شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
ائمہ فقہ اور محدثین کا مختلف مسائل پر حدیث ضعیف سے استدلال کتبِ فقہ اور کتبِ حدیث سے ثابت ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے چند مثالیں درج کی جارہی ہیں:
چاروں ائمہ فقہ کے ہاں حدیثِ ضعیف کا کیا مقام تھا اور وہ کس طرح اس سے استدلال کرتے رہے ہیں؟ ذیل میں اس کی چند امثال درج کی جارہی ہیں:
امام اعظم ابو حنیفہؒ نے حدیث ضعیف سے کس طرح استدلال کیا، اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
(1) اگر کوئی شخص حالتِ نماز میں اُونچی آواز سے ہنس پڑے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس سے نہ صرف نماز ٹوٹتی ہے بلکہ وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ اِس مسئلہ پر بطورِ دلیل کوئی صحیح یا حسن حدیث نہیں ہے۔ امام اعظمؒ نے اِس مسئلہ کا حدیث ضعیف سے استدلال کیا ہے اور امت چودہ سو سال سے اس پر عامل ہے۔ تمام فقہاء اور محدثینِ احناف کا اس پر عمل ہے۔
امام اعظمؒ نے جس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت کیا، اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اجماع ہے۔
(2) کھجور کے جوس نبِیذُ التمر کے ساتھ وضو کرنے کے مسئلہ پر امام اعظم نے جو حکم عائد کیا، اس کی دلیل بھی حدیث ضعیف سے پیش کی۔ اکثر اصحاب الحدیث کے ہاں وہ حدیث ضعیف ہے، مگر اس کے ضعیف ہونے کے باوجود اِس پر امام اعظمؒ نے حکم عائد کیا ہے۔
(3) حق مہر کی کم سے کم حد عشرۃ دراھم (دس درہم) ہے۔ حدیث مبارک ہے:
لامهَر أقلَّ من عشَرةِ دراهِم.
’’دس درہم سے کم مہر نہیں ہے۔‘‘
ائمہ حدیث کا اجماع ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ یہ حدیث حسن یا صحیح طریق سے نہیں آئی مگر مہر کی اس کم سے کم مقدار پر احناف کا اجماع ہے۔ گویا اِس حدیث ضعیف پر عمل کیا جاتا ہے۔
(4) چوری کی حد کے حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ دس درہم سے کم مالیت کی چوری ہو تو ہاتھ نہیں کاٹا جاتا، اس سے زائد مالیت کی چوری ہو تو قطع ید ہے۔ تیرہ سو سال سے ائمہ، محدثین اور فقہائے احناف کا اس پر عمل ہے، حالانکہ یہ مقدار جس حدیث میں بیان کی گئی ہے وہ حدیث ضعیف ہے اور کسی حسن یا صحیح طریق سے نہیں آئی مگر امام اعظم نے اِس بناء پر حکم ثابت کیا ہے۔
حدیث ضعیف سے امام مالک نے کس طرح استدلال کیا، اس کی چند مثالیں یہ ہیں:
(1) عیدین کی نماز میں نہ اذان ہوگی اور نہ اقامت ہو گی۔ یہ حدیث صحیحین میں مرفوعاً آئی ہے مگر امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کا زمانہ امام مالکؒ سے بہت بعد کا ہے۔ امام مالکؒ کے زمانے میں عیدین کی نماز میں اذان اور اقامت کا نہ ہونا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں تھا۔ امام مالکؒ نے حدیث ضعیف سے دلیل لیتے ہوئے اس مسئلہ پر عمل کیا۔ امام مالکؒ کے ہاں یہ حدیث مرسل تھی اور مرسل ضعیف ہے۔ امام امالکؒ نے جب فتویٰ دیا تو حدیث مرسل کی بنیاد پر دیا۔ بعد میں امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے اسناد صحیح کے ساتھ تخریج کی اور یہ حدیث بعد کے زمانوں کے لیے متفق علیہ ہوگئی۔ مگر جب امام مالکؒ اِس پر عمل کا حکم دے رہے تھے، اُس وقت انہوں نے حدیث مرسل (ضعیف) پر یہ فیصلہ دیا تھا۔
(2) اِسی طرح امام مالکؒ نے مسح علی الخفین (موزوں پر مسح کرنا) کا فیصلہ بھی حدیث ضعیف پر دیا تھا۔ بعد ازاں امام بخاریؒ، امام مسلمؒ اور دیگر ائمہ کو صحیح اسانید کے ساتھ احادیث ملیں تو اس پر عمل واجب ہو گیا۔ مگر اُن سے قبل جس امام نے فتویٰ دیا، ان کے پاس صحیح یا حسن سند کے ساتھ حدیث نہ تھی، اُنہوں نے ضعیف یا مرسل کو قبول کیا اور یہ اُن کا مذہب تھا۔
امام شافعیؒ نے حدیث ضعیف سے جس طرح استدلال کیا۔ اس کی امثال درج ذیل ہیں:
(1) امام شافعیؒ حرمِ کعبہ میں ممنوع وقت میں بھی نماز پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ وقت ہمارے اوقاتِ مکروہ میں شامل ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حرمِ کعبہ میں چوبیس گھنٹے نماز پڑھی جا رہی ہے۔ امام شافعیؒ نے منع کے وقت میں حرمِ کعبہ میں نماز کے جواز کے حکم کی بنیاد جس حدیث پر رکھی، وہ ضعیف ہے۔ یعنی امام شافعیؒ نے اپنے مذہب میں حدیث ضعیف پر حکم جاری کیا۔
(2) اِسی طرح اگرکوئی منہ بھر کے قے کر دے تو وضو دوبارہ کرے گا۔ امام شافعیؒ کے ہاں اس مسئلہ کی دلیل بھی حدیث ضعیف ہے اور آپ نے ضعیف حدیث پر یہ فیصلہ دیا۔
حدیث ضعیف سے امام احمد بن حنبلؒ نے کس طرح استدلال کیا، اس کی چند مثالیں یہ ہیں:
(1) امام احمد بن حنبلؒکے ہاں اکفاء (کفو) کی حدیث ضعیف ہے مگر اس کے باوجود آپؒ نے اُس پر فیصلہ دیا ہے۔
(2) حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایاـ:فیمن تُحِلُّ لہ الصدقۃ۔
صدقہ سے متعلق یہ حدیث ضعیف ہے، مگر امام احمد بن حنبلؒ نے اُس پر فیصلہ دیا ہے۔
(3) حدیث مبارک ہے: لاصلاة لجار المسجد إلا فی المسجد.
’’مسجد کے پڑوس میں رہنے والے کی نماز مسجد کے بغیر گھر میں نہیں ہوتی۔‘‘
امام احمد بن حنبلؒ کا یہ حکم حدیث ضعیف کی بنیاد پر قائم ہے اور یہ حدیث اس قدر ضعیف ہے کہ ابن الجوزی کے نزدیک یہ موضوع ہے اور انہوں نے اسے اپنی کتاب ’’الموضوعات‘‘ میں بھی درج کیا ہے مگر امام احمدبن حنبلؒ نے یہ ضعیف حدیث قبول کی۔
یہ چند مثالیں بطور نمونہ ہیں وگرنہ اس طرح کی بیسیوں امثال ہیں جو ان ائمہ کرام کی کتبِ فقہ میں موجود ہیں کہ جب اُن کے پاس حدیث صحیح یا حسن نہ تھی تو انہوں حدیث ضعیف پر حکم قائم کیا ہے۔
ائمہ فقہ کی طرح کبار محدثین نے بھی حدیث ضعیف سے جابجا استدلال کیا ہے۔ ذیل میں صحاح ستہ میں شامل کتب سنن سے اس حوالے سے چند امثال درج کی جارہی ہیں:
جامع ترمذی میں تقریباً چودہ احادیث ایسی ہیں کہ جنہیں روایت کرنے کے بعد امام ترمذیؒ نے ان پر ضعیف کا حکم لگایا ہے یا کوئی وجۂ ضعف بیان کی ہے۔ ان احادیث کو روایت کرنے کے بعد امام ترمذی نے لکھا ہے کہ ائمہ، علماء اور امت کا عمل اِسی حدیث ضعیف پر ہے۔ جامع الترمذی میں احادیثِ ضعیفہ کی چند امثال ذیل میں درج کی جارہی ہیں:
(1) جامع ترمذی میں باب ما جاء فی الجمع بین الصلاتین فی الحضر میں حدیث ہے کہ آقا ﷺ نے فرمایا:
من جمع بین الصلاتین من غیر عذر فقد أتی بابًا من أبواب الکبائر.
’’جس نے بغیر عذر کے دو نمازیں جمع کیں، اُس نے کبیرہ گناہ کیا۔‘‘
(ترمذی، السنن، ابواب الصلاة، 1: 356، الرقم: 188)
امام ترمذیؒ نے حدیث روایت کرنے کے بعد اس کے ضعف کو بیان کیا اور پھر فرمایا:
والعمل علی هذا عند أهل العلم.
’’اہلِ علم کا عمل اِسی پر ہے۔‘‘
(2) جامع ترمذی میں باب ما جاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارک درج ہے:
إذا رکع أحدکم، فقال فی رکوعه: سبحان ربی العظیم.
’’جب تم میں کوئی رکوع کرے تو رکوع میں کہے: سبحان ربی العظیم۔‘‘
(ترمذی، السنن، ابواب الصلاة، 2: 46۔47، رقم: 261)
امام ترمذیؒ نے اس روایت کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور پھر فرمایا:
والعمل علی هذا عند أهل العلم.
’’اہل علم کا عمل اِسی پر ہے۔‘‘
(3) باب ما جاء فی استقبال الإمام إذا خطب میں امام ترمذی نے حدیث روایت کی کہ خطبہ کے دوران سب لوگ امام کی طرف چہرہ کرکے بیٹھیں۔ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ ضعیف ہے اور پھر فرمایا:
والعمل هذا الحدیث عند أهل العلم.
’’اہلِ علم کا عمل اسی پر ہے۔‘‘
(4) باب ما جاء في زکاۃ الخضروات میں حدیث معاذ بن جبل ہے۔ امام ترمذی نے اسے ضعیف قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے:
والعمل علی هذا عند أهل العلم.
’’اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔‘‘
(ترمذی، السنن، ابواب الزکوۃ، 3: 30، الرقم: 638)
(5) عورتوں کا بال منڈوانا مکروہ ہے اور اس کراہت کا ذکر حدیث میں ہے کہ آقا ﷺ نے عورتوں کو حلق کروانے سے منع فرمایا۔ امام ترمذیؒ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا اور پھر فرمایا:
والعمل علی هذا عند أهل العلم.
اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔
(ترمذی، السنن، ابواب الزکوۃ، 3: 257، الرقم: 914۔915)
(6) امام ترمذیؒ نے جامع ترمذی میں ایک حدیث بیان کی کہ جس طرح آزاد خاتون کے لیے تین طلاقیں مغلظہ ہوتی ہیں تو باندی کے لیے دو طلاقیں مغلظہ ہوں گی۔ امام ترمذیؒ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا اور فرمایا:
والعمل علی هذا الحدیث عند أهل العلم.
’’اہلِ علم کا عمل اسی پر ہے۔‘‘
(ترمذی، السنن، ابواب الطلاق، 3: 488، الرقم: 1182)
(7) اسی طرح جامع الترمذی میں قطاع، باپ بیٹے کے قتل کے مسئلہ، اخلاقی مسائل کی سزاؤں، حدود، ذبح اور میراث کے مسائل میں کئی ایسی احادیث ہیں جو امام ترمذیؒ نے روایت کیں اور فرمایا کہ یہ ضعیف ہیں اور ہر ایک پر حکم لگانے کے بعد کہا:
والعمل علی هذا الحدیث عند أهل العلم.
’’اہلِ علم کا عمل اسی پر ہے۔‘‘
مذکورہ بالا تمام امثال سے معلوم ہوا کہ کسی حدیث کے حدیث ضعیف ہونے کے باوجود اُس پر شرعی حکم قائم کرنا اور اُس پر عمل کرنا محدثین کا وتیرہ رہا ہے۔ امام ترمذیؒ؛ امامِ فقہ تو نہیں ہیں بلکہ امامِ حدیث ہیں اور جب وہ عند أہل العلم کہتے ہیں تو اِس کا مطلب ہے کل اہلِ علم، ائمہ، محدثین اور فقہاء جو اس زمانے میں موجود تھے، سب کا عمل اِس پر تھا۔
اخذِ حدیث میں امام ترمذیؒ کے درجات
امام ترمذیؒ نے احادیث کے اندراج کے وقت درج ذیل چار درجات کی احادیث اپنی سنن میں بیان کی ہیں:
1. مقطوع بصحته
وہ احادیث جن کی صحت قطعی طور پر ثابت ہے۔ جیسے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث۔ امام ترمذی نے اِن احادیث کو بھی سنن میں روایت کیا ہے۔
2. صحیح علی شرط أبي داؤد والنسائي
وہ احادیث جو امام ابو داؤد اور امام نسائی کی شرط پر صحیح ہیں، امام ترمذی نے انہیں بھی سنن میں شامل کیا ہے۔
3. وهو أبان عن علته
احادیث ضعیفہ کو بیان کرنے کے بعد ان کی علت، ضعف اور سبب بھی بیان کر دیا کہ اس حدیث کو کیوں بیان کیا ہے۔
4. ما أخرجت في کتابي هذا الا حدیثا عمل به بعض الفقهاء.
(الذهبی، تذکرة الحفاظ، 2: 635)
اگر کوئی حدیث ضعیف ہے تو امام ترمذی نے اِس وجہ سے اسے اپنی کتاب میں روایت کیا ہے کہ ائمہ فقہ نے اُسے قبول کیا ہے اور اُس پر عمل کیا ہے۔
کسی حدیث ضعیف پر فقہاء کا عمل اس حدیث کو صحیح کا درجہ عطا کردیتا ہے
یاد رکھیں! اگر کوئی حدیث ضعیف ہو مگر اسے ائمہ امت قبول کر لیں تو وہ حدیث؛ ضعیف نہیں رہتی بلکہ صحیح ہو جاتی ہے۔ یعنی اہلِ علم کے عمل سے وہ حدیث درجہ ضعیف سے نکل کر درجہ صحیح میں چلی جاتی ہے۔
ان احادیث ضعیفہ کو قبول کرنے کی دو وجوہات ہیں:
علوم الحدیث اور مصطلحات پر گہری نظر نہ رکھنے والا شخص اگر یہ کہے کہ حدیث تو اسناداً ضعیف تھی، فقہاء کے اس پر عمل کرنے سے وہ صحیح کیسے بن گئی؟ اس سوال کے جواب کے لیے اس امر پر غور کریں کہ اُس حدیث کو ضعیف کس نے کہا تھا؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ ضعیف ہے؟ کیا صحابہ کرامؓ یا تابعینؓ نے روایت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ ضعیف ہے؟
لازمی بات ہے کہ صحابہؓ اور تابعینؓ نے تو یہ احادیث بیان کردیں، انہوں نے اس پر صحیح، حسن یا ضعیف کا حکم تو نہیں لگایا۔ ان پر یہ حکم لگانے والے جرح وتعدیل کے امام تھے اور اُنہوں نے جرح وتعدیل کی اور کسی راوی میں حفظ، اتقان یا کوئی اور نقص دیکھا تو سند پر ضعف کا حکم لگایا۔
علماء یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ان ائمہ کا کسی حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم لگانا؛ حکمِ اجتہادی ہے۔ حدیث کا عالم اپنے اجتہاد، محنت، مطالعہ اور اسماء الرجال اور احوال رواۃ کی تحقیق کر کے حکم لگاتا ہے کہ اِس کے اندر یہ ضعف اور کمزوری ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ جب ضعیف ہونے کا حکم علماء نے لگایا تھا تو اب اِسے قبول کر کے صحیح بنانے کا حکم بھی تو فقہاء نے لگایا ہے۔ جس دلیل سے ضعف کا حکم تھا، اب اُس درجہ یا اُس سے زیادہ قوی درجہ کی دلیل سے اِس حدیث کی قبولیت اور صحت کا حکم آگیا۔ پس جب فقہاء اور ائمہ کسی حدیث ضعیف کو قبول کر لیں تویہ ایک ایسا تلقی بالقبول اور عند العلماء ایسا عمل ہے کہ اصولاً وہ حدیث ارتقاء اور ترقی کر کے درجہ حسن اور صحیح میں چلی جاتی ہے۔
(جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مئی 2021ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved