نوراللہ صدیقی
گزشتہ ماہ منہاج یونیورسٹی لاہور میں ’’حسان بن ثابت نعت ریسرچ سنٹر‘‘ کا باضابطہ افتتاح ہوا۔ اس پروقار افتتاحی تقریب میں محققین، دانشور،ادیب، معروف اینکرز اور سیاسی، سماجی شعبہ کی نامور شخصیات نے شرکت کی۔ اس تقریب میں چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے خصوصی شرکت کی اور نعت گوئی کی تاریخ، سیرت النبی ﷺ پر ایمان افروز خطاب کیا۔ ’’حسان بن ثابت ریسرچ سنٹر‘‘ اس اعتبار سے اپنی نوعیت کا ایک منفرد ریسرچ سنٹر ہے کہ اس سے قبل بھی یونیورسٹی کی سطح پر نعت کے حوالے سے کوئی تحقیقی شعبہ موجود نہیں۔ اس نعت ریسرچ سنٹر کے اغراض و مقاصد میں بنیادی مقصد 14 سو سال پر پھیلی ہوئی نعت گوئی کی تاریخ کو ایک جگہ جمع کرنا ہے۔ نعت ریسرچ سنٹر تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خواہش اور فکری سرپرستی میں قائم ہوا ہے۔ نعت ریسرچ سنٹر کی افتتاحی تقریب کی روداد قومی اخبارات اور سوشل میڈیا میں شائع ہو چکی ہے۔ البتہ حسان بن ثابت نعت ریسرچ سنٹر کی تقریب کے دوران دو کتب کی تقریبِ رونمائی بھی ہوئی، یہ دونوں کتب بطورِ خاص نعت ریسرچ سنٹر کے تناظر میں مرتب ہوئیں۔ ایک کتاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ملفوظات پر مشتمل ہے جس کا عنوان ہے ’’فروغِ عشقِ رسول ﷺ میں نعت کا کردار‘‘ اور دوسری کتاب ’’منہاجِ عشق‘‘ ہے جسے فریدِ ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر محمد فاروق رانا نے مرتب کیا ہے۔ ’’منہاجِ عشق‘‘ چنیدہ شعراء کے منتخب نعتیہ کلام پر مشتمل ہے۔ محمد فاروق رانا نے بڑی عرق ریزی سے زبانِ زدعام رہنے والی نعتوں کو ایک کتاب میں یکجا کر دیا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اللہ تعالیٰ نے زبان و بیان کی پختگی اور اندازِ اظہار کی شائستگی کی نعمت کے بے بہا خزانوں سے نوازا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک ہزار کتب کے مصنف ہیں جن میں سے 6 سو سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں۔ دینی، سماجی، معاشی، اسلامی موضوعات پر تحریر کی گئیں ان کی سیکڑوں کتب میں ’’فروغِ عشقِ رسول ﷺ میں نعت کا کردار ‘‘ ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ بلاشبہ نعت نگاری اور نعت خوانی رب ذوالجلال کا ایک ایسا بے مثال اور لازوال عطیہ ہے جو صرف ان سخن شناسوں، سخن طرازوں اور شعرا و ادباء کو ودیعت کیا جاتا ہے جو حقیقی معنوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے ساتھ بے پایاں عقیدت و محبت کی کیفیات سے لبریز ہوتے ہیں۔ یہ امر شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ فنِ نعت گوئی ہر کس و ناکس کو عطا نہیں ہوتا۔ یہ وصف،نعمت و سعادت صرف ان خوش نصیبوں کا مقدر بنتی ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کے عشق کو اپنی حیاتِ مستعار کا عظیم اثاثہ اور سرمایۂ افتخار جانتے ہیں۔
اگر نعتیہ شاعری کے مختلف ادوارکا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ولادتِ نبوی ﷺ سے قبل ہی نعت کی صنفِ سخن ادب کے منصہ شہود پر جلوہ گر ہو چکی تھی اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ظہورِ قدسی کے بعد اولین کلماتِ حق آپ کی والدہ ماجدہ ہی نے آپ ﷺ کی شان میں ارشاد فرمائے تھے۔ جب حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ نورِ کائنات ﷺ کو عرب روایات کے مطابق پرورش کے لیے لے کر جارہی تھیں تو آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ ؓ کی زبان مبارک سے بے ساختہ یہ اشعار ادا ہوئے جنہیں ولادتِ نبوی ﷺ کے بعد پہلی نعت ہونے کا شرف حاصل ہے جس کا مفہوم ہے ’’میں اپنے بچے کو خدائے ذوالجلال کی پناہ میں دیتی ہوں‘‘۔ نعت کی تاریخ کا جب سرسری سا بھی جائزہ لیا جائے تو دوسری نعت حضور نبی اکرم ﷺ کی رضاعی بہن شیما بنت الحارث سے منسوب ملتی ہے۔ آپ ﷺ کو وہ بہلاتیں تو یہ لوری کہتیں ’’اے پروردگار تو ہمارے محمد ﷺ کو باقی رکھ یہاں تک کہ میں انہیں نوعمر، جوان دیکھ لوں اور پھر انہیں سردار عالی مقام دیکھوں، تو ان کے دشمنوں اور حاسدوں کو یک لخت مغلوب کرنا اور انہیں دائمی عزت و عظمت اور غلبہ عطا فرمانا‘‘۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی اس عظیم الشان کتاب ’’فروغِ عشق رسول ﷺ میں نعت کا کردار ‘‘کے ابتدائیہ میں نعت کی تعریف کے ضمن میں رقم طراز ہیں کہ ’’ ہر امتی کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس سے ذہنی، فکری، عملی، قلبی، حبی اور روحانی تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہو‘‘اور بلاشبہ فرائض میں غفلت کے مرتکب حضرات بھی جب اردو ادب کی عظیم صنف نعت کے ذریعے سیرت الرسول ﷺ کے مختلف گوشوں کی تعریف و توصیف سنتے ہیں تو قلوب و اذہان وجد میں آجاتے ہیں اور یہ خاکی خود کو کسی اور سیارے کی مخلوق تصور کرنے لگتا ہے۔
حقائق و شواہد کی روشنی میں یہ بات تمام تر صداقت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ حبی و قلبی تعلق کو استوار کرنے اور مضبوط تر بنانے میں نعت خوانی کلیدی کردار اداکررہی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری لکھتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی نعت آج پڑھ رہے ہیں جبکہ خالقِ کائنات نے ازل سے ہی حضور نبی اکرم ﷺ کی نعت کی محفل سجارکھی ہے۔ ورفعنا لک ذکرک کا موضوع ہی نعتِ رسولِ مقبول ﷺ ہے۔اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر محبوب پیغمبر ﷺ کا ذکرِ جمیل پیرایۂ نعت میں کیا ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ خالقِ کائنات نے براہِ راست حضور نبی اکرم ﷺ کا نام نامی اسم گرامی لینے کی بجائے کبھی یٰسٓ کہہ کر پکارا، کبھی یاایھا المزمل کہہ کر مخاطب کیا، کبھی یاایھاالمدثر کے لقب سے ملقب کیا۔ اسی طرح کلامِ مجید میں والضحیٰ کہہ کر آپ ﷺ کے رخِ انور کی قسم کھائی اور کہیں والیل کہہ کر آپ ﷺ کی شبِ تاریک کی مانند سیاہ زلفوں کی قسم کھا کر اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔یعنی جدید صنف نعت کا موجد و بانی کلام پاک ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نعت گوئی اور سخن نعت کے ضمن میں خوبصورت الفاظ استعمال کرتے ہوئے لکھا: نعت درحقیقت حضور نبی اکرم ﷺ کے ذکرِ جمیل کا محبت بھرا پیغام ہے۔ شیخ الاسلام لکھتے ہیں کہ نعت کہنا سنتِ الٰہیہ اور نعت سننا سنتِ مصطفی ﷺ ہے۔ سب سے افضل و برتر نعتیہ الفاظ درود پاک کے ہیں جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک اللہ اور اس کے (سب )فرشتے نبی (مکرم) ﷺ پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘ یعنی آپ ﷺ کی تعریف و ستائش ایمان والوں کی نشانی اور وصف ہے۔
نعت کی محافل اللہ رب العزت عرش بریں پر سجاتا ہے اور زمین پر سیرت النبی ﷺ کے منظوم اظہار و بیان کی محافل سجانے والے درحقیقت سنتِ الٰہیہ کی پیروی کررہے ہوتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تک تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا دفاع (بصورتِ شعر) کرتے رہو گے، روح القدس (جبریل علیہ السلام) تمہاری تائید کرتے رہیں گے۔
’’فروغِ عشقِ رسول ﷺ میں نعت کا کردار‘‘ ایک مختصر کتاب ہے مگر اس کا ہر ہر لفظ عشقِ مصطفی ﷺ میں ڈوبا ہوا ہے۔ نعت گوئی کے عظیم فن اور سخن سے وابستہ شعراء اور سیرت النبی ﷺ کے مطالعہ کے متوالے اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، دسمبر 2021ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved