محمد فاروق رانا
مادّی تصورِ حیات کے غلبے کے اس دور میں فروغِ عشقِ رسول ﷺ وقت کی اَہم ضرورت ہے۔ ہر اُمتی کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس سے ذہنی، فکری، عملی، قلبی، حُبّی اور روحانی تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہو اور اس میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔ حقیقت نفس الامری یہ ہے کہ جب اِنسان کسی دینی شخصیت کی تعلیمات کو ذہنی اور فکری طور پر قبول کر لیتا ہے اور وہ اس کے رگ و پے میں لہو بن کر گردش کرنے لگتی ہیں تو اِس سے اُس کے اَفکار و نظریات میں نکھار، بہار، جمال، رعنائی، توانائی اور تقویت پیدا ہوتی ہے۔ اَفکار و نظریات میں اِن اَوصاف کی نمو پذیری سے جو توانائی اور تقویت پیدا ہوتی ہے، اُس کے بطن سے ہی عقیدے کی تولید و تشکیل اور تجسیم ہوتی ہے۔ جب ہم کسی دینی ہستی کی ذات، صفات، اَعمال، اُسوہ، سیرت، سنت اور طرزِ عمل کو اپناتے ہیں تو اس سے ہمارے اندر اِطاعت کا عندیہ اور داعیہ پیدا ہوتا ہے جو فریضہ اِطاعت کی تکمیل میں ممد و معاون ہوتا ہے۔
عمومی مشاہدہ اِس اَمر کی تصدیق و توثیق کرتا ہے کہ جب ہم کسی ذات اور ہستی سے شدید محبت کرتے ہیں تو اُس ہستی سے قلبی و روحانی تعلق کا استوار ہونا ایک فطری اَمر ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات ستودہ صفات سے ہمارے گہرے تعلق کی کلیّت کا تقاضا ہے کہ ہمارے اَفکار و نظریات بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے اَقوال، اَعمال، اَحوال، اَخلاق اور اُسوہ حسنہ کی کامل متابعت کے آئینہ دار ہوں اور زندگی کی ہر سانس، ہر شعبے اور ہر میدان میں آپ ﷺ کی پیروی ہمارا شعارِ زندگی بن جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اَمر بھی اَز بس ضروری ہے کہ ہمارے قلبی، عشقی، روحانی اور حُبّی جذبات اور کیفیات کا ناتا بھی آپ ﷺ کی ذات و صفات سے کلی طور پر منسلک ہو۔ یہی وہ طریقہ ہے جو آپ ﷺ سے ہمارے عشقِ حقیقی کے تعلق کی استواری و آب یاری کرتا ہے۔
آج سے کچھ دہائیاں قبل تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ تصورِ عشقِ رسول ﷺ ماند پڑتا جا رہا تھا۔ کوتاہ بیں اَفراد کے مادّی تصوّرات کے اُڑائے ہوئے دبیز غبار نے حُبِّ رسول کے آئینے کو دھندلا دیا تھا۔ قلوب و اَذہان کے آتش دانوں میں عشق و محبت کی حدت ٹھنڈی پڑ رہی تھی۔ اس سنگین صورتِ حال میں جب ایمان کا گلشن خزاں کے جابر اور سفاک تھپیڑوں کی زد میں تھا، مالکِ دو جہاں نے اپنے بندوں پر کرم فرمایا اور تحریکِ منہاج القرآن کی صورت میں آقا ﷺ کے مبارک نعلین کی خیرات عطا کرتے ہوئے اِسے رواں صدی کی رسول نما تحریک بنا دیا۔ اِس تحریک نے لوگوں کو غلط راستے سے ہٹا کر پھر سوئے کوئے رسول ﷺ گامزن کر دیا۔ اس تحریک کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اپنے قیام سے ہی امتِ مسلمہ اور بالخصوص مسلمانانِ پاکستان کے اندر یہ شعور اُجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ دنیا و آخرت کی کامیابی آقاے دو جہاں ﷺ کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہو جانے میں ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ:
ہر کہ عشقِ مصطفی سامان اوست
بحر و بر در گوشۂ دامان اوست
زانکہ ملت را حیات از عشق اوست
برگ و ساز کائنات از عشق اوست
پچھلی صدی کے اِختتام پر عقیدۂ عشقِ رسول ﷺ کو اِس قدر متنازعہ بنا دیا گیا تھا کہ عشق و محبتِ رسول کی بات کرنا بدعت تصور ہونے لگا تھا۔ اَیسے میں تحریک منہاج القرآن نے عقیدۂ عشقِ رسول ﷺ کے دِفاع اور فروغ کو اَپنے مقاصد میں سرفہرست رکھا۔ اَدب و تعظیمِ مصطفیٰ ﷺ اور عشقِ مصطفی ﷺ پر علمی و عملی ہر دو میدانوں میں ان تھک جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں نوجوان طبقہ پھر سے اَپنے محبوب نبی ﷺ سے والہانہ محبت و عقیدت کا اِظہار کرنے لگا۔ یوں عقیدۂ عشقِ مصطفی ﷺ کو دِفاعی پوزیشن سے نکال کر قرونِ اُولیٰ کی طرز پر غالب پوزیشن پر لا کھڑا کیا گیا۔
تحریک منہاج القرآن نے فروغ عشق رسول ﷺ میں تجدیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس سلسلے میں کیے جانے والے بعض اقدامات درج ذیل ہیں:
منہاج القرآن انٹرنیشنل کی چار دہائیوں سے جاری جدوجہد بتاتی ہے کہ یہ تحریک کوئی روایتی سیاسی یا مذہبی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی قیادت میں مقامی سطح سے لے کر عالمی افق تک تمام چیلنجز سے نبرد آزما ہونے والی تجدیدی تحریک ہے۔ یہ تحریک رسول نما تحریک ہے۔ عشقِ رسول ﷺ تحریک منہاج القرآن کا ایک بنیادی وصف ہے جو اسے دوسری تحریکوں سے ممتاز اور منفرد مقام بخشتا ہے۔ بانی تحریک مجدد رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ نے تحریک کی عمارت کو جن مقاصد پر تعمیر کیا ہے ان میں تعلق باللہ کے بعد دوسرا مقصد ربطِ رسالت ہے۔ تعلق باللہ اور ایمان و عرفان میں بلندیٔ درجات کے لیے عشقِ رسول ﷺ کی ناگزیریت کے بارے شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:
اگر بندہ عشق و محبت اور اطاعت و غلامیِ رسول ﷺ میں خود کو غرق کردے تو اسے ایمان و عرفان میں اتنی بلندی نصیب ہوگی جو حدِ ادراک سے باہر ہے۔
(غلامیِ رسول: حقیقی تقویٰ کی اساس، ص: 38)
چنانچہ تحریک منہاج القرآن نے آغازہی سے فروغ ِ عشقِ رسول ﷺ کے لیے بھر پور کر دار اداکیا۔
شیخ الاسلام نے اپنے خطابات کے ذریعہ عشقِ رسول ﷺ کو فروغ دیا۔ آپ کا خطاب کسی بھی موضوع پر ہو اس کا اختتام عشق و محبت رسول ﷺ پر ہوتا ہے۔ آپ کے خطابات کے عنوانات پر نظر ڈالی جائے تو ہر لفظ سے حب و عشقِ نبی ﷺ کی جھلک ہویدا ہوتی ہے۔
تحریک منہاج القرآن نے آغاز ہی سے اندرون و بیرون پاکستان شیخ الاسلام مدظلہ کے خطابات کا اہتمام کیا، جن میں اکثر کا موضوع ذاتِ مصطفیٰ ﷺ سے تعلقِ حبی و عشقی کو مضبوط کرنا ہوتا تھا۔ بعد ازاں ان خطابات کی آڈیو اور ویڈیو کیسٹس اورسی ڈیز کے ذریعے فروغِ عشق رسول ﷺ کا اہتمام انتہائی منظم اور بھر پور طریقے سے کیا جاتا ہے۔
آج کے دور میں جب ان ذرائع کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے تو تحریک منہاج القرآن انتہائی منظم انداز میں سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم کے ذریعے ان خطابات کو پھیلانے اور فروغِ عشق رسول کا اہتمام کر رہی ہے۔
آج ہر شخص قرآن و سنت کی حقیقی تعبیر و تشریح اور جملہ دینی و عصری علوم میں صحیح رہنمائی کا متلاشی ہے۔ اللہ رب العزت نے دورِ حاضر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو ظاہری اور باطنی علوم کی وسعت عطا فرمائی ہے۔ آپ کو اللہ رب العزت نے 100 سے زائد علوم میں مہارت عطا فرمائی ہے۔ 1000 سے زائد تصانیف، جس میں سے 600سے زائد شائع ہو چکی ہیں، ہزارہا خطابات اور دنیا بھر میں ہر موضوع پر سوال و جواب کی نشستیں انسانیت کی علمی پیاس بجھا رہی ہیں۔ یورپ، امریکہ، مشرقِ وسطیٰ اور بیسیوں ممالک میں آپ کی کتب کے متعدد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں اور تسلسل سے جاری ہیں۔ دنیا بھر میں آپ کے علم سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔
االلہ تعالیٰ نے بانی تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو نہ صرف خطاب کا ملکہ عطا فرمایا ہے بلکہ آپ بہترین محقق اور مصنف بھی ہیں۔ آپ سیوطی و غزالیِ زماں ہیں۔آپ کے تصانیف کا امتیاز یہ ہے کہ حرف حرف عشق ومحبت رسول ﷺ کا اظہار ہوتا ہے۔ تذکارِ رسالت ﷺ پر مشتمل کتب میں ایک ایک سطر عشق میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے۔ آپ کی کتب کا مطالعہ فروغِ عشقِ رسول ﷺ کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ آپ کی تصانیف کے مطالعہ سے شرق تا غرب لاکھوں نوجوان اس کاروانِ عشق ومستی کا ہراول دستہ بنے اور فروغِ عشقِ رسول ﷺ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
فروغِ عشقِ رسول ﷺ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کی جد و جہد کے متعدد پہلوؤں میں سے ایک پہلو عشق و محبت سے لبریز تحریر و تقریر ہے۔ آپ کی ہر تحریر و تقریر کا نچوڑ محبت و اتباع مصطفی ﷺ ہوتی ہے۔ آپ کے اسی وصف کی نمایاں جھلک آپ کے ترجمہ قرآن عرفان القرآن کے اسلوب و بیان میں بھی نظر آتی ہے۔ بلکہ کئی مقامات پر تو یہ وصف اپنے جوبن پر دکھائی دیتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اسے عشق رسول ﷺ میں ڈوب کر لکھا ہے۔ آپ ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات کے لئے الفاظ و تراکیب کا انتخاب کرتے وقت ادب و تعظیم رسول ﷺ کا انتہائی خیال رکھا گیا ہے۔ الغرض! شان مصطفیٰ ﷺ میں نازل ہونے والی آیات بینات کا ترجمہ اس انداز سے کیا گیا ہے کہ قاری کے قلب و ذہن پر عشقِ رسول ﷺ منقش ہوتا چلا جاتا ہے۔
تحریک منہاج القرآن نے فروغ و اشاعت اور ترویج نعت کے لئے بھر پور کردار ادا کیا ہے ۔دنیا بھر میں محافل میلاد اور محافل نعت منعقد کرانے کی تحریک چلانے کی سعادت اللہ رب العزت نے تحریک منہاج القرآن کو عطا کی جس نے جوانوں کے لبوں پر گانوں کی جگہ نعت کے ترانے سجا دیے۔ تحریک منہاج القرآن کی چالیس سالہ جد و جہد فروغِ نعت اور اِحیاے مدحتِ رسول ﷺ کی ایک تابناک تاریخ کا روپ دھار چکی ہے۔ اُس تاریخ کاایک ایک باب اور ایک ایک صفحہ زرّیں حروف سے روشن و درخشاں اور منوّر و تاباں نظر آتا ہے۔
اگر ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ فروغِ نعت کے ذریعہ فروغِ عشقِ رسول ﷺ کیسے ؟ تو جواب یہ ہے کہ فروغِ نعت رسول ﷺ دراصل حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکرِ جمیل ہے جوکہ سنتِ الٰہیہ ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ عبادات نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، تمام اَحکامِ فرائض و واجبات، سنن اور طاعات سمیت سب رسول اللہ ﷺ کی سنتیں ہیں، جب کہ رسول اللہ ﷺ کی مدح کرنا، آپ ﷺ کا ذکر بلند کرنا اور تعریف و توصیف بیان کرنا ذاتِ باری تعالیٰ کی سنت ہیں۔ یوں جو عاشقانِ مصطفی محافلِ نعت سجاتے ہیں۔ درحقیقت وہ سنتِ کبریا بجا لاتے ہیں۔ وہ خود بھی اپنے محبوب کی نعت پڑھتا ہے، اس کے مقرّب فرشتے بھی نعت خواں ہیں اور اَہلِ اِیمان کو بھی وہ زیادہ سے زیادہ نعت یعنی صلوٰۃ پڑھنے کا حکم یوں ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ اللهَ وَمَلٰٓئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.
(الأحزاب، 33: 56)
’’بے شک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبی (مکرمّ ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کو کسی صورت بھی گوارا نہیں ہے کہ اُس کا شریک ٹھہرایا جائے۔ وہ ہر صورت اپنی توحید کو خالص رکھتے ہوئے کسی کو اپنے کام میں شریک نہیں کرتا۔ اس کے برعکس نعتِ مصطفی ﷺ اور ذکرِ مصطفی ﷺ ایسا محبوب عمل ہے کہ اِس میں وہ سب کو شریکِ کار کرتا ہے۔ اس لحاظ سے نعت گو اور نعت خواں کے لیے یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ سنتِ اِلہیہ پر عمل پیرا ہیں۔ نعتِ مصطفی ﷺ بیان کرنا اِتنا منفرد، عظیم اور مبارک عمل ہے کہ اللہ کے برگزیدہ رسول ﷺ اپنی بارگاہ میں اپنی موجودگی میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دیگر نعت خواں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین کو اپنی نعت سنانے کا حکم فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو حضرت حسّان رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا:
إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ لَا یَزَالُ یُؤَیِّدُکَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللهِ وَرَسُوْلِهِ. (متفق علیه)
’’جب تک تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا دفاع (بصورتِ شعر) کرتے رہو گے، روح القدس (جبریل علیہ السلام ) تمہاری تائید کرتے رہیں گے۔‘‘
اِسی طرح سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک اور حدیث مبارک میں ہے:
کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَضَعُ لِـحَسَّانَ مِنْبَرًا فِی الْـمَسْجِدِ، فَیَقُوْمُ عَلَیْهِ یَهْجُوْ مَنْ قَالَ فِی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ: ﷺ إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ مَعَ حَسَّانَ مَا نَافَحَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ. (سنن ابی داؤد)
رسول اللہ ﷺ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد میں منبر رکھوایا کرتے تھے اور وہ اس پر کھڑے ہو کر رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی ہجو (یعنی مذمت) کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک جب تک حسّان اللہ کے رسول ﷺ کا دفاع کرتا رہے گا روح القدس (جبریل علیہ السلام ) بھی (مددگار کے طور پر) حسّان کے ساتھ ہوں گے۔
جولوگ فروغِ نعت میں مصروف رہتے ہیں وہ بڑے خوش بخت ہیں اس لئے کہ نعتِ رسول مقبول ﷺ بیان کرنا سنتِ اِلٰہیہ بھی ہے اور رسولِ مکرم حضرت محمد ﷺ کا پسندیدہ عمل بھی۔ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین، مشائخِ عظام اور اَولیاے کرام سمیت ہر عاشقِ رسول ﷺ کا مرغوب فعل ہے۔ الغرض نعت ہی وہ مبارک عمل ہے، جس کی بدولت عاشقانِ رسول اپنے بے قرار دلوں کو قرار دیتے ہیں اور ہجر کی تلخیوں کو وصل کے شیریں جام میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ تمام عبادات میں محبتِ رسول ﷺ کو اساس کی حیثیت دیتے ہیں۔
غبارِ راهِ مدینہ سے دامنِ شوق معمور نہ ہو تو ایمان کے راستوں پر تشکیک کی دھول اڑتی رہتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے فروغِ عشقِ محمد ﷺ کو ایک تحریک بنا دیا جس نے عملی طور پر ثابت کرکے دکھایا کہ ہر لمحہ حضور ﷺ کا لمحہ ہے اور ہر مہینہ حضور ﷺ کا مہینہ ہے۔ نسلِ نو کو جذباتی عملی، فکری اور روحانی حوالوں سے عشق و حب مصطفی ﷺ کی لذتوں سے آشنا کرنا تحریک منہاج القرآن کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ بالخصوص ہر سال جب ربیع الاول کا چاند نظر آتا ہے تو مرکزی سیکرٹریٹ میں خوشی کے شادیانے بجنے لگتے ہیں۔ روزانہ محفل و ضیافتِ میلاد کا زور و شور سے اہتمام ہوتا ہے۔ اور یہ سلسلہ 12 ربیع الاول تک جاری رہتا ہے۔ عشاقِ مصطفی کا یہ عمل مرکزی سیکرٹریٹ تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ پوری دنیا میں وابستگانِ تحریک شہر شہر، قریہ قریہ،نگر نگر فروغِ عشق رسول ﷺ کے لئے محافل کا اہتمام کرتے ہیں۔
نیز منہاج القرآن اِنٹرنیشنل نے سیرت النبی ﷺ کے فروغ، متابعت و اِطاعتِ رسول ﷺ، دِلوں میں عشقِ مصطفی ﷺ کی شمع روشن کرنے اور دینی و فکری اور اَخلاقی و رُوحانی تربیت کے لیے عالمی سطح پر میلاد کانفرنسز کا آغاز کیا۔ الحمد ﷲ! ہر سال عالمی میلاد کانفرنسز میں پوری دنیا بالخصوص عالمِ عرب سے ممتاز علمی اور رُوحانی شخصیات سمیت لاکھوں کی تعداد میں عُشاقانِ رسول جوق دَر جوق شریک ہوتے اور آقائے دو جہاں ﷺ کی ولادت باسعادت پر اپنے جذباتِ مسرت کا اِظہار کرتے ہیں۔ منہاجُ القرآن کے پلیٹ فارم سے مینارِ پاکستان لاہور میں ہونے والی سالانہ شہرہ آفاق عالمی میلاد کانفرنس فروغِ عشقِ مصطفی ﷺ کے ساتھ ساتھ اِتحاد بین المسلمین اور بین المذاہب رواداری کا اِستعارہ بن چکی ہے۔ اِس وقت تحریک کے پلیٹ فارم سے شرق تا غرب پوری دنیا میں میلاد کانفرنسز اور محافل کا جال بچھا ہوا ہے۔
محافلِ میلاد کا انعقاد اہلِ عشاق کے لیے نسخہ کیمیا سے کم نہیں۔ ان محافل کا مقصد ایسا تعلق و قربت پیدا کرناہے کہ جس سے زنگ آلود دل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عشق سے ضیا بار ہو جائیں۔ نعت خوانی اور درود و سلام ایسے عوامل ہیں جو آقا ﷺ سے قلبی تعلق کو بڑھا کرعشق کی آگ جلا کر قلب و جاں کو اللہ اور اس کے حبیب ﷺ سے جوڑتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس پُر فتن دور میں محافلِ میلاد کا انعقاد ایک نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں۔
ایک مسلمان کی زندگی کی سب سے قیمتی متاع حضورنبی اکرم ﷺ سے قلبی تعلق ہے۔ اِیمان کے وجود، اعمال کی قبولیت اور قربِ الٰہی کا انحصار اسی تعلق کی مضبوطی پراستوار ہے۔ اسلام دشمن قوتوں نے گزشتہ صدی کے دوران مسلمانوں کو اپنے مرکز ایمان سے دور کرنے کے لیے دو فتنوں فتنہ تنقیصِ رسالت اور فتنہ اِنکارِ ختم نبوت کی تخم ریزی کی۔ ان دونوں فتنوں کو پروان چڑھانے کے لئے بد قسمتی سے وطن عزیز پاکستان کو مرکز بنایا گیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اور تحریک منہاج القرآن کی چار دہائیوں کی جد و جہد کے نتیجے میں یہ دونوں فتنے پنپ نہیں سکے۔
تحریک منہاج القرآن کی سب سے بڑی جد و جہد فتنہ تنقیصِ رسالت اور خارجی فکر کے خلاف ہے۔ قریب تھا کہ خارجی فکر سینوں میں روشن محبتِ رسول ﷺ کے چراغوں کو گل کرتے ہوئے مسلمانوں کو حبِ رسول ﷺ اور ایمان کے نور سے محروم کر دیتی، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عِلمی اور عَملی دونوں سطحوں پر جدوجہد کرتے ہوئے دنیا بھر میں ہزاروں میلاد کانفرنسزسے فکری اور روحانی خطابات کیے، گلی محلوں میں لاکھوں محافلِ میلاد منعقد ہوئیں، میلاد النبی ﷺ، عشق و محبتِ رسول ﷺ، عقیدہ رسالت اور سیرت النبی ﷺ کے عنوان سے درجنوں کتب تحریر کی گئیں۔ 37 برس سے مسلسل عالمی میلاد کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے، امت کے کردار و اَخلاق میں اِتباع رسول ﷺ پرزور دیا گیا، دنیا بھر میں ہزاروں حلقات ِدرود اور منہاج القرآن کے مرکز پر گوشہ درود قائم کر کے اِس اُمت کا حضور اکرم ﷺ سے ٹوٹتا ہوا تعلق نہ صرف دوبارہ جوڑا بلکہ مضبوط تر کیا۔
آج رسول نما تحریک، تحریک منہاج القرآن کی 41 سالہ جد و جہد کے نتیجے میں خارجی طرزِفکر کو شکست ِ فاش ہو چکی ہے۔ بیرونی امداد پر خارجیت کو فروغ دینے والے اپنی غلطی کا برملا اعتراف کر رہے ہیں اور تیزی سے عشق و محبت رسول ﷺ کی طرف پلٹ رہے ہیں۔مجددِ رواں صدی کی شبانہ روز کاوشوں سے پوری دنیا پر خارجیت کی حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے اور نئی نسلیں اِس فتنے سے محفوظ ہو رہی ہیں۔
اس سلسلہ کا دوسرا فتنہ انکارِ ختم نبوت تھا۔ یوں تو اس فتنہ کے خلاف ملک بھر کے مسلمانوں نے بھرپور جد و جہد کی اور منکرین ختم نبوت کو غیرمسلم اقلیت قرار دے کر اِس فتنے کا خاتمہ کر دیا تھا۔ 1984ء اور 1988ء میں جب اِس فتنے نے دوبارہ سر اٹھایا تو کمرہ عدالت میں دلائل دینے ہوں یا مینار ِپاکستان کے گراؤنڈ میں عالمی ختم نبوت کانفرنس میں مناظرے و مباہلے کا چیلنج ہو،اس تجدیدی تحریک نے ہر میدان میں ا ِس فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اس پر مستزاد کئی مؤقر اور تاریخی کتب کے ذریعے اِس فتنے کی حقیقت سب پر طشت اَز بام کی۔
معاصر اسلامی تحریکوں میں تحریک منہاج القرآن فروغِ عشقِ محمد اور تحفظِ ناموسِ رسالت کی تحریک ہے۔ جب وطنِ عزیز میں تحفظِ ناموسِ رسالت کا چیلنج پیش آیا توشیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علمی و عملی دونوں محاذوں پر ناموسِ رسالت کا حقیقی دفاع کیا۔واضح رہے کہ گستاخی رسالت پر موت کی سزا کا قانون اس سے قبل موجود نہ تھا۔1985ء میں وفاقی شرعی عدالت میں اس قانون پر بحث کا آغاز ہوا تو ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس پر تین دن تک مسلسل بھرپور دلائل دیے۔ عدالت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دلائل کی روشنی میں حتمی فیصلے تک پہنچی اور قانون کا مسودہ تیار کیا گیا جسے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے بطور آرڈیننس جاری کیا۔ بعد ازاں قومی اسمبلی نے منظور کرکے 295C قانون کی شکل میں نافذ کر دیا۔
جب بین الاقوامی سطح پر اَمن اور انسانیت دشمن طاقتوں اور طبقات کی جانب سے گستاخی رسالت کے ذریعے مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے عالمی رہنماؤں کو خطوط تحریر کرکے تمام مذاہب کے رہنماؤں کے احترام کے لیے قوانین وضع کرنے کی دعوت دی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے چند سال قبل ڈنمارک میں منعقدہ کانفرنس میں یہودیوں اور مسیحیوں کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ان پر واضح کیا کہ انبیاء کی گستاخی کی سزا کے قانون کی ابتداء سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور اقدس میں ہوئی۔ان کے دور میں اللہ،نبی اور آسمانی کتاب کی گستاخی پر سنگ سار کرنے کی سزا مقرر تھی اور اس قانون پر سزائیں بھی دی گئیں۔یہ قانون سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دور تک جاری رہا۔ شیخ الاسلام نے واضح کیا کہ ہمارے نبی ﷺ نے سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بنائے ہوئے قانون کو جاری (continue) رکھا ہے۔
شیخ الاسلام کی اس علمی جدوجہد کے نتیجے میں الحمد للہ گستاخی کے اس فتنے کی روک تھام کا سلسلہ جاری ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ سے قلبی و حُبّی تعلق کی پختگی کے لیے تحریکِ منہاجُ القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر اپنی نوعیت کا منفرد مقام گوشہ درود و فکر بھی ہے۔ یہاں گوشہ نشینان ہفتے کے7 دن 24 گھنٹے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں درود و سلام کے نذرانے پیش کرتے ہیں اور قرآن فہمی کے لیے تلاوتِ قرآن مجید کا شرف بھی پاتے ہیں۔ اِس وقت گوشہ درود و فکر کے تحت پوری دنیا میں حلقہ ہاے درود کا نیٹ ورک نہایت کام یابی سے چل رہا ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر قائم گوشہ درود اپنی مثا ل آپ ہے۔ اس مرکزی گوشہ درود اور ملک کے طول عرض اور بیرون ملک حلقاتِ درودوفکر کے قیام کا مقصد ہر لمحہ آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کی توجہات کا حصول،حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کی بخشش اور معاشرے میں فکر و شعور کا فروغ ہے۔ درود و سلام کی یہ تحریک کارکنان کی اخلاقی و روحانی تربیت، نئی نسلوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت پیدا کرنے اورعوام الناس کو تحریک کی دعوت کا ذریعہ بھی ہے۔مرکز سالانہ 750 سے زائد افراد کے لئے 365 دن مرکزی گوشہ درود و فکر میں قیام و طعام کا انتظام کرتا ہے خوبصورت اور خوش گوار روحانی و ایمانی ماحول فراہم کرتا ہے اور ان کی تربیت کر کے انہیں دین کی طرف مائل کرتے ہوئے رفیق بناتا ہے۔ گوشہ نشینان جب حلقاتِ درود میں حبِ رسول ﷺ کی لذتوں اور حلاوتوں سے سرشار ہو کر درود و سلام کے گجرے پیش کر رہے ہوتے ہیں تو آسمانوں سے فرشتے بھی ان پر رشک کرتے ہوں گے۔
دورِ حاضر میں پوری دنیا انٹر نیٹ کے ذریعے عالمی گاؤں کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ انٹرنیٹ وہ تیز ترین اور جدید ترین ذریعہ دعوت ہے جس کے ذریعہ لمحوں میں دنیا بھر میں دعوت کو عام کیا جا سکتا ہے۔تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل نے انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی غیر معمولی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے حضور شیخ الاسلام کی تمام تصانیف اور خطابات کو upload کرکے فروغِ عشقِ رسول میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔
دورِ حاضر میں اسلام دشمن طاقتیں منظم ہو کر مسلمانوں کے دلوں سے عشق مصطفیٰ ﷺ کو نکالنے کے لیے علمی، فکری اور عملی محاذوں پر سازشوں میں مصروف ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر مسلمانوں کے دل جذبہ عشق و محبت سے خالی ہوگئے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلا سکتی ہے نہ اصلاح و تجدید کی کوئی تحریک انہیں اپنی منزلِ مراد تک پہنچا سکتی ہے۔ مغربی استعمار کی اس سازش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز ویمن سے نکال دو
عالمِ کفر اِسلام کی اِبتدا سے ہی اِس جدوجہد میں مصروف ہے کہ کسی طرح رُوحِ محمد اِسلام کے بدن سے نکال دی جائے، عالمِ کفر کی اِنہی سازشوں کے باعث چند دہائیاں قبل ملک کے طول و عرض میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس مناظروں کا موضوع بن چکی تھی، حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات، علم، شفاعت، توسل اور اِستعانت کی شانوں کا نہ صرف کھلا اِنکار کیا جا چکا تھا بلکہ دُشمنانِ رسول انہیں شرک قرا ر دیتے، کہیں میلادُ النبی ﷺ کے عقیدے کو بدعت قرار دیا جاتا تو کہیں محفلِ نعت اور ذکرِ رسول ﷺ پر فتوی زنی کی جاتی۔ الغرض عقیدۂ رسالت ہر جہت سے دُشمنانِ اسلام کے حملوں کی زد میں تھا۔
ایسے میں قائدِ تحریکِ منہاجُ القرآن مجددِ دین و ملت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے پاسبانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے تحریر، تقریر اور دعوت وتبلیغ ہر میدان میں کفر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آپ نے علمی و فکری اور عملی سطح پر محبتِ رسول کو ایک تحریک کی شکل دے کر ایسی جدوجہد کا آغاز کیا کہ نہ صرف پاکستان کے طول و عرض بلکہ دُنیا بھر میں ذکر مصطفی ﷺ کا غلغلہ مچ گیا۔
آپ نے ایک طرف عقیدۂ رسالت کے باب میں حقیقتِ توحید و رسالت، حیاۃُ النبی ﷺ، میلاد النبی ﷺ، مسئلہ اِستغاثہ، عقیدۂ شفاعت، عقیدہ توسل، عقیدہ علمِ غیب اور شانِ رسالت سے متعلقہ 60 سے زائد کتب تحریر فرما کر علمی بدعقیدگی کے طوفان کا رُخ موڑا تو دُوسری طرف ورفعنا لک ذکرک کے فیض سے دامن بھر کر سیرت و میلاد، فضائل و شمائل اور خصائصِ نبوی ﷺ جیسے سیکڑوں موضوعات پر ہزاروں کی تعداد میں خطابات فرما کر عقیدۂ رسالت کا ایسا دفاع کیا کہ مُنکرینِ ذکرِ رسول بھی سیرت و میلاد کانفرنسز کے اِنعقاد پر مجبور ہو گئے۔ یہ تحریک منہاج القرآن کی 41 سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ جہاں ماهِ میلاد میں مساجد میں چند پروگراموں کا اِنعقاد غنیمت سمجھا جاتا تھا، اب وہاں ملک کے بڑے بڑے شادی ہالوں، کھلے میدانوں اور گھروں میں پورا سال ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں محافلِ میلاد منعقد ہوتی ہیں۔
بلا شبہ تحریکِ منہاج القرآن عشقِ رسول ﷺ کافیضان ہے۔ اسی لئے عشقِ رسول ﷺ تحریکِ منہاج القرآن میں روحِ رواں کا درجہ رکھتا ہے۔ سفیر عشق رسول شیخ الاسلام کے نزدیک عشقِ رسول ﷺ ایک ایسا مرکز و محور ہے جس کے گرد روح ارضی وسماوی طواف کرتی ہے۔ ملتِ اسلامیہ کے دلوں کو ادب و تعظیم رسول ﷺ کے آداب سے آشنا کرنے کے لئے آپ اپنی تمام فکری، نظری، علمی، عملی، روحانی اور قلمی صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ آپ بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ جب تک ملتِ اسلامیہ عشق رسول ﷺ کو زادِ راہ نہیں بنائے گی، اس وقت تک منزل آشنا نہیں ہو سکے گی۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2021ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved