات ہے کہ جس معاملے میں کوئی سے دو افراد یا گروہوں نے برابر حصہ لیا ہو اور ایک سا کردار ادا کیا ہو تو ہر ایک اجر اور Reward کے لیے سب سے پہلے پکارے جانے کا متمنی ہوتا ہے، مگر قربان جائیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی تربیت کے ذریعے انھوں نے اس حد تک اپنا تزکیہ نفس کرلیا تھا کہ قرآن مجید اُن کے بارے میں فرماتا ہے کہ مالِ غنیمت جب مہاجر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سب سے پہلے دیا جاتا تو انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اس حوالے سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کرتے۔
آیئے! اس بات کو غزوۂ حنین کے ایک واقعہ کے ذریعہ مزید سمجھتے ہیں: غزوہ حنین میں ملنے والے مالِ غنیمت میں سے حضور نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام میں داخل ہونے والے نئے لوگوں کو بے حساب عطا فرمایا۔ اس تمام منظر کو نوجوان انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ملاحظہ کررہے تھے۔ انھوں نے غزوہ میں اِن لوگوں سے کئی بڑھ کر اہم کردار ادا کیا تھا اور گزشتہ دس سالوں سے یہ اسلام کے لیے مسلسل قربانیاں دیتے چلے آرہے تھے۔ یہ انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین فتح مکہ کے موقع پر اسلام میں داخل ہونے والوں سے مالِ غنیمت میں زیادہ حق رکھتے تھے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ کچھ نوجوان انصار صحابہ آپس میں باتیں کرنے لگے کہ خون تو آج تک ہمارا بہا ہے، دس سال سے مالی و جانی قربانیاں ہم نے دی ہیں مگر حنین کی فتح کے بعد کثیر مالِ غنیمت مکہ کے لوگوں کو دیا جارہا ہے، یہ کیا ہے؟
(مسلم، الصحیح، کتاب الزکوٰۃ، 2: 733، رقم: 1059)
اس صورتِ حال پر وہ کچھ پریشان ہوگئے اور اس معاملہ کو سمجھ نہ سکے کہ اس کے پیچھے کیا راز اور فلسفہ کارفرما ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ ان کی صورتِ حال اور دل کے معاملات کو جان گئے۔ آپ ﷺ نے اس موقع پر انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: کیا تم اس بات پر اضی نہیں کہ مکہ کے بڑے بڑے سرداران مالِ غنیمت سے لدے ہوئے اونٹ لے کر جائیں اور تم مصطفی ﷺ کو واپس لے کر جاؤ؟ کبھی یہ خیال نہ کرنا کہ اب چونکہ مکہ فتح ہوچکا ہے، اس لیے میں مکہ مکرمہ واپس چلا جاؤں گا، نہیں بلکہ میں تمہارے پاس مدینہ منورہ میں ہی قیام کروں گا۔ (بخاری، الصحیح، کتاب الجہاد والسیر، 3: 1147، رقم: 2978) حضور نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان سے انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں آنے والے تمام اندیشے اور خدشات ختم ہوگئے۔
سمجھانا یہ مقصود ہے کہ انسانی نفسیات اور دل کی کیفیات جو عام طور پر ایسے مواقع پر پیدا ہوتی ہیں، اسے قرآن مجید کی اس مذکورہ آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا‘‘ یعنی اُن کے دلوں میں مہاجرین کو زیادہ مالِ غنیمت کے ملنے سے کوئی تنگی محسوس نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ ہمیشہ سکون و اطمینان اور خوشی کی حالت میں رہتے ہیں۔
قرآن مجید کے یہ الفاظ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سخاوتِ قلب کے عکاس ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ تزکیہ کیاکہ اُن کے دلوں کو سخی بنادیا اور اللہ رب العزت کی شانِ جودو سخا ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں، رویّوں اور مزاج سے ظاہر ہوتی تھی، جس سے اُن کی زندگیاں بدل گئی تھیں۔
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے صحابہ کرامؓ کی تیسری صفت یہ بیان فرمائی کہ:
وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ.
(الحشر، 59: 9)
’’اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو۔‘‘
یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سراپا ایثار تھے۔ ان کی طبیعت، مزاج، کردار، دل اور روح اس قدر خالص ہوگئے کہ وہ دوسروں کو اپنی جان پر ترجیح دیتے اور یہ کیفیت ان کے ظاہر و باطن پر غلبہ پاچکی تھی۔ جہاں کہیں بھی دوسروں کے مفادات اور اِن کی اپنی دلچسپیوں میں تضاد آتا، یہ ہمیشہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے۔ ایثار اور سخاوت ان کی عادت اور مزاج بن چکا تھا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اِن تین صفات کو بیان کرنے کے بعد اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
(الحشر، 59: 9)
’’اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچالیا گیا پس وہی لوگ ہی با مراد و کامیاب ہیں۔‘‘
گویا اللہ رب العزت نے کامیابی کا پیمانہ واضح کردیا کہ اگر ایمان کے رشتہ پر بنیاد قائم ہو تو دوسروں سے محبت جنم لیتی ہے۔ ہمارا زاویہ مختلف ہے۔ ہم صاحبِ ایمان بھی ہیں اور دوسروں سے محبت بھی نہیں کرتے۔ کیا ہم نے کبھی اپنے من میں ڈوب کر اس امر کا جائزہ لیا کہ ہم صاحبِ ایمان ہونے کے باوجود محبت کا مظہر نہیں ہیں۔ اگر کسی کے لیے محبت پیدا ہوجائے تو سب سے پہلے صفتِ ایثار انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ محبت کرنے والا اپنے محبوب کے لیے ہر چیز قربان کردیتا ہے۔۔۔ وہ اس کے لیے سخی ہوجاتا ہے۔۔۔ اس کی تکریم بجا لاتا ہے۔۔۔ اور ہمیشہ اس کی بہتری اور بھلائی کے لیے سوچتا ہے۔
(جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، دسمبر 2021ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved