ڈاکٹر حافظ محمد سعداللہ
حضور نبی اکرم ﷺ از روئے قرآن چونکہ آفاقی اور دائمی نبی اور رحمۃ للعالمین بھی ہیں اس لیے آپ ﷺ نے دنیا کو جو پیغام، پروگرام اور حکومتی، سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی نظام دیا، اس کا ایک بڑا مقصد دنیا بھر سے ظلم و ناانصافی کا خاتمہ، انسانیت کی تعظیم و تکریم، انسان کے بنیادی حقوق کی حفاظت تمام اسبابِ فتنہ کا قلع قمع اور جرائم کی بیخ کنی کے ذریعے عالمی سطح پر امن و امان کا قیام اور ہر انسان کے جان و مال اور عزت و آبرو کے لیے تحفظ و سلامتی کا سامان کرنا بھی تھا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی ساری زندگی اور اعلانِ نبوت سے پہلے اور بعد کا طرزِ عمل اور متعدد اقدامات امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جنہیں ہم حضور ﷺ کی حد درجہ دور اندیشی، زیرکی، باطنی بصیرت، انتہاء درجے کی عقلمندی، معاملہ فہمی اور صبر و برداشت جیسے اوصاف حمیدہ یا نورِ نبوت کا نتیجہ قرار دے سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایامِ شیر خوارگی اور بالکل بچپن میں بھی آپ ﷺ کے طور اطوار اور بعض عادات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ امن پسندی اور صلح جوئی آپ ﷺ کی سرشت اور جبلت و فطرت میں داخل تھی۔ قاضی سلیمان منصور پوری لکھتے ہیں:
’’نبی ﷺ کے والدین کے اسماء پر نظر کرو، اس زمانہ کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے ہر ایک مؤرخ تعجب کرے گا کہ ایسے پاک نام کیوں کر رکھے گئے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بھی ارہاصِ نبوت تھا، جس بچے کو باپ کے خون سے عبودیتِ الہٰی اور ماں کے دودھ سے امنِ عامہ کی گھٹی ملی ہو، کچھ تعجب نہ کرنا چاہیے کہ وہ محمود الافعال حمید الصفات ہو اور تمام دنیا کی زبان سے محمد ﷺ کہلائے۔
(رحمة للعالمین، 2: 93)
نبی رحمت ﷺ آج کل کی بعض بڑی طاقتوں اور سیاستدانوں کی طرح امن و سلامتی کے زبانی کلامی دعویدار نہیں تھے بلکہ آپ ﷺ نے امن و سلامتی کا ایک اعلیٰ نمونہ بن کر دکھایا۔ امن و سلامتی کی تعلیمات و ہدایات اور بدامنی کے تمام اسباب و محرکات کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ نے زندگی بھر اعلانِ نبوت سے پہلے اور بعد امن و سلامتی اور صلح و آشتی کے لیے حلف الفضول میں شرکت، قریشِ مکہ کی ایذا رسانی پر صبر، ہجرتِ حبشہ، ہجرتِ مدینہ، میثاقِ مدینہ اور اس جیسے متعدد اقدامات فرمائے۔ ذیل میں امن و سلامتی کے لیے اٹھائے گئے آپ کے چند نادر اقدامات کا تذکرہ کیا جارہا ہے:
حضور نبی اکرم ﷺ کی امن پسندی، لڑائی جھگڑے اور دنگا فساد سے گریز، امن و امان کی خاطر اپنی اَنا کو آڑے نہ آنے دینے اور صلح جوئی کا سب سے بڑا ثبوت حدیبیہ کے مقام پر اہلِ مکہ کے ساتھ دس سال کے لیے جنگ بندی اور صلح کا تاریخی معاہدہ ہے۔ اس معاہدہ کے پس منظر اور پیش آمدہ واقعات کی تفصیل حدیث و سیرت کی تمام کتابوں میں موجود ہے۔ اہلِ علم سے یہ امر مخفی نہیں کہ اس موقع پر چودہ سو جانثار صحابہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے جنہوں نے مر مٹنے پر دستِ نبوی ﷺ پر بیعت بھی کرلی تھی اور ان میں وہ جانباز بھی موجود تھے جنہوں نے میدانِ بدر میں اہلِ مکہ کے ایک ہزار جنگجوؤں پر مشتمل مسلح لشکر کو شکست دی تھی۔ یہ مسلمان یقینا اس پوزیشن میں تھے کہ اگر حضور نبی اکرم ﷺ اشارہ فرمادیتے تو قریش کے نہ چاہنے کے باوجود وہ زبردستی مکہ میں داخل ہوجاتے اور عمرہ کرکے ہی واپس ہوتے مگر آپ ﷺ نے شہرِ حرم کی حرمت، بعض بڑے مقاصد اور امن کی خاطر اہلِ مکہ کی من مانی شرائط پر ہی جنگ کی بجائے صلح کو ترجیح دی۔
ان شرائط سے شکست خوردگی کاتاثر مل رہا تھا۔ ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر قریش کا کوئی آدمی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آپ کے پاس چلا آئے گا تو آپ ﷺ اسے واپس لوٹائیں گے اور اگر آپ ﷺ کا کوئی آدمی قریش کے پاس چلا آیا تو وہ اسے واپس نہیں بھیجیں گے۔ مسلمانوں کو یہ شرائط اور اتنا دب کر اور مرعوب ہوکر صلح کرنا ہضم نہیں ہورہا تھا۔ ان میں شدید بے چینی کی فضا پیدا ہوگئی تھی حتیٰ کہ حضرت عمر فاروقؓ سے زیادہ دیر ضبط نہ ہوسکا اور انہوں نے ایمانی حمیت و غیرت میں حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے جسارت کرتے ہوئے اپنے تحفظات اور اشکالات کا اظہار بھی کر ڈالا جس کا انہیں زندگی بھر افسوس رہا اور اس کی تلافی کے لیے نفلی عبادات اور صدقہ خیرات بھی کرتے رہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے نورِ نبوت سے اس صلح میں متعدد قسم کی فتوحات پر مشتمل جو ’’فتح مبین‘‘ اور جنگ بندی اور امن وامان کے نتیجے میں اسلام کا فروغ اور اللہ کی منشا دیکھ رہے تھے، وہ حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہ کو نظر نہیں آرہی تھی۔ اس لیے آپ ﷺ نے ان کی تسکین اور ہر قیمت پر معاہدہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پورے وثوق اور اللہ پر بھرپور اعتماد سے صحابہؓ پر واضح فرمایا:
انا عبدالله و رسوله لن اخالف امره ولن یضیعنی.
(صحیح بخاری، کتاب الشروط باب الشروط فی الجهاد و المصالحة، 1: 380)
’’میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں ہر گز اس کے حکم کے خلاف نہیں کروں گا اور وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں ہونے دے گا‘‘۔
معاشرے میں امن و سلامتی کے فروغ کے لیے اٹھائے گئے اقداماتِ نبوی ﷺ میں سے ایک انتہائی مؤثر قدم دوسرے مذاہب کی تصدیق و تصویب بھی ہے۔ بدامنی، لڑائی جھگڑا، باہمی عداوت و نفرت اور عدمِ تحفظ و سلامتی کا ایک بہت بڑا سبب مذہبی تعصب یا دوسرے مذاہب و ادیان کی تکذیب اور ان مذاہب کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچانا ہے۔ بعثتِ نبوی ﷺ کے وقت یہود و نصاریٰ میں مذہبی تعصب اس حد تک موجود تھا کہ ان میں سے ہر ایک اپنے سوا باقی تمام مذاہب کوجھوٹا اور نجات کے لیے کافی نہیں سمجھتا تھا۔ قرآن مجید نے ان کی اس ذہنیت اور سوچ کا پردہ چاک کیا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیْئٍ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰی لَیْسَتِ الْیَهُوْدُ عَلٰی شَیْئٍ وَّهُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ط کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَیَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ج فَااللهُ یَحْکُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ.
(البقرة، 2: 113)
’’اور یہود کہتے ہیں کہ نصرانیوں کی بنیاد کسی شے (یعنی صحیح عقیدے) پر نہیں اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودیوں کی بنیاد کسی شے پر نہیں، حالانکہ وہ (سب اللہ کی نازل کردہ) کتاب پڑھتے ہیں، اسی طرح وہ (مشرک) لوگ جن کے پاس (سرے سے کوئی آسمانی) علم ہی نہیں وہ بھی انہی جیسی بات کرتے ہیں، پس اللہ ان کے درمیان قیامت کے دن اس معاملے میں (خود ہی) فیصلہ فرما دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہتے ہیں۔‘‘
اس کے برعکس نبی رحمت ﷺ نے پیمبرِ امن و سلامتی ہونے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کبھی نہیں کہا کہ دنیا کے دیگر مذاہب جھوٹے اور ان کی ماننے والے جہنمی ہیں بلکہ اعلان فرمایا کہ دنیا کا ہر مذہب اپنی اصل میں سچا اور خدا کی طرف لے جانے والا ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی تحریف اور حذف و اضافہ نہ ہوا ہو۔
اسی طرح 7ھ میں آپ ﷺ نے قیصرِ روم اور شاہ حبشہ وغیرہ عیسائی حکمرانوں کے نام جو دعوتی خطوط ارسال فرمائے۔
(صحیح بخاری، کتاب الجهاد باب دعاء النبیؐ الی الاسلام والنبوة، 1: 412۔413)
ان میں یہ درج نہ تھا کہ عیسائیت جھوٹا مذہب ہے اسے ترک کردو بلکہ انہیں دعوت دی گئی جسے قرآن نے یوں بیان فرمایا:
قُلْ یٰـٓاَهْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآءٍ م بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِکَ بِهٖ شَیْئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ.
(آل عمران، 3: 164)
’’اے اہلِ کتاب (الہامی کتاب کے ماننے والو)! آؤ ایک ایسے کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم خدا کو چھوڑ کر اپنے میں سے بعض کو رب نہ بنالیں۔‘‘
اس سے بڑھ کر صلحِ کل، رواداری، وسعت قلبی اور فراخ نظری کا مظاہرہ کیا ہوسکتا ہے۔ سید سلیمان ندوی کے الفاظ میں ’’ایک یہودی کے لیے حضرت موسیٰؑ کے سوا کسی اور پیغمبر کو ماننا ضروری نہیں، ایک عیسائی تمام دوسرے پیغمبروں کا انکار کرکے بھی عیسائی رہ سکتا ہے، ایک ہندو تمام دنیا کو ملیچھ شودر اور چنڈال کہہ کر بھی پکا ہندو رہ سکتا ہے، ایک زرتشتی تمام عالم کو بحرِ ظلمات کہہ کر بھی نورانی ہوسکتا ہے اور وہ حضرت ابراہیم و موسیٰf کو نعوذ باللہ جھوٹا کہہ کر بھی دینداری کا دعویٰ کرسکتا ہے، لیکن محمد رسول اللہ ﷺ نے یہ ناممکن کردیا ہے کہ کوئی ان کی پیروی کا دعویٰ کرکے ان سے پہلے کسی پیغمبر کا انکار کرسکے۔‘‘
(شبلی نعمانی، سیرة النبی، 4: 311)
حضور نبی اکرم ﷺ کے غزوات کو دیکھتے ہوئے کسی ظاہر بین اور سطحی آدمی کے ذہن میں یہ خیال آسکتا ہے کہ گزشتہ تصریحات کے مطابق جب حضور اکرم ﷺ پیمبرِ امن و سلامتی تھے تو آپ ﷺ نے بنفسِ نفیس 28 غزوات کی کمان کیوں فرمائی؟ علاوہ ازیں متعدد جنگی دستے یا مہمات (سرایا) کیوں بھیجی گئیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ غزوات اور سرایا بھی محض اپنی جان و مال، ریاست اور دین کی حفاظت اور بچاؤ کے لیے تھے۔ چنانچہ محض دعوت و تبلیغِ دین کے ’’جرم‘‘ میں تیرہ سال تک اہلِ مکہ کے مظالم برداشت کیے، شعبِ ابی طالب میں محصور حتی کہ اپنے آبائی اور محبوب وطن اور گھر بار چھوڑنا قبول کرلیا مگر بلد امین کے امن و امان میں کسی قسم کا خلل ڈالنا پسند نہ فرمایا لیکن اہلِ مکہ نے خدا واسطے کے بغض اور اپنی رعونت و بڑائی کے بے بنیاد زعم میں اہلِ ایمان کو جب مدینہ منورہ میں بھی امن و امان سے نہ رہنے دیا، ان کے جان و مال کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئے تو حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ قدم اٹھایا۔ اگر مشرکینِ مکہ کی طرف سے ریاستِ مدینہ کے امن کو سبوتاژ نہ کیا جاتا، جان بوجھ کر چھیڑ چھاڑ نہ کی جاتی، حالات خراب کرنے کی کوشش نہ کی جاتی اور مدینہ پر چڑھائی نہ کی جاتی تو شاید جنگ کی کبھی نوبت نہ آتی مگر ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق نبی رحمت ﷺ کو بھی میدانِ جنگ میں آنا پڑا۔ اس اجمال کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ:
1۔ حضور نبی اکرم ﷺ اور اہلِ ایمان جب مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ میں آگئے تو اہلِ مکہ کو اب اطمینان ہوجانا چاہیے تھا کہ ’’دشمن‘‘ بھاگ گیا مگر انہوں نے جس طرح حبشہ میں مہاجرین کا پیچھا کیا اسی طرح یہاں بھی حضور ﷺ کا پیچھا کیا اور سنن ابی داؤد کے مطابق وہاں کے رئیس عبداللہ بن ابی کو یہ دھمکی آمیز خط لکھا کہ:
’’تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو (اپنے ہاں) پناہ دی ہے۔ ہم لوگ تمہیں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ تم لوگ ہر قیمت پر اس سے جنگ کرو یا اسے اپنے شہر سے نکال دو، ورنہ ہم سب تمہاری طرف کوچ کریں گے حتی کہ تمہارے ساتھ جنگ کریں گے اور تمہاری عورتیں باندیاں بنالیں گے۔ یہ خط عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی مشرکوں کو موصول ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ سے جنگ کے لیے جمع ہونے لگے۔ یہ صورتِ حال حضور ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپ ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ قریش مکہ کی جو دھمکی تمہیں موصول ہوئی ہے، وہ تمہیں اتنا نقصان نہیں پہنچائے گی، جتنا تم خود اپنے آپ کو پہنچانا چاہتے ہو۔ وہ یہ کہ تم اپنے ہی بیٹوں اور بھائیوں سے جنگ کا ارادہ کررہے ہو۔ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے یہ حکمت بھری بات سنی تو منتشر ہوگئے‘‘۔
(ابوداؤد، السنن، رقم الحدیث: 3004)
2۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے مدینہ منورہ میں آجانے کے بعد معروف انصاری صحابی حضرت سعد بن معاذ عمرہk کی نیت سے مکہ پہنچے اور اپنے دیرینہ دوست اور مکہ کے ایک رئیس امیہ بن خلف کے ہاں قیام کیا تو اسے کہا کہ کچھ دیر کے لیے میرے ساتھ چلو تاکہ میں بیت اللہ کا طواف کرلوں۔ دوپہر کے قریب میزبان اپنے مہمان کو لے کر نکلا تو ان دونوں سے ابوجہل کی ملاقات ہوگئی۔ ابو جہل نے امیہ سے پوچھا کہ یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ اس نے بتایا کہ یہ سعد (بن معاذ) ہیں تو ابوجہل نے حضرت سعد سے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بڑے اطمینان سے مکہ میں گھوم رہے ہو ،حالانکہ تم نے صابیوں (مسلمانوں) کو پناہ دے رکھی ہے اور یہ سمجھتے ہو کہ ان کی مدد اور اعانت کرو گے۔ قسم بخدا! اگر تو ابو صفوان (امیہ) کے ہمراہ نہ ہوتا تو اپنے اہلِ خانہ کی طرف سلامت نہ لوٹتا۔ حضرت سعدg نے گرجدار آواز میں جواب دیا: اللہ کی قسم! اگر تو نے مجھے اس (عمرہ) سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں گا جو تمہارے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ ہوگی یعنی تمہارا شام کا تجارتی راستہ بند کردوں گا جو مدینہ سے گزرتا ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب ذکر النبی من یقتل ببدر، ص: 322، رقم: 3950)
3۔ غزوہ بدر سے قبل مسلمانوں اور اہلِ مکہ کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئیں جن کا سبب قریش کی غارت گری تھا۔ وہ مدینہ منورہ کے اردگرد آکر مسلمان چرواہوں کو قتل کردیتے اور ان کے جانور لوٹ کر لے جاتے۔ جیسا کہ زین جابر فہری نے اس طرح کی غارت گری کی تھی۔
(شبلی نعمانی، سیرة النبی، 1: 193)
4۔ غزوہ بدر کے موقعہ پر اہلِ مکہ ایک ہزار کے مسلح لشکر کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کرنا چاہتے تھے جنہیں حضورنبی اکرم ﷺ نے بدر کے مقام پر روکا اور تائید ایزدی سے انہیں شکست دی۔
5۔ غزوہ احد کے موقع پر بھی اہلِ مکہ تین ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ پر چڑھ دوڑے۔ حضور ﷺ نے اپنے دفاع میں ان سے جنگ لڑی۔
6۔ غزوہ خندق (احزاب) میں بھی اہلِ مکہ نے دیگر قبائل کو ساتھ مل کر چوبیس ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ کا گھیراؤ کیا اور حضور ﷺ نے خندق کھود کر شہر کا دفاع ممکن بنایا۔
غرض یہ کہ ابتدائی غزوات نبوی ﷺ خالصتاً اپنے دفاع میں تھے جبکہ بعد کے غزوات مثلاً غزوہ خیبر، غزوہ حنین، فتح مکہ اور غزوہ تبوک وغیرہ میں اگرچہ پیش قدمی کی گئی مگر وہ اس لیے کہ سر پر منڈلاتے خطرات اور سازشیں مزید شدت اختیار نہ کرجائیں اور مخالف قوتیں اس نظام یا دین کو سرے سے ختم کردینے کی پوزیشن میں نہ آجائیں جس کی تبلیغ و نفاذ اور غلبہ کے لیے آپ ﷺ تشریف لائے تھے۔ دشمن کی سازش کو ناکام بنانا اور اس کا زور توڑنا مخالف طاقت پر ظلم اور بدامنی پیدا کرنے کے زمرے میں نہیں آتا۔
نبی رحمت ﷺ نے ہر ایسے امر سے منع فرمایا اور اس کی مذمت و شدت فرمائی جو معاشرے کے امن و امان میں خلل انداز یا اشتعال انگیزی اور لڑائی جھگڑے کا باعث و سبب بن سکتا ہے اور ایسے تمام امور کی حوصلہ افزائی، فضیلت اور تعریف و توصیف بیان فرمائی ہے جو معاشرے میں باہمی محبت رواداری اور صلح و آشتی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان تمام امور کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔ ذیل میں زیر بحث موضوع کی وضاحت کے لیے چند امور کی طرف اشارہ کافی ہوگا:
معاشرے میں فتنہ و فساد، خونریزی، زیادتی اور پھر بدامنی کا ایک بڑا سبب تنگ نظری ہے۔ تنگ نظری کا معنی رنگ، نسل، وطن اور عقیدہ و مذہب میں اختلاف کی بنیاد پر اپنے مخالف کو برداشت نہ کرنا، اسے قبول نہ کرنا، اسے دیکھ نہ سکنا اور اس سے زندگی کا حق بھی چھین لینے کی کوشش کرنا ہے۔ نبی رحمت ﷺ نے ایک مملکت کا سربراہ ہوتے اور تمام وسائل و اختیارات اور طاقت ہوتے ہوئے بھی جس طرح اپنے مخالفین اور ان کی شرارتوں اور بدتمیزیوں کو برداشت فرمایا اور ان کے ساتھ وسعتِ قلبی، رواداری، درگزر اور صلح و آشتی کا معاملہ فرمایا اس کی نظیر آسمان کی آنکھ نے نہ کبھی پہلے دیکھی تھی اور نہ آج تک دیکھ سکی ہے۔ قاضی عیاضؒ اور دوسرے محدثین و سیرت نگاروں نے حضور ﷺ کی ’’صفتِ حلم‘‘ کی وضاحت و تفصیل میں متعدد مثالیں بیان کی ہیں۔ یہاں صرف ایک بے نظیر مثال کا ذکر کافی ہوگا:
نجران کے عیسائی وفد کے ساتھ مذاکرات اور گفتگو کے دوران ان کی عبادت کا وقت ہوگیا تو آپ ﷺ نے کھلے دل سے انہیں مسجد نبوی ﷺ میں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ صحابہ کرامl نے انہیں روکنا چاہا تو فرمایا: ’’دعوھم‘‘ انہیں چھوڑ دو اور اپنے طریقے کے مطابق نماز پڑھنے دو۔ پھر اسلام سے ان کے انکار کے باوجود انہیں امان نامہ بھی عنایت فرمایا۔
(ابن قیم الجوزیه: زاد المعاد، 3: 629)
انسانی معاشرے میں نقضِ امن کے اسباب و وجوہات میں سے ایک بڑا سبب عصبیت بھی ہے۔ عصبیت یہ ہے کہ آدمی کسی کی محض اس بنیاد پر حمایت کرے کہ وہ اس کی قوم اور برادری سے تعلق رکھتا ہے، چاہے وہ ناحق، غلط اور دوسرے پر ظلم کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔ حضور اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ:
أمن العصبیة ان یحب الرجل قومه؟
’’کیا یہ بات عصبیت میں داخل ہے کہ آدمی اپنی قوم کے ساتھ محبت رکھے۔‘‘
فرمایا:
لا ولکن العصبیة ان ینصر الرجل قومه علیٰ الظلم.
(مشکوٰة المصابیح، ص: 418)
’’نہیں، بلکہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی ظلم پر بھی اپنی قوم کی مدد کرے۔‘‘ مزید فرمایا:
’’وہ شخص ہم (مسلمانوں) میں سے نہیں جس نے (دوسرے لوگوں کو) عصبیت کی طرف بلایا اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جس نے محض عصبیت کی بنا پر (کسی دوسرے سے) جنگ کی اور وہ آدمی بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت کے جذبہ پر مرگیا۔‘‘
احادیث میں ’’مامنّا‘‘ اور ’’لیس منّا‘‘ یا ’’لیس منّی‘‘ کے الفاظ حد درجہ زجر و توبیخ اور تنبیہہ کے لیے آتے ہیں۔ یہ جملہ عموماً آپ ﷺ کی زبان پر اس وقت آتا جب کوئی کام کفر سے قریب اور ایمان کے منافی ہوتا۔ پھر ایک مسلمان کے لیے نبی رحمت ﷺ کی طرف سے لاتعلقی کے اعلان سے بڑھ کر بڑی بدنصیبی اور بدبختی یا سزا کیا ہوگی۔
کسی آدمی کی طرف اسلحہ سے اشارہ کرنے میں چاہے وہ مذاق میں ہی ہو، ایک تو اس بات کا خدشہ ہے کہ مشارٌ الیہ آدمی خوف زدہ ہوگا اور اچانک خوف زدہ ہونے میں انسان کو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ دوسرا اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اسلحہ غیر ارادی طور پر چل جائے اور سامنے والا آدمی جان سے جائے اور یہ چیز باہمی خونریزی اور پھر معاشرے میں بدامنی کا ذریعہ بن جائے۔ اس لیے ’’سدّذریعہ‘‘ کے طور پر نبی رحمت ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمادیا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لایشیر احدکم الی اخیه بالسلاح فانه لا یدری احدکم لعل الشیطان ینزع فی یده فیقع فی حفرة من النار.
(مسلم: الصحیح ، کتاب البر والصلة والادب، رقم: 2617)
’’تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ شاید شیطان (اسے غصہ دلادے اور) اس کے ہاتھ میں کپکپی طاری کردے پھر وہ (بے گناہ قتل کی سزا میں) جہنم کی آگ میں جاگرے‘‘۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
من اشار الیٰ اخیه بحدیدة فان الملئکة تلعنه حتی یدعه وان کان اخاه لابیه وامه.
(مسلم: الصحیح ، کتاب البر و الصلة والادب، رقم: 2616)
جس آدمی نے اپنے بھائی کی طرف کسی آہنی ہتھیار سے اشارہ کیا تو فرشتے اس پر لعنت (رحمتِ الہٰی سے دوری کی بد دعا) بھیجتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس اشارہ کو ترک کردے چاہے وہ اس کا حقیقی بھائی بھی کیوں نہ ہو۔
اب بھائی مسلمان کے علاوہ غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے۔ گویا غیر مسلم کو بھی اس انداز میں ڈرانا دھمکانا جائز نہیں۔
کسی کو ڈرانا اور خوفزدہ کرنا بھی چونکہ انسان کے ذہنی اطمینان اور امن و امان میں خلل انداز ہوتا ہے، چاہے وہ ہنسی مزاح میں ہی کیوں نہ ہو اس لیے نبی رحمت ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا:
لایحل لسملم ان یروع مسلما.
(ابوداؤد: السنن، رقم: 501)
’’کسی مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو ڈرائے۔‘‘
کسی آدمی کا مال چھپانا بھی چونکہ اس کے لیے پریشانی اور ڈر کا سبب ہوتا ہے۔ اس لیے حضور ﷺ نے ایسا کرنے سے بھی منع فرمایا۔ ارشاد ہوا:
لا یاخذن احدکم متاع اخیه لاعباً ولا جادا.
(ابوداؤد، السنن، رقم: 500)
’’تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی کا سامان ہرگز نہ چھپائے، نہ مذاق میں نہ جان بوجھ کر۔‘‘
یہ تو معمولی قسم کے خوف اور ڈر پیدا کرنے سے ممانعت ہے۔ بڑے پیمانے پر خلقِ خدا کو خوف زدہ اور ہراساں کرنا، دہشت پھیلانا، بے گناہ انسانوں کا قتل کرنا، ان پر تشدد کرنا، خود کش حملے کرنا، لوگوں کے املاک اور جائیدادیں تباہ کرنا، ان کی عزت و آبرو سے کھیلنا، ملک میں بدامنی اور انارکی پھیلانا جسے آج کی اصطلاح میں دہشت گردی (Terrorism) کہا جاتا ہے۔ اس کا دینِ مصطفوی میں کہاں جواز ہوسکتا ہے۔
نبی رحمت ﷺ نے امن و سلامتی کے فروغ کے لیے جو متعدد اقدامات اٹھائے، ان میں سے ایک بالکل آسان اور منفرد قدم جسے عمل کے ساتھ تعلیمی و تربیتی بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور جس نے معاشرے میں امن و سلامتی کے ساتھ باہمی محبت اور الفت کو فروغ دیا اور لوگوں کو امن و سلامتی کی اہمیت بھی ذہن نشین کرائی، وہ ہے اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہر ملاقات کے وقت سلام (السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ) کہنے کی تعلیم و تلقین اور ترغیب۔ یہ سلام اپنے لغوی اور مرادی معنی کے اعتبارسے مخاطب یا ملاقاتی کے لیے صرف زبان سے سلامتی کی دعا ہی نہیں بلکہ متکلم کی طرف سے اس بات کا اعلان اور اقرار بھی ہے کہ تم میری طرف سے بالکل مامون اور محفوظ ہو۔ میری ذات سے تمہیں کسی طرح کا ڈر اور خوف نہیں رہنا چاہیے۔ تم ہر طرح سے تسلی اور اطمینان رکھو۔
یہاں سلام کے شرعی فضائل اور فقہی آداب اور احکام و مسائل کی تفصیل میں جانا مقصود نہیں بلکہ معنوی اعتبار سے اس کی ضرورت و افادیت اور اثرات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: کون سا اسلام (کا عمل) سب سے بہتر ہے؟
قال تطعم الطعام و تقرء السلام علیٰ من عرفت ومن لم تعرف.
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب السلام للمعرفة وغیر المعرفة، رقم: 6236)
’’آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کہ تو (خلقِ خدا) کو کھانا کھلائے اور ہر اس آدمی کو سلام کہے جسے تو جانتا ہو اور جسے نہ جانتا ہو۔‘‘
حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا اور دیگر نصوص سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ کھانا کھلانا مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں۔ اسی طرح سلام کے حوالے سے بھی ’’مَن‘‘ کے اندر عموم ہے اور مخاطب کا مسلمان ہونا ضروری نہیں۔ شاید اسی لیے بعض فقہاء نے غیر مسلموں کو بھی ممانعت کی بعض روایات کے باوجود سلام کی اجازت دی ہے۔
(نووی، شرف الدین یحییٰ، شرح صحیح مسلم، 2: 213)
حضور نبی اکرم ﷺ دنیا میں ایک عالمی اور دائمی نبی کی حیثیت سے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ بن کر تشریف لائے۔ اس رحمۃ للعالمینی کا لازمی تقاضا تھا کہ آپ ﷺ دنیا کو امن و سلامتی کو گہوارہ بھی بنائیں۔ اس کے لیے ایک تو حضور نبی اکرم ﷺ کی جبلت و فطرت میں امن و سلامتی کا جذبہ ودیعت کیا گیا۔ پھر آپ ﷺ نے خلقِ خدا کو اللہ کا جو پیغام پہنچایا وہ اپنے معنی اور تعلیمات کے اعتبار سے سراسر امن و سلامتی کا پیغام تھا۔ چونکہ آپ ﷺ کسی مسلکی و نظریاتی، رنگ و نسل اور علاقہ کی تفریق کے بغیر ساری دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے تھے۔ اس لیے آپ نے معاشرے میں امن و سلامتی کے فروغ اور ہر انسان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ و سلامتی کے لیے ایسے متعدد اور دور رس اقدامات فرمائے جنہوں نے کم از کم جزیرۃ العرب کو امن کا گہوارہ بنادیا۔ بعثتِ نبوی ﷺ کے وقت دنیا فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی، کسی کی جان محفوظ تھی، نہ مال نہ عزت اور نہ راستے محفوظ تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایسا ذہنی و عملی انقلاب پیدا کردیا کہ اب اکیلی خاتون صنعاء (یمن) سے بیت اللہ کا سفر کرتی تھی اور اسے کسی رہزن کا ڈر نہ تھا۔ امن و سلامتی کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات اور ہدایات پر آج بھی عمل کیا جائے تو ساری دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ یہ محض عقیدت کا اظہار نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنی تعلیمات اور اسوہ و عملی اقدامات کی رو سے بلاشبہ اور بلامبالغہ ساری انسانیت کے لیے رحمت اور امن و سلامتی ہیں۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2021ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved