شفقت اللہ قادری
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ لاریب ’’وہ علمی و منطقی فلسفۂ زیست‘‘ ہیں جو عقل و شعور میں علم و حکمت کے ایسے چراغ روشن کررہے ہیں کہ آئندہ آنے والی صدیاں بھی ان سے منور ہوتی رہیں گی۔ شیخ الاسلام کی فکرو فلسفہ اور تعلیمات کو سمجھنے کیلئے فقط فرشی ہی نہیں بلکہ عرشی خیرات، فیوضاتِ الوہی، فیوضاتِ علمی، فیوضاتِ روحانی اور کشفی رموز و معارف کے منبعِ اَبحارِ بیکراں کا شناور ہونا لازم ہے۔ ان کے علمی اور روحانی فیوضات کے حصول کی تمنا رکھنے والا اگرچہ علم و معارف کے سات سمندر پینے والا نہ ہو مگر کم از کم علوم و معارف کے سمندر سے اس کا قلب و ذہن تَر ضرور ہوا ہو۔ علوم و معارف کے سات سمندر درج ذیل ہیں:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی، فکری، نظریاتی اور روحانی تعلیمات اور فیوضات کے حصول کے لیے طویل ریاضت درکار ہے۔ اس لیے کہ شیخ الاسلام ایک ایسے منفرد شیخ اور عبدِ صالح ہیں جو مستغرقِ شرابِ طہور اور مستغنیٰ دنیا و مافیہا ہیں؛ جو عالمِ مطمئنہ میں جود و سخاءِ قلبی کے باعث عطائے نظری، عطائے علمی، عطائے روحانی، عطائے الوہی اور عطائے مصطفوی ﷺ کے جام بھر بھر کر پلاتے ہیں۔ لہٰذا جو طالب؛ عشق و معرفتِ حقیقی کا پیالہ اپنی وسعتِ حلق میں اتار لیتا ہے، وہی اِن علمی و روحانی فیوضات سے اکتسابِ فیض کرتا ہے اور شیخ الاسلام کے فلسفۂ عشق اور علم کی گہرائی اور وسعت کو پاجاتا ہے، تاہم شرطِ لازم طالب کی وسعتِ طلبی ہے۔ برتنِ طلب اور جستجو جتنی وسیع ہوگی، عطا کی وسعت اتنی ہی ہوگی۔
قارئین کرام! یاد رہے کہ میرے منطقی خیال اور جدید علمی نظریاتی اصطلاح کے مطابق شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی علمیت اور روحانیت کے الماس ھشت پہلو ہیں۔ میں انھیں ’’الماس‘‘ کے لقب سے اس لیے ملقب کررہا ہوں کہ الماس عربی زبان میں بیش قیمت اور نایاب ہیرے کو کہتے ہیں۔ میری تحقیق اور علم کے مطابق الماس قدرتی طور پر زمین میں تقریباً 99 (ننانوے) میل گہرائی میں معدنی و عنصری مرکبات کی صورت میں خاص خدائی کرشمہ سازی کا عملی ظہور ہے۔ یہ آتش فشاں کی تہہ میں واقع ہوتا ہے اور جب آتش فشاں شدتِ حدت کے باعث پھٹتا ہے اور آگ کے شعلے اور پہاڑ کے ریزے آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہیں تو اِسی عملِ آتش فشانی کے باعث الماس اپنی سطحِ زیریں سے دھیرے دھیرے مرتفاعی اور بلندی اختیار کرتا ہوا دامنِ فرش کی زینت بنتا ہے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ الماس ہر جوہری کی دسترس اور پہچان سے بالاتر ہوتا ہے۔ صرف خداداد صلاحیتوں کا حامل ہی الماس شناس ہوتا ہے اور اسے حاصل کرپاتا ہے۔ کوئی بے قدرا اگر اسے حاصل کر بھی لے تو کم عقلی اور کم فہمی کے باعث اس نعمت کو جلد کھو دیتا ہے لیکن مشتاقِ الماس نہ صرف اسے حاصل کر پاتا ہے بلکہ محبت سے اسے نزاکت و نفاست کے ہنر سے تراشتا ہے اور اس کی مطلوب شان کو تمکنت اور مرتفاعی کے ساتھ بڑے سلیقے اور خاص قرینے سے منصہ شہود پر جلوہ نما کرتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے پوری خلقت الماس کی چکا چوند چمک و دمک اور اہمیت و اصلیت کی نہ صرف معترف ہوتی ہے بلکہ فقط دیدار اور اس کی قربت اختیار کرنے کو ترستی ہے۔ الماس کی اہمیت و فوقیت کسی زمانے میں بھی ماند نہیں پڑتی۔ جس خطۂ ارضی پر واقع ہو، پوری دنیا کی نظریں اس الماس پر ہوتی ہیں۔
الماس کے متعلق ان تمام باتوں کا نقطۂ دانش یہ ٹھہرا کہ الماس مقدر سے ملتا ہے۔ مقدر لوحِ محفوظ پر تو ہے مگر یہاں تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے پاکیزہ طلب اور جستجو کے ساتھ بیدار قلوب و اذہان کی ضرورت ہے۔
مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ ہمارا وہ مقدر اور الماسِ معرفت و دانش ہیں جن کی نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ عالمِ انسانیت کو بھی اشد ضرورت ہے، اس لیے کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے علمبردار ہونے کی بناء پر دنیا بھر میں امن و سلامتی کے فروغ کے لیے اِن کی کاوشیں اپنی مثال آپ ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے علمی و روحانی مقام کے 14 مختلف پہلوئوں کا مطالعہ ہم گذشتہ تحریر (شائع شدہ ماہنامہ منہاج القرآن ماہ اگست 2021ء) میں کرچکے ہیں۔ مزید علمی و روحانی گوشوں کو ذیل میں بیان کیا جارہا ہے:
قدرتِ الہیہ نے شیخ الاسلام کی فطرت میں نفاستِ طبعی اور ذوقِ لطافت ودیعت کر رکھا ہے۔ قدرتِ کاملہ کے کائنات میں پھیلے عظیم نظارے اپنی لطافتِ طبعی اور ذوقِ فطری کے باعث شیخ الاسلام اپنی روح میں مقید فرما لیتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ذوق آپ کی طبیعت میں معصوم بچپن سے تھا جو آج اپنی معراج پر ہے۔ دنیا میں مختلف ممالک میں اپنی علمی اور تحریکی مصروفیات میں سے قدرتی نظاروں کے لئے وقت بھی نکالتے ہیں۔
اسی طرح تمام معاملات خواہ وہ روحانی ہوں یا علمی و نجی، ان میں سلیقہ شعاری اور نفاستِ طبعی نمایاں اور ہمیشہ نظر آتی ہے یعنی کہ آپ کی زندگی لطافتِ فطری اور نفاستِ طبعی کا حسین سنگم ہے۔
میری نظر میں شیخ الاسلام کو حاصل لا محدود علمی دسترس کا اعتراف قدرت کی خاص عطا ہے۔ آپ پر نظریاتی تنقید اور فقہی اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن علم و فکر اور فلسفہ زندگی پر آپ کی بے پناہ دسترس ہونے پر بین الاقوامی سطح پر نہ صرف تمام کا اتفاق ہے بلکہ اعتراف ہے۔ بے شک یہ بھی آپ کی علمی کرامت گردانی جائے گی۔ علمی وسعتِ نظری کا یہ عالم ہے کہ گزری چودہ صدیوں پر مکمل علمی گرفت و دسترس ہونے کے ساتھ ساتھ علمی وسعتِ نظری کے تحت آنے والی صدیوں کے تقاضوں پر بھی تعمق حاصل ہے اور دور اندیشی کار فرما رہتی ہے۔میری نظر میں یہ عمل روحانی خداداد وسعتِ نظری کا عکاس اور آئینہ دار ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ جیسے راہ نوردِ شوقِ دیدارِ مصطفی ﷺ کو رب تعالیٰ اپنا دوست چن لیتا ہے۔ کب اور کیسے؟ یہ انہیں بھی خبر نہیں ہوتی۔ ایسی شخصیات بیک وقت محبوبِ الٰہی اور محبوبِ حبیب کبریا ﷺ ہوا کرتی ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کے قلم کی نوک انسانوں میں انسانیت کو پیدا کرنے کا سبب ہے۔ شیخ الاسلام آہِ فغانِ نیم شبیِ فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادری میں کی گئی دعائے مقبول کا ثمر اور ما حصل ہیں جو تاقیامت ان کی کرامتِ قلندرانہ بن کر آسمانِ دنیا پر ضوفشانی کرتی رہے گی۔
فضیلت مآب، مجتہدِ اعظم، مجددِ رواں صدی ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ دورِ حاضر کے خطیب، مصلحِ اُمتِ محمدیہ، عاشقِ مصطفی اور حکیم الامت ہیں۔ موجودہ دور اور ماضی قریب و بعید میں بھی اگر نگاہ دوڑائی جائے تو علم، فکر، خطابت، اصلاحِ احوال اور امت کے اجتماعی مسائل کی تشخیص کے لیے ان جیسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ سامراجی اور طاغوتی قوتوں کے لئے ایک سیسہ پلائی دیوار ہیں۔دورِ حاضر میں بے شمار عالمی فتنوں نے جنم لیا تو قادری قلندرِ حق عزت مآب شیخ الاسلام نے اسلاف کے علمی و روحانی فیضان کے حقیقی وارث اور امین کے طور پر علمی ضرب کاری سے فتنوں کا قطعی طور قلع قمع کیا اور بے شک اس محاذ پر شیخ الاسلام کی فتح سلف صالحین کے فیضان اور توجہات کے سبب ہے۔
دہشت گردی کے زہریلے اژدھا کی سرکوبی کا سہرا بھی شیخ الاسلام کے سر ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی نوعیت کا ضخیم فتویٰ اسلام پر حملوں کے خلاف سیسہ پلائی دیواروں پر مشتمل ایک قلعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔جس کی فلک بوس علمی فیوضاتی فصیلوں نے کئی صدیوں پر مشتمل خارجی حملوں سے علمی تحفظ کی ضمانت فراہم کردی ہے۔ یہ بھی شیخ الاسلام کی علمی و روحانی کرامت ہے۔
شیخ الاسلام نے عالمی سطح پر نہ صرف اسلام کی دھندلی تصویر روشن کی بلکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی ضرورت سے عالمِ اسلام کو روشناس کرایا اور تصویرِ اسلام میں قرآن اور سنت نبوی ﷺ کے سبھی رنگ مزین کردیئے ہیں۔ شاید! شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ جیسی دانشور روحانی اور علمی قیادت صدیوں تک میسر نہ آئے۔ آئندہ صدیوں کا متوقع خلاء بھی آپ کی کرامتی و روحانی شخصیت کے مدِنظر رہتا ہے۔ لہذا اس کا تدارک بھی آپ قرآن اور سنت کی روشنی میں فرماتے رہتے ہیں۔ یہ دور اندیشی بھی فطرتی طور پر میری نظر میں روحانی کرامت ہی تصور ہوگی۔
شیخ الاسلام جیسے کاملین کی اپنے کسی رفیق و کارکن پر ایک نگاہِ عاطفت اسے روحانی طور پر اعلیٰ منازل سے روشناس کر دیتی ہے۔ شیخ الاسلام کی علمی، روحانی، طلسماتی شخصیت کے باعث آپ کے ساتھ جو حقیقی و وصفی طور وابستہ ہوگیا، وہ سونا بن گیا۔ حقیقتاً یہ بھی آپ کی روحانی کرامت ہے۔
علمِ غیب فقط رب تعالیٰ کی دسترس میں ہے اور اسی کا خاصہ ہے۔ تاہم وہ جسے چاہے اور جب چاہے اپنے فضل سے علمِ لدنی کی خیرات سے نواز دے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ اس خیرات کے وصول کنندگان میں سے ایک ہیں جو فضلِ ربی سے علمِ لدنی سے نوازے گئے ہیں۔ آپ کی شخصیت میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ اور کبار صوفیاء کرامؒ کے فیوضات کا رنگ صاف جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ جیسے اولیائے کرام خالق کائنات اپنی خاص حکمت اور منشا ایزدی کے تحت وقتِ مقررہ پر زمینِ دنیا پر تخلیق فرماتا ہے کیونکہ اولیائے کرام اور علمائے عظام ہی انبیاء علیہم السلام کے بعد دین کے حقیقی وارث ہیں اور شیخ الاسلام یہ فریضہ بطریقِ احسن نبھا رہے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کے نزدیک خدا اور رسول اکرم ﷺ کا منظورِ نظر بننے کے لیے درست سمت کا تعین اور اعلیٰ اخلاق کا ہونا لازم عمل ہے۔ لہٰذا قبلہ شیخ الاسلام کے ’’اعلیٰ اخلاق حسنہ‘‘ غلبۂِ اسلام کی اس عالمی تحریک کی نصرت و کامرانی کی کلیدِ ضمانت ہیں۔
جس پر خالقِ کائنات اپنا خاص فضل یعنی کہ علمِ لدنی ودیعت کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو فرشتوں کو حکم فرما دیتا ہے کہ میرا خاص فضل اور کرم کی خیرات فلاں کو عطا کر دو اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ ربِ محمد عالمِ خفی کے پردے اپنے فضل سے جب اور جس سے چاہتے ہیں، اُٹھا دیتے ہیں۔ فقط اس کے لیے جستجوئے صادق اور قلبِ مصفٰی و مطہر ہونا شرطِ اول ہے۔ اسی وصف کے باعث شیخ الاسلام اللہ تعالیٰ اور رسالت مآب ﷺ کے خصوصی کرم سے نوازے گئے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کے قلبِ منتخب میں خالق نے بیک وقت معرفت کے دو سمندر رواں کر دیے ہیں: ایک بحرِ خشیتِ الٰہی اور دوسرا بحرِ عشقِ حبیبِ خدا ﷺ ہے۔یہ بھی فضلِ ربی کے باعث آپ کی روحانی کرامت ہے۔
رب کائنات نے لاریب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کو قلبِ مصفٰی عطا فرمایا ہے اور آپ لاکھوں وابستگان اور ہدایت یافتگان کے لئے مصفیِ قلوب و اذھان ہیں اور انہیں اپنی علمی اور روحانی کرامت سے مستفیض فرما رہے ہیں۔
میری دانست کے مطابق شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ پر باقاعدگی کے ساتھ روحانی فیوضات اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام اور دیگر صوفیاء کرام کے توسط سے اور فقہی و علمی مکاشفات امام اعظم ابو حنیفہؒ اور دیگر ائمہ کرام کی بارگاہ سے منکشف ہوتے رہتے ہیں اور شیخ الاسلام یہ علمی و روحانی فیض ہمہ وقت نہ صرف وابستگانِ تحریک بلکہ اُمتِ محمدیہ کے لیے عام کیے ہوئے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ آپ عالمِ استراحت میں بھی علم و معرفت کے گوہر نایاب تلاش کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ سوتے میں بھی آپ کی روحانی آنکھ بیدار رہتی ہے۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے اور اس کا عملی طور پر اکثر رونما ہونا آپ کی علمی و روحانی زندگی کا تسلسل ہے اور یہ آپ کی علمی اور روحانی کرامتِ خاص بھی ہے۔
میری دانست میں فرشتوں کے ذریعے شیخ الاسلام جیسے اولیاء کو القاء اور روحانی بھید منکشف ہوتے رہتے ہیں کیونکہ حق گوئی اور علمِ نافع اللہ تعالیٰ فرشتے کے ذریعے ہی قلب میں القاء فرماتا ہے جبکہ لغویات اور شرو شیطنت انسان کے دل میں ابلیس کے چیلے ڈالتے ہیں۔
یہ میرا ذاتی مشاہدۂِ عشقی ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ پر اکثر رات عالمِ استراحت میں علمی و روحانی فیوضات منکشف ہوتے رہتے ہیں۔ ایسی کیفیت میں آپ اچانک بیدار ہو جاتے ہیں اور چپکے سے اپنے study room میں تشریف لے جاتے ہیں اور لگتا ہے کہ تحریر کا سلسلہ وہیں سے شروع فرماتے ہیں جہاں سے منقطع ہوا تھا۔ یاد رہے کہ یہ کیفیتِ مخصوصہ اولیائے کشفی پر اکثر وارد ہوا کرتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کی روح کی غذا فقط ذکر اور علم ہے۔
35۔ روحانی کرشمہ سازی
غیر نبی ہونے کے باعث اولیائے کرام پر وحی تو قطعاً نہیں اترتی، یہ ایمان کامل ہے۔ تاہم القاء اور کشف حالتِروحانی روحانی زندگی کا خاص کرشمہ ہے اور کرامت ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ جیسی سحر انگیز علمی اور روحانی شخصیت کا فیض صرف موجودہ صدی تک نہیں بلکہ آئندہ کئی صدیوں تک جاری و ساری رہے گا۔ اس لیے آپ کو صدیوں پرمحیط شخصیت کہنا بے جا نہ ہوگا۔ خالقِ کائنات نے شیخ الاسلام کو ایک خالص علمی، فکری اور روحانی مقام اور متعدد نعمت ہائے عظمیٰ سے نواز رکھا ہے۔ میری نظر میں منجملہ علمی، روحانی اوصافِ کریمانہ کی ودیعت خاص فضلِ باری تعالیٰ اور عنایتِ آقائے دو جہاں ﷺ ہی ہے۔ خالقِ کائنات کی اتباع، پیرویِ انبیاء علیہم السلام ، سنتِ رسول اللہ ﷺ کی متابعت، اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شیخ الاسلام کو راہِ حق میں شدید مشکلات کا سامنا بھی رہا ہے لیکن تسلیم و رضا، خندہ پیشانی، عزمِ مصمم اور ثابت قدمی سے شیخ الاسلام ہر امتحان و آزمائش میں سرخرو ہوئے۔ یاد رکھیں! کسی مصفیٰ، باعمل، پاک دامن، عبدِ صالح کو متعدد علمی، فکری اور روحانی کرامات سے نوازا جانا فقط کرمِ الٰہی اور نظرِ مصطفی ﷺ کا خاصۂ خاص ہے اوریہ تحفہ اور نعمت صرف اعلیٰ ظرفی اور صبر و شکر کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے علمبردار شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے افکار و تعلیمات کو سمجھنے، ان پر عمل کرنے اور ان کی ترویج و اشاعت کے لیے شب و روز محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، نیز شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے علمی و روحانی مقام کو سمجھنے کے لیے دلِ زندہ اور دیدۂ بینا عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، ستمبر 2021ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved