شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا. وَالَّذِیْن یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَااکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا.
(الاحزاب، 33: 57-58)
’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لیے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بے شک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا‘‘۔
بلاشک و شبہ اہلِ بیتِ اطہارؑ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت و مؤدت اور ان کی پیروی ہمارا ایمان بھی ہے اور ایمان کے حصول کے تقاضوں میں سے بھی ہے۔ بہت سے ایسے مسلّمہ حقائق جن کے ثبوت اور وضاحت کے لیے گزشتہ 14 سو سال میں کبھی کسی زمانے میں علماء کو ضرورت نہیں پڑی تھی، بدقسمتی سے آج ایک ایسا دورِ زوال ہے کہ اُن مسلّمہ حقائق کو ثابت کرنے کے لیے بھی دلائل درکار ہیں۔ ان ہی مسلّمہ حقائق میں سے ایک حقیقت شہادتِ امامِ حسین علیہ السلام اور واقعۂ کربلا بھی ہے۔ شہادتِ امام حسین علیہ السلام اور واقعۂ کربلا کے حوالے سے بے بنیاد شکوک و شبہات پیدا کرکے سچائی کو دھندلایا جارہا ہے، لوگوں کے ذہن منتشر کیے جارہے ہیں اور ابہامات پیدا کیے جارہے ہیں تاکہ لوگ اہلِ بیت اطہارؑ کی محبت و مؤدت کے رشتے سے کٹتے چلے جائیں یا یہ رشتہ کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائے۔ اِن مذموم کاوشوں سے اُن فتنہ پرور عناصر کا مقصد یہ ہے کہ شکوک و شبہات کا شکار ہوکر اہلِ بیتِ اطہارؑ کی محبت اور مؤدت کے رشتے کے ختم ہونے کے بعد امت کا رشتہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ سے بھی کٹ جائے، ان کے دلوں سے تعظیم رسول میں بھی کمی واقع ہوجائے، آقا علیہ السلام کے ساتھ عشق و محبت کا تعلق کمزور پڑ جائے اور وہ ساری خیرات و برکات جو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی بارگاہ سے اہلِ ایمان کو اہلِ بیت اطہارؑ کے واسطے سے نصیب ہونی ہے، امت اس سے محروم ہوجائے۔
لہذا ضروری ہے کہ واقعہ کربلا اور شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جائے اور ابہامات کا قلع قمع کیا جائے تاکہ لوگوں کے ایمان کی حفاظت ہو اور اہلِ بیتِ اطہارؑ کے ساتھ تعلقِ محبت و مؤدت قائم رکھا جاسکے۔
آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، جس شخص کی بات دس بندے بھی براهِ راست سننے والے نہیں، وہ بیہودہ، بے بنیاد اور بے دلیل باتیں نیٹ پر اپلوڈ کردیتے ہیں جو بعد ازاں ایک کثیر تعداد تک پہنچ جاتی ہیں، نتیجتاً اس سے خرافات پھیلتی ہیں جو لامحالہ تشکیک کی گرد کے ذریعے بعض ذہنوں کو خراب کرتی ہیں۔ ذیل میں واقعہ کربلا اور شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے پیدا کیے گئے شکوک و شبہات کا قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں ازالہ کیا جارہا ہے:
شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے ایک اشکال یہ پیدا کیا جارہا ہے کہ یہ نفسِ انسانی کے قتل کا مسئلہ ہے اور چونکہ قتل کا عمل حرام ہے، اس لیے اسے کفر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یعنی امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے سے کوئی شخص کافر نہیں ہوجاتا، اس لیے کہ انسانی نفس کا قتل حرام فعل ضرور ہے مگر یہ باعثِ کفر نہیں ہے۔ یہ علت قائم کرکے درحقیقت یزید اور اس کے حواریوں کو تحفظ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
معاذ اللہ یہ باتیں میڈیا پر اعلانیہ کہی جارہی ہیں۔ یہ اشکال پیدا کرکے نوجوان نسل کے ذہنوں کو برباد کیا جارہا ہے اور چودہ سو سال سے ایمان اور عقیدت کا جو رشتہ متصلاً و مسلسل چلا آرہا ہے اور جس کی ائمہ امت نے ہمیشہ تعلیم و تلقین کی ہے، اسے کاٹا جارہا ہے۔ امام عالی مقام علیہ السلام کی شہادت کو ایک عام نفسِ انسانی کے قتل جیسا قرار دینا، عترتِ رسول کے قتل کو عام نفوسِ انسانی کے قتل کے برابر ٹھہرانا اور کہنا کہ جس طرح نفسِ انسانی کے قتل سے بندہ کافر نہیں ہوتا، اسی طرح شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے ذمہ دار بھی اس عمل سے کافر نہیں ہوئے، یہ سوچ محض اہلِ بیتِ اطہارؑ سے عداوت کا شاخسانہ ہے۔
آیئے! اس امر کاجائزہ لیتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام اور دیگر اہلِ بیتِ اطہارؑ کے نفوسِ قدسیہ کا قتل ایک عام نفسِ انسانی جیسا تھا یا اس کا حکم ان سے جدا اور بالا تر ہے؟
یاد رکھیں! شہادت امام حسین علیہ السلام نفسِ انسانی کے قتل جیسا مسئلہ نہیں ہے کہ جسے محض ایک حرام عمل قرار دیا جائے بلکہ سیدنا امام حسین علیہ السلام اور اہلِ بیتِ اطہارؑ کو شہید کرکے درحقیقت حضور نبی اکرم ﷺ کو اذیت پہنچائی گئی ہے اور رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچانا کفر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس امر کو واضح فرمادیا ہے کہ کیا کیا چیز آپ ﷺ کے لیے اذیت کا باعث بنتی ہے؟ ارشاد فرمایا:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّآ اَنْ یُّؤْذَنَ لَکُمْ اِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰهُ لا وَلٰـکِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ ط اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْکُمْ وَاللهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ ط وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ط ذٰلِکُمَ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ ط وَمَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللهِ وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْٓا اَزْوَاجَهٗ مِنْم بَعْدِهٖٓ اَبَدًا ط اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اللهِ عَظِیْمًا.
(الاحزاب، 33: 53)
’’اے ایمان والو! نبیِ (مکرّم ﷺ ) کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے (پھر وقت سے پہلے پہنچ کر) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو، ہاں جب تم بلائے جاؤ تو (اس وقت) اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھاچکو تو (وہاں سے اُٹھ کر) فوراً منتشر ہو جایا کرو اور وہاں باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنے والے نہ بنو۔ یقینا تمہارا ایسے (دیر تک بیٹھے) رہنا نبیِ (اکرم ﷺ ) کو تکلیف دیتا ہے اور وہ تم سے (اُٹھ جانے کا کہتے ہوئے) شرماتے ہیں اور اللہ حق (بات کہنے) سے نہیں شرماتا، اور جب تم اُن (اَزواجِ مطہّرات) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پسِ پردہ پوچھا کرو، یہ (ادب) تمہارے دلوں کے لیے اور ان کے دلوں کے لیے بڑی طہارت کا سبب ہے، اور تمہارے لیے (ہرگز جائز) نہیں کہ تم رسول اللہ (ﷺ) کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ (جائز) ہے کہ تم اُن کے بعد اَبد تک اُن کی اَزواجِ (مطہّرات) سے نکاح کرو، بے شک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ) ہے۔‘‘
یہ آیت مبارکہ ایک عظیم پیغام دے رہی ہے، ایک حکم قائم کر رہی ہے اور کئی اشکالات کا ازالہ اور شبہات کی جڑ کاٹ رہی ہے۔ آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ درج ذیل اعمال، افعال اور امور حضور ﷺ کے لیے اذیت کا باعث بنتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک معیار قائم کردیا ہے کہ اتنی اتنی بات بھی میرے رسول ﷺ کو اذیت دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان باعثِ اذیت معمولی امور کو اس لیے بیان فرمایا کہ جس سے جتنی شدید محبت ہو، اس کے لیے پیمانہ اسی قدر جدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ جیسے جیسے کسی سے محبت بڑھتی چلی جاتی ہے، محبوب اتنا ہی زیادہ عزیز تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ محبوب کو کس کس فعل سے اذیت پہنچتی ہے، یہ پیمانے بھی ہر انسان کے لیے بدلتے چلے جاتے ہیں، حتی کہ جب کسی سے انتہا کی محبت ہوتی ہے تو اس کے لطیف جذبات کو ٹھیس پہنچنے سے بھی اذیت ہوتی ہے۔ اس کے احساسات کو خفیف سی ضرب لگے تو یہ بھی اذیت کا باعث ہوتا ہے۔ کسی بات سے اگر اس کی طبیعت بوجھل ہو جائے تو اس سے بھی اسے اذیت ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے لیے تو پیمانہ یہ دیا ہے کہ کھانا کھانے کے بعد بیٹھ جانا حتی کہ رسول اللہ ﷺ کو لوگوں کے جانے کا انتظار کرنا پڑے، دکھائی دینے میں یہ چھوٹا سا فعل ہے مگر رسول اللہ ﷺ کے لیے اذیت کا باعث ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو یہ بھی گوارہ نہیں، اسی طرح اگر اپنی حاجت کی چیز ازواجِ مطہرات سے بغیر پردے کے طلب کرلی تو اس سے بھی حضور ﷺ کو اذیت ہوگی، رسول اللہ ﷺ کی اجازت کے بغیر ان کے گھر میں داخل ہوگئے تو اس سے بھی حضور ﷺ کو اذیت ہوگی مگر افسوس کہ دوسری طرف عترتِ رسول کو جسمانی، ذہنی اور روحانی اذیت دی گئی، بھوکا و پیاسا رکھا گیا، شہید کیا گیا، لاشوں کی بے حرمتی کی گئی، خیمے جلائے گئے، شہزادیوں کو قیدی بنایا گیا، اہلِ بیت اطہار کے پاک نفوس کے سرکاٹ کر نیزوں پر چڑھائے گئے، قافلۂ اہلِ بیتِ اطہارؑ قیدیوں جیسے ناروا سلوک کے ساتھ کوفہ و دمشق کے بازاروں میں گھمایا گیا، یہ اعمال وہ ہیں کہ جو اذیت کی آخری حد سے بھی آگے ہیں۔ یہ افعال تو ایسی اذیت کا باعث ہیں کہ جن کا تصور کرنا بھی ناممکن ہے۔
اگر اہلِ بیتِ اطہارؑ کے ساتھ روا رکھے گئے اس فعل کا جائزہ لیں تو یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ یہ مسئلہ نفسِ انسانی کے قتل کا نہیں کہ محض حرام قرار دیا جائے بلکہ مسئلہ رسول اللہ ﷺ کی اذیت کا ہے کہ کس طرح سے رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچائی گئی۔
اگر کوئی اپنے قول، فعل اور عمل کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کو اذیت پہنچاتا ہے تو اس کا حکم کیا ہے؟ آیئے قرآن مجید ہی سے اس کاجواب تلاش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا.
(الاحزاب، 33: 57)
’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لیے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ سے درج ذیل احکام واضح ہورہے ہیں:
1۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو ملنے والی اذیت کو اپنی ذات کے ساتھ منسوب کردیا کہ جس نے رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچائی، اس نے مجھے اذیت پہنچائی۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ کو جسمانی اذیت پہنچتی ہے اور نہ ذہنی اور روحانی، اس کی ذات تو ایسے احساسات سے پاک ہے مگر اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب سے اس قدر محبت ہے کہ اس نے فرمادیا کہ جس نے رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچائی، اس نے مجھے اذیت پہنچائی۔ یہ امر بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللهِ وَرَسُوْلِهٖ.
’’اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے آگے نہ بڑھا کرو۔‘‘
(الحجرات، 49: 1)
جس طرح رسول اللہ ﷺ کا ادب اللہ تعالیٰ کا دب ہے۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت، اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔۔۔ رسول اللہ ﷺ سے محبت، اللہ تعالیٰ سے محبت ہے۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کی حرمت، اللہ تعالیٰ کی حرمت ہے۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔۔۔ رسول اللہ ﷺ سے بے وفائی، اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے وفائی ہے۔۔۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچانا، اللہ تعالیٰ کو اذیت پہنچانا ہے۔
2۔ اس آیت مبارکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کو اذیت پہنچانے والے کے بارے میں دوسرے حکم کو یوں بیان فرمایا:
لَعَنَهُمُ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا.
انسان کی سمجھ میں آنے والی معمولی سی چیز سے بھی اگر کوئی رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچائے گا تو اس پر دنیا میں بھی لعنت ہے اور آخرت میں بھی لعنت ہے اور اس کے لیے انتہائی ذلت و رسوائی پہنچانے والا عذاب مقرر ہے۔
لفظ ’’عَذَابًا مُّهِیْنًا‘‘ انتہائی توجہ طلب ہے۔ قرآن مجید نے عذاب کے تین معیار عذاب عظیم، عذاب الیم اور عذاب مھین مقرر کیے ہیں، جس سے عذاب کا حکم واضح ہوجاتا ہے۔
1۔ ایسے جرائم جس کے نتیجے میں انسان عذابِ جہنم کا حقدار بنے گا، اس کے لیے ’’عذاب عظیم‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ کافر و غیر کافر دونوں کے لیے آیا ہے۔ یعنی گناہگاروں، فاسقوں، فاجروں، ظالموں، چوروں، جھوٹوں الغرض ہر قسم کے مجرم کے لیے ’’عذاب عظیم‘‘ کا ذکر آیا ہے۔
2۔ اگر اللہ تعالیٰ اس سے بڑھ کر سخت عذاب کرنا چاہے تو وہاں ’’عذاب الیم‘‘ کا لفظ آیا ہے، اس کا معنی درد ناک عذاب ہے۔ اس لفظ کا استعمال قرآن مجید میں عام طور پر کافروں کے لیے ہوا ہے۔ اس میں عذاب کی شدت عذاب عظیم کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے۔
3۔ جب عذاب الیم سے بھی زیادہ عذاب کی شدت بڑھانا مقصود ہو تو ’’عذاب مھین‘‘ یعنی اہانت انگیز، ذلت ناک عذاب کا ذکر آیا ہے۔
قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے تو یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں عذاب مھین کا حکم آیا ہے، وہاں قرآن مجید نے صراحتاً کفر کا حکم صادر کیا ہے۔ یعنی ہر جگہ ’’عذاب مھین‘‘ کے سیاق و سباق میں کفار و مشرکین ہی کا ذکر ملتا ہے۔ ذیل میں چند ایک حوالہ جات درج کیے جارہے ہیں:
1۔ سورہ النساء 14، 37 (وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَاباً مُّهِیْنًا)
2۔ سورہ البقرہ: 90 (وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ)
3۔ آل عمران: 178 (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا ۔۔۔۔۔۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ)
4۔ سورہ الحج: 57 (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰـتِنَا فَاُولٰٓئِکَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ)
5۔ سورہ جاثیہ: 9 (اُولٰٓـئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ)
6۔ المجادلہ: 16 (اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَهُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللهِ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ)
گویا قرآن مجید کے جن مقامات پر عذاب مھین وارد ہوا ہے، وہ صرف کفار کے لیے ہے۔ لہذا جب ’’عذاب مھین‘‘ آتا ہی کافروں کے لیے ہے اور رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینے والے کے لیے بھی ’’عذاب مھین‘‘ کا حکم آیا ہے تو بلاشک و شبہ اس اذیت دینے والے کا شمار بھی کفار ومشرکین میں ہے اور وہ جہنمی ہے۔
پس رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچانے والا، اس اذیت پہنچانے کے فعل کے ارتکاب کی وجہ سے براهِ راست کافر ہوگیا۔ اب اس کے بعد مزید علل اور علمی، فکری، اصولی اور کلامی موشگافیوں کا تلاش کرنے کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہماری سوچ کا رخ ہی بدل گیا ہے۔ ہم غلط پیمانے اور راستے سے حکم کا تعین کرنا چاہتے ہیں۔ شہادت امام حسین علیہ السلام کو نفسِ انسانی کے قتل کے حکم کے دائرے میں نہیں دیکھا جائے گا بلکہ اسے حضور نبی اکرم ﷺ کو اذیت پہنچانے کے حکم کے دائرے میں دیکھا جائے گا۔
شہادتِ امام حسین علیہ السلام آپ ﷺ کو اذیت پہنچنے کا باعث کس طرح ہے؟ یہ امر احادیثِ صحیحہ اور احادیثِ حسنہ سے ثابت ہے۔اس ضمن میں ذیل میں چند احادیث کا ذکر کیا جاتا ہے:
1۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حسن اور حسین علیہما السلام دونوں میرے گھر میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھیل رہے تھے کہ جبرئیل امین علیہ السلام خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! بے شک آپ ﷺ کی امت میں سے ایک جماعت آپ ﷺ کے اس بیٹے حسین کو آپ ﷺ کے بعد قتل کردے گی اور آپ کو (وہاں کی تھوڑی سی) مٹی دی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس مٹی کو اپنے سینہ مبارک سے چمٹالیا اور روئے پھر فرمایا:
یا ام سلمه اذا تحولت هٰذه التربة دما فاعلمی ان ابنی قد قتل. فجعلتها ام سلمة فی قارورة ثم جعلت تنظر الیها کل یوم وتقول ان یوما تحولین دما لیوم عظیم.
(الخصائص الکبریٰ، 2: 125) (المعجم الکبیر للطبرانی، 3: 108)
’’اے ام سلمہ رضی اللہ عنہا! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا۔ ام سلمہ نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہر روز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا۔‘‘
2۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا (جو کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت زندہ تھیں) ایک دن رو رہی تھیں تو آپ سے پوچھا گیا کہ ’’آپ کیوں رو رہی ہیں؟‘‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
رایت رسول الله ﷺ فی المنام و علی راسه ولحیته التراب. فقلت: مالک یارسول الله؟ قال: شهدت قتل الحسین انفا.
(سنن ترمذی، ابواب المناقب، رقم: 3780)
’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ کے سر اور داڑھی مبارک پر گردو غبار ہے۔ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ ﷺ کیا بات ہے؟ (یہ گرد و غبار کیسا ہے)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے ابھی ابھی حسین رضی اللہ عنہ کو شہید ہوتے دیکھا ہے۔‘‘
3۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن دوپہر کے وقت میں نے نبی اکرم ﷺ کو اس طرح دیکھا جیسے کوئی سونے والا کسی کو دیکھتا ہے (یعنی خواب میں) کہ آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود ہیں اور آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک بوتل ہے جو خون سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیا: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ کیا ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا:
هٰذا دم الحسین و اصحابه ولم ازل التقطه منذالیوم.
(مشکوة المصابیح، باب مناقب اهل البیت)
’’یہ حسین اور اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے جس کو میں آج سارا دن (صبح سے لے کر اب تک بوتل میں) اکٹھا کرتا رہا ہوں‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت کو یاد رکھا (جس وقت یہ خواب دیکھا تھا) پس میں نے پایا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام اسی وقت شہید کیے گئے تھے۔‘‘
غور طلب امر یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ آپ ﷺ کی محبت کی شدت اور آپ ﷺ کی مؤدت کے تعلق کو دیکھنا ہوگا کہ امام حسین علیہ السلام کا مقام و مرتبہ حضور ﷺ کے قلبِ انور اور روح میں کیا ہے۔۔۔؟ امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے آپ ﷺ کے احساسات، جذبات، کیفیات کیا ہیں۔۔۔؟ امام حسین علیہ السلام اگر روتے تو آقا علیہ السلام تڑپ جاتے۔۔۔ نماز میں سجدے کی حالت ہے، امام حسین علیہ السلام پشتِ مبارک پر چڑھ گئے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اتارنے لگے تو انہیں اتارنے سے روک دیا۔ یعنی آپ ﷺ نے امت کو بتادیا کہ مجھے حسین علیہ السلام سے جو محبت ہے وہ مجھے کیفیتِ سجدہ سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ اللہ کے حضور سجدہ ریزی کے دوران بھی میں یہ نہیں چاہتا کہ حسین علیہ السلام کو اتنی سی بھی تکلیف ہوجائے کہ اس نے چاہا کہ میری پشت پر چڑھ جائے اور تم اسے نیچے اتار دو، یہ اسے ناگوار ہوگا، اس کی طبیعت پر بوجھ آئے گا اور اگر اتنا بوجھ بھی حسین علیہ السلام کی طبیعت پر آجائے کہ مجھے اپنے نانا کی پشت سے کیوں اتار دیا تو اس پر اتنا سا بوجھ آنا بھی مجھے گوارا نہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے امام عالی مقام علیہ السلام کی محبت کو یہاں تک درجہ دیا ہے کہ آپ علیہ السلام کی معمولی سی تکلیف بھی آپ ﷺ کو برداشت نہیں جبکہ دوسری طرف کربلا کا واقعہ سنا کر اسے محض نفسِ انسانی کا قتل کہہ کر صرف حرام کا فتویٰ دیں اور کہیں کہ اس سے کفر نہیں ہوتا تو یہ عمل قرآن مجید کی نفی ہوگی کیونکہ اللہ نے فرمایا کہ جو رسول اللہ ﷺ کو اذیت دیتے ہیں، ان پر دنیا و آخرت میں اللہ کی لعنت ہے اور ان کے لیے عذاب مھین تیار ہے۔
اللہ رب العزت نے رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچانے والے کے حکم کو بیان فرمانے کے بعد اس نکتہ کو مزید سمجھانے کے لیے ارشاد فرمایا:
وَالَّذِیْن یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَااکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا.
(الاحزاب، 33: 58)
’’اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بے شک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا‘‘۔
پہلی آیت میں رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینے والے کا حکم واضح کیا کہ ان پر اللہ کی لعنت ہے اور ذلت انگیز عذاب تیار ہے، یعنی وہ کافر ہوگئے۔ اگلی آیت میں عام مومنین کو اذیت دینے والے کے بارے میں حکم واضح کرتے ہوئے فرق بیان کردیا کہ جو مومنوں کو اذیت دیتے ہیں تو بے شک انھوں نے بہتان لگایا اور کھلا گناہ اپنے سر لے لیا۔
عمل ایک ہے: اذیت دینا۔ پہلی آیت میں رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچانے والے کو کافر اور دوسری آیت میں عام مومنوں کو اذیت دینے کے عمل کو بہت بڑا بہتان اور گناہ قرار دیا۔ گویا مومنوں کو اذیت دینا گناهِ کبیرہ ہے مگر رسول اللہ ﷺ کی ذات کو براهِ راست اذیت دینا ہو یا سیدہ کائنات سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا، سیدنا امام حسن علیہ السلام، سیدنا امام حسین علیہ السلام، سیدہ زینب و سکینہ علیہما السلام ، سیدنا زین العابدین علیہ السلام یا پوری عترت رسول ﷺ کی نسبت سے اذیت دینا ہو، یہ عمل کفر قرار پائے گا، اس لیے کہ ان کے لیے حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو ان کو اذیت دیتا ہے، وہ مجھے اذیت دیتا ہے۔
جب مومنوں کو اذیت دینے والے کی سزا کی بات کی تو فرمایا یہ بڑا گناہ ہے مگر جب رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینے کی بات آگئی تو فرمایا کہ دنیا و آخرت میں اللہ کی اس پر لعنت ہو اور اس کے لیے عذاب مھین تیار ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اور عام مومنین کو اذیت دینے والے کے حکم کے بارے میں اس مذکورہ فرق سے عقیدے اور شرعی حکم کے باب میں بالکل قطعی فیصلہ موجود ہے۔ یعنی جب مجرد مومنوں کو اذیت دینے کی بات کی تو لعنت نہیں بھیجی اور نہ عذاب مھین کی بات کی مگر جب رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینے کی بات کی تو دنیا و آخرت میں لعنت کا مستحق بھی ٹھہرایا اور عذاب مھین کے ذریعے کفر کا اعلان بھی کیا۔
اسی طرح سورہ النور میں تہمت سے متعلق بیان ہے کہ جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگی تو اس بابت میں قرآن مجید نے فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْٰاخِرَةِ.
(النور، 24: 23)
’’بے شک جو لوگ ان پارسا مومن عورتوں پر جو (برائی کے تصور سے بھی) بے خبر اور ناآشنا ہیں (ایسی) تہمت لگاتے ہیں، وہ دنیا اور آخرت (دونوں جہانوں) میں ملعون ہیں۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ یہ آیت خصوصیت کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ مقامِ غور یہ ہے کہ تہمت لگانے کی صورت میں ازواجِ مطہرات کو جب اذیت پہنچائی گئی تو قرآن مجید نے لعنوا فی الدنیا والآخرۃ (ان پر دنیا و آخرت میں لعنت کردی گئی) کے الفاظ استعمال فرمائے۔ اب سورہ احزاب کی آیت نمبر58 اور سورہ نور کی آیت نمبر23 کو سامنے رکھ کر موازنہ کریں تو سمجھ آجائے گی کہ سورۃ الاحزاب میں بھی اسی قسم کی اذیت کا ذکر ہے کہ جو مومن مردوں اور عورتوں پر بہتان لگاتا ہے تو ان کے لیے گناہ ہے۔ یعنی لعنت نہیں بھیجی مگر جب وہی تہمت، وہی الزام، وہی بہتان کا بیان ازواجِ مطہرات کے ساتھ جڑ گیا تو اب چونکہ ان کو اذیت دینا رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینا ہے، ان کی حرمت رسول اللہ ﷺ کی حرمت تک پہنچ جاتی ہے، ان کی عزت و تکریم رسول اللہ ﷺ کی عزت و تکریم کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اس لیے قرآن مجید نے اس کا حکم بھی جدا کردیا اور فرمایا کہ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْٰاخِرَةِ یعنی دنیا و آخرت میں ان پر لعنت کی گئی ہے۔
اندازہ لگائیں کہ ایک عام نفسِ انسانی کو اذیت دینے والے کے بارے میں کیا حکم ہے، ام المومنین رضی اللہ عنہا کے لیے کیا حکم ہے اور نفسِ رسول و عترتِ رسول اللہ ﷺ کے لیے کیا حکم ہے؟ پس جب اذیت دینے کا عمل حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات تک جاتا ہے تو اذیت دینے والے کے لیے لعنت اور اس عذاب مھین کا ذکر کیا ہے جو صرف کفار و مشرکین کے لیے آتا ہے اور جب رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچانے کے جرم میں عذاب مھین کا ذکر آگیا تو وہ شخص کفار و مشرکین کے دائرے میں چلا گیا۔
قرآن مجید کے اسلوب سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینے والے کے کفر کے سبب اس کے لیے توبہ کی بھی گنجائش نہیں رکھی۔ قرآن مجید کے اس صریح حکم کے آجانے کے بعد اب یزید کے لیے توبہ کے احتمال اور امکانات ڈھونڈنا، فعلِ حرام اور فعلِ کفر کے فرق کو ڈھونڈنا، مختلف موشگافیوں کو ڈھونڈنا، اس کے لیے ہمدردی ڈھونڈنا اور اسے تحفظ فراہم کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔
لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ جو رسول اللہ ﷺ کے اتنے بے وفا ہوگئے۔۔۔ کیا رسول اللہ ﷺ کا اتنا حیا بھی نہیں رہا۔۔۔؟ کیا یہ اتنے غیر ہوگئے ہیں کہ انہیں حضور ﷺ کے وہ تمام فرمودات بھول گئے ہیں جو حضور ﷺ نے اپنی عترت پاک اور حسنین کریمین علیہما السلام کے لیے فرمائے تھے۔ (جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اگست 2021ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved