شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
وہ اعمال یا اشیاء جن کی حرمت کا ذکر قرآن و سنت میں صریحاً موجود نہیں تو وہ بذاتِ خود مباح ہیں اور ایسے امور کا بجا لانا حرام یا منع نہیں ہے۔ اس لیے کہ حرمت صرف قرآن مجید اور حدیث نبوی کے ذریعے ہی ثابت ہوتی ہے۔ اس مسئلہ کو جرح و تعدیل کے قاعدہ کے حوالے سے بھی واضح کرسکتے ہیں:
محدثین نے جرح و تعدیل کے باب میں احتیاط اور تقویٰ کے پیشِ نظر یہ قاعدہ و اصول مقرر کر رکھا ہے کہ جرح مفسر ہونی چاہیے، اگر کسی راوی کے بارے میں یہ آئے کہ اس سے روایت نہیں لینی تو پوچھا جائے کہ اس سے روایت کیوں نہیں لینی تا کہ بات واضح ہو جائے۔ چند مثالوں سے اس کی وضاحت کرتا ہوں:
1۔ امام شعبہ بن الحجاج (امیر المؤمنین فی الحدیث) نے کسی راوی سے حدیث لینا ترک کر دی۔ کسی شاگرد نے پوچھا کہ ان سے روایت کیوں نہیں لینی؟ اُنہوں نے فرمایا: میں نے اسے ایک دن ترکی گھوڑے پر سواری کرتے دیکھا تھا۔
ان کا یہ بیان جرح مبہم ہے۔اس زمانے میں ترکی گھوڑے پر سواری کرنا شاہانہ زندگی کی علامت تھی۔ یہ امام شعبہ بن الحجاج کے تقویٰ کا اظہار ہے کہ وہ اس طرح کی شاہانہ زندگی گزارنے والے سے حدیث روایت نہیں کرتے جبکہ دوسری طرف فن اور اصول کا تقاضا یہ ہے کہ اس جرح مبہم کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ امام شعبہ نے شاہانہ زندگی کو روایتِ حدیث کے باب میں خلافِ تقویٰ قرار دیا، ان کا تقویٰ اپنی جگہ بجا مگر فن اور اصول کے مطابق یہ جرح مبہم قبول نہیں کی جائے گی۔
2۔ اسی طرح حضرت شعبہ نے ایک اور راوی سے روایت لینا چھوڑ دی۔ وجہ پوچھی گئی تو کہا: میں ایک دن اُن کے گھر حدیث لینے کے لیے گیا تو اُن کے گھر سے طنبور کی آواز آ رہی تھی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کو الحان سے پڑھ رہے تھے لیکن انہیں الحان اور طنبور کی آواز میں مغالطہ لگ گیا، لہذا ان سے روایت لینا احتیاطاً ترک کر دی۔ کسی دوسرے امام نے ان سے کہا: کیا آپ نے ان سے پوچھا کہ آپ کے گھر سے طنبور کی آواز آرہی ہے؟ کہا: نہیں پوچھا۔ فرمایا: ممکن ہے کہ اُن کو پتہ ہی نہ ہو، وہ کسی اور کمرے میں سوئے ہوئے ہوں۔
پس ائمہ نے کہا کہ یہ ایسی جرح نہیں ہے کہ جسے قبول کیا جائے۔
3۔ ایک اور محدث نے کسی راوی سے روایت لینا ترک کر دی۔ حکم بن عتیبہ نے وجہ پوچھی تو کہا کہ وہ باتیں زیادہ کرتا ہے۔
اس طرح کی جرح؛ جرح مفسر نہیں۔ اس لیے کہ ایک طرف تقویٰ ہے اور دوسری طرف فن اور اُصول ہے۔ اُنہوں نے تقویٰ کی بناء پر یہ محسوس کیا کہ جو آدمی زیادہ باتیں کرتا ہے تو وہ باتوں میں محتاط نہیں ہوگا اور جو غیر محتاط ہے تو اُس سے غلط بات بھی منہ سے نکل جاتی ہوگی۔ لہذا اس امکان کے پیشِ نظر انہوں نے روایت لینا ترک کردی۔ یہ حدیثِ مصطفیa کی حفاظت کا وہ اہتمام ہے کہ رَتی برابر بھی کسی کو کسی کے تقویٰ میں شک ہوتا تو اس سے بھی روایت لینا چھوڑ دیتا۔ یہ ایک رنگ ہے۔ دوسرا رنگ فن اور اُصول کا ہے کہ جرح مبہم کی بناء پر کسی راوی کو رد کرنا اصول اور قاعدے کے خلاف ہے۔ اُصول اجازت نہیں دیتا کہ اِس راوی کو رد کر دیا جائے۔
4۔ امام ابن جریر نے سماک بن حرب سے روایت لینے سے منع کر دیا۔ کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا: میںنے ایک دفعہ انہیں دیکھا کہ وہ کھڑے ہو کر پیشاب کررہے تھے، سو میں نے ان سے روایت لیناترک کر دیا۔
اب جب تک جرح کرنے والے عالم، محدث اور امام سے یہ پوچھا نہیں جائے گا کہ آپ جو منع کر رہے ہیں، اِس کی وجہ کیا ہے؟ تو یہ جرح مجمل و مبہم ہی رہے گی، مفسر نہیں بنے گی اور منع کا راز نہیں کھلے گا۔ ائمہ نے امام ابن جریرؒ کی اس جرح مبہم کے حوالے سے فرمایا کہ ممکن ہے کہ وہ ایسی جگہ ہو جہاں بیٹھ کر پیشاب کرنے سے ستر ننگا ہوتا ہو، ستر ننگا ہونے سے بہتر ہے کہ کھڑے ہو کر اپنی پردہ داری کر لو۔۔۔ ممکن ہے کہ اُس کی ٹانگوںمیں تکلیف ہو اور وہ بیٹھ نہ سکتا ہو۔۔۔ ممکن ہے کہ جگہ ایسی ہو، جہاں بیٹھنے سے کپڑے خراب ہوتے ہوں۔۔۔ الغرض کئی عذر بن سکتے ہیں مگر مبہم جرح کرنے والے نے عذر بیان نہیں کیا۔ ایک فعل دیکھا اور رائے قائم کر لی۔
لہٰذا جرح مفسر کا مطلب ہے کہ جرح کی تفصیل میں جایا جائے۔ جب انسان تفصیل میں جاتا ہے تو پھر فیصلہ کرتا ہے کہ جرح قبول ہے یا تعدیل؟یہ چند ایک چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں مگر اپنے اثر کے اعتبار سے نہایت گہری ہیں۔ منع کا معاملہ ہو تو جرح مفسر کا اصول ہے، جبکہ اگر کسی راوی کے بارے میں جرح وارد نہ ہوئی ہو توتعدیل کے لیے مفسر کا اصول نہیں ہے بلکہ تعدیل بغیر تفسیر کے قبول ہے۔ اِس لیے کہ تعدیل کس کس شے کی کی جائے۔ یعنی راوی کی کس کس خوبی کو بیان کیا جائے۔ مثلاً: پابند صوم و صلوۃ ہے، تہجدگزار ہے، رزق حلال کھاتا ہے، اچھا لباس پہنتا ہے، سچ بولتا ہے، صاحبِ علم ہے، اچھا حافظہ ہے، اچھا تقویٰ ہے، الغرض ہزار چیزیں ہیں، اچھائیوں کی تو کوئی حد ہی نہیں، کس کس کو بیان کیا جائے۔
جرح و تعدیل کے اسی اصول کا اطلاق ہمارے زیرِ بحث موضوع پر بھی ہوتا ہے کہ منع، حرمت اور کراہت کے لیے دلیل چاہیے اور جس میں حرمت اور کراہت کی دلیل نہیں آئی وہ چیز از خود حلال اور مباح ہو جائے گی۔
حدیث مبارک میں ہے الحلال بیّنٌ والحرام بیّنٌ (حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔) اگر حلال کی فہرست بیان نہیں کی گئی تو الحلال بیّن کا معنیٰ کیا ہے؟
ذہن نشین رہے کہ کسی امر کے حلال ہونے کے کئی درجات ہیں:
گویا حلال کی دو بڑی اقسام ہیں:
لہٰذا کوئی چیز نصاً تصریحاً حلال ہوگئی یا وہ سکوتاً حلال ہوگئی جبکہ والحرام بیّن، کے لیے سکوت نہیں ہے بلکہ اُس کے لیے تصریح ہے۔
یاد رکھیں! دلیل کی قوت اور دلیل کی کمزوری حلال کے مرتبے اور رتبے کو اوپر اور نیچے کرتی چلی جاتی ہے۔ جس دلیل سے ایک چیز مستحب ثابت ہوتی ہے، اُس کو سنت مؤکدہ نہیں کہہ سکتے۔۔۔ جس دلیل سے کوئی چیز مستحب اور سنت ثابت ہوتی ہے، اس دلیل سے وہ فرض اور واجب ثابت نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح جس دلیل سے کوئی فعل حرام ثابت ہوتا ہے، وہ دلیل اُسی قوت کی ہے جس قوت کی دلیل سے دوسری طرف فرض اور واجب ثابت ہوتا ہے۔ مثبت دلیل نے جس کام کو فرض ثابت کیا، منفی طرف اُسی درجے کی قوت والی دلیل نے اس چیز کو حرام بنایا۔۔۔ اِس طرف جس قوت کی دلیل نے کسی امر کو واجب ثابت کیا تو منع کی طرف اُسی قوت کی دلیل نے اُس کو مکروہِ تحریمی ثابت کیا۔۔۔ ایک طرف اُس سے کم درجے کی دلیل نے کسی کام کو سنت مؤکدہ ثابت کیا تو دوسری طرف اسی درجے کی دلیل نے اُس کو اساء ت بنایا۔۔۔ اُس سے کم درجے کی دلیل نے کسی امر کو سنت غیر مؤکدہ ثابت کیا تو دوسری طرف اسی درجہ کی دلیل سے مکروہ تنزیہی ثابت ہوا۔۔۔ اِس سے کم درجے کی دلیل نے کسی کام کو مستحب ثابت کیا تو دوسری طرف اسی درجے کی دلیل نے اُس کو خلافِ اولیٰ ثابت کیا۔
گویا اوامر و نواہی کے درج ذیل گیارہ درجات ہیں، ان میں سے پانچ درجات اوامر کی طرف جبکہ پانچ درجات نواہی کی طرف ہیں اور ایک درجہ دونوں اطراف میں مشترک ہے۔
اوامر کے درجات:
نواہی کے درجات:
مشترک درجہ: مباح
یہ درجات احناف متأخرین نے بنائے ہیں۔ اِس سے قبل چار درجات تھے، اُس سے قبل تین تھے اور اُس سے قبل دو درجات تھے۔ مباح کا درجہ دونوں طرف مشترک ہے۔ دلیل کی قوت امر کی طرف حکم کو ایک درجہ دیتی چلی جاتی ہے اور دلیل کی قوت منع کی طرف ایک درجہ مرتب کرتی ہے۔
اس تمام بحث کو بیان کرنے کا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ حلال اپنے درجات کے اعتبار سے فرض، واجب، سنت یا مستحب ہوگا اور یہ کسی نہ کسی دلیل سے ثابت ہوگا۔ اسی طرح کوئی منع کی گئی چیز اپنے درجات کے اعتبار سے حرام، مکروہِ تحریمی، اساء ت، مکروہِ تنزیہی یا خلافِ اولیٰ ہوگی۔ جبکہ مباح آخری درجہ ہے جو امر و نہی میں مشترک ہے، یعنی کسی کام کے منع کی بھی دلیل میسر نہ ہو تو وہ کام بھی حلال ہوتا ہے۔ اِسی وجہ سے اصول فقہ کا قاعدہ ہے: الأصل فی الأشیاء الاباحۃ۔
’’تمام چیزوں کی اصل اباحت یعنی مباح ہونا ہے۔‘‘
(اس تمام کے تفصیلی مطالعہ کے لیے میری کتاب ’’الحکم الشرعی‘‘ کا مطالعہ کریں جس میں تفصیل کے ساتھ دلائل دیئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں اس موضوع پر میرے خطابات بھی سماعت کریں۔)
حدیث ضعیف پر چاروں ائمہ کا عمل ہے اور اس سے استدلال اور احتجاج کرنے پر ان کا اجماع ہے۔ حدیث ضعیف پر عمل کرنے کے حوالے سے درج ذیل تین مذاہب ہیں۔ جنہیں علامہ ابن القیم نے الاعلام میں بیان کیا ہے:
حدیث ضعیف پر عمل کے حوالے سے پہلا مذہب یہ ہے کہ:
أنه یعمل بالحدیث الضعیف مُطلقاً. أی فی الحلال والحرام والفرض والواجب بشرط ألّا یُوجدَ غیره.
’’حدیث ضعیف پر مطلقاً عمل کیا جائے گا۔ یعنی حلال، حرام، فرض، واجب میں عمل کیا جائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی حدیث صحیح یا حدیث حسن موجود نہ ہو۔ ‘‘
اس مذہب میں بڑی وسعت ہے۔ اس مذہب کے مطابق حدیث ضعیف پر عمل صرف فضائلِ اعمال، زہد و رقائق اور ترغیب وترہیب میںہی نہیں بلکہ احکام کے باب میں بھی اگر کوئی حدیث صحیح یا حسن موجود نہ ہو تو حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے گا۔ امام ابو داؤدؒ، امام نسائی، امام اعظم ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل ؒ سمیت بڑے بڑے جلیل القدر امام اِس مذہب پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں کہ اگر کوئی حدیث صحیح یا حدیث حسن موجود نہیں تو پھر حکمِ شرعی بھی حدیث ضعیف سے ثابت ہو گا۔
حدیث ضعیف پر عمل کے حوالے سے دوسرا مذہب یہ ہے کہ:
لا یجوز العمل بالحدیث الضعیف مطلقاً، لا فی فضائل الأعمال ولا فی الحلال والحرام.
’’حدیث ضعیف پر مطلقاً عمل ہی نہیں کیا جائے گا۔ نہ فضائل اعمال میں اور نہ ہی حلال و حرام میں۔
دوسرا مذہب پہلے مذہب کے بالکل برعکس ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ مذہب صرف کہنے کی حد تک ہے، اِس مذہب پر کوئی امام عمل پیرا نہیں ہے۔ بس کتابوں میں بعض نے ذکر کر دیا۔ اس مذہب کو درج ذیل ائمہ کی طرف منسوب کیا جاتاہے:
گویا اس قول کے قائلین کے حوالے سے تینوں نسبتیں غلط ہیں۔ ثابت ہوا کہ ’’حدیث ضعیف پر مطلقاً عمل نہ کرنا‘‘، اہلِ علم کے ہاں سرے سے کوئی مذہب ہی نہیں ہے۔ بعض لوگ بغیر دلیل اور حجت کے اِسے امام بخاری کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ میں اس حوالے سے بھی وضاحت کرچکا کہ امام بخاری کی طرف اسے منسوب کرنا غلط ہے۔ امام بخاری ؒالجامع الصحیح کے علاوہ اپنی جمیع کتب میں حدیث ضعیف سے استدلال کرتے رہے ہیں اور میں اس پر ’’الادب المفرد‘‘ سمیت بہت ساری دیگر کتابوں سے متعدد حوالہ جات بیان کرچکا ہوں۔
حدیث ضعیف پر عمل کے حوالے سے تیسرا مذہب یہ ہے کہ:
یجوز ویستحب العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الأعمال من المستحبات والمکروهات، والترغیب والترهیب.
’’مستحب و مکروہ اعمال کے فضائل اور ترغیب وترہیب میں حدیث ضعیف پر عمل جائز اور پسندیدہ ہے۔‘‘
یعنی اس تیسرے مذہب کے مطابق احکام کے سواء فضائلِ اعمال، ترغیب وترہیب، آداب، رقائق، قصص اور زہد میں حدیث ضعیف پر عمل ہوگا اور اس پر تمام ائمہ، محدثین اور فقہاء کا اتفاق اوراجماع ہے۔
گویا حدیث ضعیف کے حوالے سے خلاصۃ المذاہب یہ ہے کہ حدیث ضعیف فضائل میں حجت ہے لیکن احکام میں اگر حدیثِ صحیح اور حدیثِ حسن دستیاب نہ ہو تو تب حدیثِ ضعیف پر بھی عمل کیا جاتا ہے۔(جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اپریل 2021ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved