شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo
’’اور جو شخص اللہ (کے دامن) کو مضبوط پکڑ لیتا ہے تو اسے ضرور سیدھی راہ کی طرف ہدایت کی جاتی ہے۔‘‘
(آل عمران، 3: 101)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے تھامنے میں راهِ ہدایت کے حصول کی ضمانت دی گئی ہے۔ گویا تعلق باللہ ہی سے راهِ ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ آیئے! اب اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کا دامن تھامنے سے کیا مراد ہے اور اللہ کا دامن کیسے تھاما جاتا ہے؟ نیز اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق کس طرح قائم ہوسکتا ہے جو انسان کو راهِ ہدایت پر گامزن کردے اور اس کے سیرت و کردار میں تبدیلی لے آئے؟
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے انبیاء کرامf پر نازل کردہ کتب میں مذکور اللہ تعالیٰ کے فرمان سے تعلق باللہ کے درج ذیل تین درجات واضح ہوتے ہیں:
تعلق باللہ کا پہلا درجہ یہ ہے: من ارادنا اردناہ۔
’’جس بندے نے ہمارا (اللہ کا) ارادہ کر لیا، ہم (اللہ) اُس کا ارادہ کر لیتے ہیں۔‘‘
تعلق باللہ کے اس درجہ کا مفہوم غنیۃ الطالبین میں ارادہ کے باب میں حضور غوث الاعظمؓ کی طرف سے بیان کردہ ’’مرید‘‘ کی تعریف سے بھی واضح ہوتا ہے کہ جو شخص اللہ کا ارادہ کر لے اور جس کا دل خالصتاً اللہ کے ارادے میں فنا ہو جائے تو اُسے مرید کہتے ہیں۔ یعنی جب بندے نے اللہ کا ارادہ کیا تو وہ مرید بن گیا۔ دوسری صورت اگر اللہ اُس بندے کا ارادہ فرما لے تو وہی مرید؛ ’’مراد‘‘ بن جاتا ہے۔ یعنی بندہ اگر اللہ کا طالب بنے تو وہ اسے مطلوب بنالیتا ہے اور اگر اللہ کا محب بنے تو وہ اسے اپنا محبوب بنالیتا ہے۔
کتنے خوش نصیب ہوں گے وہ لوگ جن کا تعلق باللہ اس درجہ کا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے خلوص کو دیکھتے ہوئے اِن کا ارادہ کرلیتا ہے، انہیں چاہنے لگتا ہے، ان کی طرف اپنی توجہ فرماتا ہے اور اپنے لطف و کرم کا چہرہ ان کی طرف کرلیتا ہے۔ ہم تو اللہ کے مرید بننے کی طلب میں رہتے ہیں، جبکہ اس کے کرم کی انتہا یہ ہے کہ وہ فرماتا ہے کہ اے میرے بندے! میں تجھے ’’مراد‘‘ بنانے کو تیار ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے خالصتاً میرا ارادہ تو کر۔۔۔ اپنے دل کو میرے ارادے سے معمور کر۔۔۔ اور پھر دیکھ میں تجھے ’’مراد‘‘ کا مقام کیسے عطا کرتا ہوں۔
جب بندہ اللہ کی طرف سے مراد کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو ساری دنیا اُس بندے کا ارادہ کرنے لگتی ہے۔ اس لیے کہ جب اللہ نے اپنا چہرئہ شفقت اور چہرئہ لطف و کرم اُس بندے کی طرف کرلیا تو پھر مخلوق کیوں اس کا ارادہ نہیں کرے گی اور اسے اپنی توجہ کا مرکز و محور کیسے نہیں بنائے گی۔
تعلق باللہ کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ: من اردا منا اعطیناہ۔
’’اور جس نے ہم سے کسی شے کا ارادہ کیا، ہم نے اُسے وہ شے عطا کر دی۔‘‘
پہلے درجہ میں بندے نے اللہ کا ارادہ کیا، اسے ہی چاہا اور اس سے فقط اسے ہی مانگا تو اُس کے بدلے اللہ نے بھی اس کا ارادہ کر لیا، جبکہ دوسرے درجہ میں بندے کا اللہ سے تعلق اس قدر عالی اور مضبوط ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ سے کوئی بھی شے مانگے تو اللہ اسے وہ شے عطا فرماتا ہے۔ لہذا اگر بندہ اللہ سے اسی کی ذات کی چاہت کا سوال کرے تو اللہ اسے نہ صرف اپنی چاہت عطا کرتا ہے بلکہ اس بندے کو بھی چاہنے لگتا ہے۔
تعلق باللہ کا تیسرا مقام یہ ہے کہ: من أحبنا أحببناہ، ومن اکتفی بنا عمّا لنا کنّا لہ وما لنا۔
’’جس نے ہم سے محبت کی، ہم اُس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جس نے جو کچھ ہمارے پاس ہے، اُس پر قناعت کر لیا (یعنی وہ کہتا ہے کہ مولا جو کچھ تیرے پاس ہے میں اُسی پر بھروسہ کرتا ہوں تو اللہ فرماتا ہے) تو ہم بھی اُس بندے کے ہو گئے اور جو کچھ ہمارا ہے، وہ سب بھی اُسی بندے کا ہو گیا۔‘‘
یعنی جس نے ہم پر اکتفا اور بھروسہ کیا اور پھر طالب و محتاج بن کر دائیں بائیں تکتا نہ رہا تو ہم اُسی کے ہو گئے اور جو کچھ ہمارا ہے وہ بھی اُسی کا ہو گیا۔ اسی تصور کو علامہ اقبال نے یوں واضح کیا:
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
کُنَّا لَہٗ کی تفسیر اقبال نے ’’کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں‘‘ کے الفاظ میں کردی اور وَمَا لَنَا کی تفسیر ’’یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں‘‘ کے الفاظ میں کردی۔ یعنی اب ہم بھی اُسی بندے کے ہو گئے اور جو کچھ ہمارا ہے، وہ بھی اُسی کا ہو گیا۔
ألا من طلبني وجدني، و من طلب غیري لم یجدني.
’’میرے بندے آگاہ ہو جا! جس نے مجھے (صدقِ دل کے ساتھ) طلب کیا، اُس نے مجھے پا لیا اور جس نے میرے سوا کسی اور شے کی طلب کی (وہ اُسے پائے یا نہ پائے) مجھے نہیں پائے گا۔‘‘
یہ اولیاء و عرفاء کی شان ہے کہ وہ رب کو پالیتے ہیں کیونکہ وہ رب کو چاہتے ہیں اور رب ان کو چاہتا ہے جس کی وجہ سے پھر ساری کائنات انہی کی ہوجاتی ہے۔ افسوس کہ ہم وہ راہ چھوڑ کر دنیا کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں۔
کافر کی یہ شان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ شان کہ گم اُس میں ہیں آفاق
مردِ حق وہ ہوتا ہے کہ جس میں دنیا گم ہوجاتی ہے اور دنیا اُس کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ اس بندے کا ارادہ کر لیتا ہے اور جب اللہ کسی کو چاہنے لگے تو پھر دنیا بھی اُس کی محبت کی متلاشی دکھائی دیتی ہے۔ جب ہم دنیا کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگتے ہیں تو دنیا ہماری مراد بن جاتی ہے اور ہم دنیا کے مرید ہوجاتے ہیں۔
اس تصور کو اس مثال سے سمجھیں کہ جب ہم سائے کے پیچھے چلیں تو سایہ آگے آگے ہوتا ہے اور ہم پیچھے چلتے ہیں اور اگر اُسی جگہ رخ بدل لیں اور سائے کی طرف پشت کر کے الٹی سمت چلنے لگ جائیں تو پھر ہم آگے چلتے ہیں اور سایہ پیچھے پیچھے رہتا ہے۔ اسی طرح جب تک کہ ہم دنیا کو نہ چھوڑ دیں، دنیا ہمیں نہیں چھوڑتی۔
گویا اولیاء کو اللہ تعالیٰ نے الہام کیا کہ اے میرے بندے! اگر تو دنیا کی طلب میں بڑھتا چلا جائے گا تو دنیا تیرے آگے بھاگے گی اور اگر دنیا کو پشت کر کے میری طرف چلے گا تو دنیا تیرے پیچھے آئے گی۔
ألا من طلبني بالتوبة و جدني بالمغفرة. و من طلبني بشکر النعمة وجدني بالزیادة. ومن طلبني بالدعاء وجدني بالإجابة. ومن طلبني بالتوکل وجدني بالکفایة. ومن طلبني بالقربة وجدني بالمؤانسة. ومن طلبني بالمحبة وجدني بالوصلة.
’’جس نے مجھے توبہ کی آرزو کے ساتھ طلب کیا، اُس نے مجھے مغفرت کے ساتھ پا لیا۔ (یعنی جو توبہ کا دامن تھام کر مجھے طلب کرے گا، وہ میری مغفرت کو پا لے گا)۔۔۔ اور جس نے نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی حالت میں مجھے طلب کیا، وہ میری طرف سے نعمتوں کا کثیر حصہ پا لے گا۔۔۔ جس نے دعا کے ساتھ مجھے طلب کیا، وہ مجھے قبولیت کے ساتھ پا لے گا۔۔۔ جس نے توکل اور اعتماد کے ساتھ مجھے طلب کیا، وہ زندگی میں مجھے کافی و وافی پائے گا (یعنی اُس کی کوئی حاجت ادھوری نہیں رہے گی)۔۔۔ جس نے میرے قرب کو طلب کیا، وہ مجھے اپنے ساتھ محبت کرتا ہوا پا لے گا۔۔۔ اور جس نے میری محبت کو طلب کیا، اسے میرا وصال نصیب ہو جائے گا۔‘‘
اولیاء و عرفاء میں سے ایک نامور صوفی حضرت عبدالواحد بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز سفر پر جا رہا تھا کہ دورانِ سفر کسی صحرا میں مجھے ایک اللہ والا ملا، انھوں نے کملی اوڑھی ہوئی تھی۔ میں نے انھیں سلام کیا اور کہا:
رحمک الله أسئلک مسئلة.
’’اللہ آپ پر رحم فرمائے، میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
اُس عارف نے جواب دیا: بیٹے! پوچھ لو جو کچھ پوچھنا ہے، مگر مختصر بات کرنا، اس لیے کہ دن گزرے جا رہے ہیں اور سانسوں کی گنتی ہو رہی ہے۔
میں نے پوچھا: ما رأس التقویٰ؟
تقویٰ کی جڑ کیا ہے؟ یا تقویٰ کا کمال کیا ہے؟
فرمایا: أصبر مع الله
اللہ کے ساتھ صبر پر رہنا یہ تقویٰ ہے۔
میں نے پوچھا: ما رأس الصبر؟
صبر کا راز کیا ہے؟
فرمایا: التوکل علٰی الله.
ہر حال میں اللہ پر توکل رکھنا۔
میں نے پوچھا: توکل کا راز کیا ہے؟
فرمایا: الإنقطاع إلٰی الله.
ہر طرف سے دھیان کو کاٹ کر فقط اللہ کے دھیان پر لگ جانا۔
میں نے پوچھا: ما ألذ الأشیاء؟
اس دنیا میں سب سے لذیذ ترین شے کیا ہے؟
فرمایا: الأنس بذکر الله.
اللہ کے ذکر سے انس رکھنا۔
میں نے پوچھا: ما أطیب الأشیاء؟
سب سے زیادہ خوبصورت اور پاکیزہ شے کیا ہے؟
فرمایا: العیش مع الله.
اللہ کے ساتھ زندگی کی راحت پانا۔ یعنی زندگی ایسے گزارنا کہ اللہ کی معیت میں گم رہے اور اللہ کی معیت میں رہنے سے زندگی کا مزہ لے۔ سفر، حضر، سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، چلتے، پھرتے، کھاتے، پیتے الغرض ساری زندگی تصورِ معیتِ الہٰی کی لذت و کیفیت میں گزرے۔
میں نے پوچھا: سب سے زیادہ قریب شے کیا ہے جو آسانی سے مل سکے؟
فرمایا: اللحوق بالله.
اللہ سے ملنا۔ یعنی بندے کا اللہ سے ملنا بہت آسان ہے کیونکہ وہ بندے کے بہت قریب ہے مگر بندہ اس سے ملنا نہیں چاہتا۔ وہ تو فرماتا ہے:
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِo
’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘
(ق، 50: 16)
یعنی وہ ملنا چاہتا ہے، لیکن افسوس کہ ہم ملنے پر تیار نہیں۔
میں نے پوچھا: أي شيء أوجع للقلب؟
دل کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز کیا ہے؟
فرمایا:
فراق الله.
اللہ سے جدا رہنا۔ یعنی اللہ کے اوامر و نواہی سے جدا رہنا، اللہ کی قربت طلبی سے جدا رہنا، جس راہ پر اللہ چاہتا ہے کہ ہم چلتے ہوئے نظر آئیں، اُس راہ سے جدا رہنا۔ الغرض اللہ سے جدائی اختیار کر لینا زندگی کی سب سے بڑی تکلیف دہ چیز ہے۔
میں نے پوچھا: سب سے زیادہ سرور اور خوشی کس شے میں ہے؟
فرمایا:
حسن الظن بالله.
ہر حال میں اللہ کے ساتھ اچھی امید رکھنا۔
میں نے پوچھا: ما القلب السلیم؟
سلامتی والا دل کیا ہے؟
فرمایا: الذي لم یکن فیه سوی الله
سلامتی والا دل وہ ہے جس دل میں اللہ کے سوا کچھ نہ ہو۔ یعنی سارا دل اللہ کے جلوے، محبت، قربت، رضا اور دھیان سے معمور ہو تو وہ قلبِ سلیم ہے۔
میں نے پوچھا: من أین تأکل؟
آپ کھاتے کہاں سے ہیں؟
فرمایا: من خزائن الله.
اللہ کے خزانوں سے کھاتا ہوں۔
میں نے پوچھا: آپ کو کیا شے پسند ہے؟
فرمایا: اللہ جو فیصلہ کرے، وہی پسند ہے۔
میں نے عرض کی: جاتے ہوئے مجھے کوئی وصیت کر دیں جو میں زندگی میں اپنا لوں۔
فرمایا: بیٹے! اللہ کی اطاعت بجالانا، اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنا، اللہ کی یاد میں لذت لینا اور اللہ کے محبوب بندوں میں شامل ہو جانا۔
حضرت یحییٰ بن معاذ الرازیؓ جو اکابر اولیاء میں سے ہیں، اُن سے پوچھا گیا کہ قلبِ صحیح کی علامت کیا ہے؟
فرمایا: الذي هو من هموم الدنیا مستریح.
جو دل دنیا کے غموں سے پاک ہے وہ قلبِ سلیم ہے۔
افسوس! ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے دل ہر وقت دنیا کے غم و دکھ سے بھرے ہوئے ہیں۔۔۔ ’’یہ نہیں ملا، وہ نہیں ملا، کم مال ملا، فلاں زیادہ مالدار ہے، فلاں کے پاس گاڑیاں زیادہ ہیں، فلاں کی کوٹھی بڑی ہے، فلاں کی عزت زیادہ ہے، جاہ و منصب بڑا ہے، طاقت بڑی ہے، میرے پاس یہ نہیں، میرے پاس وہ نہیں۔۔۔‘‘ ہم نے یہ تمام گورکھ دھندے، لعنتیں، مصیبتیں، اذیتیں اپنے اوپر سوار کر رکھی ہیں۔ ہم نے اپنے دل کو رنج و الم، پریشانیوں، اذیتوں سے بھر رکھا ہے، ہمیں نہ سوتے میں سکون ہے اور نہ جاگتے میں قرار ہے۔ ہر وقت بے چینی ہے اور دھیان ہر وقت دنیا ہی کی چیزوں میں رہتا ہے۔
پوچھا گیا: دل کی غذا کیا ہے کہ یہ صحت مند ہوجائے؟
فرمایا: دل کی خوراک مولا کا ذکر ہے۔ یعنی وہ حی و قیوم ہے، جو دل اُس کا ذکر کرتا ہے، وہ دل بھی زندہ ہو جاتا ہے۔
پوچھا گیا: صدقِ ارادہ یعنی ارادے کی سچائی کیا ہے؟
فرمایا:
ترک ما علیه العادة.
اگر ارادہ میں پختگی چاہتے ہو تو دنیوی عادت و روش کو چھوڑ دو، ارادہ سیدھا ہو جائے گا۔
پوچھا گیا:
وما الشوق؟
شوق کیا ہے؟
فرمایا: ملاحظة ما فوق.
جو کچھ دنیا میں نیچے ہے، اسے نہ دیکھنا اور جو اوپر ہے اسے دیکھنا۔ یہی وجہ ہے کہ آقا علیہ السلام دعا فرماتے: مولا! اپنا شوق عطا فرما۔
پوچھا گیا: مرید کسے کہتے ہیں اور مرید کی علامت کیا ہے؟
فرمایا:
أن یشتغل بالعبید.
جو غلاموں کے پیچھے نہ دوڑے، وہ مرید ہے۔
پوچھا گیا: لذّت کیا ہے؟
فرمایا: رب سے موافقت رکھنا۔یعنی رب جس حال میں رکھے اور جو فیصلہ کردے، دل اُس کے موافق رہے۔۔۔ رب جو ہمارے لیے چاہے، دل اُس پر راضی ہو۔ اگر طبیعت اور اللہ رب العزت کے امر میں موافقت پیدا ہو جائے تو ساری زندگی لذّت سے معمور ہو جاتی ہے۔
پوچھا گیا: غریب (مفلس) کون ہے؟
فرمایا:
الذي لیس له من حبة نصیب.
جسے مولا کی محبت نصیب نہیں ہے، وہی غریب ہے اور جسے دل میں مولا کی محبت ملی ہے، وہ غریب نہیں بلکہ غنی ہے۔ یعنی مال اُس کے ہاتھ میں ہو یا نہ ہو چونکہ اُس کے دل میں مولا ہے، لہذا اُس سے بڑا غنی اور امیر کوئی نہیں۔ اللہ کی محبت اُس کو غنی کرتی ہے۔
پوچھا گیا:
ما أفضل الأعمال؟
افضل الاعمال کیا ہے؟
فرمایا:
ذکر الله علٰی کل حال.
ہر حال میں مولا کا ذکر کرنا۔یعنی ہر حال میں اللہ کو یاد رکھنا سب اعمال سے افضل عمل ہے۔
پوچھا گیا:
ما حجاب القلوب؟
دلوں پر جو پردے آ جاتے ہیں اور انوار نظر نہیں آتے یہ کیا ہیں؟
فرمایا:
الإستکفاء بالمولود.
وہ لوگ جو پرورش کے محتاج ہیں، جنہیں پرورش کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے دنیا پر بھروسہ کر لیتے ہیں، ان کے دل پر پردے آ جاتے ہیں اور جو پرورش کرنیوالے یعنی حقیقی رب پر بھروسہ کرتے ہیں، ان کے دلوں سے پردے اٹھا دیے جاتے ہیں۔
پوچھا گیا: وفا کیا ہے؟
فرمایا: صدق و صفا کا نام وفا ہے۔ یعنی دل دنیا کے دھیان سے خالی، کدورتوں سے پاک اور رنجشوں سے صاف ہو جائے تو اس حالت کو وفا کہتے ہیں۔
پوچھا گیا: شریف (عزت والا) کون ہے؟
فرمایا: جو رب کے ساتھ محبت رکھے، وہی شریف اور عزت والا ہوتا ہے۔
پوچھا گیا: دنیا کیا ہے؟
فرمایا:
ما شغلک عن المولٰی.
جو شے تجھے اللہ سے دور کر دے، اُس کا نام دنیا ہے۔ یعنی خواہ جائے نماز پر کھڑے ہیں تو یہ عمل بھی اللہ سے دور کر سکتا ہے اگر یہ خیال دل میں آجائے کہ ہمیں کوئی دیکھ لے گا تو کہے گا بڑے عبادت گزار ہیں تو اب جائے نماز پر کھڑے ہونے کے باوجود اللہ سے دور ہوگئے۔۔۔ اسی طرح سجدے میں ہیں اور دھیان یہ ہے کہ لوگ عبادت گزار سمجھیں گے، ہماری تعظیم ہوگی تو اسی سجدے نے اللہ سے دور کر دیا۔۔۔ اعمال صالحہ و عبادت کر رہے ہیں، مگر عبادت اس لیے کہ تعظیم ہو، عبادت گزار اور بزرگ سمجھے جائیں، تو اسی عبادت کے سبب مولا سے دور ہوگئے۔۔۔ ہر وہ عمل جو مولا سے دور کر دے، خواہ وہ عبادت کا عمل ہے یا معاملات کا عمل ہے، اُسے دنیا کہتے ہیں اور ہر وہ عمل جو مولا کے قریب کر دے، وہ عبادت ہے۔
معرفتِ الٰہی کے تقاضے
یا رب! کیف الوصول إلیک؟
دل کرتا ہے کہ تیرے پاس آؤں، تجھ سے ملاقات ہو اور تیرا وصال نصیب ہو تو میں کیسے تجھ تک آئوں؟
رب تعالیٰ نے جواب دیا:
یا أبا یزید! دع نفسک و تعال.
نفس کو چھوڑ دے اور میرے پاس آ جا۔
یعنی اللہ کی ملاقات میں تیرا ’’نفس‘‘ اور تیری ’’میں‘‘ رکاوٹ ہے۔ یہ نفس تجھے مجھ سے ملنے نہیں دیتا۔ اس نفس کو نکال دے یعنی خود سے ’’میں‘‘ کو نکال دے تو میں تو تیرے سامنے ہوں۔
طوبیٰ لرجل ذکر الله ولم یذکر إلا الله.
’’مبارک ہو اُس شخص کو جس نے اللہ کو ایسا یاد کیا کہ اس کے دل میں سوائے اللہ کی یاد کے کوئی اور یاد باقی نہ رہے۔‘‘
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم تسبیح کرتے ہیں مگرتسبیح دنیا، عزت و جاہ اور مخلوق کے لیے کرتے ہیں۔ اللہ کے لیے تسبیح، ذکر اور عبادت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ایسا یاد کیا جائے کہ پھر اس کے بعد کسی غیر کی یاد دل میں نہ رہے۔
پھر فرمایا:
طوبیٰ لرجل خشى الله ولم یخشی إلا الله.
’’مبارک ہو اُس شخص کو جو اللہ سے ڈرا اور پھر ایسا ڈرا کہ اُس کے بعد کائنات میں کسی سے نہیں ڈرا۔‘‘
پھر فرمایا:
طوبیٰ لعبد یسئل الله ولم یسئل إلا الله.
’’مبارک ہو اُس شخص کو جس نے اللہ سے مانگا، اور ایسا مانگا کہ پھر دامن کسی اور کے سامنے پھیلایا نہیں۔‘‘ یعنی پھر اسی کا ہوگیا۔
جب یہ کیفیت نصیب ہوتی ہے تو اللہ کی معرفت نصیب ہوجاتی ہے۔ ایسی کیفیت والوں کا حال کیا ہوتا ہے؟ آیئے اس کے چند مظاہر کا مطالعہ کرتے ہیں:
1۔ امام ابن سیرینؓ (جلیل القدر تابعی) فرماتے ہیں:
لو خیرت بین الجنة و رکعتین.
اگر یہ حال دل کو نصیب ہو جائے کہ اللہ کی چاہت سے دل معمور ہوجائے اور اس کے سوا ہر چاہت دل سے نکل جائے اور اس کیفیت میں اگر مجھے اختیار دے دیا جائے کہ ایک طرف جنت ہے اور دوسری طرف دو رکعات نفل کا وقت ہے۔ جنت لے لو یا دو رکعات نماز پڑھ لو؟ ایک شے کا انتخاب کرنا ہے تو کیا کرو گے؟ فرمایا:
تخیرت الرکعتین.
میں جنت نہیں چاہوں گا بلکہ دو رکعات کا وقت لے لوں گا۔
پوچھا گیا کہ اس انتخاب کی وجہ کیا ہے؟
فرمایا:
لإن في الرکعتین رضاء الله والقرب منه.
اس لیے کہ دو نفل پڑھنے میں مولا کی رضا بھی ہے اور مولا کی قربت بھی ہے۔ یعنی جو قربت اُن دو رکعات میں ملے گی، وہ جنت میں کہاں۔ اس لیے کہ جنت میں نفس مرغوبات، باغات، چشموں اور حور و قصور میں مشغول ہوتا ہے، جبکہ نماز میں دل صرف مولا کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ لہٰذا دنیا طلبی میں نفس کا اشتغال ہے اور ذکرِ الہٰی میں اللہ کے ساتھ ربط ہے۔
جب یہ تصور آجائے تو زاویۂ نگاہ بدل جاتا ہے، بندے کی ترجیحات، سوچ اور شخصیت بدل جاتی ہے اور پھر اُس بندے کی نگاہ جنت پر نہیں رہتی۔ جو اللہ سے جڑ جاتا ہے، اللہ کے عشق کی لذت لے لیتا ہے، اللہ کے تعلق اور وصال کی شراب کے جام پی لیتا ہے تو پھر اس کا زاویۂ نگاہ بدل جاتا ہے۔
2۔ حضرت ذوالنون مصریؓ فرماتے ہیں کہ میں کعبۃ اللہ کے طواف میں تھا کہ میں نے دورانِ طواف ایک نوجوان کو دیکھا کہ جس کی حالت خراب تھی، کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور چہرے کا رنگ زرد تھا۔ میں سمجھا کئی دنوں سے بھوک اور فاقہ ہے اور کپڑوں کا حال دیکھ کر اندازہ کیا کہ بڑی غربت ہے۔ مجھے اُس پر ترس آ گیا۔ میرے پاس سو دینار تھے، میں نے سو دینار جیب سے نکالے اور طواف میں تیزی سے اُس کے قریب ہوا اور خاموشی سے اُس کے ہاتھ میں سو دینار پکڑانے کی کوشش کی۔ اُس نے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ میں نے پھر آگے بڑھ کر سو دینار پکڑانے کی کوشش کی تو اس نے پھر میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ میں نے تیسری مرتبہ بھی یہی کوشش کی مگر اس نے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ بالآخر میں نے کہا کہ میرے جوان بیٹے! میں نے آپ کی حالت سے اندازہ کیا کہ آپ کو پریشانی ہے، میرے پاس یہ سو دینار ہیں، لے لیں اور اپنی کچھ ضرورتیں پوری کر لینا۔ وہ جوان رک گیا اور مجھے دیکھ کر گویا ہوا:
یا شیخ! هذه حالۃ لا أبیعها بالجنة وما فیها وهي دار الجلال و معدن البقاء وکیف أبیعها بثمن بأس من دار الغرور والفناء.
’’مجھے سو دینار دے کر میرے اس حال کو آپ بدلنا چاہتے ہیں؟ یہ حال بڑی مشکل سے میں نے مولا سے لیا ہے۔ خدا کی عزت کی قسم! اگر ساری جنت اور جنت کی ساری نعمتیں دے دی جائیں اور یہ حالت لے لی جائے تو بھی جنت کے عوض یہ سودا نہیں کروں گا۔‘‘
یعنی آپ تو سو دینار دے کر میرے حال کو بدلنا چاہتے ہیں، مجھے اس حال میں یہ لذت ملی ہے کہ مولا کے ساتھ ہمہ وقت میرا ایک تعلق قائم رہتا ہے اور میں اُس تعلق کی لذّت میں مصروف رہتا ہوں۔ یہ حال میں ان پیسوں کے عوض نہیں بیچوں گا۔
آج کے نوجوان خاص طور پر اس واقعہ کی طرف متوجہ ہوں اور اپنی زندگیوں پر توجہ کریں۔ یہی عمر بدلنے کی ہے۔ جب یہ زندگی ڈھل جائے گی تو پھر وقت نہیں آئے گا۔ لہٰذا اپنے آپ کو بدلیں اور سنور جائیں۔ رب کے تعلق اور دنیا کی چاہت اور غلامی میں کتنا فرق ہے؟ اس کو پہچانیں۔ اعلیٰ سودا لیں اور ادنیٰ چھوڑ دیں۔
3۔ حضرت ابوموسیٰ الدیبلیؓ جو حضرت بایزید بسطامیؒ کے مرید تھے، روایت کرتے ہیں کہ ہم نے بسطام کے اولیاء میں سے ایک ولی اللہ سے یہ فرما تے ہوئے سنا کہ:
رأیت في منامي کأن الله تعالٰی یقول: کلکم تطلبون مني غیر أبي یزید. فإنه یطلبني و یریدني وأنا أریده.
’’میں نے خواب میں دیکھا گویا اللہ رب العزت فرما رہا ہے: تم سارے مجھ سے طلب کرتے ہو سوائے ابو یزید بسطامی کے۔ وہ مجھ سے فقط مجھے مانگتا اور مجھے چاہتا ہے، سو میں بھی اُسے چاہتا ہوں۔‘‘
یعنی تم میں اور ابو یزید میں فرق یہ ہے کہ تم سب کچھ مجھ سے مانگتے ہو جبکہ ابو یزید نے مجھ سے کچھ نہیں مانگا، اُس نے جب بھی مانگا ہے تو مجھے ہی مانگا ہے۔ وہ مجھے مانگتا ہے اور مجھے ہی چاہتا ہے اور چونکہ وہ مجھے مانگتا ہے، سو میں اُسے چاہتا ہوں۔
4۔ حضرت بایزید بسطامیؒ سے اللہ رب العزت نے حالتِ کشف میں فرمایا:
یا أبا یزید! ماذا ترید؟
اے بایزید! تو کیا چاہتا ہے؟
قال: یا رب! إني أرید أن لا أرید إلا ما ترید.
عرض کیا: مولا! میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ کچھ نہ چاہوں سوائے اس کے جو تو چاہے۔
اِس حد تک اپنے آپ کو اس کی ذات میں فنا کرنے کے نتیجے میں وہ مقام ملتا ہے کہ جس کے بارے میں فرمایا:
وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.
’’اور جو شخص اللہ (کے دامن) کو مضبوط پکڑ لیتا ہے تو اسے ضرور سیدھی راہ کی طرف ہدایت کی جاتی ہے۔‘‘
یاد رکھیں! محبت، معرفت اور وصل کا تعلق ہمیشہ خالص ہونا چاہیے، اس میں ملاوٹ نہ ہو۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ اولاً تو ہم اسے چاہتے نہیں ہیں اور ثانیاً یہ کہ اگر اُسے چاہتے بھی ہیں تو بہت ساری چاہتوں کی ملاوٹ کے ساتھ چاہتے ہیں۔ ہماری چاہت خالص نہیں ہے۔ ’’یہ‘‘ بھی چاہتے ہیں اور ’’وہ‘‘ بھی چاہتے ہیں۔ ہم سو چیزیں چاہتے ہیں، اُن میں ایک اللہ بھی ہے، یعنی ہماری چاہت ملاوٹ والی ہے جبکہ رب چاہتا ہے کہ میری محبت خالص رکھو پھر دیکھو تمہارا حال کیا ہوتا ہے۔
5۔ ایک مرتبہ حضرت رابعہ بصریؓ حج کے لیے جا رہی تھیں کہ راستے میں ایک شخص آپ کو ملا جو نیکی، تقویٰ اور پرہیزگاری کا دعویدار تھا۔ اُس نے کہا:
أنا مشغول في محبتک.
اے اللہ کی ولیہ! میں آپ کی محبت میں مشغول ہوں، میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ اُس کی بات سن کے رک گئیں اور فرمایا:
إن لي أختا أحسن مني وهي ورائک.
میری ایک بہن ہے، وہ مجھ سے بہت زیادہ خوبصورت ہے اور وہ تمہارے پیچھے کھڑی ہے۔
یہ سن کر اس شخص نے یک لخت مڑ کر پیچھے دیکھا۔ جب وہ پیچھے مڑا تو حضرت رابعہ بصریؓ نے اُس عاشق کو ایک طمانچہ مارا اور کہا: بدبخت! دعویٰ میری محبت کا کرتا ہے اور تکتا غیر کو ہے؟ تمہاری محبت کا امتحان ہوگیا کہ تم کتنے سچے ہو۔ اگر مجھ سے محبت ہوتی تو کوئی اور مجھ سے بھلے لاکھ خوبصورت ہوتی، تم کبھی مجھ سے رخ موڑ کر پیچھے نہ دیکھتے۔ اس کا مطلب ہے کہ تم دنیا کے چہروں کی خوبصورتیوں کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہو، تمہیں رابعہ سے محبت نہیں ہے۔
یہ سن کر اس شخص نے اپنے سر کو پیٹا اور کہا: میں نے ایک مخلوق کی محبت کا دعویٰ کیا اور مڑ کر غیر کو دیکھا تو مجھے طمانچہ لگا، افسوس کہ میں کتنا بدبخت ہوں گا کہ رب کی محبت کا دعویٰ کروں اور کسی اور کو تکتا پھروں۔
ان واقعات سے سمجھانا یہ مقصود ہے کہ مولا کی طلب، یاد، معرفت اور محبت میں خالص بنیں اور پھر دیکھیں کہ زندگی کے لطف اور مزے ہی کچھ اور ہوں گے۔ افسوس کہ ہم نے اس کی محبت میں سے کچھ چکھا ہی نہیں ہے۔
حضور غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
سَقَانِي الْحُبُّ کَاسَاتِ الْوِصَالِ
فَقُلْتُ لِخَمْرَتِيْ نَحْوِيْ تَعَالِيْ
’’میری محبت نے وصال کا جام پی لیا اور اُس نے کہا: میری طرف اور بڑھتا آ۔‘‘
محبت کا جامِ وصال ایسا نوش کریں کہ غیر کی طلب اور چاہت نہ رہے۔ حتیٰ کہ غیر کی یاد اور نام و نشان نہ رہے۔ دل اگر اس طرح رب کی محبت اُس کی رضا، طلب اور اس کے ارادے سے معمور ہوجائے تو پھر بندہ بدل جاتا ہے۔
حضور قدوۃ الاولیاءؓ، حضور داتا گنج بخش علی ہجویریؓ، حضرت خواجہ اجمیرؓ، بابا فرید الدین گنج شکرؓ، خواجہ غلام فریدؓ، شاہ نقشبندؒ، شاہ سہروردؒ اور جمیع صلحاء جو مزاروں میں سوئے ہیں، جن کے مزار جگمگ کر رہے ہیں، ان کی قبریں آباد ہیں، اس لیے کہ اُن کی محبتیں بھی خالص تھیں، اُن کی چاہتوں میں غیر کی چاہت نہ تھی، اس لیے یہ آج تک زندہ ہیں۔ اگر چاہت خالص کر لیں تو زندگی کا رنگ ہی کچھ اور ہو جاتا ہے۔
6۔ حضرت عبدالباریؓ (حضرت ذوالنون مصریؓ کے بھائی) فرماتے ہیں کہ میں اپنے بھائی (حضرت ذوالنون مصریؓ) کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ ایک جگہ ہم نے دیکھا کہ ایک خوبصورت جوان کو چھوٹے چھوٹے بچے پتھر مارہے ہیں مگر وہ جوان خاموش ہے، انہیں کچھ نہیں کہتا۔ ہم نے بچوں سے پوچھا: اس جوان کو پتھر کیوں مارتے ہو؟ انہوں نے کہا:
هذا رجل مجنون وما ذالک یزعم أنه یری الله تعالٰی.
’’یہ پاگل شخص ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھتا ہے۔‘‘
حضرت ذوالنون مصریؓ نے فرمایا کہ آؤ ذرا اس جوان کا حال دیکھیں تو سہی۔ ہم جب قریب پہنچے تو اُس کے چہرے پر معرفت کے نشان تھے۔ ہم نے پوچھا: اے جوان! یہ بچے کہتے ہیں کہ تم اللہ کو دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: یہ تو الزام لگاتے ہیں کہ میں اللہ کو صرف دیکھنے کا دعویٰ کرتا ہوں جبکہ میرا حال تو یہ ہے کہ میں تو ہمہ وقت اسے دیکھتا رہتا ہوں، اگر ایک لمحہ کے لیے بھی وہ مجھ سے اوجھل ہو جائے تو اسی لمحے میری موت واقع ہوجائے۔ حضرت ذوالنون مصریؓ نے کہا:
أمجنونٌ أنت؟ کیا تو پاگل ہے؟ اُس نے کہا:
أما عند أهل الأرض فنعم وعند أهل السماء فلا.
’’ہاں زمین والوں کے لیے پاگل ہوں مگر آسمان والوں کی نگاہ میں پاگل نہیں ہوں۔‘‘
حضرت ذوالنون مصریؓ نے پوچھا:
کیف حالک مع المولیٰ؟
’’بتاؤ! مولا کے ساتھ تیرا حال کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا:
منذ عرفته ما جفوته.
’’خدا کی قسم! جس دن سے اسے پہچان لیا ہے، اُس دن سے اس سے جفا نہیں کی۔ ‘‘
حضرت ذوالنون مصریؓ نے پوچھا کہ کتنے عرصے سے اُس کی پہچان ہوئی ہے؟
اس نے کہا:
منذ جعل إسمي في المجانین.
’’جس دن سے میرا نام اُس نے پاگلوں میں لکھوا دیا ہے۔‘‘
یعنی جس دن سے لوگ مجھے پاگل کہنے لگے ہیں، میں اُسے اُس دن سے پہچانتا ہوں اور جب سے پہچانا ہے جفا نہیں کی، اُس کے حکم کو ٹالا نہیں، اُس کی قربت کو چھوڑا نہیں، اُس کی وفا کو توڑا نہیں اور اُس کی چاہت سے منہ موڑا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رب نے لوگوں کی نگاہ میں میرا مقام اوجھل کر کے مجھے پاگل بنا دیا۔
اس حال کو پانے کی آرزو اور کوشش کریں جس قدر پا سکیں۔ ضروری نہیں کہ ہر ایک کو اس مقام میں کمال ملے۔ نہیں، جھلک ہی مل جائے تو وہ بھی کافی ہے۔ ضروری نہیں کہ پورا جام ہی مل جائے، نہیں، قطرہ ہی مل جائے تو وہ بھی کافی ہے اور اگر قطرہ بھی نہ ملے تو اُس کی بُو ہی مل جائے تو وہ بھی کافی ہے۔
گِرد مستاں گِرد، گر مے کم رسد بوئے رسد
’’مست لوگوں کے اردگرد رہا کرو، اگر شراب نہ بھی ملے، تو کچھ نہیں اُس کی بُو ہی مل جائے گی۔‘‘
اِس رخ اور راہ پر چل پڑیں تو دل کا قبلہ بدل جائے گا، حال سنور جائے گا اور دل بتوں سے خالی ہوجائے گا۔ اُس کا نور اور تجلی آجائے تو زندگی سنور جائے گی۔ پھر غم اور رنج بھری زندگی میں بھی دل غمگین و رنجیدہ نہیں ہوگا بلکہ خوش رہے گا اور زندگی خوشگوار گزرے گی۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اپریل 2021ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved