محمد شفقت اللہ قادری
اِنسانی اِمتیاز کا ایک علمی پس منظر قبل ازیں ماہنامہ منہاج القرآن کے جولائی 2021ء کے شمارے میں زینتِ قرطاس بن چکا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو اَشرف المخلوقات کا تاج پہنائے جانے کے خاص اسباب علمی فضیلت اور الوہی فیوضاتی عطا ہے، تاہم سب سے پہلے تذکرہ کریں گے حکم قرآن کا جس میں خالق کائنات نے اپنے عباد الصالحین کی بابت قرآن مجید میں فرمایا:
یُّؤْتِی الْحِکْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا.
(البقرة، 2: 269)
اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی۔
آپ ﷺ نے بھی علم کی اہمیت و فضیلت کو اپنے متعدد فرامین کی روشنی میں واضح فرمایا۔ چند ایک ارشادات ملاحظ فرمائیں:
1. طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ.
(سنن ابن ماجه)
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد اور عورت) پر فرض ہے۔‘‘
2. إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِیَاءِ.
(صحیح البخاری. سنن أبو داود)
’’بے شک علماء ، انبیاء کرام کے وارث اور جانشین ہیں۔‘‘
3. فَقِیْهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ.
(سنن الترمذی. سنن ابن ماجه)
’’ایک فقیہ، شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘
4. مَنْ یُّرِدِ اللهُ بِهٖ خَیْرًا یُفَقِّهْهُ فِی الدِّیْنِ.
(مسند أحمد بن حنبل)
’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین میں تفقہ (سمجھ بوجھ) عطا فرما دیتا ہے۔‘‘
گویا ایسا علم جس سے خلقِ خدا کو نفع حاصل نہ ہو، بے کار ہے۔
5۔ جب اِنسان اِس دنیا سے رُخصت ہوتا ہے تو اُس کے اَعمال منقطع ہوجاتے ہیں، مگر تین چیزیں باقی رہتی ہیں (اور ان کا ثواب اُسے پہنچتا رہتا ہے:
(1) صَدَقَةٍ جَارِیَةٍ، أَوْ (2) عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ (3) وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَهُ.
(صحیح مسلم. مسند أحمد بن حنبل)
’’صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، یا نیک اولاد جو اُس کے لیے دعا کرتی رہے۔‘‘
6۔ ایسا صاحبِ علم جو معلمِ اِنسانیت بھی ہو اور عین سنتِ مطہرہ کی متابعت و پیروی کرتا ہو، اُسے درج ذیل فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق حضور نبی اکرم ﷺ کی معیت و جانشینی میسر ہوگی:
إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا.
(سنن ابن ماجه)
’’میں معلم بنا کر ہی مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘
حکمت اور دانش کی بڑی پرمغز تفسیر کرتے ہوئے مجتہد عظیم، مجدد عصر، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے تفسیر سورۃ البقرہ میں آیت 269 کے تحت فرمایا کہ جس طرح آقائے دو جہاں ﷺ کے علاوہ دیگر انبیاءf کو علم و حکمت سے نوازنے کا ذکر ہوا ہے، اسی طرح آیت مذکورہ بالا میں اس سے مراد دوسرے لوگ بھی ہیں۔ کیونکہ کئی ائمہ تفسیر و حدیث اور علماء لغت نے اس علمِ حکمت کی جو تعبیرات فرمائی ہیں وہ سب موقع محل کے مطابق درست اور بجا ہیںتاہم ہم حکمت (دانش)سے مراد ’’فکر‘‘ لیتے ہیں۔ لہٰذا اگر تمام لغوی اور اِصطلاحی تعبیرات کو سامنے رکھتے ہوئے، ’’فکر‘‘ کی تعریف کی جائے تو یہ ہوگی کہ:
ذکاوت، ذہانت، فہم و بصیرت اور ذہن کی سرعت صفائی سے حق و باطل، حسن وقبح اور خیر وشر میں تمیز کرکے ہر چیز کا مناسب تعین کرنا اور علم و عقل کے ذریعے صحیح اور درست بات کو پہنچنا ہی حقیقت میں ’’فکر‘‘ ہے۔
شیخ الفقہ و الحدیث مزید رقم طراز ہیں کہ علم اور فکر میں بھی ایک فرق ہے کہ علم فقط احکام کو جاننے کا نام ہے جب کہ ان احکام سے بذریعہ حکمت؛ مقاصد کا حصول، ان کے اسرار و رموز اور مؤثرات اور تعبیرات کو سمجھنا ’’فکر‘‘ کہلاتا ہے، کیونکہ علم صرف جانتا ہے اور فکر کا کام جان کر حقائق کی معرفت کے ذریعے اثرات و نتائج اخذ کرنا ہے۔
کسی دانشور کا قول ہے کہ ’’انسان آگہی، تحقیق اور دریافت کے ذریعے اپنی غلطیوں، خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرتا رہتا ہے لیکن زندگی کی دوڑ میں وہی لوگ عالی معیار حاصل کر پاتے ہیں جو ذاتی نقائص کو دور کرنے کے لئے شعوری طور پر بیدار رہتے ہیں۔‘‘
شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ یہ امر متحقق ہوگیا ہے کہ علم مقصود بالذات نہیں بلکہ حصولِ مقصد کا درحقیقت ایک ذریعہ ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ.
(فاطر، 35: 1)
’’اور تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے۔‘‘
یعنی سنتِ الہیہ کا تقاضا ہے کہ انسان بھی علم کا دامن نہ چھوڑے اور علم کی طاقت سے تسخیرِ عناصر کے مرحلے طے کرے۔ اسی سنتِ اِلٰہیہ اور عطاے اِلٰہیہ کے باعث شیخ الاسلام علمی تخلیق اور تحقیق کے ذریعے تجدیدیت کے ساتویں آسمان پر محو پرواز ہیں۔
شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ علم ہی آفرینشِ آدم سے لے کر آج تک عظمتِ آدم کا امین ہے اور تسخیرِ کائنات کی منزل تک پہنچنے کا واحد ذریعہ بھی زندہ اور تخلیقی علم ہی ہوسکتا ہے۔ تخلیقی اور زندہ علم وہ ہوتا ہے جو ہر دور کے تقاضوں کے مطابق تاریک راہوںمیں چراغ بن کر کاروانِ حیات کو رواں دواں رکھے۔ شیخ الاسلام کے نزدیک علم کو ہر دور میں موثرات زندگی کے تغیرات کے ساتھ ساتھ شریک سفر رکھنے اور اسے تخلیقی صلاحیتوں سے نوازنے کے لیے ’’فکر‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی ’’فکر‘‘ جو علم کے بے جان جسم میں روح پھونک دے اور علم کو تحریک و ارتقاء سے آشنا کردے۔
معزز قارئین! اہلِ علم اور اہلِ فکر جب اپنی سعی منتہی اور قلبی جدوجہد سے امتِ مسلمہ کی زندگی کو تحریک دے کر تغیراتِ زمانہ کے ساتھ چلنے کے قابل بناتے ہیں اور حقیقی علم و معرفت کا حامل عالم دین، مجتہد اور مجددِ وقت قوم کی زندگی آگے بڑھاتا ہے تو جمود و تعطل اس کی عِلمی اور عملی زندگی میں ہوتا ہی نہیں۔ ہر مجدد، مصلحِ امت اور مجتہد اپنے دور کے حالات کا علمی تعمق کے ساتھ جائزہ لیتا ہے اور پھر آنے والے حالات کا ادراک کرتا ہے، قدیم افکار، اصطلاحات اور اکابرین کی خدمات کو مدنظرِ رکھتا ہے، اسی طرح وہ ماضی، حال اور مستقل کے حالات کا گہری نظر سے جائزہ لینے کے بعد اصلاح اور تجدید و اِحیاء کے لیے فکر واضح کرتا ہے۔ اس کی یہ کاوش کئی دھائیوں پر محیط ہوتی ہے۔
نابغہ عصر، مجتہد عظیم، مجددِ رواں صدی، حکمت و دانش کے بحرِ بیکراں، علمی، تجدیدی، فقہی اور روحانی عہد ساز ہستی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ ہیں کہ جن کے قلب و باطن میں علم کے نور کی ایک لامحدود کائنات آباد ہے اور جن کے روحانی اور علمی فیوضات حضور نبی اکرم ﷺ کے در کی خیرات سے ماخوذ ہیں۔ شیخ الاسلام کی تعلیمات اور فیوضات نہ صرف شیخ الاسلام کو انفرادی طور پر منوّر و تاباں کیے ہوئے ہیں بلکہ شرق تا غرب امتِ مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کی اَبدی ضمانت بنے ہوئے قوم و ملتِ محمدیہ ﷺ کو حیات جاودانی سے بہرہ ور کیے ہوئے ہیں۔ شیخ الاسلام، حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے اِس علمی و روحانی فیض کے وارث و امین ہیں جس کی بابت سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: جو شخص علم نافع حاصل کرتا ہے اور پھر اس پر عمل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے علم میں اپنی شانِ عطا کے مطابق وسعت پیدا فرما دیتے ہیں اور اپنی وسعت یزدانی اور عطائے علمیت سے علمِ لدنی عطا فرما دیتا ہے۔
قدرتِ کاملہ نے داعیِ انقلابِ مصطفوی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کو بے پناہ علمی اور روحانی فیوضات و کمالات کا منبع و سرچشمہ بنا کر آپ کے دامنِ کشائش کو علمی، روحانی اور کراماتی اِنعاماتِ اِلٰہیہ سے مستفیض کر رکھا ہے جن کا اِحاطہ کرنا دشوار اور ناممکن ہے، اس لیے کہ رب کریم کی عطائے کریمانہ لامحدود کی مقدار کا تعین کرنا نا ممکن ہے۔ تاہم شیخ الاسلام کے چند علمی، روحانی، فیوضاتی اور کراماتی اوصاف جو بلاشک و شبہ وَھبِ خداوندی ہیں، ان کا مختصراً تذکرہ تحدیثِ نعمت کے طور پر ذیل میں کیا جارہا ہے:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول کے باعث ’اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰهِ‘ اور ’فَاتَّبِعُوْنِیْ‘ کی عملی تفسیر ہیں۔ آپ عشقِ الہٰیہ اور عشقِ مصطفی ﷺ کا حسین امتزاج ہیں۔ عشاق کے قلوب و اذہان کو عشق کی قوت و رعنائی آپ کی ذات اور تعلیمات سے ہمہ وقت فراہم ہوتی رہتی ہے۔
ایک لطیف اور عمیق نکتہ قارئین کے ذوق، آگہی اور جستجو کے پیش نظر رقم ہے کہ محبتِ اِلٰہی اور محبتِ مصطفی ﷺ کی ارتقائی منزل عشق اور جنون ہے لیکن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کے نزدیک مکتبِ عشق کا نصاب ’’ادب‘‘ ہے کیونکہ اسی ادبِ الہٰی اور ادبِ مصطفی ﷺ کی بدولت آپ کے قلب سلیم میں عشقِ الٰہیہ اور عشقِ رسالت ﷺ کا سوز و گداز محبت کا ارتقائی سفر کرتے کرتے ’اَلْعِشْقُ نَارٌ‘ کے مصداق بن چکا ہے۔ یعنی عشق کا آتش فشاں مچل رہا ہے جو در حقیقت شیخ الاسلام کی پوری علمی و روحانی کائنات پر محیط ہے اور اس کا صحیح تعین فقط وہی کر سکتا ہے جو بذاتِ خود عشق کی دولت سے سرفراز ہو۔
شیخ الاسلام کی سحر انگیز اور پر تمکنت شخصیت کے ساتھ ساتھ آپ کی حیرت ناک خداداد قوتِ حافظہ آپ کی علمی کرامت سے کم نہیں۔ آپ لاکھوں قرآنی معارف، مطالب اور معانی اور پانچ لاکھ احادیث مبارکہ کو اپنا علمی مسکن بنائے ہوئے ہیں۔
خالق نے دیگر انعامات کے ساتھ ساتھ شیخ الاسلام کو علمی اور روحانی تعمق یعنی اتھاہ گہرائی، باریک بینی اور باریک نگاہی عطا فرمائی ہے جس سے وہ آنے والے حالات کا دور اندیشی سے تجزیہ فرما دیتے ہیں اور ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ انہوں نے فرمایا ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام کی تحریکی، علمی، روحانی اور فکری مستقل مزاجی اور استقامت؛ شرق تا غرب آپ کی تحریک اور نظریات کی ہمیشگی اور دوامیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حالاتِ حاضرہ کا ادراک اور حاضر دماغی کسی قیادت و سیادت کی بہترین خوبیوں میں سے ہیں اور یہ دونوں کمال درجہ میں شیخ الاسلام کی باکمال شخصیت کا جزو لاینفک ہیں۔ انہی دو خوبیوں کی بدولت آپ دوست دشمن کی پہچان میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔یہ آپ کی کامیابی اور کامرانی کی ایک اہم وجہ بھی ہے جو خدا داد ہے۔
شیخ الاسلام کی فتح یاب اور کامران زندگی میں پاکیزگیِ نیت اور کامل اخلاص کا عمل دخل ہے۔ آپ اعمال کا دارومدار نیت اور اور کامل اخلاص کو ٹھہراتے ہیں اور عمل سے زندگی کو جنت اور جہنم بنانے کے اصول پر کارفرما ہیں۔
ایک ایسی نعمتِ عظمی جو فقط خدا داد ہی ہوتی ہے، وہ آپ کی کشادہ قلبی ہے۔ آپ کے نزدیک کشادہ قلبی سے مراد یہ ہے کہ پوری دنیا دسترس اور اپنے قبضہ میں ہونے کے بعد بھی قلبِ سلیم میں اس کی جگہ نہ ہو۔ دل لالچ و حرصِ دنیا سے خالی ہو، اوروں کے لئے وسیع و عریض ہو یعنی وسعت پذیر ہو اور اپنے لیے قناعت پزیر ہو۔
آپ کا چہرہ کھلی کتاب کی مانند عیاں متبسم اور کھِلا کھِلا ہے۔ یہ شیخ الاسلام کی روحانیت کا مظہر ہے۔ آپ کو یہ خوبی خدا داد طور پر حاصل ہے۔
آپ علم و حکمت کے ایسے عقدے کشا فرماتے اور ایسے نکاتِ علمی سے نوازتے ہیں کہ حقیقی معنی میں اسلاف اور کبار ائمہ کے فیوضات کے وارث و امین قرار پاتے ہیں۔ نہایت پیچیدہ معاملات کا کمال طریقہ سے قرآن و سنت کے عین مطابق حل فرماتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ عین موقع محل اور حکمت سے حل نکالنا آپ کی روحانی و علمی کرامت سے کم نہیں۔
آپ یوں تو لاکھوں وابستگان کی ہمہ وقت روحانی رہنمائی فرماتے ہی ہیں مگر روحانی عقدہ کشائی کے لئے کروڑوں وابستگان اور عقیدت مندان کے لئے ایک روحانی فیوضاتی کتاب مرتب فرمائی ہے جو فقط قرآنی آیات ربانی اور آپ کی خاص فیوضاتی کرامت اور اثر انگیزی کی علامت ہے۔ اس کتاب کا نام الفیوضات المحمدیۃ ہے جو وابستگانِ کے لیے نسخۂ کیمیا ہے۔
آپ نے بے شمار ایسے توجہ طلب اہم مسائل حل فرمائے جو علمائے وقت، فقہاءِ زمان اور محدثین و مصنفین سے حل نہ ہوسکے۔ آپ نے علمی کشفی فیوضات اور توجۂِ گنبدِ خضراء سے قرآن و سنت کی روشنی میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ آنے والی صدی کی عین ضرورت کے مطابق ان مسائل کے ایسے مؤثر حل پیش کیے ہیں کہ وہ جدید علمی اور بین الاقوامی سطح پر خاص فوقیت اور اجتہادی علمی مقام رکھتے ہیں۔ میرے مطابق یہ بھی شیخ الاسلام کی کرامتِ علمی کا ایک حوالہ ہے۔
خداداد طور پر شیخ الاسلام کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک عُلو علمی مقام حاصل ہو چکا ہے۔ دور دور تک کوئی ایسی شخصیت اُفقِ علم اور اُفقِ روحانیت پر نظر نہیں آتی جو بیک وقت بے پناہ علمیت اور روحانیت کا حسین امتزاج بھی ہو اور فضلِ رب تعالی اور فیض یابیِ رسالت مآب ﷺ کا شاہ کار بھی ہو۔ میری نظر میں یہ بھی قدرتِ کاملہ کی تفویض کردہ کرامتِ علمی اور روحانی کا عملی نمونہ ہے۔ وہ شخصیت جو ایک ہزار کتب کی مصنف اور 7,000 علمی، اجتہادی اور روحانی عنوانات پر علمی گوہر فشانی کر چکی ہو اور کھلے عام، میدانِ عمل میں جس کے علمی استدلال کے ڈنکے بجتے ہوں اور کوئی معقول تنقید نگار علمی اور فکری سطح پر ان کے علمی استدلال کو رد نہ کرسکے تو پھر آپ اسے کیا کہیں گے؟
شیخ الاسلام کے قلب و نظر میں کمال فراست اور کشائش ہے۔ جس طرح رب العزت نے وسیع علمی ظرف سے نوازا ہے، اسی طرح آپ مخالفین کی تنقید برائے تنقید اور علمی اعتراضات پر یکدم نہ پریشان ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا علمی لرزہ طاری ہوتا ہے۔ تحمل و بردباری سے سنتے اور پڑھتے ہیں اور موقع محل کے مطابق علمی، قرآنی اور عین سنتِ مطہرہ کی روشنی میں مدلل اور کامل استدلال کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔ خواہ مخوہ مناظرے کی کیفیت طاری نہیں کرتے کیونکہ بعض علماء اور سستی شہرت کے متلاشی، ابھرتے ہوئے نام نہاد اسکالرز بڑی علمی شخصیت سے مناظرے کا ماحول بنا کر شہرت چاہتے ہیں، ان کے جوابات دینا آپ وقت کا نقصان سمجھتے ہیں، حالانکہ اس طرح کے نامور علمی مناظروں میں شیخ الاسلام ابتدائی طالب علمی کے دور میں فتح یاب ہوچکے ہیں۔ یہ خاص فراست کشائش بھی میری نظر میں علمی اور روحانی کرامت ہی گردانی جائے گی۔
(جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اگست 2021ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved