خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن کو مرتب کرتے ہوئے اُس کے لیے قواعد وضع کیے۔ کچھ علماء نے مکہ مکرمہ سے آپ کو خط لکھا کہ وضاحت فرمائیں کہ سنن ابی داؤد کی شرائط و قواعد کیا ہیں اور اُس میں روایتِ حدیث کے کیا اُصول آپ نے مقرر فرمائے ہیں؟
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اُس خط کا جواب دیا جو رسالۃ أبي داؤد إلی أھل مکۃ کے نام سے معروف ہے۔ اس میں آپ نے خود اپنے قلم سے اپنی کتاب ’سنن‘ میں احادیث کو اخذ و روایت کرنے کے درج ذیل اُصول بیان فرمائے جو امت اور علماء کے لیے قوا عدِ علم الحدیث بن گئے۔ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ صحاح ستہ کے دیگر ائمہ کی طرح علم حدیث میں امام اور مجتہد ہیں۔ یہ جو بات لکھ دیں اور فرمادیں تو وہ قاعدہ اور اُصول بن جاتا ہے اور سارے لوگ پھر اُن کی پیروی کرتے ہیں۔
(1) سنن ابی داؤد میں ایک حصہ میں امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے وہ احادیث روایت کی ہیں ما أخرجہ الشیخان جن کی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ دونوں نے تخریج کی ہے۔ یعنی جو متفق علیہ ہیں۔
(2) سنن ابی داؤد میں مذکور دوسرا حصۂ احادیث وہ ہے جن کو صرف امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا یا امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا، یعنی ان دونوں میں سے کسی ایک نے روایت کیا ہے اور دوسرے نے چھوڑ دیا تو امام ابوداؤد نے ان احادیث کو بھی روایت کیا۔
(3) سنن ابی داؤد کی احادیث کا ایک حصہ وہ ہے:
وکان إسناده جیداً سالماً من علة وشذوذ.
’’جن کے اسناد جید بھی تھے اور علل و شذوذ سے محفوظ بھی تھے۔‘‘
یعنی وہ احادیث جن کی تخریج امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے نہیں کی تھیں مگر وہ صحیح تھیں اور ان ائمہ کی شرائطِ صحت پر پوری اترتی تھیں، امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث کو بھی روایت کیا ہے۔
(4) سنن ابی داؤد میں بیان کردہ احادیث کا چوتھا حصہ یہ ہیں:
ما کان إسناده صالحا وقبله العلماء لوجیئه من وجهین لینین.
’’جن کے اسناد صالح ہیں اور علماء نے اسے قبول کیا ہے اور وہ دو ایسے طریق سے آئی ہیں جو نرم (کمزور) ہیں۔‘‘
صالح کا مطلب ہے کہ اُن احادیث پر صحیح کا ٹائٹل نہیں لگتا مگر وہ صالح اور مقبول ہیں اور انھیں علماء نے قبول کیا ہے اور یہ احادیث دو نرم طرق اور اسناد سے آئی ہیں۔ یعنی ان طرق میں کوئی نہ کوئی کمزوری ہے مگر دو طرق کے مل جانے نے اُسے اتنی تقویت دے دی کہ امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اُنہیں صحیح کے درجے میں قبول کیا ہے حالانکہ یہ اسناد خود صالح کے درجے میں تھیں۔
(5) سنن ابو داؤد میں پانچواں حصہ اِن احادیث پر مشتمل ہے:
ما ضعف إسناده لنقص حفظ الراوي فمثل هذا.
’’جس کی سند میں کسی راوی کے حفظ کی کمزوری یا اس کی مثل کسی وجہ سے ضعف ہو۔‘‘
ایسی احادیث کو روایت کر کے امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ان پر زیادہ تر سکوت اختیار کیا ہے یعنی ان کو رد نہیں کیا۔ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کا حدیث کو روایت کر کے کسی ایک راوی کے حفظ کے نقص کے باوجود اُس پر سکوت اختیار کرنا اُس کو درجۂ قبولیت دیتا ہے اور آپ کی خاموشی اُس حدیث کے مقبول ہونے کی سند ہے۔
(6) سنن ابوداؤد میں چھٹا حصہ وہ روایات ہیں جن میں:
بین الضعف من جهة الراوي.
’’راوی کی کسی ایک جہت کے ضعف کو واضح کر دیا۔‘‘
یعنی یہ بیان کر دیا کہ یہ ضعف ہے اور پھر حدیث کے اُس مرتبے کو بیان بھی کر دیا۔ ایسی روایات کو بیان کرتے ہوئے امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ اُس حدیث کو شہرت مل جانے کے سبب خاموش رہے۔ شہرت کا مطلب ہے تلقی بالقبول اور عمل الفقہاء، یعنی علماء، ائمہ اور اہلِ علم نے اسے قبول کر لیاہے۔ گویا اگر کسی روایت کو شہرت مل جائے تو بھی وہ حدیث درجہ صحیح پر چلی جاتی ہے اور اُس کا ضعف ختم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
الأحادیث التي وضعتها في کتاب السنن أکثرها مشاهیر.
’’میں نے اپنی کتاب (سنن) میں جو احادیث روایت کی ہیں، اُن میں سے اکثر درجۂ شہرت کی ہیں۔‘‘
(7) سنن ابی داؤد کے لیے اخذِ حدیث کے اصول کو بیان کرتے ہوئے امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کتاب میں ان احادیث کو بھی درج کیا ہے:
وإن من الأحادیث فی کتابی السنن ما لیس بمتصل وهو مرسل و مدلس و هو إذا لم توجد الصحاح عند عامة أهل الحدیث.
ایسی ضعیف حدیث جو مرسل یا مدلس ہے اور متصل نہیں ہے مگر اُس باب میں صحاح میں سے کوئی صحیح حدیث میسر نہیں تو ائمہ حدیث کے ہاں اُس حدیث کو لینا نہ صرف جائز بلکہ واجب ہوجاتا ہے۔ ورنہ اس شرعی حکم پر خاموشی رہ جائے گی اور امت کی راہنمائی نہیں ہو گی۔
یاد رکھیں! کوئی بھی حدیث خواہ وہ کسی بھی درجہ کی ہے، وہ منقول تو آقا علیہ السلام ہی کی طرف سے ہے مگر کسی ایک راوی میں حفظ یا کسی اور وجہ سے کوئی نقص رہ گیا تو اُس سند کو ضعیف کا ٹائٹل مل گیا لیکن ضعیف ہونے کا معنی ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہ روایت کذب، جھوٹ، باطل اور موضوع ہے بلکہ اُس کے اندر غالب احتمال صدق اور سچا ہونے کا برقرار ہے اور جب خارجی قرائن اُس کو تقویت دیتے ہیں تو ائمہ حدیث کے نزدیک یہ اُس کے ضعف کا ارتفاع ہے کہ ضعف ختم ہو گیا۔
درج بالا اصولوں سے امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کا حدیث ضعیف کے باب میں مذہب اور طریق بخوبی واضح ہوگیا ہے۔
امام نسائی نے بھی اپنی ’سنن‘ میں درج ذیل تین اقسام کی احادیث جمع کی ہیں اور اس طریق پر امت اور اہلِ علم کے لیے قواعد وضع کر دیئے ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی نے سنن نسائی کی شرح کے مقدمہ میں ان اصولوں کی تفصیل بیان کی ہے۔ ذیل میں ان قواعد کو خلاصتاً درج کیا جاتا ہے:
1. الصحیح المخرّج في الصحیحین
امام نسائی نے اپنی ’سنن‘ میں وہ احادیث درج کی ہیں جن کا مخرج ’صحیحین‘ ہیں یعنی وہ احادیث جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی موجود ہیں۔
2. صحیح علی شرطهما
’سنن النسائی‘ میں مذکور احادیث کی دوسری قسم یہ ہے کہ وہ احادیث جنہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے تو روایت نہیں کیا مگر وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی شرائطِ صحت پر پوری اترتی ہیں۔ یہی مذہب امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے جسے ہم ذکر کرچکے ہیں۔
3. أحادیث أخرجاها من غیر قطع منهما بصحتها وقد أبانا
(امام ابوداؤد اور امام نسائی) دونوں نے اپنی کتب میں وہ احادیث روایت کی ہیں جن کی صحت پر تو قطعیت نہیں ہے مگر دونوں نے اس حدیث کی علت واضح کر دی ہے اور اُس کے ضعف کو سمجھا دیا ہے۔ نیز حدیث کو روایت کرنے کا سبب بھی بتا دیا ہے کہ اِس کو کس وجہ سے تقویت پہنچی ہے۔
ابو عبد اللہ بن مندہ نے روایت کیا ہے کہ امام نسائی کا طریقہ یہ تھا کہ
أن شرطها إخراج أحادیث أقوام لم یُجْمَعْ علی ترکهم، إذا صح الحدیث بالتصال الإسناد من غیر قطع ولا إرسال.
امام نسائی صرف اُس حدیث کو ترک کرتے، جس حدیث کو ترک کرنے پر تمام ائمہ اجماع کر لیتے۔
یعنی جس حدیث پر سب ائمہ جرح کرتے اور تمام کا اجماع ہوجاتا کہ اِس کو ترک کر دیا جائے اور جب کوئی حدیث اجماعاً متروک ہو جاتی تو متروک حدیث کو امام نسائی ترک کرتے۔ دوسری طرف وہ احادیث جس پر ائمہ کا اختلاف ہوتا یعنی جرح بھی ہوتی اور تعدیل بھی ہوتی، طعن بھی ہوتا اور توثیق بھی ہوتی تو امام نسائی اُس کا جائزہ لیتے کہ جرح مفسر ہے یا مبہم ہے؟ تعدیل کی تفصیل کیا ہے؟ معدلین اور جارحین میں سے زیادہ کون ہیں؟ کس کس درجے کے ائمہ نے تعدیل کی ہے؟ ان امور کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کر کے روایت کرتے۔ آپ چونکہ مجتہد ہیں، اس لیے جب مجتہد فیصلہ کرتا ہے تو وہ اُصول الحدیث کا قاعدہ بن جاتا ہے۔ یہی طریقہ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنایا ہے۔
یہ امر ذہن میں رہے کہ امام نسائی کی حدیث کو قبول کرنے کی شرائط امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ امام نسائی کے تلامذہ میں سے کسی سے پوچھا گیا کہ فلاں فلاں حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یا امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے لی ہے مگر اُن رواۃ کو امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے نہیں لیا؟ تلامذہ نے جواب دیا کہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اُن راویوں کو لینے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ جرح کرنے والوں کے تین طبقے ہیں:
امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار سخت جارح طبقہ میں آتا ہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اگر کسی راوی کو لے لیں تو سمجھیں کہ اُن کا لے لینا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے لے لینے سے کم درجے کا نہیں ہے بلکہ اُن سے بھی زیادہ احتیاط کا حامل ہے جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ معتدلین میں ہیں۔ ان کا شمار جرح میں سخت لوگوں میں ہوتا ہے اور نہ نرم لوگوں میں بلکہ وہ درمیانی جرح کرتے ہیں۔
امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ایک ہے مگر امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ، امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی احسن ہیں۔ ان کا درجہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ و امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ آتاہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کے متعدد شیوخ بھی مشترک ہیں۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے بعد صحت میں تیسرا درجہ سنن نسائی کا ہے۔ اس لیے کہ سنن نسائی میں عدد کے اعتبار سب سے کم ضعیف احادیث ہیں اور سب سے کم مجروح رجال سنن نسائی میں ہیں۔ یعنی امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کے وہ رجال عدداً کم تر ہیں جن پر جرح ہوئی اور وہ احادیث جن پر ضعف کا حکم ہوا، وہ بھی تعداد کے اعتبار سے کم ترین ہیں۔ اس سے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی قبولیتِ حدیث کے باب میں احتیاط کا اندازہ ہوتا ہے۔
امام ابو زرعہ الرازی نے کہا کہ پوری سنن نسائی میں مجھے تیس احادیث ملی ہیں جن کو ضعیف کہا جا سکتا ہے۔ بعض دیگر علماء نے کہا کہ یہ قول صحیح نہیں ہے، اِس کا معنیٰ یہ نہیں کچھ اور ہے۔ مقصد بات کرنے کا یہ تھا کہ اِس حد تک ائمہ نے اِن کے مراتب کو بیان کیا ہے۔
سنن نسائی کے اس مقام و مرتبہ کو جان لینے کے بعد اب یہ کہنا کہ حدیث صحیح صرف صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہیں تو سنن نسائی کو کس درجے میں رکھیں گے؟ سنن ابو داؤد کو کس درجے میں رکھیں گے؟ سنن ترمذی کو کس درجے میں رکھیں گے؟ یہ ساری کتب، ہزار ہا احادیثِ صحیحہ کے ذخائر ہیں۔ ان کے بعد صحیح بخاری و صحیح مسلم کے مستخرجات اور مستدرکات ہیں۔ پھر صحیح ابن حبان ہے، حاکم کی مستدرک ہے، صحیح ابن خزیمہ ہے۔ پھر وہ کتابیں ہیں جنہیں اجل ائمہ نے تالیف کیا اور اُنہیں صحیح کا نام دیا۔ بلاشبہ وہ درجہ میں صحیح بخاری و صحیح مسلم جیسی نہیں ہیں مگرجن ائمہ نے صحیح بخاری و صحیح مسلم کے بعد کسی اور کتاب کو بھی صحیح کا لقب دیا، وہ ائمہ بذاتِ خود اور ان کا معیارِ اخذ ان کتب کے صحیح ہونے کے لیے سند ہیں۔
سنن ابن ماجہ کی کیفیت یہ ہے کہ امام ابن ماجہ نے اپنی ’سنن‘ میں بتیس (32) کتب شامل کی ہیں۔ کئی ابواب کے مجموعے کو کتاب کا نام دیتے ہیں۔ سنن ابن ماجہ کے پندرہ سو (15۰۰) ابواب ہیں اور تقریباً چار ہزار احادیث اس میں مذکور ہیں۔ ان میں سے بیشتر احادیث وہ ہیں جن کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا یا امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا یا امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے یا امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے یا امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے۔ وہ تمام احادیث اور رواۃ جو بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی اور ترمذی کے ہیں، وہی رواۃ ابن ماجہ کے بھی ہیں۔ لہٰذا اِن رواۃ پر تو کلام نہیں ہے۔ بے شک احادیث اُنہوں نے الگ روایت کیں مگر رواۃ وہی ہیں، جن پر کلام اور طعن نہیں ہے۔
اِس لیے کئی ائمہ نے سنن ابن ماجہ کو صحاح ستہ میں شامل کیا۔ وہ رواۃ جو اوپر کی پانچوں کتابوں کے نہیں ہیں اور جن میں ابن ماجہ منفرد ہیں، اُن میں طعن اور ضعف کی بات آئی ہے۔ بعض نے سنن ابن ماجہ کے ایک ہزار رواۃ پر ضعیف کا حکم لگایا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ سنن ابن ماجہ میں بھی امام ابن ماجہ نے ضعیف روایات کو قبول کرتے ہوئے انہیں بیان کیا ہے۔
حدیث ضعیف کے حوالے سے ہم تفصیلی گفتگو کرچکے کہ ’ضعیف‘ کا معنی ہر گز ’موضوع‘ نہیں ہے۔ ضعیف حدیث فضائل میں مقبول ہے اور جہاں احکام اور معاملات میں صحیح اور حسن دستیاب نہ ہو وہاں بھی مقبول ہے۔ جملہ ائمہ کرام کا یہی طریقہ تھا کہ وہ حدیثِ ضعیف کو قبول کرتے۔ یہ ائمہ وہ ہیں جنہوں نے قبولِ حدیث یا ردِ روایت کے قواعد وضع کیے ہیں۔ یہ ائمہ؛ علم کے ستون ہیں، جن پر پورے علمِ حدیث کا مدار ہے۔ لہذا حدیثِ ضعیف کے باب میں ان ائمہ کے اقوال اور ان کا حدیثِ ضعیف سے استدلال حدیثِ ضعیف کی قبولیت و مقبولیت کا صراحتًا اظہار ہے۔ (جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جون 2021ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved