شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے جو مختلف اشکالات پیدا کیے جارہے ہیں اُن میں سے ایک اشکال یہ ہے کہ یہ ایک نفسِ انسانی کے قتل کا مسئلہ ہے اور چونکہ قتل کا عمل حرام ہے، اس لیے اسے کفر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یعنی امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے سے کوئی شخص کافر نہیں ہوجاتا، اس لیے کہ انسانی نفس کا قتل حرام فعل ضرور ہے مگر یہ باعثِ کفر نہیں ہے۔ یہ علت قائم کرکے درحقیقت یزید اور اس کے حواریوں کو تحفظ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کے ساتھ کربلا میں روا رکھے گئے سلوک سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ یہ مسئلہ نفسِ انسانی کے قتل کا نہیں کہ محض حرام قرار دیا جائے بلکہ مسئلہ رسول اللہ ﷺ کی اذیت کا ہے کہ کس طرح سے رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچائی گئی۔ جب قرآن مجید کی آیات سے یہ امر ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچانے والا، اذیت پہنچانے کے فعل کے ارتکاب کی وجہ سے براہِ راست کافر ہوجاتا ہے تو اب یزید کے لیے توبہ کے احتمال اور امکانات ڈھونڈنا، فعلِ حرام اور فعلِ کفر کے فرق کو ڈھونڈنا، مختلف موشگافیوں کو ڈھونڈنا، اس کے لیے ہمدردی ڈھونڈنا اور اسے تحفظ فراہم کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس مذکورہ عقیدے کی قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں جو وضاحت فرمائی ہے، اس کا پہلا حصہ ماہنامہ منہاج القرآن ماہِ اگست2021ء کے شمارہ میں شائع ہوچکا ہے۔ شیخ الاسلام کے اس علمی و فکری خصوصی خطاب کا آخری حصہ نذرِ قارئین ہے:
شہادتِ امامِ حسین علیہ السلام کو ایک عام نفسِ انسانی کا قتل قرار دینے والے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اتنے بے وفا ہوگئے کہ انھیں حضور نبی اکرم ﷺ کے وہ تمام فرمودات بھول گئے ہیں جو حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی عترت پاک اور حسنین کریمین علیہما السلام کے لیے فرمائے تھے۔
1۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْ حُسَیْنٍ، أَحَبَّ اللهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا. (جامع ترمذی، ابواب المناقب)
’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، جو حسین کو محبوب رکھتا ہے اللہ اسے محبوب رکھتا ہے۔‘‘
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِی، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَد أَبْغَضَنِی. (ابن ماجه، باب فی فضائل اصحاب رسول الله ﷺ، رقم: 143)
’’جس نے حسن و حسین سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔‘‘
پس شہادتِ امام حسینؑ کو نفسِ انسانی کے قتل کے تناظر میں نہیں دیکھا جائے گا بلکہ اسے حضور ﷺ کے اس فرمان کے تناظر میں دیکھا جائے گا کہ جو حسین علیہ السلام سے بغض رکھتا ہے، وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے، جو حسین علیہ السلام کو اذیت دیتا ہے، وہ مجھے اذیت دیتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح کا حکم ہے جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ.
(النساء، 4: 80)
’’جس نے رسول ( ﷺ ) کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘
3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے حسن اور حسین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:
مَنْ أَحَبَّنِی وَأَحَبَّ هَذَیْنِ، وَأَبَاهُمَا وَأُمَّهُمَا کَانَ مَعِی فِی دَرَجَتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ. (جامع ترمذی، ابواب المناقب، رقم: 3733)
’’جس نے مجھ سے اور ان دونوں سے محبت کی اور ان کے والدین سے محبت کی، وہ قیامت کے دن میرے درجے میں میرے ساتھ ہوگا۔ (یعنی وہ میرے خادموں کی طرح میرے درجے میں ٹھہرایا جائے گا)۔‘‘
4۔ حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
اللَّهُمَّ إِنِّی أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا، وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّهُمَا. (جامع ترمذی، ابواب المناقب، رقم: 3769)
’’اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر اور ان دونوں سے محبت کرنے والے سے بھی محبت کر۔‘‘
رسول اللہ ﷺ تو قدم قدم پر خیال کرتے کہ میرے حسینؑ کا دل نہ ٹوٹے۔ پھر بھی ہم شہادت امام حسین علیہ السلام کو نفسِ انسانی کے قتل کے شرعی حکم میں تولنے لگیں تو یہ حق نہ ہوگا۔ جب آپ ﷺ مدینہ کی گلیوں میں حسنین کریمین علیہما السلام کو کندھوں پر اٹھا کر نکل آتے اور فرماتے کہ جو مجھ سے محبت کرتا ہے، وہ ان سے محبت کرے تو اس فرمان کے ذریعے ایک خاص پیغام امت کو دے رہے تھے۔ یاد رہے کہ حضور ﷺ کی حسنین کریمین علیہما السلام کے ساتھ محبت ایک عام فطری محبت نہ تھی جو محض ایک دادا کو پوتے پوتیوں سے یا نانا کو نواسے نواسیوں سے ہوتی ہے بلکہ اس سے بہت بلند ایک ایسی محبت تھی، جس کی ایک شرعی حیثیت تھی۔ اس محبت کی حیثیت ایمان کے درجے میں تھی اور اس کے ذریعے آپ ﷺ پوری امت کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ان سے محبت کرنا فقط یہ نہیں ہے کہ یہ میرے نواسے نواسیاں ہیں بلکہ یاد رکھ لو کہ ان سے محبت کرنا، مجھ سے محبت کرنا ہے۔ اب جو مجھ سے محبت کرے، وہ ان سے محبت کرے اور ان کے لطیف احساسات اور جذبات کا بھی خیال رکھے کہ اس کے کسی قول و فعل سے کہیں ان کا دل ٹوٹ نہ جائے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے مذکورہ فرامین سے جب واضح ہوگیا کہ جو حسنین کریمین علیہما السلام سے بغض رکھے یا انھیں کوئی اذیت پہنچائے تو اس نے حضور ﷺ سے بغض رکھا اور حضور ﷺ کو اذیت پہنچائی اور جس نے حضور ﷺ سے بغض رکھا اور آپ ﷺ کو اذیت پہنچائی تو اس نے اللہ سے بغض رکھا اور اللہ کو اذیت پہنچائی۔ تو بتایئے! جو کچھ واقعہ کربلا میں ہوا کیا وہ بغض و عداوت سے ہٹ کر ہے۔۔۔؟ کیا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ عداوت نہیں کی گئی۔۔۔؟ کیا رسول اللہ ﷺ کے خلاف عداوت نہیں کی گئی۔۔۔؟ کیا عترتِ رسول ﷺ اور حرمتِ رسول ﷺ کے خلاف عداوت نہیں کی گئی؟ کیا حضور ﷺ کی روح پاک کو نہیں تڑپایا گیا۔۔۔؟ کیا سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام اور مولا علی علیہ السلام کی روح کو نہیں تڑپایا گیا۔۔۔؟ ذرا سوچیے! میدانِ کربلا میں اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا گیا۔
افسوس! جن لوگوں سے رسول اللہ ﷺ کا بغض ثابت ہوجائے، ان کے ایمان کے امکانات اور توبہ کے احتمالات سوچتے ہو اور فقہی موشگافیاں نکالتے ہو۔ جو رسول اللہ ﷺ سے بغض رکھتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے ناپسندیدگی اورنفرت کا اظہار فرمایا ہے اور جس سے حضور ﷺ ناراض ہوجائیں، اس سے اللہ ناراض ہوجاتا ہے اور جس سے اللہ ناراض ہوجائے تو اسے جہنم کے دائمی عذاب میں داخل کردیتا ہے۔
شہادتِ امام حسین علیہ السلام اور واقعہ کربلا کے حوالے سے یہ شبہ بھی وارد کیا جاتا ہے کہ واقعاتِ کربلا اور اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کی اہانت اور بے حرمتی کے واقعات من گھڑت اور قصے و کہانیوں پر مشتمل ہیں، نیز چونکہ یہ تاریخی واقعات ہیں اور تاریخی واقعات میں بڑی کمی بیشی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی اصل حقیقت کا پتہ نہیں چلتا، لہذا اس پر شدت کے تحت کوئی حکم قائم نہیں کرنا چاہئے۔
آیئے! اس امر کا جائزہ لیں کہ کیا یہ تاریخی قصے و کہانیاں ہیں؟ کیا واقعہ کربلا اور اس سے متعلقہ تمام امور کمزور روایات پر قائم ہیں یا یہ مسلّمہ حقائق ہیں؟ یاد رکھیں! اس پورے واقعہ کی بنیاد احادیثِ صحیحہ ہیں جو آپ ﷺ نے مستقبل کی غیبی خبروں کے طور پر امت تک پہنچائیں۔ یہ واقعات معتمد روایات پر قائم ہیں۔ نہ صرف مورخین بلکہ ان سے بڑھ کر بڑے بڑے ائمہ محدثین، ائمہ فقہاء، ائمہ متکلمین اور جمیع اکابرینِ امت نے ان واقعات کی توثیق کی ہے۔
واقعہ کربلا کے حوالے سے واعظین اور ذاکرین کی بیان کردہ بعض ایسی تفصیلی جزئیات ہیں جن کی سند نہیں اور جن کی صحت پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اصل واقعہ کربلا اور اس کی بہت ساری تفصیلات کا بھی اس ایک بات کا بہانہ بناکر انکار کردیا جائے؟ واقعہ کربلا اور یہ ظلم و زیادتی ان امور میں سے ہے جن کی نشاندہی حضور ﷺ نے خود فرمادی تھی اور ان کا ذکر احادیثِ صحیحہ میں موجود ہے:
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
هلاک امتی علی یدی غلمة من قریش.
’’قریش کے نوعمر لونڈوں کے ہاتھوں سے میری امت ہلاک ہوگی۔‘‘
اس فرمان کا اشارہ اولاً اسی واقعہ کربلا کی طرف تھا۔ جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی تو ان کے پاس موجود مروان نے کہا: اللہ ان پر لعنت کرے، کیا قریش میں ایسے نوجوان لونڈے بھی ہوں گے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إِنْ شِئْتَ أَنْ أُسَمِّیَهُمْ بَنِی فُلاَنٍ، وَبَنِی فُلاَنٍ.
(صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوه، رقم: 3410)
’’ اگر تو چاہے تو میں ان میں سے ایک ایک کا نام بھی بتا سکتا ہوں کہ وہ فلاں فلاں کے بیٹے ہیں۔‘‘
2۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں بیان کیا کہ اغیلمۃ من قریش میں سے پہلا شخص یزید ہے۔
بعض لوگوں نے یہ گمان ظاہر کیا ہے کہ یزید واقعہ کربلا کا ذمہ دار نہیں تھا۔ ان لوگوں کے لیے افسوس ہے اور یہ بدقسمتی کی انتہا ہے کیونکہ یزید کا تو نام لے کر حضور ﷺ نے بیان کردیا کہ یہ ذمہ دار ہے۔ افسوس! آج لوگ اس کی برأت دینے آگئے ہیں اور حضور ﷺ کے فرمان کی نفی کر رہے ہیں۔
3۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے سنِ شہادت اور مقامِ شہادت دونوں کی نشاندہی اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی فرمادی تھی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
یُقْتَلُ حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ رضی الله عنه عَلَی رَأْسِ سِتِّینَ مِنْ مُهَاجَرَتِی. (المعجم الکبیر، طبرانی، 3: 105، رقم: 2807)
’’حسین بن علی کو میری ہجرت کے 60 ویں سال کے آغاز پر شہید کردیا جائے گا۔‘‘
مقامِ شہادت کی نشاندہی کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا:
أَخْبَرَنِی جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ أَنَّ هَذَا یَعْنِی اَلْحُسَیْن یُقْتَلُ بِأَرْضِ الْعِرَاقِ وَهَذِهِ تُرْبَتُهَا. (الخصائص الکبریٰ، 2: 125)
’’مجھے جبرائیل امین نے خبر دی ہے کہ یہ حسین عراق کی سرزمین پر قتل کردیا جائے گا اور یہ وہاں کی مٹی ہے۔‘‘
سمجھانا یہ مقصود ہے کہ واقعہ کربلا کتبِ حدیث میں بھی مذکور ہے اور یہ ان امور میں سے ہے جن میں حضور ﷺ نے مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی غیبی خبریں دے دی تھیں۔ حضور ﷺ نے وہاں کا مقام بھی بتادیا تھا، وہاں کی سرخ مٹی بھی دے دی تھی اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ علیہ السلام کو شہید کرنے کے ذمہ دار بد بخت یزید کا نام بھی بتادیا تھا۔
4۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لا یزالُ أمرُ أمتی قائمًا بالقسطِ حتی یکونَ أولُ من یثلمُهُ رجلٌ من بنی أمیةَ یقالُ له: یزیدُ. (مسند ابو یعلی، رقم: 871)
’’میری امت کے دین کا معاملہ عدل پر قائم رہے گا حتی کہ ایک شخص بنو امیہ میں سے آئے گا جو اس میں رخنہ ڈالے گا اور اس کا نام یزید ہوگا۔‘‘
یزید سے مخفی ہمدردی رکھنے والے، اس کا درد رکھنے والے، اس کے ایمان کی فکر کرنے والے، توبہ کے ذریعے اسے جہنم سے بچانے والے، کاش حضور ﷺ کی محبت اور راحتِ جان کا فکر کرلیں اور غور سے ان احادیث کو پڑھیں اور سنیں اور پھر اپنے مؤقف سے رجوع کریں اور توبہ کریں۔
5۔ ایک اور مقام پر حضور ﷺ نے فرمایا:
لَیَفْتِقَنَّ رَجُلٌ مِنْ وَلَدِ أَبِی سُفْیَانَ فِی الْإِسْلَامِ فَتْقًا لَا یَسُدُّهُ شَیْءٌ. (الفتن، نعیم بن حماد، 1: 281)
’’ابو سفیان کی اولاد میں سے ایک شخص ایسا ہوگا جو اسلام کے اندر ایسا شگاف ڈالے گا کہ اس کو قیامت تک کوئی چیز بند نہیں کرسکے گی۔‘‘
مذکورہ تمام احادیثِ مبارکہ میں شہادتِ امام حسین علیہ السلام اور واقعہ کربلا کی طرف اشارہ ہے جس کی حضور ﷺ نے واضح نشاندہی فرما دی تھی۔ صحابہ کرامl کے بکثرت آثار بھی موجود ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم کہا اور سنا کرتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کربلا میں ہوگی۔ لہذا واقعہ کربلا کو قصہ و کہانی کہنا اور اسے تاریخی واقعات کہہ کر ان کی اہمیت کو کم کرنا، یہ اپنے ایمان کی جڑوں کو کاٹنا ہے۔ ایسا کرنا حضور ﷺ کے فرمودات جنہیں ازواج مطہرات اور کثیر صحابہ کرامؓ نے روایت کیا ہے، ان کا انکار کرنا ہے۔ جب حضور ﷺ نے ذمہ داری بھی متعین کردی کہ وہ شخص جو اس تباہی کا باعث بنے گا اور ذمہ دار ہوگا، وہ یزید ہوگا تو اب معلوم نہیں کہ لوگوں میں یہ جرأت کہاں سے آجاتی ہے کہ وہ بہانے بناکر یزید کو تحفظ دیتے ہیں اور ا س سے ذمہ داری کا بوجھ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر صرف مؤرخین نے بات کہی ہوتی تو معاملہ کچھ اور ہوتا مگر یہ تو دلائل النبوۃ اور معجزاتِ نبوت میں سے ہے کہ حضور ﷺ نے نہ صرف یزید کا نام لے کر بتادیا بلکہ مقامِ شہادت اور سنِ شہادت تک کی نشاندہی فرما دی۔
شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے تیسرا اشکال یہ وارد کیا جاتا ہے کہ سیدنا امام حسینؑ کو تو ابنِ زیاد اور اس کی فوج نے شہید کیا، یزید نے تو براہِ راست آپ علیہ السلام کو شہید کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ لہذا اس پر آپ علیہ السلام کی شہادت کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔
اس شبہ اور اشکال کے تناظر میں آیئے اس بات کاجائزہ لیں کہ شہادتِ امام حسین علیہ السلام کی ذمہ داری صرف ابنِ زیاد اور اس کی کوفی فوج پر ہے یا براہِ راست یزید ذمہ دار ہے؟ کیا یزید کے ایماء، حکم، مرضی اور منصوبہ بندی کے ساتھ واقعہ کربلا ہوا تھا یا نہیں؟ یزید کے تین چار سال کے دورِ حکومت کے نمایاں خدوخال کیا ہیں اور ان کی روشنی میں وہ کہاں کھڑا ہے۔۔۔؟ یزید کی جگہ اور انجام متعین ہوجانے کے بعد اس کے حواری، اس سے ہمدردی رکھنے والے، اس کی حفاظت اور اس کے ایمان کے تحفظ کا اہتمام کرنے والے کہاں کھڑے ہیں۔۔۔؟اس سے وفا کرکے اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کے ساتھ جفا کرنے والے کہاں کھڑے ہیں؟
کتبِ تاریخ میں یہ امر واضح طور پر موجود ہے کہ یزید نے ابنِ زیاد کو خط لکھا اور امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کا حکم دیا۔ ابن زیاد کو جرأت نہ تھی کہ وہ یزید کے حکم کے بغیر اتنا بڑا قدم اٹھاتا۔ اگر یزید کی ایماء، رضا مندی اور منصوبہ بندی شامل نہ ہوتی تو ابنِ زیاد کے لیے اتنا بڑا اقدام ناممکن تھا۔ معجم الکبیر میں امام طبرانی بیان کرتے ہیں کہ یزید نے ابن زیاد کو کوڈورڈ میں خط لکھا اور کہا کہ:
اے ابنِ زیاد! مجھے خبر پہنچی ہے کہ حسین علیہ السلام کوفہ پہنچنے والے ہیں، تمام زمانوں میں اب یہ ذمہ داری تمہارے زمانے پر آپڑی ہے اور تمام شہروں اور صوبوں میں یہ ذمہ داری تمہارے شہر پر آپڑی ہے اور جتنے گورنرز ہیں، ان سب میں سے تمہارے کندھوں پر یہ ذمہ داری آپڑی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ تو اس سے کس طرح عہدہ برآ ہوتا ہے۔ دیکھ! اگر تو کامیاب ہوگیا تو آزاد کردیا جائے گا یعنی تیری عزت، جاہ و جلال، رتبے اور منصب میں اضافہ ہوگا اور اگر تو ناکام ہوگیا تو اسی طرح ذلت کے ساتھ غلاموں کی طرف تمہیں پلٹا دیا جائے گا جیسے غلام ذلالت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر تو نے غفلت کی تو تمہیں غلامی کی زندگی بسر کرنی ہوگی۔
تمام مؤرخین نے یزید کے اس خط کو اپنی کتب میں لکھا ہے۔ ابنِ زیاد خط پڑھنے کے بعد چار ہزار کا لشکر لے کر امام حسین علیہ السلام کی طرف چلا اور امام حسین علیہ السلام کو شہید کروادیا اور آپ علیہ السلام کا سر مبارک دیگر شہداء کے سرو ںکے ساتھ یزید کو بھیج دیا۔ اس لیے کہ اس کا حکم آیا تھا اور اس کے حکم ہی کی تعمیل میں یہ عمل کیا گیا تھا۔
جب امامِ عالی مقام علیہ السلام کا سر مبارک دیگر شہداء کے سروں کے ساتھ یزید کے پاس پہنچا تو یزید نے سارے سر اپنے دربار میں رکھ لیے اور امامِ حسین علیہ السلام کا سر اپنے سامنے رکھا اور پھر پورے دمشق کے بڑے بڑے لوگوں کو اپنے پاس بلالیا اور پھر امامِ عالی مقام کے سرِ انور پر چھڑی ماری اور ابنِ زبعری کے یہ اشعار پڑھے:
لیت اشیاخی ببدر شهدوا
جزع الخزرج من وقع الاسل
فاهلوا واستهلوا فرحا
ثم قالوا لی بقیت لاتمثل
’’کاش میرے بزرگ جو بدر میں شریک ہوئے، تیروں کے برسنے سے خزرج کی پریشانی کو دیکھ لیتے تو وہ خوشی سے چلا اٹھتے اور مجھے کہتے کہ تو شعر پڑھنے کے لیے باقی ہے۔‘‘
اور پھر اس نے ان اشعار میں دو ایسے اشعار کا اضافہ کیا جو صریح کفر پر مشتمل ہیں۔ اس نے کہا:
نفلق هاما من رجال احبة
الینا وهم کانوا اعق واظلما
(المعجم الکبیر، طبرانی، 3: 104، رقم: 2806)
’’ہم ان لوگوں کی کھوپڑیوں کو پھاڑتے ہیں جو ہمیں محبوب ہیں جبکہ وہ نافرمان اور ظالم ہوچکے تھے۔‘‘
یزید کے اس ناپاک عمل اور جسارت کے بعد بھی یہ کہنا کہ یزید راضی نہیں تھا، اس نے حکم نہیں دیا تھا، قتل کے لیے نہیں کہا تھا، اس کو معلوم نہیں تھا، ابن زیاد نے قتل کروادیا۔ ایسا کہنا محض بغضِ اہلِ بیت کا اظہار ہے۔ سوال یہ ہے کہ:
1۔ اگر یزید کو معلوم نہیں تھا تو وہ ابنِ زیاد کو خط کیوں لکھ رہا ہے کہ تم اگر ناکام ہوگئے تو تمہیں غلامی کی زندگی بسر کرنی پڑے گی، گورنری سے ہٹا کر ذلیل کردوں گا اور اگر کامیاب ہوگئے تو عہدہ بلند کردوں گا۔
2۔ اگر یزید نے اس کام کا حکم نہیں دیا تھا تو اس نے اپنے دربار میں شہداء کے سر رکھ کر اور امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک پر چھڑی مار کر مذکورہ اشعارکیوں پڑھے؟
3۔ امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے قاتل پر اور ابنِ زیاد پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے اور یزید پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے جس نے قتل کروایا۔ اگر یزید کا امر نہ ہوتا تو اس نے ابنِ زیاد کو برطرف کردیا ہوتا۔ مگر یزید نے ابنِ زیاد کو معزول کیا اور نہ برطرف کیا حتی کہ اس کو سزا تک نہیں دی۔
ان واقعات کو کتبِ تاریخ میں لکھنے کے بعد تمام ائمہ نے قرآن مجید کی آیات سے یزید کا کفر ثابت کیا۔
1۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں کہ یزید تو دین کا منکر تھا۔
2۔ امام آلوسی نے لکھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایمان پر نہیں تھا، اس کا دین نہیں تھا۔ یزید کہتا تھا کہ اگر میں آلِ نبی ﷺ سے اس طرح کا انتقام نہ لیتا تو میں مشائخِ عرب کی اولاد میں سے نہیں ہوں۔
یزید اور اس کے اعوان و انصار جنہوں نے نہ صرف نواسۂ رسول ﷺ کو شہید کیا بلکہ پوری عترتِ رسول ﷺ کو شہید کیا، ان کے مقدس لاشوں پر گھوڑے دوڑائے، ان کے سر کاٹ کر نیزوں پر چڑھائے، کوفے کے بازاروں میں انہیں گھمایا اور سیدہ زینب اور سیدنا امام زین العابدین سمیت پورے قافلۂ اہلِ بیت علیہم السلام کو قیدی بنایا، زنجیروں میں جکڑا، گلے میں طوق پہنائے، پائوں میں بیڑیاں پہنائیں اور جنگی قیدیوں کی طرح انہیں کوفے سے لے کر دمشق تک چلایا گیا، اس تمام کچھ کے کرنے کے پیچھے تختِ دمشق اور یزید کی قوت و طاقت کا پیغام دینا مقصود تھا۔ گویا لوگوں کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ آج کے بعد خبردار! کوئی ہمارے سامنے نہ کھڑا ہو، وگرنہ اُسے بغاوت کا نام دے کر قتل کر دیا جائے گا۔ اس قافلۂ اہلِ بیت کو دیکھو! بغاوت کرنے والوں کا حشر یہ ہوتا ہے۔ تاکہ لوگ خود فیصلہ کریں کہ آئندہ وہ حق اور عدل کا ساتھ دیں یا طاقت اور قوت کا۔۔۔؟
یزید صرف شہادتِ امام حسین علیہ السلام ہی کا ذمہ دار نہیں بلکہ اُس نے واقعہ کربلا کے بعد مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کی حرمت کو بھی پامال کیا۔ 63 ہجری میں جب اہلِ مدینہ نے یزید کی بیعت توڑدی تو اس نے ستائیس ہزار کا لشکر بھیج کر مدینۃ الرسول کو پامال کیا اور مسلم بن عقبیٰ کو حکم دیا کہ جب مدینہ فتح کرلو تو میں تین دن کے لیے مدینہ تم پر حلال کرتا ہوں، تم جو چاہو کرو۔ جو بدبخت اس مدینۃ الرسول کو مباح کرتا ہے جسے تاجدارِ کائنات ﷺ نے حرمت والا حرم بنایا ہے، افسوس! پھر بھی لوگ اس یزید کی توبہ اور ایمان کی باتیں کرتے ہیں۔ تین دن تک یزید کی فوج نے درندگی کی، دس ہزار مسلمانوں کو شہید کیا، ان شہید ہونے والوں میں تین سو صحابہ کرامؓ تھے اور سات سو قرأ تھے۔ تین سو عورتیں بغیر شادی کے حاملہ ہوئیں، بعض نے اس سے بھی زیادہ کا عدد لکھا ہے۔ مسجد نبوی ﷺ میں تین دن تک اذان معطل کرادی گئی، ریاض الجنہ خون سے بھردیا، مسجدِ نبوی ﷺ کے اندر گھوڑے، خچر اور اونٹ باندھے گئے۔ کیا اس کے بعد بھی لوگ یزید کے ایمان کی باتیں کرتے ہیں۔۔۔؟ اس کی وجہ کچھ اور نہیں صرف اور صرف بغضِ اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا: جو اہلِ مدینہ کو خوفزدہ کرے، اس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور پوری انسانیت کی لعنت اور قیامت کے دن اس کا کوئی فرض اور نفل قبول نہ ہوگا۔
آپ ﷺ نے ایک اور مقام پر فرمایا:
جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دوزخ میں اس طرح پگھلا دیتا ہے جس طرح شیشہ آگ میں پگھل جاتا ہے یا نمک پانی میں۔
یزید نے تین سال حکومت کی، ان تین سالوں میں سے پہلے سال اس نے امام عالی مقام علیہ السلام اور پورے خانوادۂ رسول کو شہید کیا۔ دوسرے سال مدینہ منورہ کو تاخت و تاراج کیا اور پھر مدینہ منورہ سے پلٹ کر مکہ معظمہ میں حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے مکہ معظمہ اورکعبۃ اللہ کا محاصرہ کیا اور محرم اور صفر کے مہینے تک جنگ کرتے رہے۔ آخر میں منجنیقوںکے ذریعے کعبۃ اللہ پر گولہ باری کی، آگ برسائی گئی، جس کے نتیجے میں کعبۃ اللہ کا غلاف جل گیا۔
ابھی یہ ظلم جاری تھا کہ اس بدبخت لعین کی موت واقع ہوگئی۔ جب اس کی موت کی خبر آئی تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ بدبختو! تمہارا طاغوت شیطان تو مرگیا ہے، اب کس کا تخت بچانے کے لیے ظلم کررہے ہو۔ جب لشکر کو خبر ملی تو وہ وہیں سے واپس چلا گیا۔ یہ لشکر اپنے طور پر کوئی لڑائی نہیں کررہا تھا بلکہ یزید کے حکم پر لڑ رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب لشکر کو یزید کے مرنے کی خبرملی تو وہ فتح کیے بغیر واپس چلے گئے۔
یزید کے اقتدارکے پہلے سال واقعہ کربلا، دوسرے سال مدینہ منورہ پر حملہ اور پھر کعبۃ اللہ کی بے حرمتی کی گئی۔ اسی دوران اس کی موت واقع ہوگئی تو اب سوال یہ ہے کہ اس نے توبہ کب کی تھی؟ وہ تو اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کو ظلم و ستم کا شکار کرنے اور حرمین مقدس کی حرمت کی پامالی میں مسلسل مصروفِ عمل رہا ہے۔ جو لوگ حضور ﷺ کی آل کو شہید کرکے حضور ﷺ کو اذیت پہنچائیں اور کوفہ سے دمشق تک ان کو قیدی بناکر لے جائیں، ان کے مقدس جسموں پر گھوڑے دوڑائیں، خیمے جلائیں اور ساری عترتِ رسول ﷺ کو بے حرمت کریں، وہ لاکھ توبہ بھی کرلیں، اللہ کے ہاں ان کی توبہ قبول نہیں ہوسکتی بلکہ اللہ ایسے لوگوں کو توبہ کی توفیق بھی نہیں دیتا۔
آقا علیہ السلام کی عترت پاک نے حضور ﷺ کے دین کی حفاظت، جبر کے سامنے ڈٹ جانے، ظلم کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوجانے کا قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ پیش کیا ہے۔ امامِ عالی مقام علیہ السلام جیت گئے، ظاہراً بے شک شہید ہوگئے مگر پوری انسانیت کو ایک راستہ دکھا گئے۔ کچھ لوگ اس موقع پر عزیمت کی راہ نہیں اپنا سکے تھے، رخصت کی راہ اپنائی تھی، جبکہ امامِ عالی مقام علیہ السلام نے عزیمت کی راہ لی اور عظیم ہوگئے۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ایک طرف امام عالی مقام علیہ السلام اور اہلِ بیتِ رسول ﷺ کے ساتھ محبت و مؤدت کرنا، ان کی تعظیم و تکریم کرنا ہے اور دوسری طرف اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام سے بغض و عناد رکھنے والے کے ساتھ بغض و عناد رکھنا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ایسے لوگوں پر جس میں یزید اور ابن زیاد سمیت وہ سارے اعوان و انصار جنہوں نے حضور ﷺ کی حرمت اور عترت پر حملہ کیا ہے، شامل ہیں، اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ان پر لعنت کی ہے، ہم بھی لعنت کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت کرے اور ہمیں قیامت تک سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کی سمت میں کھڑا کرے۔۔۔ امام حسین علیہ السلام کے لشکر کے ساتھ کھڑا کرے۔۔۔ قیامت کے دن عترتِ رسول ﷺ اور صحابہ رسول ﷺ کے قدمین شریفین میں کھڑا کرے۔۔۔ قیامت کے دن ہم ان کے غلاموں میں شمار ہوں۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور پوری امت کو اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کے دشمنوں کی سمت جانے سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، ستمبر 2021ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved